Surah ash-Shura
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{حٰمٓۚ(۱) عٓسٓقٓ} ان حروف کا تعلق حروفِ مُقَطَّعات سے ہے،ان کا معنی اور انہیں جدا جدا بیان کرنے کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔( تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۹ / ۵۷۵، ملخصاً)
{كَذٰلِكَ: یونہی۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح آپ سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف ہم نے غیبی خبریں وحی فرمائیں اسی طرح آپ کی طرف بھی عزت و حکمت والا اللہ تعالیٰ غیبی خبریں وحی فرماتا ہے ۔ (خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۹۰، مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۰۸۱، ملتقطاً)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد اب کوئی نبی نہیں بن سکتا:
اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہاں اُس کا اِ س طرح ذکر ہوتا کہ یوں ہی ہم آئندہ نبیوں کی طرف بھی وحی کریں گے اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے کے نبی ہیں لہٰذا اب ان کا تشریف لانا اس آیت کے خلاف نہیں۔
{تَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِهِنَّ: قریب ہے کہ آسمان اپنے اوپر سے پھٹ جائیں ۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت و ہَیبت اور اس کی بلندشان کا یہ عالَم ہے کہ ا س کی کِبریائی کی ہیبت سے آسمان جیسی عظیم الشّان مخلوق اپنے اوپر سے پھٹنے کے قریب ہو جاتی ہے، اور فرشتے اپنے رب تعالیٰ کی حمد کے ساتھ ہر اس چیز سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں جو اس کی شان کے لائق نہیں اور وہ زمین والوں کے لیے معافی مانگتے ہیں ۔
یہاں زمین والوں سے مراد اہلِ ایمان ہیں جیسا کہ ایک اور آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ یَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘(مومن:۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور مسلمانوں کی بخشش مانگتے ہیں ۔
اور ایمان والوں کے لئے معافی مانگنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کافر اس لائق نہیں ہیں کہ فرشتے ان کے لئے استغفار کریں ، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ کافروں کے لئے یہ دعا کریں کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، انہیں ایمان کی توفیق دے کر اُن کی مغفرت فرما۔( روح البیان، الشوری، تحت الآیۃ: ۵، ۸ / ۲۸۷، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۹۰، ملتقطاً)
آیت ’’ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ‘‘ سے معلوم ہونے و الے مسائل:
اس آیت سے 3 مسئلے معلوم ہوئے ،
(1)… فرشتوں کی شفاعت برحق ہے ۔
(2)… فرشتوں کو اس شفاعت کا اِذن مل چکا ہے اور آج بھی وہ مسلمانوں کی شفاعت کررہے ہیں ، جب فرشتے شفاعت کر رہے ہیں تو پھر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت میں کیسے تَاَمُّل ہوسکتاہے ۔
(3)… جب اللہ تعالیٰ کسی کو کچھ دینا چاہتا ہے تو مقبول بندوں کی دعا سے بھی دیتا ہے ، جیساکہ اس آیت سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بخشنا چاہتا ہے تو فرشتوں سے کہہ دیا ہے کہ ان کے لئے بخشش مانگا کرو۔
{وَ كَذٰلِكَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا: اور یونہی ہم نے تمہاری طرف عربی قرآن کی وحی بھیجی۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح ہم نے آپ کی طرف یہ وحی فرمائی کہ آپ ان مشرکین کے کاموں پر ذمہ دار نہیں اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی بھیجی تا کہ آپ (بطورِ خاص)مرکزی شہر مکہ مکرمہ اور اس کے ارد گرد رہنے والوں کو ڈرسنائیں اور انہیں قیامت کے دن سے ڈرائیں جس میں اللہ تعالیٰ اَوّلین و آخرین اور آسمان و زمین والوں سب کو جمع فرمائے گا اور اس میں کچھ شک نہیں ، اس دن جمع ہونے کے بعد پھر سب اس طرح علیحدہ علیحدہ ہوں گے کہ ان میں سے ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ دوزخ میں داخل ہو جائے گا۔( تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۷، ۹ / ۵۸۰، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۹۱، ملتقطاً)
قیامت کے دن کو جمع کا دن فرمائے جانے کی وجہ:
یہاں آیت میں قیامت کے دن کو’’ جمع ہونے کا دن‘‘ فرمایا گیا،اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن میں اللہ تعالیٰ تمام زمین و آسمان والوں کو جمع فرمائے گا جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
’’یَوْمَ یَجْمَعُكُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ‘‘(تغابن:۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جس دن وہ جمع ہونے کے دن تمہیں اکٹھا کرے گا۔
نیز اس دن روحوں اور جسموں کو جمع کیا جائے گا، ہر عمل کرنے والے اور اس کے عمل کو جمع کیا جائے گا،ظالم اور مظلوم کو جمع کیا جائے گا ا س لئے قیامت کے دن کو جمع کا دن فرمایا گیا۔( تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۷، ۹ / ۵۸۰)
حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جَنّتیوں اور جہنمیوں کے بارے میں اور ان کی تعداد جانتے ہیں :
آیت کے آخر میں فرمایا گیا کہ ’’ ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک گروہ دوزخ میں ‘‘ اور حدیثِ پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ معلوم ہے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون جہنم میں داخل ہوگا، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،ایک دن رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس تشریف لائے ،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دست ِمبارک میں دو کتابیں تھیں ،آپ نے فرمایا: ’’کیا تم ان دو کتابوں کے بارے میں جانتے ہو؟ہم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم آپ کے بتائے بغیر نہیں جانتے۔ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: ’’یہ تمام جہان کے پالنے والے کی طرف سے ایک کتا ب ہے جس میں اہلِ جنت ،ان کے آباء و اَجداد اور ان کے قبیلوں کے نام لکھے ہوئے ہیں ،آخر میں ان کی مجموعی تعداد درج ہے اور اب ان میں کبھی بھی کوئی کمی یا زیادتی نہ ہو گی۔ پھر بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں ارشاد فرمایا’’اس میں اہلِ جہنم ،ان کے آباء و اَجداد اور ان کے قبیلوں کے نام درج ہیں ،آخر میں ان کی مجموعی تعداد لکھی ہوئی ہے اور اب کبھی بھی ان میں کمی یا زیادتی نہ ہو گی ۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہمارا انجام لکھا جا چکا ہے تو اب ہمیں عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سیدھی راہ چلو اور میانہ روی اختیار کرو کیونکہ جنّتی کا خاتمہ جنت میں جانے والوں کے اعمال پر ہو گا اگرچہ وہ (زندگی بھر) کیساہی عمل کرتا رہا ہو اور جہنمی کا خاتمہ جہنم میں جانے والوں کے اعمال پر ہوگا اگرچہ وہ (زندگی بھر) کیساہی عمل کرتا رہے،پھر رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دونوں ہاتھوں سے اشارہ فرمایا اور ان کتابوں کو رکھ دیا اور فرمایا’’تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے بندوں کی تقدیر کو مکمل کر دیا(ان میں سے) ایک جماعت جنّتی ہے اور ایک دوزخ میں جائے گی۔( ترمذی، کتاب القدر، باب ما جاء انّ اللّٰہ کتب کتاباً لاہل الجنّۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۵، الحدیث: ۲۱۴۸)
حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم کی تابِندہ دلیل:
اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام جنّتیوں اور جہنمیوں ، ان کی ولدِیَّت،ان کے قبائل حتّٰی کہ ان کی تعداد بھی جانتے ہیں ۔مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ہر جنتی و دوزخی کا تفصیلی علم بخشا، ان کے باپ، دادوں ، قبیلوں اور اعمال پرمُطَّلع کیا،یہ حدیث حضور (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے علم کی تابندہ دلیل ہے جس میں کوئی تاویل نہیں ہوسکتی۔( مراٰۃ المناجیح، کتاب الایمان، باب الایمان بالقدر، الفصل الثانی، ۱ / ۱۰۳، تحت الحدیث: ۸۹)
{وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَهُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً: اوراگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ایک دین پر کردیتا۔} یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمام لوگوں کو دنیا میں ایک ہی گروہ بنا دیتا کہ سب ہدایت یافتہ ہوتے یا سبھی گمراہ ہوتے، لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی جنت میں داخل فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے (اس کے مستحق ہونے کی وجہ سے) عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں چاہا کہ سب کو ایک ہی گروہ بنا دے بلکہ انہیں دو گروہ بنایااور ان دوگروہوں میں جوکافروں کا گروہ ہے اس کا کوئی دوست نہیں جو ان سے عذاب دور کر سکے اور نہ ان کا کوئی مددگار ہے جو ان سے عذاب روک سکے۔( روح البیان، الشوری، تحت الآیۃ: ۸، ۸ / ۲۹۰، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۹۱، ملتقطاً)
گناہگار مسلمانوں کے لئے قیامت کے دن مددگار ہوں گے:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں ظالم سے مراد کفارہیں اور جو لوگ کفر کے علاوہ دیگر گناہوں میں مشغول ہو کر اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہیں تو ان کے لئے مددگارہوں گے جو ان سے عذاب دور کریں گے، کیونکہ حدیث ِپاک میں ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری شفاعت میری امت میں سے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے ہے۔( صاوی ، الشوری ، تحت الآیۃ : ۸ ، ۵ / ۱۸۶۴، ملخصاً، ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ۔۔۔ الخ، ۱۱-باب منہ، ۴ / ۱۹۸، الحدیث: ۲۴۴۳)
{شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا: اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا ہے جس کی اس نے نوح کو تاکید فرمائی۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ! حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک جتنے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے سب کے لئے ہم نے دین کا ایک ہی راستہ مقرر کیا اور اس میں وہ سب متفق ہیں ، وہ راستہ یہ ہے کہ دینِ اسلام کو قائم رکھواور اس میں پھوٹ نہ ڈالو۔ میں نے تمہارے لئے بھی یہی راستہ مقرر کیا ہے لہٰذا تم اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی فرمانبرداری ، اُس پر اور اس کے رسولوں پر ، اس کی کتابوں پر ، روزِ جزا پر اور باقی تمام ضروریاتِ دین پر ایمان لانا اپنے اوپر لازم کرو کیونکہ یہ اُمور تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امتوں کے لئے یکساں لازم ہیں ۔( تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۳، ۹ / ۵۸۷، مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۰۸۴، ملتقطاً)
خلاصہ یہ ہے کہ دین کے اصول میں تمام مسلمان خواہ وہ کسی زمانے یا کسی امت کے ہوں ، یکساں ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں ، البتہ احکام میں امتیں اپنے اَحوال اور خصوصیات کے اعتبار سے جداگانہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا‘‘(مائدہ:۴۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ بنایا ہے۔
زیرِ تفسیر آیت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا پہلے ذکر کرنے کی حکمت یہ ہے کہ آپ صاحب ِشریعت انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں سب سے پہلے نبی ہیں اور یہاں صرف ان پانچ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر اس لئے فرمایا کہ ان کا رتبہ دیگر انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بڑا ہے،یہ اُولُوا العزم ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی ایک مستقل شریعت ہے۔ (جلالین مع صاوی، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۳، ۵ / ۱۸۶۵-۱۸۶۶)
{وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِ: اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو۔} اس آیت میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو بھی غلط عقائد اپنا کر دین میں پھوٹ ڈالنے سے منع فرمایا گیاہے۔( ابوسعود، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۳، ۵ / ۵۲۳، ملخصاً) اور سابقہ امتوں میں سے یا اس امت میں سے جنہوں نے اس ممانعت پر عمل نہیں کیا ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍؕ-اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ‘‘(انعام:۱۵۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور خود مختلف گروہ بن گئے اے حبیب! آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ ان کا معاملہ صرف اللہ کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتادے گا جو کچھ وہ کیاکرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح عقائد اپنانے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
نوٹ:دین میں تَفرِقَہ بازی کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے سورۂ اَنعام،آیت نمبر 159 کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
{كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِیْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَیْهِ: مشرکوں پر یہ دین بہت بھاری ہے جس کی طرف تم انہیں بلاتے ہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مشرکوں کو توحید اختیار کرنے اور بتوں کی عبادت چھوڑ دینے کی جو دعوت دیتے ہیں یہ ان پربہت بھاری ہے اور وہ اسے بہت بعید جانتے ہیں جیساکہ ان کی اس بات سے ظاہر ہے:
’’اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ۚۖ-اِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ‘‘(ص:۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا اس نے بہت سارے خداؤں کو ایک خدا کردیا؟بیشک یہ ضروربڑی عجیب بات ہے۔
اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنے دین کے لئے چن لیتا ہے اورجو اس کی طرف رجوع کرتا اور اس کی فرمانبرداری قبول کرتا ہے اسے اپنی طرف ہدایت دیتا ہے۔( ابوسعود، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۳، ۵ / ۵۲۴، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۳، ۴ / ۹۲، ملتقطاً)
{وَ مَا تَفَرَّقُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ: اور انہوں نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد ہی پھوٹ ڈالی۔} اس آیت میں اہلِ کتاب کا حال بیان کیا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد جو دین میں اختلاف ڈالا کہ کسی نے توحید اختیار کی اور کوئی کافر ہوگیا ،وہ اس سے پہلے جان چکے تھے کہ اس طرح اختلاف کرنا اور فرقہ فرقہ ہوجانا گمراہی ہے لیکن اِس کے باوجود اُنہوں نے آپس کے حسد کی وجہ سے ، ریاست وناحق کی حکومت کے شوق میں اور نفسانی حَمِیَّت کے ابھارنے پر یہ سب کچھ کیا، اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اپنے اس عمل کی وجہ سے عذاب کے مستحق ہو چکے تھے لیکن اگر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے قیامت کے دن تک ان سے عذاب مُؤخّر فرمانے کی بات نہ گزر چکی ہوتی تو ان کافروں پر دنیا میں عذاب نازل فرما کر ان کے اور ایمان والوں کے درمیان کب کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔
اس آیت کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیاہے کہ اہلِ کتاب کو جب سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثَت کی خبر ملی تو اس وقت انہوں نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حسد کی وجہ سے آپس میں پھوٹ ڈالی۔( مدارک ، الشوری ، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۱۰۸۴، جلالین، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۴۰۲، تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۴، ۹ / ۵۸۸، ملتقطاً)
{لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِیْبٍ: اس کے متعلق ایک دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے کے یہود ی اور عیسائی اپنی کتاب پر مضبوط ایمان نہیں رکھتے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ یہود ی اور عیسائی اس قرآن کے متعلق شک میں مبتلا ہیں جس شک نے انہیں دھوکے میں ڈالا ہوا ہے۔(مدارک،الشوری،تحت الآیۃ: ۱۴، ص۱۰۸۴، بیضاوی، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۴، ۵ / ۱۲۵، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۹۳، ملتقطاً)
{فَلِذٰلِكَ فَادْعُ: تو اسی لیے (انہیں )بلاؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اُن کفار کے اس اختلاف اور پَراگندگی کی وجہ سے انہیں توحید اور سچے دین پر متفق ہونے کی دعوت دیں اور آپ(ان کے انکار کی وجہ سے دل تنگ نہ ہوں بلکہ) اس دین پر اور اس دین کی دعوت دینے پر ثابت قدم رہیں جیسا آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا گیاہے اور ان کی باطل خواہشوں کے پیچھے نہ چلیں اور کہیں کہ میں اُس کتاب پر ایمان لایا جو اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تمام کتابوں پر ایمان لایاکیونکہ پھوٹ ڈالنے والے بعض کتابوں پر ایمان لاتے تھے اور بعض سے کفر کرتے تھے، جیسا کہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍۙ-وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًاۙ(۱۵۰) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّ‘‘(النساء:۱۵۰،۱۵۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں میں فرق کریں اور کہتے ہیں ہم کسی پرتو ایمان لاتے ہیں اور کسی کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے بیچ میں کوئی راہ نکال لیں ۔ تو یہی لوگ پکے کافر ہیں۔
مزید ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ مجھے حکم دیا گیاہے کہ میں تمہارے درمیان تمام چیزوں میں ،تمام اَحوال میں اور ہر فیصلہ میں انصاف کروں ۔اللہ تعالیٰ ہمارا اور تمہارا سب کا رب ہے اور ہم سب اس کے بندے ہیں ۔ہم سے تمہارے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا اورنہ تم سے ہمارے اعمال کے بارے میں باز پُرس ہو گی بلکہ ہر ایک اپنے اپنے عمل کی جزا پائے گا۔ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑانہیں کیونکہ حق ظاہر ہو چکا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن جمع کرے گااور فیصلے کے لئے سب کو اسی کی طرف پھرنا ہے۔(مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۱۰۸۴-۱۰۸۵، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۹۳، ملتقطاً)
{اَللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ: اللہ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری۔} یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ قرآنِ پاک نازل کیاجو طرح طرح کے دلائل اور اَحکام پر مشتمل ہے نیز اس نے اپنی نازل کردہ کتابوں میں عدل کا حکم دیا ہے ۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ میزان سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کی ذاتِ گرامی مرادہے۔( مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۰۸۵، روح البیان، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۷، ۸ / ۳۰۲، ملتقطاً) کیونکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حق و باطل کو جانچنے کا معیار ہیں ۔
{وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِیْبٌ: اور تم کیا جانو شاید قیامت قریب ہی ہو۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قیامت کا ذکر فرمایا تو مشرکین نے جھٹلانے کے طور پر کہا کہ قیامت کب قائم ہوگی ؟اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور گویا کہ فرمایا گیا ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں عدل کرنے اور شریعت پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا تم قرآن پر عمل کرو اور عدل کرو ا س سے پہلے کہ تم پر تمہارے حساب اور اعمال کا وزن ہونے کا دن اچانک آ جائے۔( خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۹۳، مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۰۸۵، ملتقطاً)
دنیا کا باقی رہ جانے والا عرصہ بہت کم ہے:
یاد رہے کہ اس دنیا کا جو عرصہ کچھ گزر چکا ہے اس کے مقابلے میں وہ عرصہ بہت کم ہے جو ا س دنیا کا باقی رہ گیا ہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے بارے میں مروی ہے کہ آپ عرفات کے مقام میں ٹھہرے ہوئے تھے، جب سورج غروب ہونے لگا تو آپ نے ا س کی طرف دیکھا کہ وہ ڈھال کی مانند ہے، یہ دیکھ کر آپ بہت شدید روئے اور ’’اَللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ‘‘ سے لے کر ’’اَلْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ‘‘ تک آیات تلاوت فرمائیں ۔ آپ کے غلام نے عرض کی’’اے ابو عبد الرحمٰن!میں آپ کے ساتھ کئی مرتبہ کھڑا ہو اہوں لیکن کبھی آپ نے اس طرح نہیں کیا (آج آپ اتنا کیوں رو رہے ہیں )آپ نے فرمایا’’مجھے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یاد آگئے ،وہ اسی جگہ کھڑے تھے اور ارشاد فرمایا’’اے لوگو! تمہاری اس دنیا میں سے جو گزر چکا ہے ا س کے مقابلے میں جو باقی ہے وہ اس طرح ہے کہ جو وقت آج کے دن گزر چکا ہے اور جو باقی ہے۔( مستدرک،کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ حم عسق، اسباب نزول ہاروت وماروت۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۳۳، الحدیث: ۳۷۰۸)
اورحضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دنیا (کے جانے)اور آخرت(کے آنے) کی مثال اس کپڑے کی طرح ہے جو شروع سے آخر تک پھٹ گیا ہو اور آخر میں ایک دھاگے سے لٹک کر رہ گیا ہو ،عنقریب وہ دھاگہ بھی ٹوٹ جائے گا۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر تابعی التابعین، الفضیل بن عیاض، ۸ / ۱۳۸، الحدیث: ۱۱۶۳۰)
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے (ابتداء سے لے کر انتہاء تک) پوری دنیا کو تھوڑا بنایا اور اب اس میں سے جو باقی بچا ہے وہ تھوڑے سے بھی تھوڑا ہے اور باقی رہ جانے والے کی مثال اس حوض کی طرح ہے جس کا صاف پانی پی لیا گیا ہو اور(اس کی تہ میں موجود) گدلاپانی باقی رہ گیا ہو۔( مستدرک، کتاب الرقاق، تمثیل آخر للدنیا، ۵ / ۴۵۶، الحدیث: ۷۹۷۴)
علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کی شرح میں فرماتے ہیں :یعنی دنیا کی مثال ا س بڑے تالاب کی طرح ہے جو پانی سے بھرا ہو ا ہو اور اسے انسانوں اور جانوروں کے پانی پینے کے لئے بنایا گیا ہو،پھرپانی پینے والوں کی کثرت کی وجہ سے ا س کا پانی کم ہونا شروع ہو جائے یہاں تک کہ ا س کی تہ میں کیچڑ ہی باقی بچے جس میں جانور لوٹ پوٹ ہوتے ہوں ،تو عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا پر مُطمَئن نہ ہو اور نہ ہی یہ بات واضح ہو جانے کے بعد دنیا سے دھوکہ کھائے کہ یہ بہت جلد زائل ہو جانے والی ہے اور ا س کا اچھا حصہ گزر چکا ہے اور موت ضرور آنے والی ہے۔( فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۲ / ۲۷۹، تحت الحدیث: ۱۷۱۰، ملخصاً)
اورحضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جن چیزوں (میں مبتلا ہونے)کا میں اپنی امت پر خوف کرتا ہوں ان میں سے زیادہ خوفناک نفسانی خواہش اور لمبی امید ہے ۔ نفسانی خواہش بندے کو حق سے روک دیتی ہے اورلمبی امید آخرت کوبھلا دیتی ہے اور یہ دنیا کوچ کرکے جارہی ہے اور یہ آخرت کوچ کرکے آرہی ہے۔ ان دونوں میں سے ہر ایک کے طلبگار ہیں ، اگر تم یہ کرسکو کہ دنیا کے طلبگار نہ بنو تو ایساہی کرو، کیونکہ تم آج عمل کرنے کی جگہ میں ہو جہاں حساب نہیں (اس لئے جو چاہو عمل کر لو) جبکہ کل تم آخرت کے گھر میں ہو گے جہاں عمل نہ ہوگا(بلکہ اعمال کا حساب دینا ہو گا)۔( شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۷۰، الحدیث: ۱۰۶۱۶)
حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک دن نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا’’ آگاہ رہو کہ دنیا موجودہ سامان ہے جس سے نیک اور بد سبھی کھاتے ہیں ۔ آگاہ رہو کہ آخرت سچا وعدہ ہے جس میں قدرت والا بادشاہ فیصلہ فرمائے گا۔ خبردار! ساری راحت اپنے کناروں سمیت جنت میں ہے اور پوری مصیبت اپنے کناروں سمیت جہنم کی آگ میں ہے ۔ خبر دار! تم اللہ سے ڈرتے ہوئے نیک عمل کیا کرو (کہ نہ معلوم یہ عمل قبول ہوں یا نہ ہوں ) اور یاد رکھو! تم پر تمہارے اعمال پیش کیے جائیں گے توجو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے وہ اسے دیکھ لے گا اور جو ایک ذرہ بھر برائی کرے وہ اسے دیکھ لے گا۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الجمعۃ، باب کیف یستحبّ ان تکون الخطبۃ، ۳ / ۳۰۶، الحدیث: ۵۸۰۸)
اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اس باقی رہ جانے والے عرصے کو غنیمت جانتے ہوئے فوری طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دئیے ہوئے احکامات پرعمل پیراہوجائیں اور جن چیزوں سے ہمیں منع کیا گیا ہے ان سے بازآ جائیں اور دنیا کی قلیل زندگی سے دھوکہ کھا کر اپنی آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی کو خراب نہ کر لیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں نیک اعمال میں جلدی کرنے اور تاخیر کی آفت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{یَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهَا: قیامت کی جلدی مچارہے ہیں وہ جو اس پر ایمان نہیں رکھتے۔} ارشاد فرمایا کہ قیامت پر ایمان نہ لانے والے اس کے قائم ہونے کی جلدی مچارہے ہیں کیونکہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ قیامت قائم ہونے والی ہی نہیں،اسی لئے وہ مذاق اڑانے کے طور پر جلدی مچاتے ہیں اورایمان والے ثواب ملنے کی توقُع کے باوجود قیامت سے ڈر رہے ہیں اوراس کی ہَولْناکیوں سے کانپ رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ بیشک قیامت حق ہے اور اس کے آنے میں کوئی شک نہیں اسی لئے وہ اس کی تیاری کر رہے ہیں اور اس دن کے لئے نیک اعمال کرنے میں مصروف ہیں ۔سن لو! بیشک قیامت کے بارے میں شک کرنے والے ضرور دور کی گمراہی میں ہیں کیونکہ قیامت قائم کرنا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی بعید نہیں ۔(مدارک، الشوری، تحت الآیۃ:۱۸، ص۱۰۸۵، ابن کثیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۸، ۷ / ۱۸۰، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۸، ۴ / ۹۳، ملتقطاً)
قیامت پر ایمان رکھنے والے کو چاہئے کہ وہ نیک اعمال کر کے اس دن کی تیاری کرنے میں مصروف رہے۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مکانِ عالیشان میں آپ کے پاس تھا تو ایک شخص نے سوال کیا: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیامت کب آئے گی؟نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’بے شک وہ ضرور قائم ہو گی تو تم نے ا س کے لئے کیا تیاری کی ہے ؟ اس شخص نے عرض کی:میں نے بہت زیادہ نیک عمل تو نہیں کئے البتہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت رکھتا ہوں ۔ ارشاد فرمایا’’بے شک تم انہی کے ساتھ ہو گے جن سے تم محبت رکھتے ہو اور تمہیں وہی ثواب ملے گا جس کی تم امید رکھتے ہو۔( مسند امام احمد، مسند انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ، ۴ / ۴۵۰، الحدیث: ۱۳۳۶۱)
اس حدیث ِپاک سے بھی معلوم ہو اکہ حضورِ اَقدسصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سوال کرنے والے شخص کو قیامت کے وقت کے بارے میں نہیں بتایا بلکہ اسے قیامت کے دن کی تیاری کرنے کاحکم ارشاد فرمایا۔
{اَللّٰهُ لَطِیْفٌۢ بِعِبَادِهٖ: اللہ اپنے بندوں پر لطف فرمانے والا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بے شمار احسانات کرتا ہے اور اس کے احسانات کے دائرے میں نیک اور بد سبھی داخل ہیں حتّٰی کہ بندے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہوں میں مشغول رہتے ہیں اس کے باوجود وہ انہیں بھوک سے ہلاک نہیں کرتا۔اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق روزی دیتا ہے اور وسعت ِعیش عطا فرماتا ہے اور اس میں مؤمن اور کافر سبھی داخل ہیں۔(خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۹۳-۹۴)
رزق کی وسعت اور تنگی حکمت کے مطابق ہے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو زیادہ اور بعض کو کم رزق عطا فرماتا ہے اور اس وسعت اور تنگی میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں ہیں ۔ اسی سورت میں ایک اور مقام پر اس کی ایک حکمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ‘‘(شوری:۲۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر اللہ اپنے سب بندوں کیلئے رزق وسیع کردیتا تو ضرور وہ زمین میں فساد پھیلاتے لیکن اللہ اندازہ سے جتنا چاہتا ہے اتارتا ہے ، بیشک وہ اپنے بندوں سے خبردار (ہے، انہیں ) دیکھ رہاہے۔
اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بعض مؤمن بندے ایسے ہیں کہ مالداری اُن کے ایمان کی قوت کا باعث ہے اگر میں انہیں فقیر محتاج کردوں تو اُن کے عقیدے فاسد ہوجائیں اور بعض بندے ایسے ہیں کہ تنگی اور محتاجی ان کے ایمان کی قوت کا باعث ہے، اگر میں انہیں غنی مالدار کردوں تو اُن کے عقیدے خراب ہوجائیں۔( تاریخ بغداد، حرف الالف من آباء الابراہیمین، ۳۰۴۴-ابراہیم بن احمد بن الحسن۔۔۔ الخ، ۶ / ۱۴-۱۵)
لہٰذا جسے رزق میں تنگی کا سامنا ہے وہ یہ نہ سوچے کہ فلاں شخص کو اتنا مال ملا ہے،فلاں کو اتنی دولت عطا ہوئی ہے جبکہ میں رزق کے معاملے میں تنگیوں کا سامنا کر رہا ہوں بلکہ اسے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ رزق تھوڑا ملنے میں میری ہی بھلائی ہو گی کیونکہ جس چیز میں میری بھلائی ہے اسے میرا رب عَزَّوَجَلَّ بہتر جانتا ہے اور چونکہ رزق دینے والا بھی وہی ہے ا س لئے اس کی بارگاہ سے مجھے دوسروں کے مقابلے میں کم رزق ملنے میں یقینا میری دنیا اور آخرت کا بھلا ہو گا اور اسی میں میرے ایمان کی قیمتی ترین دولت کی حفاظت کا سامان ہو گا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ دولت ملنے کے بعد میرا دل بدل جائے اور میںاللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں مبتلا ہو کر اپنے ایمان کی دولت ضائع کر بیٹھوں اور قیامت کے دن جہنم کے دردناک عذاب میں ہمیشہ کے لئے مبتلا ہو جاؤں ۔ ایسا کرنے سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ پریشان دماغ کو راحت اور بے چین دل کو سکون نصیب ہو گا۔
{مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ: جو آخرت کی کھیتی چاہتا ہے۔} اس آیت میں اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے عمل کرنے والوں اور ان لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے جو اپنے اعمال کے ذریعے دُنْیَوی وجاہت اور سا زو سامان کے خواہش مندہیں ۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جسے اپنی نماز،روزہ اور دیگر اعمال سے آخرت کا نفع مقصود ہو تو ہم اسے نیکیوں کی توفیق دے کر ، اس کے لئے نیک اعمال اور اطاعت گزاری کی راہیں آسان کرکے اور اس کی نیکیوں کا ثواب دس گُنا سے لے کر سات سو گُنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ جتنا ہم چاہیں بڑھا کر ا س کے اُخروی نفع میں اضافہ کر دیتے ہیں اور جس کا عمل محض دنیا حاصل کرنے کے لئے ہو اور وہ آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو تو ہم اسے دنیامیں سے اُتنا دے دیتے ہیں جتنا ہم نے دنیا میں اس کے لئے مقدّر کیا ہے اور آخرت کی نعمتوں میں اس کا کچھ حصہ نہیں کیونکہ اس نے آخرت کے لئے عمل کیا ہی نہیں۔(جلالین مع صاوی،الشوری، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۱۸۶۹-۱۸۷۰، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۹۴، مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۱۰۸۶، ملتقطاً)
نیک اعمال سے اللہ تعالیٰ کی رضاکے طلبگار اور دنیا کے طلبگار کا حال:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے عمل کرے اور ان اعمال سے صرف اپنے خالق و مالک کی رضا حاصل کرنے کی نیت کرے تو اسے اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی نوازتا ہے اور آخرت میں بھی ا س پر اپنے لطف و کرم کی بارش فرمائے گا اور وہ شخص جو اپنی نماز، روزہ،حج ،زکوٰۃ، صدقہ و خیرات اور دیگر نیک اعمال سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت نہ کرے بلکہ ان اعمال کے ذریعے دنیا میں مال و دولت،عزت و شہرت اور اپنی واہ واہ چاہے تو دنیا میں اسے صرف اتنا ہی ملے گا جتنا اس کے نصیب میں لکھا ہے اور آخرت میں ان اعمال کے ثواب سے اسے محروم کر دیا جائے گا ۔اسی سے متعلق یہاں تین اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص(صرف) دنیا کی فکر میں رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملے کو پَراگندہ کر دیتا ہے اور ا س کی تنگ دستی کو اس کی آنکھوں کے سامنے کر دیتا ہے اور اسے دنیا سے صرف اتنا ہی حصہ ملتا ہے جتنا ا س کے لئے (پہلے سے) لکھ دیا گیا ہے اور جو شخص آخرت کا قصد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ا س کے معاملے کو اکٹھا کر دیتا ہے اور ا س کی مالداری کو اس کے دل میں رکھ دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس خاک آلود ہو کر آتی ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الہمّ بالدنیا، ۴ / ۴۲۴، الحدیث: ۴۱۰۵)
(2)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنی تمام فکروں کو صرف ایک فکر بنا دیا اور وہ آخرت کی فکر ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی دنیا کی فکر کے لئے کافی ہے اور جس کی فکریں دنیا کے اَحوال میں مشغول رہیں تو اللہ تعالیٰ کو اس کی پرواہ نہیں ہو گی کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہو رہا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الہمّ بالدنیا، ۴ / ۴۲۵، الحدیث: ۴۱۰۶)
(3)…حضرت جارود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے آخرت کے عمل کے بدلے دنیا طلب کی تو اس کا چہرہ بگاڑ دیاجائے گا،اس کا ذکر مٹا دیا جائے گا اور جہنم میں اس کا نام لکھ دیا جائے گا۔(معجم الکبیر، الجارود بن عمرو بن المعلی۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۶۸، الحدیث: ۲۱۲۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا حاصل کرنے کے لئے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
{اَمْ لَهُمْ شُرَكٰٓؤُا: یا ان کے لیے کچھ شریک ہیں۔} دنیا اور آخرت کے اعمال کے بارے میں ایک قانون بیان کرنے کے بعد اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وہ چیز بیان فرمائی ہے جو بد بختی اور گمراہی کی بنیاد ہے ۔اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کفارِ مکہ اُس دین کو قبول نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر فرمایا ہے بلکہ کافروں کے کچھ ساتھی ہیں ، شَیاطین وغیرہ جنہوں نے ان کے لیے کُفریَّہ دینوں میں سے وہ دین انہیں پیش کیا ہے جو شرک اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کے انکار پر مشتمل ہے اور یہ دین اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف ہے اور کفار اسی دین کو قبول کئے ہوئے ہیں جس کا انجام تو یہ ہے کہ اگر فیصلہ کرنے کی بات طے نہ ہوتی اور جزا کے لئے قیامت کا دن مُعَیَّن نہ فرمادیا گیا ہوتا تو یہیں ایمان والوں اور کفار میں فیصلہ کردیا جاتا اور دنیا ہی میں جھٹلانے والوں کو عذاب میں گرفتار کردیا جاتا اور بیشک آخرت میں ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ یاد رہے کہ اس آیت میں ظالموں سے مراد کافر ہیں۔(تفسیر کبیر، الشوری ، تحت الآیۃ : ۲۱ ، ۹ / ۵۹۲، جلالین، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۴۰۳، مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۱۰۸۶، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۹۴، ملتقطاً)
{تَرَى الظّٰلِمِیْنَ: تم ظالموں کو دیکھو گے۔} اس آیت میں قیامت کے دن عذاب کے حق داروں اور ثواب پانے والوں کا حال بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ تم قیامت کے دن ظالموں کو اس حال میں دیکھو گے کہ وہ اس اندیشے سے اپنے کفر اور خبیث اعمال سے ڈر رہے ہوں گے کہ اب انہیں ان اعمال کی سزا ملنے والی ہے۔یہ چاہے ڈریں یا نہ ڈریں ، ان کے اعمال کا وبال ان پر ضرور پڑ کر رہے گا اور یہ اس سے کسی طرح بچ نہیں سکتے اور ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کا حال یہ ہو گا کہ وہ جنتوں کے نعمتوں سے بھرے ہوئے باغات میں ہوں گے کیونکہ وہ جنت کے سب سے زیادہ پاکیزہ مقام ہیں ۔ ان کے لیے ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس وہ تمام چیزیں ہوں گی جو وہ چاہیں گے اورتھوڑے عمل پریہی بڑا فضل ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ فاسق و فاجر مسلمان بھی(اپنے اعمال کی سزا پانے کے بعد یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا کے بغیر ہی بخش دئیے جانے کے بعد ) جنت میں جائیں گے البتہ وہاں ان کے مقام میں فرق ہو گا کہ اچھے اعمال کرنے والے مسلمان پھولوں سے بھرے ہوئے باغات میں ہوں گے اور ان کے علاوہ مسلمان جنت کے دیگر حصوں میں ہوں گے۔(تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۲، ۹ / ۵۹۳، مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۱۰۸۶، ملتقطاً)
{قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا: تم فرماؤمیں اس پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ اے لوگو،میں رسالت کی تبلیغ پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا ، (جیسے دوسرے کسی نبی نے تبلیغِ دین پر کوئی معاوضہ نہیں مانگا۔)اس کے بعد جداگانہ طور پر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ظلم و ستم کرنے سے باز رکھنے کیلئے فرمایا کہ تمہیں کم از کم میرے ساتھ اپنی قرابَتداری یعنی رشتے داری کا خیال کرنا چاہیے ، یعنی چونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے ہیں اور کفارِ مکہ بھی اپنی مختلف شاخوں کے اعتبار سے قریش سے تعلق رکھتے تھے تو انہیں کہا گیا کہ اگر تم ایمان قبول نہیں بھی کرتے تو کم از کم رشتے داری کا لحاظ کرتے ہوئے ایذاء رسانی سے تو باز رہو۔
{وَ مَنْ یَّقْتَرِفْ حَسَنَةً: اور جو نیک کام کرے۔} آیت کے اس حصے میں نیک کام کرنے والوں کو بشارت دی جا رہی ہے کہ جو نیک کام کرے گا تو ہم اسے اس جیسے مزید نیک کام کرنے اور ان میں اخلاص کی توفیق عطا کر کے اس کے لیے نیک کام میں مزید خوبی بڑھادیں گے ، بیشک اللہ تعالیٰ گناہگاروں کو بخشنے والا اور اپنے اطاعت گزاروں کی قدر فرمانے والا ہے۔(روح البیان، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۳، ۸ / ۳۱۲)
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا: بلکہ یہ کافر کہتے ہیں : اس نے اللہ پر جھوٹ گھڑ لیاہے۔} اس سے پہلے آیت نمبر3میں بیان ہوا کہ قرآنِ مجید وہ کلام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف وحی فرمایا ہے اور اب یہاں سے قرآنِ مجید کے بارے میں کافروں کا ایک اعتراض ذکر کیا جا رہا ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں کفارِ مکہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ کرکے اور قرآنِ کریم کو اللہ تعالیٰ کی کتاب بتا کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑ لیاہے؟ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ کافروں کا یہ قول بہتان ہے کیونکہ اے نبی! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر وہ چاہتا تو آپ کے دل پر مہر لگا دیتا یعنی اگر بالفرض آپ جھوٹی بات گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کے دل پر مہر لگا دیتا(جس سے قرآن آپ کے سینے سے سَلب ہو جاتااور جب اللہ تعالیٰ نے ایسی مہر نہیں لگائی تو معلوم ہو اکہ آپ نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہیں باندھا بلکہ کفار یہ دعویٰ کرنے میں جھوٹے ہیں) یونہی اللہ تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیتا اور حق کو اپنے کلام سے ثابت فرماتا ہے ،تو اگر بالفرض آپ جھوٹے ہوتے تو اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور رسوا کر دیتا اور باطل کا پردہ فاش کر دیتا لیکن معاملہ اس کے برخلاف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قوت اور مدد کے ساتھ آپ کی تائید فرمائی ہے تو یقینا آپ سچے ہیں اور اس سے بھی معلوم ہواکہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جھوٹے نہیں اور اللہ تعالیٰ پر بہتان لگانے والے ہر گز نہیں ہیں ، البتہ کافر جھوٹے ہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ تودلوں تک کی باتیں جانتا ہے ، تواسے کافروں کے عقائد، اَقوال اور اَحوال سب کی خبر ہے اور وہ انہیں اس کی خوب سزا دے گا۔(تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۴، ۹ / ۵۹۶-۵۹۷، البحر المحیط، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۴، ۷ / ۴۹۴، ملتقطاً)
{وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ: اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے۔} اس آیت میں فرمایا گیا کہ جو لوگ اپنے کفر اور بد اعمالیوں سے توبہ کر لیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لے گا کیونکہ اس کی شان یہ ہے کہ وہ ہر گناہگار کی توبہ قبول فرماتا ہے اگرچہ ا س کا گناہ کتنا ہی بڑا ہو اور اس توبہ کی برکت سے اس کے گناہوں سے در گزر فرماتا اور اسے معاف فرما دیتا ہے اوراے لوگو! جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ جانتا ہے تو وہ تمہارے نیک اعمال پر تمہیں ثواب اور برے اعمال پر سزا دے گا۔
توبہ کرنے کی ترغیب:
یاد رہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت اور فضل ہے کہ وہ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا اور ان کے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اوراس آیت میں توبہ کی قبولیّت کا مُژدہ سنا کر گناہ کرنے والوں کو اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ‘‘(توبہ:۱۰۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور خود صدقات (اپنے دستِ قدرت میں ) لیتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والامہربان ہے۔
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر ا س سے بھی زیادہ راضی ہوتا ہے جیسے کوئی آدمی پُرخَطر منزل پر ٹھہرے اور اس کے پاس سواری ہو جس کے اوپر کھانے پینے کی چیزیں ہوں چنانچہ وہ اپنا سر رکھ کر سوجاتا ہے اور جب بیدار ہوتا ہے تو ا س کی سواری کہیں جاچکی ہوتی ہے،پھر گرمی اور پیاس کی شدت اسے تڑپاتی ہے یا جو اللہ تعالیٰ چاہے(اس کے ساتھ ہوتا ہے)۔پھراس نے کہا میں اپنی جگہ کی طرف لوٹ جاتا ہوں چنانچہ وہ لوٹ آتا اور پھر سو جاتا ہے،جب(بیدار ہو کر) سر اٹھاتا ہے تو ا س کی سواری پاس ہوتی ہے(تو وہ اس پر خوش ہوتا ہے)۔( بخاری، کتاب الدعوات، باب التوبۃ، ۴ / ۱۹۰، الحدیث: ۶۳۰۸)
اور مسلمانوں کو سچی توبہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ‘‘(تحریم:۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جس کے بعد گناہ کی طرف لوٹنا نہ ہو، قریب ہے کہ تمہارا رب تمہاری برائیاں تم سے مٹا دے اور تمہیں ان باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ۔
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ اگر اس سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سچی توبہ کرے ،علما ء فرماتے ہیں کہ ہر ایک گناہ سے توبہ واجب ہے اور توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی بدی اور معصِیَت سے باز آجائے اور جو گناہ اس سے صادر ہوا اس پر نادم ہو اور ہمیشہ گناہ سے بچے رہنے کا پختہ ارادہ کرے اور اگر گناہ میں کسی بندے کی حق تَلفی بھی تھی تو اس حق سے شرعی طریقے سے بَریٔ الذِّمہ ہوجائے۔( خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۵، ۴ / ۹۶)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’سچی توبہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے وہ نفیس شی ٔبنائی ہے کہ ہر گناہ کے اِزالہ کو کافی ووافی ہے۔ کوئی گناہ ایسانہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک و کفر (بھی باقی نہیں رہتے)۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پر اس لئے کہ وہ اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی تھی نادم وپریشان ہو کر فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دل سے پورا عزم کرے ،جو چارۂ کار اس کی تَلافی کا اپنے ہاتھ میں ہو بجالائے مثلاً نماز روزے کے ترک یا غصب، سَرقہ(یعنی چوری)، رشوت، رِبا (یعنی سود) سے توبہ کی توصرف آئندہ کے لئے ان جرائم کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرورہے کہ جو نماز روزے ناغہ کئے ان کی قضا کرے ،جو مال جس جس سے چھینا ، چُرایا، رشوت، سود میں لیا انھیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کوواپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے توا تنا مال تَصَدُّق کردے اور دل میں نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگر تَصَدُّق پرراضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انھیں پھیردوں گا۔(فتاویٰ رضویہ، کتاب الحظروالاباحۃ، اعتقادیات وسیر، ۲۱ / ۱۲۱-۱۲۲)سود میں لئے گئے مال کے بارے میں یہ بھی اجازت ہوتی ہے کہ جس سے لیا ہے اسے دینے کی بجائے ابتداء میں ہی صدقہ کردے یعنی سود دینے والے کو لوٹانا ہی ضروری نہیں ہوتا۔([1])
{وَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ: اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔} اگرہم عمل کرتے وقت یہ سوچ لیا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ظاہری اور پوشیدہ ہرعمل کو جانتاہے اور وہ ہمارے تمام کاموں کو دیکھ رہا ہے تو امید ہے کہ کبھی گناہ کرنے کی ہمت نہ کریں۔ اسی سے متعلق ایک اور مقام پراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
’’اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْۙ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ‘‘(حم السجدہ:۴۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم جو چاہو کرتے رہو، بیشک اللہتمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے :
’’ یَعْلَمُ خَآىٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ‘‘(مومن:۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ آنکھوں کی خیانت کوجانتا ہے اوراسے بھی جو سینے چھپاتے ہیں ۔
حضرت شعیب حریفیش رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ بندوں سے بے نیاز ہے ،وہ انہیں اپنی اطاعت اور (توحید و رسالت پر) ایمان لانے کا حکم دیتا ہے اور ان کے لئے کفر و شرک پر راضی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ نہ اسے بندوں کی اطاعت وعبادت نفع پہنچاتی ہے اور نہ ہی ان کی نافرمانی سے کوئی نقصان ہوتا ہے اور اے گنہگار انسان!اس نے تجھے اپنی فرمانبرداری کا حکم محض اس لئے دیا اور اپنی نافرمانی سے ا س لئے منع فرماتاہے تاکہ تجھے تیرے یقین کی آنکھ سے اپنی قدرت کا مشاہدہ کرائے اور تیرے لئے تیرے دین اوردنیا کا معاملہ واضح فرما دے، لہٰذا توہر وقت اس کی طرف متوجہ رہ، اس سے ڈر اور اس کی نافرمانی سے بچتا رہ۔ اگر تواسے نہیں دیکھ سکتا تواس بات پر یقین رکھ کہ وہ تو تجھے یقینا دیکھ رہا ہے۔ نمازوں کی پابندی کر جن کا اس نے تجھے تاکیدی حکم دیا ہے اور سحری کے وقت عاجزی و اِنکساری سے اس کی بارگاہ میں کھڑا ہو،بے شک وہ تجھ پر اپنی روشن نعمتیں نچھاور فرمائے گااور تجھے تیرے مقصود تک پہنچا کر تجھ پر احسان فرمائے گا۔ کیااس نے ماں کے پیٹ کے اندھیروں میں تیری حفاظت نہیں کی اور وہاں اپنے لطف وکرم سے تجھے خوراک مہیا نہیں کی؟ …کیا اس نے تجھے کمزور پیدا کر کے، پھر رزق فراہم کرکے تجھے قوی نہیں کیا؟… کیا اس نے تیری پیدا ئش اور پرورش اچھی طرح نہ کی؟… کیا اس نے تجھے عزت نہیں بخشی اور تیرے ٹھکانے کو معزز نہیں بنایا؟… کیا تجھے ہدایت اور تقویٰ جیسی عظیم دولت کا اِلہام نہیں فرمایا؟… کیا تجھے عقل دے کر ایمان کی طرف تیری رہنمائی نہیں فرمائی ؟…کیااس نے تجھے اپنی نعمتیں عطا نہیں فرمائیں ؟…کیااس نے تجھے اپنی فرمانبرداری کا حکم نہیں دیااوراس کی تاکید نہیں کی اور کیا اس نے تجھے اپنی نافرمانی سے نہیں ڈرایا اور اس سے منع نہیں کیا؟… کیا اس نے تجھے ندا دے کر اپنے درِرحمت پر نہیں بلایا؟…کیا اس نے سحری کے وقت تجھے اپنے مکرم خطاب سے بیدار نہیں کیا اور تجھ سے راز کی باتیں نہ کیں ؟ …کیا اس نے تجھ سے آخرت میں کامیابی اور جزا کا وعدہ نہیں فرمایا؟… کیا تو نے سوال کیا اور دعا کی تو اس نے تیرے سوال کا جواب نہیں دیا اور تیری دعا قبول نہیں کی؟… جب تو نے مصیبتوں میں مدد مانگی تو کیا اس نے تیری مدد نہیں فرمائی اور تجھے نجات عطا نہیں کی؟…اور جب تو نے اس کی نافرمانی کی تو کیا اس نے اپنے حِلم سے تیری پردہ پوشی نہیں فرمائی اور تجھے اپنی رحمت سے نہیں ڈھانپا؟ …کیا تو نے کئی مرتبہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے غضب کو دعوت نہیں دی لیکن پھر بھی اس نے تجھے راضی رکھا؟… تو کیا تجھے یہ زیب دیتا ہے کہ تو گناہوں اور نافرمانیوں سے اس کا سامنا کرے؟ وہ تجھ پر اپنا رزق کشادہ کرتا ہے لیکن تو اس کی نافرمانی میں اضافہ کرتاہے ۔ تو لوگوں سے تو چھپ سکتاہے لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپ سکے گا۔ وہ (تیرے اعمال پر) گواہ اور تجھے دیکھ رہا ہے،توکب تک تو اپنی گمراہی اور خواہشات کے سمندر میں غرق رہے گا؟ اگر تو نجات چاہتا ہے تو ندامت کی کشتی پر سوار ہو جا اور اپنے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سچی توبہ کر کے فائدہ اٹھا۔ اپنے آپ کو اخلاص کے ساحل پر ڈال دے تو وہ تجھے نجات اور خلاصی عطا فرمادے گا۔( الروض الفائق، المجلس الحادی والاربعون فی مناقب الصالحین رضی اللّٰہ عنہم اجمعین، ص۲۲۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
[1] ۔۔۔۔ توبہ سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’توبہ کی روایات وحکایات‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اورایمان والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کی دعا قبول فرماتا ہے۔} ار شاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے جو ایمان لائیں اور اچھے اعمال کریں اور اپنے فضل سے لوگوں کی طلب سے بڑھ کر انہیں عطا فرماتا ہے اور کافروں کے لیے سخت عذاب ہے۔( مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۱۰۸۸)
دعا قبول نہ ہونے کا ایک سبب:
معلوم ہوا کہ مقبول بندوں کی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھے اعمال دعا کی قبولیت میں بہت معاون ہیں ۔اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اچھے اعمال کرنے کی بجائے ہر وقت برے اعمال کرنے میں مصروف رہتے ہیں ،اس کے باوجود ان کی زبانیں اس شکوہ سے تر نظر آتی ہیں کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوتی،انہیں چاہئے کہ اگر دعا قبول کروانی ہے تو برے اعمال چھوڑ کر نیک اعمال کرنے میں مصروف ہوجائیں اِنْ شَآءَ اللہ ان کی دعاؤں کی قبولیت بھی ظاہر ہو گی۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ایک شخص طویل سفرکرے،اس کے بال اُلجھے اور کپڑے گَرد میں اَٹے ہوئے ہوں ،وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے اوراے میرے رب!اے میرے رب!کہے اور اس کا کھانا حرام سے اور پینا حرام سے اور پہننا حرام سے اورپرورش پائی حرام سے، تو اس کی دعا کہاں قبول ہو گی۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیّب وتربیتہا، ص۵۰۶، الحدیث: ۶۵(۱۰۱۵))
کسی نے حضرت ابراہیم بن ادہم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے دریافت کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں لیکن وہ قبول نہیں ہوتیں ؟آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا’’اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جس کام کا حکم دیا ہے تم وہ نہیں کرتے ۔( مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۱۰۸۸)
{وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ: اور اگر اللہ اپنے سب بندوں کیلئے رزق وسیع کردیتا تو ضرور زمین میں فساد پھیلاتے۔}اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو غریب اور بعض کو مالدار بنانے کی حکمت بیان فرمائی ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کیلئے رزق وسیع کردیتا تو وہ ضرور زمین میں فساد پھیلاتے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے تمام بندوں کا رزق ایک جیساکر دے تو یہ بھی ہوسکتا تھا کہ لو گ مال کے نشے میں ڈوب کر سرکشی کے کام کرتے اور یہ بھی صورت ہوسکتی تھی کہ جب کوئی کسی کا محتاج نہ ہو گا تو ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنا ناممکن ہو جائے گا جیسے کوئی گندگی صاف کرنے کے لئے تیار نہ ہو گا،کوئی سامان اٹھانے پر راضی نہ ہو گا،کوئی تعمیراتی کاموں میں محنت مزدوری نہیں کرے گا، یوں نظامِ عالَم میں جو بگاڑ پیدا ہو گااسے ہر عقلمند با آسانی سمجھ سکتاہے۔
اللہ تعالیٰ کے اَفعال حکمتوں اور مَصلحتوں سے خالی نہیں :
ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اگرچہ بندوں کی بہتری اور فائدے کے لئے اَفعال کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں ، ا س کے باوجود اللہ تعالیٰ کے اَفعال حکمتوں اور مَصلحتوں سے خالی نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے حال کو جانتا ہے کہ اگر ا س پر دنیا کا رزق وسیع کر دیا تو یہ وسعت بندے کے اعمال کو فاسد کر دے گی،اس لئے اس پر رزق تنگ کر دینے میں ہی اسی کی مَصلحت اور بہتری ہے، لہٰذا کسی پر رزق تنگ کر دینے میں اس کی توہین نہیں اور نہ ہی کسی پر رزق کشادہ کر دینا اس کی فضیلت ہے۔مزید فرماتے ہیں’’تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر مَوقوف ہیں ،وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ اپنے کسی فعل پر جواب دِہ نہیں کیونکہ وہ علی الاطلاق مالک ہے۔(قرطبی، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۷، ۸ / ۲۱، الجزء السادس عشر، ملخصاً)
امیری ،غریبی،بیماری اور تندرستی کی بہت بڑی حکمت:
ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ امیر،کچھ لوگ غریب،کچھ بیمار اور کچھ تندرست ہیں ،اس میں یقینا اللہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں ، یہاں لوگوں کے احوال میں اس فرق کی ایک بہت بڑی حکمت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت انسرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’بے شک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ا ن کے ایمان کی بھلائی مالداری میں ہے ،اگر میں انہیں فقیر کر دوں تو اس کی وجہ سے ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔بے شک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی فقیری میں ہے،اگر میں انہیں مالدار بنا دوں تو اس کی وجہ سے ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔بے شک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی صحت مند رہنے میں ہے ،اگر میں انہیں بیمار کر دوں تو اس بنا پر ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔بے شک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی بیمار رہنے میں ہے،اگر میں انہیں صحت عطا کر دوں تو اس کی وجہ سے ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔ میں اپنے علم سے اپنے بندوں کے معاملات کا انتظام فرماتا ہوں ،بے شک میں علیم و خبیر ہوں۔(حلیۃ الاولیاء، الحسین بن یحی الحسینی، ۸ / ۳۵۵، الحدیث: ۱۲۴۸۵)
اسی طرح کی ایک حدیث پاک آیت نمبر17کی تفسیر میں بھی گزر چکی ہے ،ان اَحادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کی امیری،غریبی،بیماری اور تندرستی حکمت کے عین مطابق ہے اور اُخروی اعتبار سے بہت بڑے فائدے کی حامل ہے لہٰذا جسے اللہ تعالیٰ نے دولت عطا کی اسے چاہئے کہ وہ ا س دولت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں خرچ کرے ۔جسے اللہ تعالیٰ نے غریب رکھااسے چاہئے کہ وہ اپنی غربت اور تنگدستی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اسی کی بارگاہ سے صبر کرنے کی توفیق مانگے اور آسانی طلب کرتا رہے ۔جو تندرست ہے وہ اس نعمت کو غنیمت جانے اور اپنی جسمانی صحت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت زیادہ کرنے کا فائدہ اٹھائے، اور جوبیمار ہے وہ بیماری کو اپنے حق میں مصیبت نہ سمجھے بلکہ یہ ذہن بنائے کہ اس بیماری کے ذریعے میری خطائیں معاف ہو رہی ہیں اور میرے ایمان کو تباہی سے بچایا جا رہا ہے اور یہ دونوں چیزیں آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی میں بہت کام آنے و الی ہیں ۔ اس سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ دل اور دماغ کو راحت نصیب ہو گی۔
{وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ: اور اس کی نشانیوں سے ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کے دلائل اور اس کی قدرت کے عجائبات میں سے زمین و آسمان کی پیدائش ہے،کیونکہ یہ دونوں اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے اپنے خالق کی قدرت اور کمالات پر دلالت کرتے ہیں ۔ان نشانیوں کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’اَفَلَمْ یَنْظُرُوْۤا اِلَى السَّمَآءِ فَوْقَهُمْ كَیْفَ بَنَیْنٰهَا وَ زَیَّنّٰهَا وَ مَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ(۶)وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِیْجٍۙ(۷) تَبْصِرَةً وَّ ذِكْرٰى لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ‘‘(ق:۶۔۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہ دیکھا ہم نے اسے کیسے بنایا اور سجایا اور اس میں کہیں کوئی شگاف نہیں ۔ اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں بڑے بڑے پہاڑ ڈالے اور اس میں ہر بارونق جوڑا اگایا۔ ہر رجوع کرنے والے بندے کیلئے بصیرت اور نصیحت کیلئے۔
مزید ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو زمین پر چلنے والے انسان اور دیگر جاندار پیدا فرمائے ہیں یہ سب بھی اس کی قدرت اور وحدانیّت کی نشانیوں میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ جب اور جس وقت چاہے ان سب کو حشر کے لئے اکٹھا کرنے پر قادر ہے۔( جلالین مع صاوی، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۹، ۵ / ۱۸۷۴، ملخصاً)
{وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی۔} اس آیت میں ان مُکَلَّف مومنین سے خطاب ہے جن سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثراُن کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں ،اُن تکلیفوں کو اللہ تعالیٰ اُن کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے۔
مصیبتیں آنے کا ایک سبب:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر آنے والی مصیبتوں کا ایک سبب ان کا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ کرنا ہے،اگر یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہیں تو مصیبتوں سے بچ سکتے ہیں ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’ (اے لوگو!) تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے ’’اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں انہیں رات میں بارش سے سیراب کروں گا، دن میں ان پر سورج کو طلوع کروں گا اور انہیں کڑک کی آواز تک نہ سناؤں گا۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃرضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۲۸۱، الحدیث: ۸۷۱۶)
نیز انہیں چاہئے کہ ان پر اپنے ہی اعمال کی وجہ سے جو مصیبتیں آ تی ہیں ان میں بے صبری اور شکوہ شکایت کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ انہیں اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھتے ہوئے صبر و شکر سے کام لیں ،ترغیب کے لئے یہاں گناہوں کی وجہ سے آنے والی مصیبتوں سے متعلق اور ان مصیبتوں کے گناہوں کا کفارہ ہونے کے بارے میں 5اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔پھر رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ‘‘۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الشوری۔۔۔ الخ، ۵ / ۱۶۹، الحدیث: ۳۲۶۳)
(2)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’نیک کاموں سے عمر بڑھتی ہے،دعا تقدیر کو ٹال دیتی ہے اور بے شک آدمی اپنے کسی گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات، ۴ / ۳۶۹، الحدیث: ۴۰۲۲)
(3)…حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’لکڑی کی خراش لگنا،قدم کا ٹھوکر کھانا اور رگ کا پھڑکنا کسی گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے وہ ا س سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں ۔پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ‘‘۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الافعال، الصبر علی البلایا مطلقاً، ۲ / ۳۰۴، الجزء الثالث، الحدیث: ۸۶۶۶)
(4)… حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مومن کو کانٹا چبھنے یا اس سے بڑی کوئی تکلیف پہنچتی ہے توا س کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا ا س کی ایک خطا مٹادیتا ہے۔( مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب ثواب المؤمن فیما یصیبہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۹۱، الحدیث: ۴۷(۲۵۷۲))
(5)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مومن کی بیماری ا س کے گناہوں کے لئے کفارہ ہوتی ہے۔( شعب الایمان ، السبعون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، فصل فی ذکر ما فی الاوجاع و الامراض ۔۔۔ الخ ، ۷ / ۱۵۸ ، الحدیث: ۹۸۳۵)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اطاعت میں مصروف رہنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،مشکلات اور مَصائب سے ہماری حفاظت فرمائے اور آنے والی مشکلات پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
تناسُخ کے قائلین کا رد:
یاد رہے کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جو کہ گناہوں سے پاک ہیں اور چھوٹے بچے جو کہ مُکَلَّف نہیں ہیں ، ان سے اس آیت میں خطاب نہیں کیا گیا ،اوربعض گمراہ فرقے جو تناسُخ یعنی روح کے ایک بدن سے دوسرے بدن میں جانے کے قائل ہیں وہ اس آیت سے اِستدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ چھوٹے بچوں کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ ان کے گناہوں کا نتیجہ ہو اور ابھی تک چونکہ اُن سے کوئی گناہ ہوا نہیں تو لازم آیا کہ اس زندگی سے پہلے کوئی اور زندگی ہو گی جس میں گناہ ہوئے ہوں گے۔ ان کا اس آیت سے اپنے باطل مذہب پر اِستدلال باطل ہے کیونکہ بچے اس کلام کے مُخاطَب ہی نہیں جیسا کہ عام طور پر تمام خطابات عقلمند اور بالغ حضرات کو ہی ہوتے ہیں ۔( خزائن العرفان، الشوریٰ، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۸۹۵، ملخصاً)
نیز بالفرض اگر ان لوگوں کی بات کو ایک لمحے کے لئے تسلیم کرلیں تو ان سے سوال ہے کہ بچوں کو تکالیف تو یقینی طور پر آتی ہی ہیں خواہ وہ ان لوگوں کے عقیدے کے مطابق ساتواں جنم ہو یا پہلا ، تو سوال یہ ہے کہ بچوں کے پہلے جنم میں جو تکلیفیں آتی ہیں وہ کون سے گناہوں کی وجہ سے ہوتی ہیں ؟کیونکہ اس سے پہلے تو کوئی جنم ان کے عقیدے کے مطابق بھی نہیں گزرا ہوتا۔
{وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ: اور تم زمین میں(اللہ کو) بے بس نہیں کرسکتے۔} یعنی جو مصیبتیںاللہ تعالیٰ نے تمہارے نصیب میں لکھ دی ہیں تم ان سے کہیں بھاگ نہیں سکتے اور نہ ہی ان سے بچ سکتے ہو اور نہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تمہارا کوئی دوست ہے اورنہ مددگار کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف تمہیں مصیبت اور تکلیف سے بچاسکے۔(مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۱۰۹۰)
یاد رہے کہ اس آیت میں دعائیں داخل نہیں کیونکہ دعا اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کبھی کچھ نہیں کرتی بلکہ اس کی مرضی کے موافق کرتی ہے اوردعا کے نتیجے میں خود خدا وند ِ قدوس ہی رحمت فرماتا ہے ،یونہی اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں کا معاملہ ہے کہ ان کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ تقدیر بدل دیتا اور بلائیں ٹال دیتا ہے۔حضرت سلمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تقدیر کو دعا ہی بدل سکتی ہے اور نیکی ہی سے عمر بڑھتی ہے۔( ترمذی، کتاب القدر، باب ما جاء لا یردّ القدر الاّ الدعاء، ۴ / ۵۴، الحدیث: ۲۱۴۶)
{اِنْ یَّشَاْ یُسْكِنِ الرِّیْحَ: اگروہ چاہے تو ہوا کو روک دے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگراللہ تعالیٰ چاہے تو اس ہوا کو روک دے جوکشتیوں کو چلاتی ہے تو تمام کشتیاں سمندرکی پشت پرٹھہری رہ جائیں اور چل ہی نہ پائیں ،یا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو مخالف سمت سے ہوا بھیج کر بعض کشتیوں کو اس میں سوار لوگوں کے گناہوں کے سبب غرق کردے اور بہت سے لوگوں کے گناہوں سے درگزرفرمادے کہ اُن پر عذاب نہ کرے اور انہیں ڈوبنے سے محفوظ رکھے۔بیشک اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کشتیوں کے چلنے اور رکنے میں ضرورہر بڑے صبرکرنے والے، شکر کرنے والے کیلئے نشانیاں ہیں ۔
یہاں صابر شاکر سے مخلص مومن مراد ہے جو سختی و تکلیف میں صبر کرتا ہے اور راحت و عیش میں شکراور مقصد یہ ہے کہ مومن بندے پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دلائل سے کسی طرح غافل نہ ہو کیونکہ مومن بندہ یا تو سختی اور تکلیف میں مبتلاء ہو گا یا راحت و عیش میں ہو گا،لہٰذااسے چاہئے کہ اگر اس پر سختی اور تکلیف آئے تو وہ صبر کرے اور نعمتیں ملیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔( روح البیان، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۳، ۸ / ۳۲۴، تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۳، ۹ / ۶۰۲، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴ / ۹۸، مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۱۰۹۰، ملتقطاً)
شکرکے 15 فضائل:
یہاں آیت کی مناسبت سے شکر کے 15 فضائل ملاحظہ ہوں :
(1)…شکر ادا کرتے ہوئے کھانے والے کا اجر صبر کرتے ہوئے روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔( مستدرک، کتاب الاطعمۃ، الطاعم الشاکر مثل الصائم الصابر، ۵ / ۱۸۸، الحدیثـ: ۷۲۷۷)
(2)…اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو اس کا صلہ دے گا۔( اٰل عمران:۱۴۴)
(3)…شکر کرنے سے بندہ عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔( النساء:۱۴۷)
(4)…شکر کرنے سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔( ابراہیم:۷)
(5)…اللہ تعالیٰ اپنی حمد و شکر کئے جانے کو پسند فرماتا ہے۔( معجم الکبیر، الاسود بن شریع المجاشعی، ۱ / ۲۸۳، الحدیث: ۸۲۵)
(6)…شکر کرنے والا دل بندے کے ایمان پر مددگار ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۵، الحدیث: ۳۱۰۵)
(7)…شکر گزار دل دین و دنیا کے اُمور پر مددگار ہے۔( شعب الایمان، الثالث والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۰۴، الحدیث: ۴۴۳۰)
(8)…عطا پر شکر کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہونے کا سبب ہے۔( شعب الایمان، الثالث والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۰۵، الحدیث: ۴۴۳۲)
(9)…وہ خیر جس میں کوئی شر نہیں ،عافِیَّت کے ساتھ شکر کرنا ہے۔( شعب الایمان، الثالث والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۰۶، روایت نمبر: ۴۴۳۶)
(10)…آسانی میں شکر کرنے والا زاہد ہے۔( شعب الایمان، الثالث والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۰۶، روایت نمبر: ۴۴۳۸)
(11)…شکر ایمان کا نصف حصہ ہے۔( شعب الایمان، الثالث والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۰۹، روایت نمبر: ۴۴۴۸)
(12)…اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے۔( ابن عساکر، محمد بن عبد اللّٰہ بن محمد بن عبید اللّٰہ بن ہمام۔۔۔ الخ، ۵۴ / ۱۶)
(13)…قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے افضل ترین بندے وہ ہوں گے جو بہت شکر گزار ہوں گے۔( معجم الکبیر، عبد الرحمٰن بن مورق العجلی عن مطرف، ۱۸ / ۱۲۴، الحدیث: ۲۵۴)
(14)…شکر ادا کرنے سے بندہ زوالِ نعمت سے بچ جاتا ہے۔( مسند الفردوس، باب الحاء، ۲ / ۱۵۵، الحدیث: ۲۷۸۳)
(15)…جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کی عمر دراز کر دیتا اور انہیں شکر کا اِلہام فرماتا ہے۔(مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۲۴۶، الحدیث: ۹۵۳)
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں اپنا شکر ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ یَعْلَمَ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا: اور ہماری آیتوں میں جھگڑنے والے جان جائیں ۔} یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو لوگوں کو سمندر میں غرق کردے اور قرآنِ پاک کو جھٹلانے والے جان جائیں کہ ان کیلئے اللہ تعالیٰ کی گرفت اور ا س کے عذاب سے بھا گنے کی کوئی جگہ نہیں۔(جلالین، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۴۰۴، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۵، ۴ / ۹۸، ملتقطاً)
{فَمَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ: تو تمہیں جو کچھ دیا گیاہے۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنا سارا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کردیا ، اس پر عرب کے لوگوں نے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو ملامت کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے حق میں یہ آیت نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! تمہیں جو کچھ دُنْیَوی مال و اَسباب دیا گیاہے وہ آخرت کا زادِ راہ نہیں بلکہ صرف چند روز کی دُنْیَوی زندگی کا سازو سامان ہے اور یہ ہمیشہ باقی نہیں رہے گا، جبکہ جو اجرو ثواب اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ ایمان والوں اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر بھروسہ کرنے والوں کیلئے بہتر اور زیادہ باقی رہنے والاہے۔(مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۱۰۹۰، جلالین، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۴۰۴، ملتقطاً)
دنیا کی نعمتوں کے مقابلے میں اُخروی اجر و ثواب ہی بہتر ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دُنْیَوی مال و دولت،شان و شوکت اور سازو سامان کے مقابلے میں اُخروی اجرو ثواب ہی بہتر ہے اور ہر مسلمان کو اسی کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔چنانچہ اس سے متعلق ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُهَاۚ-وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘(قصص:۶۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (اے لوگو!) جو کچھ چیز تمہیں دی گئی ہے تو وہ دنیوی زندگی کا سازو سامان اور اس کی زینت ہے اور جو (ثواب) اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور زیادہ باقی رہنے والاہے تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
اور ارشاد فرمایا:
’’زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(۱۴) قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْؕ-لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ‘‘(ال عمران:۱۴، ۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: لوگوں کے لئے ان کی خواہشات کی محبت کو آراستہ کردیا گیا یعنی عورتوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے ڈھیروں اور نشان لگائے گئے گھوڑوں اورمویشیوں اور کھیتیوں کو (ان کے لئے آراستہ کردیا گیا۔) یہ سب دنیوی زندگی کا سازوسامان ہے اور صرف اللہ کے پاس اچھا ٹھکاناہے۔ (اے حبیب!) تم فرماؤ ،کیا میں تمہیں ان چیزوں سے بہتر چیز بتادوں ؟ (سنو، وہ یہ ہے کہ) پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور (ان کیلئے) پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی خوشنودی ہے اور اللہ بندوں کو دیکھ رہا ہے۔
اور اُخروی ثواب اور انعامات حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ‘‘(صافات:۶۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اُخروی نعمتوں کی اہمیت کو سمجھنے اور ان نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ الَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ: اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے اجتناب کرتے ہیں ۔} یعنی اجر وثواب ان کیلئے بھی ہے جو کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے اِجتناب کرتے ہیں ۔ کبیرہ گناہ وہ ہے جس کے کرنے پر دنیا میں حد جاری ہو جیسے قتل، زنا اور چوری وغیرہ یا اس پر آخرت میں عذاب کی وعید ہو جیسے غیبت،چغل خوری،خود پسندی اور ریا کاری وغیرہ ۔بے حیائی کے کاموں سے وہ تمام کام اور باتیں مراد ہیں جو معیوب اور قبیح ہوں۔(روح البیان، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۷، ۸ / ۳۲۸، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۹۸، ملخصاً)
کبیرہ گناہوں سے بچنے والے کا ثواب:
اس آیت میں کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچنے والوں کے لئے قیامت کے دن اجر و ثواب کی بشارت سنائی گئی ہے۔کبیرہ گناہوں سے بچنے والوں کے بارے میں ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا‘‘(النساء:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے دوسرے گناہ بخش دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔
اورحضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا،نماز قائم کی،زکوٰۃ ادا کی، رمضان کے روزے رکھے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا رہا تو ا س کے لئے جنت ہے۔ایک شخص نے عرض کی:( یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)، کبیرہ گناہ کیا ہیں ؟ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا،کسی مسلمان کو (ناحق) قتل کرنا اور کفار سے جنگ کے دن میدان سے فرار ہونا۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی ایوب الانصاری رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۹ / ۱۳۲، الحدیث: ۲۳۵۶۵)
اور بے حیائی کے کاموں سے بچنے والوں کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَؕ-اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ‘‘(النجم:۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں مگر اتنا کہ گناہ کے پاس گئے اور رک گئے بیشک تمہارے رب کی مغفرت وسیع ہے۔
اور حضرت سہل بن سعد ساعدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو مجھے ا س چیز کی ضمانت دے جو دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے (یعنی شرمگاہ) اور جو دونوں جبڑوں کے درمیان ہے (یعنی زبان)تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔( بخاری، کتاب المحاربین من اہل الکفر والرّدۃ، باب فضل من ترک الفواحش، ۴ / ۳۳۷، الحدیث: ۶۸۰۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
نوٹ:کبیرہ گناہوں سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے سورۂ نساء ،آیت نمبر31کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں اور تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’اَلزَّوَاجِر لِاِقْتِرَافِ الْکَبَائِر‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔([1])
{وَ اِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ یَغْفِرُوْنَ: اور جب انہیں غصہ آئے تومعاف کردیتے ہیں ۔} اس آیت میں کسی پر غصہ آنے کی صورت میں معاف کر دینے والے کو بھی اجر و ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔ علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب غصہ آئے تو اس وقت در گُزر کرنا اور بُردباری کا مظاہرہ کرنا اَخلاقی اچھائیوں میں سے ہے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ در گزر کرنے سے کسی واجب میں خَلَل واقع نہ ہو اور اگر کسی واجب میں خَلَل واقع ہو تو غضب کا اظہار کرنا ضروری ہے جیسے کوئی اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کسی کام کو کرے تو اس وقت در گزر سے کام نہیں لیا جائے گا بلکہ اس پر غصہ کرنا واجب ہے۔(مراد یہ کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پردل میں ناراضگی کا آنا ضروری ہے ،یہ ضروری نہیں کہ گناہ کے مُرتکِب پر اظہار بھی کیا جائے ۔ اس کا دارومدار موقع محل کی مناسبت پر ہے۔)( صاوی، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۱۸۷۸)
غصہ آنے پر معاف کر دینے کی فضیلت:
غصہ آنے پر معاف کر دینے کی فضیلت بکثرت اَحادیث میں بھی بیان ہوئی ہے ،چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص اپنے غصے کو نافذ کرنے پر قادر ہونے کے باوجود غصہ پی جائے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے تمام مخلوق کے سامنے بلائے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے اختیار دے گا کہ حورِ عِین میں سے جو حور وہ چاہے لے لے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من کظم غیظاً، ۴ / ۳۲۵، الحدیث: ۴۷۷۷)
اورحضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے غصہ ضبط کر کے ا س کا گھونٹ پیا یا جس نے مصیبت کے وقت صبر کا گھونٹ پیا، اللہ تعالیٰ کو اس گھونٹ سے زیادہ کوئی گھونٹ پسند نہیں اور اللہ تعالیٰ کے خوف سے جس شخص کی آنکھ نے ا ٓنسو کا قطرہ گرا یا اور خون کا وہ قطرہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں گرا ا س سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو کوئی قطرہ پسند نہیں ۔( کتاب الجامع فی آخر المصنف، باب الغضب والغیظ وما جاء فیہ،۱۰ / ۱۹۵، الحدیث: ۲۰۴۵۷)
غصہ آنے کا بنیادی سبب اور غصے کے 3علاجـ:
غصہ آنے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جب انسان کسی اور سے کوئی بات کرتا یا اسے کوئی کام کرنے کا کہتا ہے اور وہ بات نہیں مانتا یا وہ کام نہیں کرتا تو غصہ آجاتا ہے،ایسی حالت میں انسان کو چاہئے کہ وہ ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کر دے یا ایسے اَسباب اختیار کرے جن سے غصہ ٹھنڈا ہو جائے اور دل و دماغ کو تسکین حاصل ہو،ترغیب کے لئے یہاں غصہ ٹھنڈا کرنے کے 3 طریقے ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہم سے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے ،اگر ا س کا غصہ چلا جائے تو ٹھیک ورنہ اسے چاہئے کہ لیٹ جائے۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۴۷۸۳)
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہئے کہ خاموش ہو جائے۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن العباس۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۱۵، الحدیث: ۲۱۳۶)
علامہ ابنِ رجب حنبلی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’یہ غصے کا بہت بڑا علاج ہے کیونکہ غصہ کرنے والے سے غصے کی حالت میں ایسی بات صادر ہو جاتی ہے جس پر اسے غصہ ختم ہونے کے بعد بہت زیادہ ندامت اٹھانی پڑتی ہے، جیسے غصے کی حالت میں گالی وغیرہ دے دینا جس کا نقصان بہت زیادہ ہے ،تو جب وہ خاموش ہو جائے گا تو اسے اس کے کسی شر کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔( جامع العلوم و الحکم، الحدیث السادس عشر، ص۱۸۴)
(3)…حضرت عطِیَّہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیاگیا ہے اور آگ کو پانی کے ذریعے ہی بجھایا جا سکتا ہے ، لہٰذاجب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے وضو کر لینا چاہئے۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۴۷۸۴)
اللہ تعالیٰ ہمیں غصہ کرنے سے بچنے اور غصہ آجانے کی صورت میں معاف کردینے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔([2])
[1] ۔۔۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بنام ’’جہنم میں لے جانے والے اعمال‘‘ مکتبۃ المدینہ سے شائع ہو چکا ہے، وہاں سے ہدیۃً حاصل کر کے اس کا مطالعہ فرمائیں۔
[2] ۔۔۔ غصہ اور عَفْوو درگُزرسے متعلق اہم معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر ِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ان رسائل’’غصے کا علاج‘‘ اور ’’عفوو درگزر کے فضائل‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ: اور وہ جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا۔} یعنی اجر و ثواب ان لوگوں کے لئے بھی ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار اور اس کی عبادت کرکے اپنے رب کا حکم مانااورپابندی کے ساتھ نماز پڑھتے رہے اور جب انہیں کوئی کام درپیش ہوتو وہ ان کے باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور وہ ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت انصار کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبانِ اَقدس سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی دعوت قبول کرکے ایمان اور طاعت کو اختیار کیا۔ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہجرت سے پہلے ان پر بارہ نقیب مقرر فرمائے، ان انصار کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ وہ تمام شرائط و آداب کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور جب انہیں کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تو پہلے آپس میں مشورہ کرتے ہیں پھر وہ کام سرانجام دیتے ہیں ،اس میں وہ جلد بازی اور اپنی من مرضی نہیں کرتے اور وہ ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔(جلالین مع صاوی،الشوری،تحت الآیۃ:۳۸، ۵ / ۱۸۷۸-۱۸۷۹،روح البیان،الشوری،تحت الآیۃ:۳۸،۸ / ۳۳۱،ملتقطاً)
نماز پڑھنے کی اہمیت:
اس آیت میں انصار کا ایک وصف یہ بیان ہو اہے کہ وہ تمام شرائط و آداب کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ۔ نماز کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس عمل کا حساب ہو گا وہ نماز ہے،اگر یہ عمل صحیح ہوا تو کامیابی اور نجات ہے اور اگر یہ ٹھیک نہ ہوا تو وہ ناکام ہوا اور ا س نے نقصان اٹھایا۔اگر فرض نماز میں کچھ کمی رہ گئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’کیا میرے بندے کے پاس کوئی نفل ہے،پھر اس سے فرض کی کمی پوری کی جائے گی،پھر تمام اعمال کا یہی حال ہو گا۔(ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء انّ اوّل یحاسب بہ العبد۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۲۱، الحدیث: ۴۱۳)
مشورہ کرنے کی اہمیت:
اور ایک وصف یہ بیان ہو اہے کہ وہ باہمی مشورے سے اپنے کام کرتے ہیں ۔مشورے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی اِجتہادی اُمور میں صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ‘‘(ال عمران:۱۵۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔
اورتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعدصحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ بھی دینی اور دُنْیَوی اہم اُمور باہمی مشورے سے طے کیا کرتے تھے ۔
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تمہارے حاکم اچھے لوگ ہوں ،تمہارے مالدار سخی لوگ اور تمہارے کام باہمی مشورے سے طے ہوں تو زمین کا ظاہر اس کے باطن سے تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اور جب تمہارے حاکم شریر لوگ ہوں ، تمہارے مالدار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو اس وقت زمین کا پیٹ تمہارے لئے اس کے ظاہر سے زیادہ بہتر ہے۔(ترمذی، کتاب الفتن، ۷۸-باب، ۴ / ۱۱۸، الحدیث: ۲۲۷۳)
اورحضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :جو قوم مشورہ کرتی ہے وہ صحیح راہ پر پہنچتی ہے۔(مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۱۰۹۰)
صدقہ دینے کی اہمیت:
اور ایک وصف یہ بیان ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں ۔ اس سے مراد تمام قسم کے صدقات ہیں ، حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندہ جب صدقہ دینے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ سائل کے ہاتھ میں جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے دست ِقدرت میں آجاتا ہے اور جو بندہ بلا ضرورت سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر فَقر کا دروازہ کھول دیتا ہے۔(معجم الکبیر، وما اسند عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما، مقسم عن ابن عباس، ۱۱ / ۳۲۰، الحدیث: ۱۲۱۵۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے،اپنے اہم کاموں میں صحیح مشورہ دینے والوں سے مشورہ کرنے اور صدقہ وخیرات کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَهُمُ الْبَغْیُ: اور وہ کہ جنہیں جب کوئی زیادتی پہنچے۔} یعنی اجر و ثواب ان کیلئے بھی ہے کہ جن پر کوئی ظلم کرے تو وہ اس سے انصاف کے ساتھ بدلہ لیتے ہیں اور بدلہ لینے میں حد سے تجاوُز نہیں کرتے۔
ابنِ زید کا قول ہے کہ مومن دو طرح کے ہیں ایک وہ جو ظلم کو معاف کرتے ہیں ۔ پہلی آیت میں اُن کا ذکر فرمایا گیا۔ دوسرے وہ جو ظالم سے بدلہ لیتے ہیں ، ان کا اس آیت میں ذکر ہے۔
اورحضرت عطا رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہ وہ مومنین ہیں جنہیں کفار نے مکہ مکرمہ سے نکالا اوراُن پر ظلم کیا پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سرزمین میں تَسَلُّط دیا اور اُنہوں نے ظالموں سے بدلہ لیا۔( مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۱۰۹۱، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۹۸-۹۹، ملتقطاً)
ظالم سے بدلہ لینے کی بجائے اسے معاف کر دینا بہتر ہے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ ظالم سے بدلہ لینا جائز ہے اور اس سے اتنا ہی بدلہ لیا جائے گا جتنا اس نے ظلم کیا لیکن بدلہ لینے پر قدرت کے باوجود معاف کر دینا بہت بہتر ہے۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک زندگی میں اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں ،ان میں سے 4 مثالیں درج ذیل ہیں ،
(1)… صلحِ حُدَیْبِیَہ کے سال جبل ِتنعیم کی طرف سے اسّی افراد کا گروہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوشہید کرنے کے ارادے سے آیا،جب آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان پر غلبہ پا لیا تو انتقام پر قدرت کے باوجود ان پر احسان کرتے ہوئے چھوڑ دیا۔
(2)…غورث بن حارث جس نے نیند کی حالت میں سر کارِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر وار کرنے کی کوشش کی، لیکن حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیدار ہو گئے اور جب اس کی تلوار آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قبضے میں آگئی اور صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو بلا کر ا س کے ارادے سے باخبر بھی کر دیاتو قدرت کے باوجود آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے معاف کر دیا۔
(3)… لبید بن عاصم جس نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرجادو کیا ،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کر دیا۔
(4)…مرحب یہودی کی بہن زینب جس نے زہر لگی ران بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں بھیجی، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی ذات کی وجہ سے ا س سے کوئی بدلہ نہ لیا لیکن جب حضرت بشر بن براء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس زہر کے اثر کی وجہ سے انتقال کر گئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس عورت پر شرعی سزا جاری کی۔(تفسیر ابن کثیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۳۹، ۷ / ۱۹۳-۱۹۴)
{وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا: اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے۔} اس کا معنی یہ ہے کہ بدلہ جرم کے برابر ہونا چاہیے اوراس میں زیادتی نہ ہو، اور بدلے کو برائی سے صورۃً مشابہ ہونے کی وجہ سے مجازی طور پربرائی کہا جاتا ہے کیونکہ جس کو وہ بدلہ دیاجائے اسے برا معلوم ہوتا ہے اور بدلے کو برائی کے ساتھ تعبیر کرنے میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اگرچہ بدلہ لینا جائز ہے لیکن معاف کر دینا اس سے بہتر ہے۔( مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۱۰۹۱، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۹۹، ملتقطاً)
{فَمَنْ عَفَا: تو جس نے معاف کیا۔} یعنی جس نے ظالم کو معاف کر دیا اور معافی کے ذریعے اپنے اور ظالم کے مابین معاملے کی اصلا ح کی تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ٔکرم پر ہے۔بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو ظلم کی ابتداء کرتے ہیں یا بدلہ لینے میں حد سے تجاوُز کرتے ہیں ۔( مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۱۰۹۱)
ظالم کو معاف کردینے کے فضائل:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ برائی کے برابر بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے لیکن بدلہ نہ لینا اور معاف کر دینا افضل ہے۔ ترغیب کے لئے یہاں ظالم کو معاف کر دینے کے دو فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ قیامت کے دن عرش کے درمیانی حصے سے ایک مُنادی اعلان کرے گا’’اے لوگو! سنو،جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ٔکرم پر ہے اسے چاہئے کہ وہ کھڑ اہو جائے،تو اس شخص کے علاوہ اور کوئی کھڑا نہ ہو گا جس نے(دنیا میں ) اپنے بھائی کا جرم معاف کیا تھا۔(ابن عساکر، ذکر من اسمہ ربیعۃ، ۲۱۵۹-الربیع بن یونس بن محمد بن کیسان۔۔۔ الخ، ۱۸ / ۸۷)
(2)… حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے (جنت میں ) محل بنایا جائے اور اس کے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے اسے معاف کر دیا کرے ،جو اسے محروم کرے اسے عطا کیا کرے اور جو اس سے تعلق توڑے تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کیا کرے۔(مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ آل عمران، شرح آیۃ: کنتم خیر امّۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۲، الحدیث: ۳۲۱۵)
یاد رہے کہ ظالم سے بدلہ لینا ایک فطرتی تقاضا ہے اور شریعت نے ا س کی اجازت بھی دی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی نے تھپڑ مارا تو اسے دو تھپڑ مارے جائیں ،کسی نے سر پھاڑا تو اس کے سر کے ساتھ ساتھ اس کے جسم کو بھی ادھیڑ کر رکھ دیاجائے ،کسی نے بازو توڑا تو اس کے بازو کو جسم سے ہی اتار دیا جائے ،کسی نے ٹانگ توڑی تو اس کی ٹانگ ہی کاٹ دی جائے ،کسی نے قتل کر دیا تو ا س کے پورے خاندان کو ہی موت کی نیند سلا دیا جائے بلکہ جتنا اس پر ظلم ہوا اتنا ہی بدلہ لینے کی اجازت ہے اس سے زیادہ بدلہ ہر گز نہیں لے سکتا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’وَ كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِۙ-وَ الْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّۙ-وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌؕ-فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗؕ-وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ‘‘(مائدہ:۴۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے تورات میں ان پرلازم کردیاتھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت (کا قصاص لیا جائے گا) اور تمام زخموں کا قصاص ہوگاپھر جو دل کی خوشی سے (خود کو) قصاص کے لئے پیش کردے تویہ اس کا کفارہ بن جائے گا اور جواس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔
اس آیت میں اگرچہ یہود یوں پر قصاص کے اَحکام بیان ہوئے لیکن چونکہ ہمیں اُن کے ترک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا اس لئے ہم پر بھی یہی اَحکام لازم ہیں ،لہٰذا بدلہ لینے میں اس کی حد سے ہر گز تجاوُز نہ کیا جائے بلکہ کوشش یہی کی جائے کہ جس نے ظلم کیا اسے معاف کر دیا جائے تاکہ آخرت میں کثیر اجر و ثواب حاصل ہونیز جہاں بدلہ لینا بھی ہے وہاں بھی حاکمِ وقت کے ذریعے لیا جائے گا ، نہ یہ کہ خود ہی قاضی بن گئے اور خود ہی جَلّاد۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan