Surah ar-Rahman
{یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰىهُمْ: مجرم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ (قیامت کے دن) مجرم اپنے چہروں سے اس طرح پہچانے جائیں گے کہ اُن کے منہ کالے اور آنکھیں نیلی ہوں گی، تو حساب کے بعد جہنم کے خازن انہیں پکڑیں گے اور ان کے ہاتھ گردن سے باندھ دیں گے اور ان کے پائوں پیٹھ کے پیچھے سے لا کر پیشانیوں سے ملادیں گے،پھر انہیں چہروں کے بل گھسیٹ کرجہنم میں ڈال دیں گے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعض مجرم پیشانیوں سے گھسیٹے جائیں گے اوربعض پاؤں سے گھسیٹ کر جہنم میں ڈالے جائیں گے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۲۱۳، تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۳۰۹، ملتقطاً)
{هٰذِهٖ جَهَنَّمُ: یہ وہ جہنم ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ وہ جہنم جسے مجرم جھٹلاتے تھے وہ ان سے دور نہیں بلکہ ان کے قریب ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جب کفار جہنم کے قریب ہوں گے تو اس وقت جہنم کے خازن ان سے کہیں گے کہ یہ وہ جہنم ہے جسے تم دنیا میں جھٹلاتے تھے۔ (تفسیرکبیر، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۳، ۱۰ / ۳۶۸، تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۳۰۹، ملتقطاً)
{یَطُوْفُوْنَ: جہنمی چکر لگائیں گے۔} اس آیت میں جہنمیوں کا حال بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جہنمی جہنم اور اس کے انتہائی کَھولتے ہوئے پانی میں چکر لگائیں گے۔اس کی ایک صورت یہ ہو گی کہ جب وہ جہنم کی آگ سے جل بُھن کر فریاد کریں گے تو اُنہیں اس جگہ لے جایا جائے گا جہاں کھولتے ہوئے پانی کا چشمہ ہے، وہاں انہیں جلتا اورکَھولتا ہواپانی پلایا جائے گا اور جب اس عذاب پر فریاد کریں گے تو انہیں اس جگہ لے جایا جائے گا جہاں آگ کا عذاب ہے۔دوسری صورت یہ ہو گی کہ جہنمیوں پر بھوک کا عذاب مُسلّط کیا جائے گا ،جب وہ کھانے کے لئے چیخیں گے تو انہیں تھوہڑ کھلایا جائے گااور وہ ان کے حَلق میں چبھ جائے گا، تب پانی کے لئے شور مچائیں گے تو پھر انہیں وہاں لے جایا جائے گا جہاں کَھولتے پانی کا چشمہ ہے۔جب وہ پانی اپنے چہرے کے قریب کریں گے تو ان کے چہرے کا گوشت گل کر اس میں گر پڑے گا ،پھر اسے پئیں گے تو وہ ان کے پیٹوں میں جوش مارے گا اور ان میں موجود ہر چیز نکال دے گا۔پھر ان پر بھوک مُسلّط کی جائے گی اور وہ اسی طرح جہنم کے ایک طبقے سے دوسرے طبقے میں چکر لگائیں گے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۴، ۴ / ۲۱۳، جلالین، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۴۴۵، تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۳۰۹، ملتقطاً)
{وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے وہ نعمتیں بیان فرمائی ہیں جو ا س نے اپنی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرنے والے متقی اور مومن بندوں کے لئے تیار فرمائی ہیں ۔
اس آیت کاایک معنی یہ ہے کہ جسے دنیا میں قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حساب کی جگہ میں حساب کے لئے کھڑے ہونے کا ڈر ہو اور وہ گناہوں کو چھوڑ دے اور فرائض کی بجا آوری کرے تو ا س کے لئے آخرت میں دو جنتیں ہیں ۔( مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۱۱۹۵، خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۲۱۳، ملتقطاً)
اس معنی کی تائید اس آیتِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے،ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى‘‘(نازعات:۴۰،۴۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانہ ہے۔
دوسرا معنی یہ ہے کہ جو اس بات سے ڈرے کہ اس کے تمام اعمال اللہ تعالیٰ جانتا ہے اوروہ اس کے اعمال کی نگرانی رکھتا ہے اور اس خوف کی وجہ سے وہ بندہ گناہ چھوڑ دے تو ا س کے لئے آخرت میں دو جنتیں ہیں ۔
اس معنی کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے:
’’ اَفَمَنْ هُوَ قَآىٕمٌ عَلٰى كُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ‘‘(رعد:۳۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیا وہ خدا جو ہر شخص پر اس کے اعمالکی نگرانی رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرنے والے کودو جنتیں ملنے کی وجوہات:
دو جنتوں سے مراد جنت ِعَدن اور جنت ِنعیم ہے اوردو جنتیں ملنے کی وجوہات مفسرین نے مختلف بیان فرمائی ہیں ۔
(1)… ایک جنت اللہ تعالیٰ سے ڈر نے کا صلہ ہے اور ایک نفسانی خواہشات ترک کرنے کا صلہ ہے ۔
(2)…ایک جنت اس کے درست عقیدہ رکھنے کا صلہ ہے اور ایک جنت اس کے نیک اعمال کا صلہ ہے ۔
(3)…ایک جنت اس کے فرمانبرداری کرنے کا صلہ ہے اور ایک جنت گناہ چھوڑ دینے کا صلہ ہے۔
(4)…ایک جنت ثواب کے طور پر ملے گی اور ایک جنت اللہ تعالیٰ کے فضل کے طور پر ملے گی ۔
(5)…ایک جنت اس کی رہائش کے لئے ہو گی اور دوسری جنت اس کی بیویوں کی رہائش کے لئے ہو گی۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۲۱۳، صاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۲۰۸۱، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کا خوف بڑی اعلیٰ نعمت ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا خوف بڑی اعلیٰ نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اپنا خوف نصیب کرے۔
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانۂ مبارک میں ایک نوجوان بہت متقی و پرہیز گار و عبادت گزار تھا، حتّٰی کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بھی اس کی عبادت پر تعجب کیا کرتے تھے ۔وہ نوجوان نمازِ عشاء مسجد میں ادا کرنے کے بعداپنے بوڑھے باپ کی خدمت کرنے کے لئے جایا کرتا تھا ۔ راستے میں ایک خوبرُو عورت اسے اپنی طرف بلاتی اور چھیڑتی تھی، لیکن یہ نوجوان اس پر توجہ دئیے بغیر نگاہیں جھکائے گزر جایا کرتا تھا ۔ آخر کار ایک دن وہ نوجوان شیطان کے ورغلانے اور اس عورت کی دعوت پر برائی کے ارادے سے اس کی جانب بڑھا، لیکن جب دروازے پر پہنچا تو اسے اللہ تعالیٰ کا یہی فرمانِ عالیشان یاد آ گیا:
’’ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک جب شیطان کی طرف سےپرہیزگاروں کو کوئی خیال آتا ہے تو وہ فوراًحکمِ خدا یاد کرتے ہیں پھراسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔
اس آیتِ پاک کے یاد آتے ہی اس کے دل پر اللہ تعالیٰ کا خوف اس قدر غالب ہوا کہ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا ۔جب یہ بہت دیر تک گھر نہ پہنچا تو اس کا بوڑھا باپ اسے تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچا اور لوگوں کی مدد سے اسے اٹھوا کر گھر لے آیا۔ ہوش آنے پر باپ نے تمام واقعہ دریافت کیا ،نوجوان نے پورا واقعہ بیان کر کے جب اس آیت ِ پاک کا ذکر کیا، تو ایک مرتبہ پھر اس پر اللہ تعالیٰ کا شدید خوف غالب ہوا ،اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور اس کا دم نکل گیا۔ راتوں رات ہی اس کے غسل و کفن ودفن کا انتظام کر دیاگیا۔ صبح جب یہ واقعہ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ اُس کے باپ کے پاس تَعْزِیَت کے لئے تشریف لے گئے اور اس سے فرمایا کہ ’’ آپ نے ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی ؟(تا کہ ہم بھی جنازے میں شریک ہو جاتے) ۔اس نے عرض کی ’’امیر المومنین!اس کاانتقال رات میں ہوا تھا(اور آپ کے آرام کا خیال کرتے ہوئے بتانامناسب معلوم نہ ہوا)۔ آپ نے فرمایا کہ ’’مجھے اس کی قبر پر لے چلو۔‘‘ وہاں پہنچ کر آپ نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی: ’’وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑےہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں ۔
تو قبر میں سے اس نوجوان نے جواب دیتے ہوئے کہا: یا امیرَ المومنین!بیشک میرے رب نے مجھے دو جنتیں عطا فرمائی ہیں ۔‘‘(ابن عساکر، ذکر من اسمہ عمرو، عمرو بن جامع بن عمرو بن محمد۔۔۔ الخ، ۴۵ / ۴۵۰، ذمّ الہوی، الباب الثانی و الثلاثون فی فضل من ذکر ربّہ فترک ذنبہ، ص۱۹۰-۱۹۱)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! جب اللہ تعالیٰ نے تمہارے اعمال کے ثواب کے لئے جنت بنائی ہے تو تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۳۱۰)
{ذَوَاتَاۤ اَفْنَانٍ: شاخوں والی ہیں ۔} یہاں سے ان دو جنتوں کے اوصاف بیان کئے جا رہے ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ان جنتوں کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ دونوں جنتیں پھلوں سے لدی ہوئی شاخوں والی ہیں اور ہر شاخ میں قِسم قِسم کے میوے ہیں ۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۸، ۹ / ۳۰۶، ملخصاً)
{فِیْهِمَا عَیْنٰنِ تَجْرِیٰنِ: ان میں دو چشمے بہہ رہے ہیں ۔} یہاں ان جنتوں کا ایک اور وصف بیان ہوا کہ ان میں سے ہر ایک جنت میں صاف اور میٹھے پانی کے دو چشمے بہہ رہے ہیں ،ان میں سے ایک کانام تسنیم اور دوسرے کا نام سَلسَبیل ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ایک چشمہ خراب نہ ہونے والے پانی کا ہے اور ایک چشمہ ایسی شراب کا ہے جو پینے والوں کے لئے لذّت بخش ہے۔( صاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۰، ۶ / ۲۰۸۲)
{فِیْهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجٰنِ: ان دونوں جنتوں میں ہر پھل کی دو دو قسمیں ہیں ۔} دو قسموں سے مراد یہ ہے کہ بعض وہ پھل ہیں جو دنیا میں دیکھے گئے اور بعض و ہ عجیب و غریب پھل ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے گئے۔ یااس سے مراد یہ ہے کہ بعض پھل خشک ہیں اور بعض تر ۔یا یہ مراد ہے کہ بعض پھل خالص میٹھے ہیں اور بعض ترشی کی طرف مائل ہیں ۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۲، ۹ / ۳۰۶)
{مُتَّكِـٕیْنَ عَلٰى فُرُشٍ: بچھونوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔} یعنی جنتی لوگ بادشاہوں کی طرح آرام اور راحت سے ایسے بچھونوں پر ٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے ہوں گے جن کے اندرونی حصے موٹے ریشم کے ہوں گے ۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۴، ۹ / ۳۰۷)
حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’جب ا س بچھونے کے اندرونی حصے کا یہ حال ہے تو ظاہری حصے کا کیا حال ہو گا۔
اورحضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے ان بچھونوں کے اندرونی حصے کا حال تو بیان کر دیا لیکن ظاہری حصے کا بیان نہیں کیا کیونکہ زمین میں کوئی ایسی چیز ہے ہی نہیں جس سے ان کے ظاہری حصوں کا حال پہچانا جا سکے۔ (خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۴، ۴ / ۲۱۳)
{وَ جَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ: اور دونوں جنتوں کا پھل جھکاہوا ہے۔} یعنی ان دونوں جنتوں کا پھل اتنا قریب ہو گا کہ کھڑا، بیٹھا اور لیٹا ہر شخص اسے چن لے گا جبکہ دنیا کے پھلوں میں یہ خاصیت نہیں ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ درخت اتنا قریب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے کھڑے یابیٹھے جیسے چاہیں گے اس کا پھل چن لیں گے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۴، ۴ / ۲۱۴)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!ان لذیذ اور باقی رہنے والی نعمتوں میں سے تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟(روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۵، ۹ / ۳۰۷)
{فِیْهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ: ان جنتوں میں وہ عورتیں ہیں کہ شوہر کے سوا کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان جنتوں کے محلات میں جنّتی مَردوں کے لئے ایسی بیویاں ہوں گی جو اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھیں گی اور ان میں سے ہر ایک اپنے شوہر سے کہے گی: مجھے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عزت و جلال کی قسم! جنت میں مجھے کوئی چیز تجھ سے زیادہ اچھی نہیں معلوم ہوتی، تو اس خدا عَزَّوَجَلَّ کی حمد ہے جس نے تمہیں میرا شوہر بنایا اور مجھے تمہاری بیوی بنایا ۔اور وہ بیویاں ایسی ہوں گی کہ انہیں ان کے جنتی شوہروں کے علاوہ نہ کسی آدمی نے چھوا ہوگا اور نہ ہی کسی جن نے ۔ ان بیویوں سے مراد حورِعِین ہیں کیونکہ وہ جنت میں پیدا کی گئی ہیں ، اس لئے ان کے شوہروں کے سوا انہیں کسی نے نہیں چھوا۔بعض مفسرین نے فرمایا ان سے مراد دنیا کی عورتیں ہیں، انہیں دوبارہ کنواریاں پیدا کیا جائے گا اور اس پیدائش کے بعد انہیں ان کے شوہروں کے علاوہ کسی اور نے نہ چھوا ہو گا۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۶، ۹ / ۳۰۷-۳۰۸، خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۶، ۴ / ۲۱۴، ملتقطاً)
آیت ’’ فِیْهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ‘‘سے حاصل ہونے و الی معلومات:
اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں ۔
(1)… تقویٰ اور شرم و حیا عورت کابہت بڑا کمال ہے۔
(2)… اجنبی عورت کا متقی پرہیز گار مرد سے بھی پردہ ہے کیونکہ جنت میں سب متقی ہوں گے، مگر ان سے بھی پردہ ہو گا۔
(3)… پردہ اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جو جنت میں بھی ہو گی۔
(4)…حوریں پیدا ہو چکی ہیں اور جنت کی تمام نعمتوں کی طرح وہ بھی موجود ہیں ۔
(5)… حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اگرچہ جنت میں رہے اور وہاں کی نعمتیں کھائیں ، مگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حوروں کی طرف مائل نہ ہوئے کیونکہ حوریں صرف جزا کے طور پر ملیں گی ۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!اللہ تعالیٰ نے تمہاری طبیعت کے موافق تمہارے لئے بیویاں بنائیں اور وہ تمہارے علاوہ کسی اور کی طرف نہیں دیکھتیں تو تم اللہ تعالیٰ کا انکار کس طرح کرتے ہو اور تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۳۱۰)
{كَاَنَّهُنَّ الْیَاقُوْتُ وَ الْمَرْجَانُ: گویا وہ لعل اور مرجان (موتی) ہیں ۔} یعنی جنتی حوریں صفائی اور خوش رنگی میں لعل اور مونگے پتھرکی طرح ہیں ۔ (مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۱۱۹۶)
جنّتی حوروں کی صفائی اور خوش رنگی:
جنتی حوروں کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جنتی عورتوں کی پنڈلیوں کی سفیدی ستر جوڑوں کے نیچے سے نظر آئے گی یہاں تک کہ پنڈلیوں کا گودا بھی نظر آئے گا اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ كَاَنَّهُنَّ الْیَاقُوْتُ وَ الْمَرْجَانُ‘‘ اور یاقوت ایک ایسا پتھر ہے کہ اگر اس میں دھاگہ ڈال کر باہر سے دیکھنا چاہو تو دیکھ سکتے ہو۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ والنار، باب فی صفۃ نساء اہل الجنّۃ، ۴ / ۲۳۹، الحدیث: ۲۵۴۱)
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حورِعِین کی پنڈلی کا مغز (لباس کے) ستر جوڑوں کے نیچے گوشت اور ہڈی کے پیچھے سے اس طرح نظر آتا ہے جس طرح شیشے کی صراحی میں سرخ شراب نظر آتی ہے۔(کتاب الجامع فی آخر المصنف، باب الجنّۃ وصفتہا، ۱۰ / ۳۴۵، الحدیث: ۲۱۰۳۱)
{هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ: نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہے۔} یعنی جو (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرا اور دنیا میں اس نے اچھے عمل کئے اور اپنے رب تعالیٰ کی فرمانبرداری کی تو آخرت میں اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اس طرح احسان فرمائے گا کہ اسے اس کی دُنْیَوی نیکیوں پر وہ جزا عطا فرمائے گا جو ان آیات میں بیان ہوئی۔(تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۰، ۱۱ / ۶۰۹)
اورحضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرما تے ہیں کہ جو ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ کا قائل ہو اورنبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت پر عامل ہو تو اس کی جزا ء جنت ہے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۰، ۴ / ۲۱۴)
{وَ مِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِ: اور ان کے سوا دو جنتیں اور ہیں ۔} یعنی جن دو جنتوں کا ذکر اوپر گزرا ان کے علاوہ دو جنتیں اور بھی ہیں مگر یہ دونوں ان پہلی جنتوں سے مرتبے ، مقام اور فضیلت میں کم ہیں ۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۲، ۹ / ۳۱۰، ملخصاً)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دو جنتیں تو ایسی ہیں جن کے برتن اور سامان چاندی کے ہیں اور دو جنتیں ایسی ہیں کہ جن کے برتن اور سامان سونے کے ہیں ۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الرحمٰن، باب ومن دونہما جنّتان، ۳ / ۳۴۴، الحدیث: ۴۸۷۸)
امام ضحاک رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰیعَلَیْہفرماتے ہیں ’’پہلی دو جنتیں سونے اور چاندی کی اور دُوسری دو جنتیں یاقوت اور زَبَرجَد کی ہیں ۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۲۱۵)
جن جنتوں کا اس آیت میں بیان ہواان کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ دائیں جانب والوں کے لئے ہیں کیونکہ ان کا مرتبہ ان لوگوں سے کم ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ یہ دونوں جنتیں بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرنے والوں کے لئے ہیں ۔( صاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۲، ۶ / ۲۰۸۴)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن و انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے پہلے متقی لوگوں کے لئے دو جنتوں کا ذکر فرمایا اور اب ان کی فضیلت و کرامت میں اضافہ کرتے ہوئے دو اور جنتوں کا ذکر فرمایا تو تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرامت کا انکار کس طرح کر سکتے ہو۔( تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۳۱۱)
{مُدْهَآ مَّتٰنِ: وہ دونوں جنتیں نہایت سبز درختوں کی وجہ سے سیاہی کی جھلک دے رہی ہیں ۔} اس آیت میں ان جنتوں کا وصف بیان کیا گیا ہے کہ ان کے درختوں کے پتے اتنے سبز ہیں کہ وہ سیاہی کی جھلک دے رہے ہیں ۔
سبز رنگ کافائدہ:
یہ انتہائی خوشنما رنگ ہے اور نورِ نظر کے لئے بہت مفید ہے۔حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سبز رنگ کی طرف دیکھنے سے بصارت میں اضافہ ہوتا ہے۔( مسند الشہاب، الباب الاول، النظر الی الخضرۃ یزید فی البصر۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۹۳، الحدیث: ۲۸۹)
{فِیْهِمَا عَیْنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ: ان میں دو چھلکتے ہوئے چشمے ہیں ۔} یعنی ان دونوں جنتوں میں پانی کے چھلکتے ہوئے دو چشمے ہیں جن کا پانی ٹوٹتا نہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان دونوں جنتوں میں اہلِ جنت پر خیرو برکت کے ساتھ پانی کے دو چھلکتے ہوئے چشمے ہیں ۔
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان دونوں جنتوں میں اللہ تعالیٰ کے پیاروں پر مشک اور کافور (کی خوشبو) کے ساتھ پانی کے دو چھلکتے ہوئے چشمے ہیں ۔
اورحضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اہلِ جنت کے گھروں میں مشک اور عنبر (کی خوشبو) کے ساتھ پانی کے دوچھلکتے ہوئے چشمے ہیں ۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۶، ۴ / ۲۱۵)
{وَ نَخْلٌ وَّ رُمَّانٌ: اور کھجوریں اور انار۔} یعنی جنتوں میں ہر طرح کے میوے ہوں گے۔کھجورا ور انار اگرچہ میوے میں داخل ہے لیکن ان کی فضیلت اور شرف کی وجہ سے انہیں خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۸، ۴ / ۲۱۵)
کھجور اور انار کے فضائل:
یہاں آیت میں کھجور اورا نار کا بطورِ خاص ذکر کیا گیا ،اسی مناسبت سے ہم یہاں کھجور اور انار کے چند فضائل بیان کرتے ہیں ،چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ درختوں میں سے ایک ایسا بھی ہے جس کے پتے نہیں گرتے اور اس کی مثال ایک مسلمان جیسی ہے،مجھے بتاؤ وہ کونسا ہے؟لوگ جنگل کے درختوں کے بارے میں سوچنے لگے اور مجھے خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن مجھے (بولنے سے) شرم آئی (کیونکہ اس وقت بڑے بڑے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ موجود تھے) پھر لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ خود بتادیجئے کہ وہ کونسا درخت ہے؟ارشاد فرمایا:وہ کھجور کا درخت ہے۔( بخاری، کتاب العلم، باب قول المحدّث: حدّثنا او اخبرنا۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۷، الحدیث: ۶۱)
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں ،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، جس گھر میں کھجوریں نہ ہوں وہ لوگ بھوکے ہیں ،اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، جس گھر میں کھجوریں نہ ہوں وہ لوگ بھوکے ہیں ،آپ نے یہ کلمات دو یاتین بار ارشاد فرمائے۔( مسلم، کتاب الاشربۃ، باب فی ادخال التمر ونحوہ من الاقوات للعیال، ص۱۱۳۱، الحدیث: ۱۵۳(۲۰۴۶))
مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا’’مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ زمین میں ایسا کوئی انار نہیں جس کے دانوں میں جنتی انار کے دانوں سے پیوندکاری نہ کی گئی ہو۔( معجم ا لکبیر، ومن مناقب عبد اللّٰہ بن عباس واخبارہ، ۱۰ / ۲۶۳، الحدیث: ۱۰۶۱۱)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایسے پھل پیدا کئے جنہیں کھانے سے تمہیں لذت حاصل ہوتی ہے توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۶۹، ۹ / ۳۱۲، ملخصاً)
{فِیْهِنَّ: ان میں عورتیں ہیں ۔} یعنی ان دونوں جنتوں میں اخلاق کے اعتبار سے اچھی اورصورت کے اعتبار سے حسین و جمیل عورتیں ہیں ۔ (جلالین، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۴۴۵)
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جنت میں حورِ عِین یہ نغمہ گائیں گی ’’نَحْنُ الْخَیْرَاتُ الْحِسَانُ حُبِسْنَا لِاَزْوَاجٍ کِرَامٍ‘‘ ہم اچھی سیرت اور اچھی صورت والیاں ہیں ،ہم معزز و محترم شوہروں کے لئے روکی گئی ہیں ۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجنّۃ، ما ذکر فی الجنّۃ وما فیہا ممّا اعدّ لاہلہا، ۸ / ۷۲، الحدیث: ۳۵)
اچھی عادت اچھی صورت سے افضل ہے:
یہاں اَخلاقی اچھائی کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ذکر کیا ، اس سے معلوم ہوا کہ اچھی عادت اچھی صورت سے افضل ہے، لہٰذا نکاح کے لئے کسی عورت کا رشتہ دیکھتے وقت اس کے حسن وجمال کے مقابلے میں اس کی اچھی سیرت ،اس کے اچھے کردار،اس کی دینداری اور اس کی اچھی عادات کو زیادہ ترجیح دینی چاہئے۔اَحادیث میں بھی اسی چیز کی ترغیب دی گئی ہے ، چنانچہ ا س سے متعلق تین اَحادیث ملاحظہ ہوں ۔
(1)… حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے تھے کہ تقوے کے بعد مومن کے لیے نیک بیوی سے بہتر کوئی چیز نہیں ۔ اگر وہ اسے حکم کرتا ہے تو وہ اطاعت کرتی ہے اور اسے دیکھے تو وہ خوش کر دیتی ہے اور اس پر قسم کھا بیٹھے تو قسم سچی کر دیتی ہے اور اگر کہیں کو چلا جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں بھلائی کرتی ہے (یعنی اس میں خیانت نہیں کرتی اور نہ ہی اسے ضائع کرتی ہے)۔( ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب افضل النساء، ۲ / ۴۱۴، الحدیث: ۱۸۵۷)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عورت سے نکاح چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے (یعنی نکاح میں ان چار باتوں کا لحاظ ہوتا ہے) (1)مال (2)حسب نسب (3)حسن وجمال اور(4)دین ۔اور تم دین والی کو ترجیح دو۔( بخاری، کتاب النکاح، باب الاکفّاء فی الدِّین، ۳ / ۴۲۹، الحدیث: ۵۰۹۰)
(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو کسی عورت سے اس کی عزت کی وجہ سے نکاح کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی ذلت میں اضافہ کرے گا اور جو کسی عورت سے اس کے مال کے سبب نکاح کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی ہی بڑھائے گا اور جو کسی عورت سے اس کے حسب کی بنا پرنکاح کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے کمینہ پن میں اضافہ فرمائے گا اور جو اس لیے نکاح کرے کہ اِدھر اُدھر نگاہ نہ اُٹھے اور پاک دامنی حاصل ہو یا صِلۂ رحم کرے تو اللہ تعالیٰ اس مرد کے لیے اس عورت میں برکت دے گا اور عورت کے لیے مرد میں برکت دے گا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: ابراہیم، ۲ / ۱۸، الحدیث: ۲۳۴۲)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے جنّتی عورتوں کے اوصاف بیان کر کے تم پر انعام فرمایا توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۱، ۹ / ۳۱۳، ملخصاً)
{حُوْرٌ: حوریں ۔} ارشاد فرمایا کہ ان جنتوں میں خیموں میں پردہ نشین حوریں ہیں جو کہ اپنی شرافت اور کرامت کی وجہ سے ان خیموں سے باہر نہیں نکلتیں ۔ (خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۲، ۴ / ۲۱۵)
جنتی حور اور ا س کے خیموں کا حال:
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر جنتی عورتوں میں سے زمین کی طرف کسی ایک کی جھلک پڑجائے تو آسمان وزمین کے درمیان کی تمام فضا روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۴، الحدیث: ۶۵۶۸)
اورحضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’مؤمن کے لئے جنت میں ایک کھوکْھلے موتی کا خیمہ ہو گا، اس کی لمبائی 60میل ہو گی، مؤمن کے ا ہل ِخانہ بھی اس میں رہیں گے ،مؤمن ان کے پاس (حقِ زوجیّت ادا کرنے کے لئے) چکر لگائے گا اور ان میں سے بعض بعض کو نہیں دیکھ سکیں گے۔( مسلم،کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا،باب فی صفۃ خیام الجنّۃ وما للمؤمنین فیہا من الاہلین،ص۱۵۲۲،الحدیث: ۲۳(۲۸۳۸))
{لَمْ یَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ: ان کے شوہروں سے پہلے انہیں نہ کسی آدمی نے چھوا۔} یعنی جیسے اُن دوجنتوں کی حوریں اپنے جنتی شوہروں کے علاوہ جن و اِنس کے چھونے سے محفوظ تھیں ایسے ہی اِن دونوں جنتوں کی حوریں بھی محفوظ ہیں ،لہٰذاآیت میں تکرار نہیں ۔
{مُتَّكِـٕیْنَ: تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔} اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرنے والوں کو جو دو جنتیں عطا ہوں گی ان کے جنتی بچھونوں کا ظاہری حال بیان نہیں کیا گیا جیساکہ آیت نمبر54میں گزرا ،کیونکہ ان بچھونوں کی شان بہت بلند ہے اور ان کا ظاہری حال عقل اور فہم کے اِدراک سے باہر ہے جبکہ دوسری دو جنتوں میں اہلِ جنت کو جو بچھونے عطا ہوں گے ان کا ظاہری حال یہاں بیان کر دیاگیا کہ وہ سبز اور مُنَقّش ہوں گے ،اس سے ان بچھونوں میں فرق صاف ظاہر ہو رہا ہے۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۶، ۹ / ۳۱۵، ملخصاً)
{تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ: تمہارے رب کا نام بڑی برکت والا ہے۔} اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی باقی رہے گی اور دنیا کی تمام نعمتیں فانی ہیں ۔نیزاللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت و بزرگی بیان فرما کر آخرت کی نعمتوں کے بیان کا اختتام فرمایا۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۸، ۴ / ۲۱۶)
نماز کے بعد پڑھی جانے والی ایک دعا:
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan