Surah al-Qamar
{ وَ لَقَدْ جَآءَ: اور بیشک آئے۔} یہاں سے فرعون اور ا س کی قوم کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے ،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک فرعونیوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والے رسول حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آئے تو فرعونی اُن پر ایمان نہ لائے اورانہوں نے ہماری ان سب نشانیوں کو جھٹلادیا جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دی گئیں تھیں تو ہم نے اس جھٹلانے کی وجہ سے ان پر عذاب کے ساتھ ایسی گرفت کی جیسی ایک عزت والے ، عظیم قدرت والے کی گرفت ہوتی ہے کہ قدرت والے کی پکڑ سے کوئی چھڑا نہیں سکتا۔( روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ۹ / ۲۸۱-۲۸۲، ملخصاً)
{ فَاَخَذْنٰهُمْ اَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ: تو ہم نے ان پرایسی گرفت کی جیسی ایک عزت والے ، عظیم قدرت والے کی گرفت کی شان ہوتی ہے۔} سابقہ امتوں نے جب اللہتعالیٰ کے ساتھ شرک کر کے ،اس کے رسول کو جھٹلا کر اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں مصروف رہ کر اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب سے ڈرانے کے فرمان آنے اور مہلت ملنے کے باوجود اپنی حالت کو نہ سدھارا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بہت سخت گرفت فرمائی اورسابقہ امتوں کی تباہی و بربادی کے واقعات سنانے سے مقصود اس امت کے لوگوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے بھی ان جیسے اعمال اختیار کئے، اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کو پسِ پُشت ڈالا تو ان کی بھی بڑی سخت گرفت ہو سکتی ہے ۔جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ‘‘(ہود:۱۰۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِؕ-ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌۙ-لَّهُ النَّاسُ وَ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ‘‘(ہود:۱۰۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اس میں اُس کیلئے نشانی ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرے۔ وہ ایسا دن ہے جس میں سب لوگ اکٹھے ہوں گے اور وہ دن ایسا ہے جس میں ساری مخلوق موجود ہوگی۔
اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے اور جب اس کی پکڑ فرما لیتا ہے تو پھر اسے مہلت نہیں دیتا۔پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
’’ وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ‘‘(ہود:۱۰۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب وکذٰلک اخذ ربّک ...الخ، ۳ / ۲۴۷، الحدیث: ۴۶۸۶)
لہٰذا اس امت کے ہر ایک فرد کو ان آیات میں غور کرنا چاہئے اور ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی سے بچے تاکہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے محفوظ رہے۔
{اَكُفَّارُكُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰٓىٕكُمْ: کیا تمہارے کافر ان سے بہتر ہیں ۔} اس آیت میں کفارِ مکہ کو ڈراتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے اہلِ مکہ! کیا تمہارے کافر حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم، عاد،ثمود،حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اور فرعون کی قوم سے زیادہ طاقتور اور توانا ہیں یا وہ کفر و عناد میں کچھ ان سے کم ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ تم سے پہلے کے کافر تم سے زیادہ مضبوط اور طاقتور تھے ،اس کے باوجود ان کی سرکشی کی بنا پر جو کچھ ان کے ساتھ ہو اوہ تم نے سن لیا ،توکیا تمہیں یہ امید ہے کہ تمہیں ان جیساعذاب نہیں ہو گا حالانکہ تمہارا حال ان سے بہت بدتر ہے، یا یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں تمہارے لئے نجات لکھی ہوئی ہے کہ تمہارے کفر کی گرفت نہ ہوگی اور تم عذابِ الٰہی سے امن میں رہو گے اوراس وجہ سے تم اپنے کفر و سرکشی پر ڈٹے ہوئے ہو۔ایسا تو ہر گز نہیں ہے۔( خازن، القمر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۴ / ۲۰۵، مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۱۱۸۹، روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۹ / ۲۸۲، ملتقطاً)
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ: یا وہ یہ کہتے ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا کفارِ قریش اپنی جہالت اور قوت و شوکت کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ ہم سب مل کرمحمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بدلہ لیں گے ؟ اللہتعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ عنقریب کفارِ مکہ کے گروہ میں شامل سب لوگ بھگادیئے جائیں گے اور وہ پیٹھ پھیر دیں گے اور اس طرح بھاگیں گے کہ ان میں سے ایک بھی قائم نہ رہے گا۔شانِ نزول:جب غزوۂ بدر کے دن ابوجہل نے کہا کہ ہم سب مل کر بدلہ لیں گے تو یہ آیت نازل ہوئی ’’ سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ‘‘ اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے زرہ پہن کر یہ آیت تلاوت فرمائی اور پھر ایسا ہی ہوا کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فتح نصیب ہوئی اور کفار کو ہزیمت و شکست سے دوچارہونا پڑا۔(جلالین مع صاوی ، القمر ، تحت الآیۃ : ۴۴ - ۴۵ ، ۶ / ۲۰۶۹ - ۲۰۷۰، روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۴۴-۴۵، ۹ / ۲۸۲، ملتقطاً)
{بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ: بلکہ ان کا وعدہ قیامت ہے۔} یعنی بدر کی شکست کفارِ مکہ کا پورا عذاب نہیں بلکہ اس عذاب کے بعد انہیں قیامت کے دن اصل عذاب کا وعدہ ہے اور قیامت سب سے زیادہ سخت اور سب سے زیادہ کڑوی ہے کہ دُنْیَوی عذاب کے مقابلے میں اس کا عذاب بہت زیادہ سخت ہے کیونکہ دُنْیَوی عذاب جیسے قید ہونا،قتل ہونا اور شکست کھانا وغیرہ تو اُخروی عذاب کی ایک جھلک ہے۔( روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۴۶، ۹ / ۲۸۲-۲۸۳)
{یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ: جس دن وہ آگ میں اپنے چہروں کے بل گھسیٹے جائیں گے۔} اس آیت ِمبارکہ میں کفار کو جہنم میں منہ کے بل گھسیٹے جانے کا ذکر ہے اور حدیث ِپاک میں بعض ایسے مسلمانوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جنہیں منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ سنا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا وہ شہید ہو گا،اس کو بلایا جائے گا اور اسے ا س کی نعمتیں دکھائی جائیں گی،جب وہ ان نعمتوں کو پہچان لے گا تو (اللہتعالیٰ) ارشاد فرمائے گا’’تم نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کام کیا؟وہ عرض کرے گا:میں نے تیری راہ میں جہاد کیا حتی کہ شہید ہو گیا۔اللہتعالیٰ فرمائے گا:تو جھوٹ بولتا ہے ،بلکہ تو نے ا س لئے جہاد کیا تھا تاکہ تجھے بہادر کہا جائے ،لہٰذا وہ تجھے کہہ دیا گیا۔پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا حتّٰی کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔پھر ایک ایسے شخص کو بلایا جائے گا جس نے علم حاصل کیا،لوگوں کو تعلیم دی اور قرآن پڑھا،اسے اس کی نعمتیں دکھائی جائیں گی،جب وہ ان نعمتوں کو پہچان لے گا تو (اللہتعالیٰ)اس سے ارشاد فرمائے گا’’تم نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کام کیا؟وہ عرض کرے گا:میں نے علم حاصل کیا اور اس علم کو سکھایا اور تیرے لئے قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا’’تو جھوٹ بولتا ہے،تم نے ا س لئے علم حاصل کیا تاکہ تجھے عالِم کہا جائے ،تم نے قرآن اس لئے پڑھا تاکہ تجھے قاری کہا جائے،سو تمہیں (عالم اور قاری) کہہ دیا گیا۔پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔پھر ایک ایسے شخص کو بلایا جائے گا جس پر اللہ تعالیٰ نے وسعت کی اورا سے ہر قسم کا مال عطا فرمایا،اسے بھی اس کی نعمتیں دکھائی جائیں گی اور جب وہ ان نعمتوں کو پہچان لے گا تو اللہتعالیٰ فرمائے گا’’تم نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کام کیا؟وہ عرض کرے گا:میں نے ہر اس راستے میں مال خرچ کیا جس میں مال خرچ کرنا تجھے پسند ہے۔اللہتعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’تو جھوٹ بولتا ہے،تم نے یہ کام اس لئے کئے تاکہ تجھے سخی کہا جائے ،لہٰذا وہ تمہیں کہہ دیا گیا پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا حتّٰی کہ اسے بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔( مسلم، کتاب الامارۃ، باب من قاتل للریاء والسمعۃ استحق النار، ص۱۰۵۵، الحدیث: ۱۵۲(۱۹۰۵))
{اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ: بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے ہر چیز حکمت کے تقاضے کے مطابق ایک اندازے سے پیدا فرمائی ہے۔( مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۱۹۰)شانِ نزول: یہ آیت ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئی جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے منکر ہیں اورنئے واقعات کوستاروں وغیرہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔
تقدیر کے مُنکروں کے بارے میں اَحادیث:
یہاں تقدیر کے منکر لوگوں کے بارے میں دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر امت میں مجوسی ہوتے تھے اور اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو کہیں گے کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ۔ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک نہ ہونا اور جو ان میں سے بیمار پڑے اس کی عیادت نہ کرنا،وہ دجال کے ساتھی ہیں اور اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ انہیں دجال کے ساتھ ملا دے۔( ابو داؤد، کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، ۴ / ۲۹۴، الحدیث: ۴۶۹۲)
(2)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا انکار کرتے ہیں ،اگر وہ لوگ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت نہ کرنا،اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں حاضر نہ ہو نا اور اگر تمہاری ان سے ملاقات ہو جائے تو انہیں سلام تک نہ کرنا۔( ابن ماجہ، کتاب السنۃ، باب فی القدر، ۱ / ۷۰، الحدیث: ۹۲)
یاد رہے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر ایمان لائے اور تقدیر کے بارے میں بحث نہ کرے کہ یہ ایمان کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ تقدیر کی اچھائی اور برائی پر ایمان نہ لائے،اسی طرح جب تک وہ یہ نہ جان لے کہ جو مصیبت اسے پہنچی ہے وہ اس سے ٹلنے والی نہ تھی اور جو مصیبت اس سے ٹل گئی وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔( ترمذی، کتاب القدر، باب ماجاء انّ الایمان بالقدر خیرہ وشرّہ، ۴ / ۵۷، الحدیث: ۲۱۵۱)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم تقدیر کے بارے میں ایک دوسرے سے بحث کر رہے تھے (یہ دیکھ کر) آپ کو اتنا جلال آیا کہ چہرۂ اَقدس ایسے سرخ ہو گیا جیسے آپ کے مبارک رخساروں پر انار نچوڑ دیا گیا ہو۔آپ نے فرمایا’’کیا تمہیں اس بات کا حکم دیاگیا ہے یا اسی بات کے لئے میں تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں ؟تم سے پہلے لوگوں نے جب اس (تقدیر کے) بارے میں اختلاف کیا تو وہ ہلاک ہو گئے،میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ اس کے بارے میں مت جھگڑو۔( ترمذی، کتاب القدر، باب ماجاء من التشدید فی الخوض فی القدر، ۴ / ۵۱، الحدیث: ۲۱۴۰)
جب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ جیسی عظیم ہستیوں کو تقدیر کے بارے میں بحث کرنے سے روک دیا گیا تو ہمیں اس سے بدرجہ اَوْلیٰ باز رہنا چاہئے۔
{وَ مَاۤ اَمْرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَةٌ: اور ہمارا کام تو صرف ایک بات ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم جس چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمائیں تو وہ ہمارے صرف ایک مرتبہ حکم فرمانے کے ساتھ ہی اتنی دیر میں ہو جاتی ہے جتنی دیر تم میں سے کسی کو پلک جھپکنے میں لگتی ہے۔( مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۱۱۹۰)
{وَ كُلُّ شَیْءٍ فَعَلُوْهُ: اور انہوں نے جو کچھ کیا ۔} مزید ارشاد فرمایا کہ اے کفارِ قریش!پہلی امتوں میں سے تم جیسے کفار نے جو کچھ کیا وہ سب ان کتابوں میں موجود ہے جنہیں ان پر مقرر فرشتوں نے لکھا ہے۔بعض مفسرین نے اس آیت کے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں کہ بندوں کے تمام اَفعال اَعمال لکھنے والے فرشتوں کے صحیفوں میں موجود ہیں ۔( تفسیر طبری، القمر، تحت الآیۃ: ۵۲، ۱۱ / ۵۷۰،جلالین، القمر، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۴۴۳، ملتقطاً)
{وَ كُلُّ صَغِیْرٍ وَّ كَبِیْرٍ مُّسْتَطَرٌ: اور ہر چھوٹی اوربڑی چیز لکھی ہوئی ہے۔ } یعنی چھوٹے اور بڑے تمام اعمال اپنی تفصیل کے ساتھ لوحِ محفوظ میں لکھے ہو ئے ہیں ۔ (روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۵۳، ۹ / ۲۸۵)
سب کے لئے نصیحت:
ان آیات میں ہر مسلمان کے لئے بڑی نصیحت ہے کہ اس کے تمام اعمال لوحِ محفوظ میں لکھے ہوئے ہیں اور اَعمال لکھنے والے فرشتے بھی اپنے صحیفوں میں اس کا ہر ہر عمل لکھ رہے ہیں اورپھر قیامت کے دن ہر شخص ان اعمال ناموں کو اپنے سامنے پائے گا ۔اس نازک ترین مرحلے کی منظر کشی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَاۚ-وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاؕ-وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا‘‘(کہف:۴۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور نامہ اعمال رکھا جائے گا تو تم مجرموں کو دیکھو گے کہ اس میں جو( لکھا ہوا) ہوگا اس سے ڈررہے ہوں گے اورکہیں گے: ہائے ہماری خرابی! اس نامہ اعمال کو کیاہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے اور لوگ اپنے تمام اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا ﳝ- وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍۚۛ-تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَ بَیْنَهٗۤ اَمَدًۢا بَعِیْدًاؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ‘‘(ال عمران:۳۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: (یاد کرو)جس دن ہر شخص اپنے تمام اچھے اور برے اعمال اپنے سامنے موجود پائے گا توتمنا کرے گاکہ کاش اس کے درمیان اور اس کے اعمال کے درمیان کوئی دور دراز کی مسافت(حائل) ہوجائے اور اللہ تمہیں اپنے عذاب سے ڈراتا ہے اور اللہبندوں پربڑامہربان ہے۔
لہٰذا ہرایک کو چاہئے کہ وہ چھوٹے بڑے تمام گناہوں سے بچے اور جو گناہ سرزد ہو چکے ان سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سچی توبہ کر لے۔حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جسے یہ معلوم ہے کہ اس کے اعمال قیامت کے دن ا س کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور ان اعمال کے مطابق اسے جزا دی جائے گی تو اسے چاہئے کہ اپنے کام درست کرنے کی کوشش کرے اور اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کرے اور جو گناہ اس سے ہو چکے ان سے لازمی توبہ کر لے۔( روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۵۳، ۹ / ۲۸۵)اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ: بیشک پرہیزگار لوگ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں مُتّقی لوگوں کی جزاء بیان کی گئی ہے کہ بے شک وہ لوگ جو کفر اور گناہوں سے بچے رہے ،وہ ایسے عظیم الشّان باغوں میں ہوں گے جن میں موجود نعمتوں اور ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی چیزوں کے اوصاف بیان سے باہر ہیں اسی طرح ان کے باغوں اور گھروں میں پانی، شراب، شہد اور دودھ کی نہریں ہوں گی اور وہ عظیم قدرت والے بادشاہ کی بارگاہ کے مُقَرّب ہوں گے۔( روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۵۴-۵۵، ۹ / ۲۸۵، ملخصاً)
جو باغ اور نہریں مُتّقی لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہیں ان کا حال بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: ’’مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَؕ-فِیْهَاۤ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَیْرِ اٰسِنٍۚ-وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗۚ-وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ ﳛ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّىؕ-وَ لَهُمْ فِیْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ مَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ‘‘(سورہ محمد:۱۵)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan