READ

Surah at-Tur

اَلطُّوْر
49 Ayaat    مکیۃ


52:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

52:1
وَ الطُّوْرِۙ(۱)
طور کی قسم (ف۲)

{ وَ الطُّوْرِ: طور کی قسم۔} یعنی اس پہاڑکی قسم جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کلامِ الٰہی سننے کا شرف عطا فرمایا۔ (جلالین، الطور، تحت الآیۃ: ۱، ص۴۳۵)

            اس پہاڑ کویہ عظمت اس لئے حاصل ہوئی کہ وہاں  کلامِ الٰہی سنا گیا اوراسے اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبت حاصل ہے ،اس سے معلوم ہوا کہ جس پتھر اور پہاڑ کو اللہ تعالیٰ کے نبی سے نسبت ہو جائے وہ بھی عظمت والا ہو جاتا ہے۔

{ وَ كِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ: اور لکھی ہوئی کتاب کی قسم۔} لکھی ہوئی کتاب کے مِصداق کے بارے میں  مفسرین کے مختلف قول ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ اس کتاب سے مراد، توریت ہے۔ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد لوحِ محفوظ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے اعمال لکھنے والے فرشتوں  کے دفتر مراد ہیں  اوراس کی نظیریہ آیت ِمبارکہ ہے: ’’وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىٕرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖؕ-وَ نُخْرِ جُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہر انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے میں  لگادی ہے اورہم اس کیلئے قیامت کے دن ایک نامہ اعمال نکالیں  گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔

             اور ایک قول یہ ہے کہ لکھی ہوئی کتاب سے مراد قرآنِ پاک ہے۔(خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۱۸۶، روح البیان، الطور، تحت الآیۃ: ۲، ۹ / ۱۸۵، ملتقطاً)

{ وَ الْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ: اور بیت ِمعمورکی قسم۔} بیتُ المعمور ساتویں  آسمان میں  عرش کے سامنے کعبہ شریف کے بالکل اوپرہے ۔آسمانوں  میں  اس کی حرمت ایسے ہی ہے جیسے زمین پر کعبہ مُعَظَّمہ کی حرمت ہے۔یہ آسمان والوں  کا قبلہ ہے اورہر روز ستر ہزار فرشتے اس میں  طواف اور نماز کے لئے حاضر ہوتے ہیں  ، پھر کبھی انہیں  واپس یہاں  آنے کا موقع نہیں  ملتا بلکہ ہر روز نئے ستر ہزار فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔( خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۱۸۶)

حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بیتُ المعمور کو ملاحظہ فرمایا:

            حدیث ِمعراج میں  صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے معراج کی رات ساتویں  آسمان میں  بیتُ المعمور کو ملاحظہ فرمایا تھا،چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں  ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پھر میرے لئے بیتُ المعمور ظاہر فرمایا گیا ،میں  نے جبریل عَلَیْہِ السَّلَام سے پوچھا تو انہوں  نے جواب دیا :یہ بیتُ المعمور ہے،اس میں  روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں  ،جب وہ پڑھ کر نکل جاتے ہیں  تو ان کی پھر کبھی باری نہیں  آتی۔( بخاری،کتاب بدء الخلق،باب ذکر الملائکۃ،۲ / ۳۸۰،الحدیث: ۳۲۰۷، مسلم، کتاب الایمان، باب الاسراء برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم السموات۔۔۔ الخ، ص۱۰۱، الحدیث: ۲۶۴(۱۶۴))

{ وَ السَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ: اور بلندکی ہوئی چھت کی قسم۔} اس چھت سے مراد آسمان ہے جو زمین کے لئے چھت کی طرح ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ اس سے مراد عرش ہے جو جنت کی چھت ہے۔(قرطبی، الطور، تحت الآیۃ: ۵، ۹ / ۴۶، الجزء السابع عشر)

{وَ الْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ: اور بھڑکائے جانے والے سمندر کی قسم!}  مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام سمندروں  کو آگ کردے گا جس سے جہنم کی آگ میں  اور بھی زیادتی ہوجائے گی۔( خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۱۸۶)

 

52:2
وَ كِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍۙ(۲)
اور اس نوشتہ کی (ف۳)

52:3
فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍۙ(۳)
جو کھلے دفتر میں لکھا ہے

52:4
وَّ الْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِۙ(۴)
اور بیت معمور (ف۴)

52:5
وَ السَّقْفِ الْمَرْفُوْعِۙ(۵)
اور بلند چھت (ف۵)

52:6
وَ الْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِۙ(۶)
اور سلگائے ہوئے سمندر کی (ف۶)

52:7
اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ(۷)
بیشک تیرے رب کا عذاب ضرور ہونا ہے (ف۷)

{ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ: بیشک تیرے رب کا عذاب۔} اس آیت اور اس کے بعدوالی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تما م چیزوں  کی قَسم فرما کر اپنی قدرت کی عظمت کا اظہار فرمایا اور ارشاد فرمایاکہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کا وہ عذاب جس کا کفار کو وعدہ دیا گیا ہے آخرت میں  ضرور واقع ہونے والا ہے اور کوئی اسے ٹال دینے کی قدرت نہیں  رکھتا۔

حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے اسلام قبول کرنے کا سبب:

             حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، (اسلام قبول کرنے سے پہلے) میں  مدینہ منورہ میں  اس غرض سے حاضر ہوا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بدر کے قیدیوں  کے بارے میں  بات چیت کروں ، اس وقت آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے اور آپ کی تلاوت کی آواز مسجد سے باہر سنائی دے رہی تھی،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سورۂ وَالطُّوْرْ کی تلاوت فرمائی اور جب اس مقام پر پہنچے ’’ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ(۷)مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍ‘‘ تو ان آیات کوسن کر میرا دل ایسے ہو گیا جیسے ابھی پھٹ جائے گا اور مجھے ایسے لگا جیسے ابھی میرے یہاں  سے ہٹنے سے پہلے ہی مجھ پر عذاب نازل ہو جائے گا چنانچہ میں  نے عذاب نازل ہو جانے کے خوف سے اسی وقت ایمان قبول کر لیا۔( خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۱۸۶-۱۸۷)

آیت ’’ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ‘‘ پڑھنے کے بعدحضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی کیفِیَّت:

             حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ آیت ’’ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ‘‘ تلاوت فرمائی تو آپ کا سانس پھول گیا اور ا س کی وجہ سے بیس دن تک بار بار یہی کیفِیَّت بنتی رہی۔( کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابۃ، فضائل الفاروق رضی اللّٰہ عنہ، ۶ / ۲۶۴، الجزء الحادی عشر، الحدیث: ۳۵۸۲۷)

            اس سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید کی وہ آیات جن میں  اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ذکر ہے ان کی تلاوت کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرجانا ہمارے بزرگانِ دین کا طریقہ ہے لہٰذا ہمیں  بھی چاہئے کہ ایسی آیات کی تلاوت کرتے وقت اپنے دل میں  اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف پیدا کریں  اور خود کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیں  ۔

 

52:8
مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍۙ(۸)
اسے کوئی ٹالنے والا نہیں

52:9
یَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَآءُ مَوْرًاۙ(۹)
جس دن آسمان ہلنا سا ہلنا ہلیں گے (ف۸)

{ یَوْمَ تَمُوْرُ السَّمَآءُ مَوْرًا: جس دن آسمان سختی سے ہلے گا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عذاب نازل ہونے کا وقت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ عذاب ا س دن ضرور واقع ہو گا جس دن آسمان چکی کی طرح گھومیں  گے اور اس طرح ڈولنے لگیں  گے جس طرح کشتی اپنے سواروں  کے ساتھ ڈولتی ہے اور ایسی حرکت میں  آئیں  گے کہ اُن کے اَجزاء بکھر جائیں  گے اور پہاڑ تیزی سے ایسے چلیں  گے جیسے کہ غبار ہوا میں  اُڑتا ہے اور یہ قیامت کے دن ہوگا۔( خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ۴ / ۱۸۶-۱۸۷، جلالین، الطور، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ص۴۳۵، ملتقطاً)

{ فَوَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ:تو اس دن خرابی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دن وہ عذاب واقع ہو گا تو اس دن ان لوگوں  کے لئے خرابی ہے جو دنیا میں  اللہ تعالیٰ کے رسولوں  کو جھٹلاتے رہے اور وہ اپنے کفر و باطل کے شغل میں  پڑے کھیلتے رہے۔( ابو سعود، الطور، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ۵ / ۶۳۶، جلالین، الطور، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ص۴۳۵، ملتقطاً)
52:10
وَّ تَسِیْرُ الْجِبَالُ سَیْرًاؕ(۱۰)
اور پہاڑ چلنا سا چلنا چلیں گے (ف۹)

52:11
فَوَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَۙ(۱۱)
تو اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے (ف۱۰)

52:12
الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ خَوْضٍ یَّلْعَبُوْنَۘ(۱۲)
وہ جو مشغلہ میں (ف۱۱) کھیل رہے ہیں،

52:13
یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّاؕ(۱۳)
جس دن جہنم کی طرف دھکا دے کر دھکیلے جائیں گے (ف۱۲)

{ یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا: جس دن انہیں  جہنم کی طرف سختی سے دھکیلا جائے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں  کو جھٹلانے والے جس دن جہنم کی طرف دھکا دے کر دھکیلے جائیں  گے اورجہنم کے خازن کافروں  کے ہاتھ گردنوں ، پاؤں  اورپیشانیوں  سے ملا کر باندھیں  گے اور انہیں  منہ کے بل جہنم میں  دھکیل دیں  گے (تو اس دن ان کے لئے خرابی ہے) اور جب وہ آگ میں  پہنچ جائیں  گے تو جہنم کے خازن ان سے کہیں  گے :یہ وہ آگ ہے جسے تم دنیا میں  جھٹلاتے تھے تو کیا یہ جادوہے یا تمہیں  دکھائی نہیں  دے رہا۔ یہ اُن سے اس لئے کہا جائے گا کہ وہ دنیا میں  سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جادوکی نسبت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہماری نظر بندی کردی ہے۔اور ان سے کہا جائے گا اس جہنم میں  داخل ہوجاؤ،تو اب چاہے اس عذاب پر صبر کرو یا نہ کرو، سب تم پربرابر ہے،نہ کہیں  بھاگ سکتے ہو اور نہ عذاب سے بچ سکتے ہو اور یہ عذاب تمہیں  اسی کا بدلہ دیا جارہا ہے جو تم دنیا میں  کفر و تکذیب کرتے تھے۔( خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۶، ۴ / ۱۸۷، ملخصاً)

52:14
هٰذِهِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ(۱۴)
یہ ہے وہ آگ جسے تم جھٹلاتے تھے (ف۱۳)

52:15
اَفَسِحْرٌ هٰذَاۤ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَۚ(۱۵)
تو کیا یہ جادو ہے یا تمہیں سوجھتا نہیں (ف۱۴)

52:16
اِصْلَوْهَا فَاصْبِرُوْۤا اَوْ لَا تَصْبِرُوْاۚ-سَوَآءٌ عَلَیْكُمْؕ-اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۱۶)
اس میں جاؤ اب چاہے صبر کرو یا نہ کرو، سب تم پر ایک سا ہے (ف۱۵) تمہیں اسی کا بدلہ جو تم کرتے تھے (ف۱۶)

52:17
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ نَعِیْمٍۙ(۱۷)
بیشک پرہیزگار باغوں اور چین میں ہیں

{ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ: بیشک پرہیزگار۔} کفار کا انجام بیان کرنے کے بعد اب اہلِ ایمان کی جزا بیان فرمائی جا رہی ہے۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک کفر اور گناہوں  سے بچنے والے آخرت میں  باغوں  اور نعمتوں میں  ہوں  گے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عطا کردہ نعمتوں  ،کرامتوں  اور ا س بات پر خوش ہو رہے ہوں  گے کہ انہیں  ان کے رب عَزَّوَجَلَّ نے جہنم کے عذاب سے بچالیا اور اُن سے کہا جائے گا کہ اپنے ان اعمال کے بدلے میں  جنت کی خوشگوار نعمتیں  کھاؤ اور پیو جو تم نے دنیا میں  کئے کہ ایمان لائے اوراللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اختیار کی ،وہ جنت کی نعمتیں  کھانے کے وقت قطار در قطار بچھے ہوئے تختوں  پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں  گے اور ہم نے بڑی آنکھوں  والی حسین حوروں  کو ان کی بیویاں  بنا دیا۔( خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۰، ۴ / ۱۸۷، روح البیان، الطور، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۰، ۹ / ۱۹۰-۱۹۱، ملتقطاً)
52:18
فٰكِهِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْۚ-وَ وَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ(۱۸)
اپنے رب کے دین پر شاد شاد (ف۱۷) اور انہیں ان کے رب نے آگ کے عذاب سے بچالیا (ف۱۸)

52:19
كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓــٴًـۢا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَۙ(۱۹)
کھاؤ اور پیو خوشگواری سے صِلہ اپنے اعمال کا (ف۱۹)

52:20
مُتَّكِـٕیْنَ عَلٰى سُرُرٍ مَّصْفُوْفَةٍۚ-وَ زَوَّجْنٰهُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ(۲۰)
تختوں پر تکیہ لگائے جو قطار لگا کر بچھے ہیں اور ہم نے انہیں بیاہ دیا بڑی آنکھوں والی حوروں سے،

52:21
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍؕ-كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ(۲۱)
اور جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی (ف۲۰) اور ان کے عمل میں انہیں کچھ کمی نہ دی (ف۲۱) سب آدمی اپنے کیے میں گرفتار ہیں (ف۲۲)

{ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اور جو لوگ ایمان لائے۔} ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور ان کی جس اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی توہم ان کی اس اولاد کو اپنے فضل و کرم سے جنت میں  ان کے ساتھ ملادیں  گے کہ اگرچہ باپ دادا کے درجے بلند ہوں  تو بھی ان کی خوشی کے لئے اُن کی اولاد اُن کے ساتھ ملادی جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس اولاد کو بھی وہ درجہ عطا فرمائے گااور ان والدین کے عمل کے ثواب میں  کچھ کمی نہ ہو گی بلکہ انہیں  ان کے اعمال کا پورا ثواب دیا جائے گااور اولاد کے درجے اپنے فضل و کرم سے بلند کئے جائیں  گے۔( خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۱۸۷-۱۸۸، ملخصاً)

جنت میں  اولاد کو ماں  باپ کا وسیلہ کام آئے گا:

            اس آیت سے ثابت ہوا کہ جنت میں  اولاد کو ان کے ماں  باپ کا وسیلہ کام آئے گا کہ ماں  باپ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ اولاد کے درجات بلند فرما دے گا،اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  نیک لوگوں  کا وسیلہ مقبول ہے۔

{كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ: ہر آدمی اپنے اعمال میں  گروی رکھا ہوا ہے۔} اس سے مراد یہ ہے کہ ہر کافر اپنے کفری عمل کی وجہ سے جہنم کے اندر (دائمی طورپر) ایسے قید ہے جیسے وہ چیز جسے رہن رکھا ہوا ہو جبکہ مومن اپنے عمل (کی وجہ سے دائمی طور پر جہنم) میں  گروی نہیں  رکھا ہو اکیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌۙ(۳۸) اِلَّاۤ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِ‘‘( مدثر:۳۸،۳۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: ہر جان اپنے کمائے ہوئے اعمال میں گروی رکھی ہے۔مگر دائیں  طرف والے۔ (خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۱۸۸)
52:22
وَ اَمْدَدْنٰهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَّ لَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَهُوْنَ(۲۲)
اور ہم نے ان کی مدد فرمائی میوے اور گوشت سے جو چاہیں (ف۲۳)

{ وَ اَمْدَدْنٰهُمْ: ہم ان کی مدد کرتے رہیں  گے۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں  کا ذکر فرمایا جن کا اہلِ ایمان سے وعدہ فرمایا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جنت میں پھل، میوے اور گوشت جو وہ چاہیں  گے وہ مُہَیّا کر کے ہم ان کی مدد کرتے رہیں  گے۔اس سے مراد یہ ہے کہ اہلِ جنت پر اللہ تعالیٰ کا احسان یہ ہو گا کہ ان کی نعمتیں  دم بدم بڑھتی ہی جائیں  گی کبھی کم نہ ہوں  گی۔
52:23
یَتَنَازَعُوْنَ فِیْهَا كَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِیْهَا وَ لَا تَاْثِیْمٌ(۲۳)
ایک دوسرے سے لیتے ہیں وہ جام جس میں نہ بیہودگی اور گنہگاری (ف۲۴)

{ یَتَنَازَعُوْنَ فِیْهَا كَاْسًا: جنتی لوگ جنت میں  شراب کے جام ایک دوسرے سے لیں  گے۔} یعنی جنتی لوگ جنت میں  شراب کے ایسے لذیذ اور پاکیزہ جام ایک دوسرے سے ہنسی خوشی لیں  گے جس میں  نہ کوئی بیہودگی ہوگی اور نہ گناہ کی کوئی بات جیسا کہ دنیا کی شراب میں  طرح طرح کی خرابیاں  تھیں  کیونکہ جنت کی شراب پینے سے نہ عقل زائل ہوتی ہے، نہ عادتیں  خراب ہوتی ہیں  نہ پینے والا بے ہودہ بکتا ہے اور نہ گنہگار ہوتا ہے۔( خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۱۸۸، ملخصاً)
52:24
وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ(۲۴)
اور ان کے خدمت گار لڑکے ان کے گرد پھریں گے (ف۲۵) گویا وہ موتی ہیں چھپا کر رکھے گئے (ف۲۶)

{ وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ: اور ان کے خدمت گار لڑکے ان کے گرد پھریں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ اہلِ جنت کے خدمتگار لڑکے ان کی خدمت کے لئے ان کے ارد گرد پھریں  گے اور ان کے حسن ، صفائی اورپاکیزگی کا یہ عالَم ہو گا کہ گویا وہ چھپاکر رکھے ہوئے ایسے موتی ہیں  جنہیں  کوئی ہاتھ ہی نہیں  لگا ۔حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ کسی جنتی کے پاس خدمت میں  دوڑنے والے غلام ہزار سے کم نہ ہوں  گے اور ہر غلام جُدا جُدا خدمت پر مُقَرّر ہوگا۔( خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۱۸۸)اس آیت سے معلوم ہو اکہ ہر جنتی کو جنت میں  خدمتگار ملیں  گے چاہے اس کا مرتبہ اعلیٰ ہو یا نہ ہو۔
52:25
وَ اَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ(۲۵)
اور ان میں ایک نے دوسرے کی طرف منہ کیا پوچھتے ہوئے (ف۲۷)

{ وَ اَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ: اورآپس میں  ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں  گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جنت میں  جنتی ایک دوسرے سے دریافت کریں  گے کہ وہ دنیامیں  کس حال میں  تھے اور کیا عمل کرتے تھے اور کس بنا پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان نعمتوں  سے سرفراز ہوئے، یہ دریافت کرنا اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اعتراف کرنے کیلئے ہوگا،چنانچہ وہ کہیں  گے کہ بیشک ہم جنت میں  داخل ہونے سے پہلے اپنے گھروں  میں  اللہ تعالیٰ کے خو ف سے اور اس اندیشہ سے سہمے ہوئے تھے کہ نفس و شیطان ایمان میں  خَلَل کا باعث نہ ہوجائیں  اور نیکیوں  کو روک لئے جانے اور بَدیوں  پر گرفت کئے جانے کا بھی اندیشہ تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحمت اور مغفرت فرما کر احسان کیا اور ہمیں جہنم کی سخت گرم ہوا کے عذاب سے بچالیا بیشک ہم دنیا میں  اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے اور اسی سے جہنم کے عذاب سے پناہ مانگا کرتے تھے ، بیشک وہی احسان فرمانے والا مہربان ہے کہ جب کوئی اس کی عبادت کرے تو اسے ثواب عطا فرماتا ہے اور جب کوئی اس سے دعا کرے تو وہ قبول فرماتا ہے۔( جلالین، الطور، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۸، ص۴۳۶، مدارک، الطور، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۸، ص۱۱۷۵، ملتقطاً)

جہنم کی سخت گرم ہو اسے پناہ مانگا کریں :

            آیت نمبر27 میں  جہنم کی جس گرم ہوا کے عذاب کا ذکر ہوا ، ا س کے بارے میں  حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر اللہ تعالیٰ دنیا والوں  پر (انگلی کے) ایک پَورے کی مقدار گرم ہو اکے عذاب کو کھول دے تو زمین اور ا س پر موجود تمام چیزیں  جل جائیں  گی۔( در منثور، الطور، تحت الآیۃ: ۲۷، ۷ / ۶۳۴)

            ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  جہنم کی اس گرم ہوا سے پناہ طلب کیا کرے ، اس سے متعلق دو واقعات ملاحظہ ہوں :

(1)… حضرت مسروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے ایک مرتبہ اس آیت ’’فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ‘‘ کی تلاوت فرمائی تو (خوف کی وجہ سے یہ) دعا مانگی ’’اَللہمَّ مُنَّ عَلَیْنَا وَقِنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ ، اِنَّکَ اَنْتَ الْبَرُّ الرَّحِیْمْ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم پر احسان فرما اور ہمیں  گرم ہوا کے عذاب سے بچا لے ،بے شک تو ہی احسان فرمانے والا مہربان ہے۔( مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب صلاۃ التطوّع والامامۃ،فی الرجل یصلّی فیمرّ بآیۃ رحمۃ او آیۃ عذاب،۲ / ۱۱۵،الحدیث:۲)

(2)…حضرت عَباد بن حمزہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’میں  حضرت اَسماء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور وہ اس آیت ’’فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ‘‘ کی تلاوت فرما رہی تھیں ،یہ آیت تلاوت فرمانے کے بعد رک گئیں  اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  (گرم ہوا کے عذاب سے) پناہ مانگنے لگیں  اور دعا کرنے لگیں ۔اس دوران میں  بازار کسی کام سے گیا اور جب اپنا کام پورا کر کے واپس لوٹا تو ا بھی تک حضرت اَسماء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا (گرم ہوا کے عذاب سے) پناہ مانگ رہی تھیں  اور دعا کر رہی تھیں ۔( مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب صلاۃ التطوّع والامامۃ،فی الرجل یصلّی فیمرّ بآیۃ رحمۃ او آیۃ عذاب،۲ / ۱۱۵،الحدیث:۳)

            اللہ تعالیٰ ہمیں  بھی اس عذاب سے محفوظ رکھے اور اس سے پناہ مانگنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

سورہِ طور کی آیت نمبر25تا27سے حاصل ہونے والی معلومات:

            ا ن سے تین باتیں  معلوم ہوئیں  ،

 (1)… جنتیوں  کو اپنی دنیاوی مصروفیات یاد ہوں  گی جن کاوہ تذکرہ کریں  گے ۔

(2)… اللہ تعالیٰ کا خوف تقویٰ کی جڑ ہے کہ نیک عمل کرنے کے باوجود بھی اس سے ڈرے۔

(3)… دنیا کا خوف آخرت کی بے خوفی کا ذریعہ ہے۔

 

52:26
قَالُوْۤا اِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِیْۤ اَهْلِنَا مُشْفِقِیْنَ(۲۶)
بولے بیشک ہم اس سے پہلے اپنے گھروں میں سہمے ہوئے تھے (ف۲۸)

52:27
فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ(۲۷)
تو اللہ نے ہم پر احسان کیا (ف۲۹) اور ہمیں لُو کے عذاب سے بچالیا (ف۳۰)

52:28
اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوْهُؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِیْمُ۠(۲۸)
بیشک ہم نے اپنی پہلی زندگی میں (ف۳۱) اس کی عبادت کی تھی، بیشک وہی احسان فرمانے والا مہربان ہے،

52:29
فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ(۲۹)
تو اے محبوب! تم نصیحت فرماؤ (ف۳۲) کہ تم اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہو نہ مجنون،

{فَذَكِّرْ: تو اے محبوب!تم نصیحت فرماؤ۔} اس رکوع میں  کفار کی طرف سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کئے جانے والے اعتراضات اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے جوابات بیان ہوئے ہیں ، ان جوابات کا اندازِ بیان دیکھ کر اللہ رَبُّ الْعِزَّت کی بار گاہ میں  سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام و مرتبہ اور آپ کی شان ظاہر ہوتی ہے ۔اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ لوگوں  کو وعظ ونصیحت فرماتے رہیں  اور کفارِمکہ جو آپ کو کاہن اور مجنون کہتے ہیں  اس وجہ سے آپ نصیحت کرنے سے باز نہ رہیں  کیونکہ آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے نہ غیب کی جھوٹی خبریں  دینے والے ہیں  اور نہ ہی دیوانے ہیں ۔( مدارک، الطور، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۷۵، جلالین، الطور، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۴۳۶، ملتقطاً)

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ مُبَلِّغ کو نیکی کی دعوت دینے کے دوران اگر لوگوں  کی طرف سے طعن و تشنیع کا سامنا ہو تو اس سے دلبرداشتہ ہو کر نیکی کی دعوت دینا چھوڑ نہیں  دینا چاہئے ، بلکہ اسے صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیکی کی دعوت دیتے رہنا چاہئے ۔
52:30
اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ(۳۰)
یا کہتے ہیں (ف۳۳) یہ شاعر ہیں ہمیں ان پر حوادثِ زمانہ کا انتظارہے (ف۳۴)

{اَمْ یَقُوْلُوْنَ: بلکہ کافر کہتے ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کفارِ مکہ آپ کی شان میں  کہتے ہیں  کہ یہ شاعر ہیں  اور ہم ان پر گردشِ زمانہ کا انتظار کررہے ہیں  کہ جیسے ان سے پہلے شاعر مرگئے اور ان کے جتھے ٹوٹ گئے یہی حال ان کا ہونا ہے اور وہ کفار یہ بھی کہتے ہیں  کہ جس طرح اِن کے والد کی موت جوانی میں  ہوئی ہے ان کی بھی ایسی ہی ہوگی۔تواے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمادیں  : تم میرے انتقال کرنے کا انتظار کرتے رہو اورمیں  بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں  میں  سے ہوں  کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے ۔ چنانچہ یہ ہوا اور وہ کفار بدر میں  قتل اور قید کے عذاب میں  گرفتار کئے گئے۔( خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۳۰-۳۱، ۴ / ۱۸۸-۱۸۹، ملخصاً)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کفار کے اعتراضات اور اللہ تعالیٰ کے جوابات:

            اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں  اور مقامات پر بھی سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کافروں  کے ایسے فضول اعتراضات کو دفع کرتے ہوئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مجنون، کاہن اور شاعر ہونے کی نفی فرمائی ہے، چنانچہ جنون کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ

’’ مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ‘‘( قلم:۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں  ہو۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’ وَ مَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُوْنٍ‘‘( تکویر:۲۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تمہارے صاحب مجنون نہیں ۔

             شاعر اور کاہن ہونے کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ

’’ اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍۚۙ(۴۰) وَّ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍؕ-قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَۙ(۴۱) وَ لَا بِقَوْلِ كَاهِنٍؕ-قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَؕ(۴۲) تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘(حاقہ:۴۰۔۴۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک یہ قرآن ایک کرم والے رسول سے باتیں  ہیں ۔ اور وہ کسی شاعر کی بات نہیں  ہے۔ تم بہت کم یقین رکھتے ہو۔ اور نہ کسی کاہن کی بات ہے۔ تم بہت کم نصیحت مانتے ہو۔ یہ قرآن سارے جہانوں  کے رب کی طرف سے ا تارا ہوا ہے۔

            اور ارشاد فرمایا ہے:

’’وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗؕ-اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ‘‘( یس:۶۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے نبی کو شعر کہنا نہ سکھایا اور نہ وہ ان کی شان کے لائق ہے وہ تو نہیں  مگر نصیحت اور روشن قرآن۔

 

52:31
قُلْ تَرَبَّصُوْا فَاِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُتَرَبِّصِیْنَؕ(۳۱)
تم فرماؤ انتظار کیے جاؤ (ف۳۵) میں بھی تمہارے انتظار میں ہوں (ف۳۶)

52:32
اَمْ تَاْمُرُهُمْ اَحْلَامُهُمْ بِهٰذَاۤ اَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَۚ(۳۲)
کیا ان کی عقلیں انہیں یہی بتاتی ہیں (ف۳۷) یا وہ سرکش لوگ ہیں (ف۳۸)

{ اَمْ تَاْمُرُهُمْ اَحْلَامُهُمْ بِهٰذَا: کیا ان کی عقلیں  انہیں  یہی حکم دیتی ہیں ۔} ارشاد فرمایا ’’کیا ان مشرکین کی عقلیں  انہیں  حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں  شاعر،جادو گر، کاہن اور مجنون کہنے کا حکم دیتی ہیں ؟ ایسا کہنا بالکل عقل کے خلاف ہے اور ان کی سب سے عجیب بات تو یہ ہے کہ مجنون بھی کہتے ہیں  اور شاعر، جادوگر اور کاہن بھی اوراس کے ساتھ اپنے عقلمند ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں  حالانکہ انہیں  اتنا بھی شعور نہیں  کہ کاہن، شاعر اور جادوگر بہرحال عقلمند ہوتے ہیں  جبکہ مجنون توبے عقل ہوتا ہے اور یہ اوصاف ایک شخص میں  جمع ہو ہی نہیں  سکتے ۔ آخر میں  ارشاد فرمایا کہ ان کی عقلیں  انہیں  ایساکرنے کا حکم نہیں  دیتیں  بلکہ وہ سرکش لوگ ہیں  کہ دشمنی اورعناد میں  اندھے ہورہے ہیں  اور کفرو سرکشی میں  حد سے گزر گئے ہیں ۔( خازن ، الطور ، تحت الآیۃ : ۳۲، ۴ / ۱۸۹ ، مدارک ، الطور، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۱۱۷۵، جلالین مع صاوی، الطور، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۲۰۴۰، ملتقطاً)

52:33
اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَهٗۚ-بَلْ لَّا یُؤْمِنُوْنَۚ(۳۳)
یا کہتے ہیں انہوں نے (ف۳۹) یہ قرآن بنالیا، بلکہ وہ ایمان نہیں رکھتے (ف۴۰)

{ اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَهٗ: بلکہ وہ کہتے ہیں  کہ اس نبی نے یہ قرآن خود ہی بنالیا ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا کفارِ مکہ یہ کہتے ہیں  کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے دِل سے یہ قرآن بنالیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسی بات نہیں  جیسی یہ گمان کر رہے ہیں  بلکہ حقیقت ِحال یہ ہے کہ کفار ایمان نہیں  لاتے اور ان اعتراضات کا باطل ہونا جاننے کے باوجوددشمنی اور نفس کی خباثت کی وجہ سے ایسے اعتراض کررہے ہیں  ۔اللہ تعالیٰ ان پر حجت قائم کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر ان کے خیال میں  قرآن جیسا کلام کوئی انسان بناسکتا ہے اور یہ اپنے دعوے میں  سچے ہیں  تو اس جیسی ایک بات تو بنا کر لے آئیں  جو حسن و خوبی اور فصاحت و بلاغت میں  اس کے مثل ہو۔( خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۴ / ۱۸۹، مدارک، الطور، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ص۱۱۷۶، ملتقطاً)
52:34
فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِهٖۤ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِیْنَؕ(۳۴)
تو اس جیسی ایک بات تو لے آئیں (ف۴۱) اگر سچے ہیں،

52:35
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَؕ(۳۵)
کیا وہ کسی اصل سے نہ بنائے گئے (ف۴۲) یا وہی بنانے والے ہیں (ف۴۳)

{ اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ: کیا وہ کسی شے کے بغیر ہی پیدا کردئیے گئے ہیں ۔} جب کفارِ مکہ نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلایا اور انہیں  شاعر،کاہن اور مجنون کہنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ان چیزوں  سے بَری ہونا بیان فرمایا،اب اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی تکذیب کے باطل ہونے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچے ہونے پر دلائل ارشاد فرمائے اور سب سے پہلے اپنی ذات سے ابتدا فرمائی، گویا کہ ارشاد فرمایا اے کافرو! تم میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو توحید اور حشر و نشر کی بات میں  کیسے جھٹلاتے ہو حالانکہ ان کی سچائی کی دلیل تو تمہاری اپنی ذات میں  موجود ہے ۔تم غور کرو کہ کیا تم ماں  باپ سے پیدا نہ ہوئے اور کیا تم بے جان اوربے عقل ہوکہ جن پر حجت قائم نہ کی جائے گی ،ایسا توہر گز نہیں  ہے۔ (یا) کیا تم نطفہ سے پیدا نہیں  ہوئے اور کیا تمہیں  خدا نے نہیں  بنایا یا تم خود ہی اپنے خالق ہو کہ تم نے اپنے آپ کو خود ہی بنالیا ہو،اور جب یہ بھی محال ہے تو لامحالہ تمہیں  اس بات کا اقرار کرنا پڑے گا کہ تمہیں  اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے،اور جب تم یہ اقرار بھی کرتے ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں  کرتے اور بتوں  کو پوجتے ہو اور کیا وجہ ہے کہ تم مرنے کے بعد زندہ کئے جانے اورجزا و سزا کا انکار کرتے ہو۔( تفسیر کبیر ، الطور ، تحت الآیۃ : ۳۵، ۱۰ / ۲۱۵-۲۱۶، جلالین، الطور، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۴۳۶، قرطبی، الطور، تحت الآیۃ: ۳۵، ۹ / ۵۵، الجزء السابع عشر، ملتقطاً)
52:36
اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ-بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَؕ(۳۶)
یا آسمان اور زمین انہوں نے پیدا کیے (ف۴۴) بلکہ انہیں یقین نہیں (ف۴۵)

{اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ: یا آسمان اور زمین انہوں  نے پیدا کئے ہیں ؟} اس آیت میں  ایک اور دلیل ارشاد فرمائی کہ کیا آسمان اور زمین ان مشرکین نے پیدا کئے ہیں ؟ جب یہ بھی نہیں  اور اللہ تعالیٰ کے سوا آسمان و زمین پیدا کرنے کی کوئی قدرت ہی نہیں  رکھتا تو کیوں  یہ لوگ اس کی عبادت نہیں  کرتے ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت اور خالقِیَّت کا یقین نہیں  کرتے، اگر انہیں  اس بات کایقین ہوتا تو ضرور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاتے۔(جلالین، الطور، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۴۳۶، خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۳۶، ۴ / ۱۸۹، ملتقطاً)

52:37
اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜیْطِرُوْنَؕ(۳۷)
یا ان کے پاس تمہارے رب کے خزانے ہیں (ف۴۶) یا وہ کڑوڑے (حاکمِ اعلیٰ) ہیں (ف۴۷)

{اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىٕنُ رَبِّكَ: یا ان کے پاس تمہارے رب کے خز انے ہیں ؟}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا اللہ تعالیٰ کی آیتوں  کو جھٹلانے والوں  کے پاس آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کے رزق او ر اس کی رحمت وغیرہ کے خزانے ہیں  کہ اس وجہ سے انہیں  اختیار ہو کہ جہاں  چاہیں  خرچ کریں  اور جسے چاہیں  نبوت دیں  اور جسے چاہیں  نبوت سے محروم کردیں  یا وہ بڑے حاکم اور خود مختارہیں  کہ جو چاہے کریں  اورکوئی انہیں  پوچھنے والا نہ ہو، ایسا نہیں  ہے۔(جلالین مع جمل ، الطور ، تحت الآیۃ : ۳۷ ، ۷ / ۳۰۷ ، خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۱۸۹، روح البیان، الطور، تحت الآیۃ: ۳۷، ۹ / ۲۰۳، ملتقطاً)

بلکہ کفار کا حال تو یہ ہے کہ اگر بِالفرض وہ رب کی رحمت کے خزانوں  کے مالک ہوتے تو خرچ ہوجانے کے خوف سے کنجوسی کی وجہ سے انہیں  روک لیتے ،جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآىٕنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۰۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اگر تم لوگ میرے رب کی رحمت کے خزانوں  کے مالک ہوتے تو خرچ ہوجانے کے ڈر سے تم انہیں  روک رکھتے اور آدمی بڑا کنجوس ہے۔

52:38
اَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ یَّسْتَمِعُوْنَ فِیْهِۚ-فَلْیَاْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍؕ(۳۸)
یا ان کے پاس کوئی زینہ ہے (ف۴۸) جس میں چڑھ کر سن لیتے ہیں (ف۴۹) تو ان کا سننے والا کوئی روشن سند لائے،

{ اَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ: یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ یا ان مشرکین کے پاس کوئی سیڑھی ہے اور وہ آسمان کی طرف لگی ہوئی ہے جس پر چڑھ کر وہ فرشتوں  کی باتیں  سن لیتے ہیں  اور انہیں  معلوم ہوجاتا ہے کہ کون پہلے ہلاک ہوگا اور کس کی فتح ہوگی۔اگر انہیں  اس بات کا دعویٰ ہو تو ان کے اس طرح سننے والے کو کوئی روشن دلیل لانی چاہیے جیسا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی صداقت پر دلیل پیش فرمائی ہے۔(جلالین، الطور، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۴۳۶، مدارک، الطور، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۱۱۷۶، تفسیر طبری، الطور، تحت الآیۃ: ۳۸، ۱۱ / ۴۹۶، ملتقطاً)

52:39
اَمْ لَهُ الْبَنٰتُ وَ لَكُمُ الْبَنُوْنَؕ(۳۹)
کیا اس کو بیٹیاں اور تم کو بیٹے (ف۵۰)

{ اَمْ لَهُ الْبَنٰتُ: کیا اللہ کیلئے بیٹیاں  ہوں ؟۔} اس آیت میں  کفار کی حماقت اور بے وقوفی کا بیان ہے کہ وہ اپنے لئے تو بیٹے پسند کرتے ہیں  اور اللہ تعالیٰ کی طرف بیٹیوں  کی نسبت کرتے ہیں  حالانکہ بیٹیوں  کو وہ خود اپنے لئے برا جانتے ہیں ، جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌ‘‘(زخرف:۱۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ان میں  کسی کو اس چیز کی خوشخبری سنائی جائے جس کے ساتھ اس نے رحمٰن کو متصف کیا ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غم و غصے میں  بھرا رہتا ہے۔
52:40
اَمْ تَسْــٴَـلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَؕ(۴۰)
یا تم ان سے (ف۵۱) کچھ اجرت مانگتے ہہو تو وہ چٹی کے بوجھ میں دبے ہیں (ف۵۲)

{اَمْ تَسْــٴَـلُهُمْ اَجْرًا: یا تم ان سے کچھ اجرت مانگتے ہو۔} کفار نے شریعت کے اَحکام کو پسِ پُشت ڈالا اور اپنی عقل کے مطابق جو انہیں  اچھا لگا اس کی پیروی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ تمہیں  کس چیز نے شریعت کے احکام پس ِ پُشت  ڈالنے پر اور اِس رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی چھوڑ دینے پر ابھارا،کیا رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دین کی تعلیم دینے پر تم سے کوئی اجرت مانگی ہے کہ ا س کی وجہ سے تم تاوان کے بوجھ میں  دبے ہوئے ہو اور اس بوجھ کی وجہ سے اسلام قبول نہیں  کرتے ،جب یہ بھی نہیں  ہے تو پھر اسلام قبول نہ کرنے کا تمہارے پا س کیا عذر ہے۔(تفسیر کبیر، الطور، تحت الآیۃ: ۴۰، ۱۰ / ۲۱۹، خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۱۸۹، ملتقطاً)

اس سے معلوم ہو ا کہ دین کے احکام پر عمل نہ کرنا اور اپنی عقل کے مطابق جو اچھا لگے اسی کی پیروی کرنا کفار کا طریقہ ہے اور انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ فی زمانہ ہمارے معاشرے میں  کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں  جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ،اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے اور خود کو مسلمانوں  میں  شمار کرتے ہیں  جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ دین کے وہ اَحکام جو ان کی عقل کے ترازو پر پورے نہیں  اترتے ،ان کا مذاق اُڑاتے ،انہیں  انسانیّت کے بر خلاف بتاتے اور قرآن وحدیث کی غلط تفسیر و تشریح کر کے اپنی طرف سے اَحکام گھڑتے اور اسے دین ِاسلام کی تعلیم بتاتے ہیں  ۔اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے ،اور اپنی اس رَوِش کو ترک کر کے اس طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ اور ا س کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بتایا ہے ،اٰمین۔

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلطُّوْر
اَلطُّوْر
  00:00



Download

اَلطُّوْر
اَلطُّوْر
  00:00



Download