READ

Surah Yaseen

يـٰسٓ
83 Ayaat    مکیۃ


36:41
وَ اٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ(۴۱)
اور ان کے لیے نشانی یہ ہے کہ انہیں ان بزرگوں کی پیٹھ میں ہم نے بھری کشتی میں سوار کیا (ف۵۵)

{وَ اٰیَةٌ لَّهُمْ: اور ان کے لیے ایک نشانی یہ ہے۔} اس سے پہلی آیات میں  زمینی اور آسمانی مخلوقات میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مَظاہر کا ذکر ہوا اور اب یہاں  سے بحری مخلوقات میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مَظاہر بیان کئے جا رہے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا :لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے والی ایک عظیم نشانی یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی ذُرِّیَّت (یعنی نسل) کو بھری ہوئی کشتی میں  سوار کیا۔ذُرِّیَّت کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں  ذُرِّیَّت سے مراد کفارِ مکہ کی اولادیں  ہیں  جنہیں  وہ تجارت کے لئے بھیجا کرتے تھے اور جس کشتی میں  وہ سوار ہوتے تھے وہ سامان اور اَسباب وغیرہ سے بھری ہوئی ہوتی تھی۔دوسرا قول یہ ہے کہ اس آیت میں  جس کشتی کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کشتی ہے جس میں  مکہ والوں  کے آباؤ اَجداد سوار کئے گئے تھے اور یہ ان کی ذُرِّیَّت (ذرات کی شکل میں) ان کی پُشت میں  تھی اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کشتی سامان اور اسباب وغیرہ سے بھری ہوئی تھی۔( روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۴۱، ۷ / ۴۰۳، ابو سعود، یس، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۳۸۶، ملتقطاً)

            اور یہ نشانی اس طرح ہے کہ وزنی چیز پانی میں  ڈوب جاتی ہے لیکن کشتی انتہائی وزنی ہونے کے باوجود ڈوبتی نہیں  بلکہ سینکڑوں  افراد اور ٹنوں  کے حساب سے وزن اٹھا کر بھی پانی کی سطح پر چلتی رہتی ہے کیونکہ خدا نے یہ نظام ایسے ہی بنایا ہے۔

{وَ خَلَقْنَا لَهُمْ: اور ہم نے ان کے لیے بنادیں ۔} یعنی ہم نے مکہ والوں  کے لیے صورت اور شکل میں  حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کشتی جیسی ہی کشتیاں  بنادیں  جن پر وہ سمندری سفر کے دوران سوار ہوتے ہیں ۔( روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۴۲، ۷ / ۴۰۴، سمرقندی، یس، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۱۰۱، ملتقطاً)

36:42
وَ خَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا یَرْكَبُوْنَ(۴۲)
اور ان کے لیے ویسی ہی کشتیاں بنادیں جن پر سوار ہوتے ہیں،

36:43
وَ اِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِیْخَ لَهُمْ وَ لَا هُمْ یُنْقَذُوْنَۙ(۴۳)
اور ہم چاہیں تو انہیں ڈبودیں (ف۵۶) تو نہ کوئی ان کی فریاد کو پہنچنے والا ہو اور نہ وہ بچائے جائیں،

{وَ اِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْهُمْ: اور اگرہم چاہیں  تو انہیں  ڈبو دیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں  تو کشتیوں  میں  موجود لوگوں  کو ڈبو دیں  تو اس وقت کوئی ایسا نہ ہو گا جواُن ڈوبنے والوں  کی فریاد کو پہنچ کر ان کی مدد کرے اور نہ ہی خدا کے حکم کے بعد لوگوں  کوڈوب کر مرنے سے بچایا جائے گا البتہ دو صورتوں  میں  یہ لوگ بچ سکتے ہیں ، پہلی یہ کہ ہم ان پر رحم فرمائیں  ،دوسری یہ کہ ان کی دنیا سے فائدہ اٹھانے کی مہلت ابھی باقی ہو۔( ابن کثیر، یس، تحت الآیۃ: ۴۳-۴۴، ۶ / ۵۱۵-۵۱۶، البحر المحیط، یس، تحت الآیۃ: ۴۳-۴۴، ۷ / ۳۲۴، جلالین، یس، تحت الآیۃ: ۴۳-۴۴، ص۳۷۰، ملتقطاً)

 سورہِ یٰسٓ کی آیت نمبر43اور44سے حاصل ہونے والی معلومات:

            ان آیات سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…اپنی حفاظت کے مادی اَسباب اور ذرائع پر غرور نہیں  کرناچاہئے بلکہ اسباب اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے کرم پر بھروسہ کرنا چاہئے۔

(2)… عیش و آرام اور نعمتوں  سے مالا مال ہونے کی حالت میں  اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کے قہر و غضب سے غافل اوربے خوف نہیں  ہونا چاہئے اور دورانِ سفر تواس کا خاص خیال رکھنا چاہئے کیونکہ سفر کی حالت میں  انسان کے حادثے کا شکار ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں  اور یہ دیکھا بھی گیا ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کر اور موج مستی کرتے ہوئے سفر کر رہے ہوتے ہیں  کہ اچانک ٹرین اور بس وغیرہ حادثے کا شکار ہوجاتی ہے اور لوگ مر جاتے ہیں ، اسی طرح بحری جہاز میں  سفر کرنے والے اچانک سمندری طوفان کی لپیٹ میں  آ کر غرق ہو جاتے ہیں  ،یونہی ہوائی جہاز میں  سفر کرنے والے دورانِ پرواز اچانک کسی حادثہ کا شکار ہو کر موت کے منہ میں  چلے جاتے ہیں  ۔

 

36:44
اِلَّا رَحْمَةً مِّنَّا وَ مَتَاعًا اِلٰى حِیْنٍ(۴۴)
مگر ہماری طرف کی رحمت اور ایک وقت تک برتنے دینا (ف۵۷)

36:45
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ اَیْدِیْكُمْ وَ مَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۴۵)
اور جب ان سے فرمایا جاتا ہے ڈرو تم اس سے جو تمہارے سامنے ہے (ف۵۸) اور جو تمہارے پیچھے آنے والا ہے (ف۵۹) اس امید پر کہ تم پر مہر ہو تو منہ پھیر لیتے ہیں،

{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ: اور جب ان سے فرمایا جاتا ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کفارِ مکہ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا جاتا ہے کہ تم اس عذاب سے ڈرو جو دنیا میں  تم پر آ سکتا ہے اور اس عذاب سے بھی ڈروجو آخرت میں  آنے والا ہے اور ایمان لے آؤ تاکہ تم پر رحم کیا جائے اور تم عذاب سے نجات پاجاؤ تو وہ اس نصیحت پر عمل کرنے کی بجائے اس سے منہ پھیر لیتے ہیں  اور ان کاکردار صرف یہیں  تک محدود نہیں  بلکہ وہ ایسے پتھر دل ہو گئے ہیں  کہ ان کے پاس جب کبھی ان کے رب کی نشانیوں  میں  سے کوئی نشانی آتی ہے تو یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں  اور ان کا دستور اور طریقہ کار ہی یہ ہے کہ وہ ہر آیت اور نصیحت سے اِعراض اور رُو گردانی کرتے ہیں  ۔

نصیحت سے منہ پھیرنا کفار کا کام ہے:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنے کا کہا جائے اور ان کی نافرمانی کرنے پر ہونے والے عذاب سے ڈرا کر نصیحت کی جائے تو اس سے منہ پھیر لینا کفار کا طریقہ اور ان کا دستور ہے۔افسوس!فی زمانہ مسلمانوں  میں  بھی اس سے ملتی جلتی صورتِ حال نظر آ رہی ہے کہ جب انہیں  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے اور بد عملی و گناہوں  سے بچنے کا کہا جاتا ہے اور ایسا نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا جاتا ہے تو ان کے طرزِ عمل سے صاف نظر آتا ہے کہ یہ نصیحت سے منہ پھیر رہے ہیں  اور انہیں  جو نصیحت کی گئی ہے اس کی انہیں  کوئی پرواہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے اور نصیحت کرنے والوں  کی نصیحت قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

36:46
وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ(۴۶)
اور جب کبھی ان کے رب کی نشانیوں سے کوئی نشانی ان کے پاس آتی ہے تو اس سے منہ پھیرلیتے ہیں، (ف۶۰)

36:47
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُۙ-قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰهُ اَطْعَمَهٗۤ ﳓ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۴۷)
اور جب ان سے فرمایا جائے اللہ کے دیے میں سے کچھ اس کی راہ میں خرچ کرو تو کافر مسلمانوں کے لیے کہتے ہیں کہ کیا ہم اسے کھلائیں جسے اللہ چاہتا تو کھلادیتا (ف۶۱) تم تو نہیں مگر کھلی گمراہی میں،

{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ: اور جب ان سے فرمایا جائے۔} شانِ نزول:یہ آیت کفارِ قریش کے بارے میں  نازل ہوئی جن سے مسلمانوں  نے انسانی ہمدردی کی بنا پر کہا تھا کہ تم اپنے مالوں  کا وہ حصہ مسکینوں پر خرچ کرو جو تم نے اپنے گمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کے لئے نکالا ہے۔ اس پر انہوں  نے کہا کہ کیا ہم ان کو کھلائیں  جنہیں اللہ تعالیٰ کھلانا چاہتا تھا تو کھلا دیتا۔ان کا اس بات سے مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی کو یہ منظور ہے کہ مسکین لوگ محتاج رہیں  ،اس لئے انہیں  کھانے کو دینا اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت کے خلاف ہو گا۔ یہ بات انہوں  نے بخل اور کنجوسی کی وجہ سے مذاق اڑا نے کے طور پر کہی تھی اور یہ بات انتہائی باطل تھی کیونکہ دنیا امتحان کی جگہ ہے ، فقیری اور امیری دونوں  آزمائشیں  ہیں  ، فقیر کی آزمائش صبر سے اور مالدار کی آزمائش اللہ تعالیٰ کی راہ میں  خرچ کرنے سے ہوتی ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق میں حکمت اورمَشِیَّت ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ مکہ مکرمہ میں  زندیق لوگ تھے، جب ان سے کہا جاتا تھا کہ مسکینوں  کو صدقہ دو تو وہ اس کے جواب میں کہتے تھے: ہرگز نہیں ! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ محتاج کردے اسے ہم کھلائیں ۔( خازن، یس، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۸، مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۹۹۰، ملتقطاً)

لوگوں  کی مالداری اور محتاجی میں  ان کی آزمائش ہے:

یاد رہے کہ مالی اعتبار سے تمام لوگوں  کو ایک جیسا نہیں  بنایاگیا بلکہ بعض کو امیر اور بعض کو غریب بنایا گیا ہے اور اس امیری و غریبی کی ایک حکمت یہ ہے کہ لوگوں  کو آزمایا جائے ،جیسا کہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىٕفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْؕ-اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ ﳲ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(انعام:۱۶۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہی ہے جس نے زمین میں  تمہیں  نائب بنایا اور تم میں  ایک کو دوسرے پر کئی درجے بلندی عطا فرمائی تاکہ وہ تمہیں  اس چیز میں  آزمائے جو اس نے تمہیں  عطا فرمائی ہے بیشک تمہارا رب بہت جلد عذاب دینے والاہے اور بیشک وہ ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ‘‘(بقرہ:۱۵۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم ضرور تمہیں  کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں  اور جانوں  اور پھلوں  کی کمی سے آزمائیں  گے اور صبر کرنے والوں  کو خوشخبری سنا دو۔

اور حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ضرور تم سب کو مالدار بنا دیتا اور تم میں  سے کوئی محتاج نہ ہوتا اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ضرور تم سب کو محتاج بنا دیتا اور تم میں  سے کوئی مالدار نہ ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے تم میں  سے بعض کو بعض کے ذریعے امتحان میں  مبتلا کیا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الزہد،ما ذکر عن نبیّنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الزہد،۱۲ / ۲۸، الحدیث: ۳۵۳۳۴۔ الفاروق الحدیثیۃ للطباعۃ والنشر قاہرہ)

امیر کی آزمائش یوں  بھی ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں  خرچ کرتا ہے یا نہیں  اور غریب کی آزمائش یوں  بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی غربت اور محتاجی پر صبر و شکر کا مظاہرہ کرتا ہے یا نہیں ،لہٰذا جس مسلمان کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال اسی کی راہ میں  اور اسی کی اطاعت میں  خرچ کرے تاکہ اس امتحان میں  کامیاب ہو، یونہی جسے اللہ تعالیٰ نے محتاج بنایا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ صبر و تَحَمُّل کا دامن مضبوطی سے تھامے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہ کر اس امتحان میں  سُرْخْرُو ہونے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں  راہِ خدا میں  خرچ کرنے کی سعادت عطا فرمائے اور محتاجی سے محفوظ فرمائے اور محتاجی میں  مبتلا ہو جانے کی صورت میں  صبر و شکر کرنے اور اپنی رضا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

خرچ کرنے کے فضائل اور بخل کی مذمت:

یہاں  راہِ خدا میں  خرچ نہ کرنے پر کفار کی مذمت کی گئی، اسی مناسبت سے یہاں  راہِ خدا میں  خرچ کرنے کے فضائل اور بخل کرنے کی مذمت پر مشتمل دو اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’روزانہ جب بندے صبح کے وقت اٹھتے ہیں  تو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ،ان میں  سے ایک یوں  دعا کرتا ہے:اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، خرچ کرنے والے کو (اس کی خرچ کی ہوئی چیز کا) بدل عطا فرما۔دوسرا فرشتہ یوں  دعا کرتا ہے:اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، بخل کرنے والے نے جو مال بچا کر رکھا ہے اسے ضائع کر دے۔(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب قول اللّٰہ تعالی: فامّا من اعطی واتقی۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۸۵، الحدیث: ۱۴۴۲)

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بخل کرنے والے اور خیرات کرنے والے کی مثال ان دو شخصوں  کی طرح ہے جن کے بدن پر لوہے کی زِرَہیں ہوں  اور ان کے دونوں ہاتھ سینے کے ساتھ گلے سے بندھے ہوئے ہوں ،جب خیرات کرنے والاکوئی خیرات کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ زرہ ڈھیلی ہو جاتی ہے اور بخیل جب خیرات کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زِرَہ کا ہر حلقہ اپنی جگہ پر سخت ہو جاتا ہے۔(بخاری، کتاب اللباس، باب جیب القمیص من عند الصدر وغیرہ، ۴ / ۴۹، الحدیث: ۵۷۹۷)

اس مثال کا حاصل یہ ہے کہ سخی آدمی جب خیرات کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا سینہ کشادہ ہو جاتا ہے اور خرچ کرنے کے لئے اس کا ہاتھ کھل جاتا ہے جبکہ بخیل شخص جب خیرات کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ا س کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے اور اس کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں ۔( التیسیر بشرح الجامع الصغیر، حرف المیم، ۲ / ۳۷۰)

اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو راہِ خدا میں  خرچ کرنے اور بخل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

{اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ: تم تو کھلی گمراہی میں  ہی ہو۔} مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ یہ بات کفار نے مسلمانوں  سے کہی تھی ۔اس صورت میں  ا س کا معنی یہ ہے کہ اے مسلمانو!تم کھلی گمراہی میں  ہو کیونکہ تم نے ہمارے طریقے کو چھوڑ دیا اور محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی پیروی کرنے لگ گئے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جب کافروں  نے مسلمانوں  کی بات کا جواب دیا تو اللہ تعالیٰ نے کافروں  سے فرمایا کہ تم تو کھلی گمراہی میں  ہی ہو۔( خازن، یس، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۹)

36:48
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۴۸)
اور کہتے ہیں کب آئے گا یہ وعدہ (ف۶۲) اگر تم سچے ہو (ف۶۳)

{وَ یَقُوْلُوْنَ: اور کہتے ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کافروں  نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے کہا :تم ہمیں  یہ کہہ رہے ہو کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور قیامت قائم ہو گی ،اگرتم سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب آئے گا؟ ان لوگوں  کے جواب میں  ارشاد فرمایا گیا کہ ان کے بار بار پوچھنے سے یہی نظر آ رہا ہے کہ وہ صرف صُور کے پہلے نَفخہ کی اس چیخ کا انتظار کر رہے ہیں  جسے حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام پھونکیں  گے اور وہ چیخ اس حال میں  ان تک پہنچے گی کہ وہ دنیا کے جھگڑوں جیسے خرید و فروخت میں  ، کھانے پینے میں  ، بازاروں  اور مجلسوں  میں  اور دنیا کے کاموں  میں  پھنسے ہوئے ہوں  گے ۔ حدیث شریف میں  ہے، نبی کر یم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ خریدار اور بیچنے والے کے درمیان کپڑا پھیلا ہو گا، نہ سودا تمام ہونے پائے گا ، نہ کپڑا لپٹ سکے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی ۔یعنی لوگ اپنے اپنے کاموں  میں  مشغول ہوں  گے اور وہ کام ویسے ہی ناتمام رہ جائیں  گے ،نہ انہیں  خود پورا کر سکیں  گے ، نہ کسی دوسرے سے پورا کرنے کو کہہ سکیں  گے اور جو گھر سے باہر گئے ہیں  وہ واپس نہ آ سکیں  گے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ اس وقت جو لوگ اپنے گھر والوں  کے درمیان ہوں  گے وہ وصیت نہ کرسکیں  گے اورجو لوگ گھروں  سے باہر ہوں  گے وہ اپنے گھر پلٹ کر نہ جاسکیں  گے بلکہ جہاں  چیخ سنیں  گے وہیں  مر جائیں  گے اور قیامت انہیں  کچھ کرنے کی فرصت اور مہلت نہ دے گی ۔( خازن، یس، تحت الآیۃ: ۴۸-۵۰، ۴ / ۹، مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۴۸-۵۰، ص۹۹۰، جلالین ، یس، تحت الآیۃ: ۴۸-۵۰، ص۳۷۱، ابو سعود، یس، تحت الآیۃ: ۴۸-۵۰، ۴ / ۳۸۸-۳۸۹، ملتقطاً)

دنیا میں  قیامت کی تیاری کرنا ہی عقلمندی ہے:

            یہاں  کفار مکہ کو قیامت قائم ہونے کا وقت نہیں  بتایا گیاکیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے اور انہیں  جو جواب دیا گیا اس میں  ان لوگوں  کو یقینی طور پر آنے والی چیز پر تنبیہ فرمائی گئی ،اس سے معلوم ہو اکہ عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان قیامت کا وقت اور ا س کی تاریخ کی تحقیق میں  وقت ضائع کرنے کی بجائے قیامت کی تیاری کرے اور اپنی مختصر زندگی میں  وہ کام کرے جن سے اسے قیامت کے دن کامیابی نصیب ہو لیکن افسوس!کفار کی غفلت تو اپنی جگہ مسلمانوں  کی غفلت اور سُستی کا حال دیکھ کر یوں  محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بھی اس انتظار میں  ہیں  کہ قیامت قائم ہو جائے تو ہی ا س کے بارے میں  کچھ سوچیں  گے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ(۱) مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ(۲) لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ‘‘(انبیاء:۱۔۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: لوگوں  کا حساب قریب آگیا اور وہ غفلت میں  منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔ جب ان کے پاس ان  کے رب کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے کھیلتے ہوئے ہی سنتے ہیں ۔ ان کے دل کھیل میں  پڑے ہوئے ہیں ۔

            اور لوگوں  کی غفلت کا ایک سبب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱) حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲) كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ(۳) ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَؕ(۴) كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِؕ(۵) لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَۙ(۶) ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَیْنَ الْیَقِیْۙنِ(۷)ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ‘‘(تکاثر:۱۔۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں  غافل کردیا۔ یہاں  تک کہ تم نے قبروں  کا منہ دیکھا۔ ہاں  ہاں  اب جلد جان جاؤ گے۔ پھر یقینا تم جلد جان جاؤ گے۔ یقینا اگر تم یقینی علم کے ساتھ جانتے (تو مال سے محبت نہ رکھتے)۔بیشک تم ضرور جہنم کو دیکھو گے۔ پھر بیشک تم ضرور اسے یقین کی آنکھ سے دیکھو گے۔ پھر بیشک ضرور اس دن تم سے نعمتوں  کے متعلق پوچھا جائے گا۔

            اور قیامت کے دن کی ہَولْناکی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْۚ-اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ(۱)یَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّاۤ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰى وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِیْدٌ‘‘(حج:۱۔۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بیشک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ جس دن تم اسے دیکھو گے (تو یہ حالت ہوگی کہ) ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حمل والی اپنا حمل ڈال دے گی اور تو لوگوں  کو دیکھے گا جیسے نشے میں  ہیں  حالانکہ وہ نشہ میں  نہیں  ہوں  گے لیکن ہے یہ کہ اللہ کا عذاب بڑا شدید ہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَ اخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ٘-وَ لَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ‘‘(لقمان:۳۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس میں  کوئی باپ اپنی اولاد کے کام نہ آئے گا اور نہ کوئی بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دینے والاہوگا۔ بیشک اللہ  کا وعدہ سچا ہے تو دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں  دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا دھوکہ دینے والا تمہیں  اللہ کے علم پر دھوکے میں  نہ ڈالے۔

            اور انسان کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِیْهِۚ(۶) فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖۙ(۷) فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًاۙ(۸) وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ وَرَآءَ ظَهْرِهٖۙ(۱۰) فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُبُوْرًاۙ(۱۱) وَّ یَصْلٰى سَعِیْرًاؕ(۱۲) اِنَّهٗ كَانَ فِیْۤ اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًاؕ(۱۳) اِنَّهٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ یَّحُوْرَۚۛ(۱۴) بَلٰۤىۚۛ-اِنَّ رَبَّهٗ كَانَ بِهٖ بَصِیْرًا‘‘(انشقاق:۶۔۱۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے انسان! بیشک تو اپنے رب کی طرف دوڑنے والا ہے پھر اس سے ملنے والا ہے تو جسے اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں  ہاتھ میں  دیا جائے گا تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گااور وہ اپنے گھر والوں  کی طرف خوشی خوشی پلٹے گااور جسے اس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ  کے پیچھے سے دیا جائیگاتووہ عنقریب موت مانگے گااوروہ بھڑکتی ا ٓگ میں  داخل ہوگا۔ بیشک وہ اپنے گھر میں  خوش تھا، اس نے سمجھا کہ وہ واپس نہیں  لوٹے گا۔ ہاں ، کیوں  نہیں ! بیشک اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ غفلت اور سُستی سے جان چھڑا کر اپنی آخرت بہتر بنانے کی بھر پور کوشش کرے اور اپنی زندگی اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے گزارے تاکہ آخرت میں  اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے اسے کامیابی نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو اپنی آخرت کی فکر کرنے اور اس کے لئے خوب تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

 

36:49
مَا یَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَ هُمْ یَخِصِّمُوْنَ(۴۹)
راہ نہیں دیکھتے مگر ایک چیخ کی (ف۶۴) کہ انہیں آلے گی جب وہ دنیا کے جھگڑے میں پھنسے ہوں گے، (ف۶۵)

36:50
فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ تَوْصِیَةً وَّ لَاۤ اِلٰۤى اَهْلِهِمْ یَرْجِعُوْنَ۠(۵۰)
تو نہ وصیت کرسکیں گے اور نہ اپنے گھر پلٹ کرجائیں (ف۶۶)

36:51
وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ(۵۱)
اور پھونکا جائے گا صور (ف۶۷) جبھی وہ قبروں سے (ف۶۸) اپنے رب کی طرف دوڑتے چلیں گے،

{وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ: اور صور میں  پھونک ماری جائے گی۔}اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت مُردوں  کو اٹھانے کے لئے دوسری مرتبہ صُورمیں  پھونک ماری جائے گی تواسی وقت وہ کفار زندہ ہو کر اپنی قبروں  سے نکل آئیں  گے اوراپنے حقیقی رب عَزَّوَجَلَّ کے اس مقام کی طرف دوڑتے چلے جائیں گے جوحساب اور جز ا کے لئے تیار کیا گیا ہو گااور وہ کہیں  گے :ہائے ہماری خرابی! کس نے ہمیں  ہماری نیند سے جگادیا۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  : وہ یہ بات اس لئے کہیں  گے کہ اللہ تعالی دونوں  نَفخوں  کے درمیان ان سے عذاب اٹھا دے گا اور اتنا زمانہ وہ سوتے رہیں  گے اوردوسرے نَفخہ کے بعد جب وہ دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں  گے اور قیامت کی ہَولْناکیاں  دیکھیں  گے تو اس طرح چیخ اٹھیں  گے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب کفار جہنم اور اس کے عذاب دیکھیں  گے تو اس کے مقابلے میں  انہیں  قبر کا عذاب آسان معلوم ہو گا ،اس لئے وہ خرابی اور افسوس پکار اٹھیں  گے اور اس وقت کہیں گے :یہ وہ ہے جس کا رحمٰن عَزَّوَجَلَّ نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سچ فرمایا تھا،لیکن اس وقت کا اقرار انہیں  کچھ نفع نہ دے گا۔ ایک قول یہ ہے کہ فرشتے کافروں  سے یہ کہیں  گے اور ایک قول یہ ہے کہ جب کافر کہیں  گے : کس نے ہمیں  ہماری نیند سے جگادیا؟تو اس وقت مومنین کہیں  گے کہ یہ وہ ہے جس کا رحمٰن عَزَّوَجَلَّ نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سچ فرمایا تھا۔(روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۵۱-۵۲، ۷ / ۴۱۱-۴۱۲، خازن، یس، تحت الآیۃ: ۵۱-۵۲، ۴ / ۹، ملتقطاً)

36:52
قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَاﱃ هٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَ صَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ(۵۲)
کہیں گے ہائے ہماری خرابی کس نے ہمیں سوتے سے جگادیا (ف۶۹) یہ ہے وہ جس کا رحمٰن نے وعدہ دیا تھا اور رسولوں نے حق فرمایا (ف۷۰)

36:53
اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ(۵۳)
وہ تو نہ ہوگی مگر ایک چنگھاڑ (ف۷۱) جبھی وہ سب کے سب ہمارے حضور حاضر ہوجائیں گے (ف۷۲)

{اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً: وہ تو صرف ایک چیخ ہوگی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دوسر انَفخہ ایک ہَولْناک آواز ہو گی تو اسی وقت وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حساب کے لئے حاضر کر دئیے جائیں  گے، پھر ان کافروں سے کہا جائے گا : آج کسی جان پر اس کے ثواب میں  کمی کر کے یا اس کے عذاب میں  اضافہ کر کے کچھ ظلم نہ ہوگا اوراے کافرو! یہاں  تمہیں  تمہارے ان اعمال ہی کا بدلہ دیا جائے گا جو تم نے دنیا میں  کئے تھے۔(خازن، یس، تحت الآیۃ: ۵۳-۵۴، ۴ / ۹، روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۵۳-۵۴، ۷ / ۴۱۲-۴۱۳، ملتقطاً)

36:54
فَالْیَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـا وَّ لَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۵۴)
تو آج کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور تمہیں بدلا نہ ملے گا اپنے کیے کا،

36:55
اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰكِهُوْنَۚ(۵۵)
بیشک جنت والے آج دل کے بہلاووں میں چین کرتے ہیں (ف۷۳)

{اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ: بیشک جنت والے۔} اس سے پہلی آیات میں  قیامت کے دن کافروں  کا حال بیان کیا گیا اور اب یہاں  سے اہل ِجنت کا حال بیان کیا جارہا ہے ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات میں  اہل ِجنت کے چار اَحوال بیان کئے گئے ہیں ۔

(1)…قیامت کے دن جنت والے دل بہلانے والے کاموں  میں  لطف اندوز ہو رہے ہوں  گے اورطرح طرح کی نعمتیں  ، قسم قسم کے سُرُور، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضیافت ، جنّتی نہروں  کے کنارے ،جنتی درختوں  کی دلنواز فضائیں  ، طَرب اَنگیز نغمات ، جنت کی حسین وجمیل حوروں  کا قرب اور قسم قسم کی نعمتوں  سے لذت حاصل کرنا ، یہ ان کے شغل ہوں  گے ۔

(2)…وہ اور ان کی بیویاں  تختوں  پر تکیہ لگائے سایوں  میں  ہوں  گے۔ان بیویوں میں  دنیا کی مومنہ مَنکوحہ بیویاں  بھی داخل ہیں  اور حوریں  بھی۔اس سے معلوم ہوا کہ حوریں  لونڈیوں  کی حیثیت سے نہ ہوں  گی بلکہ بیوی کی حیثیت سے ہوں  گی۔

(3)…ان کے لیے جنت میں  ہر قسم کاپھل میوہ ہوگا اور ان کے لیے ہر وہ چیز ہوگی جو وہ مانگیں گے۔یاد رہے کہ جنت میں  چونکہ نفسِ اَمّارہ فنا کردیا جائے گا اس لئے کوئی جنتی بری چیز کی خواہش نہ کرے گا۔

(4)…ان پرمہربان رب کی طرف سے فرمایا ہوا سلام ہوگایعنی اللہ تعالیٰ ان پر سلام فرمائے گا خواہ واسطے کے ساتھ ہو یا واسطے کے بغیر اور یہ خدا کے سلام والی نعمت و فضیلت سب سے عظیم و محبوب مراد ہے ۔ فرشتے اہلِ جنت کے پاس ہر دروازے سے آ کر کہیں  گے تم پر تمہارے رحمت والے رب کا سلام ہو۔( خازن، یس، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۸، ۴ / ۹-۱۰، مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۸، ص۹۹۱، ملتقطاً)

 

36:56
هُمْ وَ اَزْوَاجُهُمْ فِیْ ظِلٰلٍ عَلَى الْاَرَآىٕكِ مُتَّكِــٴُـوْنَ (۵۶)
وہ اور ان کی بیبیاں سایوں میں ہیں، تختوں پر تکیہ لگائے،

36:57
لَهُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ وَّ لَهُمْ مَّا یَدَّعُوْنَۚۖ(۵۷)
ان کے لیے اس میں میوہ ہے اور ان کے لیے ہے اس میں جو مانگیں،

36:58
سَلٰمٌ- قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ(۵۸)
ان پر سلام ہوگا، مہربان رب کا فرمایا ہوا (ف۷۴)

36:59
وَ امْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ(۵۹)
اور آج الگ پھٹ جاؤ، اے مجرمو! (ف۷۵)

{وَ امْتَازُوا الْیَوْمَ: اور آج الگ الگ ہوجاؤ۔} اس سے پہلی آیت میں  اہلِ جنت کا اُخروی حال بیان کیا گیا اور اب یہاں  سے اہلِ جہنم کا اُخروی حال بیان کیا جا رہا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن کہا جائے گا: اے مجرمو! آج جدا ہوجاؤ۔اس کی تفسیر میں  ایک قول یہ ہے کہ جس وقت مومن جنت کی طرف روانہ کئے جائیں  گے ، اس وقت کفار سے کہا جائے گا کہ الگ ہٹ جاؤ اور مومنین سے علیحدہ ہو جاؤ۔دوسرا قول یہ ہے کہ کفار کو یہ حکم ہو گا کہ الگ الگ جہنم میں  اپنے اپنے مقام پر چلے جائیں ۔تیسراقول یہ ہے کہ قیامت کے دن مجرموں  کو ایک دوسرے سے الگ الگ کر دیا جائے گا جیسے یہودیوں ، عیسائیوں  ، ، مجوسیوں  ، ستارہ پرستوں  اورہندوؤں  کو جو کہ الگ الگ فرقے ہیں  ایک دوسرے سے جداکر دیا جائے گا۔( مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۹۹۲، قرطبی، یس، تحت الآیۃ: ۵۹، ۸ / ۳۵-۳۶، الجزء الخامس عشر، ملتقطاً)

            ابو اللیث نصر بن محمد سمرقندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں  ایک قول نقل کرتے ہیں  کہ (قیامت کے دن) ایک منادی یوں  ندا کرے گا: اے کافرو!تم مومنوں  سے الگ ہو جاؤ کیونکہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں  اور اے منافقو! تم مخلص لوگوں  سے جدا ہو جاؤ کیونکہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں  اوراے فاسقو !تم نیک لوگوں  سے جدا ہو جاؤ کیونکہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں  اور اے گناہگارو! تم اطاعت گزاروں  سے جدا ہو جاؤ کیونکہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں ۔( تفسیرسمرقندی، یس، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۱۰۴)

مجھے نہیں  معلوم کہ میں  کس گروہ میں  جدا کیا جاؤں  گا؟

            اس قول کے مطابق مسلمانوں  کے لئے بھی اس آیت میں  بڑی عبرت ہے اور انہیں  بھی اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کی بہت حاجت ہے کہ کہیں  ان میں  سے بھی کسی فرد کو مجرموں  کے گروہ میں  داخل نہ کر دیا جائے۔ ہمارے بزرگانِ دین اس حوالے سے کس قدر فکر مند رہا کرتے تھے ،اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو ،چنانچہ کچھ لوگوں  نے حضرت ابراہیم بن ادہم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے عرض کی کہ آپ لوگوں  کے پاس کیوں  نہیں  بیٹھتے اور ان سے باتیں  کیوں  بیان نہیں  کرتے؟تو آپ نے فرمایا :چار باتوں  نے مجھے مشغول کر دیا ہے ،اگر میں  ان سے فارغ ہو گیا تو میں  ضرور تمہارے پاس بیٹھو ں  گا اور تمہارے ساتھ باتیں  بھی کروں  گا۔لوگوں  نے عرض کی: وہ چار باتیں  کیا ہیں ؟اس کے جواب میں  آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے وہ باتیں  ارشاد فرمائیں  اور ان میں  سے ایک بات یہ فرمائی کہ میں  نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’وَ امْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ‘‘ میں  غور کیا تو مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ میں  کس گروہ میں  جدا کیا جاؤں  گا۔( مدخل، فصل فی آداب الفقیر المنقطع التارک للاسباب۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۶)اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنے اُخروی انجام کی فکر کرنے اور ا س کی بہتری کے لئے خوب کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

36:60
اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَۚ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌۙ(۶۰)
اے اولاد آدم کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا (ف۷۶) کہ شیطان کو نہ پوجنا (ف۷۷) بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،

{یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ: اے اولادِ آدم!۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مجرموں  سے فرمائے گا کہ اے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد! کیا میں  نے اپنے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی معرفت تمہیں یہ حکم نہ دیا تھاکہ شیطان تمہیں  جو وسوسے دلاتا ہے اور تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو مُزَیَّن کرتا ہے اِس میں  تم اُس کی فرمانبرداری نہ کرنا بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور اس کی عداوت بالکل ظاہر ہے اورکیا میں  نے یہ حکم نہ دیا تھا کہ صرف میری عبادت کرنا اور کسی کو عبادت میں  میرا شریک نہ کرنا ،یہ ایسی سیدھی راہ ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی سیدھی راہ نہیں  اور بیشک شیطان نے تم میں  سے بہت سی مخلوق کو گمراہ کردیا تو کیا تم میں  عقل نہ تھی کہ تم اس کی عداوت اور گمراہ گَری کو سمجھتے اور اپنے برے اعمال چھوڑ دیتے تاکہ تم عذاب کے حقدار قرار نہ پاتے۔( خازن، یس، تحت الآیۃ: ۶۰-۶۲، ۴ / ۱۰، مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۶۰-۶۲، ص۹۹۲، جلالین ، یس، تحت الآیۃ: ۶۰-۶۲، ص۳۷۱، روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۶۰-۶۲، ۷ / ۴۲۱-۴۲۳، ملتقطاً)

36:61
وَّ اَنِ اعْبُدُوْنِیْﳳ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(۶۱)
اور میری بندگی کرنا (ف۷۸) یہ سیدھی راہ ہے،

36:62
وَ لَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِیْرًاؕ-اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ(۶۲)
اور بیشک اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو بہکادیا، تو کیا تمہیں عقل نہ تھی (ف۷۹)

36:63
هٰذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(۶۳)
یہ ہے وہ جہنم جس کا تم سے وعدہ تھا،

{هٰذِهٖ جَهَنَّمُ: یہ ہے جہنم۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب مجرم جہنم کے قریب پہنچیں  گے تو ان سے کہا جائے گا :اے مجرمو!یہ ہے وہ جہنم جس کا تم سے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ذریعے دنیا میں  وعدہ کیا جاتا تھا اور اب تم جہنم کو دیکھ کر اس کی تصدیق کر لو، مگر یہ تصدیق مفید نہیں  اور آج تم اس جہنم میں  داخل ہوجاؤ اور دنیا میں  جو تم اپنے کفر پر ہی قائم رہے اس کے سبب جہنم کے عذابات چکھو ۔

            اس سے معلوم ہوا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام پر اعتماد کرنے کانام ایمان ہے ۔ کفار آخرت کو دیکھ کر ساری چیزیں  مان جائیں  گے مگر وہ ماننا کار آمد نہ ہو گا کیونکہ انہوں  نے اپنی آنکھ پر اعتماد کیا نہ کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام پر۔

36:64
اِصْلَوْهَا الْیَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ(۶۴)
آج اسی میں جاؤ بدلہ اپنے کفر کا،

36:65
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)
آج ہم ان کے مونھوں پر مہر کردیں گے (ف۸۰) اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان پاؤں ان کے کئے کی گواہی دیں گے (ف۸۱)

{اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ: آج ہم ان کے مونہوں  پر مہر لگادیں  گے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ابتداء میں  کفار اپنے کفر اور رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کا انکار کریں  گے اورکہیں  گے ،ہمیں  اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں  پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں  ،پھران کے دیگر اَعضاء بول اٹھیں  گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کردیں  گے تاکہ انہیں  معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو گناہوں  پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔( خازن ، یس ، تحت الآیۃ : ۶۵، ۴ / ۱۰، مدارک ، یس ، تحت الآیۃ : ۶۵ ، ص۹۹۲، جلالین ، یس ، تحت الآیۃ : ۶۵، ص۳۷۲، ملتقطاً)

قیامت کے دن انسان کی اپنی ذات ا س کے خلاف گواہ ہو گی:

             معلوم ہوا کہ بندہ اپنے جسم کے جن اَعضاء سے گناہ کرتا ہے وہی اَعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں  گے اور اس کے تمام اعمال بیان کر دیں  گے اور ا س کی ایک حکمت یہ ہے کہ بندے کی ذات خود اس کے خلاف حجت ہو، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں  ہے کہ بندہ کہے گا: اے میرے رب!میں  تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں  پر ایمان لایا،میں  نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں  بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا ،پھر ا س سے کہا جائے گا :ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں  ۔وہ بندہ اپنے دل میں  سوچے گا :میرے خلاف کون گواہی دے گا؟پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران،اس کے گوشت اور ا س کی ہڈیوں  سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران،اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں  ا س کے اعمال بیان کریں  گی اور یہ اس لئے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حجت ہو اور یہ بندہ وہ منافق ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۷، الحدیث: ۱۶(۲۹۶۸))

            یاد رہے کہ مونہوں  پر لگائی جانے والی مہر ہمیشہ کے لئے نہ ہو گی بلکہ اعضا کی گواہی لے کر توڑ دی جائے گی، اس لئے وہ دوزخ میں  پہنچ کر شور مچائیں گے۔

36:66
وَ لَوْ نَشَآءُ لَطَمَسْنَا عَلٰۤى اَعْیُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰى یُبْصِرُوْنَ(۶۶)
اور اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھیں مٹادیتے (ف۸۲) پھر لپک کر رستہ کی طرف جاتے تو انہیں کچھ نہ سوجھتا (ف۸۳)

{وَ لَوْ نَشَآءُ لَطَمَسْنَا عَلٰۤى اَعْیُنِهِمْ: اور اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھیں  مٹادیتے۔} یعنی جہنم کا عذاب تو آخرت میں  ہو گا جبکہ اگر ہم چاہتے تو دنیا میں  بھی ان کے کفر کی سزا کے طور پر ان کی آنکھیں  مٹا کر انہیں  اندھا کردیتے ،پھر وہ جلدی سے راستے کی طرف چلنے کے لئے جاتے تو انہیں  کہاں  سے دکھائی دیتا کیونکہ ہم نے تو انہیں  اندھا کر دیا تھا،لیکن ہم نے ایسا نہ کیا اور اپنے فضل و کرم سے آنکھ کی نعمت ان کے پاس باقی رکھی، تو اب ان پر حق یہ ہے کہ وہ شکر گزاری کریں  کفر نہ کریں۔( خازن، یس، تحت الآیۃ: ۶۶، ۴ / ۱۱، جمل، یس، تحت الآیۃ: ۶۶، ۶ / ۳۰۵، ملتقطاً)

36:67
وَ لَوْ نَشَآءُ لَمَسَخْنٰهُمْ عَلٰى مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوْا مُضِیًّا وَّ لَا یَرْجِعُوْنَ۠(۶۷)
اور اگر ہم چاہتے تو ان کے گھر بیٹھے ان کی صورتیں بدل دیتے (ف۸۴) نہ آگے بڑھ سکتے نہ پیچھے لوٹتے (ف۸۵)

{وَ لَوْ نَشَآءُ لَمَسَخْنٰهُمْ عَلٰى مَكَانَتِهِمْ: اور اگر ہم چاہتے تو ان کی جگہ پر ہی ان کی صورتیں  بدل دیتے۔} یعنی اس سزا سے بڑھ کر اگر ہم چاہتے توجن گھروں  میں  یہ بیٹھے ہوئے تھے وہیں  ان کے کفر کی سزا میں  ان کی صورتیں  بدل کر انہیں  بندر یا سور بنا دیتے ،پھر وہ نہ آگے بڑھ سکتے اورنہ پیچھے لوٹ سکتے اور ان کے جرم ایسے تھے کہ وہ اس سزا کا تقاضا کرتے تھے لیکن ہم نے اپنی رحمت اور حکمت کے تقاضے کے مطابق انہیں  عذاب دینے میں  جلدی نہ کی اور ان کے لئے مہلت رکھی تاکہ وہ توبہ کر کے ایمان لے آئیں  اور نعمتوں  کا شکر ادا کریں ۔( جلالین مع جمل، یس، تحت الآیۃ: ۶۷، ۶ / ۳۰۶، روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۶۷، ۷ / ۴۲۷، ملتقطاً)

36:68
وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِؕ-اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ(۶۸)
اور جسے ہم بڑی عمر کا کریں اسے پیدائش میں الٹا پھیریں (ف۸۶) تو کیا سمجھے نہیں (ف۸۷)

{وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ: اور جسے ہم لمبی عمر دیتے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اوپر بیان کی گئی سزاؤں  کا واقع ہونا قابلِ تعجب نہیں ، اس کی ایک نظیر پر ہماری قدرت گواہ ہے کہ جسے ہم لمبی عمر دیتے ہیں  تواسے پیدائش میں  الٹا پھیردیتے ہیں کہ وہ بچپن جیسی کمزوری اورناتَوانی کی طرف واپس ہونے لگتا ہے اور دم بدم اس کی طاقتیں ، قوتیں  ،جسم اور عقل کم ہونے لگتے ہیں ، تو کیا اس حالت کو دیکھ کروہ سمجھتے نہیں کہ جو اَحوال کو بدلنے پر ایسا قادر ہو کہ بچپن کی کمزوری، ناتوانی، چھوٹے جسم اور نادانی کے بعد شباب کی قوتیں  ، توانائی ،مضبوط جسم اور دانائی عطا فرماتا ہے،پھر بڑی عمر اور عمر کے آخری حصے میں اسی قوی ہیکل جوان کو دبلا اور حقیر کر دیتا ہے، اب نہ وہ جسم باقی ہے نہ قوتیں، نِشَست بَرخاست میں  مجبوریاں درپیش ہیں،  عقل کام نہیں  کرتی ، بات یاد نہیں  رہتی ، عزیز و اَقارب کو پہچان نہیں  سکتا ، توجس پروردگار نے یہ تبدیلی کی وہ اس پر قادر ہے کہ آنکھیں  دینے کے بعد انہیں  مٹا دے اور اچھی صورتیں  عطا کرنے کے بعد ان کو مَسخ کر دے اور موت دینے کے بعد پھر زندہ کر دے ۔( خازن، یس، تحت الآیۃ: ۶۸، ۴ / ۱۱، مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۹۹۲-۹۹۳، ملتقطاً)

36:69
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗؕ-اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌۙ(۶۹)
اور ہم نے ان کو شعر کہنا نہ سکھایا (ف۸۸) اور نہ وہ ان کی شان کے لائق ہے، وہ تو نہیں مگر نصیحت اور روشن قرآن (ف۸۹)

{وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ: اور ہم نے نبی کو شعر کہنا نہ سکھایا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہ شعر گوئی کا ملکہ دیا ہے اور نہ قرآن مجید شعر کی تعلیم ہے اور نہ ہی شعر کہنا میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان کے لائق ہے اور قرآنِ کریم کی شان تو یہ ہے کہ وہ صاف صریح حق و ہدایت ہے ، توکہاں  وہ تمام علوم کی جامع پاک آسمانی کتاب اور کہاں  شعر جیسا جھوٹاکلام ، ان میں  نسبت ہی کیا ہے۔ شانِ نزول:کفارِ قریش نے کہا تھا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) شاعر ہیں  اور جو وہ فرماتے ہیں  یعنی قرآنِ پاک وہ شعر ہے، اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ (مَعَاذَ اللہ) یہ کلام جھوٹا ہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں  ا ن کا مقولہ نقل فرمایا گیا ہے کہ

’’بَلِ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ ‘‘(الانبیاء:۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بلکہ خود اس (نبی) نے اپنی طرف سے بنالیا ہے بلکہ یہ شاعر ہیں ۔

اسی کا اس آیت میں  رد فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایسی باطل گوئی کا ملکہ ہی نہیں  دیا اور یہ کتاب اَشعار یعنی جھوٹی باتوں  پر مشتمل نہیں  ، کفارِ قریش زبان سے ایسے بدذوق اور نظمِ عروضی سے ایسے ناواقف نہ تھے کہ نثر کو نظم کہہ دیتے اور کلامِ پاک کو شعر ِعروضی بتا بیٹھتے اور کلام کا مَحض وزنِ عروضی پر ہونا ایسا بھی نہ تھا کہ اس پر اعتراض کیا جا سکے ، اس سے ثابت ہو گیا کہ ان بے دینوں  کی شعر سے مراد جھوٹا کلام تھی۔( مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۹۹۳، جمل، یس، تحت الآیۃ: ۶۹، ۶ / ۳۰۷، روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۶۹، ۷ / ۴۳۱، خزائن العرفان، یس، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۸۲۳، ملتقطاً)

نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اَوّلین وآخرین کے علوم تعلیم فرمائے گئے ہیں:

            صدرُ الافاضل ،مولانانعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  : اس آیت میں  اشارہ ہے کہ حضور سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علومِ اَوّلین وآخرین تعلیم فرمائے گئے جن سے کشف ِحقائق ہوتا ہے اور آپ کی معلومات واقعی نفس الامری ہیں  ، کِذبِ شِعری نہیں  جو حقیقت میں  جہل ہے، وہ آپ کی  شان کے لائق نہیں  اور آپ کا دامنِ تقدس اس سے پاک ہے ۔ اس میں  شعر بمعنی کلامِ مَوزون کے جاننے اور اس کے صحیح و سقیم جید و رَدِی کو پہچاننے کی نفی نہیں  ۔ علم ِنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں  طعن کرنے والوں  کے لئے یہ آیت کسی طرح سند نہیں  ہو سکتی، اللہ تعالیٰ نے حضور (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو علومِ کائنات عطا فرمائے، اس کے انکار میں  اس آیت کو پیش کرنا محض غلط ہے۔(خزائن العرفان، یس، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۸۲۳)

36:70
لِّیُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ(۷۰)
کہ اسے ڈرائے جو زندہ ہو (ف۹۰) اور کافروں پر بات ثابت ہوجائے (ف۹۱)

{لِیُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَیًّا: تاکہ وہ ہر ایسے شخص کو ڈرائے جو زندہ ہو۔} مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ یہاں  ڈرانے والے سے مراد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں  اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قرآنِ مجید ہے،اورزندہ سے مراد وہ شخص ہے جو دل کا زندہ ہو اور کلام و خطاب کو سمجھتا ہے ،یہ مومن کی شان ہے ۔ اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہوگا: قرآنِ پاک نصیحت اور روشن قرآن ہے تا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یا قرآن، مومن کو گناہوں  پر ہونے والے عذاب سے ڈرائیں  (تاکہ وہ گناہوں  سے باز رہے) اور کفر پر قائم رہنے والے کافروں  پر عذاب کی بات ثابت ہو جائے۔ اس میں  اشارہ ہے کہ جس دل میں  اللہ تعالیٰ کی معرفت کا نور ہو وہی دل زندہ ہوتا ہے اور اسی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانا فائدہ مند ہوتا ہے،وہی اس ڈرانے کا اثر قبول کرتا ہے اور دنیا سے اِعراض کر کے آخرت اور اپنے پرودرگار کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔بعض مفسرین نے فرمایا کہ زندہ سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں  ایمان لانے والا ہے کیونکہ ہمیشہ کی کامیاب زندگی تو صرف ایمان سے حاصل ہوتی ہے، یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے علم میں  ایمان والا ہے اس کا ایمان ایسے ہے جیسے بدن کے لئے زندگی کیونکہ ایمان ابدی زندگی حاصل ہونے کا سبب ہے۔اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہوگا:قرآنِ پاک نصیحت اور روشن قرآن ہے تا کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یا قرآن اسے عذاب سے ڈرائیں  جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ایمان لانے والا ہے تاکہ وہ ایمان لے آئے اور کفر پر قائم رہنے والے کافروں  پر عذاب کی بات ثابت ہو جائے۔( تفسیرکبیر، یس، تحت الآیۃ: ۷۰، ۹ / ۳۰۵، جلالین، یس، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۳۷۲، روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۷۰، ۷ / ۴۳۲، ملتقطاً)

 

36:71
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَاۤ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ(۷۱)
اور کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ ہم نے اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے چوپائے ان کے لیے پیدا کیے تو یہ ان کے مالک ہیں،

{اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ: اور کیا انہوں  نے نہ دیکھا کہ ہم نے ان کے لیے پیدا کیے۔} اِس آیت سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کو دلائل کے ساتھ بیان کیاجارہا ہے ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا مکہ کے مشرکین نے اس بات پر غور نہیں  کیا اور یقینی طور پر نہیں  جانا کہ ہم نے اپنی قدرت سے بنائے ہوئے چوپائے ان کے اور ان کے فائدے کے لئے پیدا کیے اور یہ ہمارے مالک بنانے کی وجہ سے ان چوپایوں  کے مالک ہیں  اور ان میں  تَصَرُّف کرتے ہیں  کیونکہ چوپایوں  کو پیدا کرنے کے بعد اگر ہم مالک نہ بناتے تو یہ ان سے نفع نہیں  اٹھا سکتے تھے اور ہم نے ان چوپایوں  کو ان کے لیے مُسَخَّر اور تابع کردیا جس کے نتیجے میں  طاقتور اور مضبوط چوپایوں  پر سوار ہونا ،سامان لادنا، جہاں  چاہے انہیں  لے جانا اور ذبح کرنا ان کے لئے کوئی مشکل نہیں  اور ان کے بڑے بڑے منافع یہ ہیں  کہ کچھ چوپائے ان کی سواریاں  ہیں  اور کچھ سے وہ گوشت اور چربی کھاتے ہیں اوران کے علاوہ بھی چوپایوں  میں  ان کے لیے کئی طرح کے منافع اور فائدے ہیں  جیسا کہ وہ ان کی کھالوں  ، بالوں  اور اون وغیرہ کوکام میں  لاتے ہیں  اور پینے کی چیزیں  جیسے دودھ اور دودھ سے بننے والی چیزیں  جیسے دہی وغیرہ حاصل ہوتی ہیں ، تو کیا وہ مشرکین یہ نعمتیں  عطا فرمانے والے رب تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کر کے اور عبادت میں  کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرا کراس کاشکر ادا نہیں  کریں  گے۔( تفسیرکبیر، یس، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۳، ۹ / ۳۰۶، روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۳، ۷ / ۴۳۳-۴۳۴، ملتقطاً)

          نوٹ:آیت میں  ہاتھ کالفظ ہے،یہ بطورِ محاورہ کے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ جسم اور جسمانی ہاتھوں  سے پاک ہے۔        

 

36:72
وَ ذَلَّلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَ مِنْهَا یَاْكُلُوْنَ(۷۲)
اور انہیں ان کے لیے نرم کردیا (ف۹۲) تو کسی پر سوار ہوتے ہیں اور کسی کو کھاتے ہیں،

36:73
وَ لَهُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ وَ مَشَارِبُؕ-اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ(۷۳)
اور ان کے لیے ان میں کئی طرح کے نفع (ف۹۳) اور پینے کی چیزیں ہیں (ف۹۴) تو کیا شکر نہ کریں گے (ف۹۵)

36:74
وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لَّعَلَّهُمْ یُنْصَرُوْنَؕ(۷۴)
اور انہوں نے اللہ کے سوا اور خدا ٹھہرالیے (ف۹۶) کہ شاید ان کی مدد ہو (ف۹۷)

{وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً: اور انہوں  نے اللہ کے سوا اور معبود بنالئے۔} یہاں  سے کفارِ مکہ کی گمراہی میں  زیادتی اور انتہاء بیان کی جارہی ہے کہ ان پر تو یہ لازم تھا کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے ا س کی نعمتوں  کا شکر ادا کرتے لیکن انہوں  نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے نفع یا نقصان پہنچانے سے عاجزبتوں  کو پوجنا شروع کر دیا اور ان سے یہ توقُّع رکھنے لگ گئے کہ شاید ان کی مدد ہوجائے اور یہ بت مصیبت کے وقت ان کے کام آئیں  اور عذاب سے بچائیں  اور ایسا ہونا ممکن نہیں  ۔( تفسیرکبیر، یس، تحت الآیۃ: ۷۴، ۹ / ۳۰۶)

36:75
لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَهُمْۙ-وَ هُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُّحْضَرُوْنَ(۷۵)
وہ ان کی مدد نہیں کرسکتے (ف۹۸) اور وہ ان کے لشکر سب گرفتار حاضر آئیں گے (ف۹۹)

{لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَهُمْ: وہ معبودان کی مدد نہیں  کرسکتے۔} یعنی مشرکوں  کا اپنے معبودوں  سے مدد کی توقع رکھنا بیکار ہے، ان کے معبود ان کی مدد کر سکتے ہیں  اور نہ ہی ان سے عذاب دور کر سکتے ہیں  کیونکہ وہ جَماد ،بے جان بے قدرت اور بے شعور ہیں  اور الٹا معاملہ یہ ہے کہ یہ بت پرست خود اپنے معبودوں  کی حفاظت کیلئے ان کے لشکر بنے ہوئے ہیں جو بتوں  کی خدمت کے لئے موجود رہتے ہیں ۔ دوسرا معنی یہ کیا گیا ہے کہ آخرت میں کافروں  کے ساتھ ان کے بت بھی گرفتار کرکے حاضر کئے جائیں  گے اور سب جہنم میں  داخل ہوں  گے، بت بھی اور ان کے پجاری بھی۔ یاد رہے کہ بتوں  کا جہنم میں  داخلہ اپنے پجاریوں  کو عذاب دینے کے لئے ہو گا اور پجاریوں  کا داخلہ عذاب پانے کے لئے ہو گا۔

36:76
فَلَا یَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْۘ-اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ(۷۶)
تو تم ان کی بات کا غم نہ کرو (ف۱۰۰) بیشک ہم جانتے ہیں جو وہ چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں (ف۱۰۱)

{فَلَا یَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ: تو ان کی بات تمہیں  غمگین نہ کرے۔} اس آیت میںاللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب یہ کفار ایسے واضح اور کھلے ہوئے اُمور میں  بھی مخالفت ہی کرتے ہیں  تو آپ کفار کی تکذیب و انکار سے، ان کی ایذاؤں  اور جفا کاریوں  سے غمگین نہ ہوں، بیشک ہم جانتے ہیں جو وہ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہیں ہم انہیں  ان کے کردار کی سزا دیں  گے۔( مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۹۹۴، جلالین، یس، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۳۷۲، ملتقطاً)

36:77
اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ(۷۷)
اور کیا آدمی نے نہ دیکھا کہ ہم نے اسے پانی کی بوند سے بنایا جبھی وہ صریح جھگڑالو ہے (ف۱۰۲)

{اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ: اور کیا آدمی نے نہ دیکھا۔} شانِ نزول:یہ آیت عاص بن وائل یا ابوجہل اور مشہور قول کے مطابق اُبی بن خلف کے بارے میں  نازل ہوئی جو مرنے کے بعد اٹھنے کے انکار میں  سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بحث و تکرار کرنے آیا تھا ، اس کے ہاتھ میں  ایک گلی ہوئی ہڈی تھی،وہ اس کو توڑتا جاتا اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہتا جاتا تھا کہ کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ اس ہڈی کو گل جانے اور ریزہ ریزہ ہو جانے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ زندہ کرے گا؟ حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’ہاں ! اور تجھے بھی مرنے کے بعد اٹھائے گا اور جہنم میں  داخل فرمائے گا۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور اس کی جہالت کا اظہار فرمایا گیا، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جو انسان گلی ہوئی ہڈی کا بکھرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی قدرت سے زندگی قبول کرنااپنی نادانی سے ناممکن سمجھتا ہے ، وہ کتنا احمق ہے ،اپنے آپ کو نہیں  دیکھتا کہ ابتدا میں  ایک گندہ نطفہ تھا جو کہ گلی ہوئی ہڈی سے بھی حقیر تر ہے ، اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ نے اس میں  جان ڈالی ، انسان بنایا تو ایسا مغرور و متکبر انسان ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہی کا منکر ہو کر جھگڑنے آ گیا ، اتنا نہیں  دیکھتا کہ جو قادرِ برحق پانی کی بوند کوایک قوی اور طاقتورانسان کی صورت بنا دیتا ہے اس کی قدرت سے گلی ہوئی ہڈی کو دوبارہ زندگی بخش دینا کیا بعید ہے اور اس کو ناممکن سمجھنا کتنی کھلی ہوئی جہالت ہے اور وہ گلی ہوئی ہڈی کو ہاتھ سے مل کر ہمارے لئے مثال دیتا ہے کہ یہ ہڈی تو ایسی بکھری ہوئی ہے، یہ کیسے زندہ ہو گی اوریہ کہتے ہوئے اپنی پیدائش کوبھول گیا کہ منی کے قطرے سے پیدا کیاگیا ہے۔ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ا س سے فرما دیں  کہ ان ہڈیوں  کو وہ زندہ کرے گا جس نے پہلی بار انہیں  بنایا اور وہ پہلی اور بعد والی ہر پیدائش کو جاننے والاہے اور جب اس کا علم بھی کامل ہے ،قدرت بھی کامل تو پھر تمہیں  دوبارہ زندہ کئے جانے کو ماننے میں  کیوں  تأمُّل ہے۔(خازن، یس، تحت الآیۃ: ۷۷-۷۹، ۴ / ۱۳، البحر المحیط، یس، تحت الآیۃ: ۷۷-۷۹، ۷ / ۲۳۲، مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۷۷-۷۹، ص۹۹۴، ملتقطاً)

 

36:78
وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلْقَهٗؕ-قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ هِیَ رَمِیْمٌ(۷۸)
اور ہمارے لیے کہاوت کہتا ہے (ف۱۰۳) اور اپنی پیدائش بھول گیا (ف۱۰۴) بولا ایسا کون ہے کہ ہڈیوں کو زندہ کرے جب وہ بالکل گل گئیں،

36:79
قُلْ یُحْیِیْهَا الَّذِیْۤ اَنْشَاَهَاۤ اَوَّلَ مَرَّةٍؕ-وَ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمُۙﰳ(۷۹)
تم فرماؤ وہ زندہ کرے گا جس نے پہلی بار انہیں بنایا، اور اسے ہر پیدائش کا علم ہے (ف۱۰۵)

36:80
الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَاۤ اَنْتُمْ مِّنْهُ تُوْقِدُوْنَ(۸۰)
جس نے تمہارے لیے ہرے پیڑ میں ا ٓ گ پیدا کی جبھی تم اس سے سلگاتے ہو (ف۱۰۶)

{اَلَّذِیْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا: جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے ا ٓ گ پیدا کی۔} عرب کے دو درخت ہوتے ہیں  جو وہاں  کے جنگلوں  میں  کثرت سے پائے جاتے ہیں  ایک کا نام مَرخ ہے دوسرے کا عَفار، ان کی خاصیت یہ ہے کہ جب ان کی سبز شاخیں  کاٹ کر ایک دوسرے پر رگڑی جائیں  تو ان سے آگ نکلتی ہے حالانکہ وہ اتنی تر ہوتی ہیں  کہ ان سے پانی ٹپکتا ہوتا ہے ۔ اس میں  قدرت کی کیسی عجیب و غریب نشانی ہے کہ آگ اور پانی دونوں ایک دوسرے کی ضد ، ہر ایک ایک جگہ ایک لکڑی میں  موجود ، نہ پانی آگ کو بجھائے نہ آگ لکڑی کو جلائے ، جس قادرِ مُطْلَق کی یہ حکمت ہے وہ اگر ایک بدن پر موت کے بعد زندگی وارِد کرے تو اس کی قدرت سے کیا عجیب اور اس کو ناممکن کہنا آثارِ قدرت دیکھ کر جاہلانہ اور سرکشی والا انکار کرنا ہے۔( جلالین، یس، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۳۷۳، مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۹۹۵، ملتقطاً)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

يـٰسٓ
يـٰسٓ
  00:00



Download

يـٰسٓ
يـٰسٓ
  00:00



Download