Surah al-Waqi`ah
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{ اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ: جب واقع ہونے والی واقع ہوگی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب قیامت قائم ہو گی جو کہ ضرور قائم ہونے والی ہے تواس وقت ہر ایک اس کا اعتراف کر لے گااور اس کے واقع ہونے کا کوئی انکار نہیں کر سکے گا۔ اورقیامت چونکہ بہر صورت واقع ہو گی ا س لئے ا س کا نام واقعہ رکھا گیا ہے ۔( مدارک، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱-۲، ص ۱۱۹۸، تفسیرکبیر، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۱۰ / ۳۸۴، بیضاوی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۵ / ۲۸۳، ملتقطاً)
قیامت ضرور واقع ہو گی:
اس سے معلوم ہو اکہ قیامت ضرور واقع ہو گی ا س لئے ہر ایک کو قیامت سے ڈرنا چاہئے اور اس دن کے لئے دنیا کی زندگی میں ہی تیاری کر لینی چاہئے ،چنانچہ قیامت کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ‘‘(بقرہ:۴۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اس دن سے ڈروجس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے بدلہ نہ دے گی اور نہ کوئی سفارش مانی جائے گی اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کی مددکی جائے گی۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِۗ-ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۸۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اس دن سے ڈروجس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر جان کو اس کی کمائی بھرپوردی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ فَكَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ۫-وَ وُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ‘‘(ال عمران:۲۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیسی حالت ہوگی جب ہم انہیں اس دن کے لئے اکٹھا کریں گے جس میں کوئی شک نہیں اور ہر جان کو اس کی پوری کمائی دی جائے گی اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔
{ خَافِضَةٌ: کسی کو نیچاکرنے والی۔} اس آیت میں قیامت کا ایک وصف بیان کیا گیا کہ یہ کسی قوم کو اس کے اعمال کی وجہ سے جہنم میں گرا کر اسے نیچاکرنے والی ہے اور کسی قوم کو ا س کے اعمال کی بنا پر جنت میں داخل کر کے اسے بلندی دینے والی ہے۔( تفسیر سمرقندی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۳۱۳)
حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ا س آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’قیامت اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو جہنم میں گرا کر ذلیل کرے گی اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو جنت میں داخل کر کے ان کے مرتبے بلند کرے گی۔( تفسیر ابن ابی حاتم، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۳۳۲۹)
{ وَ كُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً: اور تم تین قسم کے ہوجاؤ گے۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن مخلوق کا حال بیان فرمایا اور ان کی تین قسموں کے بارے خبر دی جن میں سے دو جنت میں جائیں گی اور ایک جہنم میں داخل ہو گی،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! تم قیامت کے دن تین قسموں میں تقسیم ہوجاؤ گے۔
پہلی قسم ان لوگوں کی ہو گی جو دائیں جانب والے ہوں گے ۔ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے نامۂ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے۔دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو میثاق کے دن حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دائیں جانب تھے۔تیسرا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن عرش کی دائیں جانب ہوں گے۔اللہ تعالیٰ نے دائیں جانب والوں کی شان ظاہر کرنے کے لئے فرمایا کہ وہ کیا ہی اچھے ہیں کہ وہ بڑی شان رکھتے ہیں ،سعادت مند ہیں اور وہ جنت میں داخل ہوں گے۔
دوسری قسم ان لوگوں کی ہو گی جو بائیں جانب والے ہوں گے ۔ان کے بارے میں بھی مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے نامۂ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو میثاق کے دن حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بائیں جانب تھے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن عرش کی بائیں جانب ہوں گے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی حقارت ظاہر کرنے کے لئے فرمایا کہ بائیں جانب والے کیا ہی برے ہیں کہ وہ بدبخت ہیں اور وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔
تیسری قسم ان لوگوں کی ہو گی جو دوسروں سے آ گے بڑھ جانے والے ہیں ۔ یہاں آگے بڑھ جانے والوں سے کون لوگ مراد ہیں ،اس بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس مقام پر نیکیوں میں دوسروں سے آگے بڑھ جانے والے مراد ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ ان سے وہ لوگ مراد ہیں جو ہجرت کرنے میں سبقت کرنے والے ہیں اور وہ آخرت میں جنت کی طرف سبقت کریں گے۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے وہ لوگ مراد ہیں جو اسلام قبول کرنے کی طرف سبقت کرنے والے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے وہ مہاجرین اور اَنصار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ مراد ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نمازیں پڑھیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ جنت میں داخل ہونے میں آگے بڑھ جانے والے ہیں ۔( تفسیرسمرقندی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷-۱۰، ۳ / ۳۱۳-۳۱۴، خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷-۱۰، ۴ / ۲۱۶-۲۱۷، مدارک، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷-۱۰، ص ۱۱۹۸-۱۱۹۹، ملتقطاً)
{ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ: وہ پہلے لوگوں میں سے ایک بڑا گروہ ہوگا۔}اس آیت اورا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ آگے بڑھ جانے والے پہلے لوگوں میں سے بہت ہیں اور بعد والوں میں سے تھوڑے ہیں ۔ پہلے لوگوں سے کون مراد ہیں اس کی تفسیر میں صحیح قول یہ ہے کہ پہلے لوگوں سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہی کے پہلے وہ لوگ مراد ہیں جو مہاجرین و اَنصار میں سے(اسلام قبول کرنے میں ) سابقین اَوّلین ہیں اوربعد والوں سے ان کے بعد والے لوگ مراد ہیں ۔( تفسیرکبیر، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۱۰ / ۳۹۲، تفسیرسمرقندی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۳ / ۳۱۴، خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۴ / ۲۱۷، خزائن العرفان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴، ص ۹۸۷ ، ملتقطاً)
اَحادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ،جیسا کہ مرفوع حدیث میں ہے کہ’’ یہاں اَوّلین و آخِرین اسی اُمت کے پہلے اور بعد والے لوگ ہیں ۔( ابوسعود، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱۴، ۵ / ۶۷۲)
{ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ: ان پر دَورچلائیں گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حوروں کی طرح اہلِ جنت کی خدمت کے لئے ایسے لڑکے پیدا کئے ہیں جو نہ کبھی مریں گے،نہ بوڑھے ہوں گے اور نہ ہی ان میں کوئی (جسمانی) تبدیلی آئے گی،یہ ہمیشہ رہنے والے لڑکے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مقرب بندوں پر خدمت کے آداب کے ساتھ کوزوں ،صراحیوں اور آنکھوں کے سامنے بہنے والی پاک شراب کے جام کے دَور چلائیں گے،وہ شراب ایسی ہے کہ اسے پینے سے نہ انہیں سردرد ہو گااور نہ ان کے ہوش میں کوئی فرق آئے گا (جبکہ دنیا کی شراب میں یہ وصف نہیں کیونکہ اسے پینے سے حواس بگڑجاتے ہیں اور بندے کے اَوسان میں فتور جاتا ہے )اور (شراب پیش کرنے کے ساتھ ساتھ) خدمتگار لڑکے وہ تمام پھل میوے اہلِ جنت کے پاس لائیں گے جووہ پسند کریں گے اوران پرندوں کا گوشت لائیں گے جن کی وہ تمنا کریں گے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۱، ۴ / ۲۱۷-۲۱۸، مدارک، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۱، ص۱۱۹۹، ملتقطاً)
اہلِ جنت کی خصوصی خدمت:
اہلِ جنت پر کئے گئے ان انعامات کو ذکر کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اَمْدَدْنٰهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَّ لَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَهُوْنَ(۲۲)یَتَنَازَعُوْنَ فِیْهَا كَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِیْهَا وَ لَا تَاْثِیْمٌ(۲۳)وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ‘‘(طور:۲۲-۲۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور پھلوں ، میووں اور گوشت جو وہچاہیں گے ان کے ساتھ ہم ان کی مدد کرتے رہیں گے۔ جنتی لوگ جنت میں ایسے جام ایک دوسرے سے لیں گے جس میں نہ کوئی بیہودگی ہوگی اورنہ گناہ کی کوئی بات۔اور ان کے خدمت گار لڑکے ان کے گرد پھریں گے گویا وہ چھپاکر رکھے ہوئے موتی ہیں ۔
یاد رہے کہ خدمت گار لڑکوں کا اہلِ جنت کو پھل اور گوشت پیش کرناان کی خصوصی خدمت کے طور پر ہو گا ورنہ جنَّتی درختوں پر لگے ہوئے پھل ان کے اتنے قریب ہوں گے کہ وہ کھڑے ،بیٹھے، لیٹے ہر حال میں اسے پکڑ سکیں گے اور جس پرندے کی تمنا کریں گے وہ بھنا ہوا ان کے سامنے حاضر ہو جائے گا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ جَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ‘‘(رحمٰن:۵۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور دونوں جنتوں کے پھل جھکے ہوئے ہوں گے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’ قُطُوْفُهَا دَانِیَةٌ ‘‘(حاقہ:۲۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اس کے پھل قریب ہوں گے ۔
اورحضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اگر جنَّتی کو پرندوں کا گوشت کھانے کی خواہش ہوگی تو اس کی مرضی کے مطابق پرندہ اڑتا ہوا سامنے آ جائے گا، اورایک قول یہ ہے کہ رِکابی میں (بھنا ہوا) آکر سامنے پیش ہوگا،اس میں سے جتنا چاہے گا جنتی کھائے گا ،پھر وہ اُڑ جائے گا۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۲۱۸)
جنَّتی پرندوں سے متعلق3اَحادیث:
آیت نمبر21 میں اہلِ جنت کے لئے پرندوں کے گوشت کا ذکر کیا گیا ،اس مناسبت سے ان پرندوں کے بارے میں 3 اَحادیث ملاحظہ ہوں ۔
(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’بے شک جنت کا پرندہ بُختی اونٹ کی طرح ہو گا اور وہ جنت کے درختوں میں چرے گا۔(یہ سن کر) حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک وہ پرندہ تو بہت اچھا اور عمدہ ہو گا۔آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اسے کھانے والا اس سے زیادہ عمدہ اور اعلیٰ ہو گا اور میں یہ امید رکھتا ہوں کہ تم بھی اسے کھائوگے ۔( مسند امام احمد، مسند المکثّرین من الصحابۃ، مسند انس بن مالک، ۴ / ۴۴۱، الحدیث: ۱۳۳۱۰)
(2)…حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک تم جنت میں اڑتے ہوئے پرندے کودیکھو اور تمہارے دل میں اسے کھانے کی خواہش پیدا ہو تو وہ اسی وقت بھونا ہوا تمہارے سامنے پیش ہو جائے گا۔( رسائل ابن ابی الدنیا، صفۃ الجنۃ، ۶ / ۳۴۲، الحدیث: ۱۰۳)
(3)…حضرت میمونہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک جنت میں جب کوئی آدمی پرندے کا گوشت کھانے کی خواہش کرے گا تو بُختی اونٹ کی طرح(بڑا) پرندہ آجائے گا یہاں تک کہ اس کے دستر خوان پرایسے (بُھن کر) پیش ہو جائے گاکہ اسے کوئی دھواں لگا ہوا ہوگا اور نہ ہی کسی آگ نے اسے چھواہو گا،وہ آدمی اس سے پیٹ بھر کر کھائے گا،پھر وہ پرندہ اُڑ جائے گا۔( رسائل ابن ابی الدنیا، صفۃ الجنۃ، ۶ / ۳۴۶، الحدیث: ۱۲۳)
{ وَ حُوْرٌ عِیْنٌ: اور بڑی آنکھ والی خوبصورت حوریں ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مُقَرّب اہلِ جنت (کی خدمت )کے لئے بڑی آنکھ والی خوبصورت حوریں ہوں گی اور وہ حوریں ایسی ہوں گی جیسے موتی صَدَف میں چھپا ہوتا ہے کہ نہ تو اسے کسی کے ہاتھ نے چھوا، نہ دھوپ اور ہوا لگی اوراس وجہ سے وہ ا نتہائی صاف اور شفاف ہوتا ہے،الغرض جس طرح یہ موتی اچھوتا ہوتا ہے اسی طرح وہ حوریں اچھوتی ہوں گی۔ یہ بھی مروی ہے کہ حوروں کے تَبَسُّم سے جنت میں نورچمکے گا اور جب وہ چلیں گی تو اُن کے ہاتھوں اور پاؤں کے زیوروں سے تقدیس اور تمجید کی آوازیں آئیں گی اور یاقوتی ہاراُن کے گردنوں کے حسن و خوبی سے ہنسیں گے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۳، ۴ / ۲۱۸)
{جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ: ان کے اعمال کے بدلے کے طور پر۔} یعنی بارگاہِ الہٰی کے مُقَرّب بندوں کو یہ سب کچھ ان کے دُنْیَوی نیک اعمال اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے کے صِلہ میں ملے گا۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۲۱۸)
{وَ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ: اور دائیں جانب والے۔} اس سے پہلی آیات میں آگے بڑھ جانے والے، بارگاہِ الہٰی کے مُقَرّب بندوں کی جزااور ان کا حال بیان کیاگیا ،اب یہاں سے اہلِ جنت کے دوسرے گروہ یعنی دائیں جانب والے اَصحاب کا ذکر فرمایا جا رہا ہے کہ وہ لوگ جو دائیں جانب والے ہیں ان کی عجیب شان ہے (کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معزز و مُکرّم ہیں ) اور ان کی اچھی صفات اورخوبیوں کی وجہ سے ان کے لئے جو کچھ تیار کیا گیا ہے اسے تم نہیں جان سکتے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۲۱۸، روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۳۲۴، ملتقطاً)
{ فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ: بغیر کانٹے والی بیریوں کے درختوں میں ہوں گے۔ } یہاں سے دائیں جانب والوں کی جزا بیان کی جا رہی ہے کہ وہ ایسی جنَّتوں میں مزے لوٹیں گے جن میں بیری کے ایسے درخت ہوں گے جن پر کانٹے نہیں لگے ہوں گے۔
بیری کے جنَّتی درخت کی شان:
حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ فرمایا کرتے تھے کہ بے شک اللہ تعالیٰ ہمیں دیہاتی مسلمانوں اور ان کے ( پوچھے گئے ) سوالات کی وجہ سے فائدہ پہنچاتا ہے۔ایک دن ایک دیہاتی مسلمان آئے اور انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک اذِیَّت ناک درخت کا ذکر فرمایا ہے اور میرا یہ گمان نہیں کہ جنت میں کوئی ایسا درخت ہو جو اپنے مالک کے لئے تکلیف دِہ ثابت ہو۔حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے ارشاد فرمایا ’’وہ کونسا درخت ہے؟اس نے عرض کی:بیری کا درخت،(یہ اذِیَّت ناک اس لئے ہے)کہ اس کے اوپر کانٹے لگے ہوتے ہیں ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:( کیا اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا) ’’ فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ ‘‘ اللہ تعالیٰ اس کے کانٹے کاٹ دے گا اور ہر کانٹے کی جگہ پھل پیدا فرمائے گا،لہٰذا وہ درخت (کانٹوں کی بجائے) پھل اُگائے گا اور اس کے پھل میں 72 رنگ ظاہر ہوں گے اور ان میں سے کوئی رنگ بھی دوسرے کے مشابہ نہ ہو گا۔( مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیرسورۃ الواقعۃ، سدر الجنّۃ مخضود۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۸۷، الحدیث: ۳۸۳۰)
{ وَ طَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ: اور کیلے کے گچھوں میں ۔} یعنی دائیں جانب والے ان جنَّتوں میں مزے کریں گے جن میں کیلے کے ایسے درخت ہوں گے جو جڑ سے چوٹی تک کیلے کے گچھوں سے بھرے ہوئے ہوں گے۔
{وَ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ: اور ہمیشہ کے سائے میں ۔} ارشاد فرمایا کہ دائیں جانب والے ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے دراز سائے میں ہوں گے۔
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے سائے میں سوار شخص سو سال تک دوڑتا رہے تو وہ اسے طے نہ کر سکے گا، اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو’’وَ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ ‘‘۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الواقعۃ، باب وظلّ ممدود، ۳ / ۳۴۵، الحدیث: ۴۸۸۱)
جنت میں سایہ ہے یا نہیں ؟
جنت میں سایہ ہے یا نہیں ، اس بارے میں بعض مفسرین کاقول ہے کہ جنت میں سورج نہ ہونے کے باوجود سایہ ہے، جیسا کہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’پوری جنت سائے دار ہے حالانکہ وہاں سورج نہیں ہے۔( تفسیر قرطبی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۹ / ۱۵۳، الجزء السابع عشر)
اور بعض مفسرین کے نزدیک جنت میں سایہ نہیں اور آیت میں سائے سے اس کا مجازی معنی مراد ہے ،جیسا کہ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہاں آیت میں سائے سے (اس کا حقیقی معنی نہیں بلکہ مجازی معنی) راحت و آرام مراد ہے۔( روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۹ / ۳۲۵)
{وَ مَآءٍ مَّسْكُوْبٍ: اور جاری پانی میں ۔} یعنی دائیں جانب والے ان جنتوں میں ہوں گے جن کی زمینی سطح پر پانی ہمیشہ کے لئے جاری ہو گا اور وہ جب چاہیں جہاں سے چاہیں کسی مشقت کے بغیر پانی حاصل کر لیں گے۔( روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۹ / ۳۲۵، ملتقطاً)
{وَ فَاكِهَةٍ كَثِیْرَةٍ: اور بہت سے پھلوں میں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ دائیں جانب والے ان جنتوں میں ہوں گے جن میں مختلف اَجناس اور اَقسام کے بہت سے پھل ہیں اور وہ پھل کبھی ختم نہ ہوں گے کیونکہ جب بھی کوئی پھل توڑ اجائے گا تو فوراً اس کی جگہ ویسے ہی دو پھل آ جائیں گے اور اہلِ جنت کوان پھلوں کے استعمال سے نہ کوئی روک ٹوک ہوگی، نہ شرعی رکاوٹ، نہ طبی پابندی اور نہ کسی بندے کی طر ف سے ممانعت ہو گی۔
{ اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءً: بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا توہم نے انہیں ایسی کنواریاں بنایا کہ جب بھی ان کے شوہر ان کے پاس جائیں گے وہ انہیں کنواریاں ہی پائیں گے اور وہ عورتیں اپنے شوہروں سے بے پناہ محبت کرنے والیاں ہیں اور ان سب کی عمر بھی ایک ہو گی کہ 33سال کی جوان ہوں گی،اسی طرح ان کے شوہر بھی جوان ہوں گے اور یہ جوانی ہمیشہ قائم رہنے والی ہو گی۔( مدارک، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۷، ص ۱۲۰۰، ملخصاً)
بعض مفسرین کے نزدیک ان عورتوں سے دنیا کی عورتیں مراد ہیں اور بعض مفسرین کے نزدیک ان سے مراد حوریں ہیں ۔ (صاوی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۶ / ۲۰۹۱)
کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہ جائے گی:
یہاں ہم اسی آیت سے متعلق ایک دلچسپ روایت ذکر کرتے ہیں ، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا کہ جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہ جائے گی۔انہوں نے(پریشان ہو کر) عرض کی : تو پھر ان کا کیا بنے گا ؟ (حالانکہ)وہ عورت قرآن پڑھاکرتی تھی۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیا تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا کہ
’’ اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءًۙ(۳۵) فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًا‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا۔توہم نے انہیں کنواریاں بنایا۔( مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب المزاح، الفصل الثانی، ۲ / ۲۰۰، الحدیث: ۴۸۸۸)
{ لِاَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ: دائیں جانب والوں کے لیے۔}اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ ہم نے ان عورتوں کو دائیں جانب والوں کے لئے پیدا کیا اور ایک تفسیر یہ ہے کہ جو نعمتیں بیان کی گئیں یہ ان لوگوں کے لئے ہیں جو دائیں جانب والے ہیں ۔ (خازن،الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳۸، ۴ / ۲۱۹)
{ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ: پہلے لوگوں میں سے ایک بڑاگروہ ہے۔} اس سے پہلے رکوع میں آگے بڑھ جانے والے اور بارگاہِ الٰہی کے مُقَرّب بندوں کی دو جماعتوں کا ذکر کیا گیا تھا اور یہاں اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں دائیں جانب والوں کے دو گروہوں کا بیان کیا گیا ہے کہ وہ اس اُمت کے پہلوں اور بعد والوں دونوں گروہوں میں سے ہوں گے، پہلا گروہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ ہیں اور بعد والوں سے قیامت تک کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بعد والے مراد ہیں ۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan