Surah Al-Anbiyaa
{وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَةً:اور تیز ہوا کوسلیمان کے لیے تابع بنادیا۔} اس سے پہلے وہ انعامات ذکر کئے گئے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر فرمائے تھے اور اب یہاں سے وہ انعامات بیان کئے جا رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فرمائے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے تیز ہوا کو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تابع بنادیا اور یہ ہواحضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حکم سے شام کی اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے نہروں ،درختوں اور پھلوں کی کثرت سے برکت رکھی تھی اور ہم ہر چیز کو جاننے والے ہیں ۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۱، ۸ / ۱۶۹، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۷۲۳، ملتقطاً)
حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بادشاہی اور عاجزی:
اس سے معلوم ہو اکہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی سلطنت عام تھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانوں اور جنوں کے ساتھ ساتھ ہو اپر بھی حکومت عطا کی تھی، اتنی عظیم الشّان سلطنت کے مالک ہونے کے باوجود آپ فخرو تکبر سے انتہائی دور اور عاجزی واِنکساری کے عظیم پیکر تھے۔چنانچہ ایک روایت میں ہے، حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے ہمراہیوں کے درمیان یوں جارہے تھے کہ پرندوں نے آپ پر سایہ کررکھا تھا اور جن و انسان آپ کی دائیں بائیں جانب تھے ۔ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کے ایک عبادت گزار کے پاس سے گزرے تو اس نے کہا : اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اے حضرت داؤدعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے! آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی بادشاہی عطا فرمائی ہے۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے یہ بات سن کر فرمایا’’ مومن کے نامۂ اعمال میں ایک تسبیح اُس سے بہتر ہے جو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے کو دیا گیا ہے کیونکہ جو کچھ اسے دیا گیا وہ چلا جائے گا جبکہ تسبیح باقی رہے گی۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذم الدنیا، ۳ / ۲۵۰-۲۵۱)
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ایک دن پر ندوں ، انسانوں ، جنوں اور حیوانات سے فرمایا’’ نکلو !پس آپ دو لاکھ انسانوں اور دولاکھ جنوں میں نکلے، آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اٹھایا گیا حتّٰی کہ آپ نے آسمانوں میں فرشتوں کی تسبیح کی آواز سنی، پھر نیچے لایا گیا حتّٰی کہ آپ کے پاؤں مبارک سمندر کو چھونے لگے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ایک آواز سنی کہ اگر تمہارے آقا (حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی تکبر ہوتا تو انہیں جس قدر بلند کیا گیا ہے اس سے بھی زیادہ نیچے دھنسا دیا جاتا۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الکبر والعجب، الشطر الاول، بیان ذمّ الکبر، ۳ / ۴۱۳)
’’فلاں کے حکم سے یہ کام ہوتا ہے‘‘ کہنا شرک نہیں :
اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ کہنا شرک نہیں کہ فلاں کے حکم سے یہ کام ہوتا ہے، جیسے یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّنے فرمایا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے حکم سے ہوا چلتی تھی۔
{وَ مِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَهٗ:اورکچھ جنات کو جو اس کے لیے غوطے لگاتے۔} یہاں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر کیا جانے والا دوسرا انعام بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ جِنّات کو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تابع کر دیا جو ان کے لیے غوطے لگاتے اور دریا کی گہرائی میں داخل ہو کر سمندر کی تہ سے آپ کے لئے جواہرات نکال کر لاتے اور وہ اس کے علاوہ دوسرے کام جیسے عجیب و غریب مصنوعات تیار کرنا، عمارتیں ، محل ، برتن ، شیشے کی چیزیں ، صابن وغیرہ بنانا بھی کرتے اور ہم ان جنات کو روکے ہوئے تھے تاکہ وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے حکم سے باہر نہ ہوں اور سرکشی و فساد نہ کریں۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۸۶، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵ / ۵۱۱، ملتقطاً)
یاد رہے کہ یہاں آیت میں جنات سے کافر جنات مراد ہیں مسلمان جنات مراد نہیں ، اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ یہاں ’’شَیاطین‘‘ کا لفظ مذکور ہے (اور یہ لفظ کافر جنات کے لئے استعمال ہوتا ہے)دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’ہم ان جنات کو روکے ہوئے تھے تاکہ وہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے حکم کی خلاف ورزی اور فساد نہ کریں ۔یہ بات کفارکی حالت کے مطابق ہے۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۸ / ۱۷۰، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شان :
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی مشہور تفسیر ’’روح البیان‘‘ میں ا س مقام پر بہت پیارا کلام نقل فرمایا ہے ،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے پہاڑوں ،پرندوں ،لوہے اور پتھروں کو مُسَخّر کیا۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے لئے ،ہوا، جن ، شَیاطین،حیوانات، پرندے، معدنیات،نباتات اور سورج کو مسخر کیا جبکہ ہمارے نبی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے لئے ہر چیز کو مسخر کر دیا، آپ کے لئے زمین کو لپیٹ دیاگیا حتّٰی کہ آپ نے اس کے مشرق و مغرب کو دیکھ لیا۔آپ کی خاطرپوری زمین کو مسجد اور پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دیا گیا،زمین کے خزانوں کی چابیاں آپ کو عطا کر دی گئیں ،آپ کی انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوئے، درخت آپ پر سلام بھیجتے، درخت آپ کااشارہ پاتے ہی اپنی جگہ سے اکھڑ کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جاتے اور آپ کا اشارہ پا کر اپنی جگہ واپس لوٹ جاتے، جانور آپ کے ساتھ کلام کرتے اور آپ کی نبوت کی گواہی دیتے، آپ کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو گیا، ڈوبا ہوا سورج آپ کا اشارہ پا کر پلٹ آیا، براق کو آپ کے لئے مسخر کر دیا گیا، ساتوں آسمانوں ، جنت اور عرش و کرسی کو آپ نے عبور کیا حتّٰی کہ دو ہاتھ یا اس سے بھی کم فاصلے کے مقام پر فائز ہوئے۔ الغرض کائنات میں جتنی مخلوقات موجود ہیں سب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے مسخر کر دیا۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵ / ۵۱۱-۵۱۲، ملخصاً)
{وَ اَیُّوْبَ:اور ایوب کو (یاد کرو)۔} حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد میں سے ہیں اور آپ کی والدہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے خاندان سے ہیں ۔، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر طرح کی نعمتیں عطا فرمائی تھیں، صورت کا حسن بھی، اولاد کی کثرت اور مال کی وسعت بھی عطا ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکوآزمائش میں مبتلا کیا، چنانچہ آ پ کی اولاد مکان گرنے سے دب کر مر گئی، تمام جانور جس میں ہزارہا اونٹ اور ہزارہا بکریاں تھیں ،سب مر گئے ۔ تمام کھیتیاں اور باغات برباد ہو گئے حتّٰی کہ کچھ بھی باقی نہ رہا، اور جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان چیزوں کے ہلاک اور ضائع ہونے کی خبر دی جاتی تھی تو آپ اللہ تعالیٰ کی حمد بجا لاتے اور فرماتے تھے’’ میرا کیا ہے! جس کا تھا اس نے لیا، جب تک ا س نے مجھے دے رکھا تھا میرے پاس تھا، جب ا س نے چاہا لے لیا۔ اس کا شکر ادا ہو ہی نہیں ہو سکتا اور میں اس کی مرضی پر راضی ہوں ۔ اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیمار ہوگئے ، تمام جسم شریف میں آبلے پڑگئے اور بدن مبارک سب کا سب زخموں سے بھر گیا ۔اس حال میں سب لوگوں نے چھوڑ دیا البتہ آپ کی زوجہ محترمہ رحمت بنتِ افرائیم نے نہ چھوڑا اور وہ آپ کی خدمت کرتی رہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ حالت سالہا سال رہی ، آخر کار کوئی ایسا سبب پیش آیا کہ آپ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۳، ۳ / ۲۸۶-۲۸۸، ملخصاً)
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بیماری:
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بیماری کے بارے میں علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ عام طور پر لوگوں میں مشہور ہے کہ مَعَاذَ اللہ آپ کو کوڑھ کی بیماری ہو گئی تھی۔ چنانچہ بعض غیر معتبر کتابوں میں آپ کے کوڑھ کے بارے میں بہت سی غیر معتبر داستانیں بھی تحریر ہیں ، مگر یاد رکھو کہ یہ سب باتیں سرتا پا بالکل غلط ہیں اور ہر گز ہرگز آپ یا کوئی نبی بھی کبھی کوڑھ اور جذام کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوا، اس لئے کہ یہ مسئلہ مُتَّفَق علیہ ہے کہ اَنبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کا تمام اُن بیماریوں سے محفوظ رہنا ضروری ہے جو عوام کے نزدیک باعث ِنفرت و حقارت ہیں ۔ کیونکہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ تبلیغ و ہدایت کرتے رہیں تو ظاہر ہے کہ جب عوام ان کی بیماریوں سے نفرت کر کے ان سے دور بھاگیں گے تو بھلا تبلیغ کا فریضہ کیونکر ادا ہو سکے گا؟ الغرض حضرت ایوب عَلَیْہِ السَّلَام ہرگز کبھی کوڑھ اور جذام کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ آپ کے بدن پر کچھ آبلے اور پھوڑے پھنسیاں نکل آئی تھیں جن سے آپ برسوں تکلیف اور مشقت جھیلتے رہے اور برابر صابر و شاکر رہے۔( عجائب القرآن مع غرائب القرآن، حضرت ایوب علیہ السلام کا امتحان، ص۱۸۱-۱۸۲) یونہی بعض کتابوں میں جو یہ واقعہ مذکور ہے کہ بیماری کے دوران حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم مبارک میں کیڑے پیدا ہو گئے تھے جو آپ کا جسم شریف کھاتے تھے، یہ بھی درست نہیں کیونکہ ظاہری جسم میں کیڑوں کا پیدا ہونا بھی عوام کے لئے نفرت و حقارت کا باعث ہے اور لوگ ایسی چیز سے گھن کھاتے ہیں ۔لہٰذا خطباء اور واعظین کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی طرف ایسی چیزوں کو منسوب نہ کریں جن سے لوگ نفرت کرتے ہوں اور وہ منصبِ نبوت کے تقاضوں کے خلاف ہو۔
آزمائش و امتحان ناراضی کی دلیل نہیں :
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ کے مقرب بندوں کو آزمائش و امتحان میں مبتلا فرماتا ہے اور ان کی آزمائش اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہے بلکہ یہ ان کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت و قرب کی دلیل ہے۔ حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش کس پر ہوتی ہے؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ، پھر درجہ بدرجہ مُقَرَّبِین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے اور اگر وہ دین میں کمزور ہو تو دین کے حساب سے آزمائش کی جاتی ہے۔ بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ زمین پر ا س طرح چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۶)
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بڑا ثواب بڑی مصیبت کے ساتھ ہے،اور جباللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ محبت فرماتا ہے تو انہیں آزماتا ہے،پس جو اس پر راضی ہو اس کے لئے (اللہ تعالیٰ کی ) رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۸، الحدیث: ۲۴۰۴)
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے معلوم ہونے والے مسائل:
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جیسے دعا کی اس سے تین باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرنا بھی دعا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بھی دعا ہے۔
(2)… دعا کے وقت اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی سنت ہے ۔
(3)… دعا میںاللہ تعالیٰ کی ایسی حمد کرنی چاہیے جو دعا کے موافق ہو، جیسے رحمت طلب کرتے وقت رحمٰن ورحیم کہہ کر پکارے۔
{فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ:تو ہم نے اس کی دعا سن لی۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف تھی وہ ا س طرح دور کردی کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا ’’ آپ زمین میں پاؤں ماریئے۔ انہوں نے پاؤں مارا تو ایک چشمہ ظاہر ہوا ،آپ کو حکم دیا گیا کہ اس سے غسل کیجئے ۔ آپ نے غسل کیا تو ظاہرِ بدن کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں ، پھر آپ چالیس قدم چلے، پھر دوبارہ زمین میں پاؤں مارنے کا حکم ہوا، آپ نے پھر پاؤ ں مارا تو اس سے بھی ایک چشمہ ظاہر ہوا جس کا پانی انتہائی سرد تھا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس پانی کو پیا تو اس سے بدن کے اندر کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اعلیٰ درجے کی صحت حاصل ہوئی۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۲۹۱)
{وَ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ:اور ہم نے اسے اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کردئیے۔} حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْاور اکثر مفسرین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمام اولاد کو زندہ فرما دیا اور آپ کو اتنی ہی اولاد اور عنایت کی ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی دوسری روایت میں ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زوجہ محترمہ کو دوبارہ جوانی عنایت کی اور ان کے ہاں کثیر اولادیں ہوئیں ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر یہ عطا اپنی طرف سے ان پررحمت فرمانے اور عبادت گزاروں کو نصیحت کرنے کیلئے فرمائی تاکہ وہ اس واقعہ سے آزمائشوں اور مصیبتوں پر صبر کرنے اور اس صبرکے عظیم ثواب سے باخبر ہوں اور صبر کرکے اجر وثواب پائیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۲۹۱، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۷۲۴، ملتقطاً)
مصیبت پر صبر کرنے کا ثواب:
آیت کی مناسبت سے یہاں مصیبت پر صبر کرنے کے ثواب پر مشتمل 3 اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)…حضر ت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ مومن مرد اور مومنہ عورت کو اس کی جان، اولاد اور مال کے بارے میں آزمایاجاتارہے گایہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہ ہوگا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۷)
(2)…حضرت ابو ذررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’دنیا سے بے رغبتی صرف حلال کو حرام کر دینے اور مال کو ضائع کردینے کا ہی نام نہیں ،بلکہ دنیا سے بے رغبتی یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے وہ اس سے زیادہ قابلِ اعتماد نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور جب تجھے کوئی مصیبت پہنچے تواس کے ثواب (کے حصول) میں زیادہ رغبت رکھے اور یہ تمنا ہو کہ کاش یہ میرے لئے باقی رہتی۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الزہادۃ فی الدنیا، ۴ / ۱۵۲، الحدیث: ۲۳۴۷)
(3)…سنن ابو داؤد میں ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بندے کے لیے کوئی درجہ مقدر ہوچکا ہو جہاں تک یہ اپنے عمل سے نہیں پہنچ سکتاتو اللہ تعالیٰ اسے اس کے جسم یا مال یا اولاد کی آفت میں مبتلا کردیتا ہے، پھر اسے اس پر صبر بھی دیتا ہے حتّٰی کہ وہ اس درجے تک پہنچ جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے مقدر ہوچکا۔( ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب الامراض المکفّرۃ للذنوب، ۳ / ۲۴۶، الحدیث: ۳۰۹۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں آفات وبَلِیّات سے محفوظ فرمائے اور ہر آنے والی مصیبت پر صبر کر کے اجر وثواب کمانے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ:اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو)۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت اسماعیل ، حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو یاد کریں ، وہ سب عبادات کی مشقتوں اور آفات و بَلِیّات کو برداشت کرنے پر کامل صبر کرنے والے تھے ۔ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے ذبح کئے جانے کے وقت صبر کیا، غیرآباد بیابان میں ٹھہرنے پر صبر کیا اور اس کے صِلے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ مقام عطا کیا کہ ان کی نسل سے اپنے حبیب اور آخری نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو ظاہر فرمایا۔ حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے درس دینے پر صبر کیا اور حضرت ذوالکفل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے دن کاروزہ رکھنے ،رات کوقیام کرنے اور اپنے دورِ حکومت میں لوگوں کی طرف سے دی گئی تکلیفوں پرصبرکیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اوراس کی نافرمانی سے بچنے پر صبر کرے ، یونہی جو شخص اپنے مال،اہل اور جان میں آنے والی کسی مصیبت پر صبر کرے تو وہ اپنے صبر کی مقدارکے مطابق نعمت،رتبہ اور مقام پاتا ہے اور اسی حساب سے و ہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حق دار ہوتا ہے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۵۱۵)
حضرت ذوالکفل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی تھے یا نہیں ؟
حضرت ذوالکفلعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں اختلاف ہے ،جمہور علماء کے نزدیک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی نبی تھے۔(تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۸ / ۱۷۷)
{وَ ذَا النُّوْنِ:اور ذوالنون کو (یاد کرو)۔} یہاں سے حضرت یونس بن متّٰی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگوں نے آپ کی دعوت قبول نہ کی اور نہ ہی نصیحت مانی بلکہ وہ اپنے کفر پر ہی قائم رہے تھے، تو حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام غضبناک ہو کر اپنی قوم کے علاقے سے تشریف لے گئے اور آپ نے یہ گمان کیا کہ یہ ہجرت آپ کے لئے جائز ہے کیونکہ اس کا سبب صرف کفر اور کافروں کے ساتھ بغض اور اللہ تعالیٰ کے لئے غضب کرنا ہے، لیکن آپ نے اس ہجرت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار نہ کیا تھا جس کی وجہ سےاللہ تعالیٰ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا، وہاں کئی قسم کی تاریکیاں تھیں جیسے دریا کی تاریکی ، رات کی تاریکی اور مچھلی کے پیٹ کی تاریکی ، ان اندھیروں میں حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّسے اس طرح دعا کی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور تو ہرعیب سے پاک ہے، بیشک مجھ سے بے جا ہوا کہ میں اپنی قوم سے تیرا اِذن اور اجازت پانے سے پہلے ہی جدا ہو گیا۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۷۲۴)
مقبول دعائیہ کلمات:
حضرت سعدرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’حضرت یونس نے مچھلی کے پیٹ میں جب دعا مانگی تو یہ کلمات کہے’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ جو مسلمان ان کلمات کے ساتھ کسی مقصد کے لئے دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۸۱-باب، ۵ / ۳۰۲، الحدیث: ۳۵۱۶)
حضرت سعدبن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے قریب بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا ’’کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں خبر نہ دوں کہ جب تم میں سے کسی شخص پر کوئی مصیبت یا دنیا کی بلاؤں میں سے کوئی بلا نازل ہو اور وہ اس کے ذریعے دعا کرے تو ا س کی مصیبت و بلا دور ہوجائے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے عرض کی گئی :کیوں نہیں !ارشاد فرمایا ’’(وہ چیز) حضرت یونس کی دعا ’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ ہے۔(مستدرک،کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل۔۔۔الخ،من دعا بدعوۃ ذی النون استجاب اللہ لہ،۲ / ۱۸۳،الحدیث:۱۹۰۷)
حضرت سعد بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو مسلمان اپنی بیماری کی حالت میں چالیس مرتبہ’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ کے ساتھ دعا مانگے ، پھر وہ اس مرض میں فوت ہوجائے تواسے شہید کا اجر دیا جائے اور اگر تندرست ہوگیا تو اس کے تمام گناہ بخشے جا چکے ہوں گے۔( مستدرک ، کتاب الدعاء و التکبیر و التہلیل ۔۔۔ الخ ، ایّما مسلم دعا بدعوۃ یونس علیہ السلام ۔۔۔ الخ ، ۲ / ۱۸۳ ، الحدیث: ۱۹۰۸)
{فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَعَلَیْهِ:تواس نے گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ جس شخص نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ عاجز ہے وہ کافر ہے، اور یہ ایسی بات ہے کہ کسی عام مومن کی طرف بھی اس کی نسبت کرنا جائز نہیں تو انبیاءِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف یہ بات منسوب کرنا کس طرح جائز ہو گا (کہ وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز گمان کرتے ہیں ۔ لہٰذا اس آیت کا یہ معنی ہر گز نہیں کہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ انہیں پکڑنے پر قادر نہیں بلکہ ) اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ’’حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ ان پر تنگی نہیں فرمائے گا۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۷، ۸ / ۱۸۰)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے علاوہ دیگر معتبر مفسرین نے بھی اس آیت کا یہ معنی بیان کیا ہے ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی اسی معنی کو اختیار کیا ہے اور ہم نے بھی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اور دیگر معتبر مفسرین کی پیروی کرتے ہوئے اس آیت میں لفظ ’’لَنْ نَّقْدِرَ‘‘کا ترجمہ’’ ہم تنگی نہ کریں گے‘‘کیا ہے۔
{فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ:تو ہم نے اس کی پکار سن لی۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پکار سن لی اور اسے تنہائی اور وحشت کے غم سے نجات بخشی اور مچھلی کو حکم دیا تو اس نے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دریا کے کنارے پر پہنچا دیا اور ہم ایمان والوں کو ایسے ہی مصیبتوں اور تکلیفوں سے نجات دیتے ہیں جب وہ ہم سے فریاد کریں اور دعا کریں۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۷۲۵، ابو سعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۵۳۳، ملتقطاً)
حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعامسلمانوں کے لیے بھی ہے:
حضرت سعد بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کیا میں تمہاری اللہ تعالیٰ کے اس اسمِ اعظم کی طرف رہنمائی نہ کروں جس کے ساتھ جب بھی دعاکی جائے تو وہ قبول ہوجائے اورجب سوال کیاجائے توعطاہوجائے، وہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا ’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ ہے جو انہوں نے اندھیروں میں تین بار کی تھی ۔ایک شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ خاص تھی یاتمام مسلمانوں کے لیے ہے ؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا’’ کیاتم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشادنہیں سنا’’وَ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْغَمِّؕ-وَ كَذٰلِكَ نُـْۨجِی الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘اور اسے غم سے نجات بخشی اور ہم ایمان والوں کو ایسے ہی نجات دیتے ہیں۔(مستدرک ، کتاب الدعاء و التکبیر و التہلیل ۔۔۔ الخ ، ایّما مسلم دعا بدعوۃ یونس علیہ السلام ۔۔۔ الخ ، ۲ / ۱۸۳ ، الحدیث: ۱۹۰۸) مراد یہ ہے کہ یہ دعا حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے خاص نہیں مسلمانوں کے لیے بھی ہے، جب وہ ان الفاظ کے ساتھ دعامانگیں گے تو ان کی دعا بھی قبول ہو گی۔
{وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ:اور زکریا کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا۔} یہاں سے حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے بے اولاد نہ چھوڑ بلکہ وارث عطا فرما اور تو سب سے بہتر وارث ہے یعنی اللہ تعالیٰ مخلوق کے فنا ہونے کے بعد باقی رہنے والا ہے۔ مُدَّعا یہ ہے کہ اگر تو مجھے وارث نہ دے تو بھی کچھ غم نہیں کیونکہ تو بہتر وارث ہے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۹، ۳ / ۲۹۳، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۹، ص۷۲۵، ملتقطاً)
حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے معلوم ہونے والی باتیں :
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔
(1)… دین کی خدمت کے لئے بیٹے کی دعا اور فرزند کی تمنا کرنی سنت ِنبی ہے۔
{فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ:تو ہم نے اس کی دعا قبول کی۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول کی اور انہیں سعادت مند فرزند حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامعطا فرمایا اورحضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے لئے آپ کی زوجہ کا بانجھ پن ختم کر کے اسے اولاد پیدا کرنے کے قابل بنا دیا۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۰، ص۷۲۵)
{اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ:بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے۔} یعنی جن انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا ذکر ہوا ان کی دعائیں اس وجہ سے قبول ہوئیں کہ وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کو بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۰، ص۷۲۵)
دعائیں قبول ہونے والا بننے کے لئے تین کام کئے جائیں :
{وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا:اور اس عورت کو (یاد کرو) جس نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی ۔} یہاں سے حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکا واقعہ بیان کیا جا رہاہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس مریم کو یاد کریں جس نے پورے طور پر اپنی پارسائی کی حفاظت کی کہ کسی طرح کوئی بشر اس کی پارسائی کو چھو نہ سکا تو ہم نے اس میں اپنی خاص روح پھونکی اور اس کے پیٹ میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکوپیدا کیا اور اسے اور اس کے بیٹے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو سارے جہان والوں کیلئے اپنی قدرت کے کمال کی نشانی بنادیا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکے پیٹ سے بغیر باپ کے پیدا کیا۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۲۹۳)
پاک دامنی عورت کے لئے بہترین وصف ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے لئے بہترین وصف یہ ہے کہ وہ پاک دامن رہے اور اپنی پارسائی کی حفاظت کرے۔ پاک دامن رہنے والی عورت کے بارے میں حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ عورت جب اپنی پانچ نمازیں پڑھے ، اپنے ماہ رمضان کا روزہ رکھے ، اپنی پارسائی کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازہ سے چاہے داخل ہوجائے۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر طوائف من النساک والعباد، الربیع بن الصبیح، ۶ / ۳۳۶، الحدیث: ۸۸۳۰)
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو عورت اپنے رب سے ڈرے ، اپنی پارسائی کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے اور ا س سے کہا جائے گا کہ تم جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ۔( معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ: عبد الرحمٰن، ۳ / ۳۱۹، الحدیث: ۴۷۱۵)
{اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ:بیشک یہ (اسلام) تمہارا دین ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! بیشک یہ اسلام تمہارا دین ہے اور یہی تمام انبیاءِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین ہے، اس کے سوا جتنے اَدیان ہیں وہ سب باطل ہیں اور سب کو اسی دین اسلام پر قائم رہنا لازم ہے اور میں تمہارا رب ہوں ، نہ میرے سوا کوئی دوسرا ربّ ہے نہ میرے دین کے سوا اور کوئی دین ہے تو تم صرف میری عبادت کرو۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۷۲۶، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۲، ۳ / ۲۹۴، ملتقطاً)
{وَ تَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ:اور لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔} گزشتہ آیت میں بتایا گیا کہ دین ایک ہی ہے اور سب انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اسی کی تبلیغ کی اور یہاں بتایاجا رہاہے کہ لوگوں نے دین میں بھی اختلاف کیا اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کواپنا دین بنالیا ،خود بھی بکھر گئے اور ان کے اعمال بھی جداگانہ ہوگئے۔
خود ساختہ اختلاف اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سبب ہے:
خیال رہے کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دینی اعمال مختلف رہے مگر ان کا یہ اختلاف اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا جس میں ہزارہا حکمتیں تھیں ، اس لئے یہ اختلاف پکڑ کا باعث نہیں بلکہ لوگوں کا خود ساختہ اختلاف اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سبب ہے، لہٰذاآیت بالکل واضح ہے۔
{فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ:تو جو نیک اعمال کرے ۔} اس آیت میں بندوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی گئی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو نیک اعمال کرے اور وہ ایمان والا ہو تو اسے اس کے عمل کا ثواب نہ دے کر محروم نہ کیا جائے گا اور ہم اس کے عمل اَعمال ناموں میں لکھ رہے ہیں جن میں کچھ کمی نہ ہو گی اور اللہ تعالیٰ نیک اعمال کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں فرمائے گا۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۴، ۸ / ۱۸۴، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۴، ۵ / ۵۲۲، ملتقطاً)
آیت’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے
(1)… اعمال قبول ہونے کادارو مدار ایمان پر ہے ،اگرایمان ہے تو سب کچھ ہے اور اگر ایمان نہیں توپھر کچھ بھی نہیں ۔
(2)… کوئی شخص چاہے کسی بھی قبیلے اور قوم سے تعلق رکھتا ہو، اس کی رنگت گوری ہو یاکالی ہو ،وہ دولت مند ہو یا مُفلس و غریب ہو، وہ مرد ہو یا عورت، اگر وہ ایمان والا ہے تو اس کے کئے ہوئے نیک اعمال کا ثواب اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا۔
(3)…مومن بندے کے نیک عمل مقبول ہیں ،البتہ ا س میں ایمان کے ساتھ ساتھ دو اور چیزوں کا ہونا بھی ضروری ہے (۱) نیک نیت۔ (۲) عمل کوحکم کے مطابق ادا کرنا، جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
(4)…بندے کے اعمال لکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کراماً کاتبین کو مقرر فرمایا ہے اور ان کا لکھنا چونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے ا س لئے یہ لکھنا اللہ تعالیٰ کا لکھنا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے بعض کام اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو سکتے ہیں۔
{وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ:اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا اس پر حرام ہے کہ لوٹ کرنہ آئیں ۔} مفسرین نے اس آیت کے مختلف معنی بیان کئے ہے (1) جس بستی کے لوگوں کو ہم نے ہلاک کر دیا ان کا اپنے اَعمال کی تَلافی اور اپنے اَحوال کے تَدارُک کے لئے دنیا کی طرف واپس آنا ناممکن ہے۔ (2) جس بستی والوں کو ہم نے ہلاک کرنے کا فیصلہ کر دیا ان کا شرک اور کفر سے واپس آنا محال ہے۔ (3) جس بستی کے لوگوں کو ہم نے ہلاک کر دیا ان کاقیامت کے دن زندہ ہونے کی طرف نہ لوٹنا ناممکن ہے یعنی وہ قطعاً قیامت کے دن لوٹ کر آئیں گے۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۵، ۸ / ۱۸۵، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۷۲۶، ملتقطاً)
{حَتّٰۤى اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ:یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کو کھول دیا جائے گا۔} یاجوج ماجوج دو قبیلوں کے نام ہیں ، جب قیامت آنے کا وقت قریب ہو گا تو یاجوج اور ماجوج کو روک کر رکھنے والی دیوار کو کھول دیا جائے گا اور وہ زمین کی ہر بلندی سے تیزی کے ساتھ لوگوں کی طرف اترتے ہوئے آئیں گے۔( جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۲۷۷، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۷۲۶، ملتقطاً)
نوٹ: یاجوج اور ماجوج سے متعلق تفصیلی کلام سورۂ کہف کی آیت نمبر 94 تا 99 کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں ۔
{وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ:اور سچا وعدہ قریب آگیا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب قیامت قائم ہو گی تواس وقت اس دن کی ہَولناکی اور دہشت سے کافروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی اور وہ کہیں گے کہ ہائے ہماری خرابی! بیشک ہم دنیا کے اندر اس سے غفلت میں تھے بلکہ ہم اپنی جانوں پرظلم کرنے والے تھے کہ رسولوں کی بات نہ مانتے تھے اور انہیں جھٹلاتے تھے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۲۹۵، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۲۷۷، ملتقطاً)
کفار کے انجام میں عبرت و نصیحت:
اس آیت میں کفار کا جو حال بیان کیا گیا اس میں ہر عقلمند انسان کے لئے بڑی عبرت اور نصیحت ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ذریعے تمام لوگوں کو اپنی رحمت و انعام اور اس کے حق داروں کے بارے میں بشارت اور خبر دے دی، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی پکڑ، گرفت، عذاب، موت کی سختیوں اور قیامت و جہنم کی ہَولناکیوں کے بارے میں بھی بتا دیا اور ان لوگوں کی بھی خبر دے دی جو ان میں مبتلاہوں گے، اس کے باجود جو انسان غفلت سے کام لے اور دنیا میں اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت نہ کرے تو قیامت کے دن وہ لاکھ حیلے بہانے کر لے اور کتنے ہی عذر پیش کر دے ، ا س کا کوئی حیلہ اور عذر قبول نہ ہو گا۔
حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں تمہارے پاس تمہارے مال طلب کرنے اور تم میں عزت و مرتبہ چاہنے نہیں آیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجاہے اور مجھ پر ایک عظیم کتاب نازل فرمائی ہے اور مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمہارے لئے( اللہ تعالیٰ کے ثواب کی) خوشخبری دینے والا اور ( اللہ تعالیٰ کے عذاب سے) ڈرانے والا بنوں ،تو میں نے تم تک اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں نصیحت کردی، اب اگر تم اُسے قبول کرو جسے میں تمہارے پاس لایا ہوں تو وہ تمہارے لئے دنیا و آخرت میں ایک حصہ ہے اور اگر تم اسے رد کر دو تو میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے صبر کروں گا یہاں تک کہ وہ میرے اور تمہارے درمیان کوئی فیصلہ فرما دے۔( خلق افعال العباد، باب ما جاء فی قول اللّٰہ: بلّغ ما انزل الیک من ربّک، ص۸۱)
ایک بزرگ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ جنازے کے پیچھے میت پر بڑی شفقت کر رہے ہیں ، تو انہوں نے فرمایا ’’اگر تم اپنی جانوں پر رحم کھاؤ (یعنی میت سے زیادہ اپنے اوپر رحم کھاؤ) تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے کیونکہ جس کا جنازہ تم لے کر جا رہے ہو وہ فوت ہو گیا اور تین ہَولناکیوں ، مَلکُ الموت کو دیکھنے، موت کی سختی اور مرنے کے خوف سے نجات پاگیا (جبکہ تمہیں ابھی ان تینوں ہولناکیوں کا سامنا کرنا ہے۔)( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۷، ۵ / ۵۲۳)
{اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ:بیشک تم اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔}ارشاد فرمایا کہ اے مشرکو! بیشک تم اور اللہ تعالیٰ کے سوا جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو ،سب جہنم کے ایندھن ہیں اور تم اس میں ہمیشہ کے لئے جانے والے ہو۔(روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۸، ۵ / ۵۲۳-۵۲۴)
یاد رہے کہ مشرکین کے بت عذاب پانے کے لئے جہنم میں نہ جائیں گے بلکہ ان مشرکوں کو عذاب دینے کے لئے جائیں گے کیونکہ ان کی پوجا کرنے میں قصور تو مشرکوں کا ہے نہ کہ ان بتوں کا ۔
{لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ:جہنم میں ان کی گدھے جیسی آوازیں ہوں گی۔} ارشاد فرمایا کہ وہ مشرک جہنم میں گدھے جیسی آوازیں نکالیں گے اور عذاب کی شدت سے چیخیں گے اور دھاڑیں گے اور وہ جہنم کے جوش کی شدت کی وجہ سے اس میں کچھ نہ سنیں گے۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ص۷۲۷، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ص۲۷۷، ملتقطاً)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’ جب جہنم میں وہ لوگ رہ جائیں گے جنہیں اس میں ہمیشہ رہنا ہے تو وہ آ گ کے تابوتوں میں بند کر دئیے جائیں گے، وہ تابوت دوسرے تابوتوں میں ، پھر وہ تابوت اور تابوتوں میں بند کر دئیے جائیں گے اور ان تابوتوں پر آ گ کی میخیں لگادی جائیں گی تو وہ کچھ نہ سنیں گے اور نہ کوئی ان میں کسی کو دیکھے گا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۲۹۶)
{اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰى:بیشک جن کے لیے ہمارا بھلائی کا وعدہ پہلے سے ہوچکا ہے ۔} شانِ نزول : رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک دن کعبہ معظمہ میں داخل ہوئے ، اس وقت قریش کے سردار حطیم میں موجود تھے اور کعبہ شریف کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے ۔ نضر بن حارثسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے آیا اور آپ سے کلام کرنے لگا ۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے جواب دے کرخاموش کر دیا اور یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ‘‘(انبیاء:۹۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک تم اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو سب جہنم کے ایندھن ہیں ۔
یہ فرما کر حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے آئے۔ پھر عبد اللہ بن زبعری سہمی آیا اور اسے ولید بن مغیرہ نے اس گفتگو کی خبر دی تو وہ کہنے لگا: خدا کی قسم !اگر میں ہوتا تو ان سے بحث مباحثہ کرتا۔ اس پر لوگوں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بلوا لیا ۔ ابنِ زبعری یہ کہنے لگا : آپ نے یہ فرمایا ہے کہ تم اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کے سوا تم پوجتے ہو سب جہنم کے ایندھن ہیں ؟ حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ہاں ۔ وہ کہنے لگا: یہودی تو حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو پوجتے ہیں اور عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو پوجتے ہیں اور بنی ملیح فرشتوں کو پوجتے ہیں (مطلب یہ کہ پھر تو یہ بھی جہنم میں جائیں گے) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور بیان فرما دیا کہ حضرت عزیر، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتے وہ ہیں جن کے لئے بھلائی کا وعدہ ہو چکا اور وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں ، اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ درحقیقت یہودی اور عیسائی وغیرہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں ۔ ان جوابوں کے بعد اسے دم مارنے کی مجال نہ رہی اور وہ بھی خاموش رہ گیا۔ درحقیقت ابنِ زبعری کا اعتراض انتہائی عناد کی وجہ سے تھا کیونکہ جس آیت پر اس نے اعتراض کیا اس میں مَا تَعْبُدُوْنَ کا لفظ ہے اور مَا عربی زبان میں ان کے لئے بولا جاتا ہے جو ذَوِی الْعُقول نہ ہوں ، یہ جاننے کے باوجود اس نے اندھا بن کر اعتراض کیا ۔ یہ اعتراض تو اہلِ زبان کی نگاہوں میں کھلا ہوا باطل تھا مگر مزید بیان کے لئے اس آیت میں وضاحت فرما دی گئی کہ حضرت عزیر، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتے جہنم سے دور رکھے گئے ہیں ۔
بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں وہ تمام مومنین داخل ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلائی اور سعادت کا وعدہ پہلے سے ہوچکا ہے ،یہ سب جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۲۹۶، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۷۲۷، ملتقطاً)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْکی عظمت و شان:
تفسیر مدارک میں ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے یہ آیت ’’ اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰى‘‘پڑھ کر فرمایا ’’میں انہیں میں سے ہوں اور حضرت ابوبکر ، عمر، عثمان ،طلحہ، زبیر، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ بھی انہیں میں سے ہیں ۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۷۲۷)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عَزِیْز جَبَّار وَاحِد قَہَّارجَلَّ وَعَلَا نے صحابۂ کرام کو دو قسم کیا، ایک وہ کہ قبلِ فتحِ مکہ جنہوں نے راہِ خدا میں خرچ وقتال کیا، دوسرے وہ جنہوں نے بعد ِفتح ،پھر فرما دیا کہ دونوں فریق سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اللہ کو تمہارے کاموں کی خوب خبر ہے کہ تم کیا کیا کرنے والے ہو، با اینہمہ اس نے تم سب سے حُسنٰی کا وعدہ فرمایا۔ یہاں قرآنِ عظیم نے ان دریدہ دہنوں ، بیباکوں ، بے ادب، ناپاکوں کے منہ میں پتھر دے دیا جو صحابۂ کرام کے افعال سے اُن پر طعن چاہتے ہیں ، وہ بشرطِ صحت اللہ عَزَّوَجَلَّ کو معلوم تھے ،پھر بھی اُن سب سے حُسنیٰ کا وعدہ فرمایا ، تو اب جومُعترض ہے اللہ واحدقہار پر معترض ہے، جنت ومدارجِ عالیہ اس معترض کے ہاتھ میں نہیں اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے ہاتھ ہیں ،معترض اپنا سرکھاتا رہے گا اور اللہ نے جو حُسنیٰ کا وعدہ اُن سے فرمایا ہے ضرور پورا فرمائے گا اور معترض جہنم میں سزاپائے گا، وہ آ یۂ کریمہ یہ ہے:
’’لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ-وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ‘‘(حدید:۱۰)
اے محبوب کے صحابیو!تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ وقتال کیا، وہ رُتبے میں بعد والوں سے بڑے ہیں ، اور دونوں فریق سے اللّٰہنے حُسنیٰ کا وعدہ کرلیا، اور اللّٰہخوب جانتا ہے جو کچھ تم کرنے والے ہو۔
اب جن کے لیے اللّٰہکا وعدہ حُسنیٰ کا ہولیا اُن کا حال بھی قرآن عظیم سے سنئے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ(۱۰۱) لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ-وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۲) لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕ-هٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ‘‘(انبیاء: ۱۰۱-۱۰۳)
بے شک جن کے لیے ہمارا وعدہ حُسنیٰ کا ہوچکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں ، اس کی بھنک تک نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے۔وہ بڑی گھبراہٹ قیامت کی ہلچل انہیں غم نہ دے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔
یہ ہے جمیع صحابۂ کرام سیّدُ الانام عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے قرآن کریم کی شہادت۔ امیرالمومنین ، مولی المسلمین ،علی مرتضیٰ مشکل کشا کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم قسمِ اول میں ہیں جن کو فرمایا ’’ اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً‘‘ اُن کے مرتبے قسمِ دوم والوں سے بڑے ہیں ۔ اور امیر معاویہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُقسمِ دوم میں ہیں ، اور حُسنیٰ کا وعدہ اور یہ تمام بشارتیں سب کوشامل۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۲۷۹-۲۸۰)
{ اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ:وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس سے مراد یہ ہے کہ انہیں جہنم کے عذاب اور اس کی اَذِیّت و تکلیف سے دور رکھا جائے گا کیونکہ جب مومنین جہنم کے اوپر سے گزریں گے تو جہنم کی آگ ٹھندی ہونے لگے گی اور وہ کہے گی اے مومن !جلدی سے گزر جا کیونکہ تیرے نورنے میرے شعلے کو بجھا دیا ہے۔لہٰذا ایمان والوں کا جہنم کے اوپر سے گزرنا اس آیت کے مُنافی نہیں ہے۔( صاوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۴ / ۱۳۲۰)
{لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَا:وہ اس کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے۔} بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ جنت کی مَنازل میں آرام فرما ہوں گے تووہ جہنم کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے اور اس کے جوش کی آواز بھی ان تک نہ پہنچے گی ، اور وہ جنت میں اپنی دل پسند نعمتوں اور کرامتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔( جمل، الانیباء، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۵ / ۱۶۴، قرطبی، الانیباء، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۶ / ۲۰۴، ملتقطاً)
{لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ:انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’سب سے بڑی گھبراہٹ سے مراد دوسری بار صُور میں پھونکا جانا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے وہ وقت مراد ہے جب موت کو ذبح کر کے یہ ندا دی جائے گی کہ اے جہنم والو! تمہیں اب موت کے بغیر جہنم میں ہمیشہ رہنا ہے۔
مزید فرمایا کہ قبروں سے نکلتے وقت مبارک باد دیتے اور یہ کہتے ہوئے فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ تمہیں ثواب ملنے کا وہ دن ہے جس کا دنیا میں تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۷۲۷، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۳ / ۲۹۶، ملتقطاً)
سب سے بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہنے والے لوگ:
اَحادیث میں چند ایسے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو قیامت کے دن سب سے بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہیں گے، ترغیب کے لئے یہاں ان پانچ خوش نصیب افراد کا ذکر کیا جاتا ہے جن کا ذکر اَحادیث میں ہے،
(1)…شہید۔ چنانچہ حضرت مقدام بن معدی کرب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شہید کے لئے چھ خصلتیں ہیں ، خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی ا س کی بخشش ہو جاتی ہے۔ جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے۔ قبر کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔ سب سے بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔ اس کے سر پر عزت و وقار کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔ بڑی آنکھوں والی 72 حوریں ا س کے نکاح میں دی جائیں گی اور ا س کے ستر رشتہ داروں کے حق میں ا س کی شفاعت قبول کی جائے گی۔( ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب فی ثواب الشہید، ۳ / ۲۵۰، الحدیث: ۱۶۶۹)
(2)…رضائے الٰہی کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے۔ چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو نہ انبیاء ہیں نہ شہداء،ان کے لئے قیامت کے دن نور کے منبر رکھے جائیں گے ،ان کے چہرے بھی نورانی ہوں گے اوروہ قیامت کے دن سب سے بڑی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے۔ ایک شخص نے عرض کی :یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا’’وہ مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگ ہوں گے جو ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ کی رضاکی خاطر محبت رکھتے ہوں گے۔( معجم الکبیر،من اسمہ:معاذ، معاذ بن جبل الانصاری۔۔۔الخ، رجال غیر مسمّین عن معاذ،۲۰ / ۱۶۸،الحدیث: ۳۵۸)
(3 ، 4 ، 5)…جس امام سے مقتدی خوش ہوں ، روزانہ اذان دینے والا، اللہ تعالیٰ اور اپنے آقا کا حق ادا کرنے والا غلام۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تین افراد ایسے ہیں جنہیں قیامت کے دن سب سے بڑی گھبراہٹ پریشان نہیں کرے گی ، انہیں حساب کی سختی نہ پہنچے گی اور وہ مخلوق کا حساب ختم ہونے تک کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے ۔ (۱) وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے قرآن پڑھا اور ا س کے ساتھ کسی قوم کی امامت کی اور وہ ا س سے را ضی ہوں ۔ (۲) وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے لوگوں کو پانچوں نمازوں کی طرف اذان دے کر بلائے۔ (۳) وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کاحق اور اپنے آقاؤں کا حق اچھے طریقے سے ادا کرتا ہے۔( معجم الصغیر، باب الواو، من اسمہ: الولید، ص۱۲۴، الجزء الثانی)
{یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ:یاد کروجس دن ہم آسمان کو لپیٹیں گے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ جن لوگوں سے بھلائی کا وعدہ ہو چکا انہیں اس دن سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی جس دن ہم آسمان کواس طرح لپیٹیں گے جیسے سجل فرشتہ بندے کی موت کے وقت اس کے نامہ ِاعمال کو لپیٹتا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جن لوگوں سے بھلائی کا وعدہ ہو چکا فرشتے ا س دن ان کا استقبال کریں گے جس دن ہم آسمان کواس طرح لپیٹیں گے جیسے سجل فرشتہ بندے کی موت کے وقت اس کے نامہ ِاعمال کو لپیٹتا ہے۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ یاد کروجس دن ہم آسمان کواس طرح لپیٹیں گے جیسے سجل فرشتہ بندے کی موت کے وقت اس کے نامہ ِاعمال کو لپیٹتا ہے۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۸ / ۱۹۱، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ص۲۷۷، ملتقطاً)
سِجِلّ کا معنی:
سجل سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ سجل تیسرے آسمان پر موجود اس فرشتے کا نام ہے جس تک بندوں کی موت کے بعد ان کے اعمال نامے پہنچائے جاتے ہیں اور وہ فرشتہ ان اعمال ناموں کو لپیٹ دیتا ہے، چنانچہ ابو حیان محمد اندلسی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَااور مفسرین کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ سجل ایک فرشتہ ہے ،جب اس تک بندوں کے نامہِ اعمال پہنچائے جاتے ہیں تو وہ انہیں لپیٹ دیتا ہے۔( البحر المحیط، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۶ / ۳۱۷)
{ كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ:ہم اسے دوبارہ اسی طرح لوٹا دیں گے جس طرح ہم نے پہلے بنایا تھا ۔} یعنی ہم نے جیسے پہلے انسان کو عدم سے بنایا تھا ویسے ہی پھر معدوم کرنے کے بعد دوبارہ پیدا کردیں گے، یا اس کے یہ معنی ہیں کہ جیسا اسے ماں کے پیٹ سے برہنہ اورغیر ختنہ شدہ پیدا کیا تھا ایسا ہی مرنے کے بعد اُٹھائیں گے۔( جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ص۲۷۷، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۳ / ۲۹۶، ملتقطاً)
اَنبیاء، صحابہ اور اولیاء کا حشر لباس میں ہو گا:
اس آیت کی دوسری تفسیر سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن لوگوں کا حشر ایسے ہو گا کہ ان کے بدن ننگے ہوں گے اور ان کا ختنہ بھی نہیں ہوا ہو گا۔ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اے لوگو! تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بے ختنہ کئے جمع کئے جاؤ گے۔( مسلم،کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا،باب فناء الدنیا وبیان الحشر یوم القیامۃ،ص۱۵۳۰،الحدیث:۵۸(۲۸۶۰))
البتہ یہاں یہ یاد رہے کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مْقیامت کے دن اس حال سے محفوظ ہوں گے اور ان کا حشر لباس میں کیا جائے گا۔ جیسا کہ مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث کے تحت ارشاد فرماتے ہیں :اس فرمانِ عالی میں اِنَّکُمْ فرما کر بتایا گیا کہ تم عوام لوگ اس حالت میں اُٹھو گے : ننگے بدن، ننگے پاؤں ، بے ختنہ، مگر تمام انبیاءِکرام اپنے کفنوں میں اٹھیں گے حتّٰی کہ بعض اولیاء اللہ بھی کفن پہنے اٹھیں گے تاکہ ان کا ستر کسی اور پر ظاہر نہ ہو۔ جامع صغیر کی روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا کہ میں قبر انور سے اُٹھوں گا اور فوراً مجھے جنتی جوڑا پہنا دیا جاوے گا ۔ لہٰذا یہاں اس فرمان عالی سے حضور انور صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَ سَلَّمَ بلکہ تمام انبیاء ،بعض اولیاء مُستَثنیٰ ہیں ۔( مراٰۃ المناجیح ، حشر کابیان، پہلی فصل، ۷ / ۲۹۰، تحت الحدیث: ۵۲۹۳)
اور فقیہ اعظم مفتی ابو الخیر نورُ اللہ نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ یہ حدیث پاک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : یہ خطاب امت کو ہے جس کاظاہر یہ ہے کہ حضرات انبیاءِکرام سب مُستَثنیٰ ہیں ،اوروہ سب بِفَضْلِہ تعالیٰ لباس میں ہونگے، ہاں تشریفی خِلعتیں بھی علیٰ حسب ِالمدارج ان حضرات کیلئے وارد ہیں (عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ) بہرحال اس حدیث سے ثابت ہورہا ہے کہ امتی ننگے ہوں گے۔(فتاوی نوریہ، کتاب العقائد، ۵ / ۱۲۵)
دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :آیاتِ مُتَکاثِرہ اور اَحادیثِ مُتَواترہ سے واضح ہوتا ہے کہ حضرات صحابۂ کرام اور اولیاءِ عظام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْکا حشر بھی لباس میں ہوگا کہ یہ سب حضرات مُنْعَم عَلَیہم ہیں اور ان کے لئے حضرات ِانبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مَعِیَّت ورفاقتِ خاصہ بَحکمِ قرآن کریم صراحۃً ثابت ہے۔ پ 5 ع6 میں ہے ’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا‘‘اس انعام ومعیت ورفاقت سے ہی واضح ہورہا ہے کہ وہ بھی انبیاءِکرام کی معیت میں لباس میں ہوں گے بالخصوص جبکہ یہ حضرات ہیں ہی صدیقین یاشہدا سے یا صالحین۔(فتاوی نوریہ، کتاب العقائد، ۵ / ۱۲۹)
{وَعْدًا عَلَیْنَا:یہ ہمارے اوپر ایک وعدہ ہے۔} یعنی تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کرنے کی طرح دوبارہ پیدا کرنا ہمارے اوپر ایک وعدہ ہے اور اسے ہم ضرور پورا کریں گے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۵ / ۵۲۶)
{وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ:اور بیشک ہم نے نصیحت کے بعد زبورمیں لکھ دیا۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں زبور سے وہ تمام کتابیں مراد ہیں جو انبیاءِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئیں اور ذکر سے مراد لوحِ محفوظ ہے، اور آیت کا معنی یہ ہے کہ لوحِ محفوظ میں لکھنے کے بعد ہم نے تمام آسمانی کتابوں میں لکھ دیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ زبور سے وہ آسمانی کتاب مراد ہے جوحضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپرنازل ہوئی اور ذکر سے مراد تورات ہے، اور آیت کا معنی یہ ہے کہ تورات میں لکھنے کے بعد زبور میں لکھ دیا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۲۹۷، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ص۷۲۸، ملتقطاً)
{اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ:کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔} اس زمین سے مراد جنت کی زمین ہے جس کے وارث اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ہوں گے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اس سے کفار کی زمینیں مراد ہیں جنہیں مسلمان فتح کریں گے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے شام کی زمین مراد ہے جس کے وارث اللہ تعالیٰ کے وہ نیک بندے ہوں گے جو اس وقت شام میں رہنے والوں کے بعد آئیں گے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۲۹۷)
{اِنَّ فِیْ هٰذَا لَبَلٰغًا:بیشک اس قرآن میں کافی سامان ہے۔} یعنی قرآن کریم مومن عبادت گزاروں کو ہدایت و رہبری کے لئے کافی ہے بشرطیکہ اسے صاحب ِقرآن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیم و تفہیم کے ماتحت سمجھا جائے، محض عقل سے سمجھنا کافی نہیں اور جو اس کی پیروی کرے اور اس کے مطابق عمل کرے وہ مراد کو پہنچے اور جنت پائے گا۔ عباد ت کرنے والوں سے مراد مومنین ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتے اور ایک قول یہ ہے کہ اُمتِ مُحمدیَّہ مراد ہے جو پانچوں نمازیں پڑھتے ہیں رمضان کے روزے رکھتے ہیں اور حج کرتے ہیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۳ / ۲۹۷)
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ:اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔
حضورِ اقدسصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رحمت:
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنبیوں ، رسولوں اور فرشتوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے رحمت ہیں ، دین و دنیا میں رحمت ہیں ، جِنّات اور انسانوں کے لئے رحمت ہیں ، مومن و کافر کے لئے رحمت ہیں ، حیوانات، نباتات اور جمادات کے لئے رحمت ہیں الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں ، سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب کے لئے رحمت ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا رحمت ہونا عام ہے، ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا ۔ مومن کے لئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَدنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَدنیامیں رحمت ہیں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بدولت اس کے دُنْیَوی عذاب کو مُؤخَّر کر دیا گیا اور اس سے زمین میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا عذاب اٹھا دیا گیا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۳ / ۲۹۷)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عالَم ماسوائے اللہ کو کہتے ہیں جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں ۔ تو لاجَرم (یعنی لازمی طور پر) حضور پُر نور، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب پر رحمت و نعمت ِربُّ الارباب ہوئے ، اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند وفیضیاب ۔ اسی لئے اولیائے کاملین وعلمائے عاملین تصریحیں فرماتے ہیں کہ’’ ازل سے ابد تک ،ارض وسماء میں ، اُولیٰ وآخرت میں،دین ودنیا میں ، روح وجسم میں ، چھوٹی یا بڑی ، بہت یا تھوڑی ، جو نعمت ودولت کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی سب حضور کی بارگاہ ِجہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹے گی۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: تجلی الیقین، ۳۰ / ۱۴۱)
اور فرماتے ہیں’’حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ رحمۃٌ لِّلْعالَمین بنا کر بھیجے گئے اور مومنین پربالخصوص کمال مہربان ہیں ، رؤف رحیم ہیں ، ان کامشقت میں پڑنا ان پرگراں ہے، ان کی بھلائیوں پرحریص ہیں ،جیسے کہ قرآن عظیم ناطق:
’’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔)
تمام عاصیوں کی شفاعت کے لئے تو وہ مقررفرمائے گئے:
’’وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ‘‘(سورۂ محمد:۱۹)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے حبیب!اپنے خاص غلاموں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔)( فتاوی رضویہ، ۲۴ / ۶۷۴-۶۷۵)
آیت’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘ اور عظمت ِمصطفٰی :
یہ آیتِ مبارکہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان پر بہت بڑی دلیل ہے، یہاں اس سے ثابت ہونے والی دو عظمتیں ملاحظہ ہوں :
(1)…اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمخلوق میں سب سے افضل ہیں ۔ چنانچہ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جب حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتمام عالَمین کے لئے رحمت ہیں تو واجب ہو اکہ وہ ( اللہ تعالیٰ کے سوا) تمام سے افضل ہوں ۔( تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۳، ۲ / ۵۲۱)
تفسیر روح البیان میں اَکابِر بزرگانِ دین کے حوالے سے مذکور ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوتمام جہانوں کے لئے خواہ وہ عالَمِ ارواح ہوں یا عالَمِ اجسام ، ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول سب کے لئے مُطْلَق، تام، کامل، عام، شامل اور جامع رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے اور جو تمام عالَموں کے لئے رحمت ہو تو لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵ / ۵۲۸)
(2)… اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَدونوں جہاں کی سعادتیں حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں کیونکہ جو شخص دنیا میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ایمان لائے گا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و پیروی کرے گا اسے دونوں جہاں میں آپ کی رحمت سے حصہ ملے گا اور وہ دنیا وآخرت میں کامیابی حاصل کرے گا اور جو آپ پر ایمان نہ لایا تو وہ دنیا میں آپ کی رحمت کے صدقے عذاب سے بچ جائے گا لیکن آخرت میں آپ کی رحمت سے کوئی حصہ نہ پا سکے گا۔ امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’لوگ کفر ،جاہلیت اور گمراہی میں مبتلا تھے ، اہلِ کتاب بھی اپنے دین کے معاملے میں حیرت زدہ تھے کیونکہ طویل عرصے سے ان میں کوئی نبی عَلَیْہِ السَّلَام تشریف نہ لائے تھے اور ان کی کتابوں میں بھی (تحریف اور تبدیلیوں کی وجہ سے) اختلاف رو نما ہو چکاتھا تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو مبعوث فرمایا جب حق کے طلبگار کو کامیابی اور ثواب حاصل کرنے کی طرف کوئی راہ نظر نہ آ رہی تھی،چنانچہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے لوگوں کوحق کی طرف بلایا اور ان کے سامنے درست راستہ بیان کیااور ان کے لئے حلال و حرام کے اَحکام مقرر فرمائے ،پھر اس رحمت سے(حقیقی) فائدہ اسی نے اٹھایا جو حق طلب کرنے کا ارادہ رکھتا تھا (اور وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ایمان لا کر دنیا و آخرت میں کامیابی سے سرفراز ہوا اور جو ایمان نہ لایا) وہ دنیا میں آپ کے صدقے بہت ساری مصیبتوں سے بچ گیا۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۸ / ۱۹۳، ملخصاً)
تم ہو جواد و کریم تم ہو رؤف و رحیم
بھیک ہو داتا عطا تم پہ کروڑوں درود
حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضور اقدسصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت میں فرق:
ویسے تو اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اور اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامرحمت ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عین رحمت اور سراپا رحمت ہیں ،اسی مناسبت سے یہاں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت میں فرق ملاحظہ ہو،چنانچہ تفسیر روح البیان میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ وَ رَحْمَةً مِّنَّا‘‘(مریم:۲۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے ایک رحمت (بنادیں )۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حق میں ارشاد فرمایا
’’ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔‘‘
ان دونوں کی رحمت میں بڑا عظیم فرق ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رحمت ہونے کو حرف ’’مِنْ‘‘ کی قید کے ساتھ ذکر فرمایا اور یہ حرف کسی چیز کا بعض حصہ بیان کرنے کے لئے آتا ہے اور اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامان لوگوں کے لئے رحمت ہیں جو آپ پر ایمان لائے اور اس کتاب و شریعت کی پیروی کی جو آپ لے کر آئے اور ان کی رحمت کا یہ سلسلہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے مبعوث ہونے تک چلا، پھر آپ کا دین منسوخ ہونے کی وجہ سے اپنی امت پر آپ کا رحمت ہونا منقطع ہو گیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں مُطْلَق طور پر تمام جہانوں کے لئے رحمت ہونا بیان فرمایا،اسی وجہ سے عالَمین پر آپ کی رحمت کبھی منقطع نہ ہو گی، دنیا میں کبھی آپ کا دین منسوخ نہ ہو گا اور آخرت میں ساری مخلوق یہاں تک کہ (حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شفاعت کے محتاج ہوں گے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵ / ۵۲۸)
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ کے واحد معبود ہونے پرکئی دلائل پیش کئے گئے اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے، اب یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ کافروں سے فرما دیں کہ معبود کے معاملے میں میری طرف یہی وحی کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں لہٰذاتم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لا کر مسلمان ہو جاؤ۔(تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۸ / ۱۹۴، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۳ / ۲۹۷، ملتقطاً)
{فَاِنْ تَوَلَّوْا:پھر اگر وہ منہ پھیریں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ پھر اگر وہ کفار اسلام قبول کرنے سے منہ پھیریں تو آپ ان سے فرما دیں کہ میں نے تم سے لڑائی کا اعلان کر دیا ہے اور اس سے متعلق جاننے میں ہم اور تم برابر ہیں لیکن میں نہیں جانتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم سے جنگ کرنے کی اجازت کب ملے گی۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، پھر اگر وہ کفار منہ پھیریں اور اسلام نہ لائیں تو آپ ان سے فرما دیں : اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے متعلق جس چیز کا مجھے حکم دیا گیا میں نے تمہیں برابری کی بنیاد پر ا س کے بارے میں خبردار کردیا ہے اور رسالت کی تبلیغ کرنے اور نصیحت کرنے میں تمہارے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر نہیں جانتا کہ تمہیں عذاب یا قیامت کاجو وعدہ دیا جاتاہے وہ قریب ہے یا دور ہے۔(تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۸ / ۱۹۵، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۵ / ۵۳۰، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۲۷۸، ملتقطاً)
{وَ اِنْ اَدْرِیْ:اور میں نہیں جانتا ۔} آیت کے اس حصے کے بارے میں صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے خزائن العرفان میں جو کلام فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں دِرایت کی نفی فرمائی گئی ہے۔ درایت ’’اندازے اور قِیاس سے جاننے ‘‘کو کہتے ہیں جیسا کہ امام راغب اصفہانی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مفرداتِ امام راغب میں اور علامہ شامی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ردُّالمحتار میں ذکر کیا ہے، اور قرآن کریم کے اِطلاقات اس پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ فرمایا:
’’ مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِیْمَانُ‘‘(شوری:۵۲)
(ترجمۂکنزُالعِرفان: اس سے پہلے نہ تم کتاب کوجانتے تھے نہ شریعت کے احکام کی تفصیل کو۔)
اسی لئے اللہ تعالیٰ کے لئے درایت کالفظ استعمال نہیں کیا جاتا ،لہٰذا یہاں اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر محض اپنی عقل اور قیاس سے جاننے کی نفی ہے نہ کہ مُطْلق علم کی اور مطلق علم کی نفی کیسے ہو سکتی ہے جب کہ اسی رکوع کے شروع میں آ چکا ہے ’’وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ‘‘یعنی اور سچا وعدہ قریب آگیا۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وعدے کا قریب اور دور ہونا کسی طرح معلوم نہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہاں اپنی عقل اور قیاس سے جاننے کی نفی ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جاننے کی نفی ہے۔(خزائن العرفان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۶۱۷)
{ اِنَّهٗ یَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ:بیشک اللہ بلند آواز سے کہی گئی بات کو جانتا ہے۔}یعنی اے کافرو! تم جو بلند آواز سے قرآنِ مجید کی آیات کو جھٹلاتے اور اسلام پر اعتراضات کرتے ہو بے شک اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے اور رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں سے جو حسد و عداوت تم چھپاتے ہو اسے بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے تو وہ تمہیں ا س پر جہنم کی دردناک سزا دے گا۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۵ / ۵۳۰)
{ وَ اِنْ اَدْرِیْ لَعَلَّهٗ فِتْنَةٌ لَّكُمْ:اور میں نہیں جانتا کہ شایدوہ تمہاری آزمائش ہو ۔} یعنی میں نہیں جانتا کہ شاید دنیا میں عذاب کو مُؤخَّر کرنا تمہاری آزمائش ہو جس سے تمہارا حال ظاہر ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت کے مطابق موت کے وقت تک کیلئے تمہیں فائدہ دینا ہو تاکہ یہ تم پر حجت ہو جائے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۵ / ۵۳۰)
{قٰلَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ:نبی نے عرض کی: اے میرے رب! حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے۔} یہاں حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی دعا کا ذکر ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرمائی :اے میرے رب! میرے اور ان کے درمیان جو مجھے جھٹلاتے ہیں اس طرح حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے کہ میری مدد کر اور ان پر عذاب نازِل فرما ۔ چنانچہ حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یہ دعا قبول ہوئی اور جنگ ِبدر، جنگ ِاَحزاب اور جنگ ِحُنَین وغیرہ میں کفار مبتلائے عذاب ہوئے۔ آیت کے آخر میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا گیاکہ آپ کافروں کو وعید بیان کرتے ہوئے فرما دیں کہ ’’ ہمارا رب رحمٰن ہی ہے جس سے شرک و کفر اور بے ایمان کی ان باتوں کے خلاف مدد طلب کی جاتی ہے جو تم کرتے ہو۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۳ / ۲۹۸)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan