Surah Az-Zumar
{اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ: بیشک ہم نے حق کے ساتھ تم پر یہ کتاب لوگوں کی ہدایت کیلئے اتاری۔} تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اہلِ مکہ کے کفر پر اِصرار کرنے کی وجہ سے بہت غم ہوتاتھا ، اس کاا ظہار کرتے ہوئے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا‘‘(کہف:۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ہوسکتا ہے کہ تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کو ختم کردو۔
اور ارشاد فرماتاہے:
’’لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ‘‘(شعراء:۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: (اے حبیب!) کہیں آپ اپنی جان کو ختم نہ کردو اس غم میں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ‘‘(فاطر:۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو حسرتوں کی وجہ سے ان پر تمہاری جان نہ چلی جائے۔
اور جب اللہ تعالیٰ نے مضبوط دلائل،مثالیں اور وعدہ و وعید بیان کر کے مشرکین کا رد کر دیا اوراس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے تو سورہِ زمر کی آیت نمبر41میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے لوگوں کے فائدے اور ان کی ہدایت کے لئے یہ کامل اور عظیم کتاب آپ پر نازل فرمائی ہے اور اسے معجزہ بنا کر نازل کیا ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے، لہٰذا جو ہدایت حاصل کرے تو اس راہ یابی کا نفع وہی پائے گا اور جو گمراہ ہوا تو اس کی گمراہی کا نقصان اور وبال اسی پر پڑے گا ،اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ چارو ناچار انہیں ایمان قبول کرنے پر مجبور کریں بلکہ ایمان قبول کرنا یا نہ کرنا اِن مشرکین کے ذمے ہے ،آپ سے اُن کی کوتاہیوں کا مُؤاخذہ نہ ہوگا۔( تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۹ / ۴۵۵، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۵۷، ملتقطاً)
{اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا: اللہ جانوں کوان کی موت کے وقت وفات دیتا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ جانوں کو ان کی زندگی کی مدت پوری ہو جانے پر روح قبض کر کے وفات دیتا ہے اور جن کی موت کا وقت ابھی تک نہیں آیا انہیں ان کی نیند کی حالت میں ایک قسم کی وفات دیتاہے،پھر جس پر حقیقی موت کا حکم فرمادیتا ہے تو اس کی روح کو اس کے جسم کی طرف واپس نہیں کرتا اور جس کی موت مقدر نہیں فرمائی تو اس کی روح کو موت کے وقت تک کیلئے اس کے جسم کی طرف لوٹادیتا ہے۔بیشک اس میں ضرور ان لوگوں کیلئے نشانیاں ہیں جو سوچیں اور سمجھیں کہ جو اس پر قادر ہے وہ ضرور مُردوں کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ (خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۲، ۴ / ۵۷، ملخصاً)
نیند ایک طرح کی موت ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیند بھی ایک قسم کی موت ہے اورحضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’نیند موت کی بہن ہے۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، ۶ / ۲۹۳، الحدیث: ۸۸۱۶)
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ سوتے وقت اور نیند سے بیدار ہوتے وقت وہ دعائیں پڑھ لیا کریں جن کا درج ذیل دو اَحادیث میں ذکر ہے،
(1)…حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جب حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رات کے وقت اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو اپنی ہتھیلی رخسار کے نیچے رکھ لیتے،پھر کہتے ’’اَللّٰہمَّ بِاِسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیَا‘‘ اے اللہ !میں تیرے نام کے ساتھ سوتا اور جاگتا ہوں ۔‘‘ اور جب بیدار ہوتے تو یوں (دعا) فرماتے ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرْ‘‘ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف (ہمیں قیامت کے دن) لوٹنا ہے۔( بخاری، کتاب الدّعوات، باب وضع الید الیمنی تحت الخدّ الایمن، ۴ / ۱۹۲، الحدیث: ۶۳۱۴)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنے بستر سے اٹھے اور پھر واپس جائے تو ا سے اپنے اِزار کے پَلُّو سے تین مرتبہ جھاڑے کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ اس کے بعد بستر پر کیا چیز آئی ہے۔ پھر لیٹتے وقت کہے ’’بِاسْمِکَ رَبِّیْ وَضَعْتُ جَنْبِیْ وَبِکَ اَرْفَعُہُ فَاِنْ اَمْسَکْتَ نَفْسِیْ فَارْحَمْہَا وَاِنْ اَرْسَلْتَہَا فَاحْفَظْہَا بِمَا تَحْفَظُ بِہٖ عِبَادَکَ الصَّالِحِیْنْ‘‘ اے میرے رب!میں نے تیرے نام سے اپنا پہلو رکھا اور تیرے ہی نام سے اٹھاؤں گا۔اگر تو میری جان روک لے تو اس پر رحم فرما اور اگر اسے چھوڑ دے تو اس کی ایسے حفاظت فرما جیسے تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت فرماتا ہے۔‘‘اور جب بیدار ہو تو کہے ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ فِیْ جَسَدِیْ وَرَدَّ عَلَیَّ رُوْحِیْ وَاَذِنَ لِیْ بِذِکْرِہٖ‘‘ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے میرے جسم میں مجھے عافیت دی ،میری روح میری طرف لوٹا دی اور مجھے اپنے ذکر کی اجازت دی۔ (ترمذی، ابواب الدّعوات، ۲۰-باب ، ۹ / ۸۷، الحدیث: ۳۴۰۲، مطبوعہ دار ابن کثیر دمشق، بیروت)
{قُلْ: تم عرض کرو۔} مشرکین کی خراب عقل پر دلالت کرنے والا عجیب و غریب معاملہ بیان کرنے کے بعد اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایک عظیم دعا تعلیم فرمائی ہے ،اس دعا میں پہلے اللہ تعالیٰ کی قدرتِ تامہ کا ذکر ہے اور اس کے بعد کامل علم کا بیان ہے،اس کے بعد فرمایا کہ اس طرح عرض کرو’’ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، مشرکین کی توحید سے نفرت اور شرک سنتے وقت کی خوشی معروف ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس پر ا تنے مضبوطی سے قائم ہیں کہ تیرے سوا کوئی بھی ان کے فاسد عقیدے اور باطل مذہب کو زائل نہیں کر سکتا۔( تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۶، ۹ / ۴۵۷)
دعا قبول ہونے کے لئے پڑھی جانے والی آیت:
زیرِ تفسیر آیت کے بارے میں حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے کہ یہ آیت پڑھ کر جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ (مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۱۰۴۱) لہٰذا جب بھی کوئی دعا مانگیں تو اُس سے پہلے مذکورہ بالا آیت پڑھ لیں اِنْ شَآءَاللہ دعا قبول ہو گی۔
{وَ لَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا: اور اگر ظالموں کی ملک میں ہوتا۔} مشرکین کے باطل مذہب کو بیان کرنے کے بعد اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تین وعیدیں بیان فرمائی ہیں ۔
پہلی وعید: اگر بالفرض کافر پوری دنیا کے اَموال اور ذخائر کے مالک ہوتے اور اتنا ہی اور بھی ان کے مِلک میں ہوتا توقیامت کے دن بڑے عذاب سے چھٹکارے کے عِوَض وہ سب کا سب دیدیتے تا کہ کسی طرح یہ اَموال دے کر انہیں اِس عذاب ِعظیم سے رہائی مل جائے لیکن وہ قبول نہ کیا جائے گا۔
دوسری وعید: بروزِ قیامت ان کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ ظاہر ہوگا جس کا انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اس کامعنی یہ ہے کہ ان کے لئے ایسے ایسے شدید عذاب ظاہر ہوں گے جن کا انہیں خیال بھی نہ تھا ۔
تیسری وعید:اُن پر ان کے برے اعمال کے آثار ظاہر ہو جائیں گئے جو انہوں نے دنیا میں کئے تھے جیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا اور اس کے دوستوں پر ظلم کرنا وغیرہ اور نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خبر دینے پر وہ جس عذاب کامذاق اڑایاکرتے تھے وہ نازل ہوجائے گااور مشرکین کو گھیرلے گا۔( تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ:۴۷-۴۸،۹ / ۴۵۸، خازن، الزّمر،تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ۴ / ۵۸، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ۸ / ۱۲۰-۱۲۱، ملتقطاً)
{وَ بَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مَا لَمْ یَكُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ: اور ان کیلئے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوگا جس کا انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔} اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مشرکین گمان کرتے ہوں گے کہ اُن کے پاس نیکیاں ہیں لیکن جب نامہ ِاعمال کھلیں گے تو بدیاں ظاہر ہوں گی۔ (مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۱۰۴۱)
نیک اعمال کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا چاہئے:
یاد رہے کہ اس آیت میں اگرچہ مشرکین کے لئے وعید کا بیان ہے لیکن اس میں مسلمانوں کے لئے بھی عبرت اور نصیحت ہے اور انہیں بھی چاہئے کہ نیک اعمال کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہیں ۔ہمارے بزرگانِ دین اس حوالے سے کس قدر خوفزدہ رہا کرتے تھے اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت محمد بن منکدر رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ گریہ و زاری کرنے لگے ۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا’’میرے پیش ِنظرقرآنِ پاک کی ایک آیت ہے جس کی وجہ سے میں بہت خوفزدہ ہوں ،پھر آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یہی آیت تلاوت کی اور فرمایا’’ مجھے اس بات کا خوف ہے کہ جنہیں میں نیکیاں شمار کر رہا ہوں کہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لئے بدیاں بن کر نہ ظاہر ہو جائیں ۔ (مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۱۰۴۱)
اللہ تعالیٰ ہمارے نیک اعمال کو محفوظ فرمائے اور ان کے بارے میں اپنی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا: پھر جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے۔} یعنی یوں تو مشرک اپنے معبودوں کے ذکر سے مسرور ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے منہ بگاڑتا ہے لیکن جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ا س وقت ہمیں پکارتا ہے اور ہم سے مدد طلب کرتا ہے، پھر جب ہم اپنے فضل سے اس کی تکلیف دور کر دیں اور اسے اپنے پاس سے کوئی نعمت عطا فرمادیں تو وہ اس راحت و نعمت کو ہماری طرف منسوب کرنے کی بجائے یوں کہتا ہے کہ میں معاش کا جو علم رکھتا ہوں اس کے ذریعے سے میں نے یہ دولت کمائی ہے،حالانکہ ایسا نہیں بلکہ یہ راحت اور نعمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور امتحان ہے جس کے ذریعے دیکھا جاتا ہے کہ بندہ اس کے ملنے پر شکر کرتا ہے یا ناشکری، لیکن ان میں اکثر لوگ جانتے نہیں کہ یہ نعمت اورعطا اِستدراج اور امتحان ہے۔(روح البیان،الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۹، ۸ / ۱۲۱-۱۲۲، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۰۴۱، جلالین، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۳۸۹، ملتقطاً)
مصیبت اور راحت کے وقت مشرکوں کی عملی حالت کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنی حالت پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہم بھی مصیبت میں خدا کو یاد کرنے اور خوشی کے وقت بھلادینے کے مرض میں مبتلا تو نہیں ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو یہ چاہے کہ مصیبتوں کے وقت اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرے تو وہ آرام کے زمانہ میں دعائیں زیادہ مانگا کرے ۔( ترمذی، کتاب الدّعوات، باب ما جاء انّ دعوۃ المسلم مستجابۃ، ۵ / ۲۴۸، الحدیث: ۳۳۹۳)
اللہ تعالیٰ ہمیں راحت و تکلیف ہر حال میں اپنا ذکر اور اپنی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
نعمت آزمائش اور امتحان بھی ہو سکتی ہے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے عطا ہونے والی کوئی نعمت آزمائش بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی معلوم ہو اکہ دنیا کی نعمتیں پانے والوں کی ایک تعداد ایسی ہے جو نعمتوں کے آزمائش ہونے اور اس کا انجام برا ہونے کو نہیں جانتی اور نعمتوں پر تکبر اور غرور کرنے کی وجہ سے ان کے دل سخت ہو چکے ہیں ،غفلت ان پر غالب آ چکی ہے ،وہ ان نعمتوں پر مطمئن ہو گئے ہیں اور اپنے مالک و مولیٰ اور آخرت کو بھول چکے ہیں ۔اگر غور کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں بطورِ خاص مالدار اور منصب دار طبقے کی ایک تعداد ایسی نظر آئے گی جن کے پاس نعمتوں کی بہتات ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ تکبر و غرور کا نشہ ان کے سر سے نہیں اترتا،دل ایسے سخت ہو چکے ہیں کہ انسان کو انسا ن سمجھنا بھی انہیں ناگوار گزرتا ہے ،غفلت ایسی غالب ہے کہ انہیں فرض نمازوں اور ان کی رکعتوں کی تعداد تک یاد نہیں ،نعمتوں پر مطمئن ایسے ہیں جیسے یہ ہمیشہ ان کے پاس ہی رہیں گی اور یہ بات ان کے خیال میں بھی نہیں آتی کہ ایک دن انہیں ضرور مرنا ہے،قبر میں مُنکَر نکیر کے سوالات کے جوابات دینے ہیں اور قیامت کے دن ایک ایک نعمت کا اور ہر ہر عمل کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں
حساب دینا ہے ۔ اے کاش!ان کی سمجھ میں یہ بات ا ٓجائے کہ دنیا کی سب نعمتیں عارضی اور فانی ہیں اور دنیا میں نعمتیں دے کر انہیں آزمایا بھی جا سکتا ہے اس لئے ان نعمتوں پر تکبر و غرور کرنے اور ان پر مطمئن ہونے کی بجائے آخرت میں ملنے والی دائمی نعمتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل ِسلیم عطا فرمائے،اٰمین۔
{قَدْ قَالَهَا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: ان سے پہلوں نے بھی ایسے ہی بات کہی تھی۔} یعنی کفارِ مکہ سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں انہوں نے بھی یہ بات کہی تھی کہ ’’ یہ نعمت تو ہمیں ایک علم کی بدولت ملی ہے۔مفسرین فرماتے ہیں ’’پہلوں سے مراد قارون اور ا س کی قوم ہے۔قارون نے یہ کہا تھا کہ یہ (خزانہ) تو مجھے ایک علم کی بنا پرملا ہے جو میرے پاس ہے، اور قارون کی قوم چونکہ اس کی اس بے ہودہ گوئی پر راضی رہی تھی اس لئے وہ بھی کہنے والوں میں شمار ہوئی۔
بعض مفسرین فرماتے ہیں ’’ ممکن ہے کہ قارون کے علاوہ سابقہ امتوں میں سے اور لوگوں نے بھی ایساکہا ہو۔(تفسیر طبری، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۰، ۱۱ / ۱۳، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۰، ۸ / ۱۲۲، ملتقطاً)
{فَاَصَابَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا: تو اُن کے کمائے ہوئے اعمال کی برائیاں انہیں پہنچیں ۔} یعنی پہلے لوگوں نے جو برے اعمال کئے تھے،اُن کی سزائیں انہیں پہنچیں اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے ہم عصر وہ لوگ جو شرک کر کے اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہیں عنقریب پہلوں کی طرح ان پر بھی ان کے کفر اور گناہوں کی سزائیں آپڑیں گی اور وہ اپنے برے اعمال اور اخلاق کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کرسکتے۔ کفارِ مکہ کو ان کے اعمال کی سزائیں ملیں ، چنانچہ ان پر قحط کی مصیبت آئی اور وہ سات برس تک قحط کی مصیبت میں مبتلا رکھے گئے اور غزوۂ بدر کے دن ان کے بڑے بڑے سردار قتل کر دئیے گئے۔ (روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۱، ۸ / ۱۲۲، ملخصاً)
{اَوَ لَمْ یَعْلَمُوْا: کیا انہیں معلوم نہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جن لوگوں کی ہم نے تکلیف دور کر دی اور وہ ہمارا احسان ماننے کی بجائے کہنے لگے کہ یہ نعمتیں تو ہمیں ہمارے علم کی بنا پر ملی ہیں ،کیا وہ جانتے نہیں کہ تکلیف اور راحت،وسعت ،تنگی اور مصیبت اللہ تعالیٰ کے دست ِقدرت میں ہے اور ا س کے علاوہ اور کوئی یہ قدرت نہیں رکھتا،کیا وہ جانتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دے اور جس کے لئے چاہے تنگ کر دے ۔بے شک یہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی حجتیں ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعے عبرت اور نصیحت حاصل کریں اور بے شک رزق کی وسعت اور تنگی میں ایمان والوں کے لیے اس بات پر ضرور دلائل ہیں کہ رزق وسیع اور تنگ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے تو جو شخص ان نشانیوں کو دیکھ لے گا اور دلائل کو سمجھ لے گا تووہ نعمت ملنے کو اپنے علم اور کوشش کی طرف منسوب نہیں کرے گا بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کا ہی فضل و کرم اور ا س کی عطا قرار دے گا۔
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اپنی کامل رحمت،فضل اور احسان کا بیان فرمایا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’اے میرے وہ بندو! جنہوں نے کفر اور گناہوں میں مبتلا ہو کر اپنی جانوں پر زیادتی کی، تم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا اور یہ خیال نہ کرناکہ ایمان قبو ل کر لینے کے بعد سابقہ کفر و شرک پر تمہارا مُؤاخذہ ہو گا، بیشک اللہ تعالیٰ اُس کے سب گناہ بخش دیتا ہے جو اپنے کفر سے باز آئے اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لے ،بیشک وہی گناہوں پر پردہ ڈال کربخشنے والا اور مصیبتوں کو دور کر کے مہربانی فرمانے والا ہے۔ (تفسیرکبیر، الزّمر،تحت الآیۃ:۵۳، ۹ / ۴۶۳-۴۶۴، جلالین مع جمل، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۳، ۶ / ۴۳۹-۴۴۰، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۱۰۴۳، ملتقطاً)
اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں متعدد روایات ہیں ،ان میں سے ایک یہ ہے ،حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’مشرکوں کے کچھ آدمیوں نے بارہا قتل و زِنا کا اِرتکاب کیا تھا،یہ لوگ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں وہ باتیں تو بہت اچھی ہیں لیکن ہمیں یہ تو معلوم ہو جائے کہ کیا ہمارے اتنے سارے گناہوں کا کفارہ ہو سکتا ہے؟اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ’’وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ‘‘(فرقان:۶۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام فرمایا ہے اور بدکاری نہیں کرتے۔
اور یہ آیت نازل ہوئی:
’’قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسہم... الخ، ۳ / ۳۱۴، الحدیث: ۴۸۱۰)
گناہگاروں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے:
اس آیت سے معلوم ہو ا کہ بندے سے اگرچہ بڑے بڑے اور بے شمار گناہ صادر ہوئے ہوں لیکن اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے انتہا وسیع ہے اور ا س کی بارگاہ میں توبہ کی قبولیت کا دروازہ تب تک کھلا ہے جب تک بندہ اپنی موت کے وقت غَرغَرہ کی حالت کو نہیں پہنچ جاتا ،اس وقت سے پہلے پہلے بندہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحمت سے اس کی توبہ قبول کرتے ہوئے اس کے سب گناہ معاف فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کی تو کیا بات ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اے انسان !جب تک تو مجھ سے دعا کرتا اور امید رکھتا رہے گا میں تیرے گناہ بخشتا رہوں گا، چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں مجھے کوئی پروا نہیں ۔اے انسان!اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں ،پھر تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا مجھے کوئی پروا نہیں ۔اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ بھی میرے پاس لے کر آئے لیکن تو نے شرک نہ کیا ہو تو میں تمہیں اس کے برابر بخش دوں گا۔ (ترمذی، کتاب الدّعوات، باب فی فضل التوبۃ والاستغفار... الخ، ۵ / ۳۱۸، الحدیث: ۳۵۵۱)
اس آیت کا مفہوم مزید وضاحت سے سمجھنے کیلئے امام غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہ کلام ملاحظہ فرمائیں : جوشخص سرتا پا گناہوں میں ڈوبا ہوا ہو، جب اس کے دل میں تو بہ کا خیال پیدا ہو تو شیطان اس سے کہتا ہے کہ تمہاری تو بہ کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ وہ (یہ کہہ کر) اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کردیتا ہے، تو اس صورت میں ضروری ہے کہ مایوسی کو دور کرکے امید رکھے اور اس بات کو یاد کرے کہ اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخشنے والا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ کریم ہے جو بندوں کی تو بہ قبول کرتاہے، نیز تو بہ ایسی عبادت ہے جو گناہوں کو مٹادیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ‘‘(زمر:۵۳،۵۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ :اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ،بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو۔
تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف رجوع (یعنی توبہ) کرنے کا حکم دیا۔
اور ارشاد فرمایا: ’’ وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى ‘‘(طہ:۸۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک میں اس آدمی کو بہت بخشنے والا ہوں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر ہدایت پر رہا۔
تو جب تو بہ کے ساتھ مغفرت کی توقُّع ہوتو ایسا شخص امید کرنے والا ہے اور اگر گناہ پر اِصرار کے باوجود مغفرت کی تو قع ہو تو یہ شخص دھو کے میں ہے جیسے ایک شخص بازار میں ہو اور اس پر جمعہ کی نماز کا وقت تنگ ہوجائے، اب اس کے دل میں خیال آئے کہ وہ نمازِ جمعہ کے لئے جائے لیکن شیطان اس سے کہتا ہے کہ تم جمعہ کی نماز نہیں پاسکتے لہٰذا یہاں ہی ٹھہرو،لیکن وہ شیطان کو جھٹلا تے ہوئے دوڑ جاتا ہے اور اسے امید ہے کہ نمازِ جمعہ پالے گا تو یہ شخص امید رکھنے والا ہے اور اگر وہ شخص کاروبار میں مصروف رہے اور یہ امید رکھے کہ امام میرے یا کسی او ر کے لئے درمیانے وقت تک انتظار کرے گا یا کسی اور وجہ سے منتظر رہے گا جس کا اسے علم نہیں ہے تو یہ شخص دھو کے میں مبتلا ہے۔( احیاء علوم الدّین، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۳)
اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے سچی توبہ کرنے اور اپنی رحمت و مغفرت سے حقیقی امید رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
کسی حال میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں :
یاد رہے کہ اس آیت میں اگرچہ ایک خاص چیز کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونے سے منع فرمایا گیا لیکن عمومی طور پر ہر حوالے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اور نا امید ہونا منع ہے ،لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ زندگی میں آنے والی پے در پے مصیبتوں ،مشکلوں اور دشواریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہر گز مایوس اور نا امید نہ ہو کیونکہ یہ کافروں اور گمراہوں کا وصف اور کبیرہ گناہ ہے ، چنانچہ سورہِ یوسف میں حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول نقل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ‘‘(یوسف:۸۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں ۔
اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول نقل کرتے ہوئے ارشادفرماتا ہے :
’’وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ‘‘(حجر:۵۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے؟
اور کافر شخص کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :
’’لَا یَسْــٴَـمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآءِ الْخَیْرِ٘-وَ اِنْ مَّسَّهُ الشَّرُّ فَیَــٴُـوْسٌ قَنُوْطٌ‘‘(حٰمٓ السجدۃ:۴۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: آدمی بھلائی مانگنے سے نہیں اُکتاتا اور اگرکوئی برائی پہنچے تو بہت ناامید ،بڑا مایوس ہوجاتا ہے۔
اورحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے پوچھا گیا کہ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیرسے بے خوف اوراُس کی رحمت سے مایوس اور ناامید ہونا۔( کنزالعمّال، کتاب الاذکار، قسم الافعال، فصل فی التفسیر، سورۃ النّسائ، ۱ / ۱۶۷، الجزء الثانی، الحدیث: ۴۳۲۲)
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : دو باتوں میں ہلاکت ہے، (1)مایوسی۔ (2)خود پسندی۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان دو باتوں کو جمع فرمایا کیونکہ سعادت کا حصول کوشش،طلب،محنت اور ارادے کے بغیر ناممکن ہے اور مایوس آدمی نہ کوشش کرتا ہے اور نہ ہی طلب کرتا ہے جبکہ خود پسند آدمی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ خوش بخت ہے اور اپنی مراد کے حصول میں کامیاب ہو چکا ہے اس لئے وہ کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے۔(احیاء علوم الدّین، کتاب ذمّ االکبر والعجب، الشطر الثانی من الکتاب فی العجب، بیان ذمّ العجب وآفاتہ، ۳ / ۴۵۲)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ کسی حال میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اورمَصائب و آلام میں اسی کی بارگاہ میں دست ِدعا دراز کرتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی حقیقی طور پر مشکلات کو دور کرنے والا اور آسانیاں عطا فرمانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے مایوس اور ناامید ہو جانے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
{وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ: اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو۔} اس سے پہلی آیت میں بیان فرمایاگیا کہ جو کفر و شرک اور گناہوں سے سچی توبہ کر لے اسے بخش دیا جائے گااور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جلد توبہ کرنے کاحکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے میرے بندو! کفر و شرک اورگناہوں سے سچی توبہ کر کے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف رجوع کرو اور اس وقت سے پہلے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرو کہ تم پر دنیا میں عذاب آجائے ،اگر تم نے توبہ نہ کی تو عذاب سے چھٹکارا پانے میں تمہاری کوئی مدد نہ کی جائے گی۔(تفسیر قرطبی، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۴، ۸ / ۱۹۶، الجزء الخامس عشر، ابن کثیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۴، ۷ / ۹۹، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۴، ۸ / ۱۲۷، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ فقط اللہ تعالیٰ کی رحمت پر بھروسہ کر کے گناہوں میں مصروف رہنا درست نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گناہوں سے سچی توبہ مطلوب ہے اور جو توبہ کرناچھوڑ دے گا تو اس کے لئے بڑی وعید ہے ۔
{وَ اتَّبِعُوْا: اور پیروی کرو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو!اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو، تم وہ کام کرو جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ پاک میں تمہیں حکم دیا ہے اور جس کام سے منع کیا ہے اس سے باز آ جاؤ۔پھر ایسا نہ ہوکہ عذاب دیکھنے کے بعد کوئی جان یہ کہے کہ ہائے افسوس ان کوتاہیوں پر جو میں نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیں کہ اس کی فرمانبرداری نہ کرسکااور اس کے حق کو نہ پہچانا اور اس کی رضا حاصل کرنے کی فکر نہ کی اور بیشک میں تو اللہ تعالیٰ کے دین کا اور ا س کی کتاب کا مذاق اڑانے والوں میں سے تھا۔ یا کوئی جان یہ کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے اپنا دین قبول کرنے اور اپنی فرمانبرداری کی توفیق دیتا تو میں بھی پرہیزگاروں میں سے ہوتا۔یاجب عذاب دیکھے توکوئی جان یہ کہے :اگر مجھے ایک مرتبہ پھردنیا کی طرف لوٹنانصیب ہوتاتو میں نیکیاں کرنے والوں میں سے ہوجاتا۔(تفسیر طبری، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۸، ۱۱ / ۱۸-۲۰، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۸، ۴ / ۶۰-۶۱، ملتقطاً)
{بَلٰى: ہاں کیوں نہیں ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان باطل عذروں کارد کرتے ہوئے گویا کہ ارشاد فرمایا: ’’ہاں کیوں نہیں ! تیرے پاس قرآنِ پاک پہنچا اور حق و باطل کی راہیں تم پر واضح کردی گئیں اور تجھے حق و ہدایت اختیار کرنے کی قدرت بھی دی گئی ، اس کے باوجود تو نے حق کو چھوڑا اور اس کو قبول کرنے سے تکبر کیا ، گمراہی اختیار کی اور جو حکم دیا گیا اس کی ضد و مخالفت کی، تو اب تیرا یہ کہنا غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے راہ دکھاتا تو میں ڈرنے والوں میں سے ہوتا اور تیرے تمام عذرجھوٹے ہیں ۔ (مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۱۰۴۴)
{وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تَرَى الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلَى اللّٰهِ: اور قیامت کے دن تم اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں کو دیکھو گے۔} یعنی قیامت کے دن تم ان لوگوں کو دیکھو گے جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا اور اللہ تعالیٰ کی شان میں ایسی بات کہی جو اس کے لائق نہیں ،اس کے لئے شریک تجویز کئے ،اولاد بتائی اور اس کی صفات کا انکار کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت کے دن ان کے منہ کالے ہوں گے۔ کیاان متکبروں کیلئے جہنم میں ٹھکانہ نہیں ہے جو تکبر کی وجہ سے ایمان نہ لائے؟ یقیناً وہیں ان کا ٹھکانہ ہے۔(مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۱۰۴۴، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۰، ۴ / ۶۱، ملتقطاً)
{وَ یُنَجِّی اللّٰهُ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا: اور اللہ پرہیزگاروں کو نجات دے گا۔} اس سے پہلی آیت میں جھٹلانے والوں کا اُخروی حال بیان ہوا اور اس آیت میں پرہیزگار مسلمانوں کا اُخروی حال بیان کیا جا رہا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ شرک اور گناہوں سے بچنے والوں کو نجات کی جگہ جنت میں بھیج کر تکبر کرنے والوں کے ٹھکانے جہنم سے بچا لے گا اور ان کا حال یہ ہو گا کہ نہ ان کے جسموں کو عذاب چھوئے گا اور نہ ان کے دلوں کو غم پہنچے گا۔(روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۱، ۸ / ۱۳۰-۱۳۱، ملتقطاً)
جہنم کے عذاب سے نجات کا سبب اور تقویٰ کے فضائل:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ دنیا میں پرہیز گاری اختیار کرنا یعنی کفر و شرک اور گناہوں سے بچناقیامت کے دن جہنم کے عذاب سے نجات پانے کا بہت بڑا سبب ہے ۔اسی سے متعلق ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌؕ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۱۰۳)
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیزگاری اختیارکرتے تو اللہ کے یہاں کا ثواب بہت اچھا ہے، اگر یہ جانتے۔
اور ارشاد فرماتا ہے :
’’مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَؕ-تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ-اُكُلُهَا دَآىٕمٌ وَّ ظِلُّهَاؕ-تِلْكَ عُقْبَى الَّذِیْنَ اتَّقَوْا ﳓ وَّ عُقْبَى الْكٰفِرِیْنَ النَّارُ‘‘(رعد:۳۵)
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں جاری ہیں ،اس کے پھل اور اس کا سایہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔یہ پرہیزگاروں کا انجام ہے اور کافروں کا انجام آ گ ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے : ’’وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ(۷۱) ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا‘‘(مریم:۷۱،۷۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم میں سے ہرایک دوزخ پر سے گزرنے والاہے۔یہ تمہارے رب کے ذمہ پر حتمی فیصلہ کی ہوئی بات ہے۔ پھر ہم ڈر نے والوں کو بچالیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیں گے۔
لہٰذا جو کافر ہے تو اسے چاہئے کہ ایمان لائے اور ہر مومن کو چاہئے کہ وہ گناہوں سے بچے اور نیک اعمال کرے تاکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اسے جہنم کے عذاب سے نجات ملے اور جنت میں داخلہ نصیب ہو۔ ترغیب کے لئے تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے کے 15 فضائل ملاحظہ ہوں :
(1)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت والاوہ ہے جو متقی ہے ۔(حجرات:۱۳)
(2)…اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ ہے ۔(بقرہ:۱۹۴)
(3)…اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کو پسند فرماتا ہے ۔(اٰل عمران:۷۶)
(4)…جنت متقی لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔(اٰل عمران:۱۳۳)
(5)…قیامت کے دن متقی لوگوں کو مہمان بنا کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر کیا جا ئے گا۔(مریم:۸۵)
(6)…متقی لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے پاس نعمتوں والی جنتیں ہیں ۔ (قلم:۳۴)
(7)…اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کا مددگار ہے۔(جاثیہ:۱۹)
(8)…متقی لوگ قیامت کے دن ایک دوسرے کے دوست ہوں گے۔ (زخرف:۶۷)
(9)…متقی لوگ امن والے مقام میں ہوں گے ۔(دخان:۵۱)
(10)…آخرت کا اچھا انجام متقی لوگوں کے لئے ہے۔(ہود:۵۱)
(11)…تقویٰ فضیلت حاصل ہونے کا سبب ہے ۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ: عبد الرحمٰن، ۳ / ۳۲۹، الحدیث: ۴۷۴۹)
(12)…تقویٰ بہترین زادِ راہ ہے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الباب الاول، الفصل الثانی، ۲ / ۴۱، الجزء الثالث، الحدیث: ۵۶۳۲)
(13)…جسے تقویٰ عطا کیا گیا اسے دین ودنیا کی بہترین چیز دی گئی۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الباب الاول، الفصل الثانی، ۲ / ۴۱، الجزء الثالث، الحدیث: ۵۶۳۸)
(14)…تقویٰ آخرت کا شرف ہے۔ (مسند الفردوس، باب الشین، ۲ / ۳۵۸، الحدیث: ۳۶۰۰)
(15)…متقی لوگ سردار ہیں ۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الباب الاول، الفصل الثانی، ۲ / ۴۱، الجزء الثالث، الحدیث: ۵۶۵۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے کرم سے ہمیں جہنم کے عذاب سے بچائے ،اٰمین۔
{اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ: اللہ ہر چیز کا خالق ہے۔} ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں ہونے والی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز میں جیسے چاہے تَصَرُّف فرماتا ہے۔( خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۶۱، جلالین، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۳۸۹)
حاجات پوری ہونے اور مَصائب دور ہونے سے متعلق ایک مفید وظیفہ:
جس شخص کو آندھی،آسمانی بجلی یا کسی اور چیز سے نقصان پہنچنے کا ڈر ہو یا وہ تنگدستی کا شکار ہو تو اسے چاہئے کہ کثرت سے ’’یَا وَکِیْلُ‘‘ پڑھا کرے، اس سے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ حاجتیں پوری ہوں گی،مصیبتیں دور ہوں گی اور پڑھنے والے کے لئے رزق اور بھلائی کے دروازے کھلیں گے ۔( روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۲، ۸ / ۱۳۱، ملخصاً)
{لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ملکیت میں ہیں ۔} یعنی رحمت، رزق اور بارش وغیرہ کے خزانوں کی کنجیاں اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں ، وہی اُن کا مالک ہے ۔روایت ہے کہ حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی تو ارشادفرمایا کہ’’زمین و آسمان کی کنجیاں یہ ہیں : ’’لَااِلٰـہَ اِلَّا اللہ وَاللہ اَکْبَرُ وَسُبحْانَ اللہ وَبِحَمْدِہٖ وَاَسْتَغْفِرُ اللہ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ وَھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَ الظَّاھِرُ وَ الْبَاطِنُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ وَ ھُوَعَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر۔ مراد یہ ہے کہ ان کلمات میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور تمجید ہے، یہ آسمان و زمین کی بھلائیوں کی کنجیاں ہیں ، جس مومن نے یہ کلمات پڑھے تو وہ دونوں جہاں کی بہتری پائے گا۔( جلالین، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۳۸۹، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۱۰۴۵، ملتقطاً)
زمین کے خزانوں کی کنجیاں حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی عطا ہوئی ہیں :
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کے خزانوں کی کنجیاں اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی عطا فرمائی ہیں ،چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ ایک دن تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شہدائے اُحد پر نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے،پھر منبر پر جلوہ افروز ہو کر فرمایا’’میں تمہارا پیش رَو ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں اور بے شک خدا کی قسم! میں اپنے حوض کو اب بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں یا (یہ فرمایا کہ مجھے) زمین کی کنجیاں عطا فرما دی گئی ہیں اور بے شک خدا کی قسم ! مجھے تمہارے متعلق یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم دنیا کی محبت میں پھنس جاؤ گے۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب الصّلاۃ علی الشہید، ۱ / ۴۵۲، الحدیث: ۱۳۴۴)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
اِن کے ہاتھ میں ہر کنجی ہے مالکِ کُل کہلاتے یہ ہیں
{وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ: اور جنہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا۔} یعنی جب ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، وہی ہر چیز پر نگہبان ہے،آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ملکیت میں ہیں اور کفار ان چیزوں کو تسلیم بھی کرتے ہیں تو ان پر لازم تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کو تسلیم کریں ، اس لئے یہاں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و شان کا اقرار کرنے کے باوجود جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور جزا و سزا کے مضمون پر مشتمل آیات کا انکار کیا وہی نقصان اٹھائیں گے کیونکہ انہوں نے ثواب کے مقابلے میں سزا کو اختیار کیا اور کفر و نفاق کی چابی سے اپنے آپ کے لئے عذاب کے دروازے کھول لئے۔
اس آیت سے معلوم ہو اکہ کفار ہی در اصل نقصان اٹھانے والے ہیں اور یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص کافر نہیں اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں سے کچھ حصہ ضرور ملے گا۔(تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۳، ۹ / ۴۷۱)
{قُلْ: تم فرماؤ۔} مشرکین نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کہ آپ ہمارے بعض معبودوں کی عبادت کریں تو ہم آپ کے معبود پر ایمان لے آئیں گے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفارِ قریش سے فرما دیں جو آپ کو اپنے آباؤ اَجداد کے دین یعنی بت پرستی کی طرف بلاتے ہیں کہ اے جاہلو! دلائل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا حق ہونا اور کفر و شرک کا باطل ہونا ثابت ہو جانے کے باوجود کیا مجھے یہ کہتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت کروں ؟انہیں جاہل اس لئے فرمایاگیا کہ اس سے پہلے حقیقی معبود کے یہ اوصاف بیان ہوئے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور آسمان و زمین کے خزانوں کی چابیاں اسی کے پاس ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ بتوں کا تعلق جمادات سے ہے اور وہ کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے اور جو شخص اتنے مقدس اور عظمت والے اوصاف سے مَوصوف معبود کی عبادت سے منہ پھیر کر ان بے جان جسموں کی عبادت میں مشغول ہو تو وہ بہت بڑا جاہل ہے (اور ا س کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کے عَلمبردار کو بھی اس جھوٹی عبادت کی طرف بلانا اس سے بڑی جہالت ہے) اس لئے یہاں انہیں جاہل فرمایا گیا۔( تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۴، ۹ / ۴۷۱-۴۷۲، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۴، ۴ / ۶۲، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۴، ۸ / ۱۳۲، ملتقطاً)
{وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَ اِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ: اور بیشک تمہاری طرف اور تم سے اگلوں کی طرف یہ وحی کی گئی ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک آپ کی طرف اور آپ سے پہلے رسولوں کی طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ اگر بالفرض تم نے اللہ تعالیٰ کا شریک کیا تو ضرور تمہاراہر عمل برباد ہوجائے گا اور ضرور تم خسارہ پانے والوں میں سے ہوجاؤگے ۔
اس آیت میں خطاب اگرچہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن مراد سننے والے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو (اور تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو) شرک سے معصوم فرمایا ہے۔(خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۵، ۴ / ۶۲، جلالین، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۳۹۰، ملتقطاً)
یا اس آیت میں ایک ناممکن چیز کو نا ممکن چیز پر مَوقوف کیا گیا ہے،جیسے اس آیت میں ہے:
’’قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ﳓ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ‘‘(زخرف:۸۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ: (ایک ناممکن بات کو فرض کرکے کہتا ہوں کہ) اگر رحمٰن کے کوئی بیٹاہوتا تو سب سے پہلے میں (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا۔
{وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ: اور انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق تھا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو مشرکین آپ کو بتوں کی پوجا کرنے کی دعوت دے رہے ہیں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ویسی قدر نہ کی جیسی اس کی قدر کرنے کا حق تھا،اسی وجہ سے وہ شرک میں مبتلا ہوئے، اگر وہ عظمت ِالٰہی سے واقف ہوتے اور اس کا مرتبہ پہچانتے تو ایسا کیوں کرتے!اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی عظمت و جلال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ قیامت کے دن ساری زمین اس کے قبضے میں ہوگی اور اس دن کوئی بھی زمین کے کسی حصے پر اپنی ظاہری مِلکیَّت کا دعویٰ نہ کر سکے گااور اس کی قدرت سے تمام آسمان لپیٹے ہوئے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کافروں کے شرک سے پاک اوربلند ہے۔( تفسیر طبری، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۷، ۱۱ / ۲۳-۲۷، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۷، ۸ / ۱۳۴-۱۳۵، ملتقطاً)
{وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ: اور صُور میں پھونک ماری جائے گی۔} آیت کے اس حصے میں پہلی بار صور پھونکنے کا بیان ہے، اس سے جو بے ہوشی طاری ہوگی اس کا یہ اثر ہوگا کہ فرشتوں اور زمین والوں میں سے اس وقت جو لوگ زندہ ہوں گے اوران پر موت نہ آئی ہوگی تو وہ اس سے مرجائیں گے اور وہ بزرگ ہستیاں جنہیں ان کی دُنْیَوی موت کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں زندگی عنایت کی ہوئی ہے اوروہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں جیسے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شہدائ، ان پر اُس نَفخہ سے بے ہوشی کی سی کیفِیَّت طاری ہوگی۔ (جمل، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۶ / ۴۴۷) اور جو لوگ قبروں میں مرے پڑے ہیں انہیں اس نفخہ کا شعور بھی نہ ہوگا۔
{اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ: مگر جسے اللہ چاہے۔} یعنی پہلی مرتبہ صور پھونکنے کے بعد آسمانوں میں اور زمین پر موجود تمام فرشتے اور جاندار مر جائیں گے البتہ جسے اللہ تعالیٰ چاہے گا اُسے اُس وقت موت نہ آئے گی۔ اس اِستثناء میں کون کون داخل ہے اس بارے میں مفسرین کے بہت سے اَقوال ہیں ،ان میں سے4قول درج ذیل ہیں :
پہلا قول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ بے ہوشی کے نَفخہ سے حضرت جبریل، حضرت میکائیل ،حضرت اسرافیل اور حضرت مَلکُ الموت عَلَیْہِمُ السَّلَام کے علاوہ تمام آسمان اور زمین والے مرجائیں گے ، پھر اللہ تعالیٰ پہلے اور دوسرے نَفخہ کے درمیان جو چالیس برس کی مدت ہے اس میں اُن فرشتوں کو بھی موت دے گا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ جنہیں پہلے نَفخہ سے موت نہیں آئے گی ان سے مراد شہداء ہیں جن کے لئے قران مجید میں ’’بَلْ اَحْیَآءٌ‘‘ آیا ہے ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ وہ شہداء ہیں جو تلواریں حمائل کئے عرش کے گرد حاضر ہوں گے۔
تیسرا قول :حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اس وقت جنہیں موت نہیں آئے گی وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ، چونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوہِ طور پر بے ہوش ہوچکے ہیں اس لئے پہلی مرتبہ صور پھونکنے سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بے ہوش نہ ہوں گے بلکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیدار اور ہوشیارر ہیں گے ۔
چوتھا قول یہ ہے کہ پہلی بار صور پھونکے جانے کے وقت جنہیں موت نہ آئے گی وہ جنت کی حوریں اور عرش و کرسی کے رہنے والے ہیں ۔حضرت ضحاک رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ مُستَثنیٰ رضوانِ جنت، حوریں ، وہ فرشتے جو جہنم پر مامور ہیں اور جہنم کے سانپ، بچھو ہیں ۔( تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۹ / ۴۷۶، جمل، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۶ / ۴۴۹-۴۵۰، قرطبی، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۸ / ۲۰۴، الجزء الخامس عشر، ملتقطاً)
{ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرٰى: پھر اس میں پھونک ماری جائے گی۔} آیت کے اس حصے میں دوسری بار صور پھونکے جانے کا بیان ہے جس سے مردے زندہ کئے جائیں گے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ پھردوسری مرتبہ صور میں پھونک ماری جائے گی تواسی وقت وہ دیکھتے ہوئے اپنی قبروں سے زندہ ہوکرکھڑے ہوجائیں گے۔
دیکھتے ہوئے کھڑے ہونے سے یا تو یہ مراد ہے کہ وہ حیرت میں آکر مَبہوت شخص کی طرح ہر طرف نگاہیں اُٹھا اُٹھا کر دیکھیں گے یا یہ معنی ہیں کہ وہ یہ دیکھتے ہوں گے کہ اب انہیں کیا معاملہ پیش آئے گا ۔اس وقت مومنین کی قبروں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے سواریاں حاضر کی جائیں گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا‘‘(مریم:۸۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: یاد کرو جس دن ہم پرہیزگاروں کو رحمٰن کی طرف مہمان بناکرلے جائیں گے۔
جبکہ کفار کو پیدل ہی ہانکا جائے گا،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا‘‘(مریم:۸۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسے ہانکیں گے۔( تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۹ / ۴۷۷، جمل، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۶ / ۴۴۹، ملتقطًا)
{وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا: اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے5 اَحوال بیان فرمائے ہیں ،ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
(1)…قیامت کے دن زمین اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے نور سے بہت تیز روشنی کے ساتھ جگمگا اٹھے گی یہاں تک کہ سرخی کی جھلک نمودار ہوگی، اور یہ زمین دنیا کی زمین نہ ہوگی بلکہ نئی ہی زمین ہوگی جسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کے لئے پیدا فرمائے گا، جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ‘‘(ابراہیم:۴۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: یاد کروجس دن زمین کو دوسری زمین سے بدل دیا جائے گا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اس آیت میں جس نور کا ذکر ہے یہ چاند ، سورج کا نور نہ ہوگا بلکہ یہ اور ہی نور ہوگاجسے اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے گا اور اس سے زمین روشن ہوجائے گی۔
(2)… حساب کے لئے اَعمال کی کتاب رکھی جائے گی۔ اِس کتاب سے مراد یا تو لوحِ محفوظ ہے کہ جس میں قیامت تک ہونے والے دنیا کے تمام اَحوال اپنی مکمل تفصیلات کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں یا اس سے ہر شخص کا اعمال نا مہ مراد ہے جو اس کے ہاتھ میں ہوگا،جیساکہ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىٕرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖؕ-وَ نُخْرِ جُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہر انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے میں لگادی ہے اورہم اس کیلئے قیامت کے دن ایک نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔
اور مجرموں کا قول نقل کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا‘‘(کہف:۴۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اس نامہ اعمال کو کیاہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے۔
(3)… انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو لایا جائے گا تاکہ وہ لوگوں پر گواہی دیں ۔ان کے بارے میں ایک اور مقام پر ارشادفرمایا گیا: ’’فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا‘‘(النساء:۴۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بناکر لائیں گے۔
(4)…گواہی دینے والے لائے جائیں گے جو رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تبلیغ کی گواہی دیں گے ۔اس سے متعلق ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ‘‘(البقرہ:۱۴۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔
(5)…قیامت کے دن لوگوں میں سچا فیصلہ فرمادیا جائے گا اور ان کے ثواب میں کمی کر کے یا عذاب میں زیادتی کر کے ان پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔(جمل، الزّمر، تحت الآیۃ:۶۹، ۶ / ۴۵۰-۴۵۱، تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۹، ۹ / ۴۷۷-۴۷۸، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۶۹، ۸ / ۱۴۰، ملتقطاً)
{وَ وُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ: اور ہر جان کو اس کے اعمال کا بھرپور بدلہ دیا جائے گا۔} یعنی قیامت کے دن ہر جان کو اس کے اچھے یا برے تما م اعمال کا بھرپور بدلہ دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ ان اعمال کوخوب جانتا ہے جو لوگ کرتے ہیں ، اس سے کچھ مخفی نہیں اورنہ اسے گواہ اور لکھنے والے کی حاجت ہے بلکہ یہ سب لوگوں پر حجت تمام کرنے کیلئے ہوں گے۔(روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۰، ۸ / ۱۴۰-۱۴۱، جمل، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۰، ۶ / ۴۵۱، ملتقطاً)
گناہ گاروں کے لئے عبرت اور نصیحت:
اس آیت ِمبارکہ میں خاص طور پر ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت اور نصیحت ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور گناہوں میں مصروف ہیں ،انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قیامت کے دن سے زیادہ طویل دن اور کوئی نہیں ،اس دن سے زیادہ ہَولْناک دن اور کوئی نہیں اور اس دن اعمال کا حساب لئے جانے کے مرحلے سے زیادہ خطرناک مرحلہ اور کوئی نہیں ،اس دن کی دہشت ، شدت اور ہَولْناکی بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’فَكَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ۫-وَ وُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ‘‘(اٰل عمران:۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیسی حالت ہوگی جب ہم انہیں اس دن کے لئے اکٹھا کریں گے جس میں کوئی شک نہیں اور ہر جان کو اس کی پوری کمائی دی جائے گی اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔
اور ارشاد فرماتا ہے : ’’فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا یَوْمَىٕذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُؕ-وَ لَا یَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِیْثًا‘‘(سورۃ نساء:۴۱، ۴۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بناکر لائیں گے۔اس دن کفار اور رسول کی نافرمانی کرنے والے تمنا کریں گے کہ کاش انہیں مٹی میں دبا کر زمین برابر کردی جائے اور وہ کوئی بات اللہ سے چھپانہ سکیں گے۔
لہٰذا ا س نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر گناہگار کو چاہئے کہ وہ اپنے گناہوں سے باز آ جائے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے تمام گناہوں سے سچی توبہ کر لے تاکہ قیامت کے دن گناہوں کی سزا سے بچ سکے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے بچنے،سابقہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا: اور کافروں کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔} قیامت کے دن کے چند اَحوال بیان کرنے کے بعد اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا حال بیان کیا ہے جوعذاب میں مبتلا ہوں گے۔ چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کافروں کو سختی کے ساتھ قیدیوں کی طرح جہنم کی طرف ہانکا جائے گا اور ان کی ہر ہر جماعت اور اُمت علیحدہ علیحدہ ہو گی، یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو جہنم کے ساتوں دروازے کھولے جائیں گے جو پہلے سے بند تھے اور جہنم کے داروغہ ڈانٹتے ہوئے ان سے کہیں گے: کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تمہارے سامنے تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں تمہارے اِس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں !بے شک انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف بھی لائے اور اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام بھی سنائے اور اُس دن سے بھی ڈرایا مگر عذاب کا قول کافروں پر ثابت ہوگیا کہ ہم پر ہماری بدنصیبی غالب ہو ئی اور ہم نے گمراہی اختیار کی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق جہنم میں بھرے گئے۔ان کافروں سے کہاجائے گا:تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ اور تم ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہو گے اور کسی طرح اس سے نکل نہ سکو گے۔ (اے لوگو! دیکھ لو کہ) ایمان اور اطاعت سے تکبر کرنے والوں کاکیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔(تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ۹ / ۴۷۸، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ۴ / ۶۳، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ص۱۰۴۷، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ۸ / ۱۴۲-۱۴۳، ملتقطاً)
{وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا: اور اپنے رب سے ڈرنے والوں کو گروہ درگروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا۔} اس سے پہلے عذاب پانے والوں کا حال بیان کیا گیا اور اب اس آیت سے ثواب پانے والوں کے احوال بیا ن کئے جا رہے ہیں ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے والوں کو عزت و احترام اور لطف و کرم کے ساتھ سواریوں پر گروہ درگروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اُن کی عزت و احترام کے لئے جنت کے دروازے پہلے سے ہی کھلے ہوئے ہوں گے اورجنت کے دروازے آٹھ ہیں ۔
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے کہ جنت کے دروازے کے قریب ایک درخت ہے، اس کے نیچے سے دو چشمے نکلتے ہیں ،مومن وہاں پہنچ کر ایک چشمہ میں غسل کرے گا تواس سے اس کا جسم پاک و صاف ہوجائے گا اور دوسرے چشمہ کا پانی پئے گا تواس سے اس کا باطن پاکیزہ ہوجائے گا،پھر فرشتے جنت کے دروازے پر استقبال کریں گے اور جنت کے خازن ان سے کہیں گے: تم پر سلام ہو،تم پاکیزہ رہے تو ہمیشہ رہنے کوجنت میں جاؤ۔(تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۳، ۹ / ۴۷۹-۴۸۰، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۳، ۴ / ۶۳-۶۴، ملتقطاً)
{وَ قَالُوْا: اور وہ کہیں گے۔} یعنی اہلِ جنت کہیں گے کہ سب خوبیاں اس اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جس نے اپنا جنت کا وعدہ ہم سے سچا کیا اور ہمیں جنت کی زمین کا وارث کیا تاکہ ہم اس میں جیسے چاہیں تَصَرُّف کریں اورہم اپنی جنت میں جہاں چاہیں رہیں ،لہٰذا دنیا میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں کا آخرت میں کیا ہی اچھا اجر ہے۔( خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۴، ۴ / ۶۴، ملخصاً)
{وَ تَرَى الْمَلٰٓىٕكَةَ: اور تم فرشتوں کو دیکھو گے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ فرشتے ہرطرف سے عرش کو گھیرے ہوئے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی تعریف کے ساتھ ا س کی پاکی بیان کررہے ہیں اور قیامت کے دن لوگوں میں سچا فیصلہ فرمادیا جائے گا کہ مومنوں کو جنت میں اور کافروں کو دوزخ میں داخل کر دیا جائے گا اور جنتی لوگ جنت میں داخل ہو کر شکر ادا کرنے کے لئے عرض کریں گے کہ تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جوتمام جہانوں کا پالنے والاہے۔( روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۵، ۸ / ۱۴۷-۱۴۸، خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۷۵، ۴ / ۶۴، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan