Surah Fussilat
{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِالذِّكْرِ: بیشک جنہوں نے ذکرکا انکار کیا۔} یعنی جن لوگوں کے پاس قرآنِ کریم آیا اور انہوں نے اس کا انکار کیا اور ا س پر اعتراضات کئے تو انہیں ان کے کفر کی سزا دی جائے گی اور عنقریب انہیں جہنم کی آگ میں داخل کر دیا جائے گا۔(خازن ، فصلت ، تحت الآیۃ : ۴۱ ، ۴ / ۸۷ ، مدارک ، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۱۰۷۷، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۸ / ۲۶۹، ملتقطاً)
{وَ اِنَّهٗ لَكِتٰبٌ عَزِیْزٌ: اور بیشک وہ عزت والی کتاب ہے۔} عزیز کے دو معنی ہیں ،(1) غالب اور قاہر،(2)جس کی نظیر نہ پائی جاسکتی ہو۔قرآنِ مجید اپنے دلائل کی قوت سے ہر ایک پر غالب ہے اور بے مثل بھی ہے کیونکہ اَوّلین وآخرین اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں اور ساری مخلوق مل کر بھی ا س کی ایک سورت جیسی کوئی سورت نہیں بنا سکتی۔(تفسیرکبیر، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۱، ۹ / ۵۶۸، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۸۷، ملتقطاً)
{مَا یُقَالُ لَكَ اِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ: آپ کو وہی بات کہی جاتی ہے جو تم سے پہلے رسولوں سے کہی گئی تھی۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کافروں کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں پر صبر فرمائیں اور تسلی رکھیں کیونکہ جس طرح آپ کو کافروں نے جادو گر اور کاہن وغیرہ کہا اسی طرح آپ سے پہلے تشریف لانے والے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی ان کی قوموں کے کفار نے جادو گر وغیرہ کہا تھا اور آپ کی طرح انہیں بھی جھٹلایا گیا تھا،بے شک جو توبہ کرے اور ایمان لائے اسے اللہ تعالیٰ بخشنے والاہے اور جو جھٹلانے پر ہی قائم رہے تو اسے اللہ تعالیٰ دردناک عذاب دینے والا ہے ،اس لئے آپ اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد فرما دیں اور اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کا جو حکم فرمایا ہے آپ اس میں مشغول رہیں ۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کواللہ تعالیٰ کی طرف سے وہی بات کہی جاتی ہے جو آپ سے پہلے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہی گئی تھی کہ اپنی قوم کی جاہلانہ حرکتوں پر صبر فرمائیں ۔ بیشک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ اپنے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے اور ان پر ایمان لانے والوں کے لئے بخشش والا اور اپنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دشمنوں اور تکذیب کرنے والوں کے لئے دردناک عذاب والا ہے۔( تفسیرکبیر ، فصلت ، تحت الآیۃ : ۴۳ ، ۹ / ۵۶۹، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۳، ۴ / ۸۷، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۴۳، ۸ / ۲۷۱، ملتقطاً)
{اِلَیْهِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ: قیامت کے علم کا حوالہ اللہ ہی کی طرف کیا جاتا ہے۔} اس سے پہلی آیت میں فرمایا گیا کہ ’’جو نیکی کرتا ہے وہ اپنی ذات کیلئے ہی کرتا ہے اور جو برائی کرتا ہے تو اپنے خلاف ہی وہ برا عمل کرتا ہے‘‘اس سے مراد یہ تھی کہ ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزا قیامت کے دن ملے گی،اب گویاکہ کسی نے سوال کیا: قیامت کب واقع ہو گی؟ اس کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا: جب کسی سے قیامت کے بارے میں پوچھا جائے کہ وہ کب واقع ہوگی تو اس پر لازم ہے کہ وہ یہ جواب دے: قیامت واقع ہونے کے وقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے اور مخلوق میں سے کوئی بھی (از خود) ا س کے وقت کے بارے نہیں جان سکتا اورجب قیامت آ جائے گی تو اللہ تعالیٰ نیکوں اور گناہگاروں میں جنت و دوزخ کا فیصلہ فرما دے گا۔( تفسیرکبیر ، فصلت ، تحت الآیۃ : ۴۷، ۹ / ۵۷۱، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۸۸، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۴۷، ۸ / ۲۷۵، ملتقطاً)
قیامت قائم ہونے کے وقت کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ قیامت قائم ہونے کے وقت کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے،اسی کے بارے میں ایک ا ور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَاؕ-قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْۚ-لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ ﲪ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةًؕ-یَسْــٴَـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِیٌّ عَنْهَاؕ-قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘(اعراف:۱۸۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے؟ تم فرماؤ: اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے، اسے وہی اس کے وقت پر ظاہر کرے گا ،وہ آسمانوں او رزمین میں بھاری پڑ رہی ہے، تم پر وہ اچانک ہی آجائے گی۔ آپ سے ایسا پوچھتے ہیں گویا آپ اس کی خوب تحقیق کر چکے ہیں ، تم فرماؤ: اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ۔
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :قیامت قائم ہونے کے وقت کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونا اس بات کے مُنافی نہیں ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس وقت تک دنیا سے تشریف نہ لے گئے جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ ہو چکا،جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ آئندہ ہونے والا ہے، اس کا علم نہ عطا فرما دیا اور اسی میں سے قیامت قائم ہونے کے وقت کا علم ہے البتہ(آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو بتایا اس لئے نہیں کہ) آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ علم چھپانے کا حکم دیاگیا تھا (کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اَسرار میں سے ہے)۔( صاوی، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۵ / ۱۸۵۷)
نوٹ:اس موضوع پر مزید تفصیل جاننے کیلئے سورۂ اَعراف کی آیت نمبر187کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
{وَ مَا تَخْرُ جُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَكْمَامِهَا: اور کوئی پھل اپنے غلاف سے نہیں نکلتا۔} یعنی اللہ تعالیٰ پھل کے غلاف سے برآمد ہونے سے پہلے اس کے اَحوال کو جانتا ہے اور مادہ کے حمل کو اور اس کی ساعتوں کو اوراس کی ولادت کے وقت کو اور اس کے ناقص اورغیرنا قص ، اچھے اوربرے ، نر اور مادہ ہونے وغیرہ سب کو جانتا ہے، لہٰذا جس طرح قیامت کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اسی طرح ان اُمور کا علم بھی اسی کی طرف منسوب کرنا چاہئے۔
اولیاءِکرام کی دی ہوئی خبروں پر ایک سوال اور ا س کا جواب:
یہاں پر ایک سوال قائم ہوتا ہے کہ اولیائے کرام اور اصحاب ِکشف بسا اوقات ان اُمور کی خبریں دیتے ہیں اور وہ صحیح واقع ہوتی ہیں بلکہ کبھی نجومی اور کاہن بھی ان اُمور کی خبریں دیدیتے ہیں تو پھر ان اُمور کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیسے ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نجومیوں اور کاہنوں کی خبریں تو محض اٹکل کی باتیں ہیں جو اکثر و بیشتر غلط ہوجایا کرتی ہیں اس لئے وہ علم ہی نہیں بلکہ بے حقیقت باتیں ہیں اور اولیائِ کرام کی خبریں بے شک صحیح ہوتی ہیں اور وہ علم سے فرماتے ہیں لیکن یہ علم ان کا ذاتی نہیں ہوتا بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے تو حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کا ہی علم ہوا ،غیر کا نہیں ۔( خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۸۸)
{وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ: اور جس دن وہ انہیں ندا فرمائے گا۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یاد کریں کہ جس دن اللہ تعالیٰ مشرکین سے فرمائے گا :تمہارے گمان اور تمہارے عقیدے میں جو میرے شریک تھے وہ کہاں ہیں ؟ جنہیں تم نے دنیا میں گھڑ رکھا تھا اور انہیں تم پوجا کرتے تھے۔ اس کے جواب میں مشرکین کہیں گے: اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم تجھ سے کہہ چکے ہیں کہ ہم میں ایساکوئی گواہ نہیں جو آج یہ باطل گواہی دے کہ تیرا کوئی شریک ہے، (آج) ہم سب مومن اور تیری وحدانیّت کا اقرار کرنے والے ہیں ۔ مشرکین یہ بات عذاب دیکھ کرکہیں گے اور اسی وجہ سے اپنے بتوں سے بیزار ہونے کا اظہار کریں گے ۔( خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۸۸-۸۹، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۱۰۷۸، ملتقطاً)
{لَا یَسْــٴَـمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآءِ الْخَیْرِ: آدمی بھلائی مانگنے سے نہیں اُکتاتا۔} یعنی کافر انسان ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مال ،امیری اور تندرستی مانگتا رہتا ہے اور اگر اسے کوئی سختی ،مصیبت اور معاش کی تنگی پہنچے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے بہت ناامید اور بڑا مایوس ہوجاتا ہے ۔( خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۹، ۴ / ۸۹، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۰۷۸، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کافر کا وصف ہے:
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ا س کے فضل سے مایوس ہوجانا کافر کا وصف ہے، جیسا کہ سورۂ یوسف میں ہے:
’’اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ‘‘(یوسف:۸۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں ۔
مومن کی یہ شان نہیں کہ وہ مصیبتوں ، پریشانیوں اور تنگدستی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو گناہگار آدمی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھتا ہے وہ اس بندے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قریب ہوتا ہے جو بڑا عبادت گزار ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار ہونے کے باوجود یہ امید نہیں رکھتا کہ اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت ملے گی۔( مسند الفردوس، باب العین، فصل من ذوات الالف واللام، ۳ / ۱۵۹، الحدیث: ۴۴۲۷)
مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھنی چاہیے ، یہ نہیں کہ آدمی عمل کرکے یا بغیر عمل کے بے خوف ہوجائے کہ یہ جرأت ہے۔
{وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ: اورجب ہم آدمی پر احسان کرتے ہیں تو منہ پھیر لیتا ہے۔} اس سے پہلی آیت میں کفار کے قبیح اَقوال بیان کئے گئے اور اس آیت میں ان کے قبیح اَفعال بیان کئے جا رہے ہیں ۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب ہم کافر انسان پر احسان کرتے ہیں تو وہ اس احسان کاشکر ادا کرنے سے منہ پھیر لیتا ہے اور اس نعمت پر اِترانے لگتاہے اور نعمت دینے والے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کو بھول جاتا ہے اوراللہ تعالیٰ کی یاد سے تکبر کرتا ہے اور جب اسے کسی قسم کی پریشانی ،بیماری یا ناداری وغیرہ کی تکلیف پیش آتی ہے تو اس وقت وہ خوب لمبی چوڑی دعائیں کرتا ، روتا اور گِڑگڑاتا ہے اور لگاتار دعائیں مانگے جاتا ہے۔( مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۱۰۷۹، ملخصاً)
راحت میں اللہ تعالیٰ کو بھول جانا اور صرف مصیبت میں دعا کرنا کفار کا طریقہ ہے:
کافر کی اس طرح کی حالت کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِهٖۚ-وَ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یَـٴُـوْسًا‘‘(بنی اسرائیل:۸۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ہم انسان پر احسان کرتے ہیں تو وہ منہ پھیرلیتا ہے اور اپنی طرف سے دور ہٹ جاتا ہے اور جب اسے برائی پہنچتی ہے تو مایوس ہوجاتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ راحت کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کو بھول جانا اور صرف مصیبت کے اَیّام میں دعا کرنا کفار کا طریقہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے کیونکہ یہاں دعا مانگنے پر عتاب نہیں کیا گیا بلکہ راحت میں دعا نہ مانگنے پر عتاب کیا گیاہے۔نیز یہ عمل مَصائب و آلام کے وقت مانگی جانے والی دعاؤں کے قبول نہ ہونے کا سبب بھی بن سکتا ہے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جسے یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں اور مصیبتوں میں ا س کی دعا قبول فرمائے تو اسے چاہئے کہ وہ صحت اور کشادگی کی حالت میں کثرت سے دعا کیا کرے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء انّ دعوۃ المسلم مستجابۃ، ۵ / ۲۴۸، الحدیث: ۳۳۹۳)
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ راحت میں ،آسانی میں ،تنگی میں ،مشکلات میں اور مَصائب و آلام کے وقت الغرض ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کریں اور اس سلسلے میں کافروں کی رَوِش پر چلنے سے بچیں ۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
مصیبتوں کا سامنا تسلیم و رضا اور صبر و اِستقلال سے کریں :
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ بندے پر نازل ہونے والی ہر بلا،مصیبت،نعمت،رحمت، تنگی اور آسانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے تو اگر بندہ مَصائب و آلام،مشکلات،تنگیوں ،سختیوں اور آسانیوں وغیرہ کا سامنا تسلیم و رضا،صبر واِستقلال اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کرے تو وہ ہدایت پانے والوں اور مُقَرّب بندوں میں سے ہے اور اگر ان کا سامنا کفر کے ساتھ کرے اور مصیبتوں وغیرہ میں شکوہ شکایت کرنا شروع کر دے تو وہ بد بختوں ، گمراہوں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہونے والوں میں سے ہے۔( روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۸ / ۲۸۰، ملخصاً)
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ زندگی میں آنے والی مشکلات وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہیں اور ہر مشکل اورمصیبت میں اچھی طرح صبر کیا کریں ۔حدیثِ قُدسی میں ہے،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’جب میں اپنے بندوں میں سے کسی بندے کی طرف اس کے بدن میں ، اس کے مال میں یا اس کی اولاد میں کوئی مصیبت بھیجوں ،پھر وہ ا س مصیبت کا سامنا اچھی طرح صبر کرنے کے ساتھ کرے تو میں قیامت کے دن ا س کے لئے میزان نصب کرنے یا اس کا نامۂ اعمال کھولنے سے حیا فرماؤں گا۔( مسند شہاب قضاعی، اذا وجّہت الی عبد من عبیدی مصیبۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۳۰، الحدیث: ۱۴۶۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں عافِیَّت نصیب فرمائے اور اگر زندگی میں کوئی مشکل یا مصیبت آئے تو اس پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{قُلْ: تم فرماؤ۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مکہ مکرمہ کے کافروں سے فرما دیں : اگریہ قرآنِ پا ک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نازل ہوا ہے جیساکہ میں تم سے یہی بات کہتا ہوں اور قطعی دلائل سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہواہے،پھر تم اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا انکارکرو تو مجھے بتاؤ :اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو دور کی ضد اور حق کی مخالفت میں پڑا ہوا ہے؟( جلالین، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۴۰۱، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۱۰۷۹، ملتقطاً)
{سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا: ابھی ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ ابھی ہم کفارِ قریش کو آسمان و زمین کی وسعتوں میں اور خود ان کی اپنی ذاتوں میں قرآن کریم کی حقّانِیّت اور اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے پر دلالت کرنے والی اپنی نشانیاں دکھائیں گے، یہاں تک کہ ان کیلئے بالکل واضح ہو جائے گاکہ بیشک قرآن ہی حق ہے اوریہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اس میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے،اعمال کا حساب لئے جانے اور ان کے کفر پر انہیں سزا دئیے جانے کا جو بیان ہوا ہے وہ بھی حق ہے اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کا ہر چیز پر گواہ ہونا آپ کی سچائی کے لئے انہیں کافی نہیں ؟
آفاقی نشانیوں کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد سورج ، چاند، ستارے، نباتات اور حیوان ہیں کیونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت پر دلالت کرنے والے ہیں ۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ ان نشانیوں سے مراد گزری ہوئی اُمتوں کی اُجڑی ہوئی بستیاں ہیں جن سے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں کا حال معلوم ہوتا ہے ،اوربعض مفسرین نے فرمایا کہ ان نشانیوں سے مشرق و مغرب کی وہ فتوحات مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے نیاز مندوں کو عنقریب عطا فرمانے والاہے۔
کفار کی ذات میں نشانیوں سے مرادیہ ہے کہ ان کی ہستیوں میں اللہ تعالیٰ کی صَنعت اور حکمت کے لاکھوں لطائف اور بے شمار عجائبات موجود ہیں جن سے ظاہر ہے کہ ان چیزوں پر اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی قادر نہیں ،یا اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بدر میں کفار کو مغلوب کیا اوران پر قہر نازل کرکے خود ان کے اپنے اَحوال میں اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرادیا،یا اس سے مراد یہ ہے کہ مکہ مکرمہ فتح فرما کر اُن میں اپنی نشانیاں ظاہر کر دیں گے۔( روح البیان ، حم السجدۃ ، تحت الآیۃ : ۵۳ ، ۸ / ۲۸۱، جلالین، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۴۰۱، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۳، ۴ / ۸۹، ملتقطاً)
{اَلَاۤ اِنَّهُمْ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْ لِّقَآءِ رَبِّهِمْ: سن لو! بیشک یہ کافر اپنے رب سے ملنے کے متعلق شک میں ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ سن لو! بیشک یہ کافر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ملنے کے بارے شک میں ہیں کیونکہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اورقیامت کے قائل نہیں ہیں ،اسی لئے وہ اس میں غور وفکر کرتے ہیں ،نہ اس کا علم رکھتے ہیں اور نہ ہی اس سے ڈرتے ہیں بلکہ وہ ان کے نزدیک ایک باطل چیز ہے جس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں حالانکہ قیامت ضرور واقع ہوگی اور اس کےواقع ہونے میں کسی طرح کا کوئی شک نہیں ہے۔ انہیں خبردار ہو جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم اورقدرت سے ہر چیز کوگھیرے ہوئے ہے،کوئی چیز ا س کے علم کے اِحاطے سے باہر نہیں اور اس کی معلومات کی کوئی انتہاء نہیں تو وہ انہیں ان کے کفر اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ملنے کے متعلق شک کرنے پر سزا دے گا۔(جلالین، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۴۰۱، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۱۰۸۰، ابن کثیر، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۴، ۷ / ۱۷۱، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۴، ۴ / ۹۰، ملتقطاً)
شیطان آخرت کے بارے میں شک ڈال کر دھوکہ دیتا ہے :
اس آیت میں بیان ہوا کہ کفار آخرت کے بارے شک میں مبتلا ہیں البتہ کچھ مسلمانوں کی عملی حالت سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی آخرت کے بارے میں دھوکے کا شکار ہیں ، جیسا کہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : شیطان آخرت کے بارے میں شک ڈال کر اس کے ذریعے دھوکہ دیتاہے اور اس کا علاج یا تو تقلیدی یقین ہے یا باطنی بصیرت و مشاہدہ ہے اور وہ لوگ جو اپنے عقائد اور زبان سے مومن ہیں ، جب وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو ضائع کر دیتے ہیں ،نیک اعمال کو چھوڑدیتے ہیں اور خواہشات اور گناہوں کا لباس پہن لیتے ہیں تو اس دھوکے میں وہ بھی کفار کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں کیونکہ انہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی البتہ مومن کا معاملہ ذرا ہلکا اور آسان ہے کیونکہ اس کا ایمان اسے دائمی عذاب سے محفوظ رکھتا ہے،لہٰذا وہ جہنم سے نکل جائیں گے اگر چہ کچھ وقت کے بعد ہو، لیکن دھوکے میں یہ بھی ہیں ، انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ آخرت دنیا سے بہتر ہے لیکن اس کے باوجود وہ دنیا کی طرف مائل ہوئے اور اس کو ترجیح دی اور کامیابی کے لئے محض ایمان کافی نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى‘‘(طٰہٰ:۸۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک میں اس آدمی کو بہت بخشنے والا ہوں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر ہدایت پر رہا۔
اورارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘(اعراف:۵۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہے۔
پھر نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔( بخاری، کتاب الایمان، باب سؤال جبریل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۱، الحدیث: ۵۰)
اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: ’’وَ الْعَصْرِۙ(۱) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ(۲) اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ﳔ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘‘(عصر:۱۔۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: زمانے کی قسم۔ بیشک آدمی ضرور نقصان میں ہے۔ مگر جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔
تو پورے قرآنِ پاک میں مغفرت کا وعدہ ایمان اور نیک اعمال سے مُنسَلِک ہے صرف ایمان کے ساتھ نہیں ۔ تو وہ لوگ بھی دھوکے میں ہیں جو دُنْیَوی زندگی پر مُطمَئن اور خوش ہیں ، اس کی لذّات میں ڈوبے ہوئے اور اس سے محبت کرنے والے ہیں اورصرف دُنْیَوی لذّات کے فوت ہونے کے خوف سے موت کو نا پسند کرتے ہیں ۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۶۸-۴۶۹)
اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے اور کثرت سے نیک اعمال کر کے اپنی آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan