Surah al-Mursalat
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ الْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا: ان کی قسم جو لگاتار بھیجی جاتی ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی چار آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے پانچ صفات کی قسم ارشاد فرمائی اور جن چیزوں کی یہ صفات ہیں ان کاآیات میں ذکر نہیں کیا گیا، اسی لئے مفسرین نے ان چیزوں کی تفسیر میں بہت سی وجوہات ذکر کی ہیں ۔
(1)… یہ پانچوں صفتیں ہواؤں کی ہیں ۔اس صورت میں ان پانچ آیات کا معنی یہ ہے کہ ان ہواؤں کی قسم جو لگاتار بھیجی جاتی ہیں ۔پھر ان ہواؤں کی قسم جو زور سے جھونکے دیتی ہیں ۔ پھر ان ہواؤں کی قسم جو بادلوں کوابھار کر اٹھاتی ہیں ۔ پھر ان ہواؤں کی قسم جو بادلوں کو جدا کرتی ہیں ۔پھر ان ہواؤں کی قسم جن کے زور دار جھونکوں سے درخت اکھڑ جاتے ہیں ،شہر ویران ہو جاتے ہیں اور ان کے آثار مٹ جاتے ہیں تو اس سے بندوں کے دلوں میں خوف پیدا ہوتا ہے اور وہ اللّٰہ تعالیٰ سے اِلتجائیں کرتے ہیں اور اس کا ذکر کرتے ہیں تو گویا کہ ان ہواؤں نے بندوں کو اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر اِلقا کر دیا۔
(2)… یہ پانچوں صفتیں فرشتوں کی ہیں ۔اس صورت میں ان پانچ آیات کا معنی یہ ہے کہ ان فرشتوں کی قسم جو اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات دے کر لگاتار بھیجے جاتے ہیں ۔پھر ان فرشتوں کی قسم جو ہواؤں کی طرح تیز چلنے والے ہیں ۔پھر ان فرشتوں کی قسم!جو زمین پر اتر کر اپنے پروں کو پھیلا دیتے ہیں ۔پھر ان فرشتوں کی قسم!جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی چیز لاتے ہیں ۔پھر ان فرشتوں کی قسم !جو رسولوں کے پاس اللّٰہ تعالیٰ کی وحی لا کر انہیں اِلقا کرتے ہیں ۔
(3)… یہ پانچوں صفتیں قرآنِ پاک کی آیات کی ہیں ۔اس صورت میں ان پانچ آیات کا معنی یہ ہے کہ میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر لگاتار بھیجی جانے والی قرآن کی آیتوں کی قسم۔پھر قرآن کی ان آیتوں کی قسم جو وعید بیان کر کے دلوں کی دھڑکن تیز کر دیتی ہیں ۔پھر قرآن کی ان آیات کی قسم !جو ایمان والوں کے دلوں میں ہدایت اور معرفت کے اَنوار پھیلا دیتی ہیں ۔پھر قرآن کی ان آیات کی قسم ! جو حق اور باطل کے درمیان فرق کر دیتی ہیں ۔پھر قرآن کی ان آیات کی قسم جو حکمت والا ذکر ہیں اور وہ ایمان والوں کے دلوں میں نور وایمان ڈ ال دیتی ہیں ۔
(4)… پہلی تین صفتیں ہواؤں کی ہیں ،چوتھی صفت قرآنِ پاک کی آیات کی اورپانچویں صفت فرشتوں کی ہے۔
(5)… پہلی تین صفتیں ہواؤں کی ہیں جبکہ چوتھی اور پانچویں صفت فرشتوں کی ہے۔( جلالین مع جمل،المرسلات،تحت الآیۃ:۱-۵،۸ / ۲۰۰-۲۰۱،خازن،المرسلات،تحت الآیۃ:۱-۵،۴ / ۳۴۳، ملتقطاً)
{عُذْرًا اَوْ نُذْرًا: عذر کی گنجائش نہ چھوڑنے کیلئے یا ڈرانے کیلئے۔} یعنی ذکر کا اِلقا کرنا ا س لئے ہے کہ مخلوق میں سے کسی کے لئے عذر بیان کرنے کی کوئی گنجائش نہ ر ہے یا انہیں (اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے) ڈرانے کے لئے ہے۔( صاوی، المرسلات، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۲۲۹۳)
{اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ: بیشک جس بات کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔} اللّٰہ تعالیٰ نے پانچ صفات کی قَسم ذکر کر کے ارشاد فرمایا کہ اے کفارِ مکہ ! مرنے کے بعد اُٹھائے جانے،عذاب دئیے جانے اور قیامت کے آنے کا جو تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے یہ بات ضرور واقع ہونے والی ہے اور اس کے ہونے میں کچھ بھی شک نہیں ۔( جلالین، المرسلات، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۸۵، مدارک، المرسلات، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۳۱۰، ملتقطاً)
{فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْ: پھر جب تارے مٹا دئیے جائیں گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں قیامت واقع ہونے کی علامات بیان کی جا رہی ہیں ۔
قیامت کی تین علامتیں :
اس کی ایک علامت یہ ہے کہ اس دن ستاروں کو بے نور کر کے مٹا دیا جائے گا ۔قیامت کے دن ستاروں کی ایک اور حالت بیان کرتے ہوئے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: ’’وَ اِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ‘‘(تکویر:۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب تارے جھڑ پڑیں گے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’وَ اِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ‘‘(انفطار:۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ستارے جھڑ پڑیں گے۔
دوسری علامت یہ ہے کہ اس دن آسمان اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے پھٹ جائیں گے اور ان میں سوراخ ہوجائیں گے۔قیامت کے دن آسمان پھٹنے کے بعد کی حالتیں بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پرارشاد فرمایا:
’’فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ‘‘(رحمٰن:۳۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جب آسمان پھٹ جائے گا تو گلاب کے پھول جیسا (سرخ) ہوجائے گا جیسے سرخ چمڑا۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَهِیَ یَوْمَىٕذٍ وَّاهِیَةٌ‘‘(حاقہ:۱۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور آسمان پھٹ جائے گا تو اس دن وہ بہت کمزورہوگا۔
تیسری علامت یہ ہے کہ اس دن پہاڑ غبار بناکے اُڑا دئیے جا ئیں گے۔قیامت کے دن پہاڑوں کی اور حالتیں بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر ارشاد فرمایا: ’’ وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ‘‘(نمل:۸۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تو پہاڑوں کو دیکھے گا انہیں جمے ہوئے خیال کرے گا حالانکہ وہ بادل کے چلنے کی طرح چل رہے ہوں گے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’وَ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّاۙ(۵) فَكَانَتْ هَبَآءً مُّنْۢبَثًّا ‘‘(واقعہ:۵،۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور پہاڑ خوب چُورا چُورا کردیئے جائیں گے ۔تووہ ہوا میں بکھرے ہوئے غبار جیسے ہوجائیں گے۔
{وَ اِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ: اور جب رسولوں کو ایک خاص وقت پر جمع کیا جائے گا۔} اس وقت کے بارے میں مفسرین نے مختلف اِحتمال بیان کئے ہیں ،
(1)…اس سے وہ وقت مراد ہو سکتا ہے جس میں رسول اپنی امتوں پر گواہی دینے کے لئے حاضر ہوں گے۔
(2)…اس سے وہ وقت مراد ہو سکتا ہے جس میں رسول ثواب پا کر کامیابی حاصل کرنے کے لئے جمع ہوں گے ۔
(3)…اس سے وہ وقت مراد ہو سکتا ہے جس میں رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پوچھا جائے گا کہ (جب انہوں نے تبلیغ کی تو ان کی امتوں کی طرف سے) انہیں کیا جواب دیا گیا اور امتوں سے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے اپنے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو (ان کی دعوت کا) کیا جواب دیا۔جیسا کہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’فَلَنَسْــٴَـلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ وَ لَنَسْــٴَـلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘(اعراف:۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو بیشک ہم ضرور ان لوگوں سے سوال کریں گے جن کی طرف (رسول) بھیجے گئے اور بیشک ہم ضرور رسولوں سے سوال کریں گے۔( تفسیر کبیر، المرسلات، تحت الآیۃ: ۱۱، ۱۰ / ۷۶۹)
{لِاَیِّ یَوْمٍ اُجِّلَتْ: کس بڑے دن کے لیے انہیں ٹھہرایا گیا تھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ جھٹلانے والوں کو عذاب دینا، ایمان لانے والوں کی تعظیم کرنا اور ان چیزوں کو ظاہر کرنا جن پر ایمان لانے کی مخلوق کو دعوت دی جاتی تھی، جیسے قیامت کے ہَولناک دن کا قائم ہونا،اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری ،اَعمال کا حساب ہونا،اعمال ناموں کا کھلنا اور میزان کا رکھا جانا وغیرہ،یہ تمام اُمور کس بڑے دن کے لئے مُؤخَّر کئے گئے تھے! اس دن کے لئے مؤخر کئے گئے تھے جس میں اللّٰہ تعالیٰ تمام مخلوق کے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور تو کیا جانے کہ وہ فیصلے کا دن کیا ہے اور اس کی ہَولناکی اور شدّت کا کیا عالَم ہے۔( تفسیر کبیر، المرسلات، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۴، ۱۰ / ۷۶۹-۷۷۰)
{وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ: اس دن جھٹلانے والوں کیلئے خرابی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ قیامت کے اس ہَولناک دن میں ان لوگوں کے لئے خرابی ہے جو دنیا میں اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیَّت،انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نُبوّت ،مرنے کے بعد زندہ کئے جانے ،قیامت قائم ہونے اور اعمال کا حساب لئے جانے کے مُنکر تھے۔ یہ آیت لوگوں کو ایمان لانے کی مزید ترغیب دینے اور ایمان نہ لانے پر عذاب سے مزید ڈرانے کے لئے اس سورت میں 10بار ذکر کی گئی ہے۔( خازن، المرسلات، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۳۴۴، صاوی، المرسلات، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۲۲۹۳، ملتقطاً)
{اَلَمْ نُهْلِكِ الْاَوَّلِیْنَ: کیا ہم نے پہلے لوگوں کو ہلاک نہ فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں کفارِ مکہ کو ڈراتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب سابقہ اُمتوں جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ،قومِ عاد اور قومِ ثمود نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا تو کیا ہم نے ان پر دنیا میں عذاب نازل کر کے انہیں ہلاک نہ فرمایا اور یاد رکھو کہ تم میں سے جو لوگ پہلی امتوں میں سے اپنے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں کے راستے پر چل کر میرے حبیب محمد مُصْطَفیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلا رہے ہیں ،ہم انہیں بھی سابقہ لوگوں کی طرح ہلاک فرما دیں گے اور مجرموں کے ساتھ ہم ایسا ہی کرتے ہیں کہ انہیں کفر کرنے اورا نبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک فرما دیتے ہیں ۔( خازن، المرسلات، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۸، ۴ / ۳۴۴، ابو سعود، المرسلات، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۸، ۵ / ۸۰۷، ملتقطاً)
{وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ: اس دن جھٹلانے والوں کیلئے خرابی ہے۔} یعنی جب اللّٰہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں پر دنیا میں عذاب آئے گا تو اس دن ان کے لئے خرابی ہے۔( روح البیان، المرسلات، تحت الآیۃ: ۱۹، ۱۰ / ۲۸۴)
{اَلَمْ نُهْلِكِ الْاَوَّلِیْنَ: کیا ہم نے پہلے لوگوں کو ہلاک نہ فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں کفارِ مکہ کو ڈراتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب سابقہ اُمتوں جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ،قومِ عاد اور قومِ ثمود نےاپنے رسولوں کو جھٹلایا تو کیا ہم نے ان پر دنیا میں عذاب نازل کر کے انہیں ہلاک نہ فرمایا اور یاد رکھو کہ تم میں سے جو لوگ پہلی امتوں میں سے اپنے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں کے راستے پر چل کر میرے حبیب محمد مُصْطَفیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلا رہے ہیں ،ہم انہیں بھی سابقہ لوگوں کی طرح ہلاک فرما دیں گے اور مجرموں کے ساتھ ہم ایسا ہی کرتے ہیں کہ انہیں کفر کرنے اورا نبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک فرما دیتے ہیں ۔( خازن، المرسلات، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۸، ۴ / ۳۴۴، ابو سعود، المرسلات، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۸، ۵ / ۸۰۷، ملتقطاً)
{وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ: اس دن جھٹلانے والوں کیلئے خرابی ہے۔} یعنی جب اللّٰہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں پر دنیا میں عذاب آئے گا تو اس دن ان کے لئے خرابی ہے۔( روح البیان، المرسلات، تحت الآیۃ: ۱۹، ۱۰ / ۲۸۴)
{اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِیْنٍ: کیا ہم نے تمہیں ایک بے قدر پانی سے پیدا نہ فرمایا؟} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو!اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں ایک بے قدر پانی سے پیدا فرمایا اور وہ پانی نطفہ ہے، پھر اس پانی کو ایک محفوظ جگہ میں رکھا اور وہ جگہ ماں کا رحم ہے اور اس پانی کوماں کے رحم میں ایک معلوم اندازے تک رکھا اور وہ معلوم اندازہ ولادت کا وقت ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ وہ9مہینے ہے یا اس سے کم زیادہ تو اللّٰہ تعالیٰ نے اس پانی سے ماں کے رحم میں تمہاری تخلیق کے مراحل کا (حَتمی) اندازہ فرمایا اور وہ (حتمی) اندازہ فرمانے پر کیا ہی اچھا قادر ہے۔( خازن،المرسلات،تحت الآیۃ: ۲۰-۲۳، ۴ / ۳۴۴، روح البیان، المرسلات، تحت الآیۃ: ۲۰-۲۳، ۱۰ / ۲۸۵، جلالین مع جمل، المرسلات، تحت الآیۃ: ۲۰-۲۳، ۸ / ۲۰۵، ملتقطاً)
{وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ: اس دن جھٹلانے والوں کے لئے خرابی ہے۔} یعنی قیامت کے دن ان لوگوں کے لئے خرابی ہے جنہوں نے اپنے پہلی بار پیدا کئے جانے کو دیکھنے کے باوجود دوسری بار پیدا کئے جانے کا انکار کر دیا۔( تفسیر سمرقندی، المرسلات، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۴۳۶)
{اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًا: کیا ہم نے زمین کو جمع کرنے والی نہ بنایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے زمین کو تمام زندہ اور مُردہ لوگوں کو جمع کرنے والی بنایا ہے کہ زندہ لوگ اس کی پُشت پر مکانات اور محلات میں رہتے ہیں اور مردہ لوگ اس کے اندر اپنی قبروں میں رہتے ہیں اور ہم نے زمین میں اونچے اونچے پہاڑ بنادیئے اور ہم نے زمین میں چشمے اور پانی نکلنے کے مقامات پیدا کرکے خوب میٹھے پانی سے تمہیں سیراب کیا اور یہ تمام باتیں مُردوں کو زندہ کرنے سے زیادہ عجیب ہیں لہٰذا جو ان چیزوں پر قادر ہے وہ دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔( خازن،المرسلات،تحت الآیۃ:۲۵-۲۷،۴ / ۳۴۴، روح البیان،المرسلات،تحت الآیۃ:۲۵-۲۷،۱۰ / ۲۸۵-۲۸۶،ملتقطاً)
{وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ: اس دن جھٹلانے والوں کے لئے خرابی ہے۔} یعنی قیامت کے دن ان لوگوں کی خرابی ہے جنہوں نے ان چیزوں کا مُشاہدہ کرنے کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیَّت اور مُردوں کے زندہ ہونے کا انکار کیا۔( تفسیر سمرقندی، المرسلات، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۴۳۶)
{اِنْطَلِقُوْا: چلو۔} یعنی قیامت کے دن کافروں سے کہا جائے گا کہ اس آگ اور اس عذاب کی طرف چلو جسے تم دنیا میں جھٹلاتے تھے۔( مدارک، المرسلات، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۳۱۱، خازن، المرسلات، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۳۴۴، ملتقطاً)
{اِنْطَلِقُوْۤا اِلٰى ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ: اس دھوئیں کے سائے کی طرف چلوجس کی تین شاخیں ہیں ۔} اس آیت میں جس دھوئیں کا ذکر ہے اس سے جہنم کا دھواں مراد ہے،یہ دھواں اونچا ہو کر تین شاخوں میں تقسیم ہو جائے گا اورا س کی ایک شاخ کفّار کے سروں پر، ایک ان کے دائیں طرف اور ایک ان کے بائیں طرف ہو گی اور حساب سے فارغ ہونے تک انہیں اسی دھوئیں میں رہنے کا حکم ہوگا جب کہ اللّٰہ تعالیٰ کے پیارے بندے اس کے عرش کے سایہ میں ہوں گے۔( خازن، المرسلات، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۳۴۴)
کفار کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ ﳔ مَاۤ اَصْحٰبُ الشِّمَالِؕ(۴۱) فِیْ سَمُوْمٍ وَّ حَمِیْمٍۙ(۴۲) وَّ ظِلٍّ مِّنْ یَّحْمُوْمٍ‘‘(واقعہ:۴۱۔۴۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بائیں جانب والے کیا بائیںجانب والے ہیں ۔ شدید گرم ہوا اور کھولتے پانی میں ہوں گے۔ اور شدید سیاہ دھوئیں کے سائے میں ہوں گے۔
اور ایمان والے قیامت کے دن کہیں گے:
’’فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ‘‘(الطور:۲۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو اللّٰہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں (جہنم کی) سخت گرم ہوا کے عذاب سے بچا لیا۔
{لَا ظَلِیْلٍ: جو نہ سایہ دے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جہنم کا وہ دھواں ایسا ہے کہ نہ سایہ دے جس سے کفار اس دن کی گرمی سے کچھ امن پاسکیں اورنہ وہ کفار کو جہنم کی آگ کے شعلے سے بچائے گا۔بیشک دوزخ اونچے محل جیسی بڑی بڑی چنگاریاں پھینکتی ہے اور ان چنگاریوں کا رنگ ایسا ہے گویا کہ وہ زرد رنگ کے اونٹ ہیں ۔( مدارک، المرسلات، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۳، ص۱۳۱۲)
{وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ: اس دن جھٹلانے والوں کے لئے خرابی ہے۔} یعنی قیامت کے دن ان لوگوں کے لئے خرابی ہے جو ا س دن کی ہَولناکیوں اور اس دن میں گُناہگاروں کے اَحوال کو جھٹلاتے ہیں ۔( روح البیان، المرسلات، تحت الآیۃ: ۳۴، ۱۰ / ۲۸۸)
{هٰذَا یَوْمُ لَا یَنْطِقُوْنَ: یہ وہ دن ہے جس میں وہ بول نہ سکیں گے۔} یعنی قیامت کا دن وہ دن ہے جس میں کفار نہ بول سکیں گے اور نہ کوئی ایسی حجت پیش کرسکیں گے جو ان کے کام آئے ۔حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ قیامت کے دن بہت سے مواقع ہوں گے جن میں سے بعض مواقع پر کفار کلام کریں گے اور بعض میں کچھ بول نہ سکیں گے۔( خازن، المرسلات، تحت الآیۃ: ۳۵، ۴ / ۳۴۵، مدارک، المرسلات، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۱۳۱۲، ملتقطاً)
{وَ لَا یُؤْذَنُ لَهُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ: اور نہ انہیں اجازت ملے گی کہ معذرت کریں ۔} یعنی قیامت کے دن کفار کو معذرت کرنے کی اجازت نہیں ملے گی اور اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے پاس کوئی عذر موجود ہو گا لیکن عذر بیان کرنے کی اجازت نہ ہوگی بلکہ درحقیقت اُن کے پاس کوئی عذر ہی نہ ہوگا کیونکہ دنیا میں حجتیں تمام کر دی گئیں اور آخرت کیلئے کسی عذر کی گنجائش باقی نہیں رکھی گئی ،البتہ انہیں یہ فاسد خیال آئے گا کہ کچھ حیلے بہانے بنائیں ،یہ حیلے پیش کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔حضرت جنید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اس کے پاس عذر ہی کیا ہے جس نے نعمت دینے والے سے رُو گَردانی کی ،اس کی نعمتوں کو جھٹلایا اوراس کے احسانوں کی ناشکری کی۔( خازن، المرسلات، تحت الآیۃ: ۳۶، ۴ / ۳۴۵، تفسیر کبیر، المرسلات، تحت الآیۃ: ۳۶، ۱۰ / ۷۷۸، ملتقطاً)
{وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ: اس دن جھٹلانے والوں کیلئے خرابی ہے۔} یعنی قیامت کے دن ان لوگوں کے لئے خرابی ہے جنہوں نے اِن خبروں کو اور اپنے پاس آنے والی اُن حق باتوں کوجھٹلایا جو یقینی طور پر واقع ہوں گی۔( روح البیان، المرسلات، تحت الآیۃ: ۳۷، ۱۰ / ۲۸۹)
{هٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ: یہ فیصلے کا دن ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ قیامت کا دن جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان فیصلے کا دن ہے اور اے میرے حبیب محمد مُصْطَفیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلانے والو! ہم نے تمہیں اور ان لوگوں کو جمع کر دیا جو تم سے پہلے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلاتے تھے ،تمہارا اوران کا سب کا حساب کیا جائے گا اور تمہیں اور انہیں سب کو عذاب دیا جائے گا،اب اگر عذاب سے بچنے کے لئے تمہارے پاس کوئی داؤ ہو تو مجھ پر چلا لو اور کسی طرح اپنے آپ کو عذاب سے بچا سکتے ہو تو بچا لو۔ یہ انتہا درجہ کی ڈانٹ ہے کیونکہ یہ بات تو وہ بھی یقینی طور پرجانتے ہوں گے کہ نہ آج کوئی داؤ چل سکتا ہے اور نہ کوئی حیلہ کام دے سکتا ہے۔( خازن، المرسلات، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ۴ / ۳۴۵، جلالین، المرسلات، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ص۴۸۶، ملتقطاً)
{وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ: اس دن جھٹلانے والوں کیلئے خرابی ہے۔} یعنی قیامت کے دن ان لوگوں کے لئے خرابی ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت، مرنے کے بعد اٹھا ئے جانے اور قیامت کے دن جمع کئے جانے کا انکار کریں ۔( تفسیر سمرقندی، المرسلات، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۴۳۷)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan