Surah ash-Shura
{وَ لَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ: اور بے شک جس نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لیا۔} یعنی جنہوں نے ظالم کے ظلم کے بعد اس سے اپنی مظلومی کا بدلہ لیا ان پر کوئی سزا نہیں کیونکہ انہوں نے وہ کام کیا ہے جو ان کے لئے جائز تھا۔( روح البیان، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۱، ۸ / ۳۳۶)
مظلوم کا بدلہ لینا ظلم نہیں :
{اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ: گرفت صرف ان لوگوں پر ہے جولوگوں پر ظلم کرتے ہیں ۔} یعنی گرفت صرف ان لوگوں پر ہے جو ابتداء ً لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور تکبُّر اور گناہوں کا اِرتکاب کرکے اور فساد برپا کر کے زمین میں ناحق سرکشی پھیلاتے ہیں ،ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔(مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۱۰۹۱، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۲، ۴ / ۹۹، ملتقطاً)
ظلم کی اَقسام:
یاد رہے کہ ظلم کی دو قسمیں ہیں (1) شخصی ظلم ۔(2) قومی ظلم۔آیت کے ا س حصے ’’یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ‘‘ میں شخصی ظلم مراد ہے جیسے کسی کو مارنا، گالی دینا، مال مار لینا، اور آیت کے اس حصے ’’وَ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ‘‘ میں قومی ظلم مراد ہے، جیسے ملک و قوم سے غداری اوربادشاہِ اسلام سے بغاوت وغیرہ۔دونوں قسم کے ظالموں سے بدلہ لینا چاہیے ، لیکن پہلے ظالم کو معافی دے دینا حسنِ اَخلاق ہے اوردوسرے ظالم کو بلاوجہ معافی دینا سخت ظلم ہے،اسے عبرتناک سزا دینی چاہئے تاکہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرے۔یہ آیتِ کریمہ ملکی انتظامات، حُکّام کے فیصلوں اور معاملات کی جامع آیت ہے۔
{وَ لَمَنْ صَبَرَ: اور بیشک جس نے صبر کیا۔} یعنی جس نے اپنے مجرم کے ظلم اور ایذا پر صبر کیا اور اپنے ذاتی معاملات میں بدلہ لینے کی بجائے اسے معاف کر دیا تویہ ضرور ہمت والے کاموں میں سے ہے کہ اس میں نفس سے مقابلہ ہے کیونکہ اپنے مجرم سے بدلہ لینے کا نفس تقاضا کرتاہے لہٰذا اسے مغلوب کرنا بہادری ہے۔
ظلم پر صبر کرنے کے فضائل:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر ظالم سے بدلہ نہ لینے میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو تو ظلم پرصبر کرلینا اور ظالم کو معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے۔ظلم پر صبر کرنے سے متعلق ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖؕ-وَ لَىٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ‘‘(نحل:۱۲۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر تم (کسی کو) سزا دینے لگو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہو اور اگر تم صبر کرو تو بیشک صبر والوں کیلئے صبر سب سے بہتر ہے۔
اورحضرت کبشہ انماری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مظلوم جب ظلم پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء مثل الدنیا مثل اربعۃ نفر، ۴ / ۱۴۵، الحدیث: ۲۳۳۲)
اورحضرت عمرو بن شعیب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو جمع فرمائے گا تو ایک مُنادی ندا کرے گا:فضل والے کہاں ہیں ؟تو کچھ لوگ کھڑے ہوں گے اور ان کی تعداد بہت کم ہو گی۔جب یہ جلدی سے جنت کی طرف بڑھیں گے تو فرشتے ان سے ملاقات کریں گے اور کہیں گے :ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم تیزی سے جنت کی طرف جا رہے ہو،تم کون ہو؟وہ جواب دیں گے: ہم فضل والے ہیں ۔فرشتے کہیں گے:تمہارا فضل کیا ہے؟وہ جواب دیں گے جب ہم پر ظلم کیا جاتا تھا تو ہم صبر کرتے تھے اور جب ہم سے برائی کا برتاؤ کیا جاتا تھا تو اسے برداشت کرتے تھے۔پھر ان سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جاؤ اور اچھے عمل والوں کا ثواب کتنا اچھا ہے۔(الترغیب والترہیب، کتاب الادب وغیرہ، الترغیب فی الرفق والانا ۃ والحلم، ۳ / ۲۸۱، الحدیث: ۱۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں ظالموں کے ظلم اور شریروں کے شر سے محفوظ فرمائے،اور ظلم ہونے کی صورت میں صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ تَرٰىهُمْ: اور تم انہیں دیکھو گے۔} یعنی جب ظالموں کو آگ پر پیش کیا جائے گا تو ا س وقت تم انہیں اس حال میں دیکھو گے کہ وہ ذلت و خوف کے باعث جہنم کی آگ کو ایسی چھپی نگاہوں سے دیکھیں گے جیسے قتل کا ملزم اپنے قتل کے وقت تلوار کو دیکھتا ہے کہ یہ اب مجھ پر چلنے والی ہے اور جب ایمان والے کفار کا یہ حال دیکھیں گے توکہیں گے :بیشک نقصان اٹھانے والے وہی ہیں جو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے دن ہار بیٹھے۔اپنی جانوں کوہارنا تو یہ ہے کہ وہ کفر اختیار کرکے جہنم کے دائمی عذاب میں گرفتار ہوئے اور گھر والوں کو ہارنا یہ ہے کہ ایمان لانے کی صورت میں جنت کی جو حوریں اُن کے لئے نامزد تھیں ان سے وہ محروم ہوگئے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ خبردار! بیشک ظالم یعنی کافر ہمیشہ کے عذاب میں ہیں۔(مدارک، الشوری،تحت الآیۃ: ۴۵، ص۱۰۹۲، جلالین، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۴۰۴-۴۰۵، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۵، ۴ / ۹۹، ملتقطاً)
{وَ مَا كَانَ لَهُمْ مِّنْ اَوْلِیَآءَ: اور ان کیلئے دوست نہ ہوں گے۔} یعنی جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کافروں کو عذاب دے گا تو اس وقت ان کے کوئی دوست نہ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کی مدد کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے عذاب سے بچا سکیں ،اور جسے اللہ تعالیٰ دنیا میں حق کے راستے سے بھٹکا دے تو اس کے لئے ایسا کوئی راستہ نہیں جو اسے دنیا میں حق تک اور آخرت میں جنت تک پہنچا سکے ،کیونکہ کسی کو ہدایت دے دینا یا اس میں گمراہی پیدا کر دینا اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کے اختیار میں نہیں ۔(تفسیرطبری، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۶، ۱۱ / ۱۶۰، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۹۹، ملتقطاً)
{اِسْتَجِیْبُوْا لِرَبِّكُمْ: اپنے رب کا حکم مان لو۔} اس سے پہلی آیات میں وعدہ اورو عید بیان کرنے کے بعد اب اس آیت میں وہ چیز بیان کی جارہی ہے جو مقصودِ اصلی ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! وہ دن جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ٹلنے والا نہیں ، اس کے آنے سے پہلے پہلے تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے داعی کا حکم مان لواور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ پر ایمان لے آؤ نیز تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے جوکچھ یہ لائے ہیں اس میں ان کی فرمانبرداری کرلو۔اے لوگو! (یاد رکھو،جب وہ دن آئے گاتو)اس دن تمہارے لئے کوئی جائے پناہ نہ ہو گی کہ جس میں پناہ لے کر تم اپنے دُنْیَوی کفر کی بنا پر نازل ہونے والے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکو اور نہ تمہارے لئے اپنے کفر و شرک اور گناہوں سے انکار کرنا ممکن ہوگا، الغرض !اس دن رہائی کی کوئی صورت نہیں ، نہ عذاب سے بچ سکوگے اورنہ اپنے ان قبیح اَعمال کا انکار کرسکو گے جو تمہارے اعمال ناموں میں درج ہیں ۔آیت میں جس دن کا ذکر ہوا اس سے موت کا دن یا قیامت کا دن مراد ہے۔(تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۷، ۹ / ۶۰۸-۶۰۹، تفسیرطبری، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۷، ۱۱ / ۱۶۰، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۹۹-۱۰۰، مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۱۰۹۲، ملتقطاً)
آخرت بہتربنانے کا موقع صرف دنیا کی زندگی ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہم اپنی آخرت کو سنوارنے کے لئے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ اسی دنیا کی زندگی میں کرنا ہو گا،موت کے وقت اور قیامت کا دن آنے کے بعد نیک اعمال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ میں نہ رہے گا۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ‘‘(انفال:۲۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے اور جان لو کہ اللہ کا حکم آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجا تا ہے اور یہ کہ اسی کی طرف تمہیں اٹھایا جائے گا۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’لِلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰىﳳ-وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهٗ لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْحِسَابِ ﳔ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمِهَادُ‘‘(رعد:۱۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا انہیں کے لیے بھلائی ہے اور جنہوں نے اس کا حکم نہ مانا (ان کا حال یہ ہوگا کہ) اگر زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اور اس جیسا اور اِس کے ساتھ ہوتا تو اپنی جان چھڑانے کو دے دیتے۔ ان کے لئے برا حساب ہوگا اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اپنی سانسوں کوغنیمت جانتے ہوئے اپنی آخرت کے بھلے کے لئے جوہو سکتا ہے وہ کر لیں ورنہ موت سر پہ آگئی تو پچھتانے کے سواکچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۹)وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ-فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰)وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَاؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘(منافقون:۹۔۱۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے اس وقت سے پہلے پہلے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرلو کہ تم میں کسی کو موت آئے تو کہنے لگے، اے میرے رب! تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالحین میں سے ہوجاتا۔ اور ہرگز اللہ کسی جان کو مہلت نہ دے گا جب اس کا وعدہ آجائے اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے :
’’حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ(۹۹) لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّاؕ-اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىٕلُهَاؕ-وَ مِنْ وَّرَآىٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۱۰۰)فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَىٕذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ(۱۰۱)فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲)تَلْفَحُ وُجُوْهَهُمُ النَّارُ وَ هُمْ فِیْهَا كٰلِحُوْنَ‘‘(مومنون:۹۹۔۱۰۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آتی ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے رب! مجھے واپس لوٹادے۔ جس دنیا کو میں نے چھوڑدیا ہے شاید اب میں اس میں کچھ نیک عمل کرلوں ۔ ہرگز نہیں ! یہ تو ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور ان کے آگے ایک رکاوٹ ہے اس دن تک جس دن وہ اٹھائے جائیں گے۔ تو جب صُورمیں پھونک ماری جائے گی تو نہ ان کے درمیان رشتے رہیں گے اور نہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں گے۔ تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی کامیاب ہونے والے ہوں گے۔اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو یہ وہی ہوں گے جنہوں نے اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالا، (وہ) ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ان کے چہروں کو آگ جلادے گی اور وہ اس میں منہ چڑائے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی زندگی میں اپنی آخرت کی بھرپور تیار ی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{فَاِنْ اَعْرَضُوْا: تو اگر وہ منہ پھیریں ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ا رشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے دینِ اسلام کی دعوت دینے کے باوجود اگر وہ مشرکین ایمان لانے اور آپ کی اطاعت کرنے سے منہ پھیر رہے ہیں تو آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں ، کیونکہ ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بناکر نہیں بھیجا کہ آپ پر ان کے اعمال کی حفاظت لازم ہو،آپ پر صرف رسالت کی تبلیغ کی ذمے داری ہے اور وہ آپ نے ادا کردی۔( تفسیرطبری، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۸، ۱۱ / ۱۶۱، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۸، ۴ / ۱۰۰، جلالین، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۴۰۵، ملتقطاً)
{وَ اِنَّاۤ اِذَاۤ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً: جب ہم آدمی کو اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ دیتے ہیں ۔} آیت کے اس
{لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لیے ہے۔} یعنی آسمانوں اور زمین کاحقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے،وہ ان میں جیسا چاہتاہے تَصَرُّف فرماتا ہے اوراس میں کوئی دخل دینے اور اِعتراض کرنے کی مجال نہیں رکھتا۔( روح البیان، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۹، ۸ / ۳۴۲، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۹، ۴ / ۱۰۰، ملتقطاً)
اپنی مِلکِیَّت میں موجود چیزوں پر غرور نہ کیا جائے:
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہ بیان فرمانے سے مقصود یہ ہے کہ کوئی انسان اپنی مِلکِیَّت میں موجود مال اور عزت و شہرت کی وجہ سے مغرور نہ ہو ،کیونکہ جب اسے اس بات کا یقین ہو گا کہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے یہ اس پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے تو اس صورت میں وہ مزید اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری کی طرف مائل ہو گا اور جب ا س کا اعتقاد یہ ہو گا کہ ا س کے پاس جو نعمتیں ہیں وہ اس کی عقلمندی اور کوشش کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں تو وہ اپنے نفس پر غرورکرے گا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے دور ہوجائے گا۔(تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۴۹، ۹ / ۶۰۹)
{یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا: جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے۔} آیت کے اس حصے اور ا س کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے عالَم میں اپنے تَصَرُّف اور اپنی نعمت کو تقسیم کرنے کی صورتیں بیان فرمائی ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ وہ جسے چاہے صرف بیٹیاں عطا فرمائے اور بیٹانہ دے اور جسے چاہے صرف بیٹے دے اور بیٹیاں نہ دے اور جسے چاہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں ملا کردے اور جسے چاہے بانجھ کردے کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو۔ وہ مالک ہے، اپنی نعمت کو جس طرح چاہے تقسیم کرے اورجسے جو چاہے دے۔ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں بھی کئی صورتیں پائی جاتی ہیں ، جیسا کہ حضرت لوط اور حضرت شعیب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاں صرف بیٹیاں تھیں ،کوئی بیٹا نہ تھا جبکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاں صرف بیٹے تھے ،کوئی بیٹی نہیں تھی اور انبیاء کے سردار، حبیب ِخدا،محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ نے چار (یا تین)فرزند عطا فرمائے اور چار صاحب زادیاں عطا فرمائیں ۔
بیٹے اور بیٹیاں دینے یا نہ دینے کا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے:
ان آیات سے معلوم ہوا کہ کسی کے ہاں صرف بیٹے پیدا کرنے،کسی کے ہاں صرف بیٹیاں پیدا کرنے اور کسی کے ہاں بیٹے اور بیٹیاں دونوں پیدا کرنے کا اختیار اور قدرت صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے،کسی عورت کے بس میں یہ بات نہیں کہ وہ اپنے ہاں بیٹا یا بیٹی جو چاہے پیدا کر لے، اور جب یہ بات روشن دن سے بھی زیادہ واضح ہے تو بیٹی پیدا ہونے پر عورت کو مَشقِ سِتم بنانا،اسے طرح طرح کی اَذِیَّتیں دینا،بات بات پہ طعنوں کے نشتر چبھونا ،آئے دن ذلیل کرتے رہنا،صرف بیٹیاں پیدا ہونے پر اسے منحوس سمجھنا اورطلاق دے دینا،قتل کی دھمکیاں دینا بلکہ بعض اوقات قتل ہی کر ڈالنا ،یہ ا س مجبور اور بے بس کے ساتھ کہاں کا انصاف ہے،افسوس!ہمارے آج کے معاشرے میں مسلمانوں نے اُس طرزِ عمل کو اپنایا ہوا ہے جو دراصل کفار کا طریقہ تھا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ(۵۸) یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖؕ-اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ‘‘(سورۃ النحل:۵۸،۵۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصے سے بھراہوتا ہے۔ اس بشارت کی برائی کے سبب لوگوں سے چھپا پھرتا ہے۔ کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبادے گا؟ خبردار! یہ کتنا برا فیصلہ کررہے ہیں ۔
افسوس! اسلام نے عورت کو جس آگ سے نکالا آج کے لوگ اسے پھر سے اسی میں جھونک رہے ہیں ۔ اسلام نے کفار کے چھینے ہوئے جو حق عورت کو واپس دلائے آج کے مسلمان وہی حق چھیننے میں لگے ہوئے ہیں ۔اسلام نے عورت کو ذلت و رسوائی کی چکی سے نکال کر معاشرے میں جو عزت اور مقام عطا کیا ،آج کے مسلمان دوبارہ اسے اسی چکی میں پسنے کے لئے دھکیل رہے ہیں اور شاید انہی بد عملیوں کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام کے دشمن عورت کے حقوق کی آڑ میں مسلمانوں کے اسی کردار کو دنیا کے سامنے پیش کر کے دینِ اسلام جیسے امن کے عَلَمْبردار مذہب کو ہی دہشت گرد مذہب ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا: اور کسی آدمی کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے طور پر۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور علم و حکمت کے کمال کو بیان فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی کرنے اور ان سے کلام کرنے کی صورتیں بیان فرمائی ہیں ۔( تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۵۱، ۹ / ۶۱۱)
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں کسی آدمی کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے البتہ تین صورتیں ایسی ہیں جن میں کسی فردِبشر سے کلام ممکن ہے۔
(1)… وحی کے طور پر۔یعنی اللہ تعالیٰ کسی واسطہ کے بغیر اس کے دل میں اِلقا فرما کر اور بیداری میں یا خواب میں اِلہام کرکے کلام فرمائے۔ اس صورت میں وحی کا پہنچنا فرشتے اور سماعت کے واسطے کے بغیر ہے اور آیت میں ’’اِلَّا وَحْیًا‘‘ سے یہی مراد ہے۔نیز اس میں یہ قید بھی نہیں کہ اس حال میں جس کی طرف وحی کی گئی ہو وہ کلام فرمانے والے کو دیکھتا ہو یا نہ دیکھتا ہو۔
امام مجاہد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سینۂ مبارک میں زبور کی وحی فرمائی۔ اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرزند ذبح کرنے کی خواب میں وحی فرمائی اورتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معراج میں اسی طرح کی وحی فرمائی جس کا ’’فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى‘‘ میں بیا ن ہے۔ یہ سب اسی قسم میں داخل ہیں ، انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خواب حق ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خواب وحی ہیں ۔
(2)… وہ آدمی عظمت کے پر دے کے پیچھے ہو۔ یعنی رسول پسِ پردہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنے، وحی کے اس طریقے میں بھی کوئی واسطہ نہیں لیکن سننے والے کو اس حال میں کلام فرمانے والے کا دیدار نہیں ہوتا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسی طرح کے کلام سے مشرف فرمائے گئے ۔
شانِ نزول: یہودیوں نے حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ اگر آپ نبی ہیں تو اللہ تعالیٰ سے کلام کرتے وقت اس کو کیوں نہیں دیکھتے جیسا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دیکھتے تھے؟ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواب دیا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نہیں دیکھتے تھے بلکہ صرف کلام سنتے تھے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
یہاں یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کے لئے کوئی ایسا پردہ ہو جیسا جسمانیات کے لئے ہوتا ہے اور آیت میں مذکور پردہ سے مراد سننے والے کا دنیا میں دیدار نہ کر سکنا ہے۔
(3)…اللہ تعالیٰ کوئی فرشتہ بھیجے تو وہ فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وحی پہنچائے جو اللہ تعالیٰ چاہے۔ وحی کے اس طریقے میں رسول کی طرف وحی پہنچنے میں فرشتے کا واسطہ ہے۔( تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۵۱، ۹ / ۶۱۱، مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۱۰۹۳، ابو سعود، الشوری، تحت الآیۃ: ۵۱، ۵ / ۵۳۴، ملتقطاً)
{اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ: بیشک وہ بلندی والا، حکمت والا ہے۔} یعنی بے شک اللہ تعالیٰ مخلوق کی صفات سے بلند اور پاک ہے اور وہ اپنے تمام اَفعال میں حکمت والا ہے، یہی وجہ ہے کہ کبھی وہ اِلقاء اور اِلہام کے ذریعے اور کبھی اپنا کلام سنا کر بغیر واسطے کے کلام کرتا ہے ا ور کبھی فرشتوں کے واسطے سے کلام فرماتا ہے۔( تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۵۱، ۹ / ۶۱۴)
{وَ كَذٰلِكَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا: اور یونہی ہم نے تمہاری طرف اپنے حکم سے روح (قرآن) کی وحی بھیجی۔} انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی کی صورتیں بیان فرمانے کے بعد اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح ہم نے اپنے تمام رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی یونہی ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف قرآنِ پاک کی وحی بھیجی جو کہ دلوں میں زندگی پیدا کرتا ہے ورنہ ہمارے بتانے سے پہلے نہ تم کتاب کوجانتے تھے اورنہ شریعت کے احکام کی تفصیل کو جانتے تھے، لیکن ہم نے قرآن کو نور کیا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ دکھاتے ہیں اور بیشک تم ضرور سیدھے راستے یعنی دینِ اسلام کی طرف رہنمائی کرتے ہو۔( تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۵۲، ۹ / ۶۱۴-۶۱۵، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۵۲، ۴ / ۱۰۱، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن ایمان کی جان ہے کہ اس کی تلاوت اور فہم سے ایمان میں جان پڑجاتی ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن سے سب ہدایت نہیں پاتے بلکہ وہ ہی ہدایت پاتا ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اوراللہ تعالیٰ کے اِذن سے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہدایت دیتے ہیں ۔
{صِرَاطِ اللّٰهِ: اللہ کے راستے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمائے ہوئے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں موجود تمام چیزوں کا مالک ہے، سن لو! آخرت میں مخلوق کے سب کام اللہ تعالیٰ ہی کی طرف پھریں گے تو وہ نیک انسان کو ثواب اور گناہگار کو سزا دے گا۔( خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۵۳، ۴ / ۱۰۱)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan