READ

Surah Al-Hajj

اَلْحَجّ
78 Ayaat    مدنیۃ


22:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

22:1
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْۚ-اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ(۱)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو (ف۲) بیشک قیامت کا زلزلہ (ف۳) بڑی سخت چیز ہے،

{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو۔} اس سورۂ  مبارکہ کی پہلی آیت میں   اللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا کیونکہ تقویٰ اور خوفِ خدا ہی ایسی چیزیں  ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے اَعمال واَخلاق کی اصلاح کرتا ہے اور معاشرہ میں  ایک اچھا انسان بن کر رہتا ہے۔ اور چونکہ تقویٰ اور خوفِ خداوندی پر سب سے زیادہ ابھارنے والی چیز قیامت ہے لہٰذا اس کاتذکرہ بھی اسی آیت میں  کردیا کہ قیامت کی ہَولناکیاں  ،اس کا حساب وکتاب اور اس کے اَحوال پیش ِنظر ہوں  گے توکوئی بھی انسان کسی دوسرے کی حق تَلفی ،ظلم وستم ، اور کسی قسم کی بھی زیادتی نہیں  کرے گا۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! اپنے رب کے عذاب سے ڈرو اور اس کی اطاعت میں  مشغول ہو جاؤ، بیشک قیامت کا زلزلہ جو قیامت کی علامات میں  سے ہے اور قیامت کے قریب سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کے نزدیک واقع ہو گابہت بڑی چیز ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۲۹۸، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۱، ص۷۳۰، ملتقطاً)

22:2
یَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّاۤ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰى وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِیْدٌ(۲)
جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی (ف۴) اپنے دودھ پیتے کو بھول جائے گی اور ہر گابھ (ف۵) اپنا گابھ ڈال دے گی (ف۶) اور تو لوگوں کو دیکھے گا جیسے نشہ میں ہیں اور نشہ میں نہ ہوں گے (ف۷) مگر ہے یہ کہ اللہ کی مار کڑی ہے،

{یَوْمَ تَرَوْنَهَا:جس دن تم اسے دیکھو گے۔} ارشاد فرمایا کہ جس دن تم قیامت کے اس زلزلے کو دیکھو گے تو یہ حالت ہوگی کہ اس کی ہیبت سے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور اس دن کی ہولناکی سے ہر حمل والی کا حمل ساقط ہو جائے گا اور تو لوگوں  کو دیکھے گا جیسے نشے میں  ہیں  حالانکہ وہ نشہ میں  نہیں  ہوں  گے بلکہ  اللہ تعالیٰ کے عذاب کے خوف سے لوگوں  کے ہوش جاتے رہیں  گے اور  اللہ تعالیٰ کا عذاب بڑا شدید ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۲۹۸)

قیامت کے ذکر سے صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کا حال:

            بعض مفسرین فرماتے ہیں  ’’یہ دونوں  آیات غزوہ بنی مصطلق میں  رات کے وقت نازل ہوئیں  اور نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ  کے سامنے ان کی تلاوت فرمائی تو وہ ساری رات بہت روئے اور جب صبح ہوئی تو انہوں  نے اپنے جانوروں  سے زینیں  نہ اتاریں  اور جس جگہ ٹھہرے وہاں  خیمے نصب نہ کئے اور نہ ہی ہانڈیاں  پکائیں  اور وہ غمزدہ، پُر نم اور فکر مند تھے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۲، ۶ / ۳)

             یہ ان ہستیوں  کا حال ہے جن سے  اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے اور ان میں  سے بعض کو دنیا میں  ہی زبانِ رسالت سے جنت کی بشارت مل چکی ہے تو ہمیں  قیامت کی شدت،ہیبت،ہولناکی اور سختی سے تو کہیں  زیادہ ڈرنا چاہئے کیونکہ ہمارے ساتھ نہ تو کوئی ایسا وعدہ فرمایا گیا ہے جیسا صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْکے ساتھ فرمایا گیا اور نہ ہی دنیا میں  ہمیں  جنت کی قطعی بشارت مل چکی ہے لیکن افسوس! فی زمانہ قیامت سے لوگوں  کی غفلت انتہائی عروج پر نظر آ رہی ہے اور نجانے کس امید پر وہ قیامت کے بارے میں  بے فکر ہیں ۔ امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ   فرماتے ہیں  ’’اے مسکین! جس دن کی یہ عظمت ہے وہ اس قدر بڑا ہے، حاکم زبردست اور زمانہ قریب ہے تو تواس دن کے لیے تیاری کر لے جس دن تو دیکھے گا کہ آسمان پھٹ گئے، اس کے خوف سے ستارے جھڑگئے، روشن ستاروں  کی چمک ماند پڑگئی، سورج کی روشنی لپیٹ دی گئی، پہاڑ چلنے لگے، پانی لانے والی اونٹنیاں  کھلی پھرنے لگیں ، جنگلی جانور جمع ہوگئے، سمندر ابلنے لگے، روحیں  بدنوں  سے جاملیں  ،جہنم کی آگ بھڑکائی گئی، جنت قریب لائی گئی ، پہاڑ اڑائے گئے اور زمین پھیلائی گئی اور جس دن تم دیکھو گے کہ زمین میں  زلزلہ برپا ہوگا، زمین اپنے بوجھ باہر نکال دے گی اور لوگ گروہوں  میں  بٹ جائیں  گے تاکہ اپنے اَعمال (کابدلہ) دیکھیں  اور جس دن زمین اور پہاڑ اٹھا کر پٹخ دیئے جائیں  گے، اس دن عظیم واقعہ رونما ہوگا اور آسمان پھٹ جائیں  گے حتّٰی کہ ان کی بنیادیں  کمزور پڑجائیں  گی ،فرشتے ان کے کناروں  پر ہوں  گے اور اس دن تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کے عرش کو آٹھ فرشتوں  نے اٹھایا ہوگا، اس دن تم سب کو پیش ہونا ہوگا اور تم سے کوئی بھی بات پوشیدہ نہ ہو گی ، جس دن پہاڑ چلیں  گے اور تم زمین کو کھلی ہوئی دیکھو گے ، جس دن زمین کانپے گی اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر اڑنے والی گَرد بن جائیں  گے ، جس دن انسان بکھرے ہوئے پتنگوں  کی طرح ہوجائیں  گے اور پہاڑ دُھنی ہوئی روئی کے گالوں  کی طرح ہوجائیں  گے، اس دن ہر دودھ پلانے والی دودھ پیتے بچے سے غافل ہوجائے گی اور ہر حمل والی کا حمل گر جائے گا اور تم لوگوں  کو نشے کی حالت میں  دیکھو گے حالانکہ وہ نشے کی حالت میں  نہیں  ہوں  گے، لیکن  اللہ تعالیٰ کا عذاب سخت ہوگا۔ جس دن یہ زمین و آسمان دوسری زمین میں  بدل جائیں  گے اور  اللہ تعالیٰ واحد و قہار کے سامنے کھڑے ہوں  گے۔ جس دن پہاڑ اڑا کر بکھیر دیئے جائیں  گے اور صاف زمین باقی رہ جائے گی، اس میں  کوئی ٹیڑھا راستہ (موڑ وغیرہ) اور ٹیلے نہیں  ہوں  گے ، جس دن تم پہاڑوں  کو جمے ہوئے دیکھو گے حالانکہ وہ بادلوں  کی طرح چل رہے ہوں  گے، جس دن آسمان پھٹ کر گلابی لال چمڑے کی طرح ہوجائیں  گے اور اس دن کسی انسان اور جن سے اس کے گناہ کے بارے میں  پوچھا نہیں  جائے گا۔ اس دن گناہ گار کو بولنے سے روک دیا جائے گا اور نہ ہی اس کے جرموں  کے بارے میں  پوچھا جائے گا، بلکہ پیشانی کے بالوں  اور پاؤں  سے گرفت ہوگی ، جس دن ہر شخص اپنے اچھے عمل کو سامنے پائے گا اور برے عمل کو بھی اور وہ چاہے گا کہ اس برے عمل اور اس (شخص) کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہو۔ جس دن ہر نفس اس چیز کو جان لے گا جو وہ لایا ہوگا اور جو آگے بھیجا یا پیچھے چھوڑا وہ سب حاضر ہوگا۔ جس دن زبانیں  گُنگ ہوں  گی اور باقی اَعضاء بولیں  گے، یہ وہ عظیم دن ہے جس کے ذکر نے نبی اکرمصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بوڑھا کردیا ۔ جب حضرت صدیق اکبر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے عرض کی:یا رسولَ  اللہ ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ پر بڑھاپے کے آثار ظاہر ہوگئے ہیں  ،تو آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی دوسری سورتوں  نے بوڑھا کردیا ہے۔‘‘ اور وہ دوسری سورتیں  سورۂ واقعہ، سورۂ مرسلات، سورۂ عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَ اوراِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ(وغیرہ) ہیں ۔تو اے قرآن پڑھنے والے عاجز انسان! تیرا قرآن مجید پڑھنے سے صرف اتنا حصہ ہے کہ تو اس کے ساتھ زبان کو حرکت دے دے ، اگر تو قرآن مجید میں  جو کچھ پڑھتا ہے اس میں  غور و فکر کرتا تو اس لائق تھا کہ ان باتوں  سے تیرا کلیجہ پھٹ جاتا جن باتوں  نے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بوڑھا کردیا تھا ، اگر تم صرف زبان کی حرکت پر قناعت کرو گے تو قرآنِ مجید کے ثَمرے سے محروم رہو گے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ یوم القیامۃ ودواہیہ واسامیہ،  ۵ / ۲۷۴-۲۷۵)  اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں  کو صحیح طریقے سے قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے اور اس میں  مذکور ڈرانے والی باتوں  پر غوروفکر کرنے اور عبرت و نصیحت حاصل کرنی کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

22:3
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّبِـعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍۙ(۳)
اور کچھ لوگ وہ ہیں کہ اللہ کے معاملہ میں جھگڑتے ہیں بے جانے بوجھے، اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے ہو لیتے ہیں (ف۸)

{وَ مِنَ النَّاسِ:اور کچھ لوگ۔} اس سے پہلی آیات میں   اللہ تعالیٰ نے قیامت کی ہولناکیاں  اور اس کی شدت بیان فرمائی اور لوگوں  کو  اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرنے کا حکم دیا اور ا س آیت میں  ان لوگوں  کا ذکر فرما رہا ہے جو قیامت کا انکار کرتے ہیں  ۔ اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں  نازل ہوئی جو بڑا ہی جھگڑالو تھا اور فرشتوں  کو خدا کی بیٹیاں  اور قرآنِ مجید کو گزشتہ لوگوں کے قصے بتاتا تھا اور موت کے بعد اٹھائے جانے کا منکر تھا ۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کچھ لوگ وہ ہیں  جو  اللہ تعالیٰ کی شان کے بارے میں  علم کے بغیر جھگڑتے ہیں  اور اس کی شان میں  باطل باتیں  کہتے ہیں  اور وہ اپنے جھگڑنے اور عمومی اَحوال میں  ہر سرکش شیطان کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۳، ۸ / ۲۰۲، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۹۹، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳، ۶ / ۴، ملتقطاً)

علمِ کلام اچھا علم ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں  علم کے بغیر بحث کرنا حرام ہے ۔ صرف علماءِ دین تحقیق کے لئے اس کی ذات و صفات میں  بحث کر سکتے ہیں  بشرطیکہ جھگڑا مقصود نہ ہو بلکہ صرف اعتراضات کا اٹھانا اور حق کی تحقیق کا قصد ہو، لہٰذا علمِ کلام برا نہیں ، اچھا علم ہے۔

{وَ یَتَّبِـعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ:اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔} اس آیت میں  سر کش شیطان کے بارے میں  دو قول ہیں  ، (1)اس سے انسانی شَیاطین مراد ہیں  اور یہ کافروں  کے وہ سردار ہیں  جو دوسروں  کو کفر کی طرف بلاتے ہیں ۔ (2) اس سے ابلیس اور اس کے لشکر مراد ہیں ۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۹۹)

شیطان انسانوں  اور جنوں  سے نجات کی صورت:

            یاد رہے کہ شیطان خواہ انسانوں  میں  سے ہوں  یاجنوں  میں  سے ان کی کوئی بھی بات نہ مانی جائے کیونکہ اگر ان کی ایک بات مان لی تو یہ ملعون اسی پر اِکتفا نہ کریں  گے بلکہ اور باتیں  منوانے کی تاک میں  بھی رہیں  گے اور جتنا ان کی بات مانتے چلے جائیں  گے اس کاسلسلہ اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ اسی طرح ان کے ساتھ جھگڑے اور بحث میں  مصروف نہ ہوا جائے کیونکہ ا س کے ذریعے بھی وہ اپنے ناپاک عَزائم میں  کامیاب ہو جاتے ہیں  لہٰذاان سے نجات کی صورت یہ ہے کہ ان کی کوئی بات سنی ہی نہ جائے کیونکہ اگر ان کی بات سنیں  گے تو ممکن ہے کہ کوئی بات دل پر اثر کر جائے اور سننے والا کفر و گمراہی کی دلدل میں  پھنس کر رہ جائے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے کلام کا خلاصہ ہے کہ شیطان دو قسم کے ہیں  (1) شَیَاطِیْنُ الْجِنْ۔ ان سے ابلیس لعین اور اس کی ملعون اولاد مراد ہے۔  اللہ تعالیٰ ہمیں  اور تمام مسلمانوں  کو ان کے شر اور تمام شیاطین کے شر سے پناہ دے۔ (2) شَیَاطِیْنُ الْاِنْس۔ اس سے کفار اور بدعتی لوگوں  کے داعی اور مُنادی مراد ہیں ۔  اللہ تعالیٰ ان پر لعنت فرمائے اور ان کوہمیشہ بے سہارا رکھے اوران پر ہمیں  دائمی نصرت عطا فرمائے ۔ اے  اللہ !سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے طفیل ہماری یہ دعا قبول فرما۔

            ہمارا رب عَزَّوَجَلَّفرماتا ہے

’’وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا‘‘(انعام:۱۱۲)

  یوں  ہی ہم نے ہر نبی کا دشمن کیا شیطان آدمیوں  اور شیطان جنوں  کو کہ آپس میں  ایک دوسرے کے دل میں  بناوٹ کی بات ڈالتے ہیں  دھوکا دینے کیلئے۔

حدیث میں  ہے ،رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت ابو ذر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے فرمایا’’ شیطان آدمیوں  اور شیطان جنوں  کے شر سے  اللہ کی پناہ مانگ۔ حضرت ابو ذر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُنے عرض کی: کیا آدمیوں  میں  بھی شیطان ہیں ؟ ارشاد فرمایا: ہاں ۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی ذر الغفاری رضی  اللہ تعالٰی عنہ، ۸ / ۱۳۲، الحدیث: ۲۱۶۰۸)

            ائمۂ دین فرمایا کرتے کہ شیطان آدمی شیطان جن سے سخت تر ہوتا ہے۔( تفسیر طبری، الناس، تحت الآیۃ: ۴، ۱۲ / ۷۵۳)

            میں  کہتا ہوں :اس آیت کریمہ میں  ’’شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ‘‘ کومقدم کرنا بھی اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ شیطان آدمی شیطان جن سے سخت تر ہوتا ہے۔اس حدیث کریم نے کہ’’جب شیطان وسوسہ ڈالے اتنا کہہ کر الگ ہوجاؤ کہ تو جھوٹا ہے‘‘ دونوں  قسم کے شیطانوں  کا علاج فرما د یا، شیطان آدمی ہو خواہ جن اُس کا قابو اسی وقت چلتا ہے جب اس کی سنیں  گے اور جب تنکا توڑ کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیں  گے کہ’’ تو جھوٹا ہے‘‘ تو وہ خبیث اپنا سامنہ لے کر رہ جاتا ہے۔( فتاوی رضویہ، ۱ / ۷۸۰-۷۸۱)

22:4
كُتِبَ عَلَیْهِ اَنَّهٗ مَنْ تَوَلَّاهُ فَاَنَّهٗ یُضِلُّهٗ وَ یَهْدِیْهِ اِلٰى عَذَابِ السَّعِیْرِ(۴)
جس پر لکھ دیا گیا ہے کہ جو اس کی دوستی کرے گا تو یہ ضرور اسے گمراہ کردے گا اور اسے عذاب دوزخ کی راہ بتائے گا (ف۹)

{كُتِبَ عَلَیْهِ:جس پر یہ لکھ دیا گیا ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ لوحِ محفوظ میں  جِنّات اور انسانوں  کے ہرسرکش شیطان کے متعلق لکھ دیاگیاہے کہ جو اس کی اطاعت اور ا س سے دوستی کرے گا تو شیطان ضرور اسے گمراہ کر دے گا اور اسے جہنم کے عذاب کا راستہ بتائے گا۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ لوحِ محفوظ میں  اس شخص کے بارے میں  لکھ دیا گیا ہے جو شیطان کی پیروی اور ا س سے دوستی کرے گا تو شیطان ضرور اسے جنت سے گمراہ کر دے گا اور اسے جہنم کے عذاب کی راہ بتائے گا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴، ۶ / ۴-۵، تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۴، ۸ / ۲۰۲، ملتقطاً)

بدمذہبوں  سے دوستی اور تعلقات رکھنے کی ممانعت:

            اس آیت سے معلوم ہواکہ بدمذہبوں  سے دوستی اور تعلق نہیں  رکھنا چاہئے اور نہ ہی ان کے ساتھ رشتہ داری قائم کرنی چاہئے کیونکہ یہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں  اور اپنی چکنی چپڑی باتوں  ، ظاہری عبادت و ریاضت اور دکھلاوے کی پرہیز گاری کے ذریعے دوسروں  کو بھی گمراہ کر دیتے ہیں ۔ صحیح مسلم شریف میں  حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ عنقریب میری امت کے آخر میں  کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوں  گے جو تم سے ایسی باتیں  کریں  گے جنہیں  نہ تم نے سنا ہو گا اور نہ تمہارے باپ دادا نے، تو تم ان سے دور رہنا اور انہیں  (خود سے) دور رکھنا۔( مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفائ۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۶(۶))

            اسی کتاب کی دوسری روایت میں  ہے ،حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’آخری زمانے میں  دَجّال اور کذّاب ظاہر ہوں  گے ،وہ تمہارے پاس ایسی باتیں  لے کر آئیں  گے جنہیں  تم اور تمہارے باپ دادا نے نہ سنا ہو گا تو تم ان سے دور رہنا اور انہیں  دور رکھنا، کہیں  وہ تمہیں  گمراہ نہ کر دیں  اور تمہیں  فتنے میں  نہ ڈال دیں ۔( مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفائ۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۷(۷))

            بد مذہبوں  سے دور رہنے اور انہیں  خود سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ متعدد اَحادیث میں  ان سے زندگی اور موت کے تمام تعلقات ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ  ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ، ان کے ساتھ پانی نہ پیو، ان کے پاس نہ بیٹھو ، ان سے رشتہ نہ کرو، وہ بیمار پڑیں  تو پوچھنے نہ جاؤ، مر جائیں  تو ان کی میت کے پاس نہ جاؤ، ان کی نمازِ جنازہ نہ پڑھواور نہ ہی ان کے ساتھ نماز پڑھو۔(کنز العمال، کتاب الفضائل، الباب الثالث فی ذکر الصحابۃ وفضلہم۔۔۔الخ، الفصل الاول ، ۶ / ۲۴۶ ، الجزء الحادی عشر ، الحدیث : ۳۲۵۲۵ ،  ۳۲۵۲۶ ، تاریخ بغداد ، حرف الواو من آباء الحسینین ، ۴۲۴۰- الحسین بن الولید ۔۔۔ الخ ، ۸ / ۱۳۹، ملتقطاً)  اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں  کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

 

 

22:5
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْؕ-وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْۚ-وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْــٴًـاؕ-وَ تَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْ وَ اَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِیْجٍ(۵)
اے لوگو! اگر تمہیں قیامت کے دن جینے میں کچھ شک ہو تو یہ غور کرو کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا مٹی سے (ف۱۰) پھر پانی کی بوند سے (ف۱۱) پھر خون کی پھٹک سے (ف۹۱۲ پھر گوشت کی بوٹی سے نقشہ بنی اور بے بنی (ف۱۳) تاکہ ہم تمہارے لیے اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں (ف۱۴) اور ہم ٹھہرائے رکھتے ہیں ماؤں کے پیٹ میں جسے چاہیں ایک مقرر میعاد تک (ف۱۵) پھر تمہیں نکالتے ہیں بچہ پھر (ف۱۶) اس لیے کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو (ف ۱۷) اور تم میں کوئی پہلے ہی مرجاتا ہے اور کوئی سب میں نکمی عمر تک ڈالا جاتا ہے (ف۱۸) کہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے (ف۱۹) اور تو زمین کو دیکھے مرجھائی ہوئی (ف۲۰) پھر جب ہم نے اس پر پانی اتارا تر و تازہ ہوئی اور ابھر آئی اور ہر رونق دار جوڑا (ف۲۱) اُگا لائی (ف۲۲)

{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ:اے لوگو!۔} اس سے پہلی آیت میں شیطان کی پیروی کرنے پر ڈانٹا گیا اور ا س آیت میں  ان لوگوں  پر حجت قائم فرما ئی جا رہی ہے جومرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے منکر ہیں  ،چنانچہ اس کی پہلی دلیل یہ ارشاد فرمائی کہ اے لوگو! اگر تمہیں  قیامت کے دن اٹھنے کے بارے میں  کچھ شک ہو تواس بات پر غور کرلو کہ ہم نے تمہاری نسل کی اصل یعنی تمہارے جَدِّ اعلیٰ ،حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مٹی سے پیدا کیا، پھران کی تمام اولاد کو منی کے قطرے سے، پھر جمے ہوئے خون سے کہ نطفہ گاڑھا خون ہو جاتا ہے ،پھر گوشت کی بوٹی سے جس کی شکل بن چکی ہوتی ہے اور ادھوری بھی ہوتی ہے سے پیدا کیا۔ انسان کی پیدائش کا حال اس لئے بیان فرمایا گیا تاکہ ہم تمہارے لیے اپنی قدرت کو ظاہر فرمائیں  اور تم  اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے کمال کو جان لو اور اپنی پیدائش کے ابتدائی حالات پر نظر کر کے سمجھ لو کہ جو قادرِ برحق بے جان مٹی میں  اتنے اِنقلاب کر کے جاندار آدمی بنا دیتا ہے وہ مرے ہوئے انسان کو زندہ کردے تو یہ اس کی قدرت سے کیا بعید ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۲۹۹-۳۰۰)

انسانی تخلیق کے مَراحل:

             اللہ تعالیٰ انسان کی پیدائش کس طرح فرماتا ہے اور اس کو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف کس طرح منتقل کرتا ہے ،اس کا کچھ بیان تو اس آیت میں  ہوا اوراس کی مزید تفصیل صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں  ہے،چنانچہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ تم لوگوں  کی پیدائش کا مادہ ماں  کے پیٹ میں  چالیس دن تک نطفہ کی صورت میں  رہتا ہے، پھر اتنی ہی مدت جما ہوا خون ہو جاتا ہے، پھر اتنی ہی مدت گوشت کی بوٹی کی طرح رہتا ہے، پھر  اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کا رزق ،اس کی عمر ، اس کے عمل ، اس کا بدبخت یا سعادت مند ہونا لکھتا ہے، پھر اس میں  روح پھونک دیتاہے۔( بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب خلق آدم صلوات  اللہ علیہ وذرّیتہ،۲ / ۴۱۳،الحدیث: ۳۳۳۲، مسلم، کتاب القدر، باب کیفیّۃ الخلق الادمیّ فی بطن امّہ۔۔۔ الخ، ص۱۴۲۱، الحدیث: ۱(۲۶۴۳))

{وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ:اور ہم ماؤں  کے پیٹ میں  جسے چاہتے ہیں  ٹھہرائے رکھتے ہیں ۔} مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر ایک دلیل قائم کرنے کے بعدپیدائش کے بعد کا حال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم ماؤں  کے پیٹ میں  جسے چاہتے ہیں  اسے ولادت کی مقررہ مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں  ،پھر تمہیں  بچے کی صورت میں  نکالتے ہیں ،پھر تمہیں  عمر دیتے ہیں  تا کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تمہاری عقل و قوت کامل ہو اور تم میں  کوئی پہلے ہی مرجاتا ہے اور کوئی سب سے نکمی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور اس کو اتنا بڑھاپا آ جاتا ہے کہ عقل و حواس بجا نہیں  رہتے اوربالآخر ایسا ہو جاتا ہے کہ اس کی نظر کمزور، عقل ناقص اور فہم و سمجھ کم ہو جاتی ہے اور جو باتیں  اسے معلوم ہوتی ہیں  وہ بھول جاتا ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۳۰۰، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۶-۷، ملتقطاً)

انتہائی ضعیفی کی عمر میں  عقل و حواس ختم ہونے سے محفوظ لوگ:

            یاد رہے کہ اس آیت میں  بڑھاپے کے وقت انسان کی جو حالت بیان کی گئی اس سے انبیاءِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام محفوظ تھے کیونکہ اگر انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی بڑھاپے میں  اس حال کو پہنچ جایا کرتے تو ان پر تبلیغ فرض نہ رہتی اور نبوت سَلب کر لی جاتی کہ اس صورت میں  تبلیغ میں  غلطی کا احتمال تھا لیکن چونکہ وہ حضرات آخری دم تک صاحبِ وحی نبی رہے اس لئے وہ اس حال سے محفوظ تھے۔ نیز  اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خاص اولیاء ِکرام کو بھی اس حال سے جدا رکھتا ہے اور ان کے علاوہ بھی کچھ لوگ ایسے ہیں  جنہیں  انتہائی ضعیفی کے عالم میں  ا س حال سے بچا لیا جاتا ہے ، چنانچہ حضرت عکرمہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’جو شخص تلاوتِ قرآن کا عادی ہو گا وہ اس حالت کو نہ پہنچے گا (کہ اس کی عقل اور حواس قائم نہ رہیں )۔( جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ص۲۷۸)

            اور علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’ علماءِ کرام پر بھی یہ حالت طاری نہیں  ہوتی بلکہ جیسے جیسے ان کی عمر میں  اضافہ ہوتا جاتا ہے ان کی عقل بھی بڑھتی جاتی ہے۔( صاوی، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۱۳۲۷)

            نوٹ: انتہائی ضعیفی اور نکمے پن کی عمر سے متعلق کچھ کلام سورۂ نحل کی آیت نمبر 70 کی تفسیر میں  گزر چکا ہے ، اسے وہاں  ملاحظہ فرمائیں ۔

{وَ تَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً:اور تو زمین کو مرجھایا ہوا دیکھتا ہے۔} یہاں  سے مرنے کے بعد اٹھنے پر دوسری دلیل قائم کی جا رہی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے انسان! تو زمین کو مرجھایا ہوا اور خشک دیکھتا ہے، پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں  تو وہ تر و تازہ ہوکرلہلہاتی ہے اور بڑھتی ہے اور وہ ہرقسم کا خوبصورت سبزہ اگاتی ہے تو جو قادرو برحق رب تعالیٰ مرجھائی ہوئی زمین کو سرسبز و شاداب کر سکتاہے تو وہ ان بندوں  کو بھی زندہ کر سکتا ہے جن کے اجزا موت کے بعد بکھر چکے ہوں۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۳۰۰، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۸، ملتقطاً)

 

22:6
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّهٗ یُحْیِ الْمَوْتٰى وَ اَنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌۙ(۶)
یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی حق ہے (ف۲۳) اور یہ کہ وہ مردے جِلائے گا اور یہ کہ وہ سب کچھ کرسکتا ہے،

{ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ:یہ اس لیے ہے کہ  اللہ ہی حق ہے۔}مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر دو دلیلیں  بیان فرمانے کے بعد اس آیت میں  ان کا نتیجہ مُرَتَّب فرمایا جارہا ہے کہ آدمی کی پیدائش کے ابتدائی حالات اور مرجھائی ہوئی خشک زمین کو سرسبز و شاداب کر دینے کے بارے ذکر کیا گیا تاکہ تم جان لو کہ  اللہ تعالیٰ موجود ہے اور یہ چیزیں  اس کی حکمت کی دلیلیں  ہیں  اور یہ بھی جان لو کہ جس طرح ا س نے مردہ زمین کو زندہ کیا اسی طرح وہ مردوں  کو زندہ کرے گا اوریہ کہ  اللہ تعالیٰ ہر ممکن چیزپر قادر ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۳۰۰، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۶، ص۷۳۲، ملتقطاً)

 

22:7
وَّ اَنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیْهَاۙ-وَ اَنَّ اللّٰهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ(۷)
اور اس لیے کہ قیامت آنے والی اس میں کچھ شک نہیں، اور یہ کہ اللہ اٹھائے گا انہیں جو قبروں میں ہیں،

{وَ اَنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ:اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ یہ دلائل ا س لئے ذکر کئے گئے تاکہ تمہیں  معلوم ہو جائے کہ قیامت آنے والی ہے اور اس کے آنے میں  کچھ شک نہیں اور یہ معلوم ہو جائے کہ  اللہ تعالیٰ ان مردوں  کو اٹھائے گا جو قبروں  میں  ہیں  اور مرنے کے بعد اٹھایا جانا حق ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۳۰۰)

            خیال رہے کہ قبر سے مراد عالَمِ برزخ ہے جو موت اور حشر کے بیچ میں  ہے،نہ کہ محض وہ غار جو مُردوں  کا مَدفن ہو، لہٰذا جلنے والے، ڈوبنے والے وغیرہ سب ہی قیامت کے دن اٹھائے جائیں  گے۔

22:8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ لَا هُدًى وَّ لَا كِتٰبٍ مُّنِیْرٍۙ(۸)
اور کوئی آدمی وہ ہے کہ اللہ کے بارے میں یوں جھگڑتا ہے کہ نہ تو علم نہ کوئی دلیل اور نہ کوئی روشن نوشتہ (تحریر) (ف۲۴)

{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ:اورکوئی آدمی وہ ہے جو اللہ کے بارے میں  بغیرعلم کے جھگڑتا ہے۔} شانِ نزول :یہ آیت ابوجہل وغیرہ کفار کی ایک جماعت کے بارے میں  نازل ہوئی جو  اللہ تعالیٰ کی صفات میں  جھگڑا کرتے تھے اور اس کی طرف ایسے اوصاف منسوب کرتے تھے جو اس کی شان کے لائق نہیں ۔ چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کافروں  میں  کوئی آدمی وہ ہے جو  اللہ تعالیٰ کی شان و صفت کے بارے میں  یوں  جھگڑتا ہے کہ اس کے پاس نہ تو علم ہے، نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی روشن تحریر ہے ، اس کے باوجود اس کا انداز یہ ہے کہ وہ اپنی بات پر اِصرار کئے ہوئے اورتکبر کی بنا پر حق سے اپنی گردن موڑے ہوئے ہے تاکہ وہ لوگوں  کو  اللہ تعالیٰ کی راہ سے بھٹکا دے اور اس کے دین سے مُنحرف کر دے،اس کے لیے دنیا میں  رسوائی ہے اور قیامت کے دن  اللہ تعالیٰ اسے آگ کا عذاب چکھائے گا اور ا س سے کہا جائے گا کہ یہ اس کفر و تکذیب کا بدلہ ہے جو تو نے دنیا میں  کیا اور  اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ بندوں  پر ظلم نہیں  کرتااور کسی کو جرم کے بغیر پکڑتا ہے اور نہ ہی کسی کے جرم کے بدلے گرفت فرماتا ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۳ / ۳۰۰، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ص۷۳۲، ملتقطاً)

آیت’’وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ‘‘ سے معلوم ہونے والے اَحکام:

            اس آیت سے دو اَحکام معلوم ہوئے

(1)… آدمی کو کوئی بات علم اور سند و دلیل کے بغیر نہیں  کہنی چاہئے اور خاص طور پر  اللہ تعالیٰ کی شان میں  ہر گز ایسی کوئی بات نہ کرے جو اس کی عظمت و شان کے لائق نہ ہو اور علم ،سند اور دلیل کے بغیر ہو۔

(2)…علم والے کے خلاف جو بات بے علمی سے کہی جائے گی وہ باطل ہوگی ۔

            ہمارے آج کے زمانے کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ ہر آدمی اپنی عقل سے جو چاہتا ہے اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے بارے میں  کہتا ہے اور پھراس پر اِصرار کرتا ہے بلکہ دوسروں  کو مجبور کرتا ہے کہ اُس کی بات مانیں  اگرچہ اس کی بات عقل و نقل سے دور، قرآن و حدیث کے خلاف اور جہالت و حماقت سے بھرپور ہو۔

 

22:9
ثَانِیَ عِطْفِهٖ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-لَهٗ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ نُذِیْقُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَذَابَ الْحَرِیْقِ(۹)
حق سے اپنی گردن موڑے ہوئے تاکہ اللہ کی راہ سے بہکادے (ف۲۵) اس کے لیے دنیا میں رسوائی ہے (ف۲۶) اور قیامت کے دن ہم اسے آگ کا عذاب چکھائیں گے (ف۲۷)

22:10
ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰكَ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۠(۱۰)
یہ اس کا بدلہ ہے جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیجا (ف۲۸) اور اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا (ف۲۹)

22:11
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍۚ- فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ ﰳاطْمَاَنَّ بِهٖۚ- وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ-ﰳانْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ۫ۚ -خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَؕ- ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ(۱۱)
اور کچھ آدمی اللہ کی بندگی ایک کنارہ پر کرتے ہیں (ف۳۰) پھر اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچ گئی جب تو چین سے ہیں اور جب کوئی جانچ آکر پڑی (ف۳۱) منہ کے بل پلٹ گئے، ف۳۲) دنیا اور آخرت دونوں کا گھاٹا (ف۳۳) یہی ہے صر یح نقصان (ف۳۴)

{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ:اور کوئی آدمی وہ ہے جو  اللہ کی عبادت ایک کنارے پرہو کر کرتا ہے۔} شانِ نزول:یہ آ یت دیہات میں  رہنے والے عربوں  کی ایک جماعت کے بارے میں  نازل ہوئی جو اَطراف سے آ کر مدینہ میں  داخل ہوتے اور اسلام لاتے تھے ، ان کی حالت یہ تھی کہ اگر وہ خوب تندرست رہے اور ان کی دولت بڑھی اور ان کے ہاں  بیٹا ہوا تب تو کہتے تھے کہ اسلام اچھا دین ہے، اس میں  آ کر ہمیں  فائدہ ہوا اور اگر کوئی بات اپنی امید کے خلاف پیش آئی، مثلاً بیمار ہو گئے ،یا ان کے ہاں  لڑکی پیداہو گئی، یا مال کی کمی ہوئی تو کہتے تھے :جب سے ہم اس دین میں  داخل ہوئے ہیں  ہمیں  نقصان ہی ہوا اور اس کے بعد دین سے پھر جاتے تھے ۔ ان کے بارے میں  بتایا گیا کہ انہیں  ابھی دین میں  ثابت قدمی حاصل ہی نہیں  ہوئی اور یہ دین کے معاملے میں  اس طرح شک و تَرَدُّد میں  رہتے ہیں  جس طرح پہاڑ کے کنارے کھڑا ہوا شخص حرکت کی حالت میں  ہوتا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ اگر انہیں  کوئی بھلائی پہنچے تو مطمئن ہوجاتے ہیں  اور اگر انہیں  کوئی آزمائش آجائے اور کسی قسم کی سختی پیش آئے تو مُرتد ہو کر منہ کے بل پلٹ جاتے اور کفر کی طرف لوٹ جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ دنیا اور آخرت دونوں  میں  نقصان اٹھاتے ہیں ۔ دنیا کا نقصان تو یہ ہے کہ جو ان کی امیدیں  تھیں  وہ پوری نہ ہوئیں  اور مرتد ہو جانے کی وجہ سے ان کا خون مباح ہوا اور آخرت کا نقصان ہمیشہ کا عذاب ہے اوریہی کھلا نقصان ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۱۱،  ۳ / ۳۰۰-۳۰۱، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۷۳۳، ملتقطاً)

دین ِاسلام دُنْیَوی منفعت کی وجہ سے نہیں  بلکہ حق سمجھ کر قبول کیا جائے:

            اس سے معلوم ہواکہ انسان دین ِاسلام کوحق سمجھ کرقبول کرے اور پھر اس پرڈٹ جائے چاہے نفع ہو یا نقصان، ہرحال میں  خوش رہے اور  اللہ عَزَّوَجَلَّ کاشکرا دا کرتا رہے کہ اس نے اسے اسلام جیسی عظیم لازوال دولت سے نوازا۔ اسی طرح نماز و عبادت وغیرہ کو دُنْیَوی نفع ونقصان کے ساتھ نہ تولا جائے بلکہ عبادت کی حیثیت ہی سے کیا جائے۔

 

 

22:12
یَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهٗ وَ مَا لَا یَنْفَعُهٗؕ-ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُۚ(۱۲)
اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہیں جو ان کا برا بھلا کچھ نہ کرے (ف۳۵) یہی ہے دور کی گمراہی،

{یَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهٗ: وہ  اللہ کے سوا اس (بت) کی عبادت کرتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچائے۔}

ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ مُرتد ہونے کے بعد بت پرستی کرتے ہیں  اور  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے اس کی عبادت کرتے ہیں  جو نہ انہیں  نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے کیونکہ وہ بے جان ہے ،ایسے خداؤں  کی پوجاانتہا درجے کی گمراہی ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۷۳۳، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۱۲، ۶ / ۱۲، ملتقطاً)

{ یَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّهٗۤ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِهٖ:وہ اس کو پوجتے ہیں  جس کانقصان اس کے نفع سے زیادہ ہے۔} اس آیت میں  نقصان سے مراد واقعی نقصان ہے ، یعنی دنیا میں  قتل اور آخر ت میں  دوزخ کا عذاب۔ اور نفع سے مراد ان کا خیالی نفع یعنی بتوں  کی شفاعت وغیرہ ہے یعنی یہ کفار بتوں  سے جس نفع کی امید رکھتے ہیں  وہ تو بہت دور ہے کہ ناممکن ہے جبکہ ان کا حقیقی نقصان عنقریب ضرور دیکھ لیں  گے۔

22:13
یَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّهٗۤ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِهٖؕ-لَبِئْسَ الْمَوْلٰى وَ لَبِئْسَ الْعَشِیْرُ(۱۳)
ایسے کو پوجتے نہیں جس کے نفع سے (ف۳۶) نقصان کی توقع زیادہ ہے (ف۳۷) بیشک (ف۳۸) کیا ہی برا مولیٰ اور بیشک کیا ہی برا رفیق،

22:14
اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ(۱۴)
بیشک اللہ داخل کرے گا انہیں جو ایمان لائے اور بھلے کام کیے باغوں میں جن کے نیچے نہریں رواں، بیشک اللہ کرتا ہے جو چاہے (ف۳۹)

{اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک  اللہ ایمان والوں  کو داخل فرمائے گا ۔}اس سے پہلی آیات میں  ایمان اور اسلام کے متعلق شکوک وشُبہات رکھنے والوں  کا اور مُرتد ہونے کے بعد جن کی وہ پوجا کرتے تھے ان کا حال بیان کیا گیا اور اب یہاں  سے ایمان پرثابت قدم رہنے والوں  کا حال اور ان کے حقیقی معبود کی شان بیان کی جا رہی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک  اللہ تعالیٰ ایمان والوں  اور نیک اعمال کرنے والوں  کو ان باغوں  میں  داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں  رواں  ہیں ۔ بیشک اللہ تعالیٰ جوچاہتا ہے کرتا ہے اوراسی میں  سے یہ بھی ہے کہ وہ فرمانبرداروں  پر انعام اور نافرمانوں  پر عذاب فرماتا ہے۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۱۴،  ۸ / ۲۱۰، ابوسعود، الحج، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۱۱، ملتقطاً)

ایمان جنت میں  داخلے کا سبب ہے اور نیک اعمال وہاں  کی نعمتوں  اور درجات میں  اضافے کا باعث ہیں ۔
22:15
مَنْ كَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ هَلْ یُذْهِبَنَّ كَیْدُهٗ مَا یَغِیْظُ(۱۵)
جو یہ خیال کرتا ہو کہ اللہ اپنے نبی (ف۴۰) کی مدد نہ فرمائے گا دنیا (ف۴۱) اور آخرت میں (ف۴۲) تو اسے چاہیے کہ اوپر کو ایک رسی تانے پھر اپنے آپ کو پھانسی دے لے پھر دیکھے کہ اس کا یہ داؤں کچھ لے گیا اس بات کو جس کی اسے جلن ہے (ف۴۳)

{مَنْ كَانَ یَظُنُّ:جو یہ خیال کرتا ہے۔} اس آیت میں  نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور آپ کے دین کی مخالفت کرنے اور ان سے دشمنی رکھنے والوں  کی ناکامی اور محرومی کو بیان کیا گیا ہے ،چنانچہ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ دنیا میں  اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دین کو غلبہ عطا فرما کر اور آخرت میں  ان کے درجے بلند فرما کر ان کی مدد نہیں  فرمائے گا،لیکن اس کا خیال غلط ثابت ہوتا ہے اور وہ یوں  غصے میں  آجاتا ہے تو اسے چاہیے کہ غصہ دلانے والی چیز کو ختم کرنے کیلئے ہر طرح کی کوشش کرلے حتّٰی کہ گھر میں  چھت سے رسی باند ھ کراپنے آپ کو پھانسی دے لے ، پھر اس بات پر غور کرے کہ کیا اس کی کوئی تدبیر  اللہ تعالیٰ کی وہ مدد روک سکتی ہے جس پر اسے غصہ آتا ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں  اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور ان کے دین کا مدد گار ہے اور ان کے حاسدین اور دشمنوں  میں  سے جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں  اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے دین کی مدد نہیں  فرمائے گا،پھر اپنامطلب پورا نہ ہونے کی وجہ سے وہ جل بھُن گیا تو اسے چاہئے کہ کسی طرح آسمان تک پہنچ کراس مدد کو مَوقوف کروا دے جو ا س کے غیظ و غضب کا باعث ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا کوئی کر ہی نہیں  سکتا تو اس کا غضب میں  آنا اور غصہ کرنا بیکار ہے۔( تفسیرکبیر،الحج، تحت الآیۃ: ۱۵، ۸ / ۲۱۰-۲۱۱، ابوسعود، الحج، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۱۱، البحر المحیط، الحج، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۳۳۲، ملتقطاً)

 اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کا مددگار ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ عاجزہر گز نہیں  بلکہ وہ اپنے بندوں  پر غالب ہے اور اپنے محبوب بندوں  کی مدد فرماتا ہے ۔یاد رہے کہ کفار دین ِاسلام کو صفحہ ِ ہستی سے مٹانے اور اس کے نور کو بجھانے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے سچے غلاموں  کی مدد فرمائی،کفار کو نیست و نابود کیا اور ان کے لشکروں  کو شکست و ہزیمت سے دوچار کر دیا،اسی طرح آج بھی کفار دین ِاسلام کو ختم کرنے کے ناپاک عَزائم اور ارادے رکھتے ہیں  اور ا س کے لئے ہر طرح کے ذرائع بھی استعمال کر رہے ہیں  لیکن ان کی یہ تمام تر کوششیں  اسلام کو مٹا نہیں  سکتیں  کیونکہ  اللہ تعالیٰ دین ِاسلام اور اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غلاموں  کا مددگار ہے البتہ مسلمانوں  کو چاہئے کہ جب وہ کفار کی طرف سے کسی مشکل میں  گرفتار ہو جائیں  اور  اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوری طور پر انہیں  مدد نہ پہنچے تو وہ  اللہ تعالیٰ کی رضاپر راضی رہیں  اور دشمنوں  کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں  پر صبر کریں  کیونکہ حق غالب رہے گا کبھی مغلوب نہ ہو گا اور  اللہ تعالیٰ نے چاہا تو عنقریب مسلمانوں  سے یہ مشکلات دور ہو جائیں  گی اور کفار و مشرکین کی راحتیں  ختم ہو کر رہ جائیں  گی۔

 

22:16
وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یُّرِیْدُ(۱۶)
اور بات یہی ہے کہ ہم نے یہ قرآن اتارا روشن آیتیں اور یہ کہ اللہ راہ دیتا ہے جسے چاہے،

{وَ كَذٰلِكَ:اور اسی طرح۔} یعنی  اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں  ایسے دلائل نازل فرمائے جن میں  کچھ اِبہام نہیں  اور جو شخص ان میں  غور کرے اس شخص پرحق واضح ہوجائے ،نیزاس پر عقیدۂ توحید، قیامت اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت واضح ہو جائے، اور دلائل خواہ کتنے ہی واضح اورروشن کیوں  نہ ہوں ، ہدایت اسے ہی ملتی ہے جس کے لئے  اللہ تعالیٰ چاہتاہے ۔

ہدایت حاصل ہونے کا ایک عظیم ذریعہ:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ قرآنِ عظیم ہدایت ملنے، ہدایت پر ثابت قدمی عطا ہونے اور ہدایت میں  اضافے کا ایک عظیم ترین ذریعہ ہے اور قرآنِ مجید سیکھنے میں  مشغول ہونا اور اس کے دئیے ہوئے احکامات پر عمل کرنا ہدایت کی علامات میں  سے ایک علامت ہے ، لہٰذا جسے  اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید پر ایمان لانے کی توفیق دی ہے اسے چاہئے کہ وہ قرآنِ کریم صحیح طریقے سے پڑھنا سیکھے ، اسے سمجھنے کی کوشش کرے ، اس میں  دئیے گئے تمام اَحکامات پر عمل کرے اور جن کاموں  سے منع کیا گیا ان سے باز رہے تاکہ اسے ہدایت پر ثابت قدمی نصیب ہو اور اس کی ہدایت میں  مزید اضافہ بھی ہو۔

            صحیح مسلم شریف میں  حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعے کچھ قوموں  کو سر بلند کرے گا اور کچھ کو گرادے گا۔( مسلم،کتاب صلاۃالمسافرین وقصرہا،باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ۔۔۔الخ،ص۴۰۷،الحدیث:۲۶۹(۸۱۷))

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’وہ لوگ جو قرآن کریم پر ایمان لائے اور انہوں  نے اس کے تقاضوں  کے مطابق عمل کیا انہیں   اللہ تعالیٰ سر بلند کرے گا اور جنہوں  نے قرآنِ عظیم پر ایمان لانے سے اِعراض کیا اور اس کے احکامات پر عمل نہ کیا انہیں   اللہ تعالیٰ گرا دے گا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶ / ۱۴)

            قرآن مجید کے سلسلے میں  صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کا حال یہ تھا کہ وہ قرآنِ کریم کی دس آیتیں  سیکھتے اور اس وقت تک دوسری آیات سیکھنے کی طرف متوجہ نہ ہوتے جب تک ان دس آیتوں  کے تمام تقاضوں  پر عمل نہ کر لیتے ، یونہی وہ انتہائی تنگدستی کے باوجود قرآنِ عظیم سننے سنانے اور اس کی آیات میں  غوروفکر کرنے میں  مصروف رہا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’میں  غریب مہاجرین کی ایک جماعت میں  جا بیٹھا جو نیم برہنہ ہونے کے باعث ایک دوسرے سے بمشکل اپنا ستر چھپاتے تھے ۔ ہم میں  ایک قاری صاحب قرآنِ مجید پڑھ رہے تھے کہ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے آئے ، جب رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس کھڑے ہوئے تو قاری صاحب خاموش ہو گئے ۔ آپ نے سلام کیا اور ارشاد فرمایا ’’تم کیا کر رہے ہو؟ ہم نے عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ ہمیں  قرآن سنا رہے ہیں  اور ہم غور سے  اللہ تعالیٰ کی کتاب کو سن رہے ہیں  ۔ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تمام تعریفیں   اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں  جس نے میری امت میں  ایسے لوگ بھی شامل فرمائے جن کے ساتھ ٹھہرے رہنے کا مجھے بھی حکم دیاگیا ہے۔( ابوداؤد، کتاب العلم، باب فی القصص، ۳ / ۴۵۲، الحدیث: ۳۶۶۶)  اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں  کو قرآن مجید کے احکامات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔

 

22:17
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِـٕیْنَ وَ النَّصٰرٰى وَ الْمَجُوْسَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا ﳓ اِنَّ اللّٰهَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ(۱۷)
بیشک مسلمان اور یہودی اور ستارہ پرست اور نصرانی اور آتش پرست اور مشرک، بیشک اللہ ان سب میں قیامت کے دن فیصلہ کردے گا (ف۴۴) بیشک ہر چیز اللہ کے سامنے ہے،

{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک مسلمان۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک وہ لوگ جومسلمان ہیں  اور جو یہودی ہیں  اور جو ستاروں  کی پوجا کرنے والے ہیں  او رجو عیسائی ہیں  اور جو آگ کی پوجا کرنے والے ہیں  اور جو مشرک ہیں ، بیشک  اللہ تعالیٰ ان سب میں  قیامت کے دن فیصلہ کردے گا اور ان میں  جو جنت کا مستحق ہو گا اسے جنت میں  اور جوجہنم کا حق دار ہو گا اسے جہنم میں  داخل کر دے گا۔ بیشک ہر چیز  اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے لہٰذا س فیصلے میں  کسی کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہوگا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۱۷، ۶ / ۱۵، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۳۰۲، ملتقطاً)

آیت’’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں

(1)…آج اگرچہ ہرشخص اپنے آپ کوحق اور ہدایت کاپیروکار کہتا ہے مگراس کاعملی فیصلہ قیامت کے دن ہوگا جب اہلِ حق کوعزت واحترام کے ساتھ جنت میں  بھیجا جائے گا اور اہلِ باطل کوذلت وخواری کے ساتھ اوندھے منہ دوزخ میں  ڈال دیا جائے گا۔ لیکن یہاں  یاد رہے کہ دین ِاسلام ہی حق ہے اور اسے ماننے والا حق پر ہے اور تمام انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین، اسلام ہی تھا لیکن اب دین ِاسلام سے وہ دین مراد ہے جو حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لے کر آئے ہیں ، لہٰذا اب آپ کے دین کے علاوہ اور کوئی دین  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  معتبر نہیں ، چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ‘‘ (اٰل عمران:۱۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک  اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘(اٰل عمران:۸۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اوردینچاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں   نقصان اٹھانے والوں  میں  سے ہوگا۔

(2)…اس آیت میں  ہر ایک کے لئے بہت وعید ہے ، لہٰذا ہر عقل مند انسان کو چاہئے کہ وہ فیصلے اور قضا کے دن کو یاد رکھے اور وہ اعمال کرنے کی بھر پور کوشش کرے جن سے  اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل ہوتی ہے تاکہ قیامت کے دن  اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے اور اپنے فضل و رحمت سے ا س کے حق میں  اچھا فیصلہ فرمائے اور اسے جہنم کے دردناک عذاب سے بچا کر جنت کی ہمیشہ رہنے والی عالی شان نعمتیں  عطا فرمائے۔

 

22:18
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ كَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِؕ-وَ كَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْهِ الْعَذَابُؕ-وَ مَنْ یُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُؕ۩(۱۸)
کیا تم نے نہ دیکھا (ف۴۵) کہ اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے (ف۴۶) اور بہت آدمی (ف۴۷) اور بہت وہ ہیں جن پر عذاب مقرر ہوچکا (ف۴۸) اور جسے اللہ ذلیل کرے (ف۴۹) اسے کوئی عزت دینے والا نہیں، بیشک اللہ جو چاہے کرے، (السجدة)۶

{اَلَمْ تَرَ:کیا تم نے نہیں  دیکھا ۔} ارشاد فرمایا ’’اے حبیب ِاکرم! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ نے نہیں  دیکھا کہ جو آسمانوں  میں  ہیں  اور جو زمین میں  ہیں  اور سورج ، چاند ،ستارے ،تمام پہاڑ ، درخت اور چوپائے یہ سب جیسا  اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ویسا اسے سجدہ کرتے ہیں  اور بہت سے آدمی یعنی مسلمان طاعت و عبادت کا سجدہ بھی کرتے ہیں اور بہت سے وہ لوگ ہیں  جن پر ان کے کفر کی وجہ سے عذاب مقرر ہوچکا ہے لیکن ان کے بھی سائے  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ اور جسے  اللہ تعالیٰ اس کی شقاوت کے سبب ذلیل کرے تواسے کوئی عزت دینے والا نہیں ، بیشک  اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۷۳۴، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۳۰۲-۳۰۳، ملتقطاً)

          نوٹ: یہ آیت ِ سجدہ ہے، اسے پڑھنے اور سننے والے پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہے۔

 عزت ونامْوَری کسی کی میراث نہیں  :

            اس سے معلوم ہو اکہ کسی قوم یاکسی فرد کویہ حق حاصل نہیں  کہ وہ عزت ونامْوَری کواپنی میراث سمجھ لے اوراسی فریب میں  مبتلا رہے کہ چاہے ہم جوکچھ کرتے رہیں  کتنے ہی اَعمالِ سیاہ سے اپنااعمال نامہ بھردیں  اور کردار اور سیرت کتنی ہی داغدار نہ کرلیں  ساری زندگی عزت کے ساتھ ہی رہیں  گے، ایسانہیں  ہے بلکہ جواپنے آپ کواس نعمت عظمیٰ کا اہل ثابت کردیتا ہے اللّٰہعَزَّوَجَلَّ اسے عزت دیتا ہے اور جو مسلسل نافرنیوں  میں  مبتلا رہتا ہے وہ ذلت کے عمیق گڑھے میں  گرا دیا جاتا ہے ۔

 

22:19
هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ٘-فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍؕ-یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُۚ(۱۹)
یہ دو فریق ہیں (ف۵۰) کہ اپنے رب میں جھگڑے (ف۵۱) تو جو کافر ہوئے ان کے لیے آگ کے کپڑے بیونتے (کاٹے) گئے ہیں (ف۵۲) اور ان کے سروں پر کھولتا پانی ڈالا جائے گا (ف۵۳)

{هٰذٰنِ خَصْمٰنِ:یہ دو فریق ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مومنین اور پانچوں  قسم کے کفار جن کا اوپر ذکر کیا گیا ،یہ دو فریق ہیں  جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّکے دین اور ا س کی ذات و صفات کے بارے میں  جھگڑتے ہیں  تو وہ لوگ جو کافر ہیں  انہیں  ہر طرف سے آگ گھیر لے گی اور ان کے سروں  پر کھولتا پانی ڈالا جائے گا جس سے جو کچھ ان کے پیٹوں  میں  چربی وغیرہ ہے وہ سب اور ان کی کھالیں  جل جائیں  گی۔( جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ص۲۸۱)

جہنم میں  کفار پر ڈالے جانے والے پانی کی کَیْفِیَّت:

            جہنم میں  کفار پر ڈالے جانے والے پانی کی کچھ کیفیت ان آیات میں  بیان ہوئی اور حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’انتہائی گرم پانی ان جہنمیوں  کے سر پر ڈالا جائے گا تو وہ سَرایت کرتے کرتے ان کے پیٹ تک پہنچ جائے گا اور جو کچھ پیٹ میں  ہو گا اسے کاٹ کر قدموں  سے نکل جائے گا اور یہ صَہر (یعنی گل جانا) ہے ،پھر انہیں  ویسا ہی کر دیا جائے گا (اور بار بار ان کے ساتھ ایساہی کیا جائے گا۔)( سنن ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النار، ۴ / ۲۶۲، الحدیث: ۲۵۹۱)

            اور حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا ’’کافروں  پر ڈالا جانے والا پانی ایسا تیز گرم ہو گا کہ اگر اس کا ایک قطرہ دنیا کے پہاڑوں  پر ڈال دیا جائے تو ان کو گلا ڈالے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۷۳۵)

             اللہ تعالیٰ ہمارا ایمان سلامت رکھے اور ہمیں  جہنم کے ا س عذاب سے پناہ عطا فرمائے،اٰمین۔

 

 

22:20
یُصْهَرُ بِهٖ مَا فِیْ بُطُوْنِهِمْ وَ الْجُلُوْدُؕ(۲۰)
جس سے گل جائے گا جو کچھ ان کے پیٹوں میں ہے اور ان کی کھالیں (ف۵۴)

22:21
وَ لَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ(۲۱)
اور ان کے لیے لوہے کے گرز ہیں (ف۵۵)

{وَ لَهُمْ:اور ان کے لیے۔} ارشاد فرمایا کہ جہنم میں  کافروں  کو عذاب دینے کے لئے لوہے کے گرز ہیں  جن سے انہیں  مارا جائے گا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۲۱، ۶ / ۱۸)

جہنم کے گُرز:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ جہنم میں  جن گرزوں  سے مار اجائے گا وہ لوہے کے ہیں ، ان کے بارے میں  حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اگر وہ لوہے کا گرز زمین پررکھا جائے پھر جنّ واِنس سب جمع ہوجائیں  تواسے زمین سے نہ اٹھاسکیں  گے۔( مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی  اللہ عنہ، ۴ / ۵۸، الحدیث: ۱۱۲۳۳)

             اور دوسری روایت میں  ہے کہ اگر وہ گرز پہاڑ پر مارا جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائے۔ (گرز لگنے کے بعد) پھر بندے کو پہلی حالت میں  لوٹا دیا جائے گا۔( مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی  اللہ عنہ، ۴ / ۱۶۶، الحدیث: ۱۱۷۸۶)

            حضرت حسن بصری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  :حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرمایا کرتے تھے: جہنم کا ذکر کثرت سے کیا کرو کیونکہ اس کی گرمی بہت شدید ہے، اس کی گہرائی بہت زیادہ ہے اور اس کے گرز لوہے کے ہیں ۔ (یعنی اس یاد سے خوفِ خدا پیدا ہوگا۔)( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب ذکر النار، ما ذکر فیما اعدّ لاہل النار وشدّتہ، ۸ / ۹۷، الحدیث: ۴۰)

             اللہ تعالیٰ ہمیں  جہنم کے اس خوفناک عذاب سے پناہ عطا فرمائے، اٰمین۔
22:22
كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْهَاۗ-وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ۠(۲۲)
جب گھٹن کے سبب اس میں سے نکلنا چاہیں گے (ف۵۶) اور پھر اسی میں لوٹا دیے جائیں گے، اور حکم ہوگا کہ چکھو آگ کا عذاب،

{كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ:جب گھٹن کے سبب اس میں  سے نکلنا چاہیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ جب وہ کفار گھٹن کے سبب جہنم میں  سے نکلنا چاہیں  گے تو گرزوں  سے مار کرپھر اسی میں  لوٹا دیے جائیں  گے اور انہیں  کہا جائے گا کہ آگ کا عذاب چکھو جس کا جلانا انتہائی شدید ہے۔( جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۲۸۰)

جہنم کو پیدا فرمانے میں  حکمت:

            جہنم  اللہ تعالیٰ کے جلال کا مظہر ہے اور  اللہ تعالیٰ نے جہنم کو ا س لئے پیدا فرمایا ہے تاکہ مخلوق کو  اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کی کبریائی کا اندازہ ہو جائے اور لوگ اس سے ڈرتے رہیں  اور ا س کے خوف کی وجہ سے گناہوں  سے باز رہیں ۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۲۲، ۶ / ۱۹) افسوس! آج لوگوں  کے دل کی سختی کا یہ حال ہے کہ قرآنِ مجید میں  جہنم کے انتہائی دردناک عذابات کے بارے میں  پڑھنے کے باوجود ان سے ڈرتے نہیں  اور بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ گناہوں  میں  مصروف ہیں ۔  اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔

22:23
اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًاؕ-وَ لِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ(۲۳)
بیشک اللہ داخل کرے گا انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے بہشتوں میں جن کے نیچے نہریں بہیں اس میں پہنائے جائیں گے سونے کے کنگن اور موتی (ف۵۷) اور وہاں ان کی پوشاک ریشم ہے (ف۵۸)

{اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک  اللہ ایمان والوں  کو داخل فرمائے گا ۔}اس سے پہلی آیات میں  کفار کا عبرتناک انجام بیان کیا گیا اور اب یہاں  سے قیامت کے دن ایمان والوں  اور نیک اعمال کرنے والوں  پر ہونے والے انعامات بیان کئے جا رہے ہیں  ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک  اللہ تعالیٰ ایمان والوں  کو اور نیک اعمال کرنے والوں  کو ان باغوں  میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں  جاری ہیں ۔ انہیں  ان باغوں  میں  سونے کے کنگن اور ایسے موتی پہنائے جائیں  گے جن کی چمک مشرق سے مغرب تک روشن کر ڈالے گی اور جنتوں  میں  ان کا لباس ریشم ہوگا جسے پہننا دنیا میں  مَردوں  پر حرام ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۳۰۴، ملتقطاً)

آیت میں  بیان کی گئی جنتی نعمتوں  سے متعلق3 اَحادیث:

            اس آیت میں  جنت کی جن نعمتوں  کے بارے میں  بیان ہوا ان سے متعلق 3 اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت حکیم بن معاویہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں  پانی کا دریا،شہد کا دریا،دودھ کا دریا اور شراب کا دریا ہے ،پھر ان سے نہریں  نکلتی ہیں  ۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ، باب ما جاء فی صفۃ انہار الجنّۃ، ۴ / ۲۵۷، الحدیث: ۲۵۸۰)

(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مومن کے اَعضا میں  وہاں  تک زیور پہنایاجائے گاجہاں  تک اس کے وضوکوپانی پہنچے گا۔( مسلم، کتاب الطہارۃ، باب تبلغ الحلیۃ حیث یبلغ الوضوئ، ص۱۵۱، الحدیث: ۴۰(۲۵۰))

(3)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ  سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جنتیوں  کے سر پر تاج ہوں  گے اور ان تاجوں  کا ادنیٰ موتی مشرق سے مغرب تک کو روشن کر دے گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ، باب ما جاء لادنی اہل الجنّۃ من الکرامۃ، ۴ / ۲۵۳، الحدیث: ۲۵۷۱)

مَردوں  کے لئے ریشم پہننے کی وعیدیں :

          اَحادیث میں  ریشم پہننے والے مردکے لئے سخت وعیدیں  بیان ہوئی ہیں ،ان میں  سے چند درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْمفرماتے ہیں ، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے دائیں  ہاتھ میں  ریشم اور بائیں  ہاتھ میں  سونا لے کر ارشاد فرمایا ’’بے شک یہ دونوں  میری امت کے مَردوں  پر حرام ہیں ۔( ابو داؤد، کتاب اللباس، باب فی الحریر للنساء، ۴ / ۷۱، الحدیث: ۴۰۵۷)

(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے دنیا میں  ریشم پہنا وہ آخرت میں  ریشم نہیں  پہنے گا۔( بخاری، کتاب اللباس، باب لبس الحریر وافتراشہ للرّجال۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۹، الحدیث: ۵۸۳۲)

(3)…حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ریشم وہ پہنے گا جس کے لیے آخرت میں  کچھ حصہ نہیں ۔( مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب تحریم استعمال اناء الذہب والفضّۃ۔۔۔ الخ، ص۱۱۴۵، الحدیث: ۷(۲۰۶۸))

(4)…حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُما  فرماتے ہیں  کہ ’’جو دنیا میں  ریشم پہنے گا وہ جنت میں  نہ جائے گا۔( سنن الکبری للنساء، کتاب الزینۃ، لبس الحریر، ۵ / ۴۶۵، الحدیث: ۹۵۸۵)

(5)…حضرت جویریہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاسے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جس نے ریشم کا لباس پہنا  اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن آگ کا کپڑا پہنائے گا۔( مسندامام احمد،حدیث جویریۃ بنت الحارث بن ابی ضرار زوج النبیصلی  اللہ علیہ وسلم،۱۰ / ۲۳۱،الحدیث:۲۶۸۱۹)

{وَ هُدُوْۤا اِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ:اور انہیں  پاکیزہ بات کی ہدایت دی گئی۔} اس آیت میں  پاکیزہ بات سے کلمہ ِتوحید مراد ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک اس سے قرآنِ مجید مراد ہے اور صراطِ حمید سے مراد  اللہ تعالیٰ کا دین اسلام ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۳۰۴)

 

 

22:24
وَ هُدُوْۤا اِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِۚۖ-وَ هُدُوْۤا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِیْدِ(۲۴)
اور انہیں پاکیزہ بات کی ہدایت کی گئی (ف۵۹) اور سب خوبیوں سراہے کی راہ بتائی گئی (ف۶۰)

22:25
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ ﰳالْعَاكِفُ فِیْهِ وَ الْبَادِؕ-وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۠(۲۵)
بیشک وہ جنہوں نے کفر کیا اور روکتے ہیں اللہ کی راہ (ف۶۱) اور اس ادب والی مسجد سے (ف۶۲) جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے مقرر کیا کہ اس میں ایک سا حق ہے وہاں کے رہنے والے اور پردیسی کا، اور جو اس میں کسی زیادتی کا ناحق ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے (ف۶۳)

{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:بیشک جنہوں  نے کفر کیا۔} شانِ نزول:یہ آیت سفیان بن حرب وغیرہ کے بارے میں  نازل ہوئی جنہوں  نے سرکارِ دو عالَمصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو مکہ مکرمہ میں  داخل ہونے سے روکا تھا ، اس پر ارشاد فرمایا کہ ’’بیشک انہیں  درد ناک عذاب دیا جائے گا جنہوں  نے کفر کیا اور وہ  اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی اطاعت سے اور اس مسجد ِحرام میں  داخل ہونے سے روکتے ہیں  جسے ہم نے لوگوں  کے لیے عبادت گاہ بنایا ہے اور اس میں  وہاں  کے رہنے والوں  اور دور سے آنے والوں  کا حق برابر ہے۔( تفسیرات احمدیہ، الحج، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۵۲۸)

{وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ:اور مسجد ِحرام۔} مفسرین فرماتے ہیں  کہ اگر یہاں  آیت میں  مسجد ِحرام سے خاص کعبہ معظمہ مراد ہو جیسا کہ امام شافعی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُکا فرمان ہے تواس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ مسجد ِحرام تمام لوگوں  کا قبلہ ہے اوراس کی طرف منہ کرنے میں  وہاں  کے رہنے والے اور پردیسی سب برابر ہیں  ، سب کے لئے اس کی تعظیم و حرمت اور اس میں  حج کے ارکان کی ادائیگی یکساں  ہے اور طواف و نماز کی فضیلت میں  شہری اور پردیسی کے درمیان کوئی فرق نہیں  ۔ اور اگر اس آیت میں  مسجد ِحرام سے مکہ مکرمہ یعنی پورا حرم مراد ہو جیسا کہ امامِ اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کا فرمان ہے تواس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ حرم شریف شہری اور پردیسی سب کے لئے برابر ہے ، اس میں  رہنے اور ٹھہرنے کا سب کو حق حاصل ہے جبکہ کوئی کسی کو اس کے گھر سے نکالے نہیں ۔ اسی لئے امامِ اعظم ابوحنیفہرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ مکہ مکرمہ کی زمینوں  کو بیچنے اور ان کا کرایہ حاصل کرنے کو منع فرماتے ہیں  جیسا کہ حدیث شریف میں  ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’مکہ مکرمہ حرم ہے ،اس کی زمینیں  فروخت نہ کی جائیں ۔( تفسیرات احمدیہ، الحج، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۵۲۸، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۳۰۴-۳۰۵، ملتقطاً)

{وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ:اور جو اس میں  ناحق کسی زیادتی کا ارادہ کرے گا۔} مسجد ِحرام میں  ناحق زیادتی سے کیا مراد ہے ا س کے بارے میں  مفسرین کے چند اَقوال ہیں  ۔(1) اس سے شرک و بت پرستی مراد ہے ۔ (2) اس سے ہر ممنوع قول اور فعل مراد ہے حتّٰی کہ خادم کو گالی دینا بھی اس میں  داخل ہے ۔ (3) اس سے حرم میں  اِحرام کے بغیر داخل ہونا یا حرم کے مَمنوعات کا اِرتکاب کرنا جیسے شکار مارنا اور درخت کاٹنا وغیرہ مراد ہے۔ (4) حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَافرماتے ہیں  : اس سے مراد یہ ہے کہ جو تجھے قتل نہ کرے تو اسے قتل کرے یا جو تجھ پر ظلم نہ کرے تو اس پر ظلم کرے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۳۰۵)

            شانِ نزول: حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے عبد اللہ بن اُنیس (بن خطل) کو دو آدمیوں  کے ساتھ بھیجا تھا جن میں  ایک مہاجر تھا دوسرا انصاری ، ان لوگوں  نے اپنے اپنے نسب کی فخریہ باتیں  بیان کیں  تو عبد اللہ بن اُنیس کو غصہ آیا اور اس نے انصاری کو قتل کر دیا اور خود مُرتَد ہو کر مکہ مکرمہ کی طرف بھاگ گیا ۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔( درمنثور، الحج، تحت الآیۃ: ۲۵، ۶ / ۲۷)

22:26
وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِیْمَ مَكَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِیْ شَیْــٴًـا وَّ طَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْقَآىٕمِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ(۲۶)
اور جب کہ ہم نے ابراہیم کو اس گھر کا ٹھکانا ٹھیک بتادیا (ف۶۴) اور حکم دیا کہ میرا کوئی شریک نہ کر اور میرا گھر ستھرا رکھ (ف۶۵) طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع سجدے والوں کے لیے (ف۶۶)

{وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِیْمَ مَكَانَ الْبَیْتِ:اور یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کو اس گھرکا صحیح مقام بتادیا۔} کعبہ معظمہ کی عمارت پہلے حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنائی تھی اور جب حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم پر طوفان آیا تو اس وقت وہ آسمان پر اٹھا لی گئی۔ پھر جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوکعبہ شریف کی عمارت دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دیا تو  اللہ تعالیٰ نے اس کا مقام بتانے کے لئے ایک ہوا مقرر کی جس نے اس کی جگہ کو صاف کر دیا جہاں  پہلے کعبہ معظمہ کی عمارت موجود تھی اور ایک قول یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے ایک بادل بھیجا جو خاص زمین کے اس حصے کے اوپر تھا جہاں  پہلے کعبہ معظمہ کی عمارت تھی، اس طرح حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو کعبہ شریف کی جگہ بتائی گئی اور آپ نے اس کی پرانی بنیاد پر کعبہ شریف کی عمارت تعمیر کی ۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۷۳۶، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۳۰۵، ملتقطاً)

{ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِیْ شَیْــٴًـا:اور حکم دیا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔} کعبہ شریف کی تعمیر کے وقت  اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، قیام کرنے والوں  اور نماز پڑھنے والوں  کیلئے شرک سے ، بتوں  سے اور ہر قسم کی نجاستوں  سے خوب صاف ستھرا رکھو۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۳۰۵)

انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامشرک سے پاک ہیں :

            یاد رہے کہ انبیاءِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک آن کے لئے بھی شرک نہیں  کرتے، وہ شرک سے پاک ہیں  اور گناہوں  سے بھی معصوم ہیں  اور اس آیت میں  جو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے فرمایا گیا کہ ’’ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو‘‘اس سے یہ مراد نہیں  کہ آپ مَعَاذَ اللہ شرک میں  مبتلا تھے اور  اللہ تعالیٰ نے آپ کو ا س سے منع فرمایا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا یا اس سے مراد یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں   اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے ساتھ کوئی دوسری غرض نہ ملانا۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۲۶، ۸ / ۲۱۹)

مسجد تعمیر کرنے اور اسے صاف ستھرا رکھنے کے فضائل:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسجد تعمیر کرنا، اسے صاف ستھرا رکھنا اور اس کی زینت کرنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی سنت اور اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ اسی مناسبت سے یہاں  مسجد تعمیر کرنے اور اسے صاف ستھرا رکھنے کے تین فضائل ملاحظہ ہوں ۔

(1)…حضرت ابو قرصافہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسجدیں  تعمیر کرو اور ان سے کوڑا کرکٹ نکالو، پس جس نے  اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مسجد بنائی اللّٰہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں  ایک گھر بنائے گا اور اس سے کوڑاکرکٹ نکالنا حورِ عِین کے مہر ہیں ۔( معجم الکبیر، مسند جندرۃ بن خیشنۃ، ۳ / ۱۹، الحدیث: ۲۵۲۱)

(2)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے مسجد سے اَذِیَّت دینے والی چیز (جیسے مٹی ،کنکر ) نکالی تو  اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں  ایک گھر بنائے گا۔( ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب تطہیر المساجد وتطییبہا، ۱ / ۴۱۹، الحدیث: ۷۵۷)

(3)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  :ایک عورت مسجد سے تنکے اٹھایا کرتی تھی، اس کا انتقال ہو گیا اور حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اسے دفن کرنے کی اطلاع نہ دی گئی توآپ نے ارشاد فرمایا ’’جب تم میں  کسی کا انتقال ہو جائے تو مجھے اطلاع دے دیا کرو، پھر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس عورت پر نماز پڑھی اور فرمایا ’’میں  نے اسے جنت میں  دیکھا ہے کیونکہ وہ مسجد سے تنکے اٹھایا کرتی تھی(معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۹۰، الحدیث: ۱۱۶۰۷)۔([1])

مسجد کا متولّی کیساہونا چاہئے؟

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد کا متولی نیک آدمی ہونا چاہیے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’متولی بننے کے لائق وہ ہے جو دیانت دار، کام کرنے والا اور ہوشیار ہو۔ اس پر وقف کی حفاظت اور خیر خواہی کے معاملے میں  کافی اطمینان ہو۔ فاسق نہ ہو کہ اس سے نفسانی خواہش یا بے پرواہی یا حفاظت نہ کرنے یا لَہْو ولَعب میں  مشغول ہونے کی وجہ سے وقف کو نقصان پہنچانے یاپہنچنے کا اندیشہ ہو۔ بد عقل ، عاجز یا کاہل نہ ہو کہ اپنی حماقت، نادانی ، کام نہ کر سکنے یا محنت سے بچنے کے باعث وقف کو خراب کردے۔ فاسق اگرچہ کیسا ہی ہوشیار ،کام کرنے والا اور مالدار ہو ہر گز متولی بننے کے لائق نہیں  کہ جب وہ شریعت کی نافرمانی کی پرواہ نہیں  رکھتا تو کسی دینی کام میں  ا س پر کیا اطمینان ہو سکتا ہے اور اسی وجہ سے یہ حکم ہے کہ وقف کرنے والا اگر خود فسق کرے تو واجب ہے کہ وقف اس کے قبضے سے نکال لیا جائے اور کسی امانت دار اور دیانت دار کو سپرد کیا جائے۔( فتاوی رضویہ، ۱۶ / ۵۵۷،ملخصاً)


[1] ۔۔۔مسجد کی صفائی ستھرائی سے متعلق مفید معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر ِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رسالے ’’مسجدیں  صاف رکھئے‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ مفید ہے۔

22:27
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ(۲۷)
اور لوگوں میں حج کی عام ندا کردے (ف۶۷) وہ تیرے پاس حاضر ہوں گے پیادہ اور ہر دبلی اونٹنی پر کہ ہر دور کی راہ سے آتی ہیں (ف۶۸)

{وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ:اور لوگوں  میں  حج کا عام اعلان کردو ۔} کعبہ شریف کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوحکم دیا گیا کہ اب لوگوں  کومیرے گھرآنے کی دعوت دو، چنانچہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ابوقبیس پہاڑ پر چڑھ کر جہان کے لوگوں  کو ندا کردی کہ بیتُ  اللہ کا حج کرو ۔ جن کی قسمت میں  حج کرنا لکھا تھا انہوں  نے اپنے باپوں  کی پشتوں  اور ماؤں  کے پیٹوں  سے جواب دیا ’’لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ‘‘ یعنی میں  حاضر ہوں ، اے اللّٰہ! میں  حاضر ہوں ۔ حضرت حسن رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کا قول ہے کہ اس آیت ’’اَذِّنْ‘‘ میں  رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خطاب ہے ،چنانچہ حجۃ الوداع میں  آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اعلان کردیا اور ارشاد فرمایا کہ اے لوگو!  اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تم پر حج فرض کیا تو حج کرو۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۷۳۶، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۳۰۵، ملتقطاً)

{یَاْتُوْكَ رِجَالًا:وہ تمہارے پاس پیدل آئیں  گے ۔} یعنی جب آپ لوگوں  میں  حج کا اعلان کریں  گے تو لوگ آپ کے پاس پیدل اور ہر دبلی اونٹنی پرسوار ہوکرآئیں  گے جو دور کی راہ سے آتی ہیں  اور کثیر سفر کرنے کی وجہ سے دبلی ہو جاتی ہیں۔(خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۳۰۵-۳۰۶)

پیدل حج کرنے کے فضائل:

            اس آیت میں حج کے لئے پیدل آنے والوں  کا پہلے ذکر کیا گیا ،اس سے معلوم ہو اکہ پیدل حج کرنا بہت فضیلت کا باعث ہے ۔اسی مناسبت سے یہاں  مکہ مکرمہ سے پیدل حج کرنے کے دو فضائل ملاحظہ ہوں :

(1)… حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے مکہ سے پیدل حج شروع کیا حتّٰی کہ (حج مکمل کرکے) مکہ لوٹ آیا تو  اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے سات سو نیکیاں  حرم کی نیکیوں  میں  لکھے گا۔ عرض کی گئی : حرم کی نیکیاں  کیا ہیں  ؟ ارشاد فرمایا ’’ہر نیکی کے بدلے ایک لاکھ نیکیاں ۔( مستدرک، اول کتاب المناسک، فضیلۃ الحجّ ماشیاً، ۲ / ۱۱۴، الحدیث: ۱۷۳۵)

(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’سوار ہو کر حج کرنے والے کے لئے ہر اس قدم کے بدلے میں  ستر نیکیاں  ہیں  جو ا س کی سواری چلے اور پیدل حج کرنے والے کے لئے ہر قدم کے بدلے حرم کی نیکیوں  میں  سے سات سو نیکیاں  ہیں ۔ کسی نے عرض کی:یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حرم کی نیکیاں  کیا ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں  کے برابر ہے۔( مسند البزار، مسند ابن عباس رضی  اللہ عنہما، ۱۲ / ۳۱۳، الحدیث: ۵۱۱۹)

{لِیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ:تاکہ وہ اپنے فوائد پر حاضر ہوجائیں ۔} اس سے پہلی آیات میں  حج کرنے کا حکم دیا گیا اور اب اس حکم کی حکمت بیان کی جارہی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ لوگوں  کو حج کے لئے بلائیں  تاکہ وہ حج کر کے اپنے دینی اور دُنْیَوی دونوں  طرح کے وہ فوائد حاصل کریں  جو اس عباد ت کے ساتھ خاص ہیں  ، دوسری عبادت میں  نہیں  پائے جاتے۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ۸ / ۲۲۰، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۷۳۷)

حج کا دینی اور دُنْیَوی فائدہ:

            حج کرنے والے کو دینی فائدہ تو یہ حاصل ہوتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے اور وہ گناہوں  سے ایسے پاک ہو کر لوٹتا ہے جیسے اُس دن گناہوں  سے پاک تھاجب وہ ماں  کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا، چنانچہ  حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے  اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے حج کیا اور (حج کے دوران) کوئی فحش کلام کیا نہ فسق کیا تو وہ گناہوں  سے ایسے پاک ہو کر لوٹے گا جیسے اُس دن تھا جب وہ ماں  کے پیٹ سے پیدا ہوا۔(بخاری، کتاب الحج، باب فضل الحجّ المبرور، ۱ / ۵۱۲، الحدیث: ۱۵۲۱)

            اور حضرت عبد اللہ بن مسعودرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’حج و عمرہ    محتاجی اور گناہوں  کو ایسے دور کرتے ہیں  جیسے بھٹی لوہے ، چاندی اور سونے کے میل کو دور کردیتی ہے اور حج ِمَبْرُور کا ثواب جنت ہی ہے۔( سنن ترمذی، کتاب الحج، باب ما جاء فی ثواب الحجّ والعمرۃ، ۲ / ۲۱۸، الحدیث: ۸۱۰)

            اور دُنْیَوی فائدہ یہ ہے کہ حج کے دنوں  میں  لوگ تجارت کر کے مالی نفع بھی حاصل کرتے ہیں  ۔

{وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ:اور معلوم دنوں  میں   اللہ کے نام کو یاد کریں ۔}  اللہ تعالیٰ کا نام یاد کرنے سے مراد یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے حج کرنے والوں  کو جوبے زبان مویشیوں  اونٹ ، گائے ، بکری اور بھیڑ کے ذریعے رزق دیا انہیں  ذبح کرتے وقت وہ ان پر  اللہ تعالیٰ کا نام لیں ۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے حج کرنے والوں  کو جو بے زبان مویشیوں  اونٹ ، گائے ، بکری اور بھیڑ سے رزق دیا اس نعمت پر وہ  اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کریں  اور اس کی پاکی بیان کریں  ۔ معلوم دنوں  سے کیا مراد ہے ا س کے بارے میں  دو قول ہیں:  (1) ان سے ذی الحجہ کے دس دن مراد ہیں ۔ یہ حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبد اللہ بن عباس ،حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْکا قول ہے اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کا مذہب ہے ۔ (2) معلوم دنوں  سے قربانی کے دن مراد ہیں ۔ یہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَاکا قول ہے اور امام ابو یوسف اور امام محمد رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِمَا بھی اسی کے قائل ہیں ۔( البحر المحیط، الحج ، تحت الآیۃ : ۲۸ ، ۶ / ۲۳۸ ، تفسیرات احمدیہ ، الحج ، تحت الآیۃ : ۲۸ ، ص۵۳۱، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۷۳۷، ملتقطاً)

{فَكُلُوْا مِنْهَا:تو تم ان سے کھاؤ ۔} دورِ جاہلیّت میں  کفار حج کے موقع پر جو جانور ذبح کرتے تھے ان کا گوشت خود نہیں  کھاتے تھے ، اس آیت میں  ان کا رد کیا گیا اور مسلمانوں  کو حکم دیا گیا کہ تم حج کے دنوں  میں  جو جانور ذبح کرو اس کا گوشت خود بھی کھاؤ اور محتاج فقیروں  کو بھی کھلاؤ۔( تفسیرات احمدیہ، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۵۳۲، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۷۳۷، ملتقطاً)

حَرم میں  کی جانے والی قربانی سے متعلق4شرعی مسائل:

            یہاں  آیت کی مناسبت سے حرم میں  کی جانے والی قربانی سے متعلق 4شرعی مسائل ملاحظہ ہوں

(1)…ہَدی اُس جانور کو کہتے ہیں  جو قربانی کے لیے حرم کو لے جایا جائے۔ یہ تین قسم کے جانور ہیں : (۱) بکری۔ اس میں  بھیڑ اور دنبہ بھی داخل ہے۔ (۲) گائے۔ بھینس بھی اسی میں  شمار ہے۔ (۳) اونٹ۔

(2)…قربانی کے جانور میں  جو شرطیں  ہیں  وہ ہدی کے جانور میں  بھی ہیں  مثلاً اونٹ پانچ سال کا، گائے دوسال کی، بکری ایک سال کی مگر بھیڑ اور دُنبہ چھ مہینے کا اگر سا ل بھر والی بکری کی مثل ہو تواس کی قربانی ہو سکتی ہے اور اونٹ گائے میں  یہاں  بھی سات آدمیوں  کی شرکت ہوسکتی ہے۔

(3)…ہَدی یعنی قربانی کے لیے حرم میں  لے جایا جانے والا جانور اگر حجِ قِران یا تَمَتُّع کی قربانی کا ہو تو قربانی کرنے کے بعد اس کے گوشت میں  سے کچھ کھا لینا بہتر ہے، اسی طرح اگر قربانی نفلی ہو اور جانور حرم میں  پہنچ گیا ہو تو اس کا گوشت بھی کھا سکتا ہے البتہ اگر جانور حرم میں  نہ پہنچا تو اس کا گوشت خود نہیں  کھا سکتا بلکہ اب وہ فُقرا کا حق ہے۔ اگر وہ جانور حج قران ، تمتع اور نفلی قربانی کے علاوہ کسی اور جیسے کَفّارے کی قربانی کے لئے ہو تو ا س کا گوشت خود نہیں  کھا سکتا اور جس قربانی کا گوشت قربانی کرنے والا خود کھا سکتا ہے وہ مالداروں  کو بھی کھلا سکتا ہے اور جس کا گوشت خود نہیں  کھا سکتا وہ نہ مالداروں  کو کھلا سکتا اور نہ ہی ا س کی کھال وغیرہ سے نفع لے سکتا ہے۔

(4)…ہَدی کا گوشت حرم کے مسکینوں  کو دینا بہتر ہے، اس کی نکیل اور جھول کو خیرات کردیں  اور قصاب کو اس کے گوشت میں  سے کچھ نہ دیں ۔ ہاں  اگر اُسے صدقہ کے طور پر کچھ گوشت دیں  تو ا س میں  حرج نہیں ۔( بہار شریعت، حصہ ششم، ہدی کا بیان، ۱ / ۱۲۱۳-۱۲۱۴،ملخصاً)

            نوٹ: ہدی سے متعلق مزید شرعی مسائل کی معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت جلد 1 حصہ 6 سے ’’ہدی کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

 

 

22:28
لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِۚ-فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآىٕسَ الْفَقِیْرَ٘(۲۸)
تاکہ وہ اپنا فائدہ پائیں (ف۶۹) اور اللہ کا نام لیں (ف۷۰) جانے ہوئے دنوں میں (ف۷۱) اس پر کہ انہیں روزی دی بے زبان چوپائے (ف۷۲) تو ان میں سے خود کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ (ف۷۳)

22:29
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ(۲۹)
پھر اپنا میل کچیل اتاریں (ف۷۴) اور اپنی منتیں پوری کریں (ف۷۵) اور اس آزاد گھر کا طواف کریں (ف۷۶)

{ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ:پھر انہیں  چاہیے کہ اپنا میل کچیل اتاریں ۔} ارشاد فرمایا کہ پھر انہیں  چاہیے کہ اپنا میل کچیل اتاریں ، مونچھیں  کتروائیں  ، ناخن تراشیں  ، بغلوں  اور زیرِ ناف کے بال دور کریں  اور جو منتیں  انہوں  نے مانی ہوں  وہ پوری کریں  اور اس آزاد گھر کا طواف کریں ۔ اس سے طوافِ زیارت مراد ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۷۳۷)

خانہ کعبہ کی شان :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو بڑی عظمت و شان عطا فرمائی ہے کہ کوئی ظالم و جابر شخص اس گھر پر قبضہ نہیں  کر سکتا، کوئی اس کا مالک ہونے کا دعویٰ نہیں  کرسکتا ،یہ لوگوں  کے قبضے اور ملکیت سے آزاد ہے اور جس نے بھی ا س پر قبضہ کرنے کی کوشش کی  اللہ تعالیٰ نے اسے تباہ و برباد کر دیا جیساکہ ابرہہ اور ا س کے لشکر نے جب خانہ کعبہ پر قبضہ کرنے کی نیت سے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا تو اس کا جو حشر ہوااِس سے شاید ہی کوئی مسلمان ناواقف ہو۔

22:30
ذٰلِكَۗ-وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ-وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)
بات یہ ہے اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے (ف۷۷) تو وہ اس کے لیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے، اور تمہارے لیے حلال کیے گئے بے زبان چوپائے (ف۷۸) سوا ان کے جن کی ممانعت تم پر پڑھی جاتی ہے (ف۷۹) تو دور ہو بتوں کی گندگی سے (ف۸۰) اور بچو جھوٹی بات سے،

{ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ: اور جو  اللہ کی حرمت والی چیزوں کی تعظیم کرے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں  کی تعظیم کرنے پر ابھارتے ہوئے فرمایا گیا کہ جو شخص ان چیزوں  کی تعظیم کرے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عزت و حرمت عطا کی ہے تو یہ تعظیم اُس کے لئے بہتر ہے کہ اِس پر  اللہ تعالیٰ اُسے آخرت میں  ثواب عطا فرمائے گا۔( البحر المحیط، الحج، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۳۳۹، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۲۹، ملتقطاً)

              اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں  کے بارے میں  مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد  اللہ تعالیٰ کے اَحکام ہیں  خواہ وہ حج کے مَناسِک ہوں  یا ان کے علاوہ اور احکام ہوں  اوران کی تعظیم سے مراد یہ ہے کہ جو کام کرنے کا  اللہ تعالیٰ نے حکم دیا وہ کئے جائیں  اورجن کاموں  سے منع کیا انہیں  نہ کیا جائے ۔ دوسراقول یہ ہے کہ یہاں  حرمت والی چیزوں  سے حج کے مناسک مراد ہیں  اور ان کی تعظیم یہ ہے کہ حج کے مناسک پورے کئے جائیں  اور انہیں  ان کے تمام حقوق کے ساتھ ادا کیا جائے ۔تیسرا قول یہ ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں  جہاں  حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں  جیسے بیت ِحرام ، مَشْعَرِ حرام، بلد ِحرام اور مسجد ِحرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۷۳۸، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۳۰۷، ملتقطاً)

مکہ مکرمہ کی بے حرمتی کرنے والے کا انجام:

            حضرت عیاش بن ابو ربیعہ مخزومی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں  گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کاحق ادا کرتے رہیں  گے اور جب وہ اس حق کوضائع کردیں  گے توہلاک ہوجائیں  گے۔( سنن ابن ماجہ، کتاب المناسک، باب فضل مکّۃ، ۳ / ۵۱۹، الحدیث: ۳۱۱۰)

            مفتی احمد یار خان نعیمیرَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  اس حدیث پاک کی شرح میں  فرماتے ہیں  ’’تجربہ سے بھی ثابت ہے کہ جس بادشاہ نے کعبہ معظمہ یا حرم شریف کی بے حرمتی کی ، ہلاک و برباد ہوگیا، یزید پلید کے زمانہ میں  جب حرم شریف کی بے حرمتی ہوئی (تو) یزید ہلاک ہوا (اور) اس کی سلطنت ختم ہوگئی۔( مراۃ المناجیح، باب حرم مکہ حرسہا  اللہ تعالٰی، تیسری فصل، ۴ / ۲۴۲-۲۴۳، تحت الحدیث: ۲۶۰۵۔)

 اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں  کی تعظیم کی جائے:

            اس سے معلوم ہوا کہ جن چیزوں  اور جن مقامات کو  اللہ تعالیٰ نے عزت و حرمت عطا کی ہے ان کی تعظیم کرنے والا بھلائی پاتا ہے اور ان کی بے حرمتی کرنے والا نقصان اٹھاتا اور تباہ وبرباد ہو جاتا ہے لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں  کی تعظیم کرے اور ان کی بے حرمتی کرنے سے بچے نیز جن ہستیوں  کو  اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں  قرب و شرف عطا فرما کر عزت و عظمت سے نوازا ہے جیسے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ مْوغیرہ،ان کی اور ان سے نسبت رکھنے والی چیزوں  کی بھی تعظیم کرے اور کسی طرح ان کی بے ادبی نہ کرے ۔

{وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ:اور تمہارے لیے تمام جانور حلال کئے گئے ۔} آیت کے اس حصے کا معنی یہ ہے کہ قرآن پاک میں  جن جانوروں  کا حرام ہونا تمہارے سامنے بیان کیا جاتاہے ان کے علاوہ تمام جانور تمہارے لئے حلال ہیں  ، تم انہیں  شرعی طریقے سے ذبح کر کے کھا سکتے ہو لہٰذا تم  اللہ تعالیٰ کی حدوں  کی حفاظت کرو اور اس نے جو چیز حلال فرمائی اسے حرام قرار نہ دو جیساکہ بعض لوگ بَحیرہ اور سائبہ وغیرہ کو حرام قرار دیتے ہیں  ،اسی طرح جس چیز کو  اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اسے حلال قرار نہ دو جیساکہ بعض لوگ دھاری دار چیز کی چوٹ کے بغیر مارے ہوئے اور مردہ جانور کا گوشت کھانے کو حلال کہتے ہیں ۔(مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۷۳۸)

          نوٹ: حرام جانوروں  سے متعلق تفصیلی بیان سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 3 کی تفسیر میں  گزر چکا ہے، وہاں  سے اس کا مطالعہ فرمائیں ۔

اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْهِمْکی طرف منسوب جانوروں  کا شرعی حکم:

            یاد رہے کہ جن جانوروں  کو ذبح کرنے سے پہلے  اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں  کی طرف منسوب کیا جائے اور انہیں  ذبح شرعی طریقے کے مطابق کیا جائے تو وہ بھی حلال ہیں  اور قرآن و حدیث میں  کہیں  بھی ایسے جانوروں  کا حرام ہونا بیان نہیں  کیا گیا لہٰذا کسی شرعی دلیل کے بغیر انہیں  حرام کہنا اور اس پر شرک کے فتوے لگانا ہر گز درست نہیں  ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ(۸۷)وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۪-وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ‘‘(مائدہ:۸۷ ،۸۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو!ان پاکیزہ چیزوں  کو حرام نہ قرار دوجنہیں   اللہ نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔ بیشک  اللہ حد سے بڑھنے والوں  کو ناپسند فرماتا ہے۔اور جو کچھ تمہیں   اللہ نے حلال پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں  سے کھاؤ اوراس  اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھنے والے ہو۔

            اور حضرت سلمان رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’حلال وہ ہے جسے  اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں  حلال فرمایا اور حرام وہ ہے جسے  اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں  حرام فرمایا اور جس سے خاموشی اختیار فرمائی تو وہ معاف شدہ چیزوں  میں  سے ہے۔( ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی لبس الفراء، ۳ / ۲۸۰، الحدیث: ۱۷۳۲)

{فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ:پس تم بتوں  کی گندگی سے دور رہو۔} ارشاد فرمایا کہ پس تم بتوں  کی گندگی سے دور رہوجن کی پوجا کرنا بدترین گندگی سے آلودہ ہونا ہے اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ یہاں  جھوٹی بات سے کیا مراد ہے، اس کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اپنی طرف سے چیزوں  کوحلال اور حرام کہنا ہے۔ دوسراقول یہ ہے کہ اس سے مراد جھوٹی گواہی دینا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد جھوٹ اور بہتان ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد دورِ جاہلیّت میں  تَلْبِیَہ میں  ایسے الفاظ ذکر کرنا جن میں   اللہ تعالیٰ کے لئے شریک کا ذکر ہو۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۳۰، ۸ / ۲۲۳)

 جھوٹی گواہی دینے اورجھوٹ بولنے کی مذمت پر4اَحادیث:

            آیت کی مناسبت سے یہاں  جھوٹی گواہی دینے اورجھوٹ بولنے کی مذمت پر مشتمل4اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت خریم بن فاتک اسدی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں ، رسولُ  اللہ  صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صبح کی نماز پڑھ کر کھڑے ہوئے اور تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا ’’جھوٹی گواہی ہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی:

’’فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: پس تم بتوں  کی گندگی سے دور رہو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ایک  اللہ کیلئے ہر باطل سے جدا ہوکر (اور)اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے ۔( ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی شہادۃ الزور، ۳ / ۴۲۷، الحدیث: ۳۵۹۹)

(2)… حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں  گے کہ  اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، ۳ / ۱۲۳، الحدیث: ۲۳۷۲)

(3)…حضرت معاویہ بن حیدہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اس کے لئے ہلاکت ہے جو لوگوں  کو ہنسانے کے لئے جھوٹی بات کرتا ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء من تکلّم بالکلمۃ لیضحک الناس، ۴ / ۱۴۱، الحدیث: ۲۳۲۲)

(4)… حضرت ابوبکر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہ  فرماتے ہیں  ’’اے لوگو! جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ ایمان کے مخالف  ہے۔(مسند امام احمد، مسند ابی بکر الصدیق رضی  اللہ  تعالی عنہ، ۱ / ۲۲، الحدیث: ۱۶)

22:31
حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ-وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ(۳۱)
ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی کسی کو نہ کرو، اور جو اللہ کا شریک کرے وہ گویا گرا آسمان سے کہ پرندے اسے اچک لے جاتے ہیں (ف۸۱) یا ہوا اسے کسی دور جگہ پھینکتی ہے (ف۸۲)

{حُنَفَآءَ لِلّٰهِ:ایک  اللہ کیلئے ہر باطل سے جدا ہوکر۔} یعنی اے لوگو! تم ایک  اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہر باطل سے جدا ہوکر اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے بتوں  کی گندگی سے دور رہو۔

{وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ:اور جو  اللہ کے ساتھ شرک کرے وہ گویا آسمان سے گرپڑا۔} اس آیت میں  ایک انتہائی نفیس تشبیہ سے شرک کا برا انجام سمجھایا گیا ہے ، اس تشبیہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص انتہائی بلندی سے زمین پر گر پڑے تو اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ پرندے اس کی بوٹی بوٹی نوچ کر لے جاتے ہیں  یا پھر ہوا اس کے اَعضا کو دور کسی وادی میں  پھینک دیتی ہے اور یہ ہلاکت کی ایک بد ترین صورت ہے۔ اسی طرح جو شخص ایمان ترک کر کے  اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو وہ ایمان کی بلندی سے کفر کی وادی میں  گر پڑتا ہے، پھر بوٹی بوٹی لے جانے والے پرندے کی طرح نفسانی خواہشات اس کی فکروں  کو مُنتَشر کر دیتی ہیں  یا ہوا کی طرح آنے والے شیطانی وسوسے اسے گمراہی کی وادی میں  پھینک دیتے ہیں  اور یوں  شرک کرنے والا اپنے آپ کو بد ترین ہلاکت میں  ڈال دیتا ہے۔( ابو سعود، الحج، تحت الآیۃ: ۳۱، ۴ / ۱۸، ملخصاً)

ایمان کی اہمیت:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایمان ایسی عظیم چیز ہے جسے اختیار کرنے والا عزت و عظمت کی بلندیوں  کو چھو لیتا ہے اور ایمان کو ترک کرنے والا اور دین ِاسلام کو چھوڑ کر کسی دوسرے دین کو اختیار کر لینے والا خود کو بد ترین ہلاکت میں  ڈال دیتا ہے کیونکہ اگر یہ مُرتَد ہونے والا صحیح توبہ کئے بغیر اسی کفر کی حالت میں  مر گیا تو اسے ہمیشہ کے لئے جہنم میں  ڈال دیا جائے گا، چنانچہ ایک اور مقام پر  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ- وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘(بقرہ: ۲۱۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم میں  جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہو جائے پھر کافر ہی مرجائے تو ان لوگوں  کے تمام اعمال دنیا و آخرتمیں  برباد ہوگئے اور وہ دوزخ والے ہیں  وہ اس میں  ہمیشہ رہیں  گے۔

            افسوس! فی زمانہ مسلمانوں  میں  ایمان کی قدر اور اہمیت کم ہوتی چلی جا رہی ہے اور بعض مسلمان دنیا کا نفع، دنیا کی سہولت و آسائش اور دنیا کا مال ودولت حاصل کرنے کی خاطراپنا ایمان ضائع کر دینے کی پرواہ بھی نہیں  کرتے اور چند ٹکوں  کے لئے ایمان جیسی قیمتی ترین دولت لٹا دیتے ہیں ۔  اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں  کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور انہیں  اپنے ایمان کی قدر اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

 

 

22:32
ذٰلِكَۗ-وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ(۳۲)
بات یہ ہے، اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے (ف۸۳)

{وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ:اور جو  اللہ کی نشانیوں  کی تعظیم کرے۔} یہاں   اللہ تعالیٰ کی نشانیوں  سے کیا مراد ہے ، اس کے بارے میں  مفسرین کے تین قول ہیں ، (1)  اللہ تعالیٰ کی نشانیوں  میں  تمام عبادات داخل ہیں ۔ (2) ان سے حج کے مَناسِک مراد ہیں  ۔ (3) ان سے بُدنہ یعنی وہ اونٹ اور گائے مراد ہیں  جنہیں  قربانی کے لئے حرم میں  بھیجا جائے اور ان کی تعظیم یہ ہے کہ فربہ ، خوبصورت اور قیمتی لئے جائیں ۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۳۲، ۸ / ۲۲۳، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۲۸۲، ملتقطاً)

حج کے موقع پر کیسے جانور کی قربانی دی جائے؟

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ حج کے موقع پر جو جانور قربان کیا جائے وہ عمدہ ، موٹا، خوبصورت اور قیمتی ہو۔ امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’ ایک قول یہ ہے کہ ا س آیت میں  تعظیم سے مراد عمدہ اور موٹے جانور کی قربانی دینا ہے ۔ (لہٰذا قربانی کا جانور خریدنے والے کو چاہئے کہ )اس کی خریداری میں  قیمت کم کرنے کے در پے نہ ہو ۔ بزرگانِ دین تین چیزوں  میں  قیمت زیادہ دیتے تھے اور اس میں  کمی کروانے کو پسند نہیں  کرتے تھے (1)حج کے موقع پر خریدا جانے والا قربانی کا جانور۔ (2) عید کی قربانی کا جانور۔ (3) غلام۔ کیونکہ قربانی میں  زیادہ قیمت والا جانور ان کے مالکوں  کے نزدیک زیادہ نفیس ہوتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ (حج کے موقع پر) ایک غیر عربی اونٹ قربانی کے لئے لے گئے ،کسی نے آپ سے وہ اونٹ تین سو دیناروں  کے بدلے میں  طلب کیا،آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُنے حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا کہ اسے بیچ کر ہلکا جانور خرید لوں  تو نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے آپ کو روک دیا اور ارشاد فرمایا کہ اسی کی قربانی کرو۔

            یہ اس لئے فرمایا کہ تھوڑی اور عمدہ چیز زیادہ اور ہلکی چیز سے بہتر ہوتی ہے اور تین سو دیناروں  میں  تیس اونٹ آ سکتے تھے اور ان میں  گوشت بھی زیادہ ہوتا لیکن مقصود گوشت نہیں  تھا بلکہ مقصد تو نفس کو بخل سے پاک کرنا اور  اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے جمال سے مُزَیَّن کرنا ہے کیونکہ  اللہ تعالیٰ کو ہر گز ان کے گوشت اور خون نہیں  پہنچیں  گے بلکہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اور یہ مقصد اسی صورت حاصل ہونا ممکن ہے جب قیمت (اور دیگر چیزوں ) میں  عمدگی کا لحاظ رکھا جائے، تعداد کم ہو یا زیادہ۔( احیاء علوم الدین، کتاب اسرار الحج، الباب الثالث فی الآداب الدقیقۃ والاعمال الباطنۃ، ۱ / ۳۵۳)

            نوٹ: یاد رہے کہ جانور خریدتے وقت قیمت کم نہ کروائی جائے تو بہتر ہے لیکن اس میں  یہ ضرور دیکھ لیا جائے کہ وہ جانور اتنی قیمت کا بنتا بھی ہو، ایسا نہ ہو کہ جانور دبلا پتلا ہے اور ا س کی قیمت اتنی بتائی جا رہی ہے کہ عام طور پر ایسا جانور اس قیمت پر نہیں  ملتا۔ لہٰذا ایسی صورت میں  قیمت کم کروانا درست ہے۔

{فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ:تو یہ دلوں  کی پرہیزگاری سے ہے ۔} یعنی  اللہ تعالیٰ کی نشانیوں  کی تعظیم کرنا دلوں  کے پرہیز گار ہونے کی علامت ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۲، ۶ / ۳۲)

پرہیز گاری کا مرکز:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ دل پرہیزگاری کا مرکز ہے اور جب دل میں  تقویٰ و پرہیز گاری جم جائے گی تو ا س کا اثر دیگر اَعضا میں  خود ہی ظاہر ہو جائے گا۔ حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان کے درمیان کچھ شُبہے والی چیزیں  ہیں  جنہیں بہت سے لوگ نہیں  جانتے تو جو شبہات سے بچے گا وہ اپنا دین اور اپنی آبرو بچالے گا اور جوشبہات میں  پڑے گا وہ حرام میں  مبتلا ہو جائے گا، جیسے جو چرواہا شاہی چراگاہ کے آس پاس چرائے تو قریب ہے کہ اس چراگاہ میں  جانور چرلیں  ۔ آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور  اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں  ہیں ۔ آگاہ رہو کہ جسم میں  ایک گوشت کا ٹکڑاہے ،جب وہ ٹھیک ہوجائے تو سارا جسم ٹھیک ہوجاتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے، خبردار وہ دل ہے۔( بخاری، کتاب الایمان، باب فضل من استبرأ لدینہ، ۱ / ۳۳، الحدیث: ۵۲)

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :دل بادشاہ کی طرح ہے اور ا س کا جو لشکر آنکھ سے دکھائی دیتا ہے وہ ہاتھ، پاؤں ، آنکھ، زبان اور باقی تمام ظاہری و باطنی اَعضاہیں  ، یہ تمام دل کے خادم اور ا س کے قابو میں  ہیں  ،وہی ان سب میں  تَصَرُّف کرتا ہے اور انہیں  ادھر ادھر پھیرتا ہے، وہ تمام اس کی اطاعت پر مجبور ہیں  اور نہ اس سے اختلاف کرنے کی طاقت رکھتے ہیں  نہ اس سے سر کشی اختیار کر سکتے ہیں  ، جب وہ آنکھ کو کھلنے کا حکم دیتا ہے تو وہ کھل جاتی ہے، جب وہ پاؤں  کو حرکت کرنے کا حکم دیتا ہے تو وہ حرکت کرتا ہے اور جب وہ زبان کو بولنے کا حکم دیتا ہے تو وہ بولتی ہے اور اسی طرح دیگر اَعضا کا معاملہ ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب شرح عجائب القلب، بیان جنود القلب، ۳ / ۶)

             لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے دل کی اصلاح کی طرف بھر پور توجہ دے کیونکہ اس کی اصلاح کے بغیر دیگر اعضاء کی اصلاح مشکل ترین ہے۔

 

22:33
لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَاۤ اِلَى الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۠(۳۳)
تمہارے لیے چوپایوں میں فائدے ہیں (ف۸۴) ایک مقررہ میعاد تک (ف۸۵) پھر ان کا پہنچنا ہے اس آزاد گھر تک (ف۸۶)

{لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ:تمہارے لیے ان جانوروں  میں  بہت سے فائدے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ تمہارے لئے ان جانوروں  میں  ان کے ذبح کے وقت تک بہت سے فائدے ہیں  جیسے ضرورت کے وقت ان پر سوار ہو سکتے ہو اور حاجت کے وقت ان کا دودھ پی سکتے ہو، پھر انہیں  حرم شریف تک پہنچنا ہے جہاں  وہ ذبح کئے جائیں  گے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۷۳۹)

            خیال رہے کہ یہاں  ہَدی یعنی اس جانور کا ذکر ہے جو صرف حرم شریف میں  ہی ذبح ہو سکتا ہے جبکہ وہ قربانی جو مالداروں  پر عید الاضحی کے موقع پر واجب ہوتی ہے وہ ہر جگہ کی جائے گی۔

 

22:34
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِؕ-فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْاؕ-وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَۙ(۳۴)
اور ہر امت کے لیے (ف۸۷) ہم نے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں اس کے دیے ہوئے بے زبان چوپایوں پر (ف۸۸) تو تمہارا معبود ایک معبود ہے (ف۸۹) تو اسی کے حضور گردن رکھو (ف۹۰) اور اے محبوب خوشی سنادو ان تواضع والوں کو،

{وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا:اور ہر امت کے لیے ہم نے ایک قربانی مقرر فرمائی۔} یعنی گزشتہ ایماندار اُمتوں  میں  سے ہر امت کے لئے  اللہ تعالیٰ نے ایک قربانی مقرر فرمائی تا کہ وہ جانوروں  کو ذبح کرتے وقت ان پر  اللہ تعالیٰ کا نام لیں ، تو اے لوگو! تمہارا معبود ایک معبود ہے اس لئے ذبح کے وقت صرف اسی کا نام لو اور اسی کے حضور گردن جھکاؤ اور اخلاص کے ساتھ اس کی اطاعت کرو اور اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ عاجزی کرنے والوں  کو خوشخبری سنا دیں ۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۳۰۹، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۷۳۹، ملتقطاً)

جانور ذبح کرتے وقت  اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کرنا شرط ہے:

            اس آیت میں  اس بات پر دلیل ہے کہ جانور ذبح کرتے وقت  اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کرنا شرط ہے اور  اللہ تعالیٰ نے ہر ایک امت کے لئے مقرر فرما دیا تھا کہ وہ اس کے لئے تَقَرُّب کے طور پر قربانی کریں  اور تمام قربانیوں  پر صرف اسی کا نام لیا جائے۔(مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۷۳۹)

{اَلَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ:وہ لوگ ہیں کہ جب  اللہ کا ذکر ہوتا ہے توان کے دل ڈرنے لگتے ہیں ۔} یعنی عاجزی کرنے والے وہ لوگ ہیں  کہ جب ان کے سامنے  اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے تو ا س کی ہیبت و جلال سے ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں  اور  اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف ان کے اَعضا سے ظاہر ہونے لگتا ہے اور  اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں  جو مصیبت و مشقت پہنچے اس پر صبر کرتے ہیں  اور نماز کو ا س کے اوقات میں  قائم رکھتے ہیں  اور  اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں  سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۷۴۰، تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۳۵، ۸ / ۲۲۵، ملتقطاً)

 

22:35
الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ الصّٰبِرِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمْ وَ الْمُقِیْمِی الصَّلٰوةِۙ-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(۳۵)
کہ جب اللہ کا ذکر ہوتا ہے ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں (ف۹۱) اور جو افتاد پڑے اس کے سنے والے اور نماز برپا رکھنے والے اور ہمارے دیے سے خرچ کرتے ہیں (ف۹۲)

22:36
وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ ﳓ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا صَوَآفَّۚ-فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّؕ-كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۳۶)
اور قربانی کے ڈیل دار جانور اور اونٹ اور گائے ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے کیے (ف۹۳) تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے (ف۹۴) تو ان پر اللہ کا نام لو (ف۹۵) ایک پاؤں بندھے تین پاؤں سے کھڑے (ف۹۶) پھر جب ان کی کروٹیں گرجائیں (ف۹۷) تو ان میں سے خود کھاؤ (ف۹۸) اور صبر سے بیٹھنے والے اور بھیک مانگنے والے کو کھلاؤ، ہم نے یونہی ان کو تمہارے بس میں دے دیا کہ تم احسان مانو،

{وَ الْبُدْنَ:اور قربانی کے بڑی جسامت والے جانور۔} اَحناف کے نزدیک بُدنہ کا اِطلاق اونٹ اور گائے دونوں  پر ہوتا ہے جبکہ امام شافعی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے نزدیک بدنہ کا اطلاق صرف اونٹ پر ہوتا ہے۔( تفسیرات احمدیہ، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۵۳۷)

{جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ:ان جانوروں  کو ہم نے تمہارے لیے  اللہ کی نشانیوں  میں  سے بنایا۔} یعنی  اللہ تعالیٰ نے قربانی کے بڑی جسامت والے جانوروں  کو مسلمانوں  کے لئے اپنے دین کی نشانیوں  میں  سے بنایا ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۳۵)

             آیت کے اس حصے سے معلوم ہوا کہ جس جانور کو عظمت والے مقام سے نسبت ہو جائے، وہ شَعائر  اللہ بن جاتا ہے۔

{لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ:تمہارے لیے ان میں  بھلائی ہے۔} یعنی قربانی کے ان بڑی جسامت والے جانوروں  میں  تمہارے لیے بھلائی ہے کہ تمہیں  ان سے دنیا میں  کثیر نفع اور آخرت میں  اجر و ثواب ملے گا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۳۵)

قربانی کا دُنْیَوی اور اُخروی فائدہ:

            قربانی کا دنیوی فائدہ تو وہ ہے جو اوپر بیان ہوا کہ ضرورت کے وقت قربانی کے جانور پر سواری کی جاسکتی ہے اور حاجت کے وقت ان کے دودھ سے نفع اٹھایا جا سکتا ہے اور اخروی فائدہ ثواب ہے۔

آیت ’’ وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا‘‘ پر عمل سے متعلق بزرگانِ دین کے دو واقعات:

            یہاں  اس آیتِ مبارکہ پر عمل کے سلسلے میں  بزرگانِ دین کے دو واقعات ملاحظہ ہوں  

(1)…حضرت مالک بن انس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے حج کیا اور ان کے ساتھ حضرت ابنِ حرملہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے حج کیا۔ اس موقع پر حضرت سعید رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے مینڈھا خریدا اوراس کی قربانی دی جبکہ حضرت ابن ِحرملہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے چھ دینارمیں  ایک اونٹ خریدا اور اسے نَحر کیا۔ حضرت سعید رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے ان سے پوچھا: کیا آپ کو ہمارا طریقہ کافی نہ تھا؟ حضرت ابنِ حرملہرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے کہا:میں  نے  اللہ تعالیٰ کایہ ارشادسناہے ’’وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ‘‘ اس لئے میں  نے پسند کیا کہ میں  اس خیر کو حاصل کروں  جس کی طرف  اللہ تعالیٰ نے میری رہنمائی کی ہے۔ حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُان کی اس بات سے بہت خوش ہوئے اور آپ ان کی طرف سے یہ بات بیان کیا کرتے تھے۔( تفسیرابن ابی حاتم، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ۸ / ۲۴۹۴)

(2)… حضرت سفیان بن عُیینہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُفرماتے ہیں  کہ حضرت صفوان بن سلیم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے حج کیا، ان کے پاس سات دینار تھے جس سے انہوں  نے ایک اونٹ خرید لیا۔ ان سے کہا گیا کہ آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے پاس صرف سات دینار تھے جن کاآپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے اونٹ خرید لیا ہے! انہوں  نے فرمایا: میں  نے  اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا ہے جس میں  وہ (تم سے) فرماتا ہے ’’لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ‘‘ تمہارے لیے ان میں  بھلائی ہے (اورمیں  نے اس بھلائی کو حاصل کرنے کے لئے ایساکیا ہے۔)( حلیۃ الاولیاء، ذکر طبقۃ من تابعی المدینۃ۔۔۔ الخ، صفوان بن سلیم، ۳ / ۱۸۷)

            لہٰذا جس مسلمان پر حج کی قربانی لازم ہو یا وہ حج کے موقع پر نفلی قربانی کرنا چاہتا ہو اور اونٹ یاگائے کی قربانی کرنا اس کے لئے ممکن ہو تو وہ اونٹ یا گائے کی قربانی کرے تاکہ اسے یہ فضیلت حاصل ہو۔

{فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا:تو ان پر  اللہ کا نام لو۔} یہاں  اونٹ َنحر کرنے کا طریقہ بیان فرمایا گیا کہ جب اونٹ کو نحر کرنے لگو تو ا ن کا ایک پاؤں  باند ھ دو اور تین کھڑے رکھو، پھر  اللہ تعالیٰ کا نام لے کر انہیں  نحر کرو اور اس کے بعد جب وہ زمین پر گر جائیں  اور ان کی حرکت ساکن ہو جائے تو اس وقت تمہارے لئے ان کا گوشت کھانا حلال ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۷۴۰، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۳۵، ملتقطاً)

اونٹ نحر کرنے سے متعلق دو شرعی مسائل:

            یہاں  آیت کی مناسبت سے اونٹ نحر کرنے سے متعلق دو شرعی مسائل ملاحظہ ہوں ،

(1)…اونٹ کو نحر کرنا اور گائے بکری وغیرہ کو ذبح کرنا سنت ہے اور اگر اس کا عکس کیا یعنی اونٹ کو ذبح کیا اور گائے وغیرہ کو نحر کیا تو جانور اس صورت میں  بھی حلال ہو جائے گا مگر ایسا کرنا مکروہ ہے کہ سنت کے خلاف ہے۔

(2)…عوام میں  یہ مشہور ہے کہ اونٹ کو تین جگہ ( سے) ذبح کیا جاتا ہے ، (یہ) غلط ہے اور یوں  کرنا مکروہ ہے کہ بلا فائدہ اِیذا دینا ہے۔( بہار شریعت، حصہ پانزدہم، ذبح کابیان، ۳ / ۳۱۲)

            جانور ذبح کرنے سے متعلق شرعی مسائل کی تفصیل جاننے کے لئے بہار شریعت، جلد 3 حصہ 15 سے ’’ذبح کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

{فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ:  تو ان میں  سے خود کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور بھیک مانگنے والے کو کھلاؤ۔} اس آیت میں  قربانی کے گوشت سے متعلق فرمایا گیا کہ اس میں  سے خود کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور بھیک مانگنے والے کو بھی کھلاؤ۔ قناعت کرنے والے سے وہ شخص مراد ہے جو کسی سے سوال نہ کرتا ہو اور بن مانگے اسے جو مل جائے اس پر اور اپنے پاس موجود مال پر راضی ہو۔

{ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ:اس طرح ہم نے ان جانوروں  کو تمہارے قابو میں  دے دیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے ان جانوروں  کو انتہائی طاقتور ہونے کے باجود ذبح کرنے اور سواری کرنے کے لئے تمہارے قابو میں  دے دیا تاکہ تم اپنے اوپر  اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا شکر ادا کرو۔( جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۲۸۲، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۳۶، ملتقطاً)

22:37
لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْؕ-كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْؕ-وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ(۳۷)
اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے (ف۹۹) یونہی ان کو تمہارے پس میں کردیا کہ تم اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ تم کو ہدایت فرمائی، اور اے محبوب! خوشخبری سناؤ نیکی والوں کو (ف۱۰۰)

{لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا: اللہ کے ہاں  ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں  اورنہ ان کے خون۔}شانِ نزول: دورِجاہلیّت کے کفار اپنی قربانیوں  کے خون سے کعبہ معظمہ کی دیواروں  کو آلودہ کرتے تھے اور اسے قرب کا سبب جانتے تھے،جب مسلمانوں  نے حج کیا اور یہی کام کرنے کا ارادہ کیا تواس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ہرگز نہ ان کی قربانیوں  کے گوشت پہنچتے ہیں  اورنہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے اور قربانی کرنے والے صرف نیت کے اِخلاص اور تقویٰ کی شرائط کی رعایت کر کے  اللہ تعالیٰ کو راضی کر سکتے ہیں ۔(مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۷۴۰)

اچھی نیت اور اِخلاص کے بغیر نیک عمل مقبول نہیں :

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو نیک عمل اچھی نیت اور ا خلاص کے بغیر کیا جائے وہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  مقبول نہیں۔ نیت و اِخلاص کی اہمیت بیان کرتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اہلِ دل لوگوں  پر ایمانی بصیرت اور انوارِ قرآن کی وجہ سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اَبدی سعادت تک رسائی کے لئے علم اور عبادت ضروری ہے،چنانچہ علم والوں  کے علاوہ تمام لوگ ہلاک ہونے والے ہیں  اور عمل کرنے والوں  کے علاوہ تمام علماء ہلاک ہونے والے ہیں  اور مخلص لوگوں  کے علاوہ تما م عمل کرنے والے بھی ہلاک ہونے والے ہیں  جبکہ مخلص لوگوں  کو بھی بڑا خطرہ ہے(کیونکہ انہیں  اپنے خاتمے اور اپنے بارے میںاللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر کا علم نہیں ) اورنیت کے بغیر عمل محض مشقت اور اخلاص کے بغیر نیت ریاکاری ہے اور یہ منافقت کے لئے کافی اور گناہ کے برابر ہے جبکہ صداقت کے بغیر اخلاص گرد و غبار کے ذرّات ہیں  کیونکہ ہر وہ عمل جو  اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے ارادے سے کیا جائے اور اس میں  نیت خالص نہ ہو تواس کے بارے میںاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

’’وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا‘‘(فرقان:۲۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور انہوں  نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں  کی طرح (بے وقعت) بنادیں  گے جو روشندان کی دھوپ میں  نظر آتے ہیں ۔

تو جو شخص نیت کی حقیقت سے واقف نہ ہو ا س کی نیت کیسے صحیح ہو گی؟ یا جس کی نیت درست ہو وہ اخلاص کی حقیقت سے آگاہ ہوئے بغیر مخلص کیسے ہو گا؟ یا وہ شخص جو صداقت کے مفہوم سے آگاہی نہ رکھتا ہو وہ اپنے نفس سے صداقت کا مطالبہ کیسے کرے گا؟ لہٰذا جو شخص  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا ارادہ رکھتا ہو اس کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نیت کا علم حاصل کرے تاکہ اسے نیت کی معرفت حاصل ہو ،پھر صداقت اور اخلاص کی حقیقت سے آگاہ ہو کر عمل کے ذریعے نیت کو صحیح کرے کیونکہ بندے کی نجات اور چھٹکارے کا وسیلہ یہی دو باتیں (صداقت اور اخلاص) ہیں ۔(احیاء علوم الدین، کتاب النیۃ والاخلاص والصدق، ۵ / ۸۶)

نیت ،اخلاص اور صداقت کے بارے میں  تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کی تصنیف ’’احیاء العلوم ‘‘([1]) کی چوتھی جلد سے ان ابواب کا مطالعہ کریں  تاکہ ان کی معرفت حاصل ہو۔

{كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ:اسی طرح ہم نے یہ جانور تمہارے قابو میں  دیدئیے۔}ارشاد فرمایا کہ اسی طرح ہم نے یہ جانور تمہارے قابو میں  دیدئیے تا کہ اس سے تمہیں   اللہ تعالیٰ کی عظمت معلوم ہو کہ اس نے ان جانوروں  کو تمہارے قابو میں  دیدیا جنہیں  لوگوں  کے قابو میں  دینے پر ا س کے علاوہ اور کوئی قادر نہیں  اور اس بات پر تم  اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں  ان جانوروں  کو مُسَخَّر کرنے اور ان کے ذریعے تقرب حاصل کرنے کے طریقے کی ہدایت دی اور اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان لوگوں  کو اعمال مقبول ہونے کی خوشخبری اور جنت کی بشارت دے دیں  جو نیک کام کرنے میں  مخلص ہیں۔(روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۷، ۶ / ۳۶)

حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ اور ایک حاجی:

یہاں  حج سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِفرماتے ہیں : میں  مکہ مکرمہ کی طرف نکلا تو راستے میں  ایک نوجوان کو دیکھا ،جس کا معمول یہ تھا کہ رات کے وقت اپنے چہرے کو آسمان کی طرف اٹھا کر کہتا:اے وہ ذات ! جو نیکیوں  سے راضی ہو تی ہے اور بندوں  کے گناہ اسے کوئی نقصان نہیں  دیتے ،مجھے ان اعمال کی توفیق دے جن سے تو راضی ہو جائے اور میرے ان اعمال کو بخش دے جن سے تیرا کوئی نقصان نہیں  ہوتا۔ پھر جب لوگوں  نے اِحرام باندھا اور تَلْبِیَہ پڑھا تو میں  نے ا س نوجوان سے کہا:تم تلبیہ کیوں  نہیں  پڑھتے؟اس نے عرض کی: یا شیخ!پچھلے گناہوں  اور لکھ دئیے گئے جرموں  کے مقابلے میں تلبیہ کافی نہیں  ، میں  اس بات سے ڈرتا ہوں  کہ میں  لبیک کہوں  اور مجھ سے یہ کہہ دیا جائے کہ تیری حاضری قبول نہیں ، تیرے لئے کوئی سعادت نہیں  ،میں  نہ تیرا کلام سنوں  گا اور نہ تیری طرف نظر ِرحمت فرماؤں  گا۔پھر وہ نوجوان چلا گیا اور اس کے بعد میں  نے اسے مِنیٰ میں  ہی دیکھا اور اس وقت وہ کہہ رہاتھا:اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے بخش دے ،بے شک لوگوں  نے قربانیاں  کر لیں  اور تیری بارگاہ میں  نذرانہ پیش کر دیا اور میرے پاس میری جان کے علاوہ اورکوئی چیز نہیں  جسے میں  تیری بارگاہ میں  نذر کروں  تو تُو میری طرف سے میری جان قبول فرما لے۔پھر اس نوجوان نے ایک چیخ ماری اور اس کی روح قَفسِ عُنْصُری سے پرواز کر گئی۔(روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۷، ۶ / ۳۶-۳۷)


[1] ۔۔۔دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ سے احیاء العلوم (مترجم) کی جلد 04 اورجلد 05 ہدیۃً حاصل کر کے مطالعہ فرمائیں ۔

22:38
اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ۠(۳۸)
بیشک اللہ بلائیں ٹالتا ہے، مسلمانوں کی (ف۱۰۱) بیشک اللہ دوست نہیں رکھتا ہر بڑے دغا باز ناشکرے کو (ف۱۰۲)

{اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: بیشک  اللہ مسلمانوں  سے بلائیں  دور کرتا ہے ۔} مشرکوں  نے حُدَیْبیہ کے سال سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کو حج کرنے سے روک دیاتھا اور جو صحابہ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ مکہ مکرمہ میں  موجود تھے انہیں وہ طرح طرح کی اَذِیَّتیں  اور تکلیفیں  دیاکرتے تھے، چنانچہ حج کے لَوازمات اور مَناسِک بیان فرمانے کے بعد ان آیات میں   اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو یہ بشارت دی کہ بیشک  اللہ تعالیٰ مسلمانوں  پر آنے والی بلائیں  ان سے دور کردے گا اور مشرکوں  کے خلاف ان کی مدد فرمائے گا۔( البحر المحیط، الحج، تحت الآیۃ: ۳۸، ۶ / ۳۴۶)

 عزت ونصرت بالآخر مسلمانوں  کے لئے ہے:

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  کہ اس آیت کے نزول کا سبب اگرچہ خاص ہے لیکن اعتبار الفاظ کے عموم کا ہے ،اس لئے مسلمان اگرچہ بلاؤں  اور مصیبتوں  وغیرہ سے آزمائے جائیں  بالآخر عزت،نصرت اور بڑی کامیابی مسلمانوں  کے لئے ہے اور یہ مصیبتیں  ان کے گناہوں  کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہیں ۔( صاوی، الحج، تحت الآیۃ: ۳۸، ۴ / ۱۳۴۰-۱۳۴۱) خیال رہے کہ نیک اعمال کی برکت سے یا محبوب بندوں  کے طفیل اور بارہامحض اپنے کرم سے  اللہ تعالیٰ دنیا میں  بھی مسلمانوں  سے بلائیں  ٹالتا ہے اور آخرت میں  بھی ٹالے گا،جیسا کہ قرآنی آیات اور صحیح اَحادیث سے ثابت ہے۔

{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ:بیشک  اللہ ہر بڑے بددیانت ، ناشکرے کو پسند نہیں  فرماتا۔} یعنی  اللہ تعالیٰ ان کفار کو پسند نہیں  فرماتا جو  اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کر کے ان کی خیانت  اور خدا کی نعمتوں  کی ناشکری کرتے ہیں  اور  اللہ تعالیٰ انہیں  اس عمل پر سزا دے گا۔( جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۲۸۲، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۳۱۰، ملتقطاً)

 

22:39
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙﰳ (۳۹)
پروانگی (اجازت) عطا ہوئی انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں (ف۱۰۳) اس بناء پر کہ ان پر ظلم ہوا (ف۱۰۴) اور بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے،

{اُذِنَ:اجازت دیدی گئی ہے۔} شانِ نزول: کفار ِمکہ صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کو ہاتھ اور زبان سے شدید اِیذائیں  دیتے اور تکلیفیں  پہنچاتے رہتے تھے اورصحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس اس حال میں  پہنچتے تھے کہ کسی کا سر پھٹا ہے ،کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہے اورکسی کا پاؤں  بندھا ہوا ہے۔ روزانہ اس قسم کی شکایتیں  بارگاہِ اقدس میں  پہنچتی تھیں  اورصحابہ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ حضور انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں  کفار کے ظلم و ستم کی فریادیں  کیا کرتے اور آپ یہ فرما دیا کرتے کہ’’ صبر کرو، مجھے ابھی جہاد کا حکم نہیں  دیا گیا ہے۔ جب حضور اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی ،تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ وہ پہلی آیت ہے جس میں  کفار کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین کی طرف سے جن مسلمانوں  سے لڑائی کی جاتی ہے انہیں  مشرکین کے ساتھ جہاد کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بیشک  اللہ تعالیٰ اِن مسلمانوں  کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۹، ۶ / ۳۸)

22:40
الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُؕ-وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْكَرُ فِیْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِیْرًاؕ-وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ(۴۰)
وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے (ف۱۰۵) صرف اتنی بات پر کہ انہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے (ف۱۰۶) اور اللہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا (ف۱۰۷) تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقاہیں (ف۱۰۸) اور گرجا (ف۱۰۹) اور کلیسے (ف۱۱۰) اور مسجدیں (ف۱۱۱) جن میں اللہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے، اور بیشک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بیشک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے (ف۱۰۹)،

{اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ: وہ جنہیں  ان کے گھروں  سے ناحق نکال دیا گیا۔} یعنی ان لوگوں  کو جہاد کی اجازت دے دی گئی جنہیں  ان کے گھروں  سے صرف اتنی بات پرناحق نکال دیا گیا اور بے وطن کیا گیا کہ انہوں  نے کہا ’’ہمارا رب صرف  اللہ ہے‘‘ حالانکہ یہ کلام حق ہے اور حق پر گھروں  سے نکالنا اور بے وطن کرنا قطعی طور پر ناحق ہے۔( جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۲۸۳، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۳۹، ملتقطاً)

{وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ:اور اگر  اللہ آدمیوں  میں  ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا۔}آیت کے اس حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر  اللہ تعالیٰ جہاد کی اجازت دے کر اور حدود قائم فرما کر آدمیوں  میں  ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مشرکین غالب آجاتے اور کوئی دین و ملت والا ان کی سر کشی سے نہ بچ پاتا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں  یہودیوں  کے کلیساؤں  ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں  راہبوں  کی عبادت گاہوں ، عیسائیوں  کے گرجوں  اور حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں  مسلمانوں  کی ان مسجدوں  کو گرا دیا جاتا جن میں   اللہ تعالیٰ کاکثرت سے ذکر کیا جاتا ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۷۴۱، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۳۱۰-۳۱۱، ملتقطاً)

 جہاد کی برکت:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ اگر گزشتہ زمانہ میں  جہاد نہ ہوئے ہوتے تو نہ یہودیوں  کے عبادت خانے محفوظ رہتے اور نہ عیسائیوں  کے گرجے۔ ہرزمانے میں  جہاد کی ایک برکت یہ ہوئی کہ لوگوں  کی عبادت گاہیں  محفوظ ہوگئیں ، لیکن یہاں  یہ یاد رہے کہ اب ہمارے زمانے میں  گرجوں  وغیرہ غیر مسلموں  کی عبادت گاہوں  کا اس اعتبار سے کوئی احترام نہیں  کہ وہ کوئی مقدس جگہیں  ہیں  ، صرف یہ ہے کہ اسلامی ملک میں  غیرمسلموں  کو اپنی عبادت گاہیں  بنانے کی اجازت ہے اور ہم انہیں  اس معاملے میں  چھیڑیں  گے نہیں  اور نہ ہی مسلمانوں  کو حق ہوگا کہ بلاوجہ دوسروں  کے عبادت خانے گرائیں ۔ہمیں  ہماری شریعت کا حکم یہ ہے کہ ہم کافروں  کو اور ان کے دین کو ان کے حال پر چھوڑ دیں  اور اسلام کا پیغام ان کی عبادت گاہیں  گرا کر نہیں  بلکہ دعوت و تبلیغ کے ذریعے دیں ۔

{وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ:اور بیشک  اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد فرمائے گا جو اس کے دین کی مدد کرے گا۔} ارشاد فرمایاکہ جو  اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرے گا  اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد فرمائے گا،چنانچہ  اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا اور مہاجرین و اَنصار رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کو عرب کے سرکش کافر سرداروں  پر غلبہ عطا فرمایا ،پھر ایران کے کسریٰ اور روم کے قیصر پر غلبہ عنایت کیا اور ان کی سر زمین اور شہروں  کا مسلمانوں  کو وارث بنا دیا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۴۰)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْحَجّ
اَلْحَجّ
  00:00



Download

اَلْحَجّ
اَلْحَجّ
  00:00



Download