READ

Surah Al-Kahf

اَلْـكَهْف
110 Ayaat    مکیۃ


18:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

18:1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ(۱)
سب خوبیاں اللہ کو جس نے اپنے بندے (ف۲) پر کتاب اتاری (ف۳) اور اس میں اصلاً (بالکل، ذرا بھی) کجی نہ رکھی، (ف۴)

{اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ: تمام تعریفیں  اللّٰہ کیلئے ہیں ۔} اس سورت کی ابتداء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی حمد ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت اور قرآنِ پاک کی شان سے کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ تمام تعریفیں  اس اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کیلئے ہیں  جس نے اپنے بندے محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کتاب یعنی قرآن نازل فرمایا جو اس کی بہترین نعمت اور بندوں  کے لئے نجات وفلاح کا سبب ہے اور اس قرآن میں  کوئی ٹیڑھ نہیں  رکھی یعنی نہ کوئی لفظی خرابی، نہ معنوی ،نہ اس کی آیتوں  میں  آپس میں  اختلاف ہے اور نہ تَضاد۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۹۷، ملخصاً)

آیت’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…اس آیت میں  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا بندہ فرمایا، اس سے معلوم ہو اکہ رسول کی شان اس میں  ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کا بندہ کہا جائے نہ کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کی اولاد کہنا شروع کر دیا جائے جیسے عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مَعَاذَاللّٰہ ،اللّٰہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے ہیں ۔

(2)…قرآنِ کریم کا نازل ہونا بہت بڑی نعمت ہے ، امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں  ’’قرآن مجید  کو نازل کرنا حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے لئے اور ہمارے لئے بھی اللّٰہ تعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے لئے نعمت تو ا س طور پر ہے کہ اس مُقَدّس کتاب کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تَوحید اور اللّٰہ تعالیٰ کی پاکی پر نیز اللّٰہ تعالیٰ کی صِفات ِجلال و اِکرام کے علوم کے اَسرار پر مطلع کیا، فرشتوں  اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے اَحوال، قضاء و قدر کے احوال کے اسرار، عالَمِ سِفلی کے اَحوال کا عالَمِ عُلوی کے احوال سے تعلق رکھنے کے اسرار، عالَمِ آخرت کے احوال کا عالَمِ دنیا کے احوال سے تعلق رکھنے کے اسرار، عالَمِ جسمانیات کے عالَمِ روحانیات سے مَربوط ہونے کی کیفیت وغیرہ کے اَسرار عطا فرمائے اور بے شک یہ چیزیں  عظیم ترین نعمتوں  میں  سے ہیں  ۔اور اس کتاب کا ہمارے حق میں  نعمت ہونا اس طور پر ہے کہ یہ کتاب پابندیوں  اور اَحکامات، وعدہ اور وعید، ثواب اور عذاب کے بیان پر مشتمل ہے، خلاصہ یہ ہے کہ یہ کتاب انتہائی اعلیٰ درجے کی کامل کتاب ہے تو اس سے ہر ایک اپنی طاقت اور فہم کے مطابق نفع حاصل کرے۔( تفسیرکبیر، الکھف، تحت الآیۃ: ۱، ۷ / ۴۲۲)

18:2
قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ وَ یُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَنًاۙ(۲)
عدل والی کتاب کہ (ف۵) اللہ کے سخت عذاب سے ڈرائے اور ایمان والوں کو جو نیک کام کریں بشارت دے کہ ان کے لیے اچھا ثواب ہے،

{قَیِّمًا:لوگوں  کی مصلحتوں  کو قائم رکھنے والی نہایت مُعْتَدَل کتاب۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید بندوں  کی دینی اور دُنْیوی مصلحتوں  کو قائم رکھنے والی انتہائی معتدل کتاب ہے اور اسے اس لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کتاب کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کافروں  کو سخت عذاب سے ڈرائیں  اور اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اچھے اعمال کرنے والے مومنوں  کو خوشخبری دیں  کہ ان کے لیے اچھا ثواب یعنی جنت اور اس کی نعمتیں  ہیں  جس میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے اور قرآن کریم کو ا س لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے یہودیوں  اور عیسائیوں  وغیرہ ان لوگوں  کو ڈرائیں  جو کہتے ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کوئی اولاد بنائی ہے۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۲-۴، ۵ / ۲۱۵، جلالین، الکہف، تحت الآیۃ: ۲-۴، ص۲۴۱، ملتقطاً)

18:3
مَّاكِثِیْنَ فِیْهِ اَبَدًاۙ(۳)
جس میں ہمیشہ رہیں گے،

18:4
وَّ یُنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًاۗ(۴)
اور ان (ف۶) کو ڈرائے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنا کوئی بچہ بنایا،

18:5
مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآىٕهِمْؕ-كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُ جُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْؕ-اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا(۵)
اس بارے میں نہ وہ کچھ علم رکھتے ہیں نہ ان کے باپ دادا (ف۷) کتنا بڑا بول ہے کہ ان کے منہ سے نکلتا ہے، نِرا جھوٹ کہہ رہے ہیں،

{مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآىٕهِمْ:اس بارے میں  نہ تووہ کچھ علم رکھتے ہیں  اور نہ ان کے باپ دادا۔} ارشاد فرمایا کہ ( اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا کوئی بچہ بنایا ہے) اس بارے میں  نہ تووہ کچھ علم رکھتے ہیں  اور نہ ان کے باپ دادا جن کی وہ اس عقیدے میں  پیروی کر رہے ہیں ، یعنی علم اس بات کا تقاضا ہی نہیں  کرتا کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنی کوئی اولادبنائے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے بچے کا ہونا فی نَفْسِہٖ محال ہے اور انہوں  نے یہ بات ان چیزوں  میں  غور و فکر کے بغیر مَحض جہالت کی وجہ سے کہی ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ہو سکتی ہیں  اور جو اللّٰہ تعالیٰ کے لئے محال ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے بچہ ہونا کتنا بڑا بول ہے جو ان کے منہ سے نکلتا ہے۔ وہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی شان میں  بالکل جھوٹ کہہ رہے ہیں  اوراس بات کے سچ ہونے کا امکان تک بھی نہیں  ہے۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۵، ۵ / ۲۱۵-۲۱۶)

18:6
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا(۶)
تو کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤ گے ان کے پیچھے اگر وہ اس بات پر (ف۸) ایمان نہ لائیں غم سے (ف۹)

{عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ: ان کے پیچھے۔} نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چونکہ کفار کے ایمان نہ لانے پر نہایت رنجیدہ رہتے تھے اور اس کیلئے بہت زیادہ کوشش کرتے تھے اِس پر  اِس آیت میں  نبی اکرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلب ِ مبارک کی تسلی فرمائی گئی ہے کہ آپ ان بے ایمانوں  کے ایمان سے محروم رہنے پر اس قدر رنج و غم نہ کیجئے اور اپنی جانِ پاک کو اس غم سے ہلاکت میں نہ ڈالئے کہ وہ قرآن پاک پر ایمان نہیں  لاتے۔( صاوی، الکہف، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۱۱۸۲، ملخصاً)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا جذبۂ تبلیغ:

            اس طرح کی آیات سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جذبۂ تبلیغ ، امت پر رحمت و شفقت کی اِنتہا اور رسالت کے حقوق کو انتہائی اعلیٰ طریقے سے ادا کرنے کا بھی پتہ چلتا ہیکہ وہ لوگ جن کاحضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ طرزِ عمل یہ تھا کہ وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو کاہِن، ساحِر، شاعر، مجنون کہتے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے شریر لڑکوں  کے غول لگا دیتے جو پھبتیاں  کستے، گالیاں  دیتے اور یہ دیوانہ ہے، یہ دیوانہ ہے، کا شور مچا کر پتھر پھینکتے،  راستوں  میں  کانٹے بچھاتے، جسم مبارک پر نجاست ڈالتے، دھکے دیتے، مقدس اور نازک گردن میں  چادر کا پھندہ ڈال کر گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے، نیز رحمتِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں  پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے، صحرائے عرب کی تیز دھوپ میں  تنور کی طرح گرم ریت کے ذروں  پر مسلمانوں  کو پیٹھ کے بل لٹا کر ان کے سینوں  پر بھاری پتھر رکھ دیتے، لوہے کو آگ میں  گرم کرکے ان سے مسلمانوں  کے جسموں  کو داغتے، ان کے ساتھ رحمۃٌ لِّلْعَالَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا طرزِ عمل کیا ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے اس قدر غمزدہ ہو رہے ہیں  جس سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جان چلی جانے کا خطرہ ہے۔

            سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی سیرتِ مبارکہ کے اس روشن باب کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی حالت پر غور کرے کہ کیا فی زمانہ مسلمانوں  کی بے راہ روی، اسلامی احکام پر عمل سے دوری، یہودیوں ، عیسائیوں  اور دیگر کافروں  کے طور طریقے اور رسم ورواج کی پیروی اور مسلمانوں  میں  پھیلی فحاشی و عُریانی دیکھ کر اس نے ان کی اصلاح کی کتنی کوشش کی اور ان کے یہ حالات دیکھ کر اسے کتنا دکھ، افسوس اور رنج وغم ہوا۔

18:7
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا(۷)
بیشک ہم نے زمین کا سنگھار کیا جو کچھ اس پر ہے (ف۱۰) کہ انہیں آزمائیں ان میں کس کے کام بہتر ہیں (ف۱۱)

{زِیْنَةً لَّهَا: زمین کیلئے زینت۔} آیت میں  فرمایا گیا کہ ہم نے زمین پر موجود چیزوں  کوزمین کیلئے زینت بنایاہے خواہ وہ حیوان ہوں  یا نباتات یا معدنیات یا نہریں  اور دریاوغیرہا اور ان چیزوں  کو پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم لوگوں  کو آزمائیں  کہ ان میں  عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے اور کون زہدوتقویٰ اختیار کرتا ہے اور مُحَرَّمات و ممنوعات سے بچتا ہے۔( جلالین، الکہف، تحت الآیۃ: ۷، ص۲۴۱)

{صَعِیْدًا جُرُزًا:خشک میدان۔} اِس آیت میں  دنیا کی ناپائیداری اور قابلِ فنا ہونے کو بیان فرمایا ہے کہ جو کچھ زمین پر ہے قیامت کے دن وہ سب کا سب خشک میدان کی طرح بنا دیا جائے گا جس پر کوئی رونق نہیں  ہوگی  اور زمین کو اس کے آباد ہونے کے بعد ویران کردیا جائے گا اور حیوانات، نباتات اور اس کے علاوہ جو بھی چیزیں  اس کیلئے باعث ِ زینت تھیں  ان میں  سے کچھ بھی باقی نہ رہے گالہٰذا ایسی فانی چیز سے کیا دل لگانا ۔

دنیا کی محبت کم کرنے کا عمدہ طریقہ:

            دنیا کی محبت دور کرنے کا سب سے عمدہ طریقہ یہی ہے کہ اس کی فنائیت میں  غور کیا جائے ، آدمی جتنا اس میں  غور کرتا جاتا ہے اتنی ہی دنیا کی محبت اس کے دل سے کم ہوتی جاتی ہے۔ دنیا کی محبت کم کرنے کیلئے امام غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام سے اسی آیت سے متعلقہ کچھ کلام پیش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : جو شخص دنیا میں  آتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی میزبان کے پاس کوئی مہمان ہو اور اس میزبان کی یہ عادت ہو کہ ہمیشہ مہمانوں  کے لیے مکان آراستہ رکھتا ہو ، لہٰذا اس نے مہمانوں  کو یکے بعد دیگرے بلا کر ان کے سامنے انتہائی خوبصورت برتنوں  میں  عمدہ ڈشیں  سجائیں  ، چاندی کی انگیٹھیوں  میں  عود اور اگر بتیاں  سلگائیں ، کمروں  میں  اعلیٰ قسم کا اسپرے کروایا تاکہ مہمانوں  کے دماغ معطر رہیں  اور خوب فرحت و سکون پائیں ۔ عقلمند مہمان ان جملہ لَوازمات سے خوب لطف اندوز ہوتا ہے اور رخصت کے وقت اپنے اعزاز و اکرام کی بناء پر میزبان کا شکریہ ادا کرتا ہے لیکن بیوقوف مہمان ا س بدگمانی کا شکار ہو جاتا ہے کہ میزبان نے یہ جتنا اہتمام کیا ہے اور یہ سبھی اَشیاء اسے دینے ہی کے لئے سجائی ہیں  تاکہ رخصت کے وقت انہیں  اپنے ساتھ لے جائے۔ وہ اسی میں  پڑا رہتا ہے کہ رخصت کے وقت ا س کے سامنے سے تمام چیزوں  کواٹھا لیا جاتا ہے۔ جب خالی ہاتھ پلٹتا ہے تو بڑا کبیدہ خاطر، رنجیدہ اور نادم ہوتا ہے بلکہ روتا ہے کہ ہائے میرے ساتھ کیا ہوا۔ یونہی یہ دنیا مہمان خانہ ہے، اس کے سامانِ آرائش و زیبائش کو دیکھ کر الجھ نہیں  جانا چاہئے، کہیں  ایسا نہ ہو کہ اس کے حرص ، طمع اور لالچ میں  گرفتار ہو جائیں  اور موت کا وقت سر پہ آن پہنچے، پھر سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔( کیمیائے سعادت، عنوان سوم: معرفت دنیا، فصل چہارم، ۱ / ۹۵)

دنیا کو تو کیا جانے یہ بِس کی گانٹھ ہے حرافہ

صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے

شہد دکھائے، زہر پلائے، قاتل، ڈائن، شوہر کُش

اس مردار پہ کیا للچانا دنیا دیکھی بھالی ہے

 

18:8
وَ اِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَیْهَا صَعِیْدًا جُرُزًاؕ(۸)
اور بیشک جو کچھ اس پر ہے ایک دن ہم اسے پٹ پر میدان (سفید زمین) کو چھوڑیں گے (ف۱۲)

18:9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِۙ-كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا(۹)
کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے (ف۱۳) ہماری ایک عجیب نشانی تھے،

{ اَمْ حَسِبْتَ: کیا تمہیں  معلوم ہوا۔} یہاں  سے اَصحاب ِ کہف کا واقعہ شروع ہوتا ہے اور اسے اللّٰہعَزَّوَجَلَّ نے اپنی عجیب و غریب نشانیوں  میں  سے ایک نشانی قرار دیا کیونکہ اس واقعے میں  بہت سی نصیحتیں  اور حکمتیں  ہیں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ رقیم اس وادی کا نام ہے جس میں  اصحابِ کہف ہیں ۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۱۹۸)

{اِذْ اَوَى الْفِتْیَةُ اِلَى الْكَهْفِ:جب ان نوجوانوں  نے غار میں  پناہ لی۔} ارشاد فرمایا کہ جب ان نوجوانوں  نے اپنی کافر قوم سے اپنا ایمان بچانے کے لئے ایک غار میں  پناہ لی اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں  دعا کی ،اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہمیں  اپنے پاس سے رحمت عطا فرما  اور ہدایت و نصرت اور رزق و مغفرت اور دشمنوں  سے امن عطا فرما اور ہمارے لئے ہمارے معاملے میں  ہدایت کے اَسباب مہیا فرما۔  اصحابِ کہف کے متعلق قوی ترین قو ل یہ ہے کہ وہ سات حضرات تھے اگرچہ ان کے ناموں  میں  کسی قدر اختلاف ہے لیکن حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی روایت پر جو خازن میں  ہے ان کے نام یہ ہیں ۔ (1) مکسلمینا ، (2)یملیخا، (3) مرطونس، (4) بینونس، (5) سارینونس، (6) ذونوانس، (7) کشفیط طنونس اور اُن کے کتے کا نام قطمیر ہے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۲۰۷)

اصحابِ کہف کے ناموں  کی برکت:

اصحاب ِ کہف کے نام بڑے بابرکت ہیں  اور اَکابر بزرگانِ دین نے ان کے فوائد وخواص بیان کئے ہیں ، چنانچہ فرماتے ہیں  کہ اگریہ اَسماء لکھ کر دروازے پر لگادیئے جائیں  تو مکان جلنے سے محفوظ رہتا ہے، سرمایہ پر رکھ دیئے جائیں  تو چوری نہیں  ہوتا، کشتی یا جہاز اُن کی برکت سے غرق نہیں  ہوتا ،بھاگا ہوا شخص ان کی برکت سے واپس آجاتا ہے، کہیں  آگ لگی ہو اور یہ اسماء کپڑے میں  لپیٹ کر ڈال دیئے جائیں  تو وہ بجھ جاتی ہے، بچے کے رونے، باری کے بخار، دردِ سر، اُمُّ الصّبیان (خاص قسم کے دماغی جھٹکے اور دورے،) خشکی و تری کے سفر میں ، جان و مال کی حفاظت، عقل کی تیزی اور قیدیوں کی آزادی کے لئے یہ اسماء لکھ کرتعویذ کی طرح بازو میں  باندھے جائیں۔( جمل، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۴۰۹)

 اصحابِ کہف کا واقعہ :

اکثر مفسرین کے نزدیک اصحابِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا واقعہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آسمان پر تشریف لے جانے کے بعد رونما ہوا اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ واقعہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے کا ہے اور ا س کا ذکر اہلِ کتاب کی مذہبی کتابوں  میں  موجود ہے اور اسی وجہ سے یہودیوں  نے بڑی توجہ کے ساتھ ان کے حالات محفوظ رکھے۔ بہر حال یہ واقعہ کس زمانے میں  رونما ہوا اس کی اصل حقیقت اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ، البتہ ہم یہاں  معتبر مفسرین کی طرف سے بیان کردہ اس واقعے کی بعض تفصیلات کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں  ، چنانچہ مفسرین کے بیان کے مطابق اصحابِ کہف اُفْسُوس نامی ایک شہر کے شُرفاء و معززین میں  سے ایماندار لوگ تھے۔ ان کے زمانے میں  دقیانوس نامی ایک بڑا جابر بادشاہ تھا جو لوگوں  کو بت پرستی پر مجبور کرتا اورجو شخص بھی بت پرستی پر راضی نہ ہوتا اسے قتل کر ڈالتا تھا۔ دقیانوس بادشاہ کے جَبر و ظلم سے اپنا ایمان بچانے کے لئے اصحابِ کہف بھاگے اور قریب کے پہاڑ میں  غار کے اندر پناہ گزین ہوئے، وہاں  سوگئے اور تین سوبرس سے زیادہ عرصہ تک اسی حال میں  رہے ۔ بادشاہ کو جستجو سے معلوم ہوا کہ وہ ایک غار کے اندر ہیں  تو اس نے حکم دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار کھینچ کر بند کردیا جائے تاکہ وہ اس میں  مر کر رہ جائیں  اور وہ ان کی قبر ہوجائے، یہی ان کی سزا ہے۔ حکومتی عملے میں  سے یہ کام جس کے سپرد کیا گیا وہ نیک آدمی تھا، اس نے ان اصحاب کے نام، تعداد اور پورا واقعہ رانگ کی تختی پرکَنْدَہ کرا کرتا نبے کے صندوق میں  دیوار کی بنیا د کے اندر محفوظ کردیا اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اسی طرح ایک تختی شاہی خزانہ میں  بھی محفوظ کرا دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد دقیانوس ہلاک ہوا ، زمانے گزرے ، سلطنتیں  بدلیں  یہاں  تک کہ ایک نیک بادشاہ فرمانروا ہوا جس کا نام بیدروس تھا اور اس نے 68 سال حکومت کی ۔ اس کے دورِ حکومت میں  ملک میں  فرقہ بندی پیدا ہوئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اٹھنے اور قیامت آنے کے منکر ہوگئے ۔ بادشاہ ایک تنہا مکان میں  بند ہوگیا اور اس نے گریہ وزاری سے بارگاہِ الٰہی میں  دعا کی کہ یارب! کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما جس سے مخلوق کو مُردوں  کے اٹھنے اور قیامت آنے کا یقین حاصل ہو جائے۔ اسی زمانہ میں  ایک شخص نے اپنی بکریوں  کے لئے آرام کی جگہ حاصل کرنے کے واسطے اسی غار کو تجویز کیا اور (کچھ لوگوں  کے ساتھ مل کر) دیوار کوگرا دیا۔ دیوار گرنے کے بعد کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ گرانے والے بھاگ گئے ۔ اصحابِ کہف اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے فرحاں  و شاداں  اُٹھے ، چہرے شگفتہ ،طبیعتیں  خوش ، زندگی کی ترو تازگی موجود۔ ایک نے دوسرے کو سلام کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہوگئے ، نماز سے فارغ ہو کر یملیخاسے کہا کہ آپ جائیے اور بازار سے کچھ کھانے کو بھی لائیے اور یہ بھی خبر لائیے کہ دقیانوس بادشاہ کا ہم لوگوں  کے بارے میں  کیا ارادہ ہے۔ وہ بازار گئے تو انہوں  نے شہر پناہ کے دروازے پر اسلامی علامت دیکھی اور وہاں  نئے نئے لوگ پائے، یہ دیکھ کر انہیں  تعجب ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ کل تک تو کوئی شخص اپنا ایمان ظاہر نہیں  کرسکتا تھا جبکہ آج اسلامی علامتیں  شہر پناہ پر ظاہر ہیں ۔ پھر کچھ دیر بعد آپ تندور والے کی دوکان پر گئے اور کھانا خریدنے کے لئے اسے دقیانوسی سکے کا روپیہ دیا جس کارواج صدیوں  سے ختم ہوگیا تھا اور اسے دیکھنے والا بھی کوئی باقی نہ رہا تھا۔ بازار والوں  نے خیال کیا کہ کوئی پرانا خزانہ ان کے ہاتھ آگیا ہے، چنانچہ وہ انہیں  پکڑ کر حاکم کے پاس لے گئے، وہ نیک شخص تھا ،اس نے بھی ان سے دریافت کیا کہ خزانہ کہاں  ہے؟ انہوں  نے کہا خزانہ کہیں  نہیں  ہے۔ یہ روپیہ ہمارا اپنا ہے۔ حاکم نے کہا :یہ بات کسی طرح قابلِ یقین نہیں ، کیونکہ اس میں  جو سال لکھا ہوا ہے وہ تین سو برس سے زیادہ کا ہے اور آپ نوجوان ہیں  ،ہم لوگ بوڑھے ہیں  ، ہم نے تو کبھی یہ سکہ دیکھا ہی نہیں  ۔ آپ نے فرمایا: میں  جو دریافت کروں  وہ ٹھیک ٹھیک بتاؤ تو عُقدہ حل ہوجائے گا۔ یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کس حال وخیال میں  ہے ؟ حاکم نے کہا، آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں ، سینکڑوں  برس پہلے ایک بے ایمان بادشاہ اس نام کا گزرا ہے۔ آپ نے فرمایا: کل ہی تو ہم اس کے خوف سے جان بچا کر بھاگے ہیں  اور میرے ساتھی قریب کے پہاڑ میں  ایک غار کے اندر پناہ گزین ہیں  ، چلو میں  تمہیں  ان سے ملادوں  ، حاکم اور شہر کے سردار اور ایک کثیر مخلوق ان کے ہمراہ غار کے کنارے پہنچ گئے۔ اصحابِ کہف یملیخا کے انتظار میں  تھے ، جب انہوں  نے کثیر لوگوں  کے آنے کی آواز سنی تو سمجھے کہ یملیخا پکڑے گئے اور دقیانوسی فوج ہماری جستجو میں  آرہی ہے۔ چنانچہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حمدمیں  مشغول ہوگئے۔ اتنے میں  شہر کے لوگ پہنچ گئے اور  یملیخا نے بقیہ حضرات کو تمام قصہ سنایا، ان حضرات نے سمجھ لیا کہ ہم اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے اتنا طویل زمانہ سوئے رہے اور اب اس لئے اٹھائے گئے ہیں  کہ لوگوں  کے لئے موت کے بعد زندہ کئے جانے کی دلیل اور نشانی بنیں ۔ جب حاکمِ شہر غار کے کنارے پہنچا تو اس نے تانبے کا صندوق دیکھا ، اس کو کھلوایا تو تختی برآمد ہوئی، اس تختی میں  اُن اصحاب کے اَسماء اور اُن کے کتے کا نام لکھا تھا ، یہ بھی لکھا تھا کہ یہ جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لئے دقیانوس کے ڈر سے اس غار میں  پناہ گزین ہوئی، دقیانوس نے خبر پا کر ایک دیوار سے انہیں  غار میں  بند کردینے کا حکم دیا ، ہم یہ حال اس لئے لکھتے ہیں  تاکہ جب کبھی یہ غار کھلے تو لوگ ان کے حال پر مطلع ہوجائیں  ۔ یہ تختی پڑھ کر سب کو تعجب ہوا اور لوگ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی حمد و ثناء بجالائے کہ اس نے ایسی نشانی ظاہر فرمادی جس سے موت کے بعد اٹھنے کا یقین حاصل ہوتا ہے۔ حاکمِ شہرنے اپنے بادشاہ بید روس کو واقعہ کی اطلاع دی ، چنانچہ بادشاہ بھی بقیہ معززین اور سرداروں  کو لے کر حاضر ہوا اور شکرِ الٰہی کا سجدہ بجا لایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کی ۔اصحاب ِکہف نے بادشاہ سے مُعانقہ کیا اور فرمایا ہم تمہیں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد کرتے ہیں ۔ والسلام علیک ورحمۃ اللّٰہ وبرکا تہ ،اللّٰہ تعالیٰ تیری اور تیرے ملک کی حفاظت فرمائے اور جن و اِنس کے شر سے بچائے ۔بادشاہ کھڑا ہی تھا کہ وہ حضرات اپنے خواب گاہوں  کی طرف واپس ہو کر مصروفِ خواب ہوئے اور اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  وفات دیدی، بادشاہ نے سال کے صندوق میں  ان کے اَجساد کو محفوظ کیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے رُعب سے ان کی حفاظت فرمائی کہ کسی کی مجال نہیں  کہ وہاں  پہنچ سکے ۔ بادشاہ نے سرِغار مسجد بنانے کا حکم دیا اور ایک خوشی کا دن معین کردیا کہ ہر سال لوگ عید کی طرح وہاں  آیا کریں ۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۱۹۸-۲۰۳، تفسیر ابن کثیر، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۵ / ۱۳۲-۱۳۳، خزائن العرفان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۵۴۹-۵۵۰، ملتقطا)

اس سے معلوم ہوا کہ صالحین میں  عرس کا معمول قدیم سے ہے۔

18:10
اِذْ اَوَى الْفِتْیَةُ اِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّ هَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا(۱۰)
جب ان نوجوانوں نے (ف۱۴) غار میں پناہ لی پھر بولے اے ہمارے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت دے (ف۱۵) اور ہمارے کام میں ہمارے لیے راہ یابی کے سامان کر،

18:11
فَضَرَبْنَا عَلٰۤى اٰذَانِهِمْ فِی الْكَهْفِ سِنِیْنَ عَدَدًاۙ(۱۱)
تو ہم نے اس غار میں ان کے کے کانوں پر گنتی کے کئی برس تھپکا (ف۱۶)

{سِنِیْنَ عَدَدًا: گنتی کے کئی سال۔} ارشاد فرمایا کہ جب وہ غار میں  لیٹے تو ہم نے اس غار میں  ان کے کانوں  پر گنتی کے کئی سال تک پردہ لگا رکھا یعنی انہیں  ایسی نیند سلادیا کہ کوئی آواز بیدار نہ کرسکے۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۶۴۲)

اولیاء کی کرامات برحق ہیں :

            اس آیت سے معلوم ہواکہ کراماتِ اَولیاء برحق ہیں ، اصحابِ کہف بنی اسرائیل کے اولیاء ہیں ۔ ان کا کھائے پئے بغیر اتنی مدت زندہ رہنا کرامت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کرامت ولی سے سوتے میں  بھی صادر ہو سکتی ہے اور اسی طرح بعد ِموت بھی۔ ان کے جسموں  کو مٹی کا نہ کھانا یہ بھی کرامتِ اولیاء میں  سے ہے۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ ضروری نہیں  کہ ولی اپنے اختیار سے کرامت ظاہر کرے اور اسے علم بھی ہو بلکہ بعض اوقات بغیر ولی کے اختیار کے اور بغیر اس کے علم کے بھی کرامت ظاہر ہوتی ہے جیسے اصحاب ِ کہف کے واقعہ میں  ہوا۔

{ ثُمَّ بَعَثْنٰهُمْ: پھر ہم نے انہیں  جگایا۔} ارشاد فرمایا کہ پھر ہم نے اصحاب ِ کہف کو (تین سونو سال کی) نیند کے بعد جگایا تاکہ دیکھیں  کہ ان کے سونے کی مدت کے بارے میں  اختلاف کرنے والے دو گروہوں  میں  سے کون ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ درست بتاتا ہے۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۲۲۰)

18:12
ثُمَّ بَعَثْنٰهُمْ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیْنِ اَحْصٰى لِمَا لَبِثُوْۤا اَمَدًا۠(۱۲)
پھر ہم نے انھیں جگایا کہ دیکھیں (ف۱۷) دو گروہوں میں کون ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ ٹھیک بتاتا ہے،

18:13
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّؕ-اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًىۗۖ(۱۳)
ہم ان کا ٹھیک ٹھیک حال تمہیں سنائیں، وہ کچھ جوان تھے کہ اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو ہدایت بڑھائی،

{اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا:جب وہ کھڑے ہوگئے تو کہنے لگے۔} انہوں  نے اپنی بات  دقیانوس بادشاہ کے سامنے کی جب اس نے انہیں  اپنے دربار میں  بلا کربتوں  کی عبادت نہ کرنے پر باز پُرس کی تھی۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۶۴۳، ملخصاً)

{وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ: اور جب تم ان لوگوں  سے جدا ہوجاؤ۔} یہاں  سے جو کلام ہے یہ ان حضرات کا آپس میں  تھا ۔ انہوں  نے ایک دوسرے سے کہا کہ اس کافر قوم میں  نہ رہو بلکہ ان سے جدا ہوجاؤ اورجا کر کہیں  کسی گوشہ میں  چھپ جاؤ، جہاں  ان کے فتنہ سے بچ کر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی عبادت کیا کریں ۔ ہم کو امید ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  گوشۂ عافیت ضرور دے گا۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۶۴۴، ملخصاً)

فتنوں  کے زمانے میں  ایمان کی حفاظت کاذریعہ:

            اس سے معلوم ہوا کہ فتنوں  کے زمانہ میں  خلقت سے علیحدگی اپنے ایمان کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ احادیث ِ مبارکہ میں  بھی یہی فرمایا گیا ہے چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ عنقریب مسلمان کا بہترین مال وہ بکریاں  ہوں  گی جنہیں  لے کر یہ پہاڑ کی چوٹیوں  اور برساتی مقامات پر چلا جائے گا کیونکہ وہ اپنے دین کو بچانے کی خاطر فتنوں  سے بھاگ رہا ہوگا۔( بخاری، کتاب الفتن، باب التعرّب فی الفتنۃ، ۴ / ۴۳۹، الحدیث: ۷۰۸۸)

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’عنقریب فتنے کھڑے ہوں  گے جن میں  بیٹھا ہو ا شخص کھڑے سے اچھا رہے گا اور کھڑا ہوا چلنے والے سے اچھا رہے گا۔ اور چلنے والا دوڑنے والے سے اچھا رہے گا۔ جو اس (فتنے) کی طرف جھانکے گا تو وہ اسے بھی اپنی لپیٹ میں  لے لے گا۔ ان دنوں  جس کو بچاؤ کی کوئی جگہ یا پناہ گاہ ملے تو ا سے اس میں  پناہ لے لینی چاہئے۔( بخاری، کتاب الفتن، باب تکون فتنۃ القاعد فیہا خیر من القائم، ۴ / ۴۳۶، الحدیث: ۷۰۸۲)

             حضرت ابوبکرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عنقریب فتنے ہوں  گے ، خبردار پھر فتنے ہوں  گے ، پھر وہ فتنے ہوں  گے کہ ان میں  بیٹھا ہوا چلتے ہوئے سے بہتر ہوگا اور چلتا ہوا دوڑتے ہوئے سے بہتر ہوگا۔ آگاہ رہو کہ جب وہ فتنے واقع ہوں  تو جس کے پاس اونٹ ہوں  وہ اونٹوں  سے مل جائے اور جس کے پاس بکریاں  ہوں  وہ اپنی بکریوں  میں  چلا جائے اور جس کی زمین ہو وہ اپنی زمین میں  پہنچ جائے۔ یہ سن کر ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس کے پاس اونٹ ، بکریاں  اور زمین نہ ہو تو وہ کیا کرے ۔ ارشاد فرمایا ’’ وہ اپنی تلوار کی طرف رخ کرے اور اس کی دھار کو پتھر سے کوٹ دے ،پھر اگر الگ ہونے کی طاقت رکھے تو الگ ہو جائے۔ (یعنی اپنی تلوار توڑ دے تاکہ باہمی جنگ و جدال میں  حصہ ہی نہ لے سکے۔)( مشکاۃ، کتاب الفتن، الفصل الاول، ۲ / ۲۷۹، الحدیث: ۵۳۸۵)

بارگاہِ الٰہی کے مقبول بندے تَقیہ نہیں  کرتے:

             اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقبولانِ بارگاہ ِ الٰہی تقیہ نہیں  کرتے جیسے اصحاب ِ کہف نے علاقہ چھوڑ دیا لیکن تقیہ نہ کیا۔

18:14
وَّ رَبَطْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاۡ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلٰهًا لَّقَدْ قُلْنَاۤ اِذًا شَطَطًا(۱۴)
اور ہم نے ان کی ڈھارس بندھائی جب (ف۱۸) کھڑے ہوکر بولے کہ ہمارا رب وہ ہے جو آسمان اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی معبود کو نہ پوجیں گے ایسا ہو تو ہم نے ضرور حد سے گزری ہوئی بات کہی،

18:15
هٰۤؤُلَآءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةًؕ-لَوْ لَا یَاْتُوْنَ عَلَیْهِمْ بِسُلْطٰنٍۭ بَیِّنٍؕ-فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًاؕ(۱۵)
یہ جو ہماری قوم ہے اس نے اللہ کے سوا خدا بنا رکھے ہیں، کیوں نہیں لاتے ان پر کوئی روشن سند، تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے (ف۱۹)

18:16
وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗۤا اِلَى الْكَهْفِ یَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یُهَیِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا(۱۶)
اور جب تم ان سے اور جو کچھ وہ اللہ سوا پوجتے ہیں سب سے الگ ہوجاؤ تو غار میں پناہ لو تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت پھیلادے گا اور تمہارے کام میں آسانی کے سامان بنادے گا،

18:17
وَ تَرَى الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ اِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ هُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِّنْهُؕ-ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِؕ-مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِۚ-وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا۠(۱۷)
اور اے محبوب! تم سورج کو دیکھو گے کہ جب نکلتا ہے تو ان کے غار سے داہنی طرف بچ جاتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو ان سے بائیں طرف کترا جاتا ہے (ف۲۰) حالانکہ وہ اس غار کے کھلے میدان میں میں ہیں (ف۲۱) یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے جسے اللہ راہ دے تو وہی راہ پر ہے، اور جسے گمراہ کرے تو ہرگز اس کا کوئی حمایتی راہ دکھانے والا نہ پاؤ گے،

{وَ تَرَى الشَّمْسَ: اور تم سورج کو دیکھو گے۔} آیت میں  فرمایا گیا کہ سورج اصحاب ِ کہف کے دائیں  اور بائیں  ہوکر گزرتا ہے یعنی ان پر تمام دن سایہ رہتا ہے اور طلوع سے غروب تک کسی وقت بھی دھوپ کی گرمی انہیں  نہیں  پہنچتی۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۶۴۴)

            مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ  ان کا غار جنوب رخ (میں ) واقع ہوا ہے کہ سورج نکلتے وقت بائیں  اور غروب کے وقت داہنے ہو جاتا ہے اور ان پر کسی وقت دھوپ نہیں  پہنچتی، یہ ہی تفسیر زیادہ قوی ہے۔( نور العرفان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۷۰)آیت میں  مزید فرمایا کہ حالانکہ وہ اس غار کے کھلے حصے میں  ہیں  گویا  ہر وقت انہیں  تازہ ہوائیں  پہنچتی رہتی ہیں  یعنی وہ کھلے میدان میں  ہونے کے باوجود دھوپ سے محفوظ ہیں ، یا تو ان کی یہ کرامت ہے یا کچھ رخ ہی ایسا ہے ۔

18:18
وَ تَحْسَبُهُمْ اَیْقَاظًا وَّ هُمْ رُقُوْدٌ ﳓ وَّ نُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ﳓ وَ كَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیْدِؕ-لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَیْهِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَّ لَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا(۱۸)
اور تم انھیں جاگتا سمجھو (ف۲۲) اور وہ سوتے ہیں اور ہم ان کی داہنی بائیں کروٹیں بدلتے ہیں (ف۲۳) اور ان کا کتا اپنی کلائیاں پھیلائے ہوئے ہے غار کی چوکھٹ پر (ف۲۴) اے سننے! والے اگر تو انہیں جھانک کر دیکھے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور ان سے ہیبت میں بھر جائے (ف۲۵)

{وَ تَحْسَبُهُمْ اَیْقَاظًا: اور تم انہیں  جاگتے ہوئے خیال کرو گے۔} اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم انہیں  دیکھو توتم انہیں  جاگتے ہوئے خیال کرو گے  کیونکہ ان کی آنکھیں  کھلی ہیں  حالانکہ وہ سو رہے ہیں  اور ہم سال میں  ایک مرتبہ دس محرم شریف کو ان کی دائیں  اور بائیں  کروٹ بدلتے رہتے ہیں  تاکہ ایک ہی طرح لیٹے رہنے سے ان کے بدن کو نقصان نہ پہنچے اور ان کا کتا غار کی چوکھٹ پراپنی کلائیاں  پھیلائے ہوئے ہے اور وہ بھی ان کے ساتھ کروٹ بدلتا ہے یعنی جب اصحاب ِکہف کروٹ بدلتے ہیں  تو وہ بھی کروٹ بدلتا ہے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۲۰۴-۲۰۵، ملخصاً)

کتے کے ضَرَر سے محفوظ رہنے کاوظیفہ:

              تفسیر ثعلبی میں  ہے کہ جو کوئی ان کلمات ’’وَ كَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیْدِ‘‘ کو لکھ کر اپنے ساتھ رکھے تو کتے کے ضرر سے امن میں  رہے گا۔( تفسیر ثعلبی، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶ / ۱۶۰)

اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں  سے محبت کی برکت:

             ابو فضل جوہری نے کہا ’’بے شک جس نے نیک لوگوں  سے محبت کی وہ ان کی برکتیں  پائے گا، ایک کتے نے نیک بندوں  سے محبت کی اور ان کی صحبت میں  رہا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اپنی پاک کتاب میں  فرمایا۔ ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ جب نیک بندوں  اور اولیاءِ کرام کی صحبت میں  رہنے کی برکت سے ایک کتا اتنا بلند مقام پا گیا حتّٰی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ا س کا ذکر قرآنِ پاک میں  فرما یا تو ا س مسلمان کے بارے میں  تیرا کیا گمان ہے جو اولیاء اور صالحین سے محبت کرنے والا اور ان کی صحبت سے فیضیاب ہونے والا ہے بلکہ اس آیت میں  ان مسلمانوں  کے لئے تسلی ہے جو کسی بلند مقام پر فائز نہیں ۔( قرطبی، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۵ / ۲۶۹، الجزء العاشر) یعنی ان کیلئے تسلی ہے کہ وہ اپنی اس محبت و عقیدت کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  سرخ رُو ہوں  گے۔

            حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ، ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  حاضر ہو کر عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیامت کب قائم ہو گی؟ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نماز ادا کی اور ا س کے بعد فرمایا ’’قیامت کے بارے میں  سوال کرنے والا کہاں  ہے؟ اس شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں  ہوں ۔ ارشاد فرمایا: تم نے ا س کی کیا تیاری کی ہے؟ عرض کی : میرے پاس بہت زیادہ نمازیں  اور روزے تو نہیں  ہیں  البتہ میں  اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کرتا ہوں ۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: مرد اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے اور اے شخص! تم ان کے ساتھ ہو گے جن سے محبت کرتے ہو۔‘‘ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں : میں  نے اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے زیادہ مسلمانو ں  کو خوش نہیں  دیکھا جتنا اس دن دیکھا تھا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء انّ المرء مع من احبّ، ۴ / ۱۷۲، الحدیث: ۲۳۹۲)

{لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَیْهِمْ:اے سننے والے ! اگر تو انہیں  جھانک کر دیکھ لے۔} آیت میں  مزید فرمایا کہ اے سننے والے ! اگر تو انہیں  جھانک کر دیکھ لے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے اور ان کی ہیبت سے بھر جائے۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے ایسی ہیبت سے ان کی حفاظت فرمائی ہے کہ ان تک کوئی جا نہیں  سکتا۔ بعض روایتوں  میں  ہے کہ حضرت امیر ِمعاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنگ ِروم کے وقت کہف کی طرف گزرے تو انہوں نے اصحابِ کہف کے غار میں  داخل ہونا چاہا، حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے انہیں  منع کیا اور یہ آیت پڑھی پھر ایک جماعت حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکے حکم سے داخل ہوئی تو اللّٰہ تعالیٰ نے ایک ایسی ہوا چلائی کہ سب جل گئے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۲۰۵)

 

18:19
وَ كَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ لِیَتَسَآءَلُوْا بَیْنَهُمْؕ-قَالَ قَآىٕلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْؕ-قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍؕ-قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْؕ-فَابْعَثُوْۤا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ فَلْیَنْظُرْ اَیُّهَاۤ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْیَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَ لْیَتَؔلَطَّفْ وَ لَا یُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا(۱۹)
اور یوں ہی ہم نے ان کو جگایا (ف۲۶) کہ آپس میں ایک دوسرے سے احوال پوچھیں (ف۲۷) ان میں ایک کہنے والا بولا (ف۲۸) تم یہاں کتنی دیر رہے، کچھ بولے کہ ایک دن رہے یا دن سے کم (ف۲۹) دوسرے بولے تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنا تم ٹھہرے (ف۳۰) تو اپنے میں ایک کو یہ چاندی لے کر (ف۳۱) شہر میں بھیجو پھر وہ غور کرے کہ وہاں کون سا کھانا زیادہ ستھرا ہے (ف۳۲) کہ تمہارے لیے اس میں سے کھانے کو لائے اور چاہیے کہ نرمی کرے اور ہرگز کسی کو تمہاری اطلاع نہ دے،

{وَ كَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ: اور یوں  ہی ہم نے انہیں  جگایا۔} یہاں  سے اب بقیہ واقعے کی تفصیل بیان کی گئی ہے، تفسیرات کی روشنی میں  آیت کا خلاصہ یوں  ہے کہ فرمایا ’’ جیسا ہم نے انہیں  سلایا ویسا ہی ایک مدت ِ دراز کے بعد ہم نے انہیں  جگایا تاکہ آپس میں  ایک دوسرے سے حالات پوچھیں  اور اللّٰہ تعالیٰ کی قدرتِ عظیمہ دیکھ کر ان کا یقین زیادہ ہو اور وہ اس کی نعمتوں  کا شکر ادا کریں ۔ چنانچہ جب وہ بیدار ہوئے تو ان میں  سے ایک کہنے والے یعنی مَکْسِلْمِینَا جو اُن میں  سب سے بڑے اور ان کے سردارتھے کہنے لگے: تم یہاں  کتنی دیر رہے ہو؟ چند افراد نے کہا: کہ ہم یہاں  ایک دن رہے ہیں  یا ایک دن سے کچھ کم وقت۔ کیونکہ وہ غار میں  طلوعِ آفتاب کے وقت داخل ہوئے تھے اور جب اُٹھے تو آفتاب قریب ِغروب تھا، اس سے انہوں  نے گمان کیا کہ یہ وہی دِن ہے۔ بقیہ لوگوں  نے کہا: تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنا تم ٹھہرے ہوکہ تھوڑا عرصہ ہوا ہے یا زیادہ ،تو اپنے میں  سے ایک کو یہ چاندی دے کرشہر کی طرف بھیجو تاکہ وہ جاکر دیکھے کہ وہاں  کون سا کھانا زیادہ عمدہ ہے جس میں  حرمت کا کوئی شبہ نہ ہو پھر وہی کھانا لے آئے اور جانے والے کو چاہیے کہ آنے جانے میں نرمی سے کام لے اور ہرگز کسی کو تمہاری اطلاع نہ دے۔ اصحاب ِ کہف اپنے ساتھ دقیانوسی سکے لے کر گئے تھے اورسوتے وقت انہیں  اپنے سرہانے رکھ لیا تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسافر کو خرچ ساتھ میں  رکھنا طریقۂ تَو کل کے خلاف نہیں  ہے۔ اسباب ساتھ رکھے اور بھروسہ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ پر رکھے۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۶۴۵، خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۲۰۵، ملتقطاً)

{اِنَّهُمْ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ:بے شک اگر انہوں  نے تمہیں  جان لیا ۔} اصحاب ِ کہف نے آپس میں  کہا کہ اگر انہوں  نے تمہیں  جان لیا تو تمہیں  پتھر ماریں  گے اور بری طرح قتل کریں  گے یا جبروستم سے تمہیں   اپنے دین میں  پھیر لیں  گے اور اگر ایسا ہوا تو پھر تم کبھی بھی فلاح نہ پاؤگے۔

 

18:20
اِنَّهُمْ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ یَرْجُمُوْكُمْ اَوْ یُعِیْدُوْكُمْ فِیْ مِلَّتِهِمْ وَ لَنْ تُفْلِحُوْۤا اِذًا اَبَدًا(۲۰)
بیشک اگر وہ تمہیں جان لیں گے تو تمہیں پتھراؤ کریں گے (ف۳۳) یا اپنے دین (ف۳۴) میں پھیر لیں گے اور ایسا ہوا تو تمہارا کبھی بھلا نہ ہوگا،

18:21
وَ كَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَیْهِمْ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ لَا رَیْبَ فِیْهَا ﱐ اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَهُمْ اَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَیْهِمْ بُنْیَانًاؕ-رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْؕ-قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰۤى اَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْهِمْ مَّسْجِدًا(۲۱)
اور اسی طرح ہم نے ان کی اطلاع کردی (ف۳۵) کہ لوگ جان لیں (ف۳۶) کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کچھ شبہ نہیں، جب وہ لوگ ان کے معاملہ میں باہم جھگڑنے لگے (ف۳۷) تو بولے ان کے غار پر کوئی عمارت بناؤ، ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے، وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے تھے (ف۳۸) قسم ہے کہ ہم تو ان پر مسجد بنائیں گے (ف۳۹)

{وَ كَذٰلِكَ: اور اسی طرح۔} ارشاد فرمایا کہ جیسے ہم نے اصحاب ِ کہف کو جگایا تھا اسی طرح ہم نے لوگوں کو دقیانوس کے مرنے اور مدت گزر جانے کے بعداصحاب ِ کہف کے بارے میں  مطلع کردیا تاکہ تمام لوگ اور بالخصوص بیدروس بادشاہ کی قوم کے منکرین ِقیامت جان لیں  کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت میں  کچھ شبہ نہیں  ۔ پھر اصحاب ِ کہف کی وفات کے بعد ان کے اردگرد عمارت بنانے میں  لوگ باہم جھگڑنے لگے تو کہنے لگے : ان کے غار پر کوئی عمارت بنادو۔ ان کا رب عَزَّوَجَلَّانہیں  خوب جانتا ہے جو لوگ اپنے اس کام میں  غالب رہے تھے  یعنی بیدروس بادشاہ اور اس کے ساتھی، انہوں  نے کہا: ہم ضرور ان کے قریب ایک مسجد بنائیں  گے جس میں  مسلمان نماز پڑھیں  اور ان کے قرب سے برکت حاصل کریں ۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۲۰۶، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۶۴۶، ملتقطاً)

بزرگوں  کے مزارات کے قریب مسجدیں  بنانا جائز ہے:

             اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں  کے مزارات کے قریب مسجدیں  بنانا اہلِ ایمان کا قدیم طریقہ ہے اور قرآنِ کریم میں  اس کا ذکر فرمانا اور اس کو منع نہ کرنا اس فعل کے درست ہونے کی قوی ترین دلیل ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بزرگوں  کے قرب میں  برکت حاصل ہوتی ہے اسی لئے اہلُ اللّٰہ کے مزارات پر لوگ حصولِ برکت کے لئے جایا کرتے ہیں  ۔قبروں  کی زیارت سنت اور مُوجِب ِثواب ہے۔

18:22
سَیَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْۚ-وَ یَقُوْلُوْنَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًۢا بِالْغَیْبِۚ-وَ یَقُوْلُوْنَ سَبْعَةٌ وَّ ثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْؕ-قُلْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَّا یَعْلَمُهُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ ﲕ فَلَا تُمَارِ فِیْهِمْ اِلَّا مِرَآءً ظَاهِرًا۪-وَّ لَا تَسْتَفْتِ فِیْهِمْ مِّنْهُمْ اَحَدًا۠(۲۲)
اب کہیں گے (ف۴۰) کہ وہ تین ہیں چوتھا ان کا کتا اور کچھ کہیں گے پانچ ہیں، چھٹا ان کا کتا بے دیکھے الاؤتکا (تیر تکا) بات (ف۴۱) اور کچھ کہیں گے سات ہیں (ف۴۲) اور آٹھواں ان کا کتا تم فرماؤ میرا رب ان کی گنتی خوب جانتا ہے (ف۴۳) انہیں نہیں جانتے مگر تھوڑے (ف۴۴) تو ان کے بارے میں (ف۴۵) بحث نہ کرو مگر اتنی ہی بحث جو ظاہر ہوچکی (ف۴۶)

{سَیَقُوْلُوْنَ: اب لوگ کہیں  گے۔} واقعہ کے آخر میں  ان کی تعداد کے متعلق لوگوں  کے اختلاف کا بیان فرمایا اور اس کا حل بھی ارشاد فرما دیا اور وہی حل ہر اس مسئلے کا ہے جو اہم نہ ہو اور جس کے جاننے سے کوئی خاص فائدہ نہ ہو۔ چنانچہ فرمایا کہ اب لوگ کہیں  گے یعنی عیسائی جیسا کہ ان میں  سے سیّدنامی آدمی نے کہا کہ وہ تین ہیں  جبکہ چوتھا ان کا کتا ہے اور عاقب نامی آدمی نے کہا کہ وہ پانچ ہیں  اور چھٹا ان کا کتا ہے۔ یہ سب بغیر دیکھے اندازے ہیں  یعنی یہ دونوں  اندازے غلط ہیں  وہ نہ تین ہیں  نہ پانچ ۔ اور کچھ کہیں  گے: وہ سات ہیں  اور آٹھواں  ان کا کتا ہے  اور یہ کہنے والے مسلمان ہیں  اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے قول کو ثابت رکھا کیونکہ انہوں  نے جو کچھ کہا وہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے علم حاصل کرکے کہا۔ تم فرماؤ! میرا رب ان کی تعداد خوب جانتا ہے کیونکہ تمام جہانوں  کی تمام تفصیلات اور گزشتہ و آئندہ کی کائنات کا علم اللّٰہعَزَّوَجَلَّ ہی کو ہے یا جس کو وہ عطا فرمائے۔ مزید فرمایا کہ  اصحاب ِ کہف کی تعداد کو بہت تھوڑے لوگ جانتے ہیں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ میں  انہیں  قلیل میں  سے ہوں  جن کا آیت میں  اِستثناء فرمایا۔ آیت کے آخر میں  مزید فرمایا کہ ان کے بارے میں  اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر اتنی ہی جتنی ظاہر ہوچکی ہے اور ان کے بارے میں  ان میں  سے کسی سے کچھ نہ پوچھو۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۲۰۶-۲۰۷، ملخصاً)

18:23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ(۲۳)
اور ان کے (ف ۴۷) بارے میں کسی کتابی سے کچھ نہ پوچھو، اور ہر گز کسی بات کو نہ کہنا میں کل یہ کردوں گا،

{اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ: مگر یہ کہ اللّٰہ چاہے۔} یہاں  دو آیتوں  میں  اسلامی تعلیمات کی ایک بنیادی چیز بیان فرمائی کہ مسلمان کو چاہیے کہ اپنے ارادے میں  اِنْ شَاءَ اللّٰہ ضرور کہا کرے ، چنانچہ فرمایا گیا کہ اور ہر گز کسی چیز کے متعلق نہ کہنا کہ میں  کل یہ کرنے والا ہوں  مگر ساتھ ہی یہ کہا کرو کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّچاہے تو میں  کرلوں  گا ، مراد یہ ہے کہ جب کسی کام کا ارادہ ہو تو یہ کہنا چاہیے کہ اِنْ شَاءَ اللّٰہ ایسا کروں  گا، بغیر اِنْ شَاءَ اللّٰہ کے نہ کہے ۔اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ اہلِ مکہ نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جب روح،اَصحاب ِکہف اور حضرت ذوالقر نین کے بارے میں  دریافت کیا تھا تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ کل بتاؤں  گا اور اِنْ شَاءَ اللّٰہنہیں  فرمایا تھا تو کئی روز وحی نہیں  آئی پھر یہ آیت نازل ہوئی۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۴، ۳ / ۲۰۷)

{وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ:اور جب تم بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرلو۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  :اس کا معنی یہ ہے کہ اگر اِنْ شَاءَ اللّٰہ کہنا یاد نہ رہے تو جب یاد آئے کہہ لو۔ یاد آنے کی مدت کے بارے میں  حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اگرچہ ایک سال بعد یاد آئے اور امام حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ہے کہ جب تک اس مجلس میں  رہے ، اِنْ شَاءَ اللّٰہکہہ لے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۲۰۷)

            اس آیت کے معنی سے متعلق تفسیروں  میں  کئی قول مذکور ہیں ، ان میں  سے ایک یہ بھی ہے کہ آیت کا معنٰی یہ ہے ’’اگرکسی نماز کو بھول گیا تو یاد آتے ہی ادا کرلے۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۶۴۸) نماز کے بارے میں  حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو نماز پڑھنا بھول جائے تو اسے چاہئے کہ جب یاد آئے (اس وقت) نماز پڑھ لے، اس کا یہی کفارہ ہے۔( بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب من نسی صلاۃ فلیصلّ اذا ذکرہا۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۱۷، الحدیث: ۵۹۷)

{وَ قُلْ عَسٰى:اور یوں  کہو کہ قریب ہے ۔} ارشاد فرمایا ’’ یوں  کہو کہ قریب ہے کہ میرا رب میری نبوت پر دلائل کیلئے اصحابِ کہف کے اس واقعے سے زیادہ قریب ہدایت کا کوئی راستہ دکھائے یعنی ایسے معجزات عطا فرمائے جو میری نبوت پر اس سے بھی زیادہ ظاہر دلالت کریں  جیسے کہ اَنبیاء ِسابقین کے اَحوال کا بیان اور غیوب کا علم اور قیامت تک پیش آنے والے واقعات کا بیان اور چاند کا دو ٹکڑے ہونا اور حیوانات کا حضور ِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کی گواہی دینا، وغیرہ۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۲۰۸، جمل، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۴۱۰-۴۱۱، ملتقطاً)

18:24
اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ٘-وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا(۲۴)
مگر یہ کہ اللہ چاہے (ف۴۸) اور اپنے رب کی یاد کر جب تو بھول جائے (ف۴۹) اور یوں کہو کہ قریب ہے میرا رب مجھے اس (ف۵۰) سے نزدیک تو راستی کی راہ دکھائے، (ف۵۱)

18:25
وَ لَبِثُوْا فِیْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِیْنَ وَ ازْدَادُوْا تِسْعًا(۲۵)
اور وہ اپنے غار میں تین سو برس ٹھہرے نو اوپر، ف۵۲)

{ قُلْ: تم فرماؤ۔} اصحاب ِ کہف کے قیام کی مدت بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ اگر لوگ اس مدت میں  جھگڑا کریں  تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہی کا فرمانا برحق ہے لہٰذا تم ان سے کہہ دو کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے کہ وہ لوگ کتنا ٹھہرے تھے، خواہ وہ ان کے غار میں  سونے والی مدت ہو یا تب سے لے کر اب تک کی مدت ہو، بہرحال اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ آسمانوں  اور زمین کے سب غیبوں کا علم اسی کوہے ،کوئی ظاہر اور کوئی باطن اس سے چھپا نہیں ۔ اِس حصے کا شانِ نزول یہ ہے کہ نجران کے نصرانیوں  نے کہا تھا کہ تین سو برس تک ٹھیک ہیں  اور نو کی زیادتی کیسی ہے، اس کا ہمیں  علم نہیں ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۲۰۸)

18:26
قُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْاۚ-لَهٗ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-اَبْصِرْ بِهٖ وَ اَسْمِعْؕ-مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِیٍّ٘-وَّ لَا یُشْرِكُ فِیْ حُكْمِهٖۤ اَحَدًا(۲۶)
تم فرماؤ اللہ خوب جانتا ہے وہ جتنا ٹھہرے (ف۵۳) اسی کے لیے ہیں آسمانوں اور زمینوں کے سب غیب، وہ کیا ہی دیکھتا اور کیا ہی سنتا ہے (ف۵۴) اس کے سوا ان کا (ف۵۵) کوئی والی نہیں، اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا،

18:27
وَ اتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَۚ- لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖۚ-وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا(۲۷)
اور تلاوت کرو جو تمہارے رب کی کتاب (ف۵۶) تمہیں وحی ہوئی اس کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں (ف۵۷) اور ہرگز تم اس کے سوا پناہ نہ پاؤ گے،

{وَ اتْلُ: اور تلاوت کر۔} جب اللّٰہ تعالیٰ نے اصحابِ کہف کے واقعے پر مشتمل آیات نازل فرما دیں  تو ا س آیت میں  اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا کہ آپ قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے رہیں  اور کفار کی ان باتوں  کی پروا نہ کریں  کہ آپ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آئیں  یا اسے تبدیل کر دیں ۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی باتوں  کو بدلنے پر کوئی قادر نہیں ۔(ابوسعود، الکہف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۳ / ۳۷۶-۳۷۷)

قرآنِ مجید کی تلاوت کرنی چاہئے اگرچہ سمجھ میں  نہ آئے:

            ا س آیتِ مبارکہ میں  تلاوت کا بیان اصحاب ِ کہف کے واقعے کے اختتام کے طور پر ہے لیکن قرآنِ پاک کے عمومی الفاظ کا اعتبار کرتے ہوئے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مُطْلَقاً بھی قرآنِ پاک کی تلاوت کرنی چاہیے، سمجھ میں  آئے یا نہ آئے۔

18:28
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ-تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا(۲۸)
اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں (ف۵۸) اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگانی کا سنگھار چاہو گے، اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا،

{اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ:جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں ۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ سردارانِ کفار کی ایک جماعت نے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ ہمیں  غُرباء اور شکستہ حالوں  کے ساتھ بیٹھتے شرم آتی ہے ۔ اگر آپ انہیں  اپنی صحبت سے جدا کردیں  تو ہم اسلام لے آئیں  اور ہمارے اسلام لانے سے خلقِ کثیر اسلام لے آئے گی ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۲۸، ۵ / ۲۳۸) اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرمایا گیا کہ اپنی جان کو ان لوگوں  کے ساتھ مانوس رکھ جو صبح و شام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو پکارتے ہیں  اس کی رضا چاہتے ہیں  یعنی جو اِخلاص کے ساتھ ہر وقت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طاعت میں  مشغول رہتے ہیں ۔

آیت’’وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

          اِس آیتِ مبارکہ سے بہت سے مسائل معلوم ہوئے ۔

(1)… نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تربیت خود ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّفرماتا ہے جیسے یہاں  ہوا کہ ایک معاملہ در پیش ہوا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خود تربیت فرمائی اور آپ کی کمال کی طرف رہنمائی فرمائی۔

(2)…یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھوں  کے ساتھ رہنا اچھا ہے اگرچہ وہ فُقراء ہوں  اور بروں  کے ساتھ رہنا برا ہے اگرچہ وہ مالدار ہوں ۔

(3)… یہ بھی معلوم ہوا کہ صبح و شام خصوصیت سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکرکرنا بہت افضل ہے۔ قرآنِ پاک میں  بطورِ خاص صبح و شام کے ذکر کو بکثرت بیان فرمایا ہے ،جیسے اِس آیت میں  بھی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی آیتوں  میں  ہے۔

(4)…یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو صالحین سے بطورِ خاص محبت ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اس کا حکم دیا گیا ہے۔

(5)… صالحین کی دو علامتیں  بھی اس آیت میں  بیان فرمائیں  اول یہ کہ وہ صبح و شام اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کا ذکر کرتے ہیں  اور دوسری یہ کہ ہر عمل سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور خوشنودی کے طلبگار ہوتے ہیں ۔

(6)…مزید اِس آیت میں  دنیا داروں  کی طرف نظر رکھنے اور ان کی پیروی سے ممانعت کے بارے میں  حکم ہے۔اس حکم میں  قیامت تک کے مسلمانوں  کو ہدایت ہے کہ غافلوں  ، متکبروں ، ریاکاروں ، مالداروں  کی نہ مانا کریں  اور ان کے مال ودولت پر نظریں  نہ جمائیں  بلکہ مخلص، صالح، غُرباء و مَساکین کے ساتھ تعلق رکھیں  اور ان ہی کی اطاعت کیا کریں  ۔ دنیا کی محبت میں  گرفتار مالداروں  کی بات ماننا دین کوبرباد کر دیتا ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں  جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ مال اور مالدار فی نَفْسِہٖ نہ برے ہیں  اور نہ اچھے بلکہ مال کا غلط استعمال اور ایسے مالدار برے ہیں  اور چونکہ مالدار عموماً نفس پرستی میں  پڑ جاتے ہیں  اسی لئے ان کی مذمت زیادہ بیان کی جاتی ہے ۔ اسی سے ملتا جلتا ایک حکم حدیث ِ مبارک میں  ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری امت میں  سے کچھ لوگ علمِ دین سیکھیں  گے ، قرآن پڑھیں  گے اور کہیں  گے کہ ہم امیروں  کے پاس ا س لئے جاتے ہیں  تاکہ ان سے دنیا حاصل کرلیں  اور اپنے دین کو ان سے جدا رکھتے ہیں  حالانکہ یہ نہیں  ہو سکتا جیسا کہ کانٹے والے درخت سے پھل توڑنے میں  کانٹے ہی ہاتھ آتے ہیں  اسی طرح وہ ان کے قرب میں  گناہوں  سے نہیں  بچ سکتے۔(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، ۱ / ۱۶۶، الحدیث: ۲۵۵)

             حضرت عبداللّٰہ بن مسعودرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ اگر علماء علم حاصل کرنے کے بعد اسے محفوظ رکھتے اور اسے اہل لوگوں  کے سامنے پیش کرتے تو اہلِ زمانہ کے سردار بن جاتے لیکن انہوں  نے اسے دنیا والوں  پر اپنی دنیا حاصل کرنے کے لئے خرچ کیا اس وجہ سے ذلیل ہو گئے ۔ میں  نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے سنا ہے ’’جس شخص کی ساری فکر آخرت کے متعلق ہے تو اللّٰہ تعالیٰ دنیا کے غموں  سے اس کی کفایت فرمائے گا اور جو شخص دنیاوی اُمور میں  پریشان ہوتا رہے گا اللّٰہ تعالیٰ کو اس کی پروا  نہیں  چاہے وہ کسی وادی میں  بھی گر کر مرے۔(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، ۱ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۵۷)

             حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو شخص علم صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نہیں  بلکہ دنیاوی مَقاصد کے لئے حاصل کرے تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو ہر گز نہیں  پائے گا۔(ابوداؤد، کتاب العلم، باب فی طلب العلم لغیر اللّٰہ، ۳ / ۴۵۱، الحدیث: ۳۶۶۴)

18:29
وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ- فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْۙ-اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًاۙ-اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَاؕ-وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ-بِئْسَ الشَّرَابُؕ-وَ سَآءَتْ مُرْتَفَقًا(۲۹)
اور فرما دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے (ف۵۹) تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے (ف۶۰) بیشک ہم نے ظالموں (ف۶۱) کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر (ف۶۲) پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد رسی ہوگی اس پانی سے کہ چرخ دے (کھولتے ہوئے) دھات کی طرح ہے کہ ان کے منہ بھون دے گا کیا ہی برا پینا ہے (ف۶۳) اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ،

{وَ قُلْ:اور فرمادو۔} یعنی تم فرمادو کہ حق تمہارے ربعَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اور حق و باطل ظاہر ہوچکا ہے لہٰذا میں  تو مسلمانوں  کو ان کی غربت کے باعث تمہاری دل جوئی کے لئے اپنی مجلس مبارک سے جدا نہیں  کروں  گا، جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے اور خود ہی اپنے انجام کو سوچ لے اور سمجھ لے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے ظالموں  یعنی کافروں  کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں  انہیں  گھیر لیں  گی اور اگروہ پیاس کی شدت سے پانی کے لیے فریاد کریں  تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری کی جائے گی جو پگھلائے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو اُن کے منہ کوبھون دے گا۔ کیا ہی برا پینا ہے اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی پناہ، حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: وہ روغن زیتون کی تلچھٹ کی طرح گاڑھا پانی ہے۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۲۰۹) اور ترمذی کی حدیث میں  ہے کہ جب وہ منہ کے قریب کیا جائے گا تو منہ کی کھال اس سے جل کر گر پڑے گی۔(ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النار، ۴ / ۲۶۲، الحدیث: ۲۵۹۲)اور بعض مفسرین کا قول ہے کہ وہ پگھلایا ہوا رانگ اور پیتل ہے۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۲۰۹)

گناہگار مسلمانوں  کے لئے نصیحت:

            اس آیتِ مبارکہ میں  ہر اس مسلمان کے لئے بھی بڑی نصیحت ہے جو ظلم اور گناہ کرنے میں  مصروف ہے، اسے اپنے گناہوں  پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے توبہ و استغفار کرنا اور نیک اعمال میں  مصروف ہوجانا چاہئے ورنہ یاد رکھے کہ مرنے کے بعد کا سفر انتہائی طویل ہے، جہنم کی گرمی بڑی شدید ہے، اہلِ جہنم کا پانی پگھلے ہوئے تانبے کی طرح اور جہنمیوں  کی پیپ ہے اور جہنم کی قید بہت سخت ہے۔ جہنم کے سب سے کم عذاب کے بارے میں  حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جہنم میں  سب سے کم عذاب جس شخص کو ہو گا اسے آگ کی دو جوتیاں  پہنائی جائیں  گی جن کی گرمی کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب اہون اہل النار عذاباً، ص۱۳۴،  الحدیث: ۳۶۱(۲۱۱))اور حضرت نعمان بن بشیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اہلِ جہنم میں  سب سے کم عذاب اس شخص کو ہو گا جسے آگ کی دو جوتیاں  تسموں  سمیت پہنائی جائیں  گی جس کی وجہ سے اس کا دماغ ایسے کھول رہا ہو گا جیسے پتیلی میں  پانی جوش سے کھولتا ہے، وہ سمجھ رہا ہو گا کہ سب سے زیادہ عذاب مجھے دیا گیا ہے حالانکہ اسے سب سے کم عذاب (دیا گیا) ہوگا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب اہون اہل النار عذاباً، ص۱۳۴،  الحدیث: ۳۶۴(۲۱۳)) جب سب سے کم عذاب والے کا یہ حال ہو گا تو اس شخص کا حال کیا ہو گا جسے اس سے زیادہ عذاب دیاجا رہا ہو گا۔

ایک بچے کی عبرت انگیز حکایت:

            یہاں  ایک بچے کی عبرت انگیز حکایت ملاحظہ ہو ، چنانچہ حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں  ایک بچے کے پاس سے گزرا، وہ مٹی کے ساتھ کھیل رہاتھا اور (اس دوران) کبھی وہ ہنسنا شروع کر دیتا اور کبھی رونے لگ جاتا تھا۔ میں  نے ارادہ کیا کہ اسے سلام کروں  تو میرے نفس نے مجھے منع کیا، میں  نے کہا: اے نفس! نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَبچوں  اور بڑوں  کو سلام کیا کرتے تھے ،پھر میں  نے اسے سلام کیا تو اس نے کہا ’’وعلیک السلام ورحمۃ اللّٰہ، اے مالک! میں  نے کہا: آپ نے مجھے کیسے پہچانا؟ اس نے کہا: عالَمِ مَلکوت میں  میری روح نے آپ کی روح سے ملاقات کی تھی تو اس نے مجھے پہچا ن کروا دی جو زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہیں  آئے گی۔ میں  نے کہا: نفس اور عقل میں  فرق کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: نفس وہ ہے جس نے آپ کو سلام کرنے سے منع کیا اور عقل وہ ہے جس نے آپ کو سلام کرنے پر ابھارا۔ میں  نے کہا: تم مٹی سے کیوں  کھیل رہے ہو؟ اس نے کہا: میں  مٹی سے اس لئے کھیل رہا ہوں  کہ ہم اسی سے پیدا ہوئے اور اسی کی طرف لوٹ کر جائیں  گے۔ میں  نے کہا :تم کبھی روتے اور کبھی ہنستے کیوں  ہو؟ اس نے کہا: جب مجھے اپنے رب کاعذاب یاد آتا ہے تو میں  رونا شروع کر دیتا ہوں  اور جب مجھے اس کی رحمت یاد آتی ہے تو میں  ہنسنے لگتا ہوں ۔ میں  نے کہا: اے میرے بچے! تمہارے نامہ اعمال میں  تو کوئی گناہ نہیں  جس کی وجہ سے تم رؤو، کیونکہ تم تو مُکَلَّف ہی نہیں  ہو۔ اس نے کہا: آپ ایسی بات نہ کریں  کیونکہ میں  نے اپنی والدہ کو دیکھا ہے کہ وہ بڑی لکڑیوں  کو چھوٹی لکڑیوں  کے ذریعے ہی جلاتی ہے۔(روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۵ / ۲۴۲)

18:30
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًاۚ(۳۰)
بیشک جو ایمان لائے اور نیک کام کیے ہم ان کے نیگ (اجر) ضائع نہیں کرتے جن کے کام اچھے ہوں، (ف۶۴)

{جَنّٰتُ عَدْنٍ: ہمیشگی کے باغات۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نیکوں  کا اجر ضائع نہیں  کرتے بلکہ اُ نہیں  اُن کی نیکیوں  کی جزا دیتے ہیں  اور ان کا اجر جَنّاتِ عدن یعنی ہمیشہ بسنے کے باغات ہیں  کہ نہ وہاں  سے نکالے جائیں اور نہ کسی کو موت آئے ۔ پھر مزید یہ کہ ہر جنتی کو سونے اور چاندی اور موتیوں  کے کنگن پہنائے جائیں  گے(جیسا کہ دیگر آیات میں  ہے)۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۰-۳۱، ۳ / ۲۱۰، روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۵ / ۲۴۳، ملتقطاً) صحیح حدیث میں  ہے کہ وضو کا پانی جہاں  جہاں  پہنچتا ہے وہ تمام اَعضاء جنتی زیورات سے آراستہ کئے جائیں  گے۔( مسلم، کتاب الطہارۃ، باب تبلغ الحلیۃ حیث یبلغ الوضوئ، ص۱۵۱، الحدیث: ۴۰(۲۵۰)) مزید فرمایا کہ وہ انتہائی خوبصورت قسم کے ریشمی لباس پہنے ہوں  گے کوئی باریک ہوگا اور کوئی موٹا ریشم اور وہ جنت میں  تختوں  پر تکئے لگائے ہوئے ہوں  گے اور شاہانہ شان و شکوہ کے ساتھ ہوں  گے۔

ریشمی لباس اور سونے چاندی کا زیور دنیا میں  صرف عورتوں  کے لئے حلال ہے:

            یاد رہے کہ ریشمی لباس اور سونے چاندی کے کنگن جنتی لباس ہیں  ، دنیا میں  عورتوں  کیلئے حلال اور مردوں  کیلئے حرام ہیں ۔ اس بارے میں  بکثرت اَحادیث ِ مبارکہ ہیں ،ان میں  سے 4اَحادیث درج ذیل ہیں ۔

(1)… حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’سونا اور ریشم میری اُمت کی عورتوں  کے لیے حلال ہے اور مَردوں  پر حرام۔( نسائی، کتاب الزینۃ، تحریم لبس الذہب، ص۸۳۶، الحدیث: ۵۲۷۵)

(2)… حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو دنیا میں  ریشم پہنے گا، وہ آخرت میں  نہیں  پہنے گا۔( بخاری، کتاب اللباس، باب لبس الحریر وافتراشہ للرّجال۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۹، الحدیث: ۵۸۳۲)

(3)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ریشم پہننے کی ممانعت فرمائی، مگر اتنا۔ اور رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو انگلیاں  بیچ والی اور کلمہ کی انگلیوں  کو ملا کر اشارہ کیا۔( بخاری، کتاب اللباس، باب لبس الحریر وافتراشہ للرّجال۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۸، الحدیث: ۵۸۲۸)

(4)…صحیح مسلم کی ایک روایت میں  ہے کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے خطبہ میں  فرمایا: رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ریشم کی ممانعت فرمائی ہے، مگردو یا تین یا چار اُنگلیوں  کے برابر۔( مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب تحریم اناء الذہب والفضّۃ علی الرّجال والنسائ۔۔۔ الخ، ص۱۱۴۹، الحدیث: ۱۵ (۲۰۶۹)) یعنی کسی کپڑے میں  اتنی چوڑی ریشم کی گوٹ لگائی جاسکتی ہے۔

 ریشم کے لباس سے متعلق چند مسائل:

            یہاں  ریشم کے لباس سے متعلق چند شرعی مسائل ملاحظہ ہوں :

(1)…ریشم کے کپڑے مرد کے لیے حرام ہیں ، بدن اور کپڑوں  کے درمیان کوئی دوسرا کپڑا حائل ہو یا نہ ہو، دونوں  صورتوں  میں  حرام ہیں  اور جنگ کے موقع پر بھی خالص ریشم کے کپڑے حرام ہیں ، ہاں  اگر تانا (یعنی لمبائی کے رخ) سوت ہو اور بانا (یعنی چوڑائی کے رخ) ریشم تو لڑائی کے موقع پر پہننا جائز ہے اور اگر تانا ریشم ہو اور بانا سوت ہو تو ہر شخص کے لیے ہر موقع پر جائز ہے۔ مجاہد اور غیر مجاہد دونوں  پہن سکتے ہیں ۔ لڑائی کے موقع پر ایسا کپڑا پہننا جس کا بانا ریشم ہو اس وقت جائز ہے جبکہ کپڑا موٹا ہو اور اگر باریک ہو تو ناجائز ہے کہ اس کا جو فائدہ تھا، اس صورت میں  حاصل نہ ہوگا۔( ہدایہ، کتاب الکراہیۃ، فصل فی اللبس، ۲ / ۳۶۵-۳۶۶، در مختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی اللبس، ۹ / ۵۸۰)

(2)…عورتوں  کو ریشم پہننا جائز ہے اگرچہ خالص ریشم ہو اور اس میں  سوت کی بالکل آمیزش نہ ہو۔( عالمگیری، کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع فی اللبس ما یکرہ من ذلک وما لا یکرہ، ۵ / ۳۳۱)

(3)…مَردوں  کے کپڑوں  میں  ریشم کی گوٹ چار انگل تک کی جائز ہے اس سے زیادہ ناجائز، یعنی اس کی چوڑائی چار انگل تک ہو، لمبائی کا شمار نہیں ۔ اسی طرح اگر کپڑے کا کنارہ ریشم سے بُنا ہو جیسا کہ بعض عمامے یا چادروں  یا تہبند کے کنارے اس طرح کے ہوتے ہیں ، اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر چار انگل تک کا کنارہ ہو تو جائز ہے، ورنہ ناجائز۔( در مختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی اللبس، ۹ / ۵۸۱)

(4)…ریشم کا لحاف اوڑھنا ناجائز ہے کہ یہ بھی پہننے میں  داخل ہے۔ ریشم کے پردے دروازوں  پر لٹکانا مکروہ ہے۔( عالمگیری، کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع فی اللبس ما یکرہ من ذلک وما لا یکرہ، ۵ / ۳۳۱)

          نوٹ:مزید مسائل کی معلومات کے لئے بہار شریعت حصہ 16 سے ’’لباس کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

 

18:31
اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ یَلْبَسُوْنَ ثِیَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّ اِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِـٕیْنَ فِیْهَا عَلَى الْاَرَآىٕكِؕ-نِعْمَ الثَّوَابُؕ-وَ حَسُنَتْ مُرْتَفَقًا۠(۳۱)
ان کے لیے بسنے کے باغ ہیں ان کے نیچے ندیاں بہیں وہ اس میں سونے کے کنگن بہنائے جایں گے (ف۶۵) اور سبز کپڑے کریب اور قناویز کے پہنیں گے وہاں تختوں پر تکیہ لگائے (ف۶۶) کیا ہی اچھا ثواب اور جنت کی کیا ہی اچھی آرام کی جگہ،

18:32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ(۳۲)
اور ان کے سامنے دو مردوں کا حال بیان کرو (ف۶۷) کہ ان میں ایک کو (ف۶۸) ہم نے انگوروں کے دو باغ دیے اور ان کو کھجوروں سے ڈھانپ لیا اور ان کے بیچ میں کھیتی رکھی (ف۶۹)

{وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ:اور ان کے سامنے دو مردوں  کا حال بیان کرو۔} اس پورے رکوع میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے دو آدمیوں  کا یعنی ایک مسلمان اور ایک کافر کا حال بیان کیا ہے اورہر کافرومومن دونوں  کو دعوتِ فکر دی ہے کہ اس واقعے میں  غور کرکے اپنا اپنا انجام سمجھیں  ۔ اب اصل بیان شروع ہوتا ہے چنانچہ فرمایا کہ ان دو مردوں  کا حال یہ ہے  ان میں  سے ایک آدمی یعنی کافر کیلئے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے انگوروں  کے دو باغ بنادیئے اور ان دونوں  باغوں کو کھجوروں  سے ڈھانپ دیا اور ان کے درمیان میں  کھیتی بھی بنادی  یعنی اُنہیں  نہایت بہترین ترتیب کے ساتھ مُرتَّب کیا۔ آس پاس سبز باغ ہواور بیچ میں  ہرا بھرا کھیت ہو تودیکھنے میں  بہت ہی خوشنما معلوم ہوتا ہے اور اس سے مالک اپنی تمام ضروریات پوری کرلیتا ہے، کھیت سے غذا اور باغ سے پھل حاصل ہوتے ہیں ۔

مُجتہد کا قیاس بر حق ہے:

            اس آیت میں  مسلمان اور کافر کو دو آدمیوں  کے احوال پر اپنی حالت کو قیاس کرنے کا فرمایا گیا اس سے معلوم ہوا کہ قیاسِ مجتہد برحق ہے۔

18:33
كِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ اٰتَتْ اُكُلَهَا وَ لَمْ تَظْلِمْ مِّنْهُ شَیْــٴًـاۙ-وَّ فَجَّرْنَا خِلٰلَهُمَا نَهَرًاۙ(۳۳)
دونوں باغ اپنے پھل لائے اور اس میں کچھ کمی نہ دی (ف۷۰) اور دونوں کے بیچ میں ہم نے نہر بہائی

{كِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ: دونوں  باغ ۔} ارشاد فرمایا کہ دونوں  باغوں  نے اپنے اپنے پھل دیدئیے اور اس میں  کچھ کمی نہ کی اور دونوں  کے بیچ اللّٰہ تعالیٰ نے ایک نہر جاری کردی۔ یعنی کھجور اور انگور، دونوں  باغوں  میں  ہی خوب بہار آئی، پھل خوب لگے جبکہ باغ کے بیچ میں  موجود نہر نے باغ کی خوبصورتی اور زینت میں  بھی اضافہ کردیا اور وہ باغ کے ترو تازہ رہنے کا باعث بھی ہوئی۔

{وَ كَانَ لَهٗ ثَمَرٌ:اور اس کے پاس پھل تھے۔} مزید فرمایا کہ اس باغ والے کافر آدمی کے پاس باغ کے علاوہ اور بھی بہت سا مال و اَسباب جیسے سونا، چاندی وغیرہ ہر قسم کا مال تھا تو وہ اپنے مسلمان ساتھی سے اتراتے ہوئے اور اپنے مال پر فخر کرتے ہوئے کہنے لگا اور وہ اس سے فخر و غرور کی باتیں  کرتا رہتا تھا۔ کہنے لگا کہ میں  تجھ سے زیادہ مالدار ہوں  اور افراد کے اعتبار سے زیادہ طاقتور ہوں  یعنی  میرا کنبہ قبیلہ بڑا ہے اور ملازم، خدمت گار ،نوکر چاکر بھی میرے پاس بہت ہیں ۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۲۱۱، ملخصاً)

اس سے معلوم ہوا کہ شیخی مارنا کفار کا کام ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت پر حمدِ الٰہی کرنا مومن کا کام ۔ اسی طرح مومن کو ذلیل جاننا کفار کا کام ہے۔
18:34
وَّ كَانَ لَهٗ ثَمَرٌۚ-فَقَالَ لِصَاحِبِهٖ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا(۳۴)
اور وہ (ف۷۱) پھل رکھتا تھا (ف۷۲) تو اپنے ساتھی (ف۷۳) سے بولا اور وہ اس سے رد و بدل کرتا تھا (ف۷۴) میں تجھ سے مال میں زیادہ ہوں اور آدمیوں کا زیادہ زور رکھتا ہوں (ف۷۵)

18:35
وَ دَخَلَ جَنَّتَهٗ وَ هُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖۚ-قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ هٰذِهٖۤ اَبَدًاۙ(۳۵)
اپنے باغ میں گیا (ف۷۶) اور اپنی جان پر ظلم کرتا ہوا (ف۷۷) بولا مجھے گمان نہیں کہ یہ کبھی فنا ہو،

{وَ دَخَلَ جَنَّتَهٗ:اور وہ اپنے باغ میں  گیا۔} یہاں  سے اس کافر کی غافلانہ باتوں  کی ابتداء ہوتی ہے چنانچہ وہ باغات کا مالک مسلمان کا ہاتھ پکڑ کر اس کو ساتھ لے کر باغ میں  گیا ، وہاں  اسے فخریہ طور پر ہر طرف لے کرپھرا اور مسلمان کو ہر ہر  چیز دکھائی اور پھر باغ کی زینت و زیبائش اور رونق و بہار دیکھ کر مغرور ہوگیا اور کہنے لگا: میں  گمان نہیں  کرتا کہ یہ باغ کبھی فنا ہوگا یعنی ساری عمر مجھے پھل دیتا رہے گا۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۲۱۱، ملخصاً)اس سی معلوم ہوا کہ وہ کافر بھی تھا، ناشکرا بھی اور متکبر بھی، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیاوی دولت غافل کے لئے زیادہ جرم کرنے کا باعث ہو جاتی ہے۔

18:36
وَّ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَآىٕمَةًۙ-وَّ لَىٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا(۳۶)
اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہو اور اگر میں (ف۷۸) اپنے رب کی طرف پھر گیا بھی تو ضرور اس باغ سے بہتر پلٹنے کی جگہ پاؤں گا (ف۷۹)

{وَ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَآىٕمَةً:اور میں  گمان نہیں  کرتا کہ قیامت قائم ہونے والی ہے۔} باغ کے کافر مالک نے کہا کہ مجھے تواس بات کا گمان بھی نہیں  ہے کہ قیامت قائم ہوگی جیسے تیرا گمان ہے بلکہ مجھے یقین ہے کہ قیامت نہ آئے گی اور اگر  بالفرض قیامت آبھی گئی تو مجھے آخرت میں  بھی اس دنیوی باغ سے بہتر باغ دیا جائے گا کیونکہ دنیا میں  بھی میں  نے بہترین جگہ پائی ہے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۲۱۱، ملخصاً)

آیت’’ وَ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَةَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں

(1)…برے اعمال کرکے جنت کی آس لگانی کافروں  کا شیوہ ہے، جَو کاشت کرکے گندم کاٹنے کی امید نہیں  رکھنی چاہیے۔

(2)… دنیا میں  مال ملنے کو اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی علامت سمجھنا کفار کا کام ہے۔

18:37
قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَكَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًاؕ(۳۷)
اس کے ساتھی (ف۸۰) نے اس سے اُلٹ پھیر کرتے ہوئے جواب دیا کیا تو اس کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے بنایا پھر نطفہ سے پھر تجھے ٹھیک مرد کیا (ف۸۱)

{قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ: اس کے ساتھی نے اسے کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب باتیں  سن کر اس کافر کے مسلمان ساتھی نے اس کی فخروغرور کی باتوں  کا جواب دیتے ہوئے کہا: کیا تو اس خداوند ِ قدوس عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے بنایا ،پھر نطفہ سے اور پھر تجھے بالکل صحیح مرد بنادیا یعنی اس نے تجھے عقل و بلوغ، قوت و طاقت عطا کی اور تو سب کچھ پاکر کافر ہوگیا۔ لہٰذا تو اس کو مان یا نہ مان لیکن میں  تو یہی کہتا ہوں  کہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہی میرا رب ہے او ر میں  کسی کو اپنے رب عَزَّوَجَلَّکا شریک نہیں  کرتا۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۷-۳۸، ۳ / ۲۱۱، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۷-۳۸، ص۶۵۲، ملتقطاً)

18:38
لٰكِنَّاۡ هُوَ اللّٰهُ رَبِّیْ وَ لَاۤ اُشْرِكُ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا(۳۸)
لیکن میں تو یہی کہتا ہوں کہ وہ اللہ ہی میرا رب ہے او ر میں کسی کو اپنے رب کا شریک نہیں کرتا ہوں،

18:39
وَ لَوْ لَاۤ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَآءَ اللّٰهُۙ-لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِۚ-اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّ وَلَدًاۚ(۳۹)
اور کیوں نہ ہوا کہ جب تو اپنے باغ میں گیا تو کہا ہوتا جو چاہے اللہ، ہمیں کچھ زور نہیں مگر اللہ کی مدد کا (ف۸۲) اگر تو مجھے اپنے سے مال و اولاد میں کم دیکھتا تھا (ف۸۳)

{قُلْتَ مَا شَآءَ اللّٰهُ:تو کہتا: جو اللّٰہ نے چاہا۔} مسلمان نے اس کافر کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ایسا کیوں  نہ ہوا کہ تو اس سارے باغ اور اَسباب پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت و نعمت کا معترف ہوتا اور اگر توباغ دیکھ کر مَاشَآءَ اللّٰہ کہتا اور اعتراف کرتا کہ یہ باغ اور اُس کے تمام مَحاصل و مَنافع اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت اور اس کے فضل وکرم سے ہیں  اور سب کچھ اس کےاختیار میں  ہے، چاہے اس کو آباد رکھے اور چاہے ویران کرے ،ایسا کہتا تو یہ تیرے حق میں  بہتر ہوتا ۔اگر تو مجھے اپنے مقابلے میں  مال اور اولاد میں  کم سمجھ رہا تھا اور اس وجہ سے تکبر میں  مبتلا تھا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا توتو نے ایسا کیوں  نہیں  کہا جو اوپر بیان ہوا۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۲۱۱، ملخصاً خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۲۱۱، ملخصاً)

مسلمان اور کافر کا فرق:

            یہاں  سے مسلمان اور کافر کا فرق واضح ہوا کہ کافر اپنے مال و دولت اور کامیابی کو اپنی کوششوں  کا نتیجہ سمجھتا ہے جبکہ مسلمان اپنی ہر کامیابی کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے فضل و کرم کی طرف منسوب کرتا ہے اور یہی تَوکّل ہے کہ اَسباب تواختیار کئے جائیں  لیکن نتیجہ اور ثَمرہ کی تَوقّع اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے کی جائے اور مُؤثّرِ حقیقی اسی کی ذات کو سمجھا جائے۔

آفات سے بچنے کا وظیفہ:

            حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو شخص کوئی پسندیدہ چیز دیکھ کر ’’ مَا شَآءَ اللّٰهُۙ-لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ‘‘ کہے تو اسے نگاہ، نقصان نہیں  پہنچائے گی۔( کنز العمال، کتاب السحر والعین والکہانۃ، قسم الاقوال، الفصل الثانی، ۳ / ۳۱۶، الحدیث: ۱۷۶۶۶، الجزء السادس)

            حضرت عقبہ بن عامررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ کسی بندے کو کوئی نعمت عطا کرے اور وہ چاہے کہ نعمت باقی رہے تو وہ کثرت سے ’’لَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ‘‘ کہے، پھر حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ وَ لَوْ لَاۤ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَآءَ اللّٰهُۙ-لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ‘‘(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۵۸، الحدیث: ۱۵۵)

 

18:40
فَعَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ وَ یُرْسِلَ عَلَیْهَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًاۙ(۴۰)
تو قریب ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے اچھا دے (ف۸۴) اور تیرے باغ پر آسمان سے بجلیاں اتارے تو وہ پٹ پر میدان (سفید زمین) ہوکر رہ جائے (ف۸۵)

{فَعَسٰى: تو قریب ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت  کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان نے مزید کہا کہ قریب ہے یعنی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا فرما دے اور تیرے باغ پر آسمان سے بجلیاں  گرا دے تو وہ چٹیل میدان ہوکر رہ جائے کہ اس میں  سبزہ کا نام و نشان باقی نہ رہے اور اپنی زندگی ہی میں  تو اس باغ کو برباد ہوتا ہوا دیکھے اور کف ِ افسوس ملتا رہ جائے یا اس باغ کا پانی زمین میں  دھنس جائے اور  نیچے چلا جائے کہ کسی طرح نکالا نہ جاسکے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۲، ۳ / ۲۱۱-۲۱۲، ملخصاً) چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ عذاب آگیا اور اگلی آیات میں  اسی کا بیان ہے۔

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْـكَهْف
اَلْـكَهْف
  00:00



Download

اَلْـكَهْف
اَلْـكَهْف
  00:00



Download