READ

Surah al-Qalam

اَلْقَلَم
52 Ayaat    مکیۃ


68:41
اَمْ لَهُمْ شُرَكَآءُۚۛ-فَلْیَاْتُوْا بِشُرَكَآىٕهِمْ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِیْنَ(۴۱)
یا ان کے پاس کچھ شریک ہیں (ف۴۴) تو اپنے شریکوں کو لے کر آئیں اگر سچے ہیں (ف۴۵)

68:42
یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَۙ(۴۲)
جس دن ایک ساق کھولی جائے گی (جس کے معنی اللہ ہی جانتا ہے) (ف۴۶) اور سجدہ کو بلائے جائیں گے (ف۴۷) تو نہ کرسکیں گے (ف۴۸)

{یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ: جس دن معاملہ بڑا سخت ہوجائے گا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین اپنے شریکوں  کو ا س دن لے آئیں  جس دن ایک ساق کھولی جائے گی تاکہ وہ انہیں  فائدہ پہنچائیں  اور ان کی سفارش کریں  اور(قیامت کے دن) کفار و منافقین کو ان کے ایمان کے امتحان اور دنیا میں  سجدہ ریز نہ ہو نے پر ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر سجدے کی طرف بلایا جائے گا تو وہ سجدہ نہ کرسکیں  گے کیونکہ ان کی پشتیں  تانبے کے تختے کی طرح سخت ہوجائیں  گی اور اس وقت ان کا حال یہ ہو گا کہ دنیا میں  ایمان قبول نہ کرنے اور سجدوں  کو ترک کرنے پر شرم وندامت سے ان کی نگاہیں  نیچی ہوں  گی،ان کے چہرے سیاہ ہو جائیں  گے اور ان پر ذلت چڑھ رہی ہوگی حالانکہ انہیں  رسولوں  کی (مُقَدّس) زبانوں  سے دنیا میں  سجدے کی طرف بلایا جاتا تھا اور اذانوں  اور تکبیروں  میں  حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے ساتھ انہیں  نماز اور سجدے کی دعوت دی جاتی تھی لیکن یہ تندرست ہونے کے باوجود سجدہ نہ کرتے تھے اور ان کے اسی عمل کا یہ نتیجہ ہے جو یہاں  سجدے سے محروم رہے ۔

            یاد رہے کہ جمہور علماء کے نزدیک یہاں  آیت میں ساق کھلنے سے مراد وہ شدت اور سختی ہے جو قیامت کے دن حساب اور جزا کے لئے پیش آئے گی اور اس وقت کے بارے میں  حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ قیامت میں  وہ بڑا سخت وقت ہے ۔ آیت کا دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ یہاں  محاورے والا معنیٰ مراد نہیں  ہے بلکہ یہ معنی ہے کہ جس دن ساق یعنی پنڈلی کھولی جائے گی۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے یہ آیت مُتشابہات میں  سے ہے اور قرآنِ پاک یا اَحادیث میں  مذکور مُتشابہات کے بارے میں  اَسلا ف کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان کے معنیٰ میں  کلام نہیں  کرتے اور یہ فرماتے ہیں  کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں  اور اس سے جو مراد ہے وہ اللّٰہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں ۔( خازن،ن، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۳، ۴ / ۲۹۸،۳۰۱، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۳، ص۱۲۷۰، جمل، القلم، تحت الآیۃ:۴۲-۴۳،۸ / ۸۳-۸۴، عمدۃ القاری،کتاب تفسیر القرآن، سورۃ ن والقلم، باب یوم یکشف عن ساق، ۱۳ / ۴۳۲، تحت الحدیث: ۴۹۱۹، ملتقطاً)

نماز میں  سُستی کرنے والے مسلمانوں  کے لئے عبرت و نصیحت:

             یہاں  آیت میں  بیان کی گئی وعید اگرچہ کفار اور منافقین کے لئے ہے کہ انہیں  سجدے کی طرف بلایا جائے گا تو وہ اس کی طاقت نہیں  رکھیں  گے کیونکہ دنیا میں  انہیں  خدا کے سامنے جھکنے کی طرف بلایا جاتا تھا تو یہ انکار کرتے تھے، یہ اگرچہ کفار کے بارے میں  ہے لیکن اس میں  ان مسلمانوں  کے لئے بھی بہت عبرت اور نصیحت ہے جو شرعی عذر نہ ہو نے کے باوجودنماز ادا نہیں  کرتے بلکہ بعض اوقات نماز ہی قضا کر دیتے ہیں  یا سرے سے نماز پڑھتے ہی نہیں ۔ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کاحکم دیتے ہوئے ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ‘‘(بقرہ:۴۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں  کے ساتھ رکوع کرو۔

            اور نماز ادا کرنے میں  سُستی کرنے والوں  کے بارے میں  فرماتا ہے: ’’اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘(نساء:۱۴۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں  اللّٰہ کو فریب دینا چاہتے ہیں  اور وہی انہیں  غافل کرکے مارے گا اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں  توبڑے سست ہوکر لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللّٰہ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں ۔

            اور نمازیں  قضا کر کے پڑھنے والوں  کے بارے میں  فرماتا ہے: ’’ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَۙ(۴) الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ‘‘(ماعون:۴،۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو ان نمازیوں  کے لئے خرابی ہے۔جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔

            اور نمازیں  ضائع کرنے والوں  کے بارے میں  فرماتا ہے: ’’فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا ‘‘(مریم:۵۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں  نے نمازوں  کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جا ملیں  گے۔

            اورحضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’منافقین پر سب سے زیادہ گراں  نماز عشا اور فجر ہے اوراگر وہ جانتے کہ اس میں  کیا ہے؟ تو گھسٹتے ہوئے آتے اور بیشک میں  نے ارادہ کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں  پھر کسی کو حکم فرماؤں  کہ لوگوں  کو نماز پڑھائے اور میں  اپنے ہمراہ کچھ لوگوں  کو جن کے پاس لکڑیوں  کے گٹھے ہوں  ان کے پاس لے کر جاؤں  جو نماز میں  حاضر نہیں  ہوتے اور ان کے گھر اُن پر آگ سے جلا دوں۔( مسلم ، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ و بیان التشدید فی التخلف عنہا ، ص ۳۲۷ ، الحدیث: ۲۵۲(۶۵۱))

            اورحضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اسلام میں  سب سے زیادہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب کیا چیز ہے؟ارشاد فرمایا ’’وقت میں  نماز پڑھنا اور جس نے نماز چھوڑی اس کا کوئی دین نہیں ۔ نماز دین کا ستون ہے۔( شعب الایمان، باب الحادی والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۹، الحدیث: ۲۸۰۷)

            اور حضرت ابو سعید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے قصداً نماز چھوڑی تو اس کا نام جہنم کے اس دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ جہنم میں داخل ہو گا۔( حلیۃ الاولیاء،۳۹۰- مسعر بن کدام، ۷ / ۲۹۹، الحدیث: ۱۰۵۹۰)

            اور حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’سب سے پہلے قیامت کے دن بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر یہ درست ہوئی تو باقی اعمال بھی ٹھیک رہیں  گے اور یہ بگڑی تو سبھی بگڑے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۵۰۴، الحدیث: ۱۸۵۹)

            اللّٰہ تعالیٰ ہرمسلمان کو پابندی کے ساتھ اور صحیح طریقے سے با جماعت نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نماز کی ادائیگی میں  سُستی اور کاہلی سے محفوظ فرمائے ،اٰمین۔

68:43
خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ-وَ قَدْ كَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ وَ هُمْ سٰلِمُوْنَ(۴۳)
نیچی نگاہیں کیے ہوئے (ف۴۹) ان پر خواری چڑھ رہی ہوگی، اور بیشک دنیا میں سجدہ کے لیے بلائے جاتے تھے (ف۵۰) جب تندرست تھے (ف۵۱)

68:44
فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِؕ-سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۙ(۴۴)
تو جو اس بات کو (ف۵۲) جھٹلاتا ہے اسے مجھ پر چھوڑ دو (ف۵۳) قریب ہے کہ ہم انہیں آہستہ آہستہ لے جائیں گے (ف۵۴) جہاں سے انہیں خبر نہ ہوگی،

{فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِ: تو جو اس بات کو جھٹلاتا ہے اسے مجھ پر چھوڑ دو۔} اس سے پہلی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے کفار کو قیامت کے دن کی ہَولناکی کا خوف دلایا اور اب انہیں  ڈر سنانے میں  اضافہ کرتے ہوئے اپنے عذاب سے ڈرایا اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آخرت میں  کفار کا حال یہ ہو گا تو جو اس قرآنِ مجید کو جھٹلاتا ہے اس کے معاملے کو مجھ پر چھوڑ دیں  ، میں  اسے سزا دوں  گا اورآپ اس کے معاملے میں  اپنے دل کو رنجیدہ نہ کریں ۔ قریب ہے کہ ہم کفار کو آہستہ آہستہ اپنے عذاب کی طرف وہاں  سے لے جائیں  گے جہاں  سے انہیں  خبر بھی نہ ہوگی کہ گناہوں  اور نافرمانیوں  کے باوجود انہیں  صحت اور رزق سب کچھ ملتا رہے گا اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے رزق کو گناہوں  میں  زیادتی کا ذریعہ بنا لیں  گے اور ہم انہیں  اِستغفار اور توبہ کرنا بھلا دیں  گے ،یوں  رفتہ رفتہ عذاب ان کے قریب ہوتاجائے گا۔( تفسیر کبیر ، القلم ، تحت الآیۃ : ۱۰، ۱۰ / ۶۱۵، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۱۲۷۰، خازن، ن، تحت الآیۃ: ۴۴، ۴ / ۳۰۱، ملتقطاً)

نافرمانیوں  کے باوجود نعمتیں  ملنا اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر بھی ہوسکتی ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ نافرمانیوں  کے باوجود دنیا کی نعمتیں  ملتی رہنا بلکہ ان میں  مزید اضافہ ہونا اللّٰہ تعالیٰ کے فضل کی بجائے اس کی کوئی خفیہ تدبیر بھی ہو سکتی ہے۔ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ‘‘(انعام:۴۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جب انہوں  نے ان نصیحتوں  کو بھلا دیاجو انہیں  کی گئی تھیں  توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں  تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں  پکڑلیاپس اب وہ مایوس ہیں ۔

            اورحضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم یہ دیکھو کہ بندے کے گناہوں  پر قائم ہونے کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ اسے ا س کی پسند کی دُنْیَوی نعمتیں  عطا کر رہا ہے تو(جان لو کہ )یہ اس کے حق میں  اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اِستدراج (یعنی خفیہ تدبیر) ہے۔( مسند امام احمد،مسند الشامیین،حدیث عقبۃ بن عامر الجہنی عن النبیصلی اللّٰہ علیہ وسلم،۶ / ۱۲۲،الحدیث:۱۷۳۱۳)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ اسے جب بھی کوئی نعمت ملے تو ا س پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اگر اس سے کوئی گناہ سَرزَد ہو جائے تو توبہ و اِستغفار کرنے میں  دیر نہ کرے۔

68:45
وَ اُمْلِیْ لَهُمْؕ-اِنَّ كَیْدِیْ مَتِیْنٌ(۴۵)
اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، بیشک میری خفیہ تدبیر بہت پکی ہے (ف۵۵)

{وَ اُمْلِیْ لَهُمْ: اور میں  انہیں  ڈھیل دوں  گا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ میں  ان کفار کو ان کی موت آنے تک ڈھیل دوں  گا ا س لئے انہیں  جلد سزا نہیں  دوں گا ، بے شک میرا عذاب بہت سخت ہے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ میں  ان کفار کو لمبی عمر عطا کر کے اور ان کی موت میں  تاخیر کر کے انہیں  ڈھیل دوں  گا تاکہ وہ اور گناہ کر لیں  لیکن وہ لوگ سمجھ رہے ہوں  گے کہ ان کی عمر لمبی ہونا ان کے حق میں  بہتر ہے،بیشک میری خفیہ تدبیر بہت پکی ہے۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۴۵، ۴ / ۳۰۱، روح البیان، ن، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱۰ / ۱۲۵، ملتقطاً)

کافروں  کو لمبی عمر ملنے کی حقیقت اور مسلمانوں  کے لئے نصیحت:

            کافروں  کو لمبی عمر ملنے اور مہلت دئیے جانے کے بارے میں  ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ  لَا  یَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْۤا  اَنَّمَا  نُمْلِیْ  لَهُمْ  خَیْرٌ  لِّاَنْفُسِهِمْؕ-اِنَّمَا  نُمْلِیْ  لَهُمْ  لِیَزْدَادُوْۤا  اِثْمًاۚ-وَ  لَهُمْ  عَذَابٌ  مُّهِیْنٌ‘‘(ال عمران:۱۷۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کافر ہرگز یہ گمان نہ رکھیں  کہ ہم انہیں  جومہلت دے رہے ہیں  یہ ان کے لئے بہتر ہے ، ہم توصرف اس لئے انہیں  مہلت دے رہے ہیں کہ ان کے گناہ اور زیادہ ہوجائیں  اور ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۚۖ(۱۸۲) وَ اُمْلِیْ لَهُمْؕ-اِنَّ كَیْدِیْ مَتِیْنٌ‘‘(اعراف:۱۸۲۔۱۸۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جنہوں  نے ہماری آیتوں  کو جھٹلایا تو عنقریب ہم انہیں  آہستہ آہستہ (عذاب کی طرف) لے جائیں  گے جہاں  سے انہیں  خبر بھی نہ ہوگی۔ اور میں  انہیں ڈھیل دوں  گا بیشک میری خفیہ تدبیر بہت مضبوط ہے۔

             اور ارشاد فرماتا ہے : ’’قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ(۱۰۳) اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ‘‘(کہف:۱۰۳،۱۰۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ: کیا ہم تمہیں  بتادیں  کہ سب سے زیادہ ناقص عمل والے کون ہیں ؟وہ لوگ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں  برباد ہو گئی حالانکہ وہ یہ گمان کررہے ہیں  کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں ۔

             ان آیات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتا رہے ،گناہوں  پر اللّٰہ تعالیٰ کی گرفت ،اپنے نیک اعمال ضائع ہو جانے اور برا خاتمہ ہونے پر خوفزدہ رہے۔اللّٰہ تعالیٰ اپنی خفیہ تدبیر سے متعلق ارشاد فرتا ہے: ’’اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ هُمْ نَآىٕمُوْنَؕ(۹۷) اَوَ اَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا ضُحًى وَّ هُمْ یَلْعَبُوْنَ(۹۸)اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(اعراف:۹۷۔۹۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا بستیوں  والے اس بات سے بے خوف ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آئے جب وہ سورہے ہوں ۔ یا بستیوں  والے اس بات سے بے خوف ہیں  کہ ان پر ہمارا عذاب دن کے وقت آجائے جب وہ کھیل میں پڑے ہوئے ہوں ۔ کیا وہ اللّٰہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں  تو اللّٰہ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں ۔

            اورحضرت بلال بن سعید رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’اے لوگو!اللّٰہ تعالیٰ سے حیاء کیاکرو،اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو،اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف نہ ہو جاؤ اور اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۸۰، الحدیث: ۷۷۰)

            اورامام بیہقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’بندے کو اللّٰہ تعالیٰ سے اس قدر خوفزدہ نہیں  ہو جانا چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے ہی مایوس ہو جائے اور بندے کو اللّٰہ تعالیٰ سے اتنی امید بھی نہیں  لگا لینی چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ہی بے خوف ہو جائے یا اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر بے باک ہو جائے۔( شعب الایمان، الثانی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۲، تحت الحدیث: ۱۰۵۸)

            صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ جیسے عظیم حضرات اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بہت خوف زدہ رہا کرتے تھے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’میں  نے ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو سنا کہ وہ اپنے آپ کو مُخا طَب کر کے فرما رہے تھے:’’واہ واہ! (اے) عمر بن خطاب (تو) مسلمانوں  کا امیر (بن چکا) ہے۔ خدا کی قسم !تم اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ورنہ وہ تمہیں  اپنے عذاب میں  مبتلا کر دے گا۔( مؤطا امام مالک، کتاب الکلام، باب ما جاء فی التقی، ۲ / ۴۶۹، الحدیث: ۱۹۱۸)

            جب بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنت کا پروانہ حاصل کر لینے والے قطعی جنتی حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کے معاملے میں  یہ حال ہے تو ہم جیسے لوگوں  کو خود ہی غور کر لینا چاہئے کہ ہمیں  اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے کس قدر ڈرنا چاہئے۔حضرت بشر حافی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے تھے: ’’ہم نے لوگوں  کو ا س طرح پایا کہ ان کے اچھے اعمال پہاڑوں  کی طرح ہیں  لیکن ا س کے باوجود وہ دھوکے میں  نہیں  ہیں  اور تم لوگوں  کے پاس کوئی عمل نہیں  اور تم دھوکے میں  مبتلا ہو،اللّٰہ کی قسم!ہماری باتیں  زاہدوں  کی باتوں  جیسی ہیں  اور ہمارے اَعمال مُتکبِّرین اور منافقین کے اعمال جیسے ہیں ۔( تنبیہ المغترین، الباب الاول، ومن اخلاقہم رضی اللّٰہ عنہم کثرۃ خوفہم من اللّٰہ تعالی فی حال بدایتہم۔۔۔ الخ ص۴۹) اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  اپنی خفیہ تدبیر سے ہر دم خوف زدہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

68:46
اَمْ تَسْــٴَـلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ(۴۶)
یا تم ان سے اجرت مانگتے ہو (ف۵۶) کہ وہ چٹی کے بوجھ میں دبے ہیں (ف۵۷)

{اَمْ تَسْــٴَـلُهُمْ اَجْرًا: یا کیا تم ان سے اجرت مانگتے ہو۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ رسالت کی تبلیغ پر ان سے کوئی اجرت مانگتے ہیں  کہ انہیں  اپنے مالوں  سے وہ تاوان ادا کرنابھاری پڑ رہا ہے اور وہ اسی تاوان کے بھاری بوجھ کے نیچے دبے ہونے کی وجہ سے ایمان نہیں  لارہے اور جب ایسابھی نہیں  ہے تو پھر ایمان قبول کرنے سے اِعراض کرنے کا ان کے پاس کیا عذر ہے۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۳۰۱، روح البیان، ن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۱۰ / ۱۲۶، ملتقطاً)

68:47
اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ فَهُمْ یَكْتُبُوْنَ(۴۷)
یا ان کے پاس غیب ہے (ف۵۸) کہ وہ لکھ رہے ہیں (ف۵۹)

{اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ: یا ان کے پاس غیب کا علم ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ان کفار کے پاس لوحِ محفوظ ہے جس میں آئندہ ہونے والے واقعات کی خبریں  ہیں  اور یہ لوگ اس میں  موجودباتیں  لکھ رہے ہیں  اور ا س بنا ء پر آپ سے جھگڑ رہے ہیں  اور یہ دعویٰ کرتے ہیں  کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کفر کرنے کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ایمان والوں  سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں ؟( تفسیر طبری، القلم، تحت الآیۃ: ۴۷، ۱۲ / ۲۰۲)

68:48
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِۘ-اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌؕ(۴۸)
تو تم اپنے رب کے حکم کا انتظار کر و (ف۶۰) اور اس مچھلی والے کی طرح نہ ہونا (ف۶۱) جب اس حال میں پکارا کہ اس کا دل گھٹ رہا تھا (ف۶۲)

{فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ: تو تم اپنے رب کے حکم تک صبر کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفار کو مہلت دینے اور ان کے خلاف آپ کی مدد کو مُؤخّر کرنے کے معاملے میں  آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم کا انتظار کریں  اور ان کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں  پر صبر کریں ۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۴۸، ۴ / ۳۰۱، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۱۲۷۱، ملتقطاً)

{وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ: اور مچھلی والے کی طرح نہ ہونا۔} اس آیت ا ور اس کے بعد والی دو آیات کے شانِ نزول کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ جب اُحد کے میدان میں  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے مسلمانوں  کے خلاف دعا کرنے کا اراد ہ فرمایا تو یہ آیات نازل ہوئیں  اور ایک قول یہ ہے کہ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ثقیف والوں  کے خلاف دعا کا ارادہ فرمایا تو یہ آیات نازل ہوئیں  اور اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم پر جلدی عذاب نازل کرنے کے معاملے میں  مچھلی والے کی طرح نہ ہونا تاکہ کہیں  ان کی طرح آپ بھی آزمائش میں  مبتلاء نہ ہو جائیں  اور وہ وقت یاد کریں  جب اُس نے اِس حال میں  اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کوپکارا کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں  بہت غمگین تھا۔یاد رہے کہ یہاں  مچھلی والے سے مراد حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔(تفسیرکبیر، القلم، تحت الآیۃ: ۴۸، ۱۰ / ۶۱۶، خازن، ن، تحت الآیۃ: ۴۸، ۴ / ۳۰۱، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۱۲۷۱، ملتقطاً)

68:49
لَوْ لَاۤ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ مَذْمُوْمٌ(۴۹)
اگر اس کے رب کی نعمت اس کی خبر کو نہ پہنچ جاتی (ف۶۳) تو ضرور میدان پر پھینک دیا جاتا الزام دیا ہوا (ف۶۴)

{لَوْ لَاۤ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ: اگر اس کے رب کی نعمت اسے نہ پالیتی۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اگر حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ان کی دستگیری نہ کرتی اور اللّٰہ تعالیٰ اُن کے عذر اور دعا کو قبول فرما کر ان پر انعام نہ فرماتا تو وہ ضرور ملامت کئے ہوئے مچھلی کے پیٹ سے چٹیل میدان میں  پھینک دیئے جاتے لیکن ایسا نہیں  ہوا بلکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر رحمت فرمائی اور وہ بغیر ملامت کئے ہوئے مچھلی کے پیٹ سے باہر تشریف لائے ۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ اگر حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ان کی دستگیری نہ فرماتی تو وہ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں  ہی رہتے ،پھر وہ ضرور ملامت کئے ہوئے میدانِ حشر میں  پھینک دیئے جاتے۔( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۲۷۱، تفسیر کبیر، القلم، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱۰ / ۶۱۷، ملتقطاً)

{فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ: تو اسے اس کے رب نے چن لیا۔} یعنی حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دعا کرنے اور اپنا عذر پیش کرنے کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں چن لیا اور ان کی نیکی کی صفات کو مزید ترقی دی اور انہیں  ہر ایسا کام کرنے سے محفوظ کر دیا جسے چھوڑ دینابہتر ہو۔( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۱۲۷۱، روح البیان، ن، تحت الآیۃ: ۵۰، ۱۰ / ۱۲۶-۱۲۷، ملتقطاً)

68:50
فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَجَعَلَهٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۵۰)
تو اسے اس کے رب نے چن لیا اور اپنے قربِ خاص کے سزاواروں (حقداروں) میں کرلیا،

68:51
وَ اِنْ یَّكَادُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَ یَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌۘ(۵۱)
اور ضرور کافر تو ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا اپنی بد نظر لگا کر تمہیں گرادیں گے جب قرآن سنتے ہیں (ف۶۵) اور کہتے ہیں (ف۶۶) یہ ضرور عقل سے دور ہیں،

{وَ اِنْ یَّكَادُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور بیشک ضرور کافر تو ایسے معلوم ہوتے ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کافر جب قرآن سنتے ہیں  اور بغض و عداوت کی نگاہوں  سے آپ کو گھور گھور کر دیکھتے ہیں  تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ گویا اپنی آنکھوں  کے ساتھ نظر لگا کر تمہیں  اپنی جگہ سے گرادیں  گے اور جب آپ کو قرآنِ کریم پڑھتے دیکھتے ہیں  تو حسد و عناد اور لوگوں  کو نفرت دلانے کیلئے آپ کی شان میں  کہتے ہیں  یہ ضرور عقل سے دور ہیں حالانکہ جس قرآن کی وجہ سے وہ لوگ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جُنون کی نسبت کر رہے ہیں  وہ تو جِنّوں کیلئے بھی اور انسانوں  کے لئے بھی نصیحت ہی ہے لہٰذا وہ شخصیت مجنون کس طرح ہو سکتی ہے جو قرآن جیسی کتاب لے کر آئی ہو۔شانِ نزول: منقول ہے کہ عرب میں  بعض لوگ نظر لگانے میں  شہرہ آفاق تھے اور ان کی یہ حالت تھی کہ دعویٰ کرکے نظر لگاتے تھے اور جس چیز کو اُنہوں  نے نقصان پہنچانے کے ارادے سے دیکھا تو وہ دیکھتے ہی ہلاک ہوگئی ،ایسے بہت سے واقعات اُن کے تجربہ میں  آچکے تھے ا س لئے کفار نے اُن سے کہا کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نظر لگائیں  تو ان لوگوں نے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بڑی تیز نگاہوں  سے دیکھا اور کہا کہ ہم نے اب تک نہ ایسا آدمی دیکھا اور نہ ایسی دلیلیں  دیکھیں  ۔ اِن لوگوں  کا کسی چیز کو دیکھ کر حیرت کرنا ہی ستم ہوتا تھا لیکن اُن کی یہ تمام جدوجہد ان کی طرف سے دن رات کی جانے والی دیگر سازشوں  اور فریب کاریوں  کی طرح بے کار گئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اُن کے شر سے محفوظ رکھا اور یہ آیت نازل ہوئی۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۵۱-۵۲، ۴ / ۳۰۲، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۵۱-۵۲، ص۱۲۷۱-۱۲۷۲، ملتقطاً)

نظر کی حقیقت اور نظر ِبد کا علاجـ:

اس سے معلوم ہوا کہ نظر واقعی لگ جاتی ہے ،اَحادیث میں  بھی اس چیز کو بیان کیا گیا ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’نظر کا لگ جانا درست ہے۔(بخاری، کتاب الطب، باب العین حق، ۴ / ۳۲، الحدیث: ۵۷۴۰)

اورحضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’نظر حق ہے اور اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت لے جاتی تو وہ نظر ہوتی اور جب تم سے (اعضاء) دھونے کا کہا جائے تو دھو دو۔( مسلم، کتاب السلام، باب الطب والمرض والرقی، ص۱۲۰۲، الحدیث: ۴۲(۲۱۸۸))

اورحضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک نظر (کا اثریہاں  تک ہو جاتا ہے کہ وہ) آدمی کو قبر میں  داخل کر دیتی ہے اور اونٹ کو ہنڈیا میں  ڈال دیتی ہے۔(مسند شہاب، ۶۷۸-انّ العین لتدخل الرجل القبر، ۲ / ۱۴۰، الحدیث: ۱۰۵۷)

زیر ِتفسیر آیت نظر ِبد کے علاج کے لیے اکسیرہے۔چنانچہ حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ جس کو نظر لگے اس پر یہ آیت پڑھ کر دم کردی جائے۔( ابو سعود، ن، تحت الآیۃ: ۵۱، ۵ / ۷۵۹)

{وَ مَا هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ: حالانکہ وہ تو تمام جہانوں  کے لیے نصیحت ہی ہیں ۔} اس آیت کا ایک معنی اوپر بیان ہو ا کہ قرآنِ مجید جِنّوں  اور انسانوں  سبھی کے لئے نصیحت ہے اوربعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں  ’’هُوَ ‘‘  ضمیر کا مِصداق رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں  اور’’ذِكْرٌ‘‘ فضل و شرف کے معنی میں  ہے ،اس صورت میں  اس آیت کے معنی یہ ہیں  کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام جہانوں  کیلئے شرف ہیں  توان کی طرف جنون کی نسبت کس طرح کی جا سکتی ہے ۔( ابو سعود، ن، تحت الآیۃ: ۵۲، ۵ / ۷۵۹، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۱۲۷۲، ملتقطاً)

68:52
وَ مَا هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ۠(۵۲)
اور وہ (ف۶۷) تو نہیں مگر نصیحت سارے جہاں کے لیے (ف۶۸)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْقَلَم
اَلْقَلَم
  00:00



Download

اَلْقَلَم
اَلْقَلَم
  00:00



Download