READ

Surah An-Naml

اَلنَّمْل
93 Ayaat    مکیۃ


27:81
وَ مَاۤ اَنْتَ بِهٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْؕ-اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۸۱)
اور اندھوں کو (ف۱۳۵) گمراہی سے تم ہدایت کرنے والے نہیں، تمہارے سنائے تو وہی سنتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں (ف۱۳۶) اور ہو مسلمان ہیں،

{وَ مَاۤ اَنْتَ بِهٰدِی الْعُمْیِ: اور تم اندھوں  کو ہدایت دینے والے نہیں ۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے اور ا س کے دل کو ایمان سے اندھا کر دیا آپ اسے گمراہی سے نکال کر ہدایت نہیں  دے سکتے ۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۴۱۹)

{اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا: تم تو اسی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیتوں  پر ایمان لاتے ہیں ۔} یعنی آپ صرف انہی کو سنا سکتے ہیں  جن کے پاس سمجھنے والے دل ہیں  اور جو اللہ تعالیٰ کے علم میں  ایمان کی سعادت سے بہرہ اندوز ہونے والے ہیں  اور وہ مخلص مسلمان ہیں ۔( بیضاوی، النمل، تحت الآیۃ: ۸۱، ۴ / ۲۷۸، تفسیر کبیر، النمل، تحت الآیۃ: ۸۱، ۸ / ۵۷۱، تفسیر ابو سعود، النمل، تحت الآیۃ: ۸۱، ۴ / ۲۱۵، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۸۵۶)

27:82
وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْۙ-اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ۠(۸۲)
اور جب بات ان پر آپڑے گی (ف۱۳۷) ہم زمین سے ان کے لیے ایک چوپایہ نکالیں گے (ف۱۳۸) جو لوگوں سے کلام کرے گا (ف۱۳۹) اس لیے کہ لوگ ہماری آیتوں پر ایمان نہ لاتے تھے (ف۱۴۰)

{وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ: اور جب ان پر با ت آپڑے گی۔} مفسرین نے ’’بات آ پڑنے‘‘ کے مختلف معنی بیان کئے ہیں۔ (1) جب کفارپر عذاب آناواجب ہوجائے گا۔ (2) جب ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب (کا وقوع لازم) ہوجائے گا۔ (3)جب ان پر حجت پوری ہو جائے گی۔یہ اس وقت ہو گا جب لوگ نیک کاموں  کی دعوت دینا اور برے کاموں  سے منع کرنا ترک کردیں  گے۔بعض مفسرین کے نزدیک یہ اس وقت ہو گا جب کفار کی اصلاح کی کوئی امید باقی نہ رہے گی اور یہ امید قیامت قائم ہونے سے پہلے آخری زمانے میں  ختم ہوگی۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۴۱۹)

            ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’بات سے مراد وہ ہے جس کا کفار سے وعدہ کیا گیا یعنی قیامت قائم ہونا اور عذاب لازم ہونا اور بات آپڑنے سے مراد اس کا حاصل ہونا ہے ۔آیت سے مراد یہ ہے کہ قیامت قریب ہوجائے گی اوراس کی علامتیں  ظاہر ہونے لگیں  گی اور اس وقت توبہ نفع نہ دے گی۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۲، ص۸۵۶)

{اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ: ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں  گے۔} یعنی جب کفارپر با ت آپڑے گی توہم ان کے لیے زمین سے ایک عجیب و غریب جسم والاجانور نکالیں  گے جو لوگوں  سے فصیح و بلیغ کلام کرے گا اور کہے گا: ’’ہٰذَا مُؤْمِنٌ وَ ہٰذَا کَافِرٌ‘‘ یعنی یہ مومن ہے اور یہ کافر ہے ۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۲، ص۸۵۶)

’’دَآبَّةُ الْاَرْض‘‘ کا تعارف:

            اس جانور کو ’’دَآبَّةُ الْاَرْض‘‘ کہتے ہیں  ۔اس جانورکے بارے میں  صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ یہ عجیب و غریب شکل کا جانور ہوگا ۔ کوہ ِصفا سے برآمد ہو کر تمام شہروں  میں  بہت جلد پھرے گا ۔فصاحت کے ساتھ کلام کرے گا۔ ہر شخص کی پیشانی پر ایک نشان لگائے گا ،ایمانداروں  کی پیشانی پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عصاسے نورانی خط کھینچے گا اورکافر کی پیشانی پر حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی انگوٹھی سے سیاہ مہر لگائے گا۔

{اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ:  اس لیے کہ لوگ ہماری آیتوں  پر یقین نہ کرتے تھے۔} اس آیت کے بارے میں  ایک احتمال یہ ہے کہ یہ کلام ’’دَآبَّۃُ الْاَرْض‘‘ کا ہے۔ اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہو گا کہ وہ جانور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے لوگوں  سے یہ کہے گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہ کرتے تھے۔دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہو گا کہ ہم یہ جانور ا س لئے نکالیں  گے کہ لوگ قرآن پاک پر ایمان نہ لاتے تھے جس میں  مرنے کے بعد زندہ کئے جانے اورحساب و عذاب کا بیان ہے ۔

 

27:83
وَ یَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّنْ یُّكَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ(۸۳)
اور جس دن اٹھائیں گے ہم ہر گروہ میں سے ایک فوج جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتی ہے (ف۱۴۱) تو ان کے اگلے روکے جائیں گے کہ پچھلے ان سے آملیں،

{وَ یَوْمَ نَحْشُرُ: اور جس دن ہم اٹھائیں  گے۔} یہاں  سے قیامت کے بارے میں  بیان فرمایا جا رہا ہے۔اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دن ہم ہر امت میں  سے ایک گروہ کو اٹھائیں  گے جو انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل کردہ ہماری آیتوں  کو جھٹلاتا ہے تو ان کے پہلے لوگوں  کو روکا جائے گا تاکہ ان کے بعد والے ان سے آملیں ، پھر انہیں  حساب کی جگہ کی طرف چلایا جائے گایہاں  تک کہ جب سب حسا ب کی جگہ میں حاضر ہوجائیں  گے تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: کیا تم نے میرے رسولوں  پر نازل کردہ میری آیتوں  کو جھٹلایا تھا حالانکہ تمہارا علم ان تک نہ پہنچا تھا اور تم نے اُن کی معرفت حاصل نہ کی تھی اور بغیر سوچے سمجھے ہی ان آیتوں  کا انکار کردیا۔ جب تم اُن آیتوں  میں  غورو فکر کرنے کے اہم ترین کام میں  مشغول نہ ہوئے توتم کیا کام کرتے تھے ؟ تم بے کار تو نہیں  پیدا کئے گئے تھے ۔( مدارک ، النمل ، تحت الآیۃ: ۸۳-۸۴ ، ص۸۵۷ ، خازن ، النمل ، تحت الآیۃ: ۸۳-۸۴، ۳ / ۴۲۰، تفسیر کبیر، النمل، تحت الآیۃ: ۸۳-۸۴، ۸ / ۵۷۳، ملتقطاً)

27:84
حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْ قَالَ اَكَذَّبْتُمْ بِاٰیٰتِیْ وَ لَمْ تُحِیْطُوْا بِهَا عِلْمًا اَمَّا ذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۸۴)
یہاں تک کہ جب سب حاضر ہولیں گے (ف۱۴۲) فرمائے گا کیا تم نے میری آیتیں جھٹلائیں حالانکہ تمہارا علم ان تک نہ پہنچتا تھا (ف۱۴۳) یا کیا کام کرتے تھے (ف۱۴۴)

27:85
وَ وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ بِمَا ظَلَمُوْا فَهُمْ لَا یَنْطِقُوْنَ(۸۵)
اور بات پڑچکی ان پر (ف۱۴۵) ان کے ظلم کے سبب تو وہ اب کچھ نہیں بولتے (ف۱۴۶)

{وَ وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ: اور ان پر بات واقع ہوچکی۔} یعنی ان کے شرک کے سبب ان پر عذاب ثابت ہو چکا تو وہ اب کچھ نہیں  بولتے کیونکہ اُن کے لئے کوئی حجت اور کوئی گفتگو باقی نہیں  ہے۔ اس آیت کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ کی آیتوں  کو جھٹلانے کی وجہ سے اُن پر عذاب اس طرح چھا جائے گا کہ وہ بول نہ سکیں  گے۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۸۵، ص۳۲۴، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۵، ص۸۵۷، ملتقطاً)

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن کفار پر ایک وقت ایسا آئے گا جب وہ بول نہ سکیں  گے۔
27:86
اَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّیْلَ لِیَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًاؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۸۶)
کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ ہم نے رات بنائی کہ اس میں آرام کریں اور دن کو بنایا سوجھانے والا، بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے کہ ایمان رکھتے ہیں (ف۱۴۷)

{اَلَمْ یَرَوْا: کیا انہوں  نے نہ دیکھا۔} اس آیت میں  مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر دلیل ہے، کیونکہ جو دن کی روشنی کو رات کی تاریکی سے اور رات کی تاریکی کو دن کی روشنی سے بدلنے پر قادر ہے وہ مردے کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ نیز لَیل و نَہار کے اِنقلاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں  لوگوں  کی دُنْیَوی زندگی کا انتظام ہے ۔تو یہ عَبث نہیں  کیا گیا بلکہ اس زندگانی کے اعمال پر عذاب و ثواب کا تَرَتُّب مُقتَضائے حکمت ہے اور جب دنیا دارُالعمل ہے تو ضروری ہے کہ ایک دارِآخرت بھی ہو تاکہ وہاں  کی زندگانی میں  یہاں  کے اعمال کی جزا ملے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۶، ۳ / ۴۲۰، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۸۵۷، ملتقطاً)

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ: اس میں  ان لوگوں  کیلئے ضرور نشانیاں  ہیں  جو ایمان رکھتے ہیں ۔} یعنی رات کو آرام کے لئے اور د ن کو کام کاج کے لئے بنانے میں  ان لوگوں  کیلئے ضرور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں  ہیں  جو ایمان رکھتے ہیں ۔ دن اور رات کے بنانے میں  اگرچہ تمام مخلوق کے لئے نشانیاں  ہیں  لیکن یہاں  ایمان والوں  کا بطورِ خاص اس لئے ذکر فرمایا گیاکہ صرف ایمان والے ہی ان نشانیوں  سے فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔( روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۸۶، ۶ / ۳۷۳، جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۳۲۴، تفسیر کبیر، النمل، تحت الآیۃ: ۸۶، ۸ / ۵۷۳، ملتقطاً)

27:87
وَ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُؕ-وَ كُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِیْنَ(۸۷)
اور جس دن پھونکا جائے گا صُور (ف۱۴۸) تو گھبرائے جائیں گے جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں (ف۱۴۹) مگر جسے خدا چاہے (ف۱۵۰) اور سب اس کے حضور حاضر ہوئے عاجزی کرتے (ف۱۵۱)

{وَ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ: اور جس دن صور میں  پھونکا جائے گا۔} یعنی جس دن اللہ تعالیٰ کی اجازت سے حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام صور میں  پھونکیں  گے تواس کی آواز سن کر زمین و آسمان کے تمام جاندار خوف زدہ ہو جائیں  گے اور اسی خوف کی وجہ سے مر جائیں  گے۔( تفسیر کبیر، النمل، تحت الآیۃ: ۸۷، ۸ / ۵۷۴، جمل، النمل، تحت الآیۃ: ۸۷، ۵ / ۴۷۷، ملتقطاً)

{اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ: مگر وہ جنہیں  اللہ چاہے۔} یعنی جنہیں  اللہ تعالیٰ چاہے گا اور جن کے دل کو اللہ تعالیٰ سکون عطا فرمائے گا انہیں  یہ گھبراہٹ نہ ہوگی۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ یہ لوگ شہداء ہیں  جو اپنی تلواریں  گلوں  میں  حمائل کئے عرش کے گرد حاضر ہوں  گے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’وہ لوگ شہداء ہیں ، اس لئے کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک زندہ ہیں ،انہیں  ا س وقت گھبراہٹ نہ پہنچے گی ۔ ایک قول یہ ہے کہ صور پھونکنے کے بعد حضرت جبریل ،حضرت میکائل ،حضرت اسرافیل اور حضرت عزرائیل عَلَیْہِمُ السَّلَام ہی باقی رہیں  گے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۸۵۷، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۷، ۳ / ۴۲۱، ملتقطاً)

{وَ كُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِیْنَ: اور سب اس کے حضور عاجزی کرتے حاضر ہوں  گے۔} یعنی قیامت کے دن سب لوگ موت کے بعد زندہ کئے جائیں  گے اور حساب کی جگہ میں  اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرتے ہوئے حاضر ہوں  گے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۸۵۷، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۷، ۳ / ۴۲۱، ملتقطاً)

 

27:88
وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِؕ-صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍؕ-اِنَّهٗ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ(۸۸)
اور تو دیکھے گا پہاڑوں کو خیال کرے گا کہ وہ جمے ہوئے ہیں اور وہ چلتے ہوں گے بادل کی چال (ف۱۵۲) یہ کام ہے اللہ کا جس نے حکمت سے بنائی ہر چیز، بیشک اسے خبر ہے تمہارے کاموں کی،

{وَ تَرَى الْجِبَالَ: اور توپہاڑوں  کو دیکھے گا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ صور پھونکنے کے وقت پہاڑ اپنی بڑی جسامت کی وجہ سے دیکھنے میں  تو اپنی جگہ ثابت اورقائم معلوم ہوں  گے اور حقیقت میں  وہ بادلوں  کی طرح انتہائی تیز چلتے ہوں  گے ، جیسا کہ بادل وغیرہ بڑے جسم چلتے توہیں  لیکن حرکت کرتے ہوئے معلوم نہیں ہوتے ،یہاں  تک کہ وہ پہاڑ زمین پر گر کر اس کے برابر ہوجائیں  گے، پھر ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیں  گے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۸۵۸، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۴۲۱، ملتقطاً)

27:89
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَاۚ-وَ هُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَىٕذٍ اٰمِنُوْنَ(۸۹)
جو نیکی لائے (ف۱۵۳) اس کے لیے اس سے بہتر صلہ ہے (ف۱۵۴) اور ان کو اس دن کی گھبراہٹ سے امان ہے (ف۱۵۵)

{مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ: جو نیکی لائے۔} نیکی سے مراد کلمۂ تَوحید کی شہادت ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے مراد عمل میں  اخلاص ہے اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد ہر وہ نیکی ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو نیکی لائے اس کے لیے اس سے بہتر صلہ یعنی جنت اور ثواب ہے اور وہ نیک لوگ قیامت کے دن کی اس گھبراہٹ سے امن و چین میں  ہوں  گے جو عذاب کے خوف کی وجہ سے ہوگی۔یاد رہے کہ یہاں  جس گھبراہٹ کا ذکر ہے وہ اس گھبراہٹ کے علاوہ ہے جس کا اوپر کی آیت میں  ذکر ہوا ہے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۳ / ۴۲۲، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۹، ص۸۵۸، ملتقطاً)

{وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ: اور جو برائی لائے گا۔} یہاں برائی سے مراد شرک ہے ۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شرک لائیں گے وہ اوندھے منہ آگ میں  ڈالے جائیں گے اور جہنم کے خازن اُن سے کہیں  گے’’تمہیں  تمہارے شرک اور گناہوں  ہی کا بدلہ دیا جائے گا۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ /۴۲۲)

27:90
وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِؕ-هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۹۰)
اور جو بدی لائے (ف۱۵۶) تو ان کے منہ اوندھائے گئے آ گ میں (ف۱۵۷) تمہیں کیا بدلہ ملے گا مگر اسی کا جو کرتے تھے (ف۱۵۸)

27:91
اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا وَ لَهٗ كُلُّ شَیْءٍ٘-وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَۙ(۹۱)
مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ پوجوں اس شہر کے رب کو (ف۱۵۹) جس نے اسے حرمت والا کیا ہے (ف۱۶۰) اور سب کچھ اسی کا ہے، اور مجھے حکم ہوا ہے کہ فرمانبرداروں میں ہوں،

{اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ: مجھے تو یہی حکم ہوا ہے۔} قیامت کے ابتدائی واقعات اور قیامت قائم ہونے کے بعد کے چند اَحوال بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ فرمادیجئے : مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں  اس شہر مکہ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کروں  اور اپنی عبادت اس رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ خاص کروں  جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے کہ وہاں  نہ کسی انسان کا خون بہایا جائے، نہ کوئی شکار مارا جائے اورنہ وہاں  کی گھاس کاٹی جائے اور ہر شے حقیقی طور پر اسی کی ملکیت ہے اور اس ملکیت میں  ا س کا کوئی شریک نہیں  اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ فرمانبرداروں  میں  سے رہوں ۔ آیت میں  مکہ مکرمہ کا ذکر اس لئے ہواہے کہ وہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وطن اور وحی نازل ہونے کی جگہ ہے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۴۲۲)

27:92
وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَۚ-فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ(۹۲)
اور یہ کہ قرآن کی تلاوت کروں (ف۱۶۱) تو جس نے راہ پائی اس نے اپنے بھلے کو راہ پائی (ف۱۶۲) اور جو بہکے (ف۱۶۳) تو فرمادو کہ میں تو یہی ڈر سنانے والا ہوں (ف۱۶۴)

{وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ: اور یہ کہ میں  قرآن کی تلاوت کروں ۔} یعنی اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ میں  مخلوقِ خدا کو ایمان کی دعوت دینے کے لئے قرآن کی تلاوت کرتا رہوں  تاکہ اس کے حقائق مجھ پر ظاہر ہوتے رہیں  تو جس نے رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کر کے ہدایت پائی تواس نے اپنی ذات کیلئے ہی ہدایت پائی کیونکہ اس کا نفع اور ثواب وہی پائے گا اور جو گمراہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت نہ کرے اور ایمان نہ لائے تو تم فرمادو کہ میں  توصرف اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈر انے والوں  میں  سے ہوں  اورمیری ذمہ داری اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دینا تھا وہ میں  نے انجام دے دی۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۳۲۵، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۹۲، ۳ / ۴۲۲، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۹۲، ۶ / ۳۷۸، ملتقطاً)

{سَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ: عنقریب وہ تمہیں  اپنی نشانیاں  دکھائے گا۔} ان نشانیوں  سے مراد چاند کا دو ٹکڑے ہونا وغیرہ معجزات اور وہ سزائیں  ہیں جو دنیا میں  آئیں  جیسا کہ بدرمیں کفار کا قتل ہونا، قید ہونا اور فرشتوں  کا انہیں  مارنا۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۸۵۹، جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۳۲۵، ملتقطاً)

27:93
وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ سَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَاؕ-وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۠(۹۳)
اور فرماؤ کہ سب خوبیاں اللہ کے لیے عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا تو انہیں پہچان لو گے (ف۱۶۵) اور اے محبوب! تمہارا رب غافل نہیں، اے لوگو! تمہارے اعمال سے،

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلنَّمْل
اَلنَّمْل
  00:00



Download

اَلنَّمْل
اَلنَّمْل
  00:00



Download