Surah al-Waqi`ah
{ اِنَّهُمْ : بیشک وہ۔} یہاں سے بائیں جانب والوں کے عذاب کا مستحق ہونے کا سبب بیان کیا جا رہا ہے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک بائیں جانب والے اس عذاب سے پہلے دنیاکے اندر کھانے پینے، اچھی رہائش اور خوبصورت مقامات وغیرہ نعمتوں سے خوشحال تھے اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں مُنہمِک تھے اور وہ شرک جیسے بڑے گناہ پر ڈٹے ہوئے تھے اور وہ اپنے شرک کے ساتھ ساتھ سرکشی اور عناد کی وجہ سے یہ کہتے تھے: کیا جب ہم مرجائیں گے اور ہماری کھال اور گوشت مٹی میں مل جائے گی اور ہم ہڈیاں ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ضرور ہم زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے؟ یاکیا ہمارے پہلے باپ دادا بھی زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے؟
یہاں ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ اس سے پہلے اہلِ جنت کے دو گروہوں کے حالات بیان ہوئے تو ان کے جنت کامستحق ہونے کی وجہ بیان نہیں کی گئی جبکہ اہلِ جہنم کے گروہ کے حالات بیان کرتے وقت ان کے جہنمی ہونے کی وجہ بیان کی گئی، اس میں حکمت یہ ہے کہ لوگوں کو یہ بات معلوم ہو جائے کہ اہلِ جنت اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے انہیں جنت کا داخلہ نصیب ہو اہے اور اہلِ جہنم اللہ تعالیٰ کے عدل کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئے ہیں ۔ (روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۸، ۹ / ۳۲۸-۳۲۹)
گناہوں پر اِصرار کا انجام :
آیت نمبر 46میں بائیں جانب والوں کے جہنم کے عذاب کا حق دار ہونے کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی کہ وہ بڑے گناہ پر ڈٹے ہوئے تھے ،اس سے معلوم ہو ا کہ گناہ پر اِصرارایسی خطرناک چیز ہے جس کے انجام کے طور پر بندے کا ایمان مکمل طور پر سَلب ہو سکتا اور اس کا خاتمہ کفر کی حالت میں ہو سکتا ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’گناہوں پر اِصرار کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو گناہوں پر ڈٹے ہوئے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے جو کچھ وہ کر رہے ہیں ۔(مسند امام احمد، مسند المکثّرین، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالی عنہما،۲ / ۵۶۵،الحدیث:۶۵۵۲)
اور حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’گناہوں پر اِصرار بہت سے گناہگار مسلمانوں کو کفر پر موت کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۵۱)
مزید فرماتے ہیں :شیطان گناہوں پر اِصرار کے ساتھ تمہیں مغفرت کی امید دلاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ تم جو چاہے عمل کرو،بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے ،وہ تمہارے سارے گناہ بخش دے گاکیونکہ وہ تمہاری عبادت اور تمہیں عذاب دینے سے بے نیاز ہے۔ بے شک یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے سارے گناہ بخش دے، لیکن مغفرت کی توقُّع رکھتے ہوئے گناہ پر گناہ کرتے چلے جانا ایسا ہے جیسے کوئی شفا ملنے کی امید پر زہر کھانا شروع کر دے۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ تمام کریموں سے بڑھ کر کرم فرمانے والا ہے لیکن وہ شدید عذاب دینے والا بھی تو ہے۔( روح البیان، الملائکۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۳۱۹ )
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ گناہوں پر قائم رہنا چھوڑ دے اور گزشتہ گناہوں پر سچے دل سے نادم ہو کر توبہ کر لے اور اس وقت سے ڈرے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَیْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِۚ-حَتّٰۤى اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْـٰٔنَ وَ لَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَ هُمْ كُفَّارٌؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ‘‘(النساء: ۱۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان لوگوں کی توبہ نہیں جو گناہوں میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آئے تو کہنے لگے اب میں نے توبہ کی اور نہ ان لوگوں کی (کوئی توبہ ہے)جو کفر کی حالت میں مریں ۔ ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔
اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ ،ہمارے ایمان کے نور اور ہمارے عقیدے کی شمع کو زوال کی انتہائی سخت گرجتی آندھی سے محفوظ فرما اور تمام اوقات اور ہر حال میں کلمہ ِ ایمان پر ہمیں ثابت قدمی نصیب فرما،اٰمین۔
{نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ:ہم نے تمہیں پیدا کیا۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے انسان کی ابتدائی تخلیق سے اپنی قدرت اور وحدانیّت پر اِستدلال فرمایا ہے،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو!تمہیں یہ بات معلوم ہے کہ تم کچھ بھی نہیں تھے ،ہم تمہیں عدم سے وجود میں لے کر آئے تو تم مرنے کے بعد اٹھنے کوکیوں سچ نہیں مانتے حالانکہ جو پہلی بار پیدا کرنے پہ قادر ہے تو وہ دوبارہ پیدا کرنے پر (بدرجہ اَولیٰ) قادرہے۔ اور اگر تمہیں اس بات میں کہ ہم تمہیں عدم سے وجود میں لائے ہیں ، شک ہے تویہ بتاؤ کہ منی کے ایک قطرے سے جوبچہ پیدا ہوتا ہے، کیا اس سے عورتوں کے رحم میں لڑکے یا لڑکی کی شکل و صورت تم بناتے ہو یا ہم ہی اسے انسانی صورت دیتے ہیں اور اسے زندگی عطا فرماتے ہیں ؟ جب ہم بے جان نطفے کو انسانی صورت عطا کرسکتے ہیں تو پیداہونے کے بعد مر جانے والوں کو زندہ کرنا ہماری قدرت سے کیا بعید ہے۔( خازن، الواقعۃ،تحت الآیۃ:۵۷-۵۹، ۴ / ۲۲۱، جلالین، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۹، ص ۴۴۷، تفسیر کبیر، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۹، ۱۰ / ۴۱۵-۴۱۶، روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۹، ۹ / ۳۳۰-۳۳۱، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کرنا کیسا ہے؟
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’یاد رکھیں کہ(قرآنِ پاک میں ) جب اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے بارے میں جمع کے صیغہ کے ساتھ کوئی خبر دے تو اس وقت وہ اپنی ذات، صفات اور اَسماء کی طرف اشارہ فرما رہا ہوتا ہے،جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘(حجر:۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیاہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
اور جب اللہ تعالیٰ واحد کے صیغہ کے ساتھ اپنی ذات کے بارے میں کوئی خبر دے تو اس وقت وہ صرف اپنی ذات کی طرف اشارہ فرما رہا ہوتا ہے،جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’ اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘(قصص:۳۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک میں ہی اللہ ہوں ،سارےجہانوں کاپالنے والاہوں ۔
اور یہ اس وقت ہے جب اللہ تعالیٰ خود خبر دے، البتہ بندے پر لازم ہے کہ وہ( ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے لئے واحد کا صیغہ بولے کبھی جمع کا صیغہ نہ بولے ،جیسے )یوں کہے کہ اے اللہ! تو میرا رب ہے ،یوں (ہر گز) نہ کہے کہ اے اللہ! آپ میرے رب ہیں ، کیونکہ اس میں شرک کا شائبہ ہے جو تَوحید کے مُنافی ہے۔( روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۹ / ۳۳۰) یعنی مناسب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کیلئے واحد کا صیغہ استعمال کیاجائے۔
{ نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَكُمُ الْمَوْتَ: ہم نے تمہارے درمیان موت مقرر کردی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی حکمت اور مَشِیَّت کے تقاضے کے مطابق تم میں موت مقرر کر دی اور تمہاری عمریں مختلف رکھیں ،اسی لئے تم میں سے کوئی بچپن میں ہی مرجاتا ہے ،کوئی جوان ہو کر، کوئی بڑھاپے اور جوانی کے درمیان عمر میں اور کوئی بڑھاپے تک پہنچ کر مر جاتاہے،الغرض جو ہم مقدر کرتے ہیں وہی ہوتا ہے۔اور ہم اس بات سے پیچھے رہ جانے والے(بے بس) نہیں ہیں کہ تمہیں ہلاک کر کے تم جیسے اور بدل دیں اور تمہیں مَسخ کرکے بندر ،سور وغیرہ کی ان صورتوں میں بنادیں جن کی تمہیں خبر نہیں ۔ جب یہ سب ہماری قدرت میں ہے تو تمہیں دوبارہ پیدا کرنے سے ہم عاجز کس طرح ہو سکتے ہیں ؟(خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۰-۶۱، ۴ / ۲۲۱، مدارک، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۰-۶۱، ص۱۲۰۲، ملتقطاً)
انسان کو کہیں بھی اورکسی بھی وقت موت آ سکتی ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان کو موت کسی بھی وقت آ سکتی ہے اور کسی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ بڑھاپے میں ہی موت کا شکار ہو بلکہ بھری جوانی میں اورمُتَوَسّط عمر میں بھی موت اپنے پنجے گاڑ سکتی ہے اوراس کیلئے کوئی جگہ بھی خاص نہیں بلکہ کہیں بھی آ سکتی ہے اور اس سے کسی صورت فرار ہونا بھی ممکن نہیں نیز کسی کو بھی ا س بات کی خبر نہیں کہ اس کی موت کب اور عمر کے کس حصے میں اور کہاں پر آئے گی ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہر وقت نیک اعمال میں مصروف رہے ،اپنی لمبی عمر پر بھروسہ نہ کرے اور آخرت کی تیاری سے کسی بھی وقت غفلت نہ کرے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ دنیا میں ایسے رہو گویاتم مسافر ہو یا راہ گیر اور اپنے آپ کو قبر والوں میں سے شمار کرو ۔(مشکاۃ المصابیح، کتاب الرقاق، باب الامل والحرص، الفصل الاول، ۲ / ۲۵۹، الحدیث: ۵۲۷۴)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تمہارے درمیان میری مثال اس شخص کی طرح ہے جو اپنی قوم کو نصیحت کرنے والا ہے ،اس نے قوم کے پاس آ کر کہا: میں ڈرانے والا ہوں اور موت حملہ آور ہونے والی ہے اور قیامت وعدے کی جگہ ہے ۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۳۸، الحدیث: ۸۶)
حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے وعظ کے دوران فرماتے ’’جلدی کرو،جلدی کرو،کیونکہ یہ چند سانس ہیں ،اگر رک گئے تو تم وہ اعمال نہیں کر سکو گے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر سکتے ہیں ۔اللّٰہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو اپنی جان کی فکر کرتا ہے اور اپنے گناہوں پر روتا ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی، بیان المبادرۃ الی العمل۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۰۵)
حضرت فضیل رقاشی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اے فلاں ! لوگوں کی کثرت کے باعث اپنے آپ سے غافل نہ ہو کیونکہ معاملہ خاص تم سے ہو گا ان سے نہیں اور یہ نہ کہو کہ میں وہاں جاتا ہوں اور وہاں جاتا ہوں ،اس طرح تمہارا دن ضائع ہو جائے گا اور موت تمہارے اوپر مُتَعَیَّن ہے اور جتنی جلدی نئی نیکی پرانے گناہ کو تلاش کر کر کے پکڑتی ہے اتنی جلدی تم نے کسی کو پکڑتے نہ دیکھا ہو گا۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی، بیان المبادرۃ الی العمل۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۰۶)
{ وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَةَ الْاُوْلٰى: اور بیشک تم پہلی پیدائش جان چکے ہو۔}ارشاد فرمایا کہ تم اپنی پہلی پیدائش کے بارے میں جان چکے ہو کہ ہم تمہیں عدم سے وجود میں لائے ہیں تو پھر (اسے سامنے رکھتے ہوئے دوسری پیدائش کے متعلق) کیوں غور نہیں کرتے کہ جو ربّ تعالیٰ پہلی بار تمہیں عدم سے وجود میں لا سکتا ہے تو وہ تمہارے مرنے کے بعد تمہیں دوسری بار زندہ کرنے پر بھی یقینا قادر ہے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۲۲۱، ملخصاً)
تعجب کے قابل شخص:
حضرت عبد اللہ بن مِسور ہاشمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس بندے پر انتہائی تعجب ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو دیکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی قدرت میں شک کرتا ہے۔اس بندے پر انتہائی تعجب ہے جو پہلی بار کی پیدائش کو دیکھنے کے باوجود دوسری بار کی پیدائش کا انکار کرتا ہے۔اس بندے پر انتہائی تعجب ہے جو موت کے گھیر لینے کوجھٹلاتا ہے حالانکہ وہ دن رات مرتا اور زندہ ہوتا ہے۔اس بندے پر انتہائی تعجب ہے جو ہمیشگی کے گھر (یعنی جنت) کی تصدیق کرنے کے باوجود دھوکے کے گھر (یعنی دنیا) کے لئے کوشش میں مصروف ہے۔اس بندے پر انتہائی تعجب ہے جو اِتراتا اور فخر و غرور کرتا ہے حالانکہ وہ نطفہ سے پیدا ہوا، پھر وہ سڑی ہوئی لاش بن جائے گا اور اِ س دوران اُ س پر کیا بیتے گی وہ اُسے معلوم ہی نہیں ۔( مسند شہاب قضاعی، الباب الاوّل، یا عجباً کل العجب۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۴۷، الحدیث: ۵۹۵)
{ اَفَرَءَیْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ: تو بھلا بتاؤ تو وہ آگ جو تم روشن کرتے ہو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ مجھے ا س آگ کے بارے میں بتاؤ جو تم دو تر لکڑیوں سے روشن کرتے ہو، کیا تم نے اس کادرخت پیدا کیا ہے؟ایسا ہر گز نہیں بلکہ ہم ہی اسے پیدا کرنے والے ہیں ،تو جب تم نے میری قدرت کو پہچان لیا تو میرا شکر ادا کرو اور دوبارہ زندہ کرنے پر میری قدرت کاانکار نہ کرو۔اہلِ عرب (اس زمانے میں )دو مخصوص لکڑیوں کو ایک دوسرے سے رگڑ کر آگ جلایا کرتے تھے ،اوپر والی لکڑی کو وہ زَند اور نیچے والی لکڑی کو زَندہ کہتے تھے اورجن درختوں سے یہ لکڑیاں حاصل ہوتی تھیں انہیں مَرْخ اور عَفَار کہتے تھے۔( تفسیر قرطبی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ۹ / ۱۶۲، الجزء السابع عشر، مدارک، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ص۱۲۰۳، ملتقطاً)
ایندھن حاصل کرنے کے موجودہ ذرائع اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں :
یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے فی زمانہ ہمارے لئے ایندھن حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع جیسے کوئلہ، گیس اور تیل وغیرہ ظاہر فرما دئیے ہیں اور ان سے ہم آسانی کے ساتھ اپنی ضروریّات پوری کر رہے ہیں ۔ جس طرح اُس درخت کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا جسے رگڑ کر ایندھن حاصل کیا جاتا تھا اسی طرح کوئلہ ،گیس اور تیل وغیرہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے،لہٰذا ہر بندے پر لازم ہے کہ وہ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔
{ نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً: ہم نے اسے یادگار بنایا۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آگ کے دو فوائد بیان فرمائے ،
پہلا فائدہ یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس آگ کوجہنم کی آگ کی یادگار بنایا تاکہ دیکھنے والا اس آگ کو دیکھ کرجہنم کی بڑی آگ کو یاد کرے اور اللہ تعالیٰ سے اور اس کے عذاب سے ڈرے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تمہاری آگ جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ آگ بھی کافی گرم ہے۔ارشاد فرمایا’’وہ اس سے 69حصے زیادہ گرم ہے اور ہر حصے میں اس کے برابر گرمی ہے۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۶، الحدیث: ۳۲۶۵)
دوسرا فائدہ یہ ارشاد فرمایا کہ آگ کو جنگل میں سفر کرنے والوں کیلئے نفع مندبنایا کہ وہ اپنے سفروں میں شمعیں جلا کر،کھانا وغیرہ پکاکر اور خود کو سردی سے بچا کر اُس سے نفع اُٹھاتے ہیں ۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۳، ۴ / ۲۲۲، ملخصاً)
{ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ: تو اے محبوب! تم اپنے عظمت والے رب کے نام کی پاکی بیان کرو۔ } اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیّت اور قدرت کے دلائل اور تمام مخلوق پر اپنے انعامات ذکر فرمانے کے بعد اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ اپنے عظمت والے رب عَزَّوَجَلَّ کے نام کی ان تما م چیزوں سے پاکی بیان کریں جو مشرکین کہتے ہیں ۔ (خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۴ / ۲۲۲)
{ فَلَاۤ اُقْسِمُ: تو مجھے قسم ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ستاروں کے ڈوبنے کی جگہوں کی قسم ارشاد فرمائی، ان جگہوں کے بارے میں امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مختلف اقوال ذکر کئے ہیں ۔
(1)…ان سے مَشارق اور مَغارب مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے صرف مغارب مراد ہیں کیونکہ ستارے اسی جگہ غروب ہوتے ہیں ۔
(2)… ان سے آسمان میں بُروج اور (سیاروں یا ستاروں ) کی مَنازل مراد ہیں ۔
(3)…ان سے شَیاطین کوپڑنے والے شہاب ِثاقب کے گرنے کی جگہیں مراد ہیں ۔
(4)…ان سے قیامت کے دن ستاروں کے مُنتَشِر ہونے کے بعد گرنے کی جگہیں مراد ہیں ۔( تفسیرکبیر، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۵، ۱۰ / ۴۲۶)
{ وَ اِنَّهٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ: اور اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے۔}ا رشاد فرمایا کہ اگر تمہیں علم ہو تو تم اس قَسم کی عظمت جان لو گے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور حکمت کے کمال پر دلالت کرتی ہے۔(جلالین مع صاوی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۶، ۶ / ۲۰۹۶-۲۰۹۷)
{ اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌ: بیشک یہ عزت والا قرآن ہے۔} کفارِ مکہ قرآنِ پاک کو شعر اور جادو کہا کرتے تھے ،اللہ تعالیٰ نے ستاروں کے ڈوبنے کی جگہوں کی قسم ارشاد فرما کر ان کا رد کرتے ہوئے اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں فرمایا کہ بے شک جو قرآن سرکارِ دو عالَم،محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل فرمایا گیا یہ شعر اور جادو نہیں اور نہ ہی یہ کسی کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے ،بلکہ یہ عزت والا قرآن ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام اورا س کی وحی ہے اوراللہ تعالیٰ نے اسے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معجزہ بنایا ہے اوریہ محفوظ اور پوشیدہ کتاب لوحِ محفوظ میں موجود ہے جس میں تبدیل اور تحریف ممکن نہیں اور نہ ہی اس تک شَیاطین پہنچ سکتے ہیں ۔ (تفسیرکبیر، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۷-۷۸، ۱۰ / ۴۲۸، خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۷-۷۸، ۴ / ۲۲۳، تفسیر قرطبی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۷-۷۸، ۹ / ۱۶۴، الجزء السابع عشر، ملتقطاً)
{لَا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ: اسے پاک لوگ ہی چھوتے ہیں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اس محفوظ اور پوشیدہ کتاب کو فرشتے ہی چھوتے ہیں جو کہ شرک ،گناہ اور ناپاک ہونے سے پاک ہیں ۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ قرآن پاک کو شرک سے پاک لوگ ہی چھوتے ہیں ۔تیسری تفسیر یہ ہے کہ قرآن پاک کو وہ لوگ ہاتھ لگائیں جو با وضو ہوں اور ان پر غسل فرض نہ ہو۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۹، ۴ / ۲۲۳)
حدیث شریف میں بھی اسی چیز کا حکم دیا ہے ،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قرآن پاک کو وہی ہاتھ لگائے جو پاک ہو۔(معجم صغیر، باب الیاء، من اسمہ: یحیی، ص ۱۳۹، الجزء الثانی)
قرآن پاک چھونے سے متعلق 7اَحکام:
یہاں آیت کی مناسبت سے قرآنِ مجید چھونے سے متعلق7اَحکام ملاحظہ ہوں ،
(1)…قرآن عظیم کو چھونے کے لئے وضو کرنا فرض ہے۔( نور الایضاح، کتاب الطہارۃ، فصل فی اوصاف الوضو ء، ص ۵۹)
(2)…جس کا وضو نہ ہو اسے قرآنِ مجید یا اس کی کسی آیت کا چھونا حرام ہے، البتہ چھوئے بغیر زبانی یادیکھ کر کوئی آیت پڑھے تواس میں کوئی حرج نہیں ۔
(3)…جس کو نہانے کی ضرورت ہو( یعنی جس پر غسل فرض ہو) اسے قرآن مجید چھونا اگرچہ اس کا سادہ حاشیہ یا جلد یا چولی چھوئے ،یا چھوئے بغیردیکھ کر یا زبانی پڑھنا ،یا کسی آیت کا لکھنا ،یا آیت کا تعویذ لکھنا ،یا قرآنِ پاک کی آیات سے لکھا تعویذ چھونا ،یا قرآن پاک کی آیات والی انگوٹھی جیسے حروفِ مُقَطَّعات کی انگوٹھی چھونا یا پہننا حرام ہے۔
(4)…اگر قرانِ عظیم جُزدان میں ہو تو جزدان پر ہاتھ لگانے میں حرج نہیں ،یوہیں رومال وغیرہ کسی ایسے کپڑے سے پکڑنا جو نہ اپنا تابع ہو نہ قرآنِ مجید کا تو جائز ہے۔ کرتے کی آستین، دُوپٹے کی آنچل سے یہاں تک کہ چادر کا ایک کونا اس کے کندھے پر ہے تو دوسرے کونے سے قرآن پاک چھونا حرام ہے کیونکہ یہ سب اس کے ایسے ہی تابع ہیں جیسے چولی قرآن مجید کے تابع تھی۔
(5)…روپیہ کے او پر آیت لکھی ہو تو ان سب کو (یعنی بے وضو اور جنب اور حیض و نفاس والی کو) اس کا چھونا حرام ہے ،ہاں اگر روپے تھیلی میں ہوں تو تھیلی اٹھانا جائز ہے۔یوہیں جس برتن یا گلاس پر سورت یا آیت لکھی ہو اس کو چھونا بھی انہیں حرام ہے اور اس برتن یا گلاس کواستعمال کرنا ان سب کے لئے مکروہ ہے،البتہ اگر خاص شفا کی نیت سے انہیں استعمال کریں تو حرج نہیں ۔
(6)…قرآن کا ترجمہ فارسی یا اردو یا کسی اور زبان میں ہو تو اسے بھی چھونے اور پڑھنے میں قرآنِ مجید ہی کا سا حکم ہے۔
(7)…قرآنِ مجید دیکھنے میں ان سب پر کچھ حرج نہیں اگرچہ حروف پر نظر پڑے اور الفاظ سمجھ میں آئیں اور دل میں پڑھتے جائیں ۔ (بہار شریعت، حصہ دوم، غسل کا بیان، ۱ / ۳۲۶-۳۲۷، ملخصاً)
{ تَنْزِیْلٌ: اتارا ہوا ہے۔} اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا رد کیا جو قرآن پاک کو شعر ،جادو یا کہانت کہتے ہیں ،اور ارشاد فرمایا کہ یہ قرآن اس ربّ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو سب جہانوں کا مالک ہے توپھر یہ شعر یا جادو کس طرح ہو سکتا ہے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۴ / ۲۲۴، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan