Surah al-Waqi`ah
{ اَفَبِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَ: تو کیا تم اس بات میں سستی کرتے ہو؟} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا کہ اے اہلِ مکہ ! تو کیا تم اللہ تعالیٰ کے اس کلام کی تصدیق کرنے کی بجائے اس کا انکار کرتے ہو اور ا س انکار کو معمولی سمجھتے ہو اور تم نے اس عظیم نعمت کا شکر کرنے کی بجائے قرآن کو جھٹلانا ہی اپنا حصہ قرار دے رکھا ہے۔تفسیر خازن میں ہے،حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’وہ بندہ بڑابد نصیب ہے جس کا حصہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو جھٹلانا ہو ۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۴ / ۲۲۴)
بعض مفسرین نے اس آیت ’’وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ‘‘ کے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں : اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو نعمتیں عطا کی ہیں تم نے ان کا شکر کرنے کی بجائے انہیں جھٹلانا اپنا حصہ بنا رکھا ہے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۴ / ۲۲۴) اور جھٹلانے سے مراد یہ ہے کہ وہ نعمت ملنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کی بجائے اَسباب کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔
حضرت زید بن خالد جہنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حُدَیْبیہ کے مقام پر بارش والی رات میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی، جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا’’کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے کیا فرمایا ہے؟لوگ عرض گزار ہوئے: اللہ تعالیٰ اور ا س کا رسول بہتر جانتے ہیں ’’ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میرے بندوں نے صبح کی تو کچھ مجھ پر ایمان رکھنے والے اور کچھ منکر تھے،بہرحال جس نے کہا:اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہم پر بارش برسائی گئی تو وہ مجھ پر ایمان رکھنے والا اور ستاروں کا منکر ہے اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے نے بارش برسائی ہے تو وہ میرا منکر اور ستاروں پر یقین رکھنے والاہے۔( بخاری، کتاب الاذان، باب یستقبل الامام الناس اذا سلّم، ۱ / ۲۹۵، الحدیث:۸۴۶)
{ فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ: پھر کیوں نہیں جب جان گلے تک پہنچے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کفار!تمہارا حال یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس وہ کتاب لائی جائے جس نے تمہیں اپنی مثل لانے سے عاجز کر دیا تو تم کہتے ہو کہ یہ جادو ہے اور یہ خود بنائی ہوئی کتاب ہے،اگر تمہاری طرف سچا رسول بھیجا جائے تو تم اسے جادوگر اور جھوٹا کہنے لگ جاتے ہو اوراگر ہم تمہیں بارش عطا کریں تو تم کہنے لگتے ہو کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نازل ہوئی ہے ۔اگر تم اپنی ان باتوں میں سچے ہو اور تمہارے خیال کے مطابق مرنے کے بعد اُٹھنا ، اعمال کا حساب کیا جانا اور جزا دینے والا معبود وغیرہ یہ سب کچھ کوئی حقیقت نہیں ہے تو پھر تم ایساکیوں نہیں کرتے کہ جب تمہارے پیاروں میں سے کسی پر نَزع کا وقت طاری ہو اور اس کی روح حلق تک پہنچ چکی ہو تو تم(اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر)اس کی روح کولوٹادو، حالانکہ تم ا س وقت دیکھ رہے ہوتے ہو کہ اس پر موت کی غَشی طاری ہے اور ا س کی روح بس نکلنے ہی والی ہے لیکن تم اس مرنے والے کی روح لوٹانے اور اس کی جان بچانے پر قادر نہیں البتہ ہم اس وقت اپنے علم وقدرت کے ساتھ تم سے زیادہ اس مرنے والے کے قریب ہوتے ہیں کہ ہر چیز کو جانتے بھی ہیں اور سب کچھ کر بھی سکتے ہیں لیکن تم اس چیز کو جانتے نہیں ۔ جب تمہیں معلوم ہے کہ روح کو لوٹا دینا تمہارے اختیار میں نہیں ہے تو سمجھ جاؤکہ یہ کام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، لہٰذا تم پر لازم ہے کہ اس پر ایمان لاؤ۔(مدارک،الواقعۃ، تحت الآیۃ:۸۳-۸۷، ص ۱۲۰۴-۱۲۰۵، جلالین مع جمل، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۸۳-۸۷، ۷ / ۴۰۶- ۴۰۷، خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۸۳-۸۷، ۴ / ۲۲۴-۲۲۵، ملتقطاً)
{ فَاَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ: پھر وہ فوت ہونے والا اگر مقرب بندوں میں سے ہے۔} یہاں سے موت کے وقت مخلوق کے طبقات کے احوال اور ان کے درجات بیان فرمائے جا رہے ہیں ،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اگر مرنے والا آگے بڑھ جانے والے اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے ہے تو ا س کے لئے (موت کے وقت) راحت ، خوشبودارپھول اور آخرت میں نعمتوں کی جنت ہے۔
{وَ اَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ: اور اگر وہ دائیں جانب والوں میں سے ہو۔} اس آیت اورا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اگر مرنے والا دائیں جانب والوں میں سے ہو تو اے اَنبیاء کے سردار! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ ان کا سلام قبول فرمائیں اور ان کے لئے غمگین نہ ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے سلامت اور محفوظ رہیں گے اور آپ ان کو اسی حال میں دیکھیں گے جو آپ کو پسند ہو۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۹۰-۹۱،۴ / ۲۲۵)
{ اِنَّ هٰذَا: یہ بیشک۔ } یعنی مرنے والوں کے اَحوال اور جو مَضامین اس سورت میں بیان کئے گئے، اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے لئے تیار کی گئی جن نعمتوں اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے لئے تیار کئے گئے جن عذابات کا ذکر ہوا اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کے جو دلائل بیان ہوئے ،یہ بے شک اعلیٰ درجے کی یقینی بات ہے اور ا س میں تَرَدُّد کی کوئی گنجائش نہیں۔(خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ۴ / ۲۲۵)
{ فَسَبِّحْ: تو اے محبوب! تم پاکی بیان کرو۔ } حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب یہ آیت ’’ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ‘‘نازل ہوئی توسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’ اسے اپنے رکوع میں داخل کرلو اور جب یہ آیت ’’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلٰی‘‘نازل ہوئی تو فرمایا اسے اپنے سجدوں میں داخل کرلو۔( ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب مایقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ، ۱ / ۳۳۰، الحدیث: ۸۶۹)
اس آیت سے ثابت ہوا کہ رکوع و سجود کی تسبیحات قرآنِ کریم سے ماخوذ ہیں ۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan