READ

Surah Al-Hijr

اَلْحِجْر
99 Ayaat    مکیۃ


15:81
وَ اٰتَیْنٰهُمْ اٰیٰتِنَا فَكَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَۙ(۸۱)
اور ہم نے ان کو اپنی نشانیاں دیں (ف۸۷) تو وہ ان سے منہ پھیرے رہے، (ف۸۸)

15:82
وَ كَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ(۸۲)
اور وہ پہاڑوں میں گھر تراشتے تھے بے خوف (ف۸۹)

15:83
فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُصْبِحِیْنَۙ(۸۳)
تو انہیں صبح ہوتے چنگھاڑ نے آلیا (ف۹۰)

15:84
فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَؕ(۸۴)
تو ان کی کمائی کچھ ان کے کام نہ آئی (ف۹۱)

15:85
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-وَ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ(۸۵)
اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے عبث نہ بنایا، اور بیشک قیامت آنے والی ہے (ف۹۲) تو تم اچھی طرح درگزر کرو، ف۹۳)

{اِلَّا بِالْحَقِّ:مگر حق کے ساتھ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو اللّٰہ تعالیٰ نے بامقصد اور حکمت سے بھرپور بنایا ہے اور بیشک قیامت آنے والی ہے ،اس میں  ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا ضرور ملے گی تو اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم سے اچھی طرح درگزر کریں  اور اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں  پر صبر و تحمل کریں  اور ان کی خطاؤں  سے درگزر کریں ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حکم آیتِ قتال سے مَنسوخ ہوگیا اور دوسرا قول یہ ہے کہ منسوخ نہیں  ہوا۔ (جلالین مع صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۱۰۵۰، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۱۰۸، ملقتطاً)

 اَذِیَّتیں  پہنچانے والوں  کے ساتھ نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا سلوک:

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں  سے متعلق حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میںاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جتنا ڈرایا گیا ہوں  اتنا کوئی نہیں  ڈرایا گیا اور میںاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں  جتنا ستایا گیا ہوں اتنا کوئی نہیں  ستایا گیا۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۳۴-باب، ۴ / ۲۱۳، الحدیث: ۲۴۸۰)اوران کی اذیتوں  کے مقابلے میں  سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اَخلاق، بردباری اور عفو و درگزر کا عظیم مظاہرہ ملاحظہ کیجئے ،چنانچہ علامہ عبد المصطفٰیٰ اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’اُس (خطاب )کے بعد ( جو آپ نے فتحِ مکہ کے موقع پر مسلمانوں  اور کفار کے مجمع سے فرمایا تھا) شہنشاہِ کونین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اس ہزاروں  کے مجمع میں  ایک گہری نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ سرجھکائے، نگاہیں  نیچی کئے ہوئے لرزاں  و ترساں  اشرافِ قریش کھڑے ہوئے ہیں ۔ ان ظالموں  اور جفاکاروں میں  وہ لوگ بھی تھے جنہوں  نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکے راستوں  میں  کانٹے بچھائے تھے۔ وہ لوگ بھی تھے جو بارہا آپ پر پتھروں  کی بارش کرچکے تھے۔ وہ خونخوار بھی تھے جنہوں  نے بار بار آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ پر قاتلانہ حملے کئے تھے۔ وہ بے رحم و بے درد بھی تھے جنہوں  نے آپ کے دندانِ مبارک کو شہید اور آپ کے چہرۂ انور کو لہولہان کر ڈالا تھا۔ وہ اوباش بھی تھے جو برسہابرس تک اپنی بہتان تراشیوں  اورشرمناک گالیوں  سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے قلب مبارک کو زخمی کرچکے تھے۔ وہ سفاک و درندہ صفت بھی تھے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ کے گلے میں  چادر کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹ چکے تھے۔ وہ ظلم و ستم کے مجسمے اور پاپ کے پتلے بھی تھے جنہوں  نے آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا اور ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا۔ وہ آپ کے خون کے پیاسے بھی تھے جن کی تشنہ لبی اور پیاس خونِ نبوت کے سوا کسی چیز سے نہیں  بجھ سکتی تھی۔ وہ جفاکار و خونخوار بھی تھے جن کے جارحانہ حملوں  اور ظالمانہ یلغار سے بار بار مدینہ منورہ کے درو دیوار دہل چکے تھے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے چچا حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قاتل اور ان کی ناک، کان کاٹنے والے، ان کی آنکھیں  پھوڑنے والے، ان کا جگر چبانے والے بھی اس مجمع میں  موجود تھے وہ ستم گار جنہوں  نے شمعِ نبوت کے جاں  نثار پروانوں  حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت خبیب، حضرت زید بن دثنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم وغیرہ کو رسیوں  سے باندھ باندھ کر، کوڑے مار مار کرجلتی ہوئی ریتوں  پر لٹایا تھا، کسی کو آگ کے دہکتے ہوئے کوئلوں  پر سلایا تھا، کسی کو چٹائیوں  میں  لپیٹ لپیٹ کر ناکوں  میں  دھوئیں  دیئے تھے، سینکڑوں  بار گلا گھونٹا تھا۔ یہ تمام جوروجفا اور ظلم و ستمگاری کے پیکر، جن کے جسم کے رونگٹے رونگٹے اور بدن کے بال بال ظلم و عُدوان اور سرکشی و طغیان کے وبال سے خوفناک جرموں  اور شرمناک مظالم کے پہاڑ بن چکے تھے۔ آج یہ سب کے سب دس بارہ ہزار مہاجرین و انصار کے لشکر کی حراست میں  مجرم بنے ہوئے کھڑے کانپ رہے تھے اور اپنے دلوں  میں  یہ سوچ رہے تھے کہ شاید آج ہماری لاشوں  کو کتوں  سے نچوا کر ہماری بوٹیاں  چیلوں  اور کوؤں  کو کھلا دی جائیں  گی اور انصارو مہاجرین کی غضب ناک فوجیں  ہمارے بچے بچے کو خاک و خون میں  ملاکر ہماری نسلوں  کو نیست و نابود کر ڈالیں  گی اور ہماری بستیوں  کو تاخت و تاراج کرکے تہس نہس کر ڈالیں  گی، ان مجرموں  کے سینوں  میں  خوف وہراس کا طوفان اُٹھ رہا تھا۔ دہشت اور ڈر سے ان کے بدنوں  کی بوٹی بوٹی پھڑک رہی تھی، دل دھڑک رہے تھے، کلیجے منہ میں  آگئے تھے اور عالَمِ یاس میں  انہیں  زمین سے آسمان تک دھوئیں  ہی دھوئیں  کے خوفناک بادل نظر آرہے تھے۔ اسی مایوسی اور میں  وہ لوگ بھی تھے جنہوں  نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکے راستوں  میں  کانٹے بچھائے تھے۔ وہ لوگ بھی تھے جو بارہا آپ پر پتھروں  کی بارش کرچکے تھے۔ وہ خونخوار بھی تھے جنہوں  نے بار بار آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ پر قاتلانہ حملے کئے تھے۔ وہ بے رحم و بے درد بھی تھے جنہوں  نے آپ کے دندانِ مبارک کو شہید اور آپ کے چہرۂ انور کو لہولہان کر ڈالا تھا۔ وہ اوباش بھی تھے جو برسہابرس تک اپنی بہتان تراشیوں  اورشرمناک گالیوں  سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے قلب مبارک کو زخمی کرچکے تھے۔ وہ سفاک و درندہ صفت بھی تھے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ کے گلے میں  چادر کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹ چکے تھے۔ وہ ظلم و ستم کے مجسمے اور پاپ کے پتلے بھی تھے جنہوں  نے آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا اور ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا۔ وہ آپ کے خون کے پیاسے بھی تھے جن کی تشنہ لبی اور پیاس خونِ نبوت کے سوا کسی چیز سے نہیں  بجھ سکتی تھی۔ وہ جفاکار و خونخوار بھی تھے جن کے جارحانہ حملوں  اور ظالمانہ یلغار سے بار بار مدینہ منورہ کے درو دیوار دہل چکے تھے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے چچا حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قاتل اور ان کی ناک، کان کاٹنے والے، ان کی آنکھیں  پھوڑنے والے، ان کا جگر چبانے والے بھی اس مجمع میں  موجود تھے وہ ستم گار جنہوں  نے شمعِ نبوت کے جاں  نثار پروانوں  حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت خبیب، حضرت زید بن دثنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم وغیرہ کو رسیوں  سے باندھ باندھ کر، کوڑے مار مار کرجلتی ہوئی ریتوں  پر لٹایا تھا، کسی کو آگ کے دہکتے ہوئے کوئلوں  پر سلایا تھا، کسی کو چٹائیوں  میں  لپیٹ لپیٹ کر ناکوں  میں  دھوئیں  دیئے تھے، سینکڑوں  بار گلا گھونٹا تھا۔ یہ تمام جوروجفا اور ظلم و ستمگاری کے پیکر، جن کے جسم کے رونگٹے رونگٹے اور بدن کے بال بال ظلم و عُدوان اور سرکشی و طغیان کے وبال سے خوفناک جرموں  اور شرمناک مظالم کے پہاڑ بن چکے تھے۔ آج یہ سب کے سب دس بارہ ہزار مہاجرین و انصار کے لشکر کی حراست میں  مجرم بنے ہوئے کھڑے کانپ رہے تھے اور اپنے دلوں  میں  یہ سوچ رہے تھے کہ شاید آج ہماری لاشوں  کو کتوں  سے نچوا کر ہماری بوٹیاں  چیلوں  اور کوؤں  کو کھلا دی جائیں  گی اور انصارو مہاجرین کی غضب ناک فوجیں  ہمارے بچے بچے کو خاک و خون میں  ملاکر ہماری نسلوں  کو نیست و نابود کر ڈالیں  گی اور ہماری بستیوں  کو تاخت و تاراج کرکے تہس نہس کر ڈالیں  گی، ان مجرموں  کے سینوں  میں  خوف وہراس کا طوفان اُٹھ رہا تھا۔ دہشت اور ڈر سے ان کے بدنوں  کی بوٹی بوٹی پھڑک رہی تھی، دل دھڑک رہے تھے، کلیجے منہ میں  آگئے تھے اور عالَمِ یاس میں  انہیں  زمین سے آسمان تک دھوئیں  ہی دھوئیں  کے خوفناک بادل نظر آرہے تھے۔ اسی مایوسی اور ناامیدی کی خطرناک فضا میں  ایک دم شہنشاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی نگاہِ رحمت ان پاپیوں  کی طرف متوجہ ہوئی۔ اور ان مجرموں  سے آپ نے پوچھا کہ’’بولو! تم کو کچھ معلوم ہے کہ آج میں  تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں ؟‘‘ اس دہشت انگیز اور خوفناک سوال سے مجرمین حواس باختہ ہو کر کانپ اُٹھے لیکن جبینِ رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر اُمید و بیم کے محشر میں  لرزتے ہوئے سب یک زبان ہوکر بولے کہ اَخٌ کَرِیْمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں ۔‘‘ سب کی للچائی ہوئی نظریں  جمالِ نبوت کا منہ تک رہی تھیں  اور سب کے کان شہنشاہ ِنبوت کا فیصلہ کن جواب سننے کے منتظر تھے کہ اک دم دفعۃً فاتح مکہ نے اپنے کریمانہ لہجے میں  ارشاد فرمایا کہ’’لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ‘‘آج تم پر کوئی الزام نہیں ، جاؤ تم سب آزاد ہو۔

بالکل غیرمتوقع طور پر ایک دم اچانک یہ فرمانِ رسالت سن کر سب مجرموں  کی آنکھیں  فرطِ ندامت سے اشکبار ہوگئیں  اور ان کے دلوں  کی گہرائیوں  سے جذبات شکریہ کے آثار آنسوؤں  کی دھار بن کر ان کے رخسار پر مچلنے لگے اور کفار کی زبانوں  پر لَااِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے نعروں  سے حرمِ کعبہ کے درودیوار پر ہر طرف انوار کی بارش ہونے لگی۔ ناگہاں  بالکل ہی اچانک اور دفعۃً ایک عجیب انقلاب برپا ہوگیا کہ سماں  ہی بدل گیا، فضا ہی پلٹ گئی اور ایک دم ایسا محسوس ہونے لگا کہ

جہاں  تاریک تھا، بے نور تھا اور سخت کالا تھا

کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھر گھر میں  اجالا تھا

            کفار نے مہاجرین کی جائدادوں ، مکانوں ، دکانوں  پر غاصبانہ قبضہ جمالیا تھا۔ اب وقت تھا کہ مہاجرین کو ان کے حقوق دلائے جاتے اور ان سب جائدادوں ، مکانوں ، دکانوں  اور سامانوں  کو مکہ کے غاصبوں  کے قبضوں  سے واگزار کرکے مہاجرین کے سپرد کیے جاتے۔ لیکن شہنشاہِ رسالت نے مہاجرین کو حکم دے دیا کہ وہ اپنی کل جائدادیں  خوشی خوشی مکہ والوں  کو ہبہ کردیں ۔

            اللّٰہ اکبر! اے اقوامِ عالم کی تاریخی داستانو! بتاؤ کیا دنیا کے کسی فاتح کی کتابِ زندگی میں  کوئی ایسا حسین و زریں  ورق ہے؟ اے دھرتی! خدا کے لئے بتا، اے آسمان! لِلّٰہِ بول۔ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا فاتح گزرا ہے جس نے اپنے دشمنوں  کے ساتھ ایسا حسنِ سلوک کیا ہو؟ اے چاند اور سورج کی چمکتی اور دوربین نگاہو! کیا تم نے لاکھوں  برس کی گردشِ لیل و نہار میں  کوئی ایسا تاجدار دیکھا ہے؟ تم اس کے سوا اور کیا کہو گے کہ یہ نبی جمال و جلال کا وہ بے مثال شاہکار ہے کہ شاہانِ عالَم کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے۔ اس لئے ہم تمام دنیا کوچیلنج کے ساتھ دعوت نظارہ دیتے ہیں  کہ شاہانِ عالَم کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے۔ اس لئے ہم تمام دنیا کوچیلنج کے ساتھ دعوت نظارہ دیتے ہیں  کہ

چشمِ  اقوام  یہ  نظارہ  ابد  تک  دیکھے

رفعتِ  شانِ  رَفَعْنَا  لَکَ  ذِکْرَکَ  دیکھے

(سیرت مصطفٰی، تیرہواں  باب، ہجرت کا آٹھواں  سال، ص۴۳۸-۴۴۲)

15:86
اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ(۸۶)
بیشک تمہارا رب ہی بہت پیدا کرنے والا جاننے والا ہے (ف۹۴)

{اِنَّ رَبَّكَ:بیشک تمہارا رب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے جس رب نے آپ کو کمال کی انتہا تک پہنچایا وہی آپ کو،ان کفار کو اور تمام موجودات کو پیدا کرنے والا ہے اور وہ آپ کے اور ا ن کفار کے احوال کو تمام تر تفصیلات کے ساتھ جانتا ہے اور آپ کے اور ان کے درمیان ہونے والے معاملات میں  سے کچھ بھی اس سے پوشیدہ نہیں  ہے اس لئے آپ تمام امور میں  اسی پر توکل کریں  تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۶، ۴ / ۴۸۵)

15:87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ(۸۷)
اور بیشک ہم نے تم کو سات آیتیں دیں جو دہرائی جاتی ہیں (ف۹۵) اور عظمت والا قرآن،

{وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ:اور بیشک ہم نے تمہیں  سات آیتیں  دیں  جو بار بار دہرائی جاتی ہیں  ۔} اس سے پہلی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی اَذِیَّتوں  پر صبر کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے ان عظیم نعمتوں  کا ذکر فرمایا ہے جو اس نے صرف اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو عطا فرمائیں  کیونکہ انسان جب اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہوئی کثیر نعمتوں  کویاد کرتا ہے تو اس کے لئے اذیتیں  پہنچانے والوں  سے درگزر کرنا اور سختیوں  پرصبر کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۷، ۷ / ۱۵۸)

سَبع مَثانی سے کیا مراد ہے؟

            اس آیت میں  سات آیتوں  سے مراد سورۂ فاتحہ ہے، جیسا کہ صحیح بخاری کی اُس حدیث میں  ہے جوحضرت سعید بن معلیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ،(یعنی سورہ فاتحہ) ہی سبع مثانی اور قرآنِ عظیم (کے تمام علوم کی جامع) ہے جو مجھے عطا فرمایا گیا۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الفاتحۃ، باب ما جاء فی فاتحۃ الکتاب، ۳ / ۱۶۳، الحدیث: ۴۴۷۴)اور سنن ترمذی کی اُس حدیث میں  ہے جو حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰه (یعنی سورہ فاتحہ) اُمُّ القرآن، اُمُّ الکتاب اور سبع مثانی ہے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الحجر، ۵ / ۸۶، الحدیث: ۳۱۳۵)

 سورۂ فاتحہ کو مثانی کہنے کی وجوہات:

             سورۂ فاتحہ کو مثانی یعنی بار بار دہرائے جانے والی کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ سورہ فاتحہ نماز کی ہر رکعت میں  پڑھی جاتی ہے ا س لئے اسے مثانی فرمایا گیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ اللّٰہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان تقسیم کی گئی ہے، اس کے پہلے نصف میں  اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ہے اور دوسرے نصف میں  دعا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ سورت دو مرتبہ نازل ہوئی، پہلی بار مکہ میں  اور دوسری بار مدینہ میں ، اس لئے اسے مثانی یعنی بار بار نازل ہونے والی فرمایا گیا۔ (جلالین مع صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۷،۳ / ۱۰۵۰-۱۰۵۱)

شفا اور قوتِ حافظہ کا وظیفہ:

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں  ’’خواص القرآن میں  یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جب سورۂ فاتحہ کو پاک برتن میں  لکھا جائے اور پاک پانی سے اس لکھے ہوئے کو مٹایا جائے اور اس پانی سے مریض کا چہرہ دھویا جائے تو اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے اسے شفا مل جائے گی۔ اور جب سورۂ فاتحہ کو شیشے کے برتن میں  مشک سے لکھا جائے اور عرقِ گلاب سے اس لکھے ہوئے کو مٹایا جائے اور وہ پانی ایسے کُند ذہن کو سات دن تک پلایا جائے جسے کچھ یاد نہ رہتا ہو تو اس کی کند ذہنی ختم ہو جائے گی اور جو سنے گا وہ اسے یاد ہو جائے گا۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۷،۴ / ۴۸۸)

15:88
لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ(۸۸)
اپنی آنکھ اٹھاکر اس چیز کو نہ دیکھو جو ہم نے ان کے جوڑوں کو برتنے کو دی (ف۹۶) اور ان کا کچھ غم نہ کھاؤ (ف۹۷) اور مسلمانوں کو اپنی رحمت کے پروں میں لے لو، (ف۹۸)

{لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ:تم اپنی نگاہ نہ اٹھاؤ ۔} اس آیت کا  معنی یہ ہے کہ اے انبیاء کے سردار! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کو ایسی نعمتیں  عطا فرمائیں  جن کے سامنے دنیا کی نعمتیں  حقیر ہیں ، تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا کے مال و متاع سے مستغنی رہیں  جو یہود یوں  اور عیسائیوں  وغیرہ مختلف قسم کے کافروں  کو دیا گیا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۵۸۷، ملخصاً)

علامہ محمد بن یوسف اندلسی  رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’دنیا کے مال ومتاع کی طرف نظر کرنے کی ممانعت سے یہ ثابت نہیں  ہوتا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نظر کفار کے مال و دولت کی طرف تھی( تو اس سے منع کیا گیا بلکہ آپ ہمیشہ سے مالِ کفار سے مُجتنَب تھے تو اسی طرزِ عمل پر ثابت قدم رہنے کا فرمایا گیا ہے) اور اس آیت میں  خطاب اگرچہ نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ہے لیکن دنیا کے مال و متاع کی طرف نظر کرنے کی ممانعت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو ہے کیونکہ جسے قرآن کا علم دیا گیا تو ا س کی نظر دنیا کی رنگینیوں  کی طرف نہیں  بلکہ قرآن میں  غورو فکر کرنے، اس کے معانی سمجھنے اور اس میں  دئیے گئے احکامات کی تعمیل کرنے کی طرف ہونی چاہئے۔ (البحر المحیط، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۸، ۵ / ۴۵۲)

آیت ’’ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں ۔

(1)… مسلمان کو چاہیے کہ کافر اور کافر کے مال و متاع کو کبھی عز ت کی نگا ہ سے نہ دیکھے۔ حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تم کسی بدعمل پر کسی نعمت کی وجہ سے رشک نہ کرو کیونکہ تم نہیں  جانتے کہ مرنے کے بعد وہ کس چیز سے ملے گا، اس کے لیے اللّٰہ تعالیٰ کے پاس اذیت دینے والی  ایسی چیز یعنی جہنم کی آگ ہے جو فنا نہ ہو گی۔ (شرح السنۃ، کتاب ا لرقاق، باب النظر الی من ہو اسفل منہ، ۷ / ۳۲۴)

(2)… اہلِ علم حضرات کو چاہئے کہ وہ مالداروں  کے ساتھ اس طرح کا تعلق نہ رکھیں  کہ جس سے مالداروں کی نظر میں  ان کی حیثیت کم ہو اور مالدار انہیں  عزت کی نگاہ سے دیکھنا گوارا نہ کریں  بلکہ خود کو ان کے مال و دولت سے بے نیاز رکھیں  نیز قرآن پڑھ کر بھیک مانگنے والوں  کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے طرزِ عمل پر غور کریں ۔

{وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ:اور ان کا کچھ غم نہ کھاؤ۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ا س وجہ سے غمزدہ نہ ہوں  کہ وہ ایمان نہیں  لائے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرنے والوں  کی صف میں  شامل نہیں  ہوئے تاکہ ان کے ذریعے کمزور مسلمانوں  کو کچھ قوت حاصل ہوتی۔(ابوسعود، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۲۳۸)

{وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ:اور مسلمانوں  کیلئے اپنے بازو بچھا دو۔} یعنی ا ے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مسلمانوں  پر رحمت اور شفقت کرتے ہوئے ان کے سامنے تواضع فرمائیں  اور ان پر ا س طرح رحم فرمائیں  جس طرح پرندہ اپنے بچوں  پر اپنے پروں  کو بچھا دیتا ہے۔ (صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۱۰۵۱)

مسلمانوں  پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رحمت و شفقت:

تاجدارِ رسالتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مسلمانوں  پر رحمت و شفقت تو ایسی ہے کہ ا س کے بارے میں  خود رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں  سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں  پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں  پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔

یہ تو قرآنِ مجید سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مسلمانوں  پر رحمت و شفقت کا بیان ہو ا،اب مسلمانوں  پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت و شفقت کی چند مثالیں  ملاحظہ ہوں

(1)…امت کے کمزور، بیمار اور کام کاج کرنے والے لوگوں  کی مشقت کے پیشِ نظر عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مؤخر نہ فرمایا۔

(2)…کمزور اور بیمار لوگوں  اور بچوں  کا لحاظ کرتے ہوئے نماز کی قراء ت کو زیادہ لمبا نہ کرنے کا حکم دیا۔

(3)… رات کے نوافل پر ہمیشگی نہ فرمائی تاکہ یہ امت پر فرض نہ ہو جائیں ۔

(4)…امت کے مشقت میں  پڑ جانے کی وجہ سے انہیں  صومِ وصال کے روزے رکھنے سے منع کر دیا۔

(5)… امت کی مشقت کی وجہ سے ہر سال حج کو فرض نہ فرمایا۔

(6)…مسلمانوں  پر شفقت کرتے ہوئے طواف کے تین چکروں  میں  رَمل کا حکم دیا تمام چکروں  میں  نہیں  دیا۔

(7)…تاجدارِ رسالتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپوری پوری رات جاگ کر عبادت میں  مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کے دربار میں  انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرماتے رہتے، یہاں  تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پائے مبارک پر ورم آ جاتا تھا۔

15:89
وَ قُلْ اِنِّیْۤ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُۚ(۸۹)
اور فرماؤ کہ میں ہی ہوں صاف ڈر سنانے والا (اس عذاب سے)،

{وَ قُلْ:اور تم فرماؤ ۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مشرکین سے فرما دیں  کہ میں  ہی عذاب کا صاف ڈر سنانے والا ہوں  کہ سرکشی میں  تمہاری زیادتی کی وجہ سے کہیں  تم پر بھی ویسا ہی عذاب نازل نہ ہو جائے جیسا اللّٰہ تعالیٰ نے تقسیم کرنے والوں  پر نازل کیا۔ (تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۹-۹۰، ۷ / ۵۴۳)

{اَلَّذِیْنَ:جنہوں  نے۔ }تقسیم کرنے والوں  سے کون لوگ مراد ہیں ؟ اس بارے میں  مفسرین کے متعدد اقوال ہیں :

(1)…حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرما تے ہیں  کہ تقسیم کرنے والوں  سے یہودی اور عیسائی مراد ہیں ، کیونکہ انہوں  نے قرآنِ پاک کو دو حصوں  میں  تقسیم کردیا یعنی قرآنِ کریم کا جو حصہ اُن کی کتابوں  کے موافق تھا وہ اس پر ایمان لائے اور باقی کے منکر ہوگئے۔

(2)…حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ابن سائب کا قول ہے کہ بانٹنے والوں  سے کفارِ قریش مراد ہیں  ،ان میں  سے بعض کفار قرآن کو جادو، بعض کہانت اور بعض افسانہ کہتے تھے، اس طرح انہوں  نے قرآنِ کریم کے بارے میں  اپنے اقوال تقسیم کررکھے تھے ۔

(3)… ایک قول یہ ہے کہ بانٹنے والوں  سے وہ بارہ اَشخاص مراد ہیں  جنہیں  کفار نے مکہ مکرمہ کے راستوں  پر مقرر کیا تھا، حج کے زمانے میں  ہرہر راستہ پر ان میں  سے ایک ایک شخص بیٹھ جاتا تھااور وہ آنے والوں  کو بہکانے اور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مُنحرف کرنے کے لئے ایک ایک بات مقرر کرلیتا تھا کہ کوئی آنے والوں  سے یہ کہتا تھا ’’ اُن کی باتوں  میں  نہ آنا کہ وہ جادو گر ہیں ، کوئی کہتا وہ کذّاب ہیں ، کوئی کہتا وہ مجنون ہیں ، کوئی کہتا وہ کاہن ہیں ، کوئی کہتا وہ شاعر ہیں ۔ یہ سن کر لوگ جب خانہ کعبہ کے دروازے پر آتے تو وہاں  ولید بن مغیرہ بیٹھا رہتا، اس سے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حال دریافت کرتے اور کہتے کہ ہم نے مکہ مکرمہ آتے ہوئے شہر کے کنارے اُن کی نسبت ایسا سنا۔ وہ کہہ دیتا کہ ٹھیک سنا ۔اس طرح مخلوق کو بہکاتے اور گمراہ کرتے، ان لوگوں  کو اللّٰہ تعالیٰ نے ہلاک کیا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۰۹-۱۱۰، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۵۸۷، خزائن العرفان، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۴۹۸، ملتقطاً)

عذاب کی تشبیہ سے متعلق ایک اعتراض کا جواب:

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس مقام پر ایک اعتراض قائم کر کے اس کا جواب دیا ہے ،وہ اعتراض یہ ہے کہ جس عذاب سے ڈرایا گیا ہے اسے کسی ا یسی چیز کے ساتھ تشبیہ دینی چاہئے کہ جو واقع ہو چکی ہو تاکہ اس کے ذریعے نصیحت حاصل ہو حالانکہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت تک تو تقسیم کرنے والوں  پر کوئی عذاب نازل نہیں  ہو اتھا ۔ اس کے جواب میں  فرماتے ہیں  ’’یہاں  عذاب کو اس چیز کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کا واقع ہونا یقینی تھاتو یہ گویا کہ ایسے ہے جیسے واقع ہو گیا اور غزوۂ بدر کے دن اس کا وقوع ہو گیاتھا لہٰذا یہاں  تقسیم کرنے والوں  کے عذاب کے ساتھ ا س عذاب کو تشبیہ دینا درست ہے جس سے ڈرایا گیا ہے۔ (صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۰۵۱، ملخصاً)

15:90
كَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِیْنَۙ(۹۰)
جیسا ہم نے بانٹنے والوں پر اتارا،

15:91
الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ(۹۱)
جنہوں نے کلامِ الٰہی کو تکے بوٹی کرلیا، ف۹۹)

15:92
فَوَرَبِّكَ لَنَسْــٴَـلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۹۲)
تو تمہارے رب کی قسم ہم ضرور ان سب سے پوچھیں گے، (ف۱۰۰)

{فَوَرَبِّكَ:تو تمہارے رب کی قسم ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے رب عَزَّوَجَلَّکی قسم! ہم قیامت کے دن مُقْتَسِمِینسے ان کے ا س عمل اور دیگر تمام گناہوں  کے بارے میں  ضرور پوچھیں  گے ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی قسم! ہم قیامت کے دن تما م مُکَلِّفین سے ان کے ایمان ،کفر اور دیگر تمام اعمال کے بارے میں  پوچھیں  گے۔ (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۲، ۷ / ۱۶۴، ملخصاً)

15:93
عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۹۳)
جو کچھ وہ کرتے تھے، (ف۱۰۱)

15:94
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ(۹۴)
تو اعلانیہ کہہ دو جس بات کا تمہیں حکم ہے (ف۱۰۲) اور مشرکوں سے منہ پھیر لو، ف۱۰۳)

{فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ:پس وہ بات اعلانیہ کہہ دو جس کا آپ کو حکم دیا جارہاہے۔} اس آیت میں  سرکارِ دو عالَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو رسالت کی تبلیغ اور اسلام کی دعوت کے اِظہار کا حکم دیا گیا ۔ عبداللّٰہبن عبیدہ کا قول ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت تک دعوتِ اسلام اعلان کے ساتھ نہیں  کی جاتی تھی۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۱۱۰)

 اسلام کی دعوت دینے کے مراحل:

           اعلانِ نبوت کے بعد تین برس تک حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انتہائی پوشیدہ طور پر اور نہایت رازداری کے ساتھ تبلیغِ اسلام کا فرض ادا فرماتے رہے اور اس درمیان میں  عورتوں  میں  سب سے پہلے حضرت خدیجہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہااور آزاد مردوں  میں  سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور لڑکوں  میں  سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور غلاموں  میں  سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایمان لائے۔ تین برس کی اس خفیہ دعوتِ اسلام میں  مردوں  اور عورتوں  کی ایک تعداد اسلام قبول کر کے سیدُ المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دامنِ اقدس سے وابستہ ہو گئی۔ (المواہب،ذکر اوّل من آمن باللّٰہ ورسولہ، ۱ / ۴۵۴-۴۵۵، ۴۶۰-۴۶۱، ملخصاً)  اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سورۂ شعراء کی آیت ’’وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ‘‘ نازل فرمائی اور حکم دیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنے قریبی خاندان والوں  کو اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرائیے۔ چنانچہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک دن کوہِ صفا کی چوٹی پر چڑھ کر قبیلہ قریش کو پکارا۔ جب سب قریش جمع ہو گئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر میں  تم لوگوں  سے یہ کہہ دوں  کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر چھپا ہوا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ میری بات کا یقین کر لو گے؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں ! ہاں ! ہم یقینا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات کا یقین کر لیں  گے کیونکہ ہم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہمیشہ سچا (اور امین) ہی پایا ہے۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ تو پھر میں  یہ کہتا ہوں  کہ میں  تم لوگوں  کو عذابِ الٰہی سے ڈرا رہا ہوں  اور اگر تم لوگ ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر اللّٰہ تعالیٰ کا عذاب اتر پڑے گا۔ یہ سن کر تمام قریش جن میں  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا چچا ابو لہب بھی تھا، سخت ناراض ہو ا اور سب کے سب چلے گئے اور حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شان میں  اول فول بکنے لگے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الشعرائ، باب ولا تخزنی یوم یبعثون، ۳ / ۲۹۴، الحدیث: ۴۷۷۰) اب وہ وقت آگیا کہ اعلانِ نبوت کے چوتھے سال سورئہ حجر کی آیت’’ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ‘‘ نازل فرمائی اور اللّٰہ تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا کہ اے حبیب! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس کو علی الاعلان بیان فرمائیے۔ چنانچہ اس کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَعلانیہ طور پر دینِ اسلام کی تبلیغ فرمانے لگے اور شرک و بت پرستی کی کھلم کھلا برائی بیان فرمانے لگے اور تمام قریش (بلکہ تمام اہلِ مکہ بلکہ پورا عرب) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا اور حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں  کی ایذا رسانیوں  کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ (المواہب، ذکر اوّل من آمن باللّٰہ ورسولہ، ۱ / ۴۶۱-۴۶۲)

{وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ:اور مشرکوں  سے منہ پھیر لو۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنا دین ظاہر کرنے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّکی رسالت کی تبلیغ کرنے پر مشرکوں  کی طرف سے ملامت کرنے کی پروا ہ نہ کریں  اور اُن کی طرف متوجہ نہ ہوں  اور ان کے اِستہزا کا غم نہ کریں ۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۱۱۰)

 

 

15:95
اِنَّا كَفَیْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِیْنَۙ(۹۵)
بیشک ان ہنسنے والوں پر ہم تمہیں کفا یت کرتے ہیں (ف۱۰۴)

{اِنَّا كَفَیْنٰكَ:بیشک ہم تمہیں  کافی ہوں  گے۔} کفارِ قریش کے پانچ سردار (1) عاص بن وائل سہمی (2) اسودبن مُطَّلِب (3) اسود بن عبدیغوث (4) حارث بن قیس اور ان سب کا افسر (5) ولید ا بنِ مغیرہ مخزومی ، یہ لوگ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت ایذا دیتے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا مذاق اڑایا کرتے تھے، اسودبن مُطَّلِب کے خلاف حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے دعا کی تھی کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، اس کو اندھا کردے۔ ایک روز تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجدِ حرام میں  تشریف فرما تھے کہ یہ پانچوں  آئے اور انہوں  نے حسبِ دستور طعن اور مذاق کے کلمات کہے اور طواف میں  مشغول ہوگئے۔ اسی حال میں  حضرت جبریل امینعَلَیْہِ السَّلَام حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  پہنچے اور انہوں  نے ولیدبن مغیرہ کی پنڈلی کی طرف اور عاص کے قدموں  کی طرف اور اسود بن مطلب کی آنکھوں کی طرف اور اسود بن عبدیغوث کے پیٹ کی طرف اور حارث بن قیس کے سر کی طرف اشارہ کیا اور کہا میں  ان کا شردفع کروں  گا۔ چنانچہ تھوڑے عرصہ میں  یہ ہلاک ہوگئے ،ولید بن مغیرہ تیر فروش کی دوکان کے پاس سے گزرا تو اس کے تہہ بند میں  ایک تیر کی نوک چبھ گئی ، لیکن اُس نے تکبر کی وجہ سے اس کو نکالنے کے لئے سر نیچا نہ کیا، اس سے اس کی پنڈلی میں  زخم آیا اور اسی میں  مرگیا ۔ عاص بن وائل کے پاؤں  میں  کانٹا لگا اور نظر نہ آیا، اس سے پاؤں  ورم کرگیا اور یہ شخص بھی مرگیا ۔اسود بن مطلب کی آنکھوں  میں  ایسا درد ہوا کہ دیوار میں  سر مارتا تھا اسی میں  مرگیا اور یہ کہتا مَرا کہ مجھ کو محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے قتل کیا، اور اسود بن عبدیغوث کو ایک بیماری اِسْتِسْقَاء لگ گئی ، کلبی کی روایت میں  ہے کہ اس کو لُولگی اور اس کا منہ اس قدر کالا ہوگیا کہ گھر والوں  نے نہ پہچانا اور نکال دیا، اسی حال میں  یہ کہتا مرگیا کہ مجھ کو محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے رب عَزَّوَجَلَّ نے قتل کیا اور حارث بن قیس کی ناک سے خون اور پیپ جاری ہوا ،وہ اسی میں  ہلاک ہوگیا انہیں  کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۵، ۳ / ۱۱۱، بغوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۵، ۳ / ۴۸-۴۹، ملتقطاً)

 

15:96
الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۚ-فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(۹۶)
جو ا لله کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے ہیں تو اب جان جائیں گے، (ف۱۰۵)

15:97
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَۙ(۹۷)
اور بیشک ہمیں معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے تم دل تنگ ہوتے ہو، (ف۱۰۶)

{وَ لَقَدْ نَعْلَمُ:اور بیشک ہمیں  معلوم ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک ہمیں  معلوم ہے کہ آپ کی قوم کے مشرکوں  کا آپ کو جھٹلانے ،آپ کا اور قرآن کا مذاق اڑانے کی وجہ سے آپ کو ملال ہوتا ہے، تو آپ اپنے ربعَزَّوَجَلَّ کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کریں  اور سجدہ کرنے والوں  میں  سے ہوجائیں  کیونکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرنے والوں  کے لئے تسبیح اور عبادت میں  مشغول ہونا غم کا بہترین علاج ہے۔(تفسیرطبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۷-۹۸، ۷ / ۵۵۳، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۷-۹۸، ص۵۸۸، ملتقطاً)

غم کا بہترین علاج:

اس سے معلوم ہوا کہ غمگین شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے غم دور کرنے کیلئے اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس بیان کرنے اور اس کی عبادت کرنے میں  مشغول ہوجائے، اس سے اِنْ شَآءَ اللّٰہ اس کا غم دور ہو جائے گا۔ حدیث شریف میں  ہے، حضرت حذیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کوئی اہم واقعہ پیش آتا تو نماز میں  مشغول ہوجاتے۔(ابوداؤد، کتاب التطوع، باب وقت قیام النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من اللیل، ۲ / ۵۲، الحدیث: ۱۳۱۹)

اور حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:جس نے صبح اور شام سات مرتبہ یہ کہا’’حَسْبِیَ اللّٰہُ لَا اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم‘‘تو اللّٰہ تعالیٰ اس چیز میں  اسے کافی ہو گا جس کا اس نے ارادہ کیا۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب ما یقول اذا اصبح، ۴ / ۴۱۶، الحدیث: ۵۰۸۱)

15:98
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَۙ(۹۸)
تو اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو اور سجدہ والوں میں ہو، (ف۱۰۷)

15:99
وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۠(۹۹)
اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں رہو،

{وَ اعْبُدْ رَبَّكَ:اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب تک موت آپ کی بارگاہ میں  حاضر نہیں  ہو جاتی اس وقت تک آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّکی عبادت میں  مصروف رہیں ۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۱۱۲)

کوئی بندہ عبادت سے بے نیاز نہیں  ہو سکتا:

            اس سے معلوم ہوا کہ بندہ خواہ کتنا ہی بڑا ولی بن جائے وہ عبادات سے بے نیاز نہیں  ہوسکتا۔ جب سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو آخری دم تک عبادت کرنے کا حکم دیا گیا، تو ہم کیا چیز ہیں ۔ اس سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اپنے آپ کو بڑے بلند مقام و مرتبہ پر فائز سمجھ کر عبادات کے معاملے میں  خود کو بے نیاز جانتے ہیں ، انہیں  غور کرنا چاہئے کہ وہ کہیں  شیطان کے خفیہ اور خطرناک وار کا شکار تو نہیں  ہو گئے کیونکہ شیطان نے ایسے واروں  کے ذریعے بڑے بڑے مشائخ کو گمراہ کیا ہے اور اسی وار کے ذریعے اس نے ولیوں  کے سردار، حضور غوث ِ پاک، شیخ عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکو بھی بہکانے کی کوشش کی ہے ، چنانچہ حضرت شیخ ابو نصرموسیٰ بن شیخ عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ میرے والدنے ارشاد فرمایا: میں  اپنے ایک سفر میں  صحرا کی طرف نکلا اور چند دن وہاں  ٹھہرا مگر مجھے پانی نہیں  ملتا تھا، جب مجھے پیاس کی سختی محسوس ہوئی تو ایک بادل نے مجھ پر سایہ کیا اور اُس میں  سے مجھ پر بارش کے مشابہ ایک چیز گری ، میں  اس سے سیراب ہوگیا، پھرمیں  نے ایک نور دیکھا جس سے آسمان کا کنارہ روشن ہوگیا اور ایک شکل ظاہر ہوئی جس سے میں  نے ایک آواز سنی: اے عبدالقادر! میں  تیرا رب ہوں  اور میں  نے تم پر حرام چیزیں  حلال کر دی ہیں  ، تو میں  نے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھ کرکہا ’’اے شیطان لعین !دور ہو جا۔ توروشن کنارہ اندھیرے میں  بدل گیا اور وہ شکل دھواں  بن گئی، پھر اس نے مجھ سے کہا: اے عبدالقادر! تم مجھ سے اپنے علم، اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم اور اپنے مراتب کے سلسلے میں  سمجھ بوجھ کے ذریعے نجات پاگئے اور میں  نے ایسے 70 مشائخ کو گمراہ کر دیا ۔میں  نے کہا ’’یہ صرف میرے رب عَزَّوَجَلَّ کا فضل و احسان ہے ۔شیخ ابو نصرموسیٰ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے دریافت کیا گیا ،آپ نے کس طرح جانا کہ وہ شیطان ہے؟ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ارشاد فرمایا ’’اُس کی اِس بات سے کہ بے شک میں  نے تیرے لئے حرام چیزوں  کو حلال کر دیا۔‘‘(بہجۃالاسرار، ذکر شیء من اجوبتہ ممّا یدلّ علی قدم راسخ فی علوم الحقائق، ص ۲۲۸)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْحِجْر
اَلْحِجْر
  00:00



Download

اَلْحِجْر
اَلْحِجْر
  00:00



Download