Surah Al-Hijr
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{الٓرٰ:} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:کافر بہت آرزوئیں کریں گے ۔}کفار کی ان آرزؤں کے وقت کے بارے میں بعض مفسرین کاقول یہ ہے کہ نَزع کے وقت جب کافر عذاب دیکھے گا تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ وہ گمراہی پر تھا، اس وقت کافر یہ آرزو کرے گا کہ کاش! وہ مسلمان ہوتا، لیکن اس وقت یہ آرزو کافر کو کوئی فائدہ نہ دے گی۔ بعض مفسرین کے نزدیک آخرت میں قیامت کے دن کی سختیاں، ہولناکیاں ،اپنا دردناک انجام اور برا ٹھکانہ دیکھ کر کفار یہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔ زجاج کا قول ہے کہ کافر جب کبھی اپنے عذاب کے احوال اور مسلمانوں پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت دیکھیں گے توہر مرتبہ آرزو کریں گے کہ کاش وہ دنیا میں مسلمان ہوتے۔ مفسرین کا مشہور قول یہ ہے کہ جب گناہگار مسلمانوں کو جہنم سے نکالا جا رہا ہو گا تو اس وقت کفار یہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۹۳-۹۴)
اس مشہور قول کی تائید اس حدیثِ پاک سے بھی ہوتی ہے ،چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب جہنم والے جہنم میں جمع ہوں گے اور ان کے ساتھ وہ مسلمان بھی ہو ں گے جو مَشِیَّت ِ الہٰی سے وہاں ہوں گے تو کفار (مسلمانوں کوعار دلاتے ہوئے) کہیں گے ’’تمہارے اسلام نے تم سے کون سا عذاب دور کر دیا ہے؟تم بھی تو ہمارے ساتھ جہنم میں آ گئے ہو۔ مسلمان کہیں گے ’’ہمارے گناہ تھے جن کی وجہ سے ہماری گرفت کی گئی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کی باتیں سن کر حکم فرمائے گا’’جو مسلمان جہنم میں ہیں انہیں جہنم سے نکال لو۔ چنانچہ جب مسلمانوں کو جہنم سے نکالا جا رہا ہوگا تو اس وقت کفار حسرت سے یہ کہیں گے کہ کاش! ہم بھی مسلمان ہوتے تو جس طرح انہیں جہنم سے نکال لیا گیا ہے اسی طرح ہمیں بھی جہنم سے نکال لیا جاتا۔ اس کے بعد رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں
’’ الٓرٰ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ(۱)رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: الٓرٰ،یہ کتاب اور روشن قرآن کی آیتیں ہیں۔ کافر بہت آرزوئیں کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔(مستدرک، کتاب التفسیر، تواضعہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ۲ / ۶۲۱، الحدیث: ۳۰۰۸)
قیامت کے دن کافر اور نیک مسلمان کی آرزو:
قیامت کے دن کافر تو اپنے مسلمان ہونے کی آرزو اور نہ ہونے پر حسرت و افسوس کریں گے جبکہ نیک مسلمان کا حال یہ ہو گا کہ اگر بالفرض کوئی شخص پیدا ہوتے ہی عبادات میں ایسے مشغول ہوجائے کہ کبھی کوئی کام نفس کے لیے نہ کرے اور اسی حال میں بوڑھا ہو کر مرجائے تو وہ یہی کہے گا کہ میں نے کچھ نہ کیا، ا ور موقعہ ملتا تو اور کچھ کرلیتا ، کاش مجھے عبادات اور ریاضات کے لیے دنیا میں پھر بھیج دیا جائے تاکہ میرے اجر میں مزید اضافہ ہو جائے ،چنانچہ حضرت محمد بن ابو عمیرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ اگر کوئی بندہ اپنی پیدائش کے دن سے اپنے چہرے کے بل گر جائے حتّٰی کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں بوڑھا ہو کر مرجائے تو اُس دن اِس عبادت کو حقیر سمجھے گا اور تمنا کرے گا کہ دنیا میں لوٹایا جائے تاکہ وہ اجرو ثواب اور زیادہ کرے ۔(مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث عتبۃ بن عبد السلمی ابی الولید، ۶ / ۲۰۳، الحدیث: ۱۷۶۶۷) لیکن کافر و مسلمان کی یہاں بیان کردہ تمنا میں فرق یہ ہے کہ کافر کی تمنا پرلے درجے کی حسرت کی وجہ سے ہے جبکہ مومن کی تمنا مزید قرب ِ الہٰی کے حصول کیلئے ہے۔
{ذَرْهُمْ:انہیں چھوڑدو۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں ، اس دنیا میں جتنا انہوں نے کھانا ہے کھا لیں اور اس دنیا کی لذتوں اور شہوتوں کے اس وقت تک مزے اڑا لیں جو میں نے ان کے لئے مقرر کر دیا ہے۔ دنیا کے فائدے حاصل کرنے کی لمبی امید نے انہیں ایمان، اطاعت ِ الٰہی اور قرب ِ الٰہی تک لے جانے والے اعمال سے غافل کیا ہوا ہے ۔ عنقریب جب وہ قیامت کے دن اپنے کفر وشرک کے عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو خود جان جائیں گے کہ دنیا کی زندگی میں لذتوں اور شہوتوں میں مشغول رہ کروہ کتنے بڑے نقصان اور خسارے کا شکار ہو گئے۔ (تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۳، ۷ / ۴۹۲، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۹۴، ملتقطاً)
لمبی امید کی حقیقت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ لمبی امیدوں میں گرفتار ہونا اور لذّاتِ دنیا کی طلب میں غرق ہوجانا ایماندار کی شان نہیں ۔ یاد رہے کہ لمبی امید کی حقیقت میں یہ دوچیزیں داخل ہیں : (1) دنیا کی حرص اور اس پر اوندھے منہ گر جانا۔ (2) دنیا سے محبت کرنا اور آخرت سے اعراض کرنا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۳، ص۵۷۷، قرطبی، الحجر، تحت الآیۃ: ۳، ۵ / ۴، الجزء العاشر، ملتقطاً)
لمبی امید رکھنے کی مذمت:
کثیر احادیث میں لمبی امیدیں رکھنے اور دنیا کی طلب میں مشغول ہوجانے کی مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 4 اَحادیث یہاں بیان کی جاتی ہیں ۔
(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بڑے بوڑھے کا دل بھی دو باتوں میں ہمیشہ جوان رہتا ہے (1) دنیا کی محبت میں ۔ (2) امیدوں کی درازی میں ۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب من بلغ ستّین سنۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۲۴، الحدیث: ۶۴۲۰)
(2)… حضرت عمرو بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا ’’ خدا کی قسم! مجھے تمہاری مُفلسی کا کوئی ڈر نہیں ہے بلکہ تمہارے بارے میں ڈر یہ ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کر دی جائے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کر دی گئی تھی اور تم اس کے ساتھ ایسا ہی پیار کرنے لگو جیسا پہلے لوگوں نے اس کے ساتھ کیا اور یوں تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسے پہلے لوگوں کو اس نے ہلاک کر دیا۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۳، الحدیث: ۶(۲۹۶۱))
(3)…حضرت عبداللّٰہ بن عمر و رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اس امت کے پہلے لوگ یقین اور زُہد کی وجہ سے نجات پا گئے جبکہ ا س امت کے آخری لوگ بخل اور (لمبی) امید کی وجہ سے ہلاک ہوں گے۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الباب الثانی فی الاخلاق والافعال المذمومۃ، الفصل الثانی، ۲ / ۱۸۱ الحدیث: ۷۳۸۰، الجزء الثالث)
(4)…حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’مجھے اپنی امت پر دو باتوں کا زیادہ خوف ہے ۔ (1) خواہشات کی پیروی کرنا۔(2) لمبی امید رکھنا۔ کیونکہ خواہشات کی پیروی کرنا حق سے روکتا ہے اور لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں ۔ یہ دنیا پیٹھ پھیر کر چلی جانے والی اور آخرت پیش آنے والی ہے،ان دونوں میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں ، اگر تمہیں دنیا کے بیٹے نہ بننے کی اِستطاعت ہو تو دنیا کے بیٹے نہ بننا کیونکہ تم آج عمل کرنے کی جگہ میں ہو اور (یہاں ) حساب نہیں لیکن کل تم حساب دینے کی جگہ میں ہو گے اور (وہاں ) عمل نہیں ہو گا۔ (شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۷۰، الحدیث: ۱۰۶۱۶)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں لمبی امیدیں رکھنے اور محض دنیا کی طلب میں مشغول رہنے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
{وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ:اور ہم نے جو بستی ہلاک کی۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ سے پہلے جن بستیوں کے باشندوں کو ہم نے ہلاک کیا ان کے لئے ایک مُعَیّن وقت لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا تھا، ہم نے انہیں وہ وقت آنے سے پہلے ہلاک نہیں کیا اور جب وہ وقت آ گیا تو ہم نے انہیں تباہ و برباد کر دیا۔ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اسی طرح مکہ کے مشرکوں کو بھی ہم اسی وقت ہلاک کریں گے جب ان کا لکھا ہوا معین وقت آ جائے گا کیونکہ میرا فیصلہ یہ ہے کہ میں معین وقت آنے سے پہلے کسی بستی کے باشندوں کو ہلاک نہیں فرماتا۔ (تفسیرطبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۴، ۷ / ۴۹۲، ملخصاً)
{مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا:کو ئی گروہ اپنی مدت سے نہ آگے بڑھے گا۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے جس گروہ کی ہلاکت کا جو وقت معین کر دیا ہے وہ اسی وقت میں ہلاک ہو گا،اس معین وقت سے کوئی گروہ نہ آ گے بڑھ سکے گا نہ پیچھے ہٹ سکے گا۔ (تفسیرطبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۴۹۲)
{وَ قَالُوْا:اور کافروں نے کہا۔} اس سے پہلی آیات میں کفار کو اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا تھااور اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے متعلق کفار کے شبہات ذکر کر کے ان کے جوابات دئیے ہیں ۔ (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۶، ۷ / ۱۲۱، ملخصاً)
کفارِ مکہ کے ایک اعتراض کی وجوہات:
مکہ کے مشرکین ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مذاق اڑاتے ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جنون کی نسبت کرتے تھے، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ عموماً لوگ جب کسی سے عجیب و غریب کلام سنتے ہیں جو ان کی عقل میں نہ آئے تو وہ اس قائل کومجنون سمجھتے ہیں ، یہی حال مکہ کے مشرکین کا تھا کیونکہ جب سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کے سامنے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی وحدانیت، اپنی رسالت ، قرآن کی حقانیت اور قیامت کے وقوع کی خبر دی تو یہ ان کیلئے نہایت تعجب انگیز تھی ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں یہ تعجب کہ ایک انسان رسول کیسے ہوسکتا ہے اور قیامت کے بارے میں یہ کہ گلی سڑی ہڈیاں کیسے دوبارہ زندہ ہوسکتی ہیں اور اسی طرح توحید اور قرآن کے بارے میں ان کے شبہات تھے۔ نیز یہ کلام بطورِ تَمَسخُر بھی تھا اور انجان لوگوں کو حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دور کرنے کیلئے پروپیگنڈا بھی تھا۔
یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے پیارے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف کفار کا جنون کی نسبت کرنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ پہلے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ بھی اس طرح ہوتا رہا ہے ، جیسا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں فرعون نے بھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو مجنون کہا تھا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِیْۤ اُرْسِلَ اِلَیْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ‘‘(الشعراء:۲۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:(فرعون نے)کہا: بیشک تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور دیوانہ ہے۔
یونہی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو مجنون کہا تھا، قرآنِ مجید میں ہے
’’ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَ قَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّ ازْدُجِرَ‘‘(القمر:۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان:ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا تو انہوں نے ہمارے بندے کو جھوٹا کہا اور کہنے لگے: یہ پاگل ہے اور نوح کوجھڑکا گیا۔
بلکہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے جتنے رسول تشریف لائے سب کو ان کی قوموں نے جادو گر یا دیوانہ کہا تھا، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’ كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ‘‘(الذاریات:۵۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: یونہی جب ان سے پہلے لوگوں کے پاس کوئی رسول تشریف لایا تو وہ یہی بولے کہ (یہ)جادوگر ہے یا دیوانہ۔
{لَوْ مَا تَاْتِیْنَا بِالْمَلٰٓىٕكَةِ:ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں لاتے؟} کفارِ مکہ نے حضور انورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا ’’ اگر آپ اپنی ا س بات میں سچے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر ہماری طرف مبعوث فرمایا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر کتاب نازل فرمائی ہے تو پھر آپ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں لاتے تاکہ وہ آپ کے دعوے کی سچائی پر گواہی دیں کیونکہ جب اللّٰہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے تو آپ کی نبوت کو ثابت کرنے کیلئے فرشتہ بھی بھیج سکتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے کفار کے اس شبہ کا جو جواب دیا وہ اگلی آیت میں مذکور ہے۔
{مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰٓىٕكَةَ اِلَّا بِالْحَقِّ:ہم فرشتوں کو حق فیصلے کے ساتھ ہی اتارتے ہیں ۔}ا س آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق کے معاملے میں قانون یہ ہے کہ وہ فرشتوں کو ان لوگوں پر ظاہر فرماتا ہے جن کی طرف اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا ہو یا جن پر عذاب نازل کرنا مقصود ہو، اگر ان مشرکین کے مطالبے کے مطابق اللّٰہ تعالیٰ ان کی طرف حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ نشانی کے طور پر فرشتہ بھیج دیتا اور اس کے بعد بھی وہ اپنے کفر پر قائم رہتے تو پھر انہیں مہلت ملتی، نہ ان سے عذاب مؤخر کیا جاتا بلکہ سابقہ قوموں کی طرح یہ بھی اسی وقت عذاب میں گرفتار کردیئے جاتے لیکن چونکہ یہ امت قیامت تک باقی رہے گی، اسی میں بہت سے لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے ہوں گے اس لئے کفارکایہ مطالبہ منظور نہ کیا گیا۔ (صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۱۰۳۶، تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۸، ۷ / ۴۹۳، ملتقطاً)
{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ:بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے۔} اس آیت میں کفار کے اس قول’’اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے‘‘ کا جواب دیتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے اور ہم خود تحریف ، تبدیلی ، زیادتی اور کمی سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں ۔‘‘
قرآنِ مجید کی حفاظت :
یاد رہے کہ تمام جن و اِنس اور ساری مخلوق میں یہ طاقت نہیں ہے کہ قرآنِ کریم میں سے ایک حرف کی کمی بیشی یا تغییر اور تبدیلی کرسکے اور چونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اس لئے یہ خصوصیت صرف قرآن شریف ہی کی ہے، دوسری کسی کتاب کو یہ بات مُیَسّر نہیں ۔ قرآنِ کریم کی یہ حفاظت کئی طرح سے ہے
(1)… قرآنِ کریم کو معجزہ بنایا کہ بشر کا کلام اس میں مل ہی نہ سکے ۔
(2)… اس کو معارضے اور مقابلے سے محفوظ کیا کہ کوئی اس کی مثل کلام بنانے پر قادر نہ ہو۔
(3)… ساری مخلوق کو اسے معدوم کرنے سے عاجز کردیا کہ کفار شدید عداوت کے باوجود اس مقدس کتاب کو معدوم کرنے سے عاجز ہیں ۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۹۵، تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۹، ۷ / ۱۲۳، ملتقطاً)
تاریخ شاہد ہے کہ اگر کسی نے قرآن کے نور کوبجھانے ، اس میں کمی زیادتی ،تحریف اور تبدیلی کرنے یا اس کے حروف میں شکوک و شبہات ڈالنے کی کوشش کی بھی تو وہ کامیاب نہ سکا۔ قَرَامِطَہْ کے مُلحد اور گمراہ لوگ سینکڑوں سال تک اپنے تمام تر مکر ،دھوکے اور قوتیں صرف کرنے کے باوجود قرآن کے نور کو تھوڑا سا بھی بجھانے پر قادر نہ ہو سکے ،اس کے کلام میں ذرا سی بھی تبدیلی کر سکے نہ ہی اس کے حروف میں سے کسی ایک حرف کے بارے میں مسلمانوں کو شک و شبہ میں ڈال سکے۔ اسی طرح قرآنِ مجید کے زمانۂ نزول سے لے کر آج تک ہر زمانے میں اہلِ بیان،علمِ لسان کے ماہرین ، ائمہ بلاغت، کلام کے شہسوار اور کامل اساتذہ موجود رہے، یونہی ہر زمانے میں بکثرت ملحدین اور دین و شریعت کے دشمن ہر وقت قرآنِ عظیم کی مخالفت پر تیار رہے مگر ان میں سے کوئی بھی اس مقدس کلام پر اثر انداز نہ ہو سکا اور کوئی ایک بھی قرآنِ حکیم جیسا کلام نہ لا سکا اور نہ ہی وہ کسی آیتِ قرآنی پر صحیح اِعتراض کر سکا ۔
یہاں قرآنِ مجید کی حفاظت سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت یحییٰ بن اَکثَم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مامون رشید کی مجلس میں ایک یہودی آیا اور اس نے بڑی نفیس ، عمدہ اور اَدیبانہ گفتگو کی ۔ مامون رشیدنے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے انکار کر دیا۔جب ایک سال بعد دوبارہ آیا تو وہ مسلمان ہو چکا تھا اور اس نے فقہ کے موضوع پر بہت شاندار کلام کیا۔مامون رشید نے اس سے پوچھا’’تمہارے اسلام قبول کرنے کا سبب کیا ہوا؟اس نے جواب دیا’’جب پچھلے سال میں تمہاری مجلس سے اٹھ کر گیا تو میں نے ان مذاہب کا امتحان لینے کا ارادہ کر لیا، چنانچہ میں نے تورات کے تین نسخے لکھے اور ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی،ا س کے بعدمیں یہودیوں کے مَعْبَد میں گیا تو انہوں نے مجھ سے وہ تینوں نسخے خرید لئے۔پھر میں نے انجیل کے تین نسخے لکھے اور ان میں بھی اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی۔ جب میں یہ نسخے لے کر عیسائیوں کے گرجے میں گیا تو انہوں نے بھی وہ نسخے خرید لئے۔ پھر میں نے قرآن پاک کے تین نسخے لکھے اور اس کی عبارت میں بھی کمی بیشی کر دی ۔ جب میں قرآن پاک کے وہ نسخے لے کر اسلامی کتب خانے میں گیا تو انہوں نے پہلے ا ن نسخوں کا بغور مطالعہ کیا اور جب وہ میری کی ہوئی کمی زیادتی پر مطلع ہوئے تو انہوں نے وہ نسخے مجھے واپس کر دئیے اور خریدنے سے انکار کر دیا۔اس سے میری سمجھ میں آ گیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ اس وجہ سے میں نے اسلام قبول کرلیا۔ (قرطبی، الحجر، تحت الآیۃ: ۹، ۵ / ۶، الجزء العاشر، ملخصاً)
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ:اور بیشک ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کفارِ مکہ نے سیّدُ المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے جاہلانہ باتیں کیں اور بے ادبی کرتے ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو مجنون کہا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’آپ سے پہلے سابقہ امتوں میں ہم نے رسول بھیجے اور ان لوگوں کے پاس جو بھی رسول آتا وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ کفار کی اپنے انبیاء اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ یہ روش سابقہ زمانوں سے چلی آ رہی ہے ،لہٰذا اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ بھی دیگر انبیاء ومرسلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرح اپنی قوم کی اَذِیّتوں پر صبر فرمائیں ۔( خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۹۶)
{كَذٰلِكَ:ایسے ہی۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جس طرح ہم نے سابقہ امتوں کے دلوں میں کفر،تکذیب اور اِستہزاء داخل کر دیا تھا ایسے ہی مکہ کے مشرکین کے دلوں میں بھی داخل کر دیا ہے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۹۶)
{لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ:وہ اس پر ایمان نہیں لاتے۔} یعنی وہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَیا قرآن پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ پہلے لوگوں کا طریقہ گزر چکا ہے کہ وہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرکے عذابِ الٰہی سے ہلاک ہوتے رہے ہیں ،یہی حال ان کفارِ مکہ کا ہے تو انہیں عذابِ الٰہی سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۹۶، جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۲۱۱، ملتقطاً)
{وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ:اور اگر ہم ان کے لیے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیتے ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ کا عناد اس درجہ پر پہنچ گیا ہے کہ اگر ان کے لئے آسمان میں دروازہ کھول دیا جائے اور انہیں اس میں چڑھنا مُیَسّر ہو اور دن میں اس سے گزریں اور آنکھوں سے دیکھیں جب بھی نہ مانیں گے اور یہ کہہ دیں گے کہ ہماری نظر بندی کی گئی اور ہم پر جادو ہوا تو جب خود اپنے معائنہ سے انہیں یقین حاصل نہ ہوا تو ملائکہ کے آنے اور گواہی دینے سے جس کو یہ طلب کرتے ہیں انہیں کیا فائدہ ہوگا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۵۷۹، ملخصاً)
{وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا:اور بیشک ہم نے آسمان میں بہت سے برج بنائے۔} یہ برج سات سیاروں کی منزلیں ہیں اور ان برجوں کی تعداد بارہ ہے۔ (1) حَمْل۔ (2) ثَوْر۔ (3) جَوْزَاء۔ (4) سَرَطَانْ۔ (5) اَسَد۔ (6) سُنْبُلَہ۔ (7) میزان۔ (8) عَقْرَب۔ (9) قَوس۔ (10) جَدْی ۔ (11) دَلْو۔ (12) حُوْت۔ مِرِّیخْ کے برج حَمْل اور عَقْرَب ہیں ، زُہْرَہ کے ثَوْر اور میزان، عُطَارِدْ کے جَوْزَاء اور سُنْبُلَہ، چاند کا سَرَطَانْ، سورج کا اسد، مشتری کے قوس اور حُوت اور زُحَل کے جَدْی اور دَلْو ہیں ۔ (جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۲۱۲)
{وَ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَ:اور اسے دیکھنے والو ں کے لیے آراستہ کیا۔} یعنی ہم نے آسمان کو سورج ، چاند اور ستاروں سے آراستہ کیا تاکہ غورو فکر کرنے والے اس سے اللّٰہ تعالیٰ کے واحد اور خالق ہونے پر اِستدلال کریں اور جان لیں کہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا اور اسے شکل و صورت عطا کرنے والا صرف اللّٰہ تعالیٰ ہے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۹۷)
{وَ حَفِظْنٰهَا:اور اسے ہم نے محفوظ رکھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمانِ دنیا کو ہر مردود اور لعین شیطان سے محفوظ رکھا ہے لیکن جو شیطان آسمانوں میں ہونے والی گفتگو چوری کر کے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں تو ان کے پیچھے ایک روشن شعلہ پڑ جاتا ہے۔ (تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۷ / ۴۹۹)
آسمان میں داخل ہونے سے شیطانوں کو روک دیا گیا:
حضرت عبداللّٰہبن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ’’ شَیاطین آسمانوں میں داخل ہوتے تھے اور وہاں کی خبریں کاہنوں کے پاس لاتے تھے ، جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا ہوئے تو شیاطین تین آسمانوں سے روک دیئے گئے اور جب سیدُ المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت ہوئی تو تمام آسمانوں سے منع کردیئے گئے۔ اس کے بعد ان میں سے جب کوئی باتیں چوری کرنے کے ارادے سے اوپر چڑھتا تو اسے شِہاب کے ذریعے مارا جاتا۔ شیطانوں نے یہ صورت ِحال ابلیس کے سامنے بیان کی تو ا س نے کہا: ضرور کوئی نئی بات ہوئی ہے۔ پھر ابلیس نے شیطانوں کو معلومات کرنے کے لئے بھیجا تو ایک جگہ انہوں نے دیکھا کہ رسولِ کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قرآنِ پاک کی تلاوت فرما رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر وہ بول اٹھے ’’خدا کی قسم یہی وہ نئی بات ہے۔‘‘ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۹۷)
{فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ:تو اس کے پیچھے ایک روشن شعلہ پڑجاتا ہے۔} شہاب اس ستارے کو کہتے ہیں جو شعلے کی طرح روشن ہوتا ہے اور فرشتے اس سے شیاطین کو مارتے ہیں ۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۹۷، ملخصاً)
شیطانوں کوشہابِ ثاقب لگنے سے متعلق دو اَحادیث:
(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب اللّٰہ تعالیٰ آسمانی فرشتوں کو کوئی حکم دیتا ہے تو وہ عاجزی کی وجہ سے اپنے پَرمارنے لگتے ہیں جیسے زنجیر کو صاف پتھر پر مارا جائے۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ اس حکم کو نافذ فرما دیتا ہے ۔ جب ان کے دلوں سے کچھ خوف دور ہوتا ہے تو ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّنے کیا فرمایا ؟وہ جواب دیتے ہیں کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّنے جو فرمایا وہ حق فرمایا اور وہی بلند و بر تر ہے ۔پھر بات چرانے والے شیطان چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے ہیں اور چوری چھپے سننے کے لئے شیطان یوں اوپر نیچے رہتے ہیں ، چنانچہ سفیان نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو کھول کر اوپر نیچے کر کے دکھایا۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ سننے والے شیطان کو چنگاری جا لگتی ہے اور وہ جل جاتا ہے ا س سے پہلے کہ وہ یہ بات اپنے ساتھ والے کو بتائے اور بعض اوقات چنگاری لگنے سے پہلے وہ اپنے نزدیک والے شیطان کو جو اس کے نیچے ہوتا ہے، بتا چکا ہوتا ہے اورا س طرح وہ بات زمین تک پہنچا دی جاتی ہے ،پھر وہ جادو گر کے منہ میں ڈالی جاتی ہے ،پھر وہ جادو گر ایک کے ساتھ سو جھوٹ اپنی طرف سے ملاتا ہے، اس پر لوگ اس کی تصدیق کر کے کہنے لگتے ہیں کہ کیا اس نے فلاں روز ہمیں نہیں بتایا تھا کہ فلاں بات یوں ہو گی چنانچہ ہم نے اس کی بات کو درست پایا حالانکہ یہ وہی بات تھی جو آسمان سے چوری چھپے سنی گئی تھی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الحجر، باب الاّ من استرق السمع فاتبعہ شہاب مبین، ۳ / ۲۵۴، الحدیث: ۴۷۰۱)
(2)… حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں مجھے ایک انصاری صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بتایا کہ ہم ایک رات رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ بیٹھے تھے، ایک تارا ٹوٹا، اور روشنی پھیل گئی تو ہم سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ جاہلیت کے زمانے میں جب اس جیسا تارا ٹوٹتا تھا تو تم کیا کہتے تھے ؟ہم نے عرض کی ’’ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خوب جانتے ہیں ۔ ہم تو یہ کہتے تھے کہ آج رات یا تو کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا یا کوئی بڑا آدمی مرا ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’یہ تارے نہ تو کسی کی موت کے لیے مارے جاتے ہیں نہ کسی کی زندگی کیلئے لیکن ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ کہ اس کا نام مبارک اور بلندہے ، جب کسی چیز کا فیصلہ کرتا ہے تو عرش اٹھانے والے تسبیح کرتے ہیں ، پھر آسمان والوں میں سے جو ان کے قریب ہیں وہ تسبیح کرتے ہیں حتّٰی کہ تسبیح کا یہ سلسلہ اس دنیا کے آسمان والے فرشتوں تک پہنچ جاتا ہے ، پھر عرش اٹھانے والے فرشتوں کے قریب والے ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے کیا فرمایا؟ وہ انہیں خبر دیتے ہیں ۔ پھر بعض آسمان والے بعض سے خبریں پوچھتے ہیں حتّٰی کہ اس آسمانِ دنیا تک خبر پہنچ جاتی ہے تو جِنّات ان سنی ہوئی باتوں کو اچک لیتے ہیں اور اپنے دوستوں تک پہنچا دیتے ہیں ، (ان میں سے بعض) مار دیئے جاتے ہیں ۔پھر کاہن جو کچھ اس کے مطابق کہتے ہیں وہ تو کچھ درست ہوتا ہے لیکن وہ تو اس میں جھوٹ ملادیتے ہیں اور بڑھا دیتے ہیں ۔ (مسلم، کتاب السلام، باب تحریم الکھانۃ واتیان الکھان، ص۱۲۲۴، الحدیث: ۱۲۴(۲۲۲۹))
{وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا:اور ہم نے زمین کو پھیلایا۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بیان میں آسمانی دلائل دئیے گئے اور اب یہاں سے زمینی دلائل دئیے جا رہے ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے زمین کو پھیلایا اور ہم نے اس میں مضبوط پہاڑوں کے لنگر ڈال دئیے تاکہ وہ زمین والوں کے ساتھ حرکت نہ کرے۔ (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۷ / ۱۳۰، جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۲۱۲، ملتقطاً)
زمین میں مضبوط لنگر ڈالنے سے متعلق ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
’’وَ جَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِهِمْ وَ جَعَلْنَا فِیْهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ‘‘(انبیاء:۳۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور زمین میں ہم نے مضبوط لنگر ڈال دئیے تاکہ لوگوں کو لے کر حرکت نہ کرتی رہے اور ہم نے اس میں کشادہ راستے بنائے تاکہ وہ راستہ پالیں ۔
اور اسی آیت کے تحت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِلکھتے ہیں : حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’جب اللّٰہ تعالیٰ نے زمین کو پانی کی سطح پر پھیلایا تو یہ اپنے اوپر موجود چیزوں کے ساتھ ایک طرف ایسے جھک گئی جیسے کشتی جھکتی ہے، پھر اللّٰہ تعالیٰ نے اسے مضبوط پہاڑوں کے ذریعے ا س طرح ٹھہرا دیا جیسے کشتی کو لنگر ڈال کر ٹھہرایا جاتا ہے۔ (روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۱، ۵ / ۴۷۲)
{وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ:اور اس میں ہر چیز ایک معین اندازے سے اگائی۔} اس سے مراد یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے (زمین میں ) ہر چیز لوگوں کی ضروریات کے مطابق اندازے سے پیدا فرمائی کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ وہ مقدار جانتا ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہو اور وہ ا س سے نفع حاصل کر سکتے ہوں اس لئے اللّٰہ تعالیٰ نے زمین میں اسی مقدار کے مطابق نباتات پیدا فرمائیں ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ لفظ ’’ مَوْزُوْنٍ‘‘ حسن اور تَناسُب سے کِنایہ ہے اور آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے زمین میں ہر چیز مناسب اگائی، عقلِ سلیم رکھنے والا ہر شخص اسے بہترین اور مصلحت کے مطابق سمجھتا ہے۔ آیت میں مذکور لفظ’’ مَوْزُوْنٍ‘‘ کی اس کے علاوہ اور تفاسیر بھی ہیں ۔ (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۷ / ۱۳۱-۱۳۲، ملخصاً)
{وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ:اور تمہارے لیے اس میں زندگی گزارنے کے سامان بنائے۔}ا س آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم نے تمہارے لئے زمین میں زندگی گزارنے کے سامان بنائے اور تمہارے لئے وہ جاندار پیدا کئے جنہیں تم رزق نہیں دیتے بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ رزق دیتا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ہم نے تمہارے لئے اور ان جانداروں کے لئے زمین میں زندگی گزارنے کے سامان بنائے جنہیں تم رزق نہیں دیتے ۔ یہ دو مفہوموں پر فرق اصل میں عربی گرامر کے اعتبار سے ہے۔ آیت میں ’’زندگی گزارنے کے سامان‘‘ سے کھانے ، پینے اور پہننے کی وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن کی دنیوی زندگی پوری ہونے تک انسان کو ضرورت ہے۔ اور ’’جنہیں تم رزق نہیں دیتے‘‘ میں اہل و عیال، لونڈی غلام ، خدمت گار ، چوپائے اور حشراتُ الارض داخل ہیں ،ان کے بارے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ انہیں رزق دیتے ہیں ، یہ لوگوں کی غلط فہمی ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ہی اِنہیں اور اُنہیں سب کو رزق دیتا ہے۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۵۸۰، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۹۹، ملتقطاً)
{وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ:اور ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں ۔} اس آیت میں شے سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ممکن ہو اور خزانے سے مراد قدرت اور اختیار ہے۔آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ تمام مُمکِنات اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے تحت داخل اور اس کی مِلک میں ہیں ، وہ انہیں جیسے چاہے عدم سے وجود میں لے آئے اور ممکنات میں سے جس چیز کو اللّٰہ تعالیٰ وجود عطا فرماتا ہے اسے اپنی حکمت اور مَشِیّت کے تقاضے کے مطابق مُعَیّن مقدار کے ساتھ وجود عطا فرماتا ہے۔ (ابو سعود، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۲۲۰، تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۱، ۷ / ۱۳۴، ملتقطاً)
{وَ اَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ:اور ہم نے ہوائیں بھیجیں ۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ بادلوں میں پانی پیدا کرنے اور ان سے بارش نازل کر کے تمہیں سیراب کرنے پر صرف اللّٰہ تعالیٰ قادر ہے ،اس کے سوا اور کسی کو یہ قدرت حاصل نہیں ۔ اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت اور بندوں کے عاجز ہونے پر عظیم دلیل ہے۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۵۸۰، ملخصاً)
{وَ اِنَّا لَنَحْنُ نُحْیٖ:اور بیشک ہم ہی زندہ کرتے ہیں ۔} یعنی مخلوق کو زندگی اور موت عطا کرنا صرف ہمارے ہی دستِ قدرت میں ہیں اورتمام مخلوق فنا ہونے والی ہے اور ہم ہی باقی رہنے والے ہیں اور مُلک کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والوں کی ملکیت ضائع ہوجائے گی اور سب مالکوں کا مالک یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّباقی رہے گا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۱۰۰)
{وَ لَقَدْ عَلِمْنَا:اور بیشک ہم جانتے ہیں ۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں اَلْمُسْتَقْدِمِیْنَ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے پیدا فرما دیاہے اور اَلْمُسْتَاْخِرِیْنَ سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں ابھی پیدا نہیں فرمایا۔ امام مجاہد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں کہ اَلْمُسْتَقْدِمِیْنَ سے مراد سابقہ امتیں ہیں اور اَلْمُسْتَاْخِرِیْنَ سے سیدُ المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت مراد ہے۔ حسن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں اَلْمُسْتَقْدِمِیْنَ سے وہ لوگ مراد ہیں جو نیکی اور بھلائی کے کاموں میں سبقت کرنے والے ہیں اور اَلْمُسْتَاْخِرِیْنَ سے وہ لوگ مراد ہیں جو ان کاموں میں (سستی کی وجہ سے) پیچھے رہ جانے والے ہیں ۔حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ ہے کہ اَلْمُسْتَقْدِمِیْنَ سے وہ لوگ مراد ہیں جو صفِ اوّل میں نماز کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھنے والے ہیں اور اَلْمُسْتَاْخِرِیْنَسے وہ لوگ مراد ہیں جو عذر کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والے ہیں ۔ شانِ نزول: حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک مرتبہ جماعت کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز کی صفِ اول کے فضائل بیان فرمائے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم صفِ اول حاصل کرنے کی بہت کوشش کرنے لگے اور ان کا ازدحام ہونے لگا اور جن حضرات کے مکان مسجد شریف سے دور تھے وہ اپنے مکان بیچ کر مسجد کے قریب مکان خریدنے پر آمادہ ہوگئے تاکہ صفِ اول میں جگہ ملنے سے کبھی محروم نہ ہوں ۔ اس پر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی اور انہیں تسلی دی گئی کہ ثواب نیتوں پر ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اگلوں کو بھی جانتا ہے اور جو عذر کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں اُن کوبھی جانتا ہے اور اُن کی نیتوں سے بھی خبردار ہے اور اس پر کچھ مخفی نہیں ۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۱۰۰، ملخصاً)
پہلی صف میں نماز پڑھنے کے فضائل:
اس آیت کے شانِ نزول سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُماللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کا اتنا جذبہ اور شوق رکھتے تھے کہ پہلی صف کی فضیلت حاصل کرنے کی خاطر اپنے مکانات تک بیچنے پر آمادہ ہو گئے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جماعت کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز کی پہلی صف کی بہت فضیلت ہے۔ ترغیب کے لئے ہم یہاں پہلی صف میں نماز پڑھنے کے فضائل پر مشتمل 4 اَحادیث ذکر کرتے ہیں ۔
(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں بیٹھنے کا کتنا اجر ہے اور انہیں قرعہ اندازی کرنے کے سوا ان کاموں کا موقع نہ ملے تو وہ ضرور قرعہ اندازی کریں گے۔ (بخاری، کتاب الشہادات، باب القرعۃ فی المشکلات، ۲ / ۲۰۸، الحدیث: ۲۶۸۹)
(2)…حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ بے شک پہلی صف فرشتوں کی صف کے مثل ہے اور اگر تم جانتے کہ اس کی فضیلت کیا ہے تو اس کی طرف سبقت کرتے۔ (ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب فی فضل صلاۃ الجماعۃ، ۱ / ۲۳۰، الحدیث: ۵۵۴)
(3)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے فرشتے صفِ اوّل پر درود بھیجتے ہیں ۔ لوگوں نے عرض کی :اور دوسری صف پر۔ ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے فرشتے صفِ اوّل پر درود بھیجتے ہیں ۔ لوگوں نے عرض کی :اور دوسری پر۔ ارشاد فرمایا: ’’اور دوسری پر (بھی)۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی۔۔۔ الخ، ۸ / ۲۹۵، الحدیث: ۲۲۳۲۶)
(4)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا : ’’ہمیشہ صفِ اوّل سے لوگ پیچھے ہوتے رہیں گے، یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں (اپنی رحمت سے )مُؤخّر کرکے نار میں ڈال دے گا۔ (ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب صفّ النساء وکراہیۃ التأخّر عن الصف الاول، ۱ / ۲۶۹، الحدیث: ۶۷۹)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں پہلی صف میں پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ یَحْشُرُهُمْ:اور بیشک تمہارا رب ہی انہیں اٹھائے گا۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ سب لوگوں پرموت طاری فرمائے گا پھر اوّلین و آخرین سب لوگوں کو قیامت میں اسی حال پر اٹھائے گا جس پر وہ مرے ہوں گے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۱۰۰۔) حدیث پاک میں بھی یہ چیز بیان کی گئی ہے چنانچہ حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر بندہ اسی حال پر اٹھایا جائے گا جس پر اسے موت آئی ہو گی۔(مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الامر بحسن الظنّ باللّٰہ تعالی عند الموت: ص۱۵۳۸، الحدیث: ۸۳ (۲۸۷۸))
{وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ:اور بیشک ہم نے انسان بنایا۔} اس آیت میں انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی پیدائش کی کیفیت کاذکر قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں مختلف اندازسے کیا گیا ہے، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو زمین سے ایک مشت خاک لی، پھر اس مٹی کو پانی سے تر کیا، یہاں تک کہ وہ سیاہ گارا ہوگئی اور اُس میں بو پیدا ہوئی، پھر اس سیاہ رنگ اور بو والی مٹی سے انسان کی صورت بنائی، جب وہ سوکھ کر خشک ہوگئی تو جس وقت ہوا اس میں سے گزرتی تو وہ بجتی اور اس میں آواز پیدا ہوتی۔ جب سورج کی تپش سے وہ پختہ ہوگئی تو اس میں روح پھونکی اور وہ انسان بن گیا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۱۰۰-۱۰۱، ملخصاً)
{وَ الْجَآنَّ :اور جن کو۔} حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں اس آیت میں ’’ اَلْجَآنَّ ‘‘ سے ابلیس مراد ہے ۔ یہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے پیدا کیا گیا ،جب ا بلیس کے بعد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی پیدائش ہوئی تو ابلیس نے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ملنے والے مقام و مرتبہ کی بنا پر ان سے حسد کیا اور کہا میں آگ سے بنا ہوں اور یہ مٹی سے ۔ (تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۶، ۷ / ۵۱۳)
نوٹ:یاد رہے کہ ’’ اَلْجَآنَّ‘‘ سے متعلق مفسرین کے اور بھی اَقوال ہیں ۔
{مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ:بغیر دھویں والی آگ سے ۔} یعنی ابلیس کو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے پہلے اس آگ سے پیدا کیا جس میں دھواں نہیں ہوتا ۔
{وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا۔}اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش کا ذکر فرمایا اور ان آیات سے اللّٰہ تعالیٰ ان کی پیدائش کاو اقعہ بیان فرما رہا ہے۔(تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ:۲۸، ۷ / ۱۳۹)
نوٹ:یاد رہے کہ ان آیات میں مذکور واقعہ سورۂ بقرہ اور سورۂ اَعراف میں گزر چکا ہے،اس کے علاوہ اور سورتوں میں بھی اس واقعے کا بیان موجود ہے ۔
{وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ:اور میں اپنی طرف کی خاص معز ز ر وح اس میں پھونک دوں ۔}اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی روح کو اپنی طرف ان کی عزت و تکریم کے طور پر منسوب فرمایا، جیسے کہا جاتا ہے: بیتُ اللّٰہ،ناقۃُ اللّٰہ ،عبداللّٰہ ۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳،۲۹ / ۱۰۱)
نوٹ:روح سے متعلق کلام سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر85میں مذکور ہے۔
{فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ:تو اس کے لیے سجدے میں گر جانا۔} اس آیت میں اللّٰہتعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کریں ۔ یہ سجدہ تعظیمی تھا عبادت کا سجدہ نہیں تھا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۱۰۱)
سجدہ تعظیمی کو جائز ثابت کرنے والوں کا رد:
یاد رہے کہ یہ آیت اور اس سے اگلی آیت اس امت کے لوگوں کے لئے سجدۂ تعظیمی کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی، چنانچہ جو لوگ سجدۂ تعظیمی کو حضرت آدم اور حضرت یوسف عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت کا حکم بتا کر اس کا جائز ہونا ثابت کرتے ہیں ، ان کا رد کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰیعَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ سرے سے اس کا آدم یایوسف یا کسی نبیعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی شریعت ہونے ہی کاثبوت دے ،اور ہر گز نہ دے سکے گا، آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی آفرنیش سے پہلے رب عَزَّوَجَلَّ نے یہ حکم ملائکہ کو دیا تھا: ’’فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ‘‘
’’جب میں اسے ٹھیک بنالوں اوراس میں اپنی طرف کی ر وح پھونک دوں اس وقت تم اس کے لیے سجدہ میں گرنا۔‘‘
تو اس وقت نہ کوئی نبی تشریف لایا تھا نہ کوئی شریعت اتری۔ ملائکہ و بشر کے احکام جدا ہیں ،جو حکم فرشتوں کو دیا گیا وہ شریعت مِنْ قَبْلِنَا نہیں ۔ قصۂ یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اتنا ثابت کہ شریعتِ یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں سجدۂ تحیت کی ممانعت نہ تھی کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فعلِ ممنوع نہیں کرتے، ممانعت نہ ہونا دونوں طرح ہوتاہے یا تو ان کی شریعت میں اس کے جوازکا حکم ہویہ اباحتِ شرعیہ ہوگی کہ حکمِ شرعی ہے یا ان کی شریعت میں اس کا کچھ ذکر نہ آیا ہو تو جو فعل جب تک شرع منع نہ فرمائے مباح ہے، یہ اباحتِ اصلیہ ہوگی کہ حکمِ شرعی نہیں بلکہ عدمِ حکم ہے۔ اور جب دونوں صورتیں محتمل تو ہر گز ثابت نہیں کہ شریعتِ یعقوبیہ میں اس کی نسبت کوئی حکم تھا تو شریعت مِنْ قَبْلِنَا ہونا کب ثابت، بحمدہٖ تعالیٰ شبہ کا اصل معنی ہی ساقط۔(فتاویٰ رضویہ، ۲۲ / ۵۲۰)
نیز مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’فرشتوں کا یہ سجدہ آدم عَلَیْہِ السَّلَامکی شریعت کا حکم نہ تھا کیونکہ ابھی آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی شریعت آئی ہی نہ تھی، نیز اَحکامِ شرعیہ انسانوں کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ فرشتوں کے لئے، نیز صرف ایک بار ہی فرشتوں نے یہ سجدہ کیا ہر دفعہ سجدہ نہ ہوا، لہٰذا اس آیت سے سجدۂ تعظیمی کے جواز پر دلیل پکڑنا جائز نہیں۔( نور العرفان، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۴۱۹-۴۲۰)
نوٹ:سجدہ ٔتعظیمی کی حرمت سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کافتاویٰ رضویہ کی22 ویں جلد میں موجود تحقیقی رسالہ ’’اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہْ فِیْ تَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّہْ‘‘ (غیرُ اللّٰہ کیلئے سجدۂ تعظیمی کے حرام ہونے کا بیان) کا مطالعہ فرمائیں ،اس رسالے میں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے قرآنِ کریم کی آیات، 40 اَحادیث، بیسیوں فقہی نصوص اور علماء واولیاء کے اجماع سے سجدۂ تعظیمی حرام ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔
{فَسَجَدَ:تو سجدے میں گرگئے۔} یعنی جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تخلیق مکمل ہوئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان میں روح ڈال دی تو جتنے فرشتے تھے سب کے سب ایک ساتھ سجدے میں گرگئے۔ (ابوسعود، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۲۴)
فرشتوں نے کسے سجدہ کیا؟
فرشتوں کے اس سجدے سے متعلق بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ سجدہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے تھا اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے اعزاز کے لئے منہ ان کی طرف تھا جیسے کعبہ کو منہ کرنے میں ہے (کہ سجدہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے کیا جاتا ہے اور منہ کعبہ شریف کی طرف ہوتا ہے) اور بعض علماء نے فرمایا کہ یہ سجدہ تعظیم و تکریم کے طور پر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہی تھا۔(رد المحتار، کتاب الحظر والاباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، ۹ / ۶۳۲)
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس سے متعلق بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی ہے کہ ’’یہ سجدہ درحقیقت اس نور کی تعظیم کے لئے تھا جو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مبارک پیشانی میں چمک رہا تھا اور وہ سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا نور تھا۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۴۶۲)
{ اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ:سوا ئے ابلیس کے۔} یعنی جب اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو فرشتے سجدے میں گر گئے لیکن ابلیس نے ان سجدہ کرنے والے فرشتوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا اور حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو سجدہ نہ کیا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۱۰۱-۱۰۲، ملخصاً)
{قَالَ:ابلیس نے کہا۔} اس کلام سے ابلیس کی مراد یہ تھی کہ وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے افضل ہے، کیونکہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اصل مٹی ہے اور ابلیس کی اصل آگ ہے اور( اس کے خیال میں ) آگ چونکہ مٹی سے افضل ہے اس لئے ابلیس نے اپنے گمان میں خود کو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل سمجھا لیکن وہ خبیث یہ بات بھول گیا تھا کہ افضل تو وہی ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ فضیلت عطا کرے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۱۰۲)
شیطان کے تین گناہ اور ان کا انجام:
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کرنے اور اس کی وجہ بیان کرنے میں شیطان نے تین گناہوں کا اِرتکاب کیا۔ (1) اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی۔ (2) بارگاہِ الٰہی کی مقرب ہستیوں کی جماعت سے جدا راستہ اختیار کیا۔ (3) حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے خود کو افضل بتا کر تکبر کیا۔ ان تین گناہوں کا انجام یہ ہوا کہ ابلیس کی ہزاروں برس کی عبادت و ریاضت برباد ہو گئی، فرشتوں کا استاد ہونے کی عظمت چھن گئی، اسے بارگاہِ الٰہی سے مردود و رسوا کر کے نکال دیا گیا، قیامت تک کے لئے اس کے گلے میں لعنت کا طوق ڈال دیا گیا اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں جلنے کی سزا دے دی گئی۔ شیطان کے گناہوں اور اس کے عبرت ناک انجام کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ عمومی طور پر تما م گناہوں اور خاص طور پر ان تین گناہوں سے بچے اور اپنے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتا رہے۔ اسی سلسلے میں اللّٰہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامکا حال سنئے ،چنانچہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَامکو دیکھا کہ ( ابلیس کے انجام سے عبرت گیر ہو کر) کعبۂ مشرفہ کے پردہ سے لپٹ کر نہایت گریہ وزاری کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا کر رہے ہیں ، ’’اِلٰھِیْ لَا تُغَیِّرْ اِسْمِیْ وَلَا تُبَدِّلْ جِسْمِیْ۔ یعنی اے میرے اللّٰہ ! کہیں میرا نام نیکوں کی فہرست سے نہ نکال دینا اور کہیں میرا جسم اہلِ عطا کے زُمرہ سے نکال کر اہلِ عتاب کے گروہ میں شامل نہ فرما دینا۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الخامسۃ، اصول سلوک طریق الخوف والرجاء، الاصل الثانی، ص۱۶۰) جب گناہوں سے معصوم اور بارگاہِ الٰہی کے مقرب ترین فرشتے کے خوف کا یہ حال ہے تو گناہوں میں لتھڑے ہوئے مسلمان کو تو کہیں زیادہ ڈرنا اور اپنے انجام کے بارے میں فکر مند ہونا چاہئے۔
{وَ اِنَّ عَلَیْكَ اللَّعْنَةَ:اور بیشک تجھ پر لعنت ہے ۔} یعنی قیامت تک آسمان و زمین و الے تجھ پر لعنت کریں گے اور جب قیامت کا دن آئے گا تواس لعنت کے ساتھ ہمیشگی کے عذاب میں گرفتار کیا جائے گا جس سے کبھی رہائی نہ ہوگی۔( خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۱۰۲)
{قَالَ:اس نے کہا۔} اپنے مردود اور لعنتی ہونے کے بارے میں سن کر شیطان نے کہا کہ اے میرے رب! مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے۔ قیامت کے دن تک مہلت مانگنے سے شیطان کا مطلب یہ تھا کہ وہ کبھی نہ مرے کیونکہ قیامت کے بعد کوئی نہ مرے گا اور قیامت تک کی اُس نے مہلت مانگ ہی لی لیکن اس کی اس دعا کو اللّٰہ تعالیٰ نے اس طرح قبول کیا کہ اس سے فرمایا: بیشک تو ان میں سے ہے جن کو اس معین وقت کے دن تک مہلت دی گئی ہے جس میں تمام مخلوق مرجائے گی اور وہ وقت پہلے نَفْخہ کا ہے تو شیطان کے مردہ رہنے کی مدت پہلے نَفْخہ سے دوسرے نَفْخہ تک چالیس برس ہے اور اس کوا س قدر مہلت دینا اس کے اکرام کے لئے نہیں بلکہ اس کی بلا، شَقاوت اور عذاب کی زیادتی کے لئے ہے۔( خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۷، ۳ / ۱۰۲، ملخصاً)
{قَالَ:ابلیس نے کہا۔} جب ابلیس کو معلوم ہوا کہ وہ کفر کی حالت میں مرے گا اور ا س کی کبھی بخشش نہ ہو گی تو اس نے مخلوق کو کفر میں مبتلا کر کے گمراہ کر دینے کی حرص کی اور کہا ’’اے میرے رب! مجھے اس بات کی قسم کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ضرور زمین میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کیلئے دنیا کی محبت اور تیری نافرمانی کوخوشنما بنادوں گا اور میں ضرور ان سب کے دِلوں میں وسوسہ ڈال کرگمراہ کردوں گا ،البتہ تیرے برگزیدہ بندوں پر میرا وسوسہ اور مکرنہ چلے گا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۹-۴۰، ۳ / ۱۰۲، صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۹-۴۰، ۳ / ۱۰۴۳، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan