READ

Surah Fussilat

حٰمٓ اَلسَّجْدَۃ
54 Ayaat    مکیۃ


41:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

41:1
حٰمٓۚ(۱)
حٰمٓ

{ حٰمٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں  سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{تَنْزِیْلٌ: نازل کیا ہوا ہے۔} اس آیت میں  قرآنِ مجید کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ یہ قرآنِ پاک اُس اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل کیا ہوا ہے جو اپنے بندوں  پر بہت مہربان اور نہایت رحم فرمانے والا ہے۔

41:2
تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۚ(۲)
یہ اتارا ہے بڑے رحم والے مہربان کا،

41:3
كِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰیٰتُهٗ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَۙ(۳)
ایک کتاب ہے جس کی آیتیں مفصل فرمائی گئیں (ف۲) عربی قرآن عقل والوں کے لیے،

{كِتٰبٌ: ایک کتاب ہے۔} اس آیت میں  قرآنِ کریم کے پانچ اَوصاف بیان کئے گئے ہیں ،

(1)…یہ کلام ایک کتاب ہے ۔کتاب اسے کہتے ہیں  جو کئی مضامین کی جامع ہو اور قرآنِ کریم چونکہ اَوّلین و آخرین کے علوم کا جامع ہے ا س لئے اسے کتاب فرمایا گیا۔

(2)… اس کلام کی آیتیں  تفصیل سے بیان کی گئیں  ہیں ۔یعنی قرآنِ پاک کی آیتیں  مختلف اَقسام کی ہیں  جن میں  احکام، مثالوں ،وعظ و نصیحت ، و عدہ اور وعید وغیرہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔

(3)…یہ کلام قرآن ہے۔یہ ایسا کلام ہے جسے دنیا میں  سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے اور اس کی آیتیں  باہم مَربوط اور ملی ہوئی ہیں ، نیز یہ بندوں  کو خدا سے ملا دیتا ہے۔

(4)…اس کلام کی زبان عربی ہے۔اس سے معلوم ہو اکہ عربی زبان بہت فضیلت اور اہمیت کی حامل ہے اور یہ بھی معلوم ہو اکہ قرآنِ مجید کا ترجمہ قرآن نہیں  لہٰذا نماز میں صرف ترجمہ پڑھ لینے سے نماز نہ ہو گی۔

(5)… قرآنِ مجید کا عربی میں  ہونا ان لوگوں  کے لئے ہے جن کی زبان عربی ہے تاکہ وہ اس کے معانی کو سمجھ سکیں ۔ ایک تفسیر کے اعتبار سے اس آیت میں  قرآنِ مجید کی پانچویں  صفت یہ ہے کہ اس کی آیتیں  عرب والوں  کے لئے تفصیل سے بیان کی گئی ہیں ۔اہلِ عرب کا بطورِ خاص ا س لئے ذکر کیا گیا کہ وہ ہم زبان ہونے کی وجہ سے اس کے معانی کو کسی واسطے کے بغیر سمجھ سکتے ہیں  جبکہ دیگر زبانوں  سے تعلق رکھنے والوں  کو قرآنِ کریم کے معانی سمجھنے کے لئے واسطے کی حاجت ہے۔( تفسیرکبیر ، فصلت ، تحت الآیۃ : ۳ ، ۹ / ۵۳۸ ، جلالین مع صاوی ، فصلت، تحت الآیۃ: ۳، ۵ / ۱۸۳۹، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۸ / ۲۲۶، ملتقطاً)

 

41:4
بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۚ-فَاَعْرَضَ اَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ(۴)
خوشخبری دیتا (ف۳) اور ڈر سناتا (ف۴) تو ان میں اکثر نے منہ پھیرا تو وہ سنتے ہی نہیں (ف۵)

{بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا: خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔} یعنی قرآنِ مجید کا وصف یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ کے فرمانبردار بندوں  کورضائے الٰہی کی خوشخبری دینے والا اوراس کے نافرمانوں  کو عذاب کا ڈر سنانے والا ہے ۔ایسی عظمت و شان والی کتاب ملنے کے باوجود کفارِ مکہ میں  سے اکثر نے اس سے منہ پھیر لیا اور عربی زبان میں  ہونے کے باوجوداس میں  غور وفکر نہ کیا اور وہ اسے توجہ سے سنتے ہیں  اور نہ ہی اس کی ہدایت کو قبول کرتے ہیں ۔
41:5
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْۤ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَیْهِ وَ فِیْۤ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّ مِنْۢ بَیْنِنَا وَ بَیْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ(۵)
اور بولے (ف۶) ہمارے دل غلاف میں ہیں اس بات سے جس کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو (ف۷) اور ہمارے کانوں میں ٹینٹ (روئی) ہے (ف۸) اور ہمارے اور تمہارے درمیان روک ہے (ف۹) تو تم اپنا کام کرو ہم اپنا کام کرتے ہیں (ف۱۰)

{وَ قَالُوْا: اورانہوں  نے کہا۔} جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مشرکوں  کو ایمان قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں  نے کہا:آپ ہمیں  توحید اور ایمان کی جو دعوت دے رہے ہیں  ہم اس کو سمجھ ہی نہیں  سکتے کیونکہ اس بات سے ہمارے دلوں  پر پردے پڑے ہوئے ہیں  اور ہمارے کانوں  میں بوجھ ہے جس کی وجہ سے بہرے ہیں  اور آپ کی بات ہمارے سننے میں  نہیں  آتی ۔اس سے مشرکوں  کی مراد یہ تھی کہ آپ ہم سے ایمان اور توحید کو قبول کرنے کی توقُّع نہ رکھئے ، ہم کسی طرح ماننے والے نہیں  اور نہ ماننے میں  ہم اس شخص کی طرح ہیں  جو نہ سمجھتا ہو ، نہ سنتا ہو ۔مشرکوں  نے مزید یہ کہا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان دینی مخالفت ہے،اس لئے ہم آپ کی بات ماننے والے نہیں ، توتم اپنے دین پر رہو ، ہم اپنے دین پر قائم ہیں  اور تم سے ہمارا کام بگاڑنے کی جو کوشش ہوسکے وہ کرو ، ہم بھی تمہارے خلاف جو ہوسکے گا کریں  گے۔(روح البیان ، حم السجدۃ ، تحت الآیۃ : ۵، ۸ / ۲۲۷ ، خازن ، فصلت ، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۸۰، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۰۶۸، ملتقطاً)

41:6
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِیْمُوْۤا اِلَیْهِ وَ اسْتَغْفِرُوْهُؕ-وَ وَیْلٌ لِّلْمُشْرِكِیْنَۙ(۶)
تم فرماؤ (ف۱۱) آدمی ہونے میں تو میں تمہیں جیسا ہوں (ف۱۲) مجھے وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، تو اس کے حضور سیدھے رہو (ف۱۳) اور اس سے معافی مانگو (ف۱۴) اور خرابی ہے شرک والوں کو،

{ قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ: تم فرماؤ :میں  تمہارے جیسا ایک انسان ہی ہوں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے تمام مخلوق سے زیادہ مُعزّز اور دو عالَم کے سردار! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان لوگوں  کی ہدایت اور نصیحت کے لئے تواضُع کے طور پر فرما دیں  کہ میں  آدمی ہونے میں  ظاہری طور پر تم جیسا ہوں  کہ میں  دیکھا بھی جاتا ہوں  ، میری بات بھی سنی جاتی ہے اور میرے تمہارے درمیان میں  بظاہر جنس کا بھی کوئی اختلاف نہیں  ہے، تو تمہار ایہ کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ میری بات نہ تمہارے دل تک پہنچتی ہے ، نہ تمہارے سننے میں  آتی اور میرے تمہارے درمیان کوئی رکاوٹ ہے، اگر میری بجائے کوئی دوسری جنس کا فرد جیسے جن یا فرشتہ آتا تو تم کہہ سکتے تھے کہ نہ وہ ہمارے دیکھنے میں  آتے ہیں ، نہ ان کی بات سننے میں  آتی ہے اور نہ ہم ان کے کلام کو سمجھ سکتے ہیں  ، ہمارے اور ان کے درمیان تو جنسی مخالفت ہی بڑی رکاوٹ ہے لیکن یہاں  تو ایسا نہیں  ،کیونکہ میں  بشری صورت میں  جلوہ نما ہوا ہوں  تو تمہیں  مجھ سے مانوس ہونا چاہئے اور میرے کلام کو سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی بہت کوشش کرنی چاہئے کیونکہ میرا مرتبہ بہت بلند ہے اور میرا کلام بہت عالی ہے ، اس لئے میں  وہی کہتا ہوں  جو مجھے وحی ہوتی ہے کہ اے لوگو!تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو اس کی طرف سیدھے رہو، اس پر ایمان لاؤ ، اس کی ا طاعت اختیار کرو اور اس کی راہ سے نہ پھرو اور اس سے اپنے فاسد عقائد اور اعمال کی معافی مانگو اور یاد رکھو کہ مشرکوں  کیلئے خرابی اور ہلاکت ہے۔( ابو سعود، السجدۃ،تحت الآیۃ: ۶، ۵ / ۵۰۲، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۸۰، خزائن العرفان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۶، ص۸۷۸-۸۷۹، ملتقطاً)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بَشریَّت:

            سر کارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ظاہری لحاظ سے ’’اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ‘‘ فرمانا ا س حکمت کی وجہ سے ہے کہ لوگ ان سے ہدایت اور نصیحت حاصل کریں ، نیز آپ کا یہ فرمان تواضُع کے طور پر ہے اور جو کلمات تواضع کے لئے کہے جائیں  وہ تواضع کرنے والے کا منصب بلند ہونے کی دلیل ہوتے ہیں  ، چھوٹوں  کا ان کلمات کو اس کی شان میں  کہنا یا اس سے برابری ڈھونڈھنا ترکِ ادب اور گستاخی ہوتا ہے، تو کسی اُمتی کو روا نہیں  کہ وہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہم مثل ہونے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بَشریَّت بھی سب سے اعلیٰ ہے، ہماری بشریت کو اس سے کچھ بھی نسبت نہیں ۔( خزائن العرفان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۶، ص۸۷۹، ملخصاً)

          نوٹ:حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بشریت سے متعلق تفصیلی کلام سورہِ کہف کی آیت نمبر 110 کی تفسیر کے تحت ملاحظہ فرمائیں ۔

 

41:7
الَّذِیْنَ لَا یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ(۷)
وہ جو زکوٰة نہیں دیتے (ف۱۵) اور وہ آخرت کے منکر ہیں (ف۱۶)

{اَلَّذِیْنَ لَا یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ: وہ جو زکوٰۃ نہیں  دیتے۔} آیت کے اس حصے کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں  ،ان میں  سے تین قول درج ذیل ہیں  ۔

(1)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور جمہور مفسرین کا قول یہ ہے کہ ’’یہاں  زکوٰۃ سے مراد (اس کا حقیقی معنی نہیں  بلکہ اس سے مراد) توحید کا معتقد ہونا اور ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ کہنا ہے۔ اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ مشرکین وہ لوگ ہیں  جو توحید کا اقرار کرکے اپنے نفسوں  کو شرک سے باز نہیں  رکھتے ۔

(2)…حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا قول یہ ہے کہ یہاں  زکوٰۃ نہ دینے سے مراد یہ ہے کہ مشرکین زکوٰۃ کے فرض ہونے پر ایمان نہیں  لاتے اور ا س کا اقرار نہیں  کرتے ۔

(3)…حضرت مجاہد اور حضرت ربیعرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمَاکا قول یہ ہے کہ (یہاں  زکوٰۃ کا اصطلاحی معنی مراد نہیں  بلکہ) زکوٰۃ سے مراد اپنے اعمال کا تَزکِیَہ کرنا (اور ایمان قبول کر کے انہیں  شرک کی نجاست سے پاک کرنا) ہے۔(البحر المحیط، فصلت، تحت الآیۃ: ۷، ۷ / ۴۶۴)

            نوٹ: اس آیت کی تفسیر میں  ان تین کے علاوہ مفسرین کے اور بھی اَقوال ہیں  ۔

            امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ’’ یہاں آیت میں  زکوٰۃ ادا نہ کرنے کو آخرت کے انکار کے ساتھ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو مال بہت پیارا ہوتا ہے تو جب وہ مال کو راہِ خدا میں  خرچ کرے گا تو یہ اس کی اِستقامت، اِستقلال ،صدق اور نیت کے اخلاص کی مضبوط دلیل ہو گی۔نیزاس آیت میں  ضمنی طور پر ان مسلمانوں  کو بھی خوف دلایا گیا ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں  کرتے تاکہ انہیں  معلوم ہو جائے کہ زکوٰۃ نہ دینا ایسا برا فعل ہے کہ اسے قرآنِ کریم میں  مشرکین کے اَوصاف میں  ذکر کیا گیا ہے۔(مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۰۶۹، ملخصاً)

{وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ: اور وہ آخرت کے منکر ہیں ۔} آیت کے اس حصے میں  مشرکوں  کاایک اورجرم بیان کیا گیا کہ وہ آخرت کے منکر ہیں  کہ مرنے کے بعد اٹھنے اوراعمال کی جزا ملنے کے قائل نہیں ۔(خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۸۰)

 

41:8
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ۠(۸)
بیشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کے لیے بے انتہا ثواب ہے (ف۱۷)

{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: بیشک جو ایمان لائے۔} اس سے پہلی آیت میں  کافروں  کے لئے وعید بیان ہوئی اور اس آیت میں  ایمان والوں  کے لئے وعدہ کا ذکر ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک ایمان لانے والوں  اور اچھے اعمال کرنے والوں  کیلئے بے انتہا ثواب ہے جو مُنقطع نہ ہوگا ۔

            اس آیت کی تفسیر میں  یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت بیماروں  ، اپاہجوں  اوران بوڑھوں  کے حق میں  نازل ہوئی جو عمل اورطاعت کے قابل نہ رہے ، انہیں  اب بھی وہی اجر ملے گا جو تندرستی کے زمانے میں  عمل کرنے پر ملا کرتا تھا۔( تفسیرکبیر، فصلت، تحت الآیۃ: ۸، ۹ / ۵۴۳)

مسلمانوں  کے نیک اعمال کاثواب بیماری اور بڑھاپے وغیرہ میں  مُنقطع نہیں  ہوتاـ:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ (اپنے فضل و کرم سے) مسلمانوں  کو ان کے نیک اعمال کا بے انتہا ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی معلوم ہو اکہ جو مسلمان تندرستی اور صحت کے اَیّام میں  کوئی نیک عمل پابندی کے ساتھ کیاکرتا تھا، پھر بیماری،معذوری یا بڑھاپے وغیرہ کی وجہ سے وہ نیک عمل نہ کر سکا تو ان اَیّام میں  عمل نہ کرنے کے باوجود اسے اسی نیک عمل کا ثواب ملتا رہے گا،یہ مضمون کثیر اَحادیث میں  بھی بیان کیا گیا ہے ،ان میں  سے تین اَحادیث درج ذیل ہیں ،

 (1)…حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب کوئی بندہ بیمارہوجائے یاکسی سفرپرجائے تواسے اس کے ان نیک اعمال کااجرملتارہے گاجو وہ صحت کے اَیّام میں  اورحالت ِاقامت میں  کیاکرتاتھا۔( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب یکتب للمسافر مثل ما کان یعمل فی الاقامۃ، ۲ / ۳۰۸، الحدیث: ۲۹۹۶)

(2)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ جب بندہ عبادت کے اچھے راستے پر ہوتا ہے، پھر بیمار ہوجاتا ہے تو اس پر مقرر فرشتے سے کہا جاتا ہے: تم اس کی تندرستی کے زمانہ کے برابر اعمال لکھتے رہو یہاں  تک کہ میں  اسے شفادے دوں  یا اسے اپنے پاس بلالوں ۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالی عنہما، ۲ / ۶۴۸، الحدیث: ۶۹۱۲)

(3)…حضرت عتبہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مومن کا اپنی بیماری پربے قرارہونا تعجب خیز ہے ،اگراسے معلوم ہوجائے کہ اس کی بیماری میں  کتناثواب ہے تووہ یہ چاہے گاکہ ساری زندگی بیمارہی رہے، پھرحضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آسمان کی طرف سراٹھاکرمسکرائے تو آپ سے عرض کی گئی : آپ آسمان کی طرف دیکھ کر کیوں  مسکرائے؟ ارشاد فرمایا: ’’مجھے دوفرشتوں  کودیکھ کرتعجب ہوا،وہ نماز پڑھنے کی ایک جگہ میں  وہاں  نمازپڑھنے والے کوڈھونڈ رہے تھے،جب اس جگہ وہ نمازی نہیں  ملاتو فرشتے واپس چلے گئے ،پھرانہوں  نے عرض کی:اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہم تیرے فلاں  بندے کانیک عمل دن رات لکھتے تھے، اب ہمیں معلوم ہوا کہ تونے اسے اپنی (تقدیر کی) رسی سے باندھ لیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’تم میرے بندے کے اسی عمل کولکھتے رہوجووہ دن رات کیاکرتاتھااوراس میں  کوئی کمی نہ کرو اور میں  نے جتنے دن اسے روک لیاہے ان دنوں  کااجرمیرے ذمہ ِکرم پرہے اورجوعمل وہ کیاکرتاتھااس کا اجر اسے ملتا رہے گا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: ابراہیم، ۲ / ۱۱، الحدیث: ۲۳۱۷)

 

41:9
قُلْ اَىٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَ تَجْعَلُوْنَ لَهٗۤ اَنْدَادًاؕ-ذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۚ(۹)
تم فرماؤ کیا تم لوگ اس کا انکار رکھتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی (ف۱۸) اور اس کے ہمسر ٹھہراتے رہو (ف۱۹) وہ ہے سارے جہان کا رب (ف۲۰)

{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس سے پہلے آیت نمبر6 میں  بتایا گیا کہ لوگوں  کا معبود صرف ایک ہے اور اب اس آیت سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ معبود ہونے میں  اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں  ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں  سے ارشاد فرما دیں  کہ کیا تم اس عظمت و شان والے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کر کے اس کے ساتھ کفر کرتے ہو جس نے اپنی قدرت اور حکمت سے اتنی بڑی زمین کو صرف دو دن میں  بنا دیا اور تم بتوں  اور بے جان مورتیوں  کو ایسی قدرت اور حکمت والے رب تعالیٰ کاشریک ٹھہراتے ہو حالانکہ اس کا کوئی شریک ہونا ممکن ہی نہیں  اور وہ سارے جہانوں  کا رب ہے تو اس کی مخلوق میں  سے کوئی اس کا شریک کس طرح ہو سکتا ہے ۔یاد رکھو کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عبادت کا مستحق ہے ، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں  کیونکہ سب اس کی مخلوق اور ا س کی مِلکیَّت ہیں ۔( تفسیرکبیر، فصلت، تحت الآیۃ: ۹، ۹ / ۵۴۳-۵۴۴، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۸ / ۲۳۲، ملتقطاً)

            نوٹ:یاد رہے کہ زمین کو دو دن میں  پیدا فرمانا حکمت کے پیش ِنظر ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ایسی ہے کہ وہ چاہتا تو ایک لمحے سے بھی کم میں  پوری زمین بنادیتا ۔
41:10
وَ جَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِهَا وَ بٰرَكَ فِیْهَا وَ قَدَّرَ فِیْهَاۤ اَقْوَاتَهَا فِیْۤ اَرْبَعَةِ اَیَّامٍؕ-سَوَآءً لِّلسَّآىٕلِیْنَ(۱۰)
اور اس میں (ف۲۱) اس کے اوپر سے لنگر ڈالے (ف۲۲) (بھاری بوجھ رکھے) اور اس میں برکت رکھی (ف۲۳) اور اس میں اس کے بسنے والوں کی روزیاں مقرر کیں یہ سب ملاکر چار دن میں (ف۲۴) ٹھیک جواب پوچھنے والوں کو،

{وَ جَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِهَا: اور اس نے زمین میں  اس کے اوپر سے پہاڑرکھ دئیے۔} یعنی اللہ تعالیٰ ایسا قادر ہے کہ اس نے زمین میں  اس کے اوپر سے پہاڑرکھ دئیے اوردریا، نہریں ، درخت ، پھل اور طرح طرح کے حیوانات وغیرہ پیدا کرکے اس میں  برکت رکھی اور زمین میں  بسنے والے انسانوں  اور دیگر جانداروں  کے لئے ان کی روزیاں  مقرر کر دیں  ، یہ سب کچھ چاردنوں  میں  ہوا اور جو لوگ زمین کی تخلیق کے بارے میں  سوال کرنے والے ہیں  ان کے لئے یہ پورے چار دن ہیں ۔( خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۸۰-۸۱، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۸ / ۲۳۳-۲۳۴، ملتقطاً)

          نوٹ: یاد رہے کہ یہاں  چار دنوں  میں  وہ دو دن شامل ہیں  جن میں  زمین کو پیدا کیاگیا یعنی دودن میں  زمین کی پیدائش ہوئی اور دو دن میں  پہاڑ وغیرہ دیگر چیزیں  پیدا کی گئیں ،یوں  یہ مکمل چار دن ہوئے ۔
41:11
ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ وَ هِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَ لِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًاؕ-قَالَتَاۤ اَتَیْنَا طَآىٕعِیْنَ(۱۱)
پھر آسمان کی طرف قصد فرمایا اور وہ دھواں تھا (ف۲۵) تو اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں حاضر ہو خوشی سے چاہے ناخوشی سے، دونوں نے عرض کی کہ ہم رغبت کے ساتھ حاضر ہوئے،

{ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ: پھر اس نے آسمان کی طرف قصد فرمایا۔} اس آیت میں  تین چیزیں  بیان کی گئی ہیں  ،

(1)…زمین کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق آسمان کو پیدا کرنے کی طرف قصد فرمایا۔

             آیت کے اس حصے سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ پہلے زمین اور اس پر موجود دیگرچیزوں  کی تخلیق ہوئی اور اس کے بعد آسمانوں  کو پیدا کیا گیا جبکہ سورہِ نازعات کی آیت نمبر27تا32میں  یہ مذکور ہے کہ پہلے آسمانوں  کو پیدا کیا گیا اس کے بعد زمین کو پھیلایا گیا اور اس میں  پہاڑ وغیرہ دیگر چیزیں  پیدا کی گئیں ، ان دونوں  سورتوں  کی آیات میں  بیان کی گئی چیزیں  بظاہر ایک دوسرے کے مخالف نظر آتی ہیں  اور ا س ظاہری اختلاف کو دور کرنے کے لئے مفسرین نے مختلف جوابات دئیے ہیں  ،ان میں  سے ایک واضح جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دودن زمین کو گول دائرے کی صورت میں  پیدا فرمایا،پھر اس کے بعد آسمانوں  کو پیدا فرمایا،پھر آسمان کو پیدا کرنے کے بعد زمین کو پھیلایا ،تو تمام چیزو ں  کی تخلیق 6 دنوں  میں  ہوئی اور زمین کو پھیلانا اس کے بعد ہوا، لہٰذا ان آیتوں  میں  کوئی اختلاف نہیں ۔( صاوی، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۱۸۴۳)

 (2)…آیت میں  دوسری بات یہ بیان کی گئی کہ آسمان دھواں  تھا۔مفسرین فرماتے ہیں  کہ یہ دھواں  پانی کا بخار تھا اور اس کے بارے میں  تفصیل یہ ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا،پھر اللہ تعالیٰ نے پانی میں  حرکت پیدا فرمائی (اور موجیں  ایک دوسرے سے ٹکرائیں ) تو اس سے جھاگ پیدا ہوئی اور اس جھاگ سے دھواں  نکلا، پھر جھاگ تو پانی کی سطح پر باقی رہی اور ا س سے خشکی پیدا کی گئی اوراس خشکی سے زمین کو بنایا گیا، جبکہ دھواں  بلند ہوا اور اس سے آسمانوں  کو پیدا کیا گیا۔( جمل، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۹)

(3)…اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین دونوں سے فرمایا کہ تم خوشی یا ناخوشی سے آجاؤ۔دونوں  نے عرض کی: ہم خوشی کے ساتھ حاضر ہوئے۔ اس کی تفسیر میں  حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :اس سے مراد یہ ہے کہ اے آسمان اور زمین !میں  نے تم میں  جو مَنافع اور مَصالح پیدا فرمائے ہیں  انہیں  لے آؤ اور میری مخلوق کے لئے انہیں  ظاہر کر دو۔

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  :اللہ تعالیٰ نے آسمان سے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے سورج،چاند اور ستاروں  کو طلوع کر دو اور اپنی ہواؤں  اور بادلوں  کو جاری کر دو اور زمین سے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی نہروں  کو رواں  کر دو اور اپنے درختوں  اور پھلوں  کو نکال دو اور یہ کام خوشی سے کرو یا ناخوشی سے (تمہیں  بہر حال ایسا کرنا ہے) آسمان اور زمین نے عرض کی:ہم خوشی سے ایسا کرتے ہیں ۔( تفسیر قرطبی، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۱، ۸ / ۲۴۹، الجزء الخامس عشر)

 

41:12
فَقَضٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ وَ اَوْحٰى فِیْ كُلِّ سَمَآءٍ اَمْرَهَاؕ-وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ ﳓ وَ حِفْظًاؕ-ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ(۱۲)
تو انہیں پورے سات آسمان کردیا دو دن میں (ف۲۶) اور ہر آسمان میں اسی کے کام کے احکام بھیجے (ف۲۷) اور ہم نے نیچے کے آسمان کو (ف۲۸) چراغوں سے آراستہ کیا (ف۲۹) اور نگہبانی کے لیے (ف۳۰) یہ اس عزت والے علم والے کا ٹھہرایا ہوا ہے،

{فَقَضٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ: تو اللہ نے انہیں  دو دن میں  سات آسمان بنادیا۔} اس آیت میں  چار چیزیں  بیان کی گئی ہیں  ،

(1)…جب اللہ تعالیٰ نے آسمان کو پیدا کرنے کا قصد فرمایا تو اس نے دو دن میں  سات آسمان بنادئیے۔یہ کل چھ دن ہوئے جن میں  کائنات کی تخلیق ہوئی ۔

(2)…اللہ تعالیٰ نے ہر آسمان میں  اس کے کام کے احکام بھیج دیئے۔اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر آسمان میں  وہاں  کے رہنے والوں  کو طاعت و عبادت اورامرو نہی کے احکام بھیج دیئے،

(3)…اللہ تعالیٰ نے سب سے نیچے والے آسمان کوجو زمین سے قریب ہے چراغ کی طرح روشن ہونے والے ستاروں  سے آراستہ کیا اورباتیں  چرانے والے شیطانوں  سے آسمان کی حفاظت کے لیے ستارے بنائے۔

(4)…یہ بہترین نظام اس اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا ہے جو سب پر غالب اور اپنی مخلوق اوران کی حرکات و سَکَنات کا علم رکھنے والا ہے۔(خازن ، فصلت ، تحت الآیۃ : ۱۲ ، ۴ / ۸۲ ، مدارک ، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۰۷۰-۱۰۷۱، جلالین، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۳۹۷، ملتقطاً)
41:13
فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَؕ(۱۳)
پھر اگر وہ منہ پھیریں (ف۳۱) تو تم فرماؤ کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں ایک کڑ ک سے جیسی کڑ ک عاد اور ثمود پر آئی تھی (ف۳۲)

{فَاِنْ اَعْرَضُوْا: پھراگر وہ منہ پھیریں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے بیان کے بعد بھی اگر کفارِ مکہ ایمان لانے سے اِعراض کریں  تو آپ ان سے فرما دیں  ’’میں  تمہیں  ایسے ہَولناک اور ہلاک کر دینے والے عذاب سے ڈراتا ہوں  جیسا قومِ عاد اور ثمود پر اس وقت آیا تھا جب ان قوموں  کے رسول ہر طرف سے ان کے پاس آتے تھے اور ان کی ہدایت کی ہر تدبیر عمل میں  لاتے اور انہیں  ہر طرح نصیحت کرتے اور سمجھاتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، تو ان کی قوم کے کافر ان کی نصیحتوں  کے جواب میں  یوں  کہتے تھے کہ اگرہمارا رب چاہتا تو ہماری نصیحت کے لئے تمہاری بجائے فرشتو ں  کواتارتا اور تم تو ہمارے جیسے آدمی ہو تو جس کے ساتھ تمہیں  بھیجاگیا ہے ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں ۔ قومِ عاد اور ثمود کایہ کہنا حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے تھا جنہوں  نے ایمان کی دعوت دی۔( روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۸ / ۲۴۱-۲۴۲، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ص۱۰۷۱، ملتقطاً)

سورہِ حٰمٓ اَلسَّجدہ کی آیات سن کر عتبہ بن ربیعہ کا حال:

حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ قریش کی ایک جماعت نے جن میں  ابوجہل وغیرہ سردار بھی تھے یہ تجویز کیا کہ کوئی ایسا شخص نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کلام کرنے کے لئے بھیجا جائے جو شعر ، جادو اور، کہا نَت میں  ماہر ہو، چنانچہ ا س کے لئے عتبہ بن ربیعہ کا انتخاب ہوا اور عتبہ نے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوکر کہا : آپ بہتر ہیں  یا ہاشم ؟ آپ بہتر ہیں  یا عبدالمطلب ؟ آپ بہتر ہیں  یا عبداللہ؟ آپ کیوں  ہمارے معبودوں  کو برا کہتے ہیں  ؟ کیوں  ہمارے باپ دادا کو گمراہ بتاتے ہیں ؟ اگر آپ کوحکومت کرنے کا شوق ہو توہم آپ کو بادشاہ مان لیتے ہیں  اور آپ کے جھنڈے لہراتے ہیں  ،اگر عورتوں  کا شوق ہو تو قریش کی جو لڑکیاں  آپ پسند کریں  ان میں  سے دس لڑکیاں  ہم آپ کے نکاح میں  دے دیتے ہیں  ،اگر مال کی خواہش ہو تو ہم آپ کے لئے اتنا مال جمع کردیں  گے جو آپ کی نسلوں  سے بھی بچ رہے گا۔سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ تمام گفتگو خاموشی سے سنتے رہے اور جب عتبہ اپنی تقریر کرکے خاموش ہوا تو حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہی سورت حٰمٓ اَلسَّجدہ پڑھی، جب آپ اس آیت ’’فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ‘‘ پر پہنچے تو عتبہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دہنِ مبارک پر رکھ دیا اور آپ کو رشتے داری اورقرابت کا واسطہ دے کرقسم دلائی اور ڈر کر اپنے گھر بھاگ گیا۔ جب قریش کے لوگ اس کے مکان پر پہنچے تو اس نے تمام واقعہ بیان کرکے کہا کہ خدا کی قسم! محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) جو کہتے ہیں  نہ وہ شعر ہے ، نہ جادو ہے اور نہ کہا نَت کیونکہ میں  ان چیزوں  کو خوب جانتا ہوں  اورمیں  نے ان کا کلام سنا ، جب انہوں  نے آیت ’’فَاِنْ اَعْرَضُوْا‘‘ پڑھی تو میں  نے ان کے دہنِ مبارک پر ہاتھ رکھ دیا اور انہیں  قسم دی کہ بس کریں  اور تم جانتے ہی ہو کہ وہ جو کچھ فرماتے ہیں  وہی ہوجاتا ہے ، ان کی بات کبھی جھوٹی نہیں  ہوتی ،اس لئے مجھے یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں  تم پر عذاب نازل نہ ہونے لگے۔( بغوی، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۹۷، ۹۸)

41:14
اِذْ جَآءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَؕ-قَالُوْا لَوْ شَآءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰٓىٕكَةً فَاِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ(۱۴)
جب رسول ان کے آگے پیچھے پھرتے تھے (ف۳۳) کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو، بولے (ف۳۴) ہمارا رب چاہتا تو فرشتے اتارتا (ف۳۵) تو جو کچھ تم لے کر بھیجے گئے ہم اسے نہیں مانتے (ف۳۶)

41:15
فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةًؕ-اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةًؕ-وَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ(۱۵)
تو وہ جو عاد تھے انہیں نے زمین میں ناحق تکبر کیا (ف۳۷) اور بولے ہم سے زیادہ کس کا زور، اور کیا انہوں نے نہ جانا کہ اللہ جس نے انہیں بنایا ان سے زیادہ قوی ہے، اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے،

{فَاَمَّا عَادٌ: تو وہ جو عاد تھے۔} اس سے پہلے قومِ عاد کا اِجمالی طور پر ذکر ہوا اور اب یہاں  سے ان کا حال اور انجام کچھ تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا رہاہے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ عاد کے لوگ بڑے طاقتور اورشہ زور تھے لیکن اس کے ساتھ ناحق تکبر بھی کیا کرتے تھے ،جب حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں  اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا تو انہوں  نے اپنی قوت پر غرور کرتے ہوئے کہا:ہم سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں  اور اگر عذاب آیا توہم اسے اپنی طاقت سے ہٹاسکتے ہیں  ۔اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کیا یہ لوگ غافل ہیں  اور ان لوگوں  نے ا س بات کا مشاہدہ نہیں  کیا کہ جس اللہ تعالیٰ نے انہیں  پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ قوت والا اور قدرت والا ہے۔  مزید فرمایا گیا کہ قومِ عاد کا حال یہ تھا کہ وہ ہماری اُن آیتوں  کاجان بوجھ کر انکار کرتے تھے جو ہم نے اپنے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل فرمائیں تو ہم نے اُن پر اُن کی شامت کے دنوں  میں  بارش کے بغیر انتہائی ٹھنڈی ایک تیزآندھی بھیجی تاکہ اس کے ذریعے ہم دنیا کی زندگی میں  انہیں  رسوا کر دینے والا عذاب چکھائیں  اور بیشک انہیں  آخرت میں  جوعذاب دیا جائے گا وہ دنیا کے عذاب سے زیادہ رُسوا کُن ہے اور وہاں  ان کی کوئی بھی مدد نہ ہوگی۔(خازن،فصلت،تحت الآیۃ:۱۵-۱۶،۴ / ۸۳، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۸ / ۲۴۳-۲۴۴، ملتقطاً)

کوئی دن یا مہینہ حقیقی طور پر منحوس نہیں :

            یہاں  آیت نمبر16میں  منحوس دنوں  کا ذکر ہوا،اس سلسلے میں  یاد رہے کہ کوئی دن یا مہینہ حقیقی طور پر منحوس نہیں  البتہ جس وقت ،دن یا مہینے میں  کوئی گناہ کیا جائے یا اس میں  گناہگاروں  پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو تو وہ گناہ اور عذاب کے اعتبار سے گناہگارکے حق میں  منحوس ہے، جیسا کہ حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :زمانے کے اجزا ء اپنی اصل حقیقت میں  برابر ہیں  اور ان میں  کوئی فرق نہیں  البتہ ان اجزاء میں  جو نیکی یا گناہ واقع ہو اس میں  فرق کی وجہ سے زمانے کے اَجزاء میں  فرق ہوتا ہے، توجمعہ کا دن نیک کام کرنے والے کے اعتبار سے سعادت مندی کا دن ہے اور گناہ کرنے والے کے اعتبار سے(اس کے حق میں ) منحوس ہے۔(روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۲۴۴)

            اوراعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’مسلمان مطیع (یعنی اطاعت گزار مسلمان)پر کوئی چیز نَحس(یعنی منحوس) نہیں  اور کافروں  کے لئے کچھ سعد(یعنی مبارک)نہیں ، اور مسلمان عاصی کے لئے اس کا اسلام سعد ہے۔ طاعت بشرط ِقبول سعد ہے۔ مَعصِیَت بجائے خود نَحس ہے، اگر رحمت و شفاعت اس کی نحوست سے بچالیں  بلکہ نحوست کو سعادت کردیں (جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:) ’’اُولٰٓىٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ‘‘ (ترجمہ: تو ایسوں  کی برائیوں  کو اللہ نیکیوں  سے بدل دے گا۔)(تو یہ الگ بات ہے) بلکہ کبھی گناہ یوں  سعادت ہوجاتا ہے کہ بندہ اس پر خائف وترساں  وتائب وکوشاں  رہتاہے ،وہ دُھل گیا اور بہت سی حَسنات مل گئیں ، باقی کَواکِب (یعنی ستاروں )میں  کوئی سعادت ونحوست نہیں  ،اگر ان کو خود مؤثّر جانے مشرک ہے اور ان سے مدد مانگے تو حرام ہے، ورنہ ان کی رعایت ضرور خلاف ِتوکُّل ہے۔(فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۲۲۳-۲۲۴)

            صدر الشریعہ بدرالطریقہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ارشاد فرماتے ہیں :ماہِ صفر کو لوگ منحوسجانتے ہیں  اس میں  شادی بیاہ نہیں  کرتے ،لڑکیوں  کو رخصت نہیں  کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں  اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں ، خصوصاً ماہِ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں  بہت زیادہ نَحس مانی جاتی ہیں  اور ان کو ’’تیرہ تیزی‘‘کہتے ہیں  یہ سب جہالت کی باتیں  ہیں ۔حدیث میں  فرمایا کہ’’ صفر کوئی چیز نہیں ۔‘‘ یعنی لوگوں  کا اسے منحوس سمجھنا غلط ہے، اسی طرح ذیقعدہ کے مہینہ کو بھی بہت لوگ برا جانتے ہیں  اور اس کو خالی کا مہینہ کہتے ہیں  یہ بھی غلط ہے اور ہر ماہ میں  3،13،23،8،18،28کو منحوس جانتے ہیں  یہ بھی لَغْوْبات ہے۔( بہار شریعت، حصہ شانزدہم، متفرقات، ۳ / ۶۵۹)

 

41:16
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْۤ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیْقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَ هُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ(۱۶)
تو ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی سخت گرج کی (ف۳۸) ان کی شامت کے دنوں میں کہ ہم انہیں رسوائی کا عذاب چکھائیں دنیا کی زندگی میں اور بیشک آخرت کے عذاب میں سب سے بڑی رسوائی ہے اور ان کی مدد نہ ہوگی،

41:17
وَ اَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَیْنٰهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰى عَلَى الْهُدٰى فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَۚ(۱۷)
اور رہے ثمود انہیں ہم نے راہ دکھائی (ف۳۹) تو انہوں نے سوجھنے پر اندھے ہونے کو پسند کیا (ف۴۰) تو انہیں ذلت کے عذاب کی کڑ ک نے آ لیا (ف۴۱) سزا ان کے کیے کی (ف۴۲)

{وَ اَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَیْنٰهُمْ: اور وہ جو ثمود تھے تو ہم نے ان کی رہنمائی کی۔} اس سے پہلے قومِ ثمود کا اِجمالی تذکرہ ہوا اور اب یہاں  سے ان کی عملی حالت اور انجام کی کچھ تفصیل بیان کی جا رہی ہے ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں  تک قومِ ثمود کا معاملہ ہے تو ہم نے ان کی رہنمائی کی اور نیکی اور بدی کے طریقے ان پر ظاہر فرمائے لیکن انہوں  نے ہدایت کی بجائے گمراہی کے اندھے پن کو پسند کیا اور ایمان کے مقابلے میں  کفر اختیار کیا تو ان کے شرک ،نبی کو جھٹلانے اور گناہوں  کی وجہ سے انہیں  ذلیل کر دینے والے عذاب کی کڑ ک نے آ لیااوروہ ہَولْناک آواز کے عذاب سے ہلاک کر دئیے گئے اور ہم نے کڑک کے اس ذلیل کر دینے والے عذاب سے ان لوگوں  کو بچا لیا جو حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے اوروہ شرک اور خبیث اعمال کرنے سے ڈرتے تھے۔( خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۴ / ۸۳، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ص۱۰۷۲، ملتقطاً)

حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر آنے والے عذاب کی 3کَیْفِیّاتـ:

            قرآنِ مجید میں  حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر آنے والے عذاب کو بیان کرتے ہوئے ایک آیت میں  ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: ’’ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ‘‘(اعراف:۷۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو انہیں  زلزلے نے پکڑ لیا تو وہ صبح کو اپنے گھروں  میں  اوندھے پڑے رہ گئے۔

            اور دوسری آیت میں  ارشاد فرمایا گیا ہے کہ

’’وَ اَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ‘‘(ہود:۶۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ظالموں  کو چنگھاڑ نے پکڑ لیا تو وہ صبح کے وقت اپنے گھروں  میں  گھٹنوں  کے بل پڑے رہ گئے۔

            اور تیسری آیت میں  ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: ’’فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ‘‘(حم السجدہ:۱۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو ان کے اعمال کے سبب انہیں  ذلت کے عذاب کی کڑ ک نے آ لیا۔

            ان تینوں  آیات میں  باہم کوئی تعارُض نہیں  کیونکہ ان میں  عذاب کی جدا جدا کَیْفِیّات بیان ہوئی ہیں ،یعنی تینوں  اَسباب ہی وقوع پذیر ہوئے،لہٰذا قومِ ثمود کی ہلاکت کو ان میں  کسی کی طرف بھی منسوب کیا جا سکتا ہے۔

 

41:18
وَ نَجَّیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ۠(۱۸)
اور ہم نے (ف۴۳) انہیں بچالیا جو ایمان لائے (ف۴۴) اور ڈرتے تھے (ف۴۵)

41:19
وَ یَوْمَ یُحْشَرُ اَعْدَآءُ اللّٰهِ اِلَى النَّارِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ(۱۹)
اور جس دن اللہ کے دشمن (ف۴۶) آگ کی طرف ہانکے جائیں گے تو ان کے اگلوں کو روکیں گے،

{وَ یَوْمَ یُحْشَرُ اَعْدَآءُ اللّٰهِ اِلَى النَّارِ: اور جس دن اللہ کے دشمن آگ کی طرف ہانکے جائیں  گے۔} گزشتہ آیات میں  کفارکے دُنْیَوی عذاب کابیان ہوا اوراب یہاں  سے کفارکا اُخروی عذاب بیان کیاجارہاہے ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے سامنے اس وقت کا ذکر فرمائیں  جب قیامت کے دن پہلے اور بعد والے تمام کافروں کو انتہائی ذلت کے ساتھ ہانک کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا اوران میں  سے جو کافر دوزخ کے کنارے پرپہنچ جائیں  گے انہیں روک دیا جائے گا یہاں  تک کہ پیچھے رہ جانے والے کفاران کے پاس آجائیں ،اور جب یہ کافر جہنم کے کنارے پہنچ جانے والے کافروں  کے پاس پہنچیں  گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں  اور ان کی کھالیں  سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے بول اٹھیں  گے اور انہوں  نے ان اعضا سے دنیا میں  جوجو عمل کئے ہوں  گے وہ سب بتا دیں  گے ۔( تفسیرکبیر،فصلت،تحت الآیۃ:۱۹-۲۰، ۹ / ۵۵۵، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ۸ / ۲۴۷، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ص۱۰۷۳، ملتقطاً)

41:20
حَتّٰۤى اِذَا مَا جَآءُوْهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَ اَبْصَارُهُمْ وَ جُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۰)
یہاں تک کہ پچھلے آ ملیں (ف۴۷) یہاں تک کہ جب وہاں پہنچیں گے ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے سب ان پر ان کے کیے کی گواہی دیں گے (ف۴۸)

41:21
وَ قَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَیْنَاؕ-قَالُوْۤا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْطَقَ كُلَّ شَیْءٍ وَّ هُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(۲۱)
اور وه اپنی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہم پر کیوں گواہی دی، وہ کہیں گی ہمیں اللہ نے بلوایا جس نے ہر چیز کو گویائی بخشی اور اس نے تمہیں پہلی بار بنایا اور اسی کی طرف تمہیں پھرنا ہے،

{وَ قَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ: اور وہ اپنی کھالوں  سے کہیں  گے۔} جب کفارکے اَعضا ان کے خلاف گواہی دیں  گے اور ان کے اعمال بتا دیں  گے تو وہ حیران ہو کر اپنی کھالوں  سے کہیں  گے :تم نے ہمارے خلاف کیوں  گواہی دی؟ وہ کھالیں  کہیں  گی: ہمارا بولنا کوئی عجیب بات نہیں  کیونکہ ہمیں  بولنے پر اس اللہ تعالیٰ نے قدرت اورقوت دی ہے جس نے ہر چیز کو بولنے کی طاقت دی ہے، اس لئے اس کی دی ہوئی قوت سے ہم نے تمہارے تمام برے اعمال کو کچھ چھپائے بغیر بیان کر دیا اور ا س اللہ تعالیٰ کی شان تویہ ہے کہ وہ تمہیں  پہلی بار بنانے اور تمہیں  دوبارہ زندہ کر کے اپنی سزا کی طرف لوٹانے پر قدرت رکھتا ہے اور ایسے قادر رب تعالیٰ کا ہمیں  بولنے کی طاقت دے دینا کوئی عجیب بات نہیں ۔( مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۱۰۷۳، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۸ / ۲۴۸، ملتقطاً)

           آیت میں  ان لوگوں  کے شبہ کا بھی جواب دیدیا جو یہ سوچیں  کہ اَعضاء کیسے بولیں  گے ؟تو فرمایا کہ اعضاء کو بولنے کی طاقت وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ دے گا جس نے سب کو بولنے کی طاقت دی تو جو زبان جیسے ایک چھوٹے سے عضو کو بولنے کی طاقت دے سکتا ہے وہ دیگر اعضاء کو بھی بولنے کی طاقت دے سکتا ہے۔

 

41:22
وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ اَنْ یَّشْهَدَ عَلَیْكُمْ سَمْعُكُمْ وَ لَاۤ اَبْصَارُكُمْ وَ لَا جُلُوْدُكُمْ وَ لٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا یَعْلَمُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ(۲۲)
اور تم (ف۴۹) اس سے کہاں چھپ کر جاتے کہ تم پر گواہی دیں تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں (ف۵۰) لیکن تم تو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اللہ تمہارے بہت سے کام نہیں جانتا (ف۵۱)

{وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ: اور تم اس بات سے نہیں  چھپ سکتے تھے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے کافروں  کو کہا جائے گا کہ اے کافرو! تم چھپ کر گناہ کرتے تھے لیکن اس بات سے نہیں  چھپ سکتے تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان ، تمہاری آنکھیں  اور تمہاری کھالیں گواہی دیں  اور تمہیں  تو اس کا گمان بھی نہ تھا کیونکہ تم تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزا ملنے کے سرے ہی سے قائل نہ تھے اور تم تو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بہت سے وہ کام نہیں  جانتاجو تم چھپا کرکرتے ہو۔( خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۸۴، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۱۰۷۳، ملتقطاً)

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’ کفار یوں  کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ظاہر کی باتیں  جانتا ہے اور جو ہمارے دلوں  میں  ہے اسے نہیں  جانتا۔( خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۸۴)

            اور حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ بَیْتُ اللہ کے پاس دوقرشی اورایک ثقفی یا دو ثقفی اورایک قرشی جمع ہوئے ،یہ بہت موٹے اورجسیم تھے اوران کے دلوں  میں  سمجھ بوجھ بہت کم تھی ، ان میں  سے ایک نے کہا:کیاتمہارایہ گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری باتیں  سن رہاہے؟ دوسرے نے کہا:اگرہم زورسے باتیں  کریں  گے تو وہ سنے گااوراگرآہستہ باتیں  کریں  گے تووہ نہیں  سنے گا۔ایک اور نے کہا:اگروہ ہماری زورسے کی ہوئی باتیں  سن سکتاہے تووہ ہماری آہستہ سے کی ہوئی باتیں  بھی سن سکتاہے ۔تب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔( صحیح بخاری،کتاب التفسیر،سورۃ حم السجدۃ،باب وذلکم ظنّکم الذی ظننتم بربّکم۔۔۔الخ،۳ / ۳۱۹،الحدیث:۴۸۱۷)

41:23
وَ ذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳)
اور یہ ہے تمہارا وہ گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا اور اس نے تمہیں ہلاک کردیا (ف۵۲) تو اب رہ گئے ہارے ہوؤں میں،

{وَ ذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ: اور یہ تمہارا وہ گمان تھا جو تم نے اپنے رب پر کیا۔} یعنی اے خدا کے دشمنو! اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جاننے کی نسبت کرنا تمہارا وہ گمان تھا جو تم نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر کیا ورنہ اللہ تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ وہ تمام کُلِّیّات اور جُزئیّات کا علم رکھتا ہے اور ظاہری وباطنی کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں  ہے اور اے کافرو! اسی برے گمان نے تمہیں  جہنم میں  ڈال دیا تواس کی وجہ سے اب تم کامل نقصان اٹھانے والوں  میں  سے ہوگئے۔( روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۳، ۸ / ۲۵۰، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۸۴، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کے بارے میں  اچھا گمان رکھنا چاہئے :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں  برا گمان رکھنا کافروں  کا طریقہ ہے اور برا گمان رکھنے والا ان لوگوں  میں  سے ہو گا جو ہلاک ہونے والے اور نقصان اٹھانے والے ہیں  ، برے گمان کی مثال یہ ہے کہ سچی توبہ کر کے بندہ یہ گمان کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف نہیں  فرمائے گا،اپنی اولاد کو اس لئے قتل کر دے کہ پتا نہیں ، اللہ تعالیٰ اسے رزق دیتا ہے یا نہیں  اوردعا کرنے کے بعد یہ گمان کرنا کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتا بھی ہے یا نہیں  وغیرہ۔ اچھے گمان کی مثال یہ ہے کہ سچی توبہ کے بعد یہ گمان کرناکہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لے گا اور ا س کے گناہ بخش دے گا، رزق کے اسباب اختیار کرنے کے بعد یہ گمان کرنا کہ اللہ تعالیٰ اسے رزق عطا فرمائے گا اوردعا کرنے کے بعد ا س کی قبولیت کی امید رکھنا وغیرہ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں  برا گمان رکھنے سے بچے اور اچھا گمان رکھے ،ترغیب کے لئے یہاں  اللہ تعالیٰ کے ساتھ برا اور اچھا گمان رکھنے کے بارے میں  4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ برا گمان رکھنابڑے کبیرہ گناہوں  میں  سے ہے۔( مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۳۶۴، الحدیث: ۱۴۶۹) (یہ برے گمان کی خاص اَقسام کے اعتبار سے ہے۔)

(2)… حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں  سے کسی شخص کو ہر گز موت نہ آئے مگر اس حال میں  کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو۔( مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الامر بحسن الظنّ باللّٰہ تعالی عند الموت، ص۱۵۳۸، الحدیث: ۸۱ (۲۸۷۷))

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا ایک اچھی عبادت ہے ۔( ترمذی، احادیث شتّی، ۱۳۶-باب، ۵ / ۳۴۸، الحدیث: ۳۶۲۰)

(4)…ایک روایت میں  ہے کہ حضرت واثلہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  حضرت یزید بن اسود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی عیادت کے لیے تشریف لائے اوران سے پوچھا:تمہارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیاگمان ہے ؟انہوں نے کہا:جب میں  اپنے گناہوں  کو دیکھتاہوں  تومجھے اپنی ہلاکت قریب نظرآتی ہے لیکن میں  اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھتاہوں  ۔حضرت واثلہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: اللہ اَکْبَر اور گھروالوں  نے بھی کہا، اللہ اَکْبَر۔ حضرت واثلہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا:میں  نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سناہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے’’ میں  اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوں  وہ میرے متعلق جوچاہے گمان کرے۔(شعب الایمان، الثانی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۲ / ۶، الحدیث: ۱۰۰۶)

            اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنے ساتھ برا گمان رکھنے سے بچنے اور اچھا گمان رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

امید اور خوف کے درمیان رہنے میں  ہی سلامتی ہے:

            یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں  کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ہی بے خوف ہو جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ نہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بالکل مایوس ہو جائے اور نہ ہی اس کے عذاب اور اس کی سزا سے بے خوف ہو جائے بلکہ اسے چاہئے کہ امید اور خوف کے درمیان رہے کہ یہی سلامتی کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو جانے والوں  کے بارے میں  قرآنِ مجید میں  ہے :

’’اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ‘‘(سورہِ یوسف:۸۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں ۔

            اور اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہو جانے والوں  کے بارے میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(اعراف:۹۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں  تو اللہ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں ۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنی رحمت سے امید رکھنے اور اپنے عذاب سے خوفزدہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

41:24
فَاِنْ یَّصْبِرُوْا فَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْۚ-وَ اِنْ یَّسْتَعْتِبُوْا فَمَا هُمْ مِّنَ الْمُعْتَبِیْنَ(۲۴)
پھر اگر وہ صبر کریں (ف۵۳) تو آگ ان کا ٹھکانا ہے (ف۵۴) اور اگر وہ منانا چاہیں تو کوئی ان کا منانا نہ مانے، (ف۵۵)

{فَاِنْ یَّصْبِرُوْا: پھر اگر وہ صبر کریں ۔} یعنی پھر اگر وہ جہنم میں  عذاب پر صبر کریں  اور فریاد کرنا،رونا دھونا بند کر دیں  تو بھی ان کا ٹھکانہ آگ ہی ہے اور یہ صبر بھی ان کے لئے کارآمد نہیں  اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی دور کرنا چاہیں  اور اس کے لئے کتنی ہی منت سماجت کر لیں  تو بھی اللہ تعالیٰ ان سے راضی نہ ہو گا اور انہیں کسی طرح عذاب سے رہائی نہیں  ملے گی، لہٰذا ان کے حق میں  صبر کرنا اور فریاد کرنا دونوں  برابر ہیں  اور ان دونوں  سے انہیں  کوئی نفع نہ ہو گا۔( مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۱۰۷۳، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۴، ۸ / ۲۵۰، ملتقطاً)

41:25
وَ قَیَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ فَزَیَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِۚ-اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِیْنَ۠(۲۵)
اور ہم نے ان پر کچھ ساتھی تعینات کیے (ف۵۶) انہوں نے انہیں بھلا کردیا جو ان کے آگے ہے (ف۵۷) اور جو ان کے پیچھے (ف۵۸) اور ان پر بات پوری ہوئی (ف۵۹) ان گروہوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گزر چکے جن اور آدمیوں کے، بیشک وہ زیاں کار تھے،

{ وَ قَیَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ: اور ہم نے کافروں  کیلئے کچھ ساتھی مقرر کردئیے۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے دنیا میں  کافروں  کیلئے شیطانوں  میں  سے کچھ ساتھی مقرر کردئیے جنہوں  نے ان کے لئے دنیا کی زیب و زینت ، اور نفس کی خواہشات کی پیروی کرنے کو خوبصورت بنا کر پیش کیا ،تو انہوں  نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دے دی اور شیطانوں  نے انہیں  یہ وسوسہ ڈالاکہ نہ مرنے کے بعد اٹھنا ہے ، نہ حساب ، نہ عذاب ،بس چَین ہی چَین ہے ،تواس کی وجہ سے کفار آخرت کو جھٹلانے لگے ۔ ان کافروں  پر بھی اس عذاب کی بات پوری ہوگئی ہے جو ان سے پہلے گزرے ہوئے کافرجنوں  اور انسانوں  کے گروہوں  پرثابت ہوچکی ہے۔ بیشک وہ نقصان اٹھانے والے تھے،اسی وجہ سے عذاب کے مستحق ہوئے۔(خازن، فصلت، تحت الآیۃ:۲۵، ۴ / ۸۴، مدارک،فصلت،تحت الآیۃ:۲۵،ص۱۰۷۳-۱۰۷۴، روح البیان،حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ۸ / ۲۵۱، ملتقطاً)

41:26
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ(۲۶)
اور کافر بولے (ف۶۰) یہ قرآن نہ سنو اور اس میں بیہودہ غل کرو (ف۶۱) شاید یونہی تم غالب آؤ (ف۶۲)

{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ: اور کافروں  نے کہا:اس قرآن کو نہ سنو۔} اس آیتِ مبارکہ میں  مشرکینِ قریش کے بارے میں  بیان کیاگیاکہ وہ قرآنِ پاک کی تاثیرسے اس قدرخوف زدہ تھے کہ لوگوں  کودل جمعی کے ساتھ قرآن پاک سننے نہیں  دیتے تھے بلکہ ان کی عادت یہی تھی کہ جس وقت قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی تو شور مچانا شروع کردیتے ،سیٹیاں  بجاتے ،اورطرح طرح سے آوازیں  بلند کرتے ۔مقصدصرف یہ تھاکہ لوگ قرآن پاک کی تلاوت نہ سن سکیں کیونکہ اگرانہوں  نے اس کودل جمعی سے سن لیاتوایمان لے آئیں  گے ۔اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک کی تاثیرسے کفاربھی خوف زدہ تھے ۔ حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مکہ مکرمہ میں  تھے ۔جب قرآن پڑھتے تھے تواپنی آواز بلند کرتے تھے جبکہ مشرکین لوگوں  کوآپ سے دوربھگاتے تھے اورکہتے تھے کہ قرآن نہ سنواوراس کی تلاوت کے وقت فضول شوروغل کرو تاکہ تم غالب آجاؤ۔ (درمنثور، فصلت، تحت الآیۃ: ۲۵، ۷ / ۳۲۰، ۳۲۱)

41:27
فَلَنُذِیْقَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَذَابًا شَدِیْدًاۙ-وَّ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۷)
تو بیشک ضرور ہم کافروں کو سخت عذاب چکھائیں گے اور بیشک ہم ان کے بُرے سے بُرے کام کا انہیں بدلہ دیں گے (ف۶۳)

{فَلَنُذِیْقَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَذَابًا شَدِیْدًا: تو بیشک ضرور ہم کافروں  کو سخت عذاب چکھائیں  گے۔} کفارِ مکہ کے طرزِ عمل کو بیان کرنے کے بعد اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں  شدید عذاب سے ڈرایا ہے ،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہیں ، اس وقت جو کافر فضول شوروغل کرنے کا کہتے اور کرتے ہیں  انہیں  اور تمام کافروں  کوہم ایساسخت عذاب چکھائیں  گے جس کی سختی کا کوئی اندازہ نہیں  لگا سکتا اور بیشک ہم انہیں  ان کے برے اعمال کا بدلہ دیں  گے اور کفر کا بدلہ سخت عذاب ہے۔ یہ عذاب اللہ تعالیٰ کے دشمنوں  کا بدلہ ہے اور وہ جہنم کی آ گ ہے۔ان کیلئے جہنم میں  ایک گھر ہے جس میں  یہ ہمیشہ رہیں  گے اوراس سے کہیں  اور منتقل نہ ہو سکیں  گے اور یہ سخت عذاب اس بات کی سزا ہے کہ وہ ہماری آیتوں  کا انکار کرتے تھے اور ان کی تلاوت ہوتی سن کر فضول شورو غل کیا کرتے تھے ۔( تفسیر کبیر ، فصلت ، تحت الآیۃ : ۲۷-۲۸ ، ۹ / ۵۵۹ ، روح البیان ، حم السجدۃ ، تحت الآیۃ : ۲۷-۲۸، ۸ / ۲۵۲- ۲۵۳، ملتقطاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآن کا دشمن ، اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے کہ ان کافروں  نے قرآن کی آواز روکنی چاہی تو انہیں  اللہ تعالیٰ کا دشمن قرار دیا گیا۔

41:28
ذٰلِكَ جَزَآءُ اَعْدَآءِ اللّٰهِ النَّارُۚ-لَهُمْ فِیْهَا دَارُ الْخُلْدِؕ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ(۲۸)
یہ ہے اللہ کے دشمنوں کا بدلہ آ گ، اس میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے، سزا اس کی کہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے،

41:29
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا رَبَّنَاۤ اَرِنَا الَّذَیْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِیَكُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ(۲۹)
اور کافر بولے (ف۶۴) اے ہمارے رب ہمیں دکھا وہ دونوں جن اور آدمی جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا (ف۶۵) کہ ہم انہیں اپنے پاؤں تلے ڈالیں (ف۶۶) کہ وہ ہر نیچے سے نیچے رہیں (ف۶۷)

{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور کافرکہیں  گے۔} یعنی جب کافروں  کو جہنم میں  ڈال دیا جائے گا تو وہ اس میں  یوں عرض کریں  گے: اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہمیں  شیطان جنوں  اور انسانوں  کے وہ دونوں گروہ دکھا جنہوں  نے دنیا کی زیب و زینت کو خوبصورت بنا کر ہمارے سامنے پیش کیا اور وَسْوَسے ڈال کر ہمیں  آخرت کو جھٹلانے کی طرف مائل کیا اور یوں  ہمیں  گمراہ کر دیا، تاکہ آج آگ کے اندر ہم ان سے انتقام لیتے ہوئے انہیں  اپنے پاؤں  کے نیچے روندڈالیں  اور وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں  ہم سے زیادہ سخت عذاب والوں میں  سے ہو جائیں  اور ہمیں  گمراہ کرنے کی سزا پائیں ۔( روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۸ / ۲۵۳، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۸۵، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۰۷۴، ملتقطاً)

41:30
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(۳۰)
بیشک وہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے (ف۶۸) ان پر فرشتے اترتے ہیں (ف۶۹) کہ نہ ڈرو (ف۷۰) اور نہ غم کرو (ف۷۱) اور خوش ہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا (ف۷۲)

{اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ: بیشک جنہوں  نے کہا :ہمارا رب اللہ ہے۔} اس سے پہلی آیات میں  کافروں  کے لئے وعیدیں  بیان ہوئیں  اور اب یہاں  سے ایمان والوں  کے لئے وعدہ کا بیان کیا جا رہاہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک وہ لوگ جنہوں  نے اللہ تعالیٰ کے رب ہونے اور اس کی وحدانیّت کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا رب صرف اللہ تعالیٰ ہے،پھر وہ اس اقرار اور اس کے تقاضوں  پر ثابت قدم رہے، ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے اترتے ہیں  اور انہیں  یہ بشارت دیتے ہوئے کہتے ہیں  کہ تم آخرت میں  پیش آنے والے حالات سے نہ ڈرواوراہل و عیال وغیرہ میں  سے جو کچھ پیچھے چھوڑ آئے اس کا نہ غم کرو اور اس جنت پر خوش ہوجاؤجس کا تم سے دنیا میں  اللہ تعالیٰ کے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مُقَدّس زبان سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔( روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۸ / ۲۵۴-۲۵۵)

اِستقامت کے معنی :

            اس آیت میں  اِستقامت کا ذکر ہوا ،ا س مناسبت سے یہاں  اِستقامت کے بارے میں  دو اَحادیث اور خلفائے راشدین کے اَقوال ملاحظہ ہوں ،چنانچہ

            حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت پڑھی ’’اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا‘‘ پھرآپ نے فرمایا:لوگوں  نے یہ کہا،یعنی ہمارارب اللہ ہے، پھران میں  سے اکثرکافرہوگئے ۔تو جوشخص اسی قول (کہ ہمارا رب اللہ ہے) پرڈٹارہاحتّٰی کہ مرگیا،وہ ان لوگوں  میں  سے ہے جو اس قول پر ثابت قدم رہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ حم السجدۃ، ۵ / ۱۶۸، الحدیث: ۳۲۶۱)

            حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،میں  نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے اسلام کے بارے میں  کوئی ایسی بات بتائیے کہ میں  آپ کے بعد کسی اور سے (اس بارے میں ) سوال نہ کروں ۔ارشاد فرمایا’’تم کہو:میں  اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا،پھر ا س (اقرار) پر ثابت قدم رہو۔( مسلم، کتاب الایمان، باب جامع اوصاف الاسلام، ص۴۰، الحدیث: ۶۲(۳۸))

             حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے دریافت کیا گیا :اِستقامت کیا ہے ؟آپ نے فرمایا :اِستقامت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔

            حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :اِستقامت یہ ہے کہ بندہ اَمرونہی (یعنی احکامات پر عمل کرنے اور ممنوعات سے بچنے) پر قائم رہے اورلومڑی کی طرح حیلہ سازیاں  کرکے راہِ فراراختیارنہ کرے۔

             حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :اِستقامت یہ ہے کہ بندہ عمل میں  اخلاص پیدا کرے ۔

            حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا: اِستقامت یہ ہے کہ بندہ فرائض (کو پابندی کے ساتھ) ادا کرے۔( خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۸۵)

            ان اَحادیث اور اَقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کے اقرار اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے پر ثابت قدم رہے۔

مؤمن کو دی جانے والی بشارت کا مقام:

            اس آیت میں  فرشتوں  کی طرف سے مومن کو بشارت دئیے جانے کا بھی ذکر ہوا،اس کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ موت کے وقت فرشتے اترتے ہیں  اور مومن کو آخرت میں  پیش آنے والے اَحوال یا ایمان سَلب ہونے کا خوف اوراہل و عیال کے چھوٹنے کا یا گناہوں  کا غم نہ کرنے کا کہتے اور اسے جنت کی بشارت دیتے ہیں  اور ایک قول یہ ہے کہ جب مومن قبروں  سے اٹھیں  گے تو فرشتے انہیں  یہ بشارت دیں  گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مومن کو تین بار بشارت دی جاتی ہے ایک موت کے وقت ، دوسری قبر میں  اورتیسری قبروں  سے اٹھنے کے وقت۔( مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۱۰۷۵، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۸۵، ملتقطاً)

            ایک قول یہ ہے کہ ایمان والوں  پرفرشتے اترتے ہیں  اور انہیں دینی اوردُنْیَوی جو مشکلات پیش آتی ہیں ، اِن میں  اُن کی اس چیز کے ساتھ امدادکرتے ہیں  جو ان کے سینوں  کو کشادہ کر دے اور اِلہام کے ذریعے ان کے خوف اور غم کو اسی طرح دورکردیتے ہیں ۔ (روح المعانی، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۰، ۱۲ / ۵۱۰)

 

41:31
نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِۚ-وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَؕ(۳۱)
ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں (ف۷۳) اور آخرت میں (ف۷۴) اور تمہارے لیے ہے اس میں (ف۷۵) جو تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے اس میں جو مانگو،

{نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ: ہم تمہارے دوست ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ فرشتے ایمان والوں  کو جنت کی بشارت دینے کے ساتھ یہ کہیں  گے کہ ہم تمہارے دوست ہیں  ،دنیا کی زندگی میں  ہم تمہاری حفاظت کرتے تھے اور آخرت میں  بھی تمہارے ساتھ رہیں  گے اور جب تک تم جنت میں  داخل نہ ہو جاؤ تب تک تم سے جدا نہ ہوں  گے اور تمہارے لیے جنت میں  ہر وہ کرامت ، نعمت اور لذّت ہے جو تمہارا جی چاہے اور تمہارے لئے اس میں  ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو۔یہ اس رب تعالیٰ کی طرف سے تمہاری مہمانی ہے جو بڑے بڑے گناہوں  کو بخشنے والا، گناہوں  کو اپنی رحمت سے نیکیوں  میں  تبدیل فرما دینے والا اور اطاعت گزار مومنوں  پر خاص رحم فرمانے والا ہے۔( جلالین،فصلت، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۲، ص۳۹۹، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۲، ۴ / ۸۵-۸۶، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۲، ۸ / ۲۵۶-۲۵۷، ملتقطاً)

جنتی نعمتوں  کے بارے میں  ایک حدیث ِپاک:

            یہاں  جنت کی نعمتوں  کے بارے میں  ایک حدیثِ پاک ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’ جنتی اپنی مجلس میں  ہوں  گے کہ ان کے لیے جنت کے دروازے پرایک نورظاہرہوگا۔وہ اپناسراٹھائیں  گے توکیادیکھیں  گے کہ ان کا رب عَزَّوَجَلَّ جلوہ فرماہے۔ اللہ تعالیٰ ارشادفرمائے گا’’اے جَنّتیو!مجھ سے مانگو۔وہ عرض کریں  گے:ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں  کہ توہم سے راضی ہوجا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’میری رضانے ہی توتمہیں  میرے اس گھرمیں  اتاراہے اور تمہیں  یہ عزت دی ہے،تو تم مجھ سے (کچھ اور) مانگو۔جنتی عرض کریں  گے: ہم تجھ سے مزید نعمتوں کاسوال کرتے ہیں ۔ توانہیں  سرخ یاقوت کے گھوڑے عطا کیے جائیں  گے جن کی لگامیں  سبززَبَرْجَد اورسرخ یاقوت کی ہوں  گی، وہ جنتی ان پر سوار ہوں گے اوروہ گھوڑے اپنے قدم حد ِنگاہ پر رکھیں  گے ۔اللہ تعالیٰ درختوں  کو حکم دے گا تو ان پر پھل آ جائیں  گے اور جنتیوں  کے پاس حورِعِین آئیں  گی، جو کہیں  گی: ہم نرم ونازک ہیں  اورہم سخت نہیں ہیں  ،ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں  ہم پرموت نہیں  آتی اور معزز لوگوں کی بیویاں  ہیں  ۔اللہ تعالیٰ کستوری کے ٹیلے کوحکم دے گاجوسفید اورمہکتاہوگا،تووہ ان پرخوشبوبکھیردے گاجسے مثیرہ کہتے ہیں  یہاں  تک کہ فرشتے انہیں  جنت ِعدن میں لے جائیں  گے جو جنت کاوَسط ہے ۔فرشتے کہیں  گے: اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، لوگ حاضرہوگئے ہیں  ،تو کہا جائے گا:صادقین کوخو ش آمدید !اطاعت گزاروں  کو خوش آمدید!توان کے لیے حجاب اٹھادیاجائے گا،وہ اللہ تعالیٰ کادیدارکریں  گے اور رحمٰن کے نورسے لطف اٹھائیں  گے یہاں  تک کہ وہ ایک دوسرے کو نہیں  دیکھیں  گے، پھر اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’تم اپنے محلات کی طرف تحائف کے ساتھ واپس لوٹ جاؤ۔ وہ اس حال میں  واپس لوٹیں  گے کہ ایک دوسرے کودیکھ رہے ہوں  گے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ‘‘ کا یہی مفہوم ہے ۔( البعث و النشور للبیہقی ، باب قول اللّٰہ عزّوجل : و للذین احسنوا الحسنی و زیادۃ ، ص۲۶۲، الحدیث: ۴۴۸، حلیۃ الاولیائ، ذکر طوائف من النساک والعباد، الفضل بن عیسی الرقاشی، ۶ / ۲۲۶)

 

41:32
نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۠(۳۲)
مہمانی بخشنے والے مہربان کی طرف سے،

41:33
وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(۳۳)
اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے (ف۷۶) اور نیکی کرے (ف۷۷) اور کہے میں مسلمان ہوں (ف۷۸)

{وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ: اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے۔} اس سے پہلی آیات میں  کفار کے جو اَقوال ذکر فرمائے گئے، ان سے معلوم ہوتا تھا کہ کفارسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعوتِ حق سے بہت زیادہ منہ موڑتے ہیں ،جیسے کافروں  نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا: ہمارے دل اس بات سے پردوں  میں  ہیں  جس کی طرف تم ہمیں  بلاتے ہو۔( حم السجدہ:۵)اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہم آپ کی بات کو قبول نہیں  کرتے اور نہ ہی آپ کی دی ہوئی دلیل کی طرف متوجہ ہوں  گے۔ یونہی کافروں  نے اپنی جہالت کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں  سے کہا کہ’’اس قرآن کو نہ سنو اور اس میں  فضول شوروغل کرو۔( حم السجدہ:۲۶) اور اب گویا کہ یہاں  سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کافروں  نے اگرچہ آپ سے بہت دل آزاری والی باتیں  کی ہیں  لیکن آپ ان کی باتوں  اور جاہلانہ حرکتوں  کی پرواہ نہ فرمائیں  اور مسلسل تبلیغ فرماتے رہیں  کیونکہ دین حق کی دعوت دینا سب سے بڑی عبادت اور سب سے اہم اطاعت ہے اور اس سے زیادہ کسی کی بات اچھی نہیں  جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور عبادت کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں  مسلمان ہوں ۔( تفسیرکبیر، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۳، ۹ / ۵۶۲، ملتقطاً)

یہاں  دعوت دینے والے سے کون مراد ہے،اس کے بارے میں  مفسرین کا ایک قول تو یہی ہے کہ اس سے مراد حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے وہ مومن مراد ہے جس نے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی دعوت کو قبول کیا اور دوسروں  کو نیکی کی دعوت دی ،اورحضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ آیت مُؤذِّنوں  کے حق میں  نازل ہوئی، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ جو کوئی کسی طریقے پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے، وہ اس آیت میں  داخل ہے ۔( خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴ / ۸۶)

اللہ تعالی کی طرف بلانے کے مراتب:

یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کے کئی مرتبے ہیں ،

پہلا مرتبہ: انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دعوت دینا،کیونکہ یہ معجزات،حجتوں،دلیلوں  اور تلوار سبھی طریقوں  کے ساتھ لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں ۔یہ مرتبہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی کے ساتھ خاص ہے۔

دوسرا مرتبہ:علماءِ کرام کا دعوت دینا ۔یہ فقط حجتوں  اور دلائل کے ساتھ لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے ہیں ،اورعلماء تین طرح کے ہوتے ہیں(1)اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت رکھنے والے ،(2)اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت رکھنے والے،(3)اللہ تعالیٰ کے احکام کو جاننے والے۔

تیسرامرتبہ :مجاہدین کا دعوت دینا ۔یہ کفار کو تلوارکے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں  اور ان سے جہاد کرتے رہتے ہیں  یہاں  تک کہ وہ دین میں  داخل ہو جائیں  اور طاعت قبول کرلیں  ۔

چوتھا مرتبہ: اذان دینے والوں  کا ہے،کیونکہ یہ اذان دے کر لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کی عبادت یعنی نماز کے لئے بلاتے ہیں ۔(روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۳۳، ۸ / ۲۵۸، تفسیرکبیر، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۳، ۹ / ۵۶۳، ملتقطاً)

مُبَلِّغ کے لئے باعمل ہونا ضروری ہے:

اس آیت میں جو یہ فرمایا گیا کہ’’اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے‘‘اس سے معلوم ہو اکہ جو شخص لوگوں  کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کے دئیے ہوئے احکامات پر عمل کرنے کی دعوت دے رہا ہے وہ خود بھی اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار اور اس کے احکامات پر عمل کرنے والا ہو۔یاد رہے کہ بے عمل مُبَلِّغ اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی کا مُستحق ہو سکتا ہے ،جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲)كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ‘‘(الصف:۲، ۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! وہ بات کیوں  کہتے ہو جو کرتے نہیں ۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑی سخت ناپسند یدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو۔

            اور ارشاد فرماتا ہے :

’’ اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘(بقرہ:۴۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تم لوگوں  کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اوراپنے آپ کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں  عقل نہیں ۔

یونہی بے عمل مُبَلِّغ قیامت کے دن جہنم کے عذاب میں  بھی مبتلا ہو سکتا ہے، جیسا کہ حضرت ولید بن عقبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جنت والوں  میں  سے کچھ لوگ جہنم والوں میں  سے کچھ لوگوں  کی طرف جائیں  گے تو ان سے کہیں  گے: اللہ تعالیٰ کی قسم!ہم تو اسی وجہ سے جنت میں  داخل ہو گئے جو تم ہمیں  سکھاتے تھے لیکن تم کس وجہ سے جہنم میں  داخل ہوئے ؟وہ کہیں  گے:ہم جو (تمہیں ) کہتے تھے وہ خود نہیں  کرتے تھے۔( معجم الکبیر، من اسمہ ولید، ولید بن عقبۃ بن ابی معیط۔۔۔ الخ، ۲۲ / ۱۵۰، الحدیث: ۴۰۵)

حضرت اسامہ بن زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن ایک شخص کولاکردوزخ میں  جھونک دیاجائے گا،اس کی انتڑیاں  اس کے پیٹ سے نکل کر بکھر جائیں  گی اوروہ ان کے ساتھ اس طرح چکرکاٹ رہاہوگاجس طرح گدھاچکی کے گرد چکر کاٹتا ہے۔ جہنمی اس کے گرد اکٹھے ہوجائیں  گے اورکہیں  گے :اے فلاں  شخص !کیابات ہے ؟کیاتم ہمیں نیکی کاحکم نہیں  دیتے اور برائی سے نہیں  روکتے تھے ؟وہ کہے گا:(کیوں  نہیں !)میں  تمہیں  تونیکی کاحکم دیتاتھا لیکن خودنیک عمل نہیں  کرتاتھااورمیں  تمہیں  توبرے کاموں  سے روکتاتھا لیکن خودبرے کام کرتاتھا(اسی وجہ سے مجھے جہنم میں  ڈال دیا گیا ہے)۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۶، الحدیث: ۳۲۶۷)

اور حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں معراج کی رات ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ہونٹ آگ سے بنی ہوئی قینچیوں  کے ساتھ کاٹے جا رہے تھے،میں  نے کہا: اے جبریل! عَلَیْہِ السَّلَام، یہ کون لوگ ہیں  ؟انہوں  نے عرض کی: یہ آپ کی امت میں  سے وہ لوگ ہیں  جو خطیب (یعنی عالم، واعظ اور شاعر) تھے،یہ لوگوں  کو تو نیک کام کرنے کا حکم دیتے لیکن اپنے آپ کو بھول جاتے تھے حالانکہ یہ قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے تھے ،تو کیا انہیں  عقل نہیں تھی ۔( شرح السنہ، کتاب الرقاق، باب وعید من یأمر بالمعروف ولا یأتیہ، ۷ / ۳۶۲، الحدیث: ۴۰۵۴)

لہٰذا ہر مُبَلِّغ کو چاہئے کہ لوگوں  کو نیک کاموں  کا حکم دینے اور برے کاموں  سے منع کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی نیک کام کرے اور برے کاموں  سے باز رہے تاکہ اللہ  تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رہے، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو نیک اور با عمل مُبَلِّغ بننے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

کلام میں  تاثیر پیدا ہونے کا ذریعہ:

یا درہے کہ کسی بھی مُبَلِّغ کے کلام میں  تاثیر پیدا ہونے کا بنیادی ذریعہ اس کا با عمل ہونا ہے کیونکہ جو مُبَلِّغ خود باعمل ہے تو اس کے حال سے یہ ظاہر ہو رہا ہو ہے کہ اس کا کلام اس کی اپنی ذات پر اثر انداز ہو رہا ہے اور جو مُبَلِّغ خودبے عمل ہے تو اس کے حال سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ ا س کا کلام اس کی اپنی ذات پر اثر نہیں  کر رہا اور جب ا س کے کلام کا یہ حال ہے تو وہ دوسروں  پر کیسے اثر انداز ہو گا،اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جو شخص اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم کو پورا کرے اور ا س کی منع کردہ چیزوں  سے اِجتناب کرے اور نیک اعمال کے ساتھ مُتَّصف ہو کر (لوگوں  کو) اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے تو ا س کی بات مانی جائے گی اور اس کا کلام دلوں  میں  اثر بھی کرے گا اور جس کا حال اس کے بر خلاف ہو تو نہ ا س کی بات مانی جائے گی اور نہ ہی اس کا کلام دلوں  میں  اثر کرے گا کیونکہ جس کا کلام ا س کی اپنی ذات پر اثر انداز نہیں  ہو رہا تو اس کے علاوہ کسی اور پر بدرجہ اَولیٰ اثر نہیں  کرے گا۔( تفسیر صاوی، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۳، ۵ / ۱۸۵۱)

لہٰذا اس اعتبار سے بھی ہر مُبَلِّغ کے لئے با عمل ہونا ضروری ہے تاکہ اس کے کلام میںاللہ تعالیٰ تاثیر پیدا فرما دے اور لوگ ا س کی نصیحت و ہدایت سن کر راہِ راست پر آنا شروع ہو جائیں ۔

مسلمان ہونے کا فقط زبان سے اقرار نہ ہو بلکہ دل میں  اس کا اعتقاد بھی ہو:

اس آیت کے آخر میں  فرمایا گیا کہ’’ اور کہے کہ بیشک میں  مسلمان ہوں ‘‘اس سے متعلق یا درہے کہ یہ کہنافقط زبان سے نہ ہو بلکہ دل سے دین ِاسلام کا اعتقاد رکھتے ہوئے کہے کہ بے شک میں  مسلمان ہوں ،کیونکہ سچا کہنا یہی ہے(خزائن العرفان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۸۸۴، ملخصاً)۔[1]


[1] ۔۔۔نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر ِاہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب ’’نیکی کی دعوت‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔

41:34
وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ-اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ(۳۴)
اور نیکی اور بدی برابر نہ ہوجائیں گی، اے سننے والے برائی کو بھلائی سے ٹال (ف۷۹) جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہوجائے گا جیسا کہ گہرا دوست (ف۸۰)

{وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُ: اور اچھائی اور برائی برابرنہیں  ہوسکتی۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ نیکی اور گناہ برابر نہیں  بلکہ نیکی خیر ہے اور گناہ شر (اور خیر و شر برابر نہیں  ہوسکتے۔) دوسرا معنی یہ ہے کہ نیکیوں  کے مَراتب برابر نہیں  بلکہ بعض نیکیاں  دوسری نیکیوں  سے اعلیٰ ہیں  ،اسی طرح گناہوں  کے مَراتب برابر نہیں  بلکہ بعض گناہ دوسرے گناہوں  سے بڑے ہیں  تو لوگوں  میں  بڑے مرتبے والا وہ ہے جو بڑی بڑی نیکیاں  کرتا ہے اور بد تر مرتبے والا وہ ہے جو بڑے بڑے گناہ کرتا ہے۔( جلالین مع صاوی، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۴، ۵ / ۱۸۵۲)

آیت ’’وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… نیکی ہرحال میں  ہی نیکی ہے خوا ہ وہ معاشرے کے رسم ورواج کے مطابق ہویانہ ہو اوربرائی ،برائی ہی ہے چاہے وہ رسم ورواج کے مطابق ہو۔

(2)… صحیح عقیدے والا اور برے عقیدے والا دونوں  برابر نہیں  ہو سکتے ۔

{اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ: برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو۔} ارشاد فرمایا کہ تم برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو مثلاً غصے کو صبر سے ، لوگوں  کی جہالت کو حِلم سے اور بدسلوکی کو عَفْوْ و درگُزر سے کہ اگر تیرے ساتھ کوئی برائی کرے تواسے معاف کر دے، تو اس خصلت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمن دوستوں  کی طرح تجھ سے محبت کرنے لگیں  گے ۔شانِ نزول:کہا گیا ہے کہ یہ آیت ابوسفیان کے بارے میں  نازل ہوئی کہ ان کی شدید عداوت کے باوجود نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے ساتھ نیک سلوک کیا اور ان کی صاحبزادی کو اپنی زَوجیَّت کا شرف عطا فرمایا ،تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو سفیان تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سچے محبت کرنے والے اور آپ کے جاں  نثار صحابی بن گئے۔( جلالین، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۳۹۹، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۴، ۴ / ۸۶، ملتقطاً)

سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک اَخلاق:

            حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک اَخلاق میں  برائی کو بھلائی سے ٹال دینے کی انتہائی عالی شان مثالیں  موجود ہیں  ،ان میں  سے یہاں  دو واقعات ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت عبداللہ بن عبید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :جب (غزوہِ اُحد میں ) رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے والے مبارک دانت شہید ہوئے اور آپ کا چہرہِ انور لہو لہان ہو گیا تو عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں  کے خلاف دعا فرمائیں ۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (کمال صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے طعنے دینے والا اور لعنت کرنے والا بنا کر نہیں  بھیجا بلکہ مجھے دعوت دینے والا اور رحمت فرمانے والا بنا کر بھیجا ہے، (پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی) اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میری قوم کو (دین ِاسلام کی) ہدایت دے کیونکہ وہ مجھے جانتے نہیں  ۔(شعب الایمان،الرابع عشر من شعب الایمان۔۔۔الخ،فصل فی حدب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی امّتہ۔۔۔الخ، ۲ / ۱۶۴، الحدیث: ۱۴۴۷)

            حضرت علامہ قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :اس حدیث ِپاک پر غور کرو کہ اس میں  کس قدر فضیلت، درجات، احسان، حسنِ خُلق،بے انتہا صبر اور حِلم جیسے اَوصاف جمع ہیں  کیونکہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صرف ان سے خاموشی اختیار کرنے پر ہی اِکتفانہیں  فرمایا بلکہ ان (زخم دینے والوں ) کو معاف بھی فرما دیا،پھر شفقت و محبت فرماتے ہوئے ان کے لئے یہ دعا بھی فرمائی کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ان کو ہدایت دے ،پھر اس شفقت و رحمت کا سبب بھی بیان فرمادیا کہ یہ میری قوم ہے ،پھر ان کی طرف سے عذر بیان فر ما دیا کہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔(الشفا، القسم الاول، الباب الثانی، فصل وامّا الحلم، ص۱۰۶، الجزء الاول)

بد کریں  ہر دم برائی              تم کہو ان کا بھلا ہو

(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :میں  ایک مرتبہ حضورِ اَنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ کے اوپر ایک نجرانی چادر تھی جس کے کنارے مو ٹے تھے،اتنے میں  ایک اَعرابی ملا اور اس نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چادر کو پکڑ کر بڑے زور سے کھینچا یہاں  تک کہ میں  نے حضور ِاَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کندھے پر زور سے چادر کھینچے جانے کی وجہ سے رگڑ کا نشان دیکھا۔ اس اَعرابی نے کہا :اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اللہ تعالیٰ نے جو مال آپ کو دیا ہے وہ میرے ان اونٹوں  پر لاد دو کیونکہ آپ نہ مجھے اپنے مال سے دیتے ہیں  اور نہ ہی اپنے والد کے مال سے دیتے ہیں ۔سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش رہے اور صرف اتنا فرمایا کہ مال تو اللہ تعالیٰ کا ہی ہے اور میں  تو ا س کا بندہ ہوں ،پھر ارشاد فرمایا کہ اے اَعرابی:کیا تم سے اس کا بدلہ لیا جائے جو تم نے میرے ساتھ سلوک کیا ؟اس نے عرض کی :نہیں  ۔ارشاد فرمایا ’’کیوں  نہیں  ؟اَعرابی نے عرض کی :کیونکہ آپ کی یہ عادتِ کریمہ ہی نہیں  کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے لیں ۔اس کی یہ بات سن کر سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکرا دئیے اور ارشاد فرمایا: ’’اس کے ایک اونٹ کو جَو سے اور دوسرے کوکھجور سے بھر دو۔( بخاری، کتاب الادب ، باب التبسم و الضحک، ۴ / ۱۲۴، الحدیث: ۶۰۸۸، الشفا، القسم الاول، الباب الثانی، فصل وامّا الحلم، ص۱۰۸، الجزء الاول)

دین ِاسلام کی شاہکار تعلیم:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین ِاسلام میں  مسلمانوں  کو اَخلاقیات کی انتہائی اعلیٰ،جامع اور شاہکار تعلیم دی گئی ہے کہ برائی کو بھلائی سے ٹال دو جیسے کسی کی طرف سے تکلیف پہنچنے تو اس پر صبر کرو ،کوئی جہالت اور بیوقوفی کا برتاؤ کرے تواس پر حِلم و بُردباری کا مظاہرہ کرواوراپنے ساتھ بد سلوکی ہونے پر عَفْوْ و درگُزر سے کام لو، اسی سے متعلق یہاں  دو اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں  :میں  نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ملاقات کی اور عرض کی کہ مجھے افضل اعمال کے بارے میں  بتائیے۔ارشاد فرمایا’’جو تجھے محروم کرے تم اسے عطا کرو،جو تم سے رشتہ داری توڑے تم اس کے ساتھ رشتہ داری جوڑو اورجو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کر دو۔( معجم الکبیر، ما اسند عقبۃ بن عامر۔۔۔ الخ، ابو امامۃ الباہلی عن عقبۃ بن عامر، ۱۷ / ۲۷۰، الحدیث: ۷۴۰)

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ مال میں  کوئی کمی نہیں  کرتا اورمعاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی کرے تو اللہ تعالیٰ اسے بلندی عطا فرمائے گا۔( مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب استحباب العفو والتواضع، ص۱۳۹۷، الحدیث: ۶۹(۲۵۸۸))

            یعنی صدقے سے مال کم نہیں  ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس میں  برکت وغیرہ کے ذریعے اضافہ کرتا ہے اور بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجودکسی کا قصورمعاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت بڑھادیتا ہے اور جو اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں  بلندی عطا فرماتا ہے۔

 

41:35
وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْاۚ-وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ(۳۵)
اور یہ دولت (ف۸۱) نہیں ملتی مگر صابروں کو، اور اسے نہیں پاتا مگر بڑے نصیب والا،

{وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا: اور یہ دولت صبرکرنے والوں  کو ہی ملتی ہے۔} یعنی برائیوں  کو بھلائیوں  سے ٹال دینے جیسی عظیم خصلت کی دولت ان لوگوں  کو ہی ملتی ہے جو تکلیفوں  اور مصیبتوں  وغیرہ پر صبر کرتے ہیں  اور یہ دولت اسے ہی ملتی ہے جو بڑے نصیب والا ہے۔( خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۵، ۴ / ۸۶، تفسیرکبیر، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۵، ۹ / ۵۶۵، ملتقطاً)

اچھے اَخلاق والا ہونا بہت بڑی نعمت ہے :

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ اچھے اَخلاق والاہونااللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اچھے اخلاق اپنانے کی کوشش کرے ،ترغیب کے لئے یہاں  اچھے اخلاق کے 4فضائل ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مومنوں  میں  زیادہ کامل ایمان والا وہ ہے جو اَخلاق کے اعتبار سے ان میں  سب سے اچھا ہے۔( ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، ۴ / ۲۹۰، الحدیث: ۴۶۸۲)

(2)…حضرت اسامہ بن شریک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ منیٰ کی مسجد میں  تھے تو ان کے پاس کچھ دیہاتی لوگ آئے اور انہوں  نے عرض کی:انسان کو عطا کی جانے والی بہترین چیز کون سی ہے؟ ارشاد فرمایا’’اچھا خُلق۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۱۱۷، الحدیث: ۳۶۷)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھا خلق خطا کو اس طرح مٹا دیتا ہے جیسے سورج جمے ہوئے پانی کو پگھلا (کر اس کا جمنا ختم کر) دیتا ہے۔( شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۲۴۷، الحدیث: ۸۰۳۶)

(4)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جس شخص کی صورت اور اَخلاق کو اچھا بنایا اور اسے اسلام (قبول کرنے) کی توفیق دی اسے وہ جنت میں  داخل فرما دے گا۔( جامع الاحادیث، قسم الاقوال، حرف المیم، المیم مع النون، ۷ / ۱۹۴، الحدیث: ۲۱۸۳۶)

            اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو اچھے اَخلاق والا اور با عمل بننے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

 

41:36
وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۳۶)
اور اگر تجھے شیطان کا کوئی کونچا (تکلیف) پہنچے (ف۸۲) تو اللہ کی پناہ مانگ (ف۸۳) بیشک وہی سنتا جانتا ہے،

{وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ: اور اگرتجھے شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے۔} یعنی اے انسان ! اگر شیطان تجھے برائیوں  پر ابھارے اور اس نیک خصلت سے اور اس کے علاوہ اور نیکیوں  سے مُنْحَرف کرنے کی کوشش کرے تو ا س کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ اور اپنی نیکیوں  پر قائم رہ اورشیطان کی راہ اختیار نہ کر ، اللہ تعالیٰ تیری مدد فرمائے گا ،بیشک وہی تمہارے پناہ طلب کرنے کو سننے والا اور تمہارے احوال کوجاننے والا ہے۔( جلالین ، فصلت ، تحت الآیۃ : ۳۶، ص۳۹۹، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۶، ۴ / ۸۶، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۱۰۷۵-۱۰۷۶، ملتقطاً)

غصہ ختم کرنے کا ایک طریقہ:

            یا درہے کہ غصہ آنے کا ایک سبب شیطان کاوسوسہ ڈالنا ہے اورجب کسی انسان کو غصہ آئے تو اسے چاہئے کہ ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمْ ‘‘پڑھ لے ،اس سے اِنْ شَآئَ اللہ عَزَّوَجَلَّ غصہ ختم ہو جائے گا،جیساکہ حضرت سلیمان بن صرد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب دو شخصوں  نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا تو ان میں  سے ایک کو شدید غصہ آ گیا،اس پر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک میں  ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں  ،اگر وہ اسے پڑھ لیتا تو ضرور اس کا غصہ چلا جاتا(وہ کلمہ یہ ہے)’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمْ ‘‘ا س شخص نے عرض کی:کیا آپ مجھے مجنون گمان کرتے ہیں  ؟اس پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگرتجھے شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ مانگ۔ بیشک وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔( مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ حم السجدۃ، عمل دفع الغضب عن الغضبان، ۳ / ۲۳۰، الحدیث: ۳۷۰۱)

 غصے پر قابو پانے کے دو فضائل:

            موضوع کی مناسبت سے یہاں  غصے پر قابو پانے کے دو فضائل ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’وہ شخص زورآورنہیں  جولوگوں  کوپچھاڑدے ،زورآوروہ شخص ہے جوغصہ کے وقت اپنے آپ کوقابومیں  رکھے۔( صحیح بخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، ۴ / ۱۳۰، الحدیث: ۶۱۱۴)

(2)…حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جوشخص اپنے غصہ کے تقاضے کوپوراکرنے پرقادرہو،اس کے باوجود وہ اپنے غصے کوضبط کرلے توقیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کوتمام مخلوق کے سامنے بلاکرفرمائے گا:تم حورِ عِین میں  سے جس حورکوچاہولے لو۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من کظم غیظاً، ۴ / ۳۲۵، الحدیث: ۴۷۷۷)

            اللہ تعالیٰ ہمیں  غصے سے بچائے اور غصہ آنے کی صورت میں  ا س پر قابو پانے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

غصہ کرنے کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات:

            یہاں  حدیث ِپاک کی مناسبت سے غصہ کرنے کے دینی اور دُنْیَوی6 نقصانات ملاحظہ ہوں ،

(1)…غصہ کرنے والا صبر ،عاجزی اور اِنکساری جیسے عظیم اوصاف سے محروم ہو جاتا ہے ۔

(2)…عمومی طور پر غصہ اسی شخص کو آتا ہے جس میں  تکبر،فخر اور غرور کا مادہ پایاجاتا ہے۔

(3)…غصے کی حالت میں  انسان اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت نہیں  کر پاتا اور انہیں  توڑ کراللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں  مبتلا ہو جاتاہے ۔

(4)…غصہ کرنے سے بندے کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور اگر بلڈ پریشر کا مریض غصہ کرے تو اسے فالج بھی ہو سکتا ہے اور اس کے دماغ کی رگ بھی پھٹ سکتی ہے اور یہ دونوں  جان لیوا اَمراض میں  سے ہیں ۔

(5)…غصہ کرنے سے لڑائی جھگڑا ہوتا ہے اور بسا اوقات اس میں  اتنا اضافہ ہو جاتا ہے جس سے رشتے داریاں  ختم ہو جاتی ہیں  اور بندہ مخلص دوستوں  سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

(6)…غصے کی حالت میں  بعض اوقات انسان ایسے کام کر جاتا ہے جو اس کے لئے مستقل پریشانی اور ڈپریشن کا سبب بن جاتے ہیں  ،جیسے غصے کی حالت میں  بیوی کو طلاق دے دینا یا کسی کو قتل کر دینا وغیرہ۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں  غصہ کرنے سے بچنے اور غصہ آ جانے کی صورت میں  اسے دور کرنے کے اِقدامات کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

 

41:37
وَ مِنْ اٰیٰتِهِ الَّیْلُ وَ النَّهَارُ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُؕ-لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَ لَا لِلْقَمَرِ وَ اسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۳۷)
اور اس کی نشانیوں میں سے ہیں رات اور دن اور سورج اور چاند (ف۸۴) سجدہ نہ کرو سورج کو اور نہ چاند کو (ف۸۵) اور اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا (ف۸۶) اگر تم اس کے بندے ہو،

{وَ مِنْ اٰیٰتِهِ: اور اس کی نشانیوں  میں  سے ہیں ۔} اس سے پہلے آیت نمبر 33میں  بیان ہو اکہ سب سے اچھی بات اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا ہے اوراب اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت ،قدرت اور حکمت پر دلالت کرنے والی چیزوں  کو بیان کیاجا رہا ہے تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا ا س کی ذات و صفات پر دلالت کرنے والی چیزوں  کو بیان کرنے کے ذریعے بھی ہوتا ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ رات ، دن ،سورج اور چاندسب اللہ تعالیٰ کی قدرت،حکمت، اس کی رَبُوبِیّت اور وحدانیّت پر دلالت کرنے والی نشانیاں  ہیں  ،تو تم نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ ہی چاند کو کیونکہ یہ دونوں  مخلوق ہیں  اور اپنے خالق کے حکم سے مُسَخَّر ہیں  اور جو اس طرح مُسَخَّر ہو وہ عبادت کا مستحق نہیں  ہوسکتا اور تم اس اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرو جس نے رات،دن سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے اور وہی سجدہ اور عبادت کا مستحق ہے، اگر تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہو تو ا س کے علاوہ کسی اور کو سجدہ نہ کرو۔( تفسیرکبیر،فصلت،تحت الآیۃ:۳۷،۹ / ۵۶۵-۵۶۶، خازن،فصلت،تحت الآیۃ:۳۷، ۴ / ۸۶، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۳۷، ۸ / ۲۶۵، ملتقطاً)

41:38
فَاِنِ اسْتَكْبَرُوْا فَالَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ یُسَبِّحُوْنَ لَهٗ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ هُمْ لَا یَسْــٴَـمُوْنَ۩(۳۸)
تو اگر یہ تکبر کریں (ف۸۷) تو وہ جو تمہارے رب کے پاس ہیں (ف۸۸) رات دن اس کی پاکی بولتے ہیں اور اکتاتے نہیں، السجدة ۔۱۱)

{فَاِنِ اسْتَكْبَرُوْا: تو اگر یہ تکبر کریں ۔} یعنی اگرکفاراللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کے عظیم دلائل دیکھ لینے کے باوجود بھی غرور وتکبر کریں  توپھربھی اللہ تعالیٰ کاکچھ نہیں  بگاڑسکتے اور اِن کفار کے سورج اور چاند کی عبادت کرنے سے یہ نہیں  ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور حمد و ثنا کرنے والے ختم ہوجائیں  گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پیداکردہ فرشتے دن رات اس کی پاکی بیان کرنے میں  مصروف ہیں  اوروہ پاکی بیان کرنے سے تھکتے بھی نہیں  ، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کرنا لوگوں  کیلئے باعث ِ شرف ہے ، نہ کہ خدا کو اس کا کوئی فائدہ ہے۔

            نوٹ:یاد رہے کہ یہ آیت ِسجدہ ہے،اسے پڑھنے اور سننے والے پر سجدہِ تلاوت کرنا واجب ہے۔
41:39
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْؕ-اِنَّ الَّذِیْۤ اَحْیَاهَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰىؕ-اِنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۳۹)
اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تو زمین کو دیکھے بے قدر پڑی (ف۸۹) پھر جب ہم نے اس پر پانی اتارا (ف۹۰) تر و تازہ ہوئی اور بڑھ چلی، بیشک جس نے اسے جِلایا ضرور مردے جِلائے گا، بیشک وہ سب کچھ کرسکتا ہے،

{وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً: اور اس کی نشانیوں  میں  سے ہے کہ تو زمین کو بے قدر پڑی ہوئی دیکھتا ہے۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ کے قادرِ مُطلَق ہونے اور خاص طور پر قیامت کے دن مُردوں  کو زندہ کرنے پر قادر ہونے کی ایک نشانی اور دلیل بیان کی جارہی ہے کہ تم لوگ زمین کودیکھتے ہوکہ وہ خشک اوربنجرپڑی ہوتی ہے اورجب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس پربارش ہوتی ہے تووہ تروتازہ ہوکرلہلہانے لگتی ہے ،توجوذات اس مردہ زمین میں  زندگی پیدا کرکے اس سے پھل اورسبزیاں  نکالنے پرقادرہے بے شک وہ اس پربھی قادرہے کہ مُردوں  کوزندہ کردے۔

41:40
اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَاؕ-اَفَمَنْ یُّلْقٰى فِی النَّارِ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ یَّاْتِیْۤ اٰمِنًا یَّوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْۙ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۴۰)
بیشک وہ جو ہماری آیتوں میں ٹیڑھے چلتے ہیں (ف۹۱) ہم سے چھپے نہیں (ف۹۲) تو کیا جو آ گ میں ڈالا جائے گا (ف۹۳) وہ بھلا، یا جو قیامت میں امان سے آئے گا (ف۹۴) جو جی میں آئے کرو بیشک وہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے،

{اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا: بیشک وہ جو ہماری آیتوں  میں  سیدھی راہ سے ہٹتے ہیں ۔} اس سے پہلی آیتوں  میں  بیان ہو اکہ اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف بلانا بہت بڑ امنصب اور بہت اعلیٰ مرتبہ ہے ،پھر بیان ہو اکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیّت کے دلائل بیان کر کے بھی اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف بلایا جاتا ہے اور اب یہاں  سے اللہ تعالیٰ کی آیتوں  کے بارے میں  ٹیڑھی راہ چلنے والوں  کو ڈانٹا جا رہا ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک وہ لوگ جو ہماری آیتوں  میں  سیدھی راہ سے ہٹتے ہیں  وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں  ہیں  ،ہم انہیں  اس کی سزا دیں  گے، تو کیاوہ مُلحِد کافر جسے آ گ میں  ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ سچے عقیدے والا مومن جو قیامت میں  امان سے آئے گا، بے شک یہ مومن ہی بہتر ہے، اور جب تم نے جان لیا کہ آگ میں  ڈالا جانے والا اور قیامت کے دن امان پانے والا دونوں  آپس میں  برابر نہیں  تو اب تمہاری مرضی ہے کہ تم چاہے وہ کام کرو جن کی وجہ سے تمہیں  جہنم کی آگ میں  ڈال دیا جائے یا وہ کام کرو جن کی وجہ سے تمہیں  قیامت کے دن امان نصیب ہو اور ان میں  سے جس کام کو چاہو دوسرے پر ترجیح دو کیونکہ تمہارے کاموں  کا نفع یا نقصان تمہیں  ہی ہو گا اور یاد رکھو کہ بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے کام دیکھ رہا ہے اور وہ تمہیں  تمہارے اعمال کے مطابق جزا دے گا۔( تفسیرکبیر، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۰، ۹ / ۵۶۸، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۸ / ۲۶۸-۲۶۹، قرطبی، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۰، ۸ / ۲۶۶، الجزء الخامس عشر، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کی آیتوں  میں  اِلحاد کی مختلف صورتیں :

            مفسرین نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں  میں  اِلحاد کی مختلف صورتیں  بیان فرمائی ہیں  ،ان میں  سے 3صورتیں  درج ذیل ہیں ،

(1)…قرآنِ مجید کی آیات کی تاویل بیان کرنے میں  صحیح اور سیدھی راہ سے عدول اور اِنحراف کرتے ہوئے انہیں  باطل معانی پر محمول کرنا۔

(2)…قرآنِ مجید کی آیات کے بارے میں  ایسی باتیں  کرنا یا انہیں  سن کر ایسا کام کرنا جو ان کی شان کے لائق نہیں  جیسے انہیں  جادو یا شعر بتانا یا انہیں  جھٹلانایا آیات کو سن کر شوروغل کرنا وغیرہ۔

(3)…قرآنِ مجید میں  بیان گئے توحید و رسالت کے دلائل پر اعتراضات کرنا اور ان سے منہ پھیر لینا۔( روح المعانی، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۰، ۱۲ / ۵۱۷)

            اس آیت میں  ان لوگوں  کے لئے بڑی عبرت ہے جو قرآنِ مجید کی آیات کے اپنی مرضی کے مطابق معنی بیان کرتے ہیں  اور قرآنِ پاک کے صحیح اورحقیقی معنی اور مفہوم سے ہٹ کر اپنی مرضی کی تاویلیں  کرتے رہتے ہیں ،اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔

بناوٹی اور جاہل صوفیاء کے لئے درسِ عبرت:

            اس آیتِ مبارکہ میں  ان لوگوں  کے لئے بھی بڑی عبرت ہے جو زہد،تقویٰ اور پرہیز گاری کا اظہار کرتے ہیں ، کشف کے اونچے مَراتب پر فائز ہونے اور اِلہام ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں  ،لوگوں  میں  اپنی روحانیّت اور کرامتوں  کا بڑے مُنَظّم طریقے سے چرچا کرتے اور مالدارافراد کو اپنی طرف مائل کرنے کوششیں  کرتے ہیں  ،علماءِ کرام کو حقارت کی نظر سے دیکھتے،ان سے عداوت اور دشمنی رکھتے اور لوگوں  کو ان سے مُتَنَفّر کرتے ہیں  ، علم اور معرفت کی حقیقی دولت سے خالی ہوتے ہیں  اور اپنی رائے سے قرآنِ مجید کی تفسیر بیان کرتے اوراَحادیث کی اپنی طرف سے تشریح کرتے ہیں ، نیز قرآنِ مجیدکی آیات کے اپنی طرف سے ایسے باطنی معنی بیان کرتے ہیں جن کا باطل ہونا بالکل واضح ہوتا ہے۔ایسے لوگوں  کے لئے درج ذیل حدیثِ پاک میں  بھی بہت عبرت ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’آخری زمانے میں  کچھ ایسے لوگ نکلیں  گے جو دین کے ذریعے دنیا کمائیں  گے ،وہ لوگو ں  کیلئے بھیڑ کی نرم کھال کا لباس پہنیں  گے ، ان کی زبانیں  چینی سے زیادہ میٹھی ہوں  گی اور ان کے دل بھیڑیوں  کے دلوں  کی طرح ہوں  گے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’ کیا وہ (میرے حِلم اورمیری طرف سے ملنے والی مہلت سے) دھوکہ کھا رہے ہیں  یا وہ (میری مخالفت کر کے) مجھ پر جرأت کر رہے ہیں  ،مجھے اپنی قسم!میں  ان لوگوں  پر ان میں  سے ہی فتنہ مُسَلّط کر دوں  گا جو ان میں  سے دانشور و سمجھدار لوگوں  کو حیران کر دے گا۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۶۰-باب، ۴ / ۱۸۱، الحدیث: ۴۲۱۲)

            حضرت ملا علی قاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیثِ پاک کی شرح میں  فرماتے ہیں  : کہ آخری زمانے میں  کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوں  گے جو لوگوں  کے سامنے دین کے احکام پر عمل کر کے دنیا والوں  کودھوکہ دیں  گے اور ان سے دنیا کا مال بٹوریں  گے ،لوگوں  کو دکھانے کے لئے اون کا لباس پہن کر صوفی بنیں  گے،ان کے ساتھ نرمی سے گفتگو کریں  گے اور ان کے سامنے عاجزی و اِنکساری کا اظہارکریں  گے تاکہ لوگ انہیں  عابد و زاہد ، دنیا سے کنارہ کَشی کرنے والا اور آخرت کی طرف رغبت رکھنے والا سمجھیں  ،لوگ ان کے مرید بنیں  اور ان کے حالات دیکھ کر ان کے معتقد بن جائیں ۔ ان کی زبانیں  تو چینی سے زیادہ میٹھی ہوں  گی لیکن ان کے دل دنیا اور منصب کی محبت میں ، پرہیزگاروں  (اور خدا تَرس علمائ) سے عداوت اور بغض رکھنے میں  ،جانوروں  جیسی صفات اور شہوات کے غالب ہونے میں  بھیڑیوں  کی طرح سخت ہو ں  گے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ کیا یہ جانتے نہیں  کہ میں  انہیں  ڈھیل دے رہا ہوں  اور یہ میرے عذاب سے بے خوف ہو کر دھوکا کھا رہے ہیں  ،کیا یہ میری ناراضی اور میرے عذاب سے ڈرتے نہیں  اور کیا یہ لوگوں  کے سامنے نیک اعمال کر کے انہیں  دھوکہ دے کر میری مخالفت پر جرأت کر رہے ہیں  ،مجھے اپنی ذات و صفات کی قسم!میں  ان لوگوں  پر ان میں  سے ہی بعض افراد کو بعض پر غلبہ دے کر ایسا فتنہ مُسَلّط کردوں  گا جسے دیکھ کر ان میں  سے دانشور و سمجھدار شخص بھی حیران رہ جائے گا اور وہ اسے دور کرنے پر قادر نہ ہو گا اور نہ ہی اس سے خلاصی پا سکے گا اور نہ ہی اس سے کہیں  فرار ہو سکے گا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الرقاق، باب الریاء والسمعۃ، الفصل الثانی، ۹ / ۱۸۲-۱۸۳، تحت الحدیث: ۵۳۲۳)

            اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں  کو اپنا خوف نصیب کرے اور اپنی بگڑی حالت سدھارنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

 

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

حٰمٓ اَلسَّجْدَۃ
حٰمٓ اَلسَّجْدَۃ
  00:00



Download

حٰمٓ اَلسَّجْدَۃ
حٰمٓ اَلسَّجْدَۃ
  00:00



Download