Surah An-Naml
{قَالَ: حضرت سلیمان نے حکم دیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تخت آ جانے کے بعد حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے خادموں کوحکم دیا کہ اس ملکہ کیلئے اس کے تخت کی شکل و صورت کو تبدیل کردوتا کہ ہم دیکھیں کہ وہ اپنے تخت کو دیکھنے کے بعد اسے پہچان پاتی ہے یا نہیں ۔ جب ملکہ بلقیس حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آئی تواس وقت تخت حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے موجودتھا۔ملکہ سے کہا گیا: کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ اس نے جواب دیا:گویا یہ وہی ہے۔ اس جواب سے بلقیس کی عقل کا کمال معلوم ہوا۔پھر ملکہ سے کہا گیا کہ یہ تیرا ہی تخت ہے۔ تمہیں دروازے بند کرنے،انہیں تالے لگانے اور پہرے دار مقرر کرنے سے کیا فائدہ ہوا؟ پھر ملکہ بلقیس نے اطاعت قبول کرتے ہوئے کہا: ’’ہمیں اللہ تعالٰی کی قدرت اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت صحیح ہونے کی خبر اس واقعہ سے پہلے ہد ہد کے واقعہ سے اور وفد کے امیر سے مل چکی ہے اور ہم نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کی۔‘‘( روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ۶ / ۳۵۲، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ۳ / ۴۱۳، ملتقطاً)
{وَ صَدَّهَا: اور اسے روکا۔} یعنی بلقیس کو اللہ تعالٰی کی عبادت کرنے اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرنے سے یا اسلام قبول کرنے کی طرف سبقت کرنے سے سورج کی پوجا نے روک رکھا تھااوربلقیس کا تعلق اس قوم سے تھا جو سورج کی پجاری تھی اور وہ چونکہ انہیں میں پلی بڑھی تھی اس لئے اسے صرف سورج کی عبادت کرنا ہی آتاتھا۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۴۱۳، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۸۴۸، ملتقطاً)
{قِیْلَ لَهَا: اس سے کہا گیا۔} تخت میں تبدیلی کر کے ملکہ بلقیس کی عقل کا امتحان لینے کے بعد ا س سے کہا گیا کہ تم صحن میں آ جاؤ۔وہ صحن شفاف شیشے کا بنا ہوا تھا اوراس کے نیچے پانی جاری تھاجس میں مچھلیاں تیر رہی تھیں اور اس صحن کے وسط میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تخت تھا جس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جلوہ افروز ہو چکے تھے۔ جب ملکہ نے اُس صحن کو دیکھا تو وہ سمجھی کہ یہ گہرا پانی ہے، اس لئے اس نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اونچا کر لیا تاکہ پانی میں چل کر حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں حاضر ہو سکے۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے فرمایا: ’’یہ پانی نہیں بلکہ یہ تو شیشوں سے جڑا ہوا ایک ملائم صحن ہے۔ یہ سن کر بلقیس نے اپنی پنڈلیاں چھپالیں اور یہ عجوبہ دیکھ کر اسے بہت تعجب ہوا اور اس نے یقین کر لیا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ملک اورحکومت اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور ان عجائبات سے بلقیس نے اللہ تعالٰی کی توحید اور حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت پر اِستدلال کیا ہے۔اب حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں نے تیری عبادت کی بجائے سورج کی عبادت کر کے اپنی جان پر ظلم کیا اور اب میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ اس اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حضور گردن رکھتی ہوں جو سارے جہان کا رب ہے۔ چنانچہ ملکہ بلقیس نے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالٰی کی وحدا نیت کا اقرار کرکے اسلام قبول کرلیا اور صرف اللہ تعالٰی کی عبادت کرنے کواختیار کیا۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۴۱۳-۴۱۴، ملخصاً)
آیت میں بیان کردہ واقعے سے یہ سمجھانا بھی مقصود ہوسکتا ہے کہ اَشیاء جیسے نظر آ ئیں حقیقت میں ویسے ہونا ضروری نہیں لہٰذا سورج کی پوجا کو ملکہ بلقیس جیسے درست سمجھتی آرہی تھی وہ حقیقت میں ویسی درست نہیں بلکہ مکمل طور پر خلاف ِ حقیقت و خلافِ حق تھی۔
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا: اور بیشک ہم نے بھیجا۔} یہاں سے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم ثمود کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے اوراس واقعے کی بعض تفصیلات اس سے پہلے سورۂ اَعراف، آیت نمبر73تا79،سورۂ ہود، آیت نمبر 61 تا 68،سورۂ شعراء، آیت نمبر141تا159میں گزر چکی ہیں ۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے قومِ ثمود کی طرف ان کے ہم قوم حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ پیغام دے کر بھیجاکہ اے لوگو! تم اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ تو وہ اسی وقت جھگڑا کرتے ہوئے دو گروہ بن گئے۔ایک گروہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آیا اورایک گروہ نے ایمان لانے سے انکار کر دیا اوران میں سے ہر گروہ اپنے آپ کوہی حق پر کہتا تھا۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۸۴۹، ملخصاً)
{قَالَ: صا لح نے فرمایا۔} جب کافر گروہ نے کہا کہ اے صالح! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اگر تم رسولوں میں سے ہو تو ہمیں جس عذاب کا وعدہ دے رہے ہو اسے لے آ ؤ۔ اس پر حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’عافیت اور رحمت سے پہلے مصیبت اور عذاب کی جلدی کیوں کرتے ہو؟ تم عذاب نازل ہونے سے پہلے اپنے کفر سے توبہ کرکے اور ایمان لا کر اللہ تعالٰی سے بخشش کیوں نہیں مانگتے ؟ہوسکتا ہے کہ تم پر رحم کیا جائے اور دنیا میں عذاب نہ کیا جائے۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۱۴-۴۱۵، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۸۴۹، ملتقطاً)
{قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ: انہوں نے کہا:ہم نے تم سے برا شگون لیا۔} جب حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تو ان لوگوں نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا۔اس کی وجہ سے بارش رک گئی، یوں وہ لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے اور بھوکے مرنے لگے۔ ان مصائب کو انہوں نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تشریف آوری کی طرف منسوب کیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آمد کو بدشگونی سمجھتے ہوئے کہاکہ (مَعَاذَاللہ) ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔(جلالین مع صاوی، النمل، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۱۵۰۲، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۸۴۹-۸۵۰، ملتقطاً)
{قَالَ طٰٓىٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ: فرمایا: تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے۔} قومِ ثمود کے بدشگونی لینے پر حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ تمہیں جو بھلائی اور برائی پہنچتی ہے وہ اللہ تعالٰی کے حکم سے ہے اور وہ تمہاری تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: (آیت میں ذکر کئے گئے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قول کا معنی یہ ہے کہ) تمہارے پاس جو بدشگونی آئی یہ تمہارے کفر کے سبب اللہ تعالٰی کی طرف سے آئی ہے۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۴۱۵)
بدشگونی لینے کی مذمت:
یاد رہے کہ بندے کو پہنچنے والی مصیبتیں اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہیں ، جیساکہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
’’مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَاؕ-اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ‘‘(حدید:۲۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: زمین میں اور تمہاری جانوں میں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ ہمارے اسے پیدا کرنے سے پہلے (ہی) ایک کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے بیشک یہ اللہ پر آسان ہے۔
اور کوئی مصیبت اللہ تعالٰی کے حکم کے بغیر نہیں آتی،جیسا کہ فرمانِ باری تعالٰی ہے:
’’مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘(تغابن:۱۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: ہر مصیبت اللہ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے۔
اور مصیبتیں آنے کا عمومی سبب بندے کے اپنے برے اعمال ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ‘‘(شوریٰ:۳۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔
اور جب ایسا ہے تو کسی چیز سے بد شگونی لینا اور اپنے اوپر آنے والی مصیبت کو اس کی نحوست جاننا درست نہیں اور کسی مسلمان کو تو یہ بات زیب ہی نہیں دیتی کہ وہ کسی چیز سے بد شگونی لے کیونکہ یہ تو مشرکوں کا ساکام ہے جیساکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین بار ارشاد فرمایا کہ بد شگونی شرک (یعنی مشرکوں کا سا کام) ہے اور ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ،اللہ تعالٰی اسے توکُّل کے ذریعے دور کر دیتا ہے۔(ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الطیرۃ، ۴ / ۲۳، الحدیث: ۳۹۱۰)
اوپر بیان کردہ درس سے ان لوگوں کوعبرت حاصل کرنی چاہیے جو مصیبتوں اور پریشانیوں کو دوسروں کی نحوست قرار دیتے ہیں جیسے بالفرض اگر شادی کے بعد گھر میں مسائل و مصائب شروع ہوجائیں تو سارا الزام دلہن کے سر ڈال دیا جاتا ہے کہ جب سے یہ منحوس گھر میں آئی ہے تب سے مصیبتوں نے ہمارے گھر کا رستہ دیکھ لیا ہے، وغیرہ۔ اس طرح کی بدشگونی سخت ممنوع اور ایسی دل آزاری سخت حرام ہے۔
بد شگونی کا بہترین علاج:
یہاں معاشرے میں رائج بد فالیوں اور بد شگونیوں کا ایک بہترین علاج ذکر کیا جاتا ہے، چنانچہ حضرت عروہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس شگون کا ذکر کیا گیا تو فرمایا: ’’اس میں (نیک) فال اچھی چیز ہے۔ اور مسلمان کو کسی کام سے نہ روکے تو جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تویوں کہے: ’’اَللّٰہُمَّ لَا یَاْتِیْ بِالْحَسَنَاتِ اِلَّا اَنْتَ وَلَا یَدْفَعُ السَّیِّئَاتِ اِلَّا اَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ‘‘ یعنی اے اللہ! تیرے سوا کوئی بھلائیاں نہیں لاتا اور تیرے سوا کوئی برائیاں دور نہیں کرتا،نہ ہم میں طاقت ہے اور نہ قوت مگر تیری توفیق کے ساتھ۔(ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الطیرۃ، ۴ / ۲۵، الحدیث: ۳۹۱۹)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’یہ عمل بہت ہی مُجرّب ہے، اِنْ شَآءَاللہ اس دعا کی برکت سے کوئی بری چیز اثر نہیں کرتی۔( مراٰۃ المناجیح، فال اور بدفالی لینے کا بیان، تیسری فصل، ۶ / ۲۲۲، تحت الحدیث: ۴۳۸۷)
{بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ: بلکہ تم ایک قوم ہو۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم ایسی قوم ہوجنہیں آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ تم ایسی قوم ہو جو اپنے گناہوں کے باعث عذاب میں مبتلا ہوئی ہے۔(مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۸۵۰)
{وَ كَانَ فِی الْمَدِیْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ: اورشہر میں نو شخص تھے۔} یہاں شہر سے مراد قومِ ثمود کا شہر ہے جس کا نام حِجْر تھا۔ اس قوم کے شریف زادوں میں سے نو شخص تھے جو زمین میں اللہ تعالٰی کی نافرمانی کر کے فساد کرتے تھے اور اللہ تعالٰی کی اطاعت کر کے اپنی اصلاح نہ کرتے تھے۔ان کا سردار قدار بن سالف تھا اوریہی وہ لوگ ہیں جوحضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنی کے پاؤں کی رگیں کاٹنے پر متفق ہوئے تھے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۴۱۵، ملخصاً)
{قَالُوْا: انہوں نے کہا۔} جب ان لوگوں نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنی کے پاؤں کی رگیں کاٹ دیں تو حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں اللہ تعالٰی کے عذاب کے بارے میں بتایا اور اس عذاب کی علامت بھی بیان کر دی۔ اس کے بعد ان نو اَشخاص نے آپس میں اللہ تعالٰی کی قسمیں کھا کر کہا کہ ہم ضرور رات کے وقت چھاپا مار کر حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اُن کی اولاد اور ا ن پر ایمان لانے والوں کو قتل کردیں گے، پھر ان کے اس وارث سے جسے ان کے خون کا بدلہ طلب کرنے کا حق ہوگا کہیں گے کہ اس گھر والوں کے قتل کے وقت ہم حاضر نہ تھے ا س لئے ہمیں معلوم نہیں کہ انہیں کس نے قتل کیا ہے اور بیشک ہم اپنی بات میں سچے ہیں ۔( روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۴۹، ۶ / ۳۵۷، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۸۵۰، ملتقطاً)
{وَ مَكَرُوْا: او رانہوں نے سازش کی۔} یعنی ان لوگوں نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے گھر والوں پر شب خون مارنے کی سازش تیار کی اور ہم نے ان کی سازش کی سزا یہ دی کہ ان کے عذاب میں جلدی فرمائی اور وہ ہماری خفیہ تدبیر سے غافل رہے۔ (خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۴۱۵)اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی اپنے خاص بندوں کا حافظ وناصر ہے اور انہیں لوگوں کے خفیہ شر سے بچا تا ہے۔
{اَنَّا دَمَّرْنٰهُمْ: ہم نے انہیں ہلاک کردیا۔} یعنی ہم نے ان نو شخصوں کو ہلاک کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے اس رات حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مکان کی حفاظت کے لئے فرشتے بھیج دیئے۔ جب وہ نو شخص ہتھیار باندھ کر اور تلواریں کھینچ کر حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دروازے پر آئے تو فرشتوں نے انہیں پتھر مارے۔ وہ پتھر ان لوگوں کو لگتے تھے لیکن مارنے والے نظر نہ آتے تھے۔ اس طرح ان نو کو ہلاک کیا اور ان کے علاوہ ساری قوم کو اللہ تعالٰی نے ہَولناک آواز سے ہلاک کردیا۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۴۱۵)
{فَتِلْكَ بُیُوْتُهُمْ خَاوِیَةً: تو یہ ان کے گھر ویران پڑے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ قومِ ثمودکی ہلاکت کے بعدان کے گھر ویران پڑے ہیں اور اب ان گھروں میں اس قوم کا کوئی شخص بھی موجود نہیں اور ان کا یہ انجام اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کر کے اور اس کے رسول کو جھٹلا کر اپنی جانوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے ہوا اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کے سامنے قومِ ثمود کاجو واقعہ بیان فرمایااس میں ان لوگوں کے لئے عبرت کی نشانی موجود ہے جو علم رکھتے ہیں ، لہٰذا اگر آپ کی قوم کے کفار آپ کو جھٹلانے سے باز نہ آئے تو ان کا انجام بھی قومِ ثمود جیسا ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ ان کے حق میں کسی طرح بہتر نہ ہوگا۔( تفسیر طبری، النمل، تحت الآیۃ: ۵۲، ۹ / ۵۳۴، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۵۲، ۶ / ۳۵۷-۳۵۸، ملتقطاً)
{وَ اَنْجَیْنَا: اور ہم نے بچالیا۔} یعنی جو لوگ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے اور وہ کفر وشرک اور گناہوں سے بچتے اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کرنے سے ڈرتے تھے ہم نے ا نہیں عذاب سے بچا لیا۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۸۵۱، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۵۳، ۶ / ۳۵۸، ملتقطاً)
{وَ لُوْطًا: اور لوط کو۔} یہاں سے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ آیت میں ذکر کئے گئے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قول کا ایک معنی یہ ہے کہ کیا تم بدکاری پر اتر آئے ہو حالانکہ تم اس فعل کی قباحت جانتے ہو۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ کیا تم بے حیائی پر اتر آئے ہو اور تم ایک دوسرے کے سامنے بے پردہ ہو کراعلانیہ بدفعلی کا اِرتکاب کرتے ہو۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ تم اپنے سے پہلے نافرمانی کرنے والوں کی تباہی اور اُن کے عذاب کے آثار دیکھتے ہو پھر بھی اس بدعملی میں مبتلا ہو۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۸۵۱، ملخصاً)
نوٹ:حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کی بعض تفصیلات سورۂ اَعراف،آیت نمبر 80تا84 اور سورۂ ہود،آیت نمبر77تا83 میں گزر چکی ہیں ۔
{اَىٕنَّكُمْ: کیا تم۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید فرمایا کہ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کرمردوں کے پاس شہوت پوری کرنے کیلئے جاتے ہو حالانکہ مردوں کے فطرتی تقاضے کی تسکین کے لئے عورتیں بنائی گئی ہیں ، مردوں کے لئے مرد اور عورتوں کے لئے عورتیں نہیں بنائی گئیں ، لہٰذا یہ فعل حکمت ِالٰہی کی مخالفت ہے، بلکہ تم جاہل لوگ ہو جو ایسا کام کرتے ہو اور تمہیں اپنے اس فعل کے برے انجام کا اندازہ نہیں ۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۸۵۱، ملخصاً)
فطرت سے بغاوت کا نتیجہ:
یاد رہے کہ مردوں کے فطرتی تقاضے یعنی شرمگاہ کی شہوت پوری کرنے کادرست ذریعہ عورت ہے اور اس میں بھی کھلی چھٹی نہیں کہ جب اور جس عورت سے دل چاہا اس سے اپنی شہوت پوری کر لی بلکہ اس میں شریعت نے ایک حد مقرر کی ہے اور کچھ اصول و قوانین نافذ فرمائے ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے بندہ عورت سے اپنا فطرتی تقاضا پورا کر سکتا ہے اور فی زمانہ شرعی نکاح کے علاوہ عورت سے فائدہ اٹھانے کی کوئی صورت نہیں ، اور شرعی نکاح کر کے اپنی بیوی سے جائز طریقے کے ساتھ فطرتی تقاضا پورا کرنا انسانی فطرت کے عین مطابق اور بے شمار فوائد کا حامل ہے، جیسے انسانوں کی تعداد میں درست طریقے سے اضافہ ہونا، خاندانی نظام قائم ہونا، معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کا خاتمہ ہو کر ایک پاکیزہ معاشرے کا ترتیب پانا وغیرہ اور جب سے لوگوں نے اپنی فطرت سے بغاوت کرتے ہوئے معاشرے میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینا شروع کیا، مردوں کو مردوں اور عورتوں سے بد فعلی کرنے کی طرف مُنَظّم طریقے سے مائل کیا، فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو عام کیا، عورتوں میں پردے کی ذہنیت کوختم کر کے آزاد رَوِش اور روشن خیالی کی سوچ کو پیدا کیا،بد فعلی اور زناکاری کو آسان سے آسان تر کیا حتّٰی کہ بچوں کو اس کی باقاعدہ تربیت دینے کانظام قائم کیا تب سے ان لوگوں کا حال جانوروں سے بھی بدتر ہوتا جا رہا ہے اور یہ لوگ انتہائی خطرناک مسائل اور مُہلِک اَمراض سے دوچار ہونے کے بعد اب اس بات پر مجبور ہو چکے ہیں کہ وہ فطرت سے بغاوت ختم کر دیں اور اپنے معاشرے میں اس نظام کو رائج کریں جو فطرت کے مطابق ہے۔اے کاش! مسلمان بھی ہوش کے ناخن لیں اور یہ بھی اپنی فطرت سے بغاوت نہ کریں اور جو بغاوت کر چکے وہ اس سے باز آجائیں ۔ اللہ تعالٰی انہیں ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔
{اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ: بیشک یہ ایسے لوگ ہیں جو بڑے پاک صاف بنتے ہیں ۔} قومِ لوط کا یہ قول بدباطنی کی انتہا ہے کہ اپنی خبیث حرکتوں کو برا سمجھنے اور ان سے باز آنے کی بجائے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے ساتھیوں کا مذاق اُڑا رہے ہیں کہ یہ بڑے پاکباز بنتے پھرتے ہیں ۔ ہمارا معاشرہ بھی ایسی کئی شَناعتوں کا مرتکب ہوچکا ہے کہ یہاں فُساق و فُجار تو اپنے اَفعال پر فخر کرتے ہیں جبکہ مذہب، مذہبی لوگوں اور ان کے مذہبی افعال کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
{قُلْ: تم کہو۔} یہاں حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خطاب فرمایا گیا کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ پچھلی امتوں کی ہلاکت پر اللہ تعالٰی کی حمد بجالائیں اور اللہ تعالٰی کے چنے ہوئے بندوں پر سلام بھیجیں ۔ چنے ہوئے بندوں سے مراد اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ چنے ہوئے بندوں سے حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ مراد ہیں ۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۸۵۱-۸۵۲، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۴۱۶، ملتقطاً)
{ ﰰللّٰهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَ: کیا اللہ بہتریا ان کے خود ساختہ شریک ؟} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کیا اللہ تعالٰی کی عبادت کرنے والے کے لئے اللہ تعالٰی بہتر ہے یا بتوں کے عبادت کرنے والے کے لئے بت بہتر ہیں ۔ بے شک جو اللہ تعالٰی پر ایمان لایا اور اس نے خاص اللہ تعالٰی کی عبادت کی تو اس کے لئے اللہ تعالٰی بہتر ہے کیونکہ وہ انہیں عذاب اور ہلاکت سے بچا تا ہے جبکہ عذاب نازل ہونے کے وقت بت اپنے عبادت گزاروں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ (خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۴۱۶)اس لئے بتوں کو پوجنا اور معبود ماننا انتہائی بے جا ہے۔
{اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ: یا وہ بہتر ہے جس نے آسمان و زمین بنائے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 5آیات کی ابتداء میں مذکور لفظ ’’اَمْ‘‘ کے بارے میں مفسرین کاایک قول یہ ہے کہ یہاں ’’اَمْ‘‘ متصلہ ہے اوردوسرا قول یہ ہے کہ یہاں ’’اَمْ‘‘ منقطعہ ہے۔ پہلے قول کے اعتبار سے آیت کے ابتدائی لفظ ’’اَمَّنْ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ کیا بت بہتر ہیں یا وہ خداجس نے۔۔۔۔۔۔ دوسرے قول کے اعتبار سے اس کا معنی یہ ہے کہ مشرکین جنہیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ ہر گز بہتر نہیں بلکہ وہ بہتر ہے جس نے آسمان اور زمین جیسی عظیم اور عجیب مخلوق بنائی اور تمہارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی اتارا اور اللہ تعالیٰ نے ہی اس پانی سے جدا جدا رنگوں ،ذائقوں اور شکلوں والے پھلوں وغیرہ کے باغات اگائے۔ تم اگرچہ ظاہری طور پر بیج بوتے ہو، ٹہنیاں لگاتے ہو اور ان باغات کوپانی سے سیراب کرتے ہو لیکن اس کےباوجودان درختوں کو اگاناتمہارے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ ان درختوں کے اگنے اورا ن کی نَشوونُما کے لئے اللہ تعالیٰ نے باقاعدہ جو نظام قائم فرمایا ہے، اگر وہ نظام نہ ہوتا تو درخت کس طرح اگتے۔ کیا قدرت کے یہ دلائل دیکھ کر ایسا کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ ہر گز ایسا نہیں کہا جا سکتا،وہ واحد ہے، اس کے سوا اورکوئی معبود نہیں ،جبکہ مشرکین ایسے لوگ ہیں جن کی عادت راہ ِحق یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے کترانا اور راہِ باطل یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کو اختیار کرنا ہے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ:۶۰،۳ / ۴۱۶، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ:۶۰،۶ / ۳۶۰، مدارک، النمل، تحت الآیۃ:۶۰، ص۸۵۲، صاوی، النمل، تحت الآیۃ: ۶۰، ۴ / ۱۵۰۶، ملتقطاً)
{اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا: یا وہ بہتر ہے جس نے رہائش کیلئے زمین بنائی۔} آیت کے ابتدائی لفظ ’’اَمَّنْ‘‘ کا ایک معنی یہ ہے کہ کیا بت بہتر ہیں یا وہ جس نے۔۔۔۔۔۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ مشرکین جنہیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ ہر گز بہتر نہیں بلکہ وہ بہتر ہے جس نے زمین کو پھیلا کر ہموار کر کے اوراسے سختی اور نرمی کے درمیان مُتَوَسِّط بناکر،سورج کی شعاعوں کو جذب کرنے کی صلاحیت دے کراسے رہائش کے قابل بنایا اورزمین کے درمیان میں نہریں بنائیں جن میں پانی جاری ہے اور زمین کیلئے وزنی پہاڑوں کے لنگر بنائے جو اُسے جنبش کرنے سے روکتے ہیں اور کھاری اور میٹھے دوسمندروں کے درمیان آڑ رکھی تا کہ ایک کا پانی دوسرے میں داخل نہ ہو۔ ذرا غور کرکے بتاؤ تو سہی کہ کیا کسی انسان، سورج، چاند، درخت، پتھر یاآگ میں سے کوئی اس بات پر قادر ہے کہ وہ زمین میں ان خصوصیات اور ان نعمتوں کو پیدا کر سکے۔جب اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور ان خصوصیات اور نعمتوں کو پیدا کر ہی نہیں سکتا تو تم صرف اسی کی عبادت کیوں نہیں کرتے ؟اصل معاملہ یہ ہے کہ ان میں اکثر لوگ جاہل ہیں جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی توحید اور اس کی قدرت و اختیار کو نہیں جانتے اور اس پر ایمان نہیں لاتے۔(تفسیرکبیر ، النمل ، تحت الآیۃ : ۶۱، ۸ / ۵۶۴، خازن، النمل،تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۴۱۷، قرطبی، النمل، تحت الآیۃ: ۶۱، ۷ / ۱۶۹، الجزء الثالث عشر، ملتقطًا)
اللہ تعالیٰ کی معرفت کا بہت بڑ اذریعہ:
اس سے معلوم ہوا کہ پودوں ، سمندروں اور دریاؤں کے بارے میں علم، اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے،لہٰذا جو لوگ ان چیزوں کا علم رکھتے ہیں وہ دلائل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قدرت،اس کے اکیلا معبود اور یکتا خالق ہونے کے بارے میں جان سکتے ہیں ۔
{اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ: یا وہ بہتر جو مجبور کی فریاد سنتا ہے۔ } آیت کے ابتدائی لفظ ’’اَمَّنْ‘‘ کا ایک معنی یہ ہے کہ کیا بت بہتر ہیں یا وہ جو۔۔۔۔۔۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ مشرکین جنہیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ ہر گز بہتر نہیں بلکہ وہ بہتر ہے جو مجبور و لاچار کے پکارنے پر ا س کی فریاد سنتا اورا س کی حاجت روائی فرماتا ہے اوراس سے برائی ٹال دیتا ہے، کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور ا س بات پر قادر ہی نہیں کہ وہ فقر دور کر کے مال و دولت عطا کر دے،بیماری ختم کر کے صحت دیدے اور شدت وسختی کی حالت کو آسانی میں بدل دے اور وہ تمہیں پہلے لوگوں کی زمینوں کا وارث بناتا ہے، تم ان میں تَصَرُّف کرتے ہو اور تمہارے بعد والے تمہاری زمینوں کے وارث ہوں گے اور وہ ان میں تصرف کریں گے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اورمعبود ہے جو تمام مخلوق کو ایسی عظیم نعمتیں عطا کرے ؟ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت اورا س کی آسان ترین حجتوں سے بہت ہی کم نصیحت اور عبرت حاصل کرتے ہو، اسی لئے تم اوروں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک کرتے ہو۔( خازن ، النمل ، تحت الآیۃ : ۶۲ ، ۳ / ۴۱۷، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۶۲، ۶ / ۳۶۲، طبری، النمل، تحت الآیۃ: ۶۲، ۱۰ / ۶، ملتقطاً)
مجبورو لاچارکی دعا:
ا س آیت میں بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ مجبوروں اور لاچاروں کی فریاد سنتا اور ان کی دادرسی فرماتا ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے کا ایک طریقہ سکھایا ہے، چنانچہ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجبور کی دعا کے بارے میں فرمایا (کہ وہ یوں دعا مانگے:) ’’اَللّٰهمَّ رَحْمَتَکَ اَرْجُوْ فَـلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَ اَصْلِحْ لِیْ شَاْنِیْ کُلَّہٗ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اَنْتَ‘‘ یعنی اےاللہ ! میں تیری رحمت کا امید وار ہوں ،تو مجھے آنکھ جھپکنے کی دیر بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا اور میرے سارے کام درست فرما دے، تیرے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے۔( مسند ابو داود طیالسی، ابو بکرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، ص۱۱۷، الحدیث: ۸۶۹)
مجبور اور لاچار مسلمان تو خاص طور پر یہ دعا مانگے جبکہ عمومی طور پر ہر مسلمان کو یہ مبارک دعا بکثرت مانگنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اوراپنے نفس کے حوالے نہ ہونے کا ہر مسلمان حاجت مند ہے اور اپنے کام درست ہونے کاہر مسلمان طلبگار ہے۔
{اَمَّنْ یَّهْدِیْكُمْ: یا وہ بہتر ہے جو تمہیں راہ دکھاتا ہے۔} آیت کے ابتدائی لفظ ’’اَمَّنْ‘‘ کا ایک معنی یہ ہے کہ کیا بت بہتر ہیں یا وہ جو۔۔۔۔۔۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ مشرکین جنہیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ ہر گز بہتر نہیں بلکہ وہ بہتر ہے جو تمہیں خشکی اور تری کے سفر کے دوران اندھیری راتوں میں آسمانی ستاروں کے ذریعے اور دن کے وقت زمینی علامات کے ذریعے تمہاری منزلوں اور مَقاصد کی طرف راستے دکھاتا ہے اور وہ جو ہوائیں بھیجتا ہے اس حال میں کہ وہ ہوائیں اللہ تعالیٰ کی رحمت یعنی بارش سے پہلے بارش کے آنے کی خوشخبری دے رہی ہوتی ہیں ۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے جو ایسی قدرت رکھتا ہو ؟ اللہ تعالیٰ خالق اور قادر ہے اور وہ عاجز مخلوق کی شرکت سے بلندو بالاہے۔(جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۳۲۳، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۶۳، ۶ / ۳۶۳، ملتقطاً)
{اَمَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ: یا وہ بہتر ہے جو خلق کی ابتدا فرماتا ہے۔} آیت کے ابتدائی لفظ ’’ اَمَّنْ‘‘ کا ایک معنی یہ ہے کہ کیا بت بہتر ہیں یا وہ جو۔۔۔۔۔۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ مشرکین جنہیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ ہر گز بہتر نہیں بلکہ وہ بہتر ہے جو مخلوق کو بغیر کسی مثال کے ابتدا ء ً پیدا فرماتا ہے، پھر مخلوق کی موت کے بعد اسے دوبارہ بنائے گا۔ کفار اگرچہ موت کے بعد زندہ کئے جانے کااقرار اور اعتراف نہیں کرتے تھے،اس کے باوجود ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہونے والی دلیل اس لئے بیان کی گئی کہ جب دوبارہ زندہ کئے جانے پر ناقابلِ تردید دلائل قائم ہیں تو ان کا اقرار نہ کرنا کچھ بھی قابلِ لحاظ نہیں ، بلکہ جب کفار ابتدائی پیدائش کے قائل ہیں تو انہیں دوبارہ پیدا کئے جانے کا قائل ہونا پڑے گا کیونکہ ابتدائی پیدائش دوبارہ پیدا کئے جانے کی انتہائی مضبوط دلیل ہے، تو اب اُن کے لئے ا س سے عذر و انکار کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔( تفسیرِکبیر، النمل، تحت الآیۃ: ۶۴، ۸ / ۵۶۷، جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۳۲۳، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۸۵۳، ملتقطاً)
مزید ارشاد فرمایا کہ اور وہ جو تمہیں آسمانوں سے بارش کے ذریعے اور زمین سے نباتات کے ذریعے روزی دیتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے جس نے یہ کام کئے ہوں ؟ہر گز اس کے ساتھ کوئی اور معبود نہیں ہے۔ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ : اگر تم اپنے اس دعوے میں کہ ’’ اللہ تعالیٰ کے سوا اور بھی معبود ہیں ‘‘ سچے ہو تو بتاؤ جو صفات اور کمالات (اوپر) بیان کئے گئے وہ کس میں ہیں ؟ اور جب اللہ تعالیٰ کے سوا ایسا کوئی نہیں تو پھر کسی دوسرے کو کس طرح معبود ٹھہراتے ہو۔‘‘ یہاں ’’هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ‘‘ فرما کر ان کے عاجز اوربے بس ہونے کا اظہار مقصود ہے۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۳۲۳، تفسیرابو سعود، النمل، تحت الآیۃ: ۶۴، ۴ / ۲۱۱، ملتقطاً)
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مشرکین نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قیامت کے آنے کا وقت دریافت کیا تھا،ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور آیت کا معنی یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی غیب جانتاہے، اس کے علاوہ اور کوئی غیب نہیں جانتا اور قیامت قائم ہونے کا وقت بھی اسے ہی معلوم ہے اورآسمانوں میں جتنے فرشتے ہیں اور زمین میں جتنے انسان ہیں وہ نہیں جانتے کہ انہیں دوبارہ کب اٹھایا جائے گا۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۴۱۷، مدارک، النمل،تحت الآیۃ: ۶۵، ص۸۵۳، ملتقطاً)
غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونے سے متعلق اہم کلام:
اس آیت میں اور اس کے علاوہ کئی آیات میں غیب کے علم کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ سے علمِ غیب کی نفی کی گئی ہے، اسی مناسبت سے یہاں ہم علمِ غیب سے متعلق ایک خلاصہ ذکر کرتے ہیں تاکہ وہ آیات،احادیث اور اقوالِ علماء جن میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں سے علم غیب کی نفی کی گئی ہے ا ن کا اصل مفہوم واضح ہو اور علم غیب سے متعلق اہلِ حق کے اصل عقیدے کی وضاحت ہو۔چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’علمِ غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہونا بے شک حق ہے اور کیوں نہ ہو کہ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
’’ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُ-‘‘
تم فرمادو کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ۔‘‘
اور اس سے مراد وہی علمِ ذاتی اورعلمِ محیط (یعنی ہر چیز کا علم) ہے کہ وہی اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت اور اس سے مخصوصہیں ۔ علمِ عطائی کہ دوسرے کا دیا ہوا ہواور علمِ غیر محیط کہ بعض اَشیاء سے مطلع ہو اور بعض سے ناواقف ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے ہو ہی نہیں سکتا،اس سے مخصوص ہونا تو دوسرا درجہ ہے۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے علومِ غیب غیر محیط کا اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ملنا بھی قطعاً حق ہے اور کیوں نہ ہو کہ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ - ‘‘(آل عمران:۱۷۹)
اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگوتمہیں غیب کا علم دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے۔
اور فرماتا ہے:
’’عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘(الجن:۲۶،۲۷)
اللہ عالم الغیب ہے تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتاسوااپنے پسندیدہ رسولوں کے۔
اور فرماتا ہے:
’’ وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ‘‘(التکویر: ۲۴)
یہ نبی غیب کے بتانے میں بخیل نہیں ۔
اور فرماتا ہے:
’’ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ-‘‘( یوسف: ۱۰۲)
یعنی اے نبی !یہ غیب کی باتیں ہم تم کو مخفی طور پر بتاتے ہیں ۔
حتّٰی کہ مسلمانوں کو فرماتا ہے:
’’یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘(بقرہ: ۳ )
غیب پر ایمان لاتے ہیں ۔
ایمان تصدیق (کا نام) ہے اور تصدیق علم ہے، (تو) جس شے کا اصلاً علم ہی نہ ہو اس پر ایمان لانا کیونکر ممکن (لہٰذا ثابت ہوا کہ مسلمانوں کو غیب کا علم حاصل ہے)، تفسیر کبیر میں ہے: ’’لَایَمْتَنِعُ اَنْ نَّقُوْلَ نَعْلَمُ مِنَ الْغَیْبِ مَالَنَا عَلَیْہِ دَلِیْلٌ‘‘ یہ کہنا کچھ منع نہیں کہ ہم کو اس غیب کا علم ہے جس میں ہمارے لیے دلیل ہے۔( تفسیرِ کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۲۷۴)
نسیم الریاض میں ہے: ’’لَمْ یُکَلِّفْنَااللہُ الْاِیْمَانَ بِالْغَیْبِ اِلَّا وَ قَدْ فَتَحَ لَنَا بَابَ غَیْبِہٖ‘‘ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایمان بالغیب کا جبھی حکم دیا ہے کہ اپنے غیب کا دروازہ ہمارے لیے کھول دیا ہے۔( نسیم الریاض، فصل و من ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب۔۔۔الخ، ص۱۵۱، فتاویٰ رضویہ، ۲۹ / ۴۳۸-۴۳۹، ملخصاً)
علم ِغیب سے متعلق تفصیلی معلومات کے لئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیَّہْ بِالْمَادَّۃِ الْغَیْبِیَّہْ‘‘(علمِ غیب کے مسئلے کا دلائل کے ساتھ تفصیلی بیان) اور فتاویٰ رضویہ کی 29ویں جلد میں موجود رسائل ’’اِزَاحَۃُ الْعَیبْ بِسَیْفِ الْغَیبْ‘‘(علمِ غیب کے مسئلے سے متعلق دلائل اوربدمذہبوں کا رَد) اور ’’خَالِصُ الْاِعْتِقَادْ‘‘(علمِ غیب سے متعلق ۱۲۰دلائل پر مشتمل ایک عظیم کتاب) کا مطالعہ فرمائیں ۔
{بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ: کیا کافروں کا علم آخرت کے بارے میں مکمل ہوچکا ہے؟} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا کافروں کا علم آخرت کے بارے میں مکمل ہوچکا اور انہیں قیامت قائم ہونے کا علم ویقین حاصل ہوگیا جو وہ اس کا وقت دریافت کرتے ہیں ؟ حالانکہ ایساہر گز نہیں بلکہ وہ تو اس کی طرف سے شک میں ہیں ، انہیں ابھی تک قیامت کے آنے کا یقین نہیں ہے بلکہ وہ اس سے جاہل ہیں اور بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے قیامت کے دلائل کو سمجھ نہیں سکتے۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۳۲۳، بیضاوی، النمل،تحت الآیۃ: ۶۶، ۴ / ۲۷۵، ملتقطاً)
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا: اور کافر وں نے کہا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کافروں نے مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کا انکار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جب مرنے کے بعدہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہوجائیں گے توکیا ہم پھرقبروں سے زندہ کر کے نکالے جائیں گے؟ بیشک مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا جووعدہ ہمیں دیا گیا ہے، پچھلے زمانوں میں یہی وعدہ ہمارے باپ داداؤں کو بھی دیا گیا تھا لیکن وہ تو دوبارہ زندہ نہیں ہوئے اور نہ ہر گز ہوں گے، یہ تو صرف پہلے لوگوں کی جھوٹی کہانیاں ہیں جنہیں رستم و اسفندیار کے قصوں کی طرح ان لوگوں نے لکھا ہے۔( جلالین ، النمل، تحت الآیۃ: ۶۷،ص۳۲۳، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۴۱۸، روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۶۷، ۶ / ۳۶۶، ملتقطاً)
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے اور اسے جھٹلانے والے ان کافروں سے فرمادیں کہ (اگر تمہارے گمان کے مطابق یہ وعدہ جھوٹی کہانی ہے تو) تم جھٹلانے والوں کی سر زمین جیسے حجر اور اَحقاف وغیرہ میں چل کر دیکھ لو کہ ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا، وہ لوگ اپنے انکار کے سبب طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کر دیئے گئے اور اگر تم بھی ان جیسی روش سے باز نہ آئے تو تمہارا انجام بھی ان لوگوں جیسا ہو سکتا ہے اور تم پر بھی ان کی طرح کا کوئی عذاب نازل ہو سکتا ہے۔( روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۶۹، ۶ / ۳۶۶، ملخصاً)
اجڑی بستیاں عبرت کے نشان ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ برباد شدہ قوموں کی اجڑی بستیاں لوگوں کے لئے عبرت کے نشان ہیں اور لوگوں کو چاہئے کہ جن مقامات پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو ا وہاں کے رہنے والوں کے احوال اور ان کے دردناک انجام پر غور کریں اور ان کی اجڑی ہوئی اور ویران بستیوں کو دیکھ کر عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے باز آجائیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں اپنی نافرمانی کرنے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
{وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ: اور تم ان پر غم نہ کرو۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں کے اِعراض کرنے، آپ کو جھٹلانے اور اسلام سے محروم رہنے کے سبب ان پر غم نہ کھائیں (کیونکہ ان کے برے اختیار کی وجہ سے ان کی قسمت میں ہی کفر کرنالکھا ہے) اور آپ ان کی سازشوں سے دل تنگ نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمانے والا اور آپ کا مددگار ہے۔( جلالین ، النمل، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۳۲۳، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۴۱۸، ملتقطاً)
{وَ یَقُوْلُوْنَ: اورکافر کہتے ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کافر یہ کہتے ہیں : اگر آپ عذاب نازل ہونے کے وعدے میں سچے ہیں تو آپ بتائیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمادیں کہ جس عذاب کے نازل ہونے کی تم جلدی مچا رہے ہو، ہوسکتا ہے کہ اس کا کچھ حصہ تمہارے پیچھے آلگا ہو اور تمہارے قریب پہنچ چکا ہو۔ چنانچہ وہ عذاب بدر کے دن اُن پر آہی گیا اور باقی عذاب وہ موت کے بعد پائیں گے۔( جلالین ، النمل، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ص۳۲۳)
{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تیرا رب۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک تیرا رب عَزَّوَجَلَّ لوگوں پرفضل فرمانے والا ہے، اسی لئے عذاب میں تاخیر فرماتا ہے، لیکن ان میں اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا حق نہیں مانتے اور شکر گزاری نہیں کرتے اور اپنی جہالت کی وجہ سے عذاب نازل ہونے کی جلدی کرتے ہیں ۔(مدارک، النمل، تحت الآیۃ : ۷۳، ص۸۵۵)
{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ پوشیدہ اور اِعلانیہ عداوت رکھنا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت میں مکاریاں کرنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے، وہ انہیں اس کی سزا دے گا۔(مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۸۵۵)
{وَ مَا مِنْ غَآىٕبَةٍ: اور جتنے غیب ہیں ۔} یعنی آسمانوں اور زمین میں جتنے غیب ہیں سب ایک بتانے والی کتاب لوحِ محفوظ میں ثَبت ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنہیں ان کا دیکھنا مُیَسَّر ہے اُن کے لئے ظاہر ہیں ۔( تفسیرِ کبیر، النمل، تحت الآیۃ: ۷۵، ۸ / ۵۷۰، ملخصاً)
گناہ چھوڑنے اور دل کو باطنی اَمراض سے پاک رکھنے کی ترغیب:
اس آیت اور اس سے اوپر والی آیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہر انسان کو چاہئے کہ وہ گناہوں کو چھوڑ دے کیونکہ اللہ اُسے جانتا اور ا س کے تمام اَفعال پر مطلع ہے اگرچہ وہ اپنے افعال کو مخلوق سے چھپانے کی انتہائی کوشش کر لے،نیز ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس کا دل کسی کے بارے میں بغض،حسد،کینہ اور عداوت وغیرہ سے صاف ہو کیونکہ اس کے دل میں چھپی ہوئی ان چیزوں کو بھی اس کا رب تعالیٰ جانتا ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
’’ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ‘‘(التغابن: ۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہواور جوتم ظاہر کرتے ہو، اور اللہ دلوں کی بات جانتا ہے۔
اورارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ اَسِرُّوْا قَوْلَكُمْ اَوِ اجْهَرُوْا بِهٖؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ‘‘(الملک: ۱۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم اپنی بات آہستہ کہو یا آواز سے، بیشک وہ تو دلوں کی بات جانتا ہے۔
اور قیامت کے دن کے بارے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
’’ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸)اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ‘‘(الشعراء:۸۸،۸۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ بیٹے۔مگر وہ جو اللہ کے حضور سلامت دل کے ساتھ حاضر ہوگا۔
حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی اپنی امت کو اسی چیز کی تعلیم دی ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص کسی صحابی کے بارے میں مجھ سے شکایت نہ کرے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ (اپنے گھر سے) ان کی طرف اس طرح نکلوں کہ میرا دل صاف ہو (اور میرے دل میں کسی کے بارے میں کوئی رنجش نہ ہو۔)( ترمذی ، کتاب المناقب، باب:فضل ازواج النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم، ۵ / ۴۷۵، الحدیث: ۲۲۳۹)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کوگناہوں سے بچنے اور اپنے دلوں کو باطنی امراض سے پاک صاف رکھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ: بیشک یہ قرآن۔} اہلِ کتاب نے دینی اُمور میں آپس میں اختلاف کیا جس کی وجہ سے اُن کے بہت سے فرقے بن گئے اور آپس میں لعن طعن کرنے لگے تو قرآنِ کریم نے ان کے اختلافی امور کوحقیقت کے مطابق ایسے شاندار انداز میں بیان کیا کہ اگر اہلِ کتاب انصاف کریں اور اسے قبول کریں اور اسلام لائیں تو ان میں یہ باہمی اختلاف باقی نہ رہے۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۴۱۹، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۸۵۵، ملتقطاً)
{اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ: بیشک تمہارا رب ان کے درمیان فیصلہ فرمادے گا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بنی اسرائیل کے جو لوگ دینی اُمور میں باہم اختلاف کر رہے ہیں ،آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ اپنے حکم سے قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گااور آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی عزت والا اور غلبے والا ہے، اس لئے کوئی اس کے حکم اور فیصلے کو رد نہیں کر سکتا اور آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی تمام اَشیاء کا علم رکھنے والا ہے،لہٰذا اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور ان کی عداوت و دشمنی کی پرواہ نہ کریں ، بے شک آپ روشن حق پر ہیں ۔( روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۷۸، ۶ / ۳۶۹)
{اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى: بیشک تم مُردوں کو نہیں سناسکتے۔} علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :یعنی جن لوگوں کے دل مردہ ہیں آپ انہیں نہیں سنا سکتے اور وہ لوگ کفار ہیں ۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۴۱۹)اورابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت میں کفار کو زندہ ہونے اور حواس درست ہونے کے باوجود مُردوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔( مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۸۵۶)
آیت ’’اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى‘‘ سے مُردوں کے نہ سننے پر اِستدلال کرنے والوں کا رد:
بعض حضرات اس آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر استدلال کرتے ہیں ، ان کا استدلال غلط ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کفار کو مُردہ فرمایا گیا اور اُن سے بھی مُطلَقاً ہر کلام سننے کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ وعظ و نصیحت اور کلامِ ہدایت قبول کرنے کیلئے سننے کی نفی ہے اور مراد یہ ہے کہ کافر مردہ دل ہیں کہ نصیحت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ حضرت ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’مردوں سے مراد کفار ہیں اور (یہاں ) مطلق سننے کی نفی نہیں بلکہ معنی یہ ہے کہ ان کاسننا نفع بخش نہیں ہوتا۔( مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الجہاد، باب حکم الاسرائ، الفصل الاول، ۷ / ۵۱۹، تحت الحدیث: ۳۹۶۷)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں سننے کی نفی نہیں بلکہ سنانے کی نفی ہے اور اگر سننے کی نفی مان لی جائے تو یہاں یقینا’’سننا‘‘ قبول کرنے کے لئے سننے اور نفع بخش سننے کے معنی میں ہے۔ باپ اپنے عاقل بیٹے کو ہزار بارکہتاہے : وہ میری نہیں سنتا۔ کسی عاقل کے نزدیک اس کے یہ معنی نہیں کہ حقیقۃً کان تک آواز نہیں جاتی۔ بلکہ صاف یہی کہ سنتا توہے، مانتا نہیں ، اور سننے سے اسے نفع نہیں ہوتا، آیۂ کریمہ میں اسی معنی کے ارادہ پر ’’ہدایت‘‘ شاہدکہ کفار سے نفع اٹھانے ہی کی نفی ہے نہ کہ اصل سننے کی نفی۔ خود اسی آیۂ کریمہ ’’اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى‘‘ کے تتمہ میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ‘‘ تم نہیں سناتے مگر انھیں جو ہماری آیتوں پریقین رکھتے ہیں تو وہ فرمانبردار ہیں ۔ اور پُر ظاہر کہ وعظ و نصیحت سے نفع حاصل کرنے کا وقت یہی دنیا کی زندگی ہے۔ مرنے کے بعد نہ کچھ ماننے سے فائدہ نہ سننے سے حاصل، قیامت کے دن سبھی کافر ایمان لے آئیں گے، پھر اس سے کیا کام، توحاصل یہ ہوا کہ جس طرح مردوں کو وعظ سے کوئی فائدہ نہیں ، یہی حال کافروں کا ہے کہ لاکھ سمجھائیے نہیں مانتے۔( فتاویٰ رضویہ، ۹ / ۷۰۱، ملخصاً)
مُردوں کے سننے کا ثبوت:
کثیر اَحادیث سے مُردوں کا سننا ثابت ہے، یہاں ہم بخاری شریف اور مسلم شریف سے دو اَحادیث ذکر کرتے ہیں جن میں مردوں کے سننے کا ذکر ہے۔ چنانچہ
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب بندے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ دفن کرکے پلٹتے ہیں توبیشک وہ یقینا تمہارے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔( بخاری ، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، ۱ / ۴۵۰، الحدیث: ۱۳۳۸)
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں کفارِ بدر کی قتل گاہیں دکھاتے تھے کہ یہا ں فلاں کافر قتل ہوگا اوریہاں فلاں ، جہاں جہاں حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بتایا تھا وہیں وہیں ان کی لاشیں گریں ۔ پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے ان کی لاشیں ایک کنویں میں بھردی گئیں ۔سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وہاں تشریف لے گئے اور ان کفار کو ان کا اور ان کے باپ کا نام لے کر پکارا اور فرمایا: جو سچا وعدہ خداا ور رسول نے تمہیں دیاتھا وہ تم نے بھی پالیا؟ کیونکہ جو حق وعدہاللہ تعالیٰ نے مجھے دیا تھا، میں نے تو اسے پالیا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان جسموں سے کیونکر کلام کرتے ہیں جن میں روحیں نہیں ۔ ارشادفرمایا: جو میں کہہ رہاہوں اسے تم ان سے کچھ زیادہ نہیں سنتے لیکن انہیں یہ طاقت نہیں کہ مجھے لوٹ کر جواب دیں ۔( مسلم،کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلھا، باب عرض مقعد المیت من الجنۃ او النار علیہ۔۔۔الخ،ص۱۵۳۶، الحدیث: ۷۶( ۲۸۷۳))
نوٹ: مُردوں کے سننے سے متعلق مسئلے کی مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 9ویں جلد میں موجود رسالہ ’’حَیَاتُ الْمَوَاتْ فِیْ بَیَانِ سِمَاعِ الْاَمْوَاتْ‘‘ (مردوں کی سماعت کے بیان میں مفید رسالہ) کا مطالعہ فرمائیں ۔
{وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ: اور نہ تم بہروں کو پکار سناسکتے ہو۔} اس کامعنی یہ ہے کہ کفار کو جس چیز کی دعوت دی جا رہی ہے اس سے انتہا درجے کے اِعراض اورروگردانی کی وجہ سے وہ مُردے اور بہرے کی طرح ہوگئے ہیں تو جس طرح مردے اور سننے سمجھنے سے قاصر بہرے کو حق کی دعوت دینا کوئی فائدہ نہیں دیتا اسی طرح ان کافروں کو حق کی دعوت دینا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۴۱۹، ملخصاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan