Surah Saba
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ: تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ۔} یعنی کامل شکر اور ہر طرح کی تعریف کا مستحق صرف وہ معبود ہے جو ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں میں موجود ہر چیز کا (خالق اور) مالک ہے اور جن معبودوں کی کفار عبادت کرتے ہیں وہ کسی تعریف کے مستحق ہیں اور نہ ہی کسی چیز کے مالک ہیں ۔( تفسیر طبری، سبأ، تحت الآیۃ: ۱، ۱۰ / ۳۴۴، ملخصاً)
{وَ لَهُ الْحَمْدُ فِی الْاٰخِرَةِ: اور آخرت میں اسی کی تعریف ہے۔} یعنی جیسے دنیا میں حمد کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے ویسے ہی آخرت میں بھی حمد کامستحق وہی ہے کیونکہ دونوں جہان اسی کی نعمتوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔
دنیا اور آخرت کی حمد میں فرق:
دنیا اور آخرت کی حمد میں فرق یہ ہے کہ دنیا میں بندوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنا واجب ہے کیونکہ دنیا مُکَلَّف بنائے جانے کا مقام ہے جبکہ آخرت میں حمد و ثنا واجب نہیں کیونکہ آخرت مُکَلَّف بنائے جانے کا مقام نہیں ،آخرت میں اہلِ جنت نعمتوں کے سُرُور اور راحتوں کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کی حمد کریں گے۔( مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱، ص۹۵۵، ابو سعود، سبأ، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۳۸، ملتقطاً)
آخرت میں اہلِ جنت کی حمد کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
’’وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ نَشَآءُۚ-فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ‘‘(زمر:۷۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ کہیں گے: سب خوبیاں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے اپنا وعدہ ہم سے سچا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث کیا، ہم جنت میں جہاں چاہیں رہیں گے تو کیا سہی اچھا اجر ہے عمل کرنے والوں کا۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَؕ-اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۙﰳ(۳۴)الَّذِیْۤ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖۚ-لَا یَمَسُّنَا فِیْهَا نَصَبٌ وَّ لَا یَمَسُّنَا فِیْهَا لُغُوْبٌ‘‘(فاطر:۳۴،۳۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ کہیں گے سب خوبیاں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے ہم سے غم دور کر دیا، بیشک ہمارا رب بخشنے والا، قدر فرمانے والا ہے۔ وہ جس نے ہمیں اپنے فضل سے ہمیشہ ٹھہرنے کے گھر میں اتارا، ہمیں اس میں نہ کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ ہمیں اس میں کوئی تھکاوٹ چھوئے گی۔
اور حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اہل جنت کو تسبیح اور حمد کا اس طرح الہام ہو گا جیسے سانس آتا جاتا ہے۔( مسلم،کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب فی صفات الجنّۃ واہلہا۔۔۔ الخ، ص۱۵۲۰، الحدیث: ۱۸(۲۸۳۵))
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی تعریف اللہ تعالیٰ کی ہی تعریف ہے،جیسے قیامت میں حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بہت حمد ہوگی ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا‘‘(بنی اسرائیل:۷۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو ایسے مقام پر فائز فرمائے گا کہ جہاں سب تمہاری حمد کریں ۔
لیکن وہ حمد چونکہ بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اس لئے زیرِ تفسیر آیت کا حصر درست ہے ۔
{یَعْلَمُ: وہ جانتا ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے چند وہ چیزیں بیان فرمائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کا علم محیط ہے اور ان میں لوگوں کادُنْیَوی اور اُخروی فائدہ ہے،چنانچہ ا رشاد فرمایا کہ جو کچھ زمین کے اندر داخل ہوتا ہے ،جیسا کہ بارش کا پانی ، مردے اور دفینے، یونہی جو زمین سے نکلتا ہے،جیسے سبزہ ، درخت ، چشمے، کانیں اور حشر کے وقت مردے پھرجوکچھ آسمان کی طرف سے اترتا ہے،جیسے بارش، برف، اولے ،طرح طرح کی برکتیں اور فرشتے اوراسی طرح جو آسمانوں میں چڑھتا ہے،جیسے فرشتے ، دعائیں اور بندوں کے عمل ،سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں اور وہی اپنی نعمتوں پر حمد کرنے والوں پر مہربان ہے اور حمد میں کمی کرنے والوں کو اپنے لطف و کر م سے بخشنے والاہے۔( ابوسعود، سبأ، تحت الآیۃ:۲، ۴ / ۳۳۸، خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۵۱۶، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۲، ص۹۵۵، ملتقطاً)
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور کافروں نے کہا۔} مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والے کفار نے کہا کہ ہم پر قیامت نہ آئے گی۔ ان کا رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار سے فرما دیں کہ قیامت کیوں نہیں آئے گی، میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! بے شک قیامت تم پرضرور آئے گی، میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی شان یہ ہے کہ وہ غیب کا جاننے والا ہے اوراس سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں ، جب ہر چیز اسے معلوم ہے تو قیامت کا آنا اور اس کے قائم ہونے کا وقت بھی اس کے علم میں ہے۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۵۱۶، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۳، ص۹۵۵-۹۵۶، ملتقطاً)
{لَا یَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ: آسمانوں میں اور زمین میں ذرہ برابر بھی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔} قیامت کا انکار کرنے والوں کاایک یہ اعتراض تھا کہ انسانوں کے اَجزا بکھرنے کے بعد اس طرح کیسے جمع ہو سکیں گے کہ کسی کے بدن کا کوئی جز دوسرے کے بدن میں نہ پہنچنے پائے۔ اس آیت میں اس اعتراض کاا نتہائی نفیس طریقے سے جواب دیا گیا کہ تم نے مخلوق کی پَراگندگی کو دیکھا ہے جبکہ خالق کی قدرت و علم کا اندازہ نہ کیا کہ وہ ہر بدن کے ہر ذرے کو جانتا ہے۔آیت کے آخری حصے میں ارشاد فرمایا کہ ذرہ سے بھی چھوٹی اور بڑی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ایک صاف بیان کرنے والی کتاب لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی نہ ہو ۔( روح المعانی، سبأ، تحت الآیۃ: ۳، ۱۱ / ۳۸۳، خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۵۱۶، ملتقطاً)
{لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: تاکہ اللہ ایمان لانے والوں کو بدلہ دے۔} اس آیت میں قیامت قائم کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بیشک قیامت تم پرضرور آئے گی تاکہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کو بدلہ دے ،ان عظیم صفات والے لوگوں کے لیے ایمان اور اچھے اعمال کے بدلے میں بخشش اور عزت کی روزی ہے۔(ابوسعود، سبأ، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۳۹، ملخصاً)
بعض مفسرین نے اس آیت کے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں کہ ذرے سے بھی چھوٹی بڑی ہر چیز کو لوحِ محفوظ میں لکھ دیا گیا تا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بدلہ دے جو اللہ تعالیٰ اورا س کے رسول پر ایمان لائے اور انہوں نے وہ کام کئے جن کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے حکم دیا اور جن کاموں سے منع کیا ان سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کرتے ہوئے رک گئے ، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے بخشش اور قیامت کے دن جنت میں عزت کی روزی ہے۔( تفسیر طبری، سبأ، تحت الآیۃ: ۴، ۱۰ / ۳۴۶)
{وَ الَّذِیْنَ سَعَوْ فِیْۤ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیْنَ: اور جنہوں نے ہم سے مقابلہ کرتے ہوئے ہماری آیتوں میں کوشش کی۔} اس سے پہلی آیت میں قیامت کے دن اہلِ ایمان کا حال بیان کیا گیا اورا س آیت میں کفار کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ جنہوں نے ہم سے مقابلہ کرتے ہوئے ہماری آیتوں کو جھٹلانے میں کوشش کی اور ان پر اعتراضات کرکے اور اُنہیں شعر اور جادو وغیرہ بتا کر لوگوں کو ان کی تصدیق کرنے سے روکنا چاہا، ان کے لیے سخت عذاب میں سے دردناک عذاب ہے۔( ابو سعود، سبأ، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۳۹، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں کوشش کی دو اَقسام:
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں کوشش دو طرح کی ہے۔ ایک اچھی اور دوسری بری۔قرآن پاک کی آیات کو سمجھنے یا سمجھانے کی کوشش، ان سے مسائل و اَسرار نکالنے کی کوشش اچھی اور عبادت ہے ،لیکن انہیں غلط ثابت کرنے، ان میں باہمی ٹکراؤ دکھانے اور انہیں جھٹلانے کی کوشش بری اورکفر ہے۔ یہاں آیت میں یہ دوسری کوشش مراد ہے۔ کفار کی جانب سے قرآنِ پاک کی آیتوں پر اعتراضات وغیرہ کا مزید بیان اسی سورت کے آخری رکوع میں آئے گا۔
{وَ یَرَى الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ: اور جنہیں علم دیا گیا ہے وہ سمجھتے ہیں ۔} اس آیت میں اہلِ ایمان کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ یا اہل ِکتاب میں سے ایمان لانے والے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور اُن کے ساتھی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ، وہ جانتے، دیکھتے اور سمجھتے ہیں کہ جو قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جانب نازل کیا گیا ہے، وہی حق ہے اوروہ قرآن عزت والے اورحمد کے مستحق اللہ تعالیٰ کے راستے یعنی دین ِاسلام کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۵۱۶، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۶، ص۹۵۶، ملتقطاً)
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور کافروں نے کہا۔} اس آیت میں کفار کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ کافروں نے تعجب کرتے ہوئے ایک دوسرے سے کہا: کیا ہم تمہیں ایک ایسے مرد کے بارے میں بتادیں جو تمہیں یہ عجیب و غریب خبر دے کہ جب تم مرنے کے بعد بالکل ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تو پھر تمہیں دوبارہ نئے سرے سے پیداکیا جائے گا۔ وہ مرد محمد ِمصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ۔( جلالین، السبا، تحت الآیۃ: ۷، ص۳۵۹، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۷، ص۹۵۶، ملتقطاً)
{اَفْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا: کیا اس (نبی) نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے۔} اس آیت میں ایک احتمال یہ ہے کہ یہ کفار کی گفتگو کا بقیہ حصہ ہے اور ایک احتمال یہ ہے کہ جو کفار گفتگو سن رہے تھے ،انہوں نے کہا کہ کیااس نبی نے اللہ تعالیٰ کی طرف یہ بات منسوب کر کے اس پر جھوٹ باندھا ہے یا اسے پاگل پن کا مرض ہے جو وہ ایسی عجیب وغریب باتیں کہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے کفار کی اس بات کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دونوں باتیں نہیں ، میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان دونوں باتوں سے پاک اور بری ہیں بلکہ وہ کافر جو مرنے کے بعد اٹھائے جانے اور حساب کا انکار کرنے والے ہیں وہ عذاب اور دور کی گمراہی میں ہیں اور وہ اس چیز سے غافل ہیں ۔( تفسیرکبیر،سبأ، تحت الآیۃ:۸، ۹ / ۱۹۵، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ:۸، ص۹۵۷، خازن، سبأ، تحت الآیۃ:۸، ۳ / ۵۱۷، ملتقطاً)
{اَفَلَمْ یَرَوْا: تو کیا انہوں نے نہ دیکھا۔} کفار کا رد کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ کیا وہ اندھے ہیں کہ انہوں نے آسمان وز مین کی طرف نظر ہی نہیں ڈالی اور اپنے آگے پیچھے دیکھا ہی نہیں جو انہیں معلوم ہوجاتا کہ وہ ہر طرف سے اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہیں اور وہ زمین و آسمان کے کناروں سے باہر نہیں جاسکتے اور خدا کے ملک سے نہیں نکل سکتے اور انہیں بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ،اُنہوں نے آیات اور رسول کی تکذیب و انکار کے دہشت انگیز جرم کا اِرتکاب کرتے ہوئے خوف نہ کھایا اور اپنی اس حالت کا خیال کرکے نہ ڈرے۔اگر ہم چاہیں توان کی تکذیب و انکار کی سزامیں قارون کی طرح انہیں زمین میں دھنسادیں یا ان پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرادیں ۔ بیشک زمین و آسمان کی طرف نظر کرنے اور ان میں غورو فکر کرنے میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف رجوع لانے والے ہربندے کے لیے نشانی ہے جو ا س بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر اور اس کے منکر کوعذاب دینے پر اور ہرممکن چیز پر قادر ہے۔( مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۹، ص۹۵۷، ابو سعود، سبأ، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۳۴۱، ملتقطاً)
{وَ لَقَدْ: اور بیشک۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تین فضائل بیان فرمائے ہیں ۔
(1)…حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی طرف سے بڑا فضل دیا۔
(2)…پہاڑوں اور پرندوں کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ تسبیح کرنے کا حکم دیا۔
(3)… حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے لوہا نرم فرما دیا۔
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مزید4 فضائل:
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تین فضائل تو اس آیت میں بیان ہوئے اور مزید 4فضائل درجِ ذیل آیات میں بیان ہوئے ہیں ۔
(1)… حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زبور عطا فرمائی گئی،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۵۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے نبیوں میں ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا فرمائی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔
(2)… انہیں کثیر علم عطا فرمایا گیا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا‘‘(النمل:۱۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو بڑا علم عطا فرمایا۔
(3)… انہیں غیر معمولی قوت سے نوازا گیا،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِۚ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ‘‘(ص:۱۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہمارے نعمتوں والے بندے داؤد کو یاد کرو بیشک وہ بڑا رجوع کرنے والا ہے۔
(4)… انہیں زمین میں خلافت سے سرفراز کیا گیا،چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ‘‘(ص:۲۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے داؤد! بیشک ہم نے تجھے زمین میں (اپنا) نائب کیا۔
{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا: اور بیشک ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بڑا فضل دیا۔} آیت کے اس حصے میں بڑے فضل سے مراد نبوت اور کتاب ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ملک ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے آواز کی خوبصورتی وغیرہ وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خصوصیت کے ساتھ عطا فرمائی گئیں ۔ (خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۵۱۷)
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورحضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اللہ تعالیٰ کے فضل میں فرق:
آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی طرف سے بڑا فضل دیا جبکہ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے ہر طرح کے فضل اور فضل کے کمال کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ ارشاد فرمایاکہ
’’وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(النساء:۱۱۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور آپ پر اللہ کافضل بہت بڑا ہے۔
{یٰجِبَالُ: اے پہاڑو!} اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو حکم دیا کہ ’’ اے پہاڑواور اے پرندو!جب حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تسبیح کریں تو تم بھی ان کے ساتھ تسبیح کرو ۔چنانچہ جب حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تسبیح کرتے تو پہاڑوں سے بھی تسبیح سنی جاتی اور پرندے جھک آتے ۔یہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا معجزہ تھا۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۵۱۷، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۹۵۷، ملتقطاً)
نوٹ:حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ا س فضیلت کا بیان سورۂ انبیاء کی آیت نمبر79میں بھی گزر چکا ہے۔
{وَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَ: اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کردیا۔} حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے اللہ تعالیٰ نے لوہا نرم فرما دیا کہ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دست مبارک میں آتا تو موم یا گندھے ہوئے آٹے کی طرح نرم ہوجاتا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے جو چاہتے بغیر آگ کے اور بغیر ٹھونکے پیٹے بنالیتے۔
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے لوہا نرم کئے جانے کا سبب:
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے لوہا نرم کرنے کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لوگوں کے حالات کی جستجو کے لئے اس طرح نکلتے کہ لوگ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو پہچان نہ سکیں ،اور جب کوئی ملتا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہچان نہ پاتاتو اس سے دریافت کرتے کہ’’ داؤد کیسا شخص ہے ؟وہ شخص ان کی تعریف کرتا۔اس طرح جن سے بھی اپنے بارے میں پوچھتے تو سب لوگ آپ کی تعریف ہی کرتے ۔اللہ تعالیٰ نے انسانی صورت میں ایک فرشتہ بھیجا۔حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے بھی حسبِ عادت یہی سوال کیا تو فرشتے نے کہا ’’ داؤد ہیں تو بہت ہی اچھے آدمی، کاش! ان میں ایک خصلت نہ ہوتی ۔ اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام متوجہ ہوئے اور اس سے فرمایا: ’’اے خدا کے بندے !وہ کون سی خصلت ہے؟ اس نے کہا: وہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا خرچ بیتُ المال سے لیتے ہیں ۔یہ سن کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خیال میں آیا کہ اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیتُ المال سے وظیفہ نہ لیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہ ِالٰہی میں دعا کی کہ اُن کے لئے کوئی ایسا سبب بنادے جس سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے اہل و عیال کا گزارہ کرسکیں اور بیت المال (یعنی شاہی خزانے) سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بے نیازی ہو جائے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے لوہے کو نرم کر دیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زِرہ سازی کی صَنعت کا علم دیا ۔سب سے پہلے زرہ بنانے والے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی ہیں ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روزانہ ایک زرہ بناتے تھے اور و ہ چار ہزار درہم میں بکتی تھی اس میں سے اپنے اور اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ فرماتے اور فقراء و مَساکین پر بھی صدقہ کرتے۔ (خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۵۱۷، ملخصاً)
نوٹ: حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ا س فضیلت کا بیان سورۂ اَنبیاء کی آیت نمبر80میں بھی گزر چکا ہے۔
{اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ: کہ کشادہ زِر ہیں بناؤ۔} ارشادفرمایا کہ ہم نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے لوہا نرم کرکے اُن سے فرمایا’’ کشادہ زِر ہیں بناؤ اور بنانے میں اندازے کا لحاظ رکھو کہ اس کے حلقے ایک جیسے اور مُتَوَسَّط ہوں ، بہت تنگ یا کشادہ نہ ہوں ۔ (بیضاوی، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۳۹۴، ملخصاً)
اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی کمائی نہیں :
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہو اکہ عظمت و فضیلت رکھنے والی کسی شخصیت کا (ذریعۂ معاش کے لئے) کوئی صنعت اور فن سیکھنا جائز ہے اور اِس سے ان کے مرتبے میں کوئی کمی نہ ہو گی بلکہ ان کی فضیلت میں ا ور زیادہ اضافہ ہو گا کیونکہ اس سے ان کی عاجزی کا اظہار ہوگااور دوسروں سے بے نیازی بھی حاصل ہو گی۔ (روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۷ / ۲۶۸)
یاد رہے کہ عمومی طور پر ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے ہاتھ کی محنت سے کمائے اور اس سے خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے ۔اَحادیث میں اس کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں ،ترغیب کے لئے یہاں اس کے6فضائل ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت مقدام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کسی نے ہر گز اس سے بہتر کھانانہیں کھایا جو وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائے اور بے شک اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا کرتے تھے ۔( بخاری، کتاب البیوع، باب کسب الرجل وعملہ بیدہ، ۲ / ۱۱، الحدیث: ۲۰۷۲)
(2)…حضرت مقدام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی کی اس سے بہتر کوئی کمائی نہیں جو وہ اپنے ہاتھ سے کام کر کے کمائے اور وہ جو کچھ اپنی ذات، اپنے اہلِ خانہ،اپنی اولاد اور اپنے خادم پر خرچ کرتا ہے وہ سب صدقہ ہوتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب الحثّ علی المکاسب، ۳ / ۶، الحدیث: ۲۱۳۸)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’گناہوں میں سے بہت سے گناہ ایسے ہیں جنہیں نہ نماز مٹاتی ہے ،نہ روزہ مٹاتا ہے ،نہ حج اور عمرہ مٹاتے ہیں ۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، پھر کون سی چیز ان گناہوں کو مٹاتی ہے ۔ارشاد فرمایا’’رزق تلاش کرنے میں غمزدہ ہونا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۴۲، الحدیث: ۱۰۲)
(5)…حضرت زبیر بن عوام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی شخص رسی لے کر جائے اور اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا گٹھا لا کر بیچے اور سوال کی ذلت سے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو بچائے تویہ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے کہ لوگ اُسے دیں یا نہ دیں ۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسألۃ، ۱ / ۴۹۷، الحدیث: ۱۴۷۱)
(6)… حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک انصاری نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ اَقدس میں حاضرہو کر سوال کیا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟ اس نے عرض کی:جی ہے اور وہ ایک ٹاٹ ہے جس کا ایک حصہ ہم اوڑھتے ہیں اور ایک حصہ بچھاتے ہیں اور ایک لکڑی کا پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا’’ دونوں چیزوں کو میرے حضورحاضر کرو۔انہوں نے حاضر کر دیں تو حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں اپنے دست ِمبارک میں لے کر ارشاد فرمایا’’ انہیں کون خریدتا ہے؟ ایک صاحب نے عرض کی: ایک درہم کے عوض میں خریدتا ہوں ۔ ارشاد فرمایا’’ ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟ یہ بات دو یا تین بار فرما ئی تو کسی اور صاحب نے عرض کی: میں دو درہم کے بدلے لیتا ہوں ۔ انہیں یہ دونوں چیزیں دے دیں اور درہم لے لیے اور انصاری کو دونوں درہم دے کر ارشاد فرمایا’’ ایک کا غلہ خرید کر گھر ڈال آؤ اور ایک کی کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔وہ لے کرحاضر ہوئے تو حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے دستِ مبارک سے اُس میں دستہ ڈالا اور فرمایا’’ جاؤ لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں (یعنی اتنے دنوں تک یہاں حاضر نہ ہونا) وہ گئے اور لکڑیاں کاٹ کر بیچتے رہے،پندرہ دن بعد حاضر ہوئے تو اُن کے پاس دس درہم تھے، چند درہم کا کپڑا خریدا اور چند کا غلہ۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ یہ اس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال تمہارے منہ پر چھالا بن کر آتا۔(ابو داؤد، کتاب الزکاۃ، باب ما تجوز فیہ المسألۃ، ۲ / ۱۶۸، الحدیث: ۱۶۴۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ہاتھ کی محنت سے کما کر کھانے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا: اور تم سب نیکی کرو۔} یعنی اے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے گھر والو! تم سب نیک اعمال کرو، بیشک میں تمہارے کام دیکھ رہا ہوں تو میں تمہیں ان کی جزا دوں گا ۔ (مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۹۵۸)
نیک اعمال کی توفیق پانے کے لئے ایک وظیفہ:
تفسیر روح البیان میں ہے کہ جو شخص جمعہ کی نما زسے پہلے100مرتبہ’’یَا بَصِیْرُ‘‘پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کی بصیرت میں اضافہ فرما دے گا اور اسے اچھی باتوں اور نیک کاموں کی توفیق نصیب فرمائے گا۔( روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۷ / ۲۶۸)
{وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ: اور ہوا کو سلیمان کے قابو میں دیدیا۔} یہاں سے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فضائل بیان کئے جا رہے ہیں ،ارشاد فرمایا کہ ہم نے ہوا کو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قابو میں دے دیا۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا صبح کا چلناایک مہینے کی راہ اور شام کا چلنا ایک مہینے کی راہ کے برابرہوتا تھا،چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام صبح کے وقت دمشق سے روانہ ہوتے تو دوپہر کو قَیلولَہ اِصْطَخْرْ میں فرماتے۔یہ ملک ِفارس کا ایک شہر ہے اور دمشق سے ایک مہینہ کی راہ پر ہے اور شام کو اِصْطَخْرْسے روانہ ہوتے تو رات کو کابل میں آرام فرماتے۔ یہ بھی تیز سوار کے لئے ایک مہینے کا راستہ ہے۔( مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۵۸)
نوٹ: حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ا س فضیلت کا بیان سورہ ٔاَنبیاء کی آیت نمبر81میں بھی گزر چکا ہے۔
{وَ اَسَلْنَا لَهٗ عَیْنَ الْقِطْرِ: اور ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہادیا۔} مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ چشمہ تین دن تک سرزمینِ یمن میں پانی کی طرح جاری رہا۔ایک قول یہ ہے کہ وہ چشمہ ہر مہینے میں تین دن جاری رہتا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے تانبے کو پگھلا دیا جیسا کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے لوہے کو نرم کیا تھا۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۵۱۸، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۵۸، ملتقطاً)
{وَ مِنَ الْجِنِّ: اور کچھ جن۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جِنّا ت کو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قابو میں دے دیااور انہیں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے احکام کی پیروی کرنے کا حکم دیا۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۵۱۸)
نوٹ: حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ا س فضیلت کا بیان سورۂ انبیاء کی آیت نمبر82میں بھی گزر چکا ہے۔
{وَ مَنْ یَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا: اوران میں سے جو بھی ہما رے حکم سے پھرے۔} ارشاد فرمایا کہ جِنّا ت میں سے جو بھی ہمارے حکم سے پھرا اور ا س نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فرمانبرداری نہ کی توہم اسے بھڑ کتی آگ کا عذاب چکھائیں گے۔ایک قول یہ ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کرنے والے جنوں کو آخرت میں بھڑکتی آگ کا عذاب چکھایا جائے گا اور ایک قول یہ ہے کہ یہ عذاب دنیا میں ہی چکھایا گیا اور یہ اس طرح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جنات پر ایک ایسافرشتہ مقرر فرما دیاجس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہوتا تھا اورجو جن حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اطاعت سے روگردانی کرتا تو وہ فرشتہ آگ کے کوڑے سے اس جن کو ایسی ضرب مارتا کہ وہ اسے جلا کر رکھ دیتی۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۵۱۸)
{یَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا یَشَآءُ: وہ جنات سلیمان کے لیے ہر وہ چیز بناتے تھے جو وہ چاہتا تھا۔} اس آیت میں بیان ہوا کہ جنات حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے ہر وہ چیز بناتے تھے جو وہ چاہتے تھے ۔ان میں سے چند چیزیں یہ ہیں :
(1)… اونچے اونچے محل ،عالی شان عمارتیں ، مسجدیں اور انہیں میں سے بیت المقدس بھی ہے۔
(2)… تانبے ،بلور اور پتھر وغیرہ سے درندوں اور پرندوں وغیرہ کی تصویریں ۔یاد رہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی شریعت میں تصویر بنانا حرام نہ تھا۔
(3)… بڑے بڑے حوضوں کے برابر کھانے کے پیالے۔یہ پیالے اتنے بڑے ہوتے تھے کہ ایک پیالے میں ایک ہزار آدمی کھانا کھاتے تھے۔
(4)… ایک ہی جگہ جمی ہوئی دیگیں ۔یہ دیگیں اپنے پایوں پر قائم تھیں اور بہت بڑی تھیں حتّٰی کہ اپنی جگہ سے ہٹائی نہیں جاسکتی تھیں ،لوگ سیڑھیاں لگا کر ان پر چڑھتے تھے اوریہ یمن میں تھیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے فرمایا ’’اے داؤد کی آل! تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر کے ان نعمتوں کا شکر ادا کروجو اس نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔(جلالین، السبا، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۳۶۰، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۹۵۸، خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۵۱۹، ملتقطاً)
آیت ’’اِعْمَلُوْۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… شکر بڑی عبادت ہے جو گزشتہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین میں بھی جاری تھی۔
(2)… جس قدررب تعالیٰ کی نعمتیں بندے پر زیادہ ہوں اسی قدر شکر زیادہ کرناچاہیے۔
(3)… نیک بندے اگرچہ تھوڑے ہوں ،یہ برے بندوں سے افضل ہیں خواہ وہ کتنے ہی زیادہ ہوں ۔
{فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْهِ الْمَوْتَ: پھر جب ہم نے سلیمان پر موت کا حکم بھیجا۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی تھی کہ ان کی وفات کا حال جِنّا ت پر ظاہر نہ ہوتا کہ انسانوں کو معلوم ہوجائے کہ جن غیب نہیں جانتے، پھر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام محراب میں داخل ہوئے اور حسب ِعادت نماز کے لئے اپنے عصا کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے ۔جِنّا ت دستور کے مطابق اپنی خدمتوں میں مشغول رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندہ ہیں اورحضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عرصۂ دراز تک اسی حال پر رہنا اُن کے لئے کچھ حیرت کا باعث نہیں ہوا، کیونکہ وہ بارہا دیکھتے تھے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک ماہ، دوماہ اور اس سے زیادہ عرصہ تک عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نماز بہت لمبی ہوتی ہے، حتّٰی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کے پورے ایک سال بعد تک جنات آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات پر مُطَّلع نہ ہوئے اوراپنی خدمتوں میں مشغول رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دیمک نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عصا کھالیااورآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جسم مبارک جو لاٹھی کے سہارے سے قائم تھا زمین پر تشریف لے آیا۔ اس وقت جِنّا ت کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا علم ہوا۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۵۱۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقدّس اَجسام وفات کے بعد گلنے اور مٹنے سے محفوظ ہیں ۔
{فَلَمَّا خَرَّ: پھر جب سلیمان زمین پر آیا۔} یعنی جب حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جسم مبارک زمین پر تشریف لایا تو جنوں پر یہ حقیقت کھل گئی کہ وہ غیب نہیں جانتے کیونکہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات سے مطلع ہوجاتے اور اس ذلت و خواری کے عذاب میں نہ رہتے اور ایک سال تک عمارت کے کاموں میں تکلیف اور مشقتیں اُٹھاتے نہ رہتے۔
مروی ہے کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیتُ المَقْدِس کی بنیاداس مقام پر رکھی تھی جہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خیمہ نصب کیا گیا تھا ۔اس عمارت کے پورا ہونے سے پہلے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا وقت آگیا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے فرزندِ اَرْجْمند حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کی تکمیل کی وصیت فرمائی ،چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جِنّات کو اس کی تکمیل کا حکم دیا۔ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا وقت قریب پہنچا تو آپ نے دعا کی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات جِنّا ت پر ظاہر نہ ہوتاکہ وہ عمارت کی تکمیل تک مصروفِ عمل رہیں اور انہیں جو علمِ غیب کا دعویٰ ہے وہ باطل ہوجائے۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر شریف 53 سال ہوئی ،تیرہ سال کی عمر شریف میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سلطنت کے تخت پر تشریف فرماہوئے اور چالیس سال تک حکمرانی فرمائی۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۵۲۰، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۹۵۹، ملتقطاً)
جِنّات کو غیب کا علم حاصل نہیں :
اس آیت کے آخری حصے ’’تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُهِیْنِ‘‘ سے معلوم ہوا کہ جِنّا ت کو غیب کا علم حاصل نہیں ہے ۔فی زمانہ عوام کی اکثریت اس جہالت میں مبتلا ہے کہ وہ عاملوں کے ذریعے جِنّا ت سے آئندہ کے اَحوال معلوم کرتے ہیں ، اسی طرح بعض مرد اورعورتیں بزرگوں کی سواری آنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور لوگ عقیدت میں ان سے اپنے معاملات کے بارے میں دریافت کرتے اوران کی بتائی ہوئی باتوں کو یقین کی حد تک سچا تصوّر کر لیتے ہیں ۔یاد رکھئے کہ جِنّا ت سے غیب کی بات پوچھنی حماقت اور اَشدحرام ہے اور ان کی دی ہوئی خبر پر یقین رکھنا کفر ہے ۔اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان عَلَیْہِرَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : ’’اور اگر غیب کی بات ان سے دریافت کرنی ہو جیسے بہت لوگ حاضرات کرکے موکلاں جن سے پوچھتے ہیں : فلاں مقدمہ میں کیا ہوگا ؟فلاں کام کا انجام کیا ہوگا؟ یہ حرام ہے ا ور کہانت کا شعبہ بلکہ اس سے بدتر ۔زمانۂ کہانت میں جن آسمانوں تک جاتے اور ملائکہ کی باتیں سنا کرتے، ان کو جو احکام پہنچنے ہوتے اور وہ آپس میں تذکرہ کرتے (تو) یہ چوری سے سن آتے اورسچ میں دل سے جھوٹ ملا کر کاہنوں سے کہہ دیتے ،جتنی بات سچی تھی واقع ہوتی، زمانۂ اَقدس حضور سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے اس کا دروازہ بند ہوگیا، آسمانوں پر پہرے بیٹھ گئے، اب جن کی طاقت نہیں کہ سننے جائیں ، جو جاتا ہے ملائکہ اس پر شِہاب مارتے ہیں جس کا بیان سورۂ جن شریف میں ہے ،تو اب جن غیب سے نِرے جاہل ہیں ، ان سے آئندہ کی بات پوچھنی عقلاً حماقت اور شرعاً حرام اور ان کی غیب دانی کا اعتقاد ہو تو کفر ۔( فتاوی افریقہ،ص۱۷۷-۱۷۸)
حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ’’ کسی مرد یا عورت پر کسی بزرگ کی سواری نہیں آتی، یہ دعویٰ فریب ہے ۔ صرف جِنّا ت کا اثر ہوتا ہے وہ بھی کسی کسی پر۔(وقار الفتاوی، پیری مریدی، ۱ / ۱۷۷)
{لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْكَنِهِمْ اٰیَةٌ: بیشک سبا کے لیے ان کی آبادی میں نشانی تھی۔} ان آیات میں ایک ایسی قوم کا واقعہ بیان کیا گیا جنہیں اللہ تعالیٰ نے کثیرنعمتوں سے نوازا لیکن وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی بجائے ا س کی نافرمانی کرنے لگ گئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں سیلاب کے ذریعے ہلاک کر دیا۔
قومِ سبا کا تعارف:
سباعرب کے علاقے یمن کی حدود میں واقع ایک قبیلے کا نام ہے اور یہ قبیلہ اپنے دادا سبا بن یَشْجُب بن یَعْرُب بن قحطان کے نام سے مشہور ہے۔ (جلالین مع جمل، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۲۱۷)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا گیا کہ سبا کسی مرد کا نام ہے یا عورت کا یا کسی سرزمین کا نام ہے؟نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سبا ایک مرد تھا اور ا س کے دس بیٹے تھے،ان میں سے چھ یمن میں آباد ہو گئے تھے اور چار شام میں چلے گئے تھے۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن العباس بن عبد المطلب عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۱ / ۲۷۷، الحدیث: ۲۹۰۰)
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یمن کی حدود میں جس جگہ یہ لوگ آباد تھے وہاں اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت پر دلالت کرنے والی ایک نشانی تھی ۔اس نشانی کی تفصیل یہ ہے کہ ان کے شہر مآرب کے دونوں طرف کثیر باغات تھے اور ان باغوں میں پھلوں کی انتہائی کثرت تھی ۔ان لوگوں سے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ذریعے کہا گیا کہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا رزق کھاؤ اور اس نعمت پر اس کی طاعت و عبادت بجالاؤ۔تمہارا شہرپاکیزہ شہر ہے جس میں لطیف آب و ہوا اور صاف ستھری سرزمین ہے، اس میں مچھر ، مکھی ، کھٹمل، سانپ اور بچھو وغیرہ کوئی چیز نہیں اور ہوا کی پاکیزگی کا یہ عالَم ہے کہ اگر کہیں دوسرے علاقے کا کوئی شخص اس شہر میں سے گزر جائے اور اس کے کپڑوں میں جوئیں ہوں تو سب مرجائیں ۔ اگر تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی روزی پر شکرادا کرو اوراس کی اطاعت بجالاؤ تو وہ بخشش فرمانے والا ہے۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۵۲۰، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۹۵۹-۹۶۰، ابو سعود، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۳۴۵، ملتقطاً)
{فَاَعْرَضُوْا: تو انہوں نے منہ پھیرا۔} یعنی سبا والوں نے اس نعمت کی شکر گزاری سے منہ پھیرا اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی۔حضرت وہب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی طرف 13 نبی بھیجے جنہوں نے اُن کو حق کی دعوتیں دیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلائیں اور اس کے عذاب سے ڈرایا ،لیکن وہ ایمان نہ لائے اور اُنہوں نے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلادیا اور کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ ہم پر خدا کی کوئی نعمت ہے۔ تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے کہہ دو کہ اس سے ہوسکے تو وہ ان نعمتوں کو روک لے۔( مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۹۶۰، خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۵۲۰، ملتقطاً)
{فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ سَیْلَ الْعَرِمِ: تو ہم نے ان پر زور کاسیلاب بھیجا۔} یہاں سے ان لوگوں کا انجام بیان کیاگیا کہ ان کی نافرمانی کے سبب ہم نے ان پرعظیم سیلاب بھیجا جس سے ان کے باغ اوراَموال سب ڈوب گئے اور اُن کے مکانات ریت میں دفن ہوگئے اور وہ اس طرح تباہ ہوئے کہ اُن کی تباہی عرب کے لئے مثال بن گئی۔اور ان کے خوبصورت باغوں کو ایسے دو باغوں میں بدل دیا جو کڑوے اور انتہائی بد مزہ پھل والے تھے اور ان میں جھاؤ اور کچھ تھوڑی سی بیریاں تھیں جیسی ویرانوں میں اُگ آتی ہیں ۔ اس طرح کی جھاڑیوں اور وحشت ناک جنگل کوجو اُن کے خوش نما باغوں کی جگہ پیدا ہوگیا تھااس لئے اسے باغ فرمایا گیا ۔
قومِ سبا کے واقعہ میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے لئے نصیحت:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس واقعہ کو بیان کرنے سے مقصود حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو نصیحت کرنا ہے کہ وہ ان کے انجام سے عبرت حاصل کریں اوراللہ تعالیٰ نے انہیں جو نعمتیں عطا کی ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور اگر وہ ایسانہ کریں گے تو انہیں بھی اُن جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔(صاوی، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۵ / ۱۶۶۹)
ہم بھی آئے دن سمندری طوفان اور سیلاب سے ہونے والی عبرتناک تباہی کے نظارے اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہتے ہیں لیکن افسوس ! ا س کے باوجود بھی ہم اپنی عملی حالت سدھارنے کی بجائے اپنی سابقہ نافرمانی والی رَوِش ہی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔
{ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ: ہم نے انہیں یہ بدلہ دیا۔} یعنی ہم نے انہیں ان کی ناشکری اور اُن کے کفر کی وجہ سے یہ بدلہ دیا اور ہم ایسی سزا اسی کو دیتے ہیں جو نعمتوں کی نا شکری اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرے۔( مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۹۶۰، ملخصاً)
نا شکری مَصائب کا سبب ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان ناشکر ی کرنے کی وجہ سے خود مصیبت کا شکار ہوتا ہے ،یہی بات ایک اور آیت سے بھی معلوم ہوتی ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْیَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىٕنَّةً یَّاْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْ عِ وَ الْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ‘‘(نحل:۱۱۲)
{وَ جَعَلْنَا بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ الْقُرَى: اور ہم نے ان میں اور ان شہروں کے درمیان بنادیں ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے شہرِ سبا میں اور دوسرے شہروں کے درمیان بہت سی نمایاں بستیاں بنادیں جن میں ہم نے برکت رکھی تھی کہ وہاں کے رہنے والوں کو وسیع نعمتیں ، پانی ،درخت اور چشمے عنایت کئے۔ اُن دوسرے شہروں سے مرادشام کے شہر ہیں اور سبا سے شام تک کے سفر کرنے والوں کو اس راستے میں کھانا اور پانی ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔اورفرمایا کہ ان بستیوں میں سفر کو ایک اندازے پر رکھاتاکہ چلنے والا ایک مقام سے صبح چلے تو دوپہر کو ایک آبادی میں پہنچ جائے جہاں ضروریات کے تمام سامان مُیَسَّر ہوں اور جب دوپہر کو چلے تو شام کو ایک شہر میں پہنچ جائے ۔یمن سے شام تک کا تمام سفر اسی آسائش کے ساتھ طے ہوسکے اور ہم نے اُن سے کہا کہ ان بستیوں میں راتوں اور دنوں کوامن و امان سے چلو، نہ راتوں میں کوئی کھٹکا نہ دنوں میں کوئی تکلیف ،نہ دشمن کا اندیشہ نہ بھوک پیاس کا غم۔(خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۵۲۱، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۹۶۰-۹۶۱، ملتقطاً)
{فَقَالُوْا: تو انہوں نے کہا۔} خوشحالی اور نعمتوں کی کثرت والے اِن حالات کی بنا پر اِترانے اور تکبر کرنے لگے اور مالداروں میں حسد پیدا ہوا کہ ہمارے اور غریبوں کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں رہا ،یونہی جو امن و عافیت انہیں حاصل تھی جیسے منزلیں قریب قریب ہیں اور لوگ خراماں خراماں ہوا خوری کرتے چلے جاتے ہیں ،تھوڑی دیر کے بعد دوسری آبادی آجاتی ہے، وہاں آرام کرتے ہیں ،نہ سفر میں تکان ہے نہ کوفت ،اس پر انہوں نے قناعت نہ کی اور یہ تمنا کرنے لگے کہ اگر منزلیں دور ہوتیں ، سفر کی مدت دراز ہوتی، راستے میں پانی نہ ملتا، جنگلوں اور بیابانوں میں سے گزرہوتا تو ہم توشہ ساتھ لیتے، پانی کے انتظام کرتے،سواریاں اور خُدّام ساتھ رکھتے، سفر میں مشقت اٹھانے کا لطف آتا اور امیر و غریب کا فرق ظاہر ہوتا ۔اس پر اُنہوں نے یہ دعا کی :اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہمارے اور شام کے درمیان جنگل اور بیابان کردے تا کہ بغیر توشہ اور سواری کے سفر نہ ہوسکے۔اللہ تعالیٰ نے ا ن کی یہ دعا قبول فرمالی اور ان شہروں کو ویران کر دیا۔( روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۹، ۷ / ۲۸۶، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۹۶۱، ملتقطاً)
{وَ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ: اور انہوں نے خود اپنا ہی نقصان کیا۔} یعنی سبا والوں نے تکبر و سرکشی کر کے خود اپنا ہی نقصان کیا تو ہم نے انہیں بعد والوں کے لئے قصے کہانیاں بنادیاتا کہ وہ ان کے احوال سے عبرت حاصل کریں اوران قبیلوں کو ایک دوسرے سے بالکل جدا جدا کردیا ، وہ بستیاں غرق ہوگئیں اور لوگ بے گھر ہو کر جدا جدا شہروں میں پہنچے۔ قبیلہ غسان، شام میں ، قبیلہ اَزْدْ عمان میں ، قبیلہ خزاعہ تہامہ میں ، آلِ خزیمہ عراق میں اور اوس ،خزرج کا دادا عمروبن عامر مدینہ میں پہنچا۔ بیشک سبا والوں کے اس واقعے میں ہر بڑے صبر والے اورہر بڑے شکر والے کے لئے ضرور نشانیاں ہیں کہ صبر و شکر مومن کی صفت ہے ،جب وہ مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو صبر کرتا ہے اور جب نعمت پاتا ہے توشکر بجالاتا ہے۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۵۲۱-۵۲۲)
امن و عافیت بہت بڑی نعمتیں ہیں :
سبا والوں کے طرزِ عمل اور ان کے انجام سے معلوم ہو اکہ امن و عافیت اور سکون وراحت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں اور جسے یہ نعمتیں حاصل ہوں اسے ان پر تکبر و غرور کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور ان نعمتوں کے مقابلے میں بے امنی اور مشقت کی تمنا اور دعا نہیں کرنی چاہئے۔
صبر اور شکر مومن کی دو صفات ہیں :
معلوم ہوا کہ صبر اور شکر مومن کی دو بہترین صفات ہیں ۔اس کے بارے میں حضرت صہیب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مومن کے معاملے پر تعجب ہوتا ہے،اس کے ہر حال میں خیر ہے اور یہ مقام اس کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ۔اگر وہ نعمتوں کے ملنے پر شکر کرے تو اسے اجر ملتا ہے اور اگر وہ مصیبت آنے پر صبر کرے تو بھی اسے اجر ملتا ہے۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن امرہ کلّہ خیر، ص۱۵۹۸، الحدیث: ۶۴(۲۹۹۹))
اللہ تعالیٰ ہر مومن کو یہ عظیم صفات نصیب فرمائے،اٰمین۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صابر و شاکر کون؟
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وہ لوگ بھی صابر و شاکر شمار ہوتے ہیں جن کا اس حدیث پاک میں ذکر ہے،چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے دین کے معاملے میں اپنے سے اوپر والے اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے نیچے والے کو پیش ِنظر رکھا تو اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر لکھ دیتا ہے اور جس نے دین کے معاملے میں اپنے سے نیچے والے اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے اوپر والے کو پیش ِنظر رکھا تو اللہ تعالیٰ اسے صابرا ور شاکر نہیں لکھتا۔( شعب الایمان، الثالث والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۳۷، الحدیث: ۴۵۷۵)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنا صابر و شاکر بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
{وَ لَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْهِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّهٗ: اور بیشک ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھایا۔} یعنی ابلیس جو گمان رکھتا تھا کہ وہ بنی آدم کو شہوت و حرص اور غضب کے ذریعے گمراہ کردے گا۔ یہ گمان اس نے اہلِ سبا پر بلکہ تمام کافروں پر سچا کر دکھایا کہ وہ اس کے پیروکار ہوگئے اور اس کی اطاعت کرنے لگے ۔حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ شیطان نے نہ کسی پر تلوار کھینچی ،نہ کسی پر کوڑے مارے بلکہ جھوٹے وعدوں اور باطل اُمیدوں سے ا س نے اہلِ باطل کو گمراہ کردیا۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۵۲۲، ملخصاً)
شیطان اور انسان:
یہ آیتِ مبارکہ ہر مسلمان کے لئے انتہائی قابلِ غور اور عبرت انگیز ہے ۔ جب شیطان حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کرنے سے انکار کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مردود ہوا تو اس نے کہا تھا: ’’رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۳۹) اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ‘‘(حجر:۳۹،۴۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے رب میرے ! مجھے اس بات کی قسم کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ضرورزمین میں لوگوں کیلئے (نافرمانی) خوشنما بنادوں گا اور میں ضرور ان سب کو گمراہ کردوں گا۔ سوائے اُن کے جو اِن میں سے تیرے چنے ہوئے بندے ہیں ۔
اب عقلمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہر انسان اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں مصروف رہتا اور اپنے اَزلی دشمن شیطان کے مکر و فریب سے ہوشیار رہتا اور اس کے بچھائے ہوئے جال میں نہ پھنستا ، لیکن افسوس!شیطان کے بہکاوے میں آکر انسان نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کر لیا۔
شیطان انسان کو کفر اور گناہ پر مجبور نہیں کر سکتا:
یاد رکھیں کہ شیطان انسان کو گناہ اور کفر و گمراہی پر مجبور نہیں کر سکتا بلکہ صرف اس کے دل میں وسوسہ ڈال کر اسے بہکانے کی کوشش کر سکتا ہے ،اسی وجہ سے ایک آیت میں وضاحت ہے کہ قیامت کے دن ابلیس کہے گا:
’’ وَ مَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ‘‘(ابراہیم:۲۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور مجھے تم پر کوئی زبردستی نہیں تھی مگر یہی کہ میں نے تم کو بلایا توتم نے میری مان لی۔
لہٰذا اس فریبی سے ہر مسلمان کو ہر وقت بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ‘‘(فاطر:۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہرگز بڑا فریبی تمہیں اللہ کے بارے میں فریب نہ دے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے مکر و فریب سے بچنے اور اس کی فریب کاریوں سے ہوشیار رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ: تو مومنوں کے ایک گروہ کے علاوہ وہ اس کے پیروکار ہوگئے۔} یعنی اہل ِسبا نے شرک و مَعْصِیَت میں شیطان کی پیروی کی البتہ مومنوں کے ایک گروہ نے دین کے اصول میں شیطان کی پیروی نہ کی۔(روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۰، ۷ / ۲۸۷)
{وَ مَا كَانَ لَهٗ عَلَیْهِمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ: اور شیطان کا ان پر کچھ قابو نہ تھا۔} یعنی جن کے حق میں شیطان کا گمان پورا ہوا ان پر شیطان کو کچھ زبردستی نہ تھی مگر ہم نے اس لیے شیطان کو ان پر مُسَلَّط کیا تاکہ ہم آخرت پر ایمان لانے والوں کو ان لوگوں سے ممتاز کر دیں جو اس کے بارے میں شک کرنے والے ہیں اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہر چیز پر نگہبان ہے۔(تفسیر طبری، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۰ / ۳۷۰، ابو سعود، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۳۴۹، ملتقطاً)
{قُلْ: تم فرماؤ۔} شکر کرنے والوں اور ناشکری کرنے والوں کے حالات اور ان کا انجام بیان کرنے کے بعد اب کفارِ مکہ سے کلام کیا جارہا ہے۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مکہ مکرمہ کے کافروں سے فرما دیں کہ جن بتوں وغیرہ کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا اپنامعبود سمجھتے ہو انہیں پکارو تاکہ وہ تم پر نازل ہونے والی مصیبتیں دور کردیں لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ آسمانوں میں اور زمین میں ذرہ برابر کسی نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہیں اور نہ ان بتوں کا آسمان اور زمین میں کچھ حصہ ہے اور نہ ان بتوں میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کا مددگار ہے۔( تفسیرکبیر، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۲، ۹ / ۲۰۳، خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۵۲۲، ملتقطاً)
یاد رہے کہ اس آیت میں کفر کی اجازت نہیں بلکہ کفارکے عقیدے کی برائی کا بیان ہے نیز اس آیت میں نفع و نقصان کا مالک نہ ہونا بتوں کے لئے بیان کیا گیا ہے ،اللہ تعالیٰ کے اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اَولیاء رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے ساتھ اس آیت کا کوئی تعلق نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطاسے مخلوق کو نفع پہنچانے اور ان سے نقصان دور کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور اس کے شواہد قرآن و حدیث میں بکثرت مقامات پر مذکور ہیں جیسے سرکار ِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کوثر کا مالک کیا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مردے زندہ کرنے اور بیماروں کو شفا دینے کی طاقت دی۔
{وَ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ: اور اللہ کے پاس شفاعت کام نہیں دیتی مگر جس کے لیے وہ اجازت دیدے۔} کفار یہ کہتے تھے کہ بت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کریں گے ان کا رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس صرف اسی کی شفاعت کام دے گی جس کے لیے وہ شفاعت کرنے کی اجازت دیدے، یہاں تک کہ جب شفاعت کی اجازت دے کر شفاعت کرنے والے (مومنوں ) کے دلوں سے گھبراہٹ دور فرمادی جائے گی تووہ خوشی میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ’’ تم سے اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا؟وہ جواب دیں گے کہ شفاعت کرنے والوں کو ایمانداروں کی شفاعت کی اجازت دی ہے اور یہ شفاعت اور اجازت برحق ہے اور اللہ تعالیٰ ہی بلندی والا، بڑائی والاہے۔(جلالین مع صاوی، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۳، ۵ / ۱۶۷۳-۱۶۷۴، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۹۶۲، ملتقطاً)
{قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: تم فرماؤ :کون ہے جو تمہیں آسمانوں اور زمین سے روزی دیتا ہے؟} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے والوں سے فرما دیں کہ آسمان سے بارش برسا کر اور زمین سے سبزہ اُگا کر تمہیں روزی کون دیتا ہے ؟ اگر مشرکین ا س سوال کا جواب نہ دیں تو اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ خود ہی فرمادیں کہ’’تمہیں اللہ تعالیٰ روزی دیتا ہے‘‘کیونکہ اس سوال کا اس کے علاوہ اورکوئی جواب ہے ہی نہیں اور (فرما دیں کہ) بیشک ہم یا تم دونوں فریقوں میں سے ایک ضرور ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں ہے۔( تفسیر طبری، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۴، ۱۰ / ۳۷۵، جلالین، السبا، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۳۶۱، ملتقطاً)
اور یہ ظاہرو یقینی اور قطعی بات ہے کہ جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کو روزی دینے والا ،پانی برسانے والا ،سبزہ اگانے والا جانتے ہوئے بھی بتوں کو پوجے جو کہ کسی ایک ذرہ بھر چیز کے مالک نہیں (جیسا کہ اوپر آیات میں بیان ہوچکا) وہ یقینا کھلی گمراہی میں ہے۔
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرما دیں کہ ہم نے تمہارے گمان میں اگر کوئی جرم کیا تو اس کے بارے میں تم سے سوال نہیں کیا جائے گا اورنہ ہم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا بلکہ ہر شخص سے اس کے اپنے عمل کا سوال ہوگا اور ہر ایک اپنے عمل کی جزا پائے گا (لہٰذا تم اپنی فکر کرو اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو۔)( روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۵، ۷ / ۲۹۲، ملخصاً)
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرما دیں کہ قیامت کے دن حساب کی جگہ میں ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ ہم سب کو جمع کرے گا، پھر ہم میں سچا فیصلہ فرمادے گاتو اہلِ حق کو جنت میں اور اہلِ باطل کو دوزخ میں داخل کرے گااور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا، سب کچھ جاننے والاہے۔( جلالین مع صاوی، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۵ / ۱۶۷۵، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ کے دو اسماء ’’اَلْفَتَّاحُ‘‘ اور ’’اَلْعَلِیْمُ‘‘ کے خواص :
اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے دو اَسماء ’’اَلْفَتَّاحُ‘‘ اور ’’اَلْعَلِیْمُ‘‘ کا ذکر ہوا،ان کے خواص بیان کرتے ہوئے علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اَلْفَتَّاحُ‘‘ اسمِ مبارک کا خاصہ یہ ہے کہ اس کی برکت سے مشکلات آسان ہوجاتی ہیں،دل روشن ہو جاتا ہے اور کامیابی کے اسباب حاصل ہوجاتے ہیں ۔جس نے نمازِ فجر کے بعد اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر71مرتبہ اس اسم کو پڑھا تو اس کا دل پاک اور منور ہوجائے گا،اس کا کام آسان ہو جائے گا اوراس کی برکت سے رزق میں بھی وسعت ہو گی اور ’’اَلْعَلِیْمُ‘‘ اسمِ مبارک کا خاصہ یہ ہے کہ اس کا وِرد کرتے رہنے والے کو علم اور معرفت حاصل ہو گی۔( روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۷ / ۲۹۳)
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرمائیں کہ جن بتوں کو تم نے عبادت میں اللہ تعالیٰ کا شریک کیا ہے مجھے دکھاؤ تو سہی کہ وہ کس قابل ہیں ، کیا وہ کچھ پیدا کرتے ہیں ؟کیا وہ روزی دیتے ہیں ؟ اور جب ان میں سے کچھ نہیں کر سکتے تو ان کو خدا کا شریک بنانا اور اُن کی عبادت کرنا کیسی عظیم خطا ہے،لہٰذا اس سے باز آجاؤ،وہ بت ہرگز اللہ تعالیٰ کے شریک نہیں بلکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی عزت والا، حکمت والاہے جبکہ تمہارے ذلیل اور خسیس شریکوں کو یہ بلند مرتبہ کہاں حاصل ہے۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۵۲۳، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۹۶۳، روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۷ / ۲۹۳، ملتقطاً)
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا: اور اے محبوب!ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کو صرف آپ کی قوم کے مشرکین کی طرف ہی رسول بنا کر نہیں بھیجا بلکہ آپ کو عربی ، عجمی،گورے ، کالے تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور ایمان والوں کیلئے اللہ تعالیٰ کے فضل کی خوشخبری دینے والا اورکافروں کیلئے اس کے عدل کاڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن بہت سے لوگ ا س بات کو نہیں جانتے اور اپنی جہالت کی وجہ سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت کرتے ہیں ۔( تفسیر طبری، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۸، ۱۰ / ۳۷۷، روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۸، ۷ / ۲۹۴، ملتقطاً)
رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت عام ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت عامّہ ہے، تمام انسان اس کے اِحاطہ میں ہیں ،گورے ہوں یا کالے، عربی ہوں یا عجمی، پہلے ہوں یابعد والے،سب کے لئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رسول ہیں اور وہ سب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اُمتی ہیں ۔ یہ مضمون متعدد آیات میں بیان ہوا ہے اور اسی موضوع پر بہت سی اَحادیث بھی ہیں ،چنانچہ ایک روایت ملاحظہ فرمائیں ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا فرمائی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو نہ دی گئیں ۔ (1)ایک ماہ کی مسافت کے رعب سے میری مدد کی گئی ۔(2)تمام زمین میرے لئے مسجد اور پاک کی گئی کہ جہاں میرے اُمتی کو نماز کا وقت ہو نماز پڑھے ۔(3) میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں جو کہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھیں ۔(4) مجھے مرتبۂ شفاعت عطا کیا گیا ۔(5) انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے اور میں تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا گیا۔( بخاری، کتاب التیمم، باب التیمم، ۱ / ۱۳۳، الحدیث: ۳۳۵)
اس حدیث میں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مخصوص فضائل کا بیان ہے جن میں سے ایک آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالتِ عا مّہ ہے جو کہ تمام جنّ و اِنس کو شامل ہے۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۵۲۴) خلاصہ یہ کہ حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام مخلوق کے رسول ہیں اور یہ مرتبہ خاص آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہے جو کہ قرآنِ کریم کی آیات اور کثیر اَحادیث سے ثابت ہے ۔
{وَ یَقُوْلُوْنَ: اور کہتے ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین اپنی جہالت کی وجہ سے کہتے ہیں کہ قیامت کا وعدہ کب آئے گا ،اگر تم سچے ہو تو بتاؤ؟اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمائیں کہ تمہارے لیے ایک ایسے دن کا وعدہ ہے جس سے تم نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکو گے اور نہ آگے بڑھ سکوگے یعنی اگر تم مہلت چاہو توتاخیر ممکن نہیں اور اگر جلدی چاہو توپہلے ہونا ممکن نہیں ،بہر صورت اس وعدے کا اپنے وقت پر پورا ہونا ہے۔(مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ص۹۶۳، ملخصاً)
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور کافروں نے کہا۔} اس سے پہلے توحید، رسالت اور حشر کا بیان کیا گیا اور کفار ان تینوں چیزوں کا انکار کرتے ہیں ،اب اس آیت میں کفار کے عمومی کفر کو بیان کیا جارہا ہے۔آیت کے اس حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ نے اہلِ کتاب سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم ان کے اوصاف اپنی کتابوں میں لکھے ہوئے پاتے ہیں ۔اس پر وہ غضبناک ہو کر کہنے لگے کہ ہم ہرگز اس قرآن پر اور اس سے پہلی کتابوں یعنی تورات اور انجیل وغیرہ پر ایمان نہیں لائیں گے۔( تفسیرکبیر، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۹ / ۲۰۷، ابو سعود، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۴ / ۳۵۲، ملتقطاً)
{وَ لَوْ تَرٰى: اور اگرتم دیکھتے۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی دوآیات میں اللہ تعالیٰ نے حشر کے دن کفار کا آپس میں مُکالمہ بیان فرمایا ہے ۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ اگر تم وہ منظر دیکھ لو توبڑا عبرتناک منظر دیکھوگے کہ حشر کے دن جب کافر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں کھڑے کئے جائیں گے تو وہ آپس میں ایک دوسرے سے الجھنا شروع کر دیں گے ۔ان میں سے جولوگ کمزور اور اپنے سرداروں کے تابع تھے وہ سرداروں سے کہیں گے :اگر تم نہ ہوتے اور ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پرایمان لانے سے نہ روکتے تو ہم ضرور ایمان والے ہوتے۔( مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۹۶۳، خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۵۲۴، ملتقطاً)
{قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا: بڑے بننے والے دبے ہوئے لوگوں سے کہیں گے۔} یعنی سردار اپنے تابع لوگوں کو جواب دیتے ہوئے کہیں گے:جب تمہارے پاس ہدایت آئی تھی تو کیا اس وقت ہم نے تمہیں ہدایت سے روکاتھا؟ایسا ہر گزنہیں ہوا،بلکہ تم نے خود اپنے اختیار سے گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دے کر کفر کیا تھا، نہ کہ ہمارے کہنے کی وجہ سے تم نے ایسا کیا۔(خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۵۲۴، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۹۶۴، ملتقطاً)
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا: اور دبے ہوئے بڑے بننے والوں سے کہیں گے۔} یعنی جب سردار اپنے تابع لوگوں کی بات کا انکار کر دیں گے تو وہ لوگ اپنے سرداروں سے کہیں گے’’ ہم مجرم نہیں ہیں بلکہ تم شب و روز ہمارے ساتھ فریب کرتے تھے اور ہمیں ہر وقت شرک پر اُبھارتے تھے،جب تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا انکار کریں اور اس کیلئے برابر والے ٹھہرائیں تو ہم اللہ تعالیٰ کا انکار کر دیتے اور اس کے لئے شریک ٹھہرانے لگتے تھے۔ اس آیت میں کفار کے لئے تنبیہ ہے کہ دنیا میں ان کا ایک دوسرے کی پیروی کرنا آخرت میں باہمی عداوت اور دشمنی کا سبب ہو گا۔( مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۹۶۴، خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۵۲۴، ملتقطاً)
{ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَةَ: اور وہ دل ہی دل میں پچھتانے لگیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ دونوں فریق یعنی ماتحت بھی اور سردار بھی، سرداروں کے پیچھے پیچھے چلنے والے بھی اور انہیں بہکانے والے بھی ایمان نہ لانے پر جب جہنم کا عذاب دیکھیں گے تو دل ہی دل میں پچھتانے لگیں گے۔ اس کے بعد ان کے عذاب کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم تمام کفار کوخواہ بہکانے والے ہوں یا اُن کے کہنے میں آنے والے،یہ سزا دیں گے کہ جہنم میں ان کے ہاتھ نار ِجہنم کی زنجیروں سے گردنوں تک باندھ دیں گے ۔یہ انہیں ان کے دنیا میں کفر اور مَعصِیَت ہی کا بدلہ دیا جائے گا۔( جلالین، السبا، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۳۶۲، خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۵۲۴-۵۲۵، تفسیر طبری، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۳، ۱۰ / ۳۷۹، ملتقطاً)
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ: اور ہم نے (جب کبھی) کسی شہر میں کوئی ڈر سنانے والا بھیجا۔} اس آیت میں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکین ِخاطر فرمائی گئی کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کفار کی تکذیب و انکار سے رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ کفار کا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ یہی دستور رہا ہے اور مالدار لوگ اسی طرح اپنے مال اور اولاد کے غرور میں انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرتے رہے ہیں ۔( مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۹۶۴)
اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ دو شخص تجارت میں شریک تھے، اُن میں سے ایک ملکِ شام کو گیا اور ایک مکہ مکرمہ میں رہا۔جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اعلانِ نبوت فرمایا اور اُس نے ملک ِشام میں حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خبرسنی تو اپنے شریک کوخط لکھا اور اس سے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تفصیلی حال دریافت کیا ۔اس شریک نے جواب میں لکھا کہ محمد ِمصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی نبوت کا اعلان توکیا ہے لیکن چھوٹے درجے کے حقیر و غریب لوگوں کے علاوہ اور کسی نے ان کی پیروی نہیں کی۔ جب یہ خط اس کے پاس پہنچا تو وہ اپنے تجارتی کام چھوڑ کر مکہ مکرمہ آیا اور آتے ہی اپنے شریک سے کہاکہ مجھے سید ِعالَم محمد ِمصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پتہ بتاؤ ۔ پتہ معلوم کرکے وہ شخص حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا کو کیا دعوت دیتے ہیں اور ہم سے کیا چاہتے ہیں ؟ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بت پرستی چھوڑ کر ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے اسلام کے احکام بتائے۔ یہ باتیں اس کے دل میں اثر کر گئیں اور وہ شخص پچھلی کتابوں کا عالِم بھی تھا،کہنے لگا ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بے شک اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا’’ تم نے یہ کیسے جانا ؟اس نے کہا کہ جب کبھی کوئی نبی بھیجا گیا پہلے چھوٹے درجے کے غریب لوگ ہی اس کے تابع ہوئے ،یہ سنتِ اِلٰہیہ ہمیشہ ہی جاری رہی ہے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔( در منثور، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۷۰۴، ملخصاً)
مالداروں اور غریب لوگوں کا حال:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اکثر مالدار ہی انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کرتے ہیں اور غریب لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہ قانون قیامت تک رہے گا کہ اکثر سردار اور مالدار گناہوں میں پیش پیش جبکہ غریب لوگ نیکیوں میں آگے آگے ہوں گے ۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں اس کی مثالیں دیکھی جارہی ہیں۔
{وَ قَالُوْا: اور انہوں نے کہا۔} یہاں مالدارکفار کے ایک باطل گمان کو بیان کیا گیا کہ انہوں نے کہا ’’ہمارے اعمال اور افعال اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں کیونکہ اگر وہ ہمارے اعمال سے راضی نہ ہوتا تو دنیا میں ہمیں اتنا مال اور اولاد عطا نہ کرتا اور جب ایسا ہے تو آخرت میں ہمیں عذاب بھی نہیں ہوگا کیونکہ دنیا میں ہمیں عزت و اِکرام سے نوازا گیا تو اگر بالفرض قیامت واقع بھی ہوئی تو ہمیں وہاں بھی رسوا نہ کیا جائے گا۔(صاوی، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۵ / ۱۶۷۸، ملخصاً) اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس خیالِ باطل کا اِبطال فرمادیا کہ آخرت کے ثواب کو دنیا کی مَعیشت پر قِیاس کرنا غلط ہے۔
{قُلْ: تم فرماؤ۔}اللہ تعالیٰ نے مالداروں کے اس باطل خیال کا رد کرتے ہوئے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرمادیں بیشک میرا رب عَزَّوَجَلَّ آزمائش اور امتحان کے طور پر جس کے لیے چاہتا ہے رزق وسیع کرتا اور تنگ فرماتا ہے لہٰذا دنیا میں مال و دولت اور عیش و عشرت کی بہتات اللہ تعالیٰ کی رضا کی دلیل نہیں اور ایسے ہی مال و دولت کی تنگی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی دلیل نہیں ۔یہ اس کی حکمت ہے کہ کبھی وہ گنہگار پر مال ودولت کی وسعت کرتا ہے اور کبھی فرمانبردار پر تنگی کر دیتا ہے۔اس لئے آخرت کے ثواب کو دنیا کی معیشت پر قیاس کرنا غلط و بیجاہے۔(مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۹۶۵، خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳/۵۲۵، ملتقطاً)
{وَ مَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰى: اور تمہارے مال اور تمہاری اولاد اس قابل نہیں کہ تمہیں ہمارے قریب کردیں ۔} کفار اپنے مال اور اولاد کی وجہ سے لوگوں پر فخر و تکبر کرتے تھے اور اپنے مال و اولاد کو اللہ تعالیٰ کے قرب کا سبب سمجھتے تھے ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا کہ صالح مومن جو مال کو راہِ خدا میں خرچ کرے اسی کا مال قرب ِ خدا کا ذریعہ ہے اوراس کے علاوہ کسی کے لئے اس کا مال قرب ِ الٰہی کا سبب نہیں اوریونہی ا س مومن کی اولاد قرب ِ الٰہی کا ذریعہ ہے جو اُنہیں نیک علم سکھائے ،دین کی تعلیم دے اور صالح و متقی بنائے، ورنہ کسی کی اولاد اس کیلئے قرب ِ خداوندی کا سبب نہیں ۔یہ بھی یاد رہے کہ صالح مومنین کے لئے ایک نیکی کے بدلے دس سے لے کر سات سو ُگنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ جتنی خدا چاہے جزا ہے اور وہ جنت کے بالاخانوں میں امن وچین سے ہوں گے۔( تفسیر طبری، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۷، ۱۰ / ۳۸۱، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۹۶۵، روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۷، ۷ / ۲۹۹، ملتقطاً)
مال اور اولاد سے متعلق مسلمانوں کا حال:
فی زمانہ مسلمانوں میں بھی مال اور اولاد کی وجہ سے لوگوں پر فخر و تکبر کرنے ، غریب اور بے اولاد لوگوں کو حقیر سمجھنے، اولاد کی کثرت اور مال و دولت کی بہتات کو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ تصوّر کرنے کا مرض عام ہے،یونہی اپنی اولاد کو خاطر خواہ دینی تعلیم دینے اور تقویٰ و پرہیزگاری سکھانے کی بجائے صرف دُنْیَوی علوم و فنون کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دینے کی وبا بھی عام ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّ بَنِیْنَۙ(۵۵) نُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَیْرٰتِؕ-بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ‘‘(مؤمنون:۵۵،۵۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا یہ خیال کررہے ہیں کہ وہ جو ہم مال اور بیٹوں کے ساتھ ان کی مدد کررہے ہیں تو یہ ہم ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کررہے ہیں ؟ بلکہ انہیں خبر نہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ‘‘(انفال:۲۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جان لوکہ تمہارے مال اور تمہاری اولادایک امتحان ہے اوریہ کہ اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مال ودولت کی طرف نہیں دیکھتا ، البتہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے ۔( مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم وخذلہ واحتقارہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۴(۲۵۶۴))
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے ، اٰمین۔
{وَ الَّذِیْنَ یَسْعَوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیْنَ: اوروہ جو ہم سے مقابلہ کرتے ہوئے ہماری آیتوں (کو جھٹلانے) میں کوشش کرتے ہیں۔} یعنی وہ لوگ جو قرآنِ کریم پر زبانِ طعن کھولتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اپنی ان باطل کاریوں سے وہ لوگوں کو ایمان لانے سے روک دیں گے اور ان کا یہ مکر و فریب اسلام کے حق میں چل جائے گا اور وہ ہمارے عذاب سے بچ رہیں گے کیونکہ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ مرنے کے بعد اُٹھنا ہی نہیں ہے تو عذاب اور ثواب کیسا۔یہ لوگ عذاب میں حاضر کئے جائیں گے اور ان کی مکاریاں انہیں کچھ کام نہ آئیں گی۔( روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۸، ۷ / ۳۰۰، ملخصاً)
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ بیشک میرا رب عَزَّوَجَلَّ اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہے اپنی حکمت کے مطابق رزق وسیع فرماتا اورجس کے لیے چاہے تنگ کردیتا ہے اور اے لوگو! جو چیز تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو گے تو وہ دنیا میں یا آخرت میں اس کے بدلے میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والاہے کیونکہ اس کے سوا جو کوئی کسی کو دیتا ہے خواہ بادشاہ لشکر کو یا آقا غلام کو یا صاحبِ خانہ اپنے عیال کو وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی اور اس کی عطا فرمائی ہوئی روزی میں سے دیتا ہے۔ رزق اور اس سے فائدہ اٹھانے کے اسباب کا خالق اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں ، وہی حقیقی رزّاق ہے۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۵۲۵، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۹۶۵، ملتقطاً)
راہِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ،اسی مناسبت سے یہاں راہِ خدا میں خرچ کرنے سے متعلق 3اَحادیث ذکر کی جاتی ہیں ۔
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی دن ایسا نہیں کہ بندے صبح کرتے ہیں مگر دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ،ان میں سے ایک کہتا ہے:اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، خرچ کرنے والے کو بدلہ دے ۔دوسرا کہتا ہے:بخیل کو بربادی دے ۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب قول اللّٰہ: فامّا من اعطی واتّقی۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۸۵، الحدیث: ۱۴۴۲)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اے ابنِ آدم! خرچ کرو میں تم پر خرچ کروں گا۔( بخاری، کتاب النفقات، باب فضل النفقۃ علی الاہل، ۳ / ۵۱۱، الحدیث: ۵۳۵۲)
(3)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا۔ معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے اورعاجزی کرنے سے مرتبے بلند ہوتے ہیں ۔( مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب استحباب العفو والتواضع، ص۱۳۹۷، الحدیث: ۶۹(۲۵۸۸))
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں مال خرچ کرنے اور بخل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا: اور جس دن ان سب کو اٹھائے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ ان سب مشرکوں کو اٹھائے گا ، پھر فرشتوں سے فرمائے گا کہ: کیادنیا میں یہ تمہیں ہی پوجتے تھے؟ تو فرشتے اپنی براء ت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کریں گے:اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، تو ا س سے پاک ہے کہ تیرے ساتھ کسی اور کی عبادت کی جائے، ہماری اُن سے کوئی دوستی نہیں بلکہ توہمارادوست ہے، تو ہم کس طرح ان کے پوجنے سے راضی ہوسکتے تھے !ہم اس سے بری ہیں ،وہ ہمیں نہیں بلکہ شَیاطین کو پوجتے تھے کیونکہ وہ اُن کی اطاعت کرتے ہوئے غیر ِخدا کو پوجتے تھے اوران کفار میں سے اکثر انہیں شَیاطین پر یقین رکھتے تھے۔(مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۹۶۶، خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۱، ۳ / ۵۲۶، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan