READ

Surah al-Qalam

اَلْقَلَم
52 Ayaat    مکیۃ


68:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

68:1
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ(۱)
قلم (ف۲) اور ان کے لکھے کی قسم (ف۳)

{نٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں  سے ایک حرف ہے ،اس کی مراد اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَ: قلم اور ان کے لکھے کی قسم۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں  قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے لوگ لکھتے ہیں  اور ’’ان کے لکھے ‘‘ سے مراد لوگوں  کی دینی تحریریں  ہیں  ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے فرشتے لکھتے ہیں  اور’’ ان کے لکھے ‘‘سے بنی آدم کے اعمال کے نگہبان فرشتوں  کا لکھا مراد ہے یا ان فرشتوں  کا لکھا مراد ہے جو لوحِ محفوظ سے عالَم میں  وقوع پذیر ہونے والے واقعات اپنے صحیفوں  میں  لکھتے ہیں ۔تیسرا قول یہ ہے کہ اس قلم سے وہ قلم مراد ہے جس سے لوحِ محفوظ پر لکھاگیا،یہ نوری قلم ہے اور اس کی لمبائی زمین و آسمان کے فاصلے کے برابر ہے،اور’’ ان کے لکھے‘‘ سے لوحِ محفوظ پر لکھا ہوا مراد ہے۔( مدارک،القلم،تحت الآیۃ:۱، ص۱۲۶۶، خازن، ن، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۲۹۳، جمل، القلم، تحت الآیۃ: ۱،۸ / ۷۱-۷۲، ملتقطاً)

             اس قلم نے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر قیامت تک ہونے والے تمام اُمور لکھ دیئے ہیں  ،جیسا کہ حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اورا س سے فرمایا لکھ۔وہ عرض گزار ہوا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں  کیا لکھوں ؟ ارشاد فرمایا: ’’جو کچھ ہو چکا اور جو اَبد تک ہو گا سب کی تقدیر لکھ دے۔( ترمذی، کتاب القدر، ۱۷-باب، ۴ / ۶۲، الحدیث: ۲۱۶۲)

            اور سننِ ابو داؤد کی روایت میں  ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے قلم سے ارشاد فرمایا’’قیامت تک جو چیزیں  ہوں  گی سب کی تقدیریں  لکھ دے۔( ابو داؤد، کتاب السنۃ،باب القدر، ۴ / ۲۹۸، الحدیث: ۴۷۰۰)

68:2
مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍۚ(۲)
تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں (ف۴)

{مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ: تم اپنے رب کے فضل سے ہرگز مجنون نہیں  ہو۔} کفار نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں  (گستاخی کرتے ہوئے) کہا:

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ‘‘(حجر:۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے! بیشک تم مجنون ہو۔

            اللّٰہ تعالیٰ نے قسم ارشاد فرما کر ان کی بد گوئی کا رد کرتے ہوئے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا: ’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قلم اور ان کے لکھے کی قسم! آپ مجنون نہیں  ہیں  کیونکہ آپ پر آپ کے رب تعالیٰ   کا فضل ہے اور اس کا لطف و کرم آپ کے شاملِ حال ہے ،اس نے آپ پر انعام و احسان فرمائے ،نبوت اور حکمت عطا کی ، مکمل فصاحت ، کامل عقل، پاکیزہ خصائل اور پسندیدہ اَخلاق عطا کئے، مخلوق کے لئے جس قدر کمالات ہونا ممکن ہیں  وہ سب علیٰ وجہِ الکمال عطا فرمائے اور ہر عیب سے آپ کی بلند صفات ذات کو پاک رکھا اوران چیزوں  کے ہوتے ہوئے آپ مجنون کیسے ہو سکتے ہیں ۔(خازن، ن، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۲۹۳،تفسیر کبیر، القلم، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۶۰۰،ملتقطاً)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان:

             یہاں  ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ قرآنِ پاک میں  بکثرت مقامات پر انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کفار کی جاہلانہ گفتگو کا ذکر ہے جس کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بدبخت طرح طرح سے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں  سخت کلامی اوربیہودہ گوئی کرتے اور وہ مُقَدّس حضرات اپنے عظیم حِلم اور فضل کے لائق انہیں  جواب دیتے، لیکن حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ والا میں  کفار نے جو زبان درازی کی ہے اس کا جواب زمین و آسمان کی سلطنت کے مالک رب تعالیٰ نے خود دیا ہے اور محبوبِ اکرم، مطلوبِ اعظم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے خوددفاع فرمایا ہے اورطرح طرح سے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی (کفار کے الزامات سے) پاکی اور براء ت ارشاد فرمائی ہے اور بکثرت مقامات پر دشمنوں  کے الزامات دور کرنے پر قسم یاد فرمائی ،یہاں  تک کہ غنی اور غنی کرنے والے رب تعالیٰ نے ہر جواب سے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بے نیاز کر دیا،اور اللّٰہ تعالیٰ کا جواب دینا حضورِ اَنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خود جواب دینے سے بدرجَہا حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے بہتر ہوااور یہ وہ مرتبۂ عُظمیٰ ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں  ۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۶۲-۱۶۴، ملخصاً)

سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک عقل:

             نیز کفار کے اس اعتراض سے ان کی جہالت اور بیوقوفی بھی واضح ہے کیونکہ مجنون وہ ہوتا ہے جس کی عقل سلامت نہ رہے جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقل مبارک تو ایسی تھی کہ کسی بشر میں  اس کی مثال ملنا ممکن ہی نہیں  اور اللّٰہ تعالیٰ نے جیسی عقل آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا فرمائی ہے ویسی کسی اور کو عطا ہی نہیں  کی تو پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جنون کی نسبت کرنا جہالت کے سوا اور کیا ہے۔عقل کی تعریف اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقل مبار ک کے بارے میں  بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدّثِ دہلوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’عقل کی حقیقت کے بارے میں  لوگوں  کا اختلاف ہے، (لغت کی کتاب) قاموس میں  کہا گیا ہے کہ عقل،چیزوں  کے حسن و قباحت اور ان کے کمال و نقصان کی صفات کے علم کا نام ہے اور یہ علم عقل کے نتائج اور ثمرات سے حاصل ہوتا ہے اور عقل ایسی قوت ہے جو اس علم کا مَبداء اور سرچشمہ ہے۔اور بیان کیا کہ کہا جاتا ہے کہ انسان کی حرکات و سَکَنات میں  محمود ہَیئت کا نام عقل ہے،حالانکہ یہ بھی عقل کے خواص اور آثار کی قسم سے ہے۔ (عقل کی تعریف کے بارے میں ) قولِ حق جسے علماء نے بیان کیا ،یہ ہے کہ عقل ایک روحانی نور ہے جس سے ضروری اور نظری علوم معلوم ہوتے ہیں  اور عقل کے وجودکا آغاز بچے کی پیدائش کے ساتھ ہے،پھر وہ رفتہ رفتہ نشو و نَما پاتا ہے یہاں  تک کہ بالغ ہونے کے وقت کامل ہو جاتا ہے اور حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عقل اور علم میں  کمال کے اس مرتبے پر تھے کہ آپ کے علاوہ کوئی بشر اس درجے تک نہیں  پہنچا،اللّٰہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فیضان فرمایا ان میں  سے بعض پر عقول و اَفکار حیران ہیں  اور جو بھی آپ کے اَحوال کی کَیفِیَّتوں  اور آپ کی صفاتِ حمیدہ اور محاسنِ اَفعال کی تلاش و جُستجو کرتا ہے اور جوامع الکَلِم، حسنِ شمائل،نادر ولطیف خصائل،لوگوں  کی سیاسی تدبیر،شرعی اَحکام کا اظہار وبیان،آدابِ جلیلہ کی تفاصیل،اَخلاقِ حسنہ کی ترغیب و تحریص،آسمانی کتابوں  اور ربانی صحیفوں  پر آپ کا عمل،گزشتہ امتوں  کے تاریخی حالات،سابقہ دنوں  کے اَحوال،کہاوتوں  اور ان کے وقائع اور احوال کا بیان،اہلِ عرب جو کہ چوپایوں  اور درندوں  کی مانند تھے، جن کی طبیعتیں  جہل و جفا اور نادانی و شقاوت کی بنا پر مُتَنَفِّر اور دور رہنے والی تھیں ، ان کی اصلاح و تدبیر،ان کے ظلم و جفا اور ایذا و تکلیفوں  پر آپ کا صبر و تحَمُّل،پھر ان کوعلم و عمل،حسنِ اَخلاق اور اعمال میں  انتہائی درجے تک پہنچانا،انہیں  دنیا و آخرت کی سعادتوں  سے بہرہ ور کرناپھر کس طرح ان کا ان سعادتوں  کو اپنے نفسوں  پر اختیار کرنا اوران کا اپنے گھروں ،دوستوں ،عزیزوں  کو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشنودی کی خاطر چھوڑ دینا۔ ان سب چیزوں  کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو وہ جان لے گا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقل کامل اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عمل کس مرتبہ و مقام پر تھا۔جو بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَحوال شریف کو ابتداء سے انتہاء تک مطالعہ کرے گا وہ دیکھے گا کہ پروردگارِ عالَم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کتنا علم عطا فرمایا اور آپ پر ا س کا کتنا فیضان ہے اورمَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ یعنی گزشتہ و آئندہ کے علوم و اَسرار بدیہی طور پر کس طرح حاصل ہیں  تو وہ شک و شُبہ اور وہم و خیال کے بغیر علمِ نبوت کو جان لے گا۔چنانچہ حق تعالیٰ نے حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کی مدح و ثنا اور وفورِ علم کے بارے میں  فرمایا:

’’وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(نساء:۱۱۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللّٰہ کافضل بہت بڑا ہے۔

            حضرت وہب بن منبہ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  جو کہ تابعی ، سندکے حوالے سے قابلِ اعتماد ،ہمیشہ سچ بولنے والے عالِم، صاحب ِکتب واَخبار تھے’’فرماتے ہیں  کہ میں  نے مُتَقَدِّمین کی 71کتابیں  پڑھی ہیں  ،میں  نے ان تما م کتابوں  میں  پایا کہ حق سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی  نے دنیا کے آغاز سے لے کر دنیا کے انجام تک تما م لوگوں  کو جس قدر عقلیں  عطا فرمائی ہیں  ان سب کی عقلیں  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقلِ مبارک کے مقابلے میں  یوں  ہیں  جیسے دنیا بھر کے ریگستانوں  کے مقابلے میں  ایک ذرہ ہے ،آپ کی رائے ان سب سے افضل و اعلیٰ ہے۔

             عوارفُ المعارف میں  بعض علماء سے نقل کیا ہے’’پوری عقل کے سو حصے ہیں ،ان میں  سے ننانوے حصے حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  ہیں  اور ایک حصہ تما م مسلمانوں  میں  ہے۔

            بندۂ مسکین کہتا ہے (یعنی شیخ عبد الحق محدّثِ دہلوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ) کہ اگر وہ یوں  کہیں  کہ عقل کے ہزار حصے ہیں  جن میں  سے نو سو ننانوے حصے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  ہیں  اور ایک حصہ تمام لوگوں  میں  ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے، ا س لئے کہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  بے انتہاء کمال ثابت ہے تو (آپ کی شان میں  معبود ہونے کے علاوہ) جو کچھ بھی کہا جائے گا بجا ہو گا۔اس پر اگر حاسدوں  کا سینہ جلے اور گمراہوں  کادل تنگ ہوتو اس کا کوئی علاج نہیں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ ‘‘(کوثر:۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے محبوب! بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں  عطا فرمائیں ۔

            اور فرمایا: ’’ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ‘‘(کوثر:۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔

(مدارج النبوہ، باب دوم دربیان اخلاق وصفا، وصل دربیان عقل وعلم، ۱ / ۵۳)

            اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کیا خوب فرماتے ہیں :

ملکِ خاصِ کبریا ہو               مالکِ ہر ما سوا ہو

کوئی کیا جانے کہ کیا ہو           عقلِ عالَم سے ورا ہو

68:3
وَ اِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍۚ(۳)
اور ضرور تمہارے لیے بے انتہا ثواب ہے (ف۵)

{وَ اِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ: اور یقینا تمہارے لیے ضرور بے انتہا ثواب ہے۔} ار شاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ضرور تمہارے لیے رسالت کی تبلیغ، نبوت کے اِظہار ،مخلوق کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور کفار کی ان بے ہودہ باتوں  ، اِفتراؤں  اور طعنوں  پر صبر کرنے کا بے انتہاء ثواب ہے لہٰذا کفار جو آپ کی طرف جنون کی نسبت کر رہے ہیں  آپ اسے خاطر میں  نہ لائیے اور رسالت کی تبلیغ کے اہم کام کو جاری رکھئے۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۲۹۴)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  لکھتے ہیں : ’’حق جَلَّ وَ عَلَا نے فرمایا:

’’وَ اِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ‘‘

اور بے شک تیرے لیے اجر بے پایاں  ہے۔

            کہ تو ان دیوانوں  کی بدزبانی پر صبر کرتا اور حِلم وکرم سے پیش آتا ہے ۔مجنون تو چلتی ہوا سے اُلجھا کرتے ہیں ، تیرا سا حِلم وصبر کوئی تمام عالَم کے عقلاء میں  تو بتادے ۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۶۴)

رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ملنے والا ثواب:

            یاد رہے کہ تمام مسلمانوں  کی نیکیوں  کا ثواب اضافے در اضافے کے ساتھ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نامۂ اعمال میں  درج ہوتا ہے،مثال کے طور پررسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جتنے لوگوں  کو مسلمان کیا تو انہیں  مسلمان کرنے کا ثواب حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ملے گا اور ان کے تمام نیک اعمال کا ثواب ان کے ساتھ ساتھ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی ملے گا،اسی طرح ان مسلمانوں  نے آگے جتنے لوگوں  کو مسلمان کیا تواُن کو مسلمان کرنے کا اور ان کی نیکیوں  کاثواب اِن مسلمانوں  کو بھی ملے گا اور ان کے ثواب کے ساتھ مل کر اضافے کے ساتھ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی ملے گا ،اسی طرح قیامت تک سلسلہ در سلسلہ جتنے لوگ مسلمان ہوتے جائیں  گے اور نیک اعمال کرتے جائیں  گے سب کے مسلمان ہونے ا ور نیک اعمال کرنے کا ثواب بے انتہا اضافے کے ساتھ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی ملے گا۔اسی طرح کا مضمون علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے’’ فیض القدیر‘‘ کی جلد نمبر11 کے صفحہ نمبر5789 پر امام مقریزی  رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔اور ہدایت کی دعوت دینے والوں  اور دین میں  اچھا طریقہ جاری کرنے والوں  کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں  کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجروں  میں  کوئی کمی نہیں  ہو گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی اسے اس گمراہی کی پیروی کرنے والوں  کے برابر گناہ ہو گا اور ان کے گناہوں  میں  کوئی کمی نہیں  ہوگی۔(مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنۃ حسنۃ... الخ، ص۱۴۳۸، الحدیث: ۱۶(۲۶۷۴))

            اورحضرت جریر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جس شخص نے مسلمانوں  میں  کسی نیک طریقے کی ابتداء کی اور ا س کے بعد ا س طریقے پر عمل کیا گیا تو اس طریقے پر عمل کرنے والوں  کا اجر بھی ا س کے نامۂ اعمال میں  لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں  کے اجر میں  کمی نہیں  ہو گی اور جس شخص نے مسلمانوں  میں  کسی برے طریقے کی ابتداء کی اور ا س کے بعد ا س طریقے پر عمل کیا گیا تو ا س طریقے پر عمل کرنے والوں  کاگناہ بھی اس شخص کے نامۂ اعمال میں  لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں  کے گناہ میں  کوئی کمی نہیں  ہو گی۔( مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنۃ حسنۃ... الخ، ص۱۴۳۷، الحدیث: ۱۵(۱۷۱۰))

سیّد العالَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا صبر،حِلم اور عَفْوْ و درگُزر:

            یہاں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صبر، حِلم اور عَفْوْ و در ُگزر کی کچھ جھلک ملاحظہ ہو، چنانچہ حدیث اور سیرت کی کتابوں  میں  مذکور ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسی سے اپنی ذات کا بدلہ نہیں  لیا بلکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زیادتی کرنے والوں  کے عمل پر حِلم اور صبر کا مظاہرہ کرتے اوران سے در گزر فرماتے حتّٰی کہ جان کے دشمنوں  کو بھی معاف کر دیا کرتے تھے، چنانچہ یہاں  اِختصار کے ساتھ اس کی چار مثالیں  ملاحظہ ہوں :

(1)… لبید بن اعصم یہودی نے جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جادو کیا تو اس کے بارے میں  معلوم ہوجانے کے باوجود بھی اسے کوئی سزا نہ دی۔

(2)… یہودی عورت زینب نے گوشت میں  زہر ملا کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کھلا دیا تو اپنی ذات کی وجہ سے اس سے کوئی بدلہ نہ لیا البتہ جب اس زہر کے اثر سے ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ انتقال فرما گئے تو اس عورت پر شرعی سزا نافذ فرمائی ۔

(3)…غورث بن حارث نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کی کوشش کی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پر غالب آ جانے کے باوجود اسے معاف کر دیا۔

(4)…کفارِ مکہ نے وہ کونسا ایساظالمانہ برتاؤ تھا جو آپ کے ساتھ نہ کیا ہو لیکن فتحِ مکہ کے دن جب یہ سب جَبّارانِ قریش مہاجرین و اَنصار کے لشکروں  کے محاصرہ میں  مجبور ہو کر حرمِ کعبہ میں  خوف اور دہشت سے کانپ رہے تھے اور انتقام کے ڈر سے ان کے جسم کا رُوآں  رُوآں  لرز رہا تھا تو رسولِ رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان مجرموں  کو یہ فرما کر چھوڑ دیا کہ جاؤ آج تم سے کوئی مُؤاخذہ نہیں  ،تم سب آزاد ہو۔

             مختصر یہ کہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پوری سیرتِ طیبہ میں  صبر، حِلم اور عَفْو و درگُزر کی اتنی مثالیں  موجود ہیں  کہ جنہیں  شمار کیا جائے تو ایک انتہائی ضخیم کتاب مُرَتَّب ہو سکتی ہے۔

68:4
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)
اور بیشک تمہاری خُو بُو (خُلق) بڑی شان کی ہے (ف۶)

{وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ: اور بیشک تم یقینا عظیم اَخلاق پر ہو۔} علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’یہ آیت گویا کہ ’’مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ‘‘ کی تفسیر ہے کیونکہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قابلِ تعریف اَخلاق اور پسندیدہ اَفعال آپ کی ذاتِ مبارکہ سے ظاہر تھے اور جس کی ایسی شان ہو اس کی طرف جنون کی نسبت کرنا درست نہیں ۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۲۹۴)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  لکھتے ہیں :حق جَلَّ وَ عَلَا نے فرمایا:’’وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ اور بے شک تو بڑے عظمت والے ادب تہذیب پر ہے کہ ایک حِلم وصبر کیا ،تیری جوخصلت ہے اِس درجہ عظیم و باشوکت ہے کہ اَخلاقِ عاقلانِ جہان مُجْتَمع ہو کر اس کے ایک شِمّہ (یعنی قلیل مقدار) کو نہیں  پہنچتے ،پھر اس سے بڑھ کراندھا کون جو تجھے ایسے لفظ سے یاد کرے۔(فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۶۴-۱۶۵)

حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک اَخلاق:

اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاقِ کریمہ کے بارے میں  بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ-وَ  لَوْ  كُنْتَ  فَظًّا  غَلِیْظَ  الْقَلْبِ  لَا  نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلِكَ‘‘(ال عمران:۱۵۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو اے حبیب! اللّٰہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں  اور اگر آپ تُرش مزاج ،سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرورآپ کے پاس  سے بھاگ جاتے۔

اور حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ نے اخلاق کے درجات مکمل کرنے اور اچھے اعمال کے کمالات پورے کرنے کے لیے مجھ کو بھیجا۔( شرح السنہ، کتاب الفضائل، باب فضائل سید الاولین والآخرین...الخ، ۷ / ۹، الحدیث: ۳۵۱۶)

اورحضرت سعد بن ہشام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں  نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا سے دریافت کیا:اے اُمُّ المؤمنین! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا، مجھے رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاق کے بارے میں  بتائیے۔حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے فرمایا: ’’کیا تم قرآن نہیں  پڑھتے ؟میں  نے عرض کی: کیوں  نہیں  ! تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا خُلْق قرآن ہی تو ہے۔( مسلم ، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب جامع صلاۃ اللیل... الخ، ص۳۷۴، الحدیث: ۱۳۹(۷۴۶))

اورعلامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  لکھتے ہیں : ’’حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ محاسنِ اَخلاق کے تمام گوشوں  کے جامع تھے۔ یعنی حِلم و عَفْو،رحم و کرم، عدل و انصاف، جود و سخا، ایثار و قربانی، مہمان نوازی، عدمِ تشدُّد، شجاعت، ایفائِ عہد، حسنِ معاملہ، صبروقناعت، نرم گفتاری، خوش روئی، ملنساری، مساوات، غمخواری، سادگی و بے تکلُّفی، تواضع واِنکساری اور حیاداری کی اتنی بلند منزلوں  پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فائز و سرفراز ہیں  کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے ایک جملے میں  اس کی صحیح تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ ‘‘ یعنی تعلیماتِ قرآن پر پورا پورا عمل یہی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاق تھے۔( سیرتِ مصطفٰی، ص۶۰۰)

اورعلامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اَخلاق تمام اَخلاقی اچھائیوں  کا جامع ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا شکر، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خُلَّت، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اخلاص، حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وعدے کی سچائی،حضرت یعقوب اور حضرت ایوب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا صبر، حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عذر ،حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عاجزی اور ان کے علاوہ تمام ابنیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اَخلاق عطا فرمائے اور یہ وہ مقام ہے جو تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں  سے صرف سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا ہوا ہے۔( روح البیان، ن ، تحت الآیۃ: ۴، ۱۰ / ۱۰۶)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کیا خوب فرماتے ہیں :

ترے خُلق کو حق نے عظیم کہا تری خِلق کو حق نے جمیل کیا

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالقِ حسن واَدا کی قسم

علم اور عمل دونوں  اعتبار سے کامل اور جامع شخصیت:

یہاں  ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے،اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم مبارک کے بارے میں  ارشاد فرمایا:

’’وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(النساء:۱۱۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللّٰہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللّٰہ کا فضل بہت بڑا ہے۔

اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عمل مبارک کے بارے میں  ارشاد فرمایا:

’’وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقینا عظیم اخلاق پر ہو۔

اس سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ علم اور عمل دونوں  اعتبار سے کامل اور جامع ہیں۔

سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاقِ کریمہ سے متعلق ایک عظیم واقعہ:

ویسے تواَحادیث اور سیرت کی کتابوں  میں  سیّدالمرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاقِ کریمہ کے بے شمار واقعات مذکور ہیں  جنہیں  اِختصار کے ساتھ بھی یہاں  بیان کرنا ممکن نہیں ، البتہ ہم ایک ایساواقعہ ذکر کرتے ہیں  جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے تو بڑے سہی چھوٹے بچے تک بھی تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاقِ کریمہ سے بہت مُتأثّر تھے اور کسی صورت بھی آپ کے دامنِ اقدس سے جدائی انہیں  برداشت نہ تھی۔چنانچہ حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  زمانۂ جاہلیَّت میں  اپنی والدہ کے ساتھ ننھیال جارہے تھے کہ بنو قین نے وہ قافلہ لوٹ لیا اور حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو مکہ میں  لاکر بیچ دیا۔ حکیم بن حزام نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا کے لئے ان کو خریدلیا۔ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نکاح حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا سے ہوا تو انہوں  نے زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  بطورِ ہدیہ پیش کر دیا۔ حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے والد کو ان کی جدائی کا بہت صدمہ تھا اور وہ حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی جدائی میں  اَشعار پڑھتے اور روتے ہوئے ڈھونڈتے پھر اکرتے تھے۔ اتفاق سے ان کی قوم کے چند لوگوں  کا حج کی غرض سے مکہ جانا ہوا تووہاں  انہوں  نے حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پہچان لیا اورجب وہ حج سے واپس گئے تو انہوں  نے حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خیر و خبران کے باپ کو سنائی ۔حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے باپ اور چچا فدیہ کی رقم لے کر ان کو غلامی سے چھڑانے کی خاطر مکہ مکرمہ میں حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  پہنچے اور عرض کیا: اے ہاشم کی اولاد! اپنی قوم کے سردار! تم لوگ حرم کے رہنے والے ہو اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے گھر کے پڑوسی ہو،تم خود قیدیوں  کو رہا کراتے ہو، بھوکوں  کو کھانا کھلاتے ہو۔ ہم اپنے بیٹے کی طلب میں  تمہارے پا س پہنچے ہیں  ہم پر احسان فرماؤ اور کرم کرو۔ فدیہ قبول کرو اور اس کو رہا کردو بلکہ جو فدیہ ہو اس سے زیادہ لے لو۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: بس اتنی سی بات ہے!عرض کیا حضور!  بس یہی عرض ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: زیدکو بلا ؤاور اس سے پوچھ لو اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے تو بغیر فدیہ ہی کے وہ تمہاری نذرہے اور اگر نہ جانا چاہے تو میں  ایسے شخص پر جَبر نہیں  کرسکتا جو خود نہ جاناچاہے ۔چنانچہ حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بلائے گئے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تم ان کو پہچانتے ہو ؟عرض کی:جی ہاں  پہچانتا ہوں  یہ میرے باپ ہیں  اور یہ میرے چچا۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میرا حال بھی تمہیں  معلوم ہے۔ اب تمہیں اختیار ہے کہ میرے پاس رہنا چاہو تو میرے پاس رہو، ان کے ساتھ جانا چاہوتو اجازت ہے۔ حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا :حضور!میں  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں  بھلا کس کو پسند کرسکتا ہوں ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے لئے باپ کی جگہ بھی ہیں  اور چچا کی جگہ بھی ہیں  ۔ ان دونوں  باپ چچا نے کہا کہ زید! غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتے ہو؟باپ چچا اور سب گھر والوں  کے مقابلہ میں  غلام رہنے کو پسند کرتے ہو؟ حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ہاں ! میں نے ان میں  ایسی بات دیکھی ہے جس کے مقابلے میں  کسی چیزکو بھی پسند نہیں  کرسکتا۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب یہ جواب سنا تو ان کو گودمیں  لے لیا اور فرمایا کہ میں  نے اس کو اپنا بیٹا بنا لیا۔حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے باپ اور چچا بھی یہ منظر دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور خوشی سے ان کو چھوڑ کرواپس چلے گئے۔( الاصابہ فی تمییز الصحابہ، حرف الزای المنقوطۃ، زید بن حارثۃ بن شراحیل الکعبی، ۲ / ۴۹۵)

اَخلاقِ حَسنہ کی تعلیم:

حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ کریمہ کی عظمت و بزرگی کا ایک پہلو اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی امت کو بھی اَخلاقِ حَسنہ اپنانے کی تعلیم اور ترغیب دی ہے ،اس سے متعلق یہاں  4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،چنانچہ

(1)…حضرت جابر بن سمرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمانوں  میں  سب سے زیادہ اچھا وہ ہے جس کے اَخلاق سب سے زیادہ اچھے ہیں  ۔( مسند امام احمد، مسند البصریین، حدیث جابر بن سمرۃ، ۷ / ۴۱۰، الحدیث: ۲۰۸۷۴)

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ حسنِ اخلاق کی وجہ سے دن میں  روزہ رکھنے اور رات میں  قیام کرنے والوں  کا درجہ پا لیتا ہے۔( معجم الاوسط،باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۳۷۲، الحدیث: ۶۲۸۳)

(3)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میزانِ عمل میں  حسنِ اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہیں ۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حسن الخلق، ۴ / ۳۳۲، الحدیث: ۴۷۹۹)

(4)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا’’کیا میں  تمہیں  اس شخص کے بارے میں  نہ بتاؤں  جو قیامت کے دن تم میں  سب سے زیادہ مجھے محبوب اور سب سے زیادہ میری مجلس کے قریب گا۔ہم نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیوں  نہیں ! ارشاد فرمایا’’یہ وہ شخص ہو گا جس کے اَخلاق تم میں  سب سے زیادہ اچھے ہوں  گے ۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص، ۲ / ۶۷۹، الحدیث: ۷۰۵۶)

68:5
فَسَتُبْصِرُ وَ یُبْصِرُوْنَۙ(۵)
تو اب کوئی دم جاتا ہے کہ تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے (ف۷)

{فَسَتُبْصِرُ: تو جلد ہی تم بھی دیکھ لو گے۔} اس سے پہلی آیات میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر لگائے گئے کفار کے الزام کا جواب دیا اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کو بیان کیا اور اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب دنیا میں  ان پر آپ کے معاملے کی حقیقت ظاہر ہوگی اور آپ کفار کو قتل کر کے اور ان کے مال بطورِ غنیمت حاصل کر کے ان پر غالب ہوں  گے اور جب قیامت کے دن حق باطل سے ممتاز ہو جائے گا تو آپ بھی جان جائیں  گے اور کفارِ مکہ بھی جان لیں  گے کہ جنون آپ پر تھا یا وہ خود مجنون اور پاگل تھے۔( جلالین مع صاوی،ن القلم، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۶ / ۲۲۱۱-۲۲۱۲)

68:6
بِاَیِّكُمُ الْمَفْتُوْنُ(۶)
کہ تم میں کون مجنون تھا،

68:7
اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ۪-وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(۷)
بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکے، اور وہ خوب جانتا ہے جو راہ پر ہے،

{اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ: بیشک تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے اسے جو اس کی راہ سے بہکا۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آ پ کا رب عَزَّوَجَلَّ ان لوگوں  کو خوب جانتا ہے جو حقیقت میں  مجنون ہیں  اور یہ وہ لوگ ہیں  جو میرے راستے سے بہک گئے کیونکہ انہوں  نے اپنی عقلوں  سے فائدہ نہیں  اٹھایا اور جو کچھ رسول لے کر آئے ان میں  اپنی عقلوں  کو استعمال نہیں  کیا، اور آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ان لوگوں  کو بھی خوب جانتا ہے جو در حقیقت عقلمند ہیں  اور یہ وہ لوگ ہیں  جو میرے راستے پر ہیں ۔( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۲۶۷، البحر المحیط، القلم، تحت الآیۃ: ۷، ۸ / ۳۰۳، ملتقطاً)

68:8
فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِیْنَ(۸)
تو جھٹلانے والوں کی بات نہ سننا،

{فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِیْنَ: تو تم جھٹلانے والوں  کی بات نہ سننا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ پر یہ سب واضح ہو چکا ہو تو آپ اُن کی اِس بات کونہ ماننے پر ثابت قدم رہیں  کہ آپ انہیں  (شرک سے روکنے اوربتوں  کی مذمت کرنے سے) باز آجائیں  تاکہ ہم بھی آپ کی (مخالفت کرنے سے) باز آجائیں  ،کیونکہ ان مشرکین کی خواہش اور آرزو یہ ہے کہ آپ اپنے دین میں  ان کے لئے اس طرح نرمی کرلیں  کہ آپ ان کی بات مان کر ان کے بتوں  کی پوجا کر لیں  تو وہ بھی آپ کی بات مان کر آپ کے رب تعالیٰ کی عبادت کے معاملے میں  نرمی کر لیں  گے۔( روح البیان،ن، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۱۰ / ۱۰۹، ابو سعود، ن، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۵ / ۷۵۳، تفسیر طبری، ن، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۱۰ / ۱۰۹، ملتقطاً)

{وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَیُدْهِنُوْنَ: انہوں  نے تو یہی خواہش رکھی کہ کسی طرح تم نرمی کرو تو وہ بھی نرم پڑجائیں ۔} مُداہَنَت یہ ہے کہ اپنی دنیا کی خاطر دین کے احکام میں  خلافِ شرع نرمی برتنا جیسے لالچ کی وجہ سے یا کسی کے مرتبے کی رعایت کرتے ہوئے اسے برائی سے منع نہ کرنا یا منع کرنے پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں  اس کی برائی کو دل میں  برا نہ جاننا اور مدارات یہ ہے کہ دین یا دنیا کی بہتری کے لئے کسی کے ساتھ دُنْیَوی معاملات سر انجام دینا جیسے کسی فاسق و گناہگار شخص کے گناہ کو دل میں  برا جانتے ہوئے اس کے شر سے بچنے کے لئے یا اس نیت سے اس کے ساتھ نرم لہجے سے گفتگو کرنا اور خوش روئی سے پیش آنا کہ یہ اچھے اَخلاق سے مُتأثّر ہو کر گناہوں  سے باز آ جائے گا۔

ہر مسلمان کو دین کے معاملے میں  پختہ ہونا چاہئے:

            لہٰذا ہر مسلمان کو اپنے دین کے معاملے میں  پختہ ہو نا چاہیے اور دین کے معاملات میں  کسی طرح کی نرمی اور رعایت سے کام نہیں  لینا چاہئے لیکن افسوس کہ آج کل مسلمان اپنے نفسانی معاملات میں  تو انتہائی سختی سے کام لیتے ہیں  اور کسی طرح کی رعایت کرنے پر تیار نہیں  ہوتے جبکہ دین کے معاملے میں  بہت نرم اور پِلپِلے نظر آتے ہیں ،کسی کو برائی کرتے ہوئے،اسلام کے احکامات کوپامال کرتے ہوئے اور اسلام کے احکامات کا مذاق اُڑاتے ہوئے دیکھ کر، اسے روکنے پر قادر ہونے کے باوجوداس کی رعایت کرتے ہوئے یا کسی لالچ کی وجہ سے اسے نہیں روکتے اور جب کسی سے اپنی ذات کو تکلیف پہنچے یاان کا کوئی نقصان کر بیٹھے تو خوب شور مچاتے ہیں  اور بعض مسلمان کہلانے والے تو ایسے ہیں  کہ یہودیوں  ،عیسائیوں  اور دیگر کفار سے دوستی اور محبت کے رشتے قائم کرتے ، ان کی خاطراسلام کے بعض احکامات پر عمل کرنا چھوڑتے ، ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کی مذہبی رسومات کا اہتمام کرتے ، ان کے ہاں  ان کی مذہبی رسومات میں  شرکت کرتے ،انہیں  مساجد میں  بلوا کراور مسلمانوں  سے اونچا بٹھا کر مسلمانوں  کو ان کی تقریریں  سنواتے اور ان سے اتحاد اور یگانگت کرنے کی کوششیں  کرتے اوردیگر مسلمانوں  کو اس کی ترغیب دینے کے لئے باقاعدہ پروگرام منعقد کرتے ہیں حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو کفار و مشرکین سے دوستی کرنے اوران سے محبت کا رشتہ اُستوار کرنے سے منع کیا اور اس سے بچنے کا حکم دیا ہے اور کفار سے دوستی اور محبت کرنے کو منافقوں  کی خصلت بتایا ہے، چنانچہ منافقوں  کی اس خصلت کو بیان کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِهِمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَىٕنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَ لَا نُطِیْعُ فِیْكُمْ اَحَدًا اَبَدًاۙ-وَّ اِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ‘‘(حشر:۱۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تم نے منافقوں  کو نہ دیکھا کہ اپنے اہلِ کتاب کافر بھائیوں  سے کہتے ہیں  کہ قسم ہے اگر تم نکالے گئے تو ضرور ہم تمہارے ساتھ نکلیں  گے اور ہرگز تمہارے بارے میں  کسی کا کہنا نہ مانیں  گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں  گے اور اللّٰہ گواہی دیتاہے کہ یقینا وہ ضرور جھوٹے ہیں ۔

            اور مسلمانوں  سے ارشاد فرمایا:

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘‘(مائدہ:۵۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! جن لوگوں  کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ان میں  سے وہ لوگ جنہوں  نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنالیا ہے انہیں  اور کافر وں  کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اگر ایمان رکھتے ہو تو اللّٰہ سے ڈرتے رہو۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ- اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا‘‘(النساء:۱۴۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! مسلمانوں  کو چھوڑ کر کافروں  کو دوست نہ بناؤ۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللّٰہ کے لئے صریح حجت قائم کرلو۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ‘‘(توبہ:۲۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنے باپ اور اپنے  بھائیوں  کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان کے مقابلے میں  کفر کوپسند کریں  اور تم میں   جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں ۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’ لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةًؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ‘‘(ال عمران:۲۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں  اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللّٰہ سے کوئی تعلق نہیں  مگر یہ کہ تمہیں  ان سے کوئی ڈر ہو اور اللّٰہ تمہیں  اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللّٰہ ہی کی طرفلوٹنا ہے۔

            اور کفار سے دوستی کرنے والے منافقوں  کے بارے میں  ارشاد فرمایا: ’’بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمَا ﰳ ۙ (۱۳۸)الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا‘‘(النساء:۱۳۸،۱۳۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: منافقوں  کو خوشخبری دوکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ وہ جو مسلمانوں  کو چھوڑ کر کافروں  کو دوست بناتے ہیں ۔ کیا یہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو تمام عزتوں  کا مالک اللّٰہ ہے۔

            اور برائی ہوتی دیکھ کر اس سے نہ روکنے والوں  کے بارے میں حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اللّٰہ تعالیٰ کی حدود میں  نرمی برتنے والے اور ان میں  مبتلاء ہونے والے کی مثال ان لوگوں  جیسی ہے جنہوں  نے کشتی میں  قرعہ اندازی کی تو بعض کے حصے میں  نیچے والا حصہ آیا اور بعض کے حصے میں  اوپر والا،نیچے والوں  کو پانی کے لئے اوپر والوں  کے پاس جانا ہوتا تھا،اوپر والوں  (کو نیچے والوں  کے پانی لے کر گزرنے کی وجہ سے اَذِیَّت پہنچی اور انہوں ) نے اسے زحمت شمار کیا تو نیچے والوں  (میں  سے ایک شخص) نے کلہاڑہ لیا اور کشتی کے نچلے حصے میں  سوراخ کرنے لگا،اوپر والے اس کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے کہا:میری وجہ سے تمہیں  تکلیف ہوتی تھی اور پانی کے بغیر گزارا نہیں  (اس لئے میں  کشتی میں  سوراخ کر رہا ہوں  تاکہ مجھے پانی حاصل ہو جائے اور تمہاری تکلیف دور ہوجائے) پس اگر انہوں  نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا تو اسے (ڈوبنے سے) بچا لیا اور خود بھی بچ جائیں گے اور اگر اسے چھوڑ دیا (اور سوراخ کرنے سے منع نہیں  کیا) تو اسے ہلاک کر یں  گے اور اپنی جانوں  کو ہلاک کر بیٹھیں  گے۔( بخاری، کتاب الشہادات، باب القرعۃ فی المشکلات، ۲ / ۲۰۸، الحدیث: ۲۶۸۶)

            اورحضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا سے روایت ہے،رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عنقریب تم پر ایسے بادشاہ مُسلَّط ہوں  گے جن سے تم نیکی بھی دیکھو گے اور برائی بھی،تو جس نے ان کی برائی کو بُرا کہا وہ بَری ہوا اور جس نے (ان کی بُرائی کو برا کہنے کی قدرت نہ رکھنے وجہ سے اس برائی کو دل سے) برا سمجھاوہ بھی (ان کی برائی میں  شریک ہونے کے وبال سے) سلامت رہا البتہ جو (دل سے ان کی برائی پر) راضی ہوا اور اس نے (ان کی) پیروی کی تو وہ ہلاک ہوا۔( ترمذی، کتاب الفتن، ۷۸-باب، ۴ / ۱۱۷، الحدیث: ۲۲۷۲)

            اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں  کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور اپنے دین پر پختگی اور اس کے احکامات پر مضبوطی سے عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

          نوٹ:کفار و مشرکین سے تعلقات رکھنے کے بارے میں  تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی جلد نمبر 14میں  موجود اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کے رسالے ’’اَلْمَحَجَّۃُ الْمُؤْتَمِنَہْ فِیْ آیَۃِ الْمُمْتَحِنَہْ ‘‘ (غیر مسلموں  سے تعلقات رکھنے کی شرعی حدود کا تفصیلی بیان) کا مطالعہ فرمائیں ۔

68:9
وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَیُدْهِنُوْنَ(۹)
وہ تو اس آرزو میں ہیں کہ کسی طرح تم نرمی کرو (ف۸) تو وہ بھی نرم پڑجائیں،

68:10
وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِیْنٍۙ(۱۰)
اور ہر ایسے کی بات نہ سننا جو بڑا قسمیں کھانے والا (ف۹) ذلیل

{وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ: اور ہر ایسے آدمی کی بات نہ سننا جو بڑا قسمیں  کھانے والا۔} اس سے پہلی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے مشرکین کی بات ماننے سے منع کیا اور اس ممانعت میں  تمام کفار داخل ہیں  ،اب یہاں  کفر کے علاوہ مزید عیوب بیان کر کے دوبارہ منع کیا جا رہا ہے کہ جس کافر میں  یہ عیب ہوں  ا س کی بات بطورِ خاص نہ مانی جائے۔یہاں  آیت میں دو عیب بیان کئے گئے ہیں  ۔

(1)… وہ ’’حَلَّافٍ‘‘ ہے۔ حَلّاف اسے کہتے ہیں  جو حق اور باطل دونوں  طرح کے معاملات میں  بہت زیادہ قسمیں  کھاتا ہو۔

(2)…وہ ذلیل ہے،کیونکہ بات بات پر قسمیں  کھانے والا اور جھوٹی قسمیں  کھانے والا لوگوں  کی نگاہوں  میں  ذلیل ہوتا ہے۔( تفسیر کبیر، القلم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۱۰ / ۶۰۳-۶۰۴، ملخصاً)

            یاد رہے کہ جمہور مفسرین کے نزدیک ا س آیت سے لے کر آیت نمبر 16تک جو مذموم اوصاف بیان کئے گئے ،یہ ولید بن مغیرہ کے ہیں  ،جبکہ بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ اوصاف اسود بن عبد یَغُوث ،یا اخنس بن شریق ،یا ابو جہل بن ہشام کے ہیں  ۔( صاوی، القلم، تحت الآیۃ: ۱۰،  ۶ / ۲۲۱۲-۲۲۱۳)

بات بات پر قسمیں  اٹھانے والے نصیحت حاصل کریں  :

            اس آیت سے ان مسلمانو ں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے کہ جو بات بات پر اللّٰہ تعالیٰ کی یا قرآن کی قسمیں  اٹھانا شروع کر دیتے ہیں  اور بسا اوقات جھوٹے ہونے کے باوجود بھی کثرت کے ساتھ قسمیں  کھاتے نظر آتے ہیں  تاکہ کسی طرح ان کی بات کو سچ مان لیا جائے اور ان کے ا س عمل کی وجہ سے لوگوں  کی نظروں  میں  ان کی جو عزت اور مقام بنتا ہے وہ سب اچھی طرح جانتے ہیں  ۔زیادہ قسمیں  کھانے اور قسموں  کو دھوکا دینے اور فساد برپا کرنے کا ذریعہ بنانے سے منع کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ‘‘(بقرہ:۲۲۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اپنی قسموں  کی وجہ سے اللّٰہ کے نام کو آڑ نہ بنالو۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ لَا تَتَّخِذُوْۤا اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعْدَ ثُبُوْتِهَا وَ تَذُوْقُوا السُّوْٓءَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-وَ لَكُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ‘‘(نحل:۹۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اورتم اپنی قسموں  کو اپنے درمیان دھوکے اور فساد کا ذریعہ نہ بناؤورنہ قدم ثابت قدمی کے بعد پھسل جائیں  گے اور تم اللّٰہ کے راستے سے روکنے کی وجہ سے سزا کا مزہ چکھو گے اور تمہارے لئے بہت بڑا عذاب ہوگا۔

            اورقسموں  کے بدلے دنیا کا ذلیل مال لینے والوں  کے بارے ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓىٕكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘(ال عمران:۷۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو اللّٰہ کے وعدے اور اپنی قسموں  کے بدلے تھوڑی سی قیمت لیتے ہیں ، اِن لوگوں کے لئے آخرت میں  کچھ حصہ نہیں  اور اللّٰہ قیامت کے دن نہ توان سے کلام فرمائے گااور نہ ان کی طرف نظر کرے گااور نہ انہیں  پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

            اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔

68:11
هَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیْمٍۙ(۱۱)
بہت طعنے دینے والا بہت اِدھر کی اُدھر لگاتا پھرنے والا (ف۱۰)

{هَمَّازٍ: بہت طعنے دینے والا۔} اس آیت میں  بھی دو عیب بیان کئے گئے ہیں :

(1)… وہ ’’هَمَّازٍ‘‘ ہے۔ ہَمّاز اس شخص کو کہتے ہیں  جو لوگوں  کے سامنے ان کے بکثرت عیب نکالے یا بہت طعنے دے۔( قرطبی، القلم، تحت الآیۃ: ۱۱، ۹ / ۱۷۳، الجزء الثامن عشر، ملخصاً)

عیب جوئی کرنے اور طعنے دینے کی مذمت:

            ایسے شخص کے بارے میں  اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ‘‘(ہُمَزَہ:۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں  کے منہ پر عیب نکالے۔

            اور حضرت راشد بن سعد مقرانی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’معراج کی رات میں  کچھ عورتوں  اور مَردوں  کے پاس سے گزرا جو ان کی پستانوں  کے ساتھ لٹکے ہوئے تھے۔میں  نے کہا:اے جبریل! عَلَیْہِ السَّلَام، یہ کون لوگ ہیں  ؟ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ وہ مرد اور عورتیں  ہیں  جو لوگوں  کے سامنے بہت عیب نکالتے اور طعنے دیا کرتے تھے۔( شعب الایمان ، الرابع و الاربعون من شعب الایمان... الخ ، فصل فیما ورد من الاخبار فی التشدید... الخ ، ۵ / ۳۰۹، الحدیث: ۶۷۵۰)

(2)… وہ چغلی کے ساتھ ادھر ادھر بہت پھرنے والا ہے۔

چغلی کی تعریف اور اس کی مذمت:

            چغلی کی تعریف یہ ہے کہ لوگوں  کے درمیان فساد ڈالنے کے لئے ایک کی بات دوسرے تک پہنچانا۔( الزواجر عن اقتراف الکبائر، الباب الثانی، الکبیرۃ الثانیۃ والخمسون بعد المأتین: النمیمۃ، ۲ / ۴۶)

            اَحادیث میں  چغل خوری کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،یہاں  ان میں  سے 3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)… حضرت حذیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ، میں  نے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ چغل خور جنت میں  نہیں  جائے گا۔( مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم النمیمۃ، ص۶۶، الحدیث: ۱۶۸(۱۰۵))

(2)… حضرت عبد الرحمٰن بن غنم اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ  کے بہترین بندے وہ ہیں  کہ جب ان کو دیکھا جائے تواللّٰہ تعالیٰ  یا د آجائے اوراللّٰہ تعالیٰ کے بد ترین بندے چغلی کھانے کے لئے اِدھر اُدھر پھرنے والے، دوستوں  کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور بے عیب لوگوں  کی خامیاں  نکالنے والے ہیں۔(مسندامام احمد،مسندالشامیین،حدیث عبد الرحمٰن بن غنم الاشعری رضی اللّٰہ تعالی عنہ،۶ / ۲۹۱،الحدیث:۱۸۰۲۰)

(3)…حضرت علاء بن حارث رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’منہ پر بُرا بھلا کہنے والوں  ، پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے والوں ، چغلی کھانے والوں اور بے عیب لوگوں میں  عیب تلاش کرنے والوں کو اللّٰہ تعالیٰ  (قیامت کے دن) کتوں  کی شکل میں  جمع فرمائے گا۔( التوبیخ والتنبیہ لابی الشیخ الاصبہانی، باب البہتان وماجاء فیہ، ص۲۳۷، الحدیث: ۲۱۶)

68:12
مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍۙ(۱۲)
بھلائی سے بڑا روکنے والا (ف۱۱) حد سے بڑھنے والا گنہگار (ف۱۲)

{مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ: بھلائی سے بڑا روکنے والا۔} اس آیت میں  اس کافر کے تین عیوب بیان کئے گئے ہیں  :

(1)… وہ بھلائی سے بڑا روکنے والا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ وہ( ایسا) بخیل ہے کہ نہ خود نیک کاموں  میں  خرچ کرتا ہے اور نہ دوسرے کو نیک کاموں  میں  خرچ کرنے دیتا ہے۔حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں  کہ بھلائی سے روکنے سے مقصود اسلام سے روکنا ہے کیونکہ ولید بن مغیرہ اپنے بیٹوں  اور رشتہ داروں  سے کہتا تھا کہ اگر تم میں  سے کوئی اسلام میں  داخل ہوا تو میں  اُسے اپنے مال میں  سے کچھ نہ دوں  گا۔

(2)… لوگوں  پر ظلم کرنے میں  حد سے بڑھنے والا ہے۔

(3)…سخت گناہگار ہے۔(خازن ، ن ، تحت الآیۃ : ۱۲ ، ۴ / ۲۹۵ ، صاوی، القلم، تحت الآیۃ: ۱۲،  ۶ / ۲۲۱۳، قرطبی، القلم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۱۷۴، الجزء الثامن عشر، تفسیر کبیر، القلم، تحت الآیۃ: ۱۲،  ۱۰ / ۶۰۴، ملتقطاً)

68:13
عُتُلٍّۭ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِیْمٍۙ(۱۳)
درشت خُو (ف۱۳) اس سب پر طرہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا (ف۱۴)

{عُتُلٍّ: سخت مزاج۔} اس آیت میں  اس کافر کے دو عیب بیان کئے گئے ہیں  کہ وہ طبعی طور پر بد مزاج اور بد زبان ہے اور ان تمام عیوب سے بڑھ کر ا س کاعیب یہ ہے کہ وہ ناجائز پیداوار ہے تو اس سے خبیث اَفعال کے صادر ہونے میں  کیا تعجب ہے۔

            ابو البرکات عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’مروی ہے کہ ولید بن مغیرہ نے اپنی ماں  سے جا کر کہا : محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے میرے بارے میں  دس باتیں  بیان فرمائی ہیں ،ان میں  سے 9 کے بارے میں  تومیں  جانتا ہوں  کہ وہ مجھ میں  موجود ہیں  لیکن ان کی یہ بات کہ میں  ناجائز پیداوار ہوں ، اس کا حال مجھے معلوم نہیں ، اب تو مجھے سچ سچ بتادے (کہ اصل حقیقت کیا ہے)ورنہ میں  تیری گردن ماردوں  گا۔ اِس پر اُس کی ماں  نے کہا کہ ’’تیرا باپ نامرد تھا ،ا س لئے مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ جب وہ مرجائے گا تو اس کا مال دوسرے لوگ لے جائیں  گے، تو(اس چیز سے بچنے کے لئے ) میں  نے ایک چَرواہے کو اپنے پاس بلالیا اورتو اس چرواہے کی اولاد ہے۔( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۲۶۷)

سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ محبوبیّت:

             اس سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فضیلت ،شانِ محبوبیّت اور بارگاہِ الٰہی میں  آپ کا مقام معلوم ہوتا ہے کہ ولید نے اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں  ایک جھوٹا کلمہ کہا تھا کہ (مَعَاذَاللّٰہ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مجنون ہیں  ، اس کے جواب میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے دس وہ عیوب ظاہر فرمادیئے جو واقعی ا س میں  موجود تھے اور ان میں  سے ایک عیب یعنی حرامی ہونا ایسا تھا کہ یہ اس آیت کے نازل ہونے سے ہی معلوم ہوا ورنہ اب تک ا س کے بارے میں  سب یہی سمجھتے تھے کہ وہ خاندانِ قریش سے ہے ۔

          نوٹ:یاد رہے کہ یہاں  تک 9 عیب بیان ہوئے جبکہ دسویں  عیب کا ذکر اگلی آیات میں  ہے۔

68:14
اَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَّ بَنِیْنَؕ(۱۴)
اس پر کہ کچھ مال اور بیٹے رکھتا ہے،

{اَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَّ بَنِیْنَ: کہ وہ مال اور بیٹوں  والا ہے۔} اس آیت کا تعلق اسی سورت کی آیت نمبر 10 سے بھی ہو سکتا ہے۔اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہو گا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان عیبوں  کے ہونے کے ساتھ آ پ اس کافر کی بات نہ مانیں  کہ وہ مالدار اور بیٹوں  والا ہے۔اور اس آیت کا تعلق اس کے بعد والی آیت سے بھی ہو سکتا ہے۔اس صورت میں  ا س آیت اور اس کے بعد والی آیت کا معنی یہ ہو گا کہ وہ کافرمال اور اولاد والا ہے ، تو اسے چاہئے تھا کہ ان نعمتوں  کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا اور ایمان لاتا لیکن ا س لعین نے شکر کرنے کی بجائے مال اور اولاد کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی آیتوں  کا انکار کرنا شروع کر دیا اور جب ا س کے سامنے قرآنِ پاک کی آیتیں  پڑھی جاتی ہیں  تو وہ کہتا ہے کہ یہ اگلوں  کی جھوٹی کہانیاں  ہیں ۔( مدارک ، القلم ، تحت الآیۃ : ۱۴- ۱۵ ، ص۱۲۶۷ ، صاوی ، القلم ، تحت الآیۃ : ۱۴-۱۵،  ۶ / ۲۲۱۴، جمل، القلم، تحت الآیۃ: ۱۴-۱۵، ۸ / ۷۵، ملتقطاً)

            اس صورت میں  یہ ولید بن مغیرہ کادسواں  عیب بنتاہے جبکہ مجموعی طور پر آیت نمبر8سے لے کر یہاں  تک سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں  کے 10سے زیادہ عیب بیان کئے گئے ہیں ۔

68:15
اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(۱۵)
جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جائیں (ف۱۵) کہتا ہے کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں (ف۱۶)

68:16
سَنَسِمُهٗ عَلَى الْخُرْطُوْمِ(۱۶)
قریب ہے کہ ہم اس کی سور کی سی تھوتھنی پر داغ دیں گے (ف۱۷)

{سَنَسِمُهٗ عَلَى الْخُرْطُوْمِ: قریب ہے کہ ہم اس کی سور کی سی تھوتھنی پر داغ دیں  گے۔} اس آیت میں  اس کافر کے لئے وعید بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم اس کی سور کی سی تھوتھنی پر داغ کر اس کا چہرہ بگاڑ دیں  گے اوراس کی بدباطنی کی علامت اس کے چہرے پر نمودار کردیں  گے تاکہ یہ اس کیلئے عار کا سبب ہو۔ یہ خبر دنیا میں  ا س طرح پوری ہوئی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے عیوب بیان کر کے اسے ایسا ذلیل و رُسواکیا کہ جس طرح داغ کبھی ختم نہیں  ہوتا اسی طرح اس کی ذلت بھی کبھی ختم نہ ہوئی اور آخرت میں  یہ خبر اس طرح پوری ہوگی کہ جہنم میں  داخل کرنے سے پہلے ا س کے چہرے کو سیاہ کر دیا جائے گا یا اللّٰہ تعالیٰ اس کی ناک پر ایسی علامت بنا دے گا جس سے اہلِ محشر پہچان لیں  گے کہ یہی وہ کافر ہے جو دین ِحق کا انکار کرنے میں  اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عداوت رکھنے میں  پیش پیش تھا۔( جلالین، ن ، تحت الآیۃ : ۱۶ ، ص۴۶۹ ، خازن ، ن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۲۹۶، تفسیر کبیر، القلم، تحت الآیۃ: ۱۶، ۱۰ / ۶۰۶، ملتقطاً)

68:17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِۚ-اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ(۱۷)
بیشک ہم نے انہیں جانچا (ف۱۸) جیسا اس باغ والوں کو جانچا تھا (ف۱۹) جب انہوں نے قسم کھائی کہ ضرور صبح ہوتے اس کھیت کو کاٹ لیں گے (ف۲۰)

{اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ: بیشک ہم نے ان کو جانچا جیسا باغ والوں  کو جانچا تھا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے کفارِ مکہ کو مال اور دولت شکر ادا کرنے کے لئے دی تھی نہ کہ تکبُّر و سرکشی کرنے کے لئے، تو جب انہوں  نے تکبر کیا اور میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دشمنی مول لی تو ہم نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ا س دعا سے کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، انہیں  ایسی قحط سالی میں  مبتلا کر جیسی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ میں  ہوئی تھی،نیز کفارِ مکہ کو بھوک اور قحط کے ذریعے آزمائش میں  مبتلا کر دیا گیاجیسا کہ باغ والوں  کو کیا تھا۔چنانچہ کفارِ مکہ قحط کی مصیبت میں  اس قدر مبتلا کئے گئے کہ وہ بھوک کی شدّت میں  مُردار اور ہڈیاں  تک کھاگئے ۔

باغ والوں  کا واقعہ:

            اس آیت میں  جس باغ کی مثال دے کر ا س کا واقعہ بیان کیا گیااس کا نام ضردان تھا ، یہ باغ یمن کے شہر صنعاء سے دو فرسنگ(یعنی 6میل) کے فاصلے پر سر ِراہ واقع تھا ۔اس باغ کا مالک ایک نیک مرد تھا اور وہ باغ کے پھل کثرت سے فُقراء کو دیتا تھا،اس کی عادت یہ تھی کہ جب باغ میں  جاتا تو فقراء کو بلالیتا اورتمام گرے پڑے پھل فقراء لے لیتے ۔پھر باغ میں  بستر بچھادیئے جاتے اورجب پھل توڑے جاتے تو جتنے پھل بستروں  پر گرتے وہ بھی فقراء کو دے دیئے جاتے اور جو خالص اپنا حصہ ہوتا اس سے بھی وہ دسواں  حصہ فقراء کو دے دیتا، اسی طرح کھیتی کاٹتے وقت بھی اس نے فقراء کے حقوق بہت زیادہ مقرر کئے ہوئے تھے۔ اس کے انتقال کے بعد اس کے تین بیٹے وارث ہوئے، انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ مال قلیل ہے اور کنبہ بہت زیادہ ہے اس لئے اگر والد کی طرح ہم بھی خیرات جاری رکھیں  تو تنگ دست ہوجائیں  گے۔اس پر انہوں  نے آپس میں  مل کر قسمیں  کھائیں  کہ صبح سویرے لوگوں  کے اٹھنے سے پہلے ہی باغ میں  چل کر پھل توڑ لیں  گے تاکہ مسکینوں  کو خبر نہ ہو۔( تفسیرقرطبی،القلم، تحت الآیۃ: ۱۷، ۹ / ۱۸۰، الجزء الثامن عشر، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۲۶۸، خازن، ن، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۲۹۶، ملتقطاً)

68:18
وَ لَا یَسْتَثْنُوْنَ(۱۸)
اور انشاء اللہ نہ کہا (ف۲۱)

{وَ لَا یَسْتَثْنُوْنَ: اور اِنْ شَآءَ اللّٰہ نہیں  کہہ رہے تھے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 14آیات میں  اس واقعے کا بقیہ حصہ بیان کیا گیا ہے،اس کاخلاصہ یہ ہے کہ انہوں  نے صبح سویرے پھل توڑنے کی قسم کھائی اور اِنْ شَآءَ اللّٰہ کہنا بھول گئے۔ پھر یہ لوگ تو قسمیں  کھا کر سوگئے اور ا س باغ پر اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے رات میں  ایک آگ آئی جو اسے تباہ کر گئی اور صبح کے وقت تک وہ باغ جل کرسیاہ رات کی طرح ہوگیا اوران لوگوں کو ا س کی کچھ خبر نہ ہوئی ۔یہ صبح سویرے اٹھے اور ایک دوسرے کو پکارا کہ اگر تم باغ کا پھل کاٹنا چاہتے ہو تو صبح منہ اندھیرے اپنی کھیتی پر چلو۔ چنانچہ وہ لوگ باغ کی طرف چلے اور ا س دوران آپس میں  آہستہ آہستہ کہتے جاتے تھے کہ ہرگز آج کوئی مسکین تمہارے باغ میں  آنے نہ پائے اوروہ اپنے آپ کو اس ارادہ پرقادرسمجھتے ہوئے صبح سویرے چلے کہ کسی مسکین کو اندرنہ آنے دیں  گے اور وہ تمام پھل اپنے قبضہ میں  لائیں  گے ۔پھر جب باغ کے قریب پہنچے اور انہوں  نے اس باغ کو دیکھا کہ وہ جل چکا ہے اور اس میں  پھل کا نام ونشان نہیں  توکہنے لگے:بیشک ہم کسی اور باغ پر پہنچ گئے ہیں  کیونکہ ہمارا باغ تو بہت پھل دار ہے ۔پھر جب غور کیا اور اس کے درو دیوار کو دیکھا اور پہچان لیا کہ یہ اپنا ہی باغ ہے تو کہنے لگے: ہم راستہ نہیں  بھولے بلکہ حق دار مسکینوں  کو روکنے کی نیت کر کے ہم خوداس کے پھل سے محروم ہوگئے ہیں ۔ ان میں  سے جو عقلمند تھا اس نے کہا: کیا میں  تم سے نہیں  کہتا تھا کہ تم اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح کیوں  نہیں  کرتے اور اس برے ارادے سے توبہ کیوں  نہیں کرتے اور اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر کیوں  نہیں  بجالاتے ؟ اس پرسب نے کہا:ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ پاک ہے ،بیشک ہم ظالم تھے ، اوراس وقت وہ ملامت کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوئے اور آخر کار ان سب نے اعتراف کیا کہ ہم سے خطا ہوئی اور ہم حد سے تجاوُز کرگئے۔وہ کہنے لگے: ہائے ہماری خرابی، بے شک ہم سرکش تھے کہ ہم نے اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر نہ کیا اور اپنے باپ دادا کے نیک طریقے کو چھوڑدیا، امید ہے کہ ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ ہمیں  اس سے بہتر بدل دے ،اب ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہی رغبت رکھنے والے ہیں  اور اس کے عَفْوو کرم کی امید رکھتے ہیں  ۔ان لوگوں  نے سچے دل سے اور اخلاص کے ساتھ توبہ کی تو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  اِس کے بدلے اُس سے بہتر باغ عطا فرمایا جس کا نام’’ باغِ حیوان‘‘ تھا اور اس میں  کثیر پیداوارہوئی۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۱۸-۳۲، ۴ / ۲۹۶-۲۹۷، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۱۸-۳۲، ص۱۲۶۸-۱۲۶۹، ملتقطاً)

68:19
فَطَافَ عَلَیْهَا طَآىٕفٌ مِّنْ رَّبِّكَ وَ هُمْ نَآىٕمُوْنَ(۱۹)
تو اس پر (ف۲۲) تیرے رب کی طرف سے ایک پھیری کرنے والا پھیرا کر گیا (ف۲۳) اور وہ سوتے تھے،

68:20
فَاَصْبَحَتْ كَالصَّرِیْمِۙ(۲۰)
تو صبح رہ گیا (ف۲۴) جیسے پھل ٹوٹا ہوا (ف۲۵)

68:21
فَتَنَادَوْا مُصْبِحِیْنَۙ(۲۱)
پھر انہوں نے صبح ہوتے ایک دوسرے کو پکارا،

68:22
اَنِ اغْدُوْا عَلٰى حَرْثِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰرِمِیْنَ(۲۲)
کہ تڑکے اپنی کھیتی چلو اگر تمہیں کاٹنی ہے،

68:23
فَانْطَلَقُوْا وَ هُمْ یَتَخَافَتُوْنَۙ(۲۳)
تو چلے اور آپس میں آہستہ آہستہ کہتے جاتے تھے کہ

68:24
اَنْ لَّا یَدْخُلَنَّهَا الْیَوْمَ عَلَیْكُمْ مِّسْكِیْنٌۙ(۲۴)
ہرگز آج کوئی مسکین تمہارے باغ میں آنے نہ پائے،

68:25
وَّ غَدَوْا عَلٰى حَرْدٍ قٰدِرِیْنَ(۲۵)
اور تڑکے چلے اپنے اس ارادہ پر قدرت سمجھتے (ف۲۶)

68:26
فَلَمَّا رَاَوْهَا قَالُوْۤا اِنَّا لَضَآلُّوْنَۙ(۲۶)
پھر جب اسے (ف۲۷) بولے بیشک ہم راستہ بہک گئے (ف۲۸)

68:27
بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ(۲۷)
بلکہ ہم بے نصیب ہوئے (ف۲۹)

68:28
قَالَ اَوْسَطُهُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ لَوْ لَا تُسَبِّحُوْنَ(۲۸)
ان میں جو سب سے غنیمت تھا بولا کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ تسبیح کیوں نہیں کرتے (ف۳۰)

68:29
قَالُوْا سُبْحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(۲۹)
بولے پاکی ہے ہمارے رب کو بیشک ہم ظالم تھے،

68:30
فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَلَاوَمُوْنَ(۳۰)
اب ایک دوسرے کی طرف ملامت کرتا متوجہ ہوا (ف۳۱)

68:31
قَالُوْا یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا طٰغِیْنَ(۳۱)
بولے ہائے خرابی ہماری بیشک ہم سرکش تھے (ف۳۲)

68:32
عَسٰى رَبُّنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْهَاۤ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ(۳۲)
امید ہے ہمیں ہمارا رب اس سے بہتر بدل دے ہم اپنے رب کی طرف رغبت لاتے ہیں (ف۳۳)

68:33
كَذٰلِكَ الْعَذَابُؕ-وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠(۳۳)
مار ایسی ہوتی ہے (ف۳۴) اور بیشک آخرت کی مار سب سے بڑی، کیا اچھا تھا اگر وہ جانتے (ف۳۵)

{كَذٰلِكَ الْعَذَابُ: سزا ایسی ہی ہوتی ہے۔} اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کو اپنے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا کہ  اے کفارِ مکہ ! جس طرح ہم نے باغ والوں  کے ساتھ کیا اسی طرح جو ہماری حدوں  سے تجاوُز کرے اور ہمارے حکم کی مخالفت کرے اس کے لئے بھی ہماری سزا ایسی ہی ہوتی ہے ،لہٰذا ہوش میں  آؤ اور اپنا انجام خود سوچ لو کہ یہ تو دنیا کی سزا ہے اور بیشک آخرت کی سزا سب سے بڑی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر لوگ آخرت کے عذاب کو جانتے اور اس سے بچنے کے لئے اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری کرتے ۔

68:34
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(۳۴)
بیشک ڈر والوں کے لیے ان کے رب کے پاس (ف۳۶) چین کے باغ ہیں (ف۳۷)

{اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ: بیشک ڈر والوں  کے لیے۔} ارشاد فرمایا کہ کفر اور گناہوں  سے بچنے والوں  کے لئے آخرت میں  ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس ایسے باغ ہیں  جن میں  صرف نعمتیں  ہی ہیں  اور وہ دنیا کی نعمتوں  کی طرح بدمزہ اور زائل ہونے کے خوف سے پاک ہیں ۔( ابو سعود، ن، تحت الآیۃ: ۳۴، ۵ / ۷۵۶)

{اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ كَالْمُجْرِمِیْنَ: توکیا ہم مسلمانوں  کو مجرموں  جیسا کردیں ۔} شانِ نزول : جب اوپر والی آیت نازل ہوئی تو مشرکین نے مسلمانوں  سے کہا کہ جس طرح ہمیں  دنیا میں  آسائش حاصل ہے اسی طرح اگر ہم مرنے کے بعد پھر اُٹھائے بھی گئے تو آخرت میں  بھی ہم تم سے اچھے رہیں  گے اور ہمارا ہی درجہ بلند ہوگا ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں  اور اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ کیا ہم نجات حاصل ہونے اور درجات ملنے کے معاملے میں  مسلمانوں  کو کافروں  جیسا کردیں  گے اور اُن مخلص فرمانبرداروں  کو اِن سرکش باغیوں  پر فضیلت نہ دیں  گے! ہمارے بارے میں  ایسا فاسد گمان رکھتے ہو،تمہیں  کیا ہوا اور تم اپنی جہالت کی وجہ سے کیسا حکم لگا رہے ہو، تمہاری حالت سے تو ایسالگ رہا ہے جیسے جزا کا معاملہ تمہارے سپرد ہے اور تم اس میں  جو چاہے فیصلہ کر لو ۔( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ص۱۲۶۹، روح البیان، ن، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ۱۰ / ۱۱۹، ملتقطاً)

            اس سے معلوم ہو اکہ کافر اور مسلمان برابر نہیں  بلکہ یہ دو الگ الگ قومیں  ہیں ۔

68:35
اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ كَالْمُجْرِمِیْنَؕ(۳۵)
کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کا سا کردیں (ف۳۸)

68:36
مَا لَكُمْٙ-كَیْفَ تَحْكُمُوْنَۚ(۳۶)
تمہیں کیا ہوا کیسا حکم لگاتے ہو (ف۳۹)

68:37
اَمْ لَكُمْ كِتٰبٌ فِیْهِ تَدْرُسُوْنَۙ(۳۷)
کیا تمہارے لیے کوئی کتاب ہے اس میں پڑھتے ہو،

{اَمْ لَكُمْ كِتٰبٌ: کیا تمہارے لیے کوئی کتاب ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے اللّٰہ تعالیٰ کے انعامات میں  مسلمانوں  اور کافروں  کو برابر سمجھنے والو! کیا اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی فرشتہ تمہارے پاس ایسی کتاب لے کر نازل ہو اہے جس میں  لکھا ہو کہ تمہارے لئے (قیامت کے دن) وہ سب کچھ ہے جو تم پسند کرو اور اس میں  سے پڑھ کر تم یہ بات کہتے ہو؟( تفسیر طبری، القلم، تحت الآیۃ: ۳۷-۳۸، ۱۲ / ۱۹۶)

68:38
اِنَّ لَكُمْ فِیْهِ لَمَا تَخَیَّرُوْنَۚ(۳۸)
کہ تمہارے لیے اس میں جو تم پسند کرو،

68:39
اَمْ لَكُمْ اَیْمَانٌ عَلَیْنَا بَالِغَةٌ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِۙ-اِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُوْنَۚ(۳۹)
یا تمہارے لیے ہم پر کچھ قسمیں ہیں قیامت تک پہنچتی ہوئی (ف۴۰) کہ تمہیں ملے گا جو کچھ دعویٰ کرتے ہو (ف۴۱)

{اَمْ لَكُمْ اَیْمَانٌ عَلَیْنَا بَالِغَةٌ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ: یا تمہارے لیے ہم پر قیامت کے دن تک پہنچتی ہوئی کچھ قسمیں  ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ اے کافرو!کیا ہم تمہارے بارے میں  ایسی قسمیں  فرما چکے ہیں  جو قیامت تک ہم پر لاز م ہیں  اور ہم ان قسموں  سے اس دن نکلیں  گے جس دن ہم تمہارے لئے یہ حکم کر دیں  کہ آج تمہیں  وہ سب کچھ ملے گا جو تم اپنے لئے اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک خیر و کرامت کا دعویٰ کرتے ہو؟( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۱۲۷۰، خازن، ن، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۲۹۸، ملتقطاً)

68:40
سَلْهُمْ اَیُّهُمْ بِذٰلِكَ زَعِیْمٌۚۛ(۴۰)
تم ان سے (ف۴۲) پوچھو ان میں کون سا اس کا ضامن ہے (ف۴۳)

{سَلْهُمْ: تم ان سے پوچھو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خطاب کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار سے پوچھیں  کہ ان میں  سے کون اس بات کا ضامن ہے کہ آخرت میں  انہیں  مسلمانوں  سے بہتر یا اُن کے برابر ملے گا یا ان کے پاس کچھ شریک ہیں  جو اس دعوے میں  ان کی موافقت کررہے ہیں  اور وہ ان کے ذمہ دار بنے ہیں ، اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو اپنے ان شریکوں  کو لے آئیں  ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بھی سمجھتے ہیں  کہ وہ باطل پر ہیں ، نہ اُن کے پاس کوئی ایسی کتاب ہے جس میں  یہ مذکور ہو جو وہ کہتے ہیں ، نہ ان کے بارے میں  اللّٰہ تعالیٰ کا کوئی عہد ہے، نہ ان کا کوئی ضامن اورنہ ہی کوئی ان سے موافقت کرتا ہے ۔( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۱، ص۱۲۷۰، جلالین، ن، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۱، ص۴۷۰، ملتقطاً)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْقَلَم
اَلْقَلَم
  00:00



Download

اَلْقَلَم
اَلْقَلَم
  00:00



Download