Surah Al-Israa
{فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ: اس قرآن میں ۔} اس رکوع میں عقائد ِ اسلامیہ میں سے چاروں اہم ترین بنیادی عقائد کو بیان کیا گیا ہے ، پہلے قرآن کے بارے میں پھر توحید ِ باری تعالیٰ کے بارے میں ،پھر رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں اور پھر قیامت کے بارے میں ۔ سب سے پہلے قرآن کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے اس قرآن میں نصیحت کی باتیں بار بار بیان فرمائیں اور کئی طرح سے بیان فرمائیں جیسے کہیں دلائل سے، تو کہیں مثالوں سے، کہیں حکمتوں سے اور کہیں عبرتوں سے اور ان مختلف اندازوں میں بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگ کسی طرح نصیحت و ہدایت کی طرف آئیں اور سمجھیں ۔ یہاں قرآنِ پا ک نے علمِ نَفسیات کے ایک اصول کو بیان فرما دیا کہ لوگوں سے ان کی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق کلام کیا جائے کیونکہ بعض لوگ دلائل سے مانتے ہیں اور بعض ڈر سے اور کچھ مثالوں سے۔ یونہی بعض اوقات ایک آدمی کی حالت ہی مختلف ہوتی رہتی ہے ، کسی وقت اسے ڈرا کر سمجھانا مفید ہوتا ہے اور کسی وقت نرمی سے ۔ تو قرآنِ پاک نے تمام لوگوں کو ان کے تمام اَحوال کی رعایت کرتے ہوئے سمجھایا ہے۔ لیکن آیت کے آخر میں فرمایا کہ اس اِصلاح و تفہیم نے کفار کی حق سے نفرت میں ہی اضافہ کیا کیونکہ بارش اگرچہ بابرکت ہوتی ہے لیکن اگر کسی جگہ پر گندگی کا ڈھیر ہو تووہاں بدبو میں ہی اضافہ ہوتا ہے۔
{قُلْ: تم فرماؤ۔}اس آیت میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے اپنی توحید کی ایک قطعی مگر نہایت عام فہم دلیل بیان فرمائی ہے کہ بالفرض اگر دو خدا ہوتے تو ان میں ایک کادوسرے سے ٹکراؤ لازمی طور پر ممکن ہوتا جیسے ان میں سے ایک ارادہ کرتا کہ زید حرکت کرے اور دوسرا ارادہ کرتا ہے کہ وہ ساکن رہے ۔اب حرکت اور سکون دونوں چیزیں فی نفسہ ممکن تو ہیں ، اسی طرح دو خداؤں کا حرکت اور سکون میں سے ہر ایک چیز کا ارادہ کرنا بھی ممکن ہے لیکن دونوں کے ارادے کے بعد ہوتا کیا؟ اگر ان کے ارادوں کے مطابق حرکت اور سکون دونوں چیزیں واقع ہوں تو دو مُتَضاد چیزوں کا جمع ہونا لازم آئے گا اور اگر دونوں واقع نہ ہوں تو ان خداؤں کا عاجز ہونا لازم آئے گا اور اگر ایک واقع ہو دوسری نہ ہو تو دونوں میں سے ایک خدا کا عاجز ہونا لازم آئے گا اور جو عاجز ہے وہ خدا نہیں کیونکہ عاجز ہونا محتاجی اور نقص ہے اور وا جبُ الوجود ہونے کے مُنافی ہے تو ثابت ہوا کہ دو خدا ہونا ہی محال ہے ۔
{تُسَبِّحُ لَهُ: اس کی پاکی بیان کرتی ہے۔} اِس آیت میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت کا بیان ہے، چنانچہ فرمایا کہ ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں بسنے والی ساری مخلوق اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد و ثنا اور تسبیح و تقدیس میں مشغول ہے اور یہ تسبیح دونوں طرح ہے، زبانِ حال سے بھی اور وہ اس طرح کہ تمام مخلوقات کے وجود اپنے صانِع یعنی بنانے والے کی قدرت و حکمت پر دلالت کرتے ہیں اور یہ تسبیح زبانِ قال سے بھی ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۱۶۲، ملخصاً) اور یہ بھی ثابت وصحیح ہے اور اَحادیثِ کثیرہ اس پر دلالت کرتی ہیں اور سَلف صالحین سے یہی منقول ہے۔
ہر چیز اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے:
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا ہر زندہ چیز اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۱۷۶)اور ہر چیز کی زندگی اس کے حسبِ حیثیت ہے۔ مفسرین نے کہا ہے کہ دروازہ کھولنے کی آواز اور چھت کا چٹخنا یہ بھی تسبیح کرنا ہے اور ان سب کی تسبیح سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖہے ۔ یہاں جَمادات کی تسبیح سے متعلق چند اَحادیث ملاحظہ ہوں ، چنانچہ
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی انگشت ِ مبارک سے پانی کے چشمے جاری ہوتے میں نے دیکھے اور ہم کھاتے وقت کھانے کی تسبیح سناکرتے تھے۔( بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوّۃ فی الاسلام، ۲ / ۴۹۵، الحدیث:۳۵۷۹)
حضرت جابر بن سمرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،تاجدار ِرسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو میرے اعلانِ نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا۔( مسلم،کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وتسلیم الحجر علیہ قبل النبوّۃ، ص۱۲۴۹، الحدیث: ۲(۲۲۷۷))
حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لکڑی کے ایک ستون سے تکیہ فرما کر خطبہ فرمایا کرتے تھے ،جب منبر بنایا گیا اور حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمنبر پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ ستون رونے لگا،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس پر دستِ کرم پھیر ا( شفقت فرمائی اور تسکین دی)۔( بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲ / ۴۹۶، الحدیث: ۳۵۸۳) ان تمام اَحادیث سے جمادات کا کلام اور تسبیح کرنا ثابت ہوا۔
{وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ:لیکن تم لوگ ان چیزوں کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ۔} ارشادفرمایا کہ یہ تو حق ہے کہ تمام اَشیا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی تسبیح بیان کرتی ہیں کیونکہ یہ بات خود اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بتارہا ہے البتہ تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ۔ زبانِ حال کی تسبیح تو وہ لوگ نہیں سمجھتے جو مخلوق میں غور کرکے خالق کی معرفت حاصل نہیں کرتے اور زبانِ قال کی تسبیح عمومی طور پر کوئی نہیں سمجھتا کیونکہ ہر شے کس زبان میں تسبیح کرتی ہے ہم نہیں سمجھتے اور ہر چیز کی تسبیح کا جان لینا ہمارے لئے مشکل ہے۔ البتہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کسی کو ان چیزوں کی تسبیح سمجھنے کی صلاحیت دیدے تو وہ جدا بات ہے۔
{وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ:اور اے حبیب! جب تم نے قرآن پڑھا ۔} اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب سورۂ تَبَّتْ یَدَا نازل ہوئی تو ابولہب کی بیوی پتھر لے کر آئی ، حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَبمع حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے تشریف رکھتے تھے، وہ حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہ دیکھ سکی ا ور حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہنے لگی، تمہارے آقا کہاں ہیں ؟ مجھے معلوم ہوا ہے اُنہوں نے میری ہَجْوْ ( مذمت) کی ہے۔ حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ،وہ شعر گوئی نہیں کرتے ہیں ۔ تو وہ یہ کہتی ہوئی واپس ہوئی کہ میں ان کا سر کچلنے کے لئے یہ پتھر لائی تھی۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بڑے تعجب سے عرض کیا کہ (آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے یہاں موجود ہونے کے باوجود) اس نے آپ کو دیکھا نہیں ؟ رسول اکرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ میرے اور اس کے درمیان ایک فرشتہ حائل رہا ۔ اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۱۷۶)
{وَ جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً: اور ہم نے ان کے دلوں پر غلاف ڈال دئیے ہیں ۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ کفار کی ضد و اَنانِیَّت کے باعث اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئیے ہیں جس سے وہ قرآن کریم کو درست طور پر سمجھ نہیں سکتے اور ان کے کانوں میں بھی بوجھ ڈال دئیے جس کے باعث وہ قرآن شریف سنتے نہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی صحیح سمجھ ایمان اور تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے، اس کے بغیر بسا اوقات ذہن الٹا کام کرتا ہے جیسا آجکل دیکھا جا رہا ہے۔ ہر کتا ب روشنی میں پڑھی جاتی ہے، قرآن کو پڑھنے، سمجھنے کیلئے روشنی تقویٰ ہے۔ لہٰذا فہمِ قرآن کیلئے اس روشنی کو حاصل کرنا چاہیے۔
{نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُوْنَ بِهٖ:ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ اسے کیوں سنتے ہیں ۔} یعنی کفار سنتے بھی ہیں تو تمسخر اور تکذیب کے لئے، یہ ان کا ایک جرم ہے اور ان کا دوسرا جرم یہ ہے کہ ان میں سے کوئی آپ کو مجنون کہتا ہے اور کوئی جادوگر اور کوئی کاہن اور کوئی شاعر۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۱۷۶-۱۷۷، ملخصاً)
{اُنْظُرْ: دیکھو!} ارشاد فرمایا کہ یہ کفار حضور اکرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے کیسی باتیں کہتے ہیں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ناقص صفات کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں جیسے جادوگر، کاہن وغیرہ کے ساتھ۔( بیضاوی، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۴۸،۳ / ۴۵۰، ملخصاً)
حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی کسی صفت کو کسی گھٹیا چیز کے ساتھ تشبیہ دینا کفر ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یا آپ کی کسی صفت کو کسی گھٹیا چیز کے ساتھ تشبیہ دینا کفر ہے، جیسے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے علمِ مبارک کومَعَاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کوئی جانوروں کے علم سے تشبیہ دے تو یقینا ایسا شخص تَوہین کا مُرتکب ہے۔
{وَ قَالُوْا: اور انہوں نے کہا۔} یہاں سے آخر رکوع تک قیامت کے بارے میں کفار کے عمومی اعتراض اور اس کے جواب کا بیان ہے چنانچہ کفار نے کہا کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے توکیا واقعی ہمیں نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھایا جائے گا؟ یہ بات اُنہوں نے بہت تعجب سے کہی اور مرنے اور خاک میں مل جانے کے بعد زندہ کئے جانے کو اُنہوں نے بہت بعید سمجھا ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کا رد کیا اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم فرماؤ کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا اس سے بڑی کوئی مخلوق مثلاً آسمان بن جاؤ تب بھی اللّٰہ تعالیٰ تمہیں زندگی دے سکتا ہے ، یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ زندگی سے دور ہیں اور ان میں کبھی تمہاری طرح روح نہ پھونکی گئی تو اگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو ان سب کو بھی زندگی دے سکتا ہے ،چہ جائیکہ ہڈیاں اورجسم کے ذرّے، انہیں زندہ کرنا اس کی قدرت سے کیا بعید ہے، یہ ہڈیاں اور اَجسام تو پہلے بھی زندہ رہ چکے ہیں ۔ لہٰذا اللّٰہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی تمہیں زندہ کرے گا اور پہلی حالت کی طرف واپس فرمائے گا۔ اس کے بعد مزید فرمایا کہ یہ کفار اب کہیں گے:ہمیں دوبارہ کون پیدا کرے گا؟ تم فرماؤ کہ تمہیں وہی دوبارہ پیدا کرے گا جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا۔ یہ سن کر کفار پھر بھی ماننے کی طرف نہیں آئیں گے بلکہ مذاق کے طور پر تعجب کے ساتھ اپنے سر ہلاکر کہیں گے: یہ کب ہوگا؟ تو سرکارِدو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا گیا کہ تم فرمادو : ہوسکتا ہے کہ یہ نزدیک ہی ہو۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۱، ۳ / ۱۷۷، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۱، ص۶۲۵-۶۲۶، ملتقطاً)
{یَوْمَ یَدْعُوْكُمْ: جس دن وہ تمہیں بلائے گا۔} یعنی جس دن اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں قبروں سے میدانِ قیامت کی طرف بلائے گا تو تم سب اپنے سروں سے خاک جھاڑتے چلے آؤ گے اور اس وقت سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَکہتے اور یہ اقرا رکرتے ہوئے آؤ گے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّہی پیدا کرنے والا اور مرنے کے بعد اُٹھانے والا ہے اور قیامت کے کٹھن اَوقات کی وجہ سے یا اس کے مقابلے میں تم سمجھو گے کہ دنیا میں یا قبروں میں تمہارا قیام بڑا مختصر تھا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۱۷۷، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۶۲۶، ملتقطاً)
{وَ قُلْ: اور آپ فرمادیں ۔} اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مشرکین مسلمانوں کے ساتھ بدکلامیاں کرتے اور انہیں ایذائیں دیتے تھے، انہوں نے سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کی شکایت کی ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو بتایا گیا کہ وہ کفار کی جاہلانہ باتوں کا ویسا ہی جواب نہ دیں بلکہ صبر کریں اور انہیں صرف یہ دعا دیدیا کریں یَہْدِیْکُمُ اللّٰہ (اللّٰہ تمہیں ہدایت دے۔) یہ حکم یعنی بہرحال صرف صبر ہی کرنا ، جہاد کے حکم سے پہلے تھا ، بعد میں منسوخ ہو گیا اور ارشاد فرمایا گیا ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ(اے غیب کی خبریں دینے والے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو)‘‘( توبہ :۷۳)اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکے حق میں نازل ہوئی ایک کافر نے اُن کی شان میں بیہودہ کلمہ زبان سے نکالا تھا ، اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں صبر کرنے اور معاف فرمانے کا حکم دیا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۱۷۷، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۵۳، ملتقطاً)
بہرحال آیت میں فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ایمان والوں سے فرمادیں کہ وہ کافروں سے وہ بات کیا کریں جو نرم ہو یا پاکیزہ ہو، ادب اور تہذیب کی ہو، ارشاد و ہدایت کی ہو حتّٰی کہ کفار اگر بے ہودگی کریں تو اُن کا جواب اُنہیں کے انداز میں نہ دیا جائے۔ فی زمانہ جہاد کا حکم موجود ہے لیکن وہ حکومت کے انتظام سے ہوتا ہے، یہ نہیں کہ اب کوئی کافر کسی مسلمان سے بدکلامی کرے تو یہ اس سے جہاد و قتال شروع کردے بلکہ اب اگر ایسا ہو تو بھی قانونی کاروائی ہی کی جاسکتی ہے۔ ہاں کافر قوم مسلمانوں سے عمومی رویہ یہ بنالے اور اب سلطنت جہاد کا فیصلہ کرے تو وہ جدا حکم ہے۔ اور انفرادی طور پر تو کفار کی بداَخلاقی کا جواب اخلاق سے دینا اب بھی سنت ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ دلیل توقوی دو مگر بے ہودہ بات منہ سے نہ نکالو ۔ فی زمانہ اس حکم پر عمل کرنے کی سخت حاجت ہے کیونکہ ہمارے ہاں دلیل سے پہلے گولی اور گالی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ آیت کے آخری حصے میں بتادیا کہ بدتہذیبی اور بدتمیزی شیطان کے ہتھیار ہیں اور ان کے ذریعے وہ تمہیں غصہ دلواتا اور بھڑکاتا ہے کہ ترکی بہ ترکی جواب دو ، جس سے لڑائی فساد کی نوبت آجائے۔ یہ شیطان کی انسان سے دشمنی ہے اور شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
{رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ:تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے۔}ارشاد فرمایا کہ تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے، وہ چاہے تو اے کافرو! تمہیں توبہ اور ایمان کی توفیق عطا فرماکر تم پر رحم فرمائے اور چاہے تو حالت ِ کفر میں باقی رکھ کر عذاب دے۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو فرمایا کہ ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا کہ آپ ان کے اعمال کے ذمہ دار ہوں بلکہ آپ صرف مُبَلِّغ بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۱۷۸، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۶۲۶، ملتقطاً)
{وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ: اور تمہارا رب خوب جانتا ہے۔} یعنی تمہارا رب آسمان و زمین میں موجود ساری مخلوق کے سب اَحوال کوجانتا ہے اور اس بات کو بھی کہ کون کس لائق ہے۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۱۷۸) یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے بہت سے نبیوں کو دوسروں پر مخصوص فضائل کے ساتھ فضیلت عطا فرمائی جیسے حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خلیل بنانا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کلیم اور سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حبیب بنایا بلکہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بے شمار اُمور میں فضیلتِ تامہ عطا فرمائی ۔
{وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا:ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔} زبور کتابِ الٰہی ہے جو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی ۔ اس میں ایک سو پچاس سورتیں ہیں ، سب میں دعا اور اللّٰہ تعالیٰ کی ثنا اور اس کی تَحمید وتَمجید ہے ، نہ اس میں حلال و حرام کا بیان، نہ فرائض نہ حدود و اَحکام۔ اس آیت میں خصوصیت کے ساتھ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام لے کر ذکر فرمایا گیا ۔ مفسرین نے اس کی چند وجوہات بیان کی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس آیت میں بیان فرمایا گیا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں اللّٰہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی پھر ارشاد کیا کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زبور عطا کی باوجود یہ کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت کے ساتھ ملک بھی عطا کیا تھا لیکن اس کا ذکر نہ فرمایا، اس میں تنبیہ ہے کہ آیت میں جس فضیلت کا ذکر ہے وہ فضیلت ِعلم ہے نہ کہ فضیلت ِملک و مال۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے زبور میں فرمایا ہے کہ محمدصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاتَم الانبیاء ہیں اور اُن کی اُمت خیر الامم، اسی سبب سے آیت میں حضرت داؤدعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور زبور کا ذکر خصوصیت سے فرمایا گیا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہود کا گمان تھا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد کوئی نبی نہیں اور توریت کے بعد کوئی کتاب نہیں ،اس آیت میں حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زبور عطا فرمانے کا ذکر کرکے یہود کی تکذیب کردی گئی اور اُن کے دعوے کا بُطلان ظاہر فرما دیا گیا۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۱۷۸) الغرض یہ آیت سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی فضیلتِ کُبریٰ پر دلالت کرتی ہے ۔
فارسی کا ایک قطعہ ہے:
ای و صفِ تو در کتابِ موسیٰ وے نعتِ تو در زبورِ داؤد
مقصود توئی زِ آفرینش باقی بہ طفیلِ تُست موجود
اے وہ ذات جس کی شان موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی کتاب میں موجود ہے اور جس کی نعت حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبور میں بھی ہے۔ مخلوق کی پیدائش میں اصلِ مقصودآپ کی ذات ہے اور باقی ساری مخلوق آپ کے طفیل ہے۔(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۵، ۵ / ۱۷۴)
{قُلْ:تم فرماؤ۔} آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ جب کفار شدید قحط میں مبتلا ہوئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کتے اور مردار کھا گئے اور بالآخر سرکارِ دو عالَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں فریاد لے کر آئے اور آپ سے دعا کی اِلتجا کی تواس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جب بتوں کو خدا مانتے ہو تو اس وقت انہیں پکارو اور وہ تمہاری مدد کریں اور جب تم جانتے ہو کہ وہ تمہاری مدد نہیں کرسکتے تو کیوں انہیں معبود بناتے ہو۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۱۷۸)
خلاصہ یہ ہے کہ یہ بت معبود نہیں ، نہ تو اس پر قادر ہیں کہ تکلیف مٹا دیں اور نہ اس پر کہ تم سے مصیبت منتقل کرکے دوسرے پر ڈال دیں ۔
{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ: وہ جنہیں یہ پوجتے ہیں ۔} کفارکے بہت سے گروہ تھے۔ کوئی بتوں اور دیوی ، دیوتاؤں کو پوجتا تھا اور کوئی فرشتوں کو، یونہی عیسائی حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا یا خدا کا بیٹا کہتے تھے اور یہودیوں کا ایک گروہ حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ، یونہی بہت سے لوگ ایسے جنوں کو پوجتے تھے جو اسلام قبول کرچکے تھے لیکن ان کے پوجنے والوں کو خبر نہ تھی تو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اُن لوگوں کوشرم دلائی کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا جن مُقَرَّبینِ بارگاہِ الٰہی کو یہ لوگ پوجتے ہیں وہ تو خود اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ تک رسائی کیلئے وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے تاکہ جو سب سے زیادہ مقرب ہو اس کو وسیلہ بنائیں تو جب یہ مقربین بھی بارگاہِ الٰہی تک رسائی کیلئے وسیلہ تلاش کرتے ہیں اور رحمت ِالٰہی کی امید رکھتے ہیں اور عذاب ِ الٰہی سے ڈرتے ہیں تو کافر انہیں کس طرح معبود سمجھتے ہیں ۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۱۷۸، ملتقطاً)
اللّٰہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اس کی بارگاہ میں وسیلہ بنانا جائز ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ مقرب بندوں کو بارگاہِ الٰہی میں وسیلہ بنانا جائز اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے۔ آیت میں وسیلہ بنانے کا جوازبیان کیا گیا ہے اور شرک کا رد کیا گیا ہے۔ وسیلہ ماننے اور خدا ماننے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، جو وسیلے کو شرک کہے وہ اس آیت کے مطابق مَعَاذَاللّٰہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی شرک کا مُرتکب قرار دیتا ہے۔ اِس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کائنات کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں کہ بارگاہِ الٰہی میں سب سے مقرب وہی ہیں تو بقیہ سب انہیں کو وسیلہ بناتے ہیں اور اسی لئے میدانِ قیامت میں سب لوگ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں ہی جمع ہوکر حاضری دیں گے اور بارگاہِ الٰہی میں سفارش کروائیں گے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں :
ہم ہیں اُن کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے
اس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے
ان کی امّت میں بنایا انھیں رحمت بھیجا
یوں نہ فرما کہ ترا رحم میں دعویٰ کیا ہے
صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے
{قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ: قیامت کے دن سے پہلے۔} ارشاد فرمایا کہ کوئی بستی نہیں مگر یہ کہ ہم اسے فرمانبردار ہونے کی صورت میں اچھی موت کے ساتھ روزِ قیامت سے پہلے ختم کردیں گے اور اگر گناہگار ہوتو اسے دُنْیوی عذاب کے ساتھ ہلاک کردیں گے اور اگر کسی کافر بستی کو دنیوی عذاب نہ آیا تو آخرت میں شدید عذاب دیں گے اور یہ بات لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا جب کسی بستی میں زنا اور سود کی کثرت ہوتی ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کی ہلاکت کا حکم دیتا ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۱۷۹)
{اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ:کہ ان نشانیوں کو پہلے لوگوں نے جھٹلایا ۔} اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اہلِ مکہ نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ صفا پہاڑ کو سونا کردیں ا ور پہاڑوں کو سرزمین ِمکہ سے ہٹا دیں ۔اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وحی کی کہ اگر آپ فرمائیں تو آپ کی اُمت کو مہلت دی جائے اور اگر آپ فرمائیں تو جو انہوں نے طلب کیا ہے وہ پورا کیا جائے لیکن اگر پھر بھی وہ ایمان نہ لائے تو اُن کو ہلاک کرکے نیست و نابُود کردیا جائے گا، اس لئے کہ ہماری سنت یہی ہے کہ جب کوئی قوم نشانی طلب کرکے ایمان نہیں لاتی تو ہم اُسے ہلاک کردیتے ہیں اور مہلت نہیں دیتے ۔ایسا ہی ہم نے پہلوں کے ساتھ کیا ہے۔اسی بیان میں یہ آیت نازل ہوئی۔( تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۹، ۷ / ۳۵۹، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۹،ص۶۲۸، ملتقطاً) اور فرمایا گیا کہ ہمیں کفار کی مطلوبہ نشانیاں بھیجنے سے صرف اس چیز نے باز رکھا کہ ان نشانیوں کو پہلے لوگوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا اور اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ہم نے قومِ ثمود کے مطالبے پرحضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکونشانی کے طور پر اونٹنی دی تو قوم نے ماننے کی بجائے اس اونٹنی پر ہی ظلم کیا کہ اسے قتل کردیا اور یوں گویا اپنی جانوں پر بھی ظلم کیا اور نتیجے میں وہ ہلاک ہوگئے اور یاد رکھو کہ ہم نشانیاں جلد آنے والے عذاب سے ڈرانے کے لئے ہی بھیجتے ہیں ۔
{وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ: اور جب ہم نے تم سے فرمایا۔} یعنی فرمایا گیا کہ سب لوگ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے قبضۂ قدرت میں ہیں تو آپ تبلیغ فرمائیے اور کسی کا خوف نہ کیجئے، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا نگہبان ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۱۷۹-۱۸۰)
اللّٰہ تعالیٰ کی طرف اِحاطہ کی نسبت سے کیا مراد ہے؟
یاد رکھیں کہ قرآن و حدیث میں جہاں بھی یہ مذکورہو کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ گھیرے ہوئے ہے یا احاطہ کئے ہوئے ہے تو اس سے مرادیہ ہوتا ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا علم اور قدرت سب کو گھیر ے ہوئے ہے، نہ کہ خود رب تعالیٰ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات جسمانی اعتبار سے گھیرنے او ر گھرنے سے پاک ہے کہ وہ جسم سے پاک ہے۔
{اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ:مگر لوگوں کیلئے آزمائش۔} ارشاد فرمایا کہ شب ِ معراج بیداری کی حالت میں جو آیات ِ الٰہیہ کا آپ کومعائنہ کروایا گیا تو وہ لوگوں کیلئے ایک آزمائش تھا چنانچہ جب رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو واقعہ معراج کی خبر دی توکفار نے اس کی تکذیب کی اور بعض مسلمان بھی مُرتد ہوگئے اور کفار مذاق کے طور پر بیتُ المقدس کی عمارت کا نقشہ دریافت کرنے لگے ۔حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے سارا نقشہ بتادیا تو اس پر کفار آپ کو جادوگر کہنے لگے۔ اس آیت میں معراجِ جسمانی کا ثبوت ہے کیونکہ مشرکین نے اس کا انکار کیا اور فتنہ اٹھایا، اگر یہ صرف خواب کی معراج ہوتی تو نہ اس کا انکار ہوتا اور نہ فتنہ۔ یہاں دکھانے سے معراج کی رات کی وہ سیر ہے جس کی خبر حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مکہ والوں کو دی ، حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سن کراسے ماننے کی وجہ سے صدیق بن گئے اور کفارِ مکہ سن کر ا س کا انکار کرنے کی وجہ سے زندیق بن گئے ۔ غرضیکہ معراج کو مان کر کوئی صدیق بنا اور کوئی انکار کرکے زندیق ہوا۔
{وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ: اور لعنتی درخت۔} یعنی زقوم کا درخت جو جہنم میں پیدا ہوتا ہے، اس کو سبب ِآزمائش بنادیا یہاں تک کہ ابوجہل نے کہا کہ اے لوگو! محمدصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہیں جہنم کی آگ سے ڈراتے ہیں کہ وہ پتھروں کو جلا دے گی ،پھر یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس میں درخت اُگیں گے۔ آگ میں درخت کہاں رہ سکتا ہے؟ یہ اعتراض کفار نے کیا اور قدرتِ الٰہی سے غافل رہے اور یہ نہ سمجھے کہ اُس قادرِ مختار کی قدرت سے آگ میں درخت پیدا کرنا کچھ بعید نہیں۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۱۸۰، روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۰، ۵ / ۱۷۸، ملتقطاً)
{وَ اِذْ قُلْنَا:اور جب ہم نے کہا۔} یہاں سے ایک مرتبہ پھر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو ان کی قوم اور ان کے اہلِ زمانہ کی طرف سے پہنچنے والی مشقتوں کا ذکر فرمایا جبکہ اس آیت سے یہ بیان فرمایا کہ سابقہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ ان کے اہلِ زمانہ کی ایسی ہی رَوِش رہی ہے، ان میں سے حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھ لیں کہ جو اللّٰہ تعالیٰ کے سب سے پہلے مقرب بندے ہیں ،انہیں ابلیس کی طرف سے کیسی شدید مشقت کا سامنا ہوا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قوم نے ان سے صرف تکبر اور حسد کی وجہ سے جھگڑا کیا اور ان کے خلاف طرح طرح سے باطل شبہات پیش کئے، تکبر کی بنا پر یہ لوگ ایمان سے محروم رہے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نبوت اور بلند درجہملنے پر ان سے حسد کیا۔ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ تکبر اور حسد نے ہی ابلیس کو ایمان سے نکال کر کفر میں داخل کر دیا ، مخلوق میں تکبر اور حسد بڑا پرانا مرض ہے۔( تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۱، ۷ / ۳۶۵) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے حسد اور اپنی ذات کے تکبر کی وجہ سے یہ جواب دیا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے حالانکہ میری پیدائش آگ سے ہے اور میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل ہوں ۔
{قَالَ:کہا۔} شیطان نے مزید کہا کہ جسے تو نے میرے اوپر معزز بنایا اور اس کو مجھ پر فضیلت دی اور اس کو سجدہ کرایا تو میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر تو نے مجھے قیامت تک مہلت دی تو میں اس کی اولا دکو پیس ڈالوں گایعنی گمراہ کردوں گا سوائے ان چند لوگوں کے جنہیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بچائے اور محفوظ رکھے، اور وہ اس کے مخلص بندے ہیں ۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۲، ۵ / ۱۸۰، ملخصاً)شیطان کے اس کلام پر اللّٰہ تعالیٰنے اس سے جوفرمایا وہ اگلی آیات میں ہے ۔
{وَ اسْتَفْزِزْ:اور پھسلا دے۔} اس سے پہلی آیت میں شیطان کے جواب میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ تو یہاں میری بارگاہ سے نکل جا اور تجھے قیامت تک کی مہلت دی گئی ہے اور یاد رکھ کہ جو تیری پیروی کرے گا تو اسے جہنم کی بھرپور سزا ملے گی اور اس آیت میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے مزید فرمایا کہ تو اپنی آواز کے ذریعے جسے پھسلا سکتا ہے پھسلا دے اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کے ذریعے چڑھائی کردے یعنی اپنے تمام مکروفریب کے جال اور اپنے تمام لشکر ان کے خلاف استعمال کرلے اور تجھے مہلت دی جاتی ہے کہ گناہ کروا کر ان کے مالوں اور اولاد میں توان کا شریک ہوجا اور ان سے جھوٹے وعدے کرتا رہ۔ شیطان کے پھسلانے کے بارے میں علماء نے فرمایا کہ اس کا پھسلانا وسوسے ڈالنا اور معصیت کی طرف بلا نا ہے اور بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے مراد گانے باجے اور لہو و لعب کی آوازیں ہیں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے منقول ہے کہ جو آواز اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف منہ سے نکلے وہ شیطانی آواز ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۴،۵ / ۱۸۰-۱۸۱، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۱۸۱، ملتقطاً)مال و اولاد میں شریک ہونے سے کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں زجاج نے کہا کہ جو گناہ مال میں ہو یا اولاد میں ہو، ابلیس اس میں شریک ہے، مثلاً سود اور مال حاصل کرنے کے دوسرے حرام طریقے اور یونہی فسق و ممنوعات میں خرچ کرنا ، نیز زکوٰۃ نہ دینا یہ مالی اُمور ہیں جن میں شیطان کی شرکت ہے جبکہ زنا اور ناجائز طریقے سے اولاد حاصل کرنا یہ اولاد میں شیطان کی شرکت ہے۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۶۳۰، ملخصاً)
{اِنَّ عِبَادِیْ:بیشک میرے بندے۔} اللّٰہ تعالیٰ نے ابلیس سے ارشاد فرمایا کہ تجھے مہلت اور اختیار دیا گیا کہ تو میری مخلوق کو گمراہ کردے اور اپنے جال میں پھنسائے مگر میرے وہ بندے جو اصحابِ فضل وصلاح ہیں جیسے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں میں تجھ سے محفوظ رکھوں گا اور شیطانی مکرو فریب اور وَساوِس ان سے دور کروں گا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۱۸۲، ملخصاً)
انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گناہوں سے معصوم اور اولیاء کرام محفوظ ہوتے ہیں :
انہی آیات کی بنا پر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وہ معصوم ہیں اور انہی کو سامنے رکھ کر علماء نے فرمایا ہے کہ اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْبھی گناہوں سے محفوظ ہوتے ہیں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے خاص بندوں میں وہ بھی شامل ہیں ۔
{وَ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ:اور جب تمہیں دریا میں مصیبت پہنچتی ہے ۔} ارشاد فرمایا کہ اے مشرکو! تمہارا حال یہ ہے کہ جب تمہیں سمندری سفر میں مصیبت آتی ہے اور ڈوبنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے سوا جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں اور ان جھوٹے معبودوں میں سے کسی کا نام زبان پر نہیں لاتے اور اس وقت اللّٰہ تعالیٰ سے ہی حاجت روائی چاہتے ہو اور اسی کو پکارنے لگتے ہو لیکن پھر جب وہ تمہیں طوفان سے نجات دیدیتا ہے اور تمہیں خشکی کی طرف صحیح سلامت لے آتا ہے توتم پھراس کی توحید سے منہ پھیر لیتے ہو اور دوبارہ انہیں ناکارہ بتوں کی پرستش شروع کردیتے ہو۔ اس ساری صورتِ حال کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان بڑا ناشکرا ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۱۸۲، ملخصاً)
{اَفَاَمِنْتُمْ:کیا تم بے خوف ہوگئے۔} یعنی اے لوگو! کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے کہ تمہارے دریا سے نجات پانے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ تمہیں خشکی کے کنارے سمیت زمین میں دھنسا دے جیسا کہ قارون کو زمین میں دھنسا دیا تھا۔ آیت کا مقصد یہ ہے کہ خشکی وتری سب اللّٰہ تعالیٰ کے تحت ِقدرت ہیں جیسا وہ سمندر میں غرق کرنے اور بچانے دونوں پر قادر ہے ایسا ہی خشکی میں بھی زمین کے اندر دھنسا دینے اور محفوظ رکھنے دونوں پر قادر ہے۔ خشکی ہو یا تری ہر کہیں بندہ اس کی رحمت کا محتاج ہے۔ وہ تمہیں زمین میں دھنسانے پر بھی قادر ہے اور یہ بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر پتھروں کی بارش برسا دے جیسے قومِ لوط پر بھیجی تھی اورپھر تم اپنے لئے کوئی حمایتی نہ پاؤ جو تمہیں بچاسکے۔(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۸، ۵ / ۱۸۳، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۱۸۲، ملتقطاً) الغرض ہر حال میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنا چاہیے۔
{اَمْ اَمِنْتُمْ:یا تم بے خوف ہوگئے۔} مزید فرمایا کہ سمندر کی مشکلات سے نجات پانے کے بعد تم دوبارہ شرک میں پڑجاتے ہو تو کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں دوبارہ دریا میں لے جائے پھر تم پر جہاز توڑنے والی آندھی بھیج دے تو وہ تمہیں تمہارے کفر کے سبب غرق کردے پھر تم اپنے لئے کوئی ایسا نہ پاؤ جو ہم سے کوئی مطالبہ کرسکے اور ہم سے دریافت کرسکے کہ ہم نے ایسا کیوں کیا کیونکہ ہم( قادر ومختار ہیں ،) جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ، ہمارے کام میں کوئی دخل دینے والا اور دم مارنے والا نہیں ۔(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۹، ۵ / ۱۸۳، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۶۳۱، ملتقطاً) الغرض کسی بھی حال میں کوئی بھی فرد اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے بے خوف نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کی قدرت نے آدمی کو ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے۔
{وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ:اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی۔} یعنی انسان کوعقل ، علم، قوت ِ گویائی، پاکیزہ صورت، مُعْتَدَل قد و قامت عطا کئے گئے ، جانوروں سے لے کر جہازوں تک کی سواریاں عطا فرمائیں ، نیز اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں دنیا و آخرت سنوارنے کی تدبیریں سکھائیں اور تمام چیزوں پر غلبہ عطا فرمایا، قوت ِ تسخیر بخشی کہ آج انسان زمین اور اس سے نیچے یونہی ہواؤں بلکہ چاند تک کو تسخیر کرچکا ہے اور مریخ تک کی معلومات حاصل کرچکا ہے، بَحر و بَر میں انسان نے اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں ۔ یہ چند ایک مثالیں ہیں ورنہ اس کے علاوہ لاکھوں چیزیں اولادِ آدم کو عطا فرما کر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے عزت دی ہے اور انسان کو بقیہ تمام مخلوقات سے افضل بنایا ہے۔
{وَ رَزَقْنٰهُمْ:اور انہیں رزق دیا۔} یعنی لطیف اور خوش ذائقہ غذائیں دیں جو گوشت اور نباتات دونوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور جنہیں لوگ خوب اچھی طرح پکا کر کھاتے ہیں ۔پکی ہوئی غذا کھانا بھی انسان کا خاصہ ہے کیونکہ انسان کے سوا حیوانات میں پکی ہوئی غذا اور کسی کی خوراک نہیں ۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۱۸۳)
{وَ فَضَّلْنٰهُمْ:اور انہیں فضیلت دی۔} آیت میں فرمایا گیا کہ ہم نے اولادِ آدم کو اپنی کثیر مخلوق پر فضیلت دی ۔ امام حسن بصری رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ کا قول ہے کہ یہاں اکثر سے کل مراد ہے(یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت دی ہے) اور اکثر کا لفظ کل کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی ارشاد ہوا ’’وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَ‘‘ اور’’وَ مَا یَتَّبِـعُ اَكْثَرُهُمْ اِلَّا ظَنًّا‘‘ ان آیات میں اکثر کل ہی کے معنی میں ہے لہٰذا ملائکہ بھی اِس آیت کے عموم میں داخل ہیں اور انسانوں کے خاص افراد یعنی انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامفرشتوں کے خاص افرادسے افضل ہیں اورنیک انسان عام فرشتوں سے افضل ہیں ۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۱۸۳، ملخصاً)
مومن کی عزت:
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: مومن اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک فرشتوں سے زیادہ عزت رکھتا ہے۔( شعب الایمان، الثالث من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی معرفۃ الملائکۃ، ۱ / ۱۷۴، الحدیث: ۱۵۲)اس کی وجہ یہ ہے کہ فرشتے اللّٰہ تعالیٰ کی بندگی پرمجبور ہیں کیونکہ ان کی فطرت ہی یہ ہے ،ان میں عقل توہے لیکن شہوت نہیں اور جانوروں میں شہوت ہے لیکن عقل نہیں جبکہ آدمی میں شہوت و عقل دونوں ہیں تو جس نے عقل کو شہوت پر غالب کیا وہ فرشتوں سے افضل ہے اور جس نے شہوت کو عقل پر غالب کیا وہ جانوروں سے بدتر ہے۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۶۳۱)
{ یَوْمَ نَدْعُوْا: جس دن ہم بلائیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ یاد کرو جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے جس کی وہ دنیا میں پیروی کرتا تھا۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: اس سے مراد وہ پیشوا ہے جس کی دعوت پر دنیا میں لوگ چلے خواہ اس نے حق کی دعوت دی ہو یا باطل کی۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۱۸۳) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر قوم اپنے سردار کے پاس جمع ہوگی جس کے حکم پر دنیا میں چلتی رہی اور اُنہیں اُسی کے نام سے پکارا جائے گا کہ اے فلاں کے پیروکارو!۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۶۳۲، ملخصاً)
اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں صالحین کو ہی اپنا پیشوا بنانا چاہیے تاکہ قیامت میں انہی کے ساتھ حشر ہو۔
{فَمَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ:تو جسے اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔} یعنی نیک لوگ جو دنیا میں صاحبِ بصیرت تھے اور راہِ راست پر چلتے رہے، اُن کو اُن کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، وہ اس میں اپنی نیکیاں لکھی ہوئی دیکھیں گے تو اس کو ذوق و شوق سے پڑھیں گے اور جو بدبخت ہیں ، کفار ہیں اُن کے نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے، وہ انہیں دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور دہشت سے پوری طرح پڑھنے پر قادر نہ ہوں گے۔ تو نیک لوگوں کے اعمال کے ثواب میں ادنیٰ بھی کمی نہ کی جائے گی اور یونہی کفار کی سزا میں بھی کمی نہ ہوگی،( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ۵ / ۱۸۷-۱۸۸، جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۲۳۶، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۱۸۴، ملتقطاً) ہاں گناہگار مسلمانوں کی سزا میں کمی بھی ہوگی اور بہت بڑی تعداد کی معافی بھی۔
{ اَعْمٰى: اندھا۔} ارشاد فرمایا کہ جودنیا کی زندگی میں ہدایت کا راستہ دیکھنے سے اندھا ہوگا وہ آخرت میں نجات کا راستہ دیکھنے سے بھی اندھا ہوگا بلکہ قیامت میں وہ اور بھی زیادہ گمراہ ہوگا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۱۸۴، ملخصاً)
{لَیَفْتِنُوْنَكَ: کہ تمہیں ہٹادیں ۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ قبیلہ ثقیف کا ایک وفد سرکارِدوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس آکر کہنے لگا کہ اگر آپ تین باتیں منظور کرلیں تو ہم آپ کی بیعت کرلیں گے ، ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ انہوں نے کہا: یا رسولَ اللّٰہ ! ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی طرف سے ہمیں ایسا اعزاز ملے جو دوسروں کو نہ ملا ہو تاکہ ہم فخر کر سکیں اور اس میں اگر آپ کو اندیشہ ہو کہ عرب کے دوسرے لوگ شکایت کریں گے تو آپ اُن سے کہہ دیجئے گا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا حکم ہی ایسا تھا یعنی مَعَاذَاللّٰہ، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھ دیجئے گا۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر سمرقندی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۳، ۲ / ۲۷۸، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۱۸۴، ملتقطاً) اور بتا دیا گیا ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تربیت اور معاملات کی نگہبانی تو خود اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی طرف کوئی غلط بات منسوب کرسکیں ۔
{وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ:اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں کفار کی بات کا رد اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان اور معصومیت کا بیان فرمایا گیا ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی خاص رحمت ہر وقت اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شاملِ حال رہتی ہے چنانچہ فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہم تمہیں معصوم بنا کرثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ تم ان کی طرف کچھ تھوڑا سا مائل ہوجاتے لیکنایسا نہ ہوا بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو ثابت قدم رکھا اور اگربالفرض ایسا ہوتا کہ آپ ان کی طرف جھکتے تو ہم تمہیں دنیوی زندگی میں دگنی سزا اور موت کے بعد دگنی سزا کا مزہ چکھاتے کیونکہ حضور پُرنورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مرتبہ دوسروں سے بلند تر ہے اس لئے آپ سے پاکیزگی اور کردار میں عظمت کا تقاضا بھی دوسروں کی بنسبت زیادہ ہے۔
{لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا: کہ تمہیں اس سے نکال دیں ۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ کفار نے آپس میں اتفاق کرکے چاہا کہ سب مل کر رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سرزمینِ عرب سے باہر نکال دیں لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے ان کا یہ ارادہ پورا نہ ہونے دیا اور اُن کی یہ مراد بر نہ آئی۔ اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۱۸۵)اور فرما دیا گیا کہ ان لوگوں نے آپ کو یہاں سے نکالنے کا منصوبہ بنایا مگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ایسا نہ ہونے دیا اور اگر بالفرض یہ آپ کو نکال دیتے تو آپ کے بعد یہ بھی جلد ہلاک کردیئے جاتے کیونکہ نبی عَلَیْہِ السَّلَامکے تشریف لے جانے کے بعد عذابِ الٰہی آجا تا ہے۔
{سُنَّةَ: طریقہ۔} گزشتہ آیت میں فرمایا تھا کہ اگر بالفرض یہ آپ کو نکال دیتے تو آپ کے بعد یہ بھی جلد ہلاک کردیئے جاتے کیونکہ نبی عَلَیْہِ السَّلَامکے تشریف لے جانے کے بعد عذابِ الٰہی آجا تا ہے جیسے ہمارا ان رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں طریقہ رہا جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا کہ جس قوم نے انہیں ان کے وطن سے نکالا( اور وہاں کوئی مسلمان باقی نہ رہا اور ان لوگوں کے ایمان لانے کی بھی کوئی امید نہ رہی) تو ہم نے اس قوم کو ہلاک کردیا اور تم ہمارے اِس قانون میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۱۸۵، ملخصاً) اہلِ مکہ کی بچت کی وجہ یہ رہی کہ وہاں مسلمان بھی باقی رہے اور وہاں خانہ کعبہ تھا اسی لئے اس علاقے کو بہرحال اسلامی حدود میں آنا تھا اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں ایمان کی امید قوی بھی موجود تھی۔
{اَقِمِ الصَّلٰوةَ: نماز قائم رکھو۔} اس آیت میں فرمایا کہ نماز قائم رکھو سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک ۔ اس دورانیے میں چار نمازیں آگئیں : ظہر، عصر، مغرب، عشاء، کیونکہ یہ چاروں نمازیں سورج ڈھلنے سے رات گئے تک پڑھی جاتی ہیں ۔ مزید فرمایا کہ صبح کا قرآن قائم رکھو، اس سے نماز ِفجر مراد ہے اور اس کو قرآن اس لئے فرمایا گیا کہ قرا ء ت ایک رُکن ہے( اور عربی کا ایک عام قاعدہ ہے کہ ایک جز بول کر بعض اوقات پورا کل مراد ہوتا ہے جیسا کہ خود قرآنِ کریم میں ہی یہ قاعدہ کئی جگہ موجود ہے) جیسے نماز کو رکوع و سجود سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۸، ۳ / ۱۸۵، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۶۳۳، ملتقطاً) اِس آیت سے معلوم ہوا کہ قراء ت نماز کارُکن ہے ۔
نمازِ فجر کی فضیلت:
فجر کی نماز کی فضیلت میں فرمایا کہ بیشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں یعنی نمازِ فجر میں رات کے فرشتے بھی موجود ہوتے ہیں اور دن کے فرشتے بھی آجاتے ہیں چنانچہ حدیث ِ مبارک ہے ، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’باجماعت نماز کو تمہارے تنہا کی نماز پر پچیس درجے فضیلت حاصل ہے اور فجر کی نماز میں رات اور دن کے فرشتے جمع ہوتے ہیں ۔ پھر حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’ اگر تم چاہو تو یہ پڑھ لو
’’ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔( بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الفجر فی جماعۃ، ۱ / ۲۳۳، الحدیث: ۶۴۸، سنن نسائی، کتاب الصلاۃ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، ص۸۷، الحدیث: ۴۸۵)
{وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ:اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھو ۔} نمازِ تہجد سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فرض تھی، جمہور کا یہی قول ہے جبکہ حضورِاکرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اُمت کے لئے یہ نماز سنت ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۱۸۵-۱۸۶، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۵۴۱، ملتقطاً)
تہجد کے فضائل:
اِس آیت میں تہجد کا بطورِ خاص ذکر فرمایا گیا ہے، اس مناسبت سے نمازِ تہجد کی فضیلت پر مشتمل5اَحادیث درج ذیل ہیں ۔
(1)…حضرت ابو امامہ باہلیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رات میں قیام کو اپنے اوپر لازم کر لو کہ یہ اگلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف قربت کا ذریعہ اور گناہوں کو مٹانے والا اور گناہ سے روکنے والا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۲۳ الحدیث: ۳۵۶۰)
(2)…حضرت اسماء بنتِ یزید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاسے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن لوگ ایک میدان میں جمع کیے جائیں گے، اس وقت منادی پکارے گا، کہاں ہیں وہ جن کی کروٹیں خواب گاہوں سے جدا ہوتی تھیں ؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے اور تھوڑے ہوں گے یہ جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے پھر اور لوگوں کے لیے حساب کا حکم ہوگا۔( شعب الایمان، باب الحادی والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، تحسین الصلاۃ والاکثار منہا لیلاً ونہاراً۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۶۹، الحدیث: ۳۲۴۴)
(3)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جنت میں ایک بالا خانہ ہے کہ باہر کا اندر سے دکھائی دیتا ہے اور اندر کا باہر سے۔ حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کس کے لیے ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اُس کے لیے جو اچھی بات کرے اور کھانا کھلائے اور رات میں قیام کرے جب لوگ سوتے ہوں ۔( مستدرک، من کتاب صلاۃ التطوّع، صلاۃ الحاجۃ، ۱ / ۶۳۱، الحدیث: ۱۲۴۰)
(4)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جوشخص رات میں بیدار ہواور اپنے اہلِ خانہ کو جگائے پھر دونوں دو دو رکعت پڑھیں تو کثرت سے یاد کرنے والوں میں لکھے جائیں گے۔(مستدرک، من کتاب صلاۃ التطوّع، تودیع المنزل برکعتین، ۱ / ۶۲۴، الحدیث: ۱۲۳۰)
(5)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں’’میں نے عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے کوئی ایسا کام ارشاد فرمائیے جسے میں اختیار کرو ں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ۔ ارشاد فرمایا ’’سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو، رات میں نماز پڑھو جب لوگ سوتے ہوں توسلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔( مستدرک، کتاب الاطعمۃ، فضیلۃ اطعام الطعام، ۵ / ۱۷۹، الحدیث: ۷۲۵۶)
تہجد سے متعلق چند مسائل:
یہاں نمازِ تہجد کے بارے میں چند شرعی مسائل یاد رکھیں :
(1)…صَلَاۃُ اللَّیْل کی ایک قسم تہجد ہے کہ عشا کی نماز کے بعد رات میں سو کر اُٹھیں اور نوافل پڑھیں ، سونے سے قبل جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں ۔
(2)…تہجد نفل کا نام ہے اگر کوئی عشا کے بعد سو گیا پھر اٹھ کر قضا نماز پڑھی تو اُس کو تہجد نہ کہیں گے۔
(3)…کم سے کم تہجد کی دو رکعتیں ہیں اور حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے آٹھ تک ثابت ہیں ۔
(4)…جو شخص تہجد کا عادی ہو بلا عذر اُسے تہجد چھوڑنا مکروہ ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ارشاد فرمایا: ’’اے عبداللّٰہ! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، تو فلاں کی طرح نہ ہونا کہ رات میں اُٹھا کرتا تھا پھر چھوڑ دیا۔( بخاری، کتاب التہجد، باب ما یکرہ من ترک قیام اللیل لمن کان یقومہ، ۱ / ۳۹۰، الحدیث: ۱۱۵۲)
{عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا:قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو ایسے مقام پر فائز فرمائے گا کہ جہاں سب تمہاری حمد کریں ۔} آیت میں مقامِ محمود کا ذکر ہے اور مقامِ محمود مقامِ شفاعت ہے کہ اس میں اوّلین و آخرین حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حمد کریں گے، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے عرض کی گئی :مقامِ محمود کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا ’’وہ شفاعت ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ بنی اسرائیل، ۵ / ۹۳، الحدیث: ۳۱۴۸)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فتاویٰ رضویہ میں ایک مقام پر یہ آیت اور مختلف کتب سے اوپر بیان کردہ حدیث پاک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں’’اور شفاعت کی حدیثیں خود متواتر ومشہور اور صحاح وغیرہ میں مروی ومسطور ۔ اس دن آدمصفی اللّٰہسے عیسیٰ کلمۃ اللّٰہ تک سب انبیاء اللّٰہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نفسی نفسی فرمائیں گے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ’’اَنَا لَھَا اَنَا لَھَا ‘‘میں ہوں شفاعت کے لئے ، میں ہوں شفاعت کے لئے (فرمائیں گے) انبیاء ومرسلین وملائکہ مقربین سب ساکت ہوں گے اور وہ متکلم ،سب سربگریبان ، وہ ساجد وقائم، سب محلِ خوف میں ، وہ آمن وناہم (یعنی خود امن میں اور امت کے امن کے خواہش مند)، سب اپنی فکر میں ، انہیں فکر ِعوالم ،سب زیرِ حکومت، وہ مالک وحاکم، بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کرینگے ، ان کا رب انہیں فرمائے گا ’’یَا مُحَمَّدْ اِرْفَعْ رَأْسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ‘‘ اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور عرض کرو کہ تمہاری عرض سنی جائے گی، اور مانگو کہ تمہیں عطاہوگا ، اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہے ۔ اس وقت اولین وآخرین میں حضور(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) کی حمد وثناء کا غلغلہ پڑ جائے گا اور دوست ، دشمن ، موافق ، مخالف، ہر شخص حضور(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)کی افضلیت ِکُبریٰ وسیادتِ عظمیٰ پر ایمان لائے گا۔(فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۷۰-۱۷۱)
حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے وسیلہ اور مقامِ محمود کی دعا مانگنے کی فضیلت:
حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اذان سن کر یہ دعا کرے ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدَانِ الْوَسِیلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَانِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ‘‘یعنی اے اللّٰہ ! اس کامل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے رب! محمد مصطفٰی کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقامِ محمود پر کھڑے کرنا جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔‘‘ تو اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت حلال ہو گئی۔( بخاری، کتاب الاذان، باب الدعاء عند النداء، ۱ / ۲۲۴، الحدیث: ۶۱۴)
اور مسلم شریف کی روایت میں اس دعا کے پڑھنے سے پہلے درود پڑھنے کا بھی فرمایا گیا ہے۔( مسلم، کتاب الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذّن لمن سمعہ ثمّ صلّی علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ،ص۲۰۳، الحدیث: ۱۱(۳۸۴))
یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو یقینی طور پر وسیلہ اور مقامِ محمود عطا فرمائے گا ، چاہے مسلمان نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے لئے اس کی دعا کریں یا نہ کریں کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے وعدہ ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں فرماتا، البتہ مسلمانوں کو اس کی دعا مانگنے کی جو ترغیب دی گئی ہے وہ اس لئے ہے کہ اس میں ان کا اپنا عظیم فائدہ ہے کہ اس عمل کے ذریعے انہیں سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شفاعت نصیب ہو گی۔
{وَ قُلْ: اور یوں عرض کرو۔} اس آیت میں ایک دعا سکھائی گئی ہے اور اس کے بہت سے مَطالب و معانی مفسرین نے بیان فرمائے ہیں ، چنانچہ بعض مفسرین نے اس کا معنی یہ بیان فرمایا کہ میرا داخل ہونا اور نکلنا پسندیدہ طریقے سے کردے ، جہاں بھی میں داخل ہوں اور جہاں سے بھی میں باہر آؤں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا منصب ہو یا کام۔ بعض مفسرین نے کہا: اس سے مراد یہ ہے کہ مجھے قبر میں اپنی رضا اور طہارت کے ساتھ داخل کر اور قبر سے اٹھاتے وقت عزت و کرامت کے ساتھباہر لا۔ بعض مفسرین نے کہا: اس کے معنی یہ ہیں کہ مجھے اپنی طاعت و بندگی میں صدق کے ساتھ داخل کر اور اپنی نافرمانی کے کاموں سے صدق کے ساتھ خارج فرما دے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مجھے مدینہ طیبہ میں پسندیدہ داخلہ عنایت کر اور مکہ مکرمہ سے میرا نکلنا صدق کے ساتھ کر(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۶۳۴، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۱۸۸-۱۸۹، ملتقطاً) کہ اس سے میرا دل غمگین نہ ہو۔ مگر یہ آخری تَوجیہ اس صورت میں صحیح ہوسکتی ہے جب کہ یہ آیت مدنی نہ ہوبلکہ مکی ہو۔
{وَ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا: اور میرے لئے اپنی طرف سے مددگار قوت بنادے۔} یعنی اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے وہ قوت عطا فرما جس سے میں تیرے دشمنوں پر غالب ہوجاؤں اور مجھے وہ حجت دے جس سے میں ہر مخالف پر فتح پاؤں اور وہ واضح و نمایاں غلبہ جس سے میں تیرے دین کو تقویت دوں ۔ یہ دعا قبول ہوئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے اُن کے دین کو غالب کرنے اور انہیں دشمنوں سے محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۱۸۹، ملخصاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan