Surah Yaseen
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{یٰسٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ،نیزاس کے بارے مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَسماءِ مبارکہ میں سے ایک اسم ہے۔(جلالین مع صاوی، یس، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۱۷۰۵)
’’یٰسین ‘‘ نام رکھنے کا شرعی حکم :
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ’’یٰسین ‘‘ نام رکھنے کا جو شرعی حکم بیان فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی کا یٰسین ‘‘ اورطٰہٰ نام رکھنا منع ہے کیونکہ بقولِ بعض علماء ممکن ہے کہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ایسے نام ہیں جن کے معنی معلوم نہیں ، کیاعجب کہ ان کے وہ معنی ہوں جوغیر ِخدا پر صادق نہ آسکیں ، اس لئے ان سے بچنا لازم ہے اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بقول یہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ایسے نام ہیں جن کے معنی سے واقف نہیں ، ہوسکتاہے ان کاکوئی ایسامعنی ہو جو حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لئے خاص ہو اور آپ کے سواکسی دوسرے کے لئے اس کا استعمال درست نہ ہو۔ اِن ناموں کی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بیان کردہ رائے زیادہ مناسب ہے کیونکہ ان ناموں کا حضورِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے لئے مُقَدّس نام کے طور پر ہونا زیادہ ظاہر اور مشہورہے۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: النور والضیاء فی احکام بعض الاسماء، ۲۴ / ۶۸۰-۶۸۱،ملخصاً)
نوٹ:جن حضرات کا نام ’’یٰسین‘‘ ہے وہ خود کو’’ غلام یٰسین‘‘ لکھیں اور بتائیں اور دوسروں کو چاہئے کہ اسے ’’غلام یٰسین‘‘ کہہ کر بلائیں ۔
{وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ: حکمت والے قرآن کی قسم۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کافروں نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ ’’آپ رسول نہیں ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف کوئی رسول بھیجا ہے۔‘‘ان کے اس قول کا یہاں اللہ تعالیٰ نے رد فرمایا اور قرآنِ مجید کی قسم ارشاد فرما کر اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’حکمت والے قرآن کی قسم ! بیشک آپ ان ہستیوں میں سے ہیں جنہیں رسالت کا منصب عطا کیا گیا ہے اور بیشک آپ ایسے سیدھے راستے پر ہیں جو منزلِ مقصود تک پہنچانے والا ہے ۔یہ راستہ تو حید اور ہدایت کا راستہ ہے اور تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسی راستے پر رہے ہیں۔(روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۲-۴، ۷ / ۳۶۶، جلالین، یس، تحت الآیۃ: ۲-۴، ص۳۶۸، ملتقطاً)
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت سب سے زیادہ قوی اور مُعتَدل ہے:
یاد رہے کہ تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صراطِ مستقیم پر ہی ہیں اور جب یہ ارشاد فرما دیا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رسولوں میں سے ہیں تواسی کے ضمن میں یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صراطِ مستقیم پر بھی ہیں ، البتہ یہاں حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں صراحت کے ساتھ صراطِ مستقیم پر ہونے کی خبر دینے سے معلوم ہوا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت سب سے زیادہ قوی اور سب سے زیادہ معتدل ہے ۔( روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۴، ۷ / ۳۶۷، ابو سعود، یس، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۷۶، ملتقطاً)
حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صراطِ مستقیم:
حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود بھی صراطِ مستقیم پر ہیں جیساکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا اور آپ لوگوں کو صراطِ مستقیم کی دعوت بھی دیتے ہیں ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِنَّكَ لَتَدْعُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ‘‘(مومنون:۷۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم انہیں سیدھی راہ کی طرف بلاتے ہو۔
اور صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی بھی کرتے ہیں ، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِنَّكَ لَتَهْدِیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ‘‘(شوریٰ:۵۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم ضرور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہو۔
اور آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ صراطِ مستقیم کی ہدایت بھی دیتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
’’یَهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ‘‘(مائدہ:۱۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اللہ اس کے ذریعے اسے سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے جو اللہ کی مرضی کا تابع ہوجائے اور انہیں اپنے حکم سے تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
اوراس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہاں ’’بِهٖ‘‘ کی ضمیر سے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ مراد ہیں ۔( البحر المحیط، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۴۶۳)
سورہِ یٰسٓ کی آیت نمبر2تا 4سے حاصل ہونے والی معلومات:
ان آیات سے تین باتیں مزید معلوم ہوئیں :
(1)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام اتنا بلند ہے کہ کافروں کی طرف سے آپ پر ہونے والے اعتراضات کا جواب اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے۔
(2)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عظمت کے ایسے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی رسالت پر اپنے مُقَدّس کلام قرآنِ مجید کی قسم ارشاد فرمائی ہے اور یہ خصوصیت آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علاوہ اور کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو حاصل نہ ہوئی۔
(3)…حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سِیادت اور سرداری کا وہ رتبہ عطا ہو اہے جو کسی دوسرے رسول اور نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو عطا نہیں ہوا۔
{تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ: عزت والے مہربان کا اتاراہوا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ حکیم اس رب تعالیٰ کا نازل کیا ہواہے جو اپنی سلطنت میں عزت والا اور اپنی مخلوق پر مہربان ہے ،تا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ قرآنِ مجید کے ذریعے اس قوم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں جس کے باپ دادا کے پاس اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے کے لئے طویل عرصے سے کوئی رسول عَلَیْہِ السَّلَام نہ پہنچا جس کی وجہ سے یہ لوگ ایمان اور ہدایت سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔(خازن، یس، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۴ / ۲، روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۷ / ۳۶۸، ملتقطاً)
قومِ قریش کا تو یہی حال ہے کہ ان میں نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے کوئی رسول تشریف نہیں لائے اور عرب میں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سے لے کر سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک ان کے پاس کوئی رسول تشریف نہیں لایا جبکہ اہلِ کتاب کے پاس حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سے لے کر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک کوئی رسول تشریف نہیں لایا ۔(جمل، یس، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۲۷۵، ملخصاً)
رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نذیر ہونا عام ہے :
یہاں آیت میں بطور ِخاص کفار ِقریش کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے کا فرمایا گیا اور عمومی طور پر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اہلِ عرب،اہلِ کتاب وغیرہ سبھی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والے ہیں کیونکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام لوگوں کے لئے رسول ہیں ، جیسا کہ قرآنِ مجید میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘(سبا:۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے محبوب! ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجاہے لیکن بہت لوگ نہیں جانتے۔
{لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰۤى اَكْثَرِهِمْ: بیشک ان میں اکثر پر بات ثابت ہوچکی ہے۔} اس سے پہلی آیات میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا رسول اور نذیر ہونا بیان فرمایا گیا اور اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا جا رہاہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانا ہے اور کسی کو ہدایت دے دینا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذمہ داری نہیں ہے (یہ اس لئے فرمایا گیا تاکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کفار کے ایمان نہ لانے پر افسردہ اور غمزدہ نہ ہوں )۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ میں سے اکثر پر اللہ تعالیٰ کاعذاب واجب ہو چکا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے اَزلی علم سے جانتا ہے کہ یہ لوگ اپنے اختیار سے کفر اور انکار پر اِصرار کریں گے اور کفر کی حالت میں ہی انہیں موت آئے گی، اس لئے اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ لوگ آپ کے عذابِ الٰہی سے ڈرانے کے باوجود ایمان نہیں لائیں گے ۔( تفسیرکبیر، یس، تحت الآیۃ: ۷، ۹ / ۲۵۴، تفسیر قرطبی، یس، تحت الآیۃ: ۷، ۸ / ۷، الجزء الخامس عشر، ملتقطاً)
{اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا: ہم نے ان کی گردنو ں میں طوق ڈال دیئے ہیں ۔} بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ان کافروں کے کفر میں پختہ ہونے اور وعظ و نصیحت سے فائدہ نہ اٹھا سکنے کی ایک مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ جیسے وہ لوگ جن کی گردنوں میں غُلّ کی قسم کا طوق پڑا ہو جو کہ ٹھوڑی تک پہنچتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ سر نہیں جھکا سکتے ، اسی طرح یہ لوگ کفر میں ایسے راسخ ہو چکے ہیں کہ کسی طرح حق کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور اس کے حضور سر نہیں جھکاتے۔
بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ ان کے حقیقی حال کا بیان ہے اور جہنم میں انہیں اسی طرح کا عذاب دیاجائے گا ،جیسا کہ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ‘‘(مومن:۷۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جب ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے۔
شانِ نزول:یہ آیت ابوجہل اور اس کے دو مخزومی دوستوں کے بارے میں نازل ہوئی ،اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ابوجہل نے قسم کھائی تھی کہ اگر وہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نماز پڑھتے دیکھے گا تو پتھر سے سر کچل ڈالے گا۔ جب اس نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نماز پڑھتے دیکھا تو وہ اسی فاسد ارادے سے ایک بھاری پتھر لے کر آیا اورجب اس نے پتھر کو اٹھایا تو اس کے ہاتھ گردن میں چپک کر رہ گئے اور پتھر ہاتھ کو لپٹ گیا۔ یہ حال دیکھ کر وہ اپنے دوستوں کی طر ف واپس لوٹا اور ان سے واقعہ بیان کیا تو اس کے دوست ولید بن مغیرہ نے کہا : یہ کام میں کروں گا اور ان کا سرکچل کر ہی آؤں گا، چنانچہ وہ پتھر لے کر آیا اور حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ابھی نماز ہی پڑھ رہے تھے ، جب وہ قریب پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی سَلب کر لی ،وہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آواز سنتا تھا لیکن آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ یہ بھی پریشان ہو کر اپنے یاروں کی طرف لوٹا اوروہ بھی اسے نظر نہ آئے، انہوں نے ہی اسے پکار ا اور اس سے کہا: تو نے کیا کیا ؟وہ کہنے لگا: میں نے ان کی آواز تو سنی تھی مگر وہ نظر ہی نہیں آئے۔ اب ابوجہل کے تیسرے دوست نے دعویٰ کیا کہ وہ اس کام کو انجام دے گا اور بڑے دعوے کے ساتھ وہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف چلا تھا کہ الٹے پاؤں ایسا بدحواس ہو کر بھاگا کہ اوندھے منہ گر گیا، اس کے دوستوں نے حال پوچھا تو کہنے لگا: میرا حال بہت سخت ہے، میں نے ایک بہت بڑا سانڈ دیکھا جو میرے اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیان حائل ہو گیا ، لات و عُزّیٰ کی قسم! اگر میں ذرا بھی آ گے بڑھتا تو وہ مجھے کھا ہی جاتا ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، یس، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۳، جمل، یس، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۲۷۵-۲۷۶، ملتقطاً)
{وَ جَعَلْنَا مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدًّا: اور ہم نے ان کے آگے دیوار بنادی۔} یہ بھی مثال کا بیان ہے کہ جیسے کسی شخص کے لئے دونوں طرف دیواریں ہوں اور ہر طرف سے راستہ بند کر دیا گیا ہو تو وہ کسی طرح منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا، یہی حال ان کفار کا ہے کہ ان پر ہر طرف سے ایمان کی راہ بند ہے،ان کے سامنے دنیا کے غرور کی دیوار ہے اور ان کے پیچھے آخرت کو جھٹلانے کی اور وہ جہالت کے قید خانہ میں قید ہیں جس کی وجہ سے آیات اور دلائل میں غور وفکر کرنا انہیں مُیَسّر نہیں ہے ۔( جمل، یس، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۲۷۷)
{وَ سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ: اور تمہارا انہیں ڈرانا اور نہ ڈرانا ان پر برابر ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جن کافروں کا کفر پرجمے رہنا تقدیرِ الٰہی میں لکھا ہوا ہے آپ کا انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانا یا نہ ڈرانا ان کے حق میں برابر ہے،یہ انہیں کوئی نفع نہ دے گا اوروہ کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے۔ کافروں کا ایمان نہ لانا اس وجہ سے نہیں کہ خدا نے انہیں کفر پر ڈٹے رہنے پر مجبور کردیا تھاکہ وہ چاہتے بھی تو ایمان نہ لا پاتے بلکہ خود ان کافروں نے ضدو عناد کی وجہ سے حق قبول کرنے کی صلاحیت ختم کرلی تھی۔
یاد رہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کافروں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اپنے حق میں نہ ڈرانے کے برابر نہیں ہے کیونکہ ڈر سنا کر آپ نے تبلیغ کی ذمہ داری پوری کر دی اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تبلیغ کرنے کا ثواب ملے گا۔( روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۱۰، ۷ / ۳۷۳، تفسیر کبیر، یس، تحت الآیۃ: ۱۰، ۹ / ۲۵۶، ملتقطاً)
{اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ: تم تو صرف اسے ڈراتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے ڈر سنانے اور خوف دلانے سے وہی نفع اٹھاتا ہے جو قرآنِ مجید کی پیروی کرے اور اس میں دئیے گئے احکامات پر عمل کرے اور اللہ تعالیٰ کے غیبی عذاب سے پوشیدہ اور علانیہ ہر حال میں ڈرے اور جس کا یہ حال ہے تو آپ اسے گناہوں کی بخشش اور عزت کے ثواب جنت کی بشارت دے دیں ۔ (خازن، یس، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۳)
{اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى: بیشک ہم مُردوں کو زندہ کریں گے۔} اس سے پہلی آیات میں دین کے ایک بنیادی اصول یعنی رسالت کا ذکر ہوا اور اب یہاں سے ایک اور بنیادی اصول یعنی قیامت کا ذکر کیا جا رہا ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک قیامت کے دن ہم اپنی کامل قدرت سے مُردوں کو زندہ کریں گے نیزدنیا کی زندگی میں انہوں نے جو نیک اور برے اعمال کئے وہ ہم لکھ رہے ہیں تاکہ ان کے مطابق انہیں جز ادی جائے اور ہم ان کی وہ نشانیاں اوروہ طریقے بھی لکھ رہے ہیں جو وہ اپنے بعد چھوڑ گئے خواہ وہ طریقے نیک ہوں یا برے ، اور ایک ظاہر کردینے والی کتاب لوحِ محفوظ میں ہر چیز ہم نے شمار کررکھی ہے۔(تفسیرکبیر، یس، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۵۷، مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۷۴-۹۷۵، خازن، یس، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۳، ملتقطاً)
{وَ اٰثَارَهُمْ: اور ان کے پیچھے چھوڑے ہوئے نشانات۔} آیت کی تفسیر میں بیان ہوا کہ لوگ جو طریقے اپنے پیچھے چھوڑ گئے وہ لکھے جارہے ہیں ، یہ طریقے اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی،دونوں کا حکم جدا جدا ہے لہٰذا لوگ جو نیک طریقے نکالتے ہیں ان کو بدعت ِحَسَنہ یعنی اچھی بدعت کہتے ہیں اور اس طریقے کو نکالنے والوں اوراس پر عمل کرنے والوں دونوں کو ثواب ملتا ہے اور جو برے طریقے نکالتے ہیں ان کو بدعت ِسَیِّئہ یعنی بری بدعت کہتے ہیں ، اس طریقے کونکالنے والے اور عمل کرنے والے دونوں گناہ گار ہوتے ہیں ۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جس شخص نے اسلام میں نیک طریقہ نکالا اس کو طریقہ نکالنے کا بھی ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی ثواب ملے گااور عمل کرنے والوں کے اپنے ثواب میں کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس نے اسلام میں برا طریقہ نکالا تو اس پر وہ طریقہ نکالنے کا بھی گناہ ہو گااور اس طریقے پر عمل کرنے والوں کا بھی گناہ ہو گا اور ان عمل کرنے والوں کے اپنے گناہ میں کچھ کمی نہ کی جائے گی۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحثّ علی الصدقۃ ولو بشقّ تمرۃ۔۔۔ الخ، ص۵۰۸، الحدیث: ۶۹(۱۰۱۷))
اس سے معلوم ہوا کہ سینکڑوں اچھے کام جیسے شریعت کے مطابق فاتحہ،گیارہویں ،سوئم،چالیسواں ، عرس ، ختم، اور میلاد کی محفلیں وغیرہ جنہیں کم علم لوگ بدعت کہہ کر منع کرتے ہیں اور لوگوں کو ان نیکیوں سے روکتے ہیں ،یہ سب نیک کام درست اور اجر و ثواب کا باعث ہیں اور ان کو بدعتِ سیّئہ یعنی بری بدعت بتانا غلط ہے ۔ یہ طاعات اور نیک اعمال جو ذکر و تلاوت اور صدقہ و خیرات پر مشتمل ہیں بری بدعت نہیں ، کیونکہ بری بدعت وہ برے طریقے ہیں جن سے دین کو نقصان پہنچتا ہے اور جو سنت کے مخالف ہیں ، جیسا کہ حدیث شریف میں آیا کہ جو قوم بدعت نکالتی ہے اس سے بدعت کی مقدار سنت اٹھ جاتی ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث غضیف بن الحارث رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۶ / ۴۰، الحدیث: ۱۶۹۶۷)
تو بری بدعت وہی ہے جس سے سنت اٹھتی ہو جیسا کہ بعض لوگوں نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اوررسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہلِ بیت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے عداوت رکھنے کی بری بدعت نکالی جس کی وجہ سے صحابہ ٔکرام اور اہلِ بیت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ محبت اورنیاز مندی کا طریقہ اٹھ گیا حالانکہ شریعت میں ا س کا تاکیدی حکم ہے ۔کچھ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مقبول بندوں جیسے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی شان میں بے ادبی اورگستاخی کرنے اور تمام مسلمانوں کو مشرک قرار دینے کی بد ترین بدعت نکالی ، اس سے بزرگانِ دین کی حرمت ، عزت ، ادب و تکریم اور مسلمانوں کے ساتھ اَخُوَّت اور محبت کی سنتیں اٹھ جاتی ہیں حالانکہ ان کی بہت شدید تاکید یں ہیں اور یہ دین میں بہت ضروری چیز یں ہیں ۔( خزائن العرفان، یس، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۸۱۵، ملخصاً)
مرنے کے بعد باقی رہ جانے والے اچھے اور برے اعمال کی مثالیں :
آیت کی تفسیر میں بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ انسان کی وہ نشانیاں اوروہ طریقے بھی لکھ رہاہے جو وہ اپنے بعد چھوڑ گیاخواہ وہ طریقے نیک ہوں یا برے،اس مناسبت سے یہاں ہم انسان کے ان اچھے اور برے اعمال کی پانچ پانچ عام مثالیں دیتے ہیں جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتے ہیں اور یہ لوگوں کے مشاہدے میں بھی ہیں ،چنانچہ اچھے اعمال کی پانچ مثالیں یہ ہیں :
(1)… کوئی شخص دین کا علم پڑھاتا ہے ،پھر ا س کے شاگرد اپنے استاد کی وفات کے بعد بھی ا س علم کی اشاعت کرتے رہتے ہیں ۔
(2)… کوئی شخص دینی مدرسہ بنا دیتا ہے جس میں طلباء علمِ دین پڑھتے ہیں اور بانی کی وفات کے بعد بھی طلباء دین کا علم حاصل کرتے رہتے ہیں ۔
(3)…کوئی انسان کسی دینی موضوع پر کتاب تصنیف کرتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد بھی اس کتاب کی اشاعت ہوتی رہتی ہے ۔
(4)…کوئی شخص مسجد بنادیتا ہے جس میں لوگ نماز پڑھتے ہیں اور یہ سلسلہ اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔
(5)…کوئی شخص کنواں کھدوا کر یا بورنگ کروا کر لوگوں کے لئے پانی کا انتظام کر دیتا ہے اور لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی پانی حاصل کرتے رہتے ہیں ۔
برے اعمال کی5 مثالیں یہ ہیں ،
(1)… کوئی شخص فلم اسٹوڈیو،سینما گھر،ویڈیو شاپ یا میوزک ہاؤس بنا تا ہے جس میں اس کے مرنے کے بعد بھی فلمیں بنانے ،دکھانے،بیچنے ، میوزک تیار کرنے اور سننے سنانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔
(2)…کوئی شراب خانہ یا قحبہ خانہ بناتا ہے اور عورتوں کو بدکاری کے لئے تیار کرتا ہے جہاں لوگ شرابیں پیتے اور بدکاری کرتے ہیں ،پھر ا س کے مرنے کے بعد بھی وہ شراب اور بدکاری کے اڈے قائم رہتے ہیں ، ان میں لوگ شرابیں پیتے رہتے اور بدکاری ہوتی رہتی ہے اور اس کی تیار کردہ عورتیں بدکاری کرواتی رہتی ہیں ۔
(3)…انٹر نیٹ پر فحش ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پر فحاشی ، عُریانی اور بے حیائی کی اشاعت کے لئے پیج بناتا ہے،پھر اس کے مرنے کے بعد بھی لوگ انہیں دیکھتے رہتے اور گناہ میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں ۔
(4)… کوئی انسان جُوا خانہ بنا کر مر جاتا ہے جس میں اس کے مرنے کے بعد بھی جوئے اور سٹے بازی چلتی رہتی ہے۔
(5)… کوئی شخص ایسے قوانین بناتا ہے جو ظلم اور نا انصافی پر مشتمل ہوں اور لوگوں کے درمیان شر اور فساد کی بنیادیں کھڑی کرتا ہے،پھر اس کے مرنے کے بعد بھی ان قوانین پر عمل ہوتا رہتا ہے اور لوگوں میں شر وفساد جاری رہتا ہے ۔
ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس حدیث پاک کو ایک بار پھر پڑھیں ،چنانچہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جس شخص نے اسلام میں نیک طریقہ نکالا اس کو طریقہ نکالنے کا بھی ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی ثواب ملے گااور عمل کرنے والوں کے اپنے ثواب میں کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس نے اسلام میں برا طریقہ نکالا تو اس پر وہ طریقہ نکالنے کا بھی گناہ ہو گااور اس طریقے پر عمل کرنے والوں کا بھی گناہ ہو گا اور ان عمل کرنے والوں کے اپنے گناہ میں کچھ کمی نہ کی جائے گی۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحثّ علی الصدقۃ ولو بشقّ تمرۃ۔۔۔ الخ، ص۵۰۸، الحدیث: ۶۹(۱۰۱۷))
اس میں جاری رہنے والے نیک اعمال کرنے والوں کے لئے تو ثواب کی بشارت ہے اور ان لوگوں کے لئے وعید ہے جو جاری رہنے والے گناہوں کا سلسلہ شروع کئے ہوئے ہیں ،یہ اپنے انجام پر خود ہی غور کر لیں کہ جب اپنے گناہوں کے ساتھ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ ان کے کندھے پر بھی ہو گا اور اپنے گناہوں کے عذاب کے ساتھ ساتھ دوسروں کے گناہ کا عذاب بھی پائیں گے تو ان کا کیا حال ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور گناہِ جاریہ کے جاری سلسلے ختم کر کے سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
اس آیت کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ آثار سے مراد وہ قدم ہیں جو نمازی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے مسجد کی طرف چلنے میں رکھتا ہے اور اس معنی پر آیت کا شانِ نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ بنی سلمہ مدینہ طیبہ کے کنارے پر رہتے تھے، انہوں نے چاہا کہ مسجد شریف کے قریب رہائش اختیار کر لیں ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی اورتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے قدم لکھے جاتے ہیں ،اس لئے تم مکان تبدیل نہ کرو،یعنی جتنی دور سے آؤ گے اتنے ہی قدم زیادہ پڑیں گے اور اجر و ثواب زیادہ ہو گا۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ یس، ۵ / ۱۵۴، الحدیث: ۳۲۳۷)
با جماعت نماز پڑھنے کے لئے دور سے آنے والوں کی فضیلت اور صحابہ ٔکرام کا جذبہ:
اس سے معلوم ہو اکہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے جو بندہ مسجد کی طرف چل کرجاتا ہے اسے ہر قدم پر ثواب دیا جاتا ہے اور جو زیادہ دور سے چل کر آئے گا اس کا ثواب بھی زیادہ ہو گا،ترغیب کے لئے یہاں اس سے متعلق مزید 3 اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب آدمی اچھی طرح وضو کرے ،پھر مسجد کی طرف نکلے اور اسے (گھر وغیرہ سے مسجد کی طرف جانے کے لئے) نماز نے نکالا ہو تو جو قدم بھی وہ رکھتا ہے ا س کے بدلے ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے اور ایک گناہ معاف کر دیا جاتا ہے۔(بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، ۱ / ۲۳۳، الحدیث: ۶۴۷)
(2)…حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگوں میں سب سے زیادہ نماز کا اجر اس شخص کو ملتا ہے جو سب سے زیادہ دور سے نماز پڑھنے آئے،اس کے بعد اسے اجر ملتا ہے جواس کے بعد دور سے آنے والا ہو۔( مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل کثرۃ الخطا الی المساجد، ص۳۳۴، الحدیث: ۲۷۷(۲۶۲))
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص مسجد سے جتنا زیادہ دور ہے اسے (جماعت میں شامل ہونے کے باعث) اتنا ہی زیادہ ثواب ملتا ہے۔(ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی فضل المشی الی الصلاۃ، ۱ / ۲۳۱، الحدیث: ۵۵۶)
یہاں باجماعت نماز پڑھنے کے لئے دور سے چل کر آنے میں صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے جذبے کی ایک جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ
حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس کا گھر مسجد ِنَبوی سے سب سے زیادہ دور تھا اور ا س کی نماز کبھی قضانہیں ہوتی تھی،میں نے اسے مشورہ دیا کہ دراز گوش خرید لو جس پر سوار ہو کر دھوپ اور اندھیرے میں آسانی سے (مسجد تک) آ سکو۔اس نے کہا:اگر میرا گھر مسجد ِنَبوی کے پہلو میں ہوتا تو یہ میرے لئے کوئی خوشی کی بات نہ تھی ،میری نیت یہ ہے کہ میرے لئے گھر سے مسجد تک آنے اور مسجد سے اپنے اہلِ خانہ کی طرف لوٹنے کا ثواب لکھا جائے۔ (جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کی یہ بات معلوم ہوئی تو) حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (اس سے) ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے یہ تمام (ثواب) تمہارے لئے جمع کر دیا۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل کثرۃ الخطا الی المساجد، ص۳۳۴، الحدیث: ۲۷۸(۲۶۳))
اس سے معلوم ہو اکہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی نیتیں مبارک اورجذبات مقدس ہوتے اور وہ نیکیاں جمع کرنے کے انتہائی حریص ہو اکرتے تھے اورچونکہ نماز کے لئے آنے اور جانے میں ہر قدم پر نیکی ملتی ہے، اس لئے وہ زیادہ نیکیاں جمع کرنے کے لئے مسجد سے دور بسنے کا ارادہ کرتے اور پھر بر وقت جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا پورا اہتمام بھی کرتے تھے ۔ افسوس! فی زمانہ لوگوں کا حال اور اندازِ فکر ہی بدل چکا ہے کہ گھر قریب ہونے کے باجود جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں آنا ان کے لئے تکلیف دِہ ہے ،مسجد سے دور گھر ا س لئے لیتے ہیں تا کہ شرعی طور پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ان پر واجب نہ رہے اور بسا اوقات ان کا حال یہ ہو جاتا ہے کہ جماعت تو رہی ایک طرف نمازبھی ضائع کرنے لگ جاتے ہیں ،یہ تو عوام کا حال ہے اور ان سے زیادہ افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ جماعت کا باقاعدہ اہتمام ان حضرات کے ہاں بھی مفقود ہوتا جا رہا ہے جو اپنے آپ کو دین کا ستون سمجھے بیٹھے ہیں ،البتہ جو شرعاً معذورہیں ان پر کوئی حکم نہیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچی ہدایت اور نیکیاں جمع کرنے کی حرص نصیب فرمائے،اٰمین۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :اگر اللہ تعالیٰ انسان کے نشانِ قدم میں سے کچھ چھوڑتا تو اسے چھوڑ دیتا جسے ہوائیں مٹا دیتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ انسان کے اس نشانِ قدم اور ا س کے ہر عمل کا شمار رکھتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس نشانِ قدم کو بھی شمار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اٹھا اور اسے بھی جو مَعْصِیَت میں چلا، تواے لوگو! تم میں سے جو ا س چیز کی طاقت رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اس کے قد م لکھے جائیں تو وہ ایسا کرے۔(در منثور، یس، تحت الآیۃ: ۱۳، ۷ / ۴۷)
مسلمان کی عیادت اور ملاقات کیلئے جانے کے فضائل:
اس سے معلوم ہوا کہ بندہ جس نیک کام کے لئے بھی قدم اٹھاتا ہے اس کا وہ قدم شمار کیا جاتا ہے اور اسے ان قدموں کے حساب سے ثواب دیا جائے گا،اسی مناسبت سے یہاں بطورِ خاص مریض کی عیادت کے لئے جانے اور کسی مسلمان سے ملاقات کیلئے جانے کے فضائل ملاحظہ ہوں کہ یہ قدم بھی اطاعت ِ الٰہی میں شمار کئے جاتے ہیں ۔
(1)… حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہ (اس کے پاس سے) لوٹ آنے تک جنت کے باغ میں رہتا ہے۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب فضل عیادۃ المریض، ص۱۳۸۹، الحدیث: ۴۱(۲۵۶۸))
(2)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ جو مسلمان صبح کے وقت کسی مسلمان کی عیادت کرے توستر ہزار فرشتے اسے شام تک دعائیں دیتے ہیں اورجو شام کے وقت عیادت کرے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اسے دعائیں دیتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں باغ ہوگا۔(ترمذی، کتاب الجنائز عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی عیادۃ المریض، ۲ / ۲۹۰، الحدیث: ۹۷۱)
(3)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی مریض کی عیادت کرتاہے یا اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے کسی مسلمان بھائی سے ملنے جاتاہے تو ایک مُنادی اسے مُخاطَب کرکے کہتاہے :خوش ہو جا کیونکہ تیرا یہ چلنا مبارک ہے اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے۔( ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی زیارۃ الاخوان، ۳ / ۴۰۵، الحدیث: ۲۰۱۵)
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک شخص کسی شہر میں اپنے کسی بھائی سے ملنے گیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ اس کے راستے میں بھیجا ،جب وہ فرشتہ اس کے پاس پہنچا تو اس سے پوچھا:کہاں کا ارادہ ہے؟اس نے کہا:اس شہرمیں میرا ایک بھائی رہتاہے اس سے ملنے جا رہا ہوں ۔اس فرشتے نے پوچھا:کیا اس کا تجھ پر کوئی احسان ہے جسے اتارنے جارہاہے؟ اس شخص نے کہا:نہیں !بلکہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے اس سے محبت کرتاہوں ۔فرشتے نے کہا:مجھے اللہ تعالیٰ نے تیرے پاس بھیجا ہے تاکہ تجھے بتادوں کہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے اسی طرح محبت فرماتا ہے جس طرح تو اس کے لئے دوسروں سے محبت کرتا ہے۔( مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب فی فضل الحبّ فی اللّٰہ، ص۱۳۸۸، الحدیث: ۳۸(۲۵۶۷))
اللہ تعالیٰ ہمیں مسلمان مریضوں کی عیادت کے لئے جانے اور اپنی رضا کے لئے مسلمان بھائیوں سے ملنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَةِ: اور ان سے شہر والوں کی مثال بیان کرو۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم ارشاد فرمایاکہ وہ کفارِ مکہ کے سامنے شہر والوں کا واقعہ بیان کر کے انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں تاکہ جس وجہ سے اس شہر کے کافروں پر عذاب نازل ہوااس سے یہ لوگ بچیں ۔
شہر والوں کے واقعے کا خلاصہ:
اس آیت میں شہر والوں کا جو واقعہ بیان کرنے کا فرمایاگیااس کے کچھ حصے اگلی16آیات میں بھی بیان ہوئے ہیں ،اس کے حوالے سے یہ بات یاد رہے کہ یہاں جس شہر اور جن رسولوں کا تذکرہ ہے ان کے بارے میں مفسرین کے متعدد اَقوال ہیں اور ان میں بہت سے اختلافات ہیں اوران اختلافات کی اکثر صورتوں پر کئی اِشکالات ہیں ، اس لئے ہم ان آیات کی تفسیر میں اس واقعے کے صرف اتنے حصے کو بیان کریں گے جو قرآنِ مجید کی آیات و روایات سے زیادہ واضح طور پر سامنے آرہا ہے اور وہ بطورِخلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو رسولوں کو ایک شہر والوں کی طرف مبعوث فرمایا جنہوں نے ان شہر والوں کوتوحید و رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی لیکن ان کی دعوت سن کر شہر والوں نے انہیں جھٹلایا،اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک تیسرے رسول کو پہلے دونوں کی مدد کیلئے بھیجا۔اب ان تینوں رسولوں نے قوم سے اِرشاد فرمایا کہ ہم تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ، لیکن قوم نے اِس بات کو تسلیم کرنے کی بجائے وہی اعتراض کیا جو اکثر و بیشتر امتوں نے اپنے رسولوں پر کیا تھا اور وہ اعتراض یہ تھا کہ تم تو ہمارے جیسے انسان ہو، لہٰذا تم کیسے خدا کے رسول ہوسکتے ہو؟ یعنی اُن کافروں کے اعتقاد کے مطابق رسول انسانوں میں سے نہیں بلکہ فرشتوں میں سے ہونا چاہیے تھا اور یہ چونکہ انسان تھے اس لئے ان کے نزدیک رسول نہیں ہو سکتے تھے ۔ اس کے ساتھ کافروں نے یہ بھی کہا کہ خدائے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا یعنی وحی کے نزول کا دعویٰ غلط ہے اور تم جھوٹے ہو جو ہمارے سامنے رسالت کا دعویٰ کررہے ہو۔ اُن رسولوں نے سخت الفاظ کا جواب سختی کے ساتھ دینے کی بجائے بڑے خوبصورت انداز میں جواب دیا کہ ہمارا رب جانتا ہے کہ یقینا ہم خدا کے رسول ہیں اور مزید یہ بھی جان لو ہماری صرف یہ ذمہ داری ہے کہ تم تک خدا کا پیغام واضح طور پر پہنچادیں ۔ اس کے جواب میں قوم نے کہا کہ ہم تمہیں منحوس سمجھتے ہیں ، لہٰذا تم اپنی اس تبلیغ سے باز آجاؤ ورنہ ہم تمہیں سخت سزا دیں گے اور تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کردیں گے۔اُن رسولوں نے جواب دیا کہ ہمیں منحوس قرار نہ دو کیونکہ تمہاری نحوست تمہارے کفر و ضلالت کی صورت میں تمہارے ساتھ موجود ہے۔ کیا تم لوگ ہمیں اس لئے پتھر مارو گے کہ ہم نے تمہیں صحیح بات سمجھانے کی کوشش کی ہے،اگر یہ بات ہے تو تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔
جب یہ مکالمہ جاری تھا اور قوم اُن رسولوں کو شہید کرنے ، ایذاء پہنچانے اور ان کے پیغام کو نہ ماننے پر تُلی ہوئی تھی ، اسی دوران یہ بات ایک مردِ مومن تک پہنچی جوپہلے سے ہی مومن تھا یا اِن رسولوں سے ملاقات کے بعد مسلمان ہوا تھا اوروہ شہرکے کنارے پر رہتا تھا،وہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی تائید اوراپنی قوم کو سمجھانے کیلئے بھاگا ہوا آیااور ان سے کہنے لگا کہ اِن رسولوں کی پیروی کرو، اِن کے حقّانِیّت پرہونے کی یہ بڑی واضح دلیل ہے کہ اِن کا اِس پیغام پہنچانے میں کوئی دُنْیَوی مفاد نہیں ، یہ تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے، نیز یہ ہدایت یافتہ ہیں کہ ان کی باتیں معقول اور سمجھ میں آنے والی ہیں ۔ نیز اے میری قوم ! میں بھی مسلمان ہوں اور خالقِ کائنات کی عبادت کرنے والا ہوں اور مجھے کیا ہے کہ میں اس خدا کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا، کیا میں اُس کے علاوہ ایسے بتوں کو معبود بناؤں جن کی سفارش مجھے کوئی نفع نہیں دے سکتی اور نہ وہ مجھے اس وقت بچا سکتے ہیں جب خدا مجھے نقصان پہنچانا چاہے۔ اگر اِس کے باوجود میں خدا کے علاوہ کسی کی عبادت کروں تو پھر میں کھلی گمراہی میں ہوں گا، پس میں تو اپنے رب پر ایمان لایا تو تم میری بات سنو اور اس بات پر غور کرکے ایمان لاؤ۔ مرد ِ مومن کی اِن باتوں کو سننے کے باوجود لوگ ایمان نہ لائے بلکہ اُسے بھی تنگ کرنے کے درپے ہوگئے پھر یاتو وہ خیر خواہ مردِ مومن فوت ہوگئے یا قوم نے انہیں شہید کردیا اور بعد ِوفات فرشتوں کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے اُسے جنت کی بشارت سنائی ۔ جنت کی خوشخبری سن کر بھی اُس مردِ ناصح نے اپنی قوم کا غم کیا اور یہ تمنا کی: ـ کاش میری قوم کو معلوم ہوجائے کہ میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے مجھے بخش دیا اور میری عزت افزائی فرمائی ہے۔ آخر کارقوم کے تکذیب کرنے اور ایمان نہ لانے پر اُن پر خدائی عذاب آیا جو ایک چیخ کی صورت میں تھا جس کے نتیجے میں وہ ایسے ہلاک ہوگئے جیسے بجھی ہوئی راکھ ہوتی ہے۔ (ابن کثیر،یس،تحت الآیۃ:۱۳-۱۴،۶ / ۵۰۴-۵۰۵، روح البیان، یس، تحت الآیۃ:۱۴-۱۵،۷ / ۳۷۸-۳۸۰، ابو سعود، یس، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ۴ / ۳۸۰، خازن، یس ، تحت الآیۃ :۱۸-۲۹ ، ۴ / ۵-۶ ، روح المعانی، یس، تحت الآیۃ:۲۰-۲۹، ۱۱ / ۵۴۳-۵۴۹،۱۲ / ۵-۶، جلالین، یس، تحت الآیۃ:۲۰-۲۹،ص۳۶۹)
رسولوں اور مردِ مومن کے واقعے سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس واقعے سے 6باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)…اللہ تعالیٰ اپنے مُقَرّب بندوں کی دوسرے مقرب بندوں کے ذریعے مدد فرماتا اور انہیں تَقْوِیَت پہنچاتا ہے۔
(2)…دین کی دعوت دینے کے دوران سننے والے کی طرف سے جاہلانہ سلوک ہو تو ا س پر صبر کرنا، عَفْوْ درگُزر سے کام لینا اور حِلم وبُردباری کا مظاہرہ کرنا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔
(3)…انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے جیسا بشر کہنا ہمیشہ سے کفار کا طریقہ رہا ہے ۔
(4)…اللہ تعالیٰ کے نیک اور مُقَرّب بندوں کو منحوس سمجھنا اور انہیں تکلیف پہنچانے کی دھمکیاں دیناکافروں کا طریقہ ہے۔
(5)… اصل نحوست کفر اور گناہ کی صورت میں ہوتی ہے۔
(6)…اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اپنی زندگی میں اور وفات کے بعد بھی مخلوق کی خیر خواہی کرتے ہیں ۔
اَشیاء کو منحوس سمجھنے میں لوگوں کی عادت:
لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جس چیز کی طرف ان کے دل مائل ہوں اور ان کی طبیعت اسے قبول کرے تو وہ ا س چیز کو اپنے حق میں بابرکت سمجھتے ہیں اور جس چیز سے نفرت کرتے اور اسے ناپسند کرتے ہوں تو اس چیز کو اپنے حق میں منحوس سمجھتے ہیں ،اسی لئے اگر انہیں کوئی مصیبت پہنچ جائے تو کہتے ہیں کہ یہ فلا ں کی نحوست ہے اور ا س کی وجہ سے ہمارا یہ نقصان ہو گیا ،آپس میں لڑائی جھگڑا شروع ہو گیا ، رشتہ ٹوٹ گیا، اگرچہ اِن سب کی حقیقی وجہ کچھ اور ہو۔یاد رہے کہ شرعی طور پر نہ کوئی شخص منحوس ہے،نہ کوئی جگہ،وقت یا چیز منحوس ہے ،اسلام میں اس کا کوئی تَصَوُّر نہیں اور یہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں ۔ یہاں اسی سے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ہونے والا ایک سوال اور اس کا جواب ملاحظہ ہو تاکہ ان وہمی خیالات سے بچنے کا ذہن بنے اور انہیں دور کرنے کے اِقدامات کریں ۔
سوال:ایک شخص نجابت خاں جاہل اور بدعقیدہ ہے اور سود خوار بھی ہے ،نماز روزہ خیرات وغیرہ کرنا بے کارِ محض سمجھتا ہے، اس شخص کی نسبت عام طور پر جملہ مسلمانان واہلِ ہنود میں یہ بات مشہور ہے کہ اگر صبح کو اس کی منحوس صورت دیکھ لی جائے یا کہیں کام کو جاتے ہوئے یہ سامنے آجائے تو ضرور کچھ نہ کچھ دقت اور پریشانی اٹھانی پڑے گی اور چاہے کیسا ہی یقینی طور پر کام ہوجانے کا وُثوق ہو لیکن ان کا خیال ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور رکاوٹ اور پریشانی ہوگی، چنانچہ اُن لوگوں کو ان کے خیال کے مناسب برابر تجربہ ہوتا رہتا ہے اور وہ لوگ برابر اس امر کا خیال رکھتے ہیں کہ اگر کہیں جاتے ہوئے سامنے پڑگیا تو اپنے مکان کو واپس جاتے ہیں اور چندے (یعنی کچھ دیر) تَوَقُّف کرکے (اور) یہ معلوم کرکے کہ وہ منحوس سامنے تو نہیں ہے، جاتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ اور طرزِ عمل کیسا ہے؟ (اس میں ) کوئی قباحت ِشرعیہ تو نہیں ؟
جواب: شرعِ مُطَہَّر میں اس کی کچھ اصل نہیں ، لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے۔شریعت میں حکم ہے: ’’اِذَا تَطَیَّرْتُمْ فَامْضُوْا‘‘ جب کوئی شگونِ بد، گمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو۔وہ طریقہ محض ہندوانہ ہے،مسلمان کو ایسی جگہ چاہیے کہ ’’اَللّٰھُمَّ لَا طَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ وَ لَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ وَ لَا اِلٰـہَ غَیْرُکَ‘‘ (ترجمہ: اے اللہ! نہیں ہے کوئی برائی مگر تیری طرف سے اور نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔) پڑھ لے ، اور اپنے رب پر بھروسا کرکے اپنے کام کو چلا جائے ، ہر گز نہ رکے نہ واپس آئے۔ (فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۶۴۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں کسی چیز کو منحوس سمجھنے اور اس سے بد شگونی لینے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔([1])
[1]۔۔۔ بد شگونی سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’بد شگونی‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ مَا لِیَ: اور مجھے کیا ہے۔} جب مردِ مومن نے قوم سے رسولوں کی پیروی کرنے کا کہا تو قوم نے ان سے کہا:کیا تم ہمارے دین کے مخالف،ان لوگوں کی پیروی کرنے لگے ہو اور ان کے خدا پر ایمان لے آئے ہو ؟اس کے جواب میں اُس مومن نے کہا کہ اس حقیقی مالک کی عبادت نہ کرنے کا کیا مطلب جس نے مجھے پیدا کیا اور جس کی طرف لوٹ کر سب کوجانا ہے ۔ ہر شخص اپنے وجود پر نظر کر کے اس کی نعمت اور احسان کے حق کو پہچان سکتا ہے ۔( خازن، یس، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۶، روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۲۲، ۷ / ۳۸۵، خزائن العرفان، یس، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۸۱۸، ملتقطاً)
مُبَلِّغ کے لئے نصیحت :
اس آیت سے معلوم ہو اکہ کسی کو وعظ و نصیحت کرتے وقت ایسا انداز اختیار نہیں کرنا چاہئے جس سے وہ غورو فکر کرنے کی بجائے نصیحت کرنے والے کی مخالفت پر اتر آئے ،جیسے یہاں اُس خیر خواہ مومن نے قوم کو یہ نہیں کہا کہ تم گمراہ اور خطا کار ہو،تمہاری سوچ غلط اور عقیدے میں خطا ہے بلکہ یوں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کیا ہے اور یہ اس کے حقیقی معبود اور عبادت کا مستحق ہونے کی ایک دلیل ہے ،تو اگر میں ا س کی وحدانیّت کا اقرار نہ کروں اور صرف اسی کی عبادت نہ کروں تو یہ میری ناشکری،احسان فراموشی اور میری خطا ہے،یوں اس لئے کہا تاکہ قوم اس بات پر غور کرے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی وحدانیّتکا اقرار کرنا اور صرف اسی کو عبادت کا مستحق ماننا غلط طریقہ ہوتا تو یہ شخص اپنے لئے اسے اختیار نہ کرتا کیونکہ انسان اپنے لئے ہمیشہ صحیح چیز کو ہی اختیار کرتا ہے،اس کے بعد انتہائی لطیف طریقے سے قوم کو اس کی گمراہی پر تنبیہ کی کہ مرنے کے بعد جب تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو اس وقت تمہیں اللہ تعالیٰ ہی کی بارگاہ میں لوٹایا جائے گا اور تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا اور جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ویسی تمہیں جز ا ملے گی ، ا س لئے دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ تم اِن رسولوں کی اتباع کرو اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کر کے صرف اسی کی عبادت کرو۔
{ءَاَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً: کیا میں اللہ کے سوا اورمعبود بنالوں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مرد ِ مومن نے مزید یہ کہا:کیا میں اپنے خالق اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان بتوں کو اپنا معبود بنا لوں جن کی بے بسی کا حال یہ ہے کہ اگر رحمٰن عَزَّوَجَلَّ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو یہ بت مجھے کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے کیونکہ انہیں سفارش کرنے کی اہلیت اور ا س کا حق حاصل ہی نہیں اور نہ ہی وہ خود اپنی قدرت اور طاقت کے ذریعے مجھے اس نقصان سے بچا سکیں گے اور بتوں کا عاجز اور بے بس ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ بت عبادت کے مستحق ہر گز نہیں ہیں اور اگر میں اللہ تعالیٰ کی بجائے بتوں کو اپنا معبود بنا لوں جب تو بیشک میں کھلی گمراہی میں ہو ں گا کیونکہ عاجز اور بے بس بتوں کو اس خالق کے ساتھ شریک کرنا جس کے علاوہ کسی اور کو حقیقی قدرت حاصل نہیں ،ایسی گمراہی ہے جو کہ کسی بھی عقل مند سے پوشیدہ نہیں ۔( روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۴، ۷ / ۳۸۵، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹے معبودبت وغیرہ کسی کی شفاعت نہ کر سکیں گے اور اس سے پتہ لگا کہ اللہ تعالیٰ کے وہ محبوب بندے جن کو شفاعت کا اِذن مل چکا ہے وہ ضرور شفاعت کریں گے۔
{اِنِّیْۤ اٰمَنْتُ بِرَبِّكُمْ: بیشک میں تمہارے رب(اللہ) پر ایمان لایا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جب اُس مُبَلِّغ مومن نے اپنی قوم سے ایسا نصیحت آمیز کلام کیا تو وہ لوگ ان پر یکبارگی ٹوٹ پڑے ، ان پر پتھراؤ شروع کیا اور پاؤں سے کچلا، جب قوم نے ان پر حملہ شروع کیا تو انہوں نے جلدی سے رسولوں کی خدمت میں عرض کیا : بیشک میں آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لایا تو آپ میرے ایمان کے گواہ ہوجائیں ۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ اُس مُبَلِّغ نے اپنی قوم کو مُخاطَب کرتے ہوئے کہا کہ بے شک میں تمہارے اس رب پر ایمان لے آیا ہوں جس کا تم انکار کرتے ہو (کیونکہ وہی میرا، تمہارا اور ساری کائنات کا حقیقی رب ہے) توتم اِن رسولوں کی پیروی کرنے سے متعلق میری بات غور سے سنو اور میری بات مان لو، میں نے تمہیں حق پر مُتنَبّہ کر دیا ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ عبادت کا حق دار وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے ۔قوم نے ان کی نصیحت پر عمل کرنے کی بجائے انہیں شہید کر دیا۔
{قِیْلَ: (اس سے) فرمایا گیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب لوگوں نے اُس مخلص مُبَلِّغ کو شہید کر دیا تو عزت و اِکرام کے طور پر مُبَلِّغ سے فرمایا گیا: توجنت میں داخل ہوجا۔جب وہ جنت میں داخل ہوئے اور وہاں کی نعمتیں دیکھیں تو انہوں نے یہ تمنا کی کہ ان کی قوم کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا ہے اور میری بہت عزت افزائی فرمائی ہے۔
دشمنوں پر رحم کرنا اور ان کی خیر خواہی کرنا بزرگانِ دین کا طریقہ ہے :
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اُس مخلص مومن اور خیر خواہ مُبَلِّغ نے زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اپنی قوم کا بھلا چاہا اور ان کے ایمان لانے کی تمنا کی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کا طریقہ یہ ہے کہ وہ غصہ پی جاتے ہیں اور اپنے دشمنوں پر بھی رحم فرماتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن اور خصوصاً مُبَلِّغ کی شان کے لائق یہ ہے کہ وہ لوگوں کی دشمنی اور مخالفت کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ ہر حال میں ان کا خیر خواہ رہے اور ان کی اصلاح کی دعا کرتا رہے۔ اسی مناسبت سے یہاں دشمنوں پر رحم اور ان کی خیر خواہی کرنے سے متعلق تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت سے 3واقعات اور خود کو تکلیف پہنچانے والوں کی خیرخواہی کرنے سے متعلق دیگر بزرگانِ دین کے دوواقعات ملاحظہ ہوں ،
(1)… ایک مرتبہ امُّ المومنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے حضورِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا جنگ ِاُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ پر گزرا ہے؟ ارشاد فرمایا’’ ہاں ، اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، وہ دن میرے لئے جنگ ِاُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت تھا جب میں نے طائف میں وہاں کے ایک سردار ’’ابنِ عبد یالیل بن عبد کلال‘‘ کو اسلام کی دعوت دی۔ اس نے دعوتِ اسلام کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا (اور اہلِ طائف نے مجھ پر پتھراؤ کیا) میں اس رنج و غم میں سرجھکائے چلتا رہایہاں تک کہ مقام ’’قَرنُ الثّعالب‘‘ میں پہنچ کر میرے ہوش و حواس بجا ہوئے ۔وہاں پہنچ کر جب میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بدلی مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے، اس بادل میں سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے مجھے آواز دی اور کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا قول اور ان کا جواب سن لیا اور اب آپ کی خدمت میں پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہے ۔ تاکہ وہ آپ کے حکم کی تعمیل کرے۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بیان ہے کہ پہاڑوں کا فرشتہ مجھے سلام کرکے عرض کرنے لگا : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا قول اور انہوں نے آپ کو جو جواب دیا ہے وہ سب کچھ سن لیا ہے اور مجھ کو آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تا کہ آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں اور میں آپ کا حکم بجا لاؤں ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں’’اَخْشَبَیْن‘‘ (ابو قُبَیس اورقُعَیْقِعان نام کے) دونوں پہاڑوں کو ان کفار پر اُلٹ دوں تو میں اُلٹ دیتاہوں ۔ یہ سن کر حضور رحمت ِعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواب دیا: (نہیں ) بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اپنے ایسے بندوں کو پیدا فرمائے گا جو صرف اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کریں گے اور شرک نہیں کریں گے۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب اذا قال احدکم: آمین والملائکۃ فی السمائ۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۸۶، الحدیث: ۳۲۳۱)
(2)…حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جس وقت نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مُقَدّس دانت شہید ہوئے ،آپ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور خود آپ کے سر مبارک پر ٹوٹ گیا اس وقت میں وہاں حاضر تھااور میں انہیں بھی جانتا ہوں جنہوں نے آپ کے چہرے سے خون دھویا اور جنہوں نے چہرے پر پانی ڈالا اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ کے زخم پر کیا چیز ڈالی گئی جس سے خون رک گیا۔ اللہ تعالیٰ کے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شہزادی حضرت فاطمہ زہرا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا چہرے سے خون دھو رہی تھیں اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ان کے پاس اپنی ڈھال میں پانی بھر بھر کر لا رہے تھے،جب حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے اپنے والد گرامی کے چہرے سے خون دھو لیا تو کھجور کی چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ زخم پر رکھ دی یہاں تک کہ خون بہنا رک گیا، پھر اس وقت سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا غضب شدید ہوا جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرے کو زخمی کیا ،پھر کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد دعا فرمائی : اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ مجھے نہیں جانتے ۔( معجم الکبیر، زہرۃ بن عمرو بن معبد التیمی عن ابی حزام، ۶ / ۱۶۲، الحدیث: ۵۸۶۲)
(3)… حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : (غزوہِ طائف کے دوران کچھ) لوگوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ثقیف کے تیروں نے ہمیں جلا ڈالا ہے ،آپ ان کے خلاف دعا فرما دیں تو رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (ان کے خلاف دعا کرنے کی بجائے ان کے حق میں یہ) دعا فرمائی: اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ثقیف کو ہدایت دیدے۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب فی ثقیف وبنی حنیفۃ، ۵ / ۴۹۲، الحدیث: ۳۹۶۸)
(4)… حضرت ابراہیم بن ادھم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک دن کسی صحرا کی طرف تشریف لے گئے تو وہاں آپ کو ایک سپاہی ملا، اس نے کہا :تم غلام ہو؟ آپ نے فرمایا :ہاں ۔ اس نے کہا: بستی کدھر ہے؟ آپ نے قبرستان کی طرف اشارہ فرما دیا۔ سپاہی نے کہا میں آبادی کے بارے میں پوچھ رہا ہوں ۔ آپ نے فرمایا: وہ تو قبرستان ہے ، یہ سن کر اسے غصہ آیا اور اس نے ایک ڈنڈا آپ کے سر میں دے مارا اور آپ کو زخمی کرکے شہر کی طرف لے آیا ،آپ کے ساتھی راستے میں ملے تو پوچھا :یہ کیا ہوا؟ سپاہی نے سب کچھ بیان کر دیا کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے۔ لوگوں نے کہا: یہ تو حضرت ابراہیم بن ادھم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ہیں ۔ یہ سن کر سپاہی فوراًگھوڑے سے اترا اور آپ کے ہاتھوں اور پاؤں کو چومنے لگا، پھر آپ سے پوچھا گیا : آپ نے یہ کیوں کہا کہ میں غلام ہوں ؟ فرمایا: اس نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ تو کس کا بندہ ہے بلکہ صرف یہ کہا کہ تو بندہ ہے؟ تو میں نے کہا: ہاں ، کیو نکہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور جب اس نے میرے سر میں مارا تو میں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے جنت کا سوال کیا۔ عرض کی گئی: جب اس نے آپ پر ظلم کیا تو آپ نے اس کے لئے دعا کیوں مانگی؟ فر مایا: مجھے معلوم تھا کہ اس مصیبت پر مجھے (صبر کرنے کا) ثواب ملے گا تو میں نے مناسب نہ سمجھا کہ مجھے تو اچھا اجر ملے اور اُسے عذاب ہو (جو میرے لئے ثواب پانے کا ذریعہ بنا ہے)۔( احیاء علوم الدین، کتاب ریاضۃ النفس۔۔۔ الخ، بیان علامات حسن الخلق، ۳ / ۸۷)
(5)…ایک شخص نے حضرت احنف بن قیس رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو گالی دی تو آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا،وہ گالیاں دیتے ہوئے آپ کے پیچھے چلتا رہا،جب آپ اپنے محلے کے قریب پہنچے تو رک گئے اور فرمایا:اگر تمہارے دل میں کوئی اور بات ہے تو وہ بھی یہیں کہہ دو تاکہ محلے کے ناسمجھ لوگ تمہاری بات سن کر تمہیں اَذِیَّت نہ پہنچائیں ۔( احیاء علوم الدین، کتاب ریاضۃ النفس۔۔۔ الخ، بیان علامات حسن الخلق، ۳ / ۸۸)
اللہ تعالیٰ ان بزرگانِ دین کی پاکیزہ سیرت کا صدقہ ہمیں بھی اپنی مخالفت کرنے اور تکلیف پہنچانے والوں کی خیر خواہی کرنے اور ان کے حق میں دعائے خیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
دشمنی ،ظلم اور مخالفت کرنے والوں سے متعلق اسلام کی حسین تعلیمات:
جن لوگوں کے ساتھ دشمنی اور مخالفت کی جاتی ہے اور جن پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے انہیں دشمنوں ،مخالفوں اور ظالموں کے بارے میں دین ِاسلام نے کیسی عظیم اور حسین تعلیمات دی ہیں اس کی جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ٘-وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ-اِعْدِلُوْا- هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى٘-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘(مائدہ:۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ اور تمہیں کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ تم انصاف نہ کرو (بلکہ) انصاف کرو، یہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ-اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ(۳۴)وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْاۚ-وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ‘‘(حم السجدہ:۳۴،۳۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو تو تمہارے اور جس شخص کے درمیان دشمنی ہوگی تو اس وقت وہ ایسا ہوجائے گا کہ جیسے وہ گہرا دوست ہے۔ اور یہ دولت صبر کرنے والوں کو ہی ملتی ہے اور یہ دولت بڑے نصیب والے کو ہی ملتی ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس میں تین چیزیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اس کا آسان حساب لے گا اور اسے جنت میں داخل فرمائے گا ۔میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ تین چیزیں کون سی ہیں ؟ارشاد فرمایا’’جو تم سے رشتہ توڑے تم اس سے رشتہ جوڑو،جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کر دو۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۲۶۳، الحدیث: ۹۰۹)
اورحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص تم سے تعلق توڑے تم اس کے ساتھ تعلق جوڑو اور جو تم سے برا سلوک کرے تم اس سے اچھا سلوک کرو اور حق بات کہو اگرچہ وہ تمہارے خلاف ہو۔(کنزالعمال،کتاب الاخلاق،قسم الاقوال،صلۃ الرحم والترغیب فیہا۔۔۔الخ،۲ / ۱۴۵،الحدیث: ۶۹۲۶، الجزء الثالث)
دین ِاسلام کی ان عظیم الشّان تعلیمات کو دیکھ کر ہر انصاف پسند آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ جو دین دشمنی، مخالفت اور ظلم کرنے والوں کے بارے ایسی بہترین تعلیم دے رہا ہے اس سے بڑاامن و سلامتی کا داعی دین اور کون ہو سکتا ہے۔
{مِنْۢ بَعْدِهٖ: اس کے بعد۔} جب مذکورہ بالا مومن کو شہید کر دیا گیا اور قوم نے ایمان لانے سے بھی انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ کا اس قوم پر غضب نازل ہوا اور ان کی سزا میں تاخیر نہ فرمائی گئی ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو حکم ہوا اور ان کی ایک ہی ہَولْناک آواز سے سب کے سب مر گئے، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا گیا: اور ہم نے اس کی قوم سے اِنتقام لینے کے لئے ان پر آسمان سے کوئی لشکر نہ اتارااور نہ ہم ا س قوم کی ہلاکت کے لئے وہاں کوئی لشکر اتارنے والے تھے بلکہ ان کی سزاکے لئے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی صرف ایک چیخ ہی کافی تھی جس سے وہ اس طرح فنا ہو گئے جیسے آگ بجھ جاتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان:
اس آیت کے تحت مفسرین نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان سے متعلق بہت ہی پیارا کلام فرمایا ہے ،چنانچہ
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :غزوہِ بدر وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کے لشکر نازل فرماناسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم کے لئے تھا ورنہ کافروں کو تباہ وبرباد کرنے کے لئے ایک فرشتے کا اپنے پر کو ہلا دینا ہی کافی تھا۔(تفسیرکبیر، یس، تحت الآیۃ: ۲۸، ۹ / ۲۶۹)
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (کفار کو ہلاک کرنے کے لئے) صرف ایک فرشتہ ہی کافی ہے،جیسے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے شہر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے پروں میں سے ایک پر سے تباہ و برباد کر دئیے گئے اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ثمود کے علاقے ایک ہی چیخ سے تباہ کر دئیے گئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر، حتّٰی کہ اُلُوالعزم رسولوں پر بھی ہر چیز میں اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فضیلت عطا فرمائی ہے توحبیب (اس مومن کا نام جس کا اوپر ذکر ہوا) پر بدرجہ اَولیٰ فضیلت دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کرامت اور اعزاز کے وہ اَسباب عطا فرمائے ہیں جو کسی اور کو عطا نہیں کئے ،انہی میں سے ایک یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے آسمان سے لشکر اتارے اور یہاں آیت میں ’’ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا‘‘ اور ’’وَ مَا كُنَّا مُنْزِلِیْنَ‘‘ فرما کر گویا کہ اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، فرشتوں کے لشکر نازل کرنا انتہائی عظمت کا حامل ہے اور اس کے لئے آپ کے سوا اور کوئی اہلیت نہیں رکھتا اور ہم آپ کے علاوہ کسی اور کے لئے ایسا نہیں کریں گے۔(تفسیرقرطبی، یس، تحت الآیۃ: ۲۸، ۸ / ۱۸، الجزء الخامس عشر)
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ان آیات میں حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کی طرف اشارہ ہوتا ہے کیونکہ جب فرشتے کی ہلکی سی چیخ کثیر جماعت کو ہلاک کرنے کے لئے کافی ہے تو اس سے ظاہر ہو اکہ غزوہِ بدر اور غزوہِ خندق کے دن آسمان سے لشکروں کو اتارا جانا فرشتوں کی مدد کی ضرورت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان کی تعظیم اور آپ کے مرتبے کی عظمت کی وجہ سے تھا۔(روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۲۸، ۷ / ۳۸۸)
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :غزوہِ بدر کے دن حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ مل کر (کفار سے) لڑائی کرنے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوئے، انہیں نازل کیاجانا تمام کفار کو ہلاک کرنے کے لئے نہ تھا بلکہ حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عزت و تکریم کے لئے تھا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ فرشتوں کا نزول اور ان کے ذریعے مدد پہنچایا جانا تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خصوصیات میں سے ہے۔(صاوی، یس، تحت الآیۃ: ۲۸، ۵ / ۱۷۱۳)
{یٰحَسْرَةً: ہائے افسوس۔} ممکن ہے کہ فرشتوں نے یہ کلام کیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مومنین کا کلام ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کلام اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہو،پہلی دو صورتوں میں آیت کا معنی واضح ہے اور تیسری صورت میں یہاں حسرت سے اس کا حقیقی معنی مراد نہیں ہو گا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں بلکہ یہاں معنی یہ ہو گا حضرت حبیب رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی قوم کے لوگ اور ان کے جیسے وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک ہوئے، یہ اس بات کے حق دار ہیں کہ حسرت کرنے والے ان پر حسرت کریں اور افسوس کرنے والے ان کے حال پر افسوس کریں کیونکہ ان کا حال یہ تھا کہ جب بھی ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی رسول تشریف لائے تو یہ اس سے ٹھٹھا مذاق ہی کرتے تھے ۔( جلالین مع جمل، یس، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۲۸۷، مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۹۸۷، ملتقطاً)
نوٹ:اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے اور اقوال بھی تفاسیر میں موجود ہیں ،ان کی معلومات حاصل کرنے کے لئے علماءِ کرام عربی تفاسیر کی طرف رجوع فرمائیں ۔
{اَلَمْ یَرَوْا: کیا انہوں نے نہ دیکھا۔} سابقہ لوگوں کا حال بیان کرنے کے بعد یہاں سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود لوگوں سے کلام کیا جا رہاہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کفارِ مکہ جو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کرتے ہیں ،کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں ہلاک کردیں اوران کا حال یہ ہے کہ اب وہ دنیا کی طرف لوٹنے والے نہیں ۔توکیا یہ لوگ ان کے حال سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔( تفسیرکبیر، یس، تحت الآیۃ: ۳۱، ۹ / ۲۷۰-۲۷۱، خازن، یس، تحت الآیۃ: ۳۱، ۴ / ۶، ملتقطاً)
آیت ’’اَلَمْ یَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…اس آیت میں آواگون کی نفیس تردید ہے یعنی ہندؤوں کے اعتقاد کے مطابق بار بار مرنے اور جنم لینے کا سلسلہ باطل ہے کیونکہ ایک بار مرنے کے بعد کوئی دوبارہ پلٹ کر دنیا میں نہیں آئے گا۔
(2)… یہ بھی معلوم ہو اکہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل وکرم ہے کہ اس نے اسے آخری امت بنایا تاکہ اس امت کے لوگ سابقہ امتوں سے عبرت اور نصیحت حاصل کریں اور یہ کسی اور امت کے لئے عبرت و نصیحت نہ ہوں ۔
{وَ اِنْ كُلٌّ: اور جتنے بھی ہیں ۔} یعنی تمام امتیں قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے کے بعد حساب اور جزاء کے لئے ہماری بارگاہ میں حاضر کی جائیں گی اور ہم انہیں ان کے اچھے برے تمام اعمال کی جزا دیں گے۔( جلالین ، یس، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۳۷۰، خازن، یس، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۶، ابن کثیر، یس، تحت الآیۃ: ۳۲، ۶ / ۵۱۰، ملتقطاً)
{وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ: اور ان کے لیے ایک نشانی مردہ زمین ہے۔} اس سے پہلی آیت میں حشر کا بیان ہوا اور اب یہاں سے اس چیز کو ذکر کیا جا رہا ہے جو اس کے ممکن ہونے پر دلالت کرتی ہے تاکہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والوں کا رد ہو،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر دلالت کرنے والی ایک عظیم اور واضح نشانی مردہ یعنی خشک اور بنجر زمین ہے اور یہ نشانی اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بارش کا پانی برسا کراسے زندہ کیا یعنی اس میں نَشْونُما کی قوت پیدا کی اور پھر اس زمین سے اناج نکالا جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے اور ان کے مویشیوں کے لئے رزق بنایا ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو زندہ کرتاہے اسی طرح وہ مُردوں کو بھی زندہ فرمائے گا۔( تفسیرکبیر، یس، تحت الآیۃ: ۳۳، ۹ / ۲۷۲، روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۳۳، ۷ / ۳۹۲، ملتقطاً)
{وَ جَعَلْنَا فِیْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ اَعْنَابٍ: اور ہم نے اس میں کھجوروں اور انگو روں کے باغ بنائے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے زمین میں کھجوروں اور انگو روں کے باغ بنائے اور ان باغوں کی آب پاشی کے لئے زمین میں چشمے جاری کئے تاکہ لوگ اناج کی طرح ان باغات کے پھلوں میں سے بھی کھائیں اور اگرچہ اناج اور پھل حاصل کرنے کے لئے بیج لوگوں نے بوئے اور آب پاشی انہوں نے کی، مگر بیج سے شاخ انہوں نے نہیں نکالی ، اس شاخ کو بالی اور تَناور درخت انہوں نے نہیں بنایا ، بالی سے اناج اور درخت سے پھل پیدا کرنے میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں کیونکہ اس پر اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی قدرت نہیں رکھتا ،تو کیا ان دلائل کا مُشاہدہ کرنے کے بعد بھی وہ حق کو نہیں مانیں گے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت ووحدانیّتکا اقرار کر کے اس کی ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کریں گے؟
{سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا: پاک ہے وہ جس نے سب جوڑے بنائے۔} یہاں آیت میں اَزواج سے مراد اَصناف اور اَقسام ہیں اور ازواج کو اَنواع اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہر نَوع اپنی قسم کا جوڑا ہے۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ شریک سے اور ہر نقص و عیب سے پاک ہے جس نے تمام اصناف اور انواع کو پیدا فرمایا،ان میں سے کچھ وہ ہیں جنہیں زمین اگاتی ہے جیسے اناج،پھل اور نباتات وغیرہ،اور کچھ وہ ہیں جن کا تعلق خود لوگوں کے نفسوں سے ہے جیسے ان کی مذکر اور مؤنث اولاد اورکچھ وہ ہیں جن کی انسانوں کو خبر بھی نہیں ہے۔( روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۳۶، ۷ / ۳۹۵)
{وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الَّیْلُ: اور ان کے لیے ایک نشانی رات ہے۔} اس سے پہلی آیات میں زمین کے اَحوال سے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیّت پر اِستدلال فرمایا گیا اور اب اس آیت میں رات کے وجود سے قدرت اور وحدانیّت پر اِستدلال فرمایا جا رہا ہے ،چنانچہ فرمایا گیا کہ جو لوگ مُردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کرتے ہیں ،ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے والی ایک نشانی رات ہے اور یہ نشانی اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ سورج کو غروب کر کے رات کو دن سے جدا کر دیتا ہے ، ا س کے بعد رات ایسے تاریک ہو جاتی ہے جیسے انتہائی کالی شے پر چڑھا ہوا سفید لباس اتار لیا جائے تو پھر وہ سیاہ ہی سیاہ رہ جاتی ہے اوررات ہونے پرلوگوں کو اندھیرے میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ پس دن کی روشنی کو رات سے جدا کر دینا ا س بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کامل ہے، کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی اور اس کی قدرت ذاتی ہے کسی کی دی ہوئی نہیں ، تو جس کی قدرت کا یہ حال ہے وہ مخلوق کو اس کی موت کے بعد زندہ کرنے پر بھی قادر ہے کیونکہ ظاہری اعتبار سے یہ دن کو رات سے جدا کر دینے سے بھی زیادہ آسان ہے۔(روح البیان،یس،تحت الآیۃ: ۳۷، ۷ / ۳۹۶، مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۹۸۹، تاویلات اہل السنہ، یس، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۲۰۰، ملتقطاً)
{وَ الشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا: اور سورج اپنے ٹھہرنے کے وقت تک چلتا رہے گا۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کرنے والوں کے لئے ا س کی عظیم قدرت اور انتہاء کو پہنچی ہوئی حکمت پر دلالت کرنے والی ایک نشانی سورج ہے اور یہ نشانی اس طرح ہے کہ سورج اپنے ٹھہرنے کے وقت تک چلتا رہے گا۔اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جس وقت تک سورج کے چلنے کی انتہا مقرر فرمائی گئی ہے اس وقت تک وہ چلتا ہی رہے گا اور وہ انتہائی وقت قیامت کا دن ہے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ سورج اپنی منزلوں میں چلتا ہے اور جب سب سے دور والے مغرب میں پہنچتا ہے تو پھر لوٹ پڑتا ہے کیونکہ یہی اس کا مُستقَر ہے اورسورج کا اِس طرح چلتے رہنا اُس اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے جو اپنی سلطنت میں زبردست اور اپنی تمام مخلوقات کا علم رکھنے والا ہے اور اس کی قدرت بھی کامل ہے، تو جس کی یہ شان ہے وہی واحد معبود ہے اور وہ مُردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت بھی رکھتا ہے ۔( روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۳۸، ۷ / ۳۹۷، خازن، یس، تحت الآیۃ: ۳۸، ۴ / ۷، جلالین ، یس، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۳۷۰، ملتقطاً)
{وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ: اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کیں ۔} چاند کی اٹھائیس منزلیں ہیں ، ہر رات ایک منزل میں ہوتا ہے اور پوری منزل طے کر لیتا ہے، نہ کم چلتا ہے نہ زیادہ، اپنے طلوع ہونے کی تاریخ سے لے کر اٹھائیسویں تاریخ تک تمام منزلیں طے کر لیتا ہے اور اگر مہینہ تیس کا ہو تو دو راتیں اور انتیس کاہو تو ایک رات چھپتا ہے اور جب اپنی آخری منزل میں پہنچتا ہے توکھجور کی پرانی شاخ جیسا ہوجاتا ہے جو سوکھ کرپتلی ، کمان کی طرح خم دار اور زرد ہو گئی ہو۔(مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۹۸۹، جلالین ، یس، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۳۷۰، ملتقطاً)
{لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَاۤ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ: سورج کو لائق نہیں کہ چاند کو پکڑے۔} اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورج، چاند اور رات وغیرہ کو حکمت کے تقاضوں کے مطابق پیدا فرمایا ہے، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ سورج ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ رات میں چاند کو پکڑ سکے جو کہ چاند کی شوکت کے ظہور کا وقت ہے اور یہ نہیں ہوسکتا کہ سورج چاند کے ساتھ جمع ہو کر اس کے نور کو مغلوب کردے کیونکہ سورج اور چاند میں سے ہر ایک کی شوکت کے ظہورکے لئے ایک وقت مقرر ہے یعنی سورج کے لئے دن اور چاند کے لئے رات ۔ نیز رات دن پر سبقت نہیں لے جا سکتی ، یوں کہ دن کا وقت پورا ہونے سے پہلے آ جائے بلکہ رات اور دن دونوں مُعَیّن حساب کے ساتھ آتے جاتے ہیں ، کوئی ان میں سے اپنے وقت سے پہلے نہیں آتا اور سورج و چاند میں سے کوئی دوسرے کی شوکت کی حدود میں داخل نہیں ہوتا ،نہ سورج رات میں چمکتا ہے نہ چاند دن میں اور ان میں سے ہر ایک ایک دائرے میں چل رہا ہے ۔
کائنات کی ابتدا سے لے کر اب تک سورج اور چاند کے نظام کا اس مَربوط اور مُنَظَّم انداز میں چلنا اور اس میں کسی طرح کا کوئی اختلاف واقع نہ ہونا اس بات کی بڑی واضح دلیل ہے کہ اسے چلانے والا موجود ہے ،وہ واحد ہے ، کامل قدرت اور بے انتہاء علم والا ہے۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan