READ

Surah Al-Anbiyaa

اَلْاَ نْبِيَآء
112 Ayaat    مکیۃ


21:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

21:1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ(۱)
لوگوں کا حساب نزدیک اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہیں (ف۲)

{ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ:لوگوں  کا حساب قریب آگیا۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے یہ آیت ان لوگوں  کے بارے میں  نازل ہوئی جو مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو نہیں  مانتے تھے۔دوسرا قول یہ ہے کہ اِس آیت میں  اگرچہ اُس وقت کفارِ قریش کی طرف اشارہ کیا گیاہے لیکن لفظ’’اَلنَّاسِ‘‘ میں  عموم ہے (اور اس سے تمام لوگ مراد ہیں ۔)نیزیہاں  قیامت کے دن کو گزرے ہوئے زمانہ کے اعتبار سے قریب فرمایا گیاکیونکہ جتنے دن گزرتے جاتے ہیں  آنے والا دن قریب ہوتا جاتا ہے ۔

            اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں  نے دنیا میں  جو بھی عمل کئے ہیں  اور ان کے بدنوں ، ان کے جسموں ، ان کے کھانے پینے کی چیزوں  اور ان کے ملبوسات میں  اور ان کی دیگر ضروریات پوری کرنے کے لئے  اللہ تعالیٰ نے انہیں  جو بھی نعمتیں  عطا کی ہیں ، ان کے حساب کا وقت(روزِقیامت) قریب آ گیا ہے اوراس وقت ان سے پوچھا جائے گا کہ ان نعمتوں  کے بدلے میں  انہوں  نے کیا عمل کئے،آیا انہوں  نے  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور ا س کے دئیے ہوئے حکم پر عمل کیا اور جس چیز سے اس نے منع کیا اس سے رک گئے یا انہوں  نے  اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی ،اس سنگین صورتِ حال کے باوجود لوگوں  کی غفلت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کئے جانے سے اور قیامت کے دن پیش آنے والی عظیم مصیبتوں  اور شدید ہولناکیوں  سے بے فکر ہیں  اور اس کے لئے تیاری کرنے سے منہ پھیرے ہوئے ہیں  اورانہیں  اپنے انجام کی کوئی پرواہ نہیں ۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۲۷۰-۲۷۱، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱، ص۷۰۹، تفسیر طبری، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱، ۹ / ۳، ملتقطاً)

اُخروی حساب سے غفلت کے معاملے میں  کفار کی روش اور مسلمانوں  کا حال :

            یہاں  اگرچہ کفار کی روش کو بیان کیا گیا ہے لیکن افسوس !فی زمانہ مسلمانوں  میں  بھی قیامت کے دن اپنے اعمال کے حساب سے غفلت بہت عام ہو چکی ہے اور آج انہیں  بھی جب نصیحت کی جاتی ہے اورموت کی تکلیف، قبر کی تنگی، قیامت کی ہولناکی، حساب کی سختی اور جہنم کے دردناک عذاب سے ڈرایا جاتا ہے تو یہ عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی بجائے منہ پھیر کر گزر جاتے ہیں ، حالانکہ مسلمان کی یہ شان نہیں  کہ وہ ایسا طرزِ عمل اختیار کرے جو کافروں  اور مشرکوں  کا شیوہ ہو۔

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اے انسان! تجھے اپنے کریم رب عَزَّوَجَلَّکے بارے میں  کس چیز نے دھوکے میں  ڈال رکھا ہے کہ تو دروازے بند کرکے،پردے لٹکاکر اور لوگوں  سے چھپ کر فسق و فجور اور گناہوں  میں  مبتلا ہوگیا! (تو لوگوں  کے خبردار ہونے سے ڈرتا ہے حالانکہ تجھے پیدا کرنے والے سے تیرا کوئی حال چھپا ہوا نہیں ) جب تیرے اَعضا تیرے خلاف گواہی دیں  گے (اور جو کچھ تو لوگوں  سے چھپ کر کرتا رہا وہ سب ظاہر کر دیں  گے) تو اس وقت تو کیا کرے گا۔ اے غافلوں  کی جماعت ! تمہارے لئے مکمل خرابی ہے،  اللہ تعالیٰ تمہارے پاس سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو بھیجے اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر روشن کتاب نازل فرمائے (جس میں  ہر چیز کی تفصیل موجود ہے)اور تمہیں  قیامت کے اوصاف کی خبر دے، پھر تمہاری غفلت سے بھی تمہیں  آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمائے کہ : ’’اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ(۱) مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ(۲) لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ‘‘(انبیاء:۱-۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: لوگوں  کا حساب قریب آگیااور وہ غفلت  میں  منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔ جب ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے کھیلتے ہوئے ہی سنتے ہیں ۔ ان کے دل کھیل میں  پڑے ہوئے ہیں ۔

            پھر وہ ہمیں  قیامت قریب ہونے کے بارے میں  بتاتے ہوئے ارشادفرمائے کہ

’’اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ‘‘(قمر)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔

اور ارشادفرمائے کہ

’’ اِنَّهُمْ یَرَوْنَهٗ بَعِیْدًاۙ(۶) وَّ نَرٰىهُ قَرِیْبًا‘‘(معارج۶،۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ اسے دور سمجھ رہے ہیں ۔اور ہماسے قریب دیکھ رہے ہیں ۔

            اور ارشاد فرمائے کہ:

’’ وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا‘‘(احزاب:۶۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تم کیا جانو شاید قیامت قریب ہی ہو۔

            اس کے بعد تمہاری سب سے اچھی حالت تو یہ ہونی چاہئے کہ تم اس قرآنِ عظیم کے دئیے درس پر عمل کرو، لیکن اس کے برعکس تمہارا حا ل یہ ہے کہ تم اس قرآن کے معانی میں  غوروفکر نہیں  کرتے اور روزِ قیامت کے بے شمار اَوصاف اور ناموں  کو (عبرت کی نگاہ سے) نہیں  دیکھتے اور اس دن کی مصیبتوں  سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوشش نہیں  کرتے۔ ہم اس غفلت سے  اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں  (اور دعا کرتے ہیں  کہ)  اللہ تعالیٰ اپنی وسیع رحمت سے اس غفلت کو دور فرمائے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الثانی من کتاب ذکر الموت فی احوال المیت۔۔۔ الخ، صفۃ یوم القیامۃ ودواہیہ واسامیہ، ۵ / ۲۷۶) اور ہر مسلمان کو اس فانی دنیا سے بے رغبت ہو کر نیک اعمال کی کثرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ترغیب کے لئے یہاں  دو حکایات ملاحظہ ہوں :

مجھے تمہاری جائیداد کی کوئی ضرورت نہیں :

            حضرت عامربن ربیعہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک عربی ان کے پاس آیا، آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے اس کانہایت اِکرام کیا اوراس کے متعلق حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کلام کیا۔ وہ شخص جب دوبارہ حضرت عامر بن ربیعہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے پاس آیا تواس نے کہا کہ میں  نے رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایک وادی طلب کی ہے جس سے بہتر عرب میں  کوئی وادی نہیں  ہے ۔میں  چاہتا ہوں  کہ تمہارے لیے اس میں  سے کچھ حصہ علیحدہ کردوں  جوتمہارے اورتمہاری اولا دکے کام آئے۔ حضرت عامربن ربیعہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے اس سے کہا کہ’’ ہمیں  تیری جائیداد کی کوئی ضرورت نہیں  ،کیونکہ آج ایک سورت نازل ہوئی ہے اس نے ہمیں  دنیا کی لذتیں  بھلا دی ہیں  (اوراس میں  یہ آیت ہے)’’ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ‘‘لوگوں  کا حساب قریب آگیا اور وہ غفلت میں  منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔( ابن عساکر، حرف العین، ذکر من اسمہ عامر، عامر بن ربیعۃ بن کعب بن مالک۔۔۔ الخ، ۲۵ / ۳۲۷)

جب حساب کا وقت قریب ہے تو یہ دیوار نہیں  بنے گی:

            ایک روایت میں  ہے کہ رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ میں  سے ایک صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُدیوار بنا رہے تھے، جس دن یہ سورت نازل ہوئی ا س دن ان کے پاس سے ایک شخص گزرا تو انہوں  نے اس سے پوچھا ’’ آج قرآن پاک میں  کیا نازل ہوا ہے ؟اس نے بتایا کہ یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ہے ’’ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ‘‘ لوگوں  کا حساب قریب آگیااور وہ غفلت میں  منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔ ‘‘ان صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے جب یہ سناتواسی وقت دیوار بنانے سے ہاتھ جھاڑ لیے اور کہا:  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !جب حساب کاوقت قریب آگیا ہے تو پھر یہ دیوار نہیں  بنے گی۔(قرطبی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۱۴۵، الجزء الحادی عشر)

              اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کی توفیق سے ہمارے دلوں  میں  بھی دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی فکر پیدا ہوجائے اور ہم بھی اپنی اُخروی زندگی بہتر سے بہتر بنانے کی کوششوں  میں  مصروف ہو جائیں ۔

 

 

21:2
مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ(۲)
جب ان کے رب کے پاس سے انہیں کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے نہیں سنتے مگر کھیلتے ہوئے، (ف۳)

{مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ:جب ان کے پاس کوئی نصیحت آتی ہے۔} یعنی جب  اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید میں  نصیحت آمیز کوئی ایسی آیت نازل ہوتی ہے جو انہیں  اعلیٰ طریقے سے اخروی حساب کی یاد دلائے اوراس سے غفلت کا شکار ہونے پر کامل طریقے سے تنبیہ کرے تو یہ اس میں  غورو فکر کر کے عبرت ونصیحت حاصل کرنے اور اپنی غفلت دور کرنے کی بجائے اسے کھیلتے اور مذاق مَسخری کرتے ہوئے ہی سنتے ہیں  اور آنے والے وقت کے لئے کچھ تیاری نہیں  کرتے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲، ۵ / ۴۵۲، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۲۷۱، ملتقطاً)

 

21:3
لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْؕ-وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى ﳓ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ﳓ هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْۚ-اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ(۳)
ان کے دل کھیل میں پڑے ہیں (ف۴) اور ظالموں نے آپس میں خفیہ مشورت کی (ف۵) کہ یہ کون ہیں ایک تم ہی جیسے آدمی تو ہیں (ف۶) کیا جادو کے پاس جاتے ہو دیکھ بھال کر،

{لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ:ان کے دل کھیل میں  پڑے ہوئے ہیں  ۔} دل کھیل میں  پڑے ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہیں  اور بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ جو دل دنیا کے احوال میں  مشغول اور آخرت کے احوال سے غافل ہو وہ کھیل میں  پڑ اہوا ہے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۷۱، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳، ۵ / ۴۵۲، ملتقطاً)

{ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى ﳓ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا:اور ظالموں  نے آپس میں  خفیہ مشورہ کیا ۔} ارشاد فرمایا کہ کافروں  نے آپس میں  خفیہ مشورہ کیا اور اسے چھپانے میں  بہت مبالغہ کیا مگر  اللہ تعالیٰ نے ان کا راز فاش کر دیا اور بیان فرما دیا کہ وہ رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  یوں  کہتے ہیں  کہ یہ تمہارے جیسے ایک آدمی ہی تو ہیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۷۱) یہ کفر کا ایک اصول تھا کہ جب یہ بات لوگوں  کے ذہن نشین کر دی جائے گی کہ وہ تم جیسے بشر ہیں  تو پھر کوئی ان پر ایمان نہ لائے گا۔ کفار یہ بات کہتے وقت جانتے تھے کہ ان کی بات کسی کے دل میں  جمے گی نہیں  کیونکہ لوگ رات دن معجزات دیکھتے ہیں ، وہ کس طرح باور کر سکیں  گے کہ حضورپُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہماری طرح بشر ہیں  اس لئے انہوں  نے معجزات کو جادو بتا دیا اور کہا کہ کیا تم خود دیکھنے اور جاننے کے باوجود جادو کے پاس جاتے ہو؟

21:4
قٰلَ رَبِّیْ یَعْلَمُ الْقَوْلَ فِی السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ٘-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۴)
نبی نے فرمایا میرا رب جانتا ہے آسمانوں اور زمین میں ہر بات کو، اور وہی ہے سنتا جانتا (ف۷)

{قٰلَ:نبی نے فرمایا۔} جب حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف کفار کے اقوال اور احوال کی وحی کی گئی تو اس کے بعد آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’کفار کی خفیہ باتوں  کو جاننا تو کچھ بھی نہیں  ، میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی شان تو یہ ہے کہ وہ آسمانوں  اور زمین میں  ہونے والی ہر بات کوجانتا ہے خواہ وہ پوشیدہ طور پر کہی گئی ہو یا اعلانیہ کہی گئی ہو اوراس سے کوئی چیز چھپ نہیں  سکتی خواہ وہ کتنے ہی پردے اور راز میں  رکھی گئی ہو اور وہی سننے والا جاننے والا ہے، تو وہی کفار کے اَقوال اور اَفعال کی انہیں  سزا دے گا۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴، ۵ / ۴۵۳)

21:5
بَلْ قَالُوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۭ بَلِ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ ۚۖ-فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ(۵)
بلکہ بولے پریشان خوابیں ہیں (ف۸) بلکہ ان کی گڑھت (گھڑی ہوئی چیز) ہے (ف۹) بلکہ یہ شاعر ہیں (ف۱۰) تو ہمارے پاس کوئی نشانی لائیں جیسے اگلے بھیجے گئے تھے (ف۱۱)

{بَلْ قَالُوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ:بلکہ کہا:جھوٹے خواب ہیں ۔} جب کافروں  کا راز ظاہر فرما دیا گیا تواس کے بعد انہیں  قرآنِ کریم سے سخت پریشانی اور حیرانی لاحق ہوگئی کہ اس کا کس طرح انکار کریں  کیونکہ یہ ایک ایسا روشن اور واضح معجزہ ہے جس نے تمام ملک کے مایہ ناز ماہروں  کو عاجزوحیرت زدہ کردیا ہے اور وہ اس کی دو چار آیتوں  کی مثل کلام بنا کر نہیں  لاسکے، اس پریشانی میں  اُنہوں  نے قرآنِ کریم کے بارے میں  مختلف قسم کی باتیں  کہیں  اور کہنے لگے : بلکہ نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَجو قرآن لائے ہیں  یہ جھوٹے خواب ہیں  اور ان کو نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی وحی سمجھ گئے ہیں  ۔ کفار نے یہ کہہ کر سوچا کہ یہ بات چسپاں  نہیں  ہو سکے گی تو اب اس کو چھوڑ کر کہنے لگے: بلکہ خود اس نبی نے اپنی طرف سے بنالیا ہے۔ یہ کہہ کر انہیں  خیال ہوا کہ لوگ کہیں  گے : اگر یہ کلام حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بنایا ہوا ہے اور تم انہیں  اپنے جیسا بشر بھی کہتے ہو تو تم ایسا کلام کیوں  نہیں  بنا سکتے؟ یہ خیال کر کے اس بات کو بھی چھوڑا اور کہنے لگے : بلکہ یہ شاعر ہیں  اور یہ کلام شعر ہے۔ الغرض کفار اسی طرح کی باتیں  بناتے رہے اور کسی ایک بات پر قائم نہ رہ سکے ۔ اب کفارنے سمجھا کہ ان باتوں  میں  سے کوئی بات بھی چلنے والی نہیں  ہے، تو کہنے لگے : اگر یہ نبی ہیں  تو ہمارے پاس کوئی نشانی لائیں  جیسے پہلے رسولوں  کو نشانیوں  کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔( البحر المحیط، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۲۷۶، قرطبی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۱۴۸، الجزء الحادی عشر، ملتقطاً)

اہلِ باطل اور جھوٹے کسی ایک بات پر قائم نہیں  رہتے:

اہلِ باطل اور جھوٹوں  کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک بات پر قائم نہیں  رہتے بلکہ ایک کے بعد دوسری اور دو سری کے بعد تیسری بات کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں  اور اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ بات کرنے کے بعد خود حیران ہوتے ہیں  کہ ہم نے کہہ کیا دیا ہے۔

21:6
مَاۤ اٰمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۚ-اَفَهُمْ یُؤْمِنُوْنَ(۶)
ان سے پہلے کوئی بستی ایمان نہ لائی جسے ہم نے ہلاک کیا، تو کیا یہ ایمان لائیں گے (ف۱۲)

{مَاۤ اٰمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْیَةٍ:ان سے پہلے جو بستی ایمان نہ لائی۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے کفار کی باتوں  کا رد فرمایا اور انہیں  جواب دیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں  کہ کفارِ مکہ سے پہلے لوگوں  نے بھی اپنے انبیاءِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نشانیوں  کا مطالبہ کیا اور نشانیاں  آنے کی صورت میں  ایمان لانے کا عہد کیا اور جب ان کے پاس وہ مطلوبہ نشانیاں  آئیں  تو وہ ان انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان نہ لائے اوران کی تکذیب کرنے لگے اور اس سبب سے ان کفار کو ہلاک کر دیا گیا تو کیا یہ کفارِ مکہ نشانی دیکھ کر ایمان لے آئیں  گے ؟حالانکہ اِن کی سرکشی اُن سے بڑھی ہوئی ہے۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶،ص۷۰۹)

21:7
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۷)
اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجے مگر مرد جنہیں ہم وحی کرتے (ف۱۳) تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو (ف۱۴)

{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ:اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی بھیجے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔} یہاں  کفارِ مکہ کے سابقہ کلام کا رد کیا جا رہا ہے کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بشری صورت میں  ظہور فرمانا نبوت کے منافی نہیں  کیونکہ نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے پہلے بھی ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کی طرف فرشتے کو رسول بنا کر نہیں  بھیجا بلکہ سابقہ قوموں  کے پاس بھی  اللہ تعالیٰ نے جو نبی اور رسول بھیجے وہ سب انسان اور مرد ہی تھے اور ان کی طرف  اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرشتوں  کے ذریعے احکامات وغیرہ کی وحی کی جاتی تھی اور جب  اللہ تعالیٰ کا دستور ہی یہ ہے تو پھر سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بشری صورت میں  ظہور فرمانے پر کیا اعتراض ہے۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۲۷۲، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۴۵۵، تفسیر کبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷، ۸ / ۱۲۲، ملتقطاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مرد تھے، کوئی عورت نبی نہ ہوئی۔

{فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ:تو اے لوگو! علم والوں  سے پوچھو اگر تم نہیں  جانتے۔} آیت کے اس حصے میں  کفارِ مکہ سے فرمایا گیا کہ اگر تمہیں  گزشتہ زمانوں  میں  تشریف لانے والے رسولوں  کے احوال معلوم نہیں  تو تم اہلِ کتاب کے ان علماء سے پوچھ لو جنہیں  ان کے احوال کا علم ہے ،وہ تمہیں  حقیقت ِ حال کی خبر دیں  گے۔( جلالین مع صاوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۱۲۹۱)

 شرعی معلومات نہ ہونے اور نہ لینے کے نقصانات:

            اس آیت میں  نہ جاننے والے کو جاننے والے سے پوچھنے کا حکم دیا گیا کیونکہ ناواقف کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں  کہ وہ واقف سے دریافت کرے اور جہالت کے مرض کا علاج بھی یہی ہے کہ عالم سے سوال کرے اور اس کے حکم پر عمل کرے اور جو اپنے اس مرض کا علاج نہیں  کرتا وہ دنیا و آخرت میں  بہت نقصان اٹھاتا ہے۔ یہاں  اس کے چند نقصانات ملاحظہ ہوں

(1)… ایمان ایک ایسی اہم ترین چیز ہے جس پر بندے کی اُخروی نجات کا دارومدار ہے اور ایمان صحیح ہونے کے لئے عقائد کا درست ہونا ضروری ہے، لہٰذا صحیح اسلامی عقائد سے متعلق معلومات ہونا لازمی ہے۔ اب جسے اُن عقائد کی معلومات نہیں  جن پر بندے کا ایمان درست ہونے کا مدار ہے تو وہ اپنے گمان میں  یہ سمجھ رہا ہو گا کہ میرا ایمان صحیح ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے اور اگر حقیقت بر عکس ہوئی اور حالت ِکفر میں  مر گیا تو آخرت میں  ہمیشہ کے لئے جہنم میں  رہنا پڑے گا اور ا س کے انتہائی دردناک عذابات  سہنے ہوں  گے۔

(2)…فرض و واجب اور دیگر عبادات کو شرعی طریقے کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے،اس لئے ان کے شرعی طریقے کی معلومات ہونا بھی ضروری ہے۔ اب جسے عبادات کے شرعی طریقے اوراس سے متعلق دیگر ضروری چیزوں  کی معلومات نہیں  ہوتیں  اور نہ وہ کسی عالم سے معلومات حاصل کرتا ہے تو مشقت اٹھانے کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں  ہوتا۔ جیسے نماز کے درست اور قابلِ قبول ہونے کے لئے ’’طہارت‘‘ ایک بنیادی شرط ہے اور جس کی طہارت درست نہ ہو تووہ اگرچہ برسوں  تک تہجد کی نما زپڑھتا رہے، پابندی کے ساتھ پانچوں  نمازیں  باجماعت ادا کرتا رہے اورساری ساری رات نوافل پڑھنے میں مصروف رہے، اس کی یہ تمام عبادات رائیگاں  جائیں  گی اور وہ ان کے ثواب سے محروم رہے گا۔

(3)…کاروباری، معاشرتی اور ازدواجی زندگی کے بہت سے معاملات ایسے ہیں  جن کے لئے شریعت نے کچھ اصول اور قوانین مقرر کئے ہیں  اور انہی اصولوں  پر اُن معاملات کے حلال یا حرام ہونے کا مدار ہے اور جسے ان اصول و قوانین کی معلومات نہ ہو اور نہ ہی وہ کسی سے ان کے بارے میں  معلومات حاصل کرے تو حلال کی بجائے حرام میں  مبتلا ہونے کا چانس زیادہ ہے اور حرام میں  مبتلا ہونا خود کو  اللہ تعالیٰ کے عذاب کا حقدار ٹھہرانا ہے۔

            سرِ دست یہ تین بنیادی اور بڑے نقصانات عرض کئے ہیں  ورنہ شرعی معلومات نہ لینے کے نقصانات کی ایک طویل فہرست ہے جسے یہاں  ذکر کرنا ممکن نہیں ۔ دعا ہے کہ  اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو عقائد، عبادات ،معاملات اور زندگی کے ہر شعبے میں  شرعی معلومات حاصل کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

 فرض علوم سیکھنے کی ضرورت و اہمیت

            یہاں  میری ایک کتاب ’’علم اور علماء کی اہمیت‘‘ سے فرض علوم کی اہمیت و ضرورت پر ایک مضمون ملاحظہ ہو، چنانچہ اس میں  ہے کہ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہر آدمی پر اپنی ضرورت کے مسائل سیکھنا ضروری ہے نمازی پر نماز کے ، روزہ رکھنے والے پر روزے کے ، زکوٰۃ دینے والے پرزکوٰۃ کے ،حاجی پر حج کے، تجارت کرنے والے پر خریدوفروخت کے، قسطوں  پر کاروبار کرنے والے کے لئے اس کاروبار کے ، مزدوری پر کام کرنے والے کے لئے اجارے کے ، شرکت پر کام کرنے والے کے لئے شرکت کے ، مُضاربت کرنے والے پر مضاربت کے (مضاربت یہ ہوتی ہے کہ مال ایک کا ہے اور کام دوسرا کرے گا)، طلاق دینے والے پر طلاق کے، میت کے کفن ودفن کرنے والے پر کفن ودفن کے، مساجد ومدارس، یتیم خانوں  اور دیگر ویلفیئرز کے مُتَوَلّیوں  پر وقف اور چندہ کے مسائل سیکھنا فرض ہے ۔ یونہی پولیس، بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں  اوردیگر محکموں  کے ملازمین نیز جج اور کسی بھی ادارے کے افسر وناظمین پر رشوت کے مسائل سیکھنا فرض ہیں  ۔ اسی طرح عقائد کے مسائل سیکھنا یونہی حسد ، بغض ، کینہ ، تکبر، ریاوغیرہا جملہ اُمور کے متعلق مسائل سیکھنا ہر اس شخص پر لازم ہے جس کا ان چیزوں  سے تعلق ہوپھر ان میں  فرائض ومُحَرّمات کا علم فرض اور واجبات ومکروہِ تحریمی کا علم سیکھنا واجب ہے اور سنتوں  کا علم سیکھنا سنت ہے۔

             اس مفہوم کی ایک حدیث حضرت علی المرتضیٰکَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، سرکا رِ دو عالَمصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: علم کا طلب کرنا ہر مومن پر فرض ہے یہ کہ وہ روزہ، نماز اور حرام اور حدود اور احکام کو جانے۔( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۶۸، الحدیث: ۱۵۷)

            اس حدیث کی شرح میں  خطیب بغدادی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  : حضور پُر نورصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس فرمان ’’ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ کا معنی یہ ہے کہ ہرشخص پر فرض ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت کے مسائل سیکھے جس پر اس کی لاعلمی کو قدرت نہ ہو۔( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱)

            اسی طرح کا ایک اور قول حضرت حسن بن ربیعرَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں  کہ میں  نے حضرت عبداللّٰہبن مبارک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے پوچھا کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ کی تفسیر کیا ہے؟آپ نے فرمایا :یہ وہ علم نہیں  ہے جس کو تم آج کل حاصل کر رہے ہو بلکہ علم کاطلب کرنا اس صورت میں  فرض ہے کہ آدمی کو دین کاکوئی مسئلہ پیش آئے تو وہ اس مسئلے کے بارے میں  کسی عالم سے پوچھے یہا ں  تک کہ وہ عالم اسے بتا دے۔( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱، روایت نمبر: ۱۶۲)

            حضرت علی بن حسن بن شفیقرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہے کہ میں  نے حضرت عبد اللہ بن مبارک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے پوچھا :علم سیکھنے کے اندر وہ کیا چیز ہے جو لوگوں  پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا :وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کام کی طرف قدم نہ اٹھائے جب تک اس کے بارے میں  سوال کر کے اس کا حکم سیکھ نہ لے، یہ وہ علم ہے جس کا سیکھنا لوگوں  پر واجب ہے ۔ اورپھر اپنے اس کلام کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اگر کسی بندے کے پاس مال نہ ہو تو اس پر واجب نہیں  کہ زکوٰۃ کے مسائل سیکھے بلکہ جب اس کے پاس دو سو درہم (ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا) آجا ئے تو اس پر یہ سیکھنا واجب ہوگا کہ وہ کتنی زکوٰۃ ادا کرے گا؟ اور کب نکالے گا؟ او ر کہاں  نکالے گا؟ اور اسی طرح بقیہ تمام چیزوں  کے احکام ہیں  ۔ (یعنی جب کوئی چیز پیش آئے گی تو اس کی ضرورت کے مسائل سیکھنا ضروری ہو جائے گا)( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱، روایت نمبر: ۱۶۳)

            امام ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ہر مسلمان پر یہ بات واجب ہے کہ وہ کھانےپینے، پہننے میں  او ر پوشیدہ امور کے متعلق ان چیزوں  کا علم حاصل کرے جو اس کے لیے حلال ہیں  اور جو اس پر حرام ہیں  ۔ یونہی خون اور اموال میں  جو اس پر حلال ہے یا حرام ہے یہ وہ تمام چیزیں  ہیں  جن سے بے خبر (غافل ) رہنا کسی کو بھی جائز نہیں  ہے اور ہر شخص پر فرض ہے کہ وہ ان چیزوں  کو سیکھے ۔۔۔۔اور امام یعنی حاکمِ وقت عورتوں  کے شوہروں  کو اور لونڈیوں  کے آقاؤں  کو مجبور کرے کہ وہ انہیں  وہ چیزیں  سکھائیں  جن کا ہم نے ذکر کیا اور حاکمِ وقت پر فرض ہے کہ وہ لوگوں  کی اس بارے میں  پکڑ کرے اور جاہلوں  کو سکھانے کی جماعتیں  ترتیب دے اور ان کے لئے بیت المال کے اندر رزق مقرر کرے اور علماء پر واجب ہے کہ وہ جاہلوں  کو وہ چیزیں  سکھائیں  جن سے وہ حق وباطل میں  فرق کرلیں ۔( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۴)

            ان تمام اَقوال سے روزِ روشن کی طرح عیاں  ہے کہ علمِ دین سیکھنا صرف کسی ایک خاص گروہ کا کام نہیں  بلکہ اپنی ضرورت کی بقدر علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں  کی اکثریت علمِ دین سے دور نظر آتی ہے ۔ نمازیوں  کو دیکھیں  تو چالیس چالیس سال نماز پڑھنے کے باوجود حال یہ ہے کہ کسی کو وضو کرنا نہیں  آتا تو کسی کو غسل کا طریقہ معلوم نہیں ، کوئی نماز کے فرائض کو صحیح طریقے سے ادا نہیں  کرتا تو کوئی واجبات سے جاہل ہے، کسی کی قرأ ت درست نہیں  تو کسی کا سجدہ غلط ہے۔ یہی حال دیگر عبادات کا ہے خصوصاً جن لوگوں  نے حج کیا ہو ان کو معلوم ہے کہ حج میں  کس قدر غلطیاں  کی جاتی ہیں ! ان میں اکثریت ان لوگوں  کی ہوتی ہے جو یہ کہتے نظر آتے ہیں  کہ بس حج کے لئے چلے جاؤ جو کچھ لوگ کر رہے ہوں  گے وہی ہم بھی کرلیں  گے۔ جب عبادات کا یہ حال ہے تو دیگر فرض علوم کا حال کیا ہوگا؟ یونہی حسد، بغض، کینہ، تکبر، غیبت، چغلی، بہتان اورنجانے کتنے ایسے امور ہیں  جن کے مسائل کا جاننا فرض ہے لیکن ایک بڑی تعداد کو ان کی تعریف کا پتہ تک نہیں  بلکہ ان کی فرضیت تک کا علم نہیں ۔ یہ وہ چیزیں  ہیں  جن کا گناہ ہونا عموماً لوگوں  کو معلوم ہوتا ہے اور وہ چیزیں  جن کے بارے میں  بالکل بے خبر ہیں  جیسے خریدوفروخت، ملازمت، مسجدو مدرسہ اور دیگر بہت سی چیزیں  ایسی ہیں  جن کے بارے لوگوں  کو یہ تک معلوم نہیں  کہ ان کے کچھ مسائل بھی ہیں ، بس ہر طرف ایک اندھیر نگری مچی ہوئی ہے ،ایسی صورت میں  ہر شخص پر ضروری ہے خود بھی علم سیکھے اور جن پر اس کا بس چلتا ہو انہیں  بھی علم سیکھنے کی طرف لائے اور جنہیں خود سکھا سکتا ہے انہیں  سکھائے ۔

            اگر تمام والدین اپنی اولاد کو اور تمام اساتذہ اپنے شاگردوں  کو اور تمام پیر صاحبان اپنے مریدوں  کو اور تمام افسران و صاحب ِ اِقتدار حضرات اپنے ماتحتوں  کوعلمِ دین کی طرف لگا دیں  تو کچھ ہی عرصے میں  ہر طرف دین اور علم کا دَور دورہ ہو جائے گا اور لوگوں  کے معاملات خود بخود شریعت کے مطابق ہوتے جائیں  گے۔ فی الوقت جو نازک صورتِ حال ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں  کہ ایک مرتبہ سناروں  کی ایک بڑی تعداد کوایک جگہ جمع کیا گیا جب ان سے تفصیل کے ساتھ ان کا طریقۂ کار معلوم کیا گیا تو واضح ہوا کہ اس وقت سونے چاندی کی تجارت کا جو طریقہ رائج ہے وہ تقریباً اسی فیصد خلافِ شریعت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہماری دیگر تجارتیں  اور ملازمتیں  بھی کچھ اسی قسم کی صورتِ حال سے دوچار ہیں ۔

            جب معاملہ اتنا نازک ہے تو ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کرسکتا ہے، اس لئے ہر شخص پر ضروری ہے کہ علمِ دین سیکھے اور حتّی الامکان دوسروں  کو سکھائے یا اس راہ پر لگائے اور یہ محض ایک مشورہ نہیں  بلکہ  اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے محبوب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا حکم ہے ،چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: تم میں  سے ہر ایک حاکم ہے اور تم میں  سے ہرایک سے اس کی رعایا کے بارے میں  سوال کیا جائے گا پس شہر کا حکمران لوگوں  پرحاکم ہے اس سے اس کے ماتحت لوگو ں  کے بارے میں  پوچھا جائے گا اور مرد اپنے گھر والوں  پر حاکم ہے اور اس سے اس کی بیوی کے بارے میں  اور ان(غلام لونڈیوں  ) کے بارے میں  پوچھا جائے گاجن کا وہ مالک ہے۔( معجم صغیر، باب الدال، من اسمہ: داود، ص۱۶۱)

            مذکورہ بالا حدیث میں  اگرچہ ہر بڑے کو اپنے ماتحت کو علم سکھانے کا فرمایا ہے لیکن والدین پر اپنی اولاد کی ذمہ داری چونکہ سب سے زیادہ ہے اس لئے ان کو بطورِ خاص تاکید فرمائی گئی ہے ،چنانچہ حضرت عثمان الحاطبیرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  : میں  نے حضرت عبداللّٰہبن عمررَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَاکو سنا کہ آپ ایک شخص کو فرما رہے تھے: اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ، بے شک تم سے تمہارے لڑکے کے بارے میں  پوچھا جائے گا جو تم نے اسے سکھایا اور تمہارے اس بیٹے سے تمہاری فرمانبرداری اور اطاعت کے بارے میں  پوچھا جائے گا۔( شعب الایمان، الستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۴۰۰، روایت نمبر: ۸۶۶۲)

            اس حدیث پر والدین کو خصوصاً غور کرنا چاہیے کیونکہ قیامت کے دن اولاد کے بارے میں  یہی گرفت میں  آئیں  گے ،اگر صرف والدین ہی اپنی اولاد کی دینی تربیت و تعلیم کی طرف بھرپور توجہ دے لیں  تو علمِ دین سے دوری کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ دُنْیَوی علوم کے سکھانے میں  تو والدین ہرقسم کی تکلیف گوارا کرلیں  گے ،اسکول کی بھاری فیس بھی دیں  گے، کتابیں  بھی خرید کر دیں  گے اور نجانے کیاکیا کریں  گے لیکن علمِ دین جو ان سب کے مقابلے میں  ضروری اور مفید ہے اس کے بارے میں  کچھ بھی توجہ نہیں  دیں  گے، بلکہ بعض ایسے بدقسمت والدین کو دیکھا ہے کہ اگر اولاد دین اور علمِ دین کی طرف راغب ہوتی ہے تو انہیں  جبراً منع کرتے ہیں  اور کہتے ہیں  کہ اس میں  کیا رکھا ہے ۔ہم دنیوی علم کی اہمیت و ضرورت کا انکار نہیں  کرتے لیکن یہ دینی علم کے بعد ہے اور والدین کا یہ کہنا کہ علمِ دین میں  رکھا ہی کیا ہے؟ یہ بالکل غلط جملہ ہے۔ اول تو یہ جملہ ہی کفریہ ہے کہ اس میں  علمِ دین کی تحقیر ہے۔ دوم اسی پر غور کرلیں  کہ علمِ دین سیکھنا اور سکھانا افضل ترین عبادت، انبیاءِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وراثت، دنیا و آخرت کی خیر خواہی اور قبروحشر کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔آج نہیں  تو کل جب حساب کے لئے بارگاہِ الٰہی میں  حاضر ہونا پڑے گااس وقت پتہ چلے گا کہ علمِ دین کیا ہے؟ بلکہ صرف اسی بات پر غور کرلیں  کہ مرتے وقت آج تک آپ نے کسی شخص کو دیکھا ہے کہ جس کو دنیا کا علم حاصل نہ کرنے پر افسوس ہورہا ہو ۔ہاں  علمِ دین حاصل نہ کرنے ، دینی راہ پر نہ چلنے،  اللہ تعالیٰ کی رضا کے کام نہ کرنے پر افسوس کرنے والے آپ کو ہزاروں  ملیں  گے اور یونہی مرنے کے بعد ایسا کوئی شخص نہ ہوگا جسے ڈاکٹری نہ سیکھنے پر، انجینئر نہ بننے پر، سائنسدان نہ بننے پر افسوس ہو رہا ہو البتہ علمِ دین نہ سیکھنے پر افسوس کرنے والے بہت ہوں  گے۔ بلکہ خود حدیث پاک میں  موجود ہے کہ کل قیامت کے دن جن آدمیوں  کو سب سے زیادہ حسرت ہوگی ان میں  ایک وہ ہے جس کو دنیا میں  علم حاصل کرنے کا موقع ملا اور اس نے علم حاصل نہ کیا۔( ابن عساکر، حرف المیم، محمد بن احمد بن محمد بن جعفر۔۔۔ الخ، ۵۱ / ۱۳۷)

             اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو عقل ِسلیم دے اور انہیں  علمِ دین کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

سوال کرناعلم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے:

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سوال کرنا علم حاصل ہونے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے ۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’علم خزانے ہیں  اور ان خزانوں  کی چابی سوال کرناہے تو تم سوال کرو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے ، کیونکہ سوال کرنے کی صورت میں  چار لوگوں  کو اجر دیاجاتا ہے۔ (1) سوال کرنے والے کو۔ (2) سکھانے والے کو۔ (3) سننے والے کو۔ (4) ان سے محبت رکھنے والے کو۔( الفقیہ والمتفقہ، باب فی السؤال والجواب وما یتعلّق بہما۔۔۔ الخ، ۲ / ۶۱، الحدیث: ۶۹۳)

حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور پُر نورصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اچھا سوال کرنا نصف علم ہے۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۵ / ۱۰۸، الحدیث: ۶۷۴۴)

            دعا ہے کہ  اللہ تعالیٰ ہمیں  زندگی کے تمام پہلوؤں  میں  در پیش معاملات کے بارے میں  اہلِ علم سے سوال کرنے اور اس کے ذریعے دین کے شرعی اَحکام کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

 

 

21:8
وَ مَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا یَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ مَا كَانُوْا خٰلِدِیْنَ(۸)
اور ہم نے انہیں (ف۱۵) خالی بدن نہ بنایا کہ کھانا نہ کھائیں (ف۱۶) اور نہ وہ دنیا میں ہمیشہ رہیں،

{وَ مَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا:اور ہم نے انہیں  خالی بدن نہ بنایا۔} کفارِ مکہ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرایک اعتراض یہ کیا تھا کہ:

’’مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ‘‘(فرقان)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اس رسول کو کیا ہوا؟ کہ یہ کھانا بھی کھاتا ہے۔

            اوریہاں  اِس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ کاطریقہ یہی جاری ہے کہ اس نے گزشتہ زمانوں  میں  جتنے بھی رسول بھیجے ان کے بدن ایسے نہیں  بنائے تھے جو  کھانے پینے سے بے نیاز ہوں  بلکہ ان کے بدن بھی ایسے ہی بنائے تھے جنہیں  کھانے پینے کی حاجت ہو، یونہی وہ دنیا میں  ہمیشہ رہنے والے نہ تھے بلکہ عمر پوری ہو جانے کے بعد ان کی بھی وفات ہوئی، اور جب  اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہی یہی ہے تو کفارِ مکہ کا رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے کھانے پینے پر اعتراض کرنامحض بے جا اور فضول ہے۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸، ۸ / ۱۲۲، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸، ۵ / ۴۵۶، ملتقطاً)

{ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ:پھر ہم نے اپنا وعدہ انہیں  سچا کر دکھایا۔}ارشاد فرمایا کہ ہم نے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف جو وحی کرنی تھی وہ وحی کی ،پھر ہم نے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کونجات دینے اور ان کے دشمنوں  کو ہلاک کرنے کا اپنا وعدہ سچا کر دکھایا تو ہم نے انہیں  اور ان کی تصدیق کرنے والے مومنوں کو نجات دی اور انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کر کے حد سے بڑھنے والوں  کو ہلاک کردیا۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹، ۵ / ۴۵۷، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹، ص۷۱۰-۷۱۱، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹، ص۲۷۰، ملتقطاً)

 

21:9
ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَیْنٰهُمْ وَ مَنْ نَّشَآءُ وَ اَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِیْنَ(۹)
پھر ہم نے اپنا وعدہ انہیں سچا کر دکھایا (ف۱۷) تو انہیں نجات دی اور جن کو چاہی (ف۱۸) اور حد سے بڑھنے والوں کو (ف۱۹) ہلاک کردیا

21:10
لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠(۱۰)
بیشک ہم سے تمہاری طرف (ف۲۰) ایک کتاب اتاری جس میں تمہاری ناموری ہے (ف۲۱) تو کیا تمہیں عقل نہیں (ف۲۲)

{لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا:بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل فرمائی ۔}ارشاد فرمایا کہ اے قریش کے گروہ! ہم نے تمہاری طرف ایک عظیم الشان کتاب نازل فرمائی جس میں  تمہارا شرف اور تمہاری عزت ہے کیونکہ وہ تمہاری زبان اور تمہاری لغت کے مطابق ہے توتم ا س کتاب سے کیسے منہ پھیر سکتے ہو حالانکہ غیرت اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ تم اس کتاب کی اور اس نبی کی تعظیم کرو جو اسے لے کر آئے ہیں  اور اس پر سب سے پہلے ایمان لانے والے ہو جاؤ،کیا تم جاہل ہو اور تمہیں  عقل نہیں  کہ ایمان لا کر اس عزت و کرامت اور سعادت کو حاصل کرو۔( ابوسعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۵۰۷، صاوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۱۲۹۲، ملتقطاً)

            اس آیت میں  مذکور لفظ ’’فِیْهِ ذِكْرُكُمْ‘‘ کے مفسرین نے اور معنی بھی بیان کئے ہیں  ،جیسے ایک معنی یہ ہے کہ ’’اس میں  تمہارے لئے نصیحت ہے اور ایک معنی یہ ہے کہ’’ اس میں  تمہارے دینی اور دُنْیَوی اُمور اور حاجات کا بیان ہے۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۷۱۱)

قرآنِ مجید کی تعلیمات سے منہ پھیرنے کا انجام:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم پر ایمان لانا اور ا س کے احکامات و تعلیمات پر عمل کرنا عزت و شہرت کا باعث ہے اورتاریخ اس بات پر گواہ ہے جب تک مسلمانوں نے قرآنِ مجید کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور اس کی ہدایات و احکامات پر کامل طریقے سے عمل کیا تب تک وہ شہرت و نامْوری اور عزت و کرامت کی بلندیوں  پر فائز رہے اورہر میدان میں  کفار پر غلبہ و نصرت اور کامیابی حاصل کرتے رہے اور جب سے مسلمان قرآنِ عظیم کی تعلیمات پر عمل سے دور ہونا شروع ہوئے تب سے ان کی عزت،شہرت،ناموری اور دبدبہ ختم ہونا شروع ہو گیا اور رفتہ رفتہ کفار مسلمانوں  پر غالب ہونا شروع ہو گئے اور اب مسلمانوں  کا حال یہ ہو گیا ہے کہ جہاں  بن پڑا وہاں  کفار مسلمانوں  کی سرزمین پر قابض ہیں  اور جہاں  نہیں  بن پڑا وہاں  مسلمانوں  کی اِقتصادیات،معاشیات اور در پردہ مسلمانوں  کی ذہنیت، سوچ اور کلچر پر قابض ہیں  اور مسلم حکمرانوں  کو اپنی انگلیوں  کے اشاروں  پر نچا رہے ہیں ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ

وہ معزز تھے زمانے میں  مسلماں  ہو کر

اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں  ہو کر

اور

درسِ قرآں  گر ہم نے نہ بھلایا ہوتا

یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا

21:11
وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّ اَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ(۱۱)
اور کتنی ہی بستیاں ہم نے تباہ کردیں کہ وہ ستمگار تھیں (ف۲۳) اور ان کے بعد اور قوم پیدا کی،

{وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ:اور کتنی ہی بستیاں  ہم نے تباہ کردیں ۔} اس سے پہلی آیات میں  کفارکی طرف سے حضور سیّد المرسَلینصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پرکئے گے اعتراضات اوران کے جوابات ذکرفرمائے گئے اور یہاں  سے اِ س امت کے کفار کو کفر نہ چھوڑنے اور ایمان نہ لانے پر  اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایاجا رہا ہے ۔گویا کہ  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے کافرو! تم اپنے مال و دولت کی وسعت سے دھوکہ نہ کھاؤ اور اپنے اموال و اولاد پر غرور نہ کرو کیونکہ ہم نے بہت سی بستیوں  کے کفار کو تباہ و برباد کر دیا اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوم پیدا کردی اور جو کچھ ان کافروں  کے ساتھ ہوا وہ تمہارے ساتھ بھی ہو سکتاہے۔( صاوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۲۹۲)

21:12
فَلَمَّاۤ اَحَسُّوْا بَاْسَنَاۤ اِذَا هُمْ مِّنْهَا یَرْكُضُوْنَؕ(۱۲)
تو جب انہوں نے (ف۲۴) ہمارا عذاب پایا جبھی وہ اس سے بھاگنے لگے (ف۲۵)

{فَلَمَّاۤ اَحَسُّوْا بَاْسَنَا:تو جب انہوں  نے ہمارا عذاب پایا۔}اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ان ظالموں  نے  اللہ تعالیٰ کا عذاب پایا تو اچانک وہ اس سے بھاگنے لگے ۔اس پر فرشتے کے ذریعے ان سے کہا گیا کہ تم بھاگو نہیں  اوران آسائشوں  کی طرف لوٹ آؤجو تمہیں  دی گئی تھیں  اور اپنے ان مکانوں  کی طرف لوٹ آؤ جن پر تم فخر کیا کرتے تھے ،شاید لوگوں  کی عادت کے مطابق تم سے تمہاری دنیا کے بارے میں  سوال کیا جائے ۔

            بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ ان آیات میں  یمن کی سرزمین میں  موجود ایک بستی میں  رہنے والے لوگوں  کا حال بیان ہوا ہے۔ اس بستی کا نام حصور (یا،حضور) ہے ،وہاں  کے رہنے والے عرب تھے ،انہوں  نے اپنے نبی عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور انہیں  شہید کردیا تو  اللہ تعالیٰ نے ان پر بُخْت نصر کو مُسَلَّط کر دیا۔ اِس نے اُن کے بعض لوگوں  کو قتل کیا اور بعض کو گرفتار کرلیا، اُس کا یہ عمل جاری رہا تو وہ لوگ بستی چھوڑ کر بھاگے۔ اس پر فرشتوں  نے طنز کے طور پر ان سے کہا: تم بھاگو نہیں  اوران آسائشوں  کی طرف لوٹ آؤجو تمہیں  دی گئی تھیں  اور اپنے مکانوں  کی طرف لوٹ آؤ، شاید تم سے سوال کیا جائے کہ تم پر کیا گزری اور تمہارے مال و دولت کا کیا ہوا؟ تو تم دریافت کرنے والے کو اپنے علم اور مشاہدے سے جواب دے سکو۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ۵ / ۴۵۸، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ۳ / ۲۷۲، جمل، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ۵ / ۱۲۱-۱۲۲، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳،ص۷۱۱، ملتقطاً)

21:13
لَا تَرْكُضُوْا وَ ارْجِعُوْۤا اِلٰى مَاۤ اُتْرِفْتُمْ فِیْهِ وَ مَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْــٴَـلُوْنَ(۱۳)
نہ بھاگو اور لوٹ کے جاؤ ان آسائشوں کی طرف جو تم کو دی گئیں تھیں اور اپنے مکانوں کی طرف شاید تم سے پوچھنا ہو (ف۲۶)

21:14
قَالُوْا یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(۱۴)
بولے ہائے خرابی ہماری بیشک ہم ظالم تھے (ف۲۷)

{قَالُوْا یٰوَیْلَنَا:انہوں  نے کہا: ہائے ہماری بربادی۔}جب وہ بھاگ کر نجات پانے سے مایوس ہو گئے اور انہیں  عذاب نازل ہونے کا یقین ہو گیا تو انہوں  نے کہا:ہائے ہماری بربادی! بیشک ہم ظالم تھے۔ یہ ان کی طرف سے اپنے گناہ کا اعتراف اور اس پر ندامت کا اظہار تھا لیکن چونکہ عذاب دیکھنے کے بعد انہوں  نے گناہ کا اقرار کیا اوراس پر نادِم ہوئے اس لئے یہ اعتراف انہیں  کام نہ آیا۔( ابو سعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۵۰۸)

{فَمَا زَالَتْ تِّلْكَ دَعْوٰىهُمْ:تو یہی ان کی چیخ و پکاررہی۔}ارشاد فرمایا کہ ان کی یہی چیخ و پکاررہی کہ ہائے ہماری بربادی! ہم ظالم تھے۔ یہاں  تک کہ ہم نے انہیں  کھیت کی طرح کٹے ہوئے کر دیا کہ تلواروں  سے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے اوروہ بجھی ہوئی آ گ کی طرح ہو گئے ۔( جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۲۷۰)

کون سی توبہ فائدہ مند ہے؟

             اس سے معلوم ہوا کہ عذاب آجانے پر توبہ اوراپنے جرم کا اقرار کرنا بے فائد ہ ہے۔ جیسے پھل وہی درخت دیتا ہے جو وقت پر بویا جائے اور بے وقت کی بوئی ہوئی کھیتی پھل نہیں  دیتی اسی طرح توبہ وہی فائدہ مند ہے جو عذاب آنے سے پہلے کی جائے اور جو توبہ بے وقت کی جائے وہ عذاب دور نہیں  کرتی۔

21:15
فَمَا زَالَتْ تِّلْكَ دَعْوٰىهُمْ حَتّٰى جَعَلْنٰهُمْ حَصِیْدًا خٰمِدِیْنَ(۱۵)
تو وہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے انہیں کردیا کاٹے ہوئے (ف۲۸) بجھے ہوئے،

21:16
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ(۱۶)
اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے عبث نہ بنائے (ف۲۹)

{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ:اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب فضول پیدا نہیں  کیا۔}  اللہ تعالیٰ نے آسمان ، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان عجائبات ہیں ،ان سب کو فضول پیدا نہیں  کیاکہ ان سے کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ انہیں  پیدا کرنے میں  اس کی کثیر حکمتیں  ہیں  اوران بے شمار حکمتوں  میں  سے چند یہ ہیں  کہ ان اَشیاء سے  اللہ تعالیٰ کے بندے اس کی قدرت و حکمت پر اِستدلال کریں  اور انہیں   اللہ تعالیٰ کے اوصاف و کمال کی معرفت حاصل ہو ، حق وباطل میں  فرق ہو جائے ،لوگ غوروفکرکریں ، غفلت سے بیدارہوں  ،نیک اعمال کریں  اور آخرت میں  اچھی جزا پائیں  اور اس طرح کے خیال کوذہن میں  نہ آنے دیں  کہ عالَم کا سارانظام ایک کھیل تماشہ ہے اور ہرشخص دنیامیں  جوبھی کرتاپھرے اس سے کوئی پوچھنے والانہیں اورنہ ہی آخرت میں  اس سے سوال وجواب ہوگا جیسا کہ بطورِ خاص دَہریوں  کا عقیدہ ہے اور روز بروز ان لوگوں  کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

21:17
لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّاۤ ﳓ اِنْ كُنَّا فٰعِلِیْنَ(۱۷)
اگر ہم کوئی بہلاوا اختیار کرنا چاہتے (ف۳۰) تو اپنے پاس سے اختیار کرتے اگر ہمیں کرنا ہوتا (ف۳۱)

{لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا:اگر ہم کوئی کھیل ہی اختیار کرنا چاہتے ۔}یعنی اگر ہم آسمان و زمین اور ان کے درمیان موجود اَشیاء کو کسی حکمت کے بغیر بے مقصد بنا کر کسی ایسی چیز کو اختیار کرنا چاہتے جس سے کھیلا جائے تو ہم ان کی بجائے اپنے پاس سے ہی کسی چیز کو اختیار کر لیتے، لیکن یہ اُلوہِیّت کی شان اور حکمت کے منافی ہونے کی وجہ سے ہمارے حق میں  محال ہے لہٰذا ہمارا کھیل کے لئے کسی چیز کو اختیار کرنا قطعی طور پر ناممکن ہے۔

            بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں  کھیل سے مراد بیوی اور بیٹا ہے اور یہ آیت ان عیسائیوں  کے رد میں  ہے جو حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکو مَعَاذَ اللہ ،  اللہ تعالیٰ کی بیوی اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو  اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے ہیں  ،چنانچہ اس قول کے مطابق آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر  اللہ تعالیٰ بیوی اور بیٹا اختیار کرنا چاہتا تو وہ انسانوں  میں  سے نہ کرتا بلکہ اپنے پاس موجود حورِ عِین اور فرشتوں  میں  سے کسی کو بیوی اور بیٹا بنا لیتا، یونہی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکی طرح انہیں  لوگوں  کے پاس نہ رکھتا بلکہ اپنے پاس رکھتا کیونکہ بیوی اور بیٹے والے بیوی اوربیٹے اپنے پاس رکھتے ہیں ،لیکن چونکہ  اللہ تعالیٰ بیوی اور اولاد سے پاک ہے، نہ یہ اس کی شان کے لائق ہے اور نہ اس کے حق میں  یہ کسی طرح ممکن ہے، اس لئے  اللہ تعالیٰ نے ایسا کیا ہی نہیں ۔( ابو سعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۵۰۹، تفسیر کبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۸ / ۱۲۵، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۲۷۳، ملتقطاً)

{بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ:بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینکتے ہیں ۔}یعنی ہماری شان یہ نہیں  کہ ہم کھیل کے لئے کوئی چیز اختیار کریں  بلکہ ہماری شان تو یہ ہے کہ ہم حق کو باطل پر غالب کر تے ہیں  تو وہ باطل کوپورا مٹادیتا ہے اوراسی وقت باطل مکمل طور پر ختم ہو کر رہ جاتا ہے اور اے کافرو! تمہارے لئے اُن باتوں  کی وجہ سے بربادی ہے جو تم  اللہ تعالیٰ کی شان میں  کرتے ہو اور اس کے لئے بیوی اور بچہ ٹھہراتے ہو۔( ابو سعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۵۰۹)

21:18
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌؕ-وَ لَكُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ(۱۸)
بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں تو وہ اس کا بھیجہ نکال دیتا ہے تو جبھی وہ مٹ کر رہ جاتا ہے (ف۳۲) اور تمہاری خرابی ہے (ف۳۳) ان باتوں سے جو بناتے ہو (ف۳۴)

21:19
وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا یَسْتَحْسِرُوْنَۚ(۱۹)
اور اسی کے ہیں جتنے آسمانوں اور زمین میں ہیں (ف۳۵) اور اس کے پاس والے (ف۳۶) اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور نہ تھکیں،

{وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:اور جوآسمانوں  اور زمین میں  ہیں  سب اسی کی مِلک ہیں ۔}ارشاد فرمایا کہ آسمانوں  اور زمین کی تمام مخلوقات کا مالک  اللہ تعالیٰ ہے اور سب اس کی ملک ہیں  تو کوئی اس کی اولاد کیسے ہو سکتا ہے ! ملکیت ہونے اور اولاد ہونے میں  مُنافات ہے اور مقرب فرشتے جنہیں   اللہ تعالیٰ کے کرم سے اس کی بارگاہ میں  قرب و منزلت کا ایک خاص مقام حاصل ہے وہ اس کی عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں  اور نہ ہی عبادت کرنے سے تھکتے ہیں۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۹،ص۷۱۲)

21:20
یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ(۲۰)
رات دن اس کی پاکی بولتے ہیں اور سستی نہیں کرتے،

{یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ:رات اوردن اس کی پاکی بیان کرتے ہیں ۔}یعنی فرشتے ہر وقت  اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور پاکی بیان کرتے رہتے ہیں  اور اس میں  وہ کسی طرح کی سستی نہیں  کرتے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۲۷۳)

 فرشتوں  کی تسبیح کی کیفیت:

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’فرشتوں  کے لئے تسبیح ایسے ہے جیسے ہمارے لئے سانس لینا تو جس طرح ہمارا کھڑ ا ہونا ، بیٹھنا،کلام کرنا اور دیگر کاموں  میں  مصروف ہونا ہمیں  سانس لینے سے مانع نہیں  ہوتا اسی طرح فرشتوں  کے کام انہیں  تسبیح سے مانع نہیں  ہوتے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۴۶۲)

            اور دلیل کے طور پر آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے یہ روایت ذکر فرمائی کہ حضرت عبد اللہ بن حارث رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں :میں  نے حضرت کعب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے اس آیت کے بارے میں  پوچھا کہ کیا فرشتے پیغام رسانی میں  مصروف نہیں  ہوتے؟ کیا وہ دیگر کاموں  میں  مشغول نہیں  ہوتے؟ (اورجب وہ ان چیزوں  میں  مصروف ہوتے ہیں  تو پھر ہر وقت وہ تسبیح کس طرح کرتے ہیں ) حضرت کعب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا ’’ فرشتوں  کے لیے تسبیح کو ایسے بنایا گیا ہے جیسے تمہارے لیے سانس بنائی گئی ہے ۔کیا آپ کھاتے ،پیتے ،آتے جاتے اور بولتے وقت سانس نہیں  لے رہے ہوتے ؟ بالکل یہی کیفیت ان کی تسبیح کی ہے۔( شعب الایمان، الثالث من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی معرفۃ الملائکۃ، ۱ / ۱۷۸، روایت نمبر:  ۱۶۱)

قرب و شرف رکھنے والوں  کا وصف:

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  اس آیت کے تحت فرماتے ہیں  ’’فرشتوں  کے بارے میں  یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں  کو  اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کرنے پر ابھارنا اور کافروں  کو  اللہ تعالیٰ کی اطاعت وعبادت ترک کرنے پر شرم دلانا ہے کیونکہ عبادت اور تسبیح کرنا قرب اور شرف رکھنے والے لوگوں  کا وصف ہے اور اسے چھوڑ دینا ( اللہ تعالیٰ کی رحمت سے )دور ہونے والے اور ذلیل لوگوں  کا شیوہ ہے۔( تفسیر صاوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۱۲۹۴)

                لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مقرب بندوں  کے طریقے پر چلتے ہوئے  اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت کرنے میں  مصروف رہے اور اس سلسلے میں  کسی طرح کی شرم وعار محسوس نہ کرے ۔

 

21:21
اَمِ اتَّخَذُوْۤا اٰلِهَةً مِّنَ الْاَرْضِ هُمْ یُنْشِرُوْنَ(۲۱)
کیا انہوں نے زمین میں سے کچھ ایسے خدا بنالیے ہیں (ف۳۸) کہ وہ کچھ پیدا کرتے ہیں (ف۳۹)

{اَمِ اتَّخَذُوْۤا اٰلِهَةً مِّنَ الْاَرْضِ:کیا انہوں  نے زمین میں  سے کچھ ایسے معبود بنالئے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا کافروں  نے زمین کے جواہر اور معدنیات جیسے سونے چاندی اور پتھر وغیرہ سے کچھ ایسے معبود بنالئے ہیں  جو مُردوں  کو زندہ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں  ؟ایسا تو نہیں  ہے اور نہ ہی یہ ہو سکتا ہے کہ جو خو دبے جان ہو وہ کسی کو جان دے سکے، تو پھر ان چیزوں  کو معبود ٹھہرانا اور اِلٰہ قرار دینا کتنا کھلا باطل ہے ۔ معبود وہی ہے جو ہر شے پر قادر ہو اور جو زندگی موت دینے اورنفع نقصان پہنچانے پر ہی قادر نہیں  تو اسے معبود بنانے کو کون سی عقل جائز قرار دے سکتی ہے۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۷۱۲-۷۱۳، تفسیر کبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۱، ۸ / ۱۲۷، ملتقطاً)

 

21:22
لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَاۚ-فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ(۲۲)
اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور خدا ہوتے تو ضرور وہ (ف۴۰) تباہ ہوجاتے (ف۴۱) تو پاکی ہے اللہ عرش کے مالک کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں (ف۴۲)

{ لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا:اگر آسمان و زمین میں   اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو ضرور آسمان و زمین تباہ ہوجاتے ۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ کے واحد معبود ہونے کی ایک قطعی دلیل بیان کی گئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آسمانوں  یازمین پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور خدا ہوتا تو سارے عالَم کانظام درہم برہم ہوجاتا، کیونکہ اگر خدا سے وہ خدا مراد لئے جائیں  جن کی خدائی کا بت پرست اعتقاد رکھتے ہیں  تو عالَم کے فساد کا لازم ہونا ظاہر ہے کیونکہ بت پرستوں  کے خدا جمادات ہیں  اوروہ عالَم کا نظام چلانے پر اَصْلاً قدرت نہیں  رکھتے ،تو جب قدرت ہی کچھ نہیں  تو وہ کائنات کو کیسے چلاتے ؟ اور اگر خدا سے مُطْلَقاً وہ سارے خدا مراد ہوں  جنہیں  کوئی بھی مانتا ہے تو بھی جہان کی تباہی یقینی ہے ،کیونکہ اگر دو خدا فرض کئے جائیں  تو دو حال سے خالی نہیں  ،(1)وہ دونوں  کسی شے پرمتفق ہوں  گے۔(2)وہ دونوں  کسی شے پر مختلف ہوں  گے۔ اگر ایک چیز پر متفق ہوئے تواس سے لازم آئے گا کہ ایک چیز دونوں  کی قدرت میں  ہو اور دونوں  کی قدرت سے واقع ہو۔ یہ محال ہے، اور اگر مختلف ہوئے تو ایک چیز کے بارے میں  دونوں  کے ارادوں  کی مختلف صورتیں  ہوں  گی، (۱) دونوں  کے ارادے ایک ساتھ واقع ہوں  گے۔اس صورت میں  ایک ہی وقت میں  وہ چیز موجود اور معدوم دونوں  ہوجائے گی ۔ (۲) دونوں  کے ارادے واقع نہ ہوں ۔ اس صورت میں  وہ چیز نہ موجود ہو گی نہ معدوم۔ (۳) ایک کا ارادہ واقع ہو اور دوسرے کا واقع نہ ہو۔ یہ تمام صورتیں  محال ہیں  کیونکہ جس کی بات پوری نہ ہوگی وہ خدا نہیں  ہوسکتا حالانکہ جو صورت فرض کی گئی ہے وہ خدا فرض کرکے کی گئی ہے، تو ثابت ہوا کہ بہر صورت ایک سے زیادہ خدا ماننے میں  نظامِ کائنات کی تباہی اورفساد لازم ہے۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۱، ۸ / ۱۲۷، ملخصاً)

             اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے متعلق یہ انتہائی مضبوط دلیل ہے اور اسے بیان کرنے کے مختلف انداز بڑی تفصیل کے ساتھ علمِ کلام کے ماہر علماء کی کتابوں  میں  مذکور ہیں ، عوام کی تفہیم کے لئے اتنا ہی کافی ہے جتنابیان کیا گیا البتہ جو علمائِ کرام اس کی مزید تفصیلات جاننا چاہیں  وہ علمِ کلام کے معتبر اور با اعتماد ماہرین کی لکھی ہوئی کتابوں  کی طرف رجو ع فرمائیں ۔

{فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ:تو  اللہ پاک ہے ۔}یعنی عرش کا مالک  اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں  لوگوں  کی بنائی ہوئی ان تمام باتوں  سے پاک ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں  ،لہٰذا نہ ا س کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی اس کا شریک ہے۔

21:23
لَا یُسْــٴَـلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ هُمْ یُسْــٴَـلُوْنَ(۲۳)
اس سے نہیں پوچھا جاتا جو وہ کرے (ف۴۳) اور ان سب سے سوال ہوگا (ف۴۴)

{لَا یُسْــٴَـلُ عَمَّا یَفْعَلُ: اللہ سے اس کام کے متعلق سوال نہیں  کیا جاتا جو وہ کرتا ہے۔}یعنی  اللہ تعالیٰ کی عظمت وشان یہ ہے کہ وہ جو کام کرتا ہے اس کے بارے میں   اللہ تعالیٰ سے پوچھا نہیں  جا سکتا کیونکہ وہ حقیقی مالک ہے، جو چاہے کرے ، جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلت دے ، جسے چاہے سعادت دے اورجسے چاہے بدبخت کرے، وہ سب کا حاکم ہے اور کوئی اس کا حاکم نہیں  جو اس سے پوچھ سکے۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۷۱۳، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۲۷۴، ملتقطاً)

             یہاں  پوچھنے سے مراد سرزنش اور حساب کا پوچھنا ہے یعنی کسی مخلوق کی جرأت نہیں  کہ رب عَزَّوَجَلَّسے عتاب کی پوچھ گچھ کرے بلکہ رب تعالیٰ ان سے پوچھ گچھ کرے گا۔البتہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اطمینانِ قلب یاکشف ِحقیقت کے لیے سوال کرسکتے ہیں  جیساکہ قرآنِ مجید ،فرقانِ حمید میں  ہی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کااطمینانِ قلب کے لیے مُردوں  کوزندہ کرنے کاسوا ل کرنا منقول ہے یا فرشتوں  نے رب تعالیٰ سے حضرت آدمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی پیدائش کی حکمت پوچھی تھی۔البتہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سوال اگرچہ حسنِ نیت سے ہولیکن کسی دوسری حکمت کی وجہ سے مُطْلَقاً ہی سوال سے منع کردیا جاتا ہے جیسا کہ اس کے متعلق بھی روایات موجود ہیں ۔

بد ترین اعتراضات اور ان کا انجام:

            یاد رہے کہ سب سے بد ترین اعتراض یہ ہے کہ کوئی  اللہ تعالیٰ کے کسی فعل پر اعتراض کرے ،جیسے شیطان نے  اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مخلوق یعنی حضرت آدمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اعتراض کیا تواس کی تمام تر عبادت و ریاضت اور مقام و مرتبے کے باوجودبارگاہ ِ الٰہی سے اسے مَردُود و رسوا کر کے نکال دیا گیا، جب  اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی مخلوق پر اعتراض کا یہ انجام ہے تو جو  اللہ تعالیٰ کی شان اور ا س کے افعال وصفات پر اعتراض کرنے کی جرأت کرے گا اس کا کیا حال ہو گا۔

            اسی طرح نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اعتراض کرنا بھی بہت بد ترین ہے کیونکہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی خواہش سے کچھ کہتے ہیں  نہ کرتے ہیں  بلکہ جو کہتے اور کرتے ہیں  سب  اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تو آپ پر اعتراض کرنا  اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرنا ہے اور اس میں  ہلاکت و بربادی ہے،جبکہ  اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور بزرگ علماء پر اعتراض کرنا خیر و بھلائی سے محروم کر دیتا ہے ، ان کی صحبت کی برکت اور علم میں  اضافہ ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ تو اعتراض کرنے والوں  کا دُنْیَوی انجام ہے اور آخرت میں  ان کا حال یہ ہو گا کہ  اللہ تعالیٰ ان سے کلام فرمائے گا نہ ان کی طرف رحمت کی نظر فرمائے گا اور ان کے لئے جہنم کا دردناک عذاب ہو گا۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۵ / ۴۶۵-۴۶۶، ملخصاً)

{وَ هُمْ یُسْــٴَـلُوْنَ:اور لوگوں  سے سوال کیا جائے گا۔}ارشاد فرمایا کہ لوگوں  سے ان کے کاموں  کے بارے میں  سوال کیا جائے گا اور قیامت کے دن ان سے کہا جائے گا کہ تم نے یہ کام کیوں  کیا؟ کیونکہ سب اس کے بندے اوراس کی ملکیت ہیں  اور سب پر اس کی اطاعت وفرمانبرداری لازم ہے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۲۷۴)

             اس آیت سے  اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی ایک اور دلیل بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب سب  اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں  تو ان میں  سے کوئی خدا کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ ایک ہی چیز مالک اور مملوک نہیں  ہو سکتی۔

 

21:24
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةًؕ-قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْۚ-هٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِیَ وَ ذِكْرُ مَنْ قَبْلِیْؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَۙ-الْحَقَّ فَهُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۲۴)
کیا اللہ کے سوا اور خدا بنا رکھے ہیں، تم فرماؤ (ف۴۵) اپنی دلیل لاؤ (ف۴۶) یہ قرآن میرے ساتھ والوں کا ذکر ہے (ف۴۷) اور مجھ سے اگلوں کا تذکرہ (ف۴۸) بلکہ ان میں اکثر حق کو نہیں جانتے تو وہ رو گرداں، ہیں (ف۴۹)

{اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً:کیا انہوں  نے  اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ؟}  اللہ تعالیٰ نے کفار کو ڈانٹتے ہوئے اِستفہام کے انداز میں  فرمایا کہ کیا انہوں  نے  اللہ تعالیٰ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ؟ اے حبیب !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ان مشرکین سے فرما دیں  کہ تم اپنے اس باطل دعوے پر اپنی دلیل لاؤ اورحجت قائم کرو خواہ عقلی ہو یا نقلی، مگر تم نہ کوئی عقلی دلیل لا سکتے ہو جیسا کہ مذکورہ بالا دلائل سے ظاہر ہو چکا اور نہ کوئی نقلی دلیل پیش کر سکتے ہو ،کیونکہ تمام آسمانی کتابوں  میں   اللہ تعالیٰ کی توحید کا بیان ہے اور سب میں  شرک کوباطل قرار دیا گیا اور ا س کا رد کیا گیا ہے ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۲۷۴، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۷۱۳، ملتقطاً)

{هٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِیَ:یہ قرآن میرے ساتھ والوں  کا ذکرہے۔} ساتھ والوں  سے مرادحضور پُر نورصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہے ، قرآنِ کریم میں  اس کا ذکر ہے کہ اس کو طاعت پر کیا ثواب ملے گا اور معصیت پر کیا عذاب کیا جائے گا ۔پہلوں  سے مراد یہ ہے کہ پہلے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی امتوں  کا اور اس کا تذکرہ ہے کہ دنیا میں  ان کے ساتھ کیا کیا گیا اور آخرت میں  کیا کیا جائے گا۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَافرماتے ہیں  کہ ساتھ والوں  کے ذکر سے مراد قرآنِ مجید ہے اور پہلوں  کے ذکر سے مراد تورات اور انجیل ہے ،اور معنی یہ ہے کہ تم قرآن، تورات، انجیل اور تمام (آسمانی) کتابوں  کی طرف رجوع کرو، کیا تم ان میں  یہ بات پاتے ہو کہ  اللہ تعالیٰ نے اولاد اختیار کی یا اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۲۷۵)

{بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَۙ-الْحَقَّ:بلکہ اُن کے اکثر لوگ حق کو نہیں  جانتے ۔} اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے عوام کا حال یہ کہ وہ حق کو جانتے نہیں  اور بے شعوری و جہالت کی وجہ سے حق سے منہ پھیرے ہوئے ہیں  اور ا س بات پرغور و فکر نہیں  کرتے کہ توحید پر ایمان لانا ان کے لئے کتنا ضروری ہے جبکہ ان کے علماء جان بوجھ کر عناد کی وجہ سے حق کے منکر ہیں۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۷۱۳، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۴، ۵ / ۴۶۶-۴۶۷، ملتقطاً)

فساد کی سب سے بڑی جڑ :

            اس سے معلوم ہوا کہ حق کے بارے میں  معلومات نہ ہونا اور حق و باطل میں  تمیز نہ کرنا حق سے منہ پھیرنے کا بہت بڑ اسبب اورفساد کی سب سے بڑی جڑ ہے کیونکہ ان ہی دوچیزوں  کا یہ نتیجہ ہے کہ کئی لوگ کفر و شرک جیسے عظیم فساد میں  مبتلا ہیں  ،بعض افراد منافقت کے بد ترین مرض کا شکار ہیں  ،بعض مسلمان ریا کاری، نفسانی خواہشات کی پیروی اور دنیا کی محبت میں  گرفتار ہیں ، بعض پڑھے لکھے جاہل حضرات اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسلام کے اَحکام اور ان کی حکمتوں  سے ناواقف ہونے کی وجہ سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا اور بطورِ خاص سوشل میڈیا پراسلامی احکام اور اسلامی اقدار پر اعتراضات کرنے اور انہیں  انسانیت کے برخلاف ثابت کرنے میں  مصروف ہیں ، نیزدینِ اسلام کی تعلیمات سے جہالت کی وجہ سے لوگوں  کی ایک تعداد اپنے باہمی اُمور میں  شریعت کی رعایت کرنے سے منہ پھیرے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں  عقلِ سلیم عطا فرمائے ،حق کا علم ، حق و باطل میں  تمیز کرنے ، حق کو اختیار کرنے اور باطل سے منہ پھیر لینے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین۔

 

21:25
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ(۲۵)
اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہ بھیجا مگر یہ کہ ہم اس کی طرف وحی فرماتے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھی کو پوجو،

{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا:اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہ بھیجا مگر۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہم نے آپ سے پہلے جس امت کی طرف کوئی رسول اور نبی بھیجا ،ہم اس کی طرف وحی فرماتےرہے کہ زمین و آسمان میں  میرے علاوہ کوئی معبود نہیں  جو عبادت کئے جانے کامستحق ہو، تو اخلاص کے ساتھ میری عبادت کرو اور صرف مجھے ہی معبود مانو۔( تفسیر طبری، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۹ / ۱۶)

آیت ’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائلـ:

            اس آیت سے تین باتیں  معلوم ہو ئیں

(1)…ہر نبی عَلَیْہِ  السَّلَام پر وحی آتی تھی۔ نبوت کے لئے وحی لازم و ضروری ہے۔

(2)… تمام اَنبیاء اور رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو مبعوث فرمانے کی بنیادی حکمت  اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ثابت کرنا اور اخلاص کے ساتھ  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔

(3)…تمام اَنبیاء اور رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عقائد میں  متفق ہیں  ،اعمال میں  فرق ہے۔کسی نبی عَلَیْہِ  السَّلَامکے دین میں  شرک جائز نہیں  ہوا ، لہٰذا سجدہِ تعظیمی شرک نہیں  کیونکہ بعض انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں  یہ ہوا ہے البتہ ہماری شریعت میں  حرام ضرور ہے۔

 

21:26
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗؕ-بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَۙ(۲۶)
اور بولے رحمن نے بیٹا اختیار کیا (ف۵۰) پاک ہے وہ (ف۵۱) بلکہ بندے ہیں عزت والے (ف۵۲)

{وَ قَالُوا:اور کافروں  نے کہا۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہ آیت خزاعہ قبیلے کے بارے میں  نازِل ہوئی جنہوں  نے فرشتوں  کو خدا کی بیٹیاں  کہا تھا ۔ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کافر فرشتوں  کو  اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیتے ہیں  جبکہ  اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کے اولاد ہو۔ فرشتے  اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں  بلکہ وہ اس کے برگزیدہ اور مکرم بندے ہیں،وہ کسی بات میں   اللہ تعالیٰ سے سبقت نہیں  کرتے،صرف وہی بات کرتے ہیں  جس کا  اللہ تعالیٰ انہیں  حکم دیتا ہے اور وہ کسی اعتبار سے  اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت نہیں  کرتے بلکہ اس کے ہر حکم پر عمل کرتے ہیں۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۳ / ۲۷۵)

21:27
لَا یَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَ هُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ(۲۷)
بات میں اس سے سبقت نہیں کرتے اور وہ اسی کے حکم پر کاربند ہوتے ہیں،

21:28
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا یَشْفَعُوْنَۙ-اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَ هُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ(۲۸)
وہ جانتا ہے جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے (ف۵۳) اور شفاعت نہیں کرتے مگر اس کے لیے جسے وہ پسند فرمائے (ف۵۴) اور وہ اس کے خوف سے ڈر رہے ہیں،

{یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ:وہ جانتا ہے جو ان کے آگے ہے۔} اس آیت کی تفسیر میں  ایک قول یہ ہے کہ جو کچھ فرشتوں  نے کیا اور جو کچھ وہ آئندہ کریں  گے سب کچھ  اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ جانتاہے کہ فرشتوں  کی تخلیق سے پہلے کیاتھااوران کی تخلیق کے بعد کیاہوگا۔( بغوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۲۰۴)

{وَ لَا یَشْفَعُوْنَۙ-اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى:اور وہ صرف اسی کی شفاعت کرتے ہیں  جسے  اللہ پسند فرمائے۔}حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ ’’ لِمَنِ ارْتَضٰى‘‘سے وہ لوگ مراد ہیں  جو توحید کے قائل ہوں ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے ہر وہ شخص مراد ہے جس سے  اللہ تعالیٰ راضی ہو(جن کا مسلمان ہونا بہرحال ضروری ہے۔)( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۲۷۵)

فرشتے دنیا میں  شفاعت کرتے ہیں  اور آخرت میں  بھی کریں  گے:

          یاد رہے کہ فرشتے دنیا میں  بھی شفا عت کرتے ہیں  ،کیونکہ وہ زمین پر رہنے والے ایمان والوں  کے لئے  اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتے ہیں  ،جیساکہ ایک اور مقام پر  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَهٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۚ-رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّ عِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اتَّبَعُوْا سَبِیْلَكَ وَ قِهِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ‘‘(مومن: ۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: عرش اٹھانے والے اور اس کے ارد گردموجود (فرشتے) اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے ہیں  اور اس پر ایمان رکھتے ہیں  اور مسلمانوں  کی بخشش مانگتے ہیں  ۔اے ہمارے رب!تیری رحمت اور علم ہرشے سے وسیع ہے تو انہیں  بخش دے جوتوبہ کریں  اور تیرے راستے کی پیروی کریں  اور انہیں  دوزخ کے عذاب سے بچالے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے

’’وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ‘‘(شوری)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں  اور زمین والوں  کے لیے معافی مانگتے ہیں ۔

             اور آخرت میں  بھی فرشتے مسلمانوں  کی شفاعت کریں  گے جیسا کہ زیرِ تفسیر آیت سے معلوم ہو رہا ہے اور مسلم شریف کی حدیث میں  ہے کہ (قیامت کے دن)  اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: فرشتوں  نے، نبیوں  نے اور ایمان والوں  نے شفاعت کر لی اور اب اَرحم الرّاحِمین کے علاوہ اور کوئی باقی نہیں  رہا، پھر  اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں  کی ایک تعداد کو جہنم سے نکال لے گا جنہوں  نے کبھی کوئی نیک عمل نہ کیا ہو گا۔( مسلم، کتاب الایمان، باب معرفۃ طریق الرؤیۃ، ص۱۱۲، الحدیث: ۳۰۲(۱۸۳))

{وَ هُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ:اور وہ اس کے خوف سے ڈر رہے ہیں ۔} یعنی فرشتے ا س مقام و مرتبے کے باوجود  اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف نہیں  بلکہ وہ  اللہ تعالیٰ کے خوف سے ڈر رہے ہیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۲۷۵)

فرشتوں  کا خوفِ خدا:

             فرشتے  اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر، اس کی پکڑ اور ا س کے قہر سے کس قدر خوف زدہ رہتے ہیں  ، اس سلسلے میں  4 اَحادیث ملاحظہ ہوں

(1)…حضرت جابر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں  معراج کی رات فرشتوں  کے پاس سے گزرا تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے اس چادر کی طرح تھے جو اونٹ کی پیٹھ پر ڈالی جاتی ہے۔( معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ عبد الرحمٰن، ۳ / ۳۰۹، الحدیث: ۴۶۷۹)

(2)…ایک روایت میں  ہے کہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام سیّد المرسَلینصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  روتے ہوئے حاضر ہوئے ۔ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تم کیوں  رو رہے ہو؟ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام نے عرض کی :جب سے  اللہ تعالیٰ نے جہنم کو پیدا فرمایا ہے تب سے میری آنکھ ا س خوف کی وجہ سے خشک نہیں  ہوئی کہ کہیں  مجھ سے  اللہ تعالیٰ کی کوئی نافرمانی ہو جائے اور میں  جہنم میں  ڈال دیا جاؤں ۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۲۱، الحدیث: ۹۱۵)

(3)…حضرت انس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  ،رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام سے دریافت کیا کہ میں  نے کبھی حضرت اسرافیل عَلَیْہِ  السَّلَام کو ہنستے ہوئے نہیں  دیکھا، اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَامنے عرض کی: جب سے جہنم کو پیدا کیا گیا ہے تب سے حضرت اسرافیل عَلَیْہِ  السَّلَام نہیں  ہنسے۔( مسند امام احمد، مسند انس بن مالک رضی  اللہ عنہ، ۴ / ۴۴۷، الحدیث: ۱۳۳۴۲)

(4)…نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں  جن کے پہلو اس کے خوف کی وجہ سے لرزتے رہتے ہیں  ، ان کی آنکھ سے گرنے والے ہر آنسو سے ایک فرشتہ پیدا ہوتا ہے ،جو کھڑے ہوکر اپنے ربعَزَّوَجَلَّ کی پاکی بیان کرنا شروع کر دیتا ہے۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۲۱، الحدیث: ۹۱۴)

            فرشتے گناہوں  سے معصوم ہونے کے باوجود  اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے اس قدر ڈرتے ہیں  تو ہرنیک اور گناہگار مسلمان کو بھی چاہئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرے اور اس کی پکڑ،گرفت اور قہر سے خوف کھائے۔  اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں  کو اس کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

 

21:29
وَ مَنْ یَّقُلْ مِنْهُمْ اِنِّیْۤ اِلٰهٌ مِّنْ دُوْنِهٖ فَذٰلِكَ نَجْزِیْهِ جَهَنَّمَؕ-كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ۠(۲۹)
اور ان میں جو کوئی کہے کہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں (ف۵۵) تو اسے ہم جہنم کی جزا دیں گے، ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں ستمگاروں کو،

{وَ مَنْ یَّقُلْ مِنْهُمْ:اور ان میں  جو کوئی کہے۔} بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ اس آیت میں در اصل ان مشرکوں  کو ڈرایا گیا ہے جو معبود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں  تاکہ وہ اپنے شرک سے باز آ جائیں ، اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بفرضِ محال فرشتوں  میں  سے کوئی یہ کہے کہ میں   اللہ تعالیٰ کے سوا معبود ہوں  تو  اللہ تعالیٰ اسے بھی دوسرے مجرموں  کی طرح جہنم کی سزا دے گا اور اس فرشتے کے اوصاف اور پسندیدہ اَفعال جہنم کی سزا سے اسے بچا نہ سکیں  گے اور  اللہ تعالیٰ ان ظالموں  کو ایسی ہی سزا دیتا ہے جو اس کے سوا معبود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں  (اور جب فرشتوں  کے بارے  اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے تو اے مشرکو! اس بد ترین عمل سے باز نہ آنے کی صورت میں  تمہارا انجام کتنا دردناک ہو گا؟ )

            اور بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ یہ بات’’ میں   اللہ کے سوا معبود ہوں ‘‘ کہنے والا ابلیس ہے جو اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہے ، فرشتوں  میں  اور کوئی ایسا نہیں  جو یہ کلمہ کہے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۵ / ۴۶۹، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۲۷۵، ملتقطاً) یاد رہے کہ ابلیس در حقیقت جِنّات میں  سے ہے اور چونکہ وہ فرشتوں  کے ساتھ رہتا تھا اس لیے حکمی طور پر ان ہی میں  سے شمار ہوتا تھا۔

21:30
اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَاؕ-وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّؕ-اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ(۳۰)
کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ آسمان اور زمین بند تھے تو ہم نے انہیں کھولا (ف۵۶) اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی (ف۵۷) تو کیا وہ ایمان لائیں گے،

{اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:کیا کافروں  نے یہ خیال نہ کیا۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ کی شانِ قدرت اور شانِ تخلیق کا بیان ہے اور اسی میں  عقیدہ ِشرک کی تردید بھی ہے کہ جب ان چیزوں  کی تخلیق میں   اللہ تعالیٰ کاکوئی شریک نہیں  توعبادت میں  اس کاکوئی شریک کیسے ہوسکتاہے ؟ چنانچہ ارشاد فرمایاکہ کیا کافروں  نے اس بات پر غور نہیں  کیا کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے تو ہم نے انہیں  کھول دیا اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا فرمایا تو ان روشن نشانیوں  کے باوجود کیا مشرکین ایمان نہیں  لائیں  گے؟( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۸ / ۱۳۶، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۴۷۰-۴۷۱، ملتقطاً)

 آسمان و زمین ملے ہوئے ہونے سے کیا مراد ہے؟

            اس آیت میں  فرمایا گیا کہ آسمان و زمین ملے ہوئے تھے،اس سے ایک مراد تویہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملا ہوا تھا ان میں  فصل و جدائی پیدا کرکے انہیں  کھولا گیا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ آسمان اس طور پربند تھا کہ اس سے بارش نہیں  ہوتی تھی اور زمین اس طور پربند تھی کہ اس سے نباتات پیدا نہیں  ہوتی تھیں ، تو آسمان کا کھولنا یہ ہے کہ اس سے بارش ہونے لگی اور زمین کا کھولنا یہ ہے کہ اس سے سبزہ پیدا ہونے لگا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۷۵)

                اس معنی کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے، چنانچہ حلیۃ الاولیاء میں  ہے کہ ایک شخص حضرت ِعبداللّٰہبن عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا کے پاس آیا اور آسمانوں  اور زمین کے بارے  اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا‘‘کے متعلق پوچھا تو انہوں  نے فرمایا کہ ’’حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھ لو، پھر جو وہ جواب دیں  مجھے بھی بتانا۔ وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَاکے پاس گیا اور ان سے یہی سوال کیا تو انہوں  نے فرمایا: ہاں  آسمان ملا ہوا تھا اس سے بارش نہیں  ہوتی تھی اور زمین بھی ملی ہوئی تھی کوئی چیز نہ اگاتی تھی پھر جب  اللہ تعالیٰ نے زمین پرمخلوق کو پیدا کیا تو آسمان کو بارش کے ساتھ اور زمین کونباتات کے ساتھ پھاڑ دیا۔ وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا کے پاس واپس آیا اور انہیں  حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا کاجواب سنایا تو حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا ’’ بے شک حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا کو علم عطا کیا گیا ہے، انہوں  نے سچ اور صحیح فرمایا ہے، وہ بالکل اسی طرح تھے۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، عبد  اللہ بن عباس، ۱ / ۳۹۵، روایت نمبر ۱۱۲۸)

{وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ:اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی ۔} ہر جاندار چیز کو پانی سے بنانے سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں : (1) اس سے مراد یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے پانی کو جانداروں  کی حیات کاسبب بنایاہے ۔ (2) اس کے معنی یہ ہیں  کہ ہر جاندار پانی سے پیدا کیا ہوا ہے۔ (3) پانی سے نطفہ مراد ہے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۷۵-۳۷۶)

{اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ:تو کیا وہ ایمان نہیں  لائیں  گے؟} اس سے مراد یہ ہے کہ کیا وہ ایسا نہیں  کریں  گے کہ ان دلائل میں  غور و فکر کریں  اور اِس کے ذریعے اُس خالق کو جان لیں  جس کا کوئی شریک نہیں  اور شرک کا طریقہ چھوڑ کر  اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں ۔( تفسیر کبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۸ / ۱۳۸)

            اس آیت ِمبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ دور کے تمام سیکولر اور مُلحد مفکّرین کو چاہئے کہ وہ ان دلائل میں  غورو فکر کریں  جو خدا کے موجود ہونے پر دلالت کرتے ہیں  اور خدا کے موجود نہ ہونے کا نظریہ چھوڑ کراس خدا پر ایمان لے آئیں  جو اس کائنات کو پیدا کرنے والااور اس کے نظام کو چلانے والا ہے۔

 

21:31
وَ جَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِهِمْ وَ جَعَلْنَا فِیْهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ(۳۱)
اور زمین میں ہم نے لنگر ڈالے (ف۵۸) کہ انھیں لے کر نہ کانپے اور ہم نے اس میں کشادہ راہیں رکھیں کہ کہیں وہ راہ پائیں (ف۵۹)

{وَ جَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ:اور زمین میں  ہم نے مضبوط لنگر ڈال دئیے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے زمین میں  مضبوط پہاڑ قائم کر دئیے تاکہ زمین جم جائے ،ٹھہری رہے اور غیر مُتوازن حرکت نہ کرے اورلوگ اس پر آرام وسکون کے ساتھ چل سکیں  اور  اللہ تعالیٰ نے اس میں  کشادہ راستے بنائے تاکہ لوگ اپنے سفروں  میں  راستہ پالیں  اور جن مقامات کا ارادہ کریں  وہاں  تک پہنچ سکیں  ۔

{وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا:اور ہم نے آسمان کوایک محفوظ چھت بنایا ۔} یعنی  اللہ تعالیٰ نے آسمان کو ایک گرنے سے محفوظ چھت بنایا اور کافروں  کا حال یہ ہے کہ وہ آسمانی کائنات سورج ، چاند ، ستارے اور اپنے اپنے اَفلاک میں  ان کی حرکتوں  کی کیفیت اور اپنے اپنے مَطالع سے ان کے طلوع اور غروب اور ان کے احوال کے عجائبات جو عالَم کو بنانے والے کے وجود، اس کی وحدت اور اس کی قدرت و حکمت کے کمال پر دلالت کرتے ہیں ، ان سب سے اِعراض کرتے ہیں  اور ان دلائل سے فائدہ نہیں  اٹھاتے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۲۷۶)

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ ریاضی اور فلکیات کا علم اعلیٰ علوم میں  سے ہے جبکہ انہیں   اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ بنایا جائے۔ صوفیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِمْفرماتے ہیں  کہ ایک گھڑی کی فکر ہزار سال کے اس ذکر سے افضل ہے جو بغیر فکر کے ہو۔
21:32
وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ۚۖ-وَّ هُمْ عَنْ اٰیٰتِهَا مُعْرِضُوْنَ(۳۲)
اور ہم نے آسمان کو چھت بنایا نگاہ رکھی گئی (ف۶۰) اور وہ (ف۶۱) اس کی نشانیوں سے روگرداں ہیں (ف۶۲)

21:33
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَؕ-كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ(۳۳)
اور وہی ہے جس نے بنائے رات (ف۶۳) اور دن (ف۶۴) اور سورج اور چاند ہر ایک ایک گھیرے میں پیر رہا ہے (ف۶۵)

{وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ:اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو پیدا کیا ۔} ارشاد فرمایا کہ وہی اکیلا معبود ہے جس نے رات کو تاریک بنایا تاکہ لوگ اس میں  آرام کریں  اور دن کو روشن بنایا تاکہ اس میں  معاش وغیرہ کے کام انجام دیں  اور سورج کو پیدا کیا تاکہ وہ دن کا چراغ ہو اور چاند کو پیدا کیا تاکہ وہ رات کا چراغ ہو ۔یہ سب ایک گھیرے میں  ا یسے تیر رہے ہیں  جس طرح تیراک پانی میں  تیرتا ہے۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۷۱۵، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۲۷۶، ملتقطاً)

21:34
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَؕ-اَفَاۡىٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ(۳۴)
اور ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کے لیے دنیا میں ہمیشگی نہ بنائی (ف۶۶) تو کیا اگر تم انتقال فرماؤ تو یہ ہمیشہ رہیں گے (ف۶۷)

{وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ:اور ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کے لیے ہمیشہ رہنا نہ بنایا۔}  گزشتہ آیات میں   اللہ عَزَّوَجَلَّنے اپنے قادرِمُطْلَق ہونے کی نشانیاں  بیان فرمائیں  اور اسی کے تحت اپنی نعمتوں  کابھی بیان فرمایا، اب ان آیات میں  بتایا جارہا ہے کہ دنیا فنا ہونے والی ہے اور اس میں  ہرچیز کوفنا ہونا ہے لہٰذا اس میں  دل نہ لگاؤ اور نہ ہی اس دنیا کے عجائب وغرائب اور اس کی آرائشوں  پرجان ودل سے قربان ہوجاؤ بلکہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تویہ چیزیں  تمہاری آزمائش کے لیے پیدا کی ہیں  لہٰذا اپنی ابدی زندگی پر نظر رکھتے ہوئے اسی کی تیاری کرو۔ شانِ نزول: رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمن اپنی گمراہی اوردشمنی کی وجہ سے کہتے تھے کہ ہم حوادثِ زمانہ کا انتظار کررہے ہیں ، عنقریب ایسا وقت آنے والاہے کہ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وفات ہوجائے گی ۔اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ دشمنانِ رسول کے لئے یہ کوئی خوشی کی بات نہیں  کیونکہ ہم نے دنیا میں  کسی آدمی کے لئے ہمیشگی نہیں  رکھی۔ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا اگر آپ انتقال فرما جائیں  تو یہ لوگ ہمیشہ رہیں  گے اور انہیں  موت کے پنجے سے رہائی مل جائے گی ؟جب ایسا نہیں  ہے تو پھر وہ کس بات پر خوش ہوتے ہیں ؟ اورحقیقت یہ ہے کہ ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۴-۳۵، ۳ / ۲۷۶)

21:35
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةًؕ-وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(۳۵)
ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم تمہاری آزمائش کرتے ہیں برائی اور بھلائی سے (ف۶۸) جانچنے کو (ف۶۹) اور ہماری ہی طرف تمہیں لوٹ کر آنا ہے (ف۷۰)

{وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةً:اور ہم برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں خوب آزماتے ہیں ۔} یعنی ہم تمہیں  راحت و تکلیف ،تندرستی و بیماری ، دولت مندی و ناداری، نفع اور نقصان کے ذریعے آزماتے ہیں  تاکہ ظاہر ہو جائے کہ صبر و شکر میں  تمہارا کیا درجہ ہے اور بالآخر تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے اورہم تمہیں  تمہارے اعمال کی جزا دیں  گے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۲۷۶)

مصیبت آنے پر صبر اور نعمت ملنے پر شکر کرنے کی ترغیب:

            ا س سے معلوم ہو اکہ بعض اوقات مصیبت نازل کر کے یا نعمت عطا کر کے بندے کواس بات میں  آزمایا جاتا ہے کہ وہ مصیبت آنے پر کتنا صبر کرتا اور نعمت ملنے پر کتنا شکر کرتا ہے،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ جب وہ     محتاجی یا بیماری وغیرہ کسی مصیبت میں  مبتلا ہو تو شکوہ شکایت نہ کرے بلکہ اس میں   اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں  مصروف رہے اور جب اسے مالداری اور صحت وغیرہ کوئی نعمت ملے تو وہ  اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے ۔ ترغیب کے لئے یہاں  مصیبت پر صبر اور نعمت پر شکر کرنے سے متعلق 4اَحادیث ملاحظہ ہوں ۔

(1)…حضرت ابو سعید رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انورصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ جو صبر کرنا چاہے گا  اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطا فرمادے گا اور صبر سے بہتر اور وسعت والی عطا کسی پر نہیں  کی گئی۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فضل التعفّف والصبر، ص۵۲۴، الحدیث: ۱۲۴(۱۰۵۳))

(2)…حضر ت انس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدار رسالتصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک زیادہ اجر سخت آزمائش پر ہی ہے اور  اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں  آزمائش میں  مبتلا کر دیتا ہے، تو جو اس کی قضا پر راضی ہو اس کے لئے رضا ہے اور جوناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء، ۴ / ۳۷۴، الحدیث: ۴۰۳۱)

(3)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روا یت ہے،نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جسے چار چیزیں  عطا کی گئیں  اسے دنیا و آخرت کی بھلائی عطا کی گئی :(۱) شکر کرنے والا دل۔ (۲)  اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والی زبان۔ (۳) مصیبت پر صبر کرنے والا بدن۔ (۴) اس کے مال اور عزت میں  خیانت نہ کرنے والی بیوی۔( معجم الکبیر، طلق بن حبیب عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۳۴، الحدیث: ۱۱۲۷۵)

(4)…حضرت حسن بصری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جب  اللہ تعالیٰ کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر کامطالبہ فرماتا ہے، اگر وہ اس کا شکر کریں  تو  اللہ تعالیٰ انہیں  زیادہ دینے پر قادر ہے اور اگر وہ ناشکری کریں تووہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ اپنی نعمت کو ان پر عذاب سے بدل دے۔( شعب الایمان، الثالث والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۷، روایت نمبر: ۴۵۳۶)

21:36
وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًاؕ-اَهٰذَا الَّذِیْ یَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْۚ-وَ هُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ(۳۶)
اور جب کافر تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہیں نہیں ٹھہراتے مگر ٹھٹھا (ف۷۱) کیا یہ ہیں وہ جو تمہارے خداؤں کو برا کہتے ہیں اور وہ (ف۷۲) رحمن ہی کی یاد سے منکر ہیں (ف۷۳)

{وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:اور جب کافر آپ کو دیکھتے ہیں  ۔} گزشتہ آیت میں  سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصال کی باتیں  کرنے والوں  کوجواب دیا گیا، اب اس آیت میں  ان لوگوں  کو جواب دیا جا رہا ہے جو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ مَسخرہ پن کیا کرتے تھے۔ شانِ نزول:یہ آیت ابوجہل کے بارے میں  نازِل ہوئی۔ ایک مرتبہ حضور اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے جارہے تھے تو ابو جہل آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھ کر ہنسا اور اپنے ساتھ موجود لوگوں  سے کہنے لگا کہ: یہ بنی عبد ِمناف کے نبی ہیں  ،پھر وہ آپس میں  ایک دوسرے سے کہنے لگے : کیا یہ وہ آدمی ہے جو تمہارے خداؤں  کو برا کہتا ہے۔‘‘ اس پر  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،یہ آپ پر اپنے خداؤں  کو برا کہنے کا عیب لگاتے ہیں  حالانکہ ان کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ رحمٰن ہی کی یاد سے منکر ہیں  اور کہتے ہیں  کہ ہم رحمٰن کو جانتے ہی نہیں  ۔ اس جہالت اور گمراہی میں  مبتلا ہونے کے باوجود آپ کے ساتھ مذاق کرتے ہیں  اور یہ نہیں  دیکھتے کہ ہنسی کے قابل توخود ان کا اپنا حال ہے۔(خازن ، الانبیاء ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۲۷۷، مدارک ، الانبیاء ، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۷۱۶،  روح البیان، الانبیاء ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۵ / ۴۷۹-۴۸۰، ملتقطاً)

21:37
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍؕ-سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ(۳۷)
آدمی جلد باز بنایا گیا، اب میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا مجھ سے جلدی نہ کرو (ف۷۴)

{خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ:آدمی جلد باز بنایا گیا۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جلد بازی کی زیادتی اور صبر کی کمی کی وجہ سے گویا انسان بنایا ہی جلد بازی سے گیا ہے یعنی جلد بازی انسان کا خمیر ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جلد بازی کو انسان کی فطرت اور اخلاق میں  پیدا کیا گیا ہے۔ یہاں  آیت میں  انسان سے کون مراد ہے، اس کے بارے میں  مفسرین کے تین قول ہیں : (1) اس سے انسان کی جنس مراد ہے ۔ (2) یہاں  انسان سے مراد نضر بن حارث ہے ۔ (3) اس آیت میں  انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہیں ۔( روح المعانی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۹ / ۶۴-۶۵)

{سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ:اب میں  تمہیں  اپنی نشانیاں  دکھاؤں  گا۔} شانِ نزول: جب نضر بن حارث نے جلد عذاب نازل کرنے کامطالبہ کیا تواس کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایاگیاکہ اب میں  تمہیں  اپنی نشانیاں  دکھاؤں  گا۔ ان نشانیوں  سے عذاب کے وہ وعدے مراد ہیں  جو مشرکین کو دئیے گئے تھے ، ان وعدوں  کا وقت قریب آ گیا ہے، لہٰذا انہیں  چاہئے کہ وقت سے پہلے ان کا مطالبہ نہ کریں ۔چنانچہ دنیا میں بدر کے دن وہ منظر ان کی نگاہوں  کے سامنے آ گیا اور آخرت میں  وہ جہنم کا عذاب دیکھیں  گے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۲۷۷، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۴۸۰، ملتقطاً)

حضور اقدسصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی گستاخی کا انجام:

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے اس مقام پر ’’تاویلات ِنجمیہ‘‘ کے حوالے سے ایک بہت پیارا نکتہ بیان کیا ہے کہ (گویا  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا) اے کافرو! تم اپنی جہالت و گمراہی کی وجہ سے عذاب طلب کرنے میں  جلدی مچا رہے ہو، کیونکہ تم نے مذاق اڑا کر اور دشمنی کر کے میرے حبیب اور میرے نبیصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تکلیف دی ہے۔

(میرے اولیاء کا میری بارگاہ میں  یہ مقام ہے کہ ) جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی تو اس نے مجھ سے جنگ کا اعلان کر دیا اور بے شک اس نے عذاب طلب کرنے میں  جلدی کر لی کیونکہ میں  اپنے اولیاء کی وجہ سے شدید غضب فرماتا ہوں  اور جو بد بخت میرے حبیب اور میرے نبی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے دشمنی کرے تو اس کا انجام کیا ہو گا۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۴۸۱)

            اس میں  ان لوگوں  کے لئے بڑی عبر ت ہے جو حضور پُر نورصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے بے اَدبانہ انداز اپنا کر، آپ کی سیرت اور سنتوں  کا مذاق اڑا کر،آپ کے اَعمال کو ہدفِ تنقید بنا کر،آپ کے صحابۂ کرام اور آل اولاد پر انگشت ِاِعتراض اٹھا کر الغرض کسی بھی طریقے سے حضور پُر نورصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے اَذِیَّت اور تکلیف کاباعث بنتے ہیں  ۔ اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت عطا فرمائے۔

جلد بازی کی مذمت اور مستقل مزاجی کی اہمیت:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ جلد بازی ایسی بری چیز ہے کہ اس کی وجہ سے انسان اپنی ہلاکت و بربادی اور عبرتناک موت تک کا مطالبہ کر بیٹھتا ہے اور یہ جلد بازی کا ہی نتیجہ ہے کہ انسان اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھ بیٹھتا ہے اور وہ کوئی عملی قدم اٹھانے سے پہلے ا س کے اچھے اوربرے پہلوؤں  پر غور نہیں  کر پاتا اوریوں  اکثر وہ اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں  مستقل مزاج اور سکون و اطمینان سے کام کرنے والاآدمی اپنے مقصد کو پا لیتا ہے اور نقصان سے بھی بچ جاتا ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب تم نے بردباری سے کام لیا تو اپنے مقصد کو پالیا، یا عنقریب پا لوگے اور جب تم نے جلدبازی کی تو تم خطا کھاجاؤ گے یا ممکن ہے کہ تم سے خطا سرزد ہوجائے۔(السنن الصغری، کتاب آداب القاضی، باب التثبت فی الحکم، ۲ / ۶۱۰، الحدیث: ۴۴۹۹)

             حضرت حسن رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو جلدی کرتا ہے وہ خطا میں  پڑتا ہے۔ (نوادر الاصول، الاصل الحادی والستّون والمائتان، ۲ / ۱۲۶۸، الحدیث: ۱۵۵۹)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ جلد بازی سے بچے اور مستقل مزاجی کو اختیار کرنے کی کوشش کرے۔ خیال رہے کہ چند چیزوں  میں  جلد ی اچھی ہے، جیسے گناہوں  سے توبہ ، نماز کی ادائیگی، جب کُفُومل جائے تو لڑکی کی شادی اور میت کی تجہیز و تکفین کرنے میں  جلدی کرنا ۔ ([1])


[1] ۔۔۔مستقل مزاجی کی اہمیت اور جلد بازی کے نقصانات سے متعلق مفید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’جلدبازی کے نقصانات‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں ۔

21:38
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۸)
اور کہتے ہیں کب ہوگا یہ وعدہ (ف۷۵) اگر تم سچے ہو،

{وَ یَقُوْلُوْنَ:اور کہتے ہیں  ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین نے جلدی مچاتے اور مذاق اڑاتے ہوئے کہا :اے مسلمانوں  کے گروہ! اگر تم سچے ہوتو عذاب یا قیامت کا یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟ ارشاد فرمایا گیا کہ اگر کافر اس وقت کو جان لیتے جب وہ اپنے چہروں  سے اور اپنی پیٹھوں  سے دوزخ کی آگ کو نہ روک سکیں  گے اور نہ ان کی مددکی جائے گی، تو وہ کفر پر قائم نہ رہتے اور عذاب طلب کرنے میں  جلد ی نہ کرتے۔ (قرطبی ، الانبیاء ، تحت الآیۃ : ۳۸-۳۹ ، ۶ / ۱۶۱ ، الجزء الحادی عشر ، تفسیر کبیر ، الانبیاء ، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ۸ / ۱۴۵-۱۴۶، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ۳ / ۲۷۷، ملتقطاً) نیز کفار کو اپنے عذاب کا حقیقی علم ہوجاتا تو قیامت کا وقت نہ پوچھتے بلکہ اس کیلئے تیاری کرتے۔

{ بَلْ تَاْتِیْهِمْ بَغْتَةً:بلکہ وہ ان پر اچانک آپڑے گی ۔} کفار کے طلب کردہ عذاب کی شدت بیان کرنے کے بعد  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ کفار کو اس کے آنے کا وقت معلوم نہیں  بلکہ وہ قیامت ان پر اچانک آپڑے گی تو انہیں  حیران کردے گی، پھر نہ وہ اسے کسی حیلے سے ردکرسکیں  گے اور نہ انہیں  توبہ و معذرت کی مہلت دی جائے گی۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۰، ۸ / ۱۴۶)

21:39
لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا حِیْنَ لَا یَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَ لَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ وَ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ(۳۹)
کسی طرح جانتے کافر اس وقت کو جب نہ روک سکیں گے اپنے مونہوں سے آگے (ف۷۶) اور نہ اپنی پیٹھوں سے اور نہ ان کی مدد ہو (ف۷۷)

21:40
بَلْ تَاْتِیْهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ رَدَّهَا وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ(۴۰)
بلکہ وہ ان پر اچانک آپڑے گی (ف۷۸) تو انہیں بے حواس کردے گی پھر نہ وہ اسے پھیرسکیں گے اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی (ف۷۹)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْاَ نْبِيَآء
اَلْاَ نْبِيَآء
  00:00



Download

اَلْاَ نْبِيَآء
اَلْاَ نْبِيَآء
  00:00



Download