Surah al-Qamar
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ: قیامت قریب آگئی۔} یعنی قیامت کے نزدیک ہونے کی نشانی ظاہر ہوگئی کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزہ سے چاند دو ٹکڑے ہو کر پھٹ گیا۔ چاند کا دو ٹکڑے ہونا جس کا اس آیت میں بیان ہے ،یہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے روشن معجزات میں سے ہے ۔ (خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۲۰۱)
اشارے سے چاند چیر دیا:
صحاح ستہ کی کثیر اَحادیث میں اس عظیم معجزے کے مختلف پہلو بیان کئے گئے ہیں ،چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : اہل ِمکہ نے حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایک معجزہ دکھانے کی درخواست کی تو حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چاند ٹکڑے کرکے دکھایا۔( بخاری،کتاب المناقب،باب سؤال المشرکین ان یریہم النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آیۃ۔۔۔الخ،۲ / ۵۱۱،الحدیث:۳۶۳۷)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانہ میں چاند دو ٹکڑے ہو کر پھٹا ،ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور دوسرا ٹکڑا اس کے نیچے، تب رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا گواہ رہو۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ اقتربت الساعۃ القمر، باب وانشقّ القمر۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۳۹، الحدیث: ۴۸۶۴)
حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چاند دو ٹکڑے کر کے دکھایا تو کفارِ قریش نے کہا: محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے جادو سے ہماری نظر بند کردی ہے، اس پر ان کی جماعت کے لوگوں نے کہا کہ اگر یہ ہماری نظر بندی ہے تو باہر کہیں بھی کسی کو چاند کے دو حصے نظر نہ آئے ہوں گے۔ اب جو قافلے آنے والے ہیں اُن کی جستجورکھو اور مسافروں سے دریافت کرو،اگر دوسرے مقامات سے بھی چاند کا ٹکڑے ہونا دیکھا گیا ہے تو بے شک معجزہ ہے ۔چنانچہ سفر سے آنے والوں سے دریافت کیا تواُنہوں نے بیان کیا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ اس روز چاند کے دوحصے ہوگئے تھے ۔( ترمذی،کتاب التفسیر،باب ومن سورۃ القمر،۵ / ۱۸۹، الحدیث: ۳۳۰۰، جامع الاصول فی احادیث الرسول، حرف النون، الکتاب الاول، الباب الخامس، الفصل السابع، ۱۱ / ۳۶۷، الحدیث: ۸۹۳۷)اب مشرکین کو انکار کی گنجائش نہ رہی لیکن وہ جاہلانہ طور پر اسے جادو ہی جادو کہتے رہے۔
ان کے علاوہ صحاح ستہ کی اوراَحادیث میں بھی اس عظیم معجزے کا بیان ہے اوریہ خبر شہرت کے اس درجہ تک پہنچ گئی ہے کہ اس کا انکار کرنا عقل و انصاف سے دشمنی اور بے دینی ہے۔
{ وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَةً: اور اگر کفار کوئی نشانی دیکھتے ہیں ۔} اس آیت میں کفارِ مکہ کی ایک عادت بیان کی گئی کہ وہ اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ا س کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت اور نبوت پر دلالت کرنے والی کوئی نشانی جیسے چاند کا دو ٹکڑے ہونا یا کوئی اور نشانی دیکھتے ہیں تو اس نشانی میں غور کر کے اس کی حقیقت جاننے ،اس کی تصدیق کرنے اور نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے سے منہ پھیرلیتے ہیں اور کہتے ہیں : محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) جو کچھ ہمیں دکھا رہے ہیں یہ تو کوئی دائمی طاقتورجادو ہے۔( مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۱۸۵، روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۲، ۹ / ۲۶۷، ملتقطاً)
کفارِ مکہ کی ہٹ دھرمی:
اس آیت میں کفارِ مکہ کا جو حال بیان ہوا کہ ان کا مطالبہ پورا بھی کر دیا جائے تو بھی یہ ایمان نہیں لاتے ،اس کا بیان اور آیات میں بھی کیا گیا ہے،جیسے کفارِ مکہ نے کہا کہ
’’ وَ لَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ‘‘( بنی اسرائیل:۹۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم تمہارے چڑھ جانے پر بھی ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم پر ایک کتاب نہ اتارو جوہم پڑھیں ۔
ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ كِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَیْدِیْهِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ‘‘(انعام:۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر ہم کاغذ میں کچھ لکھا ہوا آپ پر اتار دیتے پھر یہ اسے چھو لیتے تب بھی کافر کہہ دیتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔
کفارِ مکہ نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا:
’’ تُسْقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا‘‘(بنی اسرائیل:۹۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم ہم پر آسمان ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرا دو جیسا تم نے کہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ وَ اِنْ یَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ‘‘(طور:۴۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر وہ آسمان سے کوئی ٹکڑا گرتاہوا دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ تہہ درتہہ بادل ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’ وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْهِ یَعْرُجُوْنَۙ(۱۴) لَقَالُوْۤا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ‘‘(حجر:۱۴،۱۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر ہم ان کے لیے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیتے تاکہ دن کے وقت اس میں چڑھ جاتے۔جب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری نگاہوں کو بند کردیا گیا ہے بلکہ ہم ایسی قوم ہیں جن پر جادو کیا ہواہے۔
کفارِ مکہ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے مُردوں کو زندہ کردیجئے تاکہ ہم ان سے پوچھیں کہ آپ جو فرماتے ہیں وہ حق ہے یا نہیں اور ہمیں فرشتے دکھائیے جو ہمارے سامنے آپ کے رسول ہونے کی گواہی دیں یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لائیے۔ ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةَ وَ كَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَ حَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ‘‘(انعام:۱۱۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اُتاردیتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور ہم ہر چیز ان کے سامنے جمع کردیتے جب بھی وہ ایمان لانے والے نہ تھے مگر یہ کہ خدا چاہتا لیکن ان میں اکثر لوگ جاہل ہیں ۔
{وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنَ الْاَنْۢبَآءِ: اور بیشک ان کے پاس وہ خبریں آچکیں۔} ارشاد فرمایا کہ کفارِ مکہ کے پاس قرآنِ پاک کے ذریعے پچھلی امتوں کے ان لوگوں کی خبریں آ چکی ہیں جو اپنے رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کر دئیے گئے اور ان خبروں میں کفارِ مکہ کے لئے کفر اور تکذیب سے کافی روک اورانتہا درجہ کی نصیحت تھی۔( جلالین، القمر، تحت الآیۃ: ۴، ص۴۴۰، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۱۸۵، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کے حالات معلوم کرنا عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے بہت فائدہ مند ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے ساتھ کفر کرنے کی وجہ سے ہلاک کر دئیے گئے۔
{حِكْمَةٌۢ بَالِغَةٌ: انتہاء کو پہنچی ہوئی حکمت۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ یہ قرآن انتہاء کو پہنچی ہوئی حکمت سے بھرپور ہے تو جب کافر ڈرسنانے والوں کی مخالفت کریں گے اور انہیں جھٹلائیں گے تو یہ انہیں کیا فائدہ دیں گے۔ (خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۲۰۲)اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’ قُلِ انْظُرُوْا مَا ذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَ النُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ‘‘(یونس:۱۰۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ: تم دیکھو کہ آسمانوں اور زمین میں کیا کیا (نشانیاں ) ہیں اور نشانیاں اور رسول ان لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں دیتے جو ایمان نہیں لاتے۔
{فَتَوَلَّ عَنْهُمْ: تو تم ان سے منہ پھیرلو۔}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،ان کفار کی سرکشی کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ ان سے منہ پھیر لیں کیونکہ وہ نصیحت کرنے اور ڈر سنانے سے عبرت حاصل کرنے والے نہیں ۔ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت جہاد والی آیت سے منسوخ ہو چکی ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں کیونکہ ا س کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،آپ ان کفار سے منہ پھیر لیں اور ان سے کلام کرنے کی بجائے ان کے ساتھ جہاد فرمائیں ۔( مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۱۸۵،جلالین مع صاوی، ا لقمر، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۲۰۶۱، ملتقطاً)
{ یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰى شَیْءٍ نُّكُرٍ: جس دن پکارنے والا ایک سخت انجان بات کی طرف بلائے گا۔} آیت کے اس حصے اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ وہ دن یاد کریں جب حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام بیتُ الْمَقْدِس کی چٹان پر کھڑے ہو کرایک ایسی سخت انجان بات کی طرف بلائیں گے کہ اس جیسی سختی کبھی لوگوں نے نہ دیکھی ہوگی اور وہ بات قیامت اور حساب کی ہَولناکی ہے۔اس وقت لوگوں کا حال یہ ہو گا کہ ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی اور وہ اپنی قبروں سے اس حال میں نکلیں گے کہ کثرت کی وجہ سے گویا وہ ہر طرف پھیلی ہوئی ٹڈیاں ہیں اوروہ خوف اور حیرت کی وجہ سے یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ کہاں جائیں ،حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام کی آواز کی طرف دوڑتے ہوئے ان میں سے کافر کہیں گے: یہ کافروں پر بڑاسخت دن ہے۔( خازن ، القمر ، تحت الآیۃ : ۶-۸ ، ۴ / ۲۰۲-۲۰۳، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۶-۸، ص۱۱۸۵-۱۱۸۶،جلالین مع صاوی، القمر، تحت الآیۃ: ۶-۸، ۶ / ۲۰۶۱-۲۰۶۲، ملتقطاً)
ان آیات میں قیامت قائم ہوتے وقت کی جو حالت بیان کی گئی اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ(۵۱)قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَاﱃ هٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَ صَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ‘‘(یس:۵۱،۵۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور صورمیں پھونک ماری جائے گی تو اسی وقت وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑتے چلے جائیں گے ۔کہیں گے: ہائے ہماری خرابی! کس نے ہمیں ہماری نیند سے جگادیا؟ یہ وہ ہے جس کا رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ فرمایاتھا۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
’’ یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّهُمْ اِلٰى نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَۙ(۴۳) خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ-ذٰلِكَ الْیَوْمُ الَّذِیْ كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ‘‘(معارج:۴۳،۴۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جس دن قبروں سے جلدی کرتے ہوئے نکلیں گے گویا وہ نشانوں کی طرف لپک رہے ہیں ۔ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی، ان پر ذلت چڑھ رہی ہوگی، یہ ان کا وہ دن ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
اللہتعالیٰ ہمیں قیامت کی سختیوں اور ہَولناکیوں سے امن نصیب فرمائے،اٰمین۔
قیامت کا دن کافروں پر سخت ہوگا جبکہ کامل ایمان والوں پر سخت نہیں ہو گا:
آیت نمبر8 سے معلوم ہوا کہ قیامت کا دن کافروں پر سخت ہو گا اور کامل ایمان والوں پر سخت نہیں ہو گا۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ اَلْمُلْكُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِؕ-وَ كَانَ یَوْمًا عَلَى الْكٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا‘‘(فرقان:۲۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اس دن سچی بادشاہی رحمٰن کی ہوگی اور کافروں پر وہ بڑا سخت دن ہوگا۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِۙ(۸) فَذٰلِكَ یَوْمَىٕذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌۙ(۹) عَلَى الْكٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ‘‘(مدثر:۸-۱۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جب صور میں پھونکا جائے گا۔تو وہ دن سخت دن ہوگا ۔کافروں پر آسان نہیں ہوگا۔
اور نیک اعمال کرنے والے مومنین کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَاۚ-وَ هُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَىٕذٍ اٰمِنُوْنَ‘‘(نمل:۸۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جو نیکی لائے اس کے لیے اس سے بہتر صلہ ہے اور وہ اس دن کی گھبراہٹ سے امن و چین میں ہوں گے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ یَوْمَىٕذٍ خَیْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَّ اَحْسَنُ مَقِیْلًا‘‘(فرقان:۲۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جنت والے اس دن ٹھکانے کے اعتبار سے بہتر اور آرام کے اعتبار سے سب سے اچھے ہوں گے۔
اللہتعالیٰ ہمیں بھی ان خوش نصیب حضرات کے گروہ میں شامل فرمائے جنہیں قیامت کے دن امن اور چین نصیب ہو گا،اٰمین۔
{ وَ لَقَدْ تَّرَكْنٰهَاۤ اٰیَةً: اور ہم نے اسے نشانی بناچھوڑا ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ ہم نے اس واقعہ کو کہ کفار غرق کرکے ہلاک کردیئے گئے اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نجات دی گئی،آنے والی امتوں کے لئے نشانی بنا چھوڑا تو ہے کوئی دھیان کرنے والا جو اس واقعہ سے نصیحت اور عبرت حاصل کرے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ ہم نے ا س کشتی کو آنے والی امتوں کیلئے نشانی بناچھوڑا تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا جو اس سے نصیحت حاصل کرے۔
{ وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ: اور بیشک ہم نے قرآن کو یاد کرنے / نصیحت لینے کیلئے آسان فرمادیا۔}اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،بے شک ہم نے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے آپ کی قوم کی زبان میں قرآنِ مجیدنازل فرما کر ان کے لئے آسان کر دیااور طرح طرح کی نصیحتوں اور عبرتوں سے قرآن کو بھر دیا اورا س میں وعدوں اور وعیدوں کوبیان کر دیا تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا جو اس سے نصیحت حاصل کرے۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ بیشک ہم نے قرآن کو یاد کرنے کے لئے آسان کر دیا تو ہے کوئی جو اِسے یادکرے۔( ابو سعود، القمر، تحت الآیۃ: ۱۷،۵ / ۶۵۵، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۱۸۷، ملتقطاً)
قرآنِ مجید یاد کرنے والے کے لئے آسان ہے :
حضرت علامہ مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں قرآنِ کریم کی تعلیم حاصل کرنے،قرآنِ پاک کی تعلیم دینے، اس میں مشغول رہنے اور اسے حفظ کرنے کی ترغیب ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک یاد کرنے والے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی ہے اور اس کو حفظ کرنا سہل وآسان فرما دینے ہی کا ثمرہ ہے کہ عربی، عجمی،بڑے حتّٰی کہ بچے تک بھی اس کو یاد کرلیتے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی مذہبی کتاب ایسی نہیں ہے جو یاد کی جاتی ہو اور سہولت سے یاد ہوجاتی ہو ۔( خزائن العرفان، القمر، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۹۷۷ ،ملخصاً)
حضرتِ انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ قرآن سننے والے سے دنیاکی مصیبتیں دور کر دیتا ہے اور قرآن پڑھنے والے سے آخرت کی مصیبتیں دُور کر دیتا ہے۔ قرآنِ پاک کی ایک آیت سننا سونے کے خزانے سے بہتر ہے اور ا س کی ایک آیت پڑھنا عرش کے نیچے موجود چیزوں سے افضل ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جو اس نے مخلوق پیدا کرنے سے پہلے فرمایا تو جس نے قرآن میں اِلحاد کیا(یعنی بے دینی کا کوئی معاملہ کیا) یا قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہا تو اس نے کفر کیا اور اگر اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک کو لوگوں کی زبانوں پر آسان نہ فرما دیتا کوئی شخص بھی رحمٰن کے کلام کا تَکَلُّم کرنے پر قادر نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے قرآن کو یاد کرنے کے لیے آسان فرمادیا تو ہے کوئی یاد کرنے والا؟( مسند الفردوس، باب الیائ، ۵ / ۲۵۹، الحدیث: ۸۱۲۲)
{ اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا : بیشک ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیجی۔} اس آیت سے قومِ عاد پر آنے والے عذاب کی کیفِیَّت بیان کی جا رہی ہے،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم نے قومِ عاد پر ایسے دن میں ایک بہت تیز چلنے والی ،نہایت ٹھنڈی اور سخت سناٹے والی آندھی بھیجی جس کی نحوست ان پر ہمیشہ کے لیے رہی حتّٰی کہ ان میں سے کوئی نہ بچا اوروہ سب ہلاک ہوگئے ۔وہ آندھی لوگوں کوزمین سے یوں اکھیڑ دیتی تھی گویا وہ اکھڑی ہوئی کھجوروں کے سوکھے تنے ہوں اور پھر سر کے بل انہیں زمین پر ا س طرح دے مارتی کہ ان کے سر تن سے جدا ہو جاتے تھے اور جس دن وہ آندھی آئی تھی وہ دن مہینے کا آخری بدھ تھا۔( جلالین مع صاوی، القمر، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ۶ / ۲۰۶۵، خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ۴ / ۲۰۴، ملتقطاً)
{ فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ: تو کیسا ہوا میرا عذاب۔} علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ قومِ عاد کے واقعہ میں دو مرتبہ ’’فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَ نُذُرِ‘‘ فرمائے جانے کی ایک وجہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے مقام پر دُنْیَوی عذاب کا ذکر ہے اور ا س مقام پر اُخروی عذاب کا ذکر ہے ،جیسا کہ ایک اور مقام پر ان کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْۤ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیْقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَ هُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ‘‘(حٰم السجدۃ: ۱۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو ہم نے ان پر (ان کے)منحوس دنوں میں ایک تیزآندھی بھیجی تاکہ دنیا کی زندگی میں ہم انہیں رسوائی کا عذاب چکھائیں اور بیشک آخرت کا عذاب زیادہ رسوا کن ہے اور ان کی مدد نہ ہوگی۔
{ كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِالنُّذُرِ: ثمود نے ڈر سنانے والوں (رسولوں ) کو جھٹلایا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ قومِ ثمود نے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والی باتوں اوران نصیحتوں کو جھٹلایا جو انہوں نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سنی تھیں ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ قومِ ثمود نے اپنے نبی حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت کا انکار کرکے اور ان پر ایمان نہ لا کر انہیں جھٹلایا۔
{ فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَ نُذُرِ: تو میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا ہوا؟} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ میرا عذاب اور میرے ڈرکے فرمان جو عذاب نازل ہونے سے پہلے ان کے پاس میری طرف سے آئے تھے اور اپنے موقع پر واقع ہوئے وہ کیسے ہوئے۔( جلالین، القمر، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۴۴۲)
{ اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ صَیْحَةً وَّاحِدَةً: بیشک ہم نے ان پر ایک زور دار چیخ بھیجی ۔} اس آیت میں قومِ ثمود پر آنے والے عذاب کی کیفِیَّت بیان کی گئی ہے، چنانچہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دن انہوں نے اونٹنی کو قتل کیا تو اس کے چوتھے دن ان پر حضرت جبریلعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک زور دار چیخ ماری جس کی وجہ سے ان کی حالت ایسے ہو گئی جس طرح چرواہے جنگل میں اپنی بکریوں کی حفاظت کے لئے گھاس کا نٹوں کا اِحاطہ بنالیتے ہیں ، اس میں سے کچھ گھاس بچی رہ جاتی ہے اور وہ جانوروں کے پاؤں میں روند کر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔(صاوی، القمر، تحت الآیۃ: ۳۱، ۶ / ۲۰۶۷، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۱۱۸۸، ملتقطاً)
{ وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ: اور بیشک ہم نے قرآن کویاد کرنے / نصیحت لینے کیلئے آسان کردیا ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ہم نے اس شخص کے لئے قرآنِ پاک کو آسان کر دیا جو اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے تو ہے کوئی ایسا شخص جو قرآن سے نصیحت حاصل کرے اور ان تمام چیزوں کو چھوڑ دے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ۔( تفسیر طبری، القمر، تحت الآیۃ: ۳۲، ۱۱ / ۵۶۳)
قرآنِ پاک یاد کرنے کا حکم اورفضائل:
قرآنِ پاک کی ایک آیت حفظ کرنا ہر مُکَلَّف مسلمان پر فرضِ عَین ہے اور پورا قرآن مجید حفظ کرنا فرضِ کفایہ ہے اور سورۂ فاتحہ اور ایک دوسری چھوٹی سورت یا اس کے مثل، مثلاً تین چھوٹی آیتیں یا ایک بڑی آیت کو حفظ کرنا واجبِ عَین ہے۔( ردالمحتار مع درالمختار، کتاب الصلاۃ، ۲ / ۳۱۵)
اَحادیث میں قرآنِ مجید یاد کرنے کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں ،ترغیب کے لئے یہاں دو اَحادیث درج ذیل ہیں ،
(1)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے قرآن پڑھا اور اس کو یاد کرلیا، اس کے حلال کو حلال سمجھا اور حرام کو حرام جانا، اس کے گھر والوں میں سے دس ایسے شخصوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ اس کی شفاعت قبول فرمائے گا جن پر جہنم واجب ہوچکا تھا۔(ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل قاریٔ القرآن، ۴ / ۴۱۴، الحدیث: ۲۹۱۴)
(2)…حضرت عبداللہبن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’صاحب ِقرآن سے کہا جائے گا کہ پڑھ اور چڑھ اوراسی طرح ترتیل کے ساتھ پڑھ جس طرح دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا،آخری آیت جو تو پڑھے گا، وہاں تیری منزل ہے۔( ابو داؤد، کتاب الوتر، باب استحباب الترتیل فی القراء ۃ، ۲ / ۱۰۴، الحدیث: ۱۴۶۴)
{ كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍۭ بِالنُّذُرِ: لوط کی قوم نے ڈر سنانے والوں (رسولوں ) کو جھٹلایا۔} یہاں سے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا حال بیان فرمایاگیا کہ انہوں نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا انکار کر کے سب رسولوں کو جھٹلایا کیونکہ ایک نبی کا انکار کرناگویا تمام پیغمبروں کا انکار ہے۔
{ اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ حَاصِبًا: بیشک ہم نے ان پر ایک پتھراؤ بھیجا۔} یہاں سے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر آنے والے عذاب اور ان کی ہلاکت کے بارے میں بتایا گیا،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے اور ان کاانکار کرنے کی سزا میں ہم نے ان لوگوں پر چھوٹے چھوٹے سنگریزے برسائے اورہم نے اپنے پاس سے احسان فرماکرحضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی دونوں صاحب زادیوں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا اور انہیں صبح ہونے سے پہلے بچا لیا، اور یہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والوں کی خصوصیت نہیں بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کرنے والے ہر بندے کو یونہی صلہ دیتے ہیں کہ انہیں مشرکین کے ساتھ عذاب نہیں دیتے ۔ یاد رہے کہ شکر گزار بندہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے اور ان کی اطاعت کرے۔( جلالین مع صاوی، القمر، تحت الآیۃ: ۳۴-۳۵، ۶ / ۲۰۶۸، خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۳۴-۳۵، ۴ / ۲۰۵، ملتقطاً)
{ وَ لَقَدْ اَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنَا: اور بیشک اس نے انہیں ہماری گرفت سے ڈرایا۔} یعنی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں ہماری گرفت اورہمارے عذاب سے ڈرایا تو انہوں نے ڈر کے فرمانوں میں شک کیااور ان کی تصدیق کرنے کی بجائے انہیں جھٹلانے لگے۔( خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۳۶، ۴ / ۲۰۵)
{ وَ لَقَدْ رَاوَدُوْهُ عَنْ ضَیْفِهٖ: انہوں نے اسے اس کے مہمانوں کے متعلق پھسلانا چاہا ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوطعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے انہیں ان کے معزز مہمانوں کے متعلق پھسلانا چاہا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ آپ ہمارے اور اپنے مہمانوں کے درمیان د خل اندازی نہ کریں اور انہیں ہمارے حوالے کردیں ۔ حضرت لوطعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے یہ بات فاسد نیت اور خبیث ارادے سے کہی تھی۔حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مہمان فرشتے تھے، انہوں نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ آپ اُنہیں چھوڑ دیجئے اورگھر میں آنے دیجئے ۔ جیسے ہی وہ گھر میں آئے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے ایک دستک دی تو ہم نے ان کی آنکھوں کو مٹا دیا جس سے وہ فوراً اندھے ہوگئے اور ان کہ آنکھیں ایسی ناپید ہوگئیں کہ ان کا نشان بھی باقی نہ رہا اور چہرے سپاٹ ہوگئے ۔وہ لوگ حیرت زدہ مارے مارے پھرتے تھے اور دروازہ ان کے ہاتھ نہ آتا تھا، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُنہیں دروازے سے باہر کیا۔اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے ان سے ارشاد فرمایا کہ میرے عذاب اور میرے ڈر کے فرمانوں کا مزہ چکھو جو تمہیں حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سنائے تھے۔(خازن، القمر،تحت الآیۃ:۳۷، ۴ / ۲۰۵، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۱۱۸۹، جلالین، القمر، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۴۴۲، ملتقطاً)
{ وَ لَقَدْ صَبَّحَهُمْ بُكْرَةً: اور بیشک صبح سویرے ان پر آیا۔} ارشاد فرمایا کہ بے شک حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر صبح سویرے ٹھہرنے والا عذاب آیا جو کہ آخرت تک باقی رہے گا۔مراد یہ ہے کہ دُنْیَوی عذاب بَرزخی عذاب سے اور برزخی عذاب اُخروی عذاب سے ملا ہوا ہے لہٰذا نفسِ عذاب دائمی اور قائم ہے۔ اس آیت سے عذابِ قبر کا ثبوت بھی ہوتا ہے کیونکہ اگر عذابِ قبر حق نہ ہوتو ان کا عذاب مُسْتقر یعنی ٹھہرنے والا نہیں رہتا۔
{ فَذُوْقُوْا عَذَابِیْ وَ نُذُرِ: تومیرے عذاب اور میرے ڈر کے فرمانوں کا مزہ چکھو۔} دوسری بار یہ بات ا س لئے فرمائی گئی کہ ان پر عذاب دو مرتبہ نازل ہوا تھا ،پہلا عذاب خاص ان لوگوں پر ہو اتھا جو حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گھر میں داخل ہوئے تھے اور دوسرا عذاب سب کو عام تھا۔( تفسیر کبیر، القمر، تحت الآیۃ: ۳۹، ۱۰ / ۳۱۸ ،ملخصاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan