Surah At-Tawbah
{اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا:تم مشقت اور آسانی ہر حال میں کوچ کرو۔} یعنی چاہے تم اس حالت میں ہو کہ جہاد کرنا تم پر آسان ہے یا اس حالت میں ہو کہ جہادکرنا تم پر بھاری ہے بہر حال کوچ کرو۔ مفسرین نے ’’خِفَافًا ‘‘ اور ’’ثِقَالًا ‘‘ کے بہت سے معنی بیان فرمائے ہیں۔ (1)تمہارے لئے نکلنے میں آسانی ہو یا مشقت۔ (2) اہل و عیال کم ہوں یا زیادہ۔ (3) اسلحہ کم ہو یا زیادہ۔ (4) سوار ہو کر نکلو یا پیدل۔ (5) جوان ہو یا بوڑھے۔ (6) طاقتور ہو یا کمزور۔ (7) بہادر ہو یا بزدل۔ (8) صحت مند ہو یا مریض۔ (9) خوشی سے نکلو یا ناخوشی سے۔ (10) مالدار ہو یا فقیر۔ (11) فارغ ہو یا کسی کام میں مصروف، خلاصہ یہ ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَجب اور جن مسلمانوں کو جہاد کے لئے بلائیں تو انہیں جہاد میں جانا ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی حال میں ہوں۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۶ / ۵۵، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۲۴۴، ملتقطاً)
حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا شوقِ جہاد:
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ سورۂ توبہ کی تلاوت فرمائی ،جب اس آیت ’’اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا‘‘ پر پہنچے تو اپنے بیٹوں سے فرمایا ’’ میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو، میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو۔ ان کے بیٹوں نے عرض کی ’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، آپ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ غزوات میں حاضر ہوتے رہے یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وصالِ ظاہری ہو گیا، پھر حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ساتھ جنگوں میں شریک ہوئے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی،پھر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ شریکِ جہاد رہے حتّٰی کہ ان کا بھی انتقال ہو گیا ، اب ہم آپ کی طرف سے جہاد میں شریک ہو جائیں گے۔ حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ نہیں ، بس اب تم میرے سامانِ جہاد کی تیاری کرو ۔ اس کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے سمند ری جہاد میں شرکت کی اور سمند رہی میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات ہو گئی۔ سات دن بعد ان کے ساتھیوں کو تدفین کیلئے ایک جزیرہ ملا تو انہوں نے حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تدفین کی۔ ان سات دنوں میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بدن مبارک سلامت ہی رہا اس میں ذرا سی بھی تبدیلی نہ ہوئی ۔ (تفسیر قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۶۶، الجزء الثامن)
{وَ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔} جہاد کی تین صورتیں ہیں ۔
(1)…جان اور مال دونوں کے ساتھ۔ یہ حکم اس کیلئے ہے کہ جو مال بھی رکھتا اور جہاد کے قابل تندرست و توانا جسم بھی رکھتا ہو۔
(2)…صرف جان کے ساتھ۔ یہ حکم اس کے لئے ہے جس کے پاس مال نہ ہو لیکن جسمانی طور پرجہاد کے قابل ہو۔
(3)…صرف مال کے ساتھ۔ یہ حکم اس کیلئے ہے کہ جو جسمانی کمزوری، معذوری یا بیماری وغیرہ کے باعث جہاد میں شریک نہ ہو سکتا ہو لیکن مجاہدین کی مالی مدد کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۴۳۸، ملخصاً)
مجاہدین کی مالی مدد کرنے کے دو فضائل:
(1)…حضرت زید بن خالد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے والے کو سامان فراہم کرے تو گویا اس نے خود جہاد کیا اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں لڑنے والے کے گھر بار کی نیک نیتی سے خبر گیری کی تو وہ بھی خود جہاد کرنے والوں کی طرح ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب فضل من جہّز غازیاً۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۶۷، الحدیث: ۲۸۴۳)
(2)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ غازی (مجاہد) کے لیے اس کا ثواب ہے اور غازی کے مددگار کے لیے اپنا ثواب ہے اور غازی کا ثواب ۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب الرخصۃ فی اخذ الجعائل، ۳ / ۲۴، الحدیث: ۲۵۲۶)
{ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا:اگر آسانی سے ملنے والا مال ہوتا۔} یعنی تبوک کا میدان اگر قریب ہوتا اور غنیمت آرام سے مل جانے کی امید ہوتی تو یہ بہانے بنانے والے منافق ضرور ان مَنافع کے حصول کے لالچ میں جہاد میں شریک ہوجاتے لیکن دور کے سفر اور رومیوں سے جنگ کو عظیم جاننے کی وجہ سے یہ پیچھے رہ گئے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۲۴۵)
آیت’’لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس سے معلوم ہوا کہ دین میں ضروری مشقت سے گھبرانا اور اگرچہ فرض و واجب ترک ہوجائے لیکن صرف آسان کام ہی اختیار کرنا منافقوں کی علامت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد میں منافقین بھی جاتے تھے مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے نہیں بلکہ مالِ غنیمت کے لالچ میں جاتے تھے ۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع وہ چاہیے جو قلبی محبت کے ساتھ ہو، دنیاوی لالچ یا سزا کے خوف سے تو منافق بھی اتباع کر لیتے تھے۔ اس لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ: ’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ (ال عمران:۳۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان:تم فرمادو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ یہ اتبا ع نصیب کرے۔آمین۔
{وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اوراب اللہ کی قسم کھائیں گے۔} یعنی یہ منافقین اب اللہ تعالیٰ کی قسم کھائیں گے اور اس طرح معذرت کریں گے کہ ہمیں طاقت ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ ضرور نکلتے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۲۴۵)منافقین کی اس معذرت سے پہلے خبر دے دینا غیبی خبرہے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کی دلیل ہے چنانچہ جیسا فرمایا تھا ویسا ہی پیش آیا اور انہوں نے یہی معذرت کی اور جھوٹی قسمیں کھائیں۔
جھوٹی قسم کھانا ہلاکت کا سبب ہے:
اس آیت کے اگلے حصے سے ثابت ہوا کہ جھوٹی قسمیں کھانا سببِ ہلاکت ہے۔ کثیر اَحادیث میں جھوٹی قسم کھانے کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے دو اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے نہ کلام کرے گا اور نہ اُن کی طرف نظر فرمائے گا۔ ایک شخص وہ جس نے کسی بیچنے کی چیز کے متعلق یہ قسم کھائی کہ جو کچھ اس کے دام مل رہے ہیں اس سے زیادہ ملتے تھے۔ (لیکن نہیں بیچا) حالانکہ یہ اپنی قسم میں جھوٹا ہے ۔دوسرا وہ شخص کہ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائی تاکہ کسی مسلمان مرد کا مال لے لے اور تیسرا وہ شخص جس نے بچے ہوئے پانی کو روکا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج میں اپنا فضل تجھ سے روکتا ہوں جس طرح تونے بچے ہوئے پانی کو روکا جس کو تیرے ہاتھوں نے نہیں بنایا تھا۔( بخاری، کتاب المساقاۃ، باب من رأی انّ صاحب الحوض والقربۃ احقّ بمائہ، ۲ / ۱۰۰، الحدیث: ۲۳۶۹)
(2)…حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نظر کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے تکلیف دِہ عذاب ہوگا۔ حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی، وہ نقصان اور خسارہ اٹھانے والے ہیں ، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’کپڑا لٹکانے والا ،دے کر احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا سودا چلا دینے والا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان تحریم اسبال الازار والمنّ بالعطیۃ۔۔۔ الخ، ص۶۷، الحدیث: (۱۰۶))
{عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ:اللہ تمہیں معاف کرے ۔} عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ سے کلام کی ابتداء کرنا اور خطاب شروع فرمانا مخاطب کی تعظیم وتَوقِیر میں مُبالغہ کے لئے ہے اور زبانِ عرب میں یہ عرف شائع ہے کہ مخاطب کی تعظیم کے موقع پر ایسے کلمے استعمال کئے جاتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۳، ۲ / ۲۴۶)
حضرت فقیہ ا بو لیث سمر قندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بعض علماء سے نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عافیت سے رکھے آپ نے انہیں اجازت کیوں دی اور اگر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کلام اس طرح شروع ہوتا کہ آپ نے ان کو اجازت کیوں دی تو اس کا اندیشہ تھا کہ اس کلام کی ہیبت سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا دل شَق ہو جاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ا پنی رحمت سے حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہلے ہی عَفْو کی خبر دے دی تاکہ آپ کا دل مطمئن اور پُرسکون رہے۔ اس کے بعد فرمایا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں جہاد میں شامل نہ ہونے کی اجازت کیوں دی حتّٰی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پتا چل جاتا کہ اپنے عذر میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔(تفسیر سمرقندی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۳، ۲ / ۵۳)
{یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ:اللہاور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔}مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ(عَزَّوَجَلَّ) پر ایمان رکھنے میں رسولُ اللہ(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)پر ایمان رکھنا بھی داخل ہے کیونکہ ایمان سے مراد ایمانِ صحیح ہے، وہ وہی ہے جو رسول کے ساتھ ہو ورنہ اللہ(عَزَّوَجَلَّ)کو منافق بھی مانتے تھے۔( نورالعرفان،التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۳۰۹)
حضرت عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا جذبۂ شہادت:
اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کے موقع پر معذرتیں کرنا منافقت کی علامت تھی جبکہ کامل ایمان والے ہر کڑی آزمائش میں پورے اترتے ہیں اور جہاد جیسے سخت موقع پر بھی دل و جان اور مال کے ساتھ حاضر ہونے کو تیار رہتے ہیں۔ اس بارے میں ایک واقعہ تو چند آیات کے بعد آرہا ہے اور ایک واقعہ غزوۂ اُحد کے موقع پر جہاد کی رغبت کا بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت عمرو بن جموح انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ لنگڑے تھے، یہ گھرسے نکلتے وقت یہ دعا مانگ کر چلے تھے کہ یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے میدانِ جنگ سے اپنے اہل و عیال میں آنا نصیب نہ کرنا، ان کے چار بیٹے بھی جہاد میں مصروف تھے۔ لوگوں نے ان کو لنگڑا ہونے کی بنا پر جنگ کرنے سے روک دیا تو یہ حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر عرض کرنے لگے کہ یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے جنگ میں لڑنے کی اجازت عطا فرمائیے، میری تمنا ہے کہ میں بھی لنگڑاتا ہوا باغِ بہشت میں خراماں خراماں چلا جاؤں۔ ان کی بے قراری اور گریہ و زاری سے رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قلبِ مبارک متأثِّرہو گیا اور آپ نے ان کو جنگ کی اجازت دے دی۔ یہ خوشی سے اچھل پڑے اور اپنے ایک فرزند کو ساتھ لے کر کافروں کے ہجوم میں گھس گئے۔ حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھا کہ وہ میدانِ جنگ میں یہ کہتے ہوئے چل رہے تھے کہ’’خدا کی قسم! میں جنت کا مشتاق ہوں۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کو سہارا دیتے ہوئے ان کا بیٹا بھی انتہائی شجاعت کے ساتھ لڑ رہا تھا یہاں تک کہ یہ دونوں شہادت سے سرفراز ہو کر باغِ بہشت میں پہنچ گئے۔ لڑائی ختم ہو جانے کے بعد حضرت عمر و بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجہ محترمہ میدانِ جنگ میں پہنچیں اور ایک اونٹ پر ان کی اور اپنے بھائی اور بیٹے کی لاش رکھ کر دفن کے لئے مدینہ منورہ لانی چاہی تو ہزاروں کوششوں کے باوجود کسی طرح بھی وہ اونٹ ایک قدم بھی مدینہ کی طرف نہیں چلا بلکہ وہ میدانِ جنگ ہی کی طرف بھاگ بھاگ کر جاتا رہا۔ ہند نے جب حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ ماجرا عرض کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ’’یہ بتاؤ! کیا عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے گھر سے نکلتے وقت کچھ کہا تھا؟ ہند نے کہا کہ جی ہاں !وہ یہ دعا کرکے گھر سے نکلے تھے کہ ’’یا اللہ!عَزَّوَجَلَّ، مجھے میدانِ جنگ سے اہل و عیال میں آنا نصیب نہ کرنا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ اونٹ مدینہ کی طرف نہیں چل رہا ہے۔(مدارج النبوہ، قسم سوم، باب سوم ذکر سال سوم از ہجرت۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۲۴)
{اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُكَ:آپ سے چھٹی وہی لوگ مانگتے ہیں۔}یعنی جہاد کے موقعہ پر بہانہ بنا کر رہ جانے کی اجازت مانگنا منافقین کی علامت ہے۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۴۴۲)
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ایمان نہ لانا اللہ تعالیٰ کا انکار ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لانا درحقیقت رب تعالیٰ کا انکار ہے کیونکہ منافق اللہ عَزَّوَجَلَّ کو تو مانتے تھے، حضور ِانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے منکر تھے مگر ارشاد ہوا کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے۔
{وَ ارْتَابَتْ قُلُوْبُهُمْ:اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں۔} اس طرح کہ اسلام کی حقانیت اور کفر کے بطلان پر انہیں یقین نہیں اور نہ اس کے عکس کا یقین ہے۔ اگر مسلمانوں کو فتح ہوئی تو بولے کہ شاید اسلام برحق ہے اور اگر کفار کو فتح ہو گئی تو بولے کہ شاید یہ لو گ بر حق ہیں ورنہ انہیں فتح کیوں ہوتی۔ یا یہ مطلب ہے کہ انہیں اللہ رسول کے وعدوں پر یقین نہیں اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خبروں پر اطمینان نہیں۔ ایمان تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہر خبر میں ان کی تصدیق کی جائے۔ تردد تصدیق کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتا ہے۔
{وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ:اور اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا۔} یعنی منافق ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم غزوۂ تبوک میں جانے کو تیار تھے لیکن اچانک بیماری، لاچاری یا کسی مجبوری کی وجہ سے رک گئے ۔یہ جھوٹے ہیں کیونکہ انہوں نے سفرِ جہاد کی پہلے سے کوئی تیاری ہی نہیں کی، اگر ان کا جہاد میں جانے کا ارادہ ہوتا تو کچھ تیاری تو کرتے۔
بہت سی چیزوں کا اعتبار قَرائن سے بھی ہوتا ہے:
اللہ عَزَّوَجَلَّ کا علم تو یقینا قطعی ہے لیکن ہمارے لئے اس میں ایک نکتہ ہے کہ بہت سی چیزوں کا اعتبار قرائن سے بھی کیا جاتا ہے جیسے یہاں منافقین کا جہاد کیلئے کوئی تیاری نہ کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ انہوں نے جہاد کا ارادہ ہی نہیں کیا تھا۔
{وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ:اور کہہ دیا گیا: تم بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جب منافقین نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جہاد میں شریک نہ ہونے کی اجازت طلب کی تو ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھے رہنے والوں یعنی عورتوں ،بچوں ، مریضوں اور معذوروں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۲۴۷)
{لَوْ خَرَجُوْا فِیْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا:اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو یہ تمہارے نقصان میں اضافہ ہی کرتے۔} یعنی یہ منافقین اگر تمہارے ساتھ جنگ کے لئے نکلتے تو شر اور فساد ہی پھیلا تے اس طرح کہ تمہیں کافروں سے ڈراتے، آپس میں لڑاتے، تمہارے سامنے کافروں کی تعریفیں اور مسلمانوں کی برائیاں کرتے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۷، ۲ / ۲۴۷)
مسلمانوں کو کافروں سے ڈرانا منافقوں کا کام ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ منافق ظاہری نیکی بھی کئی مرتبہ بری نیت سے کرتا ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو کافروں سے ڈرانا اور آپس میں لڑانا منافقوں کا کام ہے۔ ہمارے دور میں بھی ایسے قَلمکار حضرات کی کمی نہیں جو ہر وقت غیر مسلم حکومتوں کی طاقت، اسلحہ، فوج اور وسائل کا تذکرہ کرکے مسلمانوں کو ڈرانے میں لگے رہتے ہیں۔
{وَ فِیْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ:اور تمہارے اندر ان کے جاسوس موجود ہیں۔} اس آیت کاایک معنی یہ ہے کہ تمہارے اندر ان کے جاسوس موجود ہیں جوتمہاری باتیں اور تمہارے راز کفار تک پہنچا تے ہیں اور ایک معنی یہ ہے کہ تم میں سے بعض ایسے ضعیف الاعتقاد ہیں کہ جب منافقین مختلف قسم کے شُبہات ظاہر کرتے ہیں تو وہ انہیں قبول کر لیتے ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۷، ۲ / ۲۴۷)
کفار مسلمانوں پر کس طرح غالب ہوئے :
مسلمانوں کی تاریخ سے واقف شخص پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ابتداءِاسلام سے لے کر آج تک کفار کسی میدان میں بھی اپنی عددی برتری اور اپنے وقت کے جدید ترین ہتھیاروں کی فراوانی کے بل بوتے پر مسلمانوں پر غالب نہیں آئے بلکہ وہ ظاہری طور پرمسلمان اور باطنی طور پر منافق حضرات کی کوششوں اور کاوشوں کی بدولت مسلمانوں پر غالب ہوئے، ان حضرات نے مال و دولت اور سلطنت و حکومت کے لالچ میں اپنے اسلامی لبادے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کفار کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے راہیں ہموار کیں ، اپنے منافقانہ طرزِ عمل سے مسلمانوں میں سرکشی و بغاوت کا بیج بویا، مسلمانوں کے اہم ترین راز کفار تک پہنچائے اور انہیں مسلمانوں کی کمزوریوں سے آگاہ کیا اور ان کی محنتوں کا نتیجہ آج سب کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔
{لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ:بیشک انہوں نے پہلے ہی فتنہ و فساد چاہا تھا۔} منافقین کے جنگ میں شریک نہ ہونے پراہلِ ایمان اور اپنے حبیبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ منافقین غزوۂ تبوک سے پہلے ہی آپ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو دین سے روکنے، کفر کی طرف لوٹا دینے اور لوگوں کوآپ کا مخالف بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں جیسا کہ عبداللہ بن اُبی سلول منافق نے جنگِ اُحد کے دن کیا کہ مسلمانوں میں اِنتشار پھیلانے کیلئے اپنے گروہ کو لے کر واپس ہوگیا۔ اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، انہوں نے پہلے بھی آپ کے لئے الٹی تدبیریں کی ہیں اور انہوں نے آپ کا کام بگاڑنے اور دین میں فساد ڈالنے کے لئے بہت حیلے سازیاں کی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی طرف سے تائید و نصرت آگئی اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہوگیا اگرچہ یہ لوگ اسے ناپسند کرنے والے تھے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۸، ۲ / ۲۴۷-۲۴۸)
{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ:اور ان میں کوئی یوں کہتا ہے۔} شانِ نزول: یہ آیت جد بن قیس منافق کے بارے میں نازل ہوئی، جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غزوئہ تبوک کے لئے تیاری فرمائی تو جد بن قیس نے کہا :’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کا بڑا شیدائی ہوں ، مجھے اندیشہ ہے کہ میں رومی عورتوں کو دیکھوں گا تو مجھ سے صبر نہ ہوسکے گا اس لئے آپ مجھے یہیں ٹھہر جانے کی اجازت دیجئے اور ان عورتوں کے فتنہ میں نہ ڈالئے ، میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اپنے مال سے مدد کروں گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ یہ اس کا حیلہ تھا اور اس میں سوائے نفاق کے اور کوئی سبب نہ تھا۔ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور اسے اجازت دے دی اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۲۴۸)
{اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا:سن لو! یہ فتنے ہی میں پڑے ہوئے ہیں۔} اس کا معنی یہ ہے کہ منافقین فتنے میں پڑ جانے کے اندیشے کی وجہ سے جہاد سے اعراض کر رہے ہیں جیسا کہ اوپر ایک منافق کا قول گزرا ہے تو فرمایا گیا کہ یہ تواِس موجودہ وقت میں بھی فتنے میں ہی مبتلا ہیں کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کرنا اور تکلیف قبول کرنے سے اِعراض کرنا تو سب سے بڑا فتنہ ہے۔ اور اس کے ساتھ اس فتنے میں بھی مبتلا ہیں کہ منافقین مسلمانوں کی مخالفت پر قائم ہیں۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۶ / ۶۵)
{اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ:اگر تمہیں بھلائی پہنچتی ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر تمہیں بھلائی پہنچے اور تم دشمن پر فتح یاب ہوجاؤ اور غنیمت تمہارے ہاتھ آئے تو منافقین غمزدہ ہو جاتے ہیں اور اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے اور کسی طرح کی شدت کا سامنا ہو تو منافقین یہ کہتے ہیں کہ ہم نے چالاکی کے ذریعے جہاد میں نہ جاکر اس مصیبت سے خود کو بچالیا تو گویا ہم نے پہلے ہی اپنا احتیاطی معاملہ اختیار کرلیا تھا پھر مزید ا س بات پر وہ خوشیاں مناتے ہیں کہ ہم جہاد کی مشقت و مصیبت سے محفوظ رہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۲۴۸)
آیت’’ اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مصیبت پر خوش ہونا کافروں کا کام ہے، اسی طرح مسلمانوں کی خوشی پر غم کرنا منافقوں کی نشانی ہے۔
{ قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا:تم فرماؤ: ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان لوگوں سے فرما دیں جو آپ کو مصیبت و تکلیف پہنچنے پر خوش ہوتے ہیں کہ ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اور ہم پر مقدر فرما دیا اور ا س نے اسے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا کیونکہ قیامت تک ہونے والا ہر اچھا برا کام لکھ کر قلم خشک ہو چکا تو اب کوئی شخص ا س بات پر قادر نہیں کہ وہ اپنی جان سے ا س مصیبت کو دور کر دے جو اس پر نازل ہونی ہے اور نہ ہی کوئی ا س بات پر قادر ہے کہ وہ خود کوایسا فائدہ پہنچا سکے جو اس کے مقدر میں نہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہمارا حافظ و ناصر ہے اور وہ ہماری زندگی اور موت ہر حال میں ہماری جانوں سے زیادہ ہمارے قریب ہے اور مسلمانوں کو اپنے تمام اُمور میں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۲ / ۲۴۸)
تقدیر سے متعلق اَحادیث و آثار:
یہاں تقدیر کا مسئلہ بیان ہوا اس مناسبت سے ہم یہاں تقدیر سے متعلق دو احادیث اور دو آثار ذکر کرتے ہیں ، چنانچہ
حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اگر اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کے تمام باشندوں کو عذاب دینا چاہے تو وہ انہیں عذاب دے سکتا ہے اور یہ ا س کا کوئی ظلم نہ ہو گا (کیونکہ وہ سب کا مالک ہے اور مالک کو اپنی ملکیت میں تَصَرُّف کا حق حاصل ہے) اگر وہ ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے بہتر ہو گی، اگر تم اُحد پہاڑ کے برابر سونا یا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو تو وہ ا س وقت تک ہر گز قبول نہ ہوگا جب تک تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ، دیکھو! جو بات تم پر آنے والی ہے وہ جا نہیں سکتی اور جو نہیں آنے والی وہ آ نہیں سکتی، اگر اس کے خلاف عقیدہ رکھتے ہوئے تمہیں موت آ گئی تو سمجھ لو کہ جہنم میں جاؤ گے۔ (ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فی القدر، ۱ / ۵۹، الحدیث: ۷۷)
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر چیز کی ایک حقیقت ہے اور بندہ اپنے ایمان کی حقیقت تک اس وقت پہنچے گا جب وہ اس بات پر یقین کرلے کہ جو مصیبت اسے پہنچی وہ ا س سے ٹلنے والی نہ تھی اور جو مصیبت اس سے ٹل گئی وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔ (مسند امام احمد، مسند القبائل، ومن حدیث ابی الدرداء عویمر رضی اللہ عنہ، ۱۰ / ۴۱۷، الحدیث: ۲۷۵۶۰)
حضرت مسلم بن یسار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’تقدیر اور اس کے بارے میں کلام کرنا یہ دو ایسی وسیع وادیاں ہیں کہ لوگ ان میں ہلاک تو ہو سکتے ہیں لیکن ان کی انتہا تک نہیں پہنچ سکتے لہٰذا تم اس شخص کی طرح عمل کرو جسے یہ معلوم ہو کہ اس کا عمل ہی اسے نجات دے گا اور اس شخص کی طرح توکل کرو جسے یہ علم ہو کہ اسے وہی پہنچے گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے۔(تفسیر ابن ابی حاتم، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۶ / ۱۸۱۱-۱۸۱۲)
حضرت مطرف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ چھت پہ چڑھ کے خود کو گرا دے اور کہنے لگے کہ میری تقدیر میں ہی یوں لکھا تھا بلکہ ہمیں ڈر اور خوف ہونا چاہئے اور جب کوئی مصیبت پہنچ جائے تو یہ ذہن بنانا چاہئے کہ ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمارے لیے لکھ دیا۔ (در منثور، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۲۱۶)
تقدیر کے بارے میں بحث کرنے سے بچیں :
یاد رہے کہ تقدیر کا مسئلہ انتہائی نازک ہے اور اس مسئلے میں الجھا کر شیطان لوگوں کا ایمان برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ تقدیر کے بارے میں بحث اور غورو فکر کرنے سے بچے ۔ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آ سکتے اور ان میں زیادہ غورو فکر کرنا ہلاکت کا سبب ہے، صدیق و فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاا س مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے تو ہم اور آپ کس گنتی میں۔۔۔! اتنا سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو پتھر اور دیگر جمادات کی طرح بے حس و حرکت پیدا نہیں کیا بلکہ اسے ایک طرح کا اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے اور ا س کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ بھلے، برے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اَسباب مہیا کر دئیے ہیں کہ بندہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اسے اسی قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اس پر مُؤاخذہ ہے۔ اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا دونوں گمراہی ہے۔ (بہار شریعت، حصہ اول، عقائد متعلقۂ ذات وصفات، ۱ / ۱۸-۱۹، ملخصاً)
{وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ:اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔} اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ منافقین دنیوی اسباب ،جلد ملنے والی اور فانی لذتوں پر بھروسہ کرتے ہیں ا س لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰپر ہی بھروسہ کریں اور ا س کی رضا پر راضی رہیں۔
اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی فضیلت:
انسان کی زندگی نشیب و فراز کا نام ہے، کبھی دکھ کبھی سکھ، کبھی رنج و غم اور کبھی راحت و آرام، کبھی عیش و عشرت سے بھرپور لمحات اور کبھی مصائب و آلام سے معمور گھڑیاں الغرض طرح طرح کے حالات کا سامنا ہر فرد ِبشر کو اپنی زندگی میں کرنا پڑتا ہے، دینِ اسلام کا پیروکار ہونے کے ناطے ہر مسلمان کو چاہئے کہ غمی خوشی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی اور صابر و شاکر رہے، ترغیب کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی عظمت و فضیلت پر مشتمل چند آیات اور روایات یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ(۲۲) جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍۚ(۲۳) سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ‘‘(الرعد:۲۲-۲۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں صبر کیا اور نماز قائم رکھی اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا اور برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالتے ہیں انہیں کے لئے آخرت کا اچھا انجام ہے۔ وہ ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں ان میں وہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادا اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالحین ہوں گے (وہ بھی جنت میں داخل ہوں گے) اور ہر دروازے سے فرشتے ان کے پاس (یہ کہتے ہوئے) آئیں گے۔تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم نے صبر کیا تو آخرت کا اچھا انجام کیا ہی خوب ہے۔
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ بے شک زیادہ اجر سخت آزمائش پر ہی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے تو جو اس کی قضا پر راضی ہو اس کے لئے رضا ہے اور جوناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلائ، ۴ / ۳۷۴، الحدیث: ۴۰۳۱)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس کے مال یا جان میں مصیبت آئی پھر اس نے اسے پوشیدہ رکھا اور لوگوں پر ظاہر نہ کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اس کی مغفرت فرما دے ۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۲۱۴، الحدیث: ۷۳۷)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو اس وقت دنیا میں عافیت کے ساتھ رہنے والے تمنا کریں گے کہ’’ کاش! (دنیا میں ) ان کے جسموں کوقینچیوں سے کاٹ دیا جاتا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۵۹-باب، ۴ / ۱۸۰، الحدیث: ۲۴۱۰)
روئے زمین کا سب سے بڑ اعبادت گزار:
حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامسے فرمایا، میں روئے زمین کے سب سے بڑے عابد (یعنی عبادت گزار) کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ایک ایسے شخص کے پاس لے گئے جس کے ہاتھ پائوں جذام کی وجہ سے گل کٹ کر جدا ہو چکے تھے اور وہ زبان سے کہہ رہا تھا، ’’یا اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو نے جب تک چاہا ان اَعضاء سے مجھے فائدہ بخشا اور جب چاہا لے لیا اور میری امید صرف اپنی ذات میں باقی رکھی، اے میرے پیدا کرنے والے! میرا تو مقصود بس توہی تو ہے۔ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا، اے جبرئیل! میں نے آپ کونمازی روزہ دار (قسم کا کوئی) شخص دکھانے کاکہا تھا۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے جواب دیا، اس مصیبت میں مبتلا ہونے سے قبل یہ ایسا ہی تھا، اب مجھے یہ حکم ملا ہے کہ اس کی آنکھیں بھی لے لوں۔ چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اشارہ کیا اوراس کی آنکھیں نکل پڑیں ! مگر عابد نے زبان سے وہی بات کہی ’’یا اللہ! عَزَّوَجَلَّ ،جب تک تو نے چاہا ان آنکھوں سے مجھے فائدہ بخشا اور جب چاہا انہیں واپس لے لیا۔ اے خالق! عَزَّوَجَلَّ ،میری امید گاہ صرف اپنی ذات کو رکھا، میرا تومقصود بس توہی توہے۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عابد سے فرمایا، آئو ہم تم باہم ملکر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ تم کو پھر آنکھیں اور ہاتھ پائوں لوٹا دے اور تم پہلے ہی کی طرح عبادت کرنے لگو۔ عابد نے کہا، ہرگز نہیں۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلام نے فرمایا ، آخر کیوں نہیں ؟ عابد نے جواب دیا ’’ جب میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا اسی میں ہے تو مجھے صحت نہیں چاہئے ۔ حضرت یونسعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا، واقعی میں نے کسی اور کو اس سے بڑھ کر عابد نہیں دیکھا۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامنے کہا، یہ وہ راستہ ہے کہ رضا ئے الٰہی عَزَّوَجَلَّتک رسائی کیلئے اس سے بہتر کوئی راہ نہیں۔( روض الریاحین، الحکایۃ السادسۃ والثلاثون بعد الثلاث مائۃ، ص۲۸۱)
{اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ:دو اچھی خوبیوں میں سے ایک کا۔} اس آیت میں مسلمانوں کو پہنچنے والی مصیبتوں پر منافقوں کو ہونے والی خوشی کا ایک اور جواب دیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان منافقوں سے فرما دیں کہ اے منافقو! تم ہمارے اوپر دو اچھی خوبیوں میں سے ایک کا انتظار کررہے ہو کہ ہمیں یا تو فتح و غنیمت ملے گی یا شہادت و مغفرت کیونکہ مسلمان جب جہاد میں جاتا ہے تو وہ اگر غالب ہو جب تو فتح و غنیمت او راجرِ عظیم پاتا ہے اور اگر راہِ خدا میں مارا جائے تو اس کو شہادت حاصل ہوتی ہے جو اس کی اعلیٰ مراد ہے اور ہم تم پر دو برائیوں میں سے ایک کا انتظار کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سابقہ اُمتوں کی طرح تمہیں بھی اپنی طرف سے عذاب دے کر ہلاک کر دے یا ہمیں تم پر کامیابی و غلبہ عطا کر کے ہمارے ہاتھوں سے تمہیں عذاب دے اور جب یہ بات ہے توتم ہمارے انجام کا انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے انجام کے منتظر ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۲ / ۲۴۸، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۴۴۷، ملتقطاً)
راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کے فضائل:
اَحادیث میں راہِ خدا میں جہاد کرنے والے مسلمان کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے دو احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ذمہ لیا ہے کہ جو میری راہ میں نکلے اور مجھ پر ایمان یا میرے رسولوں کی تصدیق ہی وہ سبب ہے جس نے اسے گھر سے نکالا ہو تو میں اسے غنیمت کے ساتھ واپس بھیجوں گا یا جنت میں داخل کر دوں گا۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب الجہاد من الایمان، ۱ / ۲۵، الحدیث: ۳۶)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں نکلے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا ضامن ہو جاتا ہے۔ (اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ) جو شخص میرے راستے میں جہاد کے لئے اور صرف مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کی وجہ سے نکلتا ہو تو میں اس بات کا ضامن ہوں کہ (اگر وہ شہید ہوگیا تو) اس کو جنت میں داخل کروں گا یا اس کو اجر اور غنیمت کے ساتھ اس کے گھر لوٹاؤں گا۔( مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۳(۱۸۷۶))
{قُلْ:تم فرماؤ۔}شانِ نزول: یہ آیت جد بن قیس منافق کے جواب میں نازل ہوئی جس نے جہاد میں نہ جانے کی اجازت طلب کرنے کے ساتھ یہ کہا تھا کہ میں اپنے مال سے مدد کروں گا، اس پر اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے اپنے حبیب سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ اس منافق اور اس جیسے دوسرے منافقین سے فرما دیں : تم خوشی سے دو یا ناخوشی سے ،تمہارا مال قبول نہ کیا جائے گا ، یعنی رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کو نہ لیں گے کیونکہ یہ دینا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے نہیں ہے۔ یہ آیت اگرچہ خاص منافقوں کے بارے میں ہے لیکن اس کا حکم عام ہے چنانچہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت سے خرچ نہ کرے بلکہ ریا کاری اور نام و نمود کی وجہ سے خرچ کرے تو وہ قبول نہ کیا جائے گا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۳، ۲ / ۲۴۹)
دکھاوے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مال خرچ کرنے والے کی مثال:
لوگوں کو دکھانے کے لئے مال خرچ کرنے والے کی مثال بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًاؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ‘‘ (بقرہ:۲۶۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کردو اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھلاوے کے لئے خرچ کرتا ہے اوراللہ اور قیامت پر ایمان نہیں لاتا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر ہو جس پر مٹی ہے تواس پر زورداربارش پڑی جس نے اسے صاف پتھر کر چھوڑا، ایسے لوگ اپنے کمائے ہوئے اعمال سے کسی چیز پر قدرت نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کوہدایت نہیں دیتا۔
{وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَ هُمْ كُسَالٰى:اور وہ نماز کی طرف سستی و کاہلی سے آتے ہیں۔} منافقین کا راہِ خدا میں خرچ کرنا مردود ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور وہ سستی و کاہلی کے ساتھ نماز پڑھنے آتے ہیں کیونکہ وہ نہ تونماز پڑھنے پر ثواب کی امید رکھتے ہیں اور نہ ہی اسے چھوڑ دینے پر عذاب کا خوف رکھتے ہیں یونہی جو کچھ وہ خیرات کرتے ہیں وہ بھی ناگواری سے کرتے ہیں کیونکہ اس میں بھی وہ ثواب کے قائل نہیں ، صرف اپنے نفاق کو چھپانے کے لئے خیرات کرتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۴، ۲ / ۲۴۹)
نماز میں سستی کرنا منافقوں کا طریقہ ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ سستی سے نماز پڑھنا منافقوں کا طریقہ ہے جبکہ مومن کیلئے تو نماز معراج ہے اور امامُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے بلکہ بزرگانِ دین کی نماز کے ساتھ محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ قبر میں بھی نماز پڑھنے کے متمنی تھے، جیساکہ حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو لحد میں اتارنے والے ایک شخص کا بیان ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،میں نے اور میرے ساتھ ایک شخص حمید یا ان کے علاوہ کسی اور شخص نے حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو لحد میں اتارا، جب ہم نے مٹی برابر کر دی تو ایک جگہ سے تھوڑی مٹی ان کی قبر میں گر گئی تو اچانک میں نے دیکھا کہ حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ قبر میں نماز ادا فرما رہے ہیں ، میں نے اپنے ساتھ والے شخص سے پوچھا کہ کیا آپ نے دیکھا؟ اس نے مجھے خاموش رہنے کا کہہ دیا، پھر جب ہم حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تدفین سے فارغ ہوئے تو ان کی بیٹی کے پاس آ کر ان کے عمل کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے پوچھا؟ آپ لوگوں نے کیا دیکھا؟ ہم نے جواب دیا: وہ قبر میں نماز ادا فرما رہے تھے۔ ان کی بیٹی نے کہا ’’پچاس سال سے حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ساری سا ری رات نماز ادا فرماتے، جب سحری کا وقت ہوتا تو یہ دعا فرماتے ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو اپنی مخلوق میں سے کسی کو قبر میں نماز کی توفیق عطا کرے تو مجھے بھی عطا فرمانا ‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمالی ہے۔(حلیۃ الاولیاء، طبقۃ التابعین، الطبقۃ الاولی، طبقۃ اہل المدینۃ، ثابت البنانی، ۲ / ۳۶۲، روایت نمبر: ۲۵۶۸)
تنگدلی سے راہِ خدا میں مال خرچ کرنا منافقوں کا طریقہ ہے:
اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ راہ ِ خدا میں خرچ کرنے سے د ل تنگ ہونا منافقوں کا طریقہ ہے۔لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں خرچ کیا جائے تو خوش دلی سے خرچ کیا جائے۔
{فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ:تو تمہیں ان کے مال اور ان کی اولاد تعجب میں نہ ڈالیں۔}اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہے لیکن اس سے مراد مسلمان ہیں اور آیت کا معنی یہ ہے کہ تم ان منافقوں کی مالداری اور اولاد پر یہ سوچ کر حیرت نہ کرو کہ جب یہ مردود ہیں تو انہیں اتنا مال کیوں ملا ۔ اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ ان چیزوں کے ذریعے دنیا کی زندگی میں ان سے راحت و آرام دور کردے کہ محنت سے جمع کریں ، مشقت سے اس کی حفاظت کریں اور حسرت چھوڑ کر مریں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۲۴۹)
{لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:کہ اِن چیزوں کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اِن سے راحت و آرام دور کردے۔} منافقوں پر مال کے ذریعے دُنْیَوی زندگی میں ڈالے جانے والے وبال کا کچھ ذکر اوپر ہوا ،اس کا مزید وبال یہ پڑے گا کہ مال خرچ کرنے کے معاملے میں ان کا دل تنگ ہو گا اور وہ (راہِ خدا) میں مال خرچ کرنا پسند نہ کریں گے جبکہ اولاد کے ذریعے ان پر دنیا میں یہ وبال آئے گا کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں طرح طرح کی مشقتوں میں پڑیں گے، ان کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کا انتظام کرنے میں پریشانیوں کا سامنا کریں گے اور وہ مر جائیں تو یہ ان کی جدائی پر انتہائی رنج وغم میں مبتلا ہوں گے۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۴۴۹)اور جب یہ مریں گے تو ان کی روح کفر کی حالت میں نکلے گی اور آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں شدید عذاب دے گا۔
کافروں اور مسلمانوں کی محنت و مشقت میں فرق:
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مال اور اولاد کی وجہ سے جس محنت و مشقت ،تکلیف اور رنج و غم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں کافر اور مسلمان دونوں شریک ہیں توپھر دونوں کی محنت و مشقت میں فرق کیا ہے کہ ایک جیسی محنت و مشقت ایک کے حق میں عذاب ہو اور دوسرے کے حق میں نہ ہو ؟اس کا جواب یہ ہے کہ مال اور اولاد کے معاملے میں اگرچہ مسلمان اور کافر دونوں کو ایک طرح کی محنت و مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن مسلمان چونکہ ان مشقتوں پر صبر کرتا ہے اور اس پر آخرت میں اسے ثواب ملے گا اس لئے یہ اُس کے حق میں عذاب نہیں جبکہ کافر کو چونکہ آخرت میں کوئی ثواب نہیں ملے گا اس لئے اُس کے حق میں یہ مشقتیں عذاب ہیں۔
کافروں کے مال و دولت سے دھوکہ نہ کھانے کا حکم:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ مسلمانوں کو کافروں کی مالی اور افرادی قوت پر تعجب نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا دُنْیَوی عذاب ہے ۔ نیزکافروں کے مال ودولت کی کثرت سے دھوکہ نہ کھانے کا حکم اور بھی کئی جگہوں پر دیا گیا ہے ،جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’لَا یَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِی الْبِلَادِؕ(۱۹۶) مَتَاعٌ قَلِیْلٌ- ثُمَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمِهَادُ ‘‘(اٰل عمران:۱۹۶، ۱۹۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے مخاطب! کافروں کا شہروں میں چلنا پھرناہرگز تجھے دھوکا نہ دے۔(یہ تو زندگی گزارنے کا) تھوڑا سا سامان ہے پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’مَا یُجَادِلُ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ‘‘(مؤمن:۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ کی آیتوں میں کافر ہی جھگڑا کرتے ہیں تو اے سننے والے! ان کا شہروں میں (خوشحالی سے) چلنا پھرنا تجھے دھوکا نہ دے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ سے غافل کردینے والامال اللہ عَزَّوَجَلَّکاعذاب ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو مال اور اولاد اللہ عَزَّوَجَلَّ سے غافل کرے وہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے، اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اپنے مال کی کثرت اور اولاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبات و اطاعت سے انتہائی غافل ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ مالدار کی جان بڑی مصیبت سے نکلتی ہے اور اسے دگنی تکلیف ہوتی ہے ایک تو دنیا سے جانے اور دوسری مال چھوڑنے کی جبکہ مومن کی جان آسانی سے نکلتی ہے کہ وہ اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ملنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔
{وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اور اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں۔} منافقین اس پر اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تمہارے دین و ملت پر ہیں اور مسلمان ہیں لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّنے فرما دیا کہ وہ تم میں سے نہیں ہیں بلکہ تمہیں دھوکا دیتے اور جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ صرف اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر ان کا نفاق ظاہر ہوجائے تو مسلمان ان کے ساتھ وہی معاملہ کریں گے جو مشرکین کے ساتھ کرتے ہیں اس لئے وہ براہِ تَقِیَّہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۶، ۲ / ۲۵۰، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۴۴۰، ملتقطاً)
آیت ’’وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے:
(1)… تقیہ کرنا منافقوں کا کام ہے، مومن کا کام نہیں۔
(2)… جب عمل قول کے مطابق نہ ہو تو قول کا کوئی اعتبار نہیں۔ منافق قسمیں کھا کر اپنے ایمان کا ثبوت دیتے تھے مگر رب تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ تم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں۔
(3)… مسلمان دو طرح کے ہیں۔ حقیقی مسلمان اور ظاہری مسلمان یعنی دنیوی احکام کے اعتبار سے مسلمان۔ منافقین قومی مسلمان تھے دینی نہ تھے اس لئے انہیں مسجدمیں نماز پڑھنے کی اجازت تھی، انہیں کفار کی طرح قتل نہ کیا گیا لیکن وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے نزدیک مومن نہ تھے۔ وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْکے یہ ہی معنی ہیں۔
{ لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً:اگر انہیں کوئی پناہ گاہ مل جاتی۔} یعنی منافقین کا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں سے انتہا درجے کے بغض کی وجہ سے حال یہ ہے کہ اگر وہ تمہارے پاس سے کسی پناہ گاہ، غار یا کہیں سما جانے کی جگہ کی طرف بھاگ جانے پر قادر ہوتے تو بہت جلد ادھر پھر جاتے کیونکہ بزدل کا کام ہی بھاگ جانا ہوتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۲ / ۲۵۰)
{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِ:اور ان (منافقوں ) میں سے کوئی وہ ہے جو صدقات تقسیم کرنے میں تم پر اعتراض کرتا ہے۔} شانِ نزول:یہ آیت ذُوالخُوَیْصِرَہ ْ تمیمی کے بارے میں نازل ہوئی اس شخص کا نام حُرْقُوْص بن زُہَیْر ہے اور یہی خوارج کی اصل وبنیاد ہے ۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۸، ۲ / ۲۵۰)
بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو ذُوالخُوَیْصِرَہ ْ نے کہا یا رسولَ اللہ ! عدل کیجئے ۔حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تجھے خرابی ہو ،میں عدل نہ کروں گا تو عدل کون کرے گا ؟ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عر ض کی: مجھے اجازت دیجئے کہ اس (منافق) کی گردن مار دوں۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اس کے اور بھی ہمراہی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے سامنے اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے سامنے اپنے روزوں کو حقیر دیکھو گے ، وہ قرآن پڑھیں گے اور ان کے گلوں سے نہ اترے گا، وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے۔(بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوّۃ فی الاسلام، ۲ / ۵۰۳، الحدیث: ۳۶۱۰، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب ذکر الخوارج وصفاتہم، ص۵۳۳، الحدیث: ۱۴۸(۱۰۶۴))
اس سے معلوم ہوا کہ حضوراکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے کسی فعل شریف پر اعتراض کرنا کفر ہے۔
(1)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک مرتبہ دعا فرمائی ’’اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، ہم کو ہمارے شام میں برکت دے ۔اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہمارے یمن میں برکت دے ۔ لوگوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے نجد میں۔ارشاد فرمایا :اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم کو ہمارے شام میں برکت دے۔ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم کو ہمارے یمن میں برکت دے ۔ لوگوں نے پھر عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اور ہمارے نجد میں۔ حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ تیسری بار میں ارشاد فرمایا ’’کہ وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں شیطانی گروہ نکلے گا ۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبیصلی اللہ علیہ وسلم: الفتنۃ من قبل المشرق، ۴ / ۴۴۰، الحدیث: ۷۰۹۴)
(2)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں ، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آخری زمانے میں ایک قوم نکلے گی جو کم عمر اور کم عقل ہوں گے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی احادیث بیان کریں گے ،قرآنِ مجید کو پڑھیں گے اور وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے اسطرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے اور جب تم انہیں پاؤ تو ان کو قتل کرنا کیونکہ جو( ان سے جنگ کرے گا اور) انہیں قتل کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے اجر ملے گا۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب التحریض علی قتل الخوارج، ص۵۳۵، الحدیث: ۱۵۴(۱۰۶۶))
{فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا:تو اگر اِنہیں اُن (صدقات) میں سے کچھ دیدیا جائے تو راضی ہوجاتے ہیں۔} معلوم ہوا کہ دُنْیَوی نفع پر حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے راضی ہو جانا اور نفع نہ ہونے کی صورت میں ناراض ہو جانا منافق کی خاص علامت ہے، ایسا آدمی نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہیں لایا بلکہ اپنے نفس پر ایمان لایا ہے۔ اخلاص نہ ہونے کی علامت یہ ہوتی ہے کہ جب تک فائدہ ملتا رہے تب تک راضی، خوش ہیں اور جب فائدہ ملنا بند ہوجائے تو برائیاں بیان کرنا شروع کردی جائیں۔ آج بھی کسی آدمی کے دوسرے کے ساتھ مخلص ہونے کا یہی پیمانہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہم سے فائدہ حاصل کرتے وقت تو خوش اور راضی ہو اور تعریفیں کرے اور فائدہ ختم ہوجانے پر سلام لینا گوارا نہ کرے تو یہ مخلص نہ ہونے کی علامت ہے اور افسوس کہ فی زمانہ اسی طرح کی صورتِ حال ہے۔
{وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ:اوراگر وہ اس پر راضی ہوجاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں عطا فرمایا۔} ارشاد فرمایا کہ کیا اچھا ہوتا اگر تقسیم پر اعتراض کرنے والے منافق اس پر راضی ہوجاتے جواللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں عطا فرمایا اگرچہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو اور وہ کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا فضل اور جتنا اس نے عطا کیا وہ کافی ہے ۔ عنقریب اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں اپنے فضل سے اور زیادہ عطا فرمائیں گے ۔ بیشک ہم اللہتعالیٰ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے فضل سے صدقہ اور اس کے علاوہ لوگوں کے اَموال سے غنی اور بے نیاز کر دے۔(روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۴۵۲، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۹، ۲ / ۲۵۰)
آیت’’مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس سے معلوم ہوا کہ یہ کہنا جائز ہے کہ اللہرسول عَزَّوَجَلَّو صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں ایمان دیا، دوزخ سے بچایا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ رسول عَزَّوَجَلَّو صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دیتے ہیں اور آئندہ بھی دیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ جو دیتا ہے وہ حضو ر پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے ذریعے سے دیتا ہے۔
نفع و نقصان پہنچانے کی نسبت نیک بندوں کی طرف کرنا جائز ہے:
یاد رہے کہ کسی کو نفع پہنچانے یا کسی سے نقصان دور کر دینے کی نسبت اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی طرف کرنا جائز ہے، اس طرح کی نسبتیں قرآنِ پاک میں بکثرت مقامات پر مذکور ہیں
(1)…اللہ تعالیٰ نے نعمت عطا کرنے کی نسبت تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف فرمائی،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ‘‘(احزاب:۳۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اللہ نے اسے نعمت بخشی اور اے نبی تو نے اسے نعمت بخشی۔
(2)…اللہ عَزَّوَجَلَّنے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف غنی کرنے کی نسبت فرمائی، ارشاد فرمایا:
’’وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ ‘‘ (توبہ:۷۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور انہیں یہی برا لگا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔
(3،4)…اللہ عَزَّوَجَلَّنے فرشتوں کو ہمارا محافظ اور نگہبان فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ‘‘(الرعد :۱۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:آدمی کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے بدل بدل کر باری باری آنے والے فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً‘‘(انعام:۶۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے۔
(5)…اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو ملا کر کفایت کرنے والا فرمایا
’’یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ (انفال:۶۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے نبی! اللہ تمہیں کافی ہے اور جو مسلمان تمہارے پیروکار ہیں۔
مشورہ:اس بارے میں مزید تفصیل کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں موجود رسالہ ’’اَلْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَاءِ‘‘(مصطفٰی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والاکہنے والوں کیلئے انعامات) کا مطالعہ کیجئے۔
{اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ:زکوٰۃ صرف ان لوگوں کے لئے ہے۔} جب منافقین نے صدقات کی تقسیم میں سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اعتراض کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس آیت میں بیان فرما دیا کہ صدقات کے مستحق صرف یہی آٹھ قسم کے لوگ ہیں ان ہی پر صدقات صَرف کئے جائیں گے ،ان کے سوا اور کوئی مستحق نہیں نیز رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اموالِ صدقہ سے کوئی واسطہ ہی نہیں کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپ کی اولاد پر صدقات حرام ہیں تو طعن کرنے والوں کو اعتراض کا کیا موقع ہے۔ اس آیت میں صدقہ سے زکوٰۃ مراد ہے۔
مَصارِفِ زکوٰۃ کی تفصیل اور ان سے متعلق شرعی مسائل:
اس آیت میں زکوٰۃ کے مصارف بیان گئے ہیں ،ان سے متعلق چند شرعی مسائل درج ذیل ہیں
(1)… زکوٰۃ کے مستحق آٹھ قسم کے لوگ قرار دیئے گئے ہیں ان میں سے مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اِجماع کی وجہ سے ساقط ہوگئے کیونکہ جب اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے اسلام کو غلبہ دیا تو اب اس کی حاجت نہ رہی اور یہ اجماع حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے زمانے میں منعقد ہوا تھا۔ یہاں ایک اہم بات یاد رہے کہ مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ کے حصے کو ساقط کرنے میں ایسا نہیں ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے قرآنِ کریم کو ہی بدل دیا کیونکہ قرآنِ مجید ایسی کتاب ہے ہی نہیں کہ مخلوق میں سے کوئی اسے تبدیل کرسکے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ا س کی حفاظت بھی اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے، بلکہ صحابۂ کرام کا مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ کے حصے کو ساقِط کرنے میں اِجماع یقینا کسی دلیل کی بنا پر تھا ، جیسا کہ علامہ کمال الدین محمد بن عبد الواحدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یقینا ان کے پاس کوئی ایسی دلیل ہو گی جس سے انہیں علم ہو گا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنی وفات سے پہلے اس حکم کو منسوخ کر دیا تھا۔ یا، اس حکم کے آپ کی (ظاہری) حیاتِ مبارکہ تک ہونے کی قید تھی۔ یا، یہ حکم کسی علت کی وجہ سے تھا اور اب وہ علت باقی نہ رہی تھی۔(فتح القدیر، کتاب الزکاۃ، باب من یجوز دفع الصدقۃ الیہ ومن لا یجوز، ۲ / ۲۰۱)
(2)…فقیر وہ ہے جس کے پاس شرعی نصاب سے کم ہو اور جب تک اس کے پاس ایک وقت کے لئے کچھ ہو اس کو سوال حلال نہیں۔ ہاں بن مانگے اگر کوئی اسے زکوٰۃ دے تو وہ لے سکتا ہے اور مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو اور ایسا شخص سوال بھی کرسکتا ہے۔
(3)… عاملین وہ لوگ ہیں جن کو حاکمِ اسلام نے صدقے وصول کرنے پر مقرر کیا ہو۔
(4)… اگر عامل غنی ہو تو بھی اس کو لینا جائز ہے۔
(5)… عامل سید یا ہاشمی ہو تو وہ زکوٰۃ میں سے نہ لے۔
(6)…گردنیں چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ جن غلاموں کو ان کے مالکوں نےمُکَاتَبْ کردیا ہو اور ایک مقدار مال کی مقرر کردی ہو کہ اس قدر وہ ادا کردیں تو آزاد ہیں ، وہ بھی مستحق ہیں ، ان کو آزاد کرانے کے لئے مالِ زکوٰۃ دیا جائے۔
(7)…قرضدار جو بغیر کسی گناہ کے مبتلائے قرض ہوئے ہوں اور اتنا مال نہ رکھتے ہوں جس سے قرض ادا کریں انہیں ادائے قرض میں مالِ زکوٰۃ سے مدد دی جائے۔
(8)…اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرنے سے بے سامان مجاہدین اور نادار حاجیوں پر صَرف کرنا مراد ہے۔
(9)…اِبنِ سبیل سے وہ مسافر مراد ہے جس کے پاس اُس وقت مال نہ ہو۔
(10)… زکوٰۃ دینے والے کو یہ بھی جائز ہے کہ وہ ان تمام اَقسام کے لوگوں کو زکوٰۃ دے اور یہ بھی جائز ہے کہ ان میں سے کسی ایک ہی قسم کو دے۔
(11)… زکوٰۃ انہیں لوگوں کے ساتھ خاص کی گئی لہٰذاان کے علاوہ اور دوسرے مَصرف میں خرچ نہ کی جائے گی، نہ مسجد کی تعمیر میں ،نہ مردے کے کفن میں ،نہ اس کے قرض کی ا دا ئیگی میں۔
(12)… زکوٰۃ بنی ہاشم اور غنی اور ان کے غلاموں کو نہ دی جائے اور نہ آدمی اپنی بیوی اور اولاد اور غلاموں کو دے۔(تفسیرات احمدیہ، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۴۶۶-۴۶۸، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۴۴۱، ملتقطاً)۔[1]
[1] ۔۔۔۔ زکوٰۃ کے مصارف اورزکوٰۃ سے متعلق مزید مسائل جاننے کے لئے کتاب’’فتاویٰ اہلسنت(زکوٰۃ کے احکام) ‘‘ اور ’’فیضانِ زکوٰۃ ‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ) کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ:اور ان میں کچھ وہ ہیں جو نبی کو ایذا دیتے ہیں۔} شانِ نزول: منافقین اپنی مجلسوں میں سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں ناشائستہ باتیں کرتے تھے، ان میں سے بعضوں نے کہا کہ اگر حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر ہوگئی تو ہمارے حق میں اچھا نہ ہوگا ۔جلاس بن سوید منافق نے کہا ہم جو چاہیں کہیں ، حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے مُکَرْ جائیں گے اور قسم کھالیں گے وہ تو کان ہیں ان سے جو کہہ دیا جائے سن کر مان لیتے ہیں۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور ارشاد فرمایا کہ منافقوں کی جماعت میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دیتے ہیں اور ان کی شان میں نازیبا کلمات کہتے ہیں۔ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اگرچہ سننے والے ہیں لیکن ان کاسننا تمہارے لئے بہتر ہے۔ معنی یہ ہے کہ اگر وہ سننے والے بھی ہیں تو نیکی اور بھلائی کی بات سننے اور ماننے والے ہیں۔شر اور فساد کی بات سننے والے نہیں۔ اور ان کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بات پر یقین کرتے ہیں منافقوں کی بات پر یقین نہیں کرتے اور وہ تم میں سے جو مسلمان ہیں ان کیلئے رحمت ہیں اور جواللہ تعالیٰ کے حبیب رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۱، ۲ / ۲۵۵)
آیت’’وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دینا کفر ہے کیونکہ دردناک عذاب کی وعید عموماً کفار کو ہی ہوتی ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر کئے جانے والے اِعتراضات کاجواب دینا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شان بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔
{ لِیُرْضُوْكُمْ:تاکہ تمہیں راضی کرلیں۔}شانِ نزول: منافقین اپنی مجلسوں میں سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اعتراضات کیا کرتے تھے اور مسلمانوں کے پاس آکر اس سے مکر جاتے تھے اور قسمیں کھا کھا کراپنی بَرِیَّت ثابت کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ مسلمانوں کو راضی کرنے کے لئے قسمیں کھانے سے زیادہ اہم اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوراضی کرنا تھا اگر ایمان رکھتے تھے تو ایسی حرکتیں کیوں کیں جو خدا اور رسول عَزَّوَجَلَّو صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ناراضی کا سبب ہوں۔ آیت کے اس لفظ ’’اَنْ یُّرْضُوْهُ‘‘ میں واحد کی ضمیر اس لئے ذکر کی گئیکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رضا میں کوئی فرق نہیں ، دونوں کی رضا کا ایک ہی حکم ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۴۴۲)
اللہ تعالیٰ کے ساتھ نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو راضی کرنے کی نیت شرک نہیں:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ عبادت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو راضی کرنے کی نیت کرنی شرک نہیں بلکہ ایمان کا کمال ہے۔نیز قرآنِ پاک میں بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اکٹھا ذکر کیاہے،سر دست ان میں سے 9آیات درج ذیل ہیں :
(1)… ’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ‘‘ (النساء:۱۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جواللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے۔
(2)… ’’وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ‘‘ (النساء:۱۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جواللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے۔
(3)… ’’اَلَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ‘‘ (المائدہ:۳۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان:جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں۔
(4)… ’’ اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ (المائدہ:۵۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان:تمہارے دوست صرف اللہاور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں۔
(5)… ’’ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ‘‘(احزاب:۵۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پردنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرما دی ہے۔
(6)… ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ‘‘ (حجرات:۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔
(7)… ’’ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ‘‘ (حشر:۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔
(8)… ’’وَ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ‘‘ (حشر:۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ، وہی سچے ہیں۔
(9)… ’’وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ‘‘(منافقون:۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان:عزت تو اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے۔
ذکرِ خدا جو اُن سے جدا چاہو نجدیو!
واللہ ذکرِ حق نہیں کنجی سقر کی ہے
{ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ:جو ان کے دلوں کی چھپی باتیں بتادے۔} دلوں کی چھپی چیز ان کا نفاق ہے اور وہ بغض و عداوت جو وہ مسلمانوں کے ساتھ رکھتے تھے اور اس کو چھپایا کرتے تھے، سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات دیکھنے اور آپ کی غیبی خبریں سننے اور ان کو واقع کے مطابق پانے کے بعد منافقوں کو اندیشہ ہوگیا کہ کہیں اللہ تعالیٰ کوئی ایسی سور ت نازل نہ فرمائے جس سے ان کے اَسرار ظاہر کردیئے جائیں اور ان کی رسوائی ہو۔ ان کے اس اندیشے کاذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے ’’اے پیارے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان منافقوں سے فرما دیں کہ تم نے جو مذاق اڑانا ہے وہ اڑالو، بیشک اللہ تعالیٰ اس چیز کو ظاہر کرنے والاہے جس کے ظاہر ہونے سے تم ڈرتے ہو۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۴۵۸-۴۵۹)
{اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ:ہم تو صرف ہنسی کھیل کررہے تھے ۔} اس آیت کا ایک شانِ نزول یہ ہے کہ غزوۂ تبوک میں جاتے ہوئے منافقین کے تین گروپوں میں سے دو رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بارے میں مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ ان کا خیال ہے کہ یہ روم پر غالب آجائیں گے، کتنا بعید خیال ہے اور ایک گروپ بولتا تو نہ تھا مگر ان باتوں کو سن کر ہنستا تھا۔ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کو طلب فرما کر ارشاد فرمایا کہ تم ایسا ایسا کہہ رہے تھے؟ انہوں نے کہا :ہم راستہ طے کرنے کے لئے ہنسی کھیل کے طور پر دل لگی کی باتیں کررہے تھے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ دوسرا شانِ نزول یہ ہے کہ کسی کی اونٹنی گم ہوگئی ، اس کی تلاش تھی، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا او نٹنی فلاں جنگل میں فلاں جگہ ہے اس پر ایک منافق بولا ’’محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) بتاتے ہیں کہ اونٹنی فلاں جگہ ہے ، محمد غیب کیا جانیں ؟ اس پراللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیتِ کریمہ اتاری۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۴۴۳، در منثور، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۵، ۴ / ۲۳۰، ملتقطاً)
آیت’’وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے 3 مسئلے معلوم ہوئے :
(1)… حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم دیا کہ جو تنہائی میں باتیں کی جائیں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی خبر ہے۔
(2)… کفر کی باتیں سن کر رضا کے طور پر خاموش رہنا یا ہنسنا بھی کفر ہے۔ کیونکہ رضابِالْکُفر کفر ہے۔
(3)… حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تَوہین اللہ تعالیٰ کی توہین ہے کیونکہ ان منافقوں نے حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین کی تھی مگر فرمایا ’’ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوۡلِہٖ‘‘ یعنی حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا مذاق اڑانا اللہ تعالیٰ اور اس کی تمام آیتوں کا مذاق اڑانا ہے۔ لہٰذا تاجدارِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تعظیم اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے۔
{لَا تَعْتَذِرُوْا :بہانے نہ بنا ؤ۔} اللہ تعالیٰ نے منافقین کی جانب سے پیش کردہ عذر و حیلہ قبول نہ کیا اور ان کے لئے یہ فرمایا کہ بہانے نہ بنا ؤ تم ایمان ظاہر کرنے کے بعد کافر ہوچکے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ۲ / ۲۵۷، ملخصاً)
آیت’’ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ ایمان ایسی چیز نہیں کہ جو دنیا میں کبھی کسی سے ختم ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کے ایمان کا ذکر فرمایا پھر ان کا ایمان ختم ہو جانے کا ذکر فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں مسلمان ہونے کے بعد کوئی کافر ہو سکتاہے ۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کسی کو کافر قرار دینے کا اختیار اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے لہٰذا کوئی دوسرا کسی کو کافر نہیں کہہ سکتا ، یہ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ شرعی اصولوں کے مطابق جس کا کفر ثابت ہو جائے اسے کافر قرار دینے کاحکم خود شریعت کا حکم ہے اور حقیقی علماء اسی حکمِ شریعت پر عمل کرتے ہوئے ہی کسی کو کافر کہتے ہیں۔ اگر یہ پابندی عائد کر دی جائے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ، اس کے حبیب رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بارے میں ، اس کی مقدس کتاب قرآنِ مجید کے بارے میں ، اس کے پسندیدہ دین اسلام کے بارے کیسے ہی توہین آمیز کلمات کہے یا کتنے ہی برے افعال کے ذریعے ان کی توہین کرے یا دیگر ضروریاتِ دین کا انکار کرے تو اسے کافر نہ کہا جائے کیونکہ اسے کافر قرار دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے تو پھر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے فیصلے سے راضی نہ ہونے والے جس منافق کاسر اڑا دیا تھا اور ا س کے بعد حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرما دیا کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکسی مومن کو قتل نہیں کرسکتے اور ان کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ کریم میں آیت نازل فرما دی تو کیا یہاں اللہ تعالیٰ کا حق چھیننا پایا جا رہا ہے؟ اسی طرح صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے زمانے میں زکوٰۃ کا انکار کرنے والوں کو مرتد قرار دے کر ان کے خلاف جو جہاد ہوا اور مسلمان ہونے کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کے خلاف صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے جو جہاد کیا وہ کیا تھا؟ کیا صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو معلوم نہیں تھا کہ انہیں کافر قرار دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور وہ انہیں کافر قرار دے کر ان کے خلاف جہاد نہیں کر سکتے۔ افسوس! فی زمانہ مسلمان ہونے کادعویٰ کرنے کے باوجود دین سے بیزار طبقے کی ایسی مت ماری جا چکی ہے کہ وہ ایسا نظریہ پیش کر رہے ہیں جسے اگر درست مان لیاجائے تو پھر قرآنِ مجید اوراحادیثِ مبارکہ میں مرتد ہونے والوں کے بارے جو احکام بیان کئے گئے اور ان کی جوتفصیلات فقہاءِ کرام زمانے سے اپنی کتابوں میں لکھتے چلے آ رہے ہیں یہ سب کالْعدم ہو کر رہ جائیں گے ۔اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم عطا فرمائے ۔ ہاں یہاں اس بات کا خیال رکھنا بہت ہی ضروری ہے کہ کسی فردِ معین کو کافر قرار دینا بہت ہی سنگین معاملہ ہے ، جب تک کسی شخص سے صادر ہونے والے قول و فعل کی بنا پر اسے کافر قرار دینے کے تمام تر تقاضے پورے نہ ہوجائیں تب تک کافر قرار دینے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں یہاں تک کہ علماء نے فرمایا ہے کہ کسی شخص کے کلام میں ایک سو پہلو ہوں اور ان میں سے ننانوے پہلو کفر کے ہوں اور صرف ایک پہلو اسلام کا ہو تب بھی اس ایک پہلو کی رعایت کرتے ہوئے اس شخص کو کافر قرار نہیں دیا جائے گا جب تک وہ اپنی مراد خود متعین نہ کردے۔
سورہِ توبہ کی آیت نمبر66 سے معلوم ہونے والا ایک اہم مسئلہ:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں اِکراہ ِشرعی کے بغیر ایسے کلمات کہے جو عرف میں توہین اور گستاخی کے لئے متعین ہوں تو وہ نیت اور عدمِ نیت کے فرق کے بغیر قضاء ً اور دیانۃً دونوں طرح کافر ہے ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس (مذکورہ بالا) آیت کے تین فائدے حاصل ہوئے:
اول: یہ کہ جو رسول کی شان میں گستاخی کرے وہ کافر ہوجاتاہے اگر چہ کیسا ہی کلمہ پڑھتا اور ایمان کا دعویٰ رکھتا ہو، کلمہ گوئی اسے ہرگز کفرسے نہ بچائے گی۔
دوم: یہ جو بعض جاہل کہنے لگتے ہیں کہ کفر کا تودل سے تعلق ہے نہ کہ زبان سے، جب وہ کلمہ پڑھتا ہے اور اس کے دل میں کفر ہونا معلوم نہیں توہم کسی بات کے سبب اسے کیونکر کافر کہیں ، محض خبط اور نری جھوٹی بات ہے، جس طرح کفر دل سے متعلق ہے یونہی ایمان (کا) بھی (دل سے تعلق ہے تو) زبان سے کلمہ پڑھنے پر (اسے) مسلمان کیسے کہا؟ (تو جس طرح زبان سے کلمہ پڑھنے پر اسے مسلمان کہا) یونہی زبان سے گستاخی کرنے پر کافر کہا جائے گا، اور جب (اس کا گستاخی کرنا) بغیر اکراہِ شرعی کے ہے تو اللہ کے نزدیک بھی کافر ہوجائے گا اگر چہ دل میں اس گستاخی کا معتقد نہ ہو کہ بے اعتقاد (گستاخانہ کلمہ) کہنا ہزل وسُخْرِیَہْ ہے، اور اسی پر ربُّ العزت فرما چکا کہ تم کافر ہوگئے اپنے ایمان کے بعد۔
سوم :کھلے ہوئے لفظوں میں عذر تاویل مسموع نہیں ، آیت فرما چکی کہ حیلہ نہ گھڑو تم کافر ہوگئے۔ (فتاوی رضویہ، ۱۵ / ۱۷۲)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’جو بلا اکراہ کلمۂ کفر بکے بلا فرقِ نیت مطلقاً قطعا ًیقینا اجماعاً کافر ہے ۔پھر اس پر فقہائے کرام کے جزئیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : فتاویٰ امام قاضی خاں وفتاویٰ عالمگیری میں ہے ’’رجل کفر بلسانہ طائعا وقلبہ مطمئن بالایمان یکون کافرا و لایکون عند اﷲ تعالٰی مؤمنا‘‘ ایک شخص نے زبان سے حالت ِخوشی میں کفر کا اظہار کیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مومن نہیں ہے۔(فتاوی عالمگیری،کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، ۲ / ۲۸۳۔ فتاوی عالمگیری،کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، ۲ / ۲۸۳)
حاوی میں ہے ’’من کفر باللسان و قلبہ مطمئن بالایمان فھوکافر و لیس بمؤمن عند ﷲ تعالٰی‘‘ جس نے زبان سے کفرکیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مومن نہیں۔
جواہر الاخلاطی اور مجمع الانہر میں ہے ’’من کفر بلسانہ طائعا و قلبہ مطمئن بالایمان کان کافرا عندنا و عند ﷲ تعالٰی ‘‘ جس نے زبان سے حالتِ خوشی میں کفر کااظہا ر کیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ ہمارے نزدیک کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مومن نہیں۔(مجمع الانہر، کتاب السیر والجہاد، باب المرتد، ۲ / ۵۰۲، جواہر الاخلاطی، کتاب السیر، ص۶۸، مثلہ)
شرح فقہ اکبر میں ہے ’’ اللسان ترجمان الجنان فیکون دلیل التصدیق وجودا و عدما فاذا بدلہ بغیرہ فی وقت یکون متمکنا من اظہارہ کان کافرا و اما اذا زال تمکنہ من الاظہار بالاکراہ لم یصر کافرا ‘‘ زبان دل کی ترجمان ہے تو یہ دل کی تصدیق یا عدمِ تصدیق پر دلیل ہوگی تو جب وہ اظہارِ ایمان پر قدرت کے باوجود عدمِ تصدیق کااظہار کرتاہے تو وہ کافر ہوگیا البتہ جب کسی جبر کی وجہ سے اظہار پر قدرت نہ ہو تو اب کافر نہ ہوگا۔ (منح الروض الازہر شرح فقہ الاکبر، الایمان ہو التصدیق والاقرار، ص۸۶)
طریقہ محمدیہ وحدیقہ ندیہ میں ہے ’’(حکمہ) ای التکلم بکلمۃ الکفر( ان کان طوعا) ای لم یکرھہ احد( من غیر سبق لسان) الیہ( احباط العمل وانفساخ النکاح) ‘اگر کلمۂ کفر کا تکلم خوشی سے ہے یعنی کسی چیز کا اکراہ و جبر نہیں جبکہ سبقت ِلسانی نہ ہو، تو اس کا حکم یہ ہے کہ عمل ضائع اور نکاح ختم ہوجائے گا(الحدیقۃ الندیہ، القسم الثانی، المبحث الاول، النوع الاول من الستین کلمۃ الکفر العیاذ باللہ، ۲ / ۱۹۷-۱۹۸)۔( فتاوی رضویہ ، کتاب السیر، ۱۴ / ۶۰۰-۶۰۱)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے ثابت ہوا کہ رسول کریمصَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَ سَلَّمَ کی شان میں گستاخی کفر ہے جس طرح بھی ہو اس میں عذر قبول نہیں۔(خزائن ا لعرفان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۳۷۰)
یاد رہے کہ اس آیت میں واضح طور پر یہ بتادیا گیا ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گستاخی اگرچہ مذاق میں ہو اور گستاخی کی نیت نہ ہو تب بھی کفر ہے اور یہی حکم دوسرے تمام کفریات کا ہے کہ ہنسی مذاق میں کفر کرنے سے بھی آدمی کافر ہوجاتا ہے ، مذاق کا عذر مردود ہے۔ اس سے فلموں ، ڈراموں ، خصوصاً کامیڈی ڈراموں میں بولے جانے والے کفریات کا حکم سمجھا جاسکتا ہے۔
{اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآىٕفَةٍ مِّنْكُمْ:اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کر (بھی) دیں۔}یعنی اگر ہم تم میں سے کسی کو اس کے توبہ کرنے اور اخلاص کے ساتھ ایمان لانے کی وجہ سے معاف کر بھی دیں تو توبہ نہ کرنے والے گروہ کو ضرور عذاب دیں گے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۴۴۳)
حضرت محمد بن اسحٰق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ یہاں جس شخص کی معافی کی بات ہورہی ہے اس سے وہی شخص مراد ہے جو ہنستا تھا مگر اس نے اپنی زبان سے کوئی گستاخی کا کلمہ نہ کہا تھا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے توبہ کی اور اخلاص کے ساتھ ایمان لایا۔ اس نے دعا کی کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے اپنی راہ میں مقتول کرکے ایسی موت دے کہ کوئی یہ کہنے والا نہ ہو کہ میں نے غسل دیا، میں نے کفن دیا، میں نے دفن کیا ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے اور ان کا پتہ ہی نہ چلا۔ ان کا نام حضرت یحییٰ بن حمیر اشجعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھا اور چونکہ انہوں نے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بدگوئی سے زبان روکی تھی اس لئے انہیں توبہ و ایمان کی توفیق ملی ۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ۲ / ۲۵۸)
{اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ:منافق مرد اور منافق عورتیں۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ منافق مرد اور منافق عورتیں سب نِفاق اور اَعمالِ خبیثہ میں یکساں ہیں ان کا حال یہ ہے کہ کفر و مَعْصِیَت اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کا حکم دیتے ہیں اور ایمان وطاعت ا ور تصدیقِ رسول سے منع کرتے ہیں اورراہِ خدا میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں ،انہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا اور انہوں نے اس کی اطاعت و رضا طلبی نہ کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں چھوڑ دیا اور ثواب و فضل سے محروم کردیا، بیشک وہی نافرمان ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۷، ۲ / ۲۵۸)
برائی کا حکم دینا اور بھلائی سے منع کرنا منافق کا کام ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ برائی کا حکم دینا اور بھلائی سے منع کرنا منافق کا کام ہے۔ افسوس کہ ہمارے زمانے میں یہ چیز گھر گھر دیکھنے میں آرہی ہے کہ گھر والوں کو گناہ کرنے کی ترغیب دی جاتی اور ان کے سامنے گناہوں کو معمولی قرار دے کر انہیں مزید گناہوں پر ابھارا جاتا ہے جیسے نماز اور روزے کی پابندی کرنے سے روکا جاتا اور ان کے بارے میں اس طرح کلام کیاجا تا ہے جیسے ان کی خاص اہمیت نہ ہو۔ ٹی وی پر کوئی من پسند ڈرامہ یا فلم آ رہی ہو تو دوسروں کے سامنے ان کی خوبیاں بیان کر کے انہیں بھی وہ ڈرامہ یا فلم دیکھنے کے لئے بلا یا جاتا ہے۔ فلموں ، ڈراموں اور ٹی وی کے بے حیائی عام کرنے اور مسلمانوں کے دینی اور مذہبی عقائد و معمولات کو مَجروح کرنے والے پروگراموں کو دیکھنے کے لئے نت نئے انداز سے ایک دوسرے کومائل کیا جاتا ہے۔ بے حیائی اور عُریانی پر مَبنی لباسوں کو فیشن اور سوسائٹی کا تقاضا بتا کر انہیں پہننے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ والدین اپنی اولاد کو ماڈرن اور آزاد خیال دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور مذہبی حلیے میں دیکھ کر تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ کوئی داڑھی رکھ لے اور مذہبی شکل و صورت بنالے تو والدین اس سے ناراض ہوتے ہیں اور اسے گناہوں کی طرف جانے پر مجبور کرتے ہیں جبکہ اگر کوئی رشوت اور سود کا مال لا کر گھر میں خوشحالی لاتا ہے تواس سے خوش ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے درج ذیل حدیثِ پاک میں بڑی عبرت ہے، حضرت ابوامامہ باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب تمہاری عورتیں سرکشی کریں گی، تمہارے نوجوان فاسق ہوجائیں گے اور تم جہاد چھوڑ دو گے تو اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ایسا ہو گا؟ آپ نے ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس سے زیادہ سخت کیا ہوگا ارشاد فرمایا’’ تمہارا کیا حال ہو گا جب تم نیکی کا حکم نہیں دو گے اور برائی سے نہیں روکو گے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عر ض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ایسا ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’ہاں ! اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس سے زیادہ سخت کیاہو گا؟ ارشاد فرمایا’’اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم نیکی کو برائی اور برائی کو نیکی سمجھو گے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی:یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ایسا ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ انہوں نے عرض کی: اس سے زیادہ سخت کیا ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم برائی کا حکم دو گے اور نیکی سے روکو گے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا اس طرح ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’ہاں ! اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’مجھے اپنی قسم ہے، میں ان پر ایسا فتنہ مقرر کروں گا کہ اس میں سمجھدار لوگ بھی حیران رہ جائیں گے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، الباب الاول فی وجوب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر ۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۸۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں منافقت کی اس علامت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَعَدَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ:اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں سے وعدہ کیا ہے۔} اس سے پہلی آیات میں منافقوں کے برے اعمال بیان کئے گئے اور اس آیت میں ان کی سزا بیان کی گئی ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے اور عذاب وسزا کے طور پر جہنم انہیں کافی ہے ،اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے دور کر دیا اور ان کے لئے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔
{كَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ:جس طرح تم سے پہلے لوگ۔} یعنی اے منافقو! تم گزشتہ زمانے کے ان لوگوں کی طرح ہو جو قوت میں تم سے زیادہ مضبوط اور مال و اولاد کی کثرت میں تم سے بڑھ کر تھے پھر انہوں نے اپنی دنیوی لذتوں اور شہوتوں کے حصے سے لطف اٹھایا ۔ اے منافقو! تم بھی ویسے ہی اپنے حصے سے لطف اٹھالو اور جو موج مستی کرنی ہے کرلو۔ یہ سارا کلام انہیں ڈانٹ ڈپٹ اور دھمکی کے طور پر ہے۔ مزید فرمایا کہ جیسے پہلے لوگ بیہودگی میں پڑے ہوئے تھے تم بھی اسی طرح بیہودگی میں پڑگئے اور تم نے باطل کی اتباع کی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ اورا س کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب اور مؤمنین کے ساتھ اِستہزاء کرنے میں ان کی رَوِش اختیار کر لی، جس کے نتیجے میں ان لوگوں کے تمام اَعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اوروہ اس کی وجہ سے خسارے میں پڑگئے، اور اب انہیں کفار کی طرح اے منافقین تم بھی گھاٹے میں ہو اور تمہارے عمل باطل ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۲۵۸-۲۵۹، ملخصاً)
مال و دولت اور افرادی قوت کی زیادتی کامیابی کی علامت نہیں :
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیوی مال ودولت کی کثرت اور افرادی قوت کی زیادتی کوئی کامیابی کی علامت نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں کامیابی ایمان اور تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ ہے۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ مَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰۤى اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا٘-فَاُولٰٓىٕكَ لَهُمْ جَزَآءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَ هُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ‘‘ (سبا:۳۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تمہارے مال اور تمہاری اولاد اس قابل نہیں کہ تمہیں ہمارے قریب کردیں مگر وہ جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیا (وہ ہمارے قریب ہے) ان لوگوں کے لیے ان کے اعمال کے بدلے میں کئی گنا جزا ہے اور وہ(جنت کے) بالاخانوں میں امن وچین سے ہوں گے۔
{اَلَمْ یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ:کیاان کے پاس ان سے پہلے لوگوں کی خبر نہ آئی۔} یعنی منافقوں کو گزری ہوئی امتوں کا حال معلوم نہ ہوا کہ ہم نے انہیں اپنے حکم کی مخالفت اور اپنے رسولوں کی نافرمانی کرنے پر کس طرح ہلاک کیا۔ قومِ نوح جو طوفان سے ہلاک کی گئی اور قومِ عاد جو ہوا سے ہلاک کئے گئے اور قومِ ثمود جو زلزلہ سے ہلاک کئے گئے اور قومِ ابراہیم جو سَلب ِ نعمت سے ہلاک کی گئی اور نمرود مچھر سے ہلاک کیا گیا اور مدین والے یعنی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم جوبادل والے دن کے عذاب سے ہلاک کی گئی اور وہ بستیاں کہ الٹ دی گئیں اور زیرو زبر کر ڈالی گئیں وہ قومِ لوط کی بستیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان چھ کا ذکر فرمایا اس لئے کہ بلادِ شام و عراق و یمن جو سرزمینِ عرب کے بالکل قریب ہیں ان میں ان ہلاک شدہ قوموں کے نشان باقی ہیں اور عرب لوگ ان مقامات پر اکثر گزرتے رہتے ہیں۔
مزید ارشاد فرمایا کہ ان کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تھے اور ان لوگوں نے تصدیق کرنے کی بجائے اپنے رسولوں کی تکذیب کی جیسا کہ اے منافقو! تم کررہے ہو، لہٰذا تم اس بات سے ڈرو کہ کہیں انہیں کی طرح مبتلائے عذاب نہ کردئیے جائو۔ سابقہ لوگ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے برباد ہوئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھاکیونکہ وہ حکیم ہے ،بغیر جرم کے سزا نہیں فرماتا بلکہ لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے کہ کفر کر کے او ر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو نہ مان کر عذاب کے مستحق بنے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۲۵۹، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۴۴۴، ملتقطاً)
{وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ:اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے خبیث اَعمال اور فاسد اَحوال بیان فرمائے، پھراس عذاب کا بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دنیاو آخرت میں تیار کیا اور اِس آیت سے مومنوں کے اوصاف، ان کے اچھے اعمال اور ان کے اس اجر و ثواب کو بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں ان کے لئے تیار فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ، آپس میں دینی محبت والفت رکھتے اور ایک دوسرے کے معین و مددگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور شریعت کی اتباع کرنے کا حکم دیتے ہیں اور شرک و معصیت سے منع کرتے ہیں۔ فرض نمازیں ان کے حدود و اَرکان پورے کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔ اپنے اوپر واجب ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانتے ہیں۔ان صفات سے مُتَّصِف مومن مرد اور عورتیں وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ تعالیٰ رحم فرماے گا اور انہیں دردناک عذاب سے نجات دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۱، ۲ / ۲۵۹-۲۶۰)
مسلمانوں اور منافقوں کے اَوصاف:
اس آیت سے تین آیات پہلے منافق مردوں اور منافقہ عورتوں کے4 اَوصاف بیان ہوئے
(1)… یہ سب نفاق اور اعمالِ خبیثہ میں یکساں ہیں۔
(2)…یہ کفر و معصیت اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کا حکم دیتے ہیں ، یونہی برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں۔
(3)…ایمان وطاعت ا ور تصدیقِ رسول سے منع کرتے ہیں۔
(4)…راہِ خدا میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں۔
اورمذکورہ بالا آیت میں مومنوں کے5 اَوصاف بیان کئے گئے
(1)…وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔
(2)…بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔
(3)…نماز قائم کرتے ہیں۔
(4)… زکوٰۃ دیتے ہیں۔
(5)…اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانتے ہیں۔
منافقوں اور مخلص ایمان والوں کے اوصاف کوسامنے رکھتے ہوئے عمومی طور پر تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ غور کریں کہ ان کے اعمال کن لوگوں کے ساتھ ملتے ہیں ؟ اگر ان کے اعمال مخلص ایمان والوں کے ساتھ ملتے ہیں تووہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا شکر ادا کریں اور اگراعمال منافقوں کے ساتھ ملتے ہوں تو انہیں چاہئے کہ اپنی عملی حالت درست کرنے کی بھر پور کوشش کریں اور مخلص ایمان والوں جیسے اوصاف اپنائیں تاکہ وہ منافقوں کے بارے میں بیان کی گئی وعید میں داخل ہونے سے بچ سکیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
مسلمانوں کا اتحاد اور اتفاق:
اس آیت میں بیان ہوا کہ مسلمان ایک دوسرے کے رفیق اور معین ومددگار ہیں اور حدیثِ پاک میں بیان ہوا کہ مسلمان اتفاق اور اتحاد میں ایک عمارت کی طرح ہیں ، چنانچہحضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فر مایا ’’سارے مسلمان ایک عمارت کی طرح ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے کو طاقت پہنچاتا ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں۔ (بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب نصر المظلوم، ۲ / ۱۲۷، الحدیث: ۲۴۴۶)
اور حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں کی آپس میں دوستی، رحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے، جب جسم کا کوئی عُضْو بیمار ہوتا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہو جاتاہے۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم۔۔۔ الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۶(۲۵۸۶))
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اتفاق اور اتحاد کی اہمیت کو سمجھنے اورآپس میں متفق و متحد ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کی ضرورت:
اس آیت میں ایمان والوں کا ایک وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ فی زمانہ اس کام کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے کیونکہ آج کے دور میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت بے عملی کا شکار ہے، نیکیاں کرنا، نفس کے لئے بے حد دشوار جبکہ گناہ کا اِرتکاب کرنا بہت آسان ہو چکا ہے، مسجدوں کی ویرانی، سینما گھروں اور ڈرامہ گاہوں کی رونق، دین کا درد رکھنے والوں کو رُلا دیتی ہے، ڈش انٹینا اور کیبل کے ذریعے ٹی وی اور انٹر نیٹ کا غلط استعمال کرنے والوں نے گویا اپنی آنکھوں سے حیا دھو ڈالی ہے، ضروریات کی تکمیل اور سہولیات کے حصول کی حد سے زیادہ جدو جہد نے مسلمانوں کی بھاری تعداد کو آخرت کی فکر سے غافل کر دیا ہے ،گالی دینا، تہمت لگانا، بد گمانی کرنا، غیبت کرنا، چغلی کھانا، لوگوں کے عیب جاننے کی جستجو میں رہنا، لوگوں کے عیب اچھالنا، جھوٹ بولنا، جھوٹے وعدے کرنا، کسی کا مال ناحق کھانا، خون بہانا، کسی کو شرعی اجازت کے بغیر تکلیف دینا، کسی کا قرض دبا لینا، کسی کی چیز وقتی طور پر لے کر واپس نہ کرنا، مسلمانوں کو برے القاب سے پکارنا، کسی کی چیز اسے ناگوار گزرنے کے باوجود اجازت کے بغیر استعمال کرنا، شراب پینا، جوا کھیلنا، چوری کرنا، زنا کرنا، فلمیں ڈرامے دیکھنا، گانے باجے سننا، سود اور رشوت کا لین دین کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور انہیں ستانا، امانت میں خیانت کرنا، بد نگاہی کرنا، عورتوں کا مردوں اور مردوں کا عورتوں کی نقالی کرنا، بے پردگی، غرور، تکبر ، حسد،ریا کاری، اپنے دل میں کسی مسلمان کا بغض و کینہ رکھنا، غصہ آجانے پر شریعت کی حد توڑ ڈالنا، گناہوں کی حرص ،حُب ِجاہ، بخل اور خود پسندی وغیرہ معاملات ہمارے معاشرے میں بڑی بے باکی کے ساتھ کئے جاتے ہیں حتّٰی کہ بظاہر نیک نظر آنے والے کسی شخص کے قریب جائیں تو وہ بھی بسا اوقات عقیدے کی خرابی، زبان کی بے احتیاطی، بد نگاہی اور بد اَخلاقی وغیرہ کی آفتوں میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا، جذبہ ،ہمت اور توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
{وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ:اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں وعیدیں اور ان کے لئے تیار کردہ جہنم کے عذاب کا ذکر فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جس ثواب اور جزاء کا وعدہ فرمایا، اسے ذکر فرمایا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۲۶۰)
{فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ: عدن کے باغات میں۔} ایک قول یہ ہے کہ ’’عَدن‘‘ جنت میں ایک خاص جگہ کا نام ہے اور ایک قول یہ ہے کہ عدن جنت کی صفت ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۶ / ۱۰۲)
آٹھ جنتوں کے اَسماء
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ ہے کہ جنتیں آٹھ ہیں اورا ن کے نام یہ ہیں (1) دارُ الجلال۔ (2) دارُ القرار ۔ (3) دارُ السّلام۔ (4) جنتِ عدن۔ (5) جنتِ مأویٰ۔ (6) جنتِ خُلد۔ (7) جنت فردوس۔ (8) جنتِ نعیم۔(روح البیان، الصف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۵۰۸)
جنتِ عدن اور اس کی نعمتیں :
جنت عدن کے بارے میں حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے جنتِ عدن کو اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا، اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے، ایک سرخ یاقوت کی اور ایک سبز زبرجد کی ہے، مشک کا گارا ہے، اس کی گھاس زعفران کی ہے، موتی کی کنکریاں اور عنبر کی مٹی ہے۔ (ابن ابی دنیا،صفۃ الجنۃ، ۶ / ۳۱۹، الحدیث: ۲۰)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جب اللہ تعالیٰ نے جنتِ عد ن کو پیدا فرمایا تو اس میں وہ چیزیں پیدا فرمائیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت عدن سے فرمایا ’’ مجھ سے کلام کر۔ اس نے کہا ’’ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۲۱۵، الحدیث: ۷۳۸)
{ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ:اور اللہ کی رضا سب سے بڑی ہے۔} یعنی جنت کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّجنتیوں سے راضی ہو گا ۔کبھی نا راض نہ ہوگا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۲۶۱)
یہ نعمت تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور عاشقانِ الٰہی کی سب سے بڑی تمنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کا دیدار کسی عمل کا بد لہ نہ ہو گا بلکہ یہ خاص رب عَزَّوَجَلَّ کا عطیہ ہو گا۔ ’’ رَزَقَنَا اللہُ تَعَالٰی بِجَاہِ حَبِیْبِہٖ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم‘‘
دنیا میں اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی علامت:
کسی بندے سے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی ایک علا مت یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نیک بندےراضی ہوں اور اسے نیک اعمال کی توفیق ملے ۔ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی سے راضی ہوتا ہے تو فر شتوں میں اعلان ہوتا ہے کہ ہم اس سے راضی ہیں تم بھی اس سے راضی ہو جاؤ پھر تما م زمین والوں کے دلوں میں اس کی محبت پڑ جا تی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو ند اکی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَاماس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آسمانی مخلوق میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر زمین والوں (کے دلوں) میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۲، الحدیث: ۳۲۰۹)
اس سے معلوم ہوا کہ بزر گا نِ دین کی طرف دلو ں کا مائل ہونا ان کے محبوبِ الٰہی ہونے کی علامت ہے ۔
{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ:اے غیب کی خبریں دینے والے نبی!} اس سے معلوم ہوا کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا نام لے کر نہ پکارا جائے بلکہ اچھے القاب سے پکارا جائے جب خداوند ِ قدوس عَزَّوَجَلَّ ان کو نام لے کر نہیں پکارتا تو ہم کس شمار میں ہیں۔ ایک مقام پر اللہتعالیٰ واضح طور پرفرماتا ہے۔
’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ‘‘ (النور :۶۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا (معمولی) نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔
{جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ:کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔} یعنی کافروں پر تو تلوار اور جنگ سے اور منافقوں پر حجت قائم کرنے سے جہاد کرو اور ان سب پر سختی کرو۔ حضرت عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ہر وہ شخص جس کے عقیدے میں فساد ہو اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہے کہ حجت و دلائل کے ساتھ اس سے جہاد کیا جائے اور جتنا ممکن ہو اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا جائے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۴۴۵)
دین کیلئے کی جانے والی ہر کوشش جہاد ہے:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد صرف لڑائی کی شکل میں نہیں ہوتا بلکہ دین کیلئے کی جانے والی ہر کوشش جہاد ہے خواہ وہ زبان یا قلم سے ہو۔ یہ بھی واضح ہوا کہ جو علماء ،دینِ حق اور عقیدہ ِ صحیحہ کے تحفظ و بَقا کیلئے تقریر وتحریر کے ذریعے کوشش کرتے ہیں وہ سب مجاہدین ہیں اور اِس آیتِ مبارکہ پر عمل کرنے والے ہیں۔ اس میں مصنفین اور صحیح مقررین کیلئے بڑی بشارت و فضیلت ہے۔
دین کے دشمنوں پر سختی کرنے کا حکم:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو کافروں اور منافقوں پر سختی کرنے کا حکم دیا، اس سے معلوم ہوا کہ دین و ایمان کے دشمنوں پر سختی کرنا اَخلاقیات اور اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں اور نہ ہی یہ شدت پسندی ہے بلکہ یہ عین اسلام کی تعلیمات اوراللہ تعالیٰ کا حکم ہے البتہ بے جا کی سختی یا اسلامی تعلیمات کے منافی قتل و غارت گری ضرور حرام ہے جیسے آج کل مسلک کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کی مہم جاری ہے۔
{یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اللہکی قسم کھاتے ہیں۔} شانِ نزول: امام بغوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کلبی سے نقل کیا کہ یہ آیت جُلَّاسْ بن سُوَید کے بارے میں نازل ہوئی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک روز سرور ِعالَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تبوک میں خطبہ فرمایا اس میں منافقین کا ذکر کیا اور ان کی بدحالی و بدما ٓلی کا ذکر فرمایا: یہ سن کر جُلَّاسْ نے کہا کہ اگر محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سچے ہیں تو ہم لوگ گد ھوں سے بدتر ہیں۔ جب حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ واپس تشریف لائے تو حضرت عامر بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جُلَّاسْ کا مقولہ بیان کیا۔ جُلَّاسْ نے انکار کیا اور کہا کہ یا رسولَ اللہ ! عامر نے مجھ پر جھوٹ بولا ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے دونوں کو حکم فرمایا کہ منبر کے پاس قسم کھائیں۔ جُلَّاسْ نے عصر کے بعد منبر کے پاس کھڑے ہو کر اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم کھائی کہ یہ بات اس نے نہیں کہی اور عامر نے اس پر جھوٹ بولا پھر حضرت عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہو کر قسم کھائی کہ بے شک یہ مقولہ جُلَّاس نے کہا اور میں نے اس پر جھوٹ نہیں بولا ۔حضرت عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی: یارب! عَزَّوَجَلَّ، اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر سچے آدمی کی تصدیق نازل فرما۔ ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ہی حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔ آیت میں ’’فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْ‘‘ سن کر جُلَّاسْکھڑے ہوگئے اور عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سنئے، اللہ تعالیٰ نے مجھے توبہ کا موقع دیا، حضرت عامر بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو کچھ کہا سچ کہا اور میں نے وہ کلمہ کہا تھا اور اب میں توبہ و استغفار کرتا ہوں۔ رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور وہ توبہ پر ثابت رہے۔ (بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۲۶۳)اس آیت میں جمع کے صیغے ذکر کئے گئے حالانکہ توہین آمیز بات کہنے والا شخص ایک تھا، اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ باقی منافق اس بات پر راضی ہونے کی وجہ سے کہنے والے کی طرح ہیں۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۴۶۷)
{وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا:اور انہوں نے اس چیز کا قصد و ارادہ کیا جو انہیں نہ ملی۔} ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد منافقین کا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سواری سے گرانے کا ارادہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پندرہ کے قریب منافقین کے ایک گروہ نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ تبوک سے واپسی پر رات کے اندھیرے میں کسی گھاٹی پر نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی سواری سے گرا کے شہید کردیا جائے۔ حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سواری پیچھے سے ہانک رہے تھے اور حضرت عمار بن یاسر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سواری کی لگام تھامے آگے چل رہے تھے۔ اسی دوران جب حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اونٹوں اور اسلحے کی آواز سنی توانہوں نے پکار کر کہا کہ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمنو! دور ہو جاؤ، دور ہو جاؤ۔ یہ سن کر منافقین بھاگ گئے۔ (بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۱۵۸-۱۵۹)
ایک قول یہ ہے کہ منافقین نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا کے بغیر عبداللہ بن اُبی کی تاج پوشی کا ارادہ کیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے جس چیز کا قصد و ارادہ کیا تھا وہ انہیں نہ ملی۔ (ابو سعود، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۴۲۸)
امام مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جلاس نے افشائے راز کے اندیشہ سے حضرت عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قتل کا ارادہ کیا تھا اس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ پورا نہ ہوا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۲۶۲)
{اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ:اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے مدینہ منورہ تشریف آوری سے پہلے یہ منافق تنگدستی کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے ۔ جب مدینہ منورہ میں رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی آمد ہوئی تو ان کے صدقے غنیمت میں مال و دولت پا کر یہ منافق خوشحال ہو گئے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جُلَّاسْ کا غلام قتل کر دیا گیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بارہ ہزار درہم اس کی دِیَت ادا کرنے کا حکم دیا تو دیت پا کر وہ غنی گیا۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۶ / ۱۰۴)
یہاں آیت میں غنی کرنے کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف کی گئی ہے۔ اس پر تفصیلی کلام اسی سورت کی آیت نمبر 62 کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔
{وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ:اور ان میں کچھ وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا ہوا ہے۔} شانِ نزول: ایک شخص ثعلبہ نے رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے درخواست کی کہ اس کے لئے مالدار ہونے کی دعا فرمائیں۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :اے ثعلبہ تھوڑا مال جس کا تو شکر ادا کرے اس بہت سے بہتر ہے جس کا شکر ادا نہ کرسکے۔ دوبارہ پھر ثعلبہ نے حاضر ہو کر یہی درخواست کی اور کہا اسی کی قسم جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر بھیجا کہ اگر وہ مجھے مال دے گا تو میں ہر حق والے کا حق ادا کروں گا ۔حضورِاقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے دعا فرمائی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی بکریوں میں برکت فرمائی اور اتنی بڑھیں کہ مدینہ میں ان کی گنجائش نہ ہوئی تو ثعلبہ ان کو لے کر جنگل میں چلا گیا اور جمعہ و جماعت کی حاضری سے بھی محروم ہوگیا۔ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس کا حال دریافت فرمایا تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کیا کہ اس کا مال بہت کثیر ہوگیا ہے اور اب جنگل میں بھی اس کے مال کی گنجائش نہ رہی۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ ثعلبہ پر افسوس پھر جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے زکوٰۃ کے وصول کرنے والے بھیجے تو لوگوں نے انہیں اپنے اپنے صدقات دئیے، جب ثعلبہ سے جا کر انہوں نے صدقہ مانگا اس نے کہا یہ توٹیکس ہوگیا، جاؤ میں پہلے سوچ لوں۔ جب یہ لوگ رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں واپس آئے تو آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کے کچھ عرض کرنے سے قبل دو مرتبہ فرمایا ، ثعلبہ پر افسوس۔ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی پھر ثعلبہ صدقہ لے کر حاضر ہوا تو سرورِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے قبول فرمانے کی ممانعت فرما دی، وہ اپنے سر پر خاک ڈال کر واپس ہوا۔ پھر اس صدقہ کو خلافت صدیقی میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس لایا انہوں نے بھی اسے قبول نہ فرمایا۔ پھر خلافت فاروقی میں حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس لایا انہوں نے بھی قبول نہ فرمایا اور خلافتِ عثمانی میں یہ شخص ہلاک ہوگیا۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۴۴۶، ملتقطاً)
ثعلبہ کی توبہ کیوں قبول نہ ہوئی:
ثعلبہ کی توبہ اس لئے قبول نہیں ہوئی کہ اس کا توبہ کرنا اور رونا دھونا دل سے نہ تھا بلکہ لوگوں کے درمیان اس کے مردود ہونے کی وجہ سے جو ذلت ہورہی تھی وہ اس سے بچنے کیلئے واویلا کررہا تھا تو چونکہ توبہ صدقِ دل سے نہ تھی اس لئے مقبول نہ ہوئی۔
ثعلبہ کے نام سے متعلق ایک اہم وضاحت:
یہاں ایک وضاحت کردینا مناسب ہے اور وہ یہ کہ تفسیرحدیث اور سیرت کی عام کتب میں اس شخص کا نام ’’ثعلبہ بن حاطب‘‘ لکھا ہو اہے، علامہ ابن حجر عسقلانی اور علامہ ابنِ اثیر جزری کی تحقیق یہ ہے کہ اس شخص کا نام ’’ثعلبہ بن حاطب‘‘ درست نہیں کیونکہ ثعلبہ بن حاطب بدری صحابی ہیں اور وہ جنگ اُحد میں شہید ہو گئے تھے اور بدری صحابہ کے بارے میں قرآن و حدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو ثعلبہ بن حاطب اس آیت کا مِصداق نہیں ہو سکتے نیز جب وہ جنگ ِ احد میں شہید ہوگئے تو وہ اس کے مِصداق ہوہی نہیں سکتے کہ یہ شخص تو زمانۂ عثمانی میں مرا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ آیت میں جس شخص کا واقعہ مذکور ہے وہ ثعلبہ بن حاطب کے علاوہ کوئی اور ہے اور تفسیر ابن مردویہ میں مذکور حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت کے مطابق وہ شخص ’’ثعلبہ بن ابو حاطب‘‘تھا۔ علامہ محمد بن یوسف صالحی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے’’سبل الہدٰی والرشاد‘‘ میں اور علامہ زبیدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اتحاف میں اس تحقیق سے اتفاق کیا ہے۔ اسی طرح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’یہ شخص جس کے باب میں یہ آیت اتری ثعلبہ ابن ابی حاطب ہے اگرچہ یہ بھی قوم اَوس سے تھا اور بعض نے اس کانام بھی ثعلبہ ابن حاطب کہا۔ مگروہ بدری خود زمانۂ اقدس حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں جنگ اُحد میں شہیدہوئے اور یہ منافق زمانۂ خلافت امیرالمومنین عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ میں مرا۔(فتاویٰ رضویہ، فوائد تفسیریہ وعلوم قرآن، ۲۶ / ۴۵۳-۴۵۴)
اور علامہ شریف الحق امجدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’صحیح یہ ہے کہ (وہ شخص) ثعلبہ بن ابی حاطب ہے جیسا کہ خازن اور اصابہ میں ہے۔ ثعلبہ بن حاطب بن عمرو صحابیٔ مخلص تھے جو بدر اور اُحد میں شریک ہوئے اور احد میں شہید ہوئے،اور یہ ثعلبہ بن ابی حاطب خلافت عثمانی میں مرا۔ (فتاوی شارح بخاری، عقائد متعلقہ صحابۂ کرام، ۲ / ۴۳)
{فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ:تو اللہ نے انجام کے طور پر ان کے دلوں میں منافقت ڈال دی۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد شکنی اور وعدہ خلافی سے نفاق پیدا ہوتا ہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ ان باتوں سے اِحتراز کرے اور عہد پورا کرنے اور وعدہ وفا کرنے میں پوری کوشش کرے۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۷، ۶ / ۱۰۸-۱۰۹)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ منافق کی تین نشانیاں ہیں (1) جب بات کرے جھوٹ بولے۔ (2) جب وعدہ کرے خلاف کرے۔ (3) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے ۔ (بخاری،کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق، ۱ / ۲۴،الحدیث: ۳۳)
آیت ’’ فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے مزید 4باتیں یہ معلوم ہوئیں ،
(1)… بعض گناہ کبھی بد عقیدگی تک پہنچا دیتے ہیں۔
(2)… غریبی میں خداعَزَّوَجَلَّ کو یاد کرنا اور امیری میں بھول جانا منافقت کی علامت ہے۔
(3)… آدمی کا ایمان و تقویٰ سے محروم ہو جانا بھی عذاب ِ الٰہی ہے۔
(4)… حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے وعدہ کرنا اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرنا ہے کیونکہ ثعلبہ نے حضو ر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے وعدہ کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدوں سے متعلق مسلمانوں کا حال:
ثعلبہ کے طرزِ عمل کو سامنے رکھ کر ہم اپنے حالات میں غور کریں تو یہ نظر آئے گا کہ ہم میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس مال نہیں یا کہیں سے مال ملنے کی امید ہے تووہ یہ دعا ئیں کرتے ہیں کہ اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، تو ہمیں مال عطا فرما، ہم اس مال کے ذریعے فلاں نیک کام کریں گے ،اس سے فلاں کی مدد کریں گے اور تیرا دیا ہوا مال غریبوں کی بھلائی اور ان کی بہتری میں خرچ کریں گے ۔ اسی طرح بعض لوگ کسی بڑے مالی نقصان ، شدید بیماری یا حادثے سے بچ جانے کے دوران یا بچ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے بہت سے وعدے کرتے ہیں کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو ہماری فلاں مشکل اور پریشانی دور فرما دے اور ہمیں فلاں بیماری یا حادثے کی وجہ سے ہونے والے زخموں سے شفا عطا کردے ، ہم اب کبھی تیری نافرمانی نہیں کریں گے اور تیری فرمانبرداری والے کاموں میں اپنی زندگی بسر کریں گے ،نماز روزے کی پابندی کریں گے، اپنے مالوں کی زکوٰۃ دیں گے، ہم نے جن لوگوں کے حقوق ضائع کئے ہیں وہ پورے کر دیں گے ،خود بھی نیک بنیں گے اور دوسروں کو بھی نیک بنانے کی کوششوں میں مصروف ہوجائیں گے ۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنے کسی قریبی عزیز کے اچانک فوت ہوجانے پر دنیا کے عیش و عشرت اور اس کی رنگینیوں سے دور ہونے اور اپنی قبر و آخرت کی تیاری میں مصروف ہونے کے وعدے کرتے ہیں لیکن جب انہیں مال مل جاتا ہے اور ان پر آنے والی مصیبت ٹل جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں شدید بیماری اور زخمی حالت سے شفا عطا کر دیتا ہے اور قریبی عزیز کے انتقال کو کچھ وقت گزر جاتا ہے تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے سب وعدے بھول جاتے ہیں اور مال ملنے کے بعد اسے نیک کاموں میں خرچ کرنے کا سوچتے نہیں اور غریبوں کو اچھی نظر سے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے اور اپنی سابقہ گناہوں بھری زندگی میں مشغول ہو کر قبر و آخرت کی تیاری سے بالکل غافل ہو جاتے ہیں۔قرآن اس طرزِ عمل کو منافقوں کا طرز ِعمل قرار دیتا ہے اور یقینا یہ ایک سچے مسلمان کا کردار نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت نصیب کرے اور انہیں کامل مسلمان بننے کی توفیق عطا کرے،اٰمین۔
{اَلَمْ یَعْلَمُوْا:کیا انہیں معلوم نہیں تھا ۔} یعنی ان منافقین کو معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ پر کچھ مخفی نہیں ، وہ ان کے دلوں کی بات بھی جانتا ہے اور جو آپس میں وہ ایک دوسرے سے کہیں وہ بھی جانتا ہے اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے تو ان کا حال اللہ تعالیٰ سے کیسے مخفی رہ سکتا تھا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۸، ۲ / ۲۶۵)
{اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ:وہ جو عیب لگاتے ہیں۔} شانِ نزول :جب آیتِ صدقہ نازل ہوئی تو لوگ صدقہ لائے، ان میں بعض بہت زیادہ مال لائے انہیں تو منافقین نے ریا کار کہا اور کوئی تھوڑا سا مال لے کر آیا تو منافقین نے ان کے متعلق کہا: اللہ تعالیٰ کو اس کی کیا پرواہ، (یعنی اتنا تھوڑا دینے کا کیا فائدہ۔) اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ جب رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو صدقہ کی رغبت دلائی تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چار ہزار درہم لائے اور عرض کیا: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرا کل مال آٹھ ہزار درہم تھا چار ہزار تویہ راہِ خدا میں حاضر ہے اور چار ہزار میں نے گھر والوں کے لئے روک لئے ہیں۔ حضورِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جو تم نے دیا اللہ تعالیٰ اس میں برکت فرمائے اور جو روک لیا اس میں بھی برکت فرمائے۔ حضورِاقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ ان کا مال بہت بڑھا یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوئی تو انہوں نے دو بیویا ں چھوڑیں ،انہیں آٹھواں حصہ ملا جس کی مقدار ایک لاکھ ساٹھ ہزار درہم تھی۔ حضرت ابو عقیل انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چار کلو کے قریب کھجوریں لے کر حاضر ہوئے اور انہوں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں عرض کیا کہ’’ میں نے آج رات پانی کھینچنے کی مزدوری کی، اس کی اجرت دو صاع کھجوریں ملیں ، ایک صاع تو میں گھر والوں کے لئے چھوڑ آیا اور ایک صاع راہِ خدا میں حاضر ہے۔ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ صدقہ قبول فرمایا اور اس کی قدر کی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۹، ۲ / ۲۶۵)
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مال کی مقدار نہیں بلکہ دل کا اخلاص دیکھا جاتا ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں مال کی مقدار نہیں دیکھی جاتی بلکہ دلوں کا خلوص دیکھا جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے ۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۴(۲۵۶۴))
آیت’’ اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین چیزیں معلوم ہوئیں۔
(1)… جو لوگ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ہر عبادت کو نفاق یا دکھلاوے پر محمول کرتے ہیں اور صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر طعن کرتے ہیں وہ منافقین ہیں۔
(2)…نیک لوگوں کا نیکی پر مذاق اڑانا منافقین کا کام ہے۔ آج بھی بہت سے مسلمان کہلانے والوں کو فلموں ، ڈراموں سے تو تکلیف نہیں ہوتی البتہ دینی شَعائر پر عمل کرنے، دینی حُلیہ اپنانے، دین کا نام لینے سے تکلیف ہوتی ہے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔
(3)… نیک بندوں کا مذاق اڑانا، انہیں تہمت لگانا، رب تعالیٰ سے مقابلہ کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا بدلہ لیتا ہے۔
{ اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ:(اے حبیب!) تم ان کی مغفرت کی دعا مانگو یا نہ مانگو۔} شانِ نزول: اوپر کی آیتیں جب نازل ہوئیں اور منافقین کا نفاق کھل گیا اور مسلمانوں پر ظاہر ہوگیا تو منافقین سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے معذرت کرکے کہنے لگے کہ آپ ہمارے لئے استغفار کیجئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ہر گز ان کی مغفرت نہ فرمائے گا چاہے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ استغفار میں مبالغہ کریں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۲ / ۲۶۶)
{ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ:یہ اس لیے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا کرتے تھے۔} اس آیت میں منافقوں کو نہ بخشنے کی وجہ بیان فرمائی گئی کہ وہ اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے منکر ہیں اور جو اِن کا منکر ہو اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے لئے اپنی رحمت عامہ کی بنا پردعا بھی کردیں ، تب بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے نہ بخشے گا۔ اِس نہ بخشنے میں حضورپُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی انتہائی عظمت کا اظہار ہے کہ آپ کا منکر جنت میں نہیں جاسکتا۔ معلوم ہوا کہ کافر کو کسی کی دعائے مغفرت فائدہ نہیں دیتی، اس کی بخشش ناممکن ہے۔
{وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ:اور اللہ فاسقوں کوہدایت نہیں دیتا۔} اس سے مراد یہ ہے کہ جو ایمان سے خارج ہوں ، جب تک کہ وہ کفر پر قائم رہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں ہدایت نہیں دیتا۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۴۴۷)اور جوہدایت کاارادہ کرے ، ہدایت اسے ہی ملتی ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ جبراً کسی کو ہدایت نہیں دیتا۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan