READ

Surah Al-Hijr

اَلْحِجْر
99 Ayaat    مکیۃ


15:41
قَالَ هٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ(۴۱)
فرمایا یہ راستہ سیدھا میری طرف آتا ہے،

{قَالَ:اللّٰہ نے فرمایا۔}مفسرین نے اس آیت کے مختلف معنی بیان فرمائے ہیں ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ’’ یہ راستہ اپنے اوپر چلنے والے کو سیدھا چلاتا ہے یہاں  تک کہ ا س پر چل کروہ جنت میں  پہنچ جاتا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت کا معنی یہ ہے کہ دلائل کے ساتھ لوگوں  کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنا ہمارے ذمے ہے۔(قرطبی، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۵ / ۲۱، الجزء العاشر)

            امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اخلاص مجھ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے۔ (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۷ / ۱۴۵)

علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس آیت کا یہ معنی بیان فرمایا کہ ‘‘چنے ہوئے بندوں  کا ابلیس کے بہکاوے سے بچ جانا وہ راستہ ہے جو سیدھا اللّٰہ تعالیٰ تک پہنچا دیتا ہے۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۴۶۹)

{اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ:بیشک میرے بندوں  پر تیرا کچھ قابو نہیں ۔}  ابلیس نے جو یہ کہا کہ ’’ میں  ضرور زمین میں  ان (یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد) کیلئے (دنیا کی محبت اور تیری نافرمانی کو) خوشنما بنادوں  گا  اور میں  ضرور ان سب کو گمراہ کردوں  گا سوائے اُن کے جو اِن میں  سے تیرے چنے ہوئے بندے ہیں ‘‘ اس کا مطلب بھی یہ نہیں  کہ ابلیس انہیں  جبری طور پر یا زبردستی اپنا پیروکار بنالے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ لوگ خود اپنے اختیار سے اس کی پیروی کریں  گے۔ اسی وجہ سے دوسری آیت میں  وضاحت ہے کہ قیامت کے دن ابلیس کہے گا ۔

’’وَ مَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ‘‘(ابراہیم:۲۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور مجھے تم پر کوئی زبردستی نہیں  تھی مگر یہی کہ میں  نے تمہیں بلایا توتم نے میری مان لی ۔

{وَ اِنَّ جَهَنَّمَ:اور بیشک جہنم۔} یعنی بے شک جہنم ابلیس ، اس کی پیروی کرنے والوں  اور اس کے گروہوں ، سب کے عذاب کے وعدے کی جگہ ہے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۱۰۳)

          نوٹ:یاد رہے کہ کفار ہمیشہ دوزخ میں  رہیں  گے اور جو گناہ گار مومن جہنم میں  گئے تووہ عارضی طور پر وہاں  رہیں  گے۔

15:42
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِیْنَ(۴۲)
بیشک میرے (ف۴۴) بندوں پر تیرا کچھ قابو نہیں سوا ان گمراہوں کے جو تیرا ساتھ دیں، (ف۴۵)

15:43
وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اَجْمَعِیْنَ۫ۙ(۴۳)
اور بیشک جہنم ان سب کا وعدہ ہے، (ف۴۶)

15:44
لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍؕ-لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ۠(۴۴)
اس کے سات دروازے ہیں، (ف۴۷) ہر دروازے کے لیے ان میں سے ایک حصہ بٹا ہوا ہے، (ف۴۸)

{لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ:اس کے سات دروازے ہیں ۔} جہنم کے سات طبقے ہیں ، ان طبقات کو دَرَکات بھی کہتے ہیں  اور ہر طبقے کا ایک دروازہ ہے۔ پہلا طبقہ جہنم، دوسرا طبقہ لَظٰی، تیسرا طبقہ حُطَمَہ، چوتھا طبقہ سعیر ، پانچواں  طبقہ سَقَر، چھٹا طبقہ جحیم، ساتواں  طبقہ ہاوِیہ ہے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۱۰۳)

{لِكُلِّ بَابٍ: ہر دروازے کیلئے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ابلیس کی پیروی کرنے والوں  کو سات حصوں  میں  تقسیم فرما دیا ہے، ان میں  سے ہر ایک کے لئے جہنم کا ایک طبقہ مُعَیّن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر کے مَراتب چونکہ مختلف ہیں  اس لئے جہنم میں  بھی ان کے مرتبے مختلف ہوں  گے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۱۰۳)

15:45
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ(۴۵)
بیشک ڈر والے باغوں اور چشموں میں ہیں (ف۴۹)

{اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ:بیشک متقی لوگ۔}اس سے وہ لوگ مراد ہیں  جوکفر و شرک سے باز رہے اور ایمان لائے اگرچہ گناہگار ہوں ، گناہگار مومنین کا معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیّت پر مَوقوف ہے وہ چاہے تو انہیں  ایک مدت تک عذاب میں  مبتلا کر دے، پھر اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت کے صدقے انہیں  معاف فرما دے اور اگر چاہے تو انہیں  عذاب ہی نہ دے۔ (صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۱۰۴۳)

{اُدْخُلُوْهَا:ان میں  داخل ہو جاؤ۔} ایک قول یہ ہے کہ جب اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے والے جنت کے دروازوں  پر پہنچیں  گے تو ان سے کہا جائے گا اور دوسرا قول یہ ہے کہ جب جنتی جنت میں ایک جگہ سے دوسری جنت کی طرف متوجہ ہوں  گے تو فرشتوں  کی زبانی ان سے کہاجائے گا ’’ تم سلامتی اور امن و امان کے ساتھ جنت میں  داخل ہو جاؤ، نہ یہاں  سے نکالے جاؤ گے نہ تمہیں  یہاں  موت آئے گی نہ تم پر کوئی آفت رونما ہو گی ، نہ یہاں  کوئی خوف اور پریشانی ہوگی۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۴۷۱، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۵۸۲، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۱۰۳، ملتقطاً)

15:46
اُدْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیْنَ(۴۶)
ان میں داخل ہو سلامتی کے ساتھ امان میں، (ف۵۰)

15:47
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ(۴۷)
اور ہم نے ان کے سینوں میں جو کچھ (ف۵۱) کینے تھے سب کھینچ لیے (ف۵۲) آپس میں بھائی ہیں (ف۵۳) تختوں پر روبرو بیٹھے،

{وَ نَزَعْنَا:اور ہم کھینچ لیں  گے۔} یعنی دنیا میں  اگر ان ڈرنے والوں  میں  سے کسی کے دل میں  دوسرے کے بارے میں  کچھ کینہ ہو گا تو جنت میں  داخل ہونے سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ اسے ان کے دلوں  سے نکال دے گا اور اُن کے نُفوس کو بغض، حسد، عناد اور عداوت وغیرہ مذموم خصلتوں  سے پاک کردے گا اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے اور میل جول رکھنے میں  اس طرح ہوں  گے جیسے سگے بھائی ہوتے ہیں  ۔

{عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ:وہ آمنے سامنے تختوں  پربیٹھے ہوں  گے۔}  اس کا ایک تو واضح مفہوم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے جنت میں  تختوں  پر بیٹھے ہوں  گے اور مجلس کا لطف اٹھائیں  گے اور ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب جنتی ایک جگہ جمع ہو کر ایک دوسرے سے ملاقات کریں  گے اور فارغ ہونے کے بعد واپس لوٹنے کا ارادہ کریں  گے تو ان میں  سے ہر ایک کا تخت ا س طرح گھوم جائے گا کہ ا س پر سوار جنتی کا چہرہ اپنے ساتھی کے چہرے کے سامنے ہو گا اور اس کی پشت اس طرف ہو گی جدھر تخت اسے لے جا رہا ہو گا۔ اس میں  اُنسیت اور تعظیم زیادہ ہے۔ (جمل، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۱۸۶)

15:48
لَا یَمَسُّهُمْ فِیْهَا نَصَبٌ وَّ مَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِیْنَ(۴۸)
نہ انہیں اس میں کچھ تکلیف پہنچے نہ وہ اس میں سے نکالے جائیں،

15:49
نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ(۴۹)
خبردو (۵۴) میرے بندوں کو کہ بیشک میں ہی ہوں بخشے والا مہربان،

{نَبِّئْ عِبَادِیْ:میرے بندوں  کو خبردو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں  کو گناہ کرنے سے ڈرایا گیا اور جو گناہ ہو چکے ان سے توبہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ان دونوں  آیتوں  کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ میرے بندوں  کو بتا دیں  کہ جب وہ اپنے گناہوں  سے توبہ کر لیں  تو میں  ہی ان کے گناہوں  پر پردہ ڈال کر ان گناہوں  کے سبب ہونے والی رسوائی اور عذاب سے انہیں  بچاتا ہوں  اور گناہوں  سے توبہ کرنے کے بعد انہیں  عذاب نہ دے کر ان پر رحم فرماتا ہوں  اور میرے بندوں  کو یہ بھی بتا دیں  کہ میرا عذاب ان کے لئے ہے جواپنے گناہوں  پر قائم رہیں  اور ان سے توبہ نہ کریں ۔ میرا عذاب اتنا دردناک ہے کہ اس جیسا دردناک کوئی عذاب ہو ہی نہیں  سکتا۔(تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۰، ۷ / ۵۲۱-۵۲۲)

 امید اور خوف کے درمیان رہنا چاہئے:

اس آیت اور اس کے بعد والی آیت سے یہ معلوم ہو اکہ بندوں  کو امید اور خوف کے درمیان رہنا چاہئے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت دیکھ کر گناہوں  پر بے باک ہوں  نہ اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب کی شدت دیکھ کر اس کی رحمت سے مایوس ہوں ۔ اسی سے متعلق صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس روز اللّٰہ تعالیٰ نے رحمت کو پیدا فرمایا تو اس کے سو حصے کئے اور 99 حصے اپنے پاس رکھ کر ایک حصہ مخلوق کے لئے بھیج دیا۔ اگر کافر بھی یہ جان لے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو وہ بھی جنت سے مایوس نہ ہو اور اگر مومن یہ جان جائے کہ ا س کے پا س کتنا عذاب ہے تو جہنم سے وہ بھی بے خوف نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب الرجاء مع الخوف، ۴ / ۲۳۹، الحدیث: ۶۴۶۹)اور صحیح مسلم میں  حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اگر مومن جان لیتا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے پاس کتنا عذاب ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی امید نہ رکھتا اور اگر کافر جان لیتا کہ اللّٰہتعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو اس کی جنت سے کوئی ناامید نہ ہوتا ۔ (مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللّٰہ تعالی وانّہا سبقت غضبہ، ص۱۴۷۲، الحدیث: ۲۳(۲۷۵۵))

یہاں  امید اور خوف کے درمیان رہنے کی ایک بہترین صورت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا ’’اگر آسمان سے کوئی اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے کہ’’اے لوگو! تم سب کے سب جنت میں  داخل ہو جاؤ گے لیکن ایک شخص جنت میں  داخل نہیں  ہو گا۔ تو میں  اس بات سے ضرور ڈروں  گا کہ کہیں  وہ شخص میں  ہی نہ ہوں،اور اگر اعلان کرنے والا یہ کہے کہ اے لوگو! تم سب جہنم میں  جاؤ گے البتہ ایک شخص جہنم میں  نہیں  جائے گا۔ تو میں  ضرور یہ امید رکھوں  گا کہ وہ شخص میں  ہی ہوں ۔ (حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، عمر بن الخطاب، ۱ / ۸۹، روایت نمبر: ۱۴۲)

سورۂ حجر کی آیت نمبر 49 اور 50 سے حاصل ہو نے والی معلومات:

علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان آیات کے تحت چند نِکات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں  کہ

(1)… اللّٰہ تعالیٰ نے بندوں  کی نسبت اپنی ذات کی طرف کرتے ہوئے فرمایا کہ’’میرے بندوں  کو خبر دو‘‘ اس میں  بندوں  کی عزت افزائی ہے اور جس نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کا بندہ ہے تو وہ اس عزت و تعظیم میں  داخل ہے۔

(2)…جب اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و مغفرت کا ذکر کیا تو اسے بڑی تاکید کے ساتھ بیان کیا اور جب عذاب کا ذکر کیا تو اسے خبر دینے کے انداز میں  بیان کیا (نیز اپنی رحمت و مغفرت کا ذکر پہلے اور عذاب کاذکر بعد میں  فرمایا)یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت اس کے غضب و عذاب پر سبقت رکھتی ہے۔

(3)…اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ وہ اس کے بندوں  تک میری رحمت و مغفرت اور عذاب کی بات پہنچا دیں  تو گویا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے رحمت و مغفرت کا اِلتزام فرمانے میں  اپنی ذات پر اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو گواہ بنایا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۱۰۴)

یہی نِکات امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی تفسیر کبیر میں  بیان فرمائے ہیں  ،اسی مقام پر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں  کہ’’ نَبِّئْ عِبَادِیْ‘‘کا معنی ہے کہ ہر اس شخص کو خبر دے دیں  جو میرا بندہ ہونے کا اعتراف کرتا ہے۔‘‘اس میں  جس طرح اطاعت گزار مومن داخل ہے اسی طرح گناہگار مومن بھی اس میں  داخل ہے اور یہ سب باتیں  اس چیز پر دلالت کرتی ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت (اس کے غضب پر) غالب ہے۔(تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۹، ۷ / ۱۴۹)

اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے:

اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت کا اس کے غضب پر غالب ہونے کا ذکر کثیر اَحادیث میں  صراحت کے ساتھ بھی موجود ہے، چنانچہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ترمذی اور ابن ما جہ وغیرہ میں  حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب اللّٰہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا فرما چکا تو لوحِ محفوظ میں  جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے،لکھ لیا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب آ گئی ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللّٰہ تعالی: وہو الذی یبدأ الخلق۔۔۔الخ، ۲ / ۳۷۵، الحدیث: ۳۱۹۴)

صحیح مسلم میں  حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میری رحمت میرے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔(مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللّٰہ تعالی وانّہا سبقت غضبہ، ص۱۴۷۱، الحدیث: ۱۵(۲۷۵۱))دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  اپنے غضب سے محفوظ فرمائے اور اپنی رحمت سے ہمیں  بھی حصہ عطا فرمائے، اٰمین۔

{وَ اَنَّ عَذَابِیْ:اوربیشک میرا عذاب۔} یاد رہے کہ جو کفر کی حالت میں  مرا وہ تو جہنم کے دردناک عذاب میں  ہمیشہ کے لئے مبتلا ہو گا البتہ جو گناہگار مسلمان اپنے گناہوں  سے توبہ کئے بغیر انتقال کر گیا تو اس کا معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر موقوف ہے کہ وہ چاہے تو اُسے گناہوں  کی سزا دے یا چاہے تو اپنی رحمت سے اس کے تمام گناہ بخش دے اور اسے جنت عطا فرما دے۔

اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب میں  مبتلا ہونے کے اَسباب:

یہاں  یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح بہت سے اسباب ایسے ہیں  جن سے بندے کو اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت حاصل ہو تی ہے اسی طرح بہت سے اسباب ایسے بھی ہیں  جن سے بندہ اللّٰہ تعالیٰ کے شدید اور دردناک عذاب میں  مبتلا ہو جاتا ہے ،ان میں  سے 6 اَسباب یہاں  ذکر کئے جاتے ہیں ، ان اسباب میں  کئی جگہ قدرِ مُشترک بھی ہے لیکن اپنے ظاہر کے اعتبار سے جدا جدا ہیں ۔

(1)…کفر کرنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’فَاَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَاُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ٘-وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ‘‘(اٰل عمران: ۵۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: پس جو لوگ کافر ہیں  تومیں انہیں  دنیاو آخرت میں  سخت عذاب دوں  گا اور ان کاکوئی مددگار نہ ہوگا۔

(2)…اللّٰہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تَرَى الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلَى اللّٰهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌؕ-اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِیْنَ‘‘(زمر:۶۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور قیامت کے دن تم اللّٰہ پر جھوٹ باندھنے والوں  کو دیکھو گے کہ ان کے منہ کالے ہوں  گے۔ کیامتکبروں  کا ٹھکانہ جہنم میں  نہیں  ہے؟

(3)…منافقت اختیار کرنا۔ چنانچہ منافقوں  کے بارے میںاللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹) فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌۙ-فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ‘‘(بقرہ:۹-۱۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ لوگ اللّٰہ کو اور ایمان والوں  کو فریب دینا چاہتے ہیں حالانکہ یہ صرف اپنے آپ کو فریب دے رہے ہیں  اور انہیں  شعور نہیں ۔ان کے دلوں  میں  بیماری ہے تو اللّٰہ نے ان کی بیماری میں  اور اضافہ کردیا اور ان کے لئے ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے۔

(4)…اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کی نافرمانی کرنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَ رُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِیْدًاۙ-وَّ عَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا(۸) فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِهَا وَ كَانَ عَاقِبَةُ اَمْرِهَا خُسْرًا(۹)اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًاۙ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ ﲬ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘(طلاق:۸-۱۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کتنے ہی شہر تھے جنہوں  نے اپنے رب کے حکم اور اس کے رسولوں  سے سرکشی کی تو ہم نے ان سے سخت حساب لیا اور انہیں  برا عذاب دیا ۔تو انہوں  نے اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے کام کا انجام گھاٹا ہوا۔اللّٰہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے تو اللّٰہ سے ڈرو اے عقل والو جو ایمان لائے ہو۔

(5)…اللّٰہ تعالیٰ سے دعا مانگنے میں  تکبر کرنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ‘‘(مومن:۶۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں  قبول کروں  گا بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں  عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں  جائیں  گے۔

(6)…مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا‘‘(النساء:۹۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں  رہے گااور اللّٰہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

15:50
وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(۵۰)
اور میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے،

15:51
وَ نَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَۘ(۵۱)
اور انہیں احوال سناؤ ابراہیم کے مہمانوں کا، (ف۵۵)

{وَ نَبِّئْهُمْ:اور انہیں  احوال سناؤ۔} اس سورت میں  سب سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ نے سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر دلائل دئیے، اس کے بعد توحید پر دلائل ذکر فرمائے، پھر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تخلیق اور اس سے متعلق واقعات بیان فرمائے، پھر سعادت مندوں  اور بد بختوں  کے احوال بیان کئے اوراس آیت سے اللّٰہ تعالیٰ نے بعض انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات بیان فرمائے تاکہ ان واقعات کو سن کر لوگ عبرت حاصل کریں  اور ان میں  عبادت کا ذوق وشوق پیدا ہو۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان فرمایا، پھر حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا واقعہ، پھر حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا واقعہ اور آخر میں  حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان فرمایا۔ چاروں  انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات یہاں  اِختصار کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں  ، ان واقعات کی تفصیل سورۂ ہود میں  موجود ہے۔ (صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۱۰۴۶)

{عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ:ابراہیم کے مہمانوں  کا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے بندوں  کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مہمانوں  کا احوال سنائیں  جنہیں  ہم نے اس لئے بھیجا تھا کہ وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بیٹے کی بشارت دیں  اور حضرت لوطعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو ہلاک کریں  تاکہ میرے بندے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر آنے والے عذاب، اللّٰہ تعالیٰ کی ناراضی اور مجرموں  سے لئے گئے انتقام کو دیکھ کر عبرت حاصل کریں  اور انہیں  یقین ہو جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا عذاب ہی سب سے سخت ہے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۱۰۴، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۱، ۵۸۳، ملتقطاً)یاد رہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مہمان کئی فرشتے تھے اور ان میں  حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام بھی تھے۔ (جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۲۱۳)

15:52
اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ اِنَّا مِنْكُمْ وَ جِلُوْنَ(۵۲)
جب وہ اس کے پاس آئے تو بولے سلام (ف۵۶) کہا ہمیں تم سے ڈر معلوم ہوتا ہے، (ف۵۷)

{اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ:جب وہ اس کے پاس آئے ۔} یعنی فرشتے جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس آئے تو انہوں  نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو سلام کیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تعظیم و توقیر کی۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان سے فرمایا ’’ہم تم سے ڈر رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مہمانوں  سے خوف کھانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ اجازت کے بغیر اور بے وقت آئے تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ مہمانوں  نے ان کا پیش کردہ بھنا ہوا بچھڑا کھانے سے انکارکر دیا تھا اور اس دور میں  مہمان کا کھانے سے ا نکار کر دینا دشمنی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ (ابوسعود، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۲۳۰، بیضاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۳۷۴، ملتقطاً)

15:53
قَالُوْا لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ(۵۳)
انہوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں، (ف۵۸)

{اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ:بیشک ہم آپ کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں ۔} علم والے لڑکے سے مراد حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہیں ۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۱۰۴)

فرشتوں  کا علم:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ فرشتوں  کو اللّٰہ تعالیٰ کے بتانے سے یہ معلوم تھا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاں  بیٹا پیدا ہو گا اور وہ علم والا اور نبی ہو گا۔ معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں  میں  سے جسے چاہے غیب کا علم عطا فرماتا ہے۔

اولاد کو علمِ دین سکھائیے:

            اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عالِم بیٹا اللّٰہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ا س میں  ہر مسلمان کے لئے نصیحت ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دین کاعلم بھی سکھائے اور اس علم کو سکھانے میں  اُس سے زیادہ توجہ دے جتنی دنیا کا علم سکھانے پر توجہ دیتا ہے۔ افسوس فی زمانہ مسلمان دین کا علم حاصل کی ہوئی اولاد جیسی عظیم نعمت کی قدر اور اہمیت کی طرف توجہ نہیں  دیتے اور اپنے بیٹوں  میں  سے جسے ہوشیار و ذہین دیکھتے ہیں  اسے دنیا کی تعلیم دلواتے ، اس کے لئے ماہر اساتذہ اور اونچے درجے کے سکول کا انتخاب کرتے ہیں  اور دن رات دنیوی علوم و فنون میں  اس کی ترقی کے لئے کوششیں  کرتے ہیں  اور اس کے مقابلے میں  اسے دلوائی گئی دینی تعلیم کا حال یہ ہوتا ہے کہ اسے ان عقائد کا علم نہیں  ہوتا جن پر مسلمان کے دین و ایمان اور اُخروی نجات کا دارومدار ہے، مسلمان کی اولاد ہونے کے باوجود اسے قرآنِ مجید تک صحیح پڑھنا نہیں  آتا، فرض عبادات سے متعلق بنیادی باتیں  نہیں  جانتا، نماز روزے اورحج زکوٰۃ کی ادائیگی ٹھیک طرح نہیں  کر پاتا اور یہی وجہ ہے کہ صرف دنیوی علوم و فنون میں  مہارت رکھنے والے اکثر دینِ اسلام ہی سے بیزار اور اس کے بنیادی احکام پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے نظر آتے ہیں  ۔یہ تو ہوشیار و ذہین بیٹے کے ساتھ طرزِ عمل ہے جبکہ اس کے برعکس جو بیٹا جسمانی معذوری یا ذہنی کمزوری کا شکار ہو اسے دنیا کی تعلیم دلوانے کی طرف توجہ کرنے اور اس پر اپنا مال خرچ کرنے کو بیکار اور فضول کام سمجھتے ہیں  اوراسے کسی دینی مدرسے میں  داخل کروا کے اپنے سر سے بوجھ اتار دیتے ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت نصیب فرمائے،اٰمین۔

15:54
قَالَ اَبَشَّرْتُمُوْنِیْ عَلٰۤى اَنْ مَّسَّنِیَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ(۵۴)
کہا کیا اس پر مجھے بشارت دیتے ہو کہ مجھے بڑھاپا پہنچ گیا اب کاہے پر بشارت دیتے ہو، (ف۵۹)

{قَالَ:فرمایا۔} یعنی جب فرشتوں  نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بیٹے کی بشارت دی تو وہ اپنے اور زوجہ کے بڑھاپے کی وجہ سے حیران ہوئے اور فرشتوں  سے فرمایا ’’اتنی بڑی عمر میں اولاد ہونا عجیب وغریب ہے ،ہمارے ہاں  کس طرح اولاد ہوگی؟ کیا ہمیں  پھر جوان کیا جائے گا یا اِسی حالت میں  بیٹا عطا فرمایا جائے گا ؟ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۱۰۴، تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۴، ۷ / ۱۵۱، ملتقطاً)

          تنبیہ: حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ تعجب اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت پر نہیں  بلکہ عادت کے برخلاف کام ہونے پر تھا کہ عموماً بڑھاپے میں  کسی کے ہاں  اولاد نہیں  ہوتی۔ (صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۱۰۴۶، ملخصاً)

15:55
قَالُوْا بَشَّرْنٰكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِیْنَ(۵۵)
کہا ہم نے آپ کو سچی بشارت دی ہے (ف۶۰) آپ ناامید نہ ہوں،

{قَالُوْا:انہوں  نے عرض کیا۔} فرشتوں  نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کیا ’’ہم نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللّٰہ تعالیٰ کے اس فیصلے کی سچی بشارت دی ہے کہ  آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاں  بیٹا پیدا ہوگا اور اس کی اولاد بہت پھیلے گی، لہٰذا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان لوگوں  میں  سے نہ ہوں  جو بیٹے کی ولادت کی امید چھوڑ چکے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۱۰۵، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۵۸۳، ملتقطاً)

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہ تھے:

            یاد رہے کہ اس آیت سے یہ ثابت نہیں  ہوتا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہوچکے تھے۔ فرشتوں  کا آپ سے یہ کہنا ’’فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِیْنَ‘‘ ایسے ہی ہے جیسے حضرت لقمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے فرزند سے فرمایا تھا۔ ’’یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ‘‘ ’’اے میرے بچے! شرک نہ کرنا‘‘ جیسے اس سے یہ لازم نہیں  آتا کہ فی الحال وہ شرک کر رہا تھا اسی طرح وہاں  بھی یہ لازم نہیں  آتا کہ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فی الحال نا امید تھے۔

15:56
قَالَ وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ(۵۶)
کہا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہو مگر وہی جو گمراہ ہوئے، ف۶۱)

{قَالَ:فرمایا۔} یعنی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرشتوں  سے فرمایا ’’میں  اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے نااُمید نہیں  کیونکہ رحمت سے نااُمید کافر ہوتے ہیں  ہاں  عالَم میں  اللّٰہ تعالیٰ کی جو سنت جاری ہے اس سے یہ بات عجیب معلوم ہوئی۔( مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۵۸۳)

{ قَالَ:فرمایا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرشتوں  سے فرمایا ’’اے فرشتو! اس بشارت کے سوا اور کیا کام ہے جس کے لئے تم بھیجے گئے ہو۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۱۰۵)

15:57
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ(۵۷)
کہا پھر تمہارا کیا کام ہے اے فرشتو! (ف۶۲)

15:58
قَالُوْۤا اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَۙ(۵۸)
بولے ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں، (ف۶۳)

{قَالُوْا:انہوں  نے عرض کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرشتوں  نے عرض کی: ہم ایک مجرم قوم یعنی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں  تاکہ ہم انہیں  ہلاک کردیں  البتہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے گھر والوں  کو بچا لیں  گے کیونکہ وہ ایماندار ہیں ۔ (جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۸-۵۹، ص۲۱۳)

{اِلَّاۤ اٰلَ لُوْطٍ:سوائے لوط کے گھر والوں  کے۔} اس آیت میں  مذکور’’ اٰلَ لُوْطٍ‘‘میں  حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سارے مُتَّبِعین داخل ہیں ۔

اللّٰہ تعالیٰ کے بعض کام اس کے محبوب بندوں  کی طرف منسوب ہو سکتے ہیں :

           اس آیت میں  فرشتوں  نے جو یہ کہا کہ ’’ اِنَّا لَمُنَجُّوْهُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘ اس سے معلوم ہو اکہ اللّٰہ تعالیٰ کے بعض کام اس کے محبوب بندوں  کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں  ،جیسے عذاب سے بچا لینا اللّٰہ تعالیٰ کا کام ہے، مگر فرشتوں  نے کہا ’’ان سب کو ہم بچالیں  گے‘‘ لہٰذا مسلمان یہ کہہ سکتے ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے عذاب سے بچائیں  گے اور یوں  بھی کہہ سکتے ہیں  کہ یا رسولَ اللّٰہ  !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمیں  دوزخ سے بچالیں ۔

{اِلَّا امْرَاَتَهٗ:مگر اس کی بیوی کو۔} حضرت لوطعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی کا نام واہلہ تھا اور یہ چونکہ کافرہ تھی اس لئے یہ بھی عذاب والوں  میں  سے ہوئی۔

آیت ’’ اِلَّا امْرَاَتَهٗ قَدَّرْنَا‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… نیک بختی اور بد بختی کا علم اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں  کو دیا ہے اور فرشتے اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے جانتے ہیں  کہ کون مومن مرے گا اور کون کافر۔

(2)…اس بات کو سمجھنے سے پہلے یہ سوال و جواب پڑھئے۔ سوالـ: حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بیوی کا پیچھے رہ جانے والوں  میں  طے کرنا اللّٰہ تعالیٰ کا کام ہے، تو فرشتوں  نے اس کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف کرنے کی بجائے اپنی طرف کیوں  کی؟ اس کے جواب میں  امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’فرشتوں  نے طے کرنے کی نسبت اپنی طرف اس لئے کی کہ انہیں  اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  خاص مقام اور قرب حاصل ہے جیسے بادشاہ کے خاص آدمی یہ کہتے ہیں  کہ ہم نے اس طرح تدبیر کی ، ہم نے اس طرح حکم دیا حالانکہ تدبیر کرنے والا اور حکم دینے والا تو بادشاہ ہوتا ہے نہ کہ وہ لوگ ہوتے ہیں  اور ا س کلام سے محض اُن کی مراد بادشاہ کے پاس انہیں  حاصل مقام و مرتبہ ظاہر کرنا ہوتا ہے تو اسی طرح یہاں  ہے (کہ فرشتوں  کے اس کلام سے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  انہیں  حاصل مقام و مرتبہ ظاہر ہو رہا ہے) (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۰، ۷ / ۱۵۳) اس سے معلوم ہوا کہ جسے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  خاص مقام اور قرب حاصل ہو وہ اللّٰہ تعالیٰ کے بعض کاموں  کو اپنی طرف منسوب کر سکتاہے ،قرآنِ مجید میں  ہی اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ کسی کو زندہ کرنا اور مریض کو شفا دینا در حقیقت اللّٰہ تعالیٰ کا کام ہے اور اس کام کی نسبت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی طرف کرتے ہوئے فرمایا: ’’ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘(اٰل عمران:۴۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: میں  تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں  پھر اس میں  پھونک ماروں  گا تو وہ اللّٰہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں  پیدائشی اندھوں  کو اور کوڑھ کے مریضوں  کو شفا دیتا ہوں  اور میں  اللّٰہ کے حکم سے مردوں  کو زندہ کرتا ہوں ۔

15:59
اِلَّاۤ اٰلَ لُوْطٍؕ-اِنَّا لَمُنَجُّوْهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۵۹)
مگر لوط کے گھر والے، ان سب کو ہم بچالیں گے، (ف۶۴)

15:60
اِلَّا امْرَاَتَهٗ قَدَّرْنَاۤۙ-اِنَّهَا لَمِنَ الْغٰبِرِیْنَ۠(۶۰)
مگر اس کی عورت ہم ٹھہراچکے ہیں کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں ہے، ف۶۵)

15:61
فَلَمَّا جَآءَ اٰلَ لُوْطِ ﹰالْمُرْسَلُوْنَ ۙ(۶۱)
تو جب لوط کے گھر فرشتے آئے، ۶۶)

{فَلَمَّا جَآءَ:تو جب فرشتے آئے ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب فرشتوں  نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بیٹے کی بشارت دی اور اپنے آنے کا مقصد بیان کر دیا تو وہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کی طرف آئے ۔ جب وہ خوبصورت نوجوانوں  کی شکل میں  حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گھر آئے اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اندیشہ ہوا کہ قوم اُن کے پیچھے پڑ جائے گی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرشتوں  سے فرمایا ’’تم نہ تو یہاں  کے باشندے ہو اورنہ مسافرت کی کوئی علامت تم میں  پائی جاتی ہے،تم کیوں  آئے ہو ؟ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۱-۶۲، ۳ / ۱۰۵، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۱-۶۲، ص۵۸۴، ملتقطاً)

15:62
قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ(۶۲)
کہا تم تو کچھ بیگانہ لوگ ہو، ف۶۷)

15:63
قَالُوْا بَلْ جِئْنٰكَ بِمَا كَانُوْا فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ(۶۳)
کہا بلکہ ہم تو آپ کے پاس وہ (ف۶۸) لائے ہیں جس میں یہ لوگ شک کرتے تھے، (ف۶۹)

{قَالُوْا:انہوں  نے کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسا نہیں  ہے کہ ہم نے آپ کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے اور ہم ان کافروں  کو کچھ نہیں  کہیں  گے بلکہ ہم تو آپ کے پاس وہ چیز لائے ہیں  جو انہیں  تباہ و برباد کردے گی۔ لہٰذا آپ پریشان نہ ہوں  کیونکہ ہم آپ کے مددگار ہیں ، آپ کیلئے باعث ِ پریشانی نہیں ۔

15:64
وَ اَتَیْنٰكَ بِالْحَقِّ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(۶۴)
اور ہم آپ کے پاس سچا حکم لائے ہیں اور ہم بیشک سچے ہیں،

15:65
فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَ اتَّبِـعْ اَدْبَارَهُمْ وَ لَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ وَّ امْضُوْا حَیْثُ تُؤْمَرُوْنَ(۶۵)
تو اپنے گھر والوں کو کچھ رات رہے لے کر باہر جایے اور آپ ان کے پیچھے چلئے اور تم میں کوئی پیچھے پھر کر نہ دیکھے (ف۷۰) اور جہاں کو حکم ہے سیدھے چلے جایئے، (ف۷۱)

{فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ:تو آپ اپنے گھر والوں  کو لے چلیں ۔} یعنی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامرات کے کسی حصے میں  اپنے گھر والوں  کو لے چلیں  اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود ان کے پیچھے پیچھے چلیں  تاکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی حالت پر مطلع رہیں  اور تم لوگوں  میں  سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے کہ قوم پر کیا بلا نازل ہوئی اور وہ کس عذاب میں  مبتلا کئے گئے اور سیدھے اس طرف چلتے رہو جہاں  جانے کا اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں  حکم دیا ہے۔حضرت عبداللّٰہ بن عباس  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ملک ِشام جانے کا حکم ہوا تھا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۵۸۴-۵۸۵، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۱۰۶، ملتقطاً)

{وَ قَضَیْنَاۤ اِلَیْهِ ذٰلِكَ الْاَمْرَ:اور ہم نے اسے اس حکم کا فیصلہ سنادیا ۔} یعنی ہم نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف اُس حکم کی وحی کر دی جس کافیصلہ ہم نے اس کی قوم کے بارے میں کیا تھاکہ صبح کے وقت ان کافروں  کی جڑ کٹ جائے گی اور پوری قوم عذاب سے ہلاک کردی جائے گی۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۶، ۳ / ۱۰۶، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۵۸۵، ملتقطاً)

15:66
وَ قَضَیْنَاۤ اِلَیْهِ ذٰلِكَ الْاَمْرَ اَنَّ دَابِرَ هٰۤؤُلَآءِ مَقْطُوْعٌ مُّصْبِحِیْنَ(۶۶)
اور ہم نے اسے اس حکم کا فیصلہ سنادیا کہ صبح ہوتے ان کافروں کی جڑ کٹ جائے گی،

15:67
وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ یَسْتَبْشِرُوْنَ(۶۷)
اور شہر والے (ف۷۳) خوشیاں مناتے آئے،

{وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ:اور شہر والے آئے۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم کے لوگ شہرِ سدوم میں  آباد تھے ، انہوں  نے جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے یہاں  خوب صورت نوجوانوں  کے آنے کی خبرسنی جوکہ فرشتے تھے تو یہ لوگ فاسد ارادے اور ناپاک نیت کے ساتھ خوشی خوشی آئے۔ (جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۲۱۴، ملخصاً)

{قَالَ:فرمایا۔} یعنی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی قوم سے فرمایا’’ یہ میرے مہمان ہیں  اور مہمان کا اکرام لازم ہوتا ہے تم اُن کی بے حرمتی کا قصد کرکے  مجھے شرمندہ نہ کرو کہ مہمان کی رسوائی میزبان کے لئے خَجالت اور شرمندگی کا سبب ہوتی ہے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۱۰۶، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۵۸۵، ملتقطاً)

تاجدارِ رسالتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مہمان نوازی:

اس سے معلوم ہوا کہ مہمان کی عزت و احترام اور خاطر تواضع کرنا انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی سنت ہے اگرچہ میزبان اس سے واقف بھی نہ ہو ۔ یہاں  سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مہمان نوازی کے 3 واقعات ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت ابو رافع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : ایک شخص حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا مہمان بنا ، اس وقت آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے اس کی مہمان نوازی فرماتے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھے ایک یہودی شخص کے پاس بھیجا (اور مجھ سے فرمایا کہ اس سے کہو:) محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تم سے کہتے ہیں  کہ (میرے پاس مہمان آیا ہے اس لئے) مجھے رجب کا چاند نظر آنے تک آٹا قرض دے دو۔ یہودی نے کہا: اس وقت تک آٹا نہیں ملے جب تک کوئی چیز رہن نہ رکھو گے ۔ میں  حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوا اور انہیں یہودی کی بات بتائی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں  آسمان میں بھی امین ہوں  زمین پر بھی امین ہوں،اگر مجھے آٹا قرض دے دیتا یا بیچ دیتا تو میں  ضرور اسے ادا کر دیتا، اب تم میری لوہے کی زرہ لے جاؤ (اور اسے رہن رکھ دو) چنانچہ میں  وہ زرہ لے گیا (اور اسے رہن رکھ کر آٹا لے آیا)(معجم الکبیر، یزید بن عبد اللّٰہ بن قسیط عن ابی رافع، ۱ / ۳۳۱، الحدیث: ۹۸۹، معرفۃ الصحابہ، باب الالف، اسلم ابو رافع، ۱ / ۲۴۱، الحدیث: ۸۶۵، ملتقطاً)

(2)…مصنف ابن ابی شیبہ میں  ہے کہ ایک دیہاتی رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوا اور بھوک کی شکایت کی تو آپ اپنی (ازواجِ مطہرات کے) گھروں  میں  تشریف لے گئے ،پھر باہر تشریف لائے تو ارشاد فرمایا ’’مجھے آلِ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے گھروں  میں  تیرے لئے کوئی چیز نہیں  ملی، اسی دوران (کسی کی طرف سے) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں  بھنی ہوئی بکری پیش ہوئی تو اسے دیہاتی کے سامنے رکھ دیا گیا۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ا س سے فرمایا ’’تم کھاؤ۔ اس نے کھایا، پھر عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے بھوک کی تکلیف پہنچی تو اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ اقدس سے مجھے رزق دے دیا، اگر پھر کبھی ایسا ہو اور میں  آپ کی بارگاہ میں  حاضر نہ ہوں  تو کیا کروں ؟ ارشاد فرمایا تم کہو ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْاَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ ، فَاِنَّہٗ لَا یَمْلِکُہُمَا اِلَّا اَنْتَ‘‘اے اللّٰہ!میں  تجھ سے تیرے فضل اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں  کیونکہ فضل ورحمت کا صرف تو ہی مالک ہے ۔‘‘ تو بے شک اللّٰہ تعالیٰ تجھے رزق دینے والا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء، الرّجل یصیبہ الجوع او یضیق علیہ الرزق ما یدعو بہ، ۷ / ۹۴، الحدیث: ۱)

(3)… تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا اپنی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں  مہمان نوازی فرمانا تو اپنی جگہ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مزارِ اقدس میں  تشریف لے جانے کے بعد بھی اپنے در پہ حاضر ہونے والے بہت سے لوگوں کی مہمان نوازی فرماتے ہیں  چنانچہ حضرت ابو الخیر حماد بن عبداللّٰہ اقطع رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں  ’’میں  رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے شہر (مدینہ منورہ) میں  داخل ہوا اور (اس وقت) میں  فاقے کی حالت میں  تھا، میں  نے پانچ دن قیام کیا اور اتنے دن میں  کھانے پینے کی کوئی چیز تک نہ چکھ سکا، (بالآخر) میں  قبرِ انور کے پاس حاضر ہوا اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکی بارگاہ میں  سلام پیش کیا اور عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں  آج کی رات آپ کا مہمان ہوں  ۔پھر میں  اپنی جگہ سے ہٹ کر منبرِ اقدس کے پیچھے سو گیا تو میں  نے خواب میں  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کی، حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے دائیں  طرف، حضرت عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے بائیں  طرف اور حضرت علی بن ابو طالب کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم آپ کے سامنے تھے، حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے مجھے حرکت دی اور فرمایا: کھڑے ہو جاؤ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے ہیں ۔ میں  کھڑے ہو کر بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  حاضر ہوا اور آپ کی دونوں  آنکھوں  کے درمیان بوسہ دیا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے ایک روٹی عطا فرمائی تو میں  نے آدھی روٹی کھا لی،پھر میں  خواب سے بیدار ہوا توبقیہ آدھی روٹی میرے ہاتھ میں تھی۔(تاریخ دمشق، ابو الخیر الاقطع التیتانی، ۶۶ / ۱۶۱) یہ واقعہ علامہ ابن عساکر رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے علاوہ علامہ عبد الرحمٰن بن علی جوزی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب ’’صِفَۃُ الصَّفْوَہ‘‘جلد2 صفحہ 236 جزء 4 پر، علامہ عبد الوہاب شعرانی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے طبقات الکبریٰ جلد 1 صفحہ 154 جزء1 پر، علامہ عمر بن علی شافعی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے طبقاتِ اولیا، صفحہ 192-191 پر اور علامہ ابو عبد الرحمٰن محمد بن حسین رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے طبقاتِ صوفیہ صفحہ 281پر بھی ذکر فرمایاہے۔

{وَ اتَّقُوا اللّٰهَ:اور اللّٰہ سے ڈرو۔} یعنی مہمانوں  کے معاملے میں تم اللّٰہ تعالیٰ (کے عذاب) سے ڈرو اور میرے مہمانوں  کے ساتھ برا ارادہ کر کے مجھے رسوا نہ کرو۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۹، ۳ / ۱۰۶، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۵۸۵، ملتقطاً)

مہمان کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا سبب ہے:

اس سے معلوم ہوا کہ جیسے مہمان کے احترام میں  میزبان کی عزت ہوتی ہے ایسے ہی مہمان کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا باعث ہوتی ہے ،اس لئے اگر کسی مسلمان پڑوسی یا رشتہ دار کے ہاں  کوئی مہمان آیا ہو تو دوسرے مسلمان کو چاہئے کہ وہ بھی ا س کے مہمان کا احترام کرے تاکہ اس کی عزت و وقار قائم رہے اور مہمان کی بے عزتی کرنے یا کوئی ایسا کام کرنے سے بچے جس سے مہمان اپنی بے عزتی محسوس کرے تاکہ یہ چیز میزبان کے لئے شرمندگی اور رسوائی کا باعث نہ بنے۔

15:68
قَالَ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِۙ(۶۸)
لوط نے کہا یہ میرے مہمان ہیں (ف۷۴) مجھے فضیحت (رُسوا) نہ کرو، ف۷۵)

15:69
وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ(۶۹)
اور اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو، (ف۷۶)

15:70
قَالُوْۤا اَوَ لَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(۷۰)
بولے کیا ہم نے تمہیں منع نہ کیا تھا کہ اوروں کے معاملہ میں دخل نہ دو،

{قَالَ:فرمایا۔} جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے دیکھا کہ یہ لوگ اپنے ارادے سے باز نہیں  آئیں  گے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ ’’یہ قوم کی عورتیں  میری بیٹیاں  ہیں  اگر تمہیں  اپنی خواہش پوری کرنی ہے تو ان سے نکاح کر کے پوری کرلو اور حرام سے باز رہو۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم کی بیٹیوں  کو اپنی بیٹیاں  اس لئے فرمایا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَاماپنی پوری امت کے لئے باپ کی طرح ہوتے ہیں ۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۱،۴ / ۴۷۷، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۱۰۶، جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۲۱۴، ملتقطاً)

15:71
قَالَ هٰۤؤُلَآءِ بَنٰتِیْۤ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَؕ(۷۱)
کہا یہ قوم کی عورتیں میری بیٹیاں ہیں اگر تمہیں کرنا ہے، (ف۷۷)

15:72
لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(۷۲)
اے محبوب تمہاری جان کی قسم (ف۷۸) بیشک وہ اپنے نشہ میں بھٹک رہے ہیں،

{لَعَمْرُكَ:اے محبوب! تمہاری جان کی قسم!}  اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خطاب فرمایا ، حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی جان کی قسم! حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا مزید فرماتے ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ کی مخلوق میں  سے  کوئی جان بارگاہِ الٰہی میں  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی جانِ پاک کی طرح عزت و حرمت نہیں  رکھتی  اور اللّٰہ تعالیٰ نے سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عمر کے سوا کسی کی عمر اور زندگی کی قسم نہیں  فرمائی یہ مرتبہ صرف حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کا ہے۔ اس قسم کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ بیشک وہ کافر یقینا اپنے نشہ میں  بھٹک رہے ہیں ۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۱۰۶، ملخصاً)

            نوٹ: بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ کلام فرشتوں  نے حضرت لوطعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ:۷۲، ص۵۸۵)

اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام:

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اے مسلمان ! یہ مرتبۂ جلیلہ اس جانِ محبوبیت کے سو ا کسے میسر ہوا کہ قرآنِ عظیم نے ان کے شہرکی قسم کھائی ، ان کی باتوں  کی قسم کھائی ، ان کے زمانے کی قسم کھائی ،ان کی جان کی قسم کھائی، صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ ہاں  اے مسلمان ! محبوبیتِ کبریٰ کے یہی معنی ہیں ۔ ابنِ مردویہ اپنی تفسیر میں  حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی، حضور سید المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : اللّٰہ تعالیٰ نے کبھی کسی کی زندگی کی قسم یاد نہ فرمائی سوائے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کے کہ آیۂ لَعَمْرُکَمیں  فرمایا :تیری جان کی قسم، اے محمد!

            ابو یعلیٰ، ابن جریر ، ابن مردویہ ،  بیہقی ،ابو نعیم ،ابن عساکر ، بغوی حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُمَا سے راوی:اللّٰہ تعالیٰ نے ایسا کوئی نہ بنایا ،نہ پیدا کیا ،نہ آفرینش فرمایا جو اسے محمدصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَسے زیادہ عزیز ہو ، نہ کبھی ان کی جان کے سوا کسی جان کی قسم یاد فرمائی کہ ارشاد کرتا ہے: مجھے تیری جان کی قسم وہ کافر اپنی مستی میں  بہک رہے ہیں  ۔

            امام حجۃ الاسلام محمد غزالی احیاء العلوم اور امام محمد بن الحاج عبدری مکی مدخل اور امام احمد محمد خطیب قسطلانی مواہب لدنیہ اور علامہ شہاب الدین خفاجی نسیم الریاض میں  ناقل حضرت امیر المومنین عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک حدیثِ طویل میں  حضور سید المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَسے عرض کرتے ہیں  :یارسولَ اللّٰہ ! میرے ماں  باپ حضور پر قربان،بیشک حضور کی بزرگی خدا تعالیٰ کے نزدیک اس حد کو پہنچی کہ حضور کی زندگی کی قسم یاد فرمائی ،نہ باقی انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی۔ اور تحقیق حضور کی فضلیت خدا کے یہاں  اس نہایت کی ٹھہری کہ حضور کی خاکِ پاکی قسم یاد فرمائی کہ ارشاد کرتا ہے: مجھے قسم اس شہر کی۔(فتاویٰ رضویہ، ۳۰ / ۱۵۹-۱۶۲)

            حدائقِ بخشش میں  آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں:

وہ خدانے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا

کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہرو کلام و بقا کی قسم

15:73
فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُشْرِقِیْنَۙ(۷۳)
تو دن نکلتے انہیں چنگھاڑ نے آلیا (ف۷۹)

{فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ:تو انہیں  زور دار چیخ نے آپکڑا ۔} یعنی سورج نکلتے وقت حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامکی زور دار چیخ نے آپکڑا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۵۸۵، ملخصاً)

{فَجَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا:تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصہ اس کے نیچے کا حصہ کردیا۔} یعنی ہم نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستی کا اوپر کا حصہ اس کے نیچے کا حصہ کردیا اس طرح کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام زمین کے اس حصے کو اُٹھا کر آسمان کے قریب لے گئے اور وہاں  سے اوندھا کرکے زمین پر ڈال دیا ۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۵۸۵)

15:74
فَجَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍؕ(۷۴)
تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصہ اس نے نیچے کا حصہ کردیا (ف۸۰) اور ان پر کنکر کے پتھر برسائے،

15:75
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ(۷۵)
بیشک اس میں نشانیاں ہیں فراست والوں کے لیے،

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ:بیشک اس میں ۔} یعنی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا ان کے مہمانوں  کی بے حرمتی کرنے کا قصد کرنے اور ان کی بستیوں  کو الٹ دئیے جانے اور ان پر پتھروں  کی بارش ہونے میں  غور کر کے عبرت حاصل کرنے والوں  کے لیے نشانیاں  ہیں  جن کے ذریعے وہ حق کی حقیقت پر اِستدلال کر سکتے ہیں ۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۵، ۴ / ۴۸۰)

{وَ اِنَّهَا:اور بیشک وہ بستیاں  ۔} اس آیت میں  کفار کو تنبیہ کی گئی ہے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیاں  ملکِ شام کی طرف جانے والی گزرگاہ پر ہیں  اور لوگوں  کے قافلے وہاں  سے گزرتے ہیں  اور غضبِ الٰہی کے آثار اُن کے دیکھنے میں  آتے ہیں  تو کیا وہ ان سے عبرت حاصل نہیں  کرتے۔(جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۲۱۴، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۵۸۶، ملتقطاً)

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً:بیشک اس میں  نشانیاں  ہیں ۔} یعنی ان بستیوں  کے آثار جو کہ وہاں  سے گزرنے والوں  کے مشاہدے میں  آتے ہیں ، ان میں  اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں  کے لئے نشانیاں  ہیں  کہ وہ انہیں  دیکھ کر پہچان جاتے ہیں  کہ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں  بلکہ جس عذاب کی وجہ سے ان کے شہر اجڑ گئے وہ ان کے برے کاموں  کی وجہ سے ان پر آیا تھا۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۷،۴ / ۴۸۰)اس سے معلوم ہوا کہ ایمان اور دین ، عقل اور فراست اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اس سے تقویٰ اور طہارت نصیب ہوتی ہے۔ بے عقل ،غافل اور کافر ایسے واقعات کو اتفاقی یا آسمانی تاثیرات سے مانتا ہے جیسا کہ آج بھی دیکھا جا رہا ہے، لیکن عقلمند مومن ان کو مخلوق کی بد عملی کا نتیجہ جان کر دل میں  اللّٰہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرتا ہے۔

15:76
وَ اِنَّهَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ(۷۶)
اور بیشک وہ بستی اس راہ پر ہے جو اب تک چلتی ہے، (ف۸۱)

15:77
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَؕ(۷۷)
بیشک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کو،

15:78
وَ اِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَیْكَةِ لَظٰلِمِیْنَۙ(۷۸)
اور بیشک جھاڑی والے ضرور ظالم تھے، ف۸۲)

{وَ اِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَیْكَةِ:اور بیشک کثیر درختوں  والی جگہ کے رہنے والے۔} اس آیت میں  ’’ اَصْحٰبُ الْاَیْكَةِ‘‘ سے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم مراد ہے۔ اَیْکَہ جھاڑی کو کہتے ہیں  ،ان لوگوں  کا شہر چونکہ سرسبز جنگلوں  اور مَرغْزاروں  کے درمیان تھا اس لئے انہیں  جھاڑی والا فرمایا گیا اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان پر رسول بنا کر بھیجا اوران لوگوں نے نافرمانی کی اور حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایاتو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  ہلاک کر دیا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۱۰۷، ملخصاً)ان کا واقعہ سورۂ شعراء میں  بھی مذکور ہے ۔

{فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ:تو ہم نے ان سے انتقام لیا ۔} یعنی ہم نے عذاب بھیج کر انہیں  ہلاک کر دیااور بیشک  قومِ لوط کے اور اصحابِ اَیْکَہکے شہر صاف راستے پر ہیں  جہاں  سے آدمی گزرتے اور دیکھتے ہیں  تو اے اہلِ مکہ !تم اُنہیں  دیکھ کر کیوں  عبرت حاصل نہیں  کرتے۔ (جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۲۱۴، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۱۰۷، ملتقطاً)

15:79
فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْۘ-وَ اِنَّهُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِیْنٍؕ۠(۷۹)
تو ہم نے ان سے بدلہ لیا (ف۸۳) اور بیشک دونوں بستیاں (ف۸۴) کھلے راستہ پر پڑتی ہیں، (ف۸۵)

15:80
وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۸۰)
اور بیشک حجر والو ں نے رسولوں کو جھٹلایا (ف۸۶)

{وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ:اور بیشک حجر والو ں  نے جھٹلایا۔} حِجْرمدینہ منورہ اور شام کے درمیان ایک وادی ہے جس میں  قومِ ثمود رہتے تھے ، انہوں  نے اپنے پیغمبر حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تکذیب کی اور ایک رسول عَلَیْہِ السَّلَام کی تکذیب تمام رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تکذیب ہے کیونکہ ہر رسول تمام رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے تو جس نے کسی ایک رسولعَلَیْہِ السَّلَام کو جھٹلایا تو گویا کہ اس نے تمام رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۵۸۶)

          نوٹ: قومِ ثمود کے واقعات تفصیل کے ساتھ سورۂ اَعراف اور سورۂ ہود میں  گزر چکے ہیں ۔

{وَ اٰتَیْنٰهُمْ اٰیٰتِنَا:اور ہم نے انہیں  اپنی نشانیاں  دیں ۔} یعنی ہم نے قومِ ثمود کو اپنی نشانیاں  دیں  کہ پتھر سے اونٹنی پیدا کی جو بہت سے عجائبات پر مشتمل تھی مثلاً اس کا جسم بڑا ہونا، پیدا ہوتے ہی بچہ جننا اور کثرت سے دودھ دینا کہ پوری قومِ ثمود کو کافی ہو وغیرہ ، یہ سب حضرت صالحعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے معجزات اور قومِ ثمود کے لئے ہماری نشانیاں  تھیں  تو وہ ان نشانیوں  سے اِعراض کرتے رہے اور ایمان نہ لائے ۔(تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۱، ۷ / ۱۵۷، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۵۸۶، ملتقطاً)

{وَ كَانُوْا یَنْحِتُوْنَ:اور وہ تراشتے تھے ۔} یعنی وہ لوگ بے خوف ہو کرپہاڑوں  میں  تراش تراش کر گھر بناتے تھے  کیونکہ انہیں  اس کے گرنے اور اس میں  نقب لگائے جانے کا اندیشہ نہ تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ گھر تباہ نہیں  ہوسکتے ،ان پر کوئی آفت نہیں  آسکتی۔(مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۵۸۶)

{فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ:تو انہیں  زور دار چیخ نے پکڑ لیا ۔} جب قومِ ثمود نے اونٹنی کی کونچیں  کاٹیں  تو حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بتائے ہوئے تین دن گزرنے کے بعد صبح ہوتے ہی قومِ ثمود کو آسمان سے ایک زور دار چیخ سنائی دی اور زمین میں  زلزلہ ا ٓگیا، یوں  ان سب کو ہلاک کر دیا گیا۔ (صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۳، ۳ / ۱۰۵۰، ملخصاً)

{فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ:تو ان کے کچھ کام نہ آئی۔} یعنی وہ لوگ شرک اور جو برے کام کرتے تھے وہ ان کے کچھ کام نہ آئے اور اُن کے مال و متا ع اور اُن کے مضبوط مکان انہیں  عذاب سے نہ بچاسکے۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۱۰۷، جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۲۱۴، ملتقطاً)

عذاب کی جگہ پر روتے ہوئے داخل ہونا:

            حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیوں  کے آثار عرب کی سر زمین میں  آج بھی موجود ہیں  اور وہاں  وہ جگہ ’’مداینِ صالح‘‘ کے نام سے معروف ہے ،آج بھی لوگ ان آثارکو دیکھنے جاتے ہیں  ، بطورِ خاص ان کی ترغیب کے لئے اور عمومی طور پر سب مسلمانوں  کی ترغیب کے لئے یہاں  ایک حدیث پاک ذکر کرتے ہیں  ،چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  ’نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب مقامِ حِجر کے پاس سے گزرے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ظالموں  کے مکانات میں  روتے ہوئے داخل ہو نا، ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہ عذاب آجائے جو ان پر آیا تھا۔ پھر سوار ی پر بیٹھے ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے چہرۂ انور پر چادر ڈال لی۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی: والی ثمود اخاہم صالحاً، ۲ / ۴۳۲، الحدیث: ۳۳۸۰)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْحِجْر
اَلْحِجْر
  00:00



Download

اَلْحِجْر
اَلْحِجْر
  00:00



Download