Surah Az-Zumar
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ: کتاب کانازل فرمانا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اس کتاب قرآنِ پاک کو نازل فرمانا اس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو عزت والا، حکمت والا ہے،کسی اور کی طرف سے ہر گز نہیں جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں کہ اسے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے پاس سے بنا لیا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ کتاب قرآنِ کریم اور خصوصاً اس مبارک سورت کو نازل کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا تم اسے غور سے سنو اور ا س کے احکامات پر عمل کرو کہ یہ کتاب عزیز، اسے بھیجنے والا عزیز،اسے لے کر آنے والا فرشتہ عزیز اور جس پر نازل ہوئی وہ بھی عزیز ہے۔( روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۱، ۸ / ۶۸)
{اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ: بیشک ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب اتاری اور اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ حق ہے، اس میں کوئی شک نہیں اور وہ حتمی طور پر عمل کے قابل ہے اور آپ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر قائم رہتے ہوئے اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرتے رہیں ۔
بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن اس سے مراد آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہے۔( روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۲، ۸ / ۶۹، جلالین، الزمر، تحت الآیۃ: ۲، ص۳۸۵، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرنی چاہئے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرنی چاہئے کہ اس میں نہ شرک کا کوئی شائبہ ہو اور نہ ہی اس میں ریا کاری کا کوئی عمل دخل ہو اور جو لوگ اخلاص کے ساتھ عبادت کرتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ اعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ وَ اَخْلَصُوْا دِیْنَهُمْ لِلّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-وَ سَوْفَ یُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا‘‘(النساء:۱۴۶)
{اَلَا لِلّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ: سن لو! خالص عبادت اللہ ہی کیلئے ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! سن لو کہ شرک سے خالص عبادت اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق ہی نہیں اور وہ بت پرست جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور معبود ٹھہرا لئے ہیں اور بتوں کی پوجا کرتے ہیں ،وہ (اللہ تعالیٰ کو خالق ماننے کے باوجود) کہتے ہیں کہ ہم تو ان بتوں کی صرف اس لئے عبادت کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے زیادہ نزدیک کردیں تو یہ سمجھنے والے جھوٹے اور ناشکرے ہیں یعنی جھوٹے تو اِس بات میں ہیں کہ بتوں کو خدا کا قرب دلانے والا سمجھتے ہیں اور ناشکرے اِس لئے ہیں کہ خدا کی نعمتیں کھاکر اور اس کو خالق مان کر پھر بھی شرک کرتے ہیں تو ان کافروں کا مسلمانوں کے ساتھ توحید و شرک میں جو اختلاف ہے اس کا فیصلہ قیامت میں اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا اور وہ فیصلہ ایمان داروں کو جنت میں اور کافروں کو دوزخ میں داخل کرنے کے ذریعے ہوگا ۔
صرف اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے کیا جانے والا عمل مقبول ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ وہی عمل قابلِ قبول ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جائے ،اسی طرح حضرت یزید رقاشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،ایک شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم شہرت حاصل کرنے کے لئے اپنے اَموال دیتے ہیں ،کیا ہمیں اس کا کوئی اجر ملے گا؟نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لئے کیا جائے ،پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اَلَا لِلّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ‘‘۔(در منثور، الزمر، تحت الآیۃ: ۳، ۷ / ۲۱۱)
اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کو وسیلہ سمجھنا شرک نہیں ـ:
یاد رہے کہ کسی کو اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل ہونے کا وسیلہ سمجھنا شرک نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک پہنچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرنے کا قرآنِ پاک میں حکم دیا گیا ہے،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ‘‘(مائدہ:۳۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔
البتہ جسے وسیلہ سمجھا جائے اسے معبود جاننا اور اس کی پوجا کرنا ضرور شرک ہے۔یہ فرق سامنے رکھتے ہوئے اگر انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عِظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل ہونے کا وسیلہ سمجھنے سے متعلق اہلِ حق کا عقیدہ اور نظرِیَّہ دیکھا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ ان کا یہ عقیدہ شرک ہر گز نہیں ، کیونکہ وہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو معبود نہیں مانتے اور نہ ہی ان کی عبادت کرتے ہیں بلکہ معبود صرف اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اور صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں جبکہ انہیں صرف اللہ تعالیٰ کا مقبول بندہ مان کر اس کی بارگاہ تک پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ سمجھتے ہیں ۔آیت میں مشرکوں کی بتوں کو وسیلہ ماننے کی تردید دو وجہ سے ہے۔ ایک تو اِس وجہ سے کہ وہ وسیلہ ماننے کے چکر میں بتوں کو خدا بھی مانتے تھے جیسا کہ ان کا اپنا قول آیت میں موجود ہے کہ ہم ان کی عبادت اِس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں خدا کے قریب کردیں ۔ دوسرا رد اِس وجہ سے ہے کہ وسیلہ ماننا اصل میں انہیں شفیع یعنی شفاعت کرنے والا ماننا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت کی اجازت اَنبیاء و اَولیاء و صُلحاء کو ہے نہ کہ بتوں کو، تو بتوں کو شفیع ماننا خدا پر جھوٹ ہے۔
{لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا: اگر اللہ اپنے لیے اولاد بنانے کا ارادہ فرماتا۔} کفار اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد مانتے تھے ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کا رد کرتے ہوئے اپنے اولاد سے پاک ہونے کا بیان فرمایا کہ اگر بالفرض مشرکین کے گمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ممکن ہوتی تو وہ خود جسے چاہتا اولاد بناتا نہ کہ یہ تجویز کفار پر چھوڑتا کہ وہ جسے چاہیں خدا کی اولاد قرار دیں (مَعَاذَ اللہ) لیکن اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ اولاد سے اور ہر اس چیز سے پاک ہے جو اس کی شانِ اقدس کے لائق نہیں ،کیونکہ وہی ایک اللہ عَزَّوَجَلَّ سب پر غالب ہے،نہ اس کا کوئی شریک ہے اورنہ اس کی کوئی اولاد ہے۔( مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۰۳۰-۱۰۳۱، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۴۹، ملتقطاً)
{خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ: اس نے آسمان اور زمین حق کے ساتھ بنائے۔} اس سے پہلی آیت کے آخر میں بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ واحد ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ غلبے والا ،قدرت والا ہے اور اس آیت میں اپنے اوصاف بیان کرکے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیّت اور قدرت کی دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان باطل اور بیکار نہیں بنائے بلکہ بے شمار حکمتوں پر مشتمل بنائے ہیں ،وہ کبھی رات کی تاریکی سے دن کے ایک حصہ کو چھپاتا ہے اور کبھی دن کی روشنی سے رات کے حصہ کو۔ مراد یہ ہے کہ کبھی دن کا وقت کم کر کے رات کو بڑھاتا ہے اور کبھی رات کا وقت کم کر کے دن کو زیادہ کرتا ہے ،یوں رات اور دن میں سے کم ہونے والا کم ہوتے ہوتے کئی گھنٹے کم ہو جاتا ہے اور بڑھنے والا بڑھتے بڑھتے کئی گھنٹے بڑھ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو کام میں لگایا ،ان میں سے ہر ایک قیامت تک اپنے مُقرر نظام پر چلتا رہے گا، (جب اللہ تعالیٰ کے اوصاف یہ ہیں تو اس کا کوئی شریک کس طرح ہو سکتا ہے) سن لو! بیشک اللہ تعالیٰ اس شخص کو سزا دینے پر قادر ہے جو سورج اور چاند کی تسخیر سے نصیحت حاصل نہ کرے اور اسے بخشنے والا ہے جو ان میں غورو فکرکر کے نصیحت حاصل کرے اور ان کے نظام کو چلانے والے رب تعالیٰ پر ایمان لے آئے۔( روح البیان ، الزمر ، تحت الآیۃ : ۵، ۸ / ۷۲-۷۳ ، خازن ، الزمر ، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۴۹، مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۰۳۱، ملتقطاً)
{خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ: اس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت پر آفاقی نشانیوں سے دلائل بیان کئے گئے اور اس آیت میں زمینی نشانیوں سے وحدانیّت اور قدرت پر دلائل دئیے جا رہے ہیں :
پہلی دلیل یہ ارشاد فرمائی کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک جان حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پیدا فرمایا ،پھر انہی سے حضرت حوا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو پیدا فرمایا ۔
دوسری دلیل یہ ارشاد فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اونٹ،گائے،بکری اوربھیڑ سے آٹھ جوڑے پیدا کئے، جوڑوں سے مراد نر اور مادہ ہیں ۔
تیسری دلیل یہ ارشاد فرمائی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تین اندھیروں میں پیدا کرتا ہے، ایک حالت کی تخلیق کے بعد دوسری حالت کی تخلیق ہوتی ہے۔ تین اندھیروں سے مرادپیٹ، بچہ دانی اور ا س کی جھلی کا اندھیرا ہے اور ایک حالت کے بعد دوسری حالت کی تخلیق سے مراد یہ ہے کہ پہلے نطفہ،پھر جمے ہوئے خون،پھر گوشت کے ٹکڑے اور پھر مکمل بچے کی تخلیق ہو تی ہے۔آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنی کامل قدرت سے ان چیزوں کو پیدا فرمایا صرف وہی اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے ،اسی کی بادشاہی ہے نہ کہ کسی اور کی، اس کے سوا نہ کوئی خالق ہے اور نہ ہی کوئی عبادت کے لائق ہے ،تو تم کہاں پھیرے جاتے ہو اور اس بیان کے بعدحق راستے سے دور ہوتے ہو کہ اس کی عبادت چھوڑ کر غیر کی عبادت کرتے ہو۔( مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۰۳۱، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۴۹، ملتقطاً)
{اِنْ تَكْفُرُوْا: اگر تم ناشکری کرو۔} اس آیت میں کفار سے خطاب فرمایا گیا اور ایک احتمال یہ ہے کہ تمام لوگوں سے خطاب فرمایا گیاکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت پر دئیے گئے دلائل کامشاہدہ کرنے کے بعد بھی اگر تم (کفر کر کے) اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرو تو بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان اور تمہاری طاعت و عبادت سے بے نیاز ہے اور تم ہی اس کے محتاج ہو، ایمان لانے میں تمہارا ہی نفع ہے اور کافر ہوجانے میں تمہارا ہی نقصان ہے اور اگرچہ بندوں کے کفر و ایمان سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نفع یا نقصان نہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اپنے بندوں کی ناشکری کو پسند نہیں کرتا کیونکہ ا س میں بندوں کا نقصان ہے اوراگر تم ایمان قبول کر کے شکر کرو تو اسے تمہارے لیے پسند فرماتا ہے کیونکہ وہ تمہاری کامیابی کا سبب ہے، اس پر تمہیںاللہ تعالیٰ ثواب دے گا اور جنت عطا فرمائے گا اور کوئی شخص دوسرے کے گناہ کی وجہ سے نہیں پکڑا جائے گا (البتہ گمراہ کرنے والوں پر ان کا اپنا بوجھ بھی ہو گا اور دوسرے گمراہوں کا بھی جنہیں اِنہوں نے بہکایا ہوگا)، پھر تمہیں آخرت میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ ہی کی طرف پھرنا ہے تو وہ تمہیں بتادے گا جو تم دنیا میں کرتے تھے اور اس کی تمہیں جزا دے گا ،بیشک وہ دلوں کی بات جانتا ہے۔( بحر المحیط ، الزمر ، تحت الآیۃ : ۷، ۷ / ۴۰۰، بیضاوی، الزمر، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۵۹، مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۰۳۱-۱۰۳۲، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۴۹-۵۰، ملتقطاً)
{وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِیْبًا اِلَیْهِ: اور جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تواپنے رب کو اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتا ہے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب آدمی کو فقر،بیماری یا کوئی اور تکلیف و شدت پہنچتی ہے تووہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہی رجوع کرتے ہوئے اسے پکارتا ہے اوراس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اسی سے فریاد کرتا ہے،پھر جب اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس سے کوئی نعمت دیدے اور ا س کی تکلیف دور کر کے ا س کے حال کو درست کر دے تو وہ اس شدت و تکلیف کو فراموش کردیتا ہے جس کے لئے اس نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی تھی اور حاجت پوری ہونے کے بعد پھر بت پرستی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور وہ صرف اپنی گمراہی کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ اپنے قول اور فعل سے دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کے دین سے گمراہ کرنا شروع کردیتا ہے ۔اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس کافر سے فرما دیں کہ تھوڑے دن اپنے کفر کے ساتھ فائدہ اٹھالے اور دنیا کی زندگی کے دن پورے کرلے بیشک تو قیامت کے دن دوزخیوں میں سے ہے۔(خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۵۰، روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۸، ۸ / ۷۸-۸۰، تفسیرکبیر، الزمر، تحت الآیۃ: ۸، ۹ / ۴۲۸، ملتقطاً)
مصیبت وراحت میں مسلمانوں کا حال:
کفار کے اس طرزِ عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنی حالت پر غور کریں تو بے شمار مسلمان ایسے نظر آئیں گے جو مصیبت،پریشانی یا بیماری آنے پر نہ صرف خود دعاؤں ،التجاؤں اور اللہ تعالیٰ سے مُناجات میں مصروف ہو جاتے ہیں بلکہ اپنے عزیزوں ، رشتہ داروں اور دوست احباب سے بھی دعاؤں کا کہنے لگتے ہیں لیکن جیسے ہی اللہ تعالیٰ ان کی مصیبت و پریشانی یا بیماری دور کردے تو دوبارہ ایسے ہوجاتے ہیں گویا کبھی کسی تکلیف کے پہنچنے پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پکارا ہی نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور انہیں اپنے اس طرزِ عمل کو بدلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جسے یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں اور مَصائب میں اس کی دعا قبول فرمائے تو اسے چاہئے کہ وہ راحت و آسائش کے دنوں میں اللہ تعالیٰ سے بکثرت دعا کرے۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء انّ دعوۃ المسلم مستجابۃ، ۵ / ۲۴۸، الحدیث: ۳۳۹۳)
{اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَآىٕمًا: کیا وہ شخص جو سجدے اور قیام کی حالت میں رات کے اوقات فرمانبرداری میں گزارتا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا وہ شخص جو سجدے اور قیام کی حالت میں رات کے تمام اوقات فرمانبرداری میں گزارتا ہے ،آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت یعنی مغفرت اور جنت کی امید لگا رکھتا ہے ،وہ نافرمانی اور غفلت میں رہنے والے کی طرح ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں ۔اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرمائیں کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ جب یہ برابر نہیں تو اطاعت گزار و فرمانبردار اور غافل و نافرمان کس طرح برابر ہو سکتے ہیں ،لیکن اللہ تعالیٰ کی نصیحتوں سے عقل والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں ۔ اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی شان میں نازل ہوئی اور حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ یہ آیت حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئی اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عمار اور حضرت سلمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے حق میں نازل ہوئی ۔
رات کے نوافل دن کے نوافل سے افضل ہیں :
اس آیت سے ثابت ہوا کہ رات کے نوافل اور عبادت دن کے نوافل سے افضل ہیں ، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ رات کا عمل پوشیدہ ہوتا ہے اس لئے وہ ریا سے بہت دور ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ رات کے وقت دنیا کے کاروبار بند ہوتے ہیں اس لئے دن کے مقابلے میں دل بہت فارغ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور خشوع دن سے زیادہ رات میں مُیَسَّر آتا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ رات کا وقت چونکہ راحت و آرام اور سونے کا ہوتا ہے اس لئے اس میں بیدار رہنا نفس کو بہت مشقت اور تکلیف میں ڈالتا ہے لہٰذا اس کا ثواب بھی زیادہ ہوگا۔
مومن پر امید اور خوف کے درمیان رہنا لازم ہے :
اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مومن کے لئے لازم ہے کہ وہ امید اور خوف کے درمیان ہو، اپنے عمل کی تقصیر پر نظر کرکے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار رہے ۔دنیا میں بالکل بے خوف ہونا یا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مُطْلَقا ً مایوس ہونا یہ دونوں حالتیں قرآنِ کریم میں کفار کی بتائی گئی ہیں ،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(اعراف:۹۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں تو اللہ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں ۔
اور ارشاد فرمایا:
’’اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ‘‘(یوسف:۸۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں ۔( مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۰۳۲، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۵۰، ملتقطاً)
امید اور خوف کے درمیان رہنے کی فضیلت:
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک نوجوان کے پاس تشریف لے گئے،وہ مرنے کے قریب تھا۔آپ نے ارشاد فرمایا’’تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو؟اس نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ (کی رحمت) کی امید بھی ہے اور گناہوں کا خوف بھی۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب مومن کے دل میں اس موقع پر یہ دونوں باتیں جمع ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ وہ چیز عطا فرماتا ہے جس کی بندہ امید کرتا ہے اور اس چیزسے بے خوف کر دیتا ہے جس سے بندہ ڈرتا ہے۔( ترمذی، کتاب الجنائز، ۱۱-باب، ۲ / ۲۹۶، الحدیث: ۹۸۵)
{قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟} اس آیت سے علم اورعلماءِ کرام کی فضیلت معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے علم والوں کو بے علموں سے ممتاز فرمایا ہے۔
علماء کے فضائل پر مشتمل4اَحادیث:
بکثرت اَحادیث میں بھی علماء کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 4اَحادیث یہاں درج ذیل ہیں ، چنانچہ
(1)… حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ و پرہیز گاری (میں ) ہے۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ: علی، ۳ / ۹۲، الحدیث: ۳۹۶۰)
(2)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی تمام ستاروں پر فضیلت ہے۔( ابو داؤد، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، ۳ / ۴۴۴، الحدیث: ۳۶۴۱)
(3)… حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا،ان میں سے ایک عالِم تھا اور دوسرا عبادت گزار،توحضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ہے، پھرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ،اس کے فرشتے،آسمانوں اور زمین کی مخلوق حتّٰی کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں لوگوں کو (دین کا) علم سکھانے والے پر درود بھیجتے ہیں۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ۴ / ۳۱۳، الحدیث: ۲۶۹۴)
(4)… حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(قیامت کے دن) عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور عبادت گزار سے کہا جائے گا’’تم جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے۔(شعب الایمان، السابع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضل العلم وشرفہ، ۲ / ۲۶۸، الحدیث: ۱۷۱۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں علمِ دین سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا گیا کہ آپ اہلِ ایمان کو نصیحت فرمائیں اور انہیں تقویٰ و پرہیزگاری اور عبادت وریاضت کی ترغیب دلائیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے: اے میرے ایمان والے بندو!تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری کرکے اور اس کی نافرمانی سے خود کو بچا کر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرو۔( ابوسعود، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۴۶۰، مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۰۳۳، ملتقطاً)
{لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ: جنہوں نے بھلائی کی ان کے لیے اِس دنیا میں بھلائی ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جنہوں نے عبادت کی اور اچھے اعمال بجا لائے ان کے لئے اس دنیا میں بھلائی یعنی صحت و عافیت ہے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ جنہوں نے اس دنیا میں عبادت کی اور اچھے اعمال بجا لائے ان کے لئے آخرت میں بھلائی یعنی جنت ہے۔( بیضاوی، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۵ / ۶۰، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۵۱، ملتقطاً)
{وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ: اور اللہ کی زمین وسیع ہے۔} اس آیت میں ہجرت کی ترغیب ہے کہ جس شہر میں گناہوں کی کثرت ہو اور وہاں رہنے سے آدمی کو اپنی دینداری پر قائم رہنادشوار ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس جگہ کو چھوڑ دے اور وہاں سے ہجرت کرجائے ۔شانِ نزول : یہ آیت مہاجرینِ حبشہ کے حق میں نازل ہوئی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ہمراہیوں کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مصیبتوں اور بلاؤں پر صبر کیا اور ہجرت کی اور اپنے دین پر قائم رہے، اسے چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ (خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۵۱، ملخصاً)
{ اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ: صبرکرنے والوں ہی کو ان کا ثواب بے حساب بھرپور دیا جائے گا۔} یعنی جنہوں نے اپنے دین پر صبر کیا اور اس کی حدود پر پابندی سے عمل پیرا رہے اور جب یہ کسی آفت یا مصیبت میں مبتلا ہوئے تو دین کے حقوق کی رعایت کرنے میں کوئی زیادتی نہ کی انہیں دیگر لوگوں کے مقابلے میں بے حساب اوربھر پور ثواب دیا جائے گا۔( ابوسعود، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۴۶۱)
صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر ملے گا:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ صبر کرنے والے بڑے خوش نصیب ہیں کیونکہ قیامت کے دن انہیں بے حساب اجر و ثواب دیاجائے گا۔یہاں ان کے اجرو ثواب سے متعلق حدیثِ پاک بھی ملاحظہ ہو،چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مصیبت اور بلا میں مبتلا رہنے والے (قیامت کے دن) حاضر کئے جائیں گے ،نہ اُ ن کے لئے میزان قائم کی جائے گی اور نہ اُن کے لئے (اعمال ناموں کے) دفتر کھولے جائیں گے ،ان پر اجرو ثواب کی (بے حساب) بارش ہوگی یہاں تک کہ دنیا میں عافیت کی زندگی بسر کرنے والے ان کا بہترین ثواب دیکھ کر آرزو کریں گے کہ’’کاش (وہ اہلِ مصیبت میں سے ہوتے اور )ان کے جسم قینچیوں سے کاٹے گئے ہوتے( تاکہ آج یہ صبر کا اجرپاتے)۔( معجم الکبیر، ابو الشعثاء جابر بن زید عن ابن عباس، ۱۲ / ۱۴۱، الحدیث: ۱۲۸۲۹)
اور حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ صبر کرنے والوں کے علاوہ ہر نیکی کرنے والے کی نیکیوں کا وزن کیا جائے گا کیونکہ صبر کرنے والوں کوبے اندازہ اور بے حساب دیا جائے گا۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۵۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں عافیت نصیب فرمائے اور مَصائب و آلام آنے کی صورت میں صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ: تم فرماؤ : مجھے حکم ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے مشرکین سے فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤں اور مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں سب سے پہلے (اللہ تعالیٰ کے حضور) گردن رکھوں اور عبادت گزاروں اور مخلص لوگوں میں سب سے مُقدّم اور سبقت لے جانے والا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اخلاص کا حکم دیا جو دل کاعمل ہے پھر اطاعت یعنی اعمالِ جوارح کا حکم دیا اور چونکہ شرعی اَحکام رسول سے حاصل ہوتے ہیں ،وہی ان اَحکام کو پہنچانے والے ہیں تو وہ ان کے شروع کرنے میں سب سے مقدم اور اوّل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ حکم دے کرلوگوں کو تنبیہ کی ہے کہ دوسروں پر اس کی پابندی انتہائی ضروری ہے اور دوسروں کی ترغیب کے لئے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ حکم دیا گیا ہے۔(تفسیر طبری ، الزمر ، تحت الآیۃ : ۱۱-۱۲ ، ۱۰ / ۶۲۳ ، خازن ، الزمر ، تحت الآیۃ : ۱۱-۱۲، ۴ / ۵۱، مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ص۱۰۳۳، ملتقطاً)
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ کفارِ قریش نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ آپ اپنی قوم کے سرداروں اور اپنے رشتہ داروں کو نہیں دیکھتے جو لات و عُزّیٰ کی پوجاکرتے ہیں ۔ اُن کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ ان مشرکین سے فرمادیں’’اگر بالفرض مجھ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی ہوجائے تو مجھے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ایک بڑے دن یعنی قیامت کے عذاب کا ڈر ہے۔(مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۰۳۳، تفسیر طبری، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱۰ / ۶۲۳، ملتقطاً) مراد یہ ہے کہ میں خدا کے عذاب سے بچنے کی کوشش کروں یا آباؤ اَجداد کی مخالفت سے بچوں ۔ وہ آباؤ اَجداد جو اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکتے۔
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے مشرکین سے فرما دیں کہ میں کسی اور کی عبادت نہیں کرتا بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو کر صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں اوراے کفار! تم اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو ۔جب مشرکین نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کہ آپ نے اپنے آباؤ اَجداد کے دین کی مخالفت کر کے نقصان اٹھایا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں : بیشک حقیقت میں نقصان اٹھانے والے وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانوں اور اپنے گھروالوں کو قیامت کے دن خسارے میں ڈالا کہ خود گمراہی اختیار کرکے اور گھر والوں کو گمراہی میں مبتلا کر کے ہمیشہ کے لئے جہنم کے مستحق ہوگئے اور جنت کی ان عالیشان نعمتوں سے محروم ہوگئے جو ایمان لانے پر انہیں ملتیں ۔سن لو! یہی کھلا نقصان ہے۔ یاد رہے کہ یہ جو فرمایا گیا: ’’تم اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو‘‘ اس میں شرک کی اجازت نہیں بلکہ انتہائی غضب کا اظہار ہے۔(خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۴-۱۵، ۴ / ۵۱، مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۴-۱۵، ص۱۰۳۳، روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۴-۱۵، ۸ / ۸۷، ملتقطاً)
{لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ: ان کیلئے ان کے اوپر سے آگ کے پہاڑ ہوں گے۔} اوپر نیچے آگ کے پہاڑ ہونے کا معنی یہ ہے کہ ہر طرف سے آگ انہیں گھیرے ہوئے ہو گی۔( مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۰۳۴)
کافروں کو ہر طرف سے آگ گھیرے ہوئے ہو گی:
ایک اور مقا م پر کفار کے اس عذاب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ یَوْمَ یَغْشٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ وَ یَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ‘‘(عنکبوت:۵۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جس دن عذاب انہیں ان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے ڈھانپ لے گا اور (اللہ) فرمائے گا: اپنے اعمال کا مزہ چکھو۔
اورحضرت سوید بن غفلہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب اللہ تعالیٰ اس بات کا ارادہ فرمائے گا کہ جہنمی اپنے ماسوا سب کوبھول جائیں تو ان میں سے ہر شخص کے لئے اس کے قد برابر آگ کا ایک صندوق بنایا جائے گا پھر اس پر آگ کے تالوں میں سے ایک تالا لگا دیا جائے گا، پھر اس شخص کی ہر رگ میں آگ کی کیلیں لگا دی جائیں گی، پھر اس صندوق کو آگ کے دوسرے صندوق میں رکھ کر آگ کا تالا لگا دیا جائے گا ،پھر ان دونوں کے درمیان آگ جلائی جائے گی تو اب ہر کافر یہ سمجھے گا کہ اس کے سوا اب کوئی آگ میں نہ رہا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَ مِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ‘‘ اور ارشاد فرمایا: ’’لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّ مِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: ان کے لئے آگ بچھونا ہے اوران کے اوپر سے (اسی کا) اوڑھنا ہوگا۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، الشعبی، ۸ / ۲۸۱، الحدیث: ۱۰)
اللہ تعالیٰ ہمارا ایمان سلامت رکھے اور جہنم کے عذابات سے ہماری حفاظت فرمائے،اٰمین۔
{ذٰلِكَ یُخَوِّفُ اللّٰهُ بِهٖ عِبَادَهٗ: اللہ اپنے بندوں کو اسی سے ڈراتا ہے۔} یعنی اے لوگو! میں نے قیامت کے دن نقصان اٹھانے والوں کے جس عذاب کی تمہیں خبر دی ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اس عذاب سے ڈراتا ہے تاکہ تم اس کے خوف سے گناہوں سے بچو اور کفر چھوڑ کر اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤ،اس کے رسول کی تصدیق کر کے اوراحکامات و ممنوعات میں اس کی پیروی کر کے آخرت کے عذاب سے نجات پا جاؤ۔اے میرے بندو!میں نے جو چیزیں تم پر فرض کیں ان کی ادائیگی اور گناہوں سے بچنے کے معاملے میں مجھ سے ڈرو اور وہ کام نہ کرو جو میری ناراضی کا سبب ہو۔( تفسیر طبری، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۶، ۱۰ / ۶۲۴، مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۰۳۴)
{وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا: اورجنہوں نے بتوں کی پوجا سے اجتناب کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے بتوں کی پوجا کرنے سے اجتناب کیا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کی اوراس کی توحید کے اقر ار،صرف اسی کی عبادت اور ا س کے علاوہ تمام معبودوں سے براء ت کا اظہار کیا ،انہیں کے لئے دنیا میں اور آخرت میں خوشخبری ہے،دنیا میں نیک اعمال کی وجہ سے اچھی تعریف ،موت کے وقت اور قبر میں رکھے جانے کے وقت راحت اور یونہی آخرت میں قبر وں سے نکالنے کے وقت،حساب کے لئے کھڑے ہوتے وقت، پل صرا ط پار کرتے وقت،جنت میں داخل ہوتے وقت اور جنت میں الغرض ان تمام مقامات پر بھلائی ، راحت اور رحمت انہیں حاصل ہو گی ،تو اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ان بندوں کو خوشخبری سنادو جو کان لگا کر غور سے بات سنتے ہیں ،پھر اس پر عمل کرتے ہیں جس میں ان کی بہتری ہو۔یہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور وحدانیّت کے اقرار کی ہدایت دی اور یہی عقلمند ہیں ۔ شانِ نزول ۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ایمان لائے تو آپ کے پاس حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف،حضرت طلحہ ،حضرت زبیر ،حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت سعید بن زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ آئے اور ان سے حال دریافت کیا ،انہوں نے اپنے ایمان کی خبر دی تو یہ حضرات بھی سن کر ایمان لے آئے۔ ان کے حق میں یہ آیت ’’ فَبَشِّرْ عِبَادِ…الاٰیہ‘‘ نازل ہوئی۔ (تفسیر طبری، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۱۰ / ۶۲۴-۶۲۵ ، جلالین، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸،ص۳۸۶، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۴ / ۵۲)
زیادہ بہتر اَحکام پر عمل کرنے والے بشارت کے مستحق ہیں :
قرآن و حدیث میں مسلمانوں کو جو احکام دئیے گئے ہیں ان میں ثواب کے اعتبار سے فرق ہے ، یوں بعض اعمال بعض سے بہتر ہیں ،جیسے تنگدست مقروض کو آسانی آنے تک مہلت دینا اور قرض معاف کر دینا دونوں بہتر ہیں لیکن قرض معاف کردینا مہلت دینے سے زیادہ بہتر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’ وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍؕ-وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۸۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر مقروض تنگدست ہو تو اسے آسانی تک مہلت دو اور تمہارا قرض کوصدقہ کردینا تمہارےلئے سب سے بہتر ہے اگر تم جان لو۔
اسی طرح جیسی کسی نے تکلیف پہنچائی ویسی اسے سزا دینا اور صبر کرنا دونو ں جائز ہیں لیکن صبر کرنا سزا دینے سے زیادہ بہتر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖؕ-وَ لَىٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ‘‘(نحل:۱۲۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر تم (کسی کو)سزا دینے لگو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہو اور اگر تم صبر کرو تو بیشک صبر والوں کیلئے صبر سب سے بہتر ہے۔
یونہی سب سے بہتر نیک عمل وہ ہے جو اِستقامت کے ساتھ ہو اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ تم اتنے عمل کی عادت بناؤ جتنے کی تم طاقت رکھتے ہو،پس بہترین عمل وہ ہے جو ہمیشہ ہو اگرچہ کم ہی ہو۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب المداومۃ علی العمل، ۴ / ۴۸۷، الحدیث: ۴۲۴۰)
جولوگ جائز احکام پر عمل کرتے ہیں وہ ملامت کے مستحق نہیں اورجو ثواب کے کام کرتے ہیں وہ قابلِ تعریف ہیں لیکن جو زیادہ بہتر اعمال بجالاتے ہیں وہ زیادہ ثواب کے مستحق اور زیادہ قابلِ تعریف ہیں ۔
{اَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ: تو کیا وہ جس پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی ہے۔} بت پرستی سے بچنے والوں کا حال بیان کرنے کے بعد یہاں سے بت پرستوں کا حال بیان کیا جارہا ہے۔اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ وہ جہنمی ہے کیا وہ اس کی طرح ہو سکتا ہے جس پر عذاب واجب نہیں ہوا۔ (وہ ہر گز اس کی طرح نہیں ہو سکتا۔)( روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۹۱-۹۲، تفسیر سمرقندی، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۱۴۷، ملتقطاً)
{اَفَاَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِی النَّارِ: تو کیا تم اسے جو آگ میں ہے بچالو گے؟} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ (جو اَزلی بدبخت ہے اور) جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ وہ اپنے خبیث اعمال کی وجہ سے جہنم میں جانے کا حقدار ہے تو کیا آپ اسے ہدایت دے کر جہنم سے بچالیں گے ،ہر گز نہیں ۔(تفسیر سمرقندی، الزمر،تحت الآیۃ:۱۹، ۳ / ۱۴۷، جلالین، الزمر،تحت الآیۃ:۱۹،ص۳۸۶، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۵۲، ملتقطاً)
{لٰكِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ: لیکن جو اپنے رب سے ڈرے۔} اس آیت میں متقی اور پرہیزگار اہلِ ایمان کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا: لیکن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے والوں اور ا س کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کیلئے جنت کے بلند محلا ت ہیں جن کے اوپر مزیدبلند محلات بنے ہوئے ہیں جو ان سے زیادہ بلند ہیں ۔ ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۵۲)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک جنتی لوگ اپنے مقامات میں فرق کے باعث اپنے سے اوپر بالاخانے والوں کو ایسے دیکھیں گے جس طرح اُفق میں مشرق یا مغرب کی جانب کسی روشن ستارے کو دیکھتے ہوں ۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ تو انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی منزلیں ہیں دوسرے وہاں کیسے پہنچ سکتے ہیں !ارشاد فرمایا: ’’کیوں نہیں ،وہ لوگ پہنچ سکیں گے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تصدیق کی۔(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنّۃ وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۳، الحدیث: ۳۲۵۶)
{اَلَمْ تَرَ: کیا تو نے نہ دیکھا۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے آخرت کے اوصاف بیان فرمائے تاکہ عقلمند اس کی طرف راغب ہوں جبکہ اس آیت میں دنیا کے اوصاف بیان فرمائے تاکہ ان میں دنیا کی محبت سے دوری پیدا ہو۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بارش نازل فرمائی ،پھر اس پانی کو مختلف جگہوں کی طرف بھیجا، پھر اسے زمین میں موجود چشموں میں داخل کر دیا،پھر اللہ تعالیٰ اس پانی سے مختلف رنگوں جیسے زرد،سبز،سرخ ،سفید اور مختلف قسموں جیسے گیہوں ، جَو اور طرح طرح کے غلے کی کھیتی نکالتا ہے،پھر وہ کھیتی خشک ہوجاتی ہے اورتُو دیکھتا ہے کہ وہ سرسبز و شاداب ہونے کے بعد پیلی پڑ جاتی ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے۔بے شک جس نے نباتات میں ان احوال کا مشاہدہ کیا ہے تو وہ جان جائے گا کہ حیوان اور انسان کا حال بھی اسی طرح ہے کہ اگرچہ اس کی عمر لمبی ہو لیکن ایک دن ایسا آئے گا کہ اس کا رنگ پیلا پڑ جائے گا اور اس کے اَعضا ء و اَجزاء ٹوٹنے لگیں گے اور بالآخر اس کا انجام موت ہے لہٰذا جب وہ نباتا ت میں ان اَحوال کا مشاہدہ کر کے اپنی ذات اورزندگی میں غور کرے گا تو ا س سے اس کے دل میں دنیا اور اس کی رنگینیوں سے نفرت پیدا ہوگی۔(تفسیرکبیر، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۱، ۹ / ۴۳۹-۴۴۰)
{اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ: تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور اسے حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی تو وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے یقین و ہدایت پر ہے اس جیسا ہوجائے گا جس کے دل پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی تو وہ ہدایت قبول نہیں کرتا ۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۵۳)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِؕ-كَذٰلِكَ یَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘(انعام:۱۲۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ تنگ، بہت ہی تنگ کردیتا ہے گویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔اسی طرح اللہ ایمان نہ لانے والوں پر عذاب مسلط کردیتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب یہ آیت ’’اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ‘‘ تلاوت فرمائی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سینے کا کھلنا کس طرح ہوتا ہے؟ارشاد فرمایا کہ جب نور دل میں داخل ہوتا ہے تو وہ کھلتا ہے اور اس میں وسعت ہوتی ہے ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:اس کی کیا علامت ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’ہمیشگی کے گھر (یعنی جنت) کی طرف متوجہ ہونا اور دھوکے کے گھر (یعنی دنیا سے) دور رہنا اور موت کے لئے اس کے آنے سے پہلے آمادہ ہونا۔( الزہد الکبیر للبیہقی، الجزء الخامس، ص۳۵۶، الحدیث: ۹۷۴)
{فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ: تو خرابی ہے ان کیلئے جن کے دل اللہ کے ذکر کی طرف سے سخت ہوگئے ہیں۔} یعنی ان کے لئے خرابی ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے یا اس کی آیات کی تلاوت کی جائے تو وہ پہلے سے زیادہ سکڑ جائیں اور ان کے دلوں کی سختی زیادہ ہو جائے ،یہی لوگ جن کے دل سخت ہو گئے حق سے بہت دور اور کھلی گمراہی میں ہیں۔( ابوسعود، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۴۶۵، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مومنوں کے دل نرم ہوتے اور کافروں کے دِلوں کی سختی بڑھتی ہے:
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی مشہور تصنیف تفسیر خازن میں فر ماتے ہیں ’’ نفس جب خبیث ہوتا ہے تو اسے حق قبول کرنے سے بہت دوری ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر سننے سے اس کی سختی اور دل کا غباربڑھتا ہے اور جیسے سورج کی گرمی سے موم نرم ہوتا ہے اور نمک سخت ہوتا ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مومنین کے دل نرم ہوتے ہیں اور کافروں کے دِلوں کی سختی اور بڑھتی ہے۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۵۳)
اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روکنا اپنا شعار بنالیا ہے، وہ صوفیوں کے ذکر کو بھی منع کرتے ہیں ،نمازوں کے بعد اللہ کا ذکر کرنے والوں کو بھی روکتے اور منع کرتے ہیں ، ایصالِ ثواب کے لئے قرآنِ کریم اور کلمہ پڑھنے والوں کو بھی بدعتی بتاتے ہیں اور ان ذکر کی محفلوں سے بہت گھبراتے اور دور بھاگتے ہیں ،اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا زیادہ گفتگو نہ کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ زیادہ گفتگو دل کی سختی ہے،اور لوگوں میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ دور وہ ہو تا ہے جس کا دل سخت ہو۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۶۲-باب، ۴ / ۱۸۴، الحدیث: ۲۴۱۹)
{اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ: اللہ نے سب سے اچھی کتاب اتاری۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کے چار اوصاف بیان فرمائے ہیں ۔
پہلا وصف:قرآن پاک سب سے اچھی کتاب ہے۔قرآن شریف عبارت اور معنی دونوں اعتبار سے سب سے اچھی کتاب ہے، عبارت میں اس طرح کہ یہ ایسا فصیح و بلیغ کلام ہے کہ کوئی کلام اس سے کچھ نسبت ہی نہیں رکھ سکتا،اس کا مضمون انتہائی دل پذیر ہے حالانکہ یہ نہ عام کلاموں جیسی نظم ہے نہ شعر بلکہ بڑے نرالے ہی اُسلوب پر ہے اور معنی میں یہ ایسا بلند مرتبہ ہے کہ تمام علوم کا جامع اور معرفتِ الٰہی جیسی عظیم الشّان نعمت کا رہنما ہے اوراس میں باہمی کوئی ٹکراؤ اور اختلاف نہیں ۔
دوسرا وصف: یہ کتاب شروع سے آخر تک حسن و خوبی میں ایک جیسی ہے۔
تیسرا وصف:یہ کتاب مَثانی ہے،اس کا ایک معنی یہ ہے کہ یہ دوہرے بیان والی ہے کہ اس میں وعدے کے ساتھ وعید ،امر کے ساتھ نہی اور اَخبار کے ساتھ اَحکام ہیں ۔دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ کتاب بار بار پڑھی جانے والی ہے۔
چوتھا وصف: اس کی تلاوت کرنے سے ان لوگوں کے بدن پر بال کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتے ہیں ،پھر ان کی کھالیں اور دل اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف رغبت میں نرم پڑجاتے ہیں ۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ یہ اَولِیَائُ اللہ کی صفت ہے کہ ذکر ِالٰہی سے اُن کے بال کھڑے ہوتے ،جسم لرزتے ہیں اور دل چین پاتے ہیں۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۵۳-۵۴، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں بھی اپنا حقیقی خوف نصیب کرے ۔ حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب اللہ تعالیٰ کے خوف سے بندے کے بال کھڑے ہو جائیں تو ا س کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح خشک درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں ۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۹۱، الحدیث: ۸۰۳)
{ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ: یہ اللہ کی ہدایت ہے۔} یعنی یہ قرآن جو سب سے اچھی کتاب ہے،یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے، وہ جسے چاہتاہے اس کے ذریعے ہدایت دیتا ہے اور ہدایت پانے والا وہ ہے جس کے سینے کو اللہ تعالیٰ ہدایت قبول کرنے کے لئے کھول دے اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرے (اس طرح کہ اس کی بد عملیوں کی وجہ سے اس میں گمراہی پیدا فرما دے تو) اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں ۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۵۴)
{اَفَمَنْ یَّتَّقِیْ بِوَجْهِهٖ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ: تو کیا وہ جو قیامت کے دن اپنے چہرے کے ذریعے برے عذاب کوروکنے کی کوشش کرے گا۔} اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر دو چیزیں لازم فرمادیں جن کے دل (اللہ تعالیٰ کے ذکر سے) سخت ہو گئے،(1) دنیا میں گمراہی۔اس کا ذکر اوپر والی آیت میں ہوا،(2)آخرت میں شدید عذاب۔اس کا ذکر اس آیت میں ہے اورایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں جس کا ذکر ہے ا س سے مراد وہ کافر ہے جس کے ہاتھ گردن کے ساتھ ملا کر باندھ دیئے جائیں گے اور اس کی گردن میں گندھک کا ایک جلتا ہوا پہاڑ پڑا ہوگا جو اس کے چہرے کوبھون ڈالتا ہوگا ،اس طرح اسے اوندھا کرکے آتشِ جہنم میں گرایا جائے گا۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تو کیا وہ جو قیامت کے دن اپنے چہرے کو ڈھال بنا کر اس کے ذریعے برے عذاب کوروکنے کی کوشش کرے گاوہ اس مومن کی طرح ہوسکتا ہے جو عذاب سے مامون اور محفوظ ہو؟ہرگز نہیں ۔ اور ظالموں سے جہنم کے خازن کہیں گے :دنیا میں جو کفر سرکشی اختیار کی تھی اب اس کا وبال و عذاب برداشت کرو۔(تفسیرکبیر، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۹ / ۴۴۸، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۵۴، ملتقطاً)
{كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: ان سے پہلے لوگوں نے جھٹلایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح آپ کی قوم نے آپ کو جھٹلایا اسی طرح کفارِ مکہ سے پہلے کافروں نے بھی اپنے رسولوں کو جھٹلایا تو ان کے پاس وہاں سے عذاب آیا جہاں سے عذاب آنے کا انہیں خطرہ بھی نہ تھا اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کی زندگی میں رسوائی کا مز ہ چکھایا کہ کسی قوم کی صورتیں مَسخ کیں ، کسی کو زمین میں دھنسایا ، کسی کو قتل اور جلا وطنی میں مبتلا کیا،کسی پر پانی کا طوفان بھیجا اور کسی پر پتھر برسائے اور بیشک آخرت کا جوعذاب ان کے لئے تیار کیا گیا ہے وہ دنیا کے سب عذابوں سے بڑاہے۔ اگر وہ اس بات کو جان لیتے اور تکذیب کرنے کی بجائے ایمان لے آتے تو ان کیلئے بہترہوتا۔(خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ۴ / ۵۴، مدارک، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ص۱۰۳۶، روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ۸ / ۱۰۱، ملتقطاً)
آیت ’’ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔
(1)… غفلت بھی کفار کے عیوب میں سے ایک عیب ہے، یعنی سرکشی کرنا اور انجام سے بے خبر رہنا۔
{وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ: اور بیشک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال بیان فرمائی۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں وہ تمام مثالیں بیان فرمائی ہیں جن کی اپنے دین کے معاملے میں غور کرنے والے کو ضرورت ہے تاکہ وہ (انہیں پڑھ اور سن کر) نصیحت قبول کریں ۔( بیضاوی، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۷، ۵ / ۶۵)
قرآنِ پاک میں سب کی ضرورتوں کا لحاظ رکھا گیاہے:
یادرہے کہ قرآنِ کریم میں دلائل ، مثالیں ، بشارت، ڈرانا ، عشقِ الٰہی اور نعتِ مصطفٰی سب ہی مذکور ہیں کیونکہ قرآنِ پاک ساری دنیا کے لئے آیا ہے اورہر جگہ اور علاقے کے لوگوں کی طبیعتیں مختلف ہیں ،ان میں سے کوئی دلائل سے مانتا ہے، کوئی خوف سے، کوئی لالچ سے، کوئی عشق و محبت سے،اس لئے قرآنِ پاک میں سب کی ضرورتوں کا لحاظ رکھا گیاہے۔
{قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا: عربی زبان کا قرآن۔} یعنی اس قرآن کی زبان عربی ہے اور یہ ایسا فصیح ہے کہ جس نے فصاحت و بلاغت کے ماہرترین افراد کو بھی اپنی مثل بنا لانے سے عاجز کردیا اور یہ آیات کے باہمی ٹکراؤ اور اختلاف سے پاک ہے اور اس لئے نازل ہوا تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور کفر وتکذیب سے باز آئیں ۔( خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۵۴)
قرآنِ پاک کی یہی شان بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’قُلْ لَّىٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۸۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو۔
اور فرماتا ہے:
’’ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَؕ-وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا‘‘(النساء:۸۲)
{ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا: اللہ ایک مثال بیان فرماتا ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان فرما کر مومن اور کافر میں فرق بیان فرمایا ہے ۔اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے سامنے ایک مثال بیان فرمائیں اور ان سے دریافت فرمائیں کہ تم اس مرد کے بارے میں کیا کہتے ہوجو کئی بد اَخلاق آقاؤں کا غلام ہو اور وہ آقا آپس میں اختلاف کریں اور ہر ایک دعویٰ کرے کہ یہ مرد میرا غلام ہے،ان میں سے ہر ایک آقا اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور اپنے اپنے کام بتاتا ہے ،وہ غلام حیران اور انتہائی پریشان ہے کہ کس کا حکم بجالائے اور کس طرح اپنے تمام آقاؤں کو راضی کرے اور خود اس غلام کو جب کوئی حاجت و ضرورت درپیش ہو تو کس آقا سے کہے ، اور ا س مرد کے بارے میں کیا کہتے ہوجو ایک ہی آقا کا غلام ہو، وہ اخلاص کے ساتھ اس کی خدمت کرکے اسے راضی کرسکتا ہے اور جب کوئی حاجت پیش آئے تو اسی سے عرض کرسکتا ہے، اس کو کوئی پریشانی پیش نہیں آتی۔ مجھے بتاؤ کہ ان دونوں غلاموں میں سے کس کا حال اچھا ہے (یقینا اسی غلام کا حال اچھا ہے جو صرف ایک آقا کا غلام ہے) تو یہی حال مومن اور کافر کا ہے کہ مومن ایک مالک کا بندہ ہے، اسی کی عبادت کرتا ہے ا س لئے ا س کا حال اچھا ہے جبکہ مشرک جماعت کے غلام کی طرح ہے کہ اس نے بہت سے معبود قرار دے دیئے ہیں ا س لئے ا س کا حال برا ہے۔سب خوبیاں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جو اکیلا ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، بلکہ ان کفار میں اکثر یہ بات نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔(خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۵۵، ملخصاً)
{ اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ: بیشک تمہیں انتقال فرمانا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے۔} اس آیت میں ان کفار کا رد ہے جوسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وفات کا انتظارکیا کرتے تھے، انہیں فرمایا گیا کہ خود مرنے والے ہو کر دوسرے کی موت کا انتظار کرنا حماقت ہے۔( جلالین مع صاوی، الزمر، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۱۷۹۶)
انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی موت ایک آن کے لئے ہوتی ہے:
کفار تو زندگی میں بھی مرے ہوئے ہیں اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی موت ایک آن کے لئے ہوتی ہے پھر اُنہیں حیات عطا فرمائی جاتی ہے۔ اس پر بہت سے شرعی دلائل قائم ہیں ،ان میں سے دو یہاں ذکر کئے جاتے ہیں ۔
(1)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسموں کو کھانا زمین پر حرام فرما دیا ہے،پس اللہ تعالیٰ کا نبی زندہ ہے ،اسے رزق دیا جاتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۲ / ۲۹۱، الحدیث: ۱۶۳۷)
(2)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور ان میں نماز پڑھتے ہیں ۔( مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ثابت البنانی عن انس، ۳ / ۲۱۶، الحدیث: ۳۴۱۲) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
اَنبیا کو بھی اجل آنی ہے
مگر ایسی کہ فقط آنی ہے
پھر اُسی آن کے بعد اُن کی حیات
مثلِ سابق وہی جسمانی ہے
{ثُمَّ اِنَّكُمْ: پھر تم} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! پھر مرنے کے بعد تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس جھگڑو گے۔ اس جھگڑے سے مراد یہ ہے کہ ا نبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اُمت پر حجت قائم کریں گے کہ انہوں نے رسالت کی تبلیغ کی اور دین کی دعوت دینے میں بہت زیادہ کوشش صَرف فرمائی اور کافر بے فائدہ معذرتیں پیش کریں گے ۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے سب لوگوں کاجھگڑنا مراد ہے کہ لوگ دُنْیَوی حقوق کے بارے میں ایک دوسرے سے جھگڑا کریں گے اور ہر ایک اپنا حق طلب کرے گا۔(روح البیان، الزمر، تحت الآیۃ: ۳۱، ۸ / ۱۰۶)
اس آیت سے بندوں کے حقوق کی اہمیت بھی واضح ہوئی ،لہٰذا جس نے کسی کا کوئی حق تَلف کیا ہے اسے چاہئے کہ اپنی زندگی میں ہی اس کا حق ادا کر دے یا اس سے معاف کروا لے ورنہ قیامت کے دن حق کی ادائیگی کرنا پڑی تو وہ بہت بڑی مصیبت میں مبتلا ہو سکتا ہے۔یہاں اس سے متعلق 2اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،چنانچہ
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی کی عزت یا کسی اور چیز پر زیادتی کی ہو تو اسے چاہئے کہ اس دن کے آنے سے پہلے آج ہی معافی حاصل کر لے جس دن درہم و دینار پاس نہ ہوں گے۔اگر ا س کے پاس نیک اعمال ہوئے تو ظلم کے برابر ان میں سے لے لئے جائیں گے اور اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو ظلم کے برابر مظلوم کے گناہ ا س پر ڈال دئیے جائیں گے ۔(بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب من کانت لہ مظلمۃ عند الرجل۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۲۸، الحدیث: ۲۴۴۹)
(2)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ مُفلس و کنگال کون ہے؟ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: ہم میں مُفلس وہ ہے کہ جس کے پاس نہ درہم ہوں نہ سامان ۔ارشاد فرمایا: ’’میری اُمت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزے، زکوٰۃ لے کر آیا اور یوں آیاکہ اِسے گالی دی، اُسے تہمت لگائی، اِس کا مال کھایا، اُس کا خون بہایا، اُسے مارا ۔ اِس کی نیکیوں میں سے کچھ اِس مظلوم کو دے دی جائیں گی اور کچھ اُس مظلوم کو ، پھر اگر اس کے ذمہ حقوق کی ادائیگی سے پہلے اس کی نیکیاں (اس کے پاس سے)ختم ہوجائیں تو ان مظلوموں کی خطائیں لے کر اس ظالم پر ڈال دی جائیں گی، پھر اسے آگ میں پھینک دیا جائے گا۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۴، الحدیث: ۵۹ (۲۵۸۱))
اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کی حق تَلفی کرنے سے محفوظ فرمائے اور جن کے حقوق تَلف ہو گئے تو دنیا کی زندگی میں ہی ان کے حق ادا کر دینے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللّٰهِ: تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ ظالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے شریک ثابت کرے اور اس کے لئے اولاد قرار دے،پھر کہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس کتاب کو جھٹلائے جو اس نے اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل فرمائی ہے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا انکار کرے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف مبعوث فرمایا ہے اورخود ہی سمجھ لو کہ کیا ایسے آدمی کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہونا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تصدیق کرنے سے انکار کرے اور قرآنِ پاک کے اَحکامات کی پیروی کرنے سے منہ موڑے۔ (یقینا جہنم ہی میں اس کا ٹھکانہ ہے۔)( تفسیر طبری، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۲، ۱۱ / ۴، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی صورت:
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی مختلف صورتیں ہیں ،ایک صورت تو یہاں آیت کی تفسیر میں بیان ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا اور اس کے لئے اولاد قرار دینا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا ہے ،اور دوسری صورت بیان کرتے ہوئے علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جھوٹ باندھا جائے،مثلاً یوں کہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس طرح فرمایا ،یا یہ ان کی شریعت ہے ،حالانکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نہ اُس طرح فرمایا ہو اور نہ ہی وہ چیز ان کی شریعت ہو۔ (صاوی، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۱۷۹۷)
لہٰذا جو لوگ اپنی گھڑی ہوئی باتیں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف یا ا ن کی شریعت کی جانب منسوب کرتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں میں شامل ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ا س کی ایک عام مثال یہ ہے کہ کچھ لوگ SMS یا E-MAIL وغیرہ کے ذریعے قرآن پاک اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر کے عوام میں پھیلاتے ہیں اور انہیں عام کرنے کی لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں اور بعض اوقات عام نہ کرنے پر جھوٹی وعیدیں بھی بیان کر دیتے ہیں ۔عوامُ النّاس کو چاہئے کہ آیات و اَحادیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال وغیرہ پر مشتمل اسلامی SMS مُستَنَد علماءِ کرام سے تصدیق کروائے بغیر کسی کو مت بھیجیں ،کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنے کی وعید بہت سخت ہے،جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت مغیرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مجھ پر جھوٹ باندھنا کسی اور پر جھوٹ باندھنے کی طرح نہیں ہے،جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے گا تو اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب ما یکرہ من النّیاحۃ علی المیّت، ۱ / ۴۳۷، الحدیث: ۱۲۹۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف کوئی بھی جھوٹی بات منسوب کرنے سے بچنے کی توفیق عطافرمائے، اٰمین۔
{وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے۔} اس آیت میں صِدق سے کیا مراد ہے اوراسے لانے والے اور ا س صِدق کی تصدیق کرنے والے سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، ان میں سے 5قول درج ذیل ہیں ،
(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’صدق سے مراد اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت ہے اور اسے لے کر تشریف لانے والے سے مراد رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی ہیں کہ اسے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مخلوق تک پہنچایا۔
(2)… صدق سے مراد قرآنِ پاک ہے،اسے لانے والے جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ۔
(3) …حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور مفسرین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ سچ لے کر تشریف لانے والے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور ا س کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں۔
(4)… سچ لے کر تشریف لانے والے سے مراد حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور تصدیق کرنے والے سے تمام مومنین مراد ہیں ۔
(5)… سچ لے کر تشریف لانے والے اور تصدیق کرنے والے سے ایک پوری جماعت مراد ہے،تشریف لانے والے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور تصدیق کرنے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی۔( خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴ / ۵۵-۵۶، تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۹ / ۴۵۲، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۱۰۳۸، ملتقطاً)
{اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ: یہی پرہیز گار ہیں ۔} یعنی وہ لوگ جن کے یہ اَوصاف ہیں (جو اوپر بیان ہوئے) یہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کر کے،بتوں سے بیزاری ظاہر کر کے، اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی اور اس کی نافرمانی سے اِجتناب کر کے ا س کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں ۔(تفسیر طبری، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۱۱ / ۶)
{لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ: ان کیلئے ان کے رب کے پاس ہر وہ چیز ہوگی جو یہ چاہیں گے۔} اس آیت میں متقی لوگوں کے اُخروی انعامات کو بیان کیا گیا ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان متقی لوگوں کے لئے دنیا میں اچھے اعمال کرنے کے بدلے آخرت میں ہر وہ نفع ہے جو و ہ چاہیں گے اور وہ ہر طرح کے نقصان سے محفوظ رہیں گے، نیک بندوں کا یہی صلہ ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے مُقَرّب بندوں کو ملنے والی قدرت اور اختیار:
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض مقرب بندے ایسے ہیں جنہیں دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ یہ قدرت و اختیار دیتا ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں وہ ہوجاتا ہے جیسے صحیح بخاری کی حدیث ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں بتا دوں کہ جنتی کون ہیں ؟ ہر وہ کمزور اور گمنام آدمی کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اسے سچا کر دے۔(بخاری، کتاب الادب، باب الکبر، ۴ / ۱۱۸، الحدیث: ۶۰۷۱)
اور صحیح مسلم میں ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جن کے بال پَراگَندہ ہیں ،اورلوگ انہیں اپنے دروازوں سے دھتکار دیتے ہیں (لیکن ان کا مقام یہ ہوتا ہے کہ) اگر وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو سچا کر دیتا ہے۔( مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب فضل الضّعفاء والخاملین، ص۱۴۱۲، الحدیث: ۱۳۸(۲۶۲۲))
یہاں ایک بڑی دلچسپ بات ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ اگر اولیاء رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کیلئے یہ فضیلت ثابت کریں کہ وہ جو چاہیں ہوجاتا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم نے انہیں خدا بنا دیا، یا یہ تو خدا بنانے والی بات ہوگئی۔ ایسے لوگوں سے سوال ہے کہ جنت میں تو ہر جنتی کو یہ فضیلت حاصل ہوگی تو کیا جنت میں تمام لوگ خدا بن جائیں گے؟ یا اِس آیت میں جو فضیلت بیان کی گئی ہے وہ بندوں کو جنت میں خدا بن جانے کی بشارت سنا رہی ہے۔ مَعَاذَاللہ، اصل یہ ہے کہ سب کچھ دنیامیں اولیاء کے لئے ثابت کیا جائے یا آخرت میں جنت میں ہر جنتی کیلئے وہ بہرحال اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہوگا لہٰذا یہاں شرک کا تَصَوُّر بھی نہیں کیا جاسکتا اور جو لوگ ایسی چیزوں کو شرک کہتے ہیں وہ حقیقت میں نہ تو شرک کا مطلب جانتے ہیں اور نہ ہی خدا کی عظمت کو سمجھتے ہیں ۔
{اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ: کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ؟} اس آیت میں ’’بندے‘‘ سے مراد سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں جیسے وہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جن کے ساتھ ان کی قوموں نے ایذا رسانی کے ارادے کئے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا اور ان کی کفایت فرمائی،جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو غرق ہونے سے محفوظ رکھا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں سلامت رکھا،تو اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب اللہ تعالیٰ آپ سے پہلے رسولوں کو کافی رہا تو آپ کے لئے کیوں کافی نہ ہو گا، یقیناً جس طرح اللہ تعالیٰ آپ سے پہلے رسولوں کوکافی تھا اسی طرح آپ کو بھی کافی ہے۔
{وَ یُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ: اور وہ تمہیں اللہ کے سوا دوسروں سے ڈراتے ہیں ۔} شانِ نزول:بعض مفسرین نے فرمایا کہ کفارِ عرب نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوبتوں سے ڈرانا چاہا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کہ آپ ہمارے معبودوں یعنی بتوں کی برائی بیان کرنے سے باز آئیے ورنہ وہ آپ کو اس طرح نقصان پہنچائیں گے کہ ہلاک کردیں گے یا عقل کو فاسد کردیں گے۔ (خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۶، ۴ / ۵۶) اس پر یہ آیت نازل ہوئی، اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جیسا کہ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ عُزّیٰ بت کی طرف گئے تاکہ اسے کلہاڑے کے ذریعے توڑ دیں ،جب اس کے قریب پہنچے تو اس کے خدمتگار نے کہا ’’اے خالد بن ولید! اس بت سے ڈرو کیونکہ یہ بڑی قوت والا ہے اور اس کے سامنے کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی۔حضرت خالدبن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی پرواہ کئے بغیر کلہاڑے سے عُزّیٰ بت کی ناک توڑ دی اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔حضرت خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو ڈرانا گویا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ڈرانا ہے کیونکہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے ہی یہ کام کیا تھا اس لئے آیت میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا گیا کہ وہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے ڈراتے ہیں ۔(قرطبی، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۶، ۸ / ۱۸۸، الجزء الخامس عشر)
آیت کے اس حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفار کی حماقت کا یہ حال ہے کہ وہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے بنائے ہوئے جھوٹے معبودوں سے ڈراتے ہیں حالانکہ ان کے بناوٹی معبود خود بے جان اور بے بس ہیں اور اگر بالفرض انہیں کوئی قدرت حاصل بھی ہوتی تو وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں عاجز ہی رہتے اور جب حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کافی ہے تو ان کا اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے معبودوں سے ڈرانا باطل اور بے کار ہے ۔
{وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ: اور جسے اللہ گمراہ کرے اس کیلئے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ باتیں اسی وقت فائدہ مند ہیں جب بندے کو ہدایت اور توفیق حاصل ہو اوراصل بات یہ ہے کہ جس کی بد عملیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس میں گمراہی پیدا فرما دے تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے اللہ تعالیٰ ہدایت یعنی ایمان کا نور دے تواسے کوئی بہکانے والا نہیں ۔مزید فرمایا کہ کیا اللہ تعالیٰ سب پر غالب اور بدلہ لینے والا نہیں ؟ کیوں نہیں ؟یقیناً ہے توجب اللہ تعالیٰ ہی غالب ہے اور بتوں کا عاجز و بے بس ہونابھی ظاہر ہے تو پھر کافروں کا بتوں سے ڈرانا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔
{وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ: اور اگر تم ان سے پوچھو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو مشرکین آپ کو اپنے باطل معبودوں سے ڈرا نا چاہ رہے ہیں آپ اگر ان سے پوچھیں کہ’’آسمان اور زمین کس نے بنائے؟ تو وہ ضرور کہیں گے : اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں ،یعنی یہ مشرکین قادر اور علم و حکمت والے خداکی ہستی اور اس کی کامل قدرت کااقرار کرتے ہیں اور ویسے بھی یہ بات تمام مخلوق کے نزدیک تسلیم شدہ ہے اور مخلوق کی فطرت اس کی گواہ ہے اور جو شخص آسمان و زمین کے عجائبات اور ان میں پائی جانے والی طرح طرح کی موجودات میں نظر کرے تو اسے یقینی طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ موجودات ایک قادر اور حکیم کی بنائی ہوئی ہیں ۔
یہ فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیتا ہے کہ آپ ان مشرکین پرحجت قائم کیجئے، چنانچہ فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرمادیں :جب تم اللہ تعالیٰ کو خالق اور قادر مانتے ہوتوبھلا بتاؤ کہ جن بتوں کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجتے ہو وہ کچھ بھی قدرت رکھتے ہیں اور کسی کام بھی آسکتے ہیں ؟ اگر اللہ تعالیٰ مجھے کسی طرح کے مرض کی ،یا قحط کی، یا ناداری کی، یا اور کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو کیا وہ بت اس کی بھیجی ہوئی تکلیف کوٹال دیں گے ؟یا اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر صحت کی ،مالداری کی یا کوئی اورمہربانی فرمانا چاہے تو کیا وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں ؟ جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مشرکین سے یہ سوال فرمایا تو وہ لاجواب ہوئے اور خاموش رہ گئے ،اب حجت تمام ہوگئی اور ان کے خاموش اقرار سے ثابت ہوگیا کہ بت محض بے قدرت ہیں ، نہ کوئی نفع پہنچاسکتے ہیں نہ کچھ نقصان، ان کی عبادت کرنا انتہائی جہالت ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ آپ ان سے فرمادیں : (اس سے ثابت ہو گیا کہ) مجھے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور چونکہ تَوَکُّل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں ،اسی لئے میرا بھی اُسی پر بھروسہ ہے اور جس کا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہو وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا ،تم جو مجھے بت جیسی بے قدرت اور بے اختیار چیزوں سے ڈراتے ہو یہ تمہاری انتہائی بے وقوفی اور جہالت ہے۔( روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۸، ۸ / ۱۱۱، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۸، ۴ / ۵۶، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۱۰۳۸-۱۰۳۹، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ پر توکُّل کرنے کی تعلیم :
توکل کا عام فہم معنی یہ ہے کہ ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے اور یاد رہے کہ قرآنِ پاک اور اَحادیثِ مبارکہ میں بیسیوں مقامات پر اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ان میں سے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ‘‘( طلاق:۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔
اورحضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ مُعَظَّم بن جائے تو اسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرے اور جسے یہ بات خوش کرتی ہو کہ وہ سب لوگوں سے زیادہ طاقتور بن جائے تو اسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کیاکرے اور جسے یہ بات اچھی لگے کہ وہ سب لوگوں سے زیادہ غنی ہو جائے تو اسے چاہئے کہ جومال و دولت اس کے ہاتھ میں ہے اِ س سے زیادہ وہ اُس پر یقین رکھے جو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔(مکارم الاخلاق لابن ابی دنیا، باب ما جاء فی مکارم الاخلاق، ص۸، الحدیث: ۵)
اللہ تعالیٰ ہمیں توکل اور یقین کی دولت عطا فرمائے،اٰمین۔
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی قوم کے وہ مشرک جنہوں نے بتوں کو معبود بنا لیا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی بجائے ان بتوں کی عبادت میں مصروف ہیں ، اور آپ کو ان بتوں سے ڈراتے ہیں ، آپ ان سے فرما دیں ’’اے میری قوم!اگر تم نہیں مانتے توتم اپنی جگہ پرکام کیے جاؤ اورمیری عداوت و دشمنی میں تم سے جو جو سازشیں اور حیلے ہوسکیں سب ہی کر گزرو اورمیں اپنا وہ کام کرتا ہوں جس پر مامور ہوں ،میری ذمہ داری دین قائم کرنا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ میر احامی و ناصر اور مددگار ہے اور اسی پر میرا بھروسہ ہے،بس عنقریب تم جان لو گے کہ رسوا کُن عذاب کس پر آتا ہے اور کس پرہمیشہ کا عذاب اترتا ہے؟ چنانچہ غزوہ ِبدر کے دن و ہ مشرکین رسوائی کے عذاب میں مبتلا ہوئے اور آخرت میں جہنم کے دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔( تفسیر طبری، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۹-۴۰، ۱۱ / ۸-۹، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۹-۴۰، ۴ / ۵۶-۵۷، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۹-۴۰، ص۱۰۳۹، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan