READ

Surah Al-Anbiyaa

اَلْاَ نْبِيَآء
112 Ayaat    مکیۃ


21:41
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠(۴۱)
اور بیشک تم سے اگلے رسولوں کے ساتھ ٹھٹھا کیا گیا (ف۸۰) تو مسخرگی کرنے والوں کا ٹھٹھا انہیں کو لے بیٹھا (ف۸۱)

{وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ:اور بیشک تم سے اگلے رسولوں  کا مذاق اڑایا گیا ۔}  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو مزید تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ اے پیارے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح آپ کی قوم نے آپ کا مذاق اڑایا اسی طرح ان سے پہلے کے کفار بھی اپنے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مذاق اڑایا کرتے تھے تو مذاق اڑانے والوں  کا مذاق انہیں  کو لے بیٹھا اور وہ اپنے مذاق اڑانے اور مسخرہ پن کرنے کے وبال و عذاب میں  گرفتار ہوئے۔لہٰذا آپ رنجیدہ نہ ہوں  ، آپ کے ساتھ اِستہزاء کرنے والوں  کا بھی یہی انجام ہونا ہے۔(تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۱، ۸ / ۱۴۶، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۴۸۷، ملتقطاً)

21:42
قُلْ مَنْ یَّكْلَؤُكُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِؕ-بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ(۴۲)
تم فرماؤ شبانہ روز تمہاری کون نگہبانی کرتا ہے رحمان سے (ف۸۲) بلکہ وہ اپنے رب کی یاد سے منہ پھیرے ہیں (ف۸۳)

{قُلْ:تم فرماؤ۔} اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مذاق اڑانے والے مغرور کافروں  سے فرما ئیں  کہ اگر  اللہ تعالیٰ رات اور دن میں  تم پر اپنا عذاب نازل کرے تواس کے عذاب سے تمہاری کون حفاظت کرے گا؟ کیا اس کے علاوہ کوئی اور ایسا ہے جو تمہیں  عذاب سے محفوظ رکھ سکے؟ تو حقیقت میں  یہ لوگ سراسر غفلت میں  پڑے ہوئے ہیں  اور اپنے رب کی یاد سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔

21:43
اَمْ لَهُمْ اٰلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِّنْ دُوْنِنَاؕ-لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَ اَنْفُسِهِمْ وَ لَا هُمْ مِّنَّا یُصْحَبُوْنَ(۴۳)
کیا ان کے کچھ خدا ہیں (ف۸۴) جو ان کو ہم سے بچاتے ہیں (ف۸۵) وہ اپنی ہی جانوں کو نہیں بچاسکتے (ف۸۶) اور نہ ہماری طرف سے ان کی یاری ہو،

{اَمْ لَهُمْ اٰلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِّنْ دُوْنِنَا:کیا ان کے کچھ خدا ہیں  جو انہیں  ہم سے بچالیں  گے ؟} ارشاد فرمایا کہ کیا ان کافروں  کے خیال میں  ہمارے سوا ان کے کچھ خدا ہیں  جو انہیں  ہم سے بچاتے ہیں  اور ہمارے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں ؟ ایسا تو نہیں  ہے اور اگر وہ اپنے بتوں  کے بارے میں  یہ اعتقاد رکھتے ہیں  تو ان بتوں  کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی ہی جانوں  کی مدد نہیں  کرسکتے ،اپنے پوجنے والوں  کو کیا بچا سکیں  گے اور نہ ہی ان کی ہماری طرف سے مدد و حفاظت کی جاتی ہے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۲۷۸، تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۳، ۸ / ۱۴۷، ملتقطاً)

21:44
بَلْ مَتَّعْنَا هٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى طَالَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُؕ-اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَاؕ-اَفَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ(۴۴)
بلکہ ہم نے ان کو (ف۸۷) اور ان کے باپ دادا کو برتاوا دیا (ف۸۸) یہاں تک کہ زندگی ان پر دراز ہوئی (ف۸۹) تو کیا نہیں دیکھتے کہ ہم (ف۹۰) زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے آرہے ہیں (ف۹۱) تو کیا یہ غالب ہوں گے (ف۹۲)

{بَلْ مَتَّعْنَا هٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ:بلکہ ہم نے انہیں  اور ان کے باپ دادا کوفائدہ اٹھانے دیا۔} ارشاد فرمایا: بلکہ ہم نے ان کفار کو اور ان کے باپ دادا کو فائدہ اٹھانے دیا اور دنیا میں  انہیں  نعمت و مہلت دی یہاں  تک کہ زندگی ان پر دراز ہوگئی اور وہ اس سے اور زیادہ مغرور ہوئے اور انہوں  نے گمان کیا کہ وہ ہمیشہ ایسے ہی رہیں  گے تو کیا وہ نہیں  دیکھتے کہ ہم کفرستان کی زمین کو اس کے کناروں  سے گھٹاتے آرہے ہیں اور روز بروز مسلمانوں  کو اس پر تَسَلُّط دے رہے ہیں  اور ایک شہر کے بعد دوسرا شہر فتح ہوتا چلا آ رہا ہے ، حدودِ اسلام بڑھ رہی ہیں  اورکفر کی سرزمین گھٹتی چلی آتی ہے اور مکہ مکرمہ کے قریبی علاقوں  پر مسلمانوں  کا تسلط ہوتا جارہا ہے ، کیا مشرکین جو عذاب طلب کرنے میں  جلدی کرتے ہیں  اس کو نہیں  دیکھتے اور عبرت حاصل نہیں  کرتے ، تو کیا یہ غالب ہوں  گے جن کے قبضہ سے زمین دَمْبدم نکلتی جا رہی ہے یا رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے اَصحاب جو  اللہ تعالیٰ کے فضل سے فتح پر فتح پا رہے ہیں  اور ان کے مقبوضہ علاقے رفتہ رفتہ بڑھتے چلے جارہے ہیں  ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۷۸، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۷۱۷، ملتقطاً)

غفلت و عذاب کا عمومی سبب:

            اس سے معلوم ہوا کہ لمبی عمر، مال کی زیادتی اور زیادہ آرام عموماً غفلت اور  اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سبب بن جاتے ہیں  اور یہی چیزیں  جب نیکیوں  میں  صَرف ہوں  تو  اللہ تعالیٰ کی رحمت بن جاتی ہیں ، جیسے شیطان کی لمبی عمر اس کے لئے زیادہ عذاب کا باعث ہے اور حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دراز عمر شریف عین رحمت ِپروردگار ہے۔

پہلے کافروں  اور اب مسلمانوں  پر زمین کے کناروں  کی کمی:

            ابتداءِ اسلام میں  مسلمان چونکہ قرآنِ مجید کے احکامات اور ا س کی تعلیمات پر کامل طریقے سے عمل پیرا تھے اور انہوں  نے حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت وپیروی کو مضبوطی سے تھاما ہو اتھا جس کے نتیجے میں   اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  پر یہ انعام فرمایا کہ کفار کی آبادیوں  ،بستیوں  ،شہروں  اور ملکوں  پران کاغلبہ ختم کرکے مسلمانوں  کو قبضہ عطا کر دیا اور رفتہ رفتہ روم اور ایران کی طاقتور ترین سلطنتیں  مسلمانوں  کے تَسَلُّط میں  آ گئیں ، عراق اور مصر کی سر زمین پر مسلمانوں  کا قبضہ ہو گیا، افریقی ممالک اور اندلس کے شہر مسلمانوں  کے اقتدار میں  آ گئے اور دنیا کے ایک تہائی حصے پر دینِ اسلام کا پرچم لہرانے لگا ۔

            صدیوں  تک مسلمانوں  کا یہی حال رہا اور اس عرصے میں  مسلمان علمی، فنی، حربی اور تعمیری میدان میں  ترقی در ترقی کرتے رہے اور یہ دور مسلمانوں  کی خوشحالی اور ترقی کا زریں  دور رہا۔ پھر جب مسلمان قرآنِ مجید کے احکامات اور اس کی تعلیمات پر عمل سے دور ہونے لگے اور حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری سے رو گردانی شروع کر دی، عیش و عشرت کی بزم گرم کرنے اور رَقْص و سُرور کی محفل سجانے لگ گئے، ایک دوسرے سے اقتدار چھیننے میں  مصروف ہوئے اور اقتدار کے حصول کی خاطر اسلام کے دشمنوں  کو اپنا مددگار بنانے اور ان سے مدد حاصل کرنے لگ گئے تو ا س کا انجام یہ ہوا کہ ان کی ملی وحدت پارہ پارہ ہونا شروع ہو گئی اور آہستہ آہستہ مسلمانوں  کے مفتوحہ علاقے کفار کے قبضے میں  آنے لگ گئے ،اسلامی سلطنت کی حدود سمٹنے لگ گئیں  اور اب دنیا بھر میں  مسلمانوں  کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر آج بھی مسلمان اپنے ماضی سے سبق نہ سیکھیں  گے تو کوئی بعید نہیں  کہ مسلمانوں  کا رہا سہا غلبہ و اقتدار بھی ان سے چھن جائے۔

 

 

21:45
قُلْ اِنَّمَاۤ اُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْیِ ﳲ وَ لَا یَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآءَ اِذَا مَا یُنْذَرُوْنَ(۴۵)
تم فرماؤ کہ میں تم کو صرف وحی سے ڈراتا ہوں (ف۹۳) اور بہرے پکارنا نہیں سنتے جب ڈرائے جائیں، (ف۹۴)

{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں  سے فرما دیں  کہ میرا کام یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں  میری طرف جو وحی کی جاتی ہے اِس کے ذریعے میں  تمہیں  اُس عذاب سے ڈراؤں  جس کے آنے کی تم جلدی مچا رہے ہو، عذاب کولانا میرا کام نہیں ۔ آیت کے آخر میں  کافروں  کے متعلق فرمایا کہ جیسے بہروں  کو کسی خطرے میں  آواز دی جائے تو انہیں  یہ آواز فائدہ نہیں  دیتی کیونکہ ان میں  کسی کی آواز سے نفع اٹھانے کی صلاحیت نہیں  ہے اسی طرح کفار کی حالت ہے کہ انہیں  عذاب کی وَعِیدیں  فائدہ نہیں  دیتیں  کیونکہ انہوں  نے ہدایت کی بات سننے سے خود کو بہرا کیا ہوا ہے۔

آیت’’قُلْ اِنَّمَاۤ اُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْیِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔

(1)… پیغمبر پر احکام سنا دینا لازم ہے، دل میں  اتارنا لازم نہیں  کہ یہ خدا کا کام ہے۔

(2)… جو وعظ سے نفع حاصل نہ کرے، وہ بہرا ہے یعنی دل کا بہرا ہے، اگرچہ بظاہر اس میں  سننے کی قوت موجود ہو۔

21:46
وَ لَىٕنْ مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(۴۶)
اور اگر انہیں تمہارے رب کے عذاب کی ہوا چھو جائے تو ضرور کہیں گے ہائے خرابی ہماری بیشک ہم ظالم تھے (ف۹۵)

{وَ لَىٕنْ مَّسَّتْهُمْ:اور اگر انہیں  چھو جائے۔} اس سے پہلی آیت میں  بیان ہوا کہ عذاب آنے کی خبر سن کرکافروں  پر کوئی اثر نہ ہوا اور یہاں فرمایا کہ جب عذاب آ جائے گاتو پھر انہیں  پتہ چلے گا کہ انہیں  کتنی جلدی اثر ہوتا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ  اگر انہیں   اللہ تعالیٰ کے عذاب کا معمولی حصہ پہنچ جائے تو اس وقت یہ ضرور پکاریں  گے کہ ہائے ہم برباد ہو گئے ،ہم ہلاک ہو گئے ،بے شک ہم نبی کی بات پر توجہ نہ دے کر اور ان پر ایمان نہ لا کر اپنی جانوں  پر ظلم کرنے والے تھے۔( ابوسعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۲۰، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۷۱۷-۷۱۸، ملتقطاً)

 غفلت و بدبختی کا شکار لوگوں  کا حال:

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :اس آیت میں  اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ غفلت و بدبختی کا شکار لوگ دنیا میں  انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تنبیہ اور اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ مْکے وعظ سے نصیحت حاصل نہیں  کرتے یہاں  تک کہ موت کے بعد انہیں   اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار میں  سے کوئی اثر پہنچے، کیونکہ ابھی لوگ سو رہے ہیں  اور جب انہیں  موت آئے گی تو یہ بیدار ہو جائیں  گے ،پھر یہ اپنے گناہوں  کا اعتراف کریں  گے اور اپنی جانوں  پر ظلم کرنے کی وجہ سے ہائے بربادی، ہائے ہلاکت پکاریں  گے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے عذاب اور ا س کی ناراضی کے اسباب سے بچے اور رحمت و نجات کے دروازے کی طرف آئے ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور پرہیز گاری کا راستہ اختیار کرے اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے سے بچے۔(روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۶، ۵ / ۴۸۵)

 

21:47
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)
اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا، اور اگر کوئی چیز (ف۹۶) رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اسے لے آئیں گے، اور ہم کافی ہیں حساب کو،

{وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ:اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں  گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں  کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں  سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں  گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۷، ۵ / ۴۸۵-۴۸۶، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۲۷۳، ملتقطاً)

            یاد رہے کہ میزان کا معنی اوراعمال کے وزن کی صورتوں  نیز میزان سے متعلق مزید کلام سورہ اَعراف کی آیت نمبر 8 کی تفسیر کے تحت گزر چکا ہے ۔

میزان کے خطرے سے نجات پانے والا شخص:

            قیامت کے ہولناک مراحل میں  سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ وہ ہے جب لوگوں  کے اعمال کا وزن کیا جائے گااور یہاں  کسی کے ثواب میں  کمی کر کے یا کسی کے گناہوں  میں  اضافہ کر کے اس پر ظلم نہیں  کیا جائے گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف ہو گا اور ہر ایک کو ا س کا حق دیاجائے گا لہٰذا اس مرحلے میں  کامیابی حاصل کرنے کے لئے دنیا میں  تیاری بہت ضروری ہے۔ ترمذی شریف میں  حضرت عائشہ صدیقہرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاسے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوا اور اس نے آپ کے سامنے بیٹھ کر عرض کی : یا رسولَ  اللہ !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے کچھ غلام ہیں  جو مجھ سے جھوٹ بولتے ، میرے ساتھ خیانت کرتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں  ، میں  انہیں  گالیاں  دیتا اور مارتا ہوں ، تو ان سے متعلق میرا کیا حال ہو گا؟ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’( جب قیامت کا دن ہو گا تو) ان لوگوں  نے جوتمہاری خیانت کی ، تمہاری نافرمانی کی اور تم سے جھوٹ بولا اور جوتم نے انہیں  سزا دی، ان سب کا حساب لگایا جائے گا، پھر اگر تیری سزا ان کے جرموں  کے برابر ہو گی تو حساب بے باق ہے، نہ تیرا ان کے ذمہ نہ ان کا تیرے ذمہ کچھ ہو گا، اور اگر تیرا انہیں  سزا دینا ان کے قصوروں  سے کم ہوگا تو تجھے ان پر بزرگی حاصل ہوگی اور اگر تیرا انہیں  سزا دینا ان کے قصور سے زیادہ ہوا تو زیادتی کا تجھ سے بدلہ لیا جائے گا۔ وہ شخص ایک طرف ہوگیا اور چیخیں  مار کررونے لگا، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے ارشاد فرمایا ’’ کیا تم نے  اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں  پڑھا

’’وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـا‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازورکھیں  گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا۔‘‘

            اس شخص نے عرض کی :میں  اپنے اوران غلاموں  کے لیے ان کی جدائی سے بہتر کوئی چیز نہیں  پاتا ،میں  آپ کو گواہ بناتا ہوں  کہ یہ سارے آزاد ہیں ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الانبیاء علیہم السلام، ۵ / ۱۱۱، الحدیث: ۳۱۷۶)

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں :میزان کے خطرے سے وہی بچ سکتا ہے جس نے دنیا میں  اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس میں  شرعی میزان کے ساتھ اپنے اعمال ، اقوال اور خطرات و خیالات کو تولا ہو، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا ’’اپنے نفسوں  کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور (قیامت کے دن) وزن کرنے سے پہلے خود وزن کرلو۔‘‘ اپنے نفس کے حساب (یا محاسبہ) سے مراد یہ ہے کہ بندہ مرنے سے پہلے روزانہ سچی توبہ کرے اور  اللہ تعالیٰ کے فرائض میں  جو کوتاہی کی ہے اس کا تَدارُک کرے اور لوگوں  کے حقوق ایک ایک کوڑی کے حساب سے واپس کرے اور اپنی زبان، ہاتھ یا دل کی بدگمانی کے ذریعے کسی کی بے عزتی کی ہو تو اس کی معافی مانگے اور ان کے دلوں  کو خوش کرے حتّٰی کہ جب اسے موت آئے تو اس کے ذمہ نہ کسی کا کوئی حق ہو اور نہ ہی کوئی فرض، تو یہ شخص کسی حساب کے بغیر جنت میں  جائے گا۔ اور اگر وہ لوگوں  کے حقوق ادا کرنے سے پہلے مرجائے تو (قیامت کے دن) حق دار اس کا گھیراؤ کریں  گے، کوئی اسے ہاتھ سے پکڑے گا ،کوئی اس کی پیشانی کے بال پکڑے گا، کسی کا ہاتھ اس کی گردن پر ہوگا، کوئی کہے گا :تم نے مجھ پر ظلم کیا، کوئی کہے گا: تو نے مجھے گالی دی ، کوئی کہے گا: تم نے مجھ سے مذاق کیا ، کوئی کہے گا :تم نے میری غیبت کرتے ہوئے ایسی بات کہی جو مجھے بری لگتی تھی، کوئی کہے گا: تم میرے پڑوسی تھے لیکن تم نے مجھے اِیذا دی، کوئی کہے گا :تم نے مجھ سے معاملہ کرتے ہوئے دھوکہ کیا، کوئی کہے گا :تو نے مجھ سے سودا کیا تو مجھ سے دھوکہ کیا اور مجھ سے اپنے مال کے عیب کو چھپایا ،کوئی کہے گا: تو نے اپنے سامان کی قیمت بتاتے ہوئے جھوٹ بولا، کوئی کہے گا: تو نے مجھے      محتاج دیکھا اور تو مال دار تھا لیکن تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا، کوئی کہے گا: تو نے دیکھا کہ میں  مظلوم ہوں  اور تو اس ظلم کو دور کرنے پر قادر بھی تھا، لیکن تو نے ظالم سے مُصالحت کی اور میرا خیال نہ کیا۔

            تو جب اس وقت تیرا یہ حال ہوگا اور حق داروں  نے تیرے بدن میں  ناخن گاڑ رکھے ہوں  گے اور تیرے گریبان پر مضبوط ہاتھ ڈالاہوگا اور تو ان کی کثرت کے باعث حیران وپریشان ہوگا حتّٰی کہ تو نے اپنی زندگی میں  جس سے ایک درہم کا معاملہ کیا ہوگا یا اس کے ساتھ کسی مجلس میں  بیٹھا ہوگا تو غیبت ، خیانت یا حقارت کی نظر سے دیکھنے کے اعتبار سے اس کا تجھ پر حق بنتا ہوگا اور تو ان کے معاملے میں  کمزور ہوگا اور اپنی گردن اپنے آقا اور مولیٰ کی طرف اس نیت سے اٹھائے گا کہ شاید وہ تجھے ان کے ہاتھ سے چھڑائے کہ اتنے میں   اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا تیرے کانوں  میں  پڑے گی :

’’ اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْؕ-لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ‘‘(مومن:۱۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: آج ہر جان کو اس کے کمائے ہوئے اعمالکا بدلہ دیا جائے گا ۔آج کسی پر زیادتی نہیں  ہوگی۔

            اس وقت ہیبت کے مارے تیرا دل نکل جائے گا اور تجھے اپنی ہلاکت کا یقین ہوجائے گا اور  اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبانی جو تجھے ڈرایا تھا وہ تجھے یاد آجائے گا۔  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ -اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ(۴۲) مُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْۚ -وَ اَفْـٕدَتُهُمْ هَوَآءٌؕ(۴۳) وَ اَنْذِرِ النَّاسَ‘‘(ابراہیم:۴۲-۴۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (اے سننے والے!)ہرگز  اللہ کو ان کاموں  سے بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم کررہے ہیں ۔  اللہ انہیں  صرف ایک ایسے دن کیلئے ڈھیل دے رہا ہے جس میں  آنکھیں  کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔لوگ بے تحاشا اپنے سروں  کو اٹھائے ہوئے دوڑتے جا رہے ہوں  گے، ان کی پلک بھی ان کی طرف نہیں  لوٹ رہی ہوگی اور ان کے دل خالی ہوں  گے۔ اور لوگوں  کو ڈراؤ۔

            آج جب تو لوگوں  کی عزتوں  کے پیچھے پڑتا ہے اور ان کے مال کھاتا ہے تو کس قدر خوش ہوتا ہے، لیکن اس دن تجھے کس قدر حسرت ہوگی جب تو عدل کے میدان میں  اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوگا اوراس وقت تو مُفلس ،فقیر، عاجز اور ذلیل ہوگا ،نہ کسی کا حق ادا کرسکے گا اور نہ ہی کوئی عذر پیش کرسکے گا۔پھر تیری وہ نیکیاں  جن کے لیے تو نے زندگی بھر مشقت برداشت کی تجھ سے لے کر ان لوگوں  کو دے دی جائیں  گی جن کے حقوق تیرے ذمہ ہوں  گے، اور یہ ان کے حقوق کا عِوَض ہوگا۔ تو دیکھو اس دن تم کس قدر مصیبت میں  مبتلا ہوگے کیوں  کہ پہلے تو تمہاری نیکیاں  ریا کاری اور شیطانی مکر وفریب سے محفوظ نہیں  ہوں  گی اور اگر طویل مدت کے بعدکوئی ایک نیکی بچ بھی جائے تو اس پر حق دار دوڑیں  گے اور اسے لے لیں  گے اور شاید تو اپنے نفس کا محاسبہ کرنے ، دن کو روزہ رکھنے اور رات کو قیام کرنے والا ہو، تو تجھے معلوم ہوگا کہ تو دن بھر مسلمانوں  کی غیبت کرتا رہا جو تیری تمام نیکیوں  کو لے گئی، باقی برائیاں  مثلاً حرام اور مشتبہ چیزیں  کھانا اور عبادات میں  کوتاہی کرنا اپنی جگہ ہے اور جس دن سینگوں  والے جانور سے بے سینگ جانور کا حق لیا جائے گا تو اس دن حقوق سے چھٹکارا پانے کی امید کیسے رکھ سکتا ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ الخصماء ورد الظلم، ۵ / ۲۸۱-۲۸۲)

21:48
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَۙ(۴۸)
اور بیشک ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فیصلہ دیا (ف۹۷) اور اجالا (ف۹۸) اور پرہیزگاروں کو نصیحت (ف۹۹)

{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ:اور بیشک ہم نے موسیٰ اور ہارون کوفیصلہ دیا۔} یہاں  سے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات بیان کیے جارہے ہیں  کہ انہوں  نے کس طرح  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین کی خدمت کی ، اس راہ میں  پیش آنے والی تکلیفیں  برداشت کیں  اورصبرواِستقامت کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑا تاکہ بعد میں  دین کی خدمت کرنے والوں  کے لیے مشعلِ راہ ہوں  اور وہ بھی صبر واِستقامت ،اِیثار واِخلاص اور اللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے دین کا کام کریں ۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا گیا اور ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوایسی کتاب عطاکی جس کا وصف یہ ہے کہ وہ حق وباطل کوالگ الگ کردینے والی ہے اور وہ ایسی روشنی ہے جس سے نجات کی راہ معلوم ہوتی ہے اور وہ ایسی نصیحت ہے جس سے پرہیز گار تنبیہ و نصیحت اور دینی اُمور کا علم حاصل کرتے ہیں ۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۷۱۸)

             تورات شریف حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تو بلا واسطہ دی گئی اور حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واسطہ سے عطا کی گئی ۔
21:49
الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ وَ هُمْ مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُوْنَ(۴۹)
وہ جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور انہیں قیامت کا اندیشہ لگا ہوا ہے،

{اَلَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ:وہ جو اپنے رب سے بغیر دیکھے ڈرتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا: پرہیز گار لوگوں  کا وصف یہ ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہیں  حالانکہ انہوں  نے ا س کے عذاب کا مشاہدہ نہیں  کیا اوروہ قیامت کے دن ہونے والے عذاب، حساب ،سوال اور اس کی دیگر ہولناکیوں  سے ڈرتے ہیں  اور اسی خوف کے سبب وہ  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے بچتے ہیں ۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۹، ۵ / ۴۸۸، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۷۱۸، تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۹، ۸ / ۱۵۱، ملتقطاً)

بن دیکھے  اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں  کی فضیلت:

            وہ لوگ جو بن دیکھے  اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں  ،ان کی فضیلت سے متعلق قرآنِ مجید میں  ایک مقام پر  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَ جَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِۙﹰ(۳۳)ادْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍؕ-ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ‘‘(ق: ۳۳،۳۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: جو رحمٰن سے بن دیکھے ڈرتا ہے اور رجوع کرنے والے دل کے ساتھ آتا ہے ۔(ان سے فرمایا جائے گا) سلامتی کے ساتھ جنت میں  داخل ہوجاؤ ،یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔

            اور دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے:

’’ اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ كَبِیْرٌ‘‘(ملک: ۱۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ بغیر دیکھے اپنے رب سےڈرتے ہیں  ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

اور حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے : میری عزت و جلال اور مخلوق پر میری بلندی کی قسم! نہ تومیں  اپنے بندے پردوخوف جمع کروں  گااورنہ اس کے لیے دوامن جمع کروں  گا،جودنیامیں  مجھ سے ڈرتا رہا اسے میں  قیامت کے دن امن دوں  گا اور جو دنیا میں  مجھ سے بے خوف رہا اسے میں  قیامت کے دن خوف میں  مبتلا کر دوں  گا۔( ابن عساکر، محمد بن علی بن الحسن بن ابی المضاء۔۔۔ الخ، ۵۴ / ۲۶۷)

            دعا ہے کہ  اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنے پرہیز گار بندوں  میں  شامل فرمائے ، دنیا میں  ہمیں  اپنا خوف نصیب کرے اور آخرت میں  خوف سے محفوظ فرمائے ، اٰمین۔

 

21:50
وَ هٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ اَنْزَلْنٰهُؕ-اَفَاَنْتُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ۠(۵۰)
اور یہ ہے برکت والا ذکر کہ ہم نے اتارا (ف۱۰۰) تو کیا تم اس کے منکر ہو،

{وَ هٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ:اور یہ برکت والا ذکر ہے۔} یعنی جس طرح ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر تورات نازل فرمائی اسی طرح ہم نے اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پربرکت والا ذکر قرآنِ پاک نازل فرمایا ہے،اس کے مَنافع کثیر اور ا س میں  بہت وسیع علوم ہیں  اور ایمان لانے والوں  کے لئے اس میں  بڑی برکتیں  ہیں ، اور جب یہ ظاہر ہو گیا کہ جس طرح ہم نے تورات نازل فرمائی اسی طرح قرآن مجید بھی نازل فرمایا تواے اہلِ مکہ! کیا یہ سب جاننے کے باوجود تم قرآنِ مجید کے ہماری طرف سے نازل ہونے کا انکار کرتے ہو؟( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۲۷۹، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۰، ۵ / ۴۸۹، ملتقطاً)

21:51
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ(۵۱)
اور بیشک ہم نے ابراہیم کو (ف۱۰۱) پہلے ہی سے اس کی نیک راہ عطا کردی اور ہم اس سے خبردار تھے، (ف۱۰۲)

{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ:اور بیشک ہم نے ابراہیم کو دیدی تھی۔} انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات میں  سے یہاں  دوسرا واقعہ بیان کیا جارہا ہے اور یہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا واقعہ ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی ابتدائی عمر میں  بالغ ہونے سے پہلے ہی ان کی نیک راہ عطا کر دی تھی اور ہم ان کے بارے میں جانتے تھے کہ وہ ہدایت و نبوت کے اہل ہیں ۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۱، ۸ / ۱۵۲، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۲۷۹، ملتقطاً)

{اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ:یاد کرو جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا۔} یعنی وہ وقت یاد کریں  جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے (عرفی) باپ اور اپنی قوم سے فرمایا: درندوں  پرندوں  اور انسانوں  کی صورتوں  کے بنے ہوئے یہ مجسمے کیا ہیں  جن کے آگے تم جم کر بیٹھے ہوئے ہو اور ان کی عبادت میں  مشغول ہو؟( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۷۱۸-۵۱۹)

21:52
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ(۵۲)
جب اس نے اپنے باپ اور قوم سے کہا یہ مورتیں کیا ہیں (ف۱۰۳) جن کے آگے تم آسن مارے (پوجا کے لیے بیٹھے) ہو (ف۱۰۴)

21:53
قَالُوْا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا لَهَا عٰبِدِیْنَ(۵۳)
بولے ہم نے اپنے دادا کو ان کی پوجا کرتے پایا (ف۱۰۴)

{قَالُوْا:انہوں  نے کہا ۔} جب لوگ مجسموں  کی عبادت کرنے پر کوئی دلیل پیش کرنے سے عاجز ہو گئے تو وہ کہنے لگے: ہم نے اپنے باپ داداکواسی طرح کرتے پایاہے لہٰذا ہم بھی اسی طرح کررہے ہیں ۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۲-۵۳، ص۷۱۹)

باپ دادا کا برا طریقہ عمل کے قابل نہیں:

            اس سے معلوم ہوا کہ باپ دادا جو کام شریعت کے خلاف کرتے رہے ہوں  ،اُن کاموں  کو کرنا اور ان کے کرنے پر اپنے باپ دادا کے عمل کو دلیل بنانا کفار کاطریقہ ہے ،ہمارے معاشرے میں  بہت سے مسلمان شادی بیاہ اور دیگر موقعوں  پر شریعت کے خلاف رسم و رواج کی پیروی کرنے میں  بھی ایسی ہی دلیل پیش کرتے ہیں  کہ ہمارے بڑے بوڑھے برسوں  سے اسی طرح کرتے آئے ہیں  اور ہم بھی انہی کے طریقے پر چل رہے ہیں  حالانکہ جو کام شریعت کے خلاف ہے اور اس کے جواز کی کوئی صورت نہیں  تو ا س کا برسوں  سے ہوتا آنا اور آباؤ اَجداد کا اپنی جہالت کی وجہ سے اسے کرتے رہنا اسے شریعت کے مطابق نہیں  کر سکتا۔  اللہ تعالیٰ ایسے مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے اور انہیں  شریعت کے خلاف کام کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

21:54
قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۵۴)
کہا بے شک تم اور تمہارے باپ دادا سب کھلی گمراہی میں ہو،

{قَالَ:فرمایا۔} قوم کا جواب سن کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان سے فرمایاکہ تم اورتمہارے باپ دادا جنہوں  نے یہ باطل طریقہ ایجادکیاسب کھلی گمراہی میں  ہو اور کسی عقل مند پر تمہارے اس طریقے کا گمراہی ہونا مخفی نہیں  ہے۔( ابو سعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۵۲۳)

دینی معاملے میں  کسی کی رعایت نہیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ دینی معاملے میں  کسی کی رعایت نہیں  بلکہ حق بات بہرحال بیان کرنی چاہیے ،ہاں  کہاں  کس حکمت ِ عملی کے مطابق بات کرنی چاہیے ، سختی سے یا نرمی سے تو یہ بات مبلغ کو معلوم ہونی چاہیے ۔

شریعت کے خلاف کام میں  کثرت ِرائے معتبر نہیں :

            اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خلافِ شرع کام میں  کثرتِ رائے کا کوئی اعتبار نہیں  ۔ ہمیشہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے ساتھی قلیل ہوتے اور دشمنانِ اسلام اکثریت میں  ہوتے تھے لیکن وہ اکثریت جھوٹی تھی اور انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سچے تھے۔

21:55
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِیْنَ(۵۵)
بولے کیا تم ہمارے پاس حق لائے ہو یا یونہی کھیلتے ہو (ف۱۰۶)

{قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ:بولے: کیا تم ہمارے پاس حق لائے ہو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم کوچونکہ اپنے طریقے کا گمراہی ہونا بہت ہی بعید معلوم ہوتا تھا اور وہ اس کا انکار کرنا بہت بڑی بات جانتے تھے، اس لئے انہوں  نے حضرت ابراہیمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے یہ کہا کہ کیا آپ یہ بات واقعی طور پر ہمیں  بتا رہے ہیں  یا یونہی ہنسی مذاق کے طور پر فرما رہے ہیں؟ اس کے جواب میں  آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے  اللہ تعالیٰ کی رَبُوبِیَّت کا بیان کرکے ظاہر فرما دیا کہ آپ کھیل کے طور پرکلام نہیں  کررہے بلکہ حق کا اظہار فرما رہے ہیں  چنانچہ آپ نے فرمایا: تمہاری عبادت کے مستحق یہ بناوٹی مجسمے نہیں  بلکہ تمہاری عبادت کا مستحق وہ ہے جو آسمانوں  اور زمین کا رب ہے جس نے انہیں  کسی سابقہ مثال کے بغیرپیدا کیا، تو پھر تم ان چیزوں  کی عبادت کیسے کرتے ہو جو مخلوقات میں  داخل ہیں  اور میں  نے تم سے جو بات کہی کہ تمہارا رب صرف وہ ہے جو آسمانوں  اور زمین کا رب ہے، میں  اسے دلیل کے ساتھ ثابت کر سکتا ہوں ۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۶، ص۷۱۹، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۶، ۵ / ۴۹۲، ملتقطاً)

21:56
قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الَّذِیْ فَطَرَهُنَّ ﳲ وَ اَنَا عَلٰى ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ(۵۶)
کہا بلکہ تمہارا رب وہ ہے جو رب ہے آسمان اور زمین کا جس نے انہیں پیدا کیا، اور میں اس پر گواہوں میں سے ہوں،

21:57
وَ تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ(۵۷)
اور مجھے اللہ کی قسم ہے میں تمہارے بتوں کا برا چاہوں گا بعد اس کے کہ تم پھر جاؤ پیٹھ دے کر (ف۱۰۷)

{وَ تَاللّٰهِ:اور مجھے  اللہ کی قسم ہے!} اس آیت اور اس کے بعد والی 7 آیات میں  جو واقعہ بیان کیاگیا ہے ا س کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم کاایک سالانہ میلہ لگتا تھا اور وہ اس دن جنگل میں  جاتے اور وہاں  شام تک لہو و لَعب میں  مشغول رہتے تھے ، واپسی کے وقت بت خانے میں  آتے اور بتوں  کی پوجا کرتے تھے ،اس کے بعد اپنے مکانوں  کو واپس جاتے تھے ۔ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کی ایک جماعت سے بتوں  کے بارے میں  مناظرہ کیا تو ان لوگوں  نے کہا: کل ہماری عید ہے، آپ وہاں  چلیں  اور دیکھیں  کہ ہمارے دین اور طریقے میں  کیا بہار ہے اور کیسے لطف آتے ہیں  ،چنانچہ جب وہ میلے کا دن آیا اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے میلے میں  چلنے کو کہا گیا تو آپ عذر بیان کر کے رہ گئے اور میلے میں  نہ گئے جبکہ وہ لوگ روانہ ہو گئے۔ جب ان کے باقی ماندہ اور کمزور لوگ جو آہستہ آہستہ جا رہے تھے گزرے تو آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا ’’ میں  تمہارے بتوں  کا برا چاہوں  گا۔ آپ کی اس بات کو بعض لوگوں  نے سن لیا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بت خانے کی طرف لوٹے توآپ نے ان سب بتوں  کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا، البتہ ان کے بڑے بت کو چھوڑ دیا اور کلہاڑا اس کے کندھے پر رکھ دیا کہ شاید وہ ا س کی طرف رجوع کریں ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اس بڑے بت سے پوچھیں  کہ ان چھوٹے بتوں  کا کیا حال ہے؟ یہ کیوں  ٹوٹے ہیں  اور کلہاڑا تیری گردن پر کیسے رکھا ہے؟ اور یوں  اُن پر اِس بڑے بت کاعاجز ہونا ظاہر ہو اور انہیں  ہوش آئے کہ ایسے عاجز خدا نہیں  ہو سکتے ۔یا یہ معنی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے دریافت کریں  اور آپ کو حجت قائم کرنے کا موقع ملے ۔چنانچہ جب قوم کے لو گ شام کو واپس ہوئے اور بت خانے میں  پہنچے اور انہوں  نے دیکھا کہ بت ٹوٹے پڑے ہیں  تو کہنے لگے: کس نے ہمارے خداؤں  کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ بیشک وہ یقیناظالم ہے۔ کچھ لوگ کہنے لگے: ہم نے ایک جوان کو انہیں  برا کہتے ہوئے سنا ہے جس کو ابراہیم کہاجاتا ہے، ہمارا گمان یہ ہے کہ اسی نے ایسا کیا ہو گا۔ جب یہ خبر ظالم و جابر نمرود اور اس کے وزیروں  تک پہنچی تو وہ کہنے لگے: اسے لوگوں  کے سامنے لے آؤ شاید لوگ گواہی دیں  کہ یہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہی کا فعل ہے یا ان سے بتوں  کے بارے میں  ایسا کلام سنا گیا ہے ۔اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ گواہی قائم ہو جائے تو وہ آپ کے درپے ہوں  ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بلائے گئے اور ان لوگوں  نے کہا: اے ابراہیم! کیا تم نے ہمارے معبودوں  کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ آپ نے اس بات کا تو کچھ جواب نہ دیا اور مناظرانہ شان سے تعریض کے طور پر ایک عجیب و غریب حجت قائم کی اور فرمایا: ان کے اس بڑے نے اس غصے سے ایسا کیا ہوگا کہ اس کے ہوتے تم اس کے چھوٹوں  کو پوجتے ہو ، اس کے کندھے پر کلہاڑا ہونے سے ایسا ہی قیاس کیا جا سکتا ہے، مجھ سے کیا پوچھتے ہو! تم ان سے پوچھ لو، اگر یہ بولتے ہیں  تو خود بتائیں  کہ ان کے ساتھ یہ کس نے کیا ؟اس سے مقصود یہ تھا کہ قوم اس بات پرغور کرے کہ جو بول نہیں  سکتا، جو کچھ کر نہیں  سکتا وہ خدا نہیں  ہو سکتا اور اس کی خدائی کا اعتقاد باطل ہے۔ چنانچہ جب آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے یہ فرمایا تو وہ غور کرنے لگے اور سمجھ گئے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حق پر ہیں  اور اپنے آپ سے کہنے لگے: بیشک تم خود ہی ظالم ہوجو ایسے مجبوروں  اور بے اختیاروں  کو پوجتے ہو ،جو اپنے کاندھے سے کلہاڑا نہ ہٹا سکے وہ اپنے پجاری کو مصیبت سے کیا بچا سکے اور اس کے کیا کام آ سکے گا ۔(مگر اتنا سوچ لینا ایمان کے لئے کافی نہیں  جب تک اقرار و اعتراف بھی نہ ہو، اس لئے وہ مشرک ہی رہے۔)( خازن،الانبیاء،تحت الآیۃ: ۵۷-۶۴، ۳ / ۲۸۰-۲۸۱، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۷-۶۴، ص۷۱۹-۷۲۰، ملتقطاً)

{ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْ:پھر وہ اپنے سروں  کے بل اوندھے کردئیے گئے ۔} یعنی کلمۂ حق کہنے کے بعد پھر ان  کی بدبختی ان کے سروں  پر سوار ہوئی اور وہ کفر کی طرف پلٹے اور باطل جھگڑا شروع کر دیا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہنے لگے :تمہیں  خوب معلوم ہے یہ بولتے نہیں  ہیں  تو ہم ان سے کیسے پوچھیں  اور اے ابراہیم! تم ہمیں  ان سے پوچھنے کا کیسے حکم دیتے ہو۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۲۸۱، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۷۲۰، ملتقطاً)

21:58
فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ(۵۸)
تو ان سب کو (ف۱۰۸) چورا کردیا مگر ایک کو جو ان کا سب سے بڑا تھا (ف۱۰۹) کہ شاید وہ اس سے کچھ پوچھیں (ف۱۱۰)

21:59
قَالُوْا مَنْ فَعَلَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَاۤ اِنَّهٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۵۹)
بولے کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا بیشک وہ ظالم ہے،

21:60
قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًى یَّذْكُرُهُمْ یُقَالُ لَهٗۤ اِبْرٰهِیْمُؕ(۶۰)
ان میں کے کچھ بولے ہم نے ایک جوان کو انہیں برا کہتے سنا جسے ابراہیم کہتے ہیں (ف۱۱۱)

21:61
قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰۤى اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُوْنَ(۶۱)
بولے تو اسے لوگوں کے سامنے لاؤ شاید وہ گواہی دیں (ف۱۱۲)

21:62
قَالُوْۤا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰۤاِبْرٰهِیْمُؕ(۶۲)
بولے کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا اے ابراہیم (ف۱۱۳)

21:63
قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ ﳓ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْــٴَـلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ(۶۳)
فرمایا بلکہ ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا (ف۱۱۴) تو ان سے پوچھو اگر بولتے ہوں (ف۱۱۵)

21:64
فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ(۶۴)
تو اپنے جی کی طرف پلٹے (ف۱۱۶) اور بولے بیشک تمہیں ستمگار ہو (ف۱۱۷)

21:65
ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْۚ-لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ(۶۵)
پھر اپنے سروں کے بل اوندھائے گئے (ف۱۱۸) کہ تمہیں خوب معلوم ہے یہ بولتے نہیں (ف۱۱۹)

21:66
قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكُمْ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَضُرُّكُمْؕ(۶۶)
کہا تو کیا اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے (ف۱۲۰) اور نہ نقصان پہنچائے (ف۱۲۱)

{قَالَ:فرمایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں  جواب دیا : تو کیا تم  اللہ تعالیٰ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہو جس کا حال یہ ہے کہ اگر تم اسے پوجو تو وہ تمہیں  نفع نہیں  دیتا اور اگر اسے پوجنا مَوقُوف کر دو تو وہ تمہیں  نقصان نہیں  پہنچاتا۔ تم پر اور  اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو ان پر افسوس ہے ،تو کیا تمہیں  عقل نہیں  کہ اتنی سی بات بھی سمجھ سکو کہ یہ بت کسی طرح پوجنے کے قابل نہیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۶-۶۷، ۳ / ۲۸۱)

21:67
اُفٍّ لَّكُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۶۷)
تف ہے تم پر اور ان بتوں پر جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہو، تو کیا تمہیں عقل نہیں (ف۱۲۲)

21:68
قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ(۶۸)
بولے ان کو جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کروں اگر تمہیں کرنا ہے (ف۱۲۳)

{قَالُوْا حَرِّقُوْهُ:کہا: ان کو جلادو۔} جب حجت تمام ہو گئی اور وہ لوگ جواب سے عاجز آگئے تو کہنے لگے: اگر تم اپنے خداؤں  کی کچھ مدد کرنا چاہ رہے ہو تو ان کا انتقام لے کر ان کی مدد کرو اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو جلا دو کیونکہ یہ بڑی ہولناک سزا ہے۔ چنانچہ نمرود اور اس کی قوم حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جلا ڈالنے پر متفق ہو گئی اور انہوں  نے آپ کو ایک مکان میں  قید کر دیا اور کوثیٰ بستی میں  ایک عمارت بنائی اور ایک مہینہ تک پوری کوشش کر کے ہرقسم کی لکڑیاں  جمع کیں  اور ایک عظیم آ گ جلائی جس کی تپش سے ہوا میں  پرواز کرنے والے پرندے جل جاتے تھے اور ایک منجنیق ( یعنی پتھر پھینکنے والی مشین) کھڑی کی اور آپ کو باندھ کر اس میں  رکھااور آگ میں  پھینک دیا۔ اس وقت آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبانِ مبارک پر تھا حَسْبِیَ  اللہ وَ نِعْمَ الْوَکِیْل، یعنی مجھے  اللہ کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ جبریل ِامین عَلَیْہِ  السَّلَامنے آپ سے عرض کی: کیا کچھ کام ہے ؟ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا ’’تم سے نہیں ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام نے عرض کی: تو اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّسے سوال کیجئے۔آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا’’ سوال کرنے سے اس کا میرے حال کو جاننا میرے لئے کافی ہے۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۷۲۱)

            حضرت ابراہیمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے یہ سمجھا تھا کہ امتحان کے وقت دعا کرنی بھی مناسب نہیں  کہ کہیں  یہ بے صبری میں  شمار نہ ہوجائے۔ یہ انہی کامرتبہ تھا، ہمیں  بہرحال مصیبت و بلا کے وقت دعا کرنے کا حکم ہے۔

 

 

21:69
قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ(۶۹)
ہم نے فرمایا اے آگ ہو جا ٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر (ف۱۲۴)

{قُلْنَا:ہم نے فرمایا۔} جب حضرت ابراہیمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں  ڈالا گیا تو  اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔ چنانچہ آگ کی گرمی زائل ہو گئی اور روشنی باقی رہی اور اس نے ان رسیوں  کے سوا اور کچھ نہ جلایا جن سے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو باندھا گیا تھا۔( جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۲۷۴)

            حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اگر اللہ تعالیٰ ’’سَلٰمًا‘‘نہ فرماتاتوآگ کی ٹھنڈک کی وجہ سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  انتقال فرما جاتے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۹، ۳ / ۲۸۲)

21:70
وَ اَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَخْسَرِیْنَۚ(۷۰)
اور انہوں نے اس کا برا چاہا تو ہم نے انہیں سب سے بڑھ کر زیاں کار کردیا (ف۱۲۵)

{وَ اَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا:اور انہوں  نے ابراہیم کے ساتھ برا سلوک کرنا چاہا ۔} ارشاد فرمایا کہ انہوں  نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ برا سلوک کرنا چاہا تو ہم نے انہیں  سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے بنادیا کہ ان کی مراد پوری نہ ہوئی اور کوشش ناکام رہی اور  اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر مچھر بھیجے جو ان کے گوشت کھا گئے اور خون پی گئے اور ایک مچھر نمرود کے دماغ میں  گھس گیا اور اس کی ہلاکت کا سبب ہوا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۲۸۳)

 

21:71
وَ نَجَّیْنٰهُ وَ لُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا لِلْعٰلَمِیْنَ(۷۱)
اور ہم اسے اور لوط کو (ف۱۲۶) نجات بخشی (ف۱۲۷) اس زمین کی طرف (ف۱۲۸) جس میں ہم نے جہاں والوں کے لیے برکت رکھی (ف۱۲۹)

{وَ نَجَّیْنٰهُ وَ لُوْطًا:اور ہم نے اسے اور لوط کو نجات عطا فرمائی ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت ابراہیمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت لوط عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نمرود اور ا س کی قوم سے نجات عطا فرمائی اور انہیں  عراق سے اس سرزمین کی طرف روانہ کیا جس میں  ہم نے جہان والوں  کے لیے برکت رکھی تھی۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۲۸۳)

حضرت لوط عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مختصر تعارف:

            حضرت لوط عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھتیجے تھے ،آپ کے والد کا نام ہاران ہے اوریہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا بھائی تھا ۔جب یہ دونو ں  حضرات ملک ِشام پہنچے تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فلسطین کے مقام پر ٹھہرے اور حضرت لوطعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے مُؤْتَفِکَہ میں  قیام فرمایا اور ان دونوں  مقامات میں  ایک دن کی مسافت کا فاصلہ ہے۔(جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۲۷۴)

برکت والی سرزمین:

            اس سر زمین سے شام کی زمین مراد ہے اور اس کی برکت یہ ہے کہ یہاں  کثرت سے انبیاءِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہوئے اور تمام جہان میں  ان کے دینی برکات پہنچے اور سرسبزی و شادابی کے اعتبار سے بھی یہ خطہ دوسرے خطوں  پر فائق ہے، یہاں  کثرت سے نہریں  ہیں  ، پانی پاکیزہ اور خوش گوار ہے اور درختوں ، پھلوں  کی کثرت ہے۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۷۲۱، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۲۷۴، ملتقطاً)

 

21:72
وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَؕ-وَ یَعْقُوْبَ نَافِلَةًؕ-وَ كُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِیْنَ(۷۲)
اور ہم نے اسے اسحاق عطا فرمایا (ف۱۳۰) اور یعقوب پوتا، اور ہم نے ان سب کو اپنے قرب خاص کا سزاوار کیا،

{وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَؕ-وَ یَعْقُوْبَ نَافِلَةً:اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب مزید عطا فرمایا۔} یہاں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرکی گئی مزید نعمتوں  کابیان فرمایا گیا کہ ہم نے انہیں  حضرت اسحق عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیٹا اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپوتا عطا فرمائے ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے  اللہ عَزَّوَجَلَّسے بیٹے کے لیے دعا کی تھی مگر  اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں  بیٹے کے ساتھ ساتھ پوتے کی بھی بشارت دی جوکہ بغیرسوال کے عطا کیا گیا اور ان سب کو  اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص قرب والا بنایا۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۲، ص۷۲۱-۷۲۲)

نیک اولاد کا فائدہ:

            اس سے معلوم ہوا کہ نیک اولاد  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خاص رحمت ہے ۔ نیک اولاد وہ اعلیٰ پھل ہے جو دنیا اور آخرت دونوں  میں  کام آتا ہے، اس لئے  اللہ تعالیٰ سے جب بھی اولاد کے لئے دعا کریں  تو نیک اور صالح اولاد کی ہی دعا کریں ۔
21:73
وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءَ الزَّكٰوةِۚ-وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَۚۙ(۷۳)
اور ہم نے انہیں امام کیا کہ (ف۱۳۱) ہمارے حکم سے بلاتے ہیں اور ہم نے انہیں وحی بھیجی اچھے کام کرنے اور نماز برپا رکھنے اور زکوٰة دینے کی اور وہ ہماری بندگی کرتے تھے،

{وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىٕمَّةً:اور ہم نے انہیں  امام بنایا۔} ارشاد فرمایا :ہم نے انہیں  امام بنایا کہ بھلائی کے کاموں  میں  ان کی پیروی کی جاتی ہے اور وہ ہمارے حکم سے لوگوں  کوہمارے دین کی طرف بلاتے ہیں  اور ہم نے ان کی طرف اچھے کام کرنے ، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی وحی بھیجی کیونکہ نماز بدنی عبادات میں  سب سے افضل ہے اور زکوٰۃ مالی عبادات میں  سب سے افضل ہے اور وہ صرف ہماری عبادت کرنے والے تھے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۲۸۳)

انبیاءِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر زکوٰۃ فرض نہیں :

            یاد رہے کہ انبیاءِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو امتیوں  پر یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے مال پر زکوٰۃ فرض نہیں  ہوتی۔

چنانچہ علامہ احمد طحطاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ۔انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر زکوٰۃ واجب نہیں  کیونکہ ان کا سب کچھ  اللہ تعالیٰ کی ملک ہے اور جو کچھ ان کے قبضے میں  ہے وہ امانت ہے اور یہ اسے خرچ کرنے کے مقامات پر خرچ کرتے ہیں  اور غیر محل میں  خرچ کرنے سے رکتے ہیں  اور ا س لئے کہ زکوٰۃ اس کے لئے پاکی ہے جو گناہوں  کی گندگی سے پاک ہونا چاہے جبکہ انبیاءِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہونے کی وجہ سے گناہوں  کی گندگی سے پاک ہیں ۔( حاشیہ الطحطاوی علی المراقی، کتاب الزکاۃ، ص۷۱۳)

            علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  دُرِّ مختار کی اس عبارت’’اس پر اجماع ہے کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر زکوٰۃ واجب نہیں  ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں  ’’ کیونکہ زکوٰۃ اس کے لئے پاکی ہے جو گندگی( یعنی مال کے میل) سے پاک ہونا چاہے جبکہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے بری ہیں  ۔ (یعنی ان کے مال ابتدا سے ہی میل سے پاک ہیں ۔)( رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الزکاۃ، ۳ / ۲۰۲)

             لہٰذا جن آیات میں  انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو زکوٰۃ دینے کا فرمایا گیا ان سے یا تو تزکیۂ نفس یعنی نفس کو ان چیزوں  سے پاک رکھنا مراد ہے جو شانِ نبوت کے خلاف ہیں  یاان سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی امت کو زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیں ۔

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر  اللہ تعالیٰ کے احسانات:

            خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرطرح طرح کے احسانات فرمائے ، پہلا تو یہ کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو بچپن سے ہی رشد وہدایت سے نوازا۔ دوسرا یہ کہ ظالم وجابر بادشاہ کے مقابلہ میں  آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو غلبہ عطا فرمایا۔ تیسرا یہ کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے شہر کی طرف ہجرت کروائی ،چوتھا یہ کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کونیک صالح اولاد عطا کی اور پانچواں  یہ کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کوبھی نبوت عطاکی ۔

 

21:74
وَ لُوْطًا اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا وَّ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَبٰٓىٕثَؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فٰسِقِیْنَۙ(۷۴)
اور لوط کو ہم نے حکومت اور علم دیا اور اسے اس بستی سے نجات بخشی جو گندے کام کرتی تھی (ف۱۳۲) بیشک وہ برُے لوگ بے حکم تھے،

{وَ لُوْطًا اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا:اور لوط کو ہم نے حکومت اور علم دیا ۔} یہاں  سے تیسرا واقعہ حضرت لوط عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بیان فرمایا گیا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر کئے گئے احسانات کاذکر کرنے کے بعد یہاں  حضرت لوط عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر کئے جانے والے احسانات کا تذکرہ کیا جارہا ہے ، چنانچہ پہلا احسان یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حکومت عطا فرمائی ۔بعض مفسرین کے نزدیک یہاں  ’’حکم ‘‘سے مراد حکمت یا نبوت ہے۔ اگر حکومت والا معنی مراد ہو تو اس کا مطلب لوگوں  کے باہمی جھگڑوں  میں  حق کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ دوسرا احسان یہ ہے کہ انہیں  ان کی شان کے لائق علم عطا کیا گیا۔تیسرا احسان یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  اس بستی سے نجات بخشی جہاں  کے رہنے والے لواطت وغیرہ گندے کام کیا کرتے تھے کیونکہ وہ برے لوگ اور نافرمان تھے۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۴، ۸ / ۱۶۲، بیضاوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۴، ۴ / ۱۰۱، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۲۷۵، ملتقطاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ برے پڑوس سے نجات مل جانا  اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور ا س کا انتہائی عظیم احسان ہے۔  اللہ تعالیٰ ہمیں  نیک ساتھی اور پرہیزگار ہم نشین عطا فرمائے اور برے ساتھیوں  سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔

{وَ اَدْخَلْنٰهُ فِیْ رَحْمَتِنَا:اور ہم نے اسے اپنی رحمت میں  داخل فرمایا۔} یہاں  حضرت لوط عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر کئے گئے چوتھے احسان کا ذکر فرمایاگیاکہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  اپنی خاص رحمت میں  داخل فرمایا اوربیشک وہ  اللہ تعالیٰ کے خاص مقرب بندوں  میں  سے تھے۔

 

21:75
وَ اَدْخَلْنٰهُ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۠(۷۵)
اور ہم نے اسے (ف۱۳۳) اپنی رحمت میں داخل کیا، بیشک وہ ہمارے قرب خاص سزاواروں میں ہے،

21:76
وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ(۷۶)
اور نوح کو جب اس سے پہلے اس نے ہمیں پکارا تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑی سختی سے نجات دی (ف۱۳۴)

{وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ:اورنوح کوجب پہلے اس نے ہمیں  پکارا۔} یہ اس سورت میں  بیان کئے گئے واقعات میں  سے چوتھا واقعہ ہے ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کویاد کریں  جب انہوں  نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے ہمیں  پکارا اور ہم سے اپنی قوم پر عذاب نازل کرنے کی دعا کی تو ہم نے اس کی دعا قبول فرما لی اور اسے اور کشتی میں  موجود اس کے گھر والوں  کو طوفان سے اور سرکش لوگوں  کے جھٹلانے سے نجات دی اور ہم نے ان لوگوں  کے مقابلے میں  اس کی مدد کی جنہوں  نے ہماری ان آیتوں  کی تکذیب کی جو حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی رسالت پر دلالت کرتی تھیں ،بیشک وہ برے لوگ تھے، تو ہم نے ان سب کو غرق کر دیا کیونکہ جو قوم جھٹلانے پر قائم رہے اور شر، فساد میں  ہی مشغول رہے تو اسے  اللہ تعالیٰ ہلاک کر دیتا ہے۔( جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۶-۷۷، ص۲۷۵، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۶-۷۷، ۵ / ۵۰۳، ملتقطاً)

آیت’’ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّیْنٰهُ‘‘سے دعا کے بارے میں  معلوم ہونے والے دو اَحکام :

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…جب دعا دل کے اخلاص کے ساتھ ہو جیسے انبیاءِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ مْ کی دعا، تو وہ قبول ہوتی ہے ۔لہٰذا جب بھی دعا مانگیں  تو دل کے اخلاص اور پوری توجہ کے ساتھ مانگیں  تاکہ اسے قبولیت حاصل ہو۔

(2)…دعا نجات کے اسباب میں  سے ایک سبب ہے اور اسے اختیار کرنا نجات حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔

 

21:77
وَ نَصَرْنٰهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِیْنَ(۷۷)
اور ہم نے ان لوگوں پر اس کو مدد دی جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں، بیشک وہ برے لوگ تھے تو ہم نے ان سب کو ڈبو دیا،

21:78
وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْكُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِۚ-وَ كُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَۗۙ(۷۸)
اور داؤد اور سلیمان کو یاد کرو جب کھیتی کا ایک جھگڑا چکاتے تھے، جب رات کو اس میں کچھ لوگوں کی بکریاں چھوٹیں (ف۱۳۵) اور ہم ان کے حکم کے وقت حاضر تھے،

{وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ:اور داؤد اور سلیمان کو یاد کرو۔} یہاں  سے پانچواں  واقعہ بیان کیا جا رہا ہے جس میں  حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا ذکر ہے، چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کے پہلے حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وہ واقعہ یاد کریں  جب وہ دونوں  کھیتی کے بارے میں  فیصلہ کررہے تھے۔ جب رات کے وقت کچھ لوگوں  کی بکریاں  کھیتی میں  چھوٹ گئیں ، ان کے ساتھ کوئی چَرانے والا نہ تھا اور وہ کھیتی کھا گئیں  تو یہ مقدمہ حضرت داؤد عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے پیش ہوا، آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تجویز کی کہ بکریاں  کھیتی والے کو دے دی جائیں  کیونکہ بکریوں  کی قیمت کھیتی کے نقصان کے برابر ہے اور ہم ان کے فیصلے کا مشاہدہ کر رہے تھے اور ہم نے وہ معاملہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سمجھا دیا ۔جب یہ معاملہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ فریقین کے لئے اس سے زیادہ آسانی کی شکل بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت حضرت سلیمان عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر شریف گیارہ سال کی تھی ۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے آپ سے فرمایا کہ وہ صورت بیا ن کریں ، چنانچہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے یہ تجویز پیش کی کہ بکری والا کاشت کرے اور جب تک کھیتی اس حالت کو پہنچے جس حالت میں  بکریوں  نے کھائی ہے اس وقت تک کھیتی والا بکریوں  کے دودھ وغیرہ سے نفع اٹھائے اور کھیتی اس حالت پر پہنچ جانے کے بعد کھیتی والے کو کھیتی دے دی جائے ، بکری والے کو اس کی بکریاں  واپس کر دی جائیں  ۔ یہ تجویز حضرت داؤد عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پسند فرمائی ۔

            یاد رہے کہ اس معاملہ میں  یہ دونوں  حکم اجتہادی تھے اور ان کی شریعت کے مطابق تھے ۔ ہماری شریعت میں  حکم یہ ہے کہ اگر چَرانے والا ساتھ نہ ہو تو جانور جو نقصانات کرے اس کا ضمان لازم نہیں  ۔امام مجاہدرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کا قول ہے کہ حضرت داؤدعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے جو فیصلہ کیا تھا وہ اس مسئلہ کا حکم تھا اور حضرت سلیمان عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے جو تجویز فرمائی یہ صلح کی صورت تھی۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۷۲۳)

کھیتی والے واقعے سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس واقعے سے6 مسئلے معلوم ہوئے :

(1)… اِجتہاد برحق ہے اور اجتہاد کی اہلیت رکھنے والے کو اجتہاد کرنا چاہیے۔

(2)… نبی عَلَیْہِ  السَّلَام بھی اجتہاد کرسکتے ہیں  کیونکہ ان دونوں  حضرات کے یہ حکم اجتہاد سے تھے نہ کہ وحی سے ۔

(3)… نبی عَلَیْہِ  السَّلَامکے اجتہاد میں  خطا بھی ہوسکتی ہے تو غیر نبی میں  بدرجہ اَولیٰ غلطی کا اِحتمال ہے۔

(4)… خطا ہونے پر اجتہاد کرنے والا گنہگار نہیں  ہوگا۔

(5)… ایک اجتہاد وسرے اجتہاد سے ٹوٹ سکتا ہے البتہ نَص اِجتہاد سے نہیں  ٹوٹ سکتی۔

(6)… نبی عَلَیْہِ  السَّلَامخطاءِ اِجتہادی پر قائم نہیں  رہتے۔  اللہ تعالیٰ اصلاح فرما دیتا ہے۔

21:79
فَفَهَّمْنٰهَا سُلَیْمٰنَۚ-وَ كُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا٘-وَّ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیْرَؕ-وَ كُنَّا فٰعِلِیْنَ(۷۹)
ہم نے وہ معاملہ سلیمان کو سمجھادیا (ف۱۳۶) اور دونوں کو حکومت اور علم عطا کیا (ف۱۳۷) اور داؤد کے ساتھ پہاڑ مسخر فرمادیے کہ تسبیح کرتے اور پرندے (ف۱۳۸) اور یہ ہمارے کام تھے،

{وَ كُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا:اور دونوں  کو حکومت اور علم عطا کیا۔} یہاں  حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامدونوں  پر کیا جانے والا انعام ذکر کیا گیاکہ  اللہ تعالیٰ نے ان دونوں  کو حکومت اور اِجتہاد و اَحکام کے طریقوں  وغیرہ کا علم عطا کیا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۸۴)

مُجتہد کو اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے:

            یہاں  ایک مسئلہ ذہن نشین رکھیں  کہ جن علمائِ کرام کو اجتہاد کرنے کی اہلیت حاصل ہو انہیں  ان اُمور میں  اجتہاد کرنے کا حق ہے جس میں  وہ کتاب و سنت کا حکم نہ پائیں  اور اگر ان سے اجتہاد میں  خطا ہو جائے تو بھی ان پر کوئی مُواخذہ نہیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۸۴) جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں  مذکور حدیث ِ پاک میں  ہے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب حکم کرنے والا اجتہاد کے ساتھ حکم کرے اور اس حکم میں  درست ہو تو اس کے لئے دو اجر ہیں  اور اگر اجتہاد میں  خطا واقع ہو جائے تو ا س کے لئے ایک اجر ہے۔( بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، باب اجر الحاکم اذا اجتہد فاصاب او اخطأ، ۴ / ۵۲۱، الحدیث: ۷۳۵۲، مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب بیان اجر الحاکم اذا اجتہد۔۔۔ الخ، ص۹۴۴، الحدیث: ۱۵(۱۷۱۶))

علمِ دین کے مالداری پر فضائل:

            حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  :حضرت سلیمان عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو علم ،مال اور بادشاہی میں  (سے ایک کا) اختیار دیا گیا ،حضرت سلیمان عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے علم کو اختیار فرمایا تو انہیں  علم کے ساتھ مال اور بادشاہی بھی عطا کر دی گئی۔( احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الاوّل فی فضل العلم والتعلیم والتعلّم۔۔۔ الخ، فضیلۃ العلم، ۱ / ۲۳)

            اس سے معلوم ہوا کہ دین کے علم کی برکت سے بندے کو دنیا میں  عزت، دولت اور منصب مل جاتا ہے حتّٰی کہ بادشاہی اور حکومت تک مل جاتی ہے لہٰذا اس وجہ سے دین کا علم حاصل نہ کرنا اور اپنی اولاد کو دین کا علم نہ سکھانا کہ یہ علم سیکھ کرہم یا ہماری اولاد دنیا کی دولت اور دنیا کا چین و سکون حاصل نہیں  کر سکیں  گے، انتہائی محرومی کی بات ہے۔ علمِ دین کو دنیا کی دولت پر ترجیح دینے کی ترغیب کے لئے یہاں  علمِ دین کے مالداری پر چند دینی اور دُنْیَوی فضائل ملاحظہ ہوں :

(1)…علم انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی میراث ہے اور مال بادشاہوں  اور مالداروں  کی میراث ہے۔

(2)…مالدار کا جب انتقال ہوتا ہے تو مال اس سے جدا ہو جاتا ہے جبکہ علم عالم کے ساتھ اس کی قبر میں  داخل ہوتا ہے۔

(3)…مال مومن ،کافر، نیک، فاسق سب کو حاصل ہوتا ہے جبکہ نفع بخش علم صرف مومن کو ہی حاصل ہوتا ہے۔

(4)…علم جمع کرنے اور اسے حاصل کرنے سے بندے کو عزت ، شرف اور تزکیۂ نفس کی دولت ملتی ہے جبکہ مال کی وجہ سے تزکیۂ نفس اور باطنی کمال حاصل نہیں  ہوتا بلکہ مال جمع کرنے سے نفس لالچ، بخل اور حرص جیسی بری خصلتوں  میں  مبتلا ہوجاتا ہے۔

(5)…علم عاجزی اور اِنکساری کی دعوت دیتا ہے جبکہ مال فخر و تکبر اور سر کشی کی دعوت دیتا ہے۔

(6)…علم کی محبت اور اس کی طلب ہر نیکی کی اصل ہے جبکہ مال کی محبت اور اس کی طلب ہر برائی کی جڑ ہے۔

(7)…مال کا جوہر بدن کے جوہر کی جنس سے ہے اور علم کا جوہر روح کے جوہر کی جنس سے تو علم اور مال میں  ایسے فرق ہے جیسے روح اور جسم کے درمیان فرق ہے۔

(8)…عالم اپنے علم اور اپنے حال سے لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے جبکہ مال جمع کرنے والا اپنی گفتگو اور اپنے حال سے لوگوں  کو دنیا کی طرف بلاتا ہے۔

(9)… بادشاہ اور دیگر لوگ عالم کے حاجت مند ہوتے ہیں  ۔

(10)…علم کا اضافہ مال کے اضافے سے بہت بہتر ہے کیونکہ اگر ایک رات میں  ہی سارا مال چلاجائے تو صبح تک بندہ فقیر و     محتاج بن کررہ جاتا ہے جبکہ علم رکھنے والے کو فقیری کا خوف نہیں  ہوتا بلکہ اس کا علم ہمیشہ زیادہ ہی ہوتا رہتا ہے اور یہی حقیقی مالداری ہے۔

(11)…مالدار کی قدرو قیمت اس کے مال کی وجہ سے ہوتی ہے جبکہ عالم کی قدر و قیمت ا س کے علم کی وجہ سے ہوتی ہے، چنانچہ جب مالدار کے پا س مال نہیں  رہتا تو اس کی قدر و قیمت بھی ختم ہو جاتی ہے جبکہ عالم کی قدرو قیمت کبھی ختم نہیں  ہوتی بلکہ اس میں  ہمیشہ اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔

(12)…مال کی زیادتی ا س بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مالدار شخص لوگوں  پر احسان کرے اور جب مالدار لوگوں  پر احسان نہیں  کرتا تو لوگ اسے برا بھلا کہتے ہیں  جس کی وجہ سے اسے قلبی طور پر رنج پہنچتا ہے اور اگر وہ لوگوں  پر احسان کرنا شروع کر دیتا ہے تو لازمی طور پر وہ ہر ایک کے ساتھ احسان نہیں  کرپاتا بلکہ بعض کے ساتھ کرتا ہے اور بعض کے ساتھ نہیں  کرتا اور یوں  وہ محروم رہ جانے والے کی طرف سے دشمنی اورذلالت کا سامنا کرتا ہے جبکہ علم رکھنے والا کسی نقصان کے بغیر ہر ایک پر اپنا علم خرچ کر لیتا ہے۔

(13)…مالدار جب مر جاتے ہیں  تو ان کا تذکرہ بھی ختم ہو جاتا ہے جبکہ علماء کا ذکرِ خیر ان کے انتقال کے بعد بھی جاری و ساری رہتا ہے۔( اتحاف السادۃ المتقین، کتاب العلم، الباب الاول فی فضیلۃ العلم، ۱ / ۱۳۰-۱۳۱، ملخصاً)

             اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور علمِ دین کی اہمیت و فضیلت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

{وَ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ:اورہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑوں  کو تابع بنادیا۔} یہاں  حضرت داؤد عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرکیا جانے والا انعام بیان فرمایا گیاکہ  اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں  اور پرندوں  کو آ پ کا تابع بنادیا کہ پتھر اور پرندے آپ کے ساتھ آپ کی مُوافقت میں  تسبیح کرتے تھے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۸۵)

{وَ كُنَّا فٰعِلِیْنَ:اور یہ (سب) ہم ہی کرنے والے تھے۔} یعنی حضرت سلیمان عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معاملہ سمجھا دینا، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو حکومت دینا اور پہاڑوں  ،پرندوں  کو حضرت داؤد عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاتابع بنا دینا، یہ سب ہمارے ہی کام تھے اگرچہ تمہارے نزدیک یہ کام بہت عجیب و غریب ہیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۸۵، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۲۷۵، ملتقطاً)

 

21:80
وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ(۸۰)
اور ہم نے اسے تمہارا ایک پہناوا بنانا سکھایا کہ تمہیں تمہاری آنچ سے (زخمی ہونے سے) بچائے (ف۱۳۹) تو کیا تم شکر کروگے،

{وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ:اور ہم نے تمہارے فائدے کیلئے اسے ایک خاص لباس کی صنعت سکھا دی۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے تمہارے فائدے کے لئے حضرت داؤد عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک لباس یعنی زرہ بنانا سکھا دیا جسے جنگ کے وقت پہنا جائے، تاکہ وہ جنگ میں  دشمن سے مقابلہ کرنے میں تمہارے کام آئے اور جنگ کے دوران تمہارے جسم کو زخمی ہونے سے بچائے، تو اے حضرت داؤد عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے گھر والو! تم ہماری اس نعمت پر ہمارا شکر ادا کرو۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۲۸۵، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۷۲۳، ملتقطاً)

انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیشے:

             انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مختلف پیشوں  کو اختیار فرمایا کرتے اور ہاتھ کی کمائی سے تَناوُل فرمایا کرتے تھے، چنانچہ حضرت ادریس عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسلائی کا کام کیا کرتے تھے، حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بڑھئی کا، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکپڑے کا، حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاشتکاری کا، حضرت موسیٰ اور حضرت شعیب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامبکریاں  چرانے کا، حضرت صالح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامچادر بنانے کا کام کیا کرتے تھے۔(روح البیان،  الانبیاء ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۵ / ۵۰۹، ۵۱۰ ، قرطبی، الانبیاء ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۶ / ۱۸۵، الجزء الحادی عشر، ملتقطاً)اور ہمارے آقا دو عالَم کے داتا صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اگرچہ بطورِ خاص کوئی پیشہ اختیار نہیں  فرمایا لیکن آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بکریاں  چرائیں ، تجارت فرمائی اور کچھ دیگر کام بھی فرمائے ہیں  لہٰذا کسی جائز کام اور پیشے کو گھٹیا نہیں  سمجھنا چاہئے۔

حلال رزق حاصل کرنے کیلئے جائز پیشہ اختیار کرنے کے فضائل:

             حلال رزق حاصل کرنے کے لئے جو جائز ذریعہ، سبب، پیشہ اور صنعت اختیار کرنا ممکن ہو اسے ضرور اختیار کرنا چاہئے اور ا س مقصد کے حصول کے لئے کسی جائز پیشے یا صنعت کو اختیار کرنے میں  شرم و عار محسوس نہیں  کرنا چاہئے ، ترغیب کے لئے یہاں  حلال رزق حاصل کرنے کیلئے جائز پیشہ اختیار کرنے کے چار فضائل ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت مقدام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ کسی نے ہر گز اس سے بہتر کھانا نہیں  کھایا جو وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائے اور بے شک  اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤدعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔( بخاری، کتاب البیوع، باب کسب الرّجل وعملہ بیدہ، ۲ / ۱۱، الحدیث: ۲۰۷۲)

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اگر تم میں  سے کوئی اپنی پیٹھ پر لکڑیوں  کا گٹھا لاد کر لائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے سوال کرے،پھر کوئی اسے دے یا کوئی منع کر دے۔(بخاری، کتاب البیوع، باب کسب الرّجل وعملہ بیدہ، ۲ / ۱۱، الحدیث: ۲۰۷۴)

(3)…حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں : کسی نے عرض کی :یا رسولَ  اللہ !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،کون سی کمائی زیادہ پاکیزہ ہے؟ ارشاد فرمایا ’’آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور اچھی خریدو فروخت (یعنی جس میں  خیانت اور دھوکہ وغیرہ نہ ہو)۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۵۸۱، الحدیث:۲۱۴۰)

(4)…حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَاسے روایت ہے،حضور پُر نورصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ پیشہ کرنے والے مومن بندے کو محبوب رکھتا ہے۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام،  ۶ / ۳۲۷، الحدیث: ۸۹۳۴)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْاَ نْبِيَآء
اَلْاَ نْبِيَآء
  00:00



Download

اَلْاَ نْبِيَآء
اَلْاَ نْبِيَآء
  00:00



Download