Surah Al-Israa
{ وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ:اور تم فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا۔}یعنی اسلام آیا اورکفر مٹ گیا اور خلاصہ یہ کہ حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتشریف لائے تو نور آیا اور اندھیرا گیا، اسلام آیا اور کفر گیا، قرآن آیا اور شیطان گیا ، خیر آئی اور شر گیا، ہدایت آئی اور گمراہی گئی مگر یہ سب کچھ اس دولہا کے دم قدم سے ہوا جس کے دم کی یہ ساری بہار ہے سب کچھ وہ ہی لائے ، ان پر درود اور سلام ہو۔
ہے انھیں کے دم قدم کی باغِ عالم میں بہار
وہ نہ تھے عالم نہ تھا گر وہ نہ ہوں عالم نہیں
{ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا:بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا۔} ارشاد فرمایا بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا کیونکہ اگرچہ باطل کو کسی وقتمیں قوت وغلبہ حاصل ہو بھی جاتا ہے مگر اس کو پائیداری حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کا انجام بربادی و خواری ہی ہوتاہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۱۸۹)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَفتح مکہ کے دن جب مکۂ مکرمہ میں داخل ہوئے تو مشرکین نے کعبہ مقدسہ کے گرد تین سو ساٹھ بت نصب کئے ہوئے تھے جن کے قدموں کو ابلیس نے مشرکوں کے لئے لوہے اور رانگ سے جوڑ کر مضبوط کر دیا تھا۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دست ِمبارک میں ایک لکڑی تھی، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَیہ آیت پڑھ کر اس لکڑی سے جس بت کی طرف اشارہ فرماتے جاتے تھے وہ گرتا جاتا تھا۔( معجم الصغیر، حرف الیاء، من اسمہ: یوسف، ص۱۳۶، الجزء الثانی)
{وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ:اور ہم قرآن میں وہ چیز اتارتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔} قرآن شفا ہے کہ اس سے ظاہری و باطنی اَمراض، گمراہی اور جہالت وغیرہ دور ہوتے ہیں اور ظاہری و باطنی صحت حاصل ہوتی ہے۔ باطل عقائد، رذیل اخلاق اس کے ذریعے دفع ہوتے ہیں اور عقائد ِحقہ ، معارفِ الٰہیہ ، صفاتِ حمیدہ اور اَخلاقِ فاضلہ حاصل ہوتے ہیں کیونکہ یہ کتابِ مجید ایسے علوم و دلائل پر مشتمل ہے جو وہم پر مَبنی چیزوں کواور شیطانی ظلمتوں کو اپنے انوار سے نیست و نابُود کر دیتے ہیں اور اس کا ایک ایک حرف برکات کا گنجینہ و خزانہ ہے جس سے جسمانی امراض اور آسیب دور ہوتے ہیں۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۱۸۹، روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵ / ۱۹۴، خزائن العرفان، بنی اسرا ئیل، تحت الآیۃ: ۸۲، ص۵۴۲، ملتقطاً)
قرآنِ مجید میں جسمانی امراض کی بھی شفا موجود ہے:
یاد رہے کہ قرآنِ کریم کی حقیقی شفا تو روحانی امراض سے ہے لیکن جسمانی امراض کی بھی اس میں شفا موجود ہے اور سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَقوال و اَفعال سے ثابت ہے،اس کی دو مثالیں درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْعرب کے کسی قبیلے میں گئے ،اس قبیلے کے لوگوں نے ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ اسی دورا ن قبیلے کے سردار کو ایک بچھو نے ڈنک مار دیا تو وہ لوگ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْکے پاس آ کر کہنے لگے کہ کیا تم میں سے کسی کے پاس دوا ہے یا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا ’’تم نے چونکہ ہماری مہمان نوازی نہیں کی اس لئے ہم اس وقت تک دم نہیں کریں گے جب تک تم ا س کی اجرت نہ دو گے۔ چنانچہ انہوں نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْکے لئے بکریوں کا ایک ریوڑ مقرر کیا ،پھر (ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ) سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور اپنے تھوک کی چھینٹیں اس پر ڈالیں تو وہ تندرست ہو گیا۔ پھر قبیلے کے لوگ بکریاں لے کر آئے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا ’’ہم اس وقت تک یہ بکریاں نہیں لیں گے جب تک(ان کے بارے میں )رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پوچھ نہ لیں ۔ جب صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمسکرائے اور ارشاد فرمایا ’’ تمہیں کس نے بتایا تھا کہ یہ دم ہے ؟ ان بکریوں کو لے لو اور اس میں سے میرا حصہ بھی نکال لو۔( بخاری، کتاب الطب، باب الرّقی بفاتحۃ الکتاب، ۴ / ۳۰، الحدیث: ۵۷۳۶)
(2)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں ’’جس مرض میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی روح قبض کر لی گئی تھی ، اس مرض میں آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سورۂ فلق اور سورۂ والناس پڑھ کر اپنے اوپر دم فرماتے تھے اور جب طبیعت زیادہ ناساز ہوئی تو میں وہ سورتیں پڑھ کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دم کیا کرتی اور خود آپ کےہاتھ کو پھیرتی کیونکہ وہ(میرے ہاتھ سے زیادہ) بابرکت ہے۔(بخاری، کتاب الطب، باب فی المرأۃ ترقی الرجل، ۴ / ۳۴، الحدیث: ۵۷۵۱)البتہ آیت کے آخر میں فرمایا کہ مومنوں کیلئے تو قرآن شفا ہے مگر اس قرآن کے ذریعے ظالموں یعنی کافروں کا خسارہ ہی بڑھتا ہے کہ کفرو ضد میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔
{وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا: اور جب ہم احسان کرتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ جب ہم کسی کافر انسان پر احسان کرتے ہیں کہ اس کو صحت اور (مال، جان، اولاد میں ) وسعت عطا فرماتے ہیں تو وہ ہمارے ذکر اور دعا سے ، ہماری بندگی کرنے اور ہمارا شکر ادا کرنے سے منہ پھیرلیتا ہے اور اپنی طرف سے دور ہٹ جاتا ہے یعنی تکبر کرتا ہے جبکہ جب اسے برائی پہنچتی ہے اور کوئی تکلیف و نقصان اور کوئی فقر و حادثہ درپیش ہوتا ہے تو تَضَرُّع و زاری سے دعائیں کرتا ہے اور اُن دعاؤں کی قبولیت کا اثر ظاہر نہ ہونے پر مایوس ہوجاتا ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۳، ۵ / ۱۹۵، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۳، ۳ / ۱۸۹، جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۲۳۷، ملخصاً) کافر کی اِس حالت کو بتا کر مسلمان کو سمجھایا گیا ہے کہ اسے ایسا نہیں بننا چاہیے بلکہ نعمت پر خدا کا شکر ادا کرے اور مصیبت میں صبر کرے اور دعا مانگے اور بالفرض اگر دعا کی قبولیت میں تاخیر ہو تو وہ مایوس نہ ہو بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار رہے۔
کافر کی علامت:
اِس سے معلوم ہوا کہ آرام و راحت کے وقت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکو بھول جانا اور صرف مصیبت میں لمبی دعائیں مانگنا اور اگر قبولیت میں دیر ہو تو مایوس ہو جانا کافر یا غافل کی علامت ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ان تینوں عیبوں سے پاک و صاف رہیں اپنی حالت و مزاج کو اِس حدیث مبارک کہ مطابق بنائیں جو حضرت صہیبرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’مسلمان پر تعجب ہے کہ اس کی ہر حالت خیر ہے اور یہ بات مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی کہ اگر اسے راحت پہنچے اور وہ شکر کرے تو اس کے لیے راحت خیر ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچے اور وہ صبر کرے تو صبر اس کے لیے بہتر ہے۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن امرہ کلّہ خیر، ص۱۵۹۸، الحدیث: ۶۴(۲۹۹۹))
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بندے کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ گناہ یا قطعِ رحمی کی دعا نہ مانگے اور جب تک کہ جلد بازی سے کام نہ لے ۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جلد بازی کیا ہے؟ ارشاد فرمایا ’’جلد بازی یہ ہے کہ (دعا مانگنے والا) کہے، میں نے دعا مانگی مگر مجھے امید نہیں کہ قبول ہو لہٰذا اس پر دل تنگ ہوجائے اور دعا مانگنا چھوڑ دے۔( مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب بیان انّہ یستجاب للدّاعی ما لم یعجّل۔۔۔ الخ، ص۱۴۶۳، الحدیث: ۹۲(۲۷۳۵))
{قُلْ: تم فرماؤ۔} ارشاد فرمایا کہ ہر کوئی اپنے اپنے انداز پر کام کرتا ہے ، جس کی فطرت اور اصل، شریف اور طاہر ہو ، اُس سے اَفعالِ جمیلہ اور اَخلاقِ پاکیزہ صادر ہوتے ہیں اور جس کا نفس خبیث ہے اس سے افعالِ خبیثہ سرزد ہوتے ہیں ۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۱۸۹) اِس آیت کی روشنی میں ہر کوئی اپنے بارے میں غور کرے کہ اس کا تعلق کس گروہ سے ہے اور غور کرنے کے بعد جو شخص اپنے نفس میں بھلائی، اطاعت اور شکر پائے تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کی حمد بجا لائے اور جو اپنے نفس میں شر، فسق ، ناشکری اور مایوسی پائے تو اسے چاہئے کہ وہ اُس وقت کے آنے سے پہلے پہلے اپنی اصلاح کر لے جب معاملہ اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔
{وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ: اور تم سے پوچھتے ہیں ۔} اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق دو اَحادیث درج ذیل ہیں ،
(1)…حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں : میں مدینہ منورہ کے غیر آباد حصے میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ چل رہا تھا اور آپ (چلتے ہوئے) ایک چھڑی سے ٹیک لگاتے تھے، اس دوران یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزر ہوا توان میں سے بعض افراد نے کہا: ان سے روح کے بارے میں دریافت کرو اور دوسرے بعض افراد نے کہا: ان سے دریافت نہ کرو کیونکہ ہو سکتاہے کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں پسند نہ آئے۔ بعض افراد نے کہا: ہم ضرور پوچھیں گے، توایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا :اے ابوالقاسم! روح کیا ہے ؟ (حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَخاموش ہو گئے تو میں نے کہا: آپ کی طرف وحی کی جا رہی ہے، میں کھڑ ارہا اور جب وہ کیفیت ختم ہوئی تو فرمایا
’’وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ تم فرماؤ: روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔( بخاری، کتاب العلم، باب قول اللّٰہ تعالی: وما اوتیتم من العلم الّا قلیلاً، ۱ / ۶۶، الحدیث: ۱۲۵)
(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : قریش نے یہودیوں سے کہا: ہمیں کوئی ایسی بات بتائیں جسے ہم اس شخص (یعنی محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے پوچھیں ۔ انہوں نے کہا: ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ قریش نے آپ سے دریافت کیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی
’’ وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ تم فرماؤ: روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔( ترمذی، کتاب ا لتفسیر، باب ومن سورۃ بنی اسراءیل، ۵ / ۹۵، الحدیث: ۳۱۵۱)
بخاری شریف کی روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے اور اس وقت نازل ہوئی ہے جب مدینہ منورہ میں یہودیوں نے روح کے بارے میں حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا، اور ترمذی شریف کی روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے ، ان دونوں احادیث میں ایک تطبیق یہ ہے کہ ممکن ہے یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہو، پہلی بار مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کفارِ قریش نے روح کے بارے میں سوال کیا اور دوسری بار مدینہ منورہ میں اس وقت نازل ہوئی جب یہودیوں نے روح کے بارے میں دریافت کیا۔ دوسری تطبیق یہ ہے کہ بخاری شریف کی روایت میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ اسی آیت کی وحی ہوئی بلکہ صرف نزولِ وحی کی کَیْفِیَّت طاری ہونے کا ذکر ہے ، اس لئے ممکن ہے اس وقت یہ وحی ہوئی ہو کہ یہودیوں کے سوال کے جواب میں وہی آیت تلاوت فرما دیں جو اس سے پہلے آپ پر نازل ہو چکی ہے اور وہ آیت یہ ہے
’’وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ تم فرماؤ: روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
یہ تطبیق علامہ اسماعیل بن عمر رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تفسیر ابن کثیر میں اسی مقام پر ذکر کی ہے ۔
حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو روح کا علم حاصل ہے:
اِس آیت میں بتا دیا گیا کہ روح کا معاملہ نہایت پوشیدہ ہے اور اس کے بارے میں علمِ حقیقی سب کو حاصل نہیں بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ جسے عطا فرمائے وہی اسے جان سکتا ہے جیسا کہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کا علم عطا کیا گیا ، چنانچہ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’ایک جماعت نے گمان کیا ہے کہاللّٰہتعالیٰ نے روح کا علم مخلوق پر مُبْہَم کر دیا اور اسے اپنی ذات کے لئے خاص کر دیا ہے، حتّٰی کہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی روح کے بارے میں علم نہیں رکھتے حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا منصب و مقام اس سے بہت عظیم ہے کہ آپ کو بھی روح کا علم نہ ہو حالانکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عالِم بِاللّٰہ ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرما کر آپ پر احسان فرمایا ہے کہ
’’وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(النساء:۱۱۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللّٰہ کافضل بہت بڑا ہے۔
ان لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ روح کا علم ان علوم میں سے ہے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اللّٰہ تعالیٰ نے نہیں سکھائے، کیاانہیں اس بات کی خبر نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وہ سب کچھ سکھا دیا ہے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہیں جانتے تھے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۱۹۸)
اسی طرح علامہ بدر الدین عینیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا منصب بہت بلند ہے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب اور اس کی مخلوق کے سردار ہیں ، اور یہ کیسے ہو سکتا ہے تاجدارِ رسالتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو روح کے بارے میں علم نہ ہو حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پریہ ارشاد فرما کر احسان فرمایا ہے کہ اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللّٰہ کافضل بہت بڑا ہے۔( عمدۃ القاری، کتاب العلم، باب قول اللّٰہ تعالی: وما اوتیتم من العلم الاّ قلیلاً، ۲ / ۲۸۴، تحت الحدیث: ۱۲۵)
{وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا:اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔} علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’علمِ حادث علمِ قدیم کے مقابلے میں تھوڑا ہے کیونکہ بندوں کا علم مُتَناہی (یعنی اس کی ایک انتہا) ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے علم کی کوئی انتہاء نہیں اور متناہی علم غیر متناہی علم کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے اس عظیم سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو جس کی کوئی انتہا نہیں ۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں : اولیا ء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْکا علم انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے سات سمندروں کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو اور انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا علم ہمارے نبی محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے سات سمندروں کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو اور ہمارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا علم اللّٰہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے سات سمندروں کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو تو وہ علم جو بندوں کو دیا گیا ہے فی نَفْسِہٖ اگرچہ کثیر ہے لیکن اللّٰہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں تھوڑا ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۱۹۷)اللّٰہ تعالیٰ کے علم سے متعلق صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ اورحضرت خضرعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کشتی میں سوار ہوئے تو ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ کر ایک یا دو چونچیں سمندر میں ماریں ۔ حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا ’’اے موسیٰ !عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، میرا اور آپ کا علم اللّٰہ تعالیٰ کے علم کے سامنے اس طرح ہے جیسے چڑیا کا سمندر میں چونچ مارنا۔( بخاری، کتاب العلم، باب ما یستحبّ للعالم اذا سئل: ایّ الناس اعلم؟۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۳، الحدیث: ۱۲۲) یہ بھی سمجھانے کیلئے بیان کیا گیا ہے ورنہ متناہی اور غیر متناہی میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی۔
{وَ لَىٕنْ شِئْنَا: اور اگر ہم چاہتے ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے تو اس قرآن کو جو کہ شفا ء اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور ان تمام علوم کا جامع ہے جو آپ کو عطا کئے گئے، اِسے سینوں اور صحیفوں سے مَحو فرما دیتے، پھر آپ کوئی وکیل نہ پاتے جو ہماری بارگاہ میں آپ کے لئے ا س قرآن کو لوٹا دینے کی وکالت کرتا لیکن آپ کے رب کی رحمت ہی ہے کہ اس نے قیامت تک اسے باقی رکھا اور ہر طرح کی کمی بیشی اور تبدیلی سے محفوظ فرما دیا۔ اور یہ اللّٰہ تعالیٰ کا احسان در احسان ہے کہ اس نے پہلے قرآن نازل فرما کر احسانِ عظیم فرمایا اور پھر اسے محفوظ فرما کر اور قیامت تک باقی رکھ کر احسان فرمایا۔ اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک تمہارے او پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکا بڑا فضل ہے کہ اُس نے آپ پر قرآن کریم نازل فرمایا ، آپ کو تمام بنی آدم کا سردار اور خاتَم النَّبِیّین کیا اور مقامِ محمود عطا فرمایا۔( ابوسعود، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ۳ / ۳۵۰، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ص۶۳۵، جلالین مع صاوی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ۳ / ۱۱۵۱-۱۱۵۲، ملتقطاً)
قرآنِ مجید کی تلاوت اور اس کے اَحکام پر عمل کی ترغیب:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس آیت کامعنی یہ بیان کیا ہے کہ اے لوگو ! قرآن (کے احکام) پر پابندی سے عمل کرو اور اس میں کمی کرنا چھوڑ دو کیونکہ ہم اسے تمہارے سینوں اور صحیفوں سے لے جانے پر قادر ہیں لیکن قیامت آنے تک اسے باقی رکھنا ہماری تم پر رحمت ہی ہے اور جب قیامت قریب آئے گی تو ہم اسے سینوں اور صحیفوں سے مَحو کر دیں گے۔( صاوی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶، ۳ / ۱۱۵۱-۱۱۵۲)
قرآنِ کریم سے متعلق حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک قرآن جہاں سے آیا تھا وہیں لوٹ نہ جائے ۔ عرش کے گرد قرآن کی ایسی بھنبھناہٹ ہو گی جیسی شہد کی مکھی کی ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ قرآن سے فرمائے گا ’’تیرا کیا حال ہے۔ قرآن عرض کرے گا: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ،میں تیرے پاس سے گیا اور تیری ہی طرف لوٹ آیا ہوں ، میری تلاوت تو کی گئی لیکن میرے احکامات پر عمل نہ کیا گیا۔( مسندالفردوس، باب لام الف، ۵ / ۷۹، الحدیث: ۷۵۱۳)
اورحضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’بے شک یہ قرآن جو تمہارے سامنے موجود ہے، عنقریب اسے اٹھا لیا جائے گا۔ ایک شخص نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ ہم نے اسے دلوں میں اور صحیفوں میں محفوظ کر رکھا ہے، ہم اپنے بچوں کو اس کی تعلیم دیتے ہیں اور ہمارے بچے اپنی اولاد کو قرآن سکھاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ’’وہ ایک رات میں چلا جائے گا اور صبح کے وقت لوگ اسے نہیں پائیں گے اور اس کی صورت یہ ہوگی کہ قرآن دلوں اور صحیفوں سے مَحو کر دیا جائے گا۔( ابو سعود، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶، ۳ / ۳۵۰)
نیزحضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہی فرمایا کہ قرآنِ پاک خوب پڑھو اس سے پہلے کہ قرآن پاک اٹھالیا جائے کیونکہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ قرآن پاک نہ اُٹھایا جائے۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ادمان تلاوتہ، ۲ / ۳۵۵، الحدیث: ۲۰۲۶)اللّٰہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک کی تلاوت کرنے ،اسے سمجھنے اور اس کے احکامات پر عمل کی توفیق عطا کرے،آمین۔
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اگر تمام جن و اِنس اِس پر متفق ہوجائیں کہ فصاحت و بلاغت ، حسن ِترتیب ، علومِ غَیبِیہ اور معارفِ الٰہیہ وغیرہا میں سے کسی کمال میں قرآن کے برابر کوئی چیز لے آئیں تو وہ ایسا نہ کرسکیں گے۔ مشرکین نے کہا تھا کہ ہم چاہیں تو اس قرآن کی مثل بنالیں اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اللّٰہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰینے اُن کی تکذیب کی کہ خالق کے کلام کے مثل مخلوق کا کلام ہوہی نہیں سکتا۔اگر وہ سب باہم مل کر کوشش کریں جب بھی ممکن نہیں کہ اِس کلام کے مثل لاسکیں چنانچہ ایسا ہی ہوا، تمام کفار عاجز ہوئے اور انہیں رسوائی اُٹھانا پڑی اور وہ ایک سطر بھی قرآن کریم کے مقابل بنا کر پیش نہ کرسکے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۱۹۱، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۶۳۵، ملتقطاً)
{وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ:اور بیشک ہم نے لوگوں کے لیے بار بار بیان کی ہے۔} علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ان آیات سے تین باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…قرآنِ کریم اللّٰہ تعالیٰ کی بڑی عظیم اور جلیل نعمت ہے ا س لئے ہر عالم اور حافظ پر لازم ہے کہ وہ اس نعمت کا شکر ادا کرے اور اس کے حقوق ادا کرنے پر ہمیشگی اختیار کرے۔
(2)…انسان اور اس کے علاوہ کسی اور مخلوق میں یہ طاقت نہیں کہ وہ ایسا کلام پیش کر سکے جو اللّٰہ تعالیٰ کے کلام کی طرح جامع ہو ، اس کی عبارت، الفاظ کی عمدگی اور فصاحت انتہا کو پہنچی ہوئی ہو، اس کے اشارے باریکی اور کمالِ دانشمندی کی، اس کے نِکات لَطافت اور نَظافت کی اور اس کے حقائق حقیقت اور پاکیزگی کی انتہاء کو پہنچے ہوئے ہوں ۔
(3)…اکثر لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں پہچانتے اور اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کی جانے والی تَنبیہات سے تنبیہ حاصل نہیں کرتے اسی لئے ہزار میں سے ایک شخص جنت میں جائے گا اور باقی جہنم میں جائیں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے حق بات سے اور اسے سیکھنے سے اِعراض کیا۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۹، ۵ / ۲۰۱-۲۰۲)
قرآن مخلوق نہیں ہے:
یہاں یہ بات یاد رہے کہ قرآنِ مجید مخلوق نہیں کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی صفات ازلی اور غیر مخلوق ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’جو قرآن کریم کو مخلوق کہے یااس کے بارے میں تَوَقُّف کرے یا اس کے بارے میں شک کرے تواس نے اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کفرکیا۔(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۹، ۵ / ۲۰۲) نیز اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فتاویٰ رضویہ کی 15 ویں جلد میں موجود اپنے رسالے ’’سُبْحٰنَ السُّبُّوْحْ عَنْ عَیْبِ کِذْبٍ مَقْبُوْحْ‘‘(جھوٹ جیسے بد ترین عیب سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پاک ہونے کا بیان)۔ میں قرآن عظیم کے غیر مخلوق ہونے پر ائمۂ اسلام کے 32 ارشادات ذکر کئے ہیں اور ان میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ 9صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ فرماتے تھے کہ جو قرآن کو مخلوق بتائے وہ کافر ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ۱۵ / ۳۸۰)
{وَ قَالُوْا: اور انہوں نے کہا۔} آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب قرآنِ کریم کا اِعجاز خوب ظاہر ہوچکا اور واضح معجزات نے حجت قائم کردی اور کفار کے لئے عذر کی کوئی صورت باقی نہ رہی تو وہ لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنے کے لئے طرح طرح کی نشانیاں طلب کرنے لگے اور اُنہوں نے کہہ دیا کہ ہم ہر گز آپ پر ایمان نہ لائیں گے، چنانچہ مروی ہے کہ کفارِ قریش کے سردار کعبہ معظمہ میں جمع ہوئے اور انہوں نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو بلوا یا۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ آج گفتگو کرکے آپ سے معاملہ طے کرلیں تاکہ ہم پھر آپ کے حق میں (کوئی بھی کاروائی کرنے میں ) معذور سمجھے جائیں ۔عرب میں کوئی آدمی ایسا نہیں ہوا جس نے اپنی قوم پر وہ شدتیں کی ہوں جو آپ نے کردی ہیں ۔ آپ نے ہمارے باپ دادا کو برا کہا، ہمارے دین کو عیب لگائے، ہمارے دانش مندوں کو کم عقل ٹھہرایا ، ہمارے معبودوں کی توہین کی ، ہماری جماعت متفرق کردی اور کوئی برائی اُٹھا نہ رکھی یعنی سب کچھ آپ نے کیا۔ یہ بتاؤ کہ اس سے تمہاری غرض کیا ہے؟ اگر تم مال چاہتے ہو تو ہم تمہارے لئے اتنا مال جمع کردیں کہ ہماری قوم میں تم سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ اور اگر اعزاز چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنالیں اور اگر ملک و سلطنت چاہتے ہو تو ہم تمہیں بادشاہ تسلیم کرلیں ،یہ سب باتیں کرنے کے لئے ہم تیار ہیں اور اگر تمہیں کوئی دماغی بیماری ہوگئی ہے یا کوئی خَلِش ہوگیا ہے تو ہم تمہارا علاج کریں اور اس میں جس قدر خرچ ہو اُٹھائیں ۔ سرکارِ دوعالَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ان میں سے کوئی بات نہیں اور میں مال ، سلطنت اور سرداری کسی چیز کا طلب گار نہیں ۔ بات صرف اتنی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی اور حکم دیا کہ میں تمہیں اس کے ماننے پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور نعمت ِآخرت کی بشارت دوں اور انکار کرنے پر عذابِ الٰہی کا خوف دلاؤں ۔ میں نے تمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّکا پیغام پہنچایا ہے۔ اگر تم اسے قبول کرو تو یہ تمہارے لئے دنیاو آخرت کی خوش نصیبی ہے اور نہ مانو تو میں صبر کروں گا اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے فیصلہ کا انتظار کروں گا ۔اس پر ان لوگوں نے کہا :اے محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اگر آپ ہمارے معروضات کو قبول نہیں کرتے ہیں تو اِن پہاڑوں کو ہٹا دیجئے اور میدان صاف نکال دیجئے اور نہریں جاری کر دیجئے اور ہمارے مرے ہوئے باپ دادا کو زندہ کر دیجئے۔ ہم ان سے پوچھ دیکھیں کہ آپ جو فرماتے ہیں کیا وہ سچ ہے؟ اگر وہ کہہ دیں گے تو ہم مان لیں گے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ میں ان باتوں کے لئے نہیں بھیجا گیا اور جو پہنچانے کے لئے میں بھیجاگیا تھا وہ میں نے پہنچا دیا، اگر تم مانو توتمہارا نصیب اور نہ مانو تو میں خدائی فیصلے کا انتظار کروں گا ۔ کفار نے کہا: پھر آپ اپنے رب سے عرض کر کے ایک فرشتہ بلوا لیجئے جو آپ کی تصدیق کرے اور اپنے لئے باغ ، محل اور سو نے چاندی کے خزانے طلب کیجئے۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ میں اس لئے نہیں بھیجا گیا۔ میں بشیرو نذیر بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ اس پر وہ لوگ کہنے لگے :تو ہم پرآسمان گروا دیجئے اور ان میں سے بعض یہ بولے کہ ہم ہر گز ایمان نہ لائیں گے جب تک آپ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکو اور فرشتوں کو ہمارے پاس نہ لایئے ۔ اس پر نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس مجلس سے اٹھ آئے اور عبداللّٰہ بن اُمیہ آپ کے ساتھ اُٹھا اور آپ سے کہنے لگا: خدا کی قسم! میں کبھی ایمان نہ لاؤں گا جب تک آپ سیڑھی لگا آسمان پر نہ چڑھو اور میری نظروں کے سامنے وہاں سے ایک کتاب اور فرشتوں کی ایک جماعت لے کرنہ آؤ اور خدا کی قسم! اگریہ بھی کروتو میں سمجھتا ہوں کہ میں پھر بھی نہ مانوں گا۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب دیکھا کہ یہ لوگ اس قدر ضد او ر عنا د میں ہیں اور ان کی حق سے دشمنی حد سے گزر گئی ہے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کواُن کی حالت پر رنج ہوا اس پر آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۹۱-۱۹۲)
{قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ: تم فرماؤ، میرا رب پاک ہے۔} کفار کے تمام مطالبات کے جواب میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایک ہی جواب دینے کا ارشاد فرمایا گیا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ میرا کام اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا پیغام پہنچا دینا ہے، وہ میں نے پہنچا دیا ہے اور جس قدر معجزات و آیات یقین و اطمینان کے لئے درکار ہیں اُن سے بہت زیادہ میرا پروردگار عَزَّوَجَلَّ ظاہر فرما چکا لہٰذا حجت پوری ہوچکی ہے ۔ اب یہ سمجھ لو کہ رسول کے انکار کرنے اور آیاتِ الٰہیہ سے مکرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔
{ اَنْ یُّؤْمِنُوْا: کہ ایمان لائیں ۔} ارشاد فرمایا ، حالانکہ لوگوں کے پاس ہدایت آچکی ہے مگر انہیں صرف اس بات نے ایمان لانے سے روک رکھا ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ کیا اللّٰہ تعالیٰ نے آدمی کو رسول بناکر بھیجا ہے؟ یعنی وہ لوگ رسولوں کو بشر ہی جانتے رہے اور اُن کے منصب ِنبوت اور اللّٰہ تعالیٰ کے عطا فرمائے ہوئے کمالات کے معترف نہ ہوئے، یہی اُن کے کفر کی اصل وجہ تھی اور اسی لئے وہ کہا کرتے تھے کہ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۱۹۲-۱۹۳، ملخصاً)اسی کا جواب اگلی آیت میں دیا گیا۔
{ لَوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓىٕكَةٌ: اگر زمین میں فرشتے ہوتے۔} کفار کے جواب میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ تم ان سے فرما دو کہ اگر انسانوں کی بجائے زمین میں صرف فرشتے رہائش پذیر ہوتے جو یہاں چلتے پھرتے تو ہم ان پر آسمان سے کسی فرشتے کو ہی رسول بنا کر بھیجتے لیکن جب زمین میں انسان بستے ہیں تو رسول بھی انسان ہی بنایا جاتا ہے۔ فرشتوں کیلئے فرشتہ ہی رسول بھیجا جاتا کیونکہ وہ اُن کی جنس سے ہوتا لیکن جب زمین میں آدمی بستے ہیں تو اُن کا ملائکہ میں سے رسول طلب کرنا نہایت ہی بے جا ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۵، ۵ / ۲۰۵، ملخصاً)
{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ میرے اور تمہارے درمیان اس بات پر اللّٰہ تعالیٰ ہی گواہ کافی ہے کہ جس چیز کے ساتھ مجھے بھیجا گیا وہ میں نے تم تک پہنچا دی اور تم نے (اسے) جھٹلایا اور دشمنی کی، بے شک وہ اپنے بندوں یعنی رسولوں اور جن کی طرف انہیں بھیجا گیا ان کے ظاہری اور باطنی تمام احوال کی خبر رکھنے والا اور انہیں دیکھنے والا ہے تو وہ انہیں اس کی جزا دے گا۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۶، ۵ / ۲۰۵)
{وَ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ:اور جسے اللّٰہ ہدایت دے تو وہی ہدایت پانے والا ہوتا ہے۔}اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جسے اللّٰہ ہدایت دے تو وہی ہدایت پانے والا ہوتا ہے اور جنہیں وہ گمراہ کردے تو تم ہرگز ان کیلئے اس کے سوا کسی کو مددگار نہ پاؤ گے اور ہم انہیں قیامت کے دن ان کے منہ کے بل اس حال میں اٹھائیں گے کہ وہ جس طرح دنیا میں حق دیکھنے کی بصیرت نہ رکھتے تھے،حق بات بول نہیں سکتے تھے اور حق بات سننے سے بہرے تھے اسی طرح آخرت میں بھی اس چیز کو دیکھنے سے اندھے ہوں گے جو ان کی نگاہوں کو ٹھنڈا کرے، وہ بات بولنے سے گونگے ہوں گے جو ان کی طرف سے قبول کی جائے اوراس بات کو سننے سے بہرے ہوں گے جو ان کے کانوں کو لذت دے۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے، جب کبھی (اس کی آگ) بجھنے لگے گی تو ہم اسے اور بھڑکادیں گے۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۱۹۳، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۶۳۷، ملتقطاً)
قیامت کے دن کفار منہ کے بل چلیں گے:
اس آیت میں بیان ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن کفار کو منہ کے بل اٹھا ئے گا، اس سے متعلق بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کی:یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کافر کو اس کے چہرے کے بل کس طرح اٹھایا جائے گا؟ ارشاد فرمایا ’’وہ رب جس نے اسے دنیا میں دو قدموں پر چلایا کیا اس بات پر قادر نہیں کہ وہ قیامت کے دن اسے چہرے کے بل چلائے؟ (کیوں نہیں ،وہ اس بات پر ضرور قادر ہے۔)( بخاری، کتاب الرقاق، باب کیف الحشر، ۴ / ۲۵۲، الحدیث: ۶۵۲۳)
اور سنن ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن لوگ تین حالتوں میں اٹھائے جائیں گے، بعض لوگ پیدل چلیں گے، بعض سوار اور کچھ لوگ چہروں کے بل چلیں گے۔ عرض کی گئی:یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، چہروں کے بل کیسے چلیں گے؟ ارشاد فرمایا ’’جس نے انہیں قدموں پر چلایا وہ انہیں منہ کے بل چلانے پر بھی قادر ہے، سن لو !وہ اپنے منہ کے ذریعے ہر بلند جگہ اور کانٹے سے بچیں گے۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ بنی اسراءیل، ۵ / ۹۶، الحدیث: ۳۱۵۳)
{ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ:یہ ان کی سزا ہے۔} اِس سے پہلی آیت میں جو وعید بیان ہوئی اُس سے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ عذاب ان کی سزا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرتے ہوئے کہنے لگے: کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہمیں نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھایا جائے گا؟( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۸، ۳ / ۱۹۳، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۸، ص۶۳۷، ملتقطاً)
{اَوَ لَمْ یَرَوْا:اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا ۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان کفار کو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کیا ان کافروں نے نہیں دیکھا کہ وہ اللّٰہ جس نے کسی سابقہ مادے کے بغیر آسمان اور زمین جیسی عظیم مخلوق پیدا کر دی ہے تو وہ اس پر بھی قادر ہے کہ ان لوگوں کی مثل اور پیدا کردے کیونکہ زمین و آسمان کے مقابلے میں انسانوں کی مثل پیدا کرنا آسان ہے اور جب وہ انسانوں کی مثل پیدا کرنے پر قادر ہے تو انہیں دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے اور اس نے ان ( کے مرنے ، دوبارہ زندہ کئے جانے اور عذاب) کے لیے ایک مدت مقرر کررکھی ہے جس میں کچھ شبہ نہیں اور جب ان کے سامنے اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے، صرف اسی کی عبادت کرنے اور قیامت کے دن جزا کے لئے دوبارہ زندہ کئے جانے کی بات رکھ دی گئی تو ظالموں نے کفر کے علاوہ کچھ ماننے سے انکار کردیا (یعنی صرف کفر ہی کو اختیار کیا اور ایمان کی طرف نہ آئے۔)( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۹، ۵ / ۲۰۷، البحر المحیط، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۹، ۶ / ۸۰-۸۱، ملتقطاً)
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس سے پہلے آیت نمبر 90 میں کفار کا ایک مطالبہ گزرا کہ ان کے شہر میں نہریں اور چشمے جاری کر دئیے جائیں تاکہ ان کے مال زیادہ ہو جائیں اور ان کی معیشت بہتر ہوجائے تو اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے فرمایا کہ آپ ان سے فرما دیں ’’اگر تم لوگ میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو بھی تم اپنے بخل اور کنجوسی پر قائم رہتے اور خرچ ہوجانے کے ڈر سے ان خزانوں کو روک رکھتے ۔( تفسیر کبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۷ / ۴۱۲)
اس آیتِ مبارکہ میں لوگوں کے خرچ کرنے کا حال بیان ہوا جبکہ اللّٰہ تعالیٰ نے مخلوق پر کتنا خرچ فرمایا ہے اور کتنا خرچ فرما رہا ہے اس کا عالَم ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ کا دست ِکرم بھرا ہوا ہے اور شب و روز کا خرچ کرنا بھی اسے کم نہیں کرتا ،تم ذرا غور تو کرو کہ جب سے اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو بنایا ہے تب سے اس نے کتنا خرچ فرمایا ہے لیکن جو کچھ اس کے دست ِقدرت میں ہے اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے قبضہ میں میزان ہے جسے وہ بلند و پَست فرماتا ہے۔( بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللّٰہ تعالی: لما خلقت بیدیّ، ۴ / ۵۴۳، الحدیث: ۷۴۱۱)
{وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا:اور آدمی بڑا کنجوس ہے۔} یہاں انسان کو اس کی اصل کے اعتبار سے بڑ اکنجوس فرمایا گیا ہے کیونکہ انسان کو محتاج پیدا کیا گیا ہے اور محتاج لازمی طور پر وہ چیز پسند کرتا ہے جس سے محتاجی کا ضَرَر اس سے دور ہو جائے اور اسی لئے وہ اس چیز کو اپنی ذات کے لئے روک لیتا ہے جبکہ اس کی سخاوت خارجی اَسبا ب کی وجہ سے ہوتی ہے جیسے اسے اپنی تعریف پسند ہوتی ہے یا ثواب ملنے کی امید ہوتی ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ انسان اپنی اصل کے اعتبار سے بخیل ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۱۹۴)
{تِسْعَ اٰیٰتٍ: نو نشانیاں ۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جو نونشانیاں عطا کی گئیں وہ یہ ہیں : (1) عصا، (2) ید ِبیضا، (3) بولنے میں دِقَّت جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان مبارک میں تھی پھر اللّٰہ تعالیٰ نے اسے دور فرما دیا، (4) دریا کا پھٹنا اور اس میں رستے بننا، (5) طوفان، (6) ٹڈی، (7) گھن، (8) مینڈک، (9) خون۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۱۹۴)ان میں سے آخری6 نشانیوں کا مُفَصَّل بیان نویں پارے کے چھٹے رکوع میں گزر چکاہے۔ ان مذکورہ بالا میں سے بعض تو معجزے تھے اور بعض فرعون پر عذاب جو بالواسطہ معجزے تھے کہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت ہی کی وجہ سے فرعون پر عذاب آئے۔
{قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ: فرمایا : یقینا تو جان چکا ہے۔} فرعون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے کہا تھا کہ اے موسیٰ! میں تو یہ خیال کرتا ہوں کہ تم پر جادو کیا ہوا ہے یعنی مَعَاذَاللّٰہ جادو کے اثر سے تمہاری عقل اپنی جگہ پر نہیں رہی ہے یا یہاں مَسحور، ساحر کے معنی میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ عجائب جو آپ دکھلاتے ہیں یہ جادو کے کرشمہ ہیں اس پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے جواب دیا: اے فرعون! یقینا تو جان چکا ہے کہ ان نشانیوں کوعبرتیں بنا کر آسمانوں اور زمین کے رب عَزَّوَجَلَّ ہی نے نازل فرمایا ہے کیونکہ ان نشانیوں اور معجزات سے میری سچائی ، میراکامل العقل ہونا ، میرا جادوگر نہ ہونا اور ان نشانیوں کا خدا عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہونا ظاہر ہے اور اے فرعون! میں یہ گمان کرتاہوں کہ تو ضرور ہلاک ہونے والا ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱-۱۰۲، ۳ / ۱۹۴، روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱-۱۰۲، ۵ / ۲۰۸، ملتقطاً)
{فَاَرَادَ: تو اس نے چاہا۔} یعنی فرعون نے چاہا کہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور اُن کی قوم کو سرزمین ِمصر سے نکال دے لیکن اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرعون کو اس کے ساتھیوں سمیت غرق کردیا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور ان کی قوم کو سلامتی عطا فرمائی۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۳ / ۱۹۵)
{وَ قُلْنَا: اور ہم نے فرمایا۔} فرعون کی غَرقابی کے بعد اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اب تم اس سرزمین یعنی زمین ِمصرو شام میں سکونت اختیار کرو اور پھر جب قیامت آئے گی تو ہم تمہیں دوبارہ جمع کریں گے اور میدانِ قیامت میں پھر سعادت مندوں اور بدبختوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کر دیں گے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۳ / ۱۹۵)
{وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ: اور ہم نے قرآن کو حق ہی کے ساتھ اتارا۔} یعنی قرآن شَیاطین کے خَلْط مَلْط سے محفوظ رہا اور اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ ہوسکی ۔ لہٰذا قرآن کا ایک ایک جملہ، کلمہ اور حرف برحق ہے۔
ہر بیماری سے شفا کا عمل:
اس آیتِ شریفہ کا یہ جملہ ’’وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ‘‘ ہر ایک بیماری کے لئے عملِ مُجَرَّب ہے ، مرض کی جگہ پر ہاتھ رکھ کر پڑھ کر دم کردیا جائے تو بِاِذْنِ اللّٰہ بیماری دور ہو جاتی ہے۔ مشہور بزرگ حضرت محمد بن سماک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِبیمار ہوئے تواُن کے مُتَوَسِّلین قارُورہ لے کر ایک نصرانی طبیب کے پاس علاج کی خاطر گئے۔ راستے میں ایک صاحب ملے ،نہایت خوبصورت ا ور خوش لباس، ان کے جسم مبارک سے نہایت پاکیزہ خوشبو آرہی تھی، انہوں نے فرمایا: کہاں جاتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا کہ حضرت ابنِ سماک رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قارورہ دکھانے کے لئے فلاں طبیب کے پاس جاتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا، سُبْحَانَ اللّٰہ، اللّٰہ کے ولی کے لئے خدا کے دشمن سے مدد چاہتے ہو ۔ قارورہ پھینکو، واپس جاؤ اور اُن سے کہو کہ مقامِ درد پر ہاتھ رکھ کر پڑھو وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ یہ فرما کر وہ بزرگ غائب ہوگئے ۔ ان صاحبوں نے واپس ہو کر حضرت ابن سماک رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے واقعہ بیان کیا ،اُنہوں نے مقامِ درد پر ہاتھ رکھ کر یہ کلمے پڑھے تو فورا ً آرام ہوگیا اور حضرت ابن سماک رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ وہ حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ص۶۳۹)
{وَ قُرْاٰنًا: اور قرآن کو۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے قرآن کو تئیس سال کے عرصہ میں جدا جدا کرکے نازل کیا تاکہ اس کے مضامین بآسانی سننے والوں کے ذہن نشین ہوتے رہیں اور ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے حالات و واقعات کی ضرورت کے مطابق نازل کیا۔(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۵ / ۲۱۰، ملخصاً)
{قُلْ: تم فرماؤ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم ان لوگوں سے فرما دو کہ اے لوگو! تم اس قرآن پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ اور اپنے لئے نعمت ِآخرت اختیار کرو یا عذابِ جہنم ، وہ تمہاری مرضی ہے لیکن جن سلیم الفطرت لوگوں کو اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے کسی آسمانی کتاب کاعلم دیا گیا یعنی مومنین اہلِ کتاب جو رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعْثَت سے پہلے انتظار و جستجو میں تھے اور حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بعثت کے بعد شرفِ اسلام سے مشرف ہوئے جیسے کہ حضرت زید بن عمرو بن نفیل اور حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابو ذر وغیر ہم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ، تو جب ان حضرات کے سامنے قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑی کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں ۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ص۶۳۹، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۳ / ۱۹۵، ملتقطاً)
{وَ یَقُوْلُوْنَ: اور کہتے ہیں ۔} گزشتہ آیت میں جن سعادت مندوں کا تذکرہ کیا گیا تھا اگلی آیات میں انہی کے قول و فعل کا ذکر ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ ہر عیب سے پاک ہے لہٰذا وہ وعدہ خلافی سے بھی پاک ہے توبیشک ہمارے رب عَزَّوَجَلَّکا وعدہ پورا ہونے والا تھا جو اُس نے اپنی پہلی کتابوں میں فرمایا تھا کہ نبی آخر الزماں محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعو ث فرمائیں گے اور یہ وعدہ پورا ہوچکا۔ یہ تو ان حضرات کا قول و عقیدہ تھا اور ان کا عمل یہ ہے کہ جب یہ قرآن سنتے ہیں تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور عجز و نیاز سے اور نرم دِلی سے روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گرجاتے ہیں اور یہ قرآن ان کے دلوں کے خشوع و خضوع کو اور ان کے دلوں کے جھکنے کو اور بڑھادیتا ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۸-۱۰۹، ۳ / ۱۹۵)
تلاوتِ قرآن کے وقت رونا مستحب ہے:
قرآنِ کریم کی تلاوت کے وقت رونا مستحب ہے ۔حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بے شک یہ قرآن حُزن کے ساتھ اترا ہے، اس لئے جب تم اسے پڑھو تو رؤو اور اگر رو نہ سکو تو رونے جیسی شکل بناؤ۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث: ۱۳۳۷) اور یہ رونا اگر اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے ہو تو اس کی بڑی فضیلت ہے، چنانچہ ترمذی و نسائی کی حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ وہ شخص جہنم میں نہ جائے گا جو اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے روئے۔( ترمذی، کتاب فضاءل الجہاد، باب ما جاء فی فضل الغبار فی سبیل اللّٰہ، ۳ / ۲۳۶، الحدیث: ۱۶۳۹، نسائی، کتاب الجہاد، فضل من عمل فی سبیل اللّٰہ علی قدمہ، ص۵۰۵، الحدیث: ۳۱۰۵)
تلاوتِ قرآن سے دل میں نرمی پیدا ہوتی ہے:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم دل میں نرمی او ر خشوع وخضوع پیدا کرتا ہے ۔ اسی لئے حدیث ِ مبارک میں حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا کہ یہ دل ایسے زنگ آلود ہوتے ہیں جیسے لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان دلوں کی صفائی کس چیز سے ہو گی؟ ارشاد فرمایا: موت کو زیادہ یاد کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ادمان تلاوتہ، ۲ / ۳۵۲، الحدیث: ۲۰۱۴)
{وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ:اور وہ ٹھوڑی کے بل گرتے ہیں ۔}یاد رہے کہ یہ آیت ان آیات میں سے ایک ہے جنہیں پڑھنے اور سننے والے پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہو جاتا ہے۔
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اِس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ایک رات سرکارِ دوعالَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے طویل سجدہ کیا اور اپنے سجدہ میں یااَللّٰہُ یارَحْمٰنُ فرماتے رہے۔ ابوجہل نے سنا تو کہنے لگا کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)ہمیں تو کئی معبودوں کے پوجنے سے منع کرتے ہیں اور خود دو کو پکارتے ہیں ، اللّٰہ کو اور رحمٰن کو (مَعَاذَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ)۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۳ / ۱۹۵-۱۹۶) اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا اللّٰہ اور رحمٰن دو نام ایک ہی معبودِ برحق کے ہیں خواہ کسی نام سے پکارو ،اس کے بہت سے نام ہیں اور سب نام اچھے ہیں جیسے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے ننانوے نام معروف ہیں اور حقیقتاً اس سے بھی زیادہ نام ہیں جن کے معنی بہت پاکیزہ ہیں ۔
{وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا:اور اپنی نماز میں نہ آواز زیادہ بلند کرو اور نہ بالکل آہستہ کردو۔} شانِ نزول: حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مکۂ مکرمہ میں جلوہ فرما تھے ۔ آپ جس وقت اپنے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کونماز پڑھایا کرتے تو اپنی آواز مبارک قرآن کریم پڑھنے میں بلند فرمایا کرتے تھے ،جب کافر سن لیتے تو قرآن کریم اور اس کے اتارنے والے اور لانے والے کی شان میں گستاخانہ کلمات بکتے تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا ’’وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ‘‘ یعنی نماز کی قراء ت کو اونچا نہ کرو کہ کافر سن لیں گے تو بیہودہ کلمات بکیں گے۔ ’’وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا‘‘ یعنی اَصحاب سے یوں آہستہ نہ پڑھو کہ وہ سن نہ سکیں ’’وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا‘‘ اور ان دونوں کے بیچ میں راستہ چاہو۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ بنی اسرائیل، باب ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بہا، ۳ / ۲۶۳، الحدیث: ۴۷۲۲)
{وَ قُلْ: اور تم کہو۔} آیت میں فرمایا گیا کہ سب خوبیاں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے ہیں جس نے اپنے لیے بچہ اختیار نہ فرمایا جیسا کہ مشرکین ِعرب اور یہودو نصاریٰ کہتے تھے۔ مشرکین فرشتوں کو رب کی بیٹیاں اور یہودی حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو، اور عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللّٰہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے تھے۔ (اور اے حبیب!) مزید یہ کہو کہ بادشاہی میں اس رب عَزَّوَجَلَّ کا کوئی شریک نہیں جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں نیز کمزوری کی وجہ سے اس کا کوئی مدد گار نہیں یعنی وہ کمزور نہیں کہ اس کوکسی حمایتی اور مددگار کی حاجت ہو کہ کمزور کو ہی مددگار کی حاجت ہوتی ہے ۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ اس کی اچھی طرح بڑائی بیان کرو۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۵ / ۲۱۴، ملخصاً)
اللّٰہ تعالیٰ کی حمد کرنے کے3فضائل:
اس آیت کی ابتداء میں اللّٰہ تعالیٰ کی حمد کرنے کا فرمایا گیا ، اس مناسبت سے یہاں حمد کے 3فضائل درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن جنت کی طرف سب سے پہلے وہی لوگ بلائے جائیں گے جو ہر حال میں اللّٰہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں ۔( شعب الایمان، الثالث والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۹۰، الحدیث: ۴۳۷۳)
(2)… حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بہترین ذکر’’ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ہے اور بہترین دعا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء انّ دعوۃ المسلم مستجابۃ، ۵ / ۲۴۸، الحدیث: ۳۳۹۴)
(3)… حضرت سمرہ بن جند ب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک چار کلمے بہت پیارے ہیں ۔ ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَر‘‘(مسلم، کتاب الآداب، باب کراہۃ التسمیۃ بالاسماء القبیحۃ وینافع وغیرہ، ص۱۱۸۱، الحدیث: ۱۲(۲۱۳۷))
تکبیر یعنی اللّٰہُ اکبر کہنے کے2 فضائل:
اس آیت کے آخر میں اللّٰہ تعالیٰ کی اچھی طرح بڑائی بیان کرنے کا فرمایا گیا،اس کی مناسبت سے یہاں تکبیر کہنے کے 2فضائل ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ اور ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے ’’اللّٰہُ اکبر‘‘کہا تو اُس کے لئے اِس کے بدلے بیس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اُس کے بیس گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔(مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃرضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۱۸۲، الحدیث: ۸۰۹۹)
(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ (کہنا) آسمان و زمین کے درمیان کی فضا بھر دیتا ہے۔(مشکاۃ المصابیح،کتاب الدعوات، باب ثواب التسبیح والتحمید۔۔۔الخ، الفصل الثالث، ۱ / ۴۳۴، الحدیث: ۲۳۲۲)
اس کی شرح میں مفتی احمد یا ر خاں نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس (کلمے) کا ثواب اس کی عظمت اُن تمام چیزوں کو بھر دیتی ہے، یہ ہمیں سمجھانے کے لیے ہے کہ ہماری کوتاہ نظریں ان آسمان زمین تک ہی محدود ہیں ،ورنہ رب تعالیٰ کی کبریائی کے مقابل آسمان و زمین کی کیا حقیقت ہے۔(مرآۃ المناجیح، کتاب الدعوات، باب ثواب التسبیح والتحمید۔۔۔ الخ، الفصل الثالث، ۳ / ۳۸۴، تحت الحدیث: ۲۲۱۲)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی حمدو ثنا اور عظمت و بڑائی بیان کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
بچوں کو سکھائی جانے والی آیت:
امام عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں
:نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس آیت کا نام آیت الْعِزْرکھا ہے اور بنی عبدالمطلب
کے بچے جب بولنا شروع کرتے تھے تو ان کو سب سے پہلے یہی آیت ’’قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ‘‘ سکھائی
جاتی تھی۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۶۴۰)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan