READ

Surah Al-Kahf

اَلْـكَهْف
110 Ayaat    مکیۃ


18:41
اَوْ یُصْبِحَ مَآؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِیْعَ لَهٗ طَلَبًا(۴۱)
یا اس کا پانی زمین میں دھنس جائے (ف۸۶) پھر تو اسے ہرگز تلاش نہ کرسکے (ف۸۷)

18:42
وَ اُحِیْطَ بِثَمَرِهٖ فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ كَفَّیْهِ عَلٰى مَاۤ اَنْفَقَ فِیْهَا وَ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا وَ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا(۴۲)
اور اس کے پھل گھیر لیے گئے (ف۸۸) تو اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا (ف۸۹) اس لاگت پر جو اس باغ میں خرچ کی تھی اور وہ اپنی ٹیٹوں پر (اوندھے منہ) گرا ہوا تھا (ف۹۰) اور کہہ رہا ہے، اے کاش! میں نے اپنے رب کا کسی کو شریک نہ کیا ہوتا،

{وَ اُحِیْطَ بِثَمَرِهٖ:اور اس کے پھل گھیر لئے گئے۔} ارشاد فرمایا کہ اس کافر کے باغ پر عذاب آگیا اور باغ کے ساتھ ساتھ اس کے دیگر ہر طرح کے مال و اَسباب پھل ہلاکت میں  گھیر لیے گئے اور باغ بالکل ویران ہوگیا تو وہ حسرت کے ساتھ ان اخراجات پر اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا جو اس نے باغ کی دیکھ بھال میں  خرچ کئے تھے اور وہ باغ اپنی چھتوں  کے بل اوندھے منہ گرگیا ، پھر اس حال کو پہنچ کر اسے مو من کی نصیحت یاد آئی اور وہ سمجھا کہ یہ اُس کے کفرو سرکشی کا نتیجہ ہے اور اس وقت وہ کہنے لگا کہ  اے کاش! میں  نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّکے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۲۱۲)

{هُنَالِكَ: یہاں  پتہ چلتا ہے۔} آیت کے آخر میں  اس واقعے کا سبق بیان فرمایا ہے کہ یہاں  پتہ چلتا ہے  اور ایسے حالات میں  معلوم ہوتا ہیکہ تمام اختیار ات اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے دست ِ قدرت میں  ہیں ۔ وہی چاہے تو پھلوں  سے لدے ہوئے باغات عطا فرما دے اور وہ چاہے تو ایک لمحے میں  سب کچھ تہس نہس کردے۔

18:43
وَ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ فِئَةٌ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ مَا كَانَ مُنْتَصِرًاؕ(۴۳)
اور اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی کہ اللہ کے سامنے اس کی مدد کرتی نہ وہ بدلہ لینے کے قابل تھا (ف۹۱)

18:44
هُنَالِكَ الْوَلَایَةُ لِلّٰهِ الْحَقِّؕ-هُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ عُقْبًا۠(۴۴)
یہاں کھلتا ہے (ف۹۲) کہ اختیار سچے اللہ کا ہے، اس کا ثواب سب سے بہتر اور اسے ماننے کا انجام سب سے بھلا،

18:45
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵)
اور ان کے سامنے (ف۹۳) زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو (ف۹۴) جیسے ایک پانی ہم نے آسمان اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا (ف۹۵) کہ سوکھی گھاس ہوگیا جسے ہوائیں اڑائیں (ف۹۶) اور اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے (ف۹۷)

{وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:اور ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو۔} اِس رکوع میں  دُنْیَوی زندگی کے قابلِ فنا ہونے اور قیامت کے حساب کتاب کے بارے میں  سمجھایا گیا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں  کے سامنے دنیا کی حقیقت بیان کرو اور اس کے سمجھانے کیلئے اس مثال کا سہارا لو کہ دنیوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے زمین کی ہریالی اور سرسبزی و شادابی، جو ہمارے نازل کئے ہوئے پانی کے سبب زمین سے نکلی ہو اور اس پانی کی وجہ سے زمین پر وہ شادابی اور تازگی پھیل جائے لیکن پھر کچھ ہی عرصے کے بعد وہ سبزہ فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے اور سوکھی ہوئی گھاس میں  تبدیل ہوجاتا ہے جسے ہوائیں  اِدھر سے اُدھر اڑائے پھرتی ہیں  اور اس کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں  رہتی ۔ فرمایا کہ دنیاوی زندگی کی مثال بھی ایسے ہی ہے کہ  جس طرح سبزہ خوشنما ہونے کے بعد فنا ہوجاتا ہے اور اس کا نام و نشان باقی نہیں  رہتا، یہی حالت دنیا کی بے اعتبار حیات کی ہے اس پر مغرور و شیدا ہونا عقل مند کا کام نہیں اور یہ سب فنا و بقا اللّٰہ کی قدرت سے ہے۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۲۴۹-۲۵۰، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۶۵۳، ملتقطاً)

            نوٹ:اس آیت میں  بیان کی گئی مثال مزید تفصیل کے ساتھ سورۂ یونس کی آیت نمبر 24 میں  گزر چکی ہے۔

18:46
اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا(۴۶)
مال اور بیٹے یہ جیتی دنیا کا سنگھار ہے (ف۹۸) اور باقی رہنے والی اچھی باتیں (ف۹۹) ان کا ثواب تمہارے رب کے یہاں بہتر اور وہ امید میں سب سے بھلی،

{زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا: دنیا کی زندگی کی زینت۔} دنیا کے مال و اَسباب کے بارے میں  مزید فرمایا کہ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی رونق ہیں  کہ ان کے ذریعے دنیا میں  آدمی فخر کرتا ہے اور انہیں  دنیا کی سہولیات و لذّات حاصل کرنے کا ذریعہ بناتا ہے حالانکہ انہی چیزوں  کو آخرت کا زاد ِ راہ تیار کرنے کا ذریعہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ مال و اولاد دنیا کی کھیتی ہیں  اور اعمالِ صالحہ آخرت کی اور اللّٰہ تعالیٰ اپنے بہت سے بندوں  کو یہ سب عطا فرماتا ہے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۲۱۲-۲۱۳)دوسری چیز باقیاتِ صالحات ہیں  ، ان سے نیک اعمال مراد ہیں  جن کے ثمرے انسان کے لئے باقی رہتے ہیں ، جیسا کہ پنج گانہ نمازیں  اور تسبیح و تحمید اور جملہ عبادات ۔حدیث شریف میں  ہے، سرکارِ دوعالَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے باقیاتِ صالحات کی کثرت کا حکم فرمایا۔ عرض کی گئی:وہ کیا ہیں ؟ فرمایا : اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ پڑھنا۔(مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ، ۴ / ۱۵۰،  الحدیث: ۱۱۷۱۳) البتہ یہ یاد رہے کہ مال اور اولاد فی نَفْسِہٖ تو اگرچہ دنیا ہیں  لیکن یہی دو چیزیں  آخرت کیلئے عظیم زاد ِ راہ بھی بن سکتی ہیں  کیونکہ اگر مال کو راہِ خدا میں  خرچ کیا اور خصوصاً کوئی صدقہ جاریہ کا کام کیا تو یہی مال نجات کا ذریعہ بنے گا اور یونہی اگر اولاد کی اچھی تربیت کی اور نیکی کے راستے پر لگایاتو ان کی نیکیوں  کا ثواب بھی ملے گا اور اس کے ساتھ اولاد کی دعائیں  بھی ملتی رہیں  گی۔

18:47
وَ یَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَ تَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةًۙ-وَّ حَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًاۚ(۴۷)
اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے (ف۱۰۰) اور تم زمین کو صاف کھلی ہوئی دیکھو گے (ف۱۰۱) اور ہم انہیں اٹھائیں گے (ف۱۰۲) تو ان میں سے کسی کو نہ چھوڑیں گے،

{وَ یَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ:اور جس دن ہم پہاڑوں  کو چلائیں  گے۔} دنیا کی فنائیت اور اسباب ِ دنیا کی حقیقت بیان کرنے کے بعد اب قیامت کی ہولناکی کا بیان کیا جارہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ یاد کرو جس دن ہم پہاڑوں  کو چلائیں  گے  کہ وہ اپنی جگہ سے اُکھڑ کر بادلوں  کی طرح اڑتے پھریں  گے اور ریزہ ریزہ ہوجائیں  گے اور تم زمین کو صاف کھلی ہوئی دیکھو گے جس پرنہ کوئی پہاڑ ہوگا ، نہ درخت، نہ عمارت بلکہ ایک چٹیل میدان ہوگا۔ اور ہم لوگوں  کو قبروں  سے اٹھائیں  گے اور میدانِ قیامت میں  حاضر کردیں  گے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۲۱۳، ملخصاً)

18:48
وَ عُرِضُوْا عَلٰى رَبِّكَ صَفًّاؕ-لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍۭ٘-بَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَكُمْ مَّوْعِدًا(۴۸)
اور سب تمہارے رب کے حضور پرا باندھے پیش ہوں گے (ف۱۰۳) بیشک تم ہمارے پاس ویسے ہی آئےجیسا ہم نے تمہیں پہلی بار بنایا تھا (ف۱۰۴) بلکہ تمہارا گمان تھا کہ ہم ہر گز تمہارے لیے کوئی وعدہ کا وقت نہ رکھیں گے، (ف۱۰۵)

{وَ عُرِضُوْا عَلٰى رَبِّكَ: اور سب تمہارے رب کی بارگاہ میں  پیش ہوں  گے۔} یہاں  قیامت واقع ہونے کے بعد کی منظر کشی کی گئی ہے کہ سب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں  صفیں  باندھے پیش کئے جائیں  گے ، ہر ہر امت کی جماعت کی قطاریں  علیحدہ علیحدہ ہوں  گی اور اللّٰہ تعالیٰ اُن سے فرمائے گا: بیشک تم ہمارے پاس ویسے ہی ننگے بدن، ننگے پاؤں ، مال و زر سے خالی ہوکر آئے جیسے ہم نے تمہیں  پہلی بارپیدا کیا تھا او رپھر جو قیامت کے منکرین ہوں  گے ان سے کہا جائے گاکہ تمہارا تو گمان یہ تھا کہ قیامت نہیں  آئے گی اور تمہارے لئے حساب و کتاب کا کوئی وعدہ نہیں  ہے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے جو تمہیں  اِس وعدے سے خبردار کیا تھا اسے تو تم نے تسلیم ہی نہیں  کیا تھا۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۶۵۴، ملخصاً)

غافل مسلمانوں  کے لئے نصیحت:

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں  ’’اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ کی عزت و عظمت اوراس کے قہر و جلال کی صفت کے اظہار اور اس کے عدل کے آثار کی طرف اشارہ ہے تاکہ جو لوگ سو رہے ہیں  وہ اپنی غفلت کی نیند سے بیدار ہو جائیں  اور غفلت کے شکار لوگ قیامت کے دن نجات پانے کے اسباب اختیار کرکے اور اپنے پوشیدہ و اعلانیہ معاملات درست کر کے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والے خطاب کا جواب دینے کی تیاری کریں  کیونکہ اسی کی طرف ہر ایک کو لوٹنا ہے اورجو پیشی اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ہوگی وہی سب سے بڑی پیشی ہے اور وہ کسی بادشاہ کے سامنے پیش ہونے کی طرح نہ ہوگی۔ حضرت عتبہ خواص رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :میرے پاس حضرت عتبہ غلام رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک رات ٹھہرے تو وہ اتنا روئے کہ ان پر غشی طاری ہو گئی ۔ میں  نے ان سے کہا:آپ کو کس چیز نے رلایا ہے؟انہوں  نے جواب دیا:اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پیشی کی یاد نے محبت کرنے والوں  کی رگیں  کاٹ کر رکھ دی ہیں ۔

            مروانی خلفاء میں  سے ساتویں  خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے حضرت ابو حازم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِسے کہا ’’ہم آخرت کو کیوں  ناپسند کرتے ہیں ؟ آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا ’’کیونکہ تم نے اپنی دنیا کو آباد کیا اور اپنی آخرت کو ویران کر دیااس لئے تم آبادی سے ویرانی کی طرف منتقل ہونے کو ناپسند کرتے ہو۔ سلیمان بن عبد الملک نے کہا: اے ابو حازم! رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ، آپ نے سچ کہا، اے کاش میں  جان سکتا کہ کل اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ہمارے لئے کیا ہو گا! حضرت ابو حازم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا ’’اگر تم چاہو تو یہ بات جان سکتے ہو کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی کتاب میں  موجود ہے۔ اس نے کہا: میں  اسے (اللّٰہ تعالیٰ کی کتاب میں ) کس جگہ پا سکتا ہوں ؟ آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ کے اس فرمان میں

’’ اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍۚ(۱۳)وَ اِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ‘‘(انفطار:۱۳،۱۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک نیک لوگ ضرور چین میں  (جانے والے) ہیں ۔ اور بیشک بدکار ضرور دوزخ میں  (جانے والے) ہیں ۔

سلیمان بن عبد الملک نے کہا :اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پیشی کس طرح ہو گی؟ آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا ’’نیک لوگ تو ایسے پیش ہوں  گے جیسے وہ پیش ہی نہیں  ہوئے اور وہ اپنے اہل و عیال کی طرف شاداں  و فَرحاں  واپس آ جائیں  گے اور گناہگار اس طرح پیش ہوں  گے جیسے بھاگے ہوئے غلام کو اس کے آقا کے سامنے باندھ کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ سن کر سلیمان بن عبد الملک بہت رویا۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۸، ۵ / ۲۵۳)

وہ ہے عیش و عشرت کا کوئی محل بھی

جہاں  تاک میں  ہر گھڑی ہو اَجَل بھی

بس اب اپنے اس جَہل سے تُو نکل بھی

یہ جینے کا انداز اپنا بدل بھی

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں  ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں  ہے

 

 

18:49
وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَاۚ-وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاؕ-وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۠(۴۹)
اور نامہٴ اعمال رکھا جائے گا (ف۱۰۶) تو تم مجرموں کو دیکھو گے کہ اس کے لکھے سے ڈرتے ہوں گے اور (ف۱۰۷) کہیں گے ہائے خرابی ہماری اس نوشتہ کو کیا ہوا نہ اس نے کوئی چھوٹا گناہ چھوڑا نہ بڑا جسے گھیر لیا ہو اور اپنا سب کیا انہوں نے سامنے پایا، اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا (ف۱۰۸)

{وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ: اور نامہ اعمال رکھا جائے گا۔} یہاں  قیامت کا وہ اہم اور نازک ترین مرحلہ بیان کیا گیا ہے جہاں  جنتی اور جہنمی ہونے کا اعلان ہونا ہے کہ ہر بندے کا نامۂ اعمال اس کو دیا جائے گا ،مومن کا دائیں  ہاتھ میں  اور کافر کا بائیں  میں ۔ اس وقت نامہ اعمال کو دیکھ کر جو برے لوگوں  کی حالت ہوگی وہ دہشت انگیز ہوگی کہ وہ نامہ اعمال دیکھ کر ڈر رہے ہوں  گے اور کہیں  گے: ہائے ہماری خرابی! اس نامہ اعمال کو کیا ہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے ، ایک ذرے کے برابر بھی کوئی گناہ ہوگاتو وہ نامہ اعمال میں  درج ہوگا اور لوگ اپنے تمام اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں  گے۔ آیت کے آخر میں  فرمایا کہ تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں  کرے گا ، نہ کسی پر بغیر جرم عذاب کرے گا اور نہ کسی کی نیکیاں  گھٹائے گا۔ حضرت فضیل بن عیاض رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب اس آیت کی تلاوت فرماتے تو کہتے :ہائے بربادی، اے لوگو! کبیرہ گناہوں  سے پہلے صغیرہ گناہوں  کے بارے میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں  رجوع کرلو۔( قرطبی، الکہف، تحت الآیۃ: ۴۹، ۵ / ۳۰۲، الجزء العاشر)

صغیرہ گناہوں  سے بھی بچیں :

            اس آیتِ مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ خاص طور پر کبیرہ گناہوں  سے بچے اور اس کے ساتھ ساتھ صغیرہ گناہوں  سے بھی خود کو بچانے کی کوشش کرے کیونکہ قیامت کے دن صغیرہ اور کبیرہ ہر طرح کے گناہ نامہ اعمال میں  لکھے ہوئے ملیں  گے اور اس دن ہر شخص اپنے اعمال کے درخت کا پھل پائے گا۔ کثیر اَحادیث میں  صغیرہ گناہوں  سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے ، چنانچہ

            حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں  :نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے عائشہ!رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا، ان گناہوں  سے تم بھی پرہیز کرو جنہیں  تم حقیر سمجھتی ہو کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں  ان کا بھی سوال ہوگا۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب، ۴ / ۴۸۸، الحدیث: ۴۲۴۳)

            حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تم ان گناہوں  سے بچو جنہیں  تم حقیر سمجھتے ہو، ان گناہوں  کی مثال اس قوم (کے لوگوں ) کی طرح ہے جو ایک وادی میں  اترے تو ایک شخص ایک لکڑی لے آیا اور دوسرا شخص دوسری لکڑی لے آیا یہاں  تک کہ ا نہوں  نے اتنی لکڑیا ں  جمع کر لیں  جنہیں  جلا کر انہوں  نے اپنی روٹیاں  پکالیں  (یعنی لکڑیوں  کو آگ لگانے کیلئے چھوٹی لکڑیوں  کو آگ لگائی جس سے بڑی لکڑیوں  کو بھی آگ لگ گئی، گویا یہی حال صغیرہ گناہوں  کے اِرتکاب سے کبیرہ تک جانے کا ہے)، اور بے شک صغیرہ گناہ کرنے والے کا جب مُؤاخذہ کیا جاتا ہے تو یہ گناہ اسے ہلاک کر دیتے ہیں ۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۵ / ۲۷۸، الحدیث: ۷۳۲۳)

            علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں  ’’ (اس حدیث میں  چھوٹے گناہوں  سے بچنے کا فرمایا گیا) کیونکہ جس طرح چھوٹی نیکیاں  بڑی نیکیاں  کرنے کا سبب بن جاتی ہیں  اسی طرح صغیرہ یعنی چھوٹے گناہ ، کبیرہ یعنی بڑے گناہوں  کے اِرتکاب کاسبب بن جاتے ہیں  ، امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’صغیرہ گناہوں  میں  سے بعض گناہ دوسرے گناہوں  کی طرف لے جاتے ہیں  حتّٰی کہ اصل سعادت فوت ہو جاتی ہے اور خاتمہ کے وقت ایمان سے ہی محرومی ہو جاتی ہے۔ اور اللّٰہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ جسے چاہے صغیرہ گناہ پر عذاب دیدے اور جس کے لئے چاہے کبیرہ گناہ بخش دے۔( فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۳ / ۱۶۴، تحت الحدیث: ۲۹۱۶)

18:50
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖؕ-اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَ ذُرِّیَّتَهٗۤ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِیْ وَ هُمْ لَكُمْ عَدُوٌّؕ-بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا(۵۰)
اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو (ف۱۰۹) تو سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے، قومِ جن سے تھا تو اپنے رب کے حکم سے نکل گیا (ف۱۱۰) بھلا کیا اسے اور اس کی اولاد و میرے سوا دوست بناتے ہو (ف۱۱۱) اور وہ ہمارے دشمن ہیں ظالموں کو کیا ہی برا بدل (بدلہ) ملا، (ف۱۱۲)

{وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں  سے فرمایا: آدم کو سجدہ کرو۔} اس پورے رکوع میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے شیطان کے ابتدائی کردار کا بیان کیا اور لوگوں  کو سمجھایا کہ جس طرح وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرکے مردود ہوا ، تم اس طرح نہ کرنا اور اس کی اطاعت و اتباع سے بچنا۔ اب آیت کا خلاصہ ملاحظہ ہو۔ ارشاد فرمایا، یاد کرو جب ہم نے فرشتوں  سے فرمایا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تعظیم کے طور پر انہیں  سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جو جِنّوں  کے گروہ سے تعلق رکھتا تھا  اور ابلیس نے حکمِ الٰہی کے باوجود حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کیا بلکہ تکبر (و حسد)  کا راستہ اختیار کیا اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّکے حکم سے نکل گیا تو (اے لوگو!) کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو  اور اُن کی اطاعت اختیار کرتے ہو اور وہ یوں  کہ بجائے میری بندگی کے ان کی بندگی میں  مبتلا ہوتے ہوحالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ۔ اور جب وہ تمہارے دشمن ہیں  تو تمہیں  تو ان سے ہوشیار اور دور رہنا چاہیے نہ کہ تمہیں  ان سے دوستی کرنی چاہئے اور یاد رکھو کہ شیطان، اس کی اولاد اور شیطان کے فرمانبردار سب ظالم ہیں  اور ظالموں  کیلئے بہت برا بدلہ ہے۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۰، ۵ / ۲۵۵، ملتقطاً)

18:51
مَاۤ اَشْهَدْتُّهُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَا خَلْقَ اَنْفُسِهِمْ۪-وَ مَا كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّیْنَ عَضُدًا(۵۱)
نہ میں نے آسمانوں اور زمین کو بناتے وقت انہیں سامنے بٹھالیا تھا، نہ خود ان کے بناتے وقت اور نہ میری شان، کہ گمراہ کرنے والوں کو بازوں بناؤں (ف۱۱۳)

{مَاۤ اَشْهَدْتُّهُمْ: میں  نے انہیں  حاضر نہ رکھا تھا۔} ارشاد فرمایا کہ شیطان، اس کی اولاد نیز جن بتوں  یا چیزوں  کو مشرکین اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکا شریک ٹھہراتے ہیں  ان میں  سے کسی کو نہ تو اللّٰہعَزَّوَجَلَّ نے آسمانوں  اور زمین کو بناتے وقت حاضر رکھا تھا اور نہ خود ان کے بناتے وقت حاضر رکھا تھا۔ مراد یہ ہے  کہ اَشیاء کے پیدا کرنے میں  اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی ذات مُتَفَرِّد اور یگانہ ہے۔ نہ اس کا کوئی شریک ِ عمل ہے ،نہ کوئی مشیرِ کار، پھر اس کے سوا اور کسی کی عبادت کس طرح درست ہوسکتی ہے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۲۱۵، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۶۵۵، ملتقطاً)

18:52
وَ یَوْمَ یَقُوْلُ نَادُوْا شُرَكَآءِیَ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهُمْ وَ جَعَلْنَا بَیْنَهُمْ مَّوْبِقًا(۵۲)
اور جس دن فرمائے گا (ف۱۱۴) کہ پکارو میرے شریکوں کو جو تم گمان کرتے تھے تو انہیں پکاریں گے وہ انہیں جواب نہ دیں گے اور ہم ان کے (ف۱۱۵) درمیان ایک ہلاکت کا میدان کردیں گے(ف۱۱۶)

{وَ یَوْمَ: اور جس دن۔} ارشاد فرمایا کہ اور یاد کرو جس دن اللّٰہ تعالیٰ کفار سے فرمائے گا :اب تم میرے ان شریکوں  کو پکارو جنہیں  تم میرا شریک سمجھتے تھے تو وہ انہیں  پکاریں  گے لیکن ان کے شریک انہیں  جواب نہ دیں  گے اور ہم ان بتوں  اور بت پرستوں  کے درمیان اور اہلِ حق اور گمراہوں  کے درمیان ایک ہلاکت کا میدان بنادیں  گے جس میں  وہ اہلِ باطل اور ان کے بت پڑے رہیں  گے۔ مَوْبِقْ یا تو دوزخ کا ایک طبقہ ہے یا اس سے مراد مُطْلَقاً ہلاکت کی جگہ ہے۔  حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ مَوبِق جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۲۱۵، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۶۵۵، ملتقطاً)

{وَ رَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ:اور مجرم دوزخ کو دیکھیں  گے۔} یعنی جب مجرموں  کو جہنم کی طرف چلایا جائے گا تو وہ جہنم کو دیکھ کر یقین کر لیں  گے کہ اب وہ اس میں  گرنے والے ہیں  اور اس سے پھرنے کی کوئی جگہ نہ پائیں  گے کیونکہ جہنم ہر طرف سے انہیں  گھیر لے گی۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۳، ۵ / ۲۵۹)

18:53
وَ رَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَ لَمْ یَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا۠(۵۳)
اور مجرم دوزخ کو دیکھیں گے تو یقین کریں گا کہ انہیں اس میں گرنا ہے اور اس سے پھرنے کی کوئی جگہ نہ پائیں گے،

18:54
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا(۵۴)
اور بیشک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مثل طرح طرح بیان فرمائی (ف۱۱۷) اور آدمی ہر چیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے (ف۱۱۸)

{فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ: اس قرآن میں ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس قرآن میں  ہر قسم کی مثال مختلف انداز سے بیان فرمائی  تاکہ لوگ انہیں  سمجھیں  اور نصیحت حاصل کریں  لیکن اکثریت کی حالت یہ ہے کہ وہ نصیحت قبول نہیں  کرتے بلکہ آگے سے فضول میں  بحث مُباحثہ کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ آیت میں  فرمایا کہ انسان ہرچیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے۔ یہ آیت اگرچہ بطورِ خاص نضر بن حارث نامی کافر یا اُبی بن خلف کافر کے بارے میں  نازل ہوئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں  تمام کفار داخل ہیں  جو حق کو تسلیم کرنے کی بجائے آگے سے صرف بحث و مباحثہ ہی کرتے ہیں  اور اس آیت کے عموم میں  تمام لوگ ہی داخل ہیں  کیونکہ یہ انسان کی عمومی عادت ہے کہ وہ فورا ًبات کو تسلیم نہیں  کرتا اگرچہ وہ حق بات ہی کیوں  نہ ہو بلکہ بحث مباحثہ کرتا ہے۔

18:55
وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْۤا اِذْ جَآءَهُمُ الْهُدٰى وَ یَسْتَغْفِرُوْا رَبَّهُمْ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمْ سُنَّةُ الْاَوَّلِیْنَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا(۵۵)
اور آدمیوں کو کسی چیز نے اس سے روکا کہ ایمان لاتے جب ہدایت (ف۱۱۹) ان کے پاس آئی اور اپنے رب سے معافی مانگتے (ف۱۱۳) مگر یہ کہ ان پر اگلوں کا دستور آئے (ف۱۲۱) یا ان پر قسم قسم کا عذاب آئے،

{اِذْ جَآءَهُمُ الْهُدٰى: جب ان کے پاس ہدایت آگئی۔} یہ کلام اس انداز میں  ہے جیسے کوئی شخص سمجھانے کے باوجود بار بار غلط حرکتیں  کرتا رہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ لگتا ہے کہ جناب کو صرف جوتوں  کی ضرورت ہے۔ مراد یہ ہوتا ہے کہ اب تمہارا علاج یہی ہے۔ یہی بات کفار سے کہی گئی کہ ہدایت کی تعلیم آجانے کے بعد اب ا نہیں  ایمان لانے اور استغفار کرنے سے صرف اسی بات نے روکا ہوا ہے کہ ان پر بھی پہلے لوگوں  جیسا عذاب آئے۔

18:56
وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-وَ یُجَادِلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ وَ اتَّخَذُوْۤا اٰیٰتِیْ وَ مَاۤ اُنْذِرُوْا هُزُوًا(۵۶)
اور ہم رسولوں کو نہیں بھیجتے مگر (ف۱۲۲) خوشی (ف۱۲۳) ڈر سنانے والے اور جو کافر ہیں وہ باطل کے ساتھ جھگڑتے ہیں (ف۱۲۴) کہ اس سے حق کو ہٹادیں اور انہوں نے میری آیتوں کی اور جو ڈر انہیں سناتے گئے تھے، (ف۱۲۵)

{وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ:اور ہم رسولوں  کوخوشخبری دینے والے اور ڈر کی خبریں  سنانے والے بنا کر ہی بھیجتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم رسولوں  کو ان کی امتوں  کی طرف بھیجتے ہیں  تاکہ وہ ایمان والوں  اور اطاعت گزاروں  کو ثواب اور جنت کے دَرجات کی خوشخبری دیں  جبکہ کافروں  اور گناہگاروں  کو عذاب اور جہنم کے دَرکات سے ڈرانے والی خبریں  سنائیں  لیکن کافر باطل باتوں  کے ذریعے ان رسولوں  سے جھگڑا کرتے ہیں ، مثلاًاُن سے کہتے ہیں  کہ تم تو ہماری طرح بشر ہو اور اگر اللّٰہ تعالیٰ چاہتا تو کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیتا، اور وہ یہ جھگڑا اس لئے کرتے ہیں  تاکہ اِس کے ذریعے سے اُس حق بات کومٹا دیں  جو رسولوں  کے ساتھ ہے، چنانچہ اس طرزِ عمل کے ذریعے کافروں  نے میری وحدانیت اور قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیوں  کو اور جس عذاب سے انہیں  ڈرایا جاتا تھا اسے مذاق بنالیا۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۶، ۵ / ۲۶۰)

18:57
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُؕ-اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًاؕ-وَ اِنْ تَدْعُهُمْ اِلَى الْهُدٰى فَلَنْ یَّهْتَدُوْۤا اِذًا اَبَدًا(۵۷)
ان کی ہنسی بنالی اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جسے اس کے رب کی آیتیں یاد دلائی جائیں تو وہ ان سے منہ پھیرلے (ف۱۲۶) اور اس کے ہاتھ جو آگے بھیج چکے (ف۱۲۷) اسے بھول جائے ہم نے ان کے دلوں پر غلاف کردیے ہیں کہ قرآن نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی (ف۱۲۸) اور اگر تم انہیں ہدایت کی طرف بلاؤ تو جب بھی ہرگز کبھی راہ نہ پائیں گے (ف۱۲۹)

{وَ مَنْ اَظْلَمُ:اور اس سے بڑھ کر ظالم کون۔} ارشاد فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کے کلام قرآنِ مجید کی آیتوں  کے ذریعے نصیحت کی جائے تو وہ ان سے منہ پھیرلے اور ان آیات میں  سوچ بچار اور غوروفکر نہ کرے اور کفر وغیرہ ان اعمال کے انجام کو بھول جائے جو اس کے ہاتھوں  نے آگے بھیجے ہیں  ۔بیشک ہم نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں  پر غلاف کردئیے ہیں  تاکہ قرآن کو نہ سمجھیں  اور ان کے کانوں  میں  بوجھ رکھ دئیے ہیں  تاکہ وہ حق کو سن نہ سکیں اور اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ انہیں  ہدایت کی طرف بلائیں  تو جب بھی ہرگز کبھی ہدایت نہ پائیں  گے کیونکہ ان کی قسمت میں  ہی کفر کرنا لکھا ہو اہے۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۷، ۵ / ۲۶۰-۲۶۱، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۶۵۶، ملتقطاً)

18:58
وَ رَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَةِؕ-لَوْ یُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَؕ-بَلْ لَّهُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ یَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِهٖ مَوْىٕلًا(۵۸)
اور تمہارا رب بخشنے والا مہر وا لا ہے، اگر وہ انہیں (ف۱۳۰) ان کے کیے پر پکڑتا تو جلد ان پر عذاب بھیجتا (ف۱۳۱) بلکہ ان کے لیے ایک وعدہ کا وقت ہے (ف۱۳۲) جس کے سامنے کوئی پناہ نہ پائیں گے،

{وَ رَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَةِ:اور تمہارا رب بڑا بخشنے والا، رحمت وا لا ہے۔} اس آیت میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت اور مہلت کا بیان ہے کہ وہ بڑا بخشنے والا ہے کہ کروڑوں  گناہ کرنے کے بعد بھی اگر کوئی مغفرت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تووہ بخش دیتا ہے اور ساری زندگی گناہوں  میں  گزارنے کے باوجود بھی اگر کوئی زندگی کے آخری لمحات میں  توبہ کرلیتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے معاف فرمادیتا ہے۔ یہ شانِ مغفرت بھی ہے اور شانِ رحمت بھی، اور شانِ رحمت میں  یہ بھی داخل ہے کہ اس نے مہلت دی ہوئی ہے اور عذاب دینے میں  جلدی نہیں  فرماتا بلکہ کفروگناہ کے باوجود لوگوں  کو دنیا کا رزق دیتا رہتا ہے۔ مزید فرمایا کہ اگر وہ لوگوں  کودنیا ہی میں  ان کے اعمال کی بنا پر پکڑ لیتا تو جلد ان پر عذاب بھیج دیتا لیکن اس کی رحمت ہے کہ اُس نے مہلت دی اور عذاب میں  جلدی نہ فرمائی۔ بلکہ ان کے لیے ایک وعدے کا وقت مقرر کردیا یعنی قیامت کا دن ۔ اس دن البتہ ساری مہلتیں  ختم ہوجائیں  گی اور اس دن کوئی پناہ نہ ہوگی۔

18:59
وَ تِلْكَ الْقُرٰۤى اَهْلَكْنٰهُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَ جَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَّوْعِدًا۠(۵۹)
اور یہ بستیاں ہم نے تباہ کردیں (ف۱۳۳) جب انہوں نے ظلم کیا (ف۱۳۴) اور ہم نے ان کی بربادی کا ایک وعدہ رکھا تھا،

{وَ تِلْكَ الْقُرٰى: اور یہ بستیاں ۔} کفار کو سمجھانے کیلئے اب پچھلی قوموں  کے انجام کو اِجمالی طور پر بیان کیا جارہا ہے چنانچہ فرمایا کہ ان بستیوں  کے رہنے والوں  کو ہم نے ہلاک کردیا اور وہ بستیاں  ویران ہوگئیں ۔ ان بستیوں  سے قومِ لوط، عاد اور ثمود وغیرہ کی بستیاں  مراد ہیں ۔ تو جیسے وہ بستیاں  اپنے کفر اور سرکشی کی وجہ سے برباد ہوئی ہیں  ایسے تم بھی ہوسکتے ہو۔

سورۂ کہف کی آیت نمبر 57 تا 59 سے حاصل ہونے والی معلومات:

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’ان آیات سے چند باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… ہدایت کے اسباب اگرچہ مکمل طور پر جمع ہوں  ا س کے باوجود لوگ ان سے اس وقت تک ہدایت حاصل نہیں  کر سکتے اور نہ ہی ایمان لا سکتے ہیں  جب تک اللّٰہ تعالیٰ کی عنایت شاملِ حال نہ ہو ۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں  ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا’’خدا کی قسم! اگراللّٰہ تعالیٰ کی رحمت نہ ہوتی تو نہ ہم ہدایت پاتے، نہ صدقہ کرتے اور نہ ہی نماز پڑھ سکتے۔( بخاری، کتاب ا لمغازی، باب غزوۃ الخندق وہی الاحزاب، ۳ / ۵۲، الحدیث: ۴۱۰۴)

(2)…اہلِ باطل حق کو باطل اور باطل کو حق دیکھتے ہیں  اور یہ ان کے قلبی اندھے پن اور عقلوں  کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہے تو وہ انبیاء اور اولیاء کے مقام سے جاہل اور گمراہ ہونے کی وجہ سے ان سے جھگڑتے ہیں  اور حق کو باطل کرنے کی کوشش کرتے ہیں  جبکہ اہلِ حق انبیاء اور اولیاء کے سامنے اپنی گردن جھکادیتے ہیں  اور کسی عناد اور جھگڑے کے بغیر سرِ تسلیم خم کرتے ہیں  اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتے ہیں  تو انہیں  حق حق نظر آتا ہے اور وہ اس کی پیروی کرتے ہیں  اور باطل باطل نظر آتا ہے اور وہ اس سے بچتے ہیں ۔

(3)…دنیا میں  اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت مومن اور کافر دونوں  کو عام ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کا رزق مُنْقطع کر کے ان کا مُؤاخذہ نہیں  فرماتا اور قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت مومن کے ساتھ اور عذاب کافر کے ساتھ خاص ہے۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۵۹، ۵ / ۲۶۲)

 

18:60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا(۶۰)
اور یاد کرو جب موسیٰ (ف۱۳۵) نے اپنے خادم سے کہا (ف۱۳۶) میں باز نہ رہوں گا جب تک وہاں نہ پہنچوں جہاں دو سمندر ملے ہیں (ف۱۳۷) یا قرنوں (مدتوں تک) چلا جاؤں (ف۱۳۸)

{وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى:اور یاد کرو جب موسیٰ نے فرمایا۔} اس رکوع سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس علم سیکھنے کے لئے جانے والے قصے کو بیان کیا گیا ہے۔ آیت میں  جن کا ذکر ہے وہ مشہور پیغمبر اور جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ بن عمران عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہیں ، انہیں  اللّٰہ تعالیٰ نے تورات اور کثیر معجزات عطا فرمائے تھے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے خادم کا نام حضرت یوشع بن نون ہے، یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت وصحبت میں  رہتے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے علم حاصل کرتے تھے ۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد حضرت یوشع ہی آپ کے ولی عہد بنے۔ آیت میں  مذکور واقعے کا پسِ منظر یہ ہے کہ ایک بار حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کی جماعت میں  بہت شاندار وعظ فرمایا، اس کے بعد کسی نے پوچھا کہ آپ سے بڑا عالم بھی کوئی ہے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا: نہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی کہ ’’ اے موسیٰ !عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تم سے بڑے عالم حضرت خضرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہیں ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللّٰہ تعالیٰ سے ان کا پتہ پوچھا تو ارشاد فرمایا : مَجمعِ بَحرَین میں  رہتے ہیں ، وہاں  کی نشانی یہ بتائی، کہ جہاں  بھنی مچھلی زندہ ہو کر دریا میں  چلی جائے اور پانی میں  سرنگ بن جائے ، وہاں  حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہوں  گے ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے خادم سے فرمایا: میں  مسلسل سفر میں  رہوں  گا جب تک کہ مشرق کی جانب دوسمندروں  یعنی بحرِ فارس اور بحرِ روم کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں  یا اگر وہ جگہ دور ہو تو مدتوں  تک چلتا رہوں  گا  ۔پھر یہ حضرات روٹی اور نمکین بھنی مچھلی زنبیل میں  توشہ کے طور پر لے کر روانہ ہوئے۔( تفسیرکبیر، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۰، ۷ / ۴۷۷، روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۰، ۵ / ۲۶۲-۲۶۳، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۶۵۷، ملتقطاً)

حضرت موسیٰ اور حضرت خضر عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے سے حاصل ہونے والی معلومات:

            حضرت موسیٰ اور حضرت خضرعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے سے چند باتیں  معلوم ہوئیں ۔

(1)…علم کے لئے سفر کرنا اللّٰہ تعالیٰ کے نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی سنت ہے۔

(2)… استاد کے پاس جانا اور اسے گھر نہ بلانا سنت ہے۔

(3)…علم کی زیادتی چاہنا بہتر ہے۔

(4)…سفر میں  توشہ ساتھ رکھنا اچھا ہے۔

(5)… سفر میں  اچھا ساتھی ہونا بہتر ہے۔

(6)… استاد کا ادب کرنا ضروری ہے۔

(7)… استاد کی بات پر اعتراض نہ کرنا چاہیے۔

(8)… جہاں  تک ہوسکے پیر ِکامل کے فعل کی تاویل کرنی چاہیے اور اس سے بد ظن نہیں  ہونا چاہیے جبکہ وہ واقعی پیر ِ کامل اور شریعت کا سچا عامل ہو۔

(9)… علم صرف کتا ب سے نہیں  آتا بلکہ استاد کی صحبت سے بھی آتا ہے۔

(10)… بزرگوں  کی صحبت کیمیا کا اثر رکھتی ہے۔

(11)… اپنے آپ کو اِستفادہ کرنے سے مُستَغنی نہیں  سمجھنا چاہیے۔

18:61
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِهِمَا نَسِیَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا(۶۱)
پھر جب وہ دونوں ان دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچے (ف۱۳۹) اپنی مچھلی بھول گئے اور اس نے سمندر میں اپنی راہ لی سرنگ بناتی،

{فَلَمَّا بَلَغَا: پھر جب وہ دونوں  پہنچے۔} حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت یوشع بن نونعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ دو سمندروں  کے ملنے کی جگہ پہنچے  ، وہاں  ایک پتھر کی چٹان اور چشمۂ حیات تھا ۔ اس جگہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ  نے آرام فرمایا اور حضرت یوشع عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وضو کرنے لگے۔ اسی دوران بھنی ہوئی مچھلی زنبیل میں  زندہ ہوگئی اور تڑپ کر دریا میں  گری ، اس پر سے پانی کا بہاؤ رک گیا اور ایک محراب سی بن گئی ۔ حضرت یوشع عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامیہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیدار ہوئے تو حضرت یوشع عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ان سے مچھلی کا واقعہ ذکر کرنا یاد نہ رہا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ وہ اپنی مچھلی بھول گئے اور اس مچھلی نے سمندر میں  سرنگ کی طرح اپنا راستہ بنالیا۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ:  ۶۱، ۵ / ۲۶۴-۲۶۵)

18:62
فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىهُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا٘-لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا(۶۲)
پھر جبب وہاں سے گزر گئے (ف۱۴۰) موسیٰ نے خادم سے کہا ہمارا صبح کا کھانا لاؤ بیشک ہمیں اپنے اس سفر میں بڑی مشقت کا سامنا ہوا، (ف۱۴۱)

{فَلَمَّا جَاوَزَا:پھر جب وہ وہاں  سے گزر گئے۔} ارشاد فرمایا کہ پھر جب وہ دونوں  اس جگہ سے گزر گئے اور چلتے رہے یہاں  تک کہ دوسرے روز کھانے کا وقت آیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے خادم سے فرمایا: ہمارا صبح کا کھانا لاؤ بیشک ہمیں  اپنے اس سفر سے بڑی مشقت کا سامنا ہوا ہے۔ تھکان بھی ہے بھوک کی شدت بھی ہے۔ اور یہ بات جب تک مَجْمَعُ الْبَحْرَیْن پہنچے تھے پیش نہ آئی تھی اور جب منزلِ مقصود سے آگے بڑھ گئے تو تھکن اور بھوک معلوم ہوئی، اس میں  اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت یہ تھی کہ وہ مچھلی یاد کریں  اور اس کی طلب میں  منزلِ مقصود کی طرف واپس ہوں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہ فرمانے پر خادم نے معذرت کی اور یہ کہا، جو اگلی آیت میں  مذکور ہے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۲۱۸، ملخصاً)

18:63
قَالَ اَرَءَیْتَ اِذْ اَوَیْنَاۤ اِلَى الصَّخْرَةِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ٘-وَ مَاۤ اَنْسٰىنِیْهُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَهٗۚ-وَ اتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ ﳓ عَجَبًا(۶۳)
بولا بھلا دیکھئے تو جب ہم نے اس چٹان کے پاس جگہ لی تھی تو بیشک میں مچھلی کو بھول گیا، اور مجھے شیطان ہی نے بھلا دیا کہ میں اس کا مذکور کروں اور اس نے (ف۱۴۲) تو سمندر میں اپنی راہ لی، اچنبھا ہے،

{قَالَ:موسیٰ نے فرمایا۔} حضرت یوشع بن نون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  نے فرمایا ’’مچھلی کا جانا ہی تو ہمارے مقصد حاصل ہونے کی علامت ہے ۔ جن کی طلب میں  ہم چلے ہیں  ان کی ملاقات وہیں  ہوگی۔ چنانچہ پھر وہ دونوں  اپنے قدموں  کے نشانات کی پیروی کرتے ہوئے واپس لوٹے۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۶۵۸، ملخصاً)

{فَوَجَدَا:توانہوں  نے پایا۔} یعنی جب وہ دونوں  بزرگ واپس اسی جگہ پہنچے تو وہاں  انہوں  نے اللّٰہ  تعالیٰ کے بندوں  میں  سے ایک بندہ پایا  جو چادر اوڑھے آرام فرما رہا تھا۔ یہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  تھے۔ لفظ خضر لغت میں  تین طرح سے آیا ہے۔ (1) ’’خا ‘‘کے نیچے زیر اور ضاد کے اوپر جزم کے ساتھ یعنی خِضْر۔ (2) ’’خا ‘‘ کے اوپر زبر اور ضاد کے اوپر جزم کے ساتھ یعنی خَضْر۔ (3) ’’خا‘‘ کے اوپر زبر اور ضاد کے نیچے زیر کے ساتھ یعنی خَضِر۔ یہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا لقب ہے اور اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جہاں  بیٹھتے یا نماز پڑھتے ہیں  وہاں  اگر گھاس خشک ہو تو سرسبز ہوجاتی ہے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام بَلیا بن ملکان اور کنیت ابوالعباس ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل میں  سے ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شہزادے تھے اور آپ نے دنیا ترک کرکے زہد اختیار فرما لیا تھا۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۵ / ۲۶۷، خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۲۱۸، ملتقطاً)

 حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کی شان:

            اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان میں  مزید دو باتیں  ارشاد فرمائیں ۔

          ایک یہ کہ اسے ہم نے اپنے پاس سے خاص رحمت دی تھی۔ اس رحمت سے نبوت مراد ہے یا ولایت یا علم یا لمبی زندگی۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامولی تو بالیقین ہیں  جبکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی نبوت میں  اختلاف ہے۔ا علیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’سیدنا خضرعَلَیْہِ السَّلَام جمہور کے نزدیک نبی ہیں  اور ان کوخاص طور سے علمِ غیب عطا ہوا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ’’وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘(فتاویٰ رضویہ، ۲۶ / ۴۰۱) ایک اور مقام پر فرماتے ہیں  ’’معتمد ومختار یہ ہے کہ وہ (یعنی حضرت خضرعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) نبی ہیں  اور دنیا میں  زندہ ہیں ۔( فتاویٰ رضویہ، ۲۸ / ۶۱۰)

          دوسری یہ کہ اسے اپنا علم لدُنی عطا فرمایا۔ علم لدنی سے مراد غیب کا علم ہے۔( بیضاوی، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۵۱۰، جلالین، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۲۴۹، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۶۵۸)    بعض مفسرین نے فرمایا علمِ لدنی وہ ہے جو بندے کواِلہام کے ذریعے حاصل ہو۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۶۵۸)

حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کے نام کی برکت۔

            بزرگانِ دین فرماتے ہیں  ’’جو حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا نام ان کی ولدیت اور کنیت کے ساتھ (یعنی ابوالعباس بَلیا بن ملکان ) یاد رکھے گا اِنْ شَآءَ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا۔( صاوی، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۴ / ۱۲۰۷)

18:64
قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ ﳓ فَارْتَدَّا عَلٰۤى اٰثَارِهِمَا قَصَصًاۙ(۶۴)
موسیٰ نے کہا یہی تو ہم چاہتے تھے (ف۱۴۳) تو پیچھے پلٹے اپنے قدموں کے نشان دیکھتے،

18:65
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا(۶۵)
تو ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا (ف۱۴۴) جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی (ف۱۴۵) اور اسے اپنا علم لدنی عطا کیا (ف۱۴۶)

18:66
قَالَ لَهٗ مُوْسٰى هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰۤى اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا(۶۶)
اس سے موسیٰ نے کہا کیا میں تمہارے ساتھ رہوں اس شرط پر کہ تم مجھے سکھادو گے نیک بات جو تمہیں تعلیم ہوئی (ف۱۴۷)

{قَالَ لَهٗ مُوْسٰى:اس سے موسیٰ نے کہا۔} صحیح بخاری شریف کی حدیث میں  ہے جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو دیکھا کہ سفید چادر میں  لپٹے ہوئے ہیں  تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں  سلام کیا۔ انہوں  نے دریافت کیا کہ تمہاری سرزمین میں  سلام کہاں ؟ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا کہ میں  موسیٰ ہوں ۔ انہوں  نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ آپ نے فرمایا کہ جی ہاں  ۔ پھر حضرت  موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے کہا: کیا اس شرط پر میں  آپ کے ساتھ رہوں  کہ آپ مجھے وہ درست بات سکھا دیں  جوآپ کو سکھائی گئی ہے۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الکہف، باب واذ قال موسی لفتاہ لا ابرح حتّی ابلغ مجمع البحرین ۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۶۵، الحدیث: ۴۷۲۵)

آیت’’ هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰۤى اَنْ تُعَلِّمَنِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… آدمی کو علم کی طلب میں  رہنا چاہئے خواہ وہ کتنا ہی بڑا عالم ہو ۔

(2)…آدمی کو چاہئے کہ اپنے سے بڑے علم والے کے ساتھ(خواہ وہ استاد ہو یا کوئی اور) عاجزی اور ادب سے پیش آئے۔(مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۶۵۸)

            حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو جو جواب دیا وہ اگلی آیت میں  مذکور ہے۔

18:67
قَالَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(۶۷)
کہا آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے (ف۱۴۸)

{قَالَ:کہا۔} حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا: آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں  گے۔ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے یہ اس لئے فرمایا کہ وہ جانتے تھے کہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوکچھ ناپسندیدہ اور ممنوع کام دیکھنا پڑیں  گے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے ممکن ہی نہیں  کہ وہ ممنوع کام دیکھ کر صبر کرسکیں ۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۲۱۹)

{وَ كَیْفَ تَصْبِرُ:اور آپ کس طرح صبر کریں  گے۔} حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اُس ترکِ صبر کا عذر بھی خود ہی بیان فرما دیا اور فرمایا ’’ اور آپ اس بات پر کس طرح صبر کریں  گے جسے آپ کا علم محیط نہیں  اور ظاہر میں  وہ ممنوع ہیں ۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۲۱۹، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۶۵۸، ملتقطاً)

 حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا علم:

             حدیث شریف میں  ہے کہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ ایک علم اللّٰہ تعالیٰ نے مجھ کو ایسا عطا فرمایا جو آپ نہیں  جانتے اور ایک علم آپ کو ایسا عطا فرمایا جو میں  نہیں  جانتا۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الکہف، باب واذ قال موسی لفتاہ لا ابرح حتّی ابلغ مجمع البحرین۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۶۵، الحدیث: ۴۷۲۵)  مفسرین و محدثین کہتے ہیں  کہ جو علم حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے لئے خاص فرمایا وہ باطن اور مُکاشَفَہ کا ہے اور یہ اہلِ کمال کے لئے باعثِ فضل ہے۔( جمل، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۸، ۴ / ۴۴۱)

 

18:68
وَ كَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰى مَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ خُبْرًا(۶۸)
اور اس بات پر کیونکر صبر کریں گے جسے آپ کا علم محیط نہیں (ف۱۴۹)

18:69
قَالَ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ صَابِرًا وَّ لَاۤ اَعْصِیْ لَكَ اَمْرًا(۶۹)
کہا عنقریب اللہ چاہے تو تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں تمہارے کسی حکم کے خلاف نہ کروں گا،

{قَالَ:کہا ۔} یعنی حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایاکہ اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہے تو آپ میرے کسی ایسے عمل کے بارے میں  مجھ سے سوال نہ کرنا جو آپ کی نظر میں  ناپسندیدہ ہو جب تک میں  خود آپ کے سامنے اس کا ذکر نہ کردوں ۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۲۱۹)

شاگرد اور مرید کے لئے ایک ادب:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ شاگرد اور مرید کے آداب میں  سے ہے کہ وہ اپنے استاد اور پیر کے اَفعال پر زبانِ اعتراض نہ کھولے اور منتظر رہے کہ وہ خود ہی اس کی حکمت ظاہر فرما دیں ۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۶۵۸، ابو سعود، الکھف، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۳۹۴، ملخصاً)

18:70
قَالَ فَاِنِ اتَّبَعْتَنِیْ فَلَا تَسْــٴَـلْنِیْ عَنْ شَیْءٍ حَتّٰۤى اُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا۠(۷۰)
کہا تو اگر آپ میرے ساتھ رہنے ہیں تو مجھ سے کسی بات کو نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں (ف۱۵۰)

18:71
فَانْطَلَقَاٙ-حَتّٰۤى اِذَا رَكِبَا فِی السَّفِیْنَةِ خَرَقَهَاؕ-قَالَ اَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ اَهْلَهَاۚ-لَقَدْ جِئْتَ شَیْــٴًـا اِمْرًا(۷۱)
اب دونوں چلے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے (ف۱۵۱) اس بندہ نے اسے چیر ڈالا (ف۱۵۲) موسیٰ نے کہا کیا تم نے اسے اس لیے چیرا کہ اس کے سواروں کو ڈبا دو بیشک یہ تم نے بری بات کی، (ف۱۵۳)

{فَانْطَلَقَا: پھروہ دونوں  چلے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کشتی کی تلاش میں  ساحل کے کنارے چلنے لگے ۔ جب ان کے پاس سے ایک کشتی گزری تو  کشتی والوں  نے حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو پہچان کر بغیر معاوضہ کے سوار کرلیا، جب کشتی سمندر کے بیچ میں  پہنچی تو حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے کلہاڑی کے ذریعے اس کا ایک تختہ یا دو تختے اکھاڑ ڈالے۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خاموش نہ رہ سکے اور فرمایا: کیا تم نے اس کشتی کو اس لیے چیر دیا تاکہ کشتی والوں  کو غرق کردو، بیشک یہ تم نے بہت برا کام کیا۔ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: کیا میں  نہ کہتا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں  گے۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ۵ / ۲۷۷، ملخصاً)

{قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِیْ:کہا  :میرا مُواخذہ نہ کرو۔} یعنی  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے عذر خواہی فرمائی کہ میں  آپ سے کیا وعدہ بھول گیا تھا لہٰذا اس پر میرا مواخذہ نہ کریں ۔

18:72
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(۷۲)
کہا میں نہ کہتا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے (ف۱۵۴)

18:73
قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِیْ بِمَا نَسِیْتُ وَ لَا تُرْهِقْنِیْ مِنْ اَمْرِیْ عُسْرًا(۷۳)
کہا مجھ سے میری بھول پر گرفت نہ کرو (ف۱۵۵) اور مجھ پر میرے کام میں مشکل نہ ڈالو،

18:74
فَانْطَلَقَاٙ-حَتّٰۤى اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَهٗۙ-قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِیَّةًۢ بِغَیْرِ نَفْسٍؕ-لَقَدْ جِئْتَ شَیْــٴًـا نُّكْرًا(۷۴)
پھر دونوں چلے (ف۱۵۶) یہاں تک کہ جب ایک لڑکا ملا (ف۱۵۷) اس بندہ نے اسے قتل کردیا، موسیٰ نے کہا کیا تم نے ایک ستھری جان (ف۱۵۸) بے کسی جان کے بدلے قتل کردی، بیشک تم نے بہت بری بات کی،

{ فَانْطَلَقَا: پھر دونوں  چلے۔} یعنی کشتی سے اتر کر وہ دونوں  چلے اور ایک ایسے مقام پر گزرے جہاں  لڑکے کھیل رہے تھے۔ وہاں  انہیں  ایک لڑکا ملا جوکافی خوبصورت تھا اور حدِ بلوغ کو نہ پہنچا تھا۔ بعض مفسرین نے کہا وہ لڑکا جوان تھا اور رہزنی کیا کرتا تھا۔  حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اسے قتل کردیا۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پھر نہ رہا گیا اور آپ نے فرمایا: کیا تم نے کسی جان کے بدلے کے بغیر ایک پاکیزہ جان جس کا کوئی گناہ ثابت نہ تھا کو قتل کردیا؟ بیشک تم نے بہت ناپسندیدہ کام کیا ہے۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۲۱۹-۲۲۰، ملخصاً)

18:75
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(۷۵)
کہا (ف۱۵۹) میں نے آپ سے نہ کہا تھا کہ آپ ہرگز میرے ساتھ نہ ٹھہرسکیں گے (ف۱۶۰)

{قَالَ:کہا۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے فعل پر کلام فرمایا تو آپ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے کہا: اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، میں  نے آپ سے نہ کہا تھا کہ آپ ہرگز میرے ساتھ نہ ٹھہر سکیں  گے۔اس بار حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے کلام میں  لفظ’’لَكَ‘‘ کا اضافہ فرمایا کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے دوسری مرتبہ ان کے فعل پر کلام فرمایا تھا۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۲۲۰)

18:76
قَالَ اِنْ سَاَلْتُكَ عَنْ شَیْءٍۭ بَعْدَهَا فَلَا تُصٰحِبْنِیْۚ-قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّیْ عُذْرًا(۷۶)
کہا اس کے بعد میں تم سے کچھ پوچھوں تو پھر میرے ساتھ نہ رہنا، بیشک میری طرف سے تمہارا عذر پورا ہوچکا،

{قَالَ:موسیٰ نے کہا۔} حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات کے جواب میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کہا: اگر اس مرتبہ کے بعد میں  آپ سے کسی شے کے بارے میں  سوال کروں  تو پھر مجھے اپنا ساتھی نہ رکھنا اگرچہ میں  آپ کے ساتھ رہنے کا تقاضا کروں  اور جب میں  تیسری بار آپ کی مخالفت کروں  تو بیشک اس صورت میں  میری طرف سے آپ کے ساتھ نہ رہنے میں  آپ کا عذر پورا ہوچکا۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۶، ۵ / ۲۸۰)

تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تمنا:

            صحیح مسلم میں  ہے کہ جب حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعے کا یہ حصہ بیان کیا تو اس موقع پر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہم پر اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر  اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، اگر وہ جلدی نہ کرتے تو بہت حیران کن چیزیں  دیکھتے لیکن انہیں  حضرت خضر عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے حیاء آئی اور کہا: اگر اس مرتبہ کے بعد میں  آپ سے کسی شے کے بارے میں  سوال کروں  تو پھر مجھے ساتھی نہ بنانا، بیشک میری طرف سے تمہارا عذر پورا ہوچکا ہے۔ کاش! حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صبر کرتے تو بہت عجیب و غریب چیزیں  دیکھتے۔( مسلم، کتاب الفضائل، باب من فضائل الخضر علیہ السلام، ص۱۲۹۶، الحدیث: ۱۷۲(۲۳۸۰))

            اور ایک روایت میں  یوں  ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر رحم فرمائے، میری آرزوتھی کہ کاش! حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامصبر کرتے حتّٰی کہ  اللہ  تعالیٰ ہمیں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت خضر عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے مزید واقعات سناتا۔( مسلم، کتاب الفضائل، باب من فضائل الخضر علیہ السلام، ص۱۲۹۴، الحدیث: ۱۷۰(۲۳۸۰))

18:77
فَانْطَلَقَاٙ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَهْلَ قَرْیَةِ-ﹰاسْتَطْعَمَاۤ اَهْلَهَا فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِیْهَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗؕ-قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیْهِ اَجْرًا(۷۷)
پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب ایک گاؤں والوں کے پاس آئے (ف۱۶۱) ان دہقانوں سے کھانا مانگا انہوں نے انہیں دعوت دینی قبول نہ کی (ف۱۶۲) پھر دونوں نے اس گاؤں میں ایک دیوار پا ئی کہ گرا چاہتی ہے اس بندہ نے (ف۱۶۳) اسے سیدھا کردیا، موسیٰ نے کہا تم چاہتے تو اس پر کچھ مزدوری لے لیتے (ف۱۶۴)

{فَانْطَلَقَا:پھر دونوں  چلے۔} اس گفتگو کے بعد حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چلنے لگے یہاں  تک کہ جب ایک بستی والوں  کے پاس آئے توان حضرات نے اس بستی کے باشندوں  سے کھانا مانگا، انہوں  نے ان دونوں  کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا۔ پھر دونوں  نے اس گاؤں  میں  ایک دیوار پا ئی جو گرنے والی تھی تو حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے دستِ مبارک سے اسے سیدھا کردیا۔ یہ دیکھ کرحضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا: اگر آپ چاہتے تو اس دیوار کو سیدھی کرنے پر کچھ مزدوری لے لیتے کیونکہ یہ ہماری حاجت کا وقت ہے اور بستی والوں  نے ہماری کچھ مہمان نوازی نہیں  کی، اس لئے ایسی حالت میں  ان کا کام بنانے پر اجرت لینا مناسب تھا ۔ اس آیت میں  جس بستی کا ذکر ہوا اس کے بارے میں  حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اس بستی سے مراد ’’انطاکیہ‘‘ ہے ۔ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ’’اَیلہ‘‘ ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اندلس کا ایک شہر ہے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۲۲۰، مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۶۵۹-۶۶۰، ملتقطاً)

مہمان نوازی نہ کرنے کی مذمت:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ مہمان نوازی نہ کرنا انتہائی معیوب اور نا پسندیدہ عمل ہے اور اگر یہ عمل اجتماعی طور پر ہو تو اور بھی مذموم ہو جاتا ہے، جیسا کہ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ وہ بستی بہت بدتر ہے جہاں  مہمانوں کی میزبانی نہ کی جائے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۲۲۰)

18:78
قَالَ هٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِكَۚ-سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِیْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا(۷۸)
کہا یہ (ف۱۶۵) میری اور آپ کی جدائی ہے اب میں آپ کو ان باتوں کا پھیر (بھید) بتاؤں گا جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا (ف۱۶۶)

{قَالَ:کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی طرف سے تیسری مرتبہ اپنے فعل پر کلام سن کر حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان سے فرمایا ’’ یہ میری اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی جدائی کا وقت ہے۔ اب میں  جدا ہونے سے پہلے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ان باتوں  کا اصل مطلب بتاؤں  گا جن پر آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامصبر نہ کرسکے اور اُن کے اندر جو راز تھے ان کا اظہار کردوں  گا۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۶۶۰، جمل، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۸، ۴ / ۴۴۶، ملتقطاً)

آیت’’ قَالَ هٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِكَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…اگر اپنا قریبی ساتھی یا ماتحت شخص کوئی ایسا کام کرے جس کی وجہ سے اسے خود سے دور کرنے کی صورت بنتی ہو تو فوراً اسے دور نہ کر دے بلکہ ایک یادو مرتبہ اسے معاف کر دیا جائے اور اس سے درگزر کیا جائے اور ساتھ میں  مناسب تنبیہ بھی کر دی جائے تاکہ وہ اپنی کوتاہی یا غلطی پر آگاہ ہو جائے اور اگر وہ تیسری بار پھر وہی کام کرے تو اب چاہے تو اسے خود سے دور کر دے۔

(2)…اگر اپنے قریبی ساتھی کو خود سے دور کرے تو اسے دور کرنے کی وجہ بتا دے تاکہ اس کے پاس اعتراض کی کوئی گنجائش نہ رہے۔

 

18:79
اَمَّا السَّفِیْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا وَ كَانَ وَرَآءَهُمْ مَّلِكٌ یَّاْخُذُ كُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا(۷۹)
وہ جو کشتی تھی وہ کچھ محتاجوں کی تھی (ف۱۶۷) کہ دریا میں کام کرتے تھے، تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں اور ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا (ف۱۶۸) کہ ہر ثابت کشتی زبردستی چھین لیتا (ف۱۶۹)

{اَمَّا السَّفِیْنَةُ:وہ جو کشتی تھی۔} حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے افعال کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا ’’وہ جو میں  نے کشتی کا تختہ اکھاڑا تھا، اس سے میرا مقصد کشتی والوں  کو ڈبو دینا نہیں  تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کشتی دس مسکین بھائیوں  کی تھی، ان میں  پانچ تو اپاہج تھے جو کچھ نہیں  کرسکتے تھے اور پانچ تندرست تھے جو دریا میں  کام کرتے تھے اور اسی پر ان کے روزگار کا دارومدار تھا۔ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا اور انہیں  واپسی میں  اس کے پاس سے گزرنا تھا، کشتی والوں  کو اس کا حال معلوم نہ تھا اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہرصحیح سلامت کشتی کو زبردستی چھین لیتا اور اگر عیب دار ہوتی تو چھوڑ دیتا تھا اس لئے میں  نے اس کشتی کو عیب دار کردیا تاکہ وہ ان غریبوں  کے لئے بچ جائے۔( تفسیرکبیر، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۹، ۷ / ۴۹۰-۴۹۱، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۲۰-۲۲۱، ملتقطاً)

آیت ’’ اَمَّا السَّفِیْنَةُ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…  اللہ تعالیٰ اپنے مسکین بندوں  پرخاص عنایت اور کرم نوازی فرماتا ہے اور ان پر آنے والے مَصائب اور آفات کو دور کرنے میں  کفایت فرماتا ہے۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’مسکین لوگ امیروں  سے چالیس سال پہلے جنت میں  داخل ہوں  گے۔ اے عائشہ ! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا، مسکین (کے سوال )کو کبھی رد نہ کرنا اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو اور اے عائشہ ! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا، مسکینوں  سے محبت رکھنا اور انہیں  اپنے قریب کرنا (کہ ایسا کرنے سے)  اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے اپنا قرب نصیب فرمائے گا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء انّ فقراء المہاجرین یدخلون الجنّۃ قبل اغنیائہم، ۴ / ۱۵۷، الحدیث: ۲۳۵۹)

(2)…بڑے نقصان اور بڑی تکلیف سے بچنے کے لئے چھوٹے نقصان اور چھوٹی تکلیف کو برداشت کر لینا بہتر ہے، جیسے یہاں  مسکینوں  نے چھوٹے نقصان یعنی کشتی کا تختہ اکھاڑ دئیے جانے کو برداشت کیا تو وہ بڑے نقصان یعنی پوری کشتی چھن جانے سے بچ گئے ۔

18:80
وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَاۤ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّ كُفْرًاۚ(۸۰)
اور وہ جو لڑکا تھا اس کے ماں باپ مسلمان تھے تو ہمیں ڈر ہوا کہ وہ ان کو سرکشی اور کفر پر چڑھاوے (ف۱۷۰)

{وَ اَمَّا الْغُلٰمُ:اور وہ جو لڑکا تھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے دوسرے فعل کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا کہ وہ لڑکا جسے میں  نے قتل کیا تھا، اس کے ماں  باپ مسلمان تھے تو ہمیں  ڈر ہوا کہ وہ بڑا ہوکر انہیں  بھی سرکشی اور کفر میں  ڈال دے گا اور وہ اس لڑکے کی محبت میں  دین سے پھر جائیں  اور گمراہ ہوجائیں  گے، اس لئے ہم نے چاہا کہ ان کا رب عَزَّوَجَلَّ اس لڑکے سے بہتر ،گناہوں  اور نجاستوں  سے پاک اور ستھرا اور پہلے سے زیادہ اچھا لڑکا عطا فرمائے جو والدین کے ساتھ ادب سے پیش آئے، ان سے حسنِ سلوک کرے اور ان سے دلی محبت رکھتا ہو۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۱، ۵ / ۲۸۵، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۱، ۳ / ۲۲۱، ملتقطاً)

            یاد رہے کہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا یہ اندیشہ اس سبب سے تھا کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے خبر دینے کی وجہ سے اس لڑکے کے باطنی حال کو جانتے تھے۔( جمل، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۰، ۴ / ۴۴۷)مسلم شریف میں حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس لڑکے کو حضرت خضر عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قتل کر دیا تھا وہ  کافر ہی پیدا ہوا تھا اگر وہ زندہ رہتا تو اپنے ماں  باپ کو کفر اور سرکشی میں  مبتلا کر دیتا۔( مسلم، کتاب القدر، باب کلّ مولود یولد علی الفطرۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۰، الحدیث: ۲۹(۲۶۶۱))

باطن کا حال جان کر کسی کو قتل کرنا جائز ہے یا نہیں  ؟

            یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے زمانے میں  اگر کوئی ولی کسی کے ایسے باطنی حال پر مطلع ہوجائے کہ یہ آگے جا کر کفر اختیار کر لے گا اور دوسروں  کو کافر بھی بنا دے گا اور اس کی موت بھی حالتِ کفر میں  ہوگی تو وہ ولی اس بنا پر اسے قتل نہیں  کر سکتا، جیسا کہ امام سُبکیرَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  کہ باطن کاحال جان کر بچے کو قتل کردینا حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ خاص ہے، انہیں  اس کی اجازت تھی ۔اب اگر کوئی ولی کسی بچے کے ایسے حال پر مطلع ہو تو اُس کے لئے قتل کرنا جائز نہیں  ہے۔( جمل، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۰، ۴ / ۴۴۸)

{خَیْرًا مِّنْهُ زَكٰوةً:پاکیزگی میں  پہلے سے بہتر۔} مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  اس کے بدلے ایک مسلمان لڑکا عطا کیا اور ایک قول یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  ایک بیٹی عطا کی جو ایک نبی عَلَیْہِ  السَّلَام کے نکاح میں  آئی اور اس سے نبی عَلَیْہِ  السَّلَام پیدا ہوئے جن کے ہاتھ پر  اللہ تعالیٰ نے ایک اُمت کو ہدایت دی۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۲۲۱)

آیت’’فَاَرَدْنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… بندے کو  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قضا پر راضی رہنا چاہئے کہ اسی میں  بہتری ہوتی ہے۔ اسی بات کو ایک اور آیتِ مبارکہ میں  اس طرح بیان کیاگیا ہے کہ: ’’وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ-وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۱۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں  ناپسند ہو حالانکہ وہ تمہارے حق میں  بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں  پسند آئے حالانکہ وہ تمہارے حق میں  بری ہو اور  اللہ  جانتا ہے اور تم نہیں  جانتے۔

(2)… بسا اوقات  اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی محبوب اور پسندیدہ چیزوں میں  سے کوئی چیز لے لیتا ہے کیونکہ اس چیز میں  بندے کا نقصان ہوتا ہے اور وہ اس کے نقصان سے غافل ہوتا ہے، پھر اگر وہ صبر کرے اور  اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے تو  اللہ تعالیٰ اس چیز کے بدلے اس سے بہتر چیز عطا کر دیتا ہے جس میں  مومن بندے کا نفع ہوتا ہے نقصان نہیں  ہوتا اور یہ  اللہ تعالیٰ کا اپنے مومن بندوں  پر ایک بہت بڑا احسان ہے۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۱، ۵ / ۲۸۶، ملخصاً)

 

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْـكَهْف
اَلْـكَهْف
  00:00



Download

اَلْـكَهْف
اَلْـكَهْف
  00:00



Download