READ

Surah Al-Qasas

اَلْقَصَص
88 Ayaat    مکیۃ


28:81
فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ- فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِۗ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ(۸۱)
تو ہم نے اسے (ف۲۰۶) اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسایا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی کہ اللہ سے بچانے میں اس کی مدد کرتی (ف۲۰۷) اور نہ وہ بدلہ لے سکا (ف۲۰۸)

{فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ: تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں  دھنسادیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے قارون اور اس کے گھر کو زمین میں  دھنسادیا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں  اس سے عذاب دور کر کے اس کی مدد کرتی اور نہ ہی وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بدلہ لے سکا۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۸۸۱)

قارون اور اس کے خزانوں  کو زمین میں  دھنسائے جانے کا واقعہ:

          قارون اور اس کے گھر کو زمین میں  دھنسانے کا واقعہ سیرت و واقعات بیان کرنے والے علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے جانے کے بعد قربانیوں  کا انتظام حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سپرد کر دیا۔ بنی اسرائیل اپنی قربانیاں  حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس لاتے اور وہ ان قربانیوں  کو مَذبَح میں  رکھتے جہاں  آسمان سے آگ اتر کر ان کو کھالیتی۔قارون کو حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس منصب پر حسد ہوا اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: رسالت تو آپ کی ہوئی اور قربانی کی سرداری حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، میں  کچھ بھی نہ رہا حالانکہ میں  توریت کا بہترین قاری ہوں  ،میں  اس پر صبر نہیں  کرسکتا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’یہ منصب حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو میں  نے خود سے نہیں  دیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دیا ہے۔ قارون نے کہا: خدا کی قسم !میں  آپ کی تصدیق نہ کروں  گا جب تک آپ مجھے اس بات کا ثبوت نہ دکھا دیں ۔اس کی بات سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کے سرداروں  کو جمع کیا اور ان سے فرمایا: ’’اپنی لاٹھیاں  لے آؤ۔وہ لاٹھیاں  لے آئے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن سب کو اپنے خیمے میں  جمع کیا اور رات بھر بنی اسرائیل ان لاٹھیوں  کا پہرہ دیتے رہے۔ صبح کو حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عصا سرسبز و شاداب ہوگیا اور اس میں  پتے نکل آئے ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اے قارون! تو نے یہ دیکھا ؟قارون نے کہا: یہ آپ کے جادو سے کچھ عجیب نہیں  ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے ساتھ اچھی طرح پیش آتے رہے لیکن وہ آپ کو ہر وقت ایذا دیتا تھا اور اس کی سرکشی و تکبر اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ عداوت دم بدم ترقی پر تھی۔ ایک مرتبہ اس قارون نے ایک مکان بنایا جس کا دروازہ سونے کا تھا اور اس کی دیواروں  پر سونے کے تختے نصب کئے ،بنی اسرائیل صبح و شام اس کے پاس آتے، کھانے کھاتے، باتیں  بناتے اور اُسے ہنسایا کرتے تھے۔

            جب زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا تو قارون حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا تو اُس نے آپ سے طے کیا کہ درہم و دینار اورمویشی وغیرہ میں  سے ہزارواں  حصہ زکوٰۃ دے گا، لیکن جب گھر جا کراس نے حساب کیا تو اس کے مال میں  سے اتنا بھی بہت کثیر ہوتا تھا ،یہ دیکھ کراس کے نفس نے اتنی بھی ہمت نہ کی اور اس نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو جمع کرکے کہا : تم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہر بات میں  اطاعت کی ،اب وہ تمہارے مال لینا چاہتے ہیں  تو تم اس بارے میں  کیا کہتے ہو؟ اُنہوں  نے کہا: آپ ہمارے بڑے ہیں  ،جو آپ چاہیں  حکم دیجئے۔ قارون نے کہا: فلانی بدچلن عورت کے پاس جاؤ اور اس سے ایک معاوضہ مقرر کرو کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر تہمت لگائے،ایسا ہوا تو بنی اسرائیل حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چھوڑ دیں  گے۔ چنانچہ قارون نے اس عورت کو ہزار دینار ،ایک ہزار درہم اور بہت سے وعدے کرکے یہ تہمت لگانے پر تیار کرلیا اور دوسرے دن بنی اسرائیل کو جمع کرکے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا اور کہنے لگا: بنی اسرائیل آپ کا انتظار کررہے ہیں  کہ آپ انہیں  وعظ و نصیحت فرمائیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے اور بنی اسرائیل میں  کھڑے ہو کر آپ نے فرمایا: ’’اے بنی اسرائیل !جو چوری کرے گا اس کے ہاتھ کاٹے جائیں  گے، جو بہتان لگائے گا اسے 80 کوڑے لگائے جائیں  گے اور جو زنا کرے گا اوراس کی بیوی نہیں  ہے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں  گے اور اگر بیوی ہے تو اس کو سنگسار کیا جائے گا یہاں  تک کہ مرجائے ۔یہ سن کرقارون کہنے لگا : یہ حکم سب کے لئے ہے خواہ آپ ہی ہوں  ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’خواہ میں  ہی کیوں  نہ ہوں ۔ قارون نے کہا: بنی اسرائیل کا خیال ہے کہ آپ نے فلاں  بدکار عورت کے ساتھ بدکاری کی ہے ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: ’’اسے بلاؤ۔ وہ آئی تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اس کی قسم جس نے بنی اسرائیل کے لئے دریا پھاڑ ا اور اس میں  راستے بنائے اور توریت نازل کی، تو جو بات سچ ہے وہ کہہ دے ۔وہ عورت ڈر گئی اور اللہ تعالیٰ کے رسول پر بہتان لگا کر اُنہیں  ایذاء دینے کی جرأت اُسے نہ ہوئی اور اُس نے اپنے دل میں  کہا کہ اس سے توبہ کرنا بہتر ہے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کیا کہ جو کچھ قارون کہلانا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ کی قسم یہ جھوٹ ہے اور اُس نے آپ پر تہمت لگانے کے عِوَض میں  میرے لئے کثیر مال مقرر کیا ہے۔

            حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور روتے ہوئے سجدہ میں  چلے گئے اور یہ عرض کرنے لگے :یا رب! عَزَّوَجَلَّ، اگر میں  تیرا رسول ہوں  تو میری وجہ سے قارون پر غضب فرما ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی فرمائی کہ میں  نے زمین کو آپ کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا ہے، آپ اسے جو چاہیں  حکم دیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل سے فرمایا: ’’اے بنی اسرائیل! اللہ تعالیٰ نے مجھے قارون کی طرف بھی اسی طرح رسول بناکربھیجا ہے جیسا فرعون کی طرف بھیجا تھا، لہٰذا جو قارون کا ساتھی ہو وہ اس کے ساتھ اس کی جگہ ٹھہرا رہے اور جو میرا ساتھی ہو وہ ا س سے جدا ہوجائے ۔یہ سن کر سب لوگ قارون سے جدا ہوگئے اور دو شخصوں  کے علاوہ کوئی قارون کے ساتھ نہ رہا ۔پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے زمین کو حکم دیا کہ انہیں  پکڑ لے، تو وہ لوگ گھٹنوں  تک دھنس گئے۔ پھر آپ نے یہی فرمایا تو وہ کمر تک دھنس گئے۔ آپ یہی فرماتے رہے حتّٰی کہ وہ لوگ گردنوں  تک دھنس گئے۔ اب وہ بہت منتیں  کرتے تھے اور قارونآپ کو اللہ تعالیٰ کی قسمیں  اور رشتہ داری کے واسطے دیتا تھا ،مگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س طرف توجہ نہ فرمائی یہاں  تک کہ وہ لوگ بالکل دھنس گئے اور زمین برابر ہوگئی۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ وہ لوگ قیامت تک دھنستے ہی چلے جائیں  گے۔ بنی اسرائیل نے قارون اور ا س کے ساتھیوں  کا حشر دیکھ کر کہا: حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قارون کے مکان ، اس کے خزانے اور اَموال حاصل کرنے کی وجہ سے اس کے لئے بددعا کی ہے۔ یہ سن کرآپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اس کا مکان ، اس کے خزانے اور اموال سب زمین میں  دھنس گئے۔(خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۴۴۲-۴۴۳، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۸۸۱، ملتقطاً)

 

28:82
وَ اَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَكَانَهٗ بِالْاَمْسِ یَقُوْلُوْنَ وَیْكَاَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ یَقْدِرُۚ-لَوْ لَاۤ اَنْ مَّنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَاؕ-وَیْكَاَنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۠(۸۲)
اور کل جس نے اس کے مرتبہ کی آرزو کی تھی صبح (ف۲۰۹) کہنے لگے عجب بات ہے اللہ رزق وسیع کرتا ہے اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہے اور تنگی فرماتا ہے (ف۲۱۰) اگر اللہ ہم پر احسان فرماتا تو ہمیں بھی دھنسادیتا، اے عجب، کافروں کا بھلا نہیں،

{وَ اَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَكَانَهٗ بِالْاَمْسِ: اور گزشتہ کل جو اس کے مقام و مرتبہ کی آرزو کرنے والے تھے۔} یعنی جو لوگ قارون کے مال ودولت دیکھ کراس کے خواہش مند تھے، جب انہوں  نے قارون کاعِبْرَتْناک انجام دیکھاتو وہ اپنی اس آروز پر نادم ہو کر کہنے لگے :عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  میں  سے جس کیلئے چاہتا ہے رزق وسیع کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ فرمادیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں  ایمان کی دولت عطا فرما کر ہم پراحسان نہ فرماتا تو ہم بھی قارون کی طرح زمین میں  دھنسادئیے جاتے ۔بڑی عجیب بات ہے کہ کافر کامیاب نہیں  ہوتے اور انہیں  اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات نہیں  ملتی۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۸۲، ۶ / ۴۳۶، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۴۴۳، ملتقطاً)

28:83
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًاؕ-وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ(۸۳)
یہ آخرت کا گھر (ف۲۱۱) ہم ان کے لیے کرتے ہیں جو زمین میں تکبر نہیں چاہتے اور نہ فساد، اور عاقبت پرہیزگاروں ہی کی (ف۲۱۲) ہے،

{تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ: یہ آخرت کا گھر۔} ارشاد فرمایا کہ آخرت کا گھر جنت جس کی خبریں  تم نے سنیں  اور جس کے اوصاف تم تک پہنچے ،اس کا مستحق ہم ان لوگوں کو بناتے ہیں  جو زمین میں  نہ تو ایمان لانے سے تکبر کرتے ہیں  اورنہ ایمان لانے والوں  پر بڑائی چاہتے ہیں  اور نہ ہی گناہ کر کے فساد چاہتے ہیں  اور آخرت کااچھا انجام پرہیزگاروں  ہی کیلئے ہے۔( روح البیان ، القصص ، تحت الآیۃ : ۸۳ ، ۶ / ۴۳۸ ، قرطبی، القصص، تحت الآیۃ: ۸۳، ۷ / ۲۴۰، الجزء الثالث عشر، ملتقطاً)

تکبر کرنے اور فساد پھیلانے سے بچیں :

            اس آیت سے معلوم ہواکہ تکبر کرنا اور فساد پھیلانااتنے برے کام ہیں  کہ ان کی وجہ سے بندہ جنت جیسی عظیم نعمت سے محروم رہ سکتا ہے جبکہ عاجزی و اِنکساری کرنا اور معاشرے میں  امن و سکون کی فضا پیدا کرنا اتنے عظیم کام ہیں  کہ ان کی بدولت بندہ جنت جیسی انتہائی عظمت و شان والی نعمت پا سکتا ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے قول اور فعل سے کسی طرح تکبر کا اظہار نہ کرے ،یونہی معاشرے میں  گناہ اور ظلم و زیادتی کے ذریعے فساد پھیلانے کی کوشش نہ کرے۔ حضرت عیاض بن حمار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی فرمائی (میں  تم لوگوں  کو حکم دوں ) کہ اِنکسار ی کرو حتّٰی کہ تم میں  سے کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر ظلم کرے۔( مسلم ، کتاب الجنّۃ و صفۃ نعیمہا و اہلہا ، باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا اہل الجنّۃ ۔۔۔ الخ ، ص ۱۵۳۳ ، الحدیث: ۶۴(۲۸۶۵))

 

28:84
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَاۚ-وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزَى الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۸۴)
جو نیکی لائے اس کے لیے اس سے بہتر ہے (ف۲۱۳) اور جو بدی لائے بدکام والوں کو بدلہ نہ ملے گا مگر جتنا کیا تھا،

{مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا: جو نیکی لائے گااس کے لیے اس سے بہتربدلہ ہے۔} یعنی قیامت کے دن جو شخص ایمان اور نیک اعمال لے کر بارگاہِ الٰہی میں  حاضر ہو گا تو اس کے لئے اس نیکی سے بہتر بدلہ ہے کہ اسے ایک نیکی کا ثواب کم ازکم دس گنا ملے گا اور زیادہ کی کوئی حد نہیں  ،پھر یہ ملنے والا ثواب دائمی ہے ، کبھی فنا نہ ہو گا اور یہ ثواب اس کے خیال و گمان سے بالا تر ہو گا اور جو برے اعمال لے کرحاضر ہو گا تو براکام کرنے والوں  کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا جتنا وہ کرتےتھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے اسے اس کے گناہوں  کے مطابق ہی سز املے ،گی اس میں  اضافہ نہ ہو گا۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۸۴، ۶ / ۴۳۹)

28:85
اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍؕ-قُلْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ مَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى وَ مَنْ هُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۸۵)
بیشک جس نے تم پر قرآن فرض کیا (ف۲۱۴) وہ تمہیں پھیر لے جائے گا جہاں پھرنا چاہتے ہو (ف۲۱۵) تم فرماؤ، میرا رب خوب جانتا ہے اسے جو ہدایت لایا اور جو کھلی گمراہی میں ہے (ف۲۱۶)

{اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ: بیشک جس نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک جس نے آپ پر قرآنِ مجید کی تلاوت اور تبلیغ کرنا اور اس کے اَحکام پر عمل کرنا لازم کیا ہے وہ آپ کو لوٹنے کی جگہ مکہ مکرمہ میں  ضرور واپس لے جائے گا ۔مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فتح ِمکہ کے دن مکہ مکرمہ میں  بڑی شان و شوکت، عزت و وقار اور غلبہ و اِقتدار کے ساتھ داخل کرے گا، وہاں  کے رہنے والے سب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیرِ فرمان ہوں  گے، شرک اور اس کے حامی ذلیل و رسوا ہوں  گے ۔

شانِ نزول:یہ آیت ِکریمہ جُحْفَہ کے مقام پر اس وقت نازِل ہوئی جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے وہاں  پہنچے اور آپ کو اپنے اور اپنے آباء کی ولادت گاہ مکہ مکرمہ کا شوق ہوا تو حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام آئے اور انہوں  نے عرض کی: کیا حضور کو اپنے شہر مکہ مکرمہ کا شوق ہے ؟ارشاد فرمایا: ’’ہاں ۔ انہوں  نے عرض کی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’ اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جس نے آپ پر قرآن فرض کیاہے وہ آپ کو لوٹنے کی جگہ ضرور واپس لے جائے گا ۔

یاد رہے کہ اس آیت میں  مذکور لفظ ’’مَعَادٍ‘‘ کی ایک تفسیر اوپر بیان ہوئی کہ اس سے مراد مکہ مکرمہ ہے اور بعض مفسرین نے اس سے موت ، قیامت اور جنت بھی مراد لی ہے ۔(مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۸۵، ص۸۸۲، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۴۴۳-۴۴۴، ملتقطاً)

{قُلْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ: تم فرماؤ :میرا رب خوب جانتا ہے۔} شانِ نزول: آیتِ مبارکہ کا یہ حصہ ان کفارِ مکہ کے جواب میں  نازِل ہواجنہوں  نے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  مَعَاذَ اللہ یہ کہا: ’’اِنَّکَ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘ یعنی آپ ضرور کھلی گمراہی میں  ہیں ۔ان کے جواب میں  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں  کہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ اسے خوب جانتا ہے جو ہدایت لایا ہے اوراسے بھی خوب جانتا ہے جو کھلی گمراہی میں  ہے ۔یعنی میرا رب عَزَّوَجَلَّ جانتا ہے کہ میں  ہدایت لایا ہوں  اور میرے لئے اس کا اجر و ثواب ہے جبکہ مشرکین کھلی گمراہی میں  ہیں  اور وہ سخت عذاب کے مستحق ہیں ۔( خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۴۴۴، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۸۵، ص۸۸۳، ملتقطاً)

28:86
وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِیْرًا لِّلْكٰفِرِیْنَ٘(۸۶)
اور تم امید نہ رکھتے تھے کہ کتاب تم پر بھیجی جائے گی (ف۲۱۷) ہاں تمہارے رب نے رحمت فرمائی تو تم ہرگز کافروں کی پشتی (مدد) نہ کرنا (ف۲۱۸)

{وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ: اور تم امید نہ رکھتے تھے کہ تمہاری طرف کوئی کتاب بھیجی جائے گی۔}ممکن ہے کہ اس آیت کا ظاہری معنی مراد ہو،اس صورت میں  آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے علاوہ کسی اور سبب سے قرآن مجید ملنے کی امید نہ رکھتے تھے، اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے آپ کی طرف قرآن مجید نازل فرمایا ہے تو آپ پہلے کی طرح اب بھی کافروں  کے مددگار نہ ہونے پر قائم رہیں ۔

          یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں  بظاہر خطاب حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہو اور مراد آپ کی امت ہو، یعنی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو یہ توقّع نہ تھی کہ انہیں  یہ کتاب عطا کی جائے گی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے ان پر رحمت فرمائی اور ان کی طرف قرآن مجید جیسی عظیم الشّان کتاب بھیجی، تواے بندے!جب تمہیں  ایسی عظیم نعمت ملی ہے تو تم ہر گز کافروں  کے مددگار نہ ہونا بلکہ ان سے جدا رہنا اور ان کی مخالفت کرتے رہنا۔

حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وحی نازل ہونے سے پہلے اپنی نبوت کی خبر تھی:

            یاد رہے کہ اس آیت سے یہ ہر گز ثابت نہیں  ہوتا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وحی نازل ہونے سے پہلے اپنی نبوت سے خبردار نہیں  تھے کیونکہ یہاں  ظاہری اَسباب کے لحاظ سے وحی نازل ہونے کی امید کی نفی ہے اور کثیر دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ وحی نازل ہونے سے پہلے بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی نبوت کی خبر رکھتے تھے ،جیسے بحیرا راہب نے بچپن ہی میں  آپ کی نبوت کی خبر دے دی تھی،نسطورا راہب نے جوانی میں  آپ کی نبوت کی خبر دی اور حضرت جابر بن سمرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں  مکہ میں  ایک پتھر کو پہچانتا ہوں  جو میری بِعثَت (اعلانِ نبوت) سے پہلے مجھ پر سلام عرض کیا کرتا تھا اور میں  اب بھی اسے پہچانتا ہوں ۔( مسلم، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ص۱۲۴۹، الحدیث: ۲(۲۲۷۷))

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی؟ارشاد فرمایا: ’’جس وقت حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روح اور جسم کے درمیان تھے۔( ترمذی ، کتاب المناقب عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل النبیصلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ۵ / ۳۵۱ ، الحدیث: ۳۶۲۹)

            ان تمام اَحادیث میں  اس بات کی مضبوط دلیل ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وحی نازل ہونے سے پہلے اپنے نبی ہونے کا علم تھا،لہٰذا یہ نظرِیّہ ہر گز درست نہیں  کہ حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وحی نازل ہونے کے بعد اپنے نبی ہونے کا علم ہو اتھا۔

 

28:87
وَ لَا یَصُدُّنَّكَ عَنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَیْكَ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۚ(۸۷)
اور ہرگز وہ تمہیں اللہ کی آیتوں سے نہ روکیں بعد اس کے کہ وہ تمہاری طرف اتاری گئیں (ف۲۱۹) اور اپنے رب کی طرف بلاؤ (ف۲۲۰) اور ہرگز شرک والوں میں سے نہ ہونا (ف۲۲۱)

{وَ لَا یَصُدُّنَّكَ عَنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ: اور ہرگز وہ تمہیں اللہ کی آیتوں  سے نہ روکیں ۔} ارشاد فرمایاکہ جب اللہ تعالیٰ کی آیتیں  تمہاری طرف نازل ہو چکی ہیں  تو اس کے بعد ہر گزتم قرآن مجید کے معاملے میں  کفار کی گمراہ کُن باتوں  کی طرف توجہ نہ کرنا اور انہیں  ٹھکرا دینا اور تم مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت پر ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنے کی دعوت دو اور ہرگز شرک کرنے والوں  کی مدد اور موافقت کر کے ان میں  سے نہ ہونا۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ یہ خطاب ظاہر میں  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہے اوراس سے مراد مومنین ہیں ۔( جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۳۳۴، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۸۷، ۳ / ۴۴۴، ملتقطاً)

28:88
وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۘ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۫-كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ-لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۠(۸۸)
اور اللہ کے ساتھ دوسرے خدا کو نہ پوج اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہر چیز فانی ہے، سوا اس کی ذات کے، اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف پھر جاؤ گے،

{وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ: اور اللہ کے ساتھ دوسرے خدا کی عبادت نہ کر۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح آپ پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کر رہے تھے اسی طرح آئندہ بھی کرتے رہیں  اور اسی پر قائم رہیں  کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی عبادت کا مستحق نہیں  اور اس کے معبود ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس کی ذات کے سوا ہر چیز فانی بِالذّات ہے،دوسری دلیل یہ ہے کہ مخلوق کے درمیان اسی کا حکم نافذ ہے اور تیسری دلیل یہ ہے کہ آخرت میں  اسی کی طرف تمام لوگ پھیرے جائیں  گے اور وہی اعمال کی جزا دے گا۔یہاں  بھی یہ ممکن ہے کہ بظاہر خطاب رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہو اور سنایا امت کو جا رہاہو۔

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْقَصَص
اَلْقَصَص
  00:00



Download

اَلْقَصَص
اَلْقَصَص
  00:00



Download