Surah Al-Kahf
{وَ اَمَّا الْجِدَارُ:اور بہرحال دیوار۔} حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے تیسرے فعل یعنی دیوار سیدھی کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’اور بہرحال دیوار کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ شہرکے دو یتیم لڑکوں کی تھی جن کے نام اصرم اور صریم تھے اور اس دیوار کے نیچے ان دونوں کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا تو اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں اور اُن کی عقل کا مل ہوجائے اور وہ قوی و توانا ہوجائیں اور اپنا خزانہ نکالیں یہ سب اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے ہے اور جو کچھ میں نے کیا وہ میری اپنی مرضی سے نہ تھا بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے حکم سے تھا۔یہ ان باتوں کا اصل مطلب ہے جس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صبر نہ کرسکے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۲۱-۲۲۲، ملخصاً)
یتیم کے ساتھ نیکی کرنے کا ثواب:
اس سے معلوم ہو اکہ یتیموں کے ساتھ نیکی کرنی چاہئے اور ان کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا چاہئے جس میں ان کا بھلا ہو۔ اَحادیث میں یتیم کے ساتھ نیکی کرنے والے کے لئے بہت اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں میں سے جو شخص کسی یتیم کے کھانے پینے کی کفالت کرے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا مگر یہ کہ وہ کوئی ایسا گناہ کرے جس کی بخشش نہ ہو۔( ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الیتیم وکفالتہ، ۳ / ۳۶۸، الحدیث: ۱۹۲۴)اور حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور ا س کی عزت کی جاتی ہو۔( معجم الکبیر، عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما۔۔۔ الخ، محمد بن طلحۃ عن ابن عمر، ۱۲ / ۳۸۸، الحدیث: ۱۳۴۳۴)
{وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا:اور اس دیوار کے نیچے ان دونوں کا خزانہ تھا۔} ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ اس دیوار کے نیچے سونا اور چاندی مدفون تھا۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الکہف، ۵ / ۱۰۳، الحدیث: ۳۱۶۳)
عبرت انگیز عبارات:
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ اس (خزانے) میں سونے کی ایک تختی تھی، اس پر ایک طرف لکھا تھا ’’اس شخص کا حال عجیب ہے جسے موت کا یقین ہو، اسے (اپنی قلیل اور مختصر زندگی پر) خوشی کس طرح ہوتی ہے۔ اس شخص کا حال عجیب ہے جو قضاو قدر کا یقین رکھتا ہو ،اس کو (نعمت چھن جانے اور مصیبت آنے پر) غصہ کیسے آتا ہے۔ اس شخص کا حال عجیب ہے جسے رزق کا یقین ہو، وہ کیوں (اسے حاصل کرنے کی) مشقت میں پڑتا ہے۔ اس شخص کا حال عجیب ہے جسے حساب کا یقین ہو ،وہ(اپنے حساب سے) کیسے غافل رہتا ہے (اور دنیا کا مال و متاع زیادہ کرنے میں کیوں مشغول ہوتا ہے)۔ اس شخص کا حال عجیب ہے جسے دنیا کے زوال و تغیر کا یقین ہو، وہ (اس پر) کیسے مطمئن ہوتا ہے اور اس کے ساتھ لکھا تھا ’’ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘اور دوسری جانب اس لَوح پر لکھا تھا ’’میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں یکتا ہوں میرا کوئی شریک نہیں ،میں نے خیرو شر کو پیدا کیا ، تواس کے لئے خوشی ہے جسے میں نے خیر کے لئے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں پر خیر جاری کی، اس کے لئے تباہی ہے جسے میں نے شر کے لئے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں پر شر جاری کیا۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۲۱)
{وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا:اور ان کا باپ نیک آدمی تھا۔} اس کا نام کاشِح تھا اور یہ شخص پرہیزگار تھا۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۲۱)علماء فرماتے ہیں وہ ان بچوں کاآٹھویں یا دسویں پشت میں باپ تھا۔( فتاویٰ رضویہ، ۲۳ / ۲۴۰)
باپ کے تقویٰ اور پرہیزگاری کا فائدہ:
یاد رہے کہ باپ کے تقویٰ و پرہیز گاری کے نتیجے میں ا س کی اولاد در اولاد کو دنیا میں فائدہ ہوتا ہے، جیساکہ حضرت عبداللّٰہبن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ آدمی کے نیک ہونے کی وجہ سے اس کی اولاد در اولاد کی بہتری فرما دیتا ہے اور اس کی نسل اور اس کے ہمسایوں میں اس کی رعایت فرما دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پردہ پوشی اور امان میں رہتے ہیں ۔( در منثور، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵ / ۴۲۲)
اور حضرت محمد بن منکدر رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ بندے کی نیکی سے اس کی اولاد کو اوراس کی اولاد کی اولاد کو اور اس کے کنبہ والوں کو اور اس کے محلہ داروں کو اپنی حفاظت میں رکھتا ہے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۲۱)
یونہی باپ کا نیک پرہیزگار ہونا آخرت میں بھی اس کی اولاد کو نفع دیتا ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ‘‘(طور:۲۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی (جس) اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی توہم ان کی اولاد کو ان کےساتھ ملادیں گے اور ان( والدین) کے عمل میں کچھ کمی نہ کریں گے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بیشک اللہ تعالیٰ مومن کی ذُرِّیَّت کو اس کے درجہ میں اس کے پاس اٹھالے گا اگرچہ وہ عمل میں اس سے کم ہو تا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔( جامع الاحادیث، حرف الہمزۃ، ۲ / ۴۹۵، الحدیث: ۶۸۳۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب آدمی جنت میں جائے گا تواپنے ماں باپ،بیوی اور اولاد کے بارے میں پوچھے گا۔ ارشاد ہوگا کہ وہ تیرے درجے اور عمل کو نہ پہنچے۔ عرض کرے گا ’’اے میرے رب ! عَزَّوَجَلَّ، میں نے اپنے اور ان کے سب کے نفع کے لئے اعمال کئے تھے۔ اس پر حکم ہوگا کہ وہ اس سے ملادئیے جائیں ۔( معجم صغیر، باب العین، من اسمہ: عبد اللّٰہ، ص۲۲۹، الجزء الاوّل)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جب عام صالحین کی صلاح (یعنی تقویٰ و پرہیزگاری) ان کی نسل واولاد کو دین ودنیا وآخرت میں نفع دیتی ہے تو صدیق وفاروق وعثمان وعلی وجعفر وعباس وانصار کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی صلاح کا کیا کہنا جن کی اولاد میں شیخ، صدیقی وفاروقی وعثمانی وعلوی وجعفری وعباسی وانصاری ہیں ۔ یہ کیوں نہ اپنے نسبِ کریم سے دین ودنیا وآخرت میں نفع پائیں گے۔ پھر اللہ اکبر حضرات عُلْیَہ سادات کرام اولادِ امجاد حضرت خاتونِ جنت بتول زہرا کہ حضور پُر نور، سیدالصالحین ،سید العالمین ،سید المرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کے بیٹے ہیں کہ ان کی شان تو ارفع واعلیٰ وبلند وبالا ہے۔( فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۲۴۳-۲۴۴)
{ذٰلِكَ تَاْوِیْلُ مَا:یہ ان باتوں کا اصل مطلب ہے ۔} حضرت عبد اللہ بن احمد نسفیرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بعض لوگ (اس آیت کی وجہ سے ) ولی کو نبی پر فضیلت دے کر گمراہ ہوگئے اوردر حقیقت ولی کو نبی پر فضیلت دینا کفر ِجَلی ہے، ان لوگوں نے یہ خیال کیا کہ حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو حضرتِ خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا حالانکہ حضرت خضرعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ولی ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی ہیں اور اگر ایسا نہ ہو جیسا کہ بعض کا گمان ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حق میں اِبتلا یعنی آزمائش ہے۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ص۶۶۱)
حضرت خضرعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندہ ہیں :
یہاں یہ یاد رہے کہ اکثر علماء کا مَوقف یہ ہے ،نیز مشائخ صوفیہ اور اصحابِ عرفان کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامزندہ ہیں ۔ شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاویٰ میں فرمایا کہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جمہور علماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں ۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر اور حضرت الیاس عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ یہ بھی منقول ہے کہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا۔ و اللہ تعالٰی اعلم(خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۲۲)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’چار نبی زندہ ہیں کہ اُن کو وعدۂ الٰہیہ ابھی آیا ہی نہیں ، یوں تو ہر نبی زندہ ہے: اِنَّ اللہ حرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاءِ فَنَبِیُّ اللہ حَیٌّ یُّرْزَقُ۔ بے شک اللہ نے حرام کیا ہے زمین پر کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسموں کوخراب کرے تو اللہ کے نبی زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں ۔( ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۲۹۱، الحدیث: ۱۶۳۷)اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر ایک آن کو محض تصدیقِ وعدئہ الٰہیہ کے لیے موت طاری ہوتی ہے، بعد اِس کے پھر اُن کو حیاتِ حقیقی حِسّی دُنْیَوی عطا ہوتی ہے۔ خیر اِن چاروں میں سے دو آسمان پر ہیں اور دو زمین پر۔ خضر و الیاس عَلَیْہِمَا السَّلَام زمین پر ہیں اور ادریس و عیسیٰ عَلَیْہِمَا السَّلَام آسمان پر۔( ملفوظات، حصہ چہارم، ص۴۸۴)
{وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ:اور آپ سے سوال کرتے ہیں ۔} سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 85 کی تفسیر میں بیان ہو اتھا کہ کفارِ مکہ نے یہودیوں کے مشورے سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اصحابِ کہف اور حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں سوال کیا۔ سورۂ کہف کی ابتدا میں اصحابِ کہف کا قصہ تفصیل سے بیان کر دیا گیا اور اب حضرت ذوالقر نینرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں بتایا جارہا ہے۔
حضرت ذوالقرنینرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا مختصر تعارف:
آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا نام اسکندر اور ذوالقر نین لقب ہے۔ مفسرین نے اس لقب کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں ، ان میں سے 4 یہاں بیان کی جاتی ہیں :
(1)…آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سورج کے طلوع اور غروب ہونے کی جگہ تک پہنچے تھے۔
(2)… آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے سر پر دو چھوٹے ابھار سے تھے ۔
(3)…انہیں ظاہری و باطنی علوم سے نوازا گیا تھا ۔
(4)… یہ ظلمت اور نور میں داخل ہوئے تھے۔
یہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خالہ زاد بھائی ہیں ، اُنہوں نے اسکندریہ شہر بنایا اور اس کا نام اپنے نام پر رکھا۔ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے وزیر اور صاحبِ لِواء تھے۔ دنیا میں چار بڑے بادشاہ ہوئے ہیں ، ان میں سے دو مومن تھے، حضرت ذوالقرنینرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت سلیمان عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور دو کافر تھے نمرود اور بُختِ نصر، اور پانچویں بڑے بادشاہ حضرت امام مہدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہوں گے، اُن کی حکومت تمام روئے زمین پر ہوگی۔ حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی نبوت میں اختلاف ہے ، حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ وہ نہ نبی تھے نہ فرشتے بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرنے والے بندے تھے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں محبوب بنایا۔( جمل، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۳، ۴ / ۴۵۱، مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۶۶۱، قرطبی، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۳،۵ / ۳۴۰، الجزء العاشر، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۳، ۳ / ۲۲۲-۲۲۳)
{اِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ:بیشک ہم نے اسے زمین میں اقتدار دیا۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو زمین میں اقتدار دیا اور اسے ہر چیز کا ایک سامان یا اس کے حصول کا ایک طریقہ عطا فرمایا اور جس چیز کی مخلوق کو حاجت ہوتی ہے اور جو کچھ بادشاہوں کو ملک اور شہر فتح کرنے اور دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنے میں درکار ہوتا ہے وہ سب عنایت کیا۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۲۲۳)
{سَبَبًا:سبب۔}سبب سے مراد وہ چیز ہے جو مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ ہوخواہ وہ علم ہو ، قدرت ہو یا آلات ہوں ، تو حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جس مقصد کا ارادہ کیا اسی کا سبب اختیار کیا، چنانچہ جب آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے مغرب کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو اس کے لئے وہ راستہ اختیار کیا جو انہیں وہاں تک پہنچا دے ،جیسا کہ اس آیت میں ہے ، اور جب انہوں نے مشرق کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو وہ اس راستے پر چلے جو انہیں مشرق تک پہنچا دے۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۵، ص۶۶۲، بیضاوی، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۵۲۰، ملتقطاً)
{وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَةٍ:اسے ایک سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا ہواپایا ۔} حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے سفر کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ انہوں نے کتابوں میں دیکھا تھا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے سام کی اولاد میں سے ایک شخص چشمۂ حیات سے پانی پئے گا اور اس کو موت نہ آئے گی۔ یہ دیکھ کر وہ چشمۂ حیات کی طلب میں مغرب و مشرق کی طرف روانہ ہوئے ، اس سفر میں آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامبھی تھے، وہ تو چشمۂ حیات تک پہنچ گئے اور انہوں نے اس میں سے پی بھی لیا مگر حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے مقدر میں نہ تھا اس لئے انہوں نے وہ چشمہ نہ پایا ۔ اس سفر میں مغرب کی جانب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی ہے وہ سب منزلیں طے کر ڈالیں اور مغرب کی سمت میں وہاں تک پہنچے جہاں آبادی کا نام و نشان باقی نہ رہا ، وہاں انہیں سورج غروب ہوتے وقت ایسا نظر آیا گویا کہ وہ سیاہ چشمہ میں ڈوبتا ہے جیسا کہ دریائی سفر کرنے والے کو پانی میں ڈوبتا معلوم ہوتا ہے۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۶۶۲، جمل، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۶، ۴ / ۴۵۲-۴۵۳، ملتقطاً)
{وَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا:اور اس چشمے کے پاس ہی ایک قوم کو پایا۔} حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس چشمے کے پاس ہی ایک ایسی قوم کو پایا جو شکار کئے ہوئے جانوروں کے چمڑے پہنے تھے، اس کے سوا اُن کے بدن پر اور کوئی لباس نہ تھے اور دریائی مردہ جانور اُن کی غذا تھے۔ یہ لوگ کافر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اِلہام کے طور پرفرمایا: اے ذوالقرنین! یا تو تُو انہیں سزا دے اور اُن میں سے جو اسلام میں داخل نہ ہو اس کو قتل کردے یا اگر وہ ایمان لائیں تو ان کے بارے میں بھلائی اختیار کر اور انہیں اَحکامِ شرع کی تعلیم دے ۔ بعض مفسرین کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے یہ کلام اپنے کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا اور انہوں نے حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ بات کہی۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۶۶۲)
{قَالَ:کہا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ذوالقر نین نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملنے کے بعد ان نبی عَلَیْہِ السَّلَام سے عرض کی یا اپنے پاس موجود خاص ساتھیوں سے کہا ’’بہرحال جس نے کفرو شرک اختیار کیا اور میری دعوت کو ٹھکرا کر ایمان نہ لایا تو عنقریب ہم اسے قتل کردیں گے، یہ تو اس کی دُنْیَوی سزا ہے ، پھر وہ قیا مت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے جہنم کابہت برا عذاب دے گا اور جو ایمان لایا اور اس نے ایمان کے تقاضوں کے مطابق نیک عمل کیا تو اس کیلئے جزا کے طور پر بھلائی یعنی جنت ہے اور عنقریب ہم اس ایمان والے کو آسان کام کہیں گے اور اس کو ایسی چیزوں کا حکم دیں گے جو اس پر سہل ہوں دشوار نہ ہوں ۔( ابو سعود، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۷-۸۸، ۳ / ۴۰۳، مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۷-۸۸، ص۶۶۲، جلالین، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۷-۸۸، ص۲۵۱، ملتقطاً)
{ثُمَّ:پھر۔} یعنی حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ مشرق کی طرف ایک راستے کے پیچھے چلے۔( جلالین، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۹، ص۲۵۱)
{سِتْرًا:آڑ۔} مفسرین فرماتے ہیں کہ وہ قوم اس جگہ پر تھی جہاں ان کے اور سورج کے درمیان کوئی چیز پہاڑ درخت وغیرہ حائل نہ تھی اور نہ وہاں زمین کی نرمی کی وجہ سے کوئی عمارت قائم ہو سکتی تھی اور وہاں کے لوگوں کا یہ حال تھا کہ طلوعِ آفتاب کے وقت زمین کے اندر بنائے ہوئے تہ خانوں میں گھس جاتے تھے اور زوال کے بعد نکل کر اپنا کام کاج کرتے تھے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۲۲۴، روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۰، ۵ / ۲۹۴، ملتقطاً)
{ كَذٰلِكَ:بات اسی طرح ہے۔} یعنی حضرت ذوالقر نین کی بادشاہی کی وسعت اور ان کا بلند مرتبہ جو ہم نے بیان کیا ان کا معاملہ اسی طرح ہے۔ مفسرین نے ’’ كَذٰلِكَ ‘‘ کے معنی میں یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جیسا مغربی قوم کے ساتھ سلوک کیا تھا ایسا ہی اہلِ مشرق کے ساتھ بھی کیا کیونکہ یہ لوگ بھی ان کی طرح کافر تھے توجوان میں سے ایمان لائے اُن کے ساتھ احسان کیا اور جوکفر پراڑے رہے انہیں سزا دی۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۱، ۵ / ۲۹۵)
{وَ قَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَیْهِ خُبْرًا:اور جو کچھ اس کے پاس تھا سب کو ہمارا علم محیط ہے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ حضرت ذوالقر نین کے پاس جو فوج ،لشکر، آلاتِ جنگ اور سامانِ سلطنت وغیرہ تھا سب ہمارے علم میں ہے ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جب ہم نے حضرت ذوالقرنین کو اقتدار عطا کیا تو اس وقت ا س کے پاس جتنی ملک داری کی قابلیت اور اُمورِ مملکت سر انجام دینے کی لیاقت تھی سب ہمیں معلوم تھی۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۲۲۴)
{ثُمَّ:پھر۔} حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ جب مشرق و مغرب تک پہنچ گئے تو اب کی بار انہوں نے شمال کی جانب سفر شروع فرمایا یہاں تک کہ وہ دو پہاڑوں کے درمیان تک جا پہنچے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ علم اور قدرت کی وجہ سے واقع ہوا۔( تفسیرکبیر، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۲، ۷ / ۴۹۸، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۲-۹۳، ۳ / ۲۲۴)
{وَجَدَ:اس نے پایا۔} جب حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ شمال کی جانب ا س جگہ پہنچے جہاں انسانی آبادی ختم ہو جاتی تھی تووہاں دو بڑے عالیشان پہاڑ دیکھے جن کے اُس طرف یاجوج ماجوج کی قوم آباد تھی جو کہ دو پہاڑوں کے درمیانی راستے سے اِس طرف آکر قتل و غارت کیا کرتی تھی۔ یہ جگہ ترکستان کے مشرقی کنارہ پر واقع تھی۔ یہاں حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک ایسی قوم کو پایا جو کوئی بات سمجھتے معلوم نہ ہوتے تھے کیونکہ اُن کی زبان عجیب و غریب تھی اس لئے اُن کے ساتھ اشارہ وغیرہ کی مدد سے بہ مشقت بات کی جاسکتی تھی۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۳،۵ / ۲۹۶-۲۹۷، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۳، ۳ / ۲۲۴، ملتقطاً)
{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} ان لوگوں نے کسی ترجمان کے ذریعے یا بلاواسطہ حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس طور پر گفتگو کی کہ آپ ان کا کلام سمجھ سکتے تھے۔ آپ کا ان لوگوں کی زبان کو سمجھ لینا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ جملہ اَسباب میں سے ہے۔( ابو سعود، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۴۰۴)
{اِنَّ یَاْجُوْجَ وَ مَاْجُوْجَ:بیشک یاجوج اور ماجوج۔} یہیافث بن نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے فسادی گروہ ہیں ، اِن کی تعداد بہت زیادہ ہے، زمین میں فساد کرتے تھے ،بہار کے موسم میں نکلتے تھے تو کھیتیاں اور سبزے سب کھا جاتے اور ان میں سے کچھ نہ چھوڑتے تھے اور خشک چیزیں لاد کر لے جاتے تھے، یہ لوگ آدمیوں کو کھالیتے تھے اور درندوں ، وحشی جانوروں ، سانپوں اور بچھوؤں تک کو کھا جاتے تھے۔ حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے لوگوں نے ان کی شکایت کی کہ وہ زمین میں فساد مچانے والے لوگ ہیں تو کیا ہم آپ کے لیے اس بات پر کچھ مال مقرر کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادیں تاکہ وہ ہم تک نہ پہنچ سکیں اور ہم ان کے شرواِیذا سے محفوظ رہیں ۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۲۲۴-۲۲۵، روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۵ / ۲۹۷-۲۹۸، ملتقطاً)
{ قَالَ:کہا۔} حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے فرمایا’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے میرے پاس کثیر مال اور ہرقسم کا سامان موجود ہے تم سے کچھ لینے کی حاجت نہیں ، البتہ تم جسمانی قوت کے ساتھ میری مدد کرو اور جو کام میں بتاؤں وہ انجام دو ،میں تم میں اور ان میں ایک مضبوط رکاوٹ بنادوں گا۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۶۶۳-۶۶۴، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۵، ۳ / ۲۲۵، ملتقطاً)
{ اٰتُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِ:میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لاؤ ۔} ان لوگوں نے عرض کی: پھر ہمارے متعلق کیا خدمت ہے؟ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’میرے پاس پتھر کے سائز کے لوہے کے ٹکڑے لاؤ ۔جب وہ لے آئے تواس کے بعد ان سے بنیاد کھدوائی ، جب وہ پانی تک پہنچی تو اس میں پتھر پگھلائے ہوئے تانبے سے جمائے گئے اور لوہے کے تختے اوپر نیچے چن کر اُن کے درمیان لکڑی اور کوئلہ بھروا دیا اور آگ دے دی اس طرح یہ دیوار پہاڑ کی بلندی تک اونچی کردی گئی اور دونوں پہاڑوں کے درمیان کوئی جگہ نہ چھوڑی گئی، پھر اوپر سے پگھلایا ہوا تانبہ دیوار میں پلا دیا گیا تو یہ سب مل کر ایک سخت جسم بن گیا۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۳ / ۲۲۵-۲۲۶، مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۶۶۴، جلالین، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۲۵۲، ملتقطاً)
{ فَمَا اسْطَاعُوْۤا اَنْ یَّظْهَرُوْهُ:تو یاجوج و ماجوج اس پر نہ چڑھ سکے۔} جب حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیوار مکمل کر لی تو یاجوج اور ماجوج آئے اور انہوں نے اس دیوار پر چڑھنے کا ارادہ کیا تو اس کی بلندی اور ملائمت کی وجہ سے اس پر نہ چڑھ سکے، پھر انہوں نے نیچے سے اس میں سوراخ کرنے کی کوشش کی تو اس دیوار کی سختی اور موٹائی کی وجہ سے اس میں سوراخ نہ کر سکے۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۷، ۵ / ۲۹۹)
{قَالَ:کہا۔} حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ یہ دیوار میرے ربعَزَّوَجَلَّ کی رحمت اور اس کی نعمت ہے کیونکہ یہ یاجوج اور ماجوج کے نکلنے میں رکاوٹ ہے، پھر جب میرے رب کا وعدہ آئے گا اور قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کے خُروج کا وقت آپہنچے گا تو میرا رب عَزَّوَجَلَّ اس دیوار کو پاش پاش کردے گا اور میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے ان کے نکلنے کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ اور اس کے علاوہ ہر وعدہ سچا ہے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۸، ۳ / ۲۲۶، جلالین، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۸، ص۲۵۲، ملتقطاً)
یاجوج اور ماجوج کے نکلنے سے متعلق ترمذی شریف میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’یاجوج ماجوج روزانہ اس دیوار کوکھودتے رہتے ہیں حتّٰی کہ جب اسے توڑنے کے قریب ہوتے ہیں تو ان کا سردار کہتا ہے :اب واپس چلو ،باقی کل توڑ لیں گے ۔ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے بہتر کر دیتا ہے یہاں تک کہ جب ان کی مدت پوری ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں پر بھیجنا چاہے گا تو ان کا سردار کہے گا: واپس لوٹ جاؤ، اِنْ شَآءَ اللہ !کل تم اسے توڑ ڈالو گے۔ (یہ بات) وہ اِستثناء (یعنی اِنْ شَآءَ اللّٰہ)کے ساتھ کہے گا۔ (دوسرے دن) جب وہ واپس آئیں گے تو اسے ویسے ہی پائیں گے جس طرح چھوڑ کر گئے تھے، چنانچہ وہ اسے توڑ کر باہر لوگوں پر نکل آئیں گے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الکہف، ۵ / ۱۰۴، الحدیث: ۳۱۶۴)
دنیا فنا ہونے سے پہلے یاجوج و ماجوج کا نکلنا:
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں ’’ بعد ِقتلِ دجّال حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو حکمِ الٰہی ہوگا کہ مسلمانوں کو کوہِ طور پر لے جاؤ، اس لیے کہ کچھ ایسے لوگ ظاہر کیے جائیں گے، جن سے لڑنے کی کسی کو طاقت نہیں ۔ مسلمانوں کے کوہِ طور پر جانے کے بعد یاجوج و ماجوج ظاہر ہوں گے، یہ اس قدر کثیر ہوں گے کہ ان کی پہلی جماعت بُحَیْرَۂ طَبَرِیَّہ پر (جس کا طول دس میل ہو گا) جب گزرے گی، اُس کا پانی پی کر اس طرح سکھادے گی کہ دوسری جماعت بعد والی جب آئے گی تو کہے گی: کہ یہاں کبھی پانی تھا!۔ پھر دنیا میں فساد و قتل و غارت سے جب فرصت پائیں گے تو کہیں گے کہ زمین والوں کو تو قتل کرلیا، آؤ اب آسمان والوں کو قتل کریں ، یہ کہہ کر اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے، خداکی قدرت کہ اُن کے تیر اوپر سے خون آلودہ گریں گے۔ یہ اپنی اِنہیں حرکتوں میں مشغول ہوں گے اور وہاں پہاڑ پر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام مع اپنے ساتھیوں کے محصور ہوں گے، یہاں تک کہ اُن کے نزدیک گائے کے سر کی وہ وقعت ہوگی جو آج تمہارے نزدیک سو اشرفیوں کی نہیں ، اُس وقت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام مع اپنے ہمراہیوں کے دعا فرمائیں گے، اللّٰہتعالیٰ اُن کی گردنوں میں ایک قسم کے کیڑے پیدا کر دے گا کہ ایک دم میں وہ سب کے سب مر جائیں گے، اُن کے مرنے کے بعد حضرت عیسیٰعَلَیْہِ السَّلَام پہاڑ سے اتریں گے، دیکھیں گے کہ تمام زمین اُن کی لاشوں اور بدبو سے بھری پڑی ہے، ایک بالشت بھی زمین خالی نہیں ۔ اُس وقت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام مع ہمراہیوں کے پھر دعا کریں گے، اللہ تعالیٰ ایک قسم کے پرند بھیجے گا کہ وہ ان کی لاشوں کو جہاں اللّٰہ(عَزَّوَجَلَّ)چاہے گا پھینک آئیں گے اور اُن کے تیر و کمان و ترکش کو مسلمان سات برس تک جلائیں گے۔( بہار شریعت، حصہ اول، معاد وحشر کابیان، ۱ / ۱۲۴-۱۲۵)
{وَ تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ یَوْمَىٕذٍ:اور اس دن ہم انہیں چھوڑ دیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ جب دیوار ٹوٹ جائے گی تو اس دن ہم یاجوج اور ماجوج کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ ان کا ایک گروہ دوسرے پر اس طرح آئے گا جس طرح پانی کی لہر ایک دوسرے پر آتی ہے اور وہ اپنی کثیر تعداد کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہوں گے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۲۲۶)
{وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ:اور صُور میں پھونک ماری جائے گی۔} اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یا جوج ماجوج کا نکلنا قربِ قیامت کے علامات میں سے ہے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۲۲۶)
{فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًا:تو ہم سب کو جمع کر لائیں گے۔}یعنی ہم قیامت کے دن تمام مخلوق کو عذاب و ثواب کے لئے جمع کر لائیں گے۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۶۶۴، روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۹۹، ۵ / ۳۰۱، ملتقطاً)
{وَ عَرَضْنَا جَهَنَّمَ یَوْمَىٕذٍ:اور ہم اس دن جہنم لائیں گے۔} یعنی جس دن ہم تمام مخلوق کو جمع کریں گے اس دن جہنم کافروں کے سامنے لائیں گے تاکہ وہ اسے صاف دیکھیں اور اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑناسنیں ۔( ابو سعود، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۴۰۷)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ اَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًاۚ(۱۱) اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۭ بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّ زَفِیْرًا‘‘(فرقان:۱۱،۱۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے قیامت کو جھٹلانے والوں کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ جب وہ آگ انہیں دور کی جگہ سے دیکھے گی تو کافر اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑناسنیں گے۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن جہنم کو لایا جائے گا، اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کو ستر ہزار فرشتے پکڑ کر کھینچ رہے ہوں گے۔( مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب فی شدۃ حرّ نار جہنّم وبعد قعرہا وما تأخذ من المعذّبین، ص۱۵۲۳، الحدیث: ۲۹(۲۸۴۲))
{اَلَّذِیْنَ:وہ لوگ جو۔} اس سے پہلی آیت میں کفار کے بارے میں فرمایا کہ ہم قیامت کے دن ان کے سامنے جہنم لائیں گے،اب اس آیت میں کافروں کے بارے میں مزید فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں میری یاد سے پردے میں تھیں اور وہ آیاتِ الٰہیہ اور قرآن ،ہدایت و بیان ، دلائلِ قدرت اور ایمان سے اندھے بنے رہے اور ان میں سے کسی چیز کو وہ نہ دیکھ سکے اور اپنی بدبختی کی وجہ سے رسول کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ عداوت رکھنے کے باعث حق بات سن نہ سکتے تھے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۲۲۶-۲۲۷)
{اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:تو کیا کافر سمجھتے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا کافر یہ سمجھتے ہیں کہ میرے بندوں جیسے حضرت عیسیٰ، حضرت عزیر عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتوں کو میرے سوا حمایتی بنالیں گے اور ان سے کچھ نفع پائیں گے؟ ان کایہ گمان فاسد ہے ،بلکہ وہ بندے انہیں اپنا دشمن سمجھتے اور ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۵ / ۳۰۳، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۳ / ۲۲۷، ملتقطاً)اور کافروں کا گمان فاسد ہونے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیاء رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مْ اور ملائکہ، ایمان والوں کے مددگار ہوکر ان کی شفاعت کریں گے نہ کہ کافروں کی۔
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا ہم تمہیں بتادیں کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے عمل کرنے میں مشقتیں اُٹھائیں اور یہ امید کرتے رہے کہ ان اعمال پر فضل و عطا سے نوازے جائیں گے مگر ا س کی بجائے ہلاکت و بربادی میں جا پڑے ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا وہ لوگ یہودی اور عیسائی ہیں ۔بعض مفسرین نے کہا کہ وہ راہب لوگ ہیں جو گرجوں میں خَلْوَت نشین رہتے تھے ۔ حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ یہ لوگ اہلِ حَروراء یعنی خارجی لوگ ہیں ۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۳ / ۲۲۷، روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۵ / ۳۰۴، ملتقطاً)اورحقیقت میں سب ایک ہی مفہوم کی مختلف تعبیریں ہیں کیونکہ اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو عبادت یا ظاہری اچھے اعمال میں محنت و مشقت تو کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ کسی ایسی چیز کا مرتکب بھی ہوتا ہے جس سے اس کا عمل مردود ہوجائے جیسے کفر۔
ظاہری اعمال اچھے ہونا حق پر ہونے کی دلیل نہیں :
اس سے اشارۃً یہ معلوم ہو اکہ کسی کے ظاہری اعمال اچھے ہونا اس کے حق پر ہونے کی دلیل نہیں ، اور صحیح بخاری میں تو خارجیو ں سے متعلق صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے ارشاد فرمایا ’’ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے مقابلے میں اور اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابلے میں حقیر جانو گے ،یہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔( بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوّۃ فی الاسلام، ۲ / ۵۰۳، الحدیث: ۳۶۱۰)
خارجیوں کا مختصر تعارف :
خارجیوں میں سب سے پہلا اور ان میں سب سے بدتر شخص ذُوالْخُوَیصِرَہ تمیمی تھا۔ اس نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تقسیم پر اعتراض کر کے آپ کی شان میں گستاخی کی تھی ۔ اس کے اور ا س کے ساتھیوں کے بارے میں حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ اسی وجہ سے انہیں خارجی یعنی دین سے نکل جانے والا کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ ظاہری طور پر بڑے عبادت گزار، شب بیدار تھے اور ان کی عبادت و ریاضت اور تلاوت ِقرآن میں مشغولیت دیکھ کر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ بھی حیران ہوتے تھے لیکن ان کے عقائد و نظریات انتہائی باطل تھے ۔ان کاایک بہت بڑا عقیدہ یہ تھا کہ جو کبیرہ گناہ کرے وہ مشرک ہے اور جو ان کے اس عقیدے کامخالف ہو وہ بھی مشرک ہے ۔ ان ظالموں نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو بھی مَعَاذَ اللہ مشرک قرار دے دیا تھا اور نہروان کے مقام پر آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے جنگ کی تھی۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ ان کی تمام تر ظاہری عبادت و ریاضت،تقویٰ و طہارت اور رات رات بھر تلاوت ِقرآن کرنے کو خاطر میں نہ لائے اور ان کے باطل عقائد کی وجہ سے ان کے ساتھ جنگ کی اور انہیں قتل کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی لمبی لمبی اور ظاہری خشوع وخضوع سے بھر پور نمازیں ، رقت انگیز اور درد بھری آواز میں قرآنِ مجید کی تلاوتیں ، اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کے عذابات سے ڈرانے والے وعظ اور نصیحتیں اور دیگر ظاہری نیک اعمال اس وقت تک قابلِ قبول نہیں جب تک ا س کے عقائد درست نہ ہوں ، لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ بد عقیدہ اور بد مذہب شخص کی کثرتِ عبادت، تقویٰ و طہارت اور دیگر نیک نظر آنے والی چیزوں سے ہر گزمتأثِّر نہ ہو اور نہ ہی ان چیزوں کو دیکھ کر ان کی طرف مائل ہو بلکہ ان سے ہمیشہ دورہی رہے کہ اسی میں اس کی دنیا وآخرت کی بھلائی ہے۔
{اَلَّذِیْنَ:وہ لوگ۔} اس سے پہلی آیت میں اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے والے لوگوں کی خبر دینے کے بارے میں فرمایا، اب ا س آیت میں فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئی اور عمل باطل ہوگئے حالانکہ وہ اس گمان میں ہیں کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں جو انہیں آخرت میں نفع دے گا۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۵ / ۳۰۴)
بدکار سے زیادہ بد نصیب:
یہ آیتِ مبارکہ بنیادی طور پر تو کافروں کے متعلق ہے لیکن اس سے اشارتاً یہ بھی معلوم ہوا کہ بدکار سے زیادہ بد نصیب وہ نیکوکار ہے جو محنت مشقت اٹھا کر نیکیاں کرے مگر اس کی کوئی نیکی اس کے کام نہ آئے، وہ اس دھوکے میں رہے کہ میں نیکو کار ہوں ۔ ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں ۔
{اُولٰٓىٕكَ:یہ لوگ۔} ارشاد فرمایا کہ کثیر نیک اعمال کے باوجود خسارے کاشکار ہونے والے ،یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا ، رسول اور قرآن پر ایمان نہ لائے اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے، حساب ،ثواب اور عذاب کے منکر رہے تو ان کے سب اعمال برباد ہوگئے اور انہیں ان اعمال پر کوئی ثواب نہ ملے گا۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۵ / ۳۰۵، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۲۲۷، ملتقطاً)
{فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا:پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔} وزن قائم نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ان کے ظاہری نیک اعمال کی کوئی قدر وقیمت ہو گی اور نہ ہی ان میں کوئی وزن ہو گا اور جب میزانِ عمل میں ان کے ظاہری نیک اعمال اور کفر و مَعْصِیَت کا وزن ہو گا تو تمام ظاہری نیک اعمال بے وزن ثابت ہوں گے کیونکہ نیک اعمال کی قدر و قیمت اور ان میں وز ن کا دار ومدار ایمان اور اخلاص پر ہے اور جب یہ لوگ ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو ان کے اعمال میں وزن کہاں سے ہو گا۔ کفار کے اعمال کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا‘‘(فرقان:۲۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کیطرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح (بے وقعت) بنادیں گے جو روشندان کی دھوپ میں نظر آتے ہیں ۔
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن ایک بہت ہی موٹے تازے آدمی کو جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا تو ( اتنا بھاری بھر کم ہونے کے باوجود) اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا وزن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہو گا، اور فرمایا کہ یہ آیت پڑھ لو
’’فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان:پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب اولئک الذین کفروا بآیات ربّہم ولقائہ فحبطت اعمالہم، ۳ / ۲۷۰، الحدیث: ۴۷۲۹)
اعمال میں وزن سے محروم ہونے والے لوگ:
یاد رہے کہ کافروں کے ظاہری نیک اعمال تو قیامت کے دن بے وزن ہی ہوں گے البتہ بعض مسلمان بھی ایسے ہوں گے جو اپنے نیک اعمال میں وزن سے محروم ہو جائیں گے ، جیسا کہ حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میں اپنی امت میں سے ان قوموں کو جانتا ہوں کہ جب وہ قیامت کے دن آئیں گے تو ان کی نیکیاں تِہامہ کے پہاڑوں کی مانند ہوں گی لیکن اللہ تعالیٰ انہیں روشندان سے نظر آنے والے غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح (بے وقعت) کر دے گا۔ حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے سامنے ان لوگوں کا صاف صاف حال بیان فرما دیجئے تاکہ ہم معلومات نہ ہوتے ہوئے ان لوگوں میں شریک نہ ہو جائیں ۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’وہ تمہارے بھائی، تمہارے ہم قوم ہوں گے ۔ راتوں کو تمہاری طرح عبادت کیا کریں گے لیکن وہ لوگ تنہائی میں برے اَفعال کے مُرتکب ہوں گے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب، ۴ / ۴۸۹، الحدیث: ۴۲۴۵)
اور حضرت ابو حذیفہرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُکے آزاد کردہ غلام حضرت سالِم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن کچھ لوگ ایسے آئیں گے کہ ان کے پاس تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں ہو ں گی، یہاں تک کہ جب انہیں لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو روشندان سے نظر آنے والےغبار کے ذروں کی طرح (بے وقعت) کر دے گا ، پھر انہیں جہنم میں ڈال دے گا۔ حضرت سالِم نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ماں باپ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر قربان ہو جائیں ! ہمیں ان لوگوں کا حال بتا دیجئے ؟ ارشاد فرمایا ’’وہ لوگ نماز پڑھتے ہوں گے ، روزے رکھتے ہوں گے لیکن جب ان کے سامنے کوئی حرام چیز پیش کی جائے تو وہ اس پر کود پڑیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال باطل فرما دے گا۔( حلیۃ الاولیا، سالم مولی ابی حذیفۃ، ۱ / ۱۳۳، الحدیث: ۵۷۵)
اور حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ قیامت کے دن بعض لوگ ایسے اعمال لائیں گے جو اُن کے خیالوں میں مکہ مکرمہ کے پہاڑوں سے زیادہ بڑے ہوں گے لیکن جب وہ تولے جائیں گے تو ان میں وزن کچھ نہ ہوگا۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۲۲۷)
{ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ جَهَنَّمُ:یہ ان کا بدلہ جہنم ہے۔} ارشاد فرمایا کہ یہ جہنم ان کا بدلہ ہے کیونکہ انہوں نے کفر کیا اور جس چیز پر ایمان لانا اور جس کا اقرار کرنا ضروری تھا اس کا انکار کیا اور انہوں نے قرآنِ پاک ، اللہ تعالیٰ کی دیگر کتابوں اور اس کے رسولوں کو ہنسی مذاق بنالیا۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۵ / ۳۰۵)اس سے معلوم ہوا کہ تمام کفر وں سے بڑھ کر کفر نبی کی توہین اور ان کا مذاق اڑانا ہے جس کی سزا دنیا و آخرت دونوں میں ملتی ہے۔
اہلِ حق علماء کا مذاق اڑانے والوں کو نصیحت:
حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یاد رکھو! علماء، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارث ہیں اور ان کے عُلوم انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علوم سے حاصل شدہ ہیں تو جس طرح باعمل علمائ، انبیاء اور مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اعمال اور علوم کے وارث ہیں اسی طرح علماء کا مذاق اڑانے والے ابو جہل ، عقبہ بن ابی معیط اور ان جیسے دیگر کافروں کے مذاق اڑانے میں وارث ہیں ۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۵ / ۳۰۵)اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنے کی شدید ضرورت ہے جو میڈیا پر اور اپنی نجی محفلوں میں اہلِ حق علمائے کرام کا مذاق اڑانے میں لگے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم عطا فرمائے۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک جو لوگ ایمان لائے۔} اس سے پہلے کافروں کی جہنم میں مہمانی کا ذکر ہوا اور اب یہاں سے وہ چیز بیان کی جا رہی ہے جس سے ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے کی ترغیب ملتی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک جو لوگ دنیا میں ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اچھے اعمال کئے تو ان کی مہمانی کے لئے فردوس کے باغات ہیں ۔( تفسیرکبیر، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۷ / ۵۰۲، روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵ / ۳۰۵، ملخصاً)
جنتی نعمتیں اور سب سے اعلیٰ جنت:
یاد رہے کہ اہلِ جنت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں تیار کی ہیں وہ انسان کے تَصَوُّر سے بھی زیادہ ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(سجدہ:۱۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:تو کسی جان کو معلوم نہیں وہ آنکھوں کی ٹھنڈک جو ان کے لیے ان کے اعمال کے بدلے میں چھپا رکھی ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا،نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر اس کا خطرہ گزرا۔‘‘ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو’’فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ‘‘(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنّۃ وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۱، الحدیث: ۳۲۴۴)
اور زیر ِتفسیر آیت میں جس جنت کا ذکر ہوا، اس کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ عَزَّوَجَلَّ سے مانگو تو فردوس مانگو، کیونکہ وہ جنتوں میں سب کے درمیان اور سب سے بلند ہے اور اس پر رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کاعرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں ۔( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللّٰہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۰، الحدیث: ۲۷۹۰)
حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جنت میں سو درجے ہیں ، ہر دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان کے درمیان جتنا فاصلہ ہے اور فردوس سب سے اوپر والا درجہ ہے، اس سے جنت کی چار نہریں پھوٹتی ہیں ، اس سے اوپر عرش ہے اور جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت الفردوس ہی مانگا کرو۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ، باب ما جاء فی صفۃ درجات الجنّۃ، ۴ / ۲۳۸، الحدیث: ۲۵۳۹)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’فردوس بلند جنت ہے، درمیانی اور سب سے بہتر جنت ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المؤمنین ۵ / ۱۱۸، الحدیث: ۳۱۸۵)
حضرت کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’ فردوس جنتوں میں سب سے اعلیٰ ہے اس میں نیکیوں کا حکم کرنے والے اور بدیوں سے روکنے والے عیش کریں گے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۳ / ۲۲۷)
{لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا:ان سے کوئی دوسری جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔} یعنی دنیا میں انسان کیسی ہی بہتر جگہ میں ہو، وہ اس سے اور اعلیٰ و ارفع جگہ کی طلب رکھتا ہے لیکن یہ بات وہاں جنت میں نہ ہوگی کیونکہ وہ جانتے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہیں بہت اعلیٰ و ارفع جگہ حاصل ہے۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۵ / ۳۰۶)
{قُلْ:تم فرمادو۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کے کلمات لکھے جائیں اور اُن کے لئے تمام سمندروں کا پانی سیاہی بنادیا جائے اور تمام مخلوق لکھے تو وہ کلمات ختم نہ ہوں اور یہ تمام پانی ختم ہوجائے اور اتنا ہی اور بھی ختم ہوجائے ۔ مُدَّعا یہ ہے کہ اس کے علم و حکمت کی کوئی انتہاء نہیں ۔ شانِ نزول : حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ یہودیوں نے کہا: اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) آپ کا خیال ہے کہ ہمیں حکمت دی گئی اور آپ کی کتاب میں ہے کہ جسے حکمت دی گئی اُسے خیرِ کثیر دی گئی، پھر آپ کیسے فرماتے ہیں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے! اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔ ایک قول یہ ہے کہ جب آیت ِکریمہ ’’ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا ‘‘ نازل ہوئی تو یہودیوں نے کہا کہ ہمیں توریت کا علم دیا گیا اور اس میں ہر شے کا علم ہے، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ مدعا یہ ہے کہ ہر شے کا علم بھی علمِ الٰہی کے حضور قلیل ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے علم سے اتنی بھی نسبت نہیں رکھتا جتنی ایک قطرے کو سمندر سے ہو۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۲۲۷-۲۲۸)
{قُلْ:تم فرماؤ۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو عاجزی کی تعلیم دی اور انہیں یہ کہنے کا حکم دیا کہ میں بھی تمہاری طرح آدمی ہوں (یعنی جیسے تم انسان ہو اسی طرح میں بھی انسان ہوں ) البتہ مجھے (تم پر) یہ خصوصیت حاصل ہے کہ میری طرف وحی آتی ہے اور وحی کے سبب اللہ تعالیٰ نے مجھے اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۳ / ۲۲۸)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(کافر) انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا سا بشر مانتے تھے اس لئے ان کی رسالت سے منکر تھے کہ
’’مَاۤ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاۙ-وَ مَاۤ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَیْءٍۙ-اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَكْذِبُوْنَ‘‘(یس:۱۵)
تم تو ہمارے جیسے آدمی ہواور رحمٰن نے کوئی چیز نہیں اتاری، تم صرف جھوٹ بول رہے ہو۔
واقعی جب ان خُبَثاء کے نزدیک وحی ِنبوت باطل تھی تو انہیں اپنی اسی بشریت کے سواکیا نظر آتا؟لیکن اِن سے زیادہ دل کے اندھے وہ (ہیں جو) کہ وحی ونبوت کا اقرار کریں اور پھر انہیں ( یعنی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو) اپنا ہی سا بشر جانیں ، زید کو’’قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ‘‘ سوجھا اور ’’ یُوْحٰۤى اِلَیَّ‘‘ نہ سوجھا جو غیر متناہی فرق ظاہر کرتا ہے، زید نے اتناہی ٹکڑا لیا جوکافر لیتے تھے، انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بشریت جبریل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مَلکیت سے اعلیٰ ہے، وہ ظاہری صورت میں ظاہر بینوں کی آنکھوں میں بشریت رکھتے ہیں جس سے مقصود خلق کا اِن سے اُنس حاصل کرنا اور ان سے فیض پانا (ہے) ولہٰذا ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ‘‘(انعام:۹)
اور اگرہم فرشتے کو رسول کرکے بھیجتے تو ضرور اسے مردہی کی شکل میں بھیجتے اور ضرور انھیں اسی شبہ میں رکھتے جس دھوکے میں اب ہیں ۔
(اس سے) ظاہر ہوا کہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کی ظاہری صورت دیکھ کر انھیں اوروں کی مثل سمجھنا ان کی بشریت کو اپناسا جاننا، ظاہر بینوں (اور) کور باطنوں کا دھوکا ہے (اور) یہ شیطان کے دھوکے میں پڑے ہیں ۔۔۔ ان کا کھانا پینا سونا یہ افعالِ بشری اس لئے نہیں کہ وہ ان کےمحتاج ہیں ، حاشا (یعنی ہر گز نہیں ، آپ تو ارشاد فرماتے ہیں ) ’’لَسْتُ کَاَحَدِکُمْ اَنِّیْ اَبِیْتُ عِنْدَ رَبِّیْ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِیْ‘‘ میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں اپنے رب کے ہاں رات بسرکرتاہوں وہ مجھے کھلاتابھی ہے اور پلاتا بھی ہے۔ (ت) (بلکہ) ان کے یہ افعال بھی اقامتِ سنت وتعلیمِ امت کے لئے تھے کہ ہر بات میں طریقۂ محمودہ لوگوں کو عملی طور سے دکھائیں ،جیسے ان کا سَہوونِسیان ۔حدیث میں ہے ’’اِنِّیْ لَااَنْسیٰ وَلٰکِنْ اُنْسٰی لِیَسْتَنَّ بِیْ ‘‘میں بھولتا نہیں بھلایا جاتا ہوں تاکہ حالتِ سہو میں امت کوطریقۂ سنت معلوم ہو۔ عمرو نے سچ کہا کہ یہ قول (اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ) حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَنے اپنی طرف سے نہ فرمایا بلکہ اس کے فرمانے پر مامور ہوئے، جس کی حکمت تعلیمِ تواضع، وتانیسِ اُمت، و سدِّغُلُوِّنصرانیت (یعنی عاجزی کی تعلیم،امت کے لئے اُنسیت کا حصول اور عیسائی جیسے اپنے نبی کی شان بیان کرنے میں حد سے بڑھ گئے مسلمانوں کو اس سے روکنا) ہے، اول ،دوم ظاہر، اور سوم یہ کہ مسیح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی امت نے ان کے فضائل پر خدا اور خدا کا بیٹا کہا ،پھر فضائل ِمحمدیہ عَلٰی صَاحِبِہَا اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّحِیَّۃ کی عظمت ِشان کا اندازہ کون کرسکتا ہے، یہاں اس غلو کے سدِّباب (روکنے) کے لئے تعلیم فرمائی گئی کہ کہو’’ میں تم جیسا بشرہوں خدا یا خدا کابیٹا نہیں ، ہاں ’’یُوْحٰۤى اِلَیَّ‘‘ رسول ہوں ، دفعِ اِفراطِ نصرانیت کے لئے پہلا کلمہ تھا اور دفعِ تفریط ِابلیسیَّت کے لئے دوسرا کلمہ، اسی کی نظیر ہے جو دوسری جگہ ارشادہوا: ’’قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۹۳)
تم فرمادو پاکی ہے میرے رب کومیں خدا نہیں ،میں تو ا نسان رسول ہوں ۔
اِنہیں دونوں کے دفع کوکلمہ ٔشہادت میں دونوں لفظِ کریم جمع فرمائے گئے ’’اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہْ‘‘ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت محمدصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ (ت) بندے ہیں خدا نہیں ، رسول ہیں خدا سے جدا نہیں ، شَیْطَنَت اس کی کہ دوسرا کلمہ امتیازِ اعلیٰ چھوڑ کرپہلے کلمہ تواضع پر اِقتصار کرے۔( فتاوی رضویہ، ۱۴ / ۶۶۲-۶۶۵)
صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’صورتِ خاصہ میں کوئی بھی آپ (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کا مثل نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ( صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)کو حسن و صورت میں بھی سب سے اعلیٰ و بالا کیا اور حقیقت و روح و باطن کے اعتبار سے تو تمام انبیاء (عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام )اوصافِ بشر سے اعلیٰ ہیں ، جیسا کہ شفاء قاضی عیاض (قاضی عیاض رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’شفاء‘‘) میں ہے اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کے اَجسام و ظواہر تو حدِّ بشریت پر چھوڑے گئے اور اُن کے اَرواح و بَواطن بشریت سے بالا اور مَلاءِ اعلیٰ سے متعلق ہیں ۔ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ نے سورۂ والضُّحیٰ کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ کی بشریت کا وجود اصلا ًنہ رہے اور غلبۂ انوارِحق آپ پر علی الدَّوام حاصل ہو۔ بہرحال آپ (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)کی ذات و کمالات میں آپ کا کوئی بھی مثل نہیں ۔ اس آیتِ کریمہ میں آپ کو اپنی ظاہری صورتِ بشریہ کے بیان کا اظہارِ تواضع کے لئے حکم فرمایا گیا، یہی فرمایا ہے حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے۔(خزائن العرفان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ص۵۶۹)
ترا مسند ِناز ہے عرشِ بریں تِرا محرمِ راز ہے روحِ امیں
تو ہی سرورِ ہر دو جہاں ہے شہا تِرا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
سیّد المرسَلینصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو بشر کہنے سے متعلق 3 اَہم باتیں :
یہاں تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بشر کہنے سے متعلق 3 اَہم باتیں یاد رکھیں :
پہلی بات یہ کہ کسی کو جائز نہیں کہ وہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اپنے جیسا بشر کہے کیونکہ جو کلمات عزت و عظمت والے اصحاب عاجزی کے طور پر فرماتے ہیں انہیں کہنا دوسروں کے لئے روا نہیں ہوتا۔ حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’واضح رہے کہ یہاں ایک ادب او رقاعدہ ہے جسے بعض اَصفیا اور اہل ِتحقیق نے بیان کیا ہے اور اسے جان لینا اور اس پر عمل پیرا ہونا مشکلات سے نکلنے کا حل اور سلامت رہنے کا سبب ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی مقام پر اللّٰہتعالیٰ کی طرف سے کوئی خطاب، عتاب، رعب ودبدبہ کا اظہار یا بے نیازی کا وقوع ہو مثلاً آپ ہدایت نہیں دے سکتے، آپ کے اعمال ختم ہوجائیں گے، آپ کے لئے کوئی شے نہیں ، آپ حیاتِ دُنْیَوی کی زینت چاہتے ہیں ، اور اس کی مثل دیگر مقامات، یا کسی جگہ نبی کی طرف سے عبدیَّت، انکساری، محتاجی و عاجزی اور مسکینی کا ذکر آئے مثلاً میں تمہاری طرح بشر ہوں ، مجھے اسی طرح غصہ آتا ہے جیسے عبد کو آتا ہے اور میں نہیں جانتا اس دیوار کے اُدھر کیا ہے، میں نہیں جانتا میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا، اور اس کی مثل دیگر مقامات۔ ہم امتیوں اور غلاموں کو جائز نہیں کہ ان معاملات میں مداخلت کریں ، ان میں اِشتراک کریں اور اسے کھیل بنائیں ، بلکہ ہمیں پاسِ ادب کرتے ہوئے خاموشی وسکوت اور تَوَقُّف کرنا لازم ہے ، مالک کا حق ہے کہ وہ اپنے بندے سے جو چاہے فرمائے، اس پر اپنی بلندی و غلبہ کا اظہار کرے، بندے کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے مالک کے سامنے بندگی اور عاجزی کا اظہار کرے، دوسرے کی کیا مجال کہ وہ اس میں دخل اندازی کرے اور حدِّ ادب سے باہر نکلنے کی کوشش کرے، اس مقام پر بہت سے کمزور اور جاہل لوگوں کے پاؤں پھسل جاتے ہیں جس سے وہ تباہ و برباد ہوجاتے ہیں ، اللّٰہتعالیٰ محفوظ رکھنے والا اور مدد کرنے والا ہے۔ و اللہ تعالٰی اعلم۔( مدارج النبوت، باب سوم در بیان فضل وشرافت، وصل در ازالۂ شبہات، ۱ / ۸۳-۸۴)
دوسری بات یہ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے فضائلِ جلیلہ اور مَراتبِ رفیعہ عطا فرمائے ہوں ، اُس کے ان فضائل و مراتب کا ذکر چھوڑ کر ایسے عام وصف سے اس کا ذکر کرنا جو ہر خاص و عام میں پایا جائے ، اُن کمالات کو نہ ماننے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس لئے سلامتی اسی میں ہے کہ فضیلت و مرتبے پر فائز ہستی کا ذکر اس کے فضائل اور ان اوصاف کے ساتھ کیا جائے جن کی وجہ سے وہ دوسروں سے ممتاز ہے اور یہی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا طریقہ ہے ،جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبرستان میں تشریف لے گئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ‘‘ بے شک اگر اللہ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں ، میری خواہش ہے کہ ہم اپنے (دینی) بھائیوں کو دیکھیں ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ہم آپ کے (دینی ) بھائی نہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’( دینی بھائی ہونے کے ساتھ تمہاری خصوصیت یہ ہے کہ) تم میرے صحابہ ہو اور ہمارے (صرف دینی) بھائی وہ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے۔( مسلم، کتاب الطہارۃ، باب استحباب اطالۃ الغرّۃ والتحجیل فی الوضوئ، ص۱۵۰، الحدیث: ۳۹(۲۴۹))
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’جب تم رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر درود بھیجا کرو تو اچھی طرح بھیجا کرو، تمہیں کیا پتہ کہ شاید وہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے پیش کیا جاتا ہو۔ لوگوں نے عرض کی: تو ہمیں سکھا دیجئے ۔آپ نے فرمایا: یوں پڑھا کرو ’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ صَلَا تَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَا تِکَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَاِمَامِ الْمُتَّقِیْنَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ اِمَامِ الْخَیْرِ وَقَائِدِ الْخَیْرِ وَرَسُولِ الرَّحْمَۃِ اَللّٰہُمَّ ابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدًایَغْبِطُہُ بِہِ الْاَوَّلُوْنَ وَالآخِرُوْنَ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰہُمَّبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ‘‘(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۴۸۹، الحدیث: ۹۰۶، مسند ابی یعلی، مسند عبد اللہ بن مسعود، ۴ / ۴۳۸، الحدیث: ۵۲۴۵، ملتقطاً)
اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو بشر کہنے میں راہِ سلامت یہ ہے کہ نہ تو آپ کی بشریت کا مُطْلَقاً انکار کیا جائے اور نہ ہی کسی امتیازی وصف کے بغیر آپ کی بشریت کا ذکر کیا جائے بلکہ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بشریت کا ذکر کیا جائے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو افضل البشر یا سیّد البشر کہا جائے یا یوں کہا جائے کہ آپ کی ظاہری صورت بشری ہے اور باطنی حقیقت بشریَّت سے اعلیٰ ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو یہ کہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کی صورتِ ظاہری بشری ہے (اور) حقیقت ِباطنی بشریت سے ارفع واعلیٰ ہے، یا یہ (کہے) کہ حضور اوروں کی مثل بشر نہیں ،وہ سچ کہتا ہے اور جو مُطْلَقاً حضور سے بشریت کی نفی کرے وہ کافر ہے،قال تعالٰی
’’ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۹۳)
تم فرماؤ:میرا رب پاک ہے میں تو صرف اللہ کا بھیجا ہوا ایک آدمی ہوں ۔( فتاوی رضویہ، ۱۴ / ۳۵۸)
تیسری بات یہ کہ قرآنِ کریم میں جا بجا کفار کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اپنے جیسا بشرکہتے تھے اور اسی سے وہ گمراہی میں مبتلا ہوئے لہٰذا جس مسلمان کے دل میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کی ادنیٰ رمق بھی باقی ہے ا س پر لازم ہے کہ وہ کفار کا طریقہ اختیار کرنے سے بچے اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اپنے جیسا بشر سمجھ کر گمراہوں کی صف میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرے۔
{اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ:تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔} یعنی مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں تو جو اپنے ربعَزَّوَجَلَّ سے ملاقات کی امید رکھتا ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ شرکِ اکبر سے بھی بچے اور ریاء سے بھی جس کو شرکِ اصغر کہتے ہیں ۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۳ / ۲۲۸، مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ص۶۶۵-۶۶۶، ملتقطاً)
ریاکاری کی مذمت پر 4 اَحادیث:
موضوع کی مناسبت سے یہاں ریاکاری کی مذمت پر 4 اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میں شریک سے بے نیاز ہوں ، جس نے کسی عمل میں میرے ساتھ کسی غیر کو شریک کیا میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب من اشرک فی عملہ غیر اللّٰہ، ص۱۵۹۴، الحدیث: ۴۶(۲۹۸۵))
(2)…حضرت ابو سعید بن ابو فضالہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ جب قیامت کے دن جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ، لوگوں کو جمع فرمائے گا تو ایک پکارنے والا پکارے گا: جس نے کسی ایسے عمل میں جو اس نے اللہ کے لئے کیا تھا ،کسی کو شریک ٹھہرایا تو اسے اس کا ثواب اسی غیرِ خدا سے طلب کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام شریکوں کے شرک سے بے نیاز ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الکہف، ۵ / ۱۰۵، الحدیث: ۳۱۶۵)
(3)…حضرت محمود بن لَبید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے د ن جب اللہ عَزَّوَجَلَّ بندوں کو ان کے اعمال کابدلہ دے گا توریاکاروں سے فرمائے گا: ان کے پاس جاؤ جنہیں دکھانے کے لئے تم دنیا میں عمل کیا کرتے تھے اور دیکھو! کیا تم ان کے پاس کوئی بدلہ یا بھلائی پاتے ہو؟( شعب الایمان، الخامس والاربعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۵ / ۳۳۳، الحدیث: ۶۸۳۱)
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جُبُّ الْحُزْن‘‘ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ مانگو۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: ’’جُبُّ الْحُزْن‘‘ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: جہنم کی ایک وادی ہے جس سے جہنم (بھی) روزانہ سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ ہم نے عرض کی: اس میں کون لوگ داخل ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: ’’وہ قاری جو اپنے اعمال لوگوں کو دکھانے کے لئے کرتے تھے(ترمذی،کتاب الزھد ، باب ما جاء فی الریاء والسمعۃ، ۴ / ۱۷۰، الحدیث: ۲۳۹۰)۔([1])
[1] ۔۔۔ریاکاری سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’ریاکاری‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan