Surah An-Naml
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{ طٰسٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے، اس کی مراد اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے۔
{تِلْكَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ: یہ قرآن کی آیتیں ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ یہ سورت قرآن اوراس روشن کتاب کی آیتیں ہیں جو حق اور باطل میں امتیاز کرتی ہے اور جس میں علوم اور حکمتیں امانت رکھی گئی ہیں ۔ یہاں روشن کتاب سے مراد لوحِ محفوظ ہے یا اس سے مراد بھی قرآنِ پاک ہی ہے اور یہ قرآنِ مجید کی صفت ہے۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۱، ص۳۱۷، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۱، ص۸۳۷، ملتقطاً)
{هُدًى وَّ بُشْرٰى: ہدایت اور خوشخبری ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن ان لوگوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہے جو ا س پر ایمان لاتے ہیں ، فرض نمازیں ہمیشہ پڑھتے ہیں اور نمازکی شرائط و آداب اور جملہ حقوق کی حفاظت کرتے ہیں اور جب ان کے مال پر زکوٰۃ فرض ہو جائے تو خوش دلی سے زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔( تفسیرطبری، النمل، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۹ / ۴۹۴، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۳ / ۴۰۱، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۶ / ۳۱۹، ملتقطاً)
{ اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ: بیشک وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے۔} اس سے پہلی آیتوں میں ایمان والوں کے حالات بیان کئے گئے اور ا س آیت سے کافروں کے حالات بیا ن کئے جا رہے ہیں ، چنانچہ ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو آخر ت پر اور قرآن پاک میں قیامت کے دن ملنے والے نیک اعمال کے جو ثواب اور برے اعمال کے جو عذاب بیان کئے گئے ہیں ، ان پر ایمان نہیں لاتے، ہم نے ان کے برے اعمال ان کی نگاہ میں خوشنما بنادئیے ہیں کہ وہ اپنی برائیوں کوخواہشات کی وجہ سے بھلائی جانتے ہیں ، پس وہ اپنی گمراہی میں بھٹک رہے ہیں اور ان کے پاس بصیر ت نہیں جس کے ذریعے وہ اچھائی اور برائی میں امتیاز کر سکیں ۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے دنیا میں قتل اورگرفتاری کا برا عذاب ہے اور یہی آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں کہ ان کا انجام دائمی عذاب ہے۔( ابو سعود ، النمل ، تحت الآیۃ : ۴-۵ ، ۴ / ۱۸۶ ، مدارک ، النمل ، تحت الآیۃ: ۴-۵، ص۸۳۷-۸۳۸، جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۴-۵، ص۳۱۷، ملتقطاً)
{وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ: اور (اے محبوب!) بیشک آپ کو قرآن سکھایا جا تا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی طرف سے قرآن مجید کی آیات نہیں بناتے بلکہ آپ کو اس رب تعالٰی کی طرف سے قرآن سکھایا جاتا ہے جو حکمت والا اور علم والا ہے، لہٰذا کفار کا یہ اعتراض غلط اور باطل ہے کہ آپ اپنی طرف سے قرآن پاک کی آیتیں بناتے ہیں۔(روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۳۲۰، ملخصا)
حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے استاد نہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے استاد نہیں بلکہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالٰی سے سیکھا ہے جبکہ حضر ت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام خادم اور قاصد بن کر تشریف لاتے رہے۔ یہ بھی پتہ لگا کہ حضورِاکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرح قرآن کوئی نہیں سمجھ سکتا کیوں کہ سب لوگ مخلوق سے قرآن سیکھتے ہیں اور حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خالق سے سیکھا۔
{اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖ: جب موسیٰ نے اپنی گھر والی سے کہا۔} یہاں سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ایک واقعہ بیان فرمایا جارہا ہے۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 5 آیات میں بیان کئے گئے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مَدْیَن سے مصر کی طرف جا رہے تھے، دورانِ سفر یوں ہواکہ رات کے وقت کافی اندھیرا اور برف باری ہونے کی وجہ سے سخت سردی تھی،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام راستہ بھی بھول گئے تھے اور اسی رات آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ مطہرہ کودردِ زِہ (یعنی بچے کی ولادت کا درد) بھی شروع ہو گیا۔ اسی حال میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دور سے ایک روشنی ملاحظہ فرمائی۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی گھر والی سے کہا:میں نے ایک آگ دیکھی ہے، تم یہیں ٹھہرو، میں ا س طرف جاتا ہوں اور تھوڑی دیر میں تمہارے پاس راستے کی کوئی خبر لاتا ہوں یا اس میں سے کوئی چمکتی ہوئی چنگاری لے آؤں گا تاکہ تم اس سے گرمی حاصل کرو اور سردی کی تکلیف سے امن پاؤ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس آگ کے پاس آئے تو انہیں ندا کی گئی کہ اُس موسیٰ کوبرکت دی گئی جو اِس آگ کی جگہ میں ہے اور جو اِس آگ کے آس پاس فرشتے ہیں انہیں برکت دی گئی اور اللہ تعالٰی پاک ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔اے موسیٰ !بات یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں جوعزت والا حکمت والاہے اور اپنا عصا زمین پرڈال دو۔چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالٰی کے حکم سے عصا ڈال دیا تو وہ سانپ بن گیا۔جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے لہراتے ہوئے دیکھا توآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خوف کی وجہ سے پیٹھ پھیر کر چلے اور مڑ کر نہ دیکھا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا:اے موسیٰ !ڈرو نہیں ، بیشک میری بارگاہ میں سانپ یا کسی اور چیز سے رسول ڈرتے نہیں ، جب میں انہیں امن دوں تو پھر کسی چیز کا کیا اندیشہ ہے،لیکن جس شخص نے کوئی ز یادتی کی اس کو ڈر ہوگا یہاں تک کہ وہ اس سے توبہ کر لے اور برائی کے بعد اپنے عمل کونیکی سے بدل دے تو بیشک میں بخشنے والا مہربان ہوں ، توبہ قبول فرماتا ہوں اور بخش دیتا ہوں ۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دوسری نشانی دکھائی گئی اور فرمایا گیا’’ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر باہر نکالوتووہ بغیر کسی عیب کے سفید چمکتا ہوا نکلے گا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس وقت صُوف کا جبہ پہنے ہوئے تھے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالا تووہ سورج کی شعاعوں کی طرح چمک رہا تھا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ یہ بھی فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجتے وقت اللہ تعالٰی کی دی ہوئی نو نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، بیشک وہ فرعونی نافرمان لوگ ہیں اور کفر و سرکشی میں حد سے بڑھ چکے ہیں ۔ (خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۷-۱۲، ۳ / ۴۰۱-۴۰۲، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۲، ۶ / ۳۲۴، ملتقطاً)
{یٰمُوْسٰى: اے موسیٰ۔} یاد رہے کہ اس ندا سے اور اِس واقعے سے ولایت و معرفت کے بہت سے اَسرار اَخذ کئے گئے ہیں۔
{ فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ: نو نشانیوں میں سے۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جو نونشانیاں عطا کی گئیں وہ یہ ہیں : (1) عصا۔(2)ید ِبَیضا۔(3) بولنے میں دِقّت جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان مبارک میں تھی پھر اللہ تعالٰی نے اسے دور فرمادیا۔(4) دریاکا پھٹنا اوراس میں رستے بننا۔ (5)طوفان۔(6) ٹڈی۔(7) گُھن۔(8) مینڈک۔(9) خون۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۱۹۴) اس رکوع میں پہلی دو نشانیاں بیان کی گئی ہیں ، جبکہ ان میں سے آخری6 نشانیوں کا مُفَصّل بیان نویں پارے کے چھٹے رکوع میں گزر چکاہے۔
{فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ اٰیٰتُنَا: پھر جب ان کے پاس ہماری نشانیاں آئیں۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب فرعونیوں کے پاس آنکھیں کھول دینے والی اللہ تعالٰی کی نشانیاں یوں آئیں کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعونیوں کے پاس تشریف لا کر ان نشانیوں کو ظاہر فرمایاتو وہ کہنے لگے:ہم جو دیکھ رہے ہیں یہ توکھلا جادو ہے۔ انہوں نے صرف ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان معجزات کاانکار کیا حالانکہ ان کے دل،دماغ ان نشانیوں کا یقین کر چکے تھے اور وہ جانتے تھے کہ بے شک یہ نشانیاں اللہ تعالٰی کی طرف سے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی زبانوں سے انکار کرتے رہے۔تو دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہواکہ وہ لوگ دریا میں غرق کرکے ہلاک کر دیئے گئے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۳ / ۴۰۳، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۶ / ۳۲۴، ملتقطاً)
عذاب یافتہ لوگوں کے انجام سے عبرت ونصیحت حاصل کرنی چاہئے:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہ واقعہ کفارِ قریش کے سامنے بطورِ مثال پیش کر کے ان پر واضح کر دیا گیا کہ جو رب تعالٰی فرعون (اور ا س کی قوم) کو ہلاک کرنے پر قدرت رکھتا ہے وہ ان لوگوں کو بھی ہلاک کرنے پر قادر ہے جو فرعون (اور اس کی قوم) کی رَوِش اختیار کئے ہوئے ہیں ۔اس میں قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لئے بھی نصیحت ہے کیونکہ دشمنوں پر اللہ تعالٰی کا غضب و جلال اسی طرح ہمیشہ کے لئے ہے جس طرح اولیاء پر اس کا کرم و جمال ہر زمانے میں باقی ہے، لہٰذا ہر عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہ دوسروں کے حال اور انجام سے عبرت ونصیحت حاصل کرے اور ان تمام اسباب کو ترک کر دے جو اللہ تعالٰی کے عذاب اور ہلاکت کی طرف لے جانے والے ہیں ۔( روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۴، ۶ / ۳۲۴، ملخصاً)
{ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا: اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو بڑا علم عطا فرمایا۔} یعنی ہم نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قضا اور سیاست کا علم دیا، حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کا اور حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چوپایوں اور پرندوں کی بولی کا علم دیا۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا: تمام تعریفیں اس اللہ تعالٰی کیلئے ہیں جس نے ہمیں نبوت و ملک عطا فرماکر، جن و اِنس اور شَیاطین کو ہمارے لئے مُسَخّر کرکے اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر ہمیں فضیلت بخشی۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۰۳، ابو سعود، النمل، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۱۹۰، ملتقطاً)
علم والوں کو شکر کرنے کی ترغیب:
اس آیت میں اہل ِعلم کے لئے ترغیب ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے انہیں جو علم عطا کیا ا س پر وہ اللہ تعالٰی کا شکر ادا کریں اور عاجزی و اِنکساری کا اظہار کریں اور یہ ذہن بنائیں کہ اگرچہ انہیں کثیر لوگوں پر فضیلت دی گئی ہے لیکن بہت سے بندوں کو ان پر بھی فضیلت حاصل ہے کہ ہر علم والے کے اوپر بڑا علم والا ہے۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ عاجزی فرماتے ہوئے کہتے تھے’’سب لوگ عمر فاروق سے زیادہ فقیہ ہیں ۔( ابو سعود، النمل، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۱۹۰، ملتقطاً)
{وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ: اور سلیمان داؤد کے جانشین بنے۔} یہاں آیت میں نبوت، علم اور ملک میں جانشینی مراد ہے مال کی وراثت مراد نہیں ۔ چنانچہ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں ۔حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نبوت، علم اور ان کے ملک کے وارث بنے۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ملک عطا ہوا اور مزید انہیں ہواؤں اور جِنّات کی تسخیر بھی عطا کی گئی۔( تفسیر بغوی، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۳۵۰)
حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وصال کے بعد علم،نبوت اور ملک صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئے، ان کی باقی اولاد کو نہ ملے۔
اسے یہاں مجازاً میراث سے تعبیر کیا گیا کیونکہ میراث در حقیقت مال میں ہوتی ہے جبکہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روحانی کمالات کا وارث بناتے ہیں ان کے نزدیک مال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔(روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶ / ۳۲۷)
ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : ’’حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے انیس بیٹے تھے، ان میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت اور ملک کے وارث ہوئے، اگر یہاں مال کی وراثت مراد ہوتی تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سب بیٹے اس میں برابر کے شریک ہوتے۔(تفسیرقرطبی، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷ / ۱۲۵، الجزء الثالث عشر)
سر ِدست یہاں تین معتبر تفاسیر کے حوالے سے لکھا گیا جبکہ ان کے علاوہ تفسیر طبری،تفسیر بیضاوی،تفسیر ابو سعود، تفسیر کبیر،تفسیر البحر المحیط اور تفسیر جلالین وغیرہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم، نبوت اور ملک کے وارث ہوئے۔ لہٰذا اس آیت کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے مال کی وارث بنتی ہے۔اس کی مزید صراحت درج ذیل حدیث پاک میں موجود ہے، چنانچہ
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی کو دینارو درہم کا وارث نہ بنایا بلکہ انہوں نے صرف علم کا وارث بنایا تو جس نے علم اختیار کیا اس نے پورا حصہ لیا۔(ترمذی ، کتاب العلم عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ ، ۴ / ۳۱۲ ، الحدیث: ۲۶۹۱)
{وَ قَالَ: اورفرمایا۔} یعنی حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں سے فرمایا: اے لوگو!ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور دنیا و آخرت کی بکثرت نعمتیں ہمیں عطا کی گئی ہیں ،بیشک یہی اللہ تعالٰی کاکھلا فضل ہے۔
حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اللہ تعالٰی کی نعمتیں :
مروی ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالٰی نے زمین کے مشرقوں اور مغربوں کی مملکت عطا فرمائی۔ چالیس سال آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے مالک ر ہے۔ پھر پوری دنیا کی مملکت عطا فرمائی، جن و اِنس، شیطان، پرندے، چوپائے، درندے سب پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی حکومت تھی اور ہر ایک شے کی زبان آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمائی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں عجیب و غریب صنعتیں ایجاد ہوئیں ۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۴۰۴)
{ وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُهٗ : اور سلیمان کے لیے اس کے لشکر جمع کر دئیے گئے۔} اس آیت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے مختلف مقامات سے جنوں ، انسانوں اور پرندوں کے لشکروں کو جمع کر دیا گیا اور اس لشکر کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ان کا انتظام کرنے کے لئے اگلوں کو آگے بڑھنے سے روکا جاتا تاکہ سب جمع ہوجائیں ، اس کے بعد انہیں چلایا جاتا تھا۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے جنّوں اور انسانوں اور پرندوں سے اس کے لشکر جمع کر دئیے گئے تو وہ پہلے ایک جگہ ترتیب سے روکے جاتے تھے پھر انہیں کہیں روانہ کیا جاتا تھا۔ مروی ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لشکر کی جگہ ایک سو فرسخ (یعنی تین سو میل) میں تھی۔ 25 فرسخ (یعنی 75 میل) جنوں کے لئے، 25فرسخ انسانوں کے لئے، 25 فرسخ پرندوں کے لئے اور25 فرسخ وحشی جانوروں کے لئے تھی۔(ابو سعود، النمل، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۱۹۱ - ۱۹۲، ملخصاً) فی زمانہ کی چھاؤنیوں کا سسٹم دیکھ کر یہ بات کوئی بعید نہیں لگتی۔
{حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِ: یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی پر آئے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور چیونٹی کاواقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اپنے لشکروں کے ساتھ طائف یا شام میں اس وادی پر سے گزرے جہاں چیونٹیاں بکثرت تھیں ۔جب چیونٹیوں کی ملکہ نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لشکر کو دیکھا تووہ کہنے لگی:اے چیونٹیو!اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ، کہیں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے لشکر بے خبری میں تمہیں کچل نہ ڈالیں۔ملکہ نے یہ اس لئے کہا کہ وہ جانتی تھی کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی ہیں ، عدل کرنے والے ہیں ، جبر اور زیادتی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان نہیں ہے۔ اس لئے اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لشکر سے چیونٹیاں کچلی جائیں گی تو بے خبری ہی میں کچلی جائیں گی کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ گزرتے ہوئے اس طرف توجہ نہ کریں ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چیونٹی کی یہ بات تین میل سے سن لی اور ہوا ہر شخص کا کلام آپ کی مبارک سماعت تک پہنچاتی تھی جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چیونٹیوں کی وادی کے قریب پہنچے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے لشکر وں کو ٹھہرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے گھروں میں داخل ہوگئیں ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ سفر ہوا پر نہ تھا بلکہ پیدل اور سواریوں پر تھا۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۳۱۸، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۴۰۵، ملتقطاً)
{فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا: تو اس کی بات پر مسکراکر ہنس پڑے۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب ملکہ چیونٹی کی بات سنی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے چیونٹیوں کی حفاظت، ان کی ضروریات کی تدبیر اور چیونٹیوں کو نصیحت کرنے پر تعجب کرتے ہوئے مسکرا کر ہنس پڑے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۸۴۲)
انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہنسنا تَبَسُّم ہی ہوتا ہے:
یاد رہے کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہنسنا تبسم ہی ہوتا ہے وہ حضرات قہقہہ مار کر نہیں ہنستے۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کبھی پورا ہنستے نہ دیکھا حتّٰی کہ میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تالو دیکھ لیتی۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صرف مسکرایا کرتے تھے۔( بخاری، کتاب الادب، باب التبسم والضحک، ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۲)
{وَ قَالَ: اور عرض کی۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالٰی کی نعمتیں ملنے پر ا س کی حمد کرتے ہوئے عرض کی : اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر اداکروں جو تو نے نبوت، ملک اور علم عطا فرما کر مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا اورمجھے توفیق دے کہ میں بقیہ زندگی میں بھی وہ نیک کام کرو ں جس پر تو راضی ہو اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے ان بندوں کے زمرے میں شامل کر جو تیرے خاص قرب کے لائق ہیں ۔ خاص قرب کے لائق بندوں سے مراد اَنبیاء ومُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِکرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ ہیں ۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۴۰۵، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۸۴۲، ملتقطاً)
{وَ تَفَقَّدَ الطَّیْرَ: اور پرندوں کا جائزہ لیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں اسی سفر کے دوران پیش آنے والا ایک اور واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک جگہ پرندوں کا جائزہ لیا تو فرمایا: مجھے کیا ہوا کہ میں ہد ہد کو یہاں نہیں دیکھ رہا یا وہ واقعی غیر حاضروں میں سے ہے۔ میں غیر حاضری کی وجہ سے اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کردوں گا۔ سخت سزا سے مراد اس کے پر اُکھاڑ کر یا اسے اس کے پیاروں سے جدا کرکے یا اس کو اس کے ساتھیوں کا خادم بنا کر یا اُس کو غیر جانوروں کے ساتھ قید کرنے کی صورت میں سزا دینا ہے۔ البتہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید یہ فرمایا کہ ہدہد کو سزا دی جائے گی مگر یہ کہ وہ اپنی غیرحاضری کی کوئی معقول دلیل میرے پاس لائے جس سے اس کی معذوری ظاہر ہو۔(جمل، النمل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۴۳۱، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۲۰-۲۱، ص۸۴۲، ملتقطاً)
حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا پرندوں کا جائزہ لینے اور ہدہد کے بارے میں دریافت کرنے کا ایک سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کسی جگہ پر اترتے تو جن و اِنس اور پرندوں کے لشکر آپ پر سایہ کر دیتے یہاں جب ہد ہد کی جگہ سے انہیں دھوپ پہنچی تو ا س طرف دیکھا،وہاں ہدہد موجود نہیں تھا اس لئے ہد ہد کے بارے میں فرمایا کہ میں ہد ہد کو یہاں نہیں دیکھ رہا۔ دوسرا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہد ہد حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پانی کی جگہ کے بارے میں بتادیتا تھا کیونکہ ا س میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ زمین کے اندر موجود پانی بھی دیکھ لیتا اور پانی کے قریب یا دور ہونے کے بارے میں جان لیتا تھا،جہاں اسے پانی نظر آتا وہ اپنی چونچ سے اس جگہ کو کُریدنا شروع کر دیتا، پھر جنّات آتے اور اس جگہ کو کھود کر پانی نکال لیتے۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب اس جگہ اترے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پانی کی حاجت ہوئی۔لشکر والوں نے پانی تلاش کیا لیکن انہیں نہ ملا۔ہدہد کو دیکھا گیا تاکہ وہ پانی کے بارے میں بتائے لیکن ہدہد یہاں موجود نہ تھا اس لئے آپ نے فرمایا کہ میں ہد ہد کو یہاں موجود نہیں پاتا۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۴۰۶)
یاد رہے کہ ہد ہد کو مَصلحت کے مطابق سزا دینا حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے حلال تھا اور جب پرندے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے مُسَخّر کر دئیے گئے تھے تو تادیب و سیاست ا س تسخیر کا تقاضا ہے کہ اس کے بغیر تسخیر مکمل نہیں ہوتی۔ (مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۸۴۲)
{فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ: تو ہد ہد کچھ زیادہ دیر نہ ٹھہرا۔} ا س آیت اورا س کے بعد والی چار آیات میں اِس واقعے کا جو حصہ بیان ہوا ا س کا خلاصہ یہ ہے کہ ہدہدزیادہ دیر تک غیر حاضر نہ رہا بلکہ جلد ہی حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دربار شریف میں حاضر ہو گیا اور انتہائی ادب،عاجزی اور اِنکساری کے ساتھ معافی طلب کر کے عرض کرنے لگا:میں وہ بات دیکھ کر آیا ہوں جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نہ دیکھی اور میں یمن کے ایک علاقے سبا سے آپ کے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں ۔میں نے وہاں ایک عورت دیکھی جس کا نام بلقیس ہے، وہ لوگوں پر بادشاہی کررہی ہے اور اسے ہر اس چیز میں سے وافر حصہ ملا ہے جو بادشاہوں کے لئے شایان ہوتا ہے اور اس کا ایک بہت بڑا تخت ہے جس کی لمبائی 80 گز، چوڑائی 40گز اور اونچائی30گزہے۔ وہ تخت سونے اور چاندی کا بنا ہوا ہے اور اس میں جواہرات لگے ہوئے ہیں ۔ میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالٰی کی بجائے سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا ہے اور شیطان نے ان کے اعمال ان کی نگاہ میں اچھے بنادئیے اور انہیں سیدھی راہ سے روک دیا ہے، ا س لئے وہ سیدھا راستہ یعنی حق اور دین ِاسلام کا راستہ نہیں پاتے۔ تاکہ وہ اس اللہ کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین میں چھپی ہوئی چیزوں یعنی بارش اور نباتات کو نکالتا ہے اورجو کچھ تم چھپاتے ہو اور جوظاہر کرتے ہو سب کو جانتا ہے۔ اللہ تعالٰی وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ، وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۶، ص۳۱۹، ملخصاً)
خیال رہے کہ ہد ہد کی گفتگو کے آخری حصے کا تعلق ان علوم سے ہے جو اس نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حاصل کئے تھے اور یہاں ہدہد نے اپنے دین کی مضبوطی ظاہر کرنے کے لئے یہ کلام کیا تھا۔( جمل، النمل، تحت الآیۃ: ۲۶، ۵ / ۴۳۶)
{اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ: تا کہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں ۔} اس آیت اوراس کے بعد والی آیت میں سورج کی عبادت کرنے والوں بلکہ ان تمام باطل پرستوں کا رد ہے جو اللہ تعالٰی کے سوا کسی کو بھی پوجیں ۔ مقصود یہ ہے کہ عبادت کا مستحق صر ف وہی ہے جو کائناتِ اَرضی و سَماوی پر قدرت رکھتا ہو اور جمیع معلومات کا عالِم ہو، جو ایسا نہیں وہ کسی طرح عبادت کا مستحق نہیں ۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۴۰۸، ملخصاً)
نوٹ : یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت پڑھنے اور سننے والے پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہو جاتا ہے۔
{قَالَ: فرمایا۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہد ہد سے فرمایا :ہم ابھی دیکھتے ہیں کہ تو سچا ہے یا جھوٹا۔ اس کے بعد حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک مکتوب لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ اللہ کے بندے سلیمان بن داؤد کی جانب سے شہر ِسبا کی ملکہ بلقیس کی طرف۔ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اُس پر سلام جو ہدایت قبول کرے۔ اس کے بعد مُدّعا یہ ہے کہ تم مجھ پر بلندی نہ چاہو اور میری بارگاہ میں اطاعت گزار ہو کر حاضر ہو جاؤ۔اس مکتوب پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی مہر لگائی اور ہدہد سے فرمایا’’میرا یہ فرمان لے جا ؤاور اسے ان کی طرف ڈال دو پھر ان سے الگ ہٹ کر دیکھنا کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔چنانچہ ہد ہد وہ مکتوبِ گرامی لے کر بلقیس کے پاس پہنچا، اس وقت بلقیس کے گرد اس کے اُمرااور وُزراء کا مجمع تھا۔ ہد ہد نے وہ مکتوب بلقیس کی گود میں ڈال دیا۔ ملکہ بلقیس اس مکتوب کو دیکھ کر خوف سے لرز گئی اور پھر اس پر مہر دیکھ کر کہنے لگی: اے سردارو! مجھے ایک معزز خط مَوصول ہوا ہے۔ بلقیس نے اس خط کو عزت والا اس لئے کہا کہ اس پر مہر لگی ہوئی تھی، اس سے اس نے جانا کہ مکتوب بھیجنے والا جلیل القدربادشاہ ہے یا اس لئے عزت والا کہا کہ اس مکتوب کی ابتداء اللہ تعالٰی کے نامِ پاک سے تھی۔ پھر اس نے بتایا کہ وہ مکتوب کس کی طرف سے آیا ہے، چنانچہ اس نے کہا ’’بیشک وہ سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے ہے اورا س کا مضمون یہ ہے کہ اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحمت والاہے۔ میرے حکم کی تعمیل کرو اور تکبر نہ کرو جیسا کہ بعض بادشاہ کیا کرتے ہیں اور میرے پاس فرماں بردارانہ شان سے حاضر ہوجاؤ۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۲۷-۳۱، ۳ / ۴۰۹، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۲۷-۳۱، ص۸۴۴-۸۴۵، جلالین، النمل، تحت الآیۃ:۲۷-۳۱، ص۳۱۹، ملتقطاً)
{قَالَتْ:ملکہ نے کہا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مکتوب کا مضمون سنا کر بلقیس اپنی مملکت کے وزرا ء کی طرف متوجہ ہوئی اور کہا ’’اے سردارو!میرے اس معاملے میں مجھے رائے دو، میں کسی معاملے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک تم میرے پاس حاضر نہ ہو۔سرداروں نے کہا: ہم قوت والے ہیں اور بڑی سخت جنگ لڑ سکتے ہیں ۔ اس سے اُن کی مراد یہ تھی کہ اگر تیری رائے جنگ کی ہو تو ہم لوگ اس کے لئے تیار ہیں کیونکہ ہم بہادر اور شُجاع ہیں ، قوت وتوانائی والے ہیں ، کثیر فوجیں رکھتے ہیں اورجنگ آزما ہیں ۔سرداروں نے مزید کہا کہ صلح یا لڑائی کااختیار توتمہارے ہی پاس ہے،اے ملکہ! تو تم غور کرلو کہ تم کیا حکم دیتی ہو؟ ہم تیری اطاعت کریں گے اور تیرے حکم کے منتظرہیں ۔ اس جواب میں انہوں نے یہ اشارہ کیا کہ اُن کی رائے جنگ کی ہے یا اس جواب سے ان کا مقصدیہ تھا کہ ہم جنگی لوگ ہیں ، رائے اور مشورہ دینا ہمارا کام نہیں ، تم خود صاحب ِعقل اور صاحب ِتدبیر ہو، ہم بہرحال تیری اطاعت کریں گے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۳۲-۳۳، ص۸۴۵، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۳۲-۳۳، ۳ / ۴۰۹-۴۱۰، ملتقطاً)
{قَالَتْ: اس نے کہا۔} جب بلقیس نے دیکھا کہ یہ لوگ جنگ کی طرف مائل ہیں تو اُس نے انہیں اُن کی رائے کی خطا پر آگاہ کیا اور جنگ کے نتائج سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’’ جب بادشاہ کسی بستی میں اپنی قوت اور طاقت سے داخل ہوتے ہیں تواسے تباہ کردیتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو قتل کر کے، قیدی بنا کراور ان کی توہین کر کے انہیں ذلیل کردیتے ہیں یہی بادشاہوں کا طریقہ ہے۔ ملکہ بلقیس چونکہ بادشاہوں کی عادت جانتی تھی اِس لئے اُس نے یہ کہا اور اُس کی مراد یہ تھی کہ جنگ مناسب نہیں ہے، اس میں ملک اور اہلِ ملک کی تباہی و بربادی کا خطرہ ہے۔(مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۸۴۵، ملخصاً)
{وَ اِنِّیْ مُرْسِلَةٌ اِلَیْهِمْ بِهَدِیَّةٍ: اور میں ان کی طرف ایک تحفہ بھیجنے والی ہوں ۔} سرداروں کے سامنے جنگ کے نتائج رکھنے کے بعد ملکہ بلقیس نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا :میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کی طرف ایک تحفہ بھیجنے والی ہوں ، پھر دیکھوں گی کہ ہمارے قاصدکیا جواب لے کر لوٹتے ہیں ؟اس سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ بادشاہ ہیں یا نبی، کیونکہ بادشاہ عزت و احترام کے ساتھ ہدیہ قبول کرتے ہیں ، ا س لئے اگر وہ بادشاہ ہیں تو ہدیہ قبول کرلیں گے اور اگر نبی ہیں تو ہدیہ قبول نہ کریں گے اور اس کے علاوہ اور کسی بات سے راضی نہ ہوں گے کہ ہم اُن کے دین کی پیروی کریں ۔ چنانچہ ملکہ نے اپنے قاصد کو ایک خط دے کر روانہ کیا اور اس کے ساتھ 500 غلام ا ور500 باندیاں بہترین لباس اور زیوروں کے ساتھ آراستہ کرکے سونے سے نقش و نگار کی ہوئی زِینوں پر سوار کرکے بھیجے۔ان کے علاوہ 500 سونے کی اینٹیں ، جواہر ات لگے ہوئے تاج اور مشک وعنبروغیرہ بھی روانہ کئے۔ ہدہد یہ دیکھ کر چل دیااور اس نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس تمام حالات کی خبر پہنچادی۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حکم دیا کہ سونے چاندی کی اینٹیں بنا کر نو فرسنگ (یعنی 27 میل) کے میدان میں بچھادی جائیں اور اس کے اردگرد سونے چاندی سے بلند دیوار بنا دی جائے اور خشکی و تری کے خوب صورت جانور اور جِنّات کے بچے میدان کے دائیں بائیں حاضر کئے جائیں۔(مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۸۴۵- ۸۴۶، جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۳۲۰، ملتقطاً)
{فَلَمَّا جَآءَ سُلَیْمٰنَ: پھر جب قاصدسلیمان کے پاس آیا۔} جب بلقیس کا قاصد تحائف لے کر حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س سے فرمایا: ’’کیا تم مال کے ذریعے میری مدد کرتے ہو؟ اللہ تعالٰی نے جوکچھ مجھے علم، نبوت اور بادشاہت کی صورت میں عطا فرمارکھا ہے وہ اس دُنْیَوی مال و اَسباب سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں دیاہے، بلکہ تم ہی اپنے تحفہ پر خوش ہوتے ہویعنی تم فخر کرنے والے لوگ ہو، مالِ دنیا کی وجہ سے ایک دوسرے پر بڑائی جتاتے ہو اور ایک دوسرے کے تحفے پر خوش ہوتے ہو، مجھے نہ دنیا سے خوشی ہوتی ہے نہ اس کی حاجت، اللہ تعالٰی نے مجھے اِتنا کثیر عطا فرمایا کہ اُتنا اوروں کو نہ دیا اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے دین اور نبوت سے بھی مشرف کیا۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۴۱۱)
{اِرْجِعْ اِلَیْهِمْ: ان لوگوں کی طرف لوٹ جاؤ۔} اب حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے وفد کے امیرمُنذِر بن عمرو سے فرمایا کہ یہ ہدیئے لے کر ان لوگوں کی طرف لوٹ جاؤ، اگر وہ میرے پاس مسلمان ہو کر حاضر نہ ہوئے تو ان کا انجام یہ ہوگا کہ ہم ضرور ان پر ایسے لشکر لائیں گے جن کے مقابلے کی انہیں طاقت نہ ہوگی اور ہم ضرور ان کو شہر ِسبا سے ذلیل کرکے نکال دیں گے اور وہ رسوا ہوں گے۔جب قاصد ہدیئے لے کر بلقیس کے پاس واپس گئے اور تمام واقعات سنائے تو اس نے کہا :بے شک وہ نبی ہیں اور ہمیں اُن سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ۔پھر بلقیس نے اپنا تخت اپنے سات محلوں میں سے سب سے پچھلے محل میں محفوظ کرکے سب د روازوں پر تالے لگوا دئیے اور ان پر پہرہ دار بھی مقرر کردیئے اور حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں حاضر ہونے کا انتظام کرنے لگی تاکہ دیکھے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسے کیا حکم فرماتے ہیں ، چنانچہ وہ ایک بہت بڑالشکر لے کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف روانہ ہوئی۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۴۱۱-۴۱۲، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۸۴۷، ملتقطاً)
{قَالَ: فرمایا۔} جب بلقیس اتناقریب پہنچ گئی کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے صرف ایک فرسنگ (یعنی تین میل) کا فاصلہ رہ گیا تو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: اے درباریو!تم میں سے کون ہے جو ان لوگوں کے میرے پاس فرمانبردار ہوکر آنے سے پہلے بلقیس کا تخت میرے پاس لے آئے۔تخت منگوانے سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مقصود یہ تھا کہ اس کا تخت حاضر کرکے اسے اللہ تعالٰی کی قدرت اور اپنی نبوت پر دلالت کرنے والا معجزہ دکھادیں ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چاہا کہ بلقیس کے آنے سے پہلے اس تخت کی وضع بدل دیں اور اس سے اس کی عقل کا امتحان فرمائیں کہ وہ اپنا تخت پہچان سکتی ہے یا نہیں ۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۴۱۲، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۸۴۷، ملتقطاً)
{قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ: ایک بڑا خبیث جن بولا۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کرایک بڑا طاقتور خبیث جن بولا ’’ میں وہ تخت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں آپ کے اُس مقام سے کھڑے ہونے سے پہلے حاضر کردوں گا جہاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فیصلے کرنے کے لئے تشریف فرما ہیں اور میں بیشک اس تخت کو اٹھانے پر قوت رکھنے والا اورا س میں لگے ہوئے جواہرات وغیرہ پر امانتدار ہوں ۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: میں اس سے جلدی چاہتا ہوں ۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۳۲۰)
مروی ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک مجلس منعقد کرتے تھے جس میں صبح سے لے کر دوپہر تک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مختلف معاملات کے فیصلے فرمایا کرتے تھے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۴۱۲)
{ قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ: اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔} کتاب کا علم رکھنے والے سے مراد حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وزیر حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ، یہ اللہ تعالٰی کا اسمِ اعظم جانتے تھے۔ چنانچہ ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’یہی قول زیادہ صحیح ہے اور جمہور مفسرین کا اسی پر اتفاق ہے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۸۴۷)
ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ انسانوں میں سے ایک شخص تھے اورا ن کا نام حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تھا۔ یہ جمہور مفسرین کا قول ہے۔( البحر المحیط، النمل، تحت الآیۃ: ۴۰، ۷ / ۷۲-۷۳)
ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اکثر مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا ا س سے مراد حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔( تفسیر قرطبی، النمل، تحت الآیۃ: ۴۰، ۷ / ۱۵۶، الجزء الثالث عشر)
اور ابو محمد حسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اکثر مفسرین نے فرمایا کہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تھے۔( تفسیر بغوی، النمل، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۳۵۹)
ان تفاسیر کے علاوہ دیگر معتبر تفاسیر جیسے تفسیر سمرقندی جلد 2 صفحہ 497،تفسیر جلالین صفحہ320، تفسیرصاوی جلد4صفحہ1498، تفسیرروح البیان جلد 6 صفحہ 349 میں راجح اور جمہور مفسرین کا یہی قول لکھا ہے کہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا اُس سے مراد حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وزیر حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔
{اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَ: میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا۔} جب حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں اس تخت کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا تو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’اگر تم نے ایسا کر لیا توتم سب سے زیادہ جلدی ا س تخت کو لانے والے ہو گے۔حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جب اسمِ اعظم کے ذریعے دعا مانگی تو اسی وقت تخت حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے نمودارہو گیا۔( تفسیر سمرقندی، النمل، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۴۹۷)
اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے کرامات ظاہر ہونے کا ثبوت:
اس آیت سے اولیاءِکرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے کرامات کا ظاہر ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ حضرت علامہ یافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے کرامات کا ظاہر ہونا عقلی طورپر ممکن اور نقلی دلائل سے ثابت ہے۔عقلی طور پر ممکن اس لئے ہے کہ ولی سے کرامت ظاہر کردینا اللہ تعالٰی کی قدرت سے محال نہیں بلکہ یہ چیز ممکنات میں سے ہے، جیسے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے معجزات ظاہر کر دینا۔یہ اہلسنّت کے کامل اولیاءِکرام،اصولِ فقہ کے بڑے بڑے علماءِ، فقہاء اور محدثین کا مذہب ہے۔مشرق و مغرب اور عرب و عجم میں ان کی کتابوں میں اس بات کی صراحت موجود ہے۔ پھر اہلسنّت کے جمہور محقق آئمہ کے نزدیک صحیح،ثابت اور مختار قول یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے معجزے کے طور پر جائز ہے وہ اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے کرامت کے طور پر جائز ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ ا س سے نبوت والا چیلنج کرنا مقصود نہ ہو۔ معجزہ اور کرامت میں فرق یہ ہے کہ معجزہ نبی سے صادر ہوتا ہے اور کرامت ولی سے۔معجزے کے ذریعے کفار کو چیلنج کیا جا تا ہے جبکہ ولی کو بغیر ضرورت کرامت ظاہر کرنا منع ہے۔ اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے کرامات ثابت ہونے پرقرآنِ پاک اور بکثرت اَحادیث ِمبارکہ میں دلائل موجود ہیں ۔ قرآن پاک میں موجود حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے پاس بے موسم کے پھل آنے والا واقعہ۔حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے کھجور کے سوکھے ہوئے تنے کو ہلانے پر پکی ہوئی عمدہ اور تازہ کھجوریں گرنے والا واقعہ۔اصحابِ کہف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا غار میں سینکڑوں سال تک سوئے رہنے والا واقعہ اورحضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا پلک جھپکنے سے پہلے تخت لانے والا واقعہ ولی سے کرامات ظاہر ہونے کی دلیل ہے۔اسی طرح صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بے شمار کرامتوں کا ظہور بھی ولی سے کرامت ظاہر ہونے کو ثابت کرتا ہے۔( روض الریاحین، الفصل الثانی فی اثبات کرامات الاولیاء رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم، ص۳۷-۳۸، ملخصاً)
{فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ : پھرجب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوادیکھا۔} یعنی جب حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوادیکھا تو فرمایا: پلک جھپکنے سے پہلے تخت کا میرے پاس آ جانا مجھ پر میرے رب عَزَّوَجَلَّ کے فضل کی وجہ سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں ا س کے انعامات پر شکر کرتا ہوں یا ناشکری؟ اور جو شکر کرے تووہ اپنی ذات کیلئے ہی شکر کرتا ہے کیونکہ اس شکر کا نفع خود اس شکر گزار کو ہی ملے گا اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب عَزَّوَجَلَّ شکر سے بے پرواہ ہے اور ناشکری کرنے والے پر بھی احسان کر کے کرم فرمانے والا ہے۔(ابو سعود، النمل، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۲۰۲، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۸۴۸، ملتقطاً)
خود پسندی کی مذمت اور اللہ تعالٰی کی طرف فضل کو منسوب کرنے کی ترغیب:
یاد رہے کہ بندے کو جو نعمت اورصلاحیت ملے اس پر اسے خود پسندی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس طرح کا اظہار کرنا چاہئے کیونکہ خود پسندی انتہائی مذموم عمل ہے اور اس کی آفات بہت زیادہ ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں کہ اس سے تکبر پیدا ہوتا ہے اور تکبر سے بے شمار آفات جنم لیتی ہیں یونہی خود پسندی کی وجہ سے بندہ اپنے گناہوں کو بھولنے اور انہیں نظر انداز کرنے لگ جاتا ہے جبکہ عبادات اور نیک اعمال کو یاد رکھتا،انہیں بہت بڑ اسمجھتا،ان پر خوش ہوتا اور ان کی بجا آوری کو اندرونِ خانہ غیر شعوری طورپر اللہ تعالٰی پر احسان جانتا ہے۔جوآدمی خود پسندی کا شکار ہوتا ہے تو وہ ا س کی آفات سے اندھا ہو جاتا ہے اور جو شخص اعمال کی آفات سے غافل ہو جائے اس کی زیادہ تر محنت ضائع چلی جاتی ہے کیونکہ ظاہری اعمال جب تک خالص اور (ریاکاری وغیرہ کی) آمیزش سے پاک نہ ہوں تب تک نفع بخش نہیں ہوتے۔ خود پسند آدمی اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر مغرور ہوتا اور اللہ تعالٰی کی خفیہ تدبیر اور ا س کے عذاب سے بے خوف ہوجاتا ہے، لہٰذا نعمت اور صلاحیت ملنے پرخود پسندی سے بچنا چاہئے اور اس نعمت اور صلاحیت کے ملنے کو اللہ تعالٰی کے فضل کی طرف منسوب کرنا چاہئے کہ یہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور نیک بزرگوں کا طریقہ ہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں :ایک مرتبہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس مہمان آیا تو آپ نے اپنی اَزواجِ مُطَہّرات کی طرف کسی کو بھیجا تاکہ وہ ان کے پاس کھانا تلاش کرے لیکن اس نے کسی کے پاس بھی کھانا نہ پایا،اس پر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا مانگی:اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تجھ سے تیرے فضل اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں کیونکہ اس کا مالک تو ہی ہے۔اتنے میں حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھنی ہوئی ایک بکری تحفے کے طور پر پیش کی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ اللہ تعالٰی کے فضل سے ہے اور ہم ا س کی رحمت کے منتظر ہیں ۔( حلیۃ الاولیاء، زبید بن الحارث الایامی، ۵ / ۴۱، الحدیث: ۶۲۴۴)
اسی طرح حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے توحید پر ہونے اور شرک سے محفوظ رہنے کو اللہ تعالٰی کے فضل کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’وَ اتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَآءِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-مَا كَانَ لَنَاۤ اَنْ نُّشْرِكَ بِاللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ-ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَیْنَا وَ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ‘‘(یوسف:۳۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب کے دین ہی کی پیروی کی۔ ہمارے لئے ہرگز جائز نہیں کہ ہم کسی چیز کو اللہ کا شریک ٹھہرائیں ، یہ ہم پراورلوگوں پر اللہ کا ایک فضل ہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔
یونہی ہمارے بزرگانِ دین کا معمول تھا کہ جب وہ کوئی کتاب تصنیف فرماتے تو اس میں آنے والی غلطیوں اور خطاؤں کو اپنی طرف منسوب کرتے جبکہ غلطی اور خطا سے محفوظ رہنے کو اللہ تعالٰی کے فضل کی طرف منسوب کرتے، کوئی ان کا حال پوچھتا تواپنا حال درست ہونے کی نسبت اللہ تعالٰی کے فضل کی طرف کرتے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ کے مُقَرّب بندوں کی پیروی کرتے ہوئے ہر نعمت اور صلاحیت کے ملنے کو اللہ تعالٰی کے فضل کی طرف منسوب کرے اور خود پسندی سے بچے۔اللہ تعالٰی عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan