READ

Surah Al-Israa

بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْل
111 Ayaat    مکیۃ


17:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

17:1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱)
پاکی ہے اسے (ف۲) جو اپنے بندے (ف۳) کو، راتوں رات لے گیا (ف۴) مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک (ف۵) جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی (ف۶) کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے،

{سُبْحٰنَ: پاک ہے۔} اس کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب و نقص سے پاک ہے۔ حضرت طلحہ بن عبیداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں  نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ’’سُبْحَانَ اللّٰہ ‘‘ کی تفسیر کے بارے میں  دریافت کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ہر بری چیز سے اللّٰہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا۔( مستدرک، کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل والتسبیح والذکر، تفسیر سبحان اللّٰہ، ۲ / ۱۷۷، الحدیث: ۱۸۹۱)

سُبْحَانَ اللّٰہ کے3 فضائل:

            اس آیت کی ابتدا میں  لفظ ’’ سُبْحٰنَ‘‘ کا ذکر ہوا ،ا س مناسبت سے ’’سُبْحَانَ اللّٰہ‘‘کے 3فضائل درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے ایک دن میں  سو مرتبہ ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ پڑھا ،تو اس کے گناہ مٹا دئیے جائیں  گے اگرچہ اس کے گناہ سمندر کی جھاگ کی مثل ہوں۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب فضل التسبیح، ۴ / ۲۱۹، الحدیث: ۶۴۰۵)

(2)…حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جس نے ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ کہا تو اس کے لئے جنت میں  ایک درخت اُگا دیا جاتا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۵۹-باب، ۵ / ۲۸۶، الحدیث: ۳۴۷۵)

(3)…حضرت ابوذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں  نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ماں  باپ آپ پر قربان ہوں ، کون سا کلام اللّٰہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ ارشاد فرمایا ’’وہ کلام جسے اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں  کے لئے پسند فرما ہے (اور وہ یہ ہے) ’’سُبْحَانَ رَبِّیْ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیْ وَبِحَمْدِہٖ‘‘(مستدرک، کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل۔۔۔الخ، احبّ الکلام الی اللّٰہ سبحان ربّی وبحمدہ،۲ / ۱۷۶، الحدیث:۱۸۸۹)

اسمِ الٰہی کی تجلی کا اثر:

            یاد رہے کہ ہر اسمِ الٰہی کی تجلی عامل پر پڑتی ہے یعنی جو جس اسمِ الٰہی کا وظیفہ کرتا ہے اُس میں  اُسی کا اثر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ جو ’’یَا سُبْحَانُ‘‘کا وظیفہ کرے تواللّٰہ تعالیٰ اسے گناہوں  سے پاک فرمائے گا ۔ جو’’یَا غَنِیُّ ‘‘ کا وظیفہ پڑھے تو وہ خود غنی اور مالدار ہوجائے گا، اسی طرح جو یَاعَفُوُّ ، یَا حَلِیْمُ کا وظیفہ کرے تو اس میں  یہی صفات پیدا ہونا شروع ہوجائیں  گی۔ اسی مناسبت سے یہاں  ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت ابو بکر بن زیَّات رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ ایک شخص حضرت معروف کرخی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں  حاضر ہوا اور عرض کی :حضور! آج صبح ہمارے ہاں  بچے کی ولادت ہوئی ہے اور میں  سب سے پہلے آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے پاس یہ خبر لے کر آیا ہوں  تاکہ آپ کی برکت سے ہمارے گھرمیں  خیر نازل ہو ۔ حضرت معروف کرخی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ تمہیں  اپنے حفظ واَمان میں  رکھے ۔یہاں  بیٹھ جاؤ اورسو مرتبہ یہ الفاظ کہو ’’مَا شَاءَ اللّٰہُ کَانَ‘‘یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے جو چاہا وہی ہوا۔ اس نے سو مرتبہ یہ الفاظ دہرا لئے توآپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا’’ دوبارہ یہی الفاظ کہو ۔ اس نے سو مرتبہ پھر وہی الفاظ دہرائے۔ آپ نے فرمایا ’’پھر وہی الفاظ دہراؤ۔ اس طرح پانچ مرتبہ اسے (وہ الفاظ دہرانے کا ) حکم دیا ۔ اتنے میں  ایک وزیر کی والدہ کاخادم ایک خط اور تھیلی لے کر حاضر ہوا اور کہا:’ ’اے معروف کرخی ! رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ،اُمِّ جعفر آپ کو سلام کہتی ہے ، اس نے یہ تھیلی آپ کی خدمت میں  بھجوائی ہے اورکہا ہے کہ آپ غُرباء و مساکین میں  یہ رقم تقسیم فرما دیں ۔ یہ سن کر آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قاصد سے فرمایا ’’ رقم کی تھیلی اس شخص کو دے دو، اس کے ہاں  بچے کی ولادت ہوئی ہے۔ قاصد نے کہا: یہ 500 درہم ہیں ، کیا سب اسے دے دوں  ؟آپ نے فرمایا ’’ہاں  !ساری رقم اسے دے دو، اس نے پانچ سو مرتبہ ’’مَا شَاءَ اللّٰہُ کَانَ‘‘ کہا تھا۔ پھر اس شخص کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’ یہ پانچ سو درہم تمہیں  مبارک ہوں ، اگر اس سے زیادہ مرتبہ کہتے تو ہم بھی اتنی ہی مقدار مزید بڑھا دیتے ۔( جاؤ !یہ رقم اپنے اہل وعیال پر خرچ کرو)۔( عیون الحکایات، الحکایۃ التاسعۃ بعد الثلاث مائۃ، ص۲۷۷)

{سُبْحٰنَ الَّذِیْ:پاک ہے وہ ذات۔} اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہر کمزوری، عیب اور نقص سے خداوند ِ قدوس کی عظیم ذات پاک ہے جس نے اپنے خاص بندے یعنی مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شبِ معراج رات کے کچھ حصے میں  مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصیٰ تک سیر کرائی حالانکہ مسجد ِ اقصیٰ مکۂ مکرمہ سے تیس دن سے زیادہ کی مسافت پر ہے، وہ مسجد ِاقصیٰ جس کے اردگرد ہم نے دینی و دُنْیَوی برکتیں  رکھی ہیں  اور سیر کرانے کی حکمت یہ تھی کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اپنی عظمت اور قدرت کی عظیم نشانیاں  دکھانا چاہتا تھا۔ روایت ہے کہ جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شب ِمعراج درجاتِ عالیہ اور مَراتبِ رفیعہ پر فائز ہوئے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے خطاب فرمایا ، اے محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) یہ فضیلت و شرف میں  نے تمہیں  کیوں  عطا فرمایا ؟ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عرض کی :اس لئے کہ تو نے مجھے عَبْدِیَّت کے ساتھ اپنی طرف منسوب فرمایا۔ اس پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۵۳-۱۵۴، ملخصاً)

{اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ: اپنے بندے کو سیر کرائی۔} آیت کے اس حصے میں  نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے معراج شریف کا تذکرہ ہے ۔ معراج شریف نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک جلیل معجزہ اور اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور اس سے حضورپُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وہ کمالِ قرب ظاہر ہوتا ہے جو مخلوقِ الٰہی میں  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا کسی کو مُیَسَّر نہیں ۔

معراج شریف سے متعلق 3باتیں :

            یہاں  معراج شریف سے متعلق تین باتیں  قابلِ ذکر ہیں :

(1)…نبوت کے بارہویں  سال سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ معراج سے نوازے گئے ، البتہ مہینے کے بارے میں  اختلاف ہے مگر زیادہ مشہور یہ ہے کہ ستائیسویں  رجب کو معراج ہوئی۔

(2)… مکۂ مکرمہ سے حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا     بیتُ المقدس تک رات کے چھوٹے سے حصہ میں  تشریف لے جانا نصِ قرآنی سے ثابت ہے، اس کا منکر کافر ہے اور آسمانوں  کی سیر اور مَنازلِ قرب میں  پہنچنا اَحادیث ِصحیحہ مُعتمدہ مشہورہ سے ثابت ہے جو حدِ تَواتُر کے قریب پہنچ گئی ہیں ، اس کا منکر گمراہ ہے۔

 (3)…معراج شریف بحالت ِبیداری جسم و روح دونوں  کے ساتھ واقع ہوئی، یہی جمہور اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے اور اصحابِ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کثیر جماعتیں  اور حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے جلیل القدر صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اسی کے معتقد ہیں ، آیات و اَحادیث سے بھی یہی سمجھ آتا ہے اور جہاں  تک بیچارے فلسفیوں  کا تعلق ہے جو علّت و مَعلول کے چکر میں  پھنس کر عجیب و غریب شکوک و شُبہات کا شکار ہیں  تو ان کے فاسد اَوہام مَحض باطل ہیں ، قدرتِ الٰہی کے معتقد کے سامنے وہ تمام شبہات محض بے حقیقت ہیں ۔( تفسیرات احمدیہ، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۱، ص۵۰۵، روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۱۰۴، خزائن العرفان، بنی اسرا ئیل، تحت الآیۃ:۱،ص۵۲۵، ملتقطاً)

سفر ِمعراج کا خلاصہ:

            معراج شریف کے بارے میں  سینکڑوں  اَحادیث ہیں  جن کا ایک مختصر خلاصہ یہاں  پیش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ معراج کی رات حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  حاضر ہوئے ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معراج کی خوشخبری سنائی اورآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقدس سینہ کھول کر اسے آبِ زمزم سے دھویا، پھر اسے حکمت و ایمان سے بھر دیا۔ اس کے بعدتاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں  براق پیش کی اور انتہائی اِکرام اور احترام کے ساتھ اس پر سوار کرکے مسجد ِاقصیٰ کی طرف لے گئے۔ بیتُ المقدس میں  سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے تمام اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی امامت فرمائی ۔پھر وہاں  سے آسمانوں  کی سیر کی طرف متوجہ ہوئے۔ حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے باری باری تمام آسمانوں  کے دروازے کھلوائے، پہلے آسمان پر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، پانچویں  آسمان پر حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ساتویں  آسمان پر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضور ِاقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی زیارت و ملاقات سے مشرف ہوئے ، انہوں  نے حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عزت و تکریم کی اور تشریف آوری کی مبارک بادیں  دیں  ،حتّٰی کہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف سیر فرماتے اور وہاں  کے عجائبات دیکھتے ہوئے تمام مُقَرَّبین کی آخری منزل سِدرۃُ المنتہیٰ تک پہنچے۔ اس جگہ سے آگے بڑھنے کی چونکہ کسی مقرب فرشتے کو بھی مجال نہیں  ہے ا س لئے حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام آگے ساتھ جانے سے معذرت کرکے وہیں  رہ گئے ، پھر مقامِ قربِ خاص میں  حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ترقیاں  فرمائیں  اور اس قربِ اعلیٰ میں  پہنچے کہ جس کے تَصَوُّر تک مخلوق کے اَفکار و خیالات بھی پرواز سے عاجز ہیں ۔ وہاں  رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر خاص رحمت و کرم ہوا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انعاماتِ الٰہیہ اور مخصوص نعمتوں  سے سرفراز فرمائے گئے، زمین و آسمان کی بادشاہت اور ان سے افضل و برتر علوم پائے ۔ اُمت کے لئے نمازیں  فرض ہوئیں ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بعض گناہگاروں  کی شفاعت فرمائی، جنت و دوزخ کی سیر کی اور پھر دنیا میں  اپنی جگہ واپس تشریف لے آئے۔ جب سَرورِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس واقعے کی خبریں  دیں  تو کفار نے اس پر بہت واویلا کیا اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بیتُ المقدس کی عمارت کا حال اور ملک ِشام جانے والے قافلوں  کی کَیفِیَّتیں  دریافت کرنے لگ گئے ۔حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں  سب کچھ بتا دیا اور قافلوں  کے جو اَحوال سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بتائے تھے ، قافلوں  کے آنے پر اُن سب کی تصدیق ہوئی۔

 معراجِ حبیب اور معراجِ کلیم میں  فرق:

             اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو جو معراج عطا فرمائی اور اپنے کلیم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو جو معراج عطا فرمائی، یہاں اِن میں فرق ملاحظہ ہو، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :

کلیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی معراج درخت ِدنیا پر ہوئی (چنانچہ ارشاد فرمایا)

’’نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ‘‘(قصص:۳۰)

برکت والی جگہ میں  میدان کے دائیں  کنارے سے ایک درخت سے انہیں  ندا کی گئی۔(ت)

            حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی معراج سِدرۃُ المنتہیٰ وفردوسِ اعلیٰ تک بیان فرمائی(چنانچہ ارشاد فرمایا)

’’عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى(۱۴)عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى‘‘(النجم:۱۴،۱۵)

سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔اس کے پاس جنت الماویٰ ہے۔(ت)( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۸۲)

            مزید فرماتے ہیں :کلیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالتَّسْلِیْم پر حجاب ِنار سے تجلی ہوئی (چنانچہ ارشاد فرمایا)

’’فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَا‘‘(نمل:۸)

پھر موسیٰ آگ کے پاس آئے تو (انہیں ) ندا کی گئی کہ اُس (موسیٰ) کو جو اس آگ کی جلوہ گاہ میں  ہے اور جو اس (آگ) کے آس پاس(فرشتے)ہیں  انہیں  برکت دی گئی۔(ت)

            حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر جلوۂ نور سے تجلی ہوئی اوروہ بھی غایت تفخیم وتعظیم کیلئے بَالفاظِ اِبہام بیان فرمائی گئی (کہ)

’’ اِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ مَا یَغْشٰى‘‘ (نجم:۱۶)      جب چھا گیا سدرہ پر جو کچھ چھایا۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۸۲-۱۸۳)

            (اللّٰہ تعالیٰ نے) کلیمُ اللّٰہ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالتَّسْلِیْمسے طور پر کلام کیا اور اسے سب پر ظاہر فرما دیا (چنانچہ ارشاد فرمایا)

’’وَ اَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوْحٰى(۱۳)اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیْۙ-وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ‘‘(طٰہٰ:۱۳،۱۴) الٰی اٰخر الاٰیات۔(آیات کے آخر تک)

اور میں  نے تجھے پسند کیا تواب اسے غور سے سن جو وحی کی جاتی ہے۔بیشک میں  ہی اللّٰہ ہوں  ،میرے سوا کوئی معبود نہیں  تو میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔(ت)

            حبیبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَسے فوق السَّمٰوٰت مُکالَمہ فرمایا اور سب سے چھپایا(چنانچہ ارشاد فرمایا)

’’فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى‘‘ (النجم:۱۰)

پھر اس نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو اس نے وحی فرمائی۔(ت)( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۷۹-۱۸۰)

{اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا:مسجد ِاقصیٰ تک ۔} سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکومسجد ِاقصیٰ تک سیر کرانے میں  ایک حکمت یہ ہے کہ تمام اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شرف اور فضیلت ظاہر ہو جائے کیونکہ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی جگہ میں  انہیں  امام بن کر نماز پڑھائی اور جسے گھر والوں  پر مُقَدّم کیا جائے اس کی شان یہ ہوتی ہے کہ و ہ سلطان ہوتا ہے کیونکہ سلطان کو اپنے علاوہ لوگوں  پر مُطْلَقاً تَقَدُّم حاصل ہے۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ حشر کے دن مخلوق اسی سرزمین میں  جمع ہو گی اس لئے یہ جگہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدموں  کی برکات سے نہال ہو جائے تاکہ آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر محشر میں  وُقوف آسان ہو۔( صاوی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۱۰۶) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِپہلی حکمت کے حوالے سے کیا خوب فرماتے ہیں ـ:

نمازِ اقصیٰ میں  تھا یہی سرعیاں  ہوں  معنی ٔاول آخر               کہ دست بستہ ہیں  پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے

{اَلَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ: جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں  رکھی ہیں ۔} آیت کے اس حصے میں  اللّٰہ تعالیٰ نے مسجد ِاقصیٰ کی شان بیان فرمائی کہ اس کے ارد گرد ہم نے برکتیں  رکھی ہیں  دینی بھی اور دنیوی بھی ۔ دینی برکتیں  یہ کہ وہ سرزمینِ پاک وحی کے اترنے کی جگہ اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی عبادت گاہ اور ان کی قیام گاہ بنی اور ان کی عبادت کا قبلہ تھی۔ دنیوی برکتیں  یہ کہ وہاں  قرب و جوار میں  نہروں  اور درختوں  کی کثرت تھی جس سے وہ زمین سرسبز و شاداب ہے اور میووں  اور پھلوں  کی کثرت سے بہترین عیش و راحت کا مقام ہے ۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ص۶۱۵، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۵۴، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۱، ص۵۲۵، ملتقطاً)

{لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا: تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں  دکھائیں ۔}آیت کے اس حصے میں  معراج شریف کی ایک حکمت بیان کی گئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو رات کے کچھ حصے میں  مسجد ِ حرام سے مسجد ِاقصیٰ تک سیر کرائی تاکہ ہم انہیں  اپنی قدرت کے عجائبات دکھائیں ۔علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :بے شک اس رات نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا، انہیں  نماز پڑھائی اور بڑی عظیم نشانیاں  دیکھیں  ۔ مزید فرماتے ہیں : اس آیت میں  ’’مِنْ اٰیٰتِنَا‘‘ کے الفاظ ہیں  ،جن کا مطلب یہ ہے کہ کچھ نشانیاں  دکھائیں  جبکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ‘‘اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں  اور زمین کی عظیم سلطنت دکھاتے ہیں ۔( انعام:۷۵) اس آیت کے ظاہر سے ایسا لگتا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فضیلت حاصل ہے ، حالانکہ ایسا نہیں  اور نہ ہی کوئی ان کی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پراِس اعتبار سے فضیلت کا قائل ہے کیونکہ آسمانوں  اور زمین کی بادشاہت بھی اللّٰہ تعالیٰ کی (تمام نہیں  بلکہ)بعض ہی نشانیاں  ہیں  جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کی(دوسری) نشانیاں  اِس(آسمان و زمین کی بادشاہت) سے کہیں  زیادہ اور بڑھ کرہیں  اور (اسی اعتبار سے ہم کہتے ہیں  کہ)اللّٰہ تعالیٰ نے معراج کی رات اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو نشانیاں  و عجائبات دکھائے وہ زمین و آسمان کی بادشاہت سے بڑھ کر ہیں  ، اس بیان سے ظاہر ہو گیا کہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر فضیلت حاصل ہے(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۵۴ملخصاً)۔([1])


[1] معراج شریف سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’فیضان معراج‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں ۔

17:2
وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ(۲)
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب (ف۷) عطا فرمائی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کیا کہ میرے سوا کسی کو کارسام نہ ٹھہراؤ،

{وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ:اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی ۔} اس سے پہلی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے اس اکرام کا ذکر فرمایا جو اس نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر فرمایا اور اس آیت میں  وہ اپنے اس اکرام کا ذکر فرما رہا ہے جو اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر فرمایا چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کتاب تورات عطا فرمائی اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنادیا کہ وہ اس کتاب کے ذریعے انہیں  جہالت اور کفر کے اندھیروں  سے علم اور دین کے نور کی طرف نکالتے ہیں  تاکہ اے بنی اسرائیل ! تم میرے سوا کسی کو کارساز نہ بناؤ۔( تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲، ۷ / ۲۹۷)

17:3
ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍؕ-اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا(۳)
اے ان کی اولاد! جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (ف۸) سوار کیا بیشک وہ بڑا شکرا گزار بندہ تھا (ف۹)

{ذُرِّیَّةَ مَنْ: اے ان لوگوں  کی اولاد۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ان لوگوں  کی اولاد! جنہیں  ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا اور طوفانِ نوح سے محفوظ فرمایا ، تم بھی تمام حالات میںاللّٰہتعالیٰ کے عبادت گزار اور شکر گزار بندے بن جاؤ جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے کہ وہ ہر حال میںاللّٰہ عَزَّوَجَلَّکا شکر ادا کرنے والے تھے۔( جلالین مع صاوی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۱۱۱۳)

حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شکر گزاری:

حضرت نوحعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بطورِ خاص شکر گزار بندہ فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب کوئی چیزکھاتے ،پیتے یا لباس پہنتے تو اللّٰہ تعالیٰ کی حمد کرتے اور ا س کا شکر بجا لاتے تھے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۱۶۱)

تاجدارِ رسالتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شکر گزاری :

سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ اقدس میں  حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ وصف انتہائیاعلیٰ طریقے سے پایا جاتا تھا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاللّٰہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ شکر گزار بندے تھے، چنانچہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب کھانا تَناوُل فرماتے اور پانی پیتے، جب بیتُ الخلا سے باہر تشریف لاتے، جب نیا لباس زیبِ تن فرماتے ، جب آئینہ دیکھتے، جب بستر پر تشریف لاتے، جب نیند سے بیدار ہوتے، جب سواری پر سوار ہوتے ، جب کوئی مسلمان ہوتا ،جب کوئی خوشی کی خبر ملتی، جب کوئی پسندیدہ چیز دیکھتے اور جب کسی مصیبت زدہ کو دیکھتے تو خود کو عافیت ملنے پر اللّٰہ تعالیٰ کی حمد بجا لاتے اور اس کا شکر ادا کیا کرتے تھے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں  :رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنماز میں اس قدر قیام فرماتے کہ آپ کے مبارک پاؤں سوج جاتے ۔ (ایک دن) حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ایسا کر رہے ہیں  حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کے اگلوں  اور پچھلوں  کے گناہ بخش دئیے ہیں !حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’اے عائشہ!(رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا’’اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا‘‘کیا میں(اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں  پر اس کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں ۔( مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب اکثار الاعمال والاجتہاد فی العبادۃ، ص۱۵۱۵، الحدیث: ۸۱(۲۸۲۰))

حضرت عروہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَیہ دعا مانگا کرتے تھے ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر ،اپنے شکر اور اپنی عبادت اچھی طرح کرنے پر میری مدد فرما(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء، امر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عمر بن الخطاب ان یدعوا بہ، ۷ / ۱۳۴، الحدیث: ۲)۔([1])


[1] …شکر کرنے کی ترغیب پانے کے لئے کتاب’’شکر کے فضائل‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

17:4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا(۴)
اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب (ف۱۰) میں وحی بھیجی کہ ضرور تم زمین میں دوبارہ فساد مچاؤ گے (ف۱۱) اور ضرور بڑا غرور کرو گے (ف۱۲)

{فِی الْكِتٰبِ: کتاب میں ۔} اس آیت میں  بنی اسرائیل کے بارے میں  بیان کیا گیا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں  تورات میں  یہ غیب کی خبر دی تھی کہ تم زمین میں  یعنی سرزمینِ شام میں  دو مرتبہ فساد کرو گے ۔ یہ غیب کی خبر پوری ہوئی اور جس طرح اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا تھا ویسے ہی وقوع میں  آیا کہ بنی اسرائیل نے فساد کیا، ظلم و بغاوت پر اترے اور اس کا انجام دیکھنے کے بعد پھر سنبھلے لیکن پھر دوبارہ فساد میں  مبتلا ہوگئے اور ہر مرتبہ فساد کے نتیجے میں  ذلیل و رسوا ہوئے ۔

17:5
فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا(۵)
پھر جب ان میں پہلی بار (ف۱۳) کا وعدہ آیا (ف۱۴) ہم نے تم پر اپنے بندے بھیجے سخت لڑائی والے (ف۱۵) تو وہ شہروں کے اندر تمہاری تلاش کو گھسے (ف۱۶) اور یہ ایک وعدہ تھا (ف۱۷) جسے پورا ہونا تھا،

{وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا: ان دو مرتبہ میں  سے پہلی بار کا وعدہ۔}ا س آیت میں  گزشتہ آیت کی تفصیل بیان کی جارہی ہے کہ جب دو مرتبہ کے فساد میں  سے پہلی مرتبہ کے فساد کا وقت آیا تو فساد کی صورت یہ بنی کہ انہوں  نے توریت کے احکام کی مخالفت کی اور گناہ کے کاموں  میں  پڑگئے اور حرام چیزوں  کے مُرتکب ہونے لگے حتّٰی کہ انہوں  نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت شعیائعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ایک قول کے مطابق حضرت ارمیاء عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کیا اور جب بنی اسرائیل نے یہ فساد کیا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ان پر بہت زور وقوت والے لشکروں  کو مُسَلَّط کردیا تاکہ وہ انہیں  لوٹیں  اور انہیں  قتل کریں ، قید کریں  (اور ذلیل و رسوا کریں ۔) چنانچہ ان مسلط کئے جانے والے لشکروں  نے بنی اسرائیل کے علماء کو قتل کیا، توریت کو جلایا، مسجد اقصیٰ کو ویران کیا اور ستر ہزار افراد کو گرفتار کیا۔( بیضاوی، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۴-۵، ۳ / ۴۳۲، خازن، الاسراء، تحت الایۃ: ۵، ۳ / ۱۶۲، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵، ص۶۱۶، جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵، ص۲۳۰) یہ مسلط کئے جانے والے لشکر کون سے تھے ، اس بارے میں  مختلف اَقوال ہیں  البتہ ان میں  سے جس نے بنی اسرائیل کو بدترین طریقے سے ہزیمت سے دوچار کیا وہ بخت نصر تھا جس نے انہیں  تہس نہس کرکے چھوڑا اور یوں  وعدہ ِ الٰہی پورا ہوا۔

بدعملی کا دُنْیَوی انجام:

            اس سے معلوم ہوا کہ بد عملی کی وجہ سے ظالم بادشاہ مسلط کردئیے جاتے ہیں ، کیونکہ ظالم بادشاہ بھی عذابِ الٰہی ہوتا ہے۔ نیز بد عملی کے مزید دنیوی نقصانات ملاحظہ ہوں  چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ہماری طرف توجہ فرمائی اور ارشاد فرمایا ’’اے مہاجرین! جب تم پانچ کاموں  میں  مبتلا کر دئیے جاؤ (تو تمہارا کیا حال ہو گا) اور میں  خدا سے پناہ مانگتا ہوں  کہ تم ان کاموں  میں  مبتلا ہو جاؤ، (1) جب کسی قوم میں  بے حیائی کے کام اِعلانیہ ہونے لگ جائیں  تو ان میں  طاعون اور وہ بیماریاں  عام ہو جاتی ہیں  جو پہلے کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں ۔ (2) جب لوگ ناپ تول میں  کمی کرنے لگ جاتے ہیں  تو ان پر قحط اور مصیبتیں  نازل ہوتی ہیں  اور بادشاہ ان پر ظلم کرتے ہیں ۔ (3) جب لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑ دیتے ہیں  تو اللّٰہ تعالیٰ بارش کو روک دیتا ہے،اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا۔ (4) جب لوگ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں  تو اللّٰہ تعالیٰ ان پر دشمنوں  کو مسلط کر دیتا ہے اوروہ ان کا مال وغیرہ سب کچھ چھین لیتے ہیں ۔ (5) جب مسلمان حکمران اللّٰہ تعالیٰ کے قانون کو چھوڑ کردوسرا قانون نافذکرتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کے احکام میں  سے کچھ پر عمل کرتے اور کچھ کو چھوڑدیتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کے درمیان اختلاف پیدا فرما دیتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات، ۴ / ۳۶۷، الحدیث: ۴۰۱۹)

 

17:6
ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَیْهِمْ وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِیْرًا(۶)
پھر ہم نے ان پر اُلٹ کر تمہارا حملہ کردیا (ف۱۸) اور تم کو مالوں اور بیٹوں سے مدد دی اور تمہارا جتھا بڑھا دیا،

{ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَیْهِمْ:پھر ہم نے تمہاراغلبہ ان پر اُلٹ دیا۔} اس آیت میں  بنی اسرائیل کی بربادی کے بعد دوبارہ سنبھلنے کی داستان بیان کی جارہی ہے کہ گناہوں  اور نافرمانیوں  کے نتیجے میں  تباہ و برباد ہونے کے بعد جب تم نے توبہ کی اور تکبر و فساد سے باز آئے توہم نے تمہیں  دولت دی اور تمہیں  اتنی قوت و طاقت عطا فرمائی کہ تم دوبارہ مقابلہ کرنے کے قابل ہوئے چنانچہ تمہیں  اُن لوگوں  پر غلبہ عطا کردیا گیا جو تم پر مسلط ہو چکے تھے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۱۶۲، ملتقطاً)

 افرادی اور مالی قوت کی اہمیت:

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ افرادی اور مالی قوت کی بھی بڑی اہمیت ہے اور طاقت کے میدان میں  ان کا بڑا عمل دخل ہے اور اگر ان کا صحیح استعمال ہو تو یہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بہت بڑی نعمت ہیں ۔

17:7
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ- وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَاؕ-فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا(۷)
اگر تم بھلائی کرو گے اپنا بھلا کرو گے (ف۱۹) اور اگر بُرا کرو گے تو اپنا، پھر جب دوسری بار کا وعدہ آیا (ف۲۰) کہ دشمن تمہارا منہ بگاڑ دیں (ف۲۱) اور مسجد میں داخل ہوں (ف۲۲) جیسے پہلی بار داخل ہوئے تھے (ف۲۳) اور جس چیز پر قابو پائیں (ف۲۴) تباہ کرکے برباد کردیں،

{اِنْ اَحْسَنْتُمْ: اگر تم بھلائی کرو گے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کو غلبہ و طاقت اور اقتدار و اختیار عطا کیا گیا تو ساتھ ہی انہیں  یہ بھی فرما دیا کہ اگر تم بھلائی کرو گے اور اس پر ثابت قدم رہو گے اور اسی بھلائی کے راستے پر چلتے رہو گے تو تم اپنے لئے ہی بہتر کرو گے اور اگر تم برا کرو گے اور دوبارہ پرانی روِش اپناؤ گے اور فتنہ و فساد اور نافرمانی کی زندگی گزارنے لگو گے تواس کا انجام تمہیں  ہی بھگتنا پڑے گا چنانچہ وہی ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق جب دوسری باربنی اسرائیل کے فساد کرنے کاوقت آیا اور انہوں  نے دوبارہ وہی پرانی حرکتیں  کرنا شروع کردیں  اور انہوں  نے پھر فساد برپا کیا حتّٰی کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے قتل کے درپے ہوئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بچالیا اور اپنی طرف اُٹھالیا اور بنی اسرائیل نے حضرت زکریا اور حضرت یحییٰعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو شہید کردیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر اہلِ فارس اور روم کو مسلط کیا تاکہ وہ انہیں  قتل کریں ، قید کریں  اور اتنا پریشان کریں  کہ رنج وپریشانی کے آثار ان کے چہروں  سے ظاہر ہوں  پھر ان مسلط ہونے والے لوگوں  نے یہ بھی کیا کہ وہ بیتُ المقدس کی مسجد میں  داخل ہوئے اور اسے ویران کردیا اور بنی اسرائیل کے شہروں  پر غلبہ پاکر انہیں  تباہ و برباد کردیا۔(تفسیر کبیر، الاسراء، تحت الآیۃ:۷، ۷ / ۳۰۱، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۱۶۲، ملتقطاً)

بنی اسرائیل کے دوہرے فساد اور ان کے انجام سے مسلمان نصیحت حاصل کریں :

            بنی اسرائیل کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم اپنی تاریخ کو دیکھیں  تو پہلی نظر میں  ہی مسلمانوں  کے عروج و زوال کا سبب واضح ہو جائے گا کہ مسلمان جب تک قرآنِ مجید کے احکامات اور رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت پر عمل پیرا رہے تو دنیا بھر میں  انہیں  غلبہ،قوت اور اِقتدار حاصل رہا اور انہیں  لاثانی شان و شوکت حاصل رہی اور جب سے انہوں  نے قرآن و حدیث کی پیروی میں  سستی کرنا شروع کی اور حرام و ناجائز اَفعال میں  مبتلا ہوئے تب سے ان کی شوکت اوراِقتدار زوال پذیر ہونا شروع ہو گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جس میں  اسلامی ملکوں  اور شہروں  کو تباہی وبربادی کے ایسے طوفان کا سامنا کرنا پڑا کہ لاکھوں  افراد کی آبادی پر مشتمل شہروں  میں  کوئی زندہ انسان نظر نہ آتا تھا اوروحشی پرندے اور جانور ان کی لاشوں  پر گوشت حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے گھوم رہے تھے۔ پھر جب مسلمان اپنی بے عملی چھوڑ کر عمل کی طرف مائل ہوئے اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کو انہوں  نے حرز جاں  بنایا تو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  پھر دنیا میں  طاقت اور سلطنت عطا فرما دی اور مسلمان اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت بحال کرنے میں  کافی حد تک کامیاب ہوئے، لیکن جب پھر مسلمانوں  میں  بد عملی کا رواج ہوا اور مسلمان شراب ورَباب کی مستی میں  گم ہو گئے اور نفسانی لذات کے حصول کو اپنا مشغلہ بنا لیا اور مال و دولت کی حرص و ہَوس کا شکار ہو گئے تو اس کے بعد مسلمانوں  کا جو حال ہوا ہے وہ صاحبِ نظر سے پوشیدہ نہیں ،اگر اب بھی مسلمان نہ سنبھلے اور انہوں  نے اپنی عملی حالت کو نہ سدھارا تو حالات اس سے بھی بدتر ہوجائیں  گے۔

 

17:8
عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یَّرْحَمَكُمْۚ-وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَاۘ-وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا(۸)
قریب ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے (ف۲۵) اور اگر تم پھر شرارت کرو (ف۲۶) تو ہم پھر عذاب کریں گے (ف۲۷) اور ہم نے جہنم کو کافروں کا قید خانہ بنایا ہے،

{اَنْ یَّرْحَمَكُمْ:کہ تم پر رحم فرمائے۔} یعنی اے بنی اسرائیل! دوسری مرتبہ کے بعد بھی اگر تم دوبارہ توبہ کرلو اور گناہوں  سے باز آجاؤ تو ہم تم پر پھر اپنا رحم و کرم کریں  گے لیکن اگر تم نے تیسری مرتبہ پھر شرارت کی اور فتنہ وفساد کیا توہم پھر تمہیں  اس کی سزا دیں  گے چنانچہ پھر ایسا ہی ہوا کہ انہوں  نے تیسری مرتبہ بھی وہی حرکات کیں  اور زمانۂ مصطفوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کی تو اُن پر ذلت مسلط کردی گئی۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸، ۵ / ۱۳۴-۱۳۵، ملخصاً) اور فرمادیا گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے یا لوگوں  کی طرف سے کوئی سہارا مل گیا تو ان کی کچھ بچت ہوجائے گی ورنہ ان پر ذلت مسلط کردی گئی ہے، چنانچہ ہمارے زمانے میں  یہودیوں  کو دیکھ لیں  کہ انہیں  مغربی ممالک کا سہارا حاصل ہے ، اگر وہ ہٹ جائے تو ایک دن میں  اپنی اوقات دیکھ لیں  گے۔

17:9
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِیْرًاۙ(۹)
بیشک یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے (ف۲۸) اور خوشی سناتا ہے ایمان والوں کو جو اچھے کام کریں کہ ان کے لیے بڑا ثواب ہے

{اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ: بیشک یہ قرآن۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی تین خوبیاں  بیان فرمائی ہیں  (1) قرآن سب سے سیدھا راستہ دکھاتا ہے اوروہ راستہ اللّٰہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنا، اس کے رسولوں  پر ایمان لانا اور اُن کی اطاعت کرنا ہے۔ (یہی راستہ سیدھا جنت تک اور خدا تک پہنچانے والا اور اللّٰہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں  یعنی ولیوں  اور ان نیک بندوں  کا ہے جن کی پیروی کا قرآنِ پاک میں  حکم دیا گیا ہے) ۔ (2) نیک اعمال کرنے والے مومنوں  کو جنت کی بشارت دیتا ہے۔(3) آخرت کے منکرین کو درناک عذاب کی خبر دیتا ہے۔( تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ۷ / ۳۰۳-۳۰۴، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ص۶۱۷، ملتقطاً)

17:10
وَّ اَنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا۠(۱۰)
اور یہ کہ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے،

17:11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا(۱۱)
اور آدمی برائی کی دعا کرتا ہے (ف۲۹) جیسے بھلائی مانگتا ہے (ف۳۰) اور آدمی بڑا جلد باز ہے (ف۳۱)

{وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ: اور آدمی برائی کی دعا کردیتا ہے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی جس طرح بھلائی کی دعائیں  مانگتا ہے اسی طرح بعض اوقات برائی کی دعا بھی کردیتا ہے جیسے کئی مرتبہ غصے میں  آکر اپنے اور اپنے گھر والوں  کے اور اپنے مال واولاد کے خلاف دعا کردیتا ہے ،غصہ میں  آکر ان سب کو کوستا ہے اور اُن کے لئے بددعائیں  کرتا ہے تو یہ انسان کی جلد بازی ہے( اور جلد بازی عموماً نقصان دیتی ہے ۔) اگر اللّٰہ تعالیٰ اس کی یہ بددعا ئیں  قبول کرلے تووہ شخص یا اس کے اہل و مال ہلاک ہوجائیں  لیکن اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول نہیں  فرماتا۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱، ۵ / ۱۳۷، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۱۶۷، ملتقطاً) جیسا کہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ‘‘(یونس: ۱۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور اگر اللّٰہ لوگوں  پرعذاب اسی طرح جلدی بھیج دیتا جس طرح وہ بھلائی جلدی طلب کرتے ہیں  تو ان کی مدت ان کی طرف پوری کردی جاتی۔

بد دعا کرنے سے بچیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ غصے میں  اپنے یا کسی مسلمان کیلئے بددعا نہیں  کرنی چاہیے اورہمیشہ منہ سے اچھی بات نکالنی چاہیے کہ نہ معلوم کونسا وقت قبولیت کا ہو۔ ہمارے معاشرے میں  عموماً مائیں  بچوں  کو طرح طرح کی بددعائیں  دیتی رہتی ہیں ، مثلا تیرا بیڑہ غرق ہو، تو تباہ ہوجائے، تو مرجائے، تجھے کیڑے پڑیں  وغیرہ، وغیرہ، اس طرح کے جملوں  سے احتراز لازم ہے۔

بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں  انسان سے کافر مراد ہے اور برائی کی دعا سے اس کا عذاب کی جلدی کرنا مراد ہے ، چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ نضر بن حارث کافر نے کہا، یارب! اگر یہ دین ِاسلام تیرے نزدیک حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا دردناک عذاب بھیج۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی یہ دعا قبول کرلی اور اُس کی گردن ماری گئی۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۶۱۷)

جلد بازی کی مذمت:

            اس آیت کے آخر میں  فرمایا گیا کہ آدمی بڑا جلد باز ہے۔ اسے سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے توہمارے معاشرے میں  لوگوں  کی ایک تعداد ایسی نظر آتی ہے جو دینی اور دنیوی دونوں  طرح کے کاموں  میں  نامطلوب جلد بازی سے کام لیتے ہیں ، جیسے وضو کرنے میں  ،نماز ادا کرنے میں ، تلاوتِ قرآن کرنے میں ، روزہ افطار کرنے میں  ، تراویح ادا کرنے میں ، قربانی کرنے میں ، ذبح کے بعد جانور کی کھال اتارنے میں ، ارکانِ حج ادا کرنے میں ، دعا کی قبولیت میں ، بد دعا کرنے میں ، کسی کو گناہگار قرار دینے میں ، کسی کے خلاف بد گمانی کرنے میں ، دنیا طلب کرنے میں ، نہ ملنے پر شکوہ کرنے میں ، رائے قائم کرنے میں ، کسی سے جھگڑا مول لینے میں ، کسی پرغصہ نافذ کرنے میں ، کسی کے خلاف یا کسی کام سے متعلق فیصلہ کرنے میں ، گاڑی چلانے میں ، گاڑی سے اترنے یا چڑھنے میں  اور روڈ پار کرنے وغیرہ بے شمار دینی اور دُنیوی اُمور میں  لوگ جلد بازی کرتے ہیں  اور ا س کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات لوگوں  کی عبادات ہی ضائع ہوجاتی ہیں  اور کبھی و ہ دنیوی معاملات میں  بھی شدید نقصان سے دوچار ہو جاتے ہیں  اور ان کے پاس ندامت اور پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں  رہتا۔ ایسے حضرات کو چاہئے کہ وہ درج ذیل دو اَحادیث سے نصیحت حاصل کریں  اور جلد بازی کی آفات اور اس کے نقصانات سے خود کو بچانے کی کوشش کریں  ۔

            حضرت سہل بن سعد ساعدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بُردباری اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی التّأنّی والعجلۃ، ۳ / ۴۰۷، الحدیث:۲۰۱۹)

             حضرت عقبہ بن عامررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے تَوَقُّف کیا تو اس نے (اپنا مقصد) پا لیا یا قریب ہے کہ وہ( اسے )پالے اور جس نے جلدی کی تو اس نے خطا کی یا قریب ہے کہ وہ خطا کھا جائے۔( معجم الکبیر، ابن لہیعۃ عن ابی عشانۃ، ۱۷ / ۳۱۰، الحدیث: ۸۵۸)

            یاد رہے کہ بعض کام ایسے ہیں  جن میں  جلدی کرنا مذموم نہیں  بلکہ ان میں  جلدی کرنا شریعت کی طرف سے مطلوب ہے جیسے قضا نمازیں  اورنمازِ جنازہ ادا کرنے میں ، قرض کی ادائیگی میں ، زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہونے کے بعد زکوٰۃ ادا کرنے میں ، گناہو ں  سے توبہ کرنے میں،  نیک اعمال کرنے میں ، اولاد جوان ہو جائے تو ان کی شادی کرنے وغیرہ میں  جلدی کرنا۔ اچھی اور بری جلدی میں  فرق واضح ہے جسے ہر آدمی موقع محل کے مطابق سمجھ سکتا ہے۔([1])


[1] جلد بازی کی مذمت اور نقصانات وغیرہ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’جلد بازی‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا فائدہ مند ہے۔

17:12
وَ جَعَلْنَا الَّیْلَ وَ النَّهَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَاۤ اٰیَةَ الَّیْلِ وَ جَعَلْنَاۤ اٰیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا(۱۲)
اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا (ف۳۲) تو رات کی نشانی مٹی ہوئی رکھی (ف۳۳) اور دن کی نشانیاں دکھانے والی (ف۳۴) کہ اپنے کا فضل تلاش کرو (ف۳۵) اور (ف۳۶) برسوں کی گنتی اور حساب جانو (ف۳۷) اور ہم نے ہر چیز خوب جدا جدا ظاہر فرمادی (ف۳۸)

{ اٰیَتَیْنِ: دونشانیاں ۔} اس آیت میںاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی قدرت کی دو عظیم نشانیاں  بیان فرمائیں  اور وہ دو نشانیاں  دن اور رات ہیں ، چنانچہ فرمایا کہ ہم نے رات کی نشانی کو مٹا ہوا بنایا یعنی رات کو تاریک بنایا کہ اس میں  ہر چیز چھپ جاتی ہے اور تاریک بنانے کا مقصد یہ ہے کہ اس میں  آرام کیا جائے جبکہ دن کو روشن بنایا تاکہ اس میں  سب چیزیں  نظریں  آئیں  اور تم اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکا فضل یعنی اپنی روزی آسانی سے کما سکو۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۶۱۸، جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۲۳۱، ملتقطاً)

آیت’’لِتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…بیکار رہنا اورکمائی نہ کرنا بہت نامناسب ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے ہاتھ پاؤں  برتنے کو دئیے ہیں  ا س لئے انہیں  بیکار نہیں  کرنا چاہیے۔ اس سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو ہاتھ پاؤں  اور دیگر جسمانی اَعضا سلامت ہونے اور کمائی کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود اپنوں  یا پرایوں  سے مانگ کر گزارہ کرتے ہیں ۔

(2)… رزق حقیقت میں  اللّٰہ تعالیٰ کا فضل ہے، مَحض ہماری کمائی کا نتیجہ نہیں ، اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اپنے ہنر و کمال پر ناز نہ کرے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر نگاہ رکھے۔اپنی محنت کر کے اللّٰہ تعالیٰ کے فضل پر نگاہ رکھنا ہی تَوکّل ہے۔

{لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ: تاکہ تم سالوں  کی گنتی اور حساب جان لو۔} یعنی رات اور دن کی تخلیق کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ رات اوردن کے دورے سے تم دنوں  کا حساب بناتے ہو، پھر دنوں  سے ہفتے اور مہینے اورپھر سال بنتے ہیں  تو گویا یہ نظام تمہاری زندگی کو سہولتیں  فراہم کرنے کیلئے ہے اور اسی دن رات کی تبدیلی سے تم دینی و دنیوی کاموں  کے اوقات کاحساب لگاتے ہو۔(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۱۳۹، ملخصاً)

{وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا:اور ہم نے ہر چیز کوخوب جدا جدا تفصیل سے بیان کردیا۔} یعنی ہم نے قرآن میں  ہر چیز کو تفصیل سے بیان فرمادیا خواہ اس کی حاجت تمہیں  دین میں  ہو یا دنیا کے کاموں  میں  ۔ مقصد یہ ہے کہ ہرایک چیز کی تفصیل بیان فرمادی جیسا کہ دوسری آیت میں  ارشاد فرمایا

’’ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ‘‘(انعام:۳۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان:ہم نے اس کتاب میں  کسی شے کی کوئی کمینہیں  چھوڑی۔

            نیز ایک اور آیت میں  ارشاد کیا

’’وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ‘‘(النحل:۸۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا جو ہر چیز کا روشن بیان ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۱۶۸، جمل، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۳۰۱، ملتقطاً)

غرض ان آیات سے ثابت ہے کہ قرآنِ کریم میں جمیع اَشیاء کا بیان ہے، سُبْحَانَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! کیا کتاب ہے اور کیسی اس کی جامعیت ہے، اس کی کچھ جھلک دیکھنی ہو تو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی عظیم الشان کتاب ’’اِنْبَاءُ الْحَیْ اَنَّ کَلَامَہٗ الْمَصْؤُنُ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْ‘‘(قرآن ہر چیز کا بیان ہے) کا مطالعہ فرمائیں  جس میں  آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے انتہائی شاندار انداز میں  علومِ قرآن کی وسعت کا بیان فرمایا ہے۔

17:13
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىٕرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖؕ-وَ نُخْرِ جُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا(۱۳)
اور ہر انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے سے لگادی (ف۳۹) اور اس کے لیے قیامت کے دن ایک نوشتہ نکالیں گے جسے کھلا ہوا پائے گا (ف۴۰)

{فِیْ عُنُقِهٖ: اس کی گردن میں ۔} یعنی جو کچھ کسی بھی آدمی کے لئے مقدر کیا گیا ہے، اچھا یا برا، نیک بختی یا بدبختی وہ اس کو اس طرح لازم ہے اور ہر وقت اس طرح اس کے ساتھ رہے گی جیسے گلے کا ہار کہ آدمی جہاں  جاتا ہے وہ ساتھ رہتا ہے، کبھی جدا نہیں  ہوتا۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۱۶۸، ملخصاً) امام مجاہد رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے کہا کہ ہر انسان کے گلے میں  اس کی سعادت یا شقاوت کا نَوِشْتہ ڈال دیا جاتا ہے۔(جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۲۳۱) پھر جب قیامت کا دن آئے گا تو آدمی کا نامۂ اعمال کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور اس کے بعد کا مرحلہ اگلی آیت میں  بیان فرمایا گیا ہے کہ اس سے فرمایا جائے گا: اپنا نامۂ اعمال پڑھ، آج اپنے متعلق حساب کرنے کیلئے تو خود ہی کافی ہے۔

17:14
اِقْرَاْ كِتٰبَكَؕ-كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًاؕ(۱۴)
فرمایا جائے گا کہ اپنا نامہ (نامہٴ اعمال) پڑھ آج تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے،

17:15
مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَاؕ-وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىؕ-وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا(۱۵)
جو راہ پر آیا وہ اپنے ہی بھلے کو راہ پر آیا (ف۴۱) اور جو بہکا تو اپنے ہی برے کو بہکا (ف۴۲) اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی (ف۴۳) اور ہم عذاب کرنے والے نہیں جب تک رسول نہ بھیج لیں (ف۴۴)

{مَنِ اهْتَدٰى: جس نے ہدایت پائی۔} ان آیات کا مَنشا یہ ہے کہ انسان کو اپنی ہدایت و نیک اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا، یہ نہ ہو گا کہ نیکی تو یہ کرے اور جزا کسی اور کو دے دی جائے اور یہ خود محروم رہے، ہاں  یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی نیکی سے دوسرے کو بھی فائدہ پہنچ جائے جیسے ایصالِ ثواب یا صدقہ جاریہ وغیرہ کی صورت میں  ہوتا ہے۔ یونہی آدمی کے بہکنے کا گناہ اور وبال بھی اسی پرہوگا ، یہ نہیں  ہوگا کہ ایک آدمی دوسروں  کے گناہوں  کا بوجھ اٹھائے، ہاں  جہاں  تک گناہ کی ترغیب دینے کا یا اس کے اَسباب مُہَیّا کرنے کا تعلق ہے تو اس کا گناہ بہرحال اپنی جگہ ملے گا، چنانچہ قرآنِ پاک میں  ہے

’’وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ‘‘(عنکبوت:۱۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور بیشک ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں  گے اوراپنے بوجھوں  کے ساتھ اور بوجھ اٹھائیں  گے۔

            اور فرماتا ہے

’’وَ مِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ‘‘(نحل:۲۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور کچھ ان لوگوں  کے گناہوں  کے بوجھ اٹھائیں  جنہیں  اپنی جہالت سے گمراہ کررہے ہیں ۔

بہر حال آیات کا آپس میں  تَعارُض نہیں ۔

{وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا:اور ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں  ہیں  جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔} ارشاد فرمایا کہ ہم جس کو بھی سزا دیتے ہیں  اس کی ہدایت کے اسباب مہیا ہونے کے بعد اور پھر اس آدمی کے جان بوجھ کر حق سے انکار کرنے کے بعد ہی سزا دیتے ہیں  چنانچہ پہلے ہم رسول بھیجتے ہیں  جو اُمت کو اس کے فرائض سے آگا ہ فرماتا ہے اور راہِ حق ان پر واضح کرتا ہے اور حجت قائم فرماتاہے پھر جب لوگ رسول کی نافرمانی کرتے ہیں  تو ہم انہیں  عذاب دیتے ہیں ۔

17:16
وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا(۱۶)
اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں اس کے خوشحالوں (ف۴۵) پر احکام بھیجتے ہیں پھر وہ اس میں بے حکمی کرتے ہیں تو اس پر بات پوری ہوجاتی ہے تو ہم اسے تباہ کرکے برباد کردیتے ہیں،

{وَ اِذَاۤ اَرَدْنَا: اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں ۔} اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے گزشتہ اَقوام کا اِجمالی حال اور گمراہ قوموں  کا مزاج بیان فرمایا ہے کہ کس طرح وہ مرحلہ وار سزا و عذاب کے مستحق ہوتے ہیں  چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ایسا نہیں  ہوتا کہ بغیر کسی رہنمائی اور مہلت کے انہیں  عذاب میں  مبتلا کردیا جاتا ہے بلکہ ہوتا یہ ہے کہ سب سے پہلے تو ہم قوم کے سرداروں  اور خوشحال لوگوں  کو اپنے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ذریعے احکام بھیجتے ہیں  تاکہ لوگ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی فرمانبرداری کی طرف آئیں  اور احکاماتِ الٰہیہ پرعمل پیر اہوں  لیکن زیادہ تر یہی ہوا کہ سرداروں  اور مالداروں  نے رسول کی بارگاہ میں  سر جھکانے کی بجائے نافرمانی کا راستہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں  وہ عذاب کے مستحق بنے اور عذابِ الٰہی کا فیصلہ ان پر صادق آیا اور وہ تباہ و برباد ہوئے۔

قوم کے سرداروں  کو انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے:

            اس آیت میں  سرداروں  کا بطورِ خاص ذکر کیا گیا کیونکہ عوام اپنے سرداروں  کے ہی پیچھے چلتے ہیں  ، جو وہ کرتے ہیں  عوام وہی کرتی ہے ،اس سے معلوم ہوا کہ سردارانِ قوم کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ ان کی غلطی عام آدمی کی غلطی سے بہت بڑھ کر ہوتی ہے۔

17:17
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍؕ-وَ كَفٰى بِرَبِّكَ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا(۱۷)
اور ہم نے کتنی ہی سنگتیں (قومیں) (ف۴۶) نوح کے بعد ہلاک کردیں (ف۴۷) اور تمہارا رب کافی ہے اپنے بندوں کے گناہوں سے خبردار دیکھنے والا (ف۴۸)

{وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ: اور کتنی ہی قومیں  ہم نے ہلاک کردیں ۔} یعنی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے کے بعد کتنی ہی  تکذیب کرنے والی اُمتیں  جیسے قومِ عاد ، قومِ ثمود اور قومِ لوط وغیرہ ہم نے ہلاک کردیں  کیونکہ انہوں  نے اپنے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کی ، لہٰذا مکہ والوں  کو عبر ت حاصل کرنی چاہیے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۱۶۹، ملخصاً) اور ان کے ساتھ ساری کائنات کے لوگوں  کو اس سے خبردار رہنا چاہیے کہ اگر انہوں  نے سابقہ امتوں  کی طرح اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی والا راستہ اختیار کیا اور اسی پر قائم رہے تو اللّٰہ تعالیٰ ان امتوں  کی طرح انہیں  بھی کہیں  عذاب میں  مبتلا نہ کر دے۔

{وَ كَفٰى بِرَبِّكَ:اور تمہارا رب کافی ہے۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں  ’’اللّٰہ تعالیٰ تمام معلومات کو جاننے والا، تمام دیکھی جانے والی چیزوں  کو دیکھنے والا ہے لہٰذا مخلوق کا کوئی حال بھی اللّٰہ تعالیٰ سے چھپا ہوا نہیں  ہے اور یہ ثابت ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ تمام مُمکِنات پر قادر ہے لہٰذا وہ ہر ایک کو اس کے اعمال کی ویسی جزا دینے پر بھی قدرت رکھتا ہے جس کا وہ مستحق ہے نیز اللّٰہ تعالیٰ عَبث اور ظلم سے بھی پاک ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی ان تین صفات یعنی مکمل علم، کامل قدرت اور ظلم سے براء ت میں  فرمانبرداروں  کے لئے عظیم بشارت جبکہ کافروں  اور گناہگاروں  کے لئے عظیم خوف ہے۔( تفسیر کبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۷ / ۳۱۶)

17:18
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)
جو یہ جلدی والی چاہے (ف۴۹) ہم اسے اس میں جلد دے دیں جو چاہیں جسے چاہیں (ف۵۰) پھر اس کے لیے جہنم کردیں کہ اس میں جائے مذمت کیا ہوا دھکے کھاتا،

{اَلْعَاجِلَةَ: جلدی والی (دنیا)۔} یعنی  جوصرف دنیا کا طلب گار ہو تو  یہ ضروری نہیں  کہ طالب ِدنیا کی ہر خواہش پوری کی جائے اور اُسے دیا ہی جائے اور جو وہ مانگے وہی دیا جائے ایسا نہیں  ہے بلکہ ہم ان میں  سے جسے چاہتے ہیں  دیتے ہیں  اور جوچاہتے ہیں  دیتے ہیں  اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ محروم کردیتے ہیں  اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ بہت چاہتا ہے اور تھوڑا دیتے ہیں  اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عیش چاہتا ہے مگر تکلیف ملتی ہے ۔ ان حالتوں  میں  کافر دنیا و آخرت دونوں  کے خسارے میں  رہا اور اگر دنیا میں  اس کو اس کی پوری مراد دیدی گئی تو آخرت کی بدنصیبی و شقاوت جب بھی ہے جبکہ مومن کا حال اس سے بالکل جدا ہے کہ جو آخرت کا طلب گار ہے اگر وہ دنیا میں  فقر سے بھی زندگی بسر کر گیا تو آخرت کی دائمی نعمتیں  اس کے لئے موجود ہیں  اور اگر دنیا میں  بھی فضلِ الٰہی سے اس کو عیش ملا تو دونوں  جہان میں  کامیاب ،الغرض مومن ہر حال میں  کامیاب ہے اور کافر اگر دنیا میں  آرام پا بھی لے تو بھی کیا ؟کیونکہ بالآخر تو اسے ذلیل و رسوا ہوکر جہنم میں  ہی جانا ہے۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۶۱۹، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۵۲۹، ملتقطاً)

دنیا کی خاطر آخرت برباد نہ کریں :

             خلاصۂ کلام یہ ہے کہ  دنیا اتنی ہی ملے گی جتنی نصیب میں  ہے خواہ اسے فکر سے حاصل کریں  یا فراغت سے ، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ وہ اپنی دنیا بہتر بنانے کے لئے اپنی آخرت کو برباد نہ کرے، یونہی وہ کسی کی دنیا کی خاطر بھی اپنی آخرت تباہ نہ کرے ۔ حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں  میں  بدترین درجے والا وہ بندہ ہے جو دوسروں  کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت برباد کردے۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب اذا التقی المسلمان بسیفہما، ۴ / ۳۳۹، الحدیث: ۳۹۶۶) یاد رہے کہ مومنِ کامل کا دل دنیا میں  رہتا ہے مگر دل میں  دنیا نہیں  رہتی بلکہ دل میں  صرف دین رہتا ہے اور اگر دل میں  دین کی بجائے دنیا آ جائے تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے جیسے کشتی پانی میں  جائے تو تیرے گی لیکن پانی کشتی میں  آجائے تو کشتی ڈوب جائے گی۔

17:19
وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا(۱۹)
اور جو آخرت چاہے اور اس کی سی کوشش کرے (ف۵۱) اور ہو ایمان والا تو انہیں کی کوشش ٹھکانے لگی، (ف۵۲)

{وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ: اور جو آخرت چاہے۔} اس سے پہلی آیت میں  طالب ِ دنیا کا بیان کیا گیا جبکہ اس آیت میں  طالب ِ آخرت کا بیان ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو آخرت کا طلبگار ہے اور اس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے یعنی  نیک اعمال بجالاتا ہے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہ وہ آدمی ہے جس کا عمل مقبول ہے اور یہی وہ لوگ ہیں  جن کے اعمال کا اچھا صِلہ دیا جائے گا۔

عمل کی مقبولیت کے لئے درکار تین چیزیں :

            اس آیت میں  مومن ہونے کی شرط کا بیان ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کے بغیر کوئی نیکی قبول نہیں ، نیکیوں  کے لئے ایمان ایسا ضروری ہے جیسے نماز کے لئے وضو، یا بہترین غذا کے لئے زہر سے خالی ہونا۔ ایمان جڑ ہے اور اعمال اس کی شاخیں ۔ صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی  رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یہاں  بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی کہ  اس آیت سے معلوم ہوا کہ عمل کی مقبولیت کے لئے تین چیزیں  درکار ہیں : ایک تو طالبِ آخرت ہونا یعنی نیت نیک۔ دُوسرے سعی یعنی عمل کو باہتمام اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرنا۔ تیسری ایمان جو سب سے زیادہ ضروری ہے۔( خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۵۲۹)

17:20
كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَؕ-وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا(۲۰)
ہم سب کو مدد دیتے ہیں اُن کو بھی (ف۵۳) اور اُن کو بھی، تمہارے رب کی عطا سے (ف۵۵) اور تمہارے رب کی عطا پر روک نہیں، (ف۵۶)

{كُلًّا نُّمِدُّ: ہم سب کی مدد کرتے ہیں ۔} اس آیت میں  ارشاد فرمایا کہ جو دنیا چاہتے ہیں  اور جو طالبِ آخرت ہیں  ہم سب کی مدد کرتے ہیں ۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۱۷۰) چنانچہ دیکھ لیں  کہ کفار اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمن ہیں  لیکن وہ چونکہ دنیا کے طالب ہیں  اور اس کیلئے کوشش کرتے ہیں  تو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  بھی عطا فرمایا ہے بلکہ ہمارے زمانے میں  تودُنْیوی ترقی میں  وہ مسلمانوں  سے بہت آگے ہیں  اور یونہی جو مسلمان محنت کرتا ہے وہ بھی اپنی محنت کا صلہ پاتا ہے ۔ الغرض دنیا میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سب کو عطا فرما رہا ہے  ، سب کو روزی مل رہی ہے، دنیا میں  سب اس سے فیض اُٹھاتے ہیں  نیک ہوں  یا بد البتہ انجام ہر ایک کا اس کے حسبِ حال ہوگا ،اور اگلی آیت میں  فرمایا کہ  دیکھو! ہم نے ان میں  ایک کو دوسرے پر مال ، عزت، شہرت، کمال میں  بڑائی دی ہے لیکن ان تمام چیزوں  کے ساتھ یہ حقیقت ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ درجات اور فضیلت کے اعتبار سے آخرت ہی سب سے بڑی چیز ہے ۔

17:21
اُنْظُرْ كَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-وَ لَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّ اَكْبَرُ تَفْضِیْلًا(۲۱)
دیکھو ہم نے ان میں ایک کو ایک پر کیسی بڑائی دی (ف۵۷) اور بیشک آخرت درجوں میں سب سے بڑی اور فضل میں سب سے اعلیٰ ہے،

17:22
لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا۠(۲۲)
اے سننے والے اللہ کے ساتھ دوسرا خدا نہ ٹھہرا کہ تُو بیٹھ رہے گا مذمت کیا جاتا بیکس (ف۵۸)

17:23
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳)
اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پُوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں (ف۵۹) تو ان سے ہُوں، نہ کہنا (ف۶۰) اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا (ف۶۱)

{وَ قَضٰى رَبُّكَ: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 16 آیات میں  اللّٰہ تعالیٰ نے تقریباً 25کاموں  کا حکم دیا ہے ۔ آیت کے ابتدائی حصے کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کہ تم اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت میں  اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں  جو کام کرنے کااللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا انہیں  کرو اور جن کاموں  سے منع کیا ہے ان سے بچو۔ اس میں  سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا اقرار، ان سے محبت اور ان کی تعظیم کرنا بھی داخل ہیں  کیونکہ اس کا بھی اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ‘‘(اٰل عمران:۳۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اے حبیب!فرمادو کہ اے لوگو! اگر تم اللّٰہسے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤ اللّٰہ تم سے محبت فرمائے گا۔( صاوی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۱۱۲۵)

{وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا: اور ماں  باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔} اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں  باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ،اس میں  حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللّٰہ تعالیٰ کی تخلیق اور اِیجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں  باپ ہیں  ا س لئے اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم دیا ۔ ا ٓیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔( تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۷ / ۳۲۱،۳۲۳)

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے سے متعلق12 اَحادیث:

            اس آیت میں  والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا گیا، اسی مناسبت سے ترغیب کے لئے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کے حقوق سے متعلق 12 اَحادیث یہاں  ذکر کی جاتی ہیں

(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں  (یعنی ماں  کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں  ے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا :’’تمہاری ماں ۔ انہوں  نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر ماں  کو بتایا۔ انہوں  نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔( بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، ۴ / ۹۳، الحدیث: ۵۹۷۱)

(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں  کے ساتھ باپ کے نہ ہونے(یعنی باپ کے انتقال کر جانے یا کہیں  چلے جانے) کی صورت میں  احسان کرے۔( مسلم،کتاب البرّ والصلۃ والآداب،باب فضل صلۃ اصدقاء الاب والامّ ونحوہما، ص۱۳۸۲، الحدیث: ۱۳(۲۵۵۲))

(3)… حضرت اسماء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں  ’’جس زمانہ میں  قریش نے نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں  جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں  نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،  میری ماں  آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں  اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اس کے ساتھ سلوک کرو۔( بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک، ۴ / ۹۶، الحدیث: ۵۹۷۸)یعنی کافرہ ماں  کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا۔

(4)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: میں  جنت میں  گیا اس میں  قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں  نے پوچھا :یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں  نے کہا، حارثہ بن نعمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں۔ حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔( شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین، ۶ / ۴۲۶، الحدیث: ۳۳۱۲)اور شعب الایمان کی روایت میں  مزید یہ بھی ہے کہ ’’ حارثہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی ماں  کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔( شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۱۸۴، الحدیث: ۷۸۵۱)

(5)…حضرت ابو اسید بن مالک  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ماں  باپ کے ساتھ نیک سلوک سے یہ بات ہے کہ اولاد ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے دعائے مغفرت کرے۔(کنز العمال، حرف النون، کتاب النکاح، قسم الاقوال، الباب الثامن فی برّ الوالدین،  ۸ / ۱۹۲، الحدیث: ۴۵۴۴۱، الجزء السادس عشر)

(6)… اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں (جس کا خلاصہ ہے کہ )’’ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں  حاضر ہوکر عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ، میں  اپنے ماں  باپ کے ساتھ زندگی میں  نیک سلوک کرتا تھا ، وہ انتقال کرگئے ہیں  تو اب ان کے ساتھ نیک سلوک کی کیا صورت ہے؟ ارشاد فرمایا ’’انتقال کے بعد نیک سلوک سے یہ ہے کہ تواپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے بھی نماز پڑھے اور اپنے روزوں  کے ساتھ ان کے لئے روزے رکھے۔‘‘ یعنی جب اپنے ثواب ملنے کے لئے کچھ نفلی نماز پڑھے یاروزے رکھے تو کچھ نفل نماز ان کی طرف سے کہ انہیں  ثواب پہنچائے یانماز روزہ جونیک عمل کرے ساتھ ہی انہیں  ثواب پہنچنے کی بھی نیت کرلے کہ انہیں بھی ثواب ملے گا اور تیرا بھی کم نہ ہوگا۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: الحقوق لطرح العقوق، ۲۴ / ۳۹۵، ملخصاً)

(7)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں  ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی ناراضی میں  ہے۔‘‘(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، ۳ / ۳۶۰، الحدیث۱۹۰۷)

(8)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ سے روایت ہے، رسولُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں  ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں  ہے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۶۴۱، الحدیث: ۲۲۵۵)

(9)…حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تین شخص جنت میں  نہ جائیں  گے (1) ماں  باپ کا نافرمان۔ (2) دیّوث ۔ (3) مَردوں  کی وضع بنانے والی عورت۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: ابراہیم، ۲ / ۴۳، الحدیث: ۲۴۴۳)

(10)… حضرت ابو بکرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ماں  باپ کی نافرمانی کے علاوہ اللّٰہ تعالیٰ ہر گناہ میں  سے جسے چاہے معاف فرما دے گا جبکہ ماں  باپ کی نافرمانی کی سزا انسان کو موت سے پہلے زندگی ہی میں  مل جائے گی۔( شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی عقوق الوالدین، ۶ / ۱۹۷، الحدیث: ۷۸۹۰)

(11)… حضرت عبداللّٰہ بن عمرو  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ یہ بات کبیرہ گناہوں  میں  ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا کوئی شخص اپنے ماں  باپ کو گالی دیتا ہے؟ ارشاد فرمایا ’’ہاں ، اس کی صورت یہ ہے کہ یہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے، وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، اور یہ دوسرے کی ماں  کو گالی دیتا ہے، وہ اس کی ماں  کو گالی دیتا ہے۔‘‘(مسلم، کتاب الایمان، باب الکبائر واکبرہا، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۶(۹۰))صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’صحابۂ کرام( رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ) جنھوں  نے عرب کا زمانہ ٔ جاہلیت دیکھا تھا، ان کی سمجھ میں  یہ نہیں  آیا کہ اپنے ماں  باپ کو کوئی کیوں  کر گالی دے گا یعنی یہ بات ان کی سمجھ سے باہر تھی۔ حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے بتایا کہ مراد دوسرے سے گالی دلوانا ہے اور اب وہ زمانہ آیا کہ بعض لوگ خود اپنے ماں  باپ کو گالیاں  دیتے ہیں  اور کچھ لحاظ نہیں  کرتے۔( بہار شریعت، حصہ شانزدہم، سلوک کرنے کا بیان، ۳ / ۵۵۲)

(12)…  حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو۔ صحابۂ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کس کی ناک خاک آلود ہو؟ ارشاد فرمایا ’’جس نے اپنے ماں  باپ دونوں  یا ان میں  سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں  پایا، پھر وہ شخص جنت میں  داخل نہ ہوا۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب رغم من ادرک ابویہ او احدہما عند الکبر۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۱، الحدیث: ۹(۲۵۵۱))

            اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں  والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کی نافرمانی سے بچائے ۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے حقوق سے متعلق مزید معلومات کے لئے فتاویٰ رضویہ کی جلد نمبر 24 سے رسالہ ’’اَلْحُقُوْقْ لِطَرْحِ الْعُقُوقْ‘‘(نافرمانی کو ختم کرنے کے لئے حقوق کی تفصیل کا بیان)[1] اور بہار شریعت حصہ 16 سے ’’سلوک کا بیان‘‘ مطالعہ کیجئے۔

{اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا:اگر تیرے سامنے ان میں  سے کوئی ایک یا دونوں  بڑھاپے کو پہنچ جائیں ۔} یعنی اگر تیرے والدین پر کمزوری کا غلبہ ہو جائے اور ان کے اَعضا میں  طاقت نہ رہے اور جیسا تو بچپن میں  اُن کے پاس بے طاقت تھا ایسے ہی وہ اپنی آخری عمر میں  تیرے پاس ناتواں  رہ جائیں  تو ان سے اُف تک نہ کہنا یعنی ایسا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالنا جس سے یہ سمجھا جائے کہ اُن کی طرف سے طبیعت پرکچھ بوجھ ہے اور انہیں  نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت ، نرم بات کہنا اور حسنِ ادب کے ساتھ اُن سے خطاب کرنا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۱۷۰-۱۷۱، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۶۲۰، ملتقطاً)

والدین سے متعلق اسلام کی عظیم تعلیم:

            یہاں  آیت کی مناسبت سے دو باتیں  یاد رکھیں  ،ایک یہ کہ کوئی شخص ماں  باپ کو اُن کا نام لے کر نہ پکارے یہ خلافِ ادب ہے اور اس میں  اُن کی دل آزاری ہے لیکن وہ سامنے نہ ہوں  تو اُن کا ذکر نام لے کر کرنا جائز ہے ۔دوسری یہ کہ ماں  باپ سے اس طرح کلام کرے جیسے غلام و خادم آقا سے کرتا ہے۔ ان آیات اور اَحادیث کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر ذی شعور انسان پر واضح ہو جائے گا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی جیسی عظیم تعلیم اسلام نے اپنے ماننے والوں  کو دی ہے ویسی پوری دنیا میں  پائے جانے والے دیگر مذاہب میں  نظر نہیں  آتی۔ فی زمانہ غیر مسلم ممالک میں  بوڑھے والدین ایسی نازک ترین صورتِ حال کا شکار ہیں  کہ ان کی جوان اولاد کسی طور پر بھی انہیں  سنبھالنے اور ان کی خدمت کر کے ان کا سہارا بننے کے لئے تیار نہیں  ہوتی ،اسی وجہ سے وہاں  کی حکومتیں  ایسی پناہ گاہیں  بنانے پر مجبور ہیں  جہاں  بوڑھے اور بیمار والدین اپنی زندگی کے آخری ایام گزار سکیں ۔


[1] ۔۔۔۔ یہ رسالہ تسہیل وتخریج کے ساتھ بنام ’’والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق‘‘ مکتبۃ المدینہ سے جداگانہ بھی شائع ہوچکا ہے، اسے وہاں  سے ہدیۃً حاصل کر کے مطالعہ فرمائیں ۔

17:24
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴)
اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا (ف۶۲) نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن (بچپن) میں پالا (ف۶۳)

{وَ اخْفِضْ لَهُمَا: اور ان کیلئے جھکا کر رکھ۔} اس آیت میں  مزید حکم دیا کہ والدین کے ساتھ  نرمی اور عاجزی کے ساتھ پیش آؤ اور ہر حال میں  ان کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاؤ کرو کیونکہ اُنہوں  نے تیری مجبوری کے وقت تجھے محبت سے پرورش کیا تھا اور جو چیز اُنہیں  درکار ہو وہ اُن پر خرچ کرنے میں  دریغ نہ کرو۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۱۷۱، ملخصاً) گویا زبانی کے ساتھ ساتھ  عملی طور پربھی ان سے اچھا برتاؤ کرو اوریونہی مالی طور پر بھی ان سے اچھا سلوک کرو کہ ان پر خرچ کرنے میں  تأمُّل نہ کرو ۔

{وَ قُلْ: اور کہو۔} حقوقِ والدین کے بیان کے آخر میں  فرمایا کہ ان کیلئے دعا کرو ۔ گویا یہ فرمایا گیا کہ دنیا میں  بہتر سے بہترین سلوک اور خدمت میں  کتنا بھی مبالغہ کرلیا جائے لیکن والدین کے احسان کا حق ادا نہیں  ہوتا، اس لئے بندے کو چاہیے کہ بارگاہِ الٰہی میں  اُن پر فضل و رحمت فرمانے کی دعا کرے اور عرض کرے کہ یارب! میری خدمتیں  اُن کے احسان کی جزا نہیں  ہوسکتیں  تو اُن پر کرم کرکہ اُن کے احسان کا بدلہ ہو۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۶۲۰-۶۲۱، ملخصاً)

والدین کے لئے روزانہ دعا کرنی چاہئے:

            والدین کیلئے دعا کو اپنے روزانہ کے معمولات میں  داخل کرلینا چاہیے اور ان کی صحت و تندرستی، ایمان و عافیت کی سلامتی کی دعا کرنی چاہیے اور اگر فوت ہوگئے ہوں  تو ان کیلئے قبر میں  راحت، قیامت کی پریشانیوں  سے نجات ، بے حساب بخشش اور جنت میں  داخلے کی دعا کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ اگر والدین کافر ہوں  تو اُن کے لئے ہدایت و ایمان کی دعا کرنی چاہیے کہ یہی اُن کے حق میں  رحمت ہے۔ اور دنیاوی اعتبار سے اچھا سلوک ان کے ساتھ بھی لازم ہے۔

17:25
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِكُمْؕ-اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا(۲۵)
تمہارا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے (ف۶۴) اگر تم لائق ہوئے (ف۶۵) تو بیشک وہ توبہ کرنے والوں کو بخشنے والا ہے،

{رَبُّكُمْ اَعْلَمُ: تمہارا رب خوب جانتا ہے۔} آیت کا مفہوم اپنے اِطلاق پر بھی ہے اور والدین کی خدمت کے حوالے سے لیں  تو معنی یہ ہوگا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے کہ تمہارے دلوں  میں  والدین کی اطاعت کا کتنا ارادہ ہے اور اُن کی خدمت کا کتنا ذوق ہے۔ ہاں  اگر یہ ہوا کہ  تمہارے دلوں  میں  توماں  باپ کی خدمت کا شوق تھا لیکن اس کا موقعہ نہیں  ملا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاس پر پکڑ نہ فرمائے گا کیونکہ وہ ارادوں  اور نیتوں  کوجانتا ہے اور یونہی تم واقعی نیک تھے اور اس کے باوجود  تم سے والدین کی خدمت میں  کوئی کمی واقع ہوگئی اور تم نے توبہ کرلی تو اللّٰہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول فرمالے گا کیونکہ وہ بخشنے والا ہے۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۶۲۱، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۱۷۱-۱۷۲، ملتقطاً)

            یہاں  یہ یاد رہے کہ حقوقِ والدین میں  اگر کوئی کمی ہوئی تو جب تک اس کی تَلافی ممکن ہو تلافی بھی کرنا ضروری ہے جیسے اگر ان کا دل دکھایا تو ان سے معافی مانگنا بھی ضروری ہے۔

17:26
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶)
اور رشتہ داروں کو ان کا حق دے (ف۶۶) اور مسکین اور مسافر کو (ف۶۷) اور فضول نہ اڑا (ف۶۸)

{وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ:اور رشتہ داروں  کو ان کا حق دو۔} اس آیت میں  والدین کے بعد دیگر لوگوں  کے حقوق بیان کئے جا رہے ہیں  چنانچہ سب سے پہلے رشتے داروں  کا فرمایا کہ انہیں  ان کا حق دو یعنی اُن کے ساتھ صِلہ رحمی کرو ، ان سے محبت سے پیش آؤ، ان سے میل جول رکھو اور ان کی خبر گیری کرتے رہو اور ضرورت کے موقع پر ان کی مدد کرو اور ان کے ساتھ ہر جگہ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ رشتہ داروں  کا خرچ اٹھانے سے متعلق حکمِ شرعی یہ ہے کہ اگر رشتے دار مَحارم میں  سے ہوں  اور محتاج ہوجائیں  تو اُن کا خرچ اُٹھانا یہ بھی ان کا حق ہے اور صاحب ِاِستطاعت رشتہ دار پر لازم وواجب ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۱۷۲)

            یاد رہے کہ رشتے داروں  سے حسنِ سلوک کا قرآنِ پاک میں  بکثرت حکم دیا گیا ہے چنانچہ کم از کم 8 مقامات پر اللّٰہ تعالیٰ نے رشتے داروں  سے حسنِ سلوک کا فرمایا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ رشتے داروں  کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی اسلام میں  بڑی اہمیت ہے ،نیز یہاں رشتے داروں  کے بعد مسکینوں  اور مسافروں کا حق دینے کا فرمایا کہ اُن کا حق دو۔

{وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا: اور فضول خرچی نہ کرو۔} یعنی اپنا مال ناجائز کام میں  خرچ نہ کرو ۔ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے تَبذیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جہاں  مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کی بجائے کہیں  اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مَصرف میں  خرچ کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں  اور اگر کوئی ایک درہم بھی باطل یعنی ناجائز کام میں  خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔ (خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۱۷۲)

 اِسرا ف کا حکم اور اس کے معانی:

             اسراف بلاشبہ ممنوع اور ناجائز ہے اور علماءِ کرام نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں  ،ان میں  سے 11 تعریفات درج ذیل ہیں :

(1)…غیرِ حق میں  صَرف کرنا۔ (2)اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی حد سے بڑھنا۔ (3) …ایسی بات میں  خرچ کرنا جو شرعِ مُطَہَّر یا مُرَوّت کے خلاف ہو ،اول حرام ہے اور ثانی مکروہِ تنزیہی۔ (4) …طاعتِ الٰہی کے غیر میں  صرف کرنا۔ (5) …شرعی حاجت سے زیادہ استعمال کرنا۔ (6) …غیرِ طاعت میں  یا بلا حاجت خرچ کرنا۔ (7)…دینے میں  حق کی حد سے کمی یا زیادتی کرنا۔ (8) …ذلیل غرض میں  کثیر مال خرچ کردینا۔ (9) …حرام میں  سے کچھ یا حلال کو اِعتدال سے زیادہ کھانا۔ (10) …لائق وپسندیدہ بات میں  لائق مقدار سے زیادہ صرف کردینا ۔ (11) …بے فائدہ خرچ کرنا۔

             اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِان تعریفات کو ذکر کرنے اور ان کی تحقیق و تفصیل بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں  ’’ہمارے کلام کا ناظر خیال کرسکتا ہے کہ ان تمام تعریفات میں  سب سے جامع ومانع وواضح تر تعریف اول ہے اور کیوں  نہ ہو کہ یہ اُس عبداللّٰہ کی تعریف ہے جسے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ علم کی گٹھری فرماتے اور جو خلفائے اربعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْکے بعد تمام جہان سے علم میں  زائد ہے اور جوابو حنیفہ جیسے امام الائمہ کا مُورثِ علم ہےرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وَعَنْہُ وَعَنْہُمْ اَجْمَعِیْن۔( فتاوی رضویہ، ۱ / ۶۹۶-۶۹۷)

تَبذیر اوراِ سراف میں  فرق:

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے تبذیر اور اسراف میں  فرق سے متعلق جو کلام ذکر فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تبذیر کے بارے میں  علما ئِ کرام کے دو قول ہیں :

(1)…تبذیر اور اسراف دونوں  کے معنی ناحق صَرف کرنا ہیں ۔ یہی صحیح ہے کہ یہی قول حضرت عبداللّٰہ بن مسعود اور حضرت عبداللّٰہ بن عباس اور عام صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْکا ہے۔

(2)…تبذیر اور اسراف میں  فرق ہے، تبذیر خاص گناہوں  میں  مال برباد کرنے کا نام ہے۔

             اس صورت میں  اسراف تبذیر سے عام ہوگا کہ ناحق صرف کرنا عَبث میں  صرف کرنے کو بھی شامل ہے اور عبث مُطْلَقاً گناہ نہیں  توچونکہ اسراف ناجائز ہے ا س لئے یہ خرچ کرنا معصیت ہوگا مگر جس میں  خرچ کیا وہ خود معصیت نہ تھا۔ اور عبارت ’’لَاتُعْطِ فِی الْمَعَاصِیْ‘‘کا ظاہر یہی ہے کہ وہ کام خود ہی معصیت ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ تبذیر کے مقصود اور حکم دونوں  معصیت ہیں  اور اسراف کو صرف حکم میں  معصیت لازم ہے۔( فتاوی رضویہ، ۱ / ۶۹۷-۶۹۸، ملخصاً)

 

17:27
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷)
بیشک اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں (ف۶۹) اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے (ف۷۰)

{اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ:شیطان کے بھائی۔}ا س سے پہلی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ فضول خرچی نہ کرو جبکہ اس آیت میں  فرمایا کہ بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں  کے بھائی ہیں  کیونکہ یہ ان کے راستے پر چلتے ہیں  اور چونکہ شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے، لہٰذا اُس کا راستہ اختیار نہیں  کرنا چاہیے۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۶۲۱، ملخصاً)

 

17:28
وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا(۲۸)
اور اگر تو ان سے (ف۷۱) منہ پھیرے اپنے رب کی رحمت کے انتظار میں جس کی تجھے امید ہے تو ان سے آسان بات کہہ (ف۷۲)

{وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمْ: اور اگر تم ان سے منہ پھیرو۔} اس سے اوپر والی آیات میں  رشتہ داروں  ، مسکینوں  اور مسافروں  کا بیان ہوا تھا ، اور اس آیت میں  فرمایا کہ اگر کسی وقت تمہارے پاس فوری دینے کو کچھ نہ ہو تو ان سے آسان بات کہو جیسے اُن کی خوش دلی کے لئے اُن سے وعدہ کرلویا اُن کے حق میں  دعا کردو ۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضرت بلال، حضرت صہیب ، حضرت سالم ، حضرت خبّاب (اور ان کے علاوہ چند صحابۂ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم) وقتاً فوقتاً رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنی حاجات و ضروریات کے لئے سوال کرتے رہتے تھے، اگرکسی وقت حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے پاس کچھ نہ ہوتا تو آپ حیاء ً اُن سے اِعراض کرتے اور اِس انتظار میں  خاموش ہوجاتے کہ اللّٰہ تعالیٰ کچھ بھیجے تو اُنہیں  عطا فرمائیں ۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔(جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۲۳۲، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۱۷۲، ملتقطاً)

مستحق کو جھڑکنا حرام اور غیر مستحق کو دینا منع ہے:

            یاد رہے کہ کسی بھی صورت مجبور رشتے دار، مسکین یا سائل کو جھڑکنا نہیں  چاہیے۔ مستحق کو جھڑکنا حرام ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْ‘‘(سورہ والضحی:۱۰) ترجمۂکنزُالعِرفان:اورکسی بھی صورت مانگنے والے کو نہ جھڑکو۔

            البتہ جو غیر مستحق ہے اسے نہ دینے کا حکم ہے چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں  ہے گدائی تین قسم ہے: ایک غنی مالدار جیسے اکثر جوگی اور سادھو بچّے، انھیں  سوال کرنا حرام اور انھیں  دینا حرام، اور اُن کے دئیے سے زکوٰۃ ادا نہیں  ہوسکتی، فرض سر پر باقی رہے گا۔ دوسرے وہ کہ واقع میں فقیر ہیں ، قدرِ نصاب کے مالک نہیں  مگر قوی و تندرست کسب پر قادر ہیں  اور سوال کسی ایسی ضرورت کے لیے نہیں  جوان کے کسب سے باہر ہو، کوئی حرفت یا مزدوری نہیں  کی جاتی مفت کا کھانا کھانے کے عادی ہیں  اور اس کے لیے بھیک مانگتے پھرتے ہیں  انھیں  سوال کرنا حرام، اور جو کچھ انھیں  اس سے ملے وہ ان کے حق میں  خبیث۔ انھیں  بھیک دینا منع ہے کہ معصیت پر اعانت ہے، لوگ اگر نہ دیں  تو مجبور ہوں  کچھ محنت مزدوری کریں ۔ مگر ان کے دئیے سے زکوٰۃ ادا ہوجائیگی جبکہ اور کوئی مانع شرعی نہ ہو کہ فقیر ہیں ۔ تیسرے وہ عاجز نا تواں  کہ نہ مال رکھتے ہیں  نہ کسب پر قدرت، یا جتنے کی حاجت ہے اتنا کمانے پر قادر نہیں ، انھیں  بقدرِ حاجت سوال حلال، اور اس سے جو کچھ ملے ان کے لیے طیّب، اور یہ عمدہ مصارفِ زکوٰۃ سے ہیں  اور انھیں  دینا باعث ِاجر ِعظیم، یہی ہیں  وہ جنھیں  جھڑکنا حرام ہے۔( فتاوی رضویہ، کتاب الزکوۃ، ۱۰ / ۲۵۳-۲۵۴)

 

17:29
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا(۲۹)
اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا (ف۷۳)

{وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو۔} اس آیت میں  خرچ کرنے میں  اِعتدال کو ملحوظ رکھنے کا فرمایا گیا ہے اور اسے ایک مثال سے سمجھایا گیا کہ  نہ تو اس طرح ہاتھ روکو کہ بالکل خرچ ہی نہ کرو اور یہ معلو م ہو گویا کہ ہاتھ گلے سے باندھ دیا گیا ہے اور دینے کے لئے ہل ہی نہیں  سکتا ، ایسا کرنا تو سبب ِملامت ہوتا ہے کہ بخیل کنجوس کو سب لوگ برا کہتے ہیں  اور نہ ایسا ہاتھ کھولو کہ اپنی ضروریات کے لئے بھی کچھ باقی نہ رہے کہ اس صورت میں  آدمی کو پریشان ہوکر بیٹھنا پڑتا ہے۔ اِس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  یہ روایت ہے کہ ایک مسلمان عورت کے سامنے ایک یہودیہ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سخاوت کا بیان کیا اور اس میں  اس حد تک مُبالغہ کیا کہ حضور سرورِ کائنات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ترجیح دیدی اور کہا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سخاوت اس اِنتہا پر پہنچی ہوئی تھی کہ اپنی ضروریات کے علاوہ جو کچھ بھی اُن کے پاس ہوتا سائل کو دے دینے سے دریغ نہ فرماتے ،یہ بات مسلمان خاتون کو ناگوار گزری اور اُنہوں  نے کہا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسب صاحبِ فضل و کمال ہیں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جودونَوال میں  کچھ شُبہ نہیں  لیکن ہمارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مرتبہ سب سے اعلیٰ ہے اور یہ کہہ کر اُنہوں  نے چاہا کہ یہود یہ کو سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جودو کرم کی آزمائش کرا دی جائے چنانچہ انہوں  نے اپنی چھوٹی بچی کو حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  اس لئے بھیجا کہ ان سے قمیص مانگ لائے اُس وقت حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے پاس ایک ہی قمیص تھی جو زیب ِتن تھی، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہی اُتار کر عطا فرمادی اور اپنے دولت سرائے اقدس میں  تشریف رکھی، شرم سے باہر تشریف نہ لائے یہاں  تک کہ اذان کا وقت آیا ،اذان ہوئی صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے انتظار کیا ،حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف نہ لائے تو سب کو فکر ہوئی ۔ حال معلوم کرنے کے لئے دولت سرائے اقدس میں  حاضر ہوئے تو دیکھا کہ جسم مبارک پر قمیص نہیں  ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۵ / ۱۵۱-۱۵۲، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۵۳۱، ملتقطاً)

          نوٹ:یاد رہے کہ اس آیت میں  خطاب اگرچہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ہے لیکن مراد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت ہے۔

17:30
اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُؕ-اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا۠(۳۰)
بیشک تمہارا رب جسے چاہے رزق کشادہ دیتا اور (ف۷۴) کستا ہے (تنگی دیتا ہے) بیشک وہ اپنے بندوں کو خوب جانتا (ف۷۵) دیکھتا ہے،

{اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ:بیشک تمہارا رب جس کیلئے چاہتا ہے رزق کھول دیتا ہے ۔} یعنی رزق کشادہ کرنا یا تنگ کردینا اللّٰہعَزَّوَجَلَّکی قدرت میں  ہے، وہی جس کا رزق بڑھانا چاہے بڑھا دیتا ہے اور جس کا تنگ کرنا چاہے تنگ کردیتا ہے ، وہ   تمام لوگوں  کے حالات اور مصلحتوں  کو خوب جانتا ہے ، لہٰذا اس نے جسے امیر بنایا وہ بھی حکمت کے مطابق ہے اور جسے غریب رکھا وہ بھی حکمت کے مطابق ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۱۵۲، ملخصاً)

 لوگوں  کو امیر و غریب بنائے جانے کی حکمتیں :

            اللّٰہ تعالیٰ نے تمام انسانوں  کو مالی اعتبار سے ایک جیسا نہیں  بنایا بلکہ بعض کو امیر بنایا اور بعض کو غریب رکھا اور اِس میں  اُس کی بے شمار حکمتیں  پوشیدہ ہیں ، جیسے ایک حکمت یہ ہے کہ بعض لوگوں  کے ایمان کی بھلائی اسی میں  ہوتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں  مال عطا کرے اور اگر وہ غریب ہوں  تو ان کا ایمان تباہ ہو جائے گا اس لئے اللّٰہ تعالیٰ انہیں  کثیر مال عطا کرتا ہے اور بعض لوگوں  کے ایمان کی بھلائی اسی میں  ہوتی ہے کہ ان کے پاس مال کم ہو اور اگر ان کے پاس زیادہ مال آجائے تو ان کا ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اس لئے اللّٰہ تعالیٰ انہیں  غریب رکھتا ہے۔ اسی طرح بعض کو امیر اور بعض کو غریب بنانے کی ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے دُنْیوی معاملات کاانتظام اچھے طریقے سے چل رہا ہے اور ہر انسان کی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل ہورہی ہے کہ اگر تمام انسانوں  کو امیر کر دیاجائے تو اس سے دُنْیوی معاملات کا نظام تباہ ہو جائے گا کیونکہ اس صورت میں  کوئی کسی کا نوکر ، خادم یا ملازم بننے کو تیار نہ ہو گا ،یونہی کوئی گلیوں  بازاروں  ، کچرا کنڈی اور باتھ روموں  کی صفائی کرنے پر راضی نہ ہوگا، ایسے ہی کوئی ایسا پیشہ اختیار کرنے پر رضا مند نہ ہو گا جسے امیر لوگ پسند نہیں  کرتے جیسے جوتوں  کی سلائی صفائی کا کام، حجامت بنانے اور کپڑوں  کی سلائی کا کام وغیرہ، یوں  شہری اور ملکی نظام کا جو حال ہو گا و ہ ہر عقلمند آسانی سے سمجھ سکتا ہے اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے اوراس کی قضا پر راضی رہے اور اگر اس کے رزق میں  تنگی ہو تو صبر کرے اور رزق میں  وسعت ہو تو اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔

17:31
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْؕ-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا(۳۱)
اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے (ف۷۶) ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی، بیشک ان کا قتل بڑی خطا ہے،

{وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ: اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔} اس رکوع میں  متعدد کبیرہ گناہوں  کے بارے میں واضح طور پر حکم دیا ہے کہ ان سے بچو، چنانچہ یہاں  بیان کردہ پہلا گناہ اولاد کو قتل کرنا ہے ۔ زمانۂ جاہلیت میں  بہت سے اہلِ عرب اپنی چھوٹی بچیوں  کو زندہ دفن کردیتے تھے، امیر تو اس لئے کہ کوئی ہمارا داماد نہ بنے اور ہم ذلت و عار نہ اٹھائیں  جبکہ، غریب و مُفلس اپنی غربت کی وجہ سے کہ انہیں  کہاں  سے کھلائیں  گے(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۱۷۳، نور العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۴۵۴، ملخصاً)دونوں  گروہوں  کا فعل ہی حرام تھا اور قرآن و حدیث میں  دونوں  کی مذمت بیان کی گئی ہے البتہ یہاں  بطورِ خاص غریبوں  کو اس حرکت سے منع کیا گیا ہے۔

بیٹیوں  سے متعلق اسلام کا زریں  کارنامہ:

             یہ آیتِ مبارکہ بھی اسلام کے زریں  کارناموں  میں  سے ایک ہے کہ قتل و بربریت کی اس بدترین صورت کا بھی اسلام نے قَلع قَمع کیا اور بچیوں  ، عورتوں  کو ان کے حقوق دلائے اور انسانی حقوق کے حوالے سے ایک مکروہ باب کو ختم کیا بلکہ بچیوں  کی پرورش کرنے پر عظیم بشارتیں  عطا فرمائیں  چنانچہ

            حضرت انس  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جسکی پرورش میں  دو لڑکیاں  بالغ ہونے تک رہیں ، وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ میں  اور وہ پاس پاس ہوں  گے اور حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی انگلیاں  ملا کر فرمایا: کہ اس طرح۔( مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب فضل الاحسان الی البنات، ص۱۴۱۵، الحدیث: ۱۴۹(۲۶۳۱))

            حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس کی لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے اور اس کی توہین نہ کرے اور اپنے بیٹوں  کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جنت میں  داخل فرمائے گا۔( ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی فضل من  عال یتیماً، ۴ / ۴۳۵، الحدیث: ۵۱۴۶)

            حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں : ایک عورت اپنی دو لڑکیاں  لے کر میرے پاس آئی اور اس نے مجھ سے کچھ مانگا، میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا، میں  نے وہی دے دی۔ عورت نے کھجور تقسیم کرکے دونوں  لڑکیوں  کو دے دی اور خود نہیں  کھائی جب وہ چلی گئی اور حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے تومیں  نے یہ واقعہ بیان کیا، حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جسے خدا نے لڑکیاں  دی ہوں ، اگر وہ ان کے ساتھ احسان کرے تو وہ جہنم کی آگ سے اس کے لیے روک ہوجائیں  گی۔( بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الوالد وتقبیلہ ومعانقتہ، ۴ / ۹۹،  الحدیث: ۵۹۹۵، مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب فضل الاحسان الی البنات، ص۱۴۱۴، الحدیث: ۱۴۷(۲۶۲۹))

 

17:32
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲)
اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے، اور بہت ہی بری راہ،

{وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ۔} اِس آیت میں  دوسرے گناہ کی حرمت و خباثت کو بیان کیا گیا ہے اور وہ ہے،’’زنا‘‘ اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں  زنا کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیاہے ۔ یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے بلکہ اب تو ایڈز کے خوفناک مرض کی شکل میں  اس کے دوسرے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں  ، جس ملک میں  زنا کی تعداد میں  اضافہ ہورہا ہے وہیں  ایڈز پھیلتا جارہا ہے۔ یہ گویا دنیا میں  عذاب ِ الٰہی کی ایک صورت ہے۔

زنا کی مذمت پر5اَحادیث:

             یہاں  آیت کی مناسبت سے زنا کی مذمت پر 5 اَحادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں  ،

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب مرد زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا ہے تواُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔(ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، ۴ / ۲۹۳، الحدیث: ۴۶۹۰)

(2)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’تین شخصوں  سے اللّٰہ تعالیٰ نہ کلام فرمائے گا اور نہ انہیں  پاک کرے گا اور نہ اُن کی طرف نظر ِرحمت فرمائے گا اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ (1) بوڑھازانی۔(2)جھوٹ بولنے والا بادشاہ (3)تکبر کرنے والا فقیر۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار والمنّ بالعطیۃ۔۔۔ الخ، ص۶۸، الحدیث: ۱۷۲(۱۰۷))

(3)…حضرت مقداد بن اسود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے ارشاد فرمایا ’’زنا کے بارے میں  تم کیا کہتے ہو؟ ‘‘ انہوں  نے عرض کی: زنا حرام ہے، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے   رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُسے حرام کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا۔ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دس عورتوں  کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے (کے گناہ) سے ہلکا ہے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، بقیۃ حدیث المقداد بن الاسود رضی اللّٰہ عنہ، ۹ / ۲۲۶، الحدیث: ۲۳۹۱۵)

(4)…حضرت میمونہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میری امت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں  زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں  گے اور جب ان میں  زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں  گے تو اللّٰہ تعالیٰ انہیں  عذاب میں  مبتلا فرما دے گا۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث میمونۃ بنت الحارث الہلالیّۃ زوج النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ۱۰ / ۲۴۶، الحدیث: ۲۶۸۹۴)

(5)…صحیح بخاری میں  حضرت سمرہ بن جندب  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ایک طویل حدیث ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ میں  نے رات کے وقت دیکھا کہ دوشخص میرے پاس آئے اور مجھے مقدس سر زمین کی طرف لے گئے (اس حدیث میں  چند مشاہدات بیان فرمائے اُن میں  ایک یہ بات بھی ہے) ہم ایک سوراخ کے پاس پہنچے جو تنور کی طرح اوپر سے تنگ ہے اور نیچے سے کشادہ، اُس میں  آگ جل رہی ہے اور اُس آگ میں  کچھ مرد اور عورتیں  برہنہ ہیں ۔ جب آگ کا شعلہ بلند ہوتا ہے تو وہ لوگ اوپر آجاتے ہیں  اور جب شعلے کم ہو جاتے ہیں  تو شعلے کے ساتھ وہ بھی اندر چلے جاتے ہیں  (یہ کون لوگ تھے ان کے متعلق بیان فرمایا) یہ زانی مرد اور عورتیں  ہیں ۔( بخاری، کتاب الجنائز، ۹۳-باب، ۱ / ۴۶۷، الحدیث: ۱۳۸۶)

زنا کی عادت سے بچنے کے آسان نسخے:

             اس بری عادت سے محفوظ رہنے یا نجات پانے کے آسان نسخے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمائے ہیں  ۔ چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اے جوانو! تم میں  جوکوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں  نکاح کی استطاعت نہیں  وہ روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔(بخاری، کتاب النکاح، باب من لم یستطع الباء ۃ فلیصم، ۳ / ۴۲۲، الحدیث: ۵۰۶۶)

             حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ بے شک عورت ابلیس کے تیروں  میں  سے ایک تیر ہے، جس نے کسی حسن و جمال والی عورت کو دیکھا اور وہ اسے پسند آگئی، پھر ا س نے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر اپنی نگاہوں  کو اس سے پھیر لیاتو اللّٰہ تعالیٰ اسے ایسی عبادت کی توفیق عطا فرمائے گا جس کی لذت اسے حاصل ہوگی۔( جمع الجوامع، قسم الاقوال، حرف الہمزۃ، ۳ / ۴۶، الحدیث: ۷۲۰۱)

            بدکاری سے بچنے اور اس سے نفرت پیدا کرنے کا ایک طریقہ درج ذیل حدیث میں  بھی موجود ہے ،اگر اس حدیث پر غور کرتے ہوئے اپنی ذات پر غور کریں  تو دل میں  اس گناہ سے ضرور نفرت پیدا ہوگی۔ چنانچہ حضرت ابوامامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ ایک نوجوان بارگاہِ رسالتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  حاضر ہوا اورا س نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجئے۔یہ سن کر صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اسے مارنے کے لئے آگے بڑھے اور کہنے لگے، ٹھہر جاؤ، ٹھہر جاؤ۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اسے میرے قریب کر دو۔ وہ نوجوان حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب پہنچ کر بیٹھ گیا۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا ’’کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری ماں  کے ساتھ کوئی ایسا فعل کرے؟ اس نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، خدا کی قسم! میں  ہر گز یہ پسند نہیں  کرتا۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: لوگ بھی یہ پسند نہیں  کرتے کہ کوئی ان کی ماں  کے ساتھ ایسی بری حرکت کرے۔پھر ارشاد فرمایا ’’کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری بیٹی کے ساتھ کوئی یہ کام کرے۔ اس نے عرض کی:یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللّٰہ کی قسم! میں  ہر گز یہ پسند نہیں  کرتا۔ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: لوگ بھی یہ پسند نہیں  کرتے کہ کوئی ان کی بیٹی کے ساتھ ایساقبیح فعل کرے۔ پھر ارشاد فرمایا ’’کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری بہن کے ساتھ کوئی یہ حرکت کرے۔ اس نے عرض کی:یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، خدا کی قسم! میں  ہر گز اسے پسند نہیں  کرتا۔ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: لوگ بھی یہ پسند نہیں  کرتے کہ کوئی ان کی بہن کے ساتھ ایسے گندے کام میں  مشغو ل ہو۔ سرکارِ دو عالَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھوپھی اور خالہ کا بھی اسی طرح ذکر کیا اور اس نوجوان نے یونہی جواب دیا۔ اس کے بعد حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس کے سینے پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر دعا فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَہٗ وَطَہِّرْ قَلْبَہٗ وَحَصِّنْ فَرْجَہٗ‘‘ اے اللّٰہ !اس کے گناہ بخش دے،اس کے دل کو پاک فرما دے اور اس کی شرمگاہ کو محفوظ فرما دے۔ اس دعا کے بعد وہ نوجوان کبھی زنا کی طرف مائل نہ ہوا۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی۔۔۔ الخ، ۸ / ۲۸۵،  الحدیث: ۲۲۲۷۴)

17:33
وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِؕ-اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا(۳۳)
اور کوئی جان جس کی حرمت اللہ نے رکھی ہے ناحق نہ مارو، اور جو ناحق نہ مارا جائے تو بیشک ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا (ف۷۷) تو وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے (ف۷۸) ضرور اس کی مدد ہونی ہے (ف۷۹)

{وَ لَا تَقْتُلُوا: اور قتل نہ کرو۔} اس آیت میں  تیسرے کبیرہ گناہ یعنی قتلِ ناحقکا بیان ہے ۔ اسلام میں  انسانی جان کی بے پناہ حرمت ہے اور کسی انسان کو قتل کرنا شدید کبیرہ گناہ ہے اور اس کی محدود صورتوں  کے علاوہ کسی بھی طرح اجازت نہیں ۔ یہاں  قتل کی مُمانعت و حُرمت کے ساتھ اس کی اجازت کی ایک صورت بیان فرمائی گئی ہے اور وہ ہے کسی کو قصاص میں  قتل کرنا یعنی قتل کے بدلے قتل اور یہ بھی عدالت کے فیصلے کے بعد ہے ، یہ نہیں  کہ بغیر کورٹ کے فیصلے کے خود ہی قصاص لیتے پھریں  ، اس کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں ۔ پھر قصاص میں  قتل کی اجازت کے ساتھ اس کی بھی حدود و قُیود بیان فرمائی ہیں  کہ قصاص میں  قتل کرنے میں  بھی مقتول کا وارث حد سے نہ بڑھے جیسے زمانہ ٔ جاہلیت میں  ایک مقتول کے عِوض میں  کئی کئی لوگوں  کو قتل کردیا جاتا تو فرمایا گیا کہ صرف قاتل سے قصاص لیا جائے گا ، کسی اور سے نہیں ۔ آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قصاص لینے کا حق ولی کو ہے اور ولی میں  وہی ترتیب ہے جو عَصبات (رشتے داروں  کی ایک خاص قسم) میں  ہے اور جس کا ولی نہ ہو اس کا ولی سلطان ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ قصاص حق العبد ہے ، اگر ولی چاہے تو معاف کردے ۔ آیت کے آخر میں  فرمایا گیا کہ بیشک اس کی مدد ہونی ہے یعنی ولی کی یا مقتول مظلوم کی یا اُس شخص کی جس کو ولی ناحق قتل کرے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام میں  انسانی جان کی کس قدر حرمت بیان کی گئی ہے اور آج ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ جس کا دل کرتا ہے وہ بندوق اٹھاتا ہے اور جس کو دل کرتا ہے قتل کردیتا ہے، کہیں  سیاسی وجوہات سے، تو کہیں  علاقائی اور صوبائی تَعَصُّب کی وجہ سے، یونہی کہیں  زبان کے نام پر تو کہیں  فرقہ بندی کے نام پر۔ ان میں  سے کوئی بھی صورت جائز نہیں  ہے۔ قتل کی اجازت صرف مخصوص صورتوں  میں  حاکمِ اسلام کو ہے اور کسی کو نہیں ۔

17:34
وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّه۪ٗ-وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴)
اور یتیم کے مال کے پاس تو جاؤ مگر اس راہ سے جو سب سے بھلی ہے (ف۸۰) یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچے (ف۸۱) اور عہد پورا کرو (ف۸۲) بیشک عہد سے سوال ہونا ہے،

{وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ:اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ۔} اس آیت میں  ایک کبیرہ گناہ سے منع کیا گیا ہے اور ایک اہم چیز کا حکم دیا گیا ہے۔ کبیرہ گناہ تو یتیم کے مال میں  خیانت کرنا ہے اور اہم چیز وعدہ پورا کرنا ہے۔ یتیم کا کل یا بعض مال غصب کرلینا ،اس میں  خیانت کرنا، اس کے دینے میں  بلاوجہ ٹال مٹول کرنا یہ سب حرام ہے چنانچہ فرمایا کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر صرف اچھے طریقے سے اور وہ یہ ہے کہ اس کی حفاظت کرو اور اس کو بڑھاؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یتیم کا ولی یتیم کے مال سے تجارت وغیرہ کر سکتا ہے، جس سے اس کا مال بڑھے کہ یہ احسن میں  داخل ہے اور ایسے ہی اس کا روپیہ سود کے بغیر بینک وغیرہ میں  اس کے نام پر رکھنا جائز ہے کہ یہ حفاظت کی قسم ہے۔ دوسرا حکم یہاں  ارشاد فرمایا کہ یتیموں  کا مال ان کے حوالے کردو جب وہ یتیم اپنی پُختہ عمر کو پہنچ جائے اور وہ اٹھارہ سال کی عمر ہے۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے نزدیک یہی مختار ہے اور امامِ اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے علامات ظاہر نہ ہونے کی حالت میں  انتہائی مدت ِبلوغ اسی آیت سے اِستدلال کرکے اٹھارہ سال قرار دی ہے۔(تفسیرات احمدیہ، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۵۰۸)

{وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ: اور عہد پورا کرو۔} آیت میں  عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیاہے خواہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا ہو یا بندوں  کا۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے عہد اس کی بندگی اور اطاعت کرنے کا ہے(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۴، ۵ / ۱۵۵، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۱۷۴، ملتقطاً)اور بندوں  سے عہد میں  ہر جائز عہد داخل ہے۔افسوس کہ وعدہ پورا کرنے کے معاملے میں  بھی ہمارا حال کچھ اچھا نہیں  بلکہ وعدہ خلافی کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ لیڈر قوم سے عہد کرکے توڑ دیتے ہیں  اور لوگ ایک دوسرے سے عہد کرکے توڑ دیتے ہیں ۔

17:35
وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا(۳۵)
اور ماپو تو پورا ماپو اور برابر ترازو سے تولو، یہ بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا،

{وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ: اور پوراناپ کرو۔} دیتے وقت ناپ تول پورا کرنا فرض ہے بلکہ کچھ نیچا تول دینا یعنی بڑھا کر دینا مستحب ہے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے خود اس کی فضیلت بیان فرمائی کہ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا ہے، آخرت میں  تو یقینا اچھا ہی انجام ہے ، دنیا میں  بھی اس کا انجام اچھا ہوتا ہے کہ لوگوں  میں  نیک نامی ہوتی ہے جس سے تجارت چمکتی ہے۔ آج دنیا بھر میں  لوگ ان ممالک سے خریدنے میں  دلچسپی لیتے ہیں  جہاں  سے صحیح مال صحیح وزن سے ملتا ہے اور جہاں  سیب کی پیٹیوں  کے نیچے آلو پیاز نکلیں  یا پہلی تہ اعلیٰ درجے کی نکلنے کے بعد نیچے سڑا ہوا مال نکلے وہاں  کا جو انجام ہوتا ہے وہ سب سمجھ سکتے ہیں ۔

خرید و فروخت سے متعلق اسلام کی تعلیمات:

            خرید و فروخت سے متعلق اسلام کی چندتعلیمات یہ ہیں  :

            حضرت واثلہ بن اسقع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا’’ جو شخص ایسی عیب دار چیز فروخت کردے جس کے عیب پر خبردار نہ کیا ہو تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کی ناراضی میں  رہے گا اور فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں  گے۔( ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب من باع عیباً فلیبیّنہ، ۳ / ۵۹، الحدیث: ۲۲۴۷)

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضور ِاقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَغلہ کے ایک ڈھیر پر گزرے تو اپنا ہاتھ شریف اس میں  ڈال دیا، آپ کی انگلیوں  نے اس میں  تری پائی تو ارشاد فرمایا ’’اے غلہ والے !یہ کیا ہے۔ اس نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس پر بارش پڑ گئی تھی۔ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ تو گیلے غلہ کو تو نے ڈھیر کے اوپر کیوں  نہ ڈالا تاکہ اسے لوگ دیکھ لیتے، جو ملاوٹ کرے وہ ہم میں  سے نہیں ۔(مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من غشّنا فلیس منّا، ص۶۵، الحدیث: ۱۰۲)

             حضرت معاذبن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تمام کمائیوں  میں  زیادہ پاکیزہ اُن تاجروں  کی کمائی ہے کہ جب وہ بات کریں  تو جھوٹ نہ بولیں  اور جب اُن کے پاس امانت رکھی جائے توخیانت نہ کریں  اور جب وعدہ کریں  تو اُس کا خلاف نہ کریں  اور جب کسی چیز کو خریدیں تو اُس کی مذمت (برائی) نہ کریں  اور جب اپنی چیز بیچیں  تو اُس کی تعریف میں  مبالغہ نہ کریں  اور ان پر کسی کا آتا ہو تو دینے میں  ڈھیل نہ ڈالیں  اور جب ان کا کسی پر آتا ہو تو سختی نہ کریں ۔(شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۲۱، الحدیث: ۴۸۵۴)

 

17:36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)
اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں (ف۷۳) بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے (ف۸۴)

{وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ:اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں ۔} یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں  یہ نہ کہو کہ میں  نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں  نے سنا ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ اور حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا ’’اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پرو ہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۶۲۳) ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’خلاصہ یہ ہے کہ ا س آیت میں  جھوٹی گواہی دینے ،جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اَقوال کی مُمانعت کی گئی ہے۔(تفسیرقرطبی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۶، ۵ / ۱۸۷، الجزء العاشر)

جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی مذمت پر اَحادیث:

            یہاں جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی مذمت پر 3 روایات ملاحظہ ہوں:

(1)…حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں  گے کہ اللّٰہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، ۳ / ۱۲۳، الحدیث: ۲۳۷۳)

(2)… حضرت معاذ بن انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسول کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللّٰہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں  تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، ۴ / ۳۵۴، الحدیث: ۴۸۸۳)

(3)…حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں  وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللّٰہ تعالیٰ اسے (جہنم کے ایک مقام) ’’رَدْغَۃُ الْخَبَالْ‘‘ میں  اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(کتاب الجامع فی آخر المصنّف، باب من حلّت شفاعتہ دون حدّ،۱۰ / ۳۵۳، الحدیث: ۲۱۰۶۹)

            اِس آیت اور دیگر روایات کو سامنے رکھنے کی شدید حاجت ہے کیونکہ آج کل الزام تراشی کرنا اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں ، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں  پر الزام لگادیتا ہے، جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں  تو یہ دلیل کہ میں  نے کہیں  سنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا، اب کس نے بتایا، بتانے والا کتنا معتبر تھا؟ اس کو کہاں  سے پتہ چلا؟ اس کے پاس کیا ثبوت ہیں ؟ کوئی معلوم نہیں ۔

{كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا:ان سب کے بارے میں  سوال کیا جائے گا۔}آیت کے آخر میں  فرمایا کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں  سوال کیا جائے گا کہ تم نے اُن سے کیا کام لیا؟ کان کو قرآن وحدیث سننے، علم و حکمت اور وعظ و نصیحت کی اور ان کے علاوہ دیگر نیک باتیں  سننے میں  استعمال کیا یا غیبت سننے، لَغْو اور بیکار باتیں  سننے، جِماع کی باتیں  سننے ، بہتان، زنا کی تہمت ، گانے، باجے اور فحش سننے میں  لگایا۔ یونہی آنکھ سے جائز و حلال کو دیکھا یا فلمیں ، ڈرامے دیکھنے اور بدنگاہی کرنے میں  استعمال کیا اور دل میں  صحیح عقائد اور اچھے اور نیک خیالات و جذبات تھے یاغلط عقائد اور گندے منصوبے اور شہوت سے بھرے خیالات ہی ہوتے تھے۔ اس آیت کی مناسبت سے ایک مسئلہ بھی ہے کہ خیال ہی خیال میں  کسی عورت سے بدکاری کرنا بھی حرام ہے اور یہ دل کے زنا میں  داخل ہوگا۔

17:37
وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاۚ-اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا(۳۷)
اور زمین میں اتراتا نہ چل (ف۸۵) بیشک ہر گز زمین نہ چیر ڈالے گا، اور ہرگز بلندی میں پہاڑوں کو نہ پہنچے گا (ف۸۶)

{وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا:اور زمین میں  اتراتے ہوئے نہ چل۔} یعنی تکبر و خود نمائی سے نہ چل۔( جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۲۳۳)

اسلام ہماری مُعاشرت اور رہن سہن کے طریقے بھی سکھاتا ہے:

            یاد رہے کہ فخر و تکبر کی چال اور متکبرین کی سی بیٹھک وغیرہ سب ممنوع ہیں ، ہمارے چلنے پھرنے بیٹھنے اٹھنے میں  تواضع اور اِنکساری ہونی چاہیے، گفتگو نرم ہو اور چلنا آہستگی اور وقار کے ساتھ ہو ۔ متکبرانہ اور اَوباشوں  اور لفنگوں  والی چال اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو ناپسند ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام ہمیں  صرف عقائد و عبادات ہی کی تعلیم نہیں  دیتا بلکہ ہماری معاشرت اور رہن سہن کے طریقے بھی ہمیں  بتاتا ہے۔ مسلمان کی زندگی کے ہر پہلو سے اسلامی پہلو کی جھلک نظر آنی چاہیے۔ ان مسلمانوں  پر افسوس ہے جنہیں  کفار کے طریقوں  پر عمل کرنے میں  تو فخر محسوس ہوتا ہے اور اسلامی طریقے اپنانے میں  شرم محسوس ہوتی ہے۔ آیت میں  فرمایا گیا کہ زمین میں  اتراتے ہوئے نہ چل بیشک توہر گز نہ زمین کو پھاڑ دے گا اور نہ ہرگز بلندی میں  پہاڑوں  کو پہنچ جائے گا۔ معنی یہ ہیں  کہ تکبر و خود نمائی سے کچھ فائدہ نہیں  البتہ کئی صورتوں  میں  گناہ لازم ہو جاتا ہے لہٰذا اترانا چھوڑو اور عاجزی و انکساری قبول کرو۔

چلنے کی چند سنتیں  اور آداب

یہاں  آیت کی مناسبت سے چلنے کی چند سنتیں  اور آداب یاد رکھیں :

(1)…اگر موقع ہو تو راستے کے کنارے کنارے چلیں ۔

(2)…نہ اتنا تیز چلیں  کہ لوگوں  کی نظریں  اٹھیں  نہ اتنا آہستہ کہ آپ مریض معلوم ہوں  بلکہ درمیانی چال چلیں ۔

(3)…لفنگوں  کی طرح گریبان کھول کر ،اکڑتے ہوئے ہر گز نہ چلیں  کہ یہ شُرفا کی چال نہیں  بلکہ احمقوں  اور مغروروں  کی چال ہے۔

(4)… چلنے میں  یہ بھی احتیاط کریں  کہ جوتے کی آواز پیدا نہ ہو ۔

(5)… راہ چلنے میں  پریشان نظری یعنی ادھر ادھر دیکھنے سے بچیں ۔

(6)…راستے میں  دو عورتیں  کھڑی ہوں  یا جا رہی ہوں  تو ان کے بیچ میں  سے نہ گزریں  ۔

(7)…پھدکتے ہوئے بازاری انداز میں  نہ چلیں  بلکہ نظریں  نیچی کئے ہوئے پُروقار طریقے پر چلیں ۔

 

17:38
كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَیِّئُهٗ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوْهًا(۳۸)
یہ جو کچھ گزرا ان میں کی بُری بات تیرے رب کو ناپسند ہے،

17:39
ذٰلِكَ مِمَّاۤ اَوْحٰۤى اِلَیْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِؕ-وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰى فِیْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۳۹)
یہ ان وحیوں میں سے ہے جو تمہارے رب نے تمہاری طرف بھیجی حکمت کی باتیں (ف۸۷) اور اے سننے والے اللہ ساتھ دوسرا خدا نہ ٹھہرا کہ تو جہنم میں پھینکا جائے گا طعنہ پاتا دھکے کھاتا،

{مِنَ الْحِكْمَةِ: حکمت والی باتوں  میں  سے۔} ارشاد فرمایا کہ اس (رکوع )میں  جو احکام دئیے گئے ہیں  وہ حکمت والے احکام ہیں  ، حکمت کا کام وہ ہے جس کی صحت پر عقل گواہی دے اور اُس سے نفس کی اصلاح ہو، یہاں  آیت میں  جو احکام دئیے گئے ہیں  وہ سب کے سب پُر اَز حکمت ہیں ۔ ان اَحکام کا خلاصہ یہ ہے: (1) اولاد کا قتل ناجائز و حرام ہے۔ (2) زنا کے قریب نہ جاؤ۔ (3) کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو۔ (4) یتیم کے مال میں  خیانت سے بچو اور وقت پر اس کا مال اس کے حوالے کردو۔ (5) وعدہ پورا کرو۔ (6) ناپ تول میں  کمی زیادتی نہ کرو۔ (7) بغیر تحقیق کے باتوں  کے پیچھے نہ پڑو۔ (8) آنکھ، کان اور دل کی حفاظت کرو کہ ان کے متعلق سوال ہوگا۔ (9) زمین میں  اِترا کرنہ چلو۔ تکبر و خود نُمائی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو ناپسند اور عاجزی و اِنکساری پسند ہے۔ (10) شرک سے بچو۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اِن آیات کا حاصل توحید اور نیکیوں  اور طاعتوں  کا حکم دینا اور دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف رغبت دلانا ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۱۷۵)

            حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ یہ اٹھارہ آیتیں  وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ سے مَدْحُوْرًا تک حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تختیوں  میں  تھیں ، ان کی ابتدا توحید کے حکم سے ہوئی اور انتہا شرک کی ممانعت پر۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۶۲۴) اس سے معلوم ہوا کہ ہر حکمت کی اصل توحید و ایمان ہے اور کوئی قول و عمل اس کے بغیر قابلِ قبول نہیں۔

17:40
اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ اِنَاثًاؕ-اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا۠(۴۰)
کیا تمہارے رب نے تم کو بیٹے چن دیے اور اپنے لیے فرشتوں سے بیٹیاں بنائیں (ف۸۸) بیشک تم بڑا بول بولتے ہو (ف۸۹)

{قَوْلًا عَظِیْمًا: بڑی بات۔} مشرکینِ عرب فرشتوں  کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بیٹیاں  کہتے تھے، ان کی تردید میں  یہ آیت نازل ہوئی جس میں  فرمایا گیا کہ بد نصیبو! اپنے لئے لڑکیاں  پسند نہیں کرتے ان کی پیدائش پر ناراض ہوتے اور برا مناتے ہو بلکہ انہیں  قتل کردیتے ہو اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے لڑکیاں  ثابت کرتے ہو کیا خدا نے تمہارے خیال کے مطابق اچھی چیز یعنی لڑکے تمہیں  دئیے اور بری چیز اپنے لئے رکھی۔ یقینا تم بہت ہی سخت بات کہہ رہے ہو کہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہو جو جسم کے خواص سے ہے حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ اس سے پاک ہے پھر اس میں  بھی اپنی بڑائی رکھتے ہو کہ اپنے لئے تو بیٹے پسند کرتے ہو اور اس کے لئے بیٹیاں  تجویز کرتے ہو۔( روح البیان،الاسراء، تحت الآیۃ: ۴۰، ۵ / ۱۶۰-۱۶۱) یہ تمہاری کتنی بے ادبی اور گستاخی ہے۔

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْل
بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْل
  00:00



Download

بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْل
بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْل
  00:00



Download