READ

Surah Al-Qasas

اَلْقَصَص
88 Ayaat    مکیۃ


28:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

28:1
طٰسٓمّٓ(۱)
طٰسم

{ طٰسٓمّٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں  سے ایک حرف ہے ،اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{تِلْكَ اٰیٰتُ: یہ آیتیں  ہیں ۔} یعنی اس سورت کی آیتیں  اس روشن کتاب کی آیتیں  ہیں  جس میں  حلا ل و حرام کے احکام، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی صداقت ،پہلو ں  اور بعد والوں  کی خبروں  کا بیان ہے اور اس کتاب کی شان یہ ہے کہ وہ حق و باطل میں  فرق کر دیتی ہے ۔یہاں  روشن کتاب سے مراد قرآن مجید ہے یا اس سے لوحِ محفوظ مراد ہے ۔(تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۲، ۸ / ۵۷۷، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۲، ص۳۲۶، ملتقطاً)

لوحِ محفوظ اور قرآن مجید کے روشن کتاب ہونے میں  فرق:

یاد رہے کہ لوحِ محفوظ کو بھی کتاب ِمُبین فرمایا جاتا ہے، اور قرآن کریم کو بھی،البتہ ان دونوں  میں  فرق یہ ہے کہ لوحِ محفوظ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خاص مقبول بندوں  پر ہی ظاہر ہے جبکہ قرآنِ کریم ہر مومن کے لئے ظاہر ہے اگرچہ اس کے اَسرار و رُموز کی معرفت بھی خاص بندوں  کے ساتھ خاص ہے۔

28:2
تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ(۲)
یہ آیتیں ہیں روشن کتاب (ف۲)

28:3
نَتْلُوْا عَلَیْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۳)
ہم تم پر پڑھیں موسیٰ اور فرعون کی سچی خبر ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں،

{نَتْلُوْا عَلَیْكَ مِنْ نَّبَاِ: ہم تمہارے سامنے خبرپڑھتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم آپ کے سامنے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرعون کی سچی خبر ان لوگوں  کے لئے پڑھتے ہیں  جو ایمان رکھتے ہیں  ۔یہاں  ایمان والوں  کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہی ان واقعات سے حاصل ہونے والی نصیحت کو قبول کرتے ہیں  ۔نیز یاد رہے کہ ا س سورت سے پہلے 19سورتوں  میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ ذکر ہو چکا ہے اور اس سورت کے بعد مزید 17سورتوں  میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ مذکور ہے۔اتنی کثرت سے آپ کا واقعہ ذکر کرنے کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں  حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی خاص دلیل تھی کیونکہ آپ بغیر پڑھے اور تاریخ دانوں  کے پاس بیٹھے بغیرایسے سچے واقعات بیان کر رہے تھے اور یہ وحی کے بغیر ممکن نہیں ۔ دوسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ عرب میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرعون کے واقعات خاص و عام میں  بہت مشہور تھے ، اور ان واقعات میں  بنی اسرائیل نے بہت سی غلط باتیں  ملا دی تھیں ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ واقعات قرآن کریم میں  جگہ جگہ مختلف طریقوں  سے بیان کئے تاکہ اس کے غلط اور صحیح پہلو ایک دوسرے سے ممتاز ہو جائیں ۔

 

28:4
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآىٕفَةً مِّنْهُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ(۴)
بیشک فرعون نے زمین میں غلبہ پایا تھا (ف۳) اور اس کے لوگوں کو اپنا تابع بنایا ان میں ایک گروہ کو (ف۴) کمزور دیکھتا ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا (ف۵) بیشک وہ فسادی تھا،

{اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ: بیشک فرعون نے زمین میں  تکبر کیا تھا۔} یعنی مصر کی سرزمین میں  فرعون کا غلبہ تھا اور وہ ظلم و تکبر میں  انتہا کو پہنچ گیا تھا حتّٰی کہ اس نے اپنی عَبْدِیَّت اور بندہ ہونا بھی بھلا دیا تھا ۔فرعون نے مصر میں  رہنے والے لوگوں  کے مختلف گروہ بنادئیے تھے اوران کے درمیان عداوت اوربغض ڈال دیاتاکہ وہ کسی ایک بات پرجمع نہ ہوسکیں  اور اس نے ان گروہوں  میں  سے بنی اسرائیل کوکمزور اورا پنا خادم بناکررکھا ہواتھا ۔بنی اسرائیل کے ساتھ اس کا سلوک یہ تھا کہ وہ ان کے ہاں  پیدا ہونے والے بیٹوں  کو ذبح کردیتا اور ان کی لڑکیوں  کو خدمت گاری کے لئے زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ بیٹوں  کو ذبح کرنے کا سبب یہ تھا کہ کاہنوں  نے اس سے یہ کہہ دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں  ایک بچہ پیدا ہو گا جو تیری بادشاہت کے زوال کا باعث ہو گا، اس لئے وہ ایسا کرتا تھا اور یہ اس کی انتہائی حماقت تھی کیونکہ اگر وہ اپنے خیال میں  کاہنوں  کو سچا سمجھتا تھا تو یہ بات ہونی ہی تھی، لڑکوں  کو قتل کر دینے سے کوئی نتیجہ نہ ملتا اور اگر وہ انہیں  سچا نہیں  جانتا تھا تو یہ اس کے نزدیک ایک لغو بات تھی اور لغوبات کا لحاظ کرنا اور بیٹوں  کو قتل کرنا کسی طرح درست نہ تھا۔ بیشک وہ بنی اسرائیل کے بیٹوں  کو قتل کر کے فساد کرنے والوں  میں  سے تھا۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۴، ص۸۶۰، تفسیرابو سعود، القصص، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۲۲۳-۲۲۴، ملتقطاً)

حکمرانی قائم رکھنے کیلئے فرعون کا طریقہ اور موجودہ دور کے حکمرانو ں  کا طرز ِعمل:

             حکمرانی قائم رکھنے کے لئے رعایا کو مختلف گروہوں  میں  تقسیم کر دینا اور ان میں  باہم بغض و عداوت ڈال دینا فرعون جیسے بدترین کافر کا طریقہ ہے اور دیکھاجائے تویہی طریقہ ہمارے دورمیں  بھی رائج ہے ،مسلم اور غیر مسلم دونوں  طرح کے حکمران لوگوں  کومختلف مسائل میں  الجھائے رکھتے ہیں  تاکہ لوگ ان مسائل ہی سے نہ نکل پائیں  اوران کی حکمرانی قائم رہے اور اس طرزِ عمل کے نتیجے میں  ان حکمرانوں  کا جو حال ہوتا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں  عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔

 

28:5
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ اَىٕمَّةً وَّ نَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَۙ(۵)
اور ہم چاہتے تھے کہ ان کمزوریوں پر احسان فرمائیں اور ان کو پیشوا بنائیں (ف۶) اور ان کے ملک و مال کا انہیں کو وارث بنائیں (ف۷)

{وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ: اور ہم چاہتے تھے کہ احسان فرمائیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون نے تو بنی اسرائیل کو کمزور بنا کر رکھا ہوا تھا لیکن اللہ تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو فرعون کی سختی سے نجات دے کر ان پر احسان فرمائے اور انہیں  پیشوا بنائے کہ وہ لوگوں  کو نیکی کی راہ بتائیں  اور لوگ نیکی میں  ان کی اقتدا کریں  اور اللہ تعالیٰ وہ تمام اَملاک و اَموال ان کمزور بنی اسرائیل کو دیدے جو فرعون اور اس کی قوم کی ملکیت میں  تھے اور اللہ تعالیٰ انہیں  مصر و شام کی سرزمین میں  اقتدار دے اور فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں  کو وہی دکھادے جس کا انہیں  بنی اسرائیل کی طرف سے خطرہ تھااور ا س سے بچنے کی وہ بھرپور کوشش کر رہے تھے یعنی بنی اسرائیل کے ایک فرزند کے ہاتھ سے ان کی سلطنت کا زوال ہونا اور ان لوگوں  کا ہلاک ہو جانا۔(مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۵-۶، ص۸۶۰-۸۶۱، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۶ / ۳۸۱، ملتقطاً)

          یاد رہے کہ آیت نمبر5میں  وراثت سے مراد شرعی میراث نہیں  کیونکہ مومن کافر کا وارث نہیں  ہوتا بلکہ یہاں  وراثت کے وسیع مفہوم میں  سے ایک معنی مراد ہے یعنی موت کے بعد اس کی سلطنت کا وارث ہونا۔

28:6
وَ نُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَحْذَرُوْنَ(۶)
اور انہیں (ف۸) زمین میں قبضہ دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی دکھادیں جس کا انہیں ان کی طرف سے خطرہ ہے (ف۹)

28:7
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِیْهِۚ-فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْۚ-اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۷)
اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو الہام فرمایا (ف۱۰) کہ اسے دودھ پلا (ف۱۱) پھر جب تجھے اس سے اندیشہ ہو (ف۱۲) تو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈر (ف۱۳) اور نہ غم کر (ف۱۴) بیشک ہم اسے تیری طرف پھیر لائیں اور اسے رسول بنائیں گے (ف۱۵)

{وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰى: اور ہم نے موسیٰ کی ماں  کو اِلہام فرمایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ کا نام یوحانذ ہے اورآپ لاوی بن یعقوب کی نسل سے ہیں  ۔ اللہ تعالی نے انہیں  خواب یا فرشتے کے ذریعے یا ان کے دل میں  یہ بات ڈال کر الہام فرمایا کہ تم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دودھ پلاؤ،پھر جب تجھے اس پر خوف ہو کہ ہمسائے واقف ہو گئے ہیں  ،وہ شکایت کریں  گے اور فرعون اس فرزند ِاَرْجْمند کو قتل کرنے کے درپے ہو جائے گا تو بے خوف و خطراسے مصر کے دریا نیل میں  ڈال دے اوراس کے غرق ہوجانے اور ہلاک ہوجانے کا اندیشہ اور اس کی جدائی کا غم نہ کر ،بیشک ہم اسے تیری طرف پھیر لائیں  گے اور اسے رسولوں  میں  سے بنائیں  گے ۔چنانچہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا چند روز حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دودھ پلاتی رہیں ، اس عرصے میں  نہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روتے تھے، نہ ان کی گود میں  کوئی حرکت کرتے تھے اورنہ آپ کی بہن کے سوا اور کسی کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کی اطلاع تھی اور جب آپ کو فرعون کی طرف سے اندیشہ ہوا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوایک صندوق میں  رکھ کر جو خاص طور پر اس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا،رات کے وقت دریائے نیل میں  بہا دیا ۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۴۲۳، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۷، ص۸۶۱، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۷، ص ۳۲۶، ملتقطاً)

 اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو بھی غیب کا علم عطا ہوتا ہے:

             اس سے معلو م ہوا کہ حضرت یو حانذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو حسب ِذَیل باتیں  بتائی گئی تھیں ،

(1)… حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ابھی وفات نہ پائیں  گے ۔

 (2)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پرورش وہ خود کریں  گی۔

(3)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رسول بنائے جائیں  گے۔

            یہ سب مستقبل کی خبریں  غیب کے علوم میں  سے ہیں  اوراس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو بھی غیب کا علم عطا ہوتا ہے۔

 

28:8
فَالْتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّ حَزَنًاؕ-اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـٕیْنَ(۸)
تو اسے اٹھالیا فرعون کے گھر والوں نے (ف۱۶) کہ وہ ان کا دشمن اور ان پر غم ہو (ف۱۷) بیشک فرعون اور ہامان (ف۱۸) اور ان کے لشکر خطا کار تھے (ف۱۹)

{فَالْتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ: تو اسے فرعون کے گھر والوں  نے اٹھالیا۔} یعنی جس رات حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ نے آپ کو دریا میں  ڈالا اس کی صبح کو فرعون کے گھر والوں  نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صندوق کو دریا ئے نیل سے اپنے محل میں  آنے والی نہر سے اٹھا لیا اور اس صندوق کو فرعون کے سامنے رکھا ،جب اسے کھولا گیا تو اس میں  سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام برآمد ہوئے جو اپنے انگوٹھے سے دودھ چوس رہے تھے ۔فرعون کے گھر والوں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اٹھایا۔ (اٹھانے کا مقصد یہ نہیں  تھا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ان کیلئے دشمن اور غم کا باعث بنیں  لیکن اِس اٹھانے کا انجام و نتیجہ یہ بنا۔ عربی زبان میں  آیت میں  مذکور ’’لام‘‘ کو ’’لامِ عاقِبَت‘‘ کہتے ہیں ۔) فرعون ،اس کا وزیر ہامان اور ان کے لشکر نافرمان تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں  یہ سزا دی کہ انہیں  ہلاک کرنے والے دشمن کی انہی سے پر ورش کرائی۔( جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۸، ص۳۲۶، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۸، ص۸۶۲، ملتقطاً)

28:9
وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَ لَكَؕ-لَا تَقْتُلُوْهُ ﳓ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(۹)
اور فرعون کی بی بی نے کہا (ف۲۰) یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، شاید یہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں (ف۲۱) اور وہ بے خبر تھے (ف۲۲)

{وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ: اور فرعون کی بیوی نے کہا۔} جب فرعون نے اپنی قوم کے لوگوں  کی طرف سے ورغلائے جانے کی بنا پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو فرعون کی بیوی نے اس سے کہا: یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں  کی ٹھنڈک ہے،تم اسے قتل نہ کرو، شاید یہ ہمیں  نفع دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں کیونکہ یہ اسی قابل ہے ۔ فرعون کی بیوی آسیہ بہت نیک خاتون تھیں ، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسل سے تھیں ،غریبوں  اور مسکینوں  پر رحم و کرم کرتی تھیں ، انہوں  نے فرعون سے یہ بھی کہا کہ یہ بچہ سال بھر سے زیادہ عمر کا معلوم ہوتا ہے اور تو نے اس سال کے اندر پیدا ہونے والے بچوں  کے قتل کا حکم دیا ہے ،اس کے علاوہ معلوم نہیں  یہ بچہ دریا میں  کس سرزمین سے یہاں  آیا ہے اور تجھے جس بچے سے اندیشہ ہے وہ اسی ملک کے بنی اسرائیل سے بتایا گیا ہے، لہٰذا تم اسے قتل نہ کرو۔ آسیہ کی یہ بات ان لوگوں  نے مان لی حالانکہ وہ اس انجام سے بے خبرتھے جو ان کا ہونے والا تھا ۔( جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۹، ص۳۲۶، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۴۲۵، ملتقطاً)

28:10
وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًاؕ-اِنْ كَادَتْ لَتُبْدِیْ بِهٖ لَوْ لَاۤ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۰)
اور صبح کو موسیٰ کی ماں کا دل بے صبر ہوگیا (ف۲۳) ضرو ر قریب تھا کہ وہ اس کا حال کھول دیتی (ف۲۴) اگر ہم نہ ڈھارس بندھاتے اس کے دل پر کہ اسے ہمارے وعدہ پر یقین رہے (ف۲۵)

{وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًا:  اور صبح کے وقت موسیٰ کی ماں  کا دل بے قرار ہوگیا۔} یعنی جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ نے سنا کہ ان کے فرزند فرعون کے ہاتھ میں  پہنچ گئے ہیں  تو یہ سن کر آپ کا دل بے قرار ہوگیا اور بیشک قریب تھا کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ظاہر کردیتیں  اور ممتا کی محبت کے جوش میں  ہائے میرے بیٹا! ہائے میرے بیٹا! پکار اُٹھتیں  ۔ اگر ہم ا س بات کااِلہام کر کے اس کے دل کو مضبوط نہ کرتے کہ وہ ہمارے اس وعدے پر یقین رکھنے والوں  میں  سے رہے جو ہم کر چکے ہیں  کہ تیرے اس فرزند کو تیری طرف پھیر لائیں  گے تواس سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا راز ظاہر ہوجاتا۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۴۲۵-۴۲۶، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۸۶۲-۸۶۳، ملتقطاً)

28:11
وَ قَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّیْهِ٘-فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَۙ(۱۱)
اور اس کی ماں نے اس کی بہن سے کہا (ف۲۶) اس کے پیچھے چلی جا تو وہ اسے دور سے دیکھتی رہی اور ان کو خبر نہ تھی (ف۲۷)

{وَ قَالَتْ لِاُخْتِهٖ: اور اس کی ماں  نے اس کی بہن سے کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہن مریم سے کہا: تم حال معلوم کرنے کے لئے اس کے پیچھے چلی جاؤ ،چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہن آپ کے پیچھے چلتی رہی اور آپ کو دور سے دیکھتی رہی اور ان فرعونیوں کو اس بات کی خبر نہ تھی کہ یہ اس بچے کی بہن ہے اور اس کی نگرانی کررہی ہے۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۴۲۶)

28:12
وَ حَرَّمْنَا عَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰۤى اَهْلِ بَیْتٍ یَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ وَ هُمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَ(۱۲)
اور ہم نے پہلے ہی سب دائیاں اس پر حرام کردی تھیں (ف۲۸) تو بولی کیا میں تمہیں بتادوں ایسے گھر والے کہ تمہارے اس بچہ کو پال دیں اور وہ اس کے خیر خواہ ہیں (ف۲۹)

{وَ حَرَّمْنَا عَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ: اور ہم نے پہلے ہی سب دائیاں  اس پر حرام کردی تھیں ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے پہلے ہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو منع کر دیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کے علاوہ کسی اور کا دودھ نوش نہ فرمائیں ۔ چنانچہ جس قدر دائیاں  حاضر کی گئیں  ان میں  سے کسی کی چھاتی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے منہ میں  نہ لی، اس سے ان لوگوں  کو بہت فکر ہوئی کہ کہیں  سے کوئی ایسی دائی مُیَسَّر آئے جس کا دودھ آپ پی لیں ۔ دائیوں  کے ساتھ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہمشیرہ بھی یہ حال دیکھنے چلی گئی تھیں  اور صورتِ حال دیکھ کر انہوں  نے کہا :کیا میں  تمہیں  ایسے گھر والے بتادوں جوتمہارے اس بچے کی ذمہ داری لے لیں  اور وہ اس کے خیر خواہ بھی ہوں ؟ فرعونیوں  نے یہ بات منظور کر لی ، چنانچہ آپ اپنی والدہ کو بلالائیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام فرعون کی گود میں  تھے اور دودھ کے لئے رورہے تھے اورفرعون آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شفقت کے ساتھ بہلارہا تھا۔ جب آپ کی والدہ تشریف لائیں  اور آپ نے اُن کی خوشبو پائی تو آپ کو قرار آگیا اور آپ نے ان کا دودھ نوش فرما لیا۔فرعون نے کہا :تم اس بچے کی کیا لگتی ہو کہ اُس نے تیرے سوا کسی کے دودھ کو منہ بھی نہ لگایا؟ انہوں  نے کہا :میں  ایک عورت ہوں ، پاک صاف رہتی ہوں ،میرا دودھ خوشگوار ہے، جسم خوشبودار ہے، اس لئے جن بچوں کے مزاج میں  نَفاست ہوتی ہے وہ اور عورتوں  کا دودھ نہیں  لیتے ہیں  جبکہ میرا دودھ پی لیتے ہیں ۔ فرعون نے بچہ انہیں  دیا اور دودھ پلانے پر انہیں  مقرر کرکے فرزند کو اپنے گھرلے جانے کی اجازت دی ،چنانچہ آپ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواپنے مکان پر لے آئیں ۔اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا اس وقت انہیں  اطمینانِ کامل ہوگیا کہ یہ فرزندِ اَرْجْمند ضرور نبی ہوں  گے، اللہ تعالیٰ اس وعدہ کا ذکر فرماتا ہے۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۴۲۶، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۸۶۳، ملتقطاً)

28:13
فَرَدَدْنٰهُ اِلٰۤى اُمِّهٖ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۠(۱۳)
تو ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف پھیرا کہ ماں کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور غم نہ کھائے اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (ف۳۰)

{ فَرَدَدْنٰهُ اِلٰۤى اُمِّهٖ: تو ہم نے اسے اس کی ماں  کی طرف لوٹا دیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی ماں  کی طرف لوٹا دیا تا کہ بچے کوپا کر ماں کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور وہ اپنے فرزند کی جدائی کا غم نہ کھائے اور وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں  جانتے اوراس سے متعلق شک میں  رہتے ہیں  ۔

            حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی والدہ کے پاس دودھ پینے کے زمانہ تک رہے اور اس عرصے میں  فرعون انہیں  ایک اشرفی روز دیتا رہا۔ دودھ چھوٹنے کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ آپ کو فرعون کے پاس لے آئیں  اوراس کے بعد آپ وہاں  پرورش پاتے رہے ۔( جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۳۲۷، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۸۶۳، ملتقطاً)

28:14
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۴)
اور جب اپنی جوانی کو پہنچا اور پورے زور پر آیا (ف۳۱) ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا (ف۳۲) اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو،

{وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰى: اور جب اپنی جوانی کو پہنچے اور بھرپور ہوگئے۔} گزشتہ آیات میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت اوران کی غیبی حفاظت کابیان تھااب اس آیت ِمبارکہ سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جوانی کے کچھ احوال بیان کیے جارہے ہیں  کہ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمرشریف 30سال سے زیادہ ہوگئی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوعلم وحکمت سے نوازا۔

            یہاں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علم ِلَدُنی ملاتھا جواستاد کے واسطے کے بغیر آپ کو عطا ہوا ،جیسا کہ ’’اٰتَیْنٰهُ‘‘ فرمانے سے معلوم ہوا اوریہ علم آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت عطا کئے جانے سے پہلے دیا گیا، اور یہ بھی یاد رہے کہ یہاں  حکم اورعلم سے مراد نبوت نہیں  کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت تو مَدیَن سے مصر آتے ہوئے راستہ میں  عطا ہوئی ۔ نیز حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شروع سے ہی صالح،نیک، متقی، پرہیز گار تھے۔

آیت ’’ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت ِمبارکہ سے دو مسئلے معلوم ہوئے ،

(1)… انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ظہورِ نبوت اور کتاب ِالٰہی ملنے سے پہلے ہی متقی ، صالح اور اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار ہوتے ہیں ۔ ہمارے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جب قرآن کی پہلی آیت اتری تو اس وقت آپ غارِحراء میں  اِعتکاف اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں  مشغول تھے۔

(2)… نیک اعمال کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامل علم ملتا ہے اور عالم کے عمل میں  برکت ہوتی ہے۔ لہٰذا علماء کو چاہیے کہ وہ نیک اعمال بکثرت کیا کریں ۔

 

28:15
وَ دَخَلَ الْمَدِیْنَةَ عَلٰى حِیْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا فَوَجَدَ فِیْهَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِ ﱪ هٰذَا مِنْ شِیْعَتِهٖ وَ هٰذَا مِنْ عَدُوِّهٖۚ-فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِهٖ عَلَى الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّهٖۙ-فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَیْهِ ﱪ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ(۱۵)
اور اس شہر میں داخل ہوا (ف۳۳) جس وقت شہر والے دوپہر کے خواب میں بے خبر تھے (ف۳۴) تو اس میں دو مرد لڑتے پائے، ایک موسیٰ، کے گروہ سے تھا (ف۳۵) اور دوسرا اس کے دشمنوں سے (ف۳۶) تو وہ جو اس کے گروہ سے تھا (ف۳۸) اس نے موسیٰ سے مدد مانگی، اس پر جو اس کے دشمنوں سے تھا، تو موسیٰ نے اس کے گھونسا مارا (ف۳۸) تو اس کا کام تما م کردیا (ف۳۹) کہا یہ کام شیطان کی طرف سے ہوا (ف۴۰) بیشک وہ دشمن ہے کھلا گمراہ کرنے والا،

{ وَ دَخَلَ الْمَدِیْنَةَ عَلٰى حِیْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا: اور شہروالوں  کی نیند کے وقت شہرمیں  داخل ہوئے۔} آیت کے اس حصے سے متعلق یہاں  دو باتیں  ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جس شہر میں  داخل ہوئے ا س کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ وہ شہر ’’مَنْف‘‘ تھا جو کہ مصر کی حدود میں  واقع ہے ۔اس لفظ کی اصل مَافَہ ہے، قبطی زبان میں  اس لفظ کے معنی ہیں  30۔یہ وہ پہلا شہر ہے جو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر طوفان کاعذاب آنے کے بعد آباد ہوا۔ اس سرزمین میں  مصربن حام نے اقامت کی، یہ اقامت کرنے والے کل 30 افرادتھے اس لئے اس شہر کا نام مافہ ہوا، پھر عربی زبان میں  اسے ’’مَنْف‘‘ پکارا جانے لگا۔دوسرا قول یہ ہے کہ وہ شہر حابین تھا جو مصر سے دو فرسنگ (یعنی 6 میل) کے فاصلہ پر واقع تھا ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ وہ شہر عین شمس تھا۔( جمل، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۱۳، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۲۷، ملتقطاً)

(2)…شہرمیں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پوشیدہ طور پر داخل ہونے کا سبب یہ تھا کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جوان ہوئے تو آپ نے حق کا بیان اور فرعون اور فرعونیوں  کی گمراہی کا رد شروع کیا اور فرعونیوں  کے دین کی ممانعت فرمائی ۔ بنی اسرائیل کے لوگ آپ کی بات سنتے اور آپ کی پیروی کیا کرتے تھے۔آہستہ آہستہ اس بات کا چرچا ہوا اور فرعونیوں  نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تلاش شرع کر دی ،اس لئے آپ جس بستی میں  داخل ہوتے تو ایسے وقت داخل ہوتے جب وہاں  کے لوگ غفلت میں  ہوں ۔ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ (جس دن حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شہر میں  داخل ہوئے) وہ دِن عید کا تھا اورلوگ اپنے لَہو و لَعب میں  مشغول تھے۔ (یعنی غفلت سے مراد سونا نہیں  بلکہ ان کا کھیل تماشے میں  مشغول ہونا تھا۔)( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۸۶۴، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۲۷، ملتقطاً)

{فَوَجَدَ فِیْهَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِ:  تو اس میں  دو مردوں  کو لڑتے ہوئے پایا۔} یعنی جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شہر میں  داخل ہوئے تو آپ نے اس میں  دو مردوں  کو لڑتے ہوئے پایا۔ ان میں  سے ایک حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گروہ بنی اسرائیل میں سے تھا اور دوسرا ان کے دشمنوں  یعنی فرعون کی قوم قِبطیوں  میں  سے تھا ،یہ اسرائیلی پر جَبر کر رہا تھا تاکہ وہ اس پر لکڑیوں  کا انبار لاد کر فرعون کے کچن میں  لے جائے ،چنانچہ جو مرد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گروہ میں  سے تھا اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اس کے خلاف مدد مانگی جو اس کے دشمنوں  سے تھا، تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پہلے اس قِبطی سے کہا :تو اسرائیلی پر ظلم نہ کر اور اس کو چھوڑ دے ،لیکن وہ باز نہ آیا اور بدزبانی کرنے لگا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کو اس ظلم سے روکنے کے لئے گھونسا مارا تووہ گھونسا کھاتے ہی مر گیا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے ریت میں  دفن کر دیا اور آپ کا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہ تھا،پھر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اس قبطی کا اسرائیلی پر ظلم کرنا جو اس کی ہلاکت کا باعث ہوا،یہ کام شیطان کی طرف سے ہواہے اور بیشک وہ کھلا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں  ’’هٰذَا‘‘ سے اس قتل کی طرف اشارہ ہے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بلا ارادہ ہوا ، یعنی قبطی کو قتل کرنے کا کام (در حقیقت ) شیطان کی طرف سے ہوا۔ (خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۲۷، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۸۶۴)اس بات کی مزید وضاحت اگلی آیت کی تفسیر میں  موجود ہے۔

28:16
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۱۶)
عرض کی، اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر زیادتی کی (ف۴۱) تو مجھے بخش دے تو رب نے اسے بخش دیا، بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے،

{قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ: عرض کی: اے میرے رب!میں  نے اپنی جان پر زیادتی کی۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ کلام عاجزی اور اِنکساری کے طور پر ہے کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کوئی مَعْصِیَت سرزد نہیں  ہوئی۔ یاد رہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہیں ، ان سے گناہ نہیں  ہوتے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قبطی کو مارنا در اصل ظلم دور کرنا اور مظلوم کی امداد کرنا تھا اور یہ کسی دین میں  بھی گناہ نہیں  ،پھر بھی اپنی طرف تقصیر کی نسبت کرنا اور استغفار چاہنا یہ اللہ تعالیٰ کے مُقَرَّب بندوں کا دستور ہی ہے۔( تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۵۸۵، ابو سعود، القصص، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۲۲۸، قرطبی، القصص، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷ / ۱۹۸، الجزء الثالث عشر، ملتقطاً)

28:17
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ(۱۷)
عرض کی اے میرے رب جیسا تو نے مجھ پر احسان کیا تو اب (ف۴۲) ہرگز میں مجرموں کا مددگار نہ ہوں گا،

{قَالَ رَبِّ: عرض کی: اے میرے رب!} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، جیساکہ میری تقصیر کی بخشش فرما کرتو نے میرے اوپر احسان کیا ہے تو اب مجھ پر یہ کرم بھی فرما کہ مجھے فرعون کی صحبت اور اس کے یہاں  رہنے سے بھی بچا کیونکہ اس کے ہمراہ رہنے والوں  میں  شمار کیا جانا بھی ایک طرح کا مدد گار ہونا ہے اور میں  ہرگز مجرموں  کا مددگار نہ ہوں  گا۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۸۶۴)

28:18
فَاَصْبَحَ فِی الْمَدِیْنَةِ خَآىٕفًا یَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِی اسْتَنْصَرَهٗ بِالْاَمْسِ یَسْتَصْرِخُهٗؕ-قَالَ لَهٗ مُوْسٰۤى اِنَّكَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ(۱۸)
تو صبح کی، اس شہر میں ڈرتے ہوئے اس انتظار میں کہ کیا ہوتا ہے (ف۴۳) جبھی دیکھا کہ وہ جس نے کل ان سے مدد چاہی تھی فریاد کررہا ہے (ف۴۴) موسیٰ نے اس سے فرمایا بیشک تو کھلا گمراہ ہے (ف۴۵)

{فَاَصْبَحَ فِی الْمَدِیْنَةِ خَآىٕفًا یَّتَرَقَّبُ: پھر موسیٰ نے شہر میں  ڈرتے ہوئے، انتظار میں  صبح کی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دعا مانگنے کے بعدحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شہر میں  ڈرتے ہوئے اور ا س انتظار میں  صبح کی کہ خدا جانے اس قبطی کے مارے جانے کا کیا نتیجہ نکلے اور اس کی قوم کے لوگ کیا کریں  ۔جب صبح ہوئی تواچانک آپ نے دیکھا کہ وہ مردجس نے کل ان سے مدد مانگی تھی،آج پھر فریاد کررہا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ فرعون کی قوم کے لوگوں  نے فرعون کو اطلاع دی کہ بنی اسرائیل کے کسی شخص نے ہمارے ایک آدمی کو مار ڈالا ہے۔ اس پر فرعون نے کہا کہ قاتل اور گواہوں  کو تلاش کرو۔چنانچہ فرعونی گشت کرتے پھرتے تھے اور انہیں  کوئی ثبوت نہیں  ملتا تھا ۔دوسرے دن جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پھر ایسا اتفاق پیش آیا کہ بنی اسرائیل کا وہی مرد جس نے ایک روز پہلے ان سے مدد چاہی تھی آج پھر ایک فرعونی سے لڑ رہا ہے،وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھ کر ان سے فریاد کرنے لگا ۔تب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے فرمایا: ’’بیشک تو ضرورکھلا گمراہ ہے۔ اس سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مراد یہ تھی کہ تو روز لوگوں  سے لڑتا ہے، اپنے آپ کو بھی مصیبت و پریشانی میں  ڈالتا ہے اور اپنے مددگاروں  کو بھی،تو کیوں  ایسے موقعوں  سے نہیں  بچتا اور کیوں  احتیاط نہیں  کرتا۔ پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو رحم آیا اور آپ نے چاہا کہ اس کو فرعونی کے پنجہ ِظلم سے رہائی دلائیں  ۔تو جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چاہا کہ اس فرعونی کو پکڑلیں  اور اس پر گرفت فرمائیں  جو ان دونوں  کا دشمن تھا تو اسرائیلی مردغلطی سے یہ سمجھا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مجھ سے خفا ہیں  اور مجھے پکڑنا چاہتے ہیں  ،یہ سمجھ کروہ بولا: اے موسیٰ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، کیا تم مجھے ویسے ہی قتل کرنا چاہتے ہو جیسے تم نے کل ایک شخص کو قتل کردیا تھا، تم تو یہی چاہتے ہو کہ مصر کی سرزمین میں  زبردستی کرنے والے بن جاؤ اورتم اصلاح کرنے والوں  میں  سے نہیں  ہوناچاہتے ۔ فرعونی نے یہ بات سنی اور جا کر فرعون کو اطلاع دی کہ کل کے فرعونی مقتول کے قاتل حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ فرعون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قتل کا حکم دیا اور لوگ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ڈھونڈنے نکل گئے۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۸-۱۹، ۳ / ۴۲۸، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۸-۱۹، ص۸۶۴-۸۶۵، ملتقطاً)

28:19
فَلَمَّاۤ اَنْ اَرَادَ اَنْ یَّبْطِشَ بِالَّذِیْ هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَاۙ-قَالَ یٰمُوْسٰۤى اَتُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْ كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًۢا بِالْاَمْسِ ﳓ اِنْ تُرِیْدُ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ جَبَّارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَا تُرِیْدُ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ(۱۹)
تو جب موسیٰ نے چاہا کہ اس پر گرفت کرے جو ان دونوں کا دشمن ہے (ف۴۶) وہ بولا اے موسیٰ کیا تم مجھے ویسا ہی قتل کرنا چاہتے ہو جیسا تم نے کل ایک شخص کو قتل کردیا، تم تو یہی چاہتے ہو کہ زمین میں سخت گیر بنو اور اصلاح کرنا نہیں چاہتے (ف۴۷)

28:20
وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ یَسْعٰى٘-قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنَّ الْمَلَاَ یَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِیَقْتُلُوْكَ فَاخْرُ جْ اِنِّیْ لَكَ مِنَ النّٰصِحِیْنَ(۲۰)
اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص (ف۴۸) دوڑ تا آیا، کہا اے موسیٰ! بیشک دربار والے (ف۴۹) آپ کے قتل کا مشورہ کررہے ہیں تو نکل جایے (ف۵۰) میں آپ کا خیر خواہ ہوں (ف۵۱)

{وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ یَسْعٰى: اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑ تا ہواآیا۔} جب فرعون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کر نے کا حکم جاری کر دیا اور فرعونی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تلاش میں  نکل پڑے تو یہ خبر سن کر شہر کے پرلے کنارے کی طرف سے قریبی راستے پر ایک شخص جسے اٰلِ فرعون کا مومن کہتے ہیں  ، دوڑ تا ہوا آیا اور ا س نے کہا: اے موسیٰ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، بیشک فرعون کے درباروالے آپ کے بارے میں  مشورہ کررہے ہیں  کہ آپ کوقتل کردیں  تو آپ جلد از جلد شہر سے نکل جائیں ۔بیشک میں  آپ کے خیرخواہوں  میں  سے ہوں  اور یہ بات خیر خواہی اور مَصلحت اندیشی سے کہتا ہوں۔(جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۳۲۸، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۸۶۵، ملتقطاً)

28:21
فَخَرَ جَ مِنْهَا خَآىٕفًا یَّتَرَقَّبُ٘-قَالَ رَبِّ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۠(۲۱)
تو اس شہر سے نکلا ڈرتا ہوا اس انتظار میں کہ اب کیا ہوتا ہے عرض کی، اے میرے رب! مجھے ستمگاروں سے بچالے (ف۵۲)

{فَخَرَ جَ مِنْهَا خَآىٕفًا یَّتَرَقَّبُ:پھر شہر سے ڈرتے ہوئے انتظار کرتے ہوئے نکلے۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواس صورتحال کاعلم ہواتوآپ نے اس شہر سے ہجرت کرنے کاارادہ کرلیااور یہاں  سے مَدیَن کی طرف رختِ سفرباندھاکیونکہ مدین ایساعلاقہ تھاجوفرعون کی مملکت سے باہرتھااوراس کے علاوہ آبادبھی تھااورقریب بھی تھا۔

آیت ’’فَخَرَ جَ مِنْهَا خَآىٕفًا‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے ،

(1)… خطرناک جگہ سے نکل جانا اور جان بچانے کی تدبیر کرنا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔

(2)… اسباب پر عمل کرنا اور تدبیراختیار کرنا توکّل کے خلاف نہیں ۔

(3)… حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مار سے قبطی کا مر جانا ایسافعل نہیں  تھا جس کی وجہ سے قصاص لازم ہوتا اور اگر وہ صورت ایسی ہوتی جس میں  قصاص لازم ہوتاتو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شہر سے نکلنے کی بجائے خود اپنے آپ کو قصاص کے لئے پیش فرمادیتے ۔

 (4)… کبھی مصیبت بندے کو اچھی طرف لے جاتی ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بظاہر فرعون کی وجہ سے شہر چھوڑ رہے تھے مگر درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف جا رہے تھے۔ آپ کا یہ سفر بہت فتح اور کامیابی کا پیش خیمہ ہوا، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صحبت ، نیک بیوی اور نبوت کا عطا ہونا سب اسی سفر میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مَرحمت ہوا۔

28:22
وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ(۲۲)
اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوا (ف۵۳) کہا قریب ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ بتائے (ف۵۴)

{وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ: اور جب وہ مدین کی طرف متوجہ ہوئے۔} مدین و ہ مقام ہے جہاں  حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف رکھتے تھے ،اس کو مدینِ ابنِ ابراہیم کہتے ہیں ، مصر سے یہاں  تک آٹھ روز کی مسافت ہے، یہ شہر فرعون کی سلطنت کی حدود سے باہر تھا، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کا رستہ بھی نہ دیکھا تھا ،نہ کوئی سواری ساتھ تھی ،نہ توشہ نہ کوئی ہمراہی ،راستے میں  درختوں  کے پتوں  اور زمین کے سبزے کے سوا خوراک کی اور کوئی چیز نہ ملتی تھی۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مدین کی طرف جانے کا ارادہ کیا تویوں کہا :عنقریب میرا رب عَزَّوَجَلَّ مجھے مدین تک  پہنچنے کا سیدھا راستہ بتائے گا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ بھیجا جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مدین تک لے گیا۔( جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۳۲۸، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۴۲۸-۴۲۹، ملتقطاً)

28:23
وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ ٘۬-وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِۚ-قَالَ مَا خَطْبُكُمَاؕ-قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰى یُصْدِرَ الرِّعَآءُٚ-وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ كَبِیْرٌ(۲۳)
اور جب مدین کے پانی پر آیا (ف۵۵) وہاں لوگوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ اپنے جانوروں کو پانی پلارہے ہیں، اور ان سے اس طرف (ف۵۶) دو عورتیں دیکھیں کہ اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں (ف۵۷) موسیٰ نے فرمایا تم دونوں کا کیا حال ہے (ف۵۸) وہ بولیں ہم پانی نہیں پلاتے جب تک سب چرواہے پلاکر پھیر نہ لے جائیں (ف۵۹) اور ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں (ف۶۰)

{وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ: اور جب وہ مدین کے پانی پر تشریف لائے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مدین پہنچے تو شہر کے کنارے پر موجود ایک کنوئیں  پر تشریف لائے جس سے وہاں  کے لوگ پانی لیتے اور اپنے جانوروں  کو سیراب کرتے تھے ۔وہاں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں  کے ایک گروہ کو دیکھا کہ وہ اپنے جانوروں  کو پانی پلارہے ہیں  اور ان لوگوں  سے علیحدہ دوسری طرف دو عورتیں  کھڑی ہیں جو اپنے جانوروں  کواس انتظار میں  روک رہی ہیں  کہ لوگ پانی پلا کرفارغ ہو جائیں  اور کنواں  خالی ہو کیونکہ کنوئیں  کو مضبوط اور طاقتور لوگوں  نے گھیر رکھا تھا اوران کے ہجوم میں  عورتوں  سے ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے جانوروں  کو پانی پلا سکیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: تم دونوں  اپنے جانوروں  کو پانی کیوں  نہیں  پلاتیں ؟ انہوں  نے کہا: جب تک سب چرواہے اپنے جانوروں  کو پانی پلاکر واپس نہیں  لے جاتے تب تک ہم پانی نہیں  پلاتیں  کیونکہ نہ ہم مردوں  کے مجمع میں  جا سکتی ہیں  نہ پانی کھینچ سکتی ہیں  اورجب یہ لوگ اپنے جانوروں  کو پانی پلا کر واپس ہو جاتے ہیں  تو حوض میں  جو پانی بچ جاتا ہے وہ ہم اپنے جانوروں  کو پلا لیتی ہیں  اور ہمارے باپ بہت ضعیف ہیں ،وہ خود یہ کام نہیں  کر سکتے اس لئے جانوروں  کو پانی پلانے کی ضرورت ہمیں  پیش آئی۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کی باتیں  سنیں  تو آپ کو رحم آیا اور وہیں  دوسرا کنواں  جو اس کے قریب تھا اور ایک بہت بھاری پتھر اس پر رکھاہوا تھا جسے بہت سے آدمی مل کر ہٹا سکتے تھے، آپ نے تنہا اسے ہٹا دیا اور ان دونوں  خواتین کے جانوروں  کو پانی پلا دیا ۔اس وقت دھوپ اور گرمی کی شدت تھی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کئی روز سے کھانا نہیں  کھایا تھا جس کی وجہ سے بھوک کا غلبہ تھا، اس لئے جانوروں  کو پانی پلانے کے بعد آرام حاصل کرنے کی غرض سے ایک درخت کے سائے میں  بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں  اس کھانے کی طرف      محتاج ہوں  جو تو میرے لیے اتارے۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۴، ۳ / ۴۲۹، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۴، ص۸۶۵-۸۶۶، ملتقطاً)

28:24
فَسَقٰى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰۤى اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ(۲۴)
تو موسیٰ نے ان دونوں کے جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سایہ کی طرف پھرا (ف۶۱) عرض کی اے میرے رب! میں اس کھانے کا جو تو میرے لیے اتارے محتاج ہوں (ف۶۲)

28:25
فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِیْ عَلَى اسْتِحْیَآءٍ٘-قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْكَ لِیَجْزِیَكَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَاؕ-فَلَمَّا جَآءَهٗ وَ قَصَّ عَلَیْهِ الْقَصَصَۙ - قَالَ لَا تَخَفْٙ- نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۲۵)
تو ان دونوں میں سے ایک اس کے پاس آئی شرم سے چلتی ہوئی (ف۶۳) بولی میرا باپ تمہیں بلاتا ہے کہ تمہیں مزدوری دے اس کی جو تم نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے (ف۶۴) جب موسیٰ اس کے پاس آیا اور اسے باتیں کہہ سنائیں (ف۶۵) اس نے کہا ڈریے نہیں، آپ بچ گئے ظالموں سے (ف۶۶)

{فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِیْ عَلَى اسْتِحْیَآءٍ٘: توان دونوں  میں سے ایک حضرت موسیٰ کے پاس شرم سے چلتی ہوئی آئی۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو باقاعدہ کھانا تناوُل فرمائے پورا ہفتہ گزر چکا تھا، اس عرصے میں  کھانے کا ایک لقمہ تک نہ کھایا اورشکم مبارک پُشْتِ اقدس سے مل گیا تھا، اس حالت میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے غذا طلب کی اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  نہایت قرب و منزلت رکھنے کے باوجود انتہائی عاجزی اور اِنکساری کے ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا طلب کیا اور جب وہ دونوں  صاحب زادیاں  اس دن بہت جلد اپنے مکان پر واپس تشریف لے آئیں  تو ان کے والد ماجد نے فرمایا’’ آج اس قدر جلد واپس آ جانے کا کیا سبب ہوا ؟انہوں  نے عرض کی: ہم نے کنویں  کے پاس ایک نیک مرد پایا، اس نے ہم پر رحم کیا اور ہمارے جانوروں  کو سیراب کر دیا اس پر ان کے والد صاحب نے ایک صاحبزادی سے فرمایا کہ جاؤ اور اس نیک مرد کو میرے پاس بلا لاؤ ۔ چنانچہ ان دونوں  میں  سے ایک صاحب زادی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس چہرہ آستین سے ڈھکے، جسم چھپائے، شرم سے چلتی ہوئی آئی ۔ یہ بڑی صاحبزادی تھیں ، ان کا نام صفوراء ہے اور ایک قول یہ ہے کہ وہ چھوٹی صاحبزادی تھیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچ کر انہوں  نے کہا:میرے والد آپ کو بلارہے ہیں  تاکہ آپ کو اس کام کی مزدوری دیں  جوآپ نے ہمارے جانوروں  کو پانی پلایا ہے۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اجرت لینے پر تو راضی نہ ہوئے لیکن حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زیارت اور ان سے ملاقات کرنے کے ارادے سے چلے اور ان صاحبزادی صاحبہ سے فرمایا کہ آپ میرے پیچھے رہ کر رستہ بتاتی جائیے۔ یہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پردہ کے اہتمام کے لئے فرمایا اور اس طرح تشریف لائے ۔جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچے تو کھانا حاضر تھا، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’بیٹھئے کھانا کھائیے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کی یہ بات منظور نہ کی اور فرمایا’’میں  اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں ۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’کھانا نہ کھانے کی کیا وجہ ہے، کیا آپ کو بھوک نہیں  ہے؟ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ یہ کھانا میرے اُس عمل کا عِوَض نہ ہو جائے جو میں  نے آپ کے جانوروں  کو پانی پلا کر انجام دیا ہے، کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں  کہ نیک عمل پر عوض لینا قبول نہیں  کرتے۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اے جوان! ایسا نہیں  ہے، یہ کھانا آپ کے عمل کے عوض میں  نہیں  بلکہ میری اور میرے آباؤ اَجداد کی عادت ہے کہ ہم مہمان نوازی کیا کرتے ہیں  اور کھانا کھلاتے ہیں ۔یہ سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیٹھ گئے اور آپ نے کھانا تناول فرمایا اور ا س کے بعد تمام واقعات و احوال جو فرعون کے ساتھ گزرے تھے، اپنی ولادت شریف سے لے کر قبطی کے قتل اور فرعونیوں  کے آپ کے درپے جان ہونے تک ، سب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بیان کر دیئے ۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’فرعون اور فرعونیوں  سے ڈریں  نہیں ، اب آپ ظالموں  سے نجات پاچکے ہیں  کیونکہ یہاں  مدین میں  فرعون کی حکومت و سلطنت نہیں ۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۴۲۹-۴۳۰، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۲۴-۲۵، ص۸۶۶-۸۶۷، ملتقطاً)

 

28:26
قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ٘-اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ(۲۶)
ان میں کی ایک بولی (ف۶۷) اے میرے باپ! ان کو نوکر رکھ لو (ف۶۸) بیشک بہتر نوکر وہ جو طاقتور اور امانتدار ہو (ف۶۹)

{قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ: ان میں  سے ایک نے کہا: اے میرے باپ!ان کو ملازم رکھ لو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کھاناوغیرہ کھاچکے اورگفتگو بھی کرلی تو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ایک بیٹی نے عرض کی،اباجان آپ انھیں  اجرت پر ملازم رکھ لیں  کہ یہ ہماری بکریاں  چرایا کریں  اور یہ کام ہمیں  نہ کرنا پڑے، بے شک اچھاملازم وہی ہوتاہے جو طاقتور بھی ہو اور امانتدار بھی ہو۔اس پرحضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی صاحب زادی سے دریافت کیا کہ تمہیں  ان کی قوت و امانت کا کیسے علم ہوا؟ صاحب زادی نے عرض کی : قوت تو اس سے ظاہر ہے کہ اُنہوں  نے تنہا کنوئیں  پر سے وہ پتھر اُٹھالیا جس کو دس سے کم آدمی نہیں  اُٹھا سکتے اور امانت اس سے ظاہر ہے کہ اُنہوں  نے ہمیں  دیکھ کر سرجھکالیا اور نظر نہ اُٹھائی اور ہم سے کہا کہ تم پیچھے چلو ایسا نہ ہو کہ ہوا سے تمہارا کپڑا اڑے اور بدن کا کوئی حصہ نمودار ہو۔ یہ سن کر حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا: ’’میں  چاہتا ہوں  کہ اپنی دونوں  بیٹیوں  میں  سے ایک کے ساتھ اس مہر پرتمہارا نکاح کردوں  کہ تم آٹھ سال تک میری ملازمت کرو پھر اگر تم دس سال پورے کردو تو یہ اضافہ تمہاری طرف سے مہربانی ہو گی اور تم پر واجب نہ ہو گا اور میں  تم پرکوئی اضافی مشقت نہیں  ڈالنا چاہتا۔ اِنْ شَآءَاللہ عنقریب تم مجھے نیکوں  میں  سے پاؤ گے تو میری طرف سے معاملے میں  اچھائی اور عہد کو پورا کرنا ہی ہو گا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی توفیق و مددپر بھروسہ کرنے کے لئے اِنْ شَآءَ اللہ فرمایا۔( بغوی، القصص، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۳ / ۳۸۰، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ص۸۶۷-۸۶۸، ملتقطاً)

سورۂ قصص کی اِس آیت سے چند چیزیں  معلوم ہوئیں  ، یہ کہ اگرچہ سنت یہ ہے کہ پیغامِ نکاح لڑکے کی طرف سے ہو لیکن یہ بھی جائز ہے کہ لڑکی والوں  کی طرف سے ہو۔ مزید یہ کہ لڑکی کے لئے مالدار لڑکا تلاش کرنے کی بجائے دیندار اور شریف لڑکا تلاش کیا جائے۔ جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مسافر تھے، مالدار نہ تھے، مگر آپ کی دینداری اور شرافت ملاحظہ فرما کر حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی صاحبزادی کا نکاح آپ سے کردیا۔

صوفیاءِ کرام فرماتے ہیں کہ بظاہر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بکریاں چروانا تھا ، مگر درحقیقت ان کو اپنی صحبت ِپاک میں رکھ کر کَلِیْمُ اللہ بننے کی صلاحیت پیدا کرنا تھا،لہٰذا یہ آیت صوفیاءِ کرام کے چِلّوں اور مرشد کے گھر رہ کر ان کی خدمت کرنے کی بڑی دلیل ہے۔

28:27
قَالَ اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَیَّ هٰتَیْنِ عَلٰۤى اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمٰنِیَ حِجَجٍۚ-فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَۚ-وَ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْكَؕ-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۲۷)
کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک تمہیں بیاہ دوں (ف۷۰) اس مہر پر کہ تم آٹھ برس میری ملازمت کرو (ف۷۱) پھر اگر پورے دس برس کرلو تو تمہاری طرف سے ہے (ف۷۲) اور میں تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا (ف۷۳) قریب ہے انشاء اللہ تم مجھے نیکوں میں پاؤ گے (ف۷۴)

28:28
قَالَ ذٰلِكَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَؕ-اَیَّمَا الْاَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِیْلٌ۠(۲۸)
موسیٰ نے کہا یہ میرے اور آپ کے درمیان اقرار ہوچکا، میں ان دونوں میں جو میعاد پوری کردوں (ف۷۵) تو مجھ پر کوئی مطالبہ نہیں، اور ہمارے اس کہے پر اللہ کا ذمہ ہے (ف۷۶)

{قَالَ ذٰلِكَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَ:  حضرت موسیٰ نے جواب دیا: یہ میرے اور آپ کے درمیان ہے۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جواب دیا’’میرے اور آپ کے درمیان یہ معاہدہ طے ہے اور ہم دونوں  ا س معاہدے کی پوری طرح پاسداری کریں  گے البتہ جب میں  8 یا 10 سال دونوں  میں  سے ملازمت کی جو مدت پوری کر دوں  تو اس سے زیادہ مدت تک ملازمت کرنے کا مجھ سے کوئی مطالبہ نہ ہو گا، اور ہمارے اس معاہدے پر اللہ تعالیٰ نگہبان ہے لہٰذا ہم میں  سے کسی ایک کے لئے بھی اس معاہدے سے پھرنے کی کوئی راہ نہیں ۔

             جب معاہدہ مکمل ہوچکا تو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی صاحبزادی کو حکم دیا کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک عصاء دیں  جس سے وہ بکریوں  کی نگہبانی کریں  اور درندوں کو ان سے دور کریں ۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کئی عصا موجود تھے ،صاحبزادی صاحبہ کا ہاتھ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عصاء پر پڑا جو آپ جنت سے لائے تھے اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے وارث ہوتے چلے آئے تھے ، یہاں  تک کہ وہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ عصاء حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دے دیا۔(خازن ، القصص ، تحت الآیۃ : ۲۸ ، ۳ / ۴۳۱ ، مدارک ، القصص ، تحت الآیۃ : ۲۸، ص۸۶۸، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۲۸، ۶ / ۳۹۹، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۳۲۹، ملتقطاً)

28:29
فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهْلِهٖۤ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًاۚ-قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ(۲۹)
پھر جب موسیٰ نے اپنی میعاد پوری کردی (ف۷۷) اور اپنی بی بی کو لے کر چلا (ف۷۸) طُور کی طرف سے ایک آگ دیکھی (ف۷۹) اپنی گھر والی سے کہا تم ٹھہرو مجھے طُور کی طرف سے ایک آگ نظر پڑی ہے شاید میں وہاں سے کچھ خبر لاؤ ں (ف۸۰) یا تمہارے لیے کوئی آ گ کی چنگاری لاؤں کہ تم تاپو،

{فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهْلِهٖ: پھر جب موسیٰ نے اپنی مدت پوری کردی اور اپنی بیوی کو لے کر چلے۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ملازمت کی مدت پوری کر دی تو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آپ کا نکاح اپنی بڑی صاحبزادی صفورا سے کردیا ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دس سال کی میعاد پوری فرمائی تھی، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بڑی میعاد یعنی دس سال پورے کئے۔ پھرآپ نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مصر کی طرف واپس جانے کی اجازت چاہی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اجازت دیدی ،چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی زوجہ کوان کے والد کی اجازت سے مصر کی طرف لے کر چلے ۔ سفر کے دوران جب آپ ایک جنگل میں  تھے، اندھیری رات تھی ، سردی شدت کی پڑ رہی تھی اور راستہ گم ہو گیا تھا تو اس وقت آپ نے کوہِ طور کی طرف ایک آگ دیکھی ،اسے دیکھ کر آپ نے اپنی گھر والی سے فرمایا’’ تم یہاں  ٹھہرو ، بیشک میں  نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں  وہاں  سے راستے کی کچھ خبر لاؤ ں  کہ کدھر جانا ہے یا تمہارے لیے کوئی آگ کی چنگاری لے آؤں  تاکہ تم اس سے گرمی حاصل کرسکو۔(خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۴۳۱، جلالین مع جمل، القصص، تحت الآیۃ: ۲۹، ۶ / ۲۴، ملتقطاً)

          نوٹ :اس واقعے سے متعلق بعض تفصیلات سورئہ طہٰ ،رکوع نمبر10میں  گزرچکی ہیں  ، وہاں  ملاحظہ فرمالیں ۔

28:30
فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ یّٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۳۰)
پھر جب آگ کے پاس حاضر ہوا ندا کی گئی میدان کے دہنے کنارے سے (ف۸۱) برکت والے مقام میں پیڑ سے (ف۸۲) کہ اے موسیٰ! بیشک میں ہی ہوں اللہ رب سارے جہان کا (ف۵۳)

{فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا: پھر جب آگ کے پاس آئے۔ } جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی زوجہ محترمہ کو اس جگہ چھوڑ کر آگ کے پاس آئے تو برکت والی جگہ میں  میدان کے اس کنارے سے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دائیں  ہاتھ کی طرف تھا، ایک درخت سے انہیں  ندا کی گئی :اے موسیٰ!بیشک میں  ہی اللہ ہوں ،سارے جہانوں  کاپالنے والاہوں ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سرسبز درخت میں  آ گ دیکھی تو جان لیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا یہ کسی کی قدرت نہیں  اور بے شک جو کلام انہوں  نے سنا ہے اس کا مُتَکَلِّم اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ یہ بھی منقول ہے کہ یہ کلام حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے صرف اپنے مبارک کانوں  ہی سے نہیں  بلکہ اپنے جسمِ اقدس کے ہر ہر جُزْوْ سے سنا ،اور جس درخت سے انہیں  ندا کی گئی وہ عناب کا درخت تھا یا عوسج کا (جو کہ ایک خاردار درخت ہے اور اکثر جنگلوں  میں  ہوتا ہے۔)( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۴۳۱-۴۳۲، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۸۶۹، ملتقطاً)

28:31
وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْؕ-یٰمُوْسٰۤى اَقْبِلْ وَ لَا تَخَفْ- اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ(۳۱)
اور یہ کہ ڈال دے اپنا عصا (ف۸۴) پھر جب موسیٰ نے اسے دیکھا لہراتا ہوا گویا سانپ ہے پیٹھ پھیر کر چلا اور مڑ کر نہ دیکھا (ف۸۵) اے موسیٰ سامنے آ اور ڈر نہیں، بیشک تجھے امان ہے (ف۸۶)

{وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ: اور یہ کہ تم اپنا عصاڈال دو۔} کوہِ طور پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ فرمایا گیا کہ تم اپنا عصا نیچے رکھ دو، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عصا نیچے رکھ دیا تووہ سانپ بن گیا اور جب اسے لہراتا ہوا دیکھا گویا کہ سانپ ہے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے خوفزدہ ہوئے اور اس طرح پیٹھ پھیر کر چلے کہ آپ نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ تب انہیں  ندا کی گئی ’’ اے موسیٰ! سامنے آؤ اور ڈرو نہیں  ،بیشک تم امن والوں  میں  سے ہو اور تمہیں  کوئی خطرہ نہیں۔(مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۸۶۹، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۴۳۲، ملتقطاً)

28:32
اُسْلُكْ یَدَكَ فِیْ جَیْبِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ٘-وَّ اضْمُمْ اِلَیْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ(۳۲)
اپنا ہاتھ (ف۸۷) گریبان میں ڈال نکلے گا سفید چمکتا بے عیب (ف۸۸) اور اپنا ہاتھ سینے پر رکھ لے خوف دور کرنے کو (ف۸۹) تو یہ دو حُجتیں ہیں تیرے رب کی (ف۹۰) فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف، بیشک وہ بے حکم لوگ ہیں،

{اُسْلُكْ یَدَكَ فِیْ جَیْبِكَ: اپنا ہاتھ گریبان میں  ڈالو۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مزید فرمایا گیا کہ اپنا ہاتھ اپنی قمیص کے گریبان میں  ڈال کر نکالو تووہ کسی مرض کے بغیر سفید اور سورج کی شعاع کی طرح چمکتا ہوا نکلے گا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا دست ِمبارک گریبان میں  ڈال کر نکالا تو اس میں  ایسی تیز چمک تھی جس سے نگاہیں  جھپک گئیں ۔اس کے بعد ارشاد فرمایا: ’’اور خوف دور کرنے کیلئے اپنا ہاتھ اپنے ساتھ ملالو تاکہ ہاتھ اپنی اصلی حالت پر آئے اور خوف دور ہو جائے۔ یہاں  جس خوف کا ذکر ہوا اس کے سبب کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ ہاتھ کی چمک دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دل میں  خوف پیدا ہوا اور اس خوف کو دور کرنے کے لئے یہ طریقہ ارشاد فرمایا گیا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے وہی خوف مراد ہے جو سانپ کو دیکھنے سے پیدا ہو اتھا،اسے آیت میں  بیان کئے گئے طریقے سے دور کیا گیا ۔پھر ارشاد فرمایا کہ عصا اور روشن ہاتھ تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے فرعون اور اس کے درباریوں  کی طرف تمہاری رسالت کی دو بڑی دلیلیں  ہیں  ،بیشک وہ نافرمان لوگ ہیں  اور وہ ظلم و سرکشی کی حد پار کر چکے ہیں ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۸۶۹، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۴۳۲، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۳۳۰، ملتقطاً)

28:33
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ(۳۳)
عرض کی اے میرے رب! میں نے ان میں ایک جان مار ڈالی ہے (ف۹۱) تو ڈرتا ہوں کہ مجھے قتل کردیں،

{قَالَ رَبِّ: موسیٰ نے عرض کی: اے میرے رب!} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عصا اور روشن نشانیوں  کے ساتھ فرعون اور ا س کی قوم کی طرف رسول بن کر جانے کا حکم ہوا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، فرعونیوں  میں  سے ایک شخص میرے ہاتھ سے مارا گیا تھا، تو مجھے ڈر ہے کہ ا س کے بدلے میں  وہ مجھے قتل کردیں  گے۔(تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۳۳، ۸ / ۵۹۶، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۳۳۰، ملتقطاً)

{وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا: اور میرا بھائی ہارون اس کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے۔} حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بڑے بھائی تھے اور بچپن میں  فرعون کے ہاں  انگارہ منہ میں  رکھ لینے کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان شریف میں  لکنت آ گئی تھی اس لئے آپ نے فرمایا کہ میرے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے تو اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اسے میری مدد کے لئے فرعون اور ا س کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیج تاکہ وہ حق بات کومزید واضح کر کے اور حق کے دلائل بیان کر کے میری تصدیق کرے ، بے شک مجھے ڈر ہے کہ فرعون اور ا س کی قوم کے لوگ مجھے جھٹلائیں  گے اور میری دعوت کو قبول نہیں  کریں  گے ۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۴۰۴، ملتقطاً)

سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فصاحت:

اس آیت میں  حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فصاحت اور زبان کی صفائی کا ذکر ہوا، اگرچہ اس سے مراد زبان میں  لکنت نہ ہونا اور صحیح صحیح بات کرنا ہے لیکن لفظ ِ فصاحت کی مناسبت سے یہاں  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبانِ اقدس کی فصاحت کابیان کیا جاتا ہے ،چنانچہ علامہ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبان مبارک کی فصاحت، کلام میں جامع الفاظ ،انوکھا اظہارِ بیان، حیرت انگیزاحکامات اور فیصلے اتنے زیادہ ہیں  کہ شا ید ہی کوئی غورو فکر کرنے والا شخص ان کا اِحاطہ کر سکے ،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف کا بیان اور ان کے بیان کازبان کے ساتھ اظہار ممکن ہی نہیں  ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ فصیح اور شیریں  بیان دوسرا پیدا ہی نہیں  فرمایا۔ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نہ تو آپ کہیں  باہر تشریف لے گئے اور نہ آپ نے لوگوں  میں  نشست و بَرخاست رکھی ،پھر آپ ایسی فصاحت کہاں  سے لائے ہیں ؟آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی لغت اور اصطلاح جو ناپید اور فنا ہو چکی تھی،اسے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام میرے پاس لے کر آئے ،جسے میں  نے یاد کر لیا ہے۔نیز آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے مجھے ادب سکھایا تو میرے ادب کو بہت اچھا کر دیا۔

عربیت کا وہ علم جو عربی زبان اور اس کی فصاحت و بلاغت سے تعلق رکھتا ہے اسے ادب کہتے ہیں ۔( مدارج النبوہ، باب اول در بیان حسن وخلقت وجمال، بیان فصاحت شریف، ۱ / ۱۰)

اور علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کی زبانِ اقدس وحیِ الٰہی کی ترجمان اور سر چشمۂ آیات ومَخزنِ معجزات ہے ،اس کی فصاحت و بلاغت اس قدر حد ِاِعجاز کو پہنچی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے فُصحاء و بُلغاء آپ کے کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے تھے۔ (اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :)

ترے آگے یوں  ہیں  دبے لَچے فصحاء عرب کے بڑے بڑے

 کوئی جانے منہ میں  زباں  نہیں ، نہیں  بلکہ جسم میں  جاں  نہیں

آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کی مُقَدَّس زبان کی حکمرانی اور شان کا یہ اعجاز تھا کہ زبان سے جو فرمادیا وہ ایک آن میں  معجزہ بن کر عالَمِ وجود میں  آ گیا۔ (اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :)

وہ زباں  جس کو سب کُن کی کُنجی کہیں

اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں  سلام

اس کی پیاری فصاحت پہ بے حد درود

اس  کی  دلکش  بلاغت  پہ  لاکھوں   سلام

(سیرت مصطفٰی، شمائل وخصائل، زبان اقدس، ص۵۷۵-۵۷۶)

آیت ’’وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے ،

(1)… اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندوں  کی مدد لینا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد لی۔

(2)… بزرگوں  کی دعا سے و ہ نعمت ملی سکتی ہے جو کسی اور سے نہیں  مل سکتی، جیسے حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے ہے ۔

یاد رہے کہ نبوت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے یہ عطا فرماتا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے بعد اب قیامت تک کسی کو نبوت نہیں  مل سکتی کیونکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ آخری نبی ہیں  اور آپ کی آمد پر اللہ تعالیٰ نے نبوت کاسلسلہ ختم فرما دیا ہے ، البتہ اب بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مُقَرَّب بندوں  کی دعا سے ولایت، علم ،اولاد اور سلطنت مل سکتی ہے۔

28:34
وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْۤ٘-اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِ(۳۴)
اور میرا بھائی ہارون اس کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے تو اسے میری مدد کے لیے رسول بنا، کہ میری تصدیق کرے مجھے ڈر ہے کہ وہ (ف۹۲) مجھے جھٹلائیں گے،

28:35
قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِیْكَ وَ نَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْكُمَاۚۛ-بِاٰیٰتِنَاۤۚۛ-اَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ(۳۵)
فرمایا، قریب ہے کہ ہم تیرے بازو کو تیرے بھائی سے قوت دیں گے اور تم دونوں کو غلبہ عطا فرمائیں گے تو وہ تم دونوں کا کچھ نقصان نہ کرسکیں گے، ہماری نشانیوں کے سبب تم دونوں اور جو تمہاری پیروی کریں گے غالب آؤ گے (ف۹۳)

{قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِیْكَ: فرمایا:عنقریب ہم تیرے بازو کو تیرے بھائی کے ذریعے قوت دیں  گے۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرمائی اور ان سے ارشاد فرمایا’’ہم تیرے بھائی کے ذریعے تمہیں  قوت دیں  گے اورتمہاری مدد کریں  گے اور ہم تم دونوں  کو غلبہ وتَسَلُّط عطا فرمائیں  گے اور دشمنوں  کے دلوں  میں  تمہاری ہیبت بٹھا دیں  گے،لہٰذا تم فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ،وہ لوگ ہماری نشانیوں  کے سبب تم دونوں  کا کچھ نقصان نہ کرسکیں  گے بلکہ تم دونوں  اور تمہاری پیروی کرنے والے ہی ان پر غالب آئیں گے۔( تفسیرطبری، القصص، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱۰ / ۷۳، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۸۷۰، ملتقطاً)

28:36
فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَّ مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآىٕنَا الْاَوَّلِیْنَ(۳۶)
پھر جب موسیٰ ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں لایا بولے یہ تو نہیں مگر بناوٹ کا جادو (ف۹۴) اور ہم نے اپنے اگلے باپ داداؤں میں ایسا نہ سنا (ف۹۵)

{فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَا: پھر جب موسیٰ ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں  لے کر آئے۔} ارشاد فرمایاکہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون اور اس کی قوم کے پاس ہماری روشن نشانیاں  لے کر آئے توان نشانیوں  کا مشاہدہ کرنے کے بعد ان لوگوں  نے کہا: یہ تو صرف ایک بناوٹی جادو ہے۔ان بدنصیبوں  نے معجزات کا انکار کر دیا اور ان کو جادو بتا دیا اور ان کی ا س بات کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح جادو کی تمام اَقسام باطل ہوتی ہیں  اسی طرح (مَعَاذَ اللہ) یہ معجزات بھی ہیں  ۔فرعونیوں  نے مزید یہ کہاکہ جو دعوت آپ ہمیں  دے رہے ہیں  وہ ایسی نئی ہے کہ ہمارے آباؤ اَجداد میں  بھی ایسی نہیں  سنی گئی تھی ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۸۷۰، تفسیرطبری، القصص، تحت الآیۃ: ۳۶، ۱۰ / ۷۳، ملتقطاً)

28:37
وَ قَالَ مُوْسٰى رَبِّیْۤ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى مِنْ عِنْدِهٖ وَ مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(۳۷)
اور موسیٰ نے فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے ہدایت لایا (ف۹۶) اور جس کے لیے آخرت کا گھر ہوگا (ف۹۷) بیشک ظالم مراد کو نہیں پہنچتے (ف۹۸)

{وَ قَالَ مُوْسٰى: اور موسیٰ نے فرمایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے جواب میں  ارشاد فرمایا کہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ اسے خوب جانتا ہے جو ہم میں  سے حق پر ہے اور جسے اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ سرفراز فرمایا ہے اور اسے بھی خوب جانتا ہے جس کے لیے آخرت کا گھر ہوگااور وہ وہاں  کی نعمتوں  اور رحمتوں  کے ساتھ نوازا جائے گا، اگر تمہارے گمان کے مطابق میرے دکھائے ہوئے معجزات جادو ہیں  اور میں  نے انہیں  اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے جھوٹ بولا ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے یہ کبھی عطا نہ فرماتا کیونکہ وہ غنی اور حکمت والا ہے اور اس کی یہ شان نہیں  کہ وہ کسی جھوٹے اور جادو گر کو رسول بنا کر بھیجے ۔ بے شک کفر کر کے اپنی جانوں  پر ظلم کرنے والے کامیاب نہیں  ہوں  گے اور کافروں  کو آخرت کی کامیابی مُیَسَّر نہیں  ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۸۷۰)

28:38
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْۚ-فَاَوْقِدْ لِیْ یٰهَامٰنُ عَلَى الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْۤ اَطَّلِعُ اِلٰۤى اِلٰهِ مُوْسٰىۙ-وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(۳۸)
اور فرعون بولا، اے درباریو! میں تمہارے لیے اپنے سوا کوئی خدا نہیں جانتا تو اے ہامان! میرے لیے گارا پکا کر (ف۹۹) ایک محل بنا (ف۱۰۰) کہ شاید میں موسیٰ کے خدا کو جھانک آؤں (ف۱۰۱) اور بیشک میرے گمان میں تو وہ (ف۱۰۲) جھوٹا ہے (ف۱۰۳)

{وَ قَالَ فِرْعَوْنُ:  اور فرعون نے کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون کو جو اللہ تعالیٰ کی وَحْدانیَّت پر ایمان لانے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی تھی، ا س کا انکار کرتے ہوئے فرعون نے اپنے دربار میں  موجود لوگوں  سے کہا: اے درباریو!میں  تمہارے لیے اپنے سوا کوئی خدا نہیں  جانتا جس کی تم عبادت کرو۔پھر اس نے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ اے ہامان!میرے لیے گارے پر آگ جلا کر اینٹ تیار کرو، پھر میرے لئے ایک انتہائی اونچا محل بناؤ، شاید میں  موسیٰ کے خدا کو جھانک لوں  اور بیشک میں  توموسیٰ کو اپنے اس دعوے میں جھوٹوں  میں  سے ہی سمجھتا ہوں  کہ اس کا ایک معبود ہے جس نے اسے اپنا رسول بنا کر ہماری طرف بھیجا ہے ۔

            فرعون نے یہ گمان کیا تھا کہ (مَعَاذَ اللہ) اللہ تعالیٰ کے لئے بھی مکان ہے اور وہ جسم ہے کہ اس تک پہنچنا اس کے لئے ممکن ہو گا ،اس لئے اس نے ہامان کو عمارت بنانے کا حکم دیا اور اپنے ارادے کا اظہار کیا،چنانچہ ہامان نے فرعون کے حکم پر عمل کرنے کے لئے ہزارہاکاریگر اور مزدور جمع کئے، اینٹیں  بنوائیں  اور تعمیراتی سامان جمع کر کے اتنی بلند عمارت بنوائی کہ دنیا میں  اس کے بر ابر کوئی عمارت بلند نہ تھی۔ کہتے ہیں  کہ دنیا میں  سب سے پہلے اینٹ بنانے والا ہامان ہے، یہ صَنعت اس سے پہلے نہ تھی۔(خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۴۳۳، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۸۷۱، ملتقطاً)

28:39
وَ اسْتَكْبَرَ هُوَ وَ جُنُوْدُهٗ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ اِلَیْنَا لَا یُرْجَعُوْنَ(۳۹)
اور اس نے اور اس کے لشکریوں نے زمین میں بے جا بڑائی چاہی (ف۱۰۴) اور سمجھے کہ انہیں ہماری طرف پھرنا نہیں،

{وَ اسْتَكْبَرَ هُوَ وَ جُنُوْدُهٗ فِی الْاَرْضِ: اور اس نے اور اس کے لشکریوں  نے زمین میں  تکبر کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ فرعون اور اس کے لشکریوں  نے مصر کی سر زمین میں  بے جا تکبر کیا اور حق کو نہ مانا اور باطل پر رہے اوروہ یہ سمجھ بیٹھے کہ انہیں  اپنے اعمال کے حساب اور ان کی جزا کے لئے ہماری طرف لوٹ کر نہیں  آناتو ہم نے فرعون اور اس کے لشکر کو پکڑ کر دریا میں  پھینک دیا اور وہ سب غرق ہو گئے ،تو اے قرآن پڑھنے والو! دیکھو ظالموں  کا کیسا انجام ہوا ؟ اور ان کے دردناک انجام سے عبرت حاصل کرو۔( خازن،القصص،تحت الآیۃ:۳۹-۴۰،۳ / ۴۳۳-۴۳۴، مدارک،القصص،تحت الآیۃ:۳۹-۴۰،ص۸۷۱-۸۷۲، ملتقطاً)

             یہ وہ بنیادی مقصد ہے جس کیلئے یہ سارا واقعہ بیان کیا گیا کہ گزشتہ قوموں  کے واقعات اور ان کے عروج و زوال سے عبرت حاصل کی جائے اور اپنی حالت کو سدھارا جائے ۔ افسوس!فی زمانہ لوگ اس مقصد سے انتہائی غفلت کا شکار ہیں  اور سابقہ قوموں  کی عملی حالت اور ان کے عبرت ناک انجام سے نصیحت حاصل نہیں  کرتے۔ اللہ تعالیٰ انہیں  عقل ِسلیم عطا فرمائے ،اٰمین۔

28:40
فَاَخَذْنٰهُ وَ جُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِی الْیَمِّۚ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰)
تو ہم نے اسے اور اس کے لشکر کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا (ف۱۰۵) تو دیکھو کیسا انجام ہوا ستمگاروں کا،

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْقَصَص
اَلْقَصَص
  00:00



Download

اَلْقَصَص
اَلْقَصَص
  00:00



Download