Surah at-Tur
{ اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ: یا ان کے پاس غیب ہے۔} یعنی شریعت کے احکام پس ِپُشت ڈالنے والے مشرکین کے پاس کیاغیب کا علم ہے جس کی وجہ سے وہ یہ حکم لگاتے ہیں کہ مرنے کے بعد نہیں اٹھیں گے اور اٹھے بھی تو انہیں عذاب نہیں دیا جائے گا ۔جب یہ بات بھی نہیں ہے تو وہ کیوں اسلام قبول نہیں کرتے۔
{ اَمْ یُرِیْدُوْنَ كَیْدًا: یا وہ کسی فریب کا ارادہ کر رہے ہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ مشرکین زبانی طور پر ہی آپ کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ وہ کسی فریب کا ارادہ کر رہے ہیں اور دارُالنَّدْوَہ میں جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کے حبیب نبی، ہادیٔ برحق صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نقصان پہنچانے اور قتل کرنے کے مشورے کررہے ہیں تو کافر خود ہی اپنے فریب کا شکار ہونے والے ہیں اور ان کی دھوکہ دہی اور فریب کا وبال اُنہیں پرپڑے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مشرکین کے فریب سے محفوظ رکھا اور بدر میں مشرکین کو ہلاک کر دیا۔(روح البیان، الطور، تحت الآیۃ: ۴۲، ۹ / ۲۰۴، جلالین، الطور، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۴۳۷، ملتقطاً)
{ اَمْ لَهُمْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ: یا اللہ کے سوا ان کا کوئی اور خدا ہے؟} یعنی کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ مشرکین کا کوئی اور خدا ہے جو انہیں روزی دیتا ہو اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکتا ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود ہی نہیں ہے اوراللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے۔(خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۴۳، ۴ / ۱۸۹، مدارک، الطور، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۱۱۷۶، ملتقطاً)
{ وَ اِنْ یَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا: اور اگر وہ آسمان سے کوئی ٹکڑا گرتاہوا دیکھیں گے۔} کفارِمکہ نے تاجدارِ رسالت سے مطالبہ کیا تھا کہ
’’ اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا‘‘(بنی اسرائیل:۹۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: یا تم ہم پر آسمان ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرا دو جیسا تم نے کہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان کے ا س مطالبے کے جواب میں فرماتا ہے کہ ان کا کفر اور عناد اس حد پر پہنچ گیا ہے کہ اگر ان پر ایسا ہی کیا جائے کہ آسمان کا کوئی ٹکڑا گرادیا جائے اور یہ لوگ آسمان سے اُسے گرتے ہوئے دیکھ بھی لیں تو بھی اپنے کفر سے باز نہیں آئیں گے اور عناد کی وجہ سے یہی کہیں گے کہ یہ تو تہہ در تہہ بادل ہے اور ہم اس سے سیراب ہوں گے۔(خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۴۴، ۴ / ۱۸۹-۱۹۰)
ا س کی نظیر یہ آیت ِمبارکہ ہے:
’’ وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْهِ یَعْرُجُوْنَۙ(۱۴) لَقَالُوْۤا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ‘‘( حجر:۱۴،۱۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر ہم ان کے لیے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیتے تاکہ دن کے وقت اس میں چڑھ جاتے۔ جب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری نگاہوں کو بند کردیا گیا ہے بلکہ ہم ایسی قوم ہیں جن پر جادو کیا ہوا ہے۔
{ یَوْمَ لَا یُغْنِیْ عَنْهُمْ كَیْدُهُمْ شَیْــٴًـا: جس دن ان کا کوئی فریب انہیں کچھ کام نہ دے گا۔} یعنی مشرکین کوبے ہوش کر دئیے جانے کا دن وہ ہے جس دن ان کا کوئی فریب انہیں کچھ کام نہ دے گا بلکہ اُلٹاا نہیں نقصان پہنچائے گا اور نہ ان سے عذاب دور کر دینے میں کسی کی طرف سے ان کی مدد ہو گی۔( تفسیر طبری، الطور، تحت الآیۃ: ۴۶، ۱۱ / ۴۹۸، روح البیان، الطور، تحت الآیۃ: ۴۶، ۹ / ۲۰۵، ملتقطاً)
یاد رہے کہ کافروں کو ان کے فریب تو کچھ کام نہ دیں گے جبکہ دنیا میں ایمان قبول کرنے والوں کو قیامت کے دن ان کا ایمان لاناضرور کام آئے گا جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ قَالَ اللّٰهُ هٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُهُمْؕ-لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ‘‘(مائدہ:۱۱۹)
{ وَ اِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِكَ: اور بیشک ظالموں کے لیے اس سے پہلے ایک عذاب ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اِن کافروں کے لئے اُن کے کفر کی وجہ سے آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا میں بھی ایک عذاب ہے مگر ان میں اکثر لوگ (غفلت اور جہالت کی وجہ سے) اپنے انجام کو جانتے نہیں اور نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں۔آخرت سے پہلے والے عذاب سے مراد یا تو بدر میں قتل ہونا ہے یا بھوک و قحط کی سات سالہ مصیبت یا عذاب ِقبر مراد ہے۔( خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۱۹۰)
{وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ: اور اے محبوب!تم اپنے رب کے حکم پر ٹھہرے رہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو حکم دیا ہے آپ اس پر قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرتے اور ممنوعات سے رکے رہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیغامات پہنچاتے رہیں اور جو مہلت ان مشرکین کو دی گئی ہے اس پر دِل تنگ نہ ہوں بیشک آپ ہماری حفاظت میں ہیں وہ آپ کوکچھ نقصان نہیں پہنچاسکتے۔( تفسیر طبری، الطور، تحت الآیۃ: ۴۸، ۱۱ / ۵۰۰، جلالین، الطور، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۴۳۷، ملتقطاً)
{ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِیْنَ تَقُوْمُ: اور اپنے قیام کے وقت اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے پاکی بیان کرو۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ نماز کے لئے اپنے قیام کے وقت اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرو۔ اس صورت میں حمد سے تکبیرِ اُولیٰ کے بعد سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ پڑھنا مراد ہے۔
دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ جب سو کر اٹھیں تو اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح کیا کریں ۔
تیسرا معنی یہ ہے کہ ہر مجلس سے اٹھتے وقت حمد اور تسبیح کیا کریں ۔( مدارک، الطور، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۱۱۷۷)
مجلس سے اٹھتے وقت کی دعا:
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا اور اس نے مجلس میں بہت سی لَغْوْ باتیں کیں تو اٹھنے سے پہلے یہ کلام کہے ،اس کی لَغْوْ باتوں کی مغفرت ہو جائے گی، ’’سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَ بِحَمْدِکَ اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰـہَ اِلَّآ اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَ اَتُوْبُ اِلَیْکَ‘‘ یعنی اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تیری پاکی اور حمد بیان کرتے ہوئے میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں ، میں تم سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما یقول اذا قام من مجلسہ، ۵ / ۲۷۳، الحدیث: ۳۴۴۴)
نماز سے پہلے پڑھا جانے والا وظیفہ:
حضرت عاصم بن حمید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے سوال کیا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کس طرح اپنی رات کی نماز شروع فرماتے تھے ،آپ نے جواب دیا: تم نے مجھ سے وہ بات پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی اور نے نہیں پوچھی، نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو دس مرتبہ اللہ اَکْبَرْ کہتے،دس مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہتے،دس مرتبہ سُبْحَانَ اللہ کہتے،دس مرتبہ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ کہتے،دس مرتبہ اَسْتَغْفِرُ اللہ کہتے،پھر یوں دعا مانگتے ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَ اہْدِنِیْ وَ ارْزُقْنِیْ وَ عَافِنِی‘‘ یعنی اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ مجھے بخش دے اور مجھے ہدایت عطا فرما اور مجھے رزق دے اور مجھے عافِیَّت دے۔ پھر آپ قیامت کے دن جگہ کی تنگی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔( ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب ما یستفتح بہ الصلاۃ من الدعاء، ۱ / ۲۹۷، الحدیث: ۷۶۶)
{ وَ مِنَ الَّیْلِ: اور رات کے کچھ حصے میں ۔} یعنی رات کے کچھ حصے میں اور تاروں کے چھپ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کرو ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان آیات میں تسبیح سے مراد نماز ہے۔( مدارک، الطور، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۱۷۷)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan