Surah Saba
{فَالْیَوْمَ لَا یَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَّ لَا ضَرًّا: تو آج تم میں کوئی دوسرے کیلئے کسی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کفار کو ذلیل کرنے کے لئے ان کے سامنے فرشتوں سے فرمائے گا کہ آج تم میں سے کوئی تمہاری پوجا کرنے والوں کے لئے کسی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہے (کیونکہ کفار و مشرکین کیلئے کوئی بھی شفاعت نہ کرسکے گا) او رہم قیامت کے دن ان لوگوں سے فرمائیں گے جنہوں نے کفر اور تکذیب کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا کہ ’’اس آگ کا عذاب چکھو جسے تم دنیا میں جھٹلاتے تھے اورا س بات پر قائم تھے کہ جہنم نہیں ہے،تو جب تمہیں ا س میں داخل کیا گیا تو تمہارا گمان اور دعویٰ باطل ہو گیا۔( البحر المحیط، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۷ / ۲۷۴، روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۷ / ۳۰۴، ملتقطاً)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کفار سے فرمائے گا کہ جن جھوٹے معبودوں اور بتوں سے تم نفع کی امید رکھتے تھے آج کے دن وہ تمہیں کچھ نفع نقصان نہ پہنچاسکیں گے او رہم قیامت کے دن مشرکوں سے فرمائیں گے کہ اس آگ کا عذاب چکھو جسے تم دنیا میں جھٹلاتے تھے۔(تفسیرکبیر، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۹ / ۲۱۲، ابن کثیر، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۶ / ۴۶۳، تفسیرسمرقندی، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۷۶، ملتقطاً)
{وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ: اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں پڑھی جائیں ۔} اس آیت میں حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآنِ پاک کے بارے میں کفار کے بیہودہ الزامات ذکر کئے جا رہے ہیں ۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب مکہ کے مشرکین کے سامنے سیّدِعالَم محمد ِمصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبان سے توحید کی حقیقت اور شرک کے بُطلان پر مشتمل قرآن کی روشن آیتیں پڑھی جائیں تو وہ سرورِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ صرف ایک مردہے جو تمہیں تمہارے باپ دادا کے معبودو ں یعنی بتوں سے روکنا چاہتا ہے اور وہ قرآن شریف کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ توایک ایساکلام ہے جو گھڑاہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت جھوٹی ہے اور کافروں کے پاس جب قرآن آیا تو اس کے بارے میں انہوں نے کہاکہ یہ تو صرف ایک کھلا جادوہے۔( روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۳، ۷ / ۳۰۴-۳۰۵، ملخصاً)
شرعی اَحکام کے مقابلے میں آباؤ اَجداد کی رسم کو ترجیح دینا کفار کا کام ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اپنے باپ دادوں کی رسم کو شرعی احکام کے مقابلے میں ترجیح دینا کفار کا کام ہے۔ اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو غیر شرعی رسوم پر عمل کرنے کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہمارے بڑے بوڑھے سب اسی طرح کرتے آئے ہیں اور شرعی حکم بتانے والے سے کہتے ہیں کہ ہماری عمر گزر گئی ،ہم نے تو کبھی ایسا نہیں سنا ،تم پتا نہیں کہاں سے نئے نئے مسئلے نکال لاتے ہو۔اللہ تعالیٰ انہیں عقل ِسلیم عطا فرمائے ،اٰمین۔
{وَ مَاۤ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ كُتُبٍ یَّدْرُسُوْنَهَا: اور ہم نے انہیں کتابیں نہ دیں جنہیں وہ پڑھتے ہوں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ سے پہلے عرب کے مشرکین کے پاس نہ کوئی کتاب آئی جس میں شرک صحیح ہونے پر کوئی دلیل ہو اور نہ ان کے پاس کوئی رسول آیا جس کی طرف یہ لوگ اپنے دین کو منسوب کرسکیں تو یہ جس خیال پر ہیں ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ، وہ صرف ان کے نفس کا فریب ہے۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۵۲۶، ابو سعود، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۴ / ۳۵۶، تفسیر قرطبی، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۷ / ۲۲۶، الجزء الرابع عشر، ملتقطاً)
{وَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: اور ان سے پہلے لوگوں نے جھٹلایا۔} اس آیت میں کفار ِقریش کو رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کرنے سے ڈرایا گیا ہے،آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی اُمتوں نے کفارِ قریش کی طرح رسولوں کی تکذیب کی اور انہیں جھٹلایا اور جو قوت ،مال و اولاد کی کثرت اور لمبی عمریں پہلوں کو دی گئی تھیں مشرکینِ قریش کے پاس تو اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ، اُن سے پہلے لوگ تو اُن سے طاقت ، قوت اورمال و دولت میں دس گنا زیادہ تھے۔ پھر پہلے تکذیب کرنے والوں نے جب میرے رسولوں کو جھٹلایا تو میں نے اپنے عذاب سے انہیں ہلاک کر دیا اور ان کی طاقت و قوت اور مال و دولت کوئی چیز بھی کام نہ آئی تو اِن کفارِ قریش کی کیا حقیقت ہے؟ انہیں سابقہ امتوں پر نازل ہونے والے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔( مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۵،ص۹۶۶، ملخصاً)
{قُلْ اِنَّمَاۤ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ: تم فرماؤ: میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ ’’اے لوگو!میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں ،اگر تم نے اس پر عمل کیا تو تم پر حق واضح ہوجائے گا اور تم وَساوِس و شُبہات اور گمراہی کی مصیبت سے نجات پاجاؤ گے۔ وہ نصیحت یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو طرفداری اور تعصُّب سے خالی کرکے محض طلبِ حق کی نیّت سے اللہ تعالیٰ کے لیے دو دوہوکر کھڑے رہو تاکہ باہم مشورہ کرسکو اور ہر ایک دوسرے سے اپنی فکر اور سوچ کا نتیجہ بیان کرسکے اور دونوں انصاف کے ساتھ غور کرسکیں اور اکیلے اکیلے کھڑے رہو تاکہ مجمع اور اژدھام سے طبیعت میں وحشت پیدا نہ ہو اور تعصُّب ، طرفداری ،مقابلہ اور لحاظ وغیرہ سے طبیعتیں پاک رہیں اور اپنے دل میں انصاف کرنے کا موقع ملے۔پھر تم سوچو اورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں غور کرو کہ کیا جیسا کہ کفار آپ کی طرف جنو ن کی نسبت کرتے ہیں اس میں سچائی کا کچھ شائبہ بھی ہے؟ تمہارے اپنے تجربہ میں ، قریش میں یا پوری بنی نوعِ انسانی میں کوئی شخص بھی اس مرتبے کا عقلمند نظر آیا ہے؟کیا ایسا ذہین، ایسا صائب الرائے دیکھا ہے؟ ایسا سچا ،ایسا پاک نفس کوئی اور بھی پایا ہے؟ جب تمہارا نفس حکم کردے اور تمہارا ضمیر مان لے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان اوصاف میں یکتا ہیں تو تم یقین جانوکہ تمہارے ان صاحب میں جنون کی کوئی بات نہیں ۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور تمہیں آخرت کے عذاب سے پہلے صرف ڈر انے والے ہیں ۔( مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۹۶۷، خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۵۲۷، ملتقطاً)
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفار سے فرما دیں کہ میں نصیحت و ہدایت اور تبلیغ ورسالت پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا، اگر میں نے تم سے اس تبلیغ پر کوئی معاوضہ مانگا ہو تو وہ تمہیں ہی مبارک ہو ،اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھو، میرا اجر و ثواب تو اللہ تعالیٰ ہی کے ذمّۂ کرم پر ہے ۔اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے لہٰذا وہ جانتا ہے کہ میں نے تمہیں نصیحت کرنے اور ا س کی طرف بلانے پر صرف اسی سے اجر طلب کیا ہے۔( مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۹۶۷، ملخصاً)
{قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَقْذِفُ بِالْحَقِّ: تم فرماؤ:بیشک میرا رب حق اِلقاء فرماتا ہے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ بے شک میرا رب عَزَّوَجَلَّ اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی نازل فرماتا ہے اور زمین و آسمان میں مخلوق سے پوشیدہ ہر چیز کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ میرا رب باطل پر حق کی ضر ب مارتا ہے تو وہ اس کا دماغ توڑ کر رکھ دیتا ہے اور اسے مٹا دیتا ہے اوراللہ تعالیٰ مخلوق سے پوشیدہ تمام چیزوں کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔( جلالین، السبا، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۳۶۳، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۹۶۷-۹۶۸، ملتقطاً)
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ حق یعنی قرآن اوراسلام آ گیا اور باطل یعنی شرک و کفر مٹ گیا ،نہ اُس کی ابتدا رہی نہ اس کا اعادہ ،مراد یہ ہے کہ وہ ہلاک ہوگیا اور اس کا کوئی اثر باقی نہ بچا۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۳ / ۵۲۷، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۹۶۸، جلالین، السبا، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۳۶۳، ملتقطاً)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ فتحِ مکہ کے دن جب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو اس وقت خانہ کعبہ کے گرد تین سوساٹھ بت نَصب تھے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ فرماتے ہوئے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی سے ان بتوں کو گرانا شروع کر دیا کہ ’’جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ‘‘(ترجمۂکنزُالعِرفان: حق آیا اور باطل مٹ گیا۔) ’’جَآءَ الْحَقُّ وَ مَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَ مَا یُعِیْدُ‘‘ (ترجمۂکنزُالعِرفان: حق آ گیا اور باطل کی نہ ابتدا رہے اور نہ لوٹ کر آئے۔)( بخاری، کتاب المغازی، باب این رکز النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الرایۃ یوم الفتح؟، ۳ / ۱۰۳، الحدیث: ۴۲۸۷)
{قُلْ: تم فرماؤ۔} کفارِ مکہ حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہتے تھے کہ آپ گمراہ ہوگئے ہیں(مَعَاذَ اللہ تَعَالٰی )۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن سے فرمادیں کہ اگر یہ فرض کیا جائے کہ میں بھٹک گیاتو اس کا وبال میرے نفس پر ہے اور اگر میں نے ہدایت پائی ہے تو حکمت و بیان کی اس وحی کے سبب ہدایت پائی ہے جو میرا رب عَزَّوَجَلَّ میری طرف بھیجتا ہے کیونکہ راہ یاب ہونا اسی کی توفیق و ہدایت پر ہے۔(روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۵۰، ۷ / ۳۰۸-۳۰۹)
تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممعصوم ہیں :
یاد رہے کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سب معصوم ہوتے ہیں کہ اُن سے گناہ نہیں ہوسکتا اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھی سردار ہیں ،مخلوق کو نیکیوں کی راہیں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی سے ملتی ہیں ،اس جلیل مقام اور بلند مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا گیا کہ ضلالت کی نسبت فرضی بات کے طور پر اپنے نفس کی طرف فرمائیں تاکہ مخلوق کو معلوم ہو کہ ضلالت کا مَنشاء یعنی پیدا ہونے کی جگہ انسان کا نفس ہے، جب انسان کو اس پر چھوڑ دیا جاتا ہے تو اس سے ضلالت پیدا ہوتی ہے اور ہدایت اللہ تعالیٰ کی رحمت و توفیق سے حاصل ہوتی ہے، نفس اس کے پیدا ہونے کی جگہ نہیں ۔( خزائن العرفان ، سبا، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۸۰۳، ملخصاً)
{اِنَّهٗ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ: بیشک وہ سننے والا نزدیک ہے۔} ارشادفرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا نزدیک ہے ،ہر راہ یاب اور گمراہ کو جانتا ہے اور ان کے عمل و کردار سے باخبر ہے ،کوئی کتنا ہی چھپائے کسی کا حال اس سے چھپ نہیں سکتا۔
قرآنِ کریم کے اعجاز سے متعلق ایک حکایت:
عرب کے ایک مایہ ناز شاعر اسلام لائے تو کفار نے اُن سے کہا کہ کیا تم اپنے دین سے پھر گئے اور اتنے بڑے شاعر اور زبان کے ماہر ہو کر محمد ِمصطفٰیصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئے! اُنہوں نے کہا: ہاں ! وہ مجھ پر غالب آگئے، میں نے قرآنِ کریم کی تین آیتیں سنیں اور یہ چاہا کہ اُن کے قافیہ پر تین شعر کہوں ،ہر چند کوشش کی محنت اُٹھائی، اپنی قوت صرف کردی مگر یہ ممکن نہ ہوسکا ، تب مجھے یقین ہوگیا کہ یہ کسی بشر کا کلام نہیں ۔وہ آیتیں : ’’قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَقْذِفُ بِالْحَقِّ‘‘ سے ’’سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ‘‘ تک ہیں۔( روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۵۰، ۷ / ۳۰۹)
{وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ فَزِعُوْا: اور اگرتم دیکھتے جب وہ گھبرائے ہوئے ہوں گے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ اس وقت کفار کو دیکھتے تو بڑا ہَولْناک منظر دیکھتے جب وہ موت کے وقت یا قبر سے اُٹھنے کے وقت یا بدر کے دن گھبرائے ہوئے ہوں گے،پھر ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ کر نکلنا ممکن نہ ہو گا اور نہ ہی وہ کسی جگہ بھاگ کر یا پناہ لے کر اس سے نجات حاصل کر سکیں گے اور وہ جہاں بھی ہوں گے انہیں ایک قریب کی جگہ سے پکڑ لیا جائے گا کیونکہ وہ کہیں بھی ہوں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے دور نہیں ہوسکتے ،اس وقت وہ حق کی معرفت کے لئے مجبورہوں گے۔(روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۷ / ۳۰۹، جمل، سبأ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۶ / ۲۴۰، قرطبی، سبأ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۷ / ۲۲۹، الجزء الرابع عشر، ملتقطاً)
{وَ قَالُوْا: اور کہیں گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب وہ عذاب دیکھیں گے تو کہیں گے کہ ہم نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اب وہ مُکَلَّف ہونے کی جگہ (یعنی دنیا) سے دور ہو کر توبہ و ایمان کیسے پاسکیں گے؟حالانکہ عذاب دیکھنے سے پہلے وہ اس کا انکار کرچکے ہیں ۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۵۲-۵۳، ۳ / ۵۲۸، جلالین، السبا، تحت الآیۃ: ۵۲-۵۳، ص۳۶۳، ملتقطاً)
{وَ حِیْلَ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَا یَشْتَهُوْنَ: اور ان کے درمیان اور ان کی چاہت کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی۔} یعنی کفار کے درمیان اور ان کی چاہت توبہ وایمان قبول کرنے کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی جیسے ان کے پہلے گروہوں کے ساتھ کیا گیا تھا کہ اُن کی توبہ و ایمان نا امیدی کے وقت قبول نہ فرمائی گئی،بیشک کفار اِیمانیات کے متعلق دھوکا ڈالنے والے شک میں تھے۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۵۲۸، جلالین، السبا، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۳۶۳-۳۶۴، ملتقطاً)
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ قرآنِ پاک کی آیات میں بہت غور و فکر کیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ٹھنڈا پانی پیا تو رونے لگ گئے ۔ان سے عرض کی گئی کہ آپ کو کیا چیز رُلا رہی ہے۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ’’مجھے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے یہ آیت یاد آ گئی تھی: ’’وَ حِیْلَ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَا یَشْتَهُوْنَ‘‘ اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ جہنمی صرف ٹھنڈے پانی کی خواہش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے )اور جہنمی جنتیوں کو پکاریں گے): ’’اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ‘‘(اعراف:۵۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کہ ہمیں کچھ پانی دیدو یا اس رزق سے کچھ دیدو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔( شعب الایمان، الثالث والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۴۹، الحدیث: ۴۶۱۴)
ان مقدس ہستیوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہمیں بھی چاہئے کہ قرآنِ مجید کی آیات میں غور و فکر کیا کریں اور ان میں بیان کئے گئے مضامین اور دیگر چیزوں سے عبرت اور نصیحت حاصل کیا کریں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan