Surah ar-Rahman
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{اَلرَّحْمٰنُ: رحمٰن۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جب سورۂ فرقان کی آیت نمبر60 نازل ہوئی جس میں رحمٰن کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا توکفارِ مکہ نے کہا کہ رحمٰن کیا ہے ہم نہیں جانتے ،اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃُ الرّحمٰن نازل فرمائی کہ رحمٰن جس کا تم انکار کرتے ہو وہی ہے جس نے قرآن نازل فرمایا ۔اور ایک قول یہ ہے کہ اہل ِمکہ نے جب کہا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو کوئی بشر سکھاتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے فرمایا کہ رحمٰن نے قرآن اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سکھایا۔ (خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۴ / ۲۰۸،ملخصاً)
سورہِ رحمٰن کی آیت نمبر1اور 2سے حاصل ہونے والی معلومات:
اِس معنی کے اعتبار سے ان آیات سے 5باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)…قرآنِ پاک اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اسی لئے سب سے پہلے اس کا ذکر فرمایا۔
(2)… حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس قرآن پاک بظاہر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے واسطے سے آیا لیکن در حقیقت اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآن سکھایا ۔
(3)…مخلوق میں سے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کوئی استاد نہیں بلکہ آپ کا علم مخلوق کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہے۔
(4)… حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآنِ پاک کے مُتَشابہات کا علم بھی دیا گیا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے سارا قرآن اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سکھادیا تو اس میں متشابہات کا علم بھی آگیا کہ یہ بھی قرآنِ پاک کا حصہ ہی ہیں۔
(5)…اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تمام اَشیاء کے نام سکھائے،جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا‘‘(بقرہ:۳۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادیے۔
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زِرہ بنانا سکھائی ،چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ‘‘(انبیاء:۸۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہارے فائدے کیلئے اسے (جنگی) لباس کی صنعت سکھا دی۔
حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پرندوں کی زبان سکھائی ،جیسا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ‘‘(نمل:۱۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے لوگو!ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو طب ، تورات اور انجیل کا علم عطا فرمایا، ارشادِباری تعالیٰ ہے:
’’وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ‘‘(اٰل عمران:۴۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائے گا۔
حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علمِ لدُنی عطا فرمایا،چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘(کہف:۶۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اسے اپنا علم لدنی عطا فرمایا۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو کچھ سکھایا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ
’’ اَلرَّحْمٰنُۙ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: رحمٰن نے، قرآن سکھایا۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ‘‘(نمل:۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (اے محبوب!) بیشک آپ کو حکمت والے، علم والے کی طرف سے قرآن سکھایا جاتا ہے۔
اور ایک جگہ واضح طور پر فرمادیا کہ
’’وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ‘‘(النساء:۱۱۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاعلم تمام اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بلکہ تمام مخلوق سے زیادہ ہے۔
{خَلَقَ الْاِنْسَانَ: انسان کو پیدا کیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں ’’انسان‘‘ اور’’ بیان‘‘ کے مِصداق کے بارے میں مفسرین کے مختلف قول ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں انسان سے مراد دو عالَم کے سردار محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور بیان سے’’مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ‘‘یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہو گا، کا بیان مراد ہے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اَوّلین و آخرین اور قیامت کے دن کی خبریں دیتے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور بیان سے مراد تمام چیزوں کے اَسماء اور تما م زبانوں کا بیان مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں انسان سے اس کی جنس یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی تمام اولاد مراد ہے اور بیان سے مراد گفتگو کی صلاحیت ہے جس کی وجہ سے انسان دیگر حیوانوں سے ممتاز ہوتا ہے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۴ / ۲۰۸، صاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۶ / ۲۲۷۳-۲۲۷۴، ملتقطاً)
{اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ: سورج اور چاند حساب سے ہیں ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آسمانی نعمتوں میں دو ایسی نعمتیں بیان فرمائیں جو ظاہری طور پر نظر آتی ہیں اوروہ نعمتیں سورج اور چاند ہیں ،ان نعمتوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر سورج نہ ہوتا تو اندھیرا کبھی ختم ہی نہ ہوتا اور اگر چاند نہ ہوتا تو بہت ساری ظاہری نعمتیں ختم ہو کر رہ جاتیں اور ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ سورج اور چاند مُعَیّن اندازے کے ساتھ اپنے اپنے بُروج اور مَنازل میں حرکت کرتے ہیں کیونکہ اگر سورج حرکت کرنے کی بجائے ایک ہی جگہ کھڑ ارہے تو ا س سے کوئی بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور اگر ا س کی گردش لوگوں کو معلوم نہ ہو تو وہ معاملات ٹھیک طرح سے سر انجام نہیں دے سکتے اور ان کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اوقات کے حساب سالوں اور مہینوں کاشمارانہیں کی رفتارسے ہوتا ہے۔( تفسیرکبیر، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵، ۱۰ / ۳۳۹، مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۱۹۱، ملتقطاً)
{وَ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ: اور بغیر تنے والی نباتات اور درخت سجدہ کرتے ہیں ۔} یہاں ’’نجم‘‘ سے مراد زمین سے پیدا ہونے والی وہ نباتا ت ہیں جو تنا نہیں رکھتیں جیسے سبزہ اور انگور کی بیل وغیرہ اور ’’شجر‘‘ سے مراد وہ نباتات ہیں جو تنا ر کھتی ہیں جیسے گندم ،جَو اور درخت وغیرہ اور ان کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان کے سائے سجدہ کرتے ہیں ،اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے: ’’ اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ الشَّمَآىٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَ هُمْ دٰخِرُوْنَ‘‘(نحل:۴۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کیا انہوں نے اس طرف نہ دیکھا کہ اللہ نے جوچیز بھی پیدا فرمائی ہے اس کے سائے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں جھکتے ہیں اور وہ سائے عاجزی کررہے ہیں ۔
اوربعض مفسرین نے فرمایا کہ سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے فرمانبردار ہیں ۔( ابو سعود، الرحمٰن،تحت الآیۃ: ۶، ۵ / ۶۶۰ ، تفسیرکبیر، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۳۴۱، خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۰۸-۲۰۹، ملتقطاً)
سبزے اور درختوں کی اہمیّت:
یاد رہے کہ سبزے اوردرخت زمین پر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں اور ان نعمتوں کی اہمیت کا کچھ اندازہ یوں لگا سکتے ہیں کہ اگر یہ نہ ہوں تو انسان رزق کے وافر حصے سے محروم ہو جائے گا اور جانوروں کا گوشت کھانے کو تَرس جائے گا کیونکہ جانوروں کی نَشوونُما انہیں سے ہوتی ہے اور جب یہ سبزے نہ ہوں گے تو جانور کیسے پلیں بڑھیں گے اور جب جانور پلیں بڑھیں گے نہیں تو انسان ان کا گوشت کہاں سے حاصل کریں گے۔
{وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا۔} اللہ تعالیٰ نے آسمان کو محل اور رتبے کے اعتبار سے بلند پیدا فرمایا ہے۔ محل کے اعتبار سے بلندی تو ظاہر ہے کہ آسمان زمین سے اونچا ہے جبکہ رتبے کے اعتبار سے آسمان کی بلندی یہ ہے کہ وہ فرشتوں کا مَسکن ہے اور یہیں سے اللہ تعالیٰ کے اَحکام صادر ہوتے ہیں ۔ (ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۶۶۱ ، ملخصاً)
{وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَ: اور ترازو رکھی۔} ایک قول یہ ہے کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مخلوق کے درمیان تمام معاملات میں ) عدل کرنے کا حکم دیا ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ میزان سے مراد وہ تمام آلات ہیں جن سے اَشیاء کا وزن کیا جائے اور اُن کی مقداریں معلوم ہوسکیں جیسے ترازو ،اَشیاء ناپنے کے آلات اور پیمانے وغیرہ۔اس صورت میں آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَشیاء ناپنے اور تولنے کے آلات پیدا فرمائے اور اپنے بندوں پر لین دین کے معاملات میں عدل قائم رکھنے اور برابر ی کرنے کے اَحکام نافذ فرمائے تاکہ وہ ناپ تول میں نا انصافی نہ کریں اور کسی کی حق تَلفی نہ ہو۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۴ / ۲۰۹، مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۱۱۹۲، ملتقطاً)
ناپنے تولنے کے آلات کی اہمیت:
اللہ تعالیٰ کی جس نعمت کا بیان اس آیت میں ہوا ا س کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگا یاجاسکتا ہے کہ لوگ اپنے ساتھ غَبن اور دھوکہ دِہی پسند نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ دوسرا شخص کسی چیز میں اس پر غالب آ جائے چاہے وہ چیز معمولی سی ہی کیوں نہ ہو، لہٰذا اگر ناپ تول کے معاملات میں عدل و انصاف اور برابری نہ ہو تو معاشرے میں جو جھگڑے اور فسادات برپا ہوں گے اور آپس میں جو بغض و عناد پیدا ہوگا وہ کسی عقلمند سے ڈھکا چھپا نہیں ۔
حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’اے انسان !تو دوسروں کے ساتھ اسی طرح انصاف کر جس طرح تجھے پسند ہے کہ تیرے ساتھ انصاف کیا جائے اور تو دوسروں کو اسی طرح پورا پورا ناپ تول کر دے جیسے تجھے پورا پورا ناپ تول کر لینا پسند ہے کیونکہ عدل و انصاف ہی سے لوگوں کے حالات درست رہ سکتے ہیں ۔( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱ / ۵۷۶)
{وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ: اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو۔} یعنی جب تم لوگوں کے لئے کوئی چیز ناپو یا تولو تو انصاف کے ساتھ ناپ تول کرو اور اس چیز کا وزن کم نہ کرو۔
ناپ تول میں انصاف کرنے کا حکم دیاگیا:
ناپ تول میں انصاف کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۳۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ماپ کرو تو پورا ماپ کرو اور بالکل صحیح ترازو سے وزن کرو۔ یہ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَۚ(۱۸۱) وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِۚ(۱۸۲) وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ‘‘(شعراء:۱۸۱۔۱۸۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: (اے لوگو!) ناپ پورا کرو اورناپ تول کو گھٹانے والوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ اور بالکل درست ترازوسے تولو۔ اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔
اور کم ناپنے تولنے والوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ’’وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ٘ۖ(۲) وَ اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَؕ(۳) اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓىٕكَ اَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُوْنَۙ(۴) لِیَوْمٍ عَظِیْمٍۙ(۵) یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘(مطففین:۱۔۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کم تولنے والوں کیلئے خرابی ہے۔ وہ لوگ کہ جب دوسرے لوگوں سے ناپ لیں توپورا وصول کریں ۔ اور جب انہیں ناپ یا تول کردیں توکم کردیں ۔ کیا یہ لوگ یقین نہیں رکھتے کہ انہیں اٹھایا جائے گا۔ ایک عظمت والے دن کے لیے۔ جس دن سب لوگ ربُّ العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔
اور حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہماری طرف توجہ فرمائی اور ارشاد فرمایا ’’اے مہاجرین! جب تم پانچ باتوں میں مبتلا کر دئیے جاؤ اور میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم ان باتوں کو پاؤ۔پہلی بات یہ ہے کہ جب کسی قوم میں بے حیائی کے کام اعلانیہ ہونے لگ جائیں تو ان میں طاعون اور وہ بیماریاں عام ہو جاتی ہیں جو پہلے کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو ان پر قحط اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اور بادشاہ ان پر ظلم کرتے ہیں ۔تیسری بات یہ ہے کہ جب لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بارش کو روک دیتا ہے،اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا۔چوتھی بات یہ ہے کہ جب لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پران کے غیروں میں سے دشمنوں کو مُسلّط کر دیتا ہے تو وہ ان کا مال وغیرہ چھین لیتے ہیں ۔پانچویں بات یہ ہے کہ جب مسلمان حکمران اللہ تعالیٰ کے قانون کو چھوڑ کردوسرا قانون اور اللہ تعالیٰ کے اَحکام میں سے کچھ لیتے اور کچھ چھوڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان اختلاف پیدا فرما دیتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات، ۴ / ۳۶۷، الحدیث: ۴۰۱۹)
{وَ الْاَرْضَ وَ ضَعَهَا لِلْاَنَامِ: اور اس نے مخلوق کے لیے زمین رکھی۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کے لئے زمین کو فرش کی طرح بچھا دیا جو ا س میں رہتی اور بستی ہے تاکہ وہ اس میں آرام کریں اور فائدے اٹھائیں ۔
{فِیْهَا فَاكِهَةٌ: اس میں پھل میوے ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے چندوہ مَنافع بیان فرمائے ہیں جو ا س نے مخلوق کے لئے زمین میں پیدا فرمائے ہیں ،ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین میں بے شمار اَقسام کے پھل میوے اور غلاف والی کھجوریں ہیں جن میں بہت برکت ہے اوربھوسے والااناج جیسے گندم اور جو وغیرہ پیدا فرمایا ہے ، بھوسے کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں اناج دیر تک محفوظ رہے گا اور جب تم اناج استعمال کر لوتو وہ بھوسا تمہارے جانوروں کے چارے میں کام آئے گااور زمین میں طرح طرح کے خوشبو دار پھول پیدا فرمائے تاکہ ان کی خوشبو سونگھ کر تمہیں فرحت حاصل ہواور وہ پھول تمہاری زیب و زینت میں کام آئیں ۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: تواے جن و انسان!تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن و اِنس کے گروہ!جو نعمتیں تمہارے سامنے بیان کی گئیں ،ان میں سے تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱۱ / ۵۸۱)
ہدایت اور نصیحت کرنے کا بہترین اُسلوب:
اس سورۂ مبارکہ میں یہ آیت 31 بار آئی ہے اور اس سورت میں بار بار نعمتوں کا ذکر فرما کر یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے ؟یہ ہدایت اور نصیحت کرنے کا بہترین اُسلوب ہے اور اس اُسلوب کو اختیار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سننے والے کے نفس کو تنبیہ ہو اور اسے اپنے جرم اور کوتاہی کا حال معلوم ہوجائے کہ اُس نے کس قدر نعمتوں کو جھٹلایا ہے اور اسے اپنے کرتوتوں پر شرم آئے اوراس طرح وہ نعمتوں کاشکر ادا کرنے اور فرمانبرداری کرنے کی طرف مائل ہو اور یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کی اس پربے شمار نعمتیں ہیں ۔
حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے پاس تشریف لائے اور ان کے سامنے سورۂ رحمٰن شروع سے لے کر آخر تک پڑھی۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ یہ سورت سن کر خاموش رہے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں نے یہ سورت جِنّات کو سنائی تو انہوں نے تم سے اچھا جواب دیا، جب میں یہ آیت ’’فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‘‘ پڑھتا تووہ کہتے: اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہم تیری کسی نعمت کو بھی نہیں جھٹلاتے اورتمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الرحمٰن، ۵ / ۱۹۰، الحدیث: ۳۳۰۲)
{خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ: اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجنے والی سوکھی مٹی سے پیدا کیا۔} یہاں انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش کی کَیفِیّت کا ایک انداز بیان فرمایاہے ،
قرآنِ پاک میں دیگر مقامات پرآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش کی کیفیت کے اور انداز بھی بیان فرمائے گئے ہیں ،چنانچہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ‘‘(مؤمن:۶۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے بنایا۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍ‘‘(مؤمنون:۱۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے انسان کو چنی ہوئی مٹی سے بنایا۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ‘‘(صافات:۱۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ہم نے ا نہیں چپکنے والی مٹی سے بنایا۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ‘‘(حجر:۲۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے انسان کوخشک بجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو ایسے سیاہ گارے کی تھی جس سے بُو آتی تھی۔
ان سب آیات کا معنی ایک ہی ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش سے پہلے ہر قسم کی مٹی جمع فرمائی گئی ، پھر اسے پانی سے گوندھا گیا تو وہ مٹی ایسا سیاہ گارہ بن گئی جس سے بو آتی تھی، اس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جسم مبارک بنایا اورجب وہ مٹی خشک ہو گئی تو ہوا گزرنے کی وجہ سے ٹھیکری کی طرح بجنے لگی۔
{وَ خَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ: اور اس نے جن کوبغیر دھویں والی آگ کے خالص شعلے سے پیدا کیا۔} یہاں جن سے مراد ابلیس ہے۔( جلالین، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۴۴۴)
ابلیس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے آگ سے پیدا فرمایا،جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ‘‘(حجر:۲۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے اس سے پہلے جن کو بغیر دھویں والی آگ سے پیدا کیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا،ابلیس کو خالص آگ سے پیدا کیا گیا اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس طرح پیدا کیا گیا جس طرح تمہارے سامنے (اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ) بیان کیا۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب فی احادیث متفرقۃ، ص۱۵۹۷، الحدیث: ۶۰(۲۹۹۶))
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: تواے جن و انسان!تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن و انسان کے گروہ!تمہاری تخلیق کی مختلف ہَیئتوں میں اللہ تعالیٰ نے تم پر جو نعمتیں فرمائیں حتّٰی کہ تمہیں مُرَکَّبات میں سے افضل اور کائنا ت کا خلاصہ بنا دیا،ان میں سے تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟(بیضاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۵ / ۲۷۵)
{رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ: وہ دونوں مَشرقوں کا رب ہے۔} اس آیت میں دونوں مشرق اور دونوں مغرب سے گرمیوں اور سردیوں کے موسم میں سورج طلوع اور غروب ہونے کے دونوں مقام مراد ہیں ۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۲۱۰)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: تو تم دونوں اپنے رب کی کونسی نعمتوں کوجھٹلاؤ گے؟} یعنی سردی اور گرمی کے دونوں مشرقوں اور مغربوں میں جو بے شمار فوائد ہیں جیسے ہوا کا مُعتدل ہونا،مختلف موسموں جیسے سردی گرمی بہار اور خزاں کا آنا اور ہر موسم کی مناسبت سے مختلف چیزوں کا پیدا ہونا وغیرہ ،توان میں سے تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( بیضاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۱۸، ۵ / ۲۷۵)
{مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ: اس نے دو سمندر بہائے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میٹھے اور کھاری دو ایسے سمندر بہائے کہ دیکھنے میں ان کی سطح آپس میں ملی ہوئی لگتی ہے کیونکہ ان کے درمیان فاصلہ کرنے کے لئے ظاہری طور پر کوئی چیز حائل نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ان کے درمیان ایک آڑ ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی طرف بڑھ نہیں سکتے بلکہ ہر ایک اپنی حد پر رہتا ہے اور دونوں میں سے کسی کا ذائقہ بھی تبدیل نہیں ہوتا حالانکہ پانی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ دوسرے پانی میں فوراً مل جاتا ہے اور ا س کا ذائقہ بھی تبدیل کر دیتا ہے۔
میٹھے اور کھاری سمندروں کا ذکر:
ان سمندروں کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ هُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌۚ-وَ جَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا‘‘(فرقان:۵۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا دیا (ان میں ) یہ (ایک) میٹھا نہایت شیریں ہے اور یہ (ایک) کھاری نہایت تلخ ہے اور ان کے بیچ میں اس نے ایک پردہ اور روکی ہوئی آڑ بنادی۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ مَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ ﳓ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآىٕغٌ شَرَابُهٗ وَ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌؕ-وَ مِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَاۚ-وَ تَرَى الْفُلْكَ فِیْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ‘‘(فاطر:۱۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور دونوں سمندر برابر نہیں (ان میں سے ایک) یہ میٹھا خوب میٹھا ہے اس کا پانی خوشگوارہے اور یہ (دوسرا) نمکین بہت کڑوا ہے اور (ان دونوں سمندروں میں سے) ہر ایک سے تم (مچھلی کا) تازہ گوشت کھاتے ہو اور وہ زیور (قیمتی موتی) نکالتے ہو جسے تم پہنتے ہو اور تو کشتیوں کو اس میں پانی کو چیرتے ہوئے دیکھے گا تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن و انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے میٹھے اور کھاری دو سمندر بہا کر اور ان میں تمہارے پہننے کا زیور رکھ کر تم پر جوا نعام کیا ،تم ان نعمتوں میں سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۱ / ۵۸۸)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان سمندروں میں مَنافع پیدا فرما کر تم پر جو انعام کیا تم ان نعمتوں میں سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۱ / ۵۹۰)
{وَ لَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَــٴٰـتُ فِی الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ: اور دریا میں پہاڑوں جیسی اٹھی ہوئی کشتیاں اسی کی ہیں ۔} یعنی جن چیزوں سے وہ کشتیاں بنائی گئیں وہ بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیں اور ان کو ترکیب دینے اور کشتی بنانے اور کاریگری کرنے کی عقل بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی اور دریاؤں میں ان کشتیوں کا چلنا اور تیرنا یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہے۔(ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۴، ۵ / ۶۶۳)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ !اللہ تعالیٰ نے تمہارے فائدے کے لئے سمندر میں (پہاڑوں کی مانند) بڑی بڑی کشتیاں جاری فرما کر تم پر جو انعام فرمایا ،تم ان نعمتوں میں سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۵، ۱۱ / ۵۹۱)
{كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ: زمین پر جتنی مخلوق ہے سب فنا ہونے والی ہے۔} یعنی زمین پر جتنے جاندار ہیں سب ہلاک ہونے والے ہیں کیونکہ دنیا میں انسان (اور دیگر جانداروں ) کا وجود عارضی ہے لہٰذا وہ باقی نہیں رہے گا اور جو چیز باقی نہ رہے وہ فانی ہوتی ہے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۲۱۰)
ہر جاندار کو ایک دن دنیا سے رخصت ضرور ہونا ہے:
تفسیر روح البیان میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو فرشتوں نے کہا کہ انسان ہلاک ہو گئے اور جب یہ آیت ’’ كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ‘‘ نازل ہوئی تو فرشتوں کو اپنی موت کا بھی یقین ہو گیا۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۶، ۹ / ۲۹۷-۲۹۸)
{وَ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ: اور تمہارے رب کی عظمت اور بزرگی والی ذات باقی رہے گی۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، زمین پر موجود تمام مخلوق فنا ہو جائے گی اور صرف تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی ذات باقی رہے گی جو عظمت و کِبریائی والی ہے اور وہ اپنی عظمت و جلالت کے باوجود اپنے اَنبیاء، اولیاء اور اہلِ ایمان پر لطف وکرم فرمائے گااور مخلوق کے فنا ہونے کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور انہیں اَبدی زندگی عطا فرمائے گا۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۲۱۱، ملتقطاً)
سورہِ رحمٰن کی آیت نمبر27کے آخری الفاظ ’’ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ‘‘ کی برکت:
اس آیت کے آخری الفاظ کو اپنی دعا میں شامل کرنے کی برکت سے دعا قبول ہو جاتی ہے،چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس دعا ’’یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِکْرَام‘‘ کو لازم پکڑ لو اور اس کی کثرت کیا کرو۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۹۱-باب، ۵ / ۳۱۱، الحدیث: ۳۵۳۵)
اورحضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو ’’یَاذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَام‘‘ کہہ رہا تھا،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے ارشاد فرمایا: ’’بے شک تیری دعا قبول کر لی جائے گی تودعا مانگ۔( مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الدعاء،ما ذکر فیمن سأل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یعلّمہ ما یدعو بہ فعلّمہ،۷ / ۵۶،الحدیث:۷)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی جو نعمتیں سب کے فنا ہونے پر مُرَتَّب ہیں جیسے دوبارہ زندہ ہونا، دائمی زندگی ملنا اور ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتیں عطا ہونا وغیرہ،تم دونوں ان میں سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( بیضاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۸، ۵ / ۲۷۶)
فنا ہونا بھی ایک اعتبار سے نعمت ہے:
حضرت عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’فنا ہونااس اعتبار سے نعمت ہے کہ ایمان والے موت کے بعد اَبدی اور سَرمدی نعمتوں کو پا ئیں گے۔( مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۱۹۳)
جیسا کہ حضرت ابو قتادہ بن ربعی انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ نے فرمایا: ’’مُسْتَرِیْحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْہُ‘‘ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مُسْتَرِیْحٌ اور مُسْتَرَاحٌ مِنْہ سے کیا مراد ہے؟ارشاد فرمایا: ’’مومن بندہ جب مرتا ہے تو وہ مصیبتوں سے نجات پا کر اللہ تعالیٰ کی آغوشِ رحمت میں جانا چاہتا ہے اور بدکار آدمی جب مرتا ہے تو اس کے مر جانے سے اللہ تعالیٰ کے بندے ،شہر، درخت اور جانور بھی راحت پانا چاہتے ہیں۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۶۵۱۲)
اور حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’موت کو خوش آمدید ہو کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو حبیب کو حبیب کے قریب کر دیتی ہے۔( مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۱۹۳)
{یَسْــٴَـلُهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: آسمانوں اور زمین میں جتنے ہیں سب اسی کے سوالی ہیں ۔} یعنی آسمانوں میں رہنے والے فرشتے ہوں یا زمین پر بسنے والے جن ، انسان یا اور کوئی مخلوق ،الغرض کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں بلکہ سب کے سب اس کے فضل کے محتاج ہیں اور زبانِ حال اورقال سے اسی کی بارگاہ کے سوالی ہیں ۔اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال کی طرف اشارہ ہے کہ ہر مخلوق چاہے وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، وہ اپنی ضروریّات کو ازخود پورا کرنے سے عاجز ہے اور اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۲۱۱، جلالین، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۴۴۴، ملتقطاً)
{كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ: وہ ہر دن کسی کام میں ہے۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ آیت ان یہودیوں کے رد میں نازل ہوئی جو کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہفتے کے دن کوئی کام نہیں کرتا،چنانچہ اس آیت میں ان کے قول کا باطل ہونا ظاہر فرمایا گیا ۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اپنی قدرت کے آثار ظاہر فرماتا ہے، کسی کو روزی دیتا ہے، کسی کو مارتا ہے اور کسی کو زندہ کرتا ہے، کسی کو عزت دیتا ہے اورکسی کو ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے، کسی کو مالدار کرتا ہے اور کسی کو محتاج، کسی کے گناہ بخشتا ہے اور کسی کی تکلیف دور کرتا ہے۔( جلالین، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۴۴۴، خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۲۱۱، ملتقطاً)
یہاں اسی سے متعلق دو اَحادیث اور ایک حکایت ملاحظہ ہو،
(1)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس آیت ’’ كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ‘‘کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ : ’’اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ گناہ بخشتا ہے، مَصائب و آلام دور کرتا ہے،کسی قوم کو بلندی عطا فرماتا ہے اور کسی قوم کو پَستی سے دوچار کر دیتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فیما انکرت الجہمیّۃ، ۱ / ۱۳۳، الحدیث: ۲۰۲)
(2)…حضرت عبید بن عمیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس آیت ’’ كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ‘‘ کے بارے میں مروی ہے ’’اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ پریشان حال کی پریشانی دور کرتا ہے،دعاکرنے والے کی دعا قبول فرماتا ہے ،مریض کو شفا دیتا ہے اور مانگنے والے کو عطا کرتا ہے۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، کلام عبید بن عمیر، ۸ / ۲۲۸، الحدیث: ۹)
منقول ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے اس آیت کے معنی دریافت کئے تو اُس نے ایک دن کی مہلت چاہی اور انتہائی پریشان و غمزدہ ہو کر اپنے مکان پر چلا آیا۔ اس کے ایک حبشی غلام نے وزیر کو پریشان دیکھ کر کہا: اے میرے آقا !آپ کو کیا مصیبت پیش آئی ہے ؟بیان توکیجئے ۔جب وزیر نے ساری بات ا س کے سامنے بیان کر دی تو غلام نے کہا’’میں اس کے معنی بادشاہ کو سمجھادوں گا۔ وزیر نے اس حبشی غلام کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا تو غلام نے کہا: اے بادشاہ! اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں ، مردے سے زندہ نکالتا ہے اور زندے سے مردہ ، بیمار کو تندرستی دیتا ہے اور تندرست کو بیمار کرتا ہے، مصیبت زدہ کو رہائی دیتا ہے اور بے غموں کو مصیبت میں مبتلا کرتا ہے، عزت والوں کو ذلیل کرتا ہے اور ذلیلوں کو عزت دیتا ہے ،مالداروں کو محتاج کرتا ہے اور محتاجوں کو مالدار بنا تا ہے۔بادشاہ کوغلام کا جواب بہت پسند آیا اور اس نے وزیر کو حکم دیا کہ اس غلام کو وزارت کی خِلعت پہنادے۔ غلام نے وزیر سے کہا :اے آقا !یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک شان ہے۔( مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۹۴)
نوٹ :اس مقام پر ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کیلئے’’ مصروف‘‘ اور’’ مشغول ‘‘کا لفظ استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان اوصاف سے پاک ہے۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن و انسان کے گروہ!اللہ تعالیٰ کے جوا حسانات بیان ہوئے ان کا مشاہدہ کرنے کے باوجودتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۶۶۴)
{اَیُّهَ الثَّقَلٰنِ: اے جن اور انسانوں کے گروہ!۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو خوف دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے جن اور انسانوں کے گروہ! عنقریب ہم تم سے حساب لینے اور تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دینے کا قصد فرمائیں گے ۔
جِنّات اور انسانوں کو ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ فرمانے کی وجوہات:
مفسرین نے جنوں اور انسانوں کو ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ فرمائے جانے کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں ،ان میں تین وجوہات درج ذَیل ہیں :
(1)… زمین پر موجود دیگر مخلوق کے مقابلے میں صرف جنوں اور انسانوں کو شرعی اَحکام کا مُکَلَّف بنایا گیا،ان کی اس عظمت کی وجہ سے انہیں ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ فرمایا گیا ۔
(2)…زندگی اور موت دونوں صورتوں میں زمین پر ان کا وزن ہے، اس لئے انہیں ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ فرمایا گیا ۔
(3)…انہیں ’’ ثَقَـلَانِ‘‘ اس لئے فرمایا گیا کہ یہ گناہوں کی وجہ سے بھاری ہیں ۔( قرطبی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۱، ۹ / ۱۲۵، الجزء السابع عشر، ملخصاً)
تمام انسانوں کے لئے نصیحت:
اس آیت میں تمام انسانوں کے لئے نصیحت ہے کہ دنیا میں وہ جیسے چاہیں زندگی گزاریں لیکن مرنے کے بعد انہیں بہر حال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے کئے ہوئے اعمال کا حساب دینا ہو گااور پھر جس طرح کے عمل کئے ہوں گے اسی طرح کی جزا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی ۔
نوٹ:اس مقام پر ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ’’فارغ ‘‘کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ مصروفیت اور فراغت کے وصف سے پاک ہے ۔اس لئے یہاں آیت میں ’’ سَنَفْرُغُ‘‘ سے ا س کا حقیقی معنی ’’فراغت ‘‘مراد نہیں بلکہ اس کا مجازی معنی ’’قصد کرنا‘‘ مراد ہے۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!اللہ تعالیٰ کا دیگر نعمتیں عطا کرنے کے ساتھ ساتھ قیامت کے دن اعمال کے حساب کے معاملے میں تمہیں تنبیہ کرنا بھی ایک نعمت ہے ،توتم دونوں اپنے اقوال اور اعمال کے ذریعے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟(ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۶۶۴، ملخصاً)
{یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ: اے جنوں اور انسانوں کے گروہ!} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میری قضاء سے بھاگ سکتے ہو،میری سلطنت اور میرے آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو ان سے نکل جاؤ اور اپنی جانوں کو میرے عذاب سے بچا لو لیکن تم ا س بات پر قادر ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ تم جہاں بھی جاؤ گے وہیں میری سلطنت ہے۔یہ حکم جنوں اور انسانوں کا عجز ظاہر کرنے کے لئے دیا گیا ہے۔( ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۳، ۵ / ۶۶۴، جلالین، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۴۴۴، ملتقطاً)
{یُرْسَلُ عَلَیْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ ﳔ وَّ نُحَاسٌ: تم پر آگ کا بغیر دھویں والا خالص شعلہ اور بغیر شعلے والا کالا دھواں بھیجا جائے گا۔} ارشاد فرمایا کہ اے (کافر) جن اور انسان!قیامت کے دن جب تم قبروں سے نکلو گے تو تم پر آگ کا بغیر دھویں والا خالص شعلہ اور بغیر شعلے والا کالا دھواں بھیجا جائے گا تو اس وقت تم اس عذاب سے نہ بچ سکو گے اور نہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرسکوگے بلکہ یہ آگ کا شعلہ اور دھواں تمہیں محشرکی طرف لے جائیں گے ۔(مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۱۱۹۵، خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۵، ۴ / ۲۱۲، جلالین، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۴۴۴، ملتقطاً)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت مترجم قُدِّسَ سِرُّہٗ (یعنی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰیعَلَیْہ)نے فرمایا: ’’ لَپَٹ (یعنی شعلے) میں دھواں ہو تو اس کے سب اجزاء جلانے والے نہ ہوں گے کہ (اس میں ) زمین کے (وہ) اجزاء شامل ہیں جن سے دھواں بنتا ہے اور دھوئیں میں لپٹ ہو تو وہ پورا سیاہ اور اندھیرا نہ ہوگا کہ لپٹ کی رنگت شامل ہے، ان پر بے دھوئیں کی لپٹ بھیجی جائے گی جس کے سب اجزاء جلانے والے (ہوں گے) اور بے لپٹ کا دھواں (بھیجا جائے گا) جو سخت کالا، اندھیرا (ہوگا) اور (ہم اس عذاب سے) اسی کے وجہ کریم کی پناہ (چاہتے ہیں )۔(خزائن العرفان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۹۸۳)
یاد رہے کہ پہلے سے اس کی خبر دے دینا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے تاکہ اس کی نافرمانی سے باز رہ کر اپنے آپ کو اس بلاسے بچا یاجا سکے۔
{فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ: پھر جب آسمان پھٹ جائے گا۔} ارشاد فرمایا کہ پھر جب قیامت کے دن آسمان اس طرح پھٹ جائے گا کہ جگہ جگہ سے چیرا ہوا ہو گا اورا س کا رنگ گلاب کے پھول کی طرح اورایسا سرخ ہو گا جیسے بکرے کی رنگی ہوئی کھال ہوتی ہے تو یہ ایسا ہَولْناک منظر ہوگا جسے بول کر بیان نہیں کیا جا سکتا۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۷، ۹ / ۳۰۲، ملخصاً)
قیامت کے ہَولْناک مَناظِر کے بارے میں پڑھ کر رونا:
امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی مشہور تفسیر’’درمنثور‘‘ میں نقل کرتے ہیں ’’ایک مرتبہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک نوجوان کے پاس سے گزرے ،وہ نوجوان یہ آیت ’’فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ‘‘ پڑھ رہا تھا،آپ وہیں رک گئے اور دیکھا کہ اس نوجوان پر کپکپی طاری ہو گئی ہے اور آنسؤوں نے اس کا گلا بند کر دیا ہے ،وہ روتا رہا اور یہی کہتا رہا:اس دن میری خرابی ہو گی جس دن آسمان پھٹ جائے گا۔سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس نوجوان سے فرمایا ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تیرے رونے کی وجہ سے فرشتے بھی روئے ہیں ۔( در منثور، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۷، ۷ / ۷۰۳)
اس سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید میں جہاں کہیں قیامت کے ہَولْناک مناظر بیان کئے گئے ہیں ،ان کی تلاوت کرتے وقت خوفزدہ ہونا ہمارے بزرگانِ دین کا طریقہ ہے ،لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ایسے مقامات کی تلاوت کرتے وقت دل میں خوف پیدا کرنے اور آنسوبہانے کی کوشش کرنی اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگنی چاہئے کہ وہ ہمیں قیامت کی ہَولْناکْیوں اور شدّتوں میں امن و سکون نصیب فرمائے ،اٰمین۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی جب قیامت کے دن آسمان اللہ تعالیٰ کی ہَیبت سے پھٹ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ مخلوق کے حساب کا حکم دے گا تو اس وقت وہی تمہیں قیامت کے دن کی ہَولْناکْیوں سے نجات دے گا ،تو اے جن و انسان!تم دونوں اس نعمت کا انکار کس طرح کر سکتے ہو۔( تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۳۰۹)
{فَیَوْمَىٕذٍ: تو اس دن۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جب لوگ قبروں سے اُٹھائے جائیں گے اور آسمان پھٹے گا تو اس دن فرشتے مجرموں سے دریافت نہیں کریں گے بلکہ ان کی صورتیں دیکھ کر ہی انہیں پہچان لیں گے اور ان سے سوال دوسرے وقت میں ہوگا جب کہ لوگ حساب کے مقام میں جمع ہوں گے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جس دن آسمان پھٹے گا تو اس دن قبروں سے نکلتے ہی فوراًکسی آدمی اور جن سے اس کے گناہ کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گابلکہ جب وہ حساب کی جگہ میں اکٹھے ہوں گے تو اس وقت ان سے پوچھا جائے گا۔(خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۲۱۲، روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۹، ۹ / ۳۰۳، صاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۳۹، ۶ / ۲۰۸۰، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan