Surah Al-Qasas
{وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىٕمَّةً یَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ: اور انہیں ہم نے پیشوا بنادیا کہ آگ کی طرف بلاتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے فرعون اور ا س کی قوم کو دنیا میں لوگوں کا پیشوا بنا دیا کہ وہ کفر اور گناہوں کی دعوت دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ عذابِ جہنم کے مستحق ہوں اور جو ان کی اطاعت کرے وہ بھی جہنمی ہو جائے اور قیامت کے دن کسی بھی طرح ان سے عذاب دور کر کے ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔ (خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۴۳۴)
لوگوں کو گمراہی اور بد عملی کی دعوت دینے والوں کا انجام:
اس آیت کے مِصداق آج کل کے وہ لوگ بھی ہیں جو لوگوں کو کفر و گمراہی اور بدعملی کی طرف بلاتے ہیں ،ان پر اپنے ا س عمل کا گناہ ہو گا اور جو لوگ ان کی پیروی کر رہے ہیں وہ بھی گناہگار ہوں گے اور دعوت دینے والوں کے کندھوں پر اپنے عمل کے گناہ کے علاوہ ان کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں کا بوجھ الگ ہوگا۔لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ لِیَحْمِلُوْۤا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِۙ-وَ مِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ‘‘(نحل:۲۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اس لئے کہ قیامت کے دن اپنے پورے بوجھ اور کچھ ان لوگوں کے گناہوں کے بوجھ اُٹھائیں جنہیں اپنی جہالت سے گمراہ کر رہے ہیں ۔ سن لو! یہ کیا ہی بُرا بوجھ اُٹھاتے ہیں ۔
اور حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے ا س ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور پیروی کرنے والوں کے اجروں میں کوئی کمی نہ ہو گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی اسے اس گمراہی کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ ہو گا اور پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہو گی۔( مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنّۃ حسنۃ او سیّئۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۹، الحدیث: ۱۶(۲۶۷۴))
اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنے حال پر رحم کھانے اور اپنے اس برے عمل سے باز آجانے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{وَ اَتْبَعْنٰهُمْ: اور ہم نے ان کے پیچھے (لعنت) لگادی۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس دنیا میں فرعون اور اس کی قوم پر رسوائی اور رحمت سے دوری لازم کر دی اور قیامت کے دن وہ لوگ بری حالت والوں میں سے ہوں گے۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۸۷۲)
{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔} اس سے پہلی آیات میں فرعون اور اس کی قوم کا انجام اور ان پر اللہ تعالیٰ کا ہونے والا غضب بیان کیا گیا اور اب یہاں وہ احسان اور انعام بیان کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فرمایا ۔ چنانچہ اس آیت میں ارشاد فرمایاکہ بے شک پہلی قوموں جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم،قومِ عاد اور قومِ ثمود وغیرہ کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کتاب تورات عطا فرمائی جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں ہیں تاکہ وہ بصیرت کی نگاہ سے انہیں پڑھ کر ہدایت حاصل کریں اور یہ اس کے لئے گمراہی سے ہدایت ہے جو اس کے احکامات پر عمل کرے اور اس کے لئے رحمت ہے جو ا س پر ایمان لائے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ کتاب اس لئے عطا فرمائی تاکہ لوگ اس کے مَواعظ سے نصیحت حاصل کریں ۔( البحر المحیط، القصص، تحت الآیۃ: ۴۳، ۷ / ۱۱۵، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۴۳۴، ملتقطاً)
{وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ : اورتم اس وقت طور کی مغربی جانب میں نہ تھے۔} اس سے پہلی آیات میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حیرت انگیز واقعات بیان ہوئے اور اب یہاں سے وہ انعام بیان کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ان واقعات کی وحی فرمائی اور ان غیبی علوم کے ساتھ خاص فرمایا جو آپ نہیں جانتے تھے، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے انبیاء کے سردار! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف رسالت کاپیغام بھیجا،ان سے کلام فرمایا اورانہیں اپنی بارگاہ میں قرب عنایت کیاتھا،اس وقت آپ وہاں حاضر نہ تھے،لیکن ہوا یہ کہ ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد بہت سی امتیں پیدا کیں اور جب ان کی عمریں لمبی ہوگئیں تو وہ اللہ تعالیٰ کا عہد بھول گئے اور انہوں نے اس کی فرمانبرداری ترک کر دی اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم سے عالَم کے سردار،حبیب ِ خدا ،محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حق میں اور آپ پر ایمان لانے کے متعلق عہد لئے تھے اور جب طویل زمانہ گزرا اور امتوں کے بعد امتیں گزرتی چلی گئیں تو وہ لوگ ان عَہدوں کو بھول گئے اور انہیں پورا کرنا ترک کر دیا ، اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نہ ہی آپ مَدیَن والوں میں ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھتے ہوئے مقیم تھے ،تو ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا،آپ کو علم دیا اور پہلوں کے حالات پر مُطَّلع کیا تاکہ آپ لوگوں کے سامنے ان واقعات کو بیان فرمائیں اور اگر اللہ تعالیٰ آپ کوان کی خبر نہ دیتا تو آپ از خود ان واقعات کے بارے میں نہ جان سکتے تھے اور نہ ہی لوگوں کو بتا سکتے تھے ۔( البحر المحیط، القصص، تحت الآیۃ: ۴۴-۴۵، ۷ / ۱۱۶-۱۱۷، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۴۴-۴۵، ص۸۷۲- ۸۷۳، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۴۴-۴۵، ۳ / ۴۳۴)
{وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ: اور نہ تم اس وقت طور کے کنارے پرتھے۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اور نہ آپ اس وقت کوہِ طور کے کنارے پرتھے جب ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تورات عطا فرمانے کے بعدندا فرمائی ،لیکن یہ آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے رحمت ہے کہ ا س نے آپ کو غیبی علوم عطا فرمائے جن سے آپ گزشتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورسابقہ امتوں کے احوال بیان فرمارہے ہیں اور آپ کا ان اُمور کی خبر دیناآپ کی نبوت کی روشن اور ظاہر دلیل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیبی علوم اس لئے عطا فرمائے تاکہ آپ اس قوم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا اور انہیں یہ امید کرتے ہوئے ڈرائیں کہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۳۴-۴۳۵، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۸۷۳، ملتقطاً)
یاد رہے کہ کفارِ مکہ کے پاس نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے کوئی رسول تشریف نہیں لائے اور عرب میں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سے لے کر سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک کوئی رسول تشریف نہیں لائے اور اہلِ کتاب کے پاس حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سے لے کر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک کوئی رسول تشریف نہیں لائے اورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جس طرح کفارِ مکہ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والے ہیں ، اسی طرح اہل ِعرب ،اہل ِکتاب ،بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والے ہیں ۔
{وَ لَوْ لَا: اور اگر یہ بات نہ ہوتی۔} اس آیت کامطلب یہ ہے کہ اگر کسی قوم کی طرف رسول بھیجنے سے پہلے ہی ان کے کفر اور گناہوں کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سختی آجاتی یا ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا تو وہ لوگ یہ عذر پیش کر سکتے تھے کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم پر سختی اور عذاب نازل کرنے سے پہلے تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا تاکہ ہم تیری دلیلوں کو مانتے اور اپنے رسول پر جو کتاب تو نازل فرماتا ا س کی آیتوں کی پیروی کرتے، صرف تیرے ہی معبود ہونے پر ایمان لاتے اور تیرے رسول کی اَحکامات اور ممنوعات میں تصدیق اورا طاعت کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے عذاب نازل کرنے سے پہلے لوگوں کی طرف اپنے رسول بھیجے تاکہ ان کی تبلیغ اور کوششوں کے بعد جب اپنے کفر اور گناہوں پر قائم رہنے والوں کو ان کے اعمال کی سزا ملے تو وہ مذکورہ بالا عذر پیش نہ کر سکیں ۔
اس کے ہم معنی وہ آیتِ مبارکہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ وَ لَوْ اَنَّاۤ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِـعَ اٰیٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَ نَخْزٰى‘‘(طہ:۱۳۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر ہم انہیں رسول کے آنے سے پہلے کسی عذاب سے ہلاک کردیتے تو ضرور کہتے: اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے تیری آیتوں کی پیروی کرتے؟
{فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا: پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیا۔} اس سے پہلی آیت میں بیان کیا گیا کہ خوف کے وقت کافر کہیں گے کہ اے ہمارے رب!تونے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور اس آیت میں رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھیجے جانے کے بعد کفارِ مکہ کا حال بیان کیا جا رہا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب کفارِمکہ کے پاس ہماری طرف سے محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے تو انہوں نے کہا: اس نبی (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو اس جیسا کیوں نہ دیدیا گیا جیسا (حضرت) موسیٰ (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کو دیا گیا تھا؟ یعنی انہیں قرآنِ کریم یکبارگی کیوں نہیں دیا گیا جیسا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پوری توریت ایک ہی بار میں عطا کی گئی تھی؟ یا اس کے یہ معنی ہیں کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عصا اور روشن ہاتھ جیسے وہ معجزات کیوں نہ دیئے گئے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دئیے گئے تھے؟اس کا پس ِمنظر یہ ہے کہ یہودیوں نے کفارِ قریش کو پیغام بھیجا کہ وہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سے معجزات طلب کریں ۔جب کفارِ قریش نے ایسا کیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جن یہودیوں نے یہ سوال کرنے کا کہا ہے کیا وہ خود روشن نشانیوں کے باوجود حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اور جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے اس کے منکر نہ ہوئے اور جب یہ خود اس کے منکر ہیں جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیا گیا تو کس منہ سے اس کا مطالبہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کرنے کا کہہ رہے ہیں ۔بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ کفارِ قریش تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے منکر تھے اور جب انہوں نے (یہودیوں کے کہنے پر) رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جیسے معجزات طلب کئے تو ا س پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’ کیا کفارِ مکہ نے اس کا انکار نہیں کیا تھا جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیا گیا اورجب یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دئیے جانے والے معجزات کے منکر ہیں تو پھر ان جیسے معجزات کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں !( تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۸ / ۶۰۵-۶۰۶، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۴۳۵، ملتقطاً)
{قَالُوْا سِحْرٰنِ: انہوں نے کہا تھا کہ یہ دو جادو ہیں ۔} مکہ کے مشرکین نے مدینہ کے یہودی سرداروں کے پاس قاصدبھیج کر دریافت کیا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں سابقہ کتابوں میں کوئی خبر ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ! حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت ان کی کتاب توریت میں موجود ہے۔ جب یہ خبر کفارِ قریش کو پہنچی تو وہ توریت اور قرآن کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ دونوں جادو ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے کی مددگار ہے ۔ قرآن مجید کی ایک دوسری قراء ت کے اعتبار سے معنی یہ ہوں گے کہ کفار نے کہا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورحضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دونوں جادو گر ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے کا مُعین و مددگار ہے۔ مزید کفارِ مکہ نے یہ کہا کہ بیشک ہم تورات کے بھی منکر ہیں اور قرآن کے بھی ،حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بھی انکار کرتے ہیں اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بھی۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۴۳۵)
{قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ: تم فرماؤ: تو اللہ کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ کے انکار کرنے پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں سے فرما دیں کہ اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو کہ تورات اور قرآن کریم جادو ہیں تو اللہ تعالیٰ کے پاس سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں کتابوں سے زیادہ ہدایت والی ہو،اگر تم ایسی کتاب لے آئے تو میں اس کی پیروی کرلوں گا۔یہاں یہ تنبیہ فرمائی گئی کہ کفار ایسی کتاب لانے سے بالکل عاجز ہیں ،چنانچہ اگلی آیت میں ارشاد فرمایاجاتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، پھر اگر وہ کفار یہ تمہاری بات قبول نہ کریں اور ایسی کتاب نہ لاسکیں تو آپ جان لیں کہ یہ کفر کی جس سواری پر سوار ہیں اس کی ان کے پاس کوئی حجت نہیں ہے اور بس وہ اپنی خواہشو ں ہی کی پیروی کررہے ہیں حالانکہ اس سے بڑھ کر گمراہ کوئی نہیں جو خلافِ ہدایت اپنی خواہش کی پیروی کرے ۔بیشک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو اپنے دین کی طرف ہدایت نہیں دیتا ۔( خازن،القصص،تحت الآیۃ: ۴۹-۵۰، ۳ / ۴۳۵-۵۳۶، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۰، ۶ / ۴۱۲، ملتقطاً)
{وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ: اور بیشک ہم نے ان کے لیے کلام مسلسل بھیجا۔} ارشاد فرمایاکہ بیشک ہم قرآنِ مجید کو ایک ہی بار میں نازل کرنے پر قادر ہیں لیکن ہم نے کفارِ قریش کے لیے اپناکلام مسلسل بھیجا اور قرآنِ کریم ان کے پاس لگاتار اور مسلسل آیا جس میں جنّت کے وعدے، جہنّم کے عذاب کی وعید،سابقہ قوموں کے واقعات ،عبرتوں اور نصیحتوں پر مشتمل آیات نازل ہوئیں تاکہ یہ لوگ بار بار سن کر سمجھ سکیں اور ایمان لائیں تو ہمارا قرآن مجید کو تھوڑا تھوڑا نازل کرنا ان کی مَصلحت کی وجہ سے ہے اور وہ لوگ کس قدر جاہل ہیں جو اپنی مصلحت کی مخالفت کر تے ہوئے قرآن مجید کو ایک ہی بار میں نازل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔
{اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ: جن لوگوں کو ہم نے اس (قرآن) سے پہلے کتاب دی۔} شانِ نزول :یہ آیت اہلِ کتاب کے مومن حضرات حضرت عبد اللہ بن سلام اور ان کے اصحاب کے حق میں نازِل ہوئی اور ایک قول یہ ہے کہ یہ ان انجیل والوں کے حق میں نازِل ہوئی جو حبشہ سے آ کر سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے۔ یہ چالیس حضرات تھے جو حضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ آئے ،جب انہوں نے مسلمانوں کی حاجت اور معاش کی تنگی دیکھی تو بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں عرض کی: ہمارے پاس مال ہیں ،حضور اجازت دیں تو ہم واپس جا کر اپنے مال لے آئیں اور ان سے مسلمانوں کی خدمت کریں ۔ حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اجازت دی اور وہ جا کر اپنے مال لے آئے اور ان سے مسلمانوں کی خدمت کی ۔ ان کے حق میں یہ آیات ’’مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ‘‘ تک نازل ہوئیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ یہ آیتیں 80 اہلِ کتاب کے حق میں نازل ہوئیں جن میں 40 نجران کے،32 حبشہ کے اور8 شام کے تھے۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۴۳۶)
{وَ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ: اور جب ان پر یہ قرآن پڑھا جاتا ہے ۔} یہاں ان لوگوں کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ جب ان کے سامنے قرآنِ مجید کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو یہ کہتے ہیں :ہم اس پر ایمان لائے، بیشک یہی ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کے پا س سے حق ہے۔ ہم اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے ہی فرمانبردار ہو چکے تھے اور ہم حبیبِ خدا، محمد ِ مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بر حق نبی ہونے پر ایمان رکھتے تھے کیونکہ توریت و انجیل میں ان کا ذکر موجود ہے۔(خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۴۳۶)
{اُولٰٓىٕكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ: ان کو ان کا اجر دُگنا دیا جائے گا۔} ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کو دگنا اجر دیاجائے گا کیونکہ وہ پہلی کتاب پر بھی ایمان لائے اور قرآ نِ پاک پر بھی اوریہ ان کے اس صبر کا بدلہ ہے جو انہوں نے اپنے دین پر اور مشرکین کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر کیا۔
دُگنا اجر پانے والے لوگ:
اس آیت میں دُگنا اجر پانے والے حضرات کا بیان ہوا اور حدیث ِپاک میں ان کے علاوہ مزید ایسے افراد کا بھی ذکر ہے جنہیں دگنا اجر ملے گا، چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں دو اجر ملیں گے، (1)اہلِ کتاب کا وہ شخص جو اپنے نبی پر بھی ایمان لایا اورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر بھی۔ (2) وہ غلام جس نے اللہ تعالیٰ کا حق بھی ادا کیا اور اپنے آقا کا بھی۔(3) وہ شخص جس کے پاس باندی تھی جس سے وہ قربت کرتا تھا، پھر اس کو اچھی طرح ادب سکھایا، اچھی تعلیم دی اور آزاد کر کے اس سے نکاح کر لیا تو اس کے لئے بھی دو اجر ہیں ۔( مشکاۃ المصابیح، کتاب الایمان، الفصل الاول، ۱ / ۲۳، الحدیث: ۱۰، مسلم، کتاب الایمان، باب وجوب الایمان برسالۃ نبیّنا۔۔۔ الخ، ص۹۰، الحدیث: ۲۴۱(۱۵۴))
{وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ: اور یہ بُرائی کو بھلائی سے دُور کرتے ہیں ۔} یہاں ان اہلِ کتاب کا ایک وصف یہ بیان کیاگیا کہ وہ برائی کو بھلائی سے دور کرتے ہیں ،اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طاعت سے مَعصِیَت کو اور حِلم سے ایذاء کو دور کرتے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وَحْدانیّت کی گواہی دینے سے شرک کو دور کرتے ہیں ۔آیت کے آخر میں ان کا یہ وصف بیان کیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ اس کی راہ میں صدقہ کرتے ہیں ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۸۷۴، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۴۳۶، ملتقطاً)
{وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ: اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ مکہ کے مشرکین اہلِ کتاب میں سے ایمان لانے والوں کو گالیاں دیتے اور ان سے کہتے کہ تمہارا ستیاناس ہو، تم نے اپنے پرانے دین کو چھوڑ دیا۔ان کے اس طرزِ عمل پر ایمان لانے والے اہلِ کتاب ان سے منہ پھیر لیتے ہیں اور یوں کہتے ہیں :ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں ۔ بس تمہیں دُور ہی سے سلام ہے اور ہم جاہلوں کے ساتھ دوستی نہیں کرنا چاہتے ۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ مشرک لوگ مکہ مکرمہ کے ایمانداروں کو ان کا دین ترک کرنے اور اسلام قبول کرنے پر گالیاں دیتے اور بُرا کہتے، یہ حضرات ان کی بیہودہ باتیں سن کر اِعراض فرماتے اور ان سے کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارا دین ہے اور تمہارے لئے تمہارا دین ہے ، ہم تمہاری بیہودہ باتوں اور گالیوں کے جواب میں گالیاں نہ دیں گے اور ہم جاہلوں کے ساتھ میل جول نشست و بَرخاست نہیں چاہتے کیونکہ ہمیں جاہلانہ حرکات گوارا نہیں ۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۵۵، ۶ / ۴۱۴، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۴۳۶، ملتقطاً)
{اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ: بیشک ایسا نہیں ہے کہ تم جسے چاہو اسے اپنی طرف سے ہدایت دیدو۔} مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی ۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس آیت کا شانِ نزول یوں مذکور ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے چچا (ابو طالب) سے اس کی موت کے وقت فرمایا: اے چچا! ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّااللہ‘‘کہو، میں تمہارے لئے قیامت کے دن گواہ ہوں گا۔ اس نے (صاف انکار کر دیا اور) کہا:اگر مجھے قریش کی طرف سے عیب لگائے جانے کا اندیشہ نہ ہوتا (کہ موت کی سختی سے گھبرا کر مسلمان ہو گیا ہے) تو میں ضرور ایمان لا کر تمہاری آنکھ ٹھنڈی کرتا ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ِکریمہ نازل فرمائی۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۴۳۷، تفسیر کبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۵۶، ۹ / ۵، ملتقطاً) اور ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنے چچا کے ایمان نہ لانے کا غم نہ کریں ،آپ اپنا تبلیغ کا فریضہ ادا کرچکے، ہدایت دینا اور دل میں ایمان کا نور پیدا کرنا یہ آپ کا فعل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ کسے یہ دولت دے گا اور کسے اس سے محروم رکھے گا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب الدلیل علی صحّۃ اسلام من حضرہ الموت۔۔۔ الخ، ص۳۴، الحدیث: ۴۱-۴۲(۲۵))
ابو طالب کے ایمان سے متعلق اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تحقیق:
اعلیٰ حضرت ،مُجَدِّدِ دین وملت شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ابو طالب کے ایمان سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :اس میں شک نہیں کہ ابو طالب تمام عمر حضور سیّد المرسَلین ،سیّد الاَوّلین والآخِرین، سیّد الاَبرار صَلَّی اللہ تَعَالٰیعَلَیْہِوَعَلٰی اٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِلٰی یَوْمِ الْقرار کی حفظ و حمایت وکفالت و نصرت میں مصروف رہے۔ اپنی اولاد سے زیادہ حضور کو عزیز رکھا اور اس وقت میں ساتھ دیا کہ ایک عالَم حضور کا دشمن ِجاں ہوگیاتھااور حضور کی محبت میں اپنے تمام عزیزوں قریبیوں سے مخالفت گواراکی،سب کو چھوڑدینا قبول کیا،کوئی دقیقہ غمگساری و جاں نثاری کا نامَرعی نہ رکھا (یعنی ہر لمحے غمگساری اور جاں نثاری کی)، اور یقیناً جانتے تھے کہ حضور افضل المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللہ کے سچے رسول ہیں ، ان پر ایمان لانے میں جنت اَبدی اور تکذیب میں جہنم دائمی ہے، بنوہاشم کو مرتے وقت وصیت کی کہ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تصدیق کرو فلاح پاؤ گے، نعت شریف میں قصائدان سے منقول ،اور اُن میں براہِفراست وہ اُمور ذکر کیے کہ اس وقت تک واقع نہ ہوئے تھے (بلکہ) بعد ِ بعثت شریف ان کا ظہور ہوا،یہ سب احوال مطالعۂ اَحادیث و مُراجعت ِکتب ِسِیَر (یعنی سیرت کی کتابوں کی طرف رجوع کرنے ) سے ظاہر۔مگر مُجَرَّداِن اُمور سے ایمان ثابت نہیں ہوتا۔ کاش یہ افعال واقوال اُن سے حالت ِاسلام میں صادر ہوتے تو سیدنا عباس بلکہ ظاہراً سیدنا حمزہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے بھی افضل قرار پاتے اور افضل الاَعمام حضور افضل الاَنام عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالسَّلَام (یعنی تمام انسانوں سے افضل حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے سب سے افضل چچا) کہلائے جاتے ۔ تقدیر ِالہٰی نے بربنا اُس حکمت کے جسے وہ جانے یا اُس کا رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، انہیں گروہِ مسلمین و غلامانِ شفیع المذنبین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں شمار کیا جانا منظور نہ فرمایا۔ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ۔ (تو اے عقل رکھنے والو! ان کے حال سے عبرت حاصل کرو) صرف معرفت گو کیسی ہی کمال کے ساتھ ہو ایمان نہیں ۔(فتاویٰ رضویہ،رسالہ: شرح المطالب فی مبحث ابی طالب، ۲۹ / ۶۶۱)
مزید فرماتے ہیں : ’’آیاتِ قرآنیہ و اَحادیثِ صحیحہ، مُتوافرہ ،مُتظافرہ (یعنی بکثرت صحیح احادیث) سے ابو طالب کا کفر پر مرنا اور دمِ واپسیں ایمان لانے سے انکار کرنا اور عاقبت کا ر اصحابِ نار سے ہونا ایسے روشن ثبوت سے ثابت جس سے کسی سنی کو مجالِ دم زدن نہیں ۔( فتاویٰ رضویہ،رسالہ: شرح المطالب فی مبحث ابی طالب، ۲۹ / ۶۵۷-۶۵۸)
نوٹ:ابو طالب کے ایمان نہ لانے سے متعلق تفصیلی دلائل کی معلومات کے لئے فتاویٰ رضویہ کی29ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کا رسالہ ’’شَرْحُ الْمَطَالِب فِی مَبْحَثِ اَبِی طَالِب‘‘ (ابو طالب کے ایمان سے متعلق بحث) کا مطالعہ کریں ۔
{وَ قَالُوْا: اور (کافر) کہتے ہیں ۔} شانِ نزول:یہ آیت حارث بن عثمان بن نوفل بن عبد ِمناف کے بارے میں نازل ہوئی ،اس نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ یہ بات تو ہم یقین سے جانتے ہیں کہ جو آپ فرماتے ہیں وہ حق ہے، لیکن اگر ہم آپ کے دین کی پیروی کریں گے تو ہمیں ڈر ہے کہ عرب کے لوگ ہمیں شہر بدر کر دیں گے اور ہمیں ہمارے وطن میں نہ رہنے دیں گے اور عرب کی سرزمین سے ایک دم ہمیں نکال دیں گے ۔ اس آیت میں اس بات کا جواب دیا گیا کہ کیا ہم نے انہیں امن و امان والی جگہ حرم میں ٹھکانا نہ دیا جہاں کے رہنے والے قتل و غارت گری سے امن میں ہیں اور جہاں جانوروں اور سبزوں تک کو امن ہے اورجس کی طرف مختلف ممالک سے ہر چیز کے پھل لائے جاتے ہیں جوہماری طرف کا رزق ہے، لیکن ان میں اکثر کو علم نہیں اور وہ اپنی جہالت کی وجہ سے نہیں جانتے کہ یہ روزی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے،انہیں اگر یہ سمجھ ہوتی تو یہ بات جان جاتے کہ خوف اور امن بھی اسی کی طرف سے ہے اور ایمان لانے کی صورت میں شہر بدر کئے جانے کا خوف نہ کرتے۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۴۳۷، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۸۷۵، ملتقطاً)
{وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍۭ: اور کتنے شہر ہم نے ہلاک کردئیے۔} یہاں کفارِ مکہ کو ایسی قوموں کے خراب انجام سے خوف دلایا جارہا ہے جن کا حال اِن کی طرح تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں پاتے اور شکر کرنے کی بجائے ان نعمتوں پر اِتراتے تو وہ اپنی سرکشی کی وجہ سے ہلاک کر دیئے گئے اور یہ ان کے مکان ہیں جن کے آثار اب بھی باقی ہیں اور عرب کے لوگ اپنے سفروں میں انہیں دیکھتے ہیں کہ ان مکانات میں ہلاک ہونے والوں کے بعد بہت کم رہائش رکھی گئی کہ کوئی مسافر یا راہ گزر ان میں تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جاتا ہے ،پھر یہ اسی طرح خالی پڑے رہتے ہیں ۔ وہاں کے رہنے والے ایسے ہلاک ہوئے کہ ان کے بعد ان کا کوئی جانشین باقی نہ رہا اور اب اللہ تعالیٰ کے سوا ان مکانوں کا کوئی وارث نہیں کیونکہ مخلوق کی فنا کے بعد وہی سب کا وارث ہے ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۸۷۵، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۴۳۷، ملتقطاً)
معاشرے کوامن و امان کا گہوارہ بنانے کاذریعہ:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت سے امن نصیب ہوتا اور نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی مخالفت سے ہلاکت ہوتی ہے،جبکہ کفار ِمکہ نے الٹا سمجھ لیا کہ حضورپُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت سے بد امنی ہو گی اور مخالفت سے امن ملے گا حالانکہ تاریخ اس کے برعکس ہے اور تاریخ سے ادنیٰ سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت کی انہوں نے دنیا میں امن پایا اور وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہے اور جو لوگ اپنے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت سے رُوگَردانی کرتے رہے اور ان کی مخالفت پر کمر بستہ رہے وہ انتہائی خوفناک عذابوں کے ذریعے ہلاک کر دئیے گئے ۔اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنے معاشرے میں پائی جانے والی بد امنی کی وجوہات اور اسباب پر بھی دل سے غور کرنا چاہئے اور بطورِ خاص اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے سوچناچاہئے کہ کہیں یہ ہمارا تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیمات اور احکامات پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ تو نہیں ،اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی اطاعت نہ کرنے کی رَوِش کو ترک کر دیں اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کامل اطاعت و فرمانبرداری شروع کر دیں ، اِنْ شَآءَ اللہ برسوں نہیں ، مہینوں میں بلکہ دنوں میں ہمارا معاشرہ امن وامان کا گہوارہ بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
گناہ کرنے میں لوگوں کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے میں لوگوں کی پکڑ اور ان کی سزا سے خوف کھانا جبکہ اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عذاب سے بے خوف ہونا کفار کا طریقہ ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے معاملے میں لوگوں کی بجائے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرے اور اس سے کسی بھی حال میں بے پرواہ نہ ہو۔اعلیٰ حضرت امام ا حمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
چھپ کے لوگوں سے کئے جس کے گناہ
وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے
ارے او مجرم بے پَروا دیکھ
سر پہ تلوار ہے کیا ہونا ہے
{وَ مَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى یَبْعَثَ فِیْۤ اُمِّهَا رَسُوْلًا: اور تمہارا رب شہروں کو ہلاک کرنے والا نہیں ہے جب تک ان کے مرجع شہر میں رسول نہ بھیجے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی شان یہ ہے کہ وہ شہروں کواس وقت تک ہلاک نہیں فرماتا جب تک ان کے مرکزی مقام میں رسول نہ بھیج دے جو اِن میں رہنے والوں کے سامنے ہماری آیتیں پڑھے اور انہیں تبلیغ کرے اور اس بات کی خبر دیدے کہ اگر وہ ایمان نہ لائیں گے تو اِن پر عذاب نازل کیا جائے گا تاکہ اِن پر حجت لازم ہو جائے اور ان کے لئے عذر کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔ اور ہم شہروں کو اسی وقت ہلاک کرتے ہیں جب ان میں رہنے والے لوگ ظالم ہوں ، رسول کوجھٹلاتے ہوں ، اپنے کفر پر قائم ہوں اور اس سبب سے وہ عذاب کے مستحق ہوں ۔بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت میں مرکزی شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے اور رسول سے مراد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں کیونکہ آپ آخری نبی ہیں ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۸۷۵-۵۷۶، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۴۳۷، ملتقطاً)
موجودہ زمانے کے کفار کو نصیحت:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے کی وہ بستیاں جو اجڑی ہوئی اور ویران نظر آرہی ہیں اور فی زمانہ بھی ان میں سے کئی بستیوں کے آثار باقی ہیں ، یہ بغیرکسی وجہ کے تباہ وبرباد نہیں کی گئیں بلکہ ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھیجے جنہوں نے ان میں رہنے والوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور انہیں کفر و شرک چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی، لیکن جب وہاں کے رہنے والوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات ماننے کی بجائے انہیں جھٹلایااور اپنے کفروشرک پراَڑے رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس ظلم کی وجہ سے انہیں ہلاک اور ان کے شہروں اور بستیوں کوتباہ وبربادکردیا۔
{وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ: اور (اے لوگو!) جو کچھ چیز تمہیں دی گئی ہے۔} یہاں بطورِ خاص کفارِ مکہ سے اور عمومی طور پر تمام لوگوں سے فرمایا گیا کہ اے لوگو! جو کچھ چیز تمہیں دی گئی ہے تو وہ دُنْیَوی زندگی کا سازو سامان اور اس کی زینت ہے جس کی بقا بہت تھوڑی اور جس نے آخر کار فنا ہونا ہے اور جو ثواب اور آخرت کے مَنافع اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں وہ بہتر اور زیادہ باقی رہنے والے ہیں کیونکہ یہ تمام پریشانیوں سے خالی اور کبھی ختم نہ ہونے والے ہیں ، تو کیا تم میں عقل نہیں کہ اتنی بات سمجھ سکو کہ جو چیزباقی رہنے والی ہے وہ فنا ہو جانے والی سے بہتر ہے اور تم بہتر چیز کو اختیار کر سکو اورا سے ترجیح دو جو ہمیشہ باقی رہے گی اور اس کی نعمتیں کبھی ختم نہ ہوں گی۔( قرطبی، القصص،تحت الآیۃ: ۶۰، ۷ / ۲۲۷، الجزء الثالث عشر، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۸۷۶، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۴۳۷-۴۳۸، تفسیرطبری، القصص، تحت الآیۃ: ۶۰، ۱۰ / ۹۱، ملتقطاً)
آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے والا نادان ہے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ جو شخص دُنْیَوی سازوسامان،عیش وعشرت اور زیب وزینت کو اُخروی نعمتوں اور آسائشوں پر ترجیح دے وہ بے عقل اور نادان ہے کیونکہ وہ عارضی اور ختم ہو جانے والی چیز کو ا س پر ترجیح دے رہا ہے جو ہمیشہ رہنے والی اور کبھی ختم نہ ہونے والی ہے ۔ایسے شخص کے لئے درج ذیل آیات میں بڑی عبرت ہے جو اصل کے اعتبار سے تو کفار کیلئے ہیں لیکن اپنے کئی پہلوؤں کے اعتبار سے مسلمانوں کیلئے بھی درسِ نصیحت و عبرت ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(ہود:۱۵،۱۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گےاورانہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور ان کے اعمال باطل ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسراء یل:۱۸،۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کیلئے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم، مردود ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى٘ۖ(۳۴)یَوْمَ یَتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰىۙ(۳۵)وَ بُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰى(۳۶)فَاَمَّا مَنْ طَغٰىۙ(۳۷)وَ اٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاۙ(۳۸)فَاِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰىؕ(۳۹)وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰)فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى‘‘(نازعات:۳۴۔۴۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جب وہ عام سب سے بڑی مصیبتآئے گی۔ اس دن آدمی یاد کرے گا جو اس نے کوشش کی تھی۔ اور جہنم ہر دیکھنے والے کیلئے ظاہر کر دی جائے گی۔ تو وہ جس نے سرکشی کی۔ اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی۔ تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے۔ اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔ تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔
لہٰذا اے انسان!
’’وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ‘‘(قصص۷۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو مال تجھے اللہنے دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللہ نے تجھ پر احسان کیا اور زمینمیں فساد نہ کر، بے شک اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔
افسوس!فی زمانہ مسلمانوں کی اکثریت بھی دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کی بے عقلی اور نادانی کا شکار ہے اور ان میں سے بعض کا حال یہ ہوچکا ہے کہ دنیا کا ما ل حاصل کرنے کیلئے لوگوں کو دھمکیاں دینے ،انہیں اغوا کر کے تاوانوں کا مطالبہ کرنے ،اسلحے کے زور پر مال چھیننے حتّٰی کے مال حاصل کرنے کی خاطر لوگوں کو جان تک سے مار دینے میں لگے ہوئے ہیں ، الغرض دنیا کا مال اوراس کا عیش و عشرت حاصل کرنا ان کی اَوّلین ترجیح بنا ہوا ہے اور اس کے لئے وہ ہر سطح پر جانے کو تیار ہیں اور اپنی آخرت سے متعلق انہیں ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے، اٰمین۔
{اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا: تو وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہوا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! تم اس بات پر غور کرو کہ وہ شخص جس سے ہم نے ا س کے ایمان اور طاعت پر جنت کے ثواب کا اچھا وعدہ کیا ہوا ہے، پھر وہ اس وعدے کو پانے والا بھی ہے ،کیا وہ اس شخص جیسا ہے جسے ہم نے صرف دُنْیَوی زندگی کا سازوسامان فائدہ اٹھانے کو دیا ہو اور یہ ساز و سامان عنقریب زائل ہوجانے والا ہو، پھر وہ قیامت کے دن گرفتار کرکے حاضر کئے جانے والوں میں سے ہو!یہ دونوں ہرگز برابر نہیں ہو سکتے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ جسے اچھا وعدہ دیا گیا اس سے مراد مومن ہے اور دوسرے شخص سے کافر مراد ہے۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۶۱، ۶ / ۴۲۰، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۳۳۲، ملتقطاً)
دنیا کا طلبگار اور آخرت کا خواہش مند برابر نہیں :
اس سے معلوم ہواکہ جو شخص صرف دنیا کا طلبگار اور آخرت سے بے پرواہ ہے وہ ا س شخص جیسا نہیں جودنیا کی زندگی اور ا س کے عیش و عشرت پر قناعت کرنے کی بجائے آخرت کی اچھی زندگی کا خواہش مند اور وہاں کی عظیم الشّان دائمی نعمتیں حاصل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا کا وہ عیش و عشرت جس کے بعد بندہ عذاب میں مبتلا ہو جائے، کسی طرح بھی اس قابل نہیں کہ اسے آخرت پر ترجیح دی جائے اور نہ ہی کوئی عقل مند انسان ایسا کر سکتا ہے۔
{وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ: اور یاد کروجس دن(اللہ) انہیں ندا کرے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو ڈانٹتے ہوئے ندا کرے گا اور ان سے فرمائے گا’’وہ کہاں ہیں جنہیں تم دنیا میں میرا شریک سمجھتے تھے۔ یہ ندا سن کرعام کفار کی بجائے گمراہوں کے سردار اور کفر کے پیشوا جن پر جہنم کا عذاب واجب ہوچکا ہے، کہیں گے : اے ہمارے رب! یہی ہماری پیروی کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے شرک کی طرف بلا کر گمراہ کیا۔ ہم نے انہیں گمراہ کیا تو یہ اسی طرح گمراہ ہو گئے جیسے ہم خود گمراہ ہوئے تھے ۔اس سے ان کی مراد یہ ہوگی کہ جیسے ہم اپنے اختیار سے گمراہ ہوئے اسی طرح یہ بھی اپنے ہی اختیار سے گمراہ ہوئے کیونکہ ہم نے تو صرف انہیں بہکایا تھا گمراہی پر مجبور نہیں کیا تھااس لئے ہماری اور ان کی گمراہی میں کوئی فرق نہیں ۔ ہم ان سے اور جس کفر کو انہوں نے اختیار کیا اس سے بیزار ہوکر تیری طرف رجوع لاتے ہیں ، یہ ہماری عبادت نہ کرتے تھے بلکہ یہ اپنی خواہشوں کے پَرستار اور اپنی شہوات کے اطاعت گزار تھے۔(مدارک، القصص،تحت الآیۃ:۶۲-۶۳،ص۸۷۶-۸۷۷، روح البیان، القصص،تحت الآیۃ:۶۲-۶۳، ۶ / ۴۲۱، ملتقطاً)
{وَ قِیْلَ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ: اور ان سے فرمایا جائے گا: اپنے شریکوں کو پکارو تو وہ اِنہیں پکاریں گے۔} یعنی بتوں کے پجاریوں سے فرمایا جائے گا:ان بتوں کو پکارو، جنہیں تم اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے تھے تاکہ وہ تمہیں جہنم کے عذاب سے بچائیں ۔چنانچہ وہ ان بتوں کو پکاریں گے لیکن وہ انہیں جواب نہ دیں گے اور یہ پجاری عذاب دیکھیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ لوگ دنیا میں گمراہ ہونے کی بجائے ہدایت حاصل کرلیتے تاکہ آخرت میں عذاب نہ دیکھتے ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۸۷۷، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۶۴، ۶ / ۴۲۱، ملتقطاً)
{وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ: اور جس دن انہیں ندافرمائے گا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کفار کو ڈانٹتے ہوئے فرمائے گا: ’’تم نے ان رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کیا جواب دیا تھاجو تمہاری طرف بھیجے گئے تھے اورتمہیں حق کی دعوت دیتے تھے ؟تو اس دن کفار کو کچھ یاد نہ رہے گا کہ انہوں نے کیا جواب دیا تھا اور کوئی عذر اور حجت انہیں نظر نہ آئے گی تو وہ ایک دوسرے سے نہیں پوچھیں گے اور انتہائی دہشت کی وجہ سے ساکت رہ جائیں گے یا کوئی کسی سے اس لئے نہ پوچھے گا کہ جواب سے عاجز ہونے میں سب کے سب برابر ہیں خواہ وہ تابع ہوں یا مَتبوع ، کافر ہوں یا کافر گَر ۔ (خازن، القصص،تحت الآیۃ:۶۵-۶۶، ۳ / ۴۳۸، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۵۶-۶۶، ۶ / ۴۲۱-۴۲۲، ملتقطاً)
ایک دوسری روایت میں ہے جو کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے کہ کوئی آدمی نہیں ہوگامگر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے تنہائی میں بات کرے گا (یعنی بندہ لوگوں سے جدا ہوگا)۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گااے ابنِ آدم !کس چیز نے تجھے مجھ سے دھوکے میں ڈالا؟ اے ابنِ آدم!تونے رسولوں کوکیاجواب دیا؟اے ابنِ آدم! تونے اپنے علم پرکیا عمل کیا؟( حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، عبد اللّٰہ بن مسعود، ۱ / ۱۸۰، الحدیث: ۴۱۲)
{فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ: تو وہ جس نے توبہ کی اور ایمان لایا۔} اس سے پہلی آیات میں عذاب پانے والے کفار کا حال بیان ہوا اور اب یہاں سے کفار کو دنیا میں توبہ کی ترغیب دی جا رہی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا جس شخص نے دنیا میں شرک سے توبہ کرلی اور اللہ تعالیٰ پر اور جو کچھ اس کی طرف سے نازل ہواہے اس پرایمان لے آیااوراس نے نیک کام کیے تو قریب ہے کہ وہ کامیاب ہونے والوں میں سے ہوگا۔( تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۶۷، ۹ / ۱۰، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۸۷۷، ملتقطاً)
{وَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ: اور تمہارا رب پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے۔} شانِ نزول: یہ آیت ان مشرکین کے جواب میں نازل ہوئی جنہوں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نبوت کے لئے کیوں منتخب فرمایا ہے اور یہ قرآن مکہ اور طائف کے کسی بڑے شخص پر کیوں نہ اُتارا؟یہ کلام کرنے والا ولید بن مغیرہ تھا اور بڑے آدمی سے وہ اپنے آپ کو اور عروہ بن مسعود ثقفی کو مراد لیتا تھا۔ اس کے جواب میں یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ رسولوں کا بھیجنا ان لوگوں کے اختیار سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہے، اپنی حکمت وہی جانتا ہے انہیں اُس کی مرضی میں دخل دینے کی کیا مجال ہے۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۶۸، ۶ / ۴۲۳، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۴۳۹، ملتقطاً)
{وَ رَبُّكَ یَعْلَمُ: اور تمہارا رب جانتا ہے۔} ارشاد فرمایاکہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا رب ان کے کفر اوران کی آپ سے عداوت کو جانتا ہے جسے یہ لوگ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور ان کی وہ باتیں بھی جانتا ہے جو یہ اپنی زبانوں سے ظاہر کرتے ہیں جیسے آپ کی نبوت پر اعتراض کرنا اور قرآن پاک کو جھٹلانا۔ (روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۶۹، ۶ / ۴۲۵، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۳۳۳، ملتقطاً)اور جب اللہ تعالیٰ ان کے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے تو وہی انہیں ان کی حرکتوں کی سزا دے گا۔
{وَ هُوَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ: اور وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ دنیا اور آخرت میں اسی کیلئے تمام تعریفیں ہیں کہ اس کے اولیاء د نیا میں بھی اس کی حمد کرتے ہیں اور آخرت میں بھی اس کی حمد سے لذت اٹھائیں گے اور ہر چیز میں اسی کا حکم ،فیصلہ اور قضاء نافذ و جاری ہے اور اے لوگو! قیامت کے دن اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔( خازن، القصص،تحت الآیۃ:۷۰، ۳ / ۴۳۹، جلالین، القصص،تحت الآیۃ: ۷۰، ص۳۳۳، تفسیر سمرقندی، القصص، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۵۲۴، ملتقطاً)
{قُلْ اَرَءَیْتُمْ: تم فرماؤ: بھلا دیکھو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مکہ والوں سے فرما دیں :تم مجھے اس بات کا جواب دو کہ اگر اللہ تعالیٰ سورج کو طلوع ہونے سے روک کریا اسے بے نور کر کے تم پر قیامت تک ہمیشہ رات ہی رکھے اور دن نکالے ہی نہیں جس میں تم اپنی معاشی سرگرمیاں انجام دے سکو تو اللہ تعالیٰ کے سوا کون دوسرا معبود ہے جو یہ قدرت رکھتا ہو کہ تمہارے پاس دن کی روشنی لے آئے، تو کیا تم اس کلام کو ہوش کے کانوں سے سنتے نہیں اور اس میں غورو فکر نہیں کرتے تا کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی قدرت واضح ہو جائے اور تم شرک سے باز آکر ا س کی وحدانیّت پر ایمان لے آؤ ۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۷۱، ۶ / ۴۲۶، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۳۳۳، ملتقطاً)
{قُلْ اَرَءَیْتُمْ: تم فرماؤ: بھلا دیکھو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مکہ والوں سے یہ بھی فرما دیں : تم مجھے یہ بتاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ سورج کوآسمان کے درمیان روک کر قیامت تک ہمیشہ دن ہی رکھے اور رات ہونے ہی نہ دے تو اللہ تعالیٰ کے سوا اورکون معبود ہے جو یہ قدرت رکھتا ہو کہ وہ تمہارے پاس رات لے آئے جس میں تم آرام کرسکو اور دن میں جو کام اور محنت کی تھی اس کی تھکن دور کرسکو ۔ تو کیا تم دیکھتے نہیں کہ تم کتنی بڑی غلطی میں ہو جو اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہو اور تمہیں چاہئے کہ اپنی اس غلطی کا احساس کر کے ا س سے باز آجاؤ۔( جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۷۲، ص۳۳۳، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۷۲، ۶ / ۴۲۷، ملتقطاً)
{وَ مِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ: اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لیے رات اور دن بنائے۔} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم رات میں آرام کرو، اپنے بدنوں کو راحت پہنچاؤ اور دن بھر کی محنت و مشقت سے ہونے والی تھکن دور کرو اور دن میں روزی تلاش کرو جو کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اورتم اپنی معاشی و کاروباری سرگرمیاں انجام دو اور تم پر یہ رحمت فرمانے کی حکمت یہ کہ تم اس کی وجہ سے اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا حق مانو،اس کی وحدانیّت کا اقرار کرو اورصرف اسی کی عبادت کر کے اس کی نعمتوں کا شکر بجا لاؤ۔( تفسیرطبری، القصص، تحت الآیۃ: ۷۳، ۱۰ / ۹۸)
{وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ: اور یاد کروجس دن انہیں ندا کرے گا۔} یہاں سے مشرکین کا اُخروی حال بیان کیا جا رہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ و ہ دن یاد کریں جس دن اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کو ندا کرے گا تو فرمائے گا:اے مشرکو!جنہیں تم دنیا میں میرا شریک سمجھتے تھے وہ کہاں ہیں ؟تاکہ آج کے دن وہ تمہیں نجات دیں اور عذاب سے تمہیں چھٹکارا دلائیں ۔یہ ندا سن کر کفار کے غم میں اورا ضافہ ہو جائے گا۔( تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۷۴، ۹ / ۱۳، تفسیرطبری، القصص، تحت الآیۃ: ۷۴، ۱۰ / ۹۸، ملتقطاً)
{وَ نَزَعْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا: اور ہم ہر امت میں سے ایک گواہ نکال لیں گے۔} یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر امت میں سے ایک گواہ نکال کر لائے گا جو کہ اس امت کے رسول ہوں گے اور وہ اپنی اپنی اُمتوں پراس بات کی گواہی دیں گے کہ انہوں نے ان لوگوں تک اللہ تعالیٰ کے پیغام پہنچائے اور انہیں نصیحتیں کیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ ہر امت سے ارشاد فرمائے گا: دنیا میں شرک اور رسولوں کی مخالفت کرناجو تمہارا شیوہ تھا، اس کے صحیح ہونے پر تمہارے پاس جو دلیل ہے وہ پیش کرو۔ تواس دن وہ جان لیں گے کہ اِلٰہ اور معبود ہونے کا حق صرف اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ،اوردنیا میں جو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرا کر اور ان شریکوں کو اپنی شفاعت کرنے والا بتا کر جھوٹی باتیں بناتے تھے ،ان کی یہ سب باتیں ضائع ہو جائیں گی۔(مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۸۷۹، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۳۳۳، ملتقطاً)
{اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى: بیشک قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا۔} اس سے پہلے آیت نمبر60میں کفارِ مکہ سے فرمایا گیا تھا کہ تمہیں جو چیز دی گئی ہے وہ صرف دُنْیَوی زندگی کا سامان اور ا س کی زینت ہے اور اب یہاں سے بیان فرمایا جا رہا ہے کہ قارون کو بھی دُنْیَوی زندگی کا سامان دیا گیا اور اُس نے اِس پر غرور کیا تو وہ بھی فرعون کی طرح عذاب سے نہ بچ سکاتو اے مشرکو!تم قارون اور فرعون سے زیادہ مال اور تعداد نہیں رکھتے اور فرعون کو ا س کے لشکر و مال نے عذاب سے بچنے میں کوئی فائدہ نہ دیا اسی طرح قارون کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے رشتہ داری اور ا س کے کثیر خزانوں نے کوئی نفع نہ دیا تو تم کس چیز کے بھروسے پر رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلا رہے اور ان پر ایمان لانے سے منہ موڑرہے ہو۔یاد رکھو!اگر تم بھی اپنی رَوِش سے باز نہ آئے تو تمہارا انجام بھی فرعون ا ور قارون سے مختلف نہ ہو گا۔( تفسیر قرطبی، القصص، تحت الآیۃ: ۷۶، ۷ / ۲۳۲، الجزء الثالث عشر، ملتقطاً)
قارون کا مختصر تعارف ، ا س کے خزانوں کا حال اور ا س کی رَوِش:
یہاں اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کی مناسبت سے قارون کامختصر تعارف ،اس کے خزانوں کا حال اور اس کی روش ملاحظہ ہو،چنانچہ مفسرین فرماتے ہیں کہ قارون حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا یصہر کا بیٹا تھا۔ انتہائی خوب صورت اور حسین شکل کا آدمی تھا ،اسی لئے اسے مُنَوَّر کہتے تھے۔ بنی اسرائیل میں توریت کا سب سے بہتر قاری تھا۔ ناداری کے زمانے میں نہایت عاجزی کرنے والا اوربااخلاق تھا۔دولت ہاتھ آتے ہی اس کا حال تبدیل ہوا اور یہ بھی سامری کی طرح منافق ہوگیا۔کہا گیا ہے کہ فرعون نے اسے بنی اسرائیل پر حاکم بنا دیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اتنے خزانے دئیے تھے کہ ان کی چابیاں اُٹھانا ایک طاقتور جماعت پر بھاری پڑتاتھا اور یہ لوگ خزانوں کی وزنی چابیاں اٹھا کر تھک جایا کرتے تھے ۔جب قارون سوار ہو کر نکلتا توکئی خچروں پر اس کے خزانوں کی چابیاں لادی جاتی تھیں ۔جب اس سے بنی اسرائیل کے مومن حضرات نے کہا:اے قارون!تم اپنے مال کی کثرت پر اِترا ؤنہیں ، بیشک اللہ تعالیٰ اِترانے والوں کو پسندنہیں کرتااور اللہ تعالیٰ نے تجھے جو مال دیا ہے اس کے ذریعے تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کر کے اور مال کو خدا کی راہ میں خرچ کر کے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول بلکہ دنیا میں آخرت کے لئے عمل کر تاکہ تو عذاب سے نجات پائے کیونکہ دنیا میں انسان کا حقیقی حصہ یہ ہے کہ وہ صدقہ اور صلہ رحمی وغیرہ کے ذریعے آخرت کے لئے عمل کرے اور تو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ اسی طرح احسان کر جیسا اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا اور گناہوں کا اِرتکاب کر کے، نیز ظلم ، بغاوت اور سرکشی کر کے زمین میں فساد نہ کر، بے شک اللہ تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۷۶-۷۷، ص۸۷۹، ابو سعود، تحت الآیۃ: ۷۶-۷۷، ۴ / ۲۴۴-۲۴۵، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۷۶-۷۷، ۳ / ۴۴۰، ملتقطاً)
خوش ہونے اور خوشی منانے سے متعلق 3شرعی احکام:
آیت نمبر76میں قارون کے اترانے یعنی فخر وتکبر کے طور پر خوش ہونے کا ذکر ہوا،اس مناسبت سے یہاں خوش ہونے اور خوشی منانے سے متعلق 3شرعی احکام ملاحظہ ہوں :
(1)… شیخی کی خوشی یعنی اترانا حرام ہے،لیکن شکر کی خوشی عبادت ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا‘‘(یونس:۵۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے ۔
(2)…جرم کرکے خوش ہونا حرام ہے جبکہ عبادت کرکے خوش ہونا بہتر ہے۔
(3)… ناجائز طریقے سے خوشی منانا حرام ہے جیسے خوشی سے ناچنا شروع کر دیناجبکہ جائز طور سے خوشی منانا اچھا ہے جیسے خوشی میں صدقہ کرنا وغیرہ۔
تکبر میں مبتلا ہونے کا ایک سبب:
اسی آیت سے معلوم ہو اکہ مال و دولت کی کثرت فخر ،غرور اور تکبر میں مبتلا ہونے کاایک سبب ہے۔امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ تکبر کے اسباب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’تکبر کا پانچواں سبب مال ہے اور یہ بادشاہوں کے درمیان ان کے خزانوں اور تاجروں کے درمیان ان کے سامان کے سلسلے میں ہوتا ہے، اسی طرح دیہاتیوں میں زمین اور آرائش والوں میں لباس اور سواری میں ہوتا ہے۔ مالدار آدمی، فقیر کو حقیر سمجھتا اور اس پر تکبر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تو مسکین اور فقیر ہے، اگر میں چاہوں تو تیرے جیسے لوگو ں کو خریدلوں ، میں تو تم سے اچھے لوگوں سے خدمت لیتا ہوں ، تو کون ہے؟ اور تیرے ساتھ کیا ہے؟ میرے گھر کا سامان تیرے تمام مال سے بڑھ کر ہے اور میں تو ایک دن میں اتنا خرچ کردیتا ہوں جتنا تو سال بھر میں نہیں کھاتا۔
وہ یہ تمام باتیں اس لیے کرتا ہے کہ مالدارہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے جب کہ اس شخص کو فقر کی وجہ سے حقیر جانتا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ فقر کی فضیلت اور مالداری کے فتنے سے بے خبر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’فَقَالَ لِصَاحِبِهٖ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا‘‘(کہف:۳۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو اس نے اپنے ساتھی سے کہا اور وہ اس سے فخر و غرور کی باتیں کرتا رہتا تھا۔ (اس سے کہا) میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور افراد کے اعتبار سے زیادہ طاقتور ہوں ۔
حتّٰی کہ دوسرے نے جواب دیا:
’’اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّ وَلَدًاۚ(۳۹)فَعَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ وَ یُرْسِلَ عَلَیْهَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًاۙ(۴۰)اَوْ یُصْبِحَ مَآؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِیْعَ لَهٗ طَلَبًا‘‘(کہف:۳۹۔۴۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر تو مجھے اپنے مقابلے میں مال اور اولاد میں کم دیکھ رہا ہے۔ تو قریب ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا فرما دے اور تیرے باغ پر آسمان سے بجلیاں گرادے تو وہ چٹیل میدان ہوکر رہ جائے۔ یا اس باغ کا پانی زمین میں دھنس جائے پھر تو اسے ہرگز تلاش نہ کرسکے۔
تو اس پہلے شخص کا قول مال اور اولاد کے ذریعے تکبر کے طور پر تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے انجام کا یوں ذکر فرمایا:
’’یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا‘‘(کہف:۴۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے کاش!میں نے اپنے رب کےساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا۔
قارون کا تکبر بھی اسی انداز کا تھا۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، بیان ما بہ التکبر، ۳ / ۴۳۲)
مال و دولت کی وجہ سے پیدا ہونے والے تکبر کا علاج:
امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’(مال و دولت،پیرو کاروں اور مددگاروں کی کثرت کی وجہ سے تکبر کرنا) تکبر کی سب سے بری قسم ہے ،کیونکہ مال پر تکبر کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اپنے گھوڑے اور مکان پر تکبر کرتا ہے اب اگر اس کا گھوڑا مرجائے یا مکان گرجائے تو وہ ذلیل و رُسوا ہوتاہے اور جو شخص بادشاہوں کی طرف سے اختیارات پانے پر تکبر کرتاہے اپنی کسی ذاتی صفت پر نہیں ، تو وہ اپنا معاملہ ایسے دل پر رکھتا ہے جو ہنڈیا سے بھی زیادہ جوش مارتا ہے، اب اگر اس سلسلے میں کچھ تبدیلی آجائے تو وہ مخلوق میں سے سب سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے اور ہر وہ شخص جو خارجی اُمور کی وجہ سے تکبر کرتاہے اس کی جہالت ظاہر ہے کیونکہ مالداری پر تکبر کرنے والا آدمی اگر غور کرے تو دیکھے گا کہ کئی یہودی مال و دولت اور حسن وجمال میں اس سے بڑھے ہوئے ہیں ، تو ایسے شرف پر افسوس ہے جس میں یہودی تم سے سبقت لے جائیں اور ایسے شرف پر بھی افسوس ہے جسے چور ایک لمحے میں لے جائیں اور اس کے بعد وہ شخص ذلیل اور مُفلِس ہوجائے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، بیان الطریق فی معالجۃ الکبر واکتساب التواضع لہ، ۳ / ۴۴۴) اللہتعالیٰ سب مسلمانوں کو مال و دولت کی وجہ سے پیدا ہونے والے تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا: اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول۔} آیت کے اس حصے کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اے قارون! تواپنی صحت ، قوت ، جوانی اور دولت کو نہ بھول بلکہ تجھے ان کے ساتھ آخرت طلب کرنی چاہئے۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۴۴۰)
پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت سمجھیں :
اس سے معلوم ہو اکہ انسان کو اپنی صحت،قوت جوانی اور دولت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال کر کے ضائع نہیں کرنی چاہئے بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں استعمال کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کے ذریعے اپنی آخرت کو سنوارنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت سمجھو۔(1) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ،(2) تندرستی کو بیماری سے پہلے ،(3)دولت مندی کو ناداری سے پہلے ،(4) فراغت کو مصروفیت سے پہلے ، (5)زندگی کو موت سے پہلے۔( مستدرک، کتاب الرقاق، نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس۔۔۔ الخ، ۵ / ۴۳۵، الحدیث: ۷۹۱۶)
{قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِیْ:کہا :یہ تو مجھے ایک علم کی بنا پرملا ہے جو میرے پاس ہے۔} قارون نے نصیحت کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا: یہ مال تو مجھے ایک علم کی بنا پرملا ہے جو میرے پاس ہے۔ اس علم سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے توریت کا علم مرادہے ۔ایک قول یہ ہے کہ اس سے علم ِکیمیا مراد ہے جو قارون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حاصل کیا تھا اور اس کے ذریعے سے وہ (ایک نرم دھات) رانگ کو چاندی اور تانبے کو سونا بنالیتا تھا ۔ایک قول یہ ہے کہ اس سے تجارت ، زراعت اور پیشوں کا علم مراد ہے۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۷۸، ۶ / ۴۳۱-۴۳۲، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۷۸، ۳ / ۴۴۱، ملتقطاً)
خود پسندی کی حقیقت اور اس کی مذمت:
قارون کے ان جملوں میں خود پسندی کا عُنْصر بالکل واضح ہے۔خود پسندی کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اس بات کا اظہار کرے کہ اسے نیک عمل کی توفیق یا نعمت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز مثلاً نفس یا مخلوق سے حاصل ہوئی ہے۔خود پسندی کی ضد احسان ہے اور احسان کا مطلب یہ ہے کہ بندہ ا س بات کا اظہار کرے کہ اسے نیک عمل کی توفیق یا نعمت اللہ تعالیٰ کی توفیق اور تائید سے حاصل ہوئی ہے۔( منہاج العابدین، العقبۃ السادسۃ، القادح الثانی: العجب، ص۱۷۹)
یاد رہے کہ خود پسندی ایک ایسی باطنی بیماری ہے جس کی وجہ سے بندہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور تائید سے محروم ہو جاتا ہے اور جب بندہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور تائید سے محروم ہو جائے تو بہت جلد ہلاک و برباد ہو جاتا ہے ۔اس کی مذمت کے حوالے سے یہاں 4اَحادیث اور بزرگانِ دین کے2 اَقوال ملاحظہ ہوں ۔
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تین چیزیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں ۔(1)بخل جس کی پیروی کی جائے۔(2)نفسانی خواہشات جن کی اتباع کی جائے۔ (3) آدمی کا اپنے آپ کو اچھا سمجھنا۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۷۱، الحدیث: ۷۴۵)
(2)… حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کوئی بندہ آسمان و زمین والوں کے عمل کے برابر نیکی اور تقویٰ لے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو اور اس میں یہ تین برائیاں ہوں (1)خود پسندی۔ (2)مومنوں کو ایذا دینا۔ (3) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا۔ تو ا س کے اعمال کا وزن ایک ذرے کے برابر بھی نہ ہو گا۔(مسند الفردوس، باب العین، ۳ / ۳۶۴، الحدیث: ۵۱۰۲)
(3)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خود پسندی اگر کسی مرد کی صورت میں ہوتی تو وہ انتہائی بدصورت مرد ہوتا۔(مسند الفردوس، باب العین، ۳ / ۳۴۰، الحدیث: ۵۰۲۶)
(4)…حضرت حسن بن علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ خود پسندی ستّر سال کے اعمال برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، حرف العین، العجب، ۲ / ۲۰۵، الحدیث: ۷۶۶۶، الجزء الثالث)
(5)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَاللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : ’’توفیق بہترین قائد ہے،حسنِ اخلاق بہترین دوست ہے، عقل بہترین ساتھی ہے،ادب بہترین میراث ہے اور خود پسندی سے زیادہ شدید کوئی وحشت نہیں ۔(شعب الایمان، الثالث والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضل العقل، ۴ / ۱۶۱، الحدیث: ۴۶۶۱)
(6)…حضرت یحیٰ بن معاذ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’تم خود پسندی سے بچو کیونکہ یہ خود پسندی کرنے والے کو ہلاک کر دیتی ہے اور بے شک خود پسندی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتی جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔(شعب الایمان، السابع والاربعون من شعب الایمان۔۔۔الخ،فصل فی الطبع علی القلب،۵ / ۴۵۲،روایت نمبر: ۷۲۴۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس ہلاکت خیز باطنی مرض سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔خود پسندی کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے امام غزالی کی مشہور تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ کی تیسری جلد اور’’ منہاج العابدین‘‘ سے ’’عجب کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔ ([1])
{اَوَ لَمْ یَعْلَمْ: اور کیا اسے نہیں معلوم۔} قارون کا خیال تھا کہ چونکہ میرے پاس علم، زر، زور ،جتھا، جماعت بہت کافی ہے اس لئے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور نہ مجھ پر عذابِ الٰہی آسکتا ہے ۔ اس کے اس خیال کی تردید اس آیت میں فرمائی گئی،کہ تجھ سے پہلے کے کفار تجھ سے زیادہ طاقتور،مالدار، ہنر مند اورجتھے والے تھے۔ مگر نبی کی مخالفت کی وجہ سے جو عذاب آیا تو اسے کوئی دورنہ کرسکا تو تو کیوں اپنی قوت اور مال کی کثرت پر غرور کرتا ہے؟ کیا تو جانتا نہیں کہ اس کاانجام ہلاکت ہے؟
{وَ لَا یُسْــٴَـلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ: اور مجرموں سے ان کے گناہوں کی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ مجرموں کو سزا دیتا ہے تو اسے ان کے گناہ دریافت کرنے کی حاجت نہیں کیونکہ وہ ان کا حال جانتا ہے۔ لہٰذا دوسرے وقت میں ان سے جو پوچھاجائے گا وہ معلومات کیلئے نہیں بلکہ ڈانٹ ڈپٹ کے لئے ہوگا۔(تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۷۸، ۹ / ۱۶، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۷۸، ۶ / ۴۳۳، ملتقطاً)
[1] ۔۔۔ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ سے بھی یہ دونوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں، وہاں سے بھی خرید کر مطالعہ کر سکتے ہیں۔
{فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ: تو وہ اپنی زینت میں اپنی قوم کے سامنے نکلا۔} منقول ہے کہ ایک مرتبہ ہفتے کے دن قارون بہت جاہ وجلال سے اس طرح نکلا کہ خود سونے کی زین ڈالے ہوئے سفید رنگ کے خچر پر ارغوانی جوڑا پہنے سوار تھا اور اس کے ساتھ ہزاروں لونڈی غلام زیوروں سے آراستہ ، ریشمی لباس پہنے اور سجے ہوئے گھوڑوں پر سوار تھے۔ جب لوگوں نے اس کی اس زینت کو دیکھا تو ان میں سے جو دنیا میں رغبت رکھتے اور دُنْیَوی زندگی کے طلبگار تھے، وہ کہنے لگے: اے کاش ہمیں بھی ایسی شان و شوکت اورمال و دولت مل جاتی جیسی قارون کو دنیا میں ملی ہے۔ بیشک یہ بڑے نصیب والا ہے۔
مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں دنیا میں رغبت رکھنے والوں سے بنی اسرائیل کے مسلمان مراد ہیں ۔ ان کی یہ تمنا بشری تقاضے سے تھی اور یہ کفر یا گناہِ کبیرہ نہیں ۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۷۹، ۶ / ۴۳۳، تفسیر کبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۷۹، ۹ / ۱۲، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۳۳۴، ملتقطاً)
رشک اور حسد کا شرعی حکم:
خیال رہے کہ دُنْیَوی نعمتوں میں غِبْطہ کرنا یعنی کسی کی دولت وغیرہ پر ا س کے زوال کی خواہش کے بغیر رشک کرنا اور اس میں برابری کی تمنا کرنا بھی اس صورت میں منع ہے جب کہ دنیا یا مال کی محبت کے طور پر ہو ،اگر ایسا نہیں تو یہ تمنا جائز ہے، البتہ حسد یعنی یہ تمنا کرنا کہ دوسرے سے نعمت زائل ہوکر اسے مل جائے ،یہ مُطْلَقاً حرام ہے۔
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ: اور جنہیں علم دیا گیا تھا انہوں نے کہا۔} یعنی بنی اسرائیل کے علماء جو کہ آخرت کے اَحوال کا علم رکھتے اور دنیا سے بے رغبت تھے، انہوں نے تمنا کرنے والوں سے کہا:اے دنیا کے طلبگارو! تمہاری خرابی ہو، جو آدمی ایمان لائے اور اچھے کام کرے ا س کے لئے آخرت میں اللہ تعالیٰ کا ثواب اس دولت سے بہتر ہے جو دنیا میں قارون کو ملی اور یہ انہیں کو ملتا ہے جو صبر کرنے والے ہیں ۔ یعنی نیک عمل کرناصبرکرنے والوں ہی کا حصہ ہے اور اس کا ثواب وہی پاتے ہیں ۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۴۴۱، روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۸۰، ۶ / ۴۳۴، ملتقطاً)
غافلوں اور علم والوں کا حال:
معلوم ہوا کہ دنیا داروں کی دنیا کو لالچ کی نظر سے دیکھنا اور انہیں ملنے والی دنیا کی تمنا کرناغافل لوگوں کا کام ہے جبکہ اہلِ علم حضرات دنیا سے بے رغبت رہتے ، آخرت میں ملنے والے ثواب پر نظر رکھتے اور یہ ثواب پانے کی امید رکھتے ہوئے نیک اعمال کرتے اور گناہوں سے باز رہتے ہیں اور ا س کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی دنیا کے عیش وعشرت کے حصول کی تمنا کرنے کی بجائے اُخروی ثواب پانے کے لئے کوششیں کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں ۔ لہٰذا عوام کو چاہئے کہ ایسی غفلت کا شکار ہونے سے بچیں اور اہلِ علم حضرات کو چاہئے کہ خود بھی زہد و تقویٰ کے پیکر بنیں اور عوام کو بھی اپنی اصلاح کی طرف راغب کرنے کی کوششیں کریں ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan