Surah Al-Hajj
{اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ: وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں ۔} ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا ، اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں اور ان کے دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد فرمائیں تو ان کی سیرت ایسی پاکیزہ ہو گی کہ وہ میری تعظیم کے لئے نما زقائم رکھیں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، بھلائی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔(روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۱، ۶ / ۴۱)
امام عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں خبر دی گئی ہے کہ آئندہ مہاجرین کو زمین میں تَصَرُّف عطا فرمانے کے بعد (بھی)ان کی سیرتیں بڑی پاکیزہ رہیں گی اور وہ دین کے کاموں میں اخلاص کے ساتھ مشغول رہیں گے۔ اس میں خلفاء ِ راشدین کے عدل و انصاف اور ان کے تقویٰ و پرہیزگاری کی دلیل ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اِقتدار اور حکومت عطا فرمائی اور عادلانہ سیرت عطا کی۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۷۴۲)
خلفاءِ راشدین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی پاکیزہ سیرت کی جھلک:
حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں چار صحابۂ کرام ،حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں دیگر صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مقابلے میں خاص قرب اور مقام حاصل تھا اور یہ چار صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سیرت وعمل اور پاکیزہ کردار کے لحاظ سے بقیہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ پر فوقیت رکھتے تھے اور ان کی عبادت و ریاضت،تقویٰ و پرہیزگاری اورعدل و انصاف بے مثل حیثیت رکھتے تھے،پھر جب سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ظاہری وصال ہوا تو بِالتَّرتیب ان چار صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے مسلمانوں کی امامت و خلافت کی ذمہ داری کو سنبھالا، ان کی خلافت کو خلافت ِراشدہ کہا جاتا ہے۔ ان کے دورِ خلافت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زمین پر غلبہ و اِقتدار عطا فرمایا اور مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی مدد و نصرت سے روم اور ایران جیسی اپنے وقت کی سپر پاورز کو قدموں تلے روند کر رکھ دیا،عراق اور مصر پر قبضہ کر لیا اور افریقی ممالک میں بھی دین ِاسلام کے جھنڈے گاڑ دئیے۔اتنا عظیم اِقتدار اور اتنی بڑی سلطنت رکھنے کے باوجود ان صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی سیرت پہلے کی طرح پاکیزہ رہی بلکہ اس کی پاکیزگی اور طہارت میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ خلافت ملنے کے بعد بھی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرائض کو پابندی سے ادا کیا، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے باقاعدہ نظام بنائے ، لوگوں کو نیک کام کرنے کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے اہم ترین فریضے کو بڑی خوبی سے ادا کیا،الغرض ان کی پاکیزہ سیرت کاحال یہ ہے کہ ان کے تقویٰ و پرہیز گاری،دنیا سے بے رغبتی، اللہ تعالیٰ کے خوف سے گریہ و زاری،عاجزی واِنکساری،حِلم و بُردباری، شفقت ورحم دلی،جرأت و بہادری،امت کی خیر خواہی،غیرت ِ ایمانی اور عدل و انصاف کے اتنے واقعات ہیں جنہیں جمع کیا جائے تو ہزاروں صفحات بھر جائیں ۔ اللہ تعالیٰ ان عظیم ہستیوں کے صدقے آج کے مسلم حکمرانوں کو بھی عقلِ سلیم عطا فرمائے اور انہیں اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق حکومت کانظام چلانے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی دین ِاسلام پر اِستقامت:
اس آیت میں دی گئی خبر سے معلوم ہو اکہ جب ہجرت کرنے والے صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو زمین میں اقتدار ملے گا تو ا س کے بعد بھی وہ اسی دین پر قائم ہوں گے جسے انہوں نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لا کر اختیار کیا تھا،لہٰذا قرآن مجید کی ا س سچی خبر کے مطابق حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد جب حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ مسلمانوں کے خلیفہ بنے تو اس وقت صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ مَعَاذَ اللہ مُرتَد نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ دین ِاسلام پر ہی مضبوطی سے قائم تھے اور انہوں نے اسلام کے اصول و قوانین پر ہی عمل کیا اور ہر جگہ انہی اصولوں کو نافذ کیا،اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی بیعت کر کے مَعَاذَ اللہ سب صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ مُرتَد ہو گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم عطا فرمائے ۔
{وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ: اوراگر یہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں ۔}اس آیت ا ور ا س کے بعد والی دو آیات میں پچھلی کافر قوموں کا اپنے اپنے رسولوں کے ساتھ طرزِ عمل بیان کر کے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس دل کو تسلی دی گئی ہے، چنانچہ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر یہ کفار آپ کو جھٹلاتے ہیں تو آپ تسلی رکھیں اور ان کی طرف سے آنے والی اَذِیَّتوں پر صبر کریں ،کفار کا یہ پرانا طریقہ ہے اور پچھلے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بھی ان کا یہی دستور رہا ہے ،چنانچہ کفار ِمکہ سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم، حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم یعنی عاد، حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم یعنی ثمود، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ،حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اورحضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ اپنے اپنے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرچکے ہیں اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی جھٹلایا گیا ہے،تو میں نے ان کافرو ں کو ڈھیل دی اور ان کے عذاب میں تاخیر کی اور انہیں مہلت دی ، پھر میں نے انہیں پکڑا اور مختلف عذابوں سے ان کے کفر و سرکشی کی سزا دی تو ان پر میرا عذاب کیسا ہَولْناک اور دردناک ہوا!۔اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی تکذیب کرنے والوں کو چاہیے کہ اپنے انجام کے بارے میں سوچیں اور پچھلوں کے انجام سے عبرت حاصل کریں ،اگر یہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کا انجام بھی بہت خوفناک ہو گا۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۴، ص۷۴۲، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۴، ۶ / ۴۲، ملتقطاً)
{وَ كُذِّبَ مُوْسٰى: اور موسیٰ کی تکذیب کی گئی۔} یہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے بارے میں یہ نہیں فرمایا گیاکہ آپ کی قوم نے آپ کی تکذیب کی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم بنی اسرائیل نے آپ کی تکذیب نہ کی تھی بلکہ فرعون کی قوم قبطیوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی تکذیب کی تھی۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۷۴۲)
{فَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا: اور کتنی ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کردیا۔} ارشاد فرمایا کہ اور کتنی ہی بستیوں کو ہم نے برباد کر دیا اور ان میں رہنے والے لوگوں کوہلاک کردیا کیونکہ ان بستیوں میں رہنے والے کافر تھے ،تو اب وہ بستیاں اپنی چھتوں کے بل پر گری پڑی ہیں اورکتنے کنویں بیکار پڑے ہیں کہ ان سے کوئی پانی بھرنے والا نہیں اور کتنے بلندو بالامحل خالی اور ویران پڑے ہیں کیونکہ ان میں رہنے والے مر چکے ہیں ۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۷۴۲، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۲۸۳، ملتقطاً)
{اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ: تو کیا یہ لوگ زمین میں نہ چلے۔} اس آیت میں کفارِ مکہ کو زمین میں سفر کرنے پر ابھارا گیا تاکہ وہ کفر کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کے مقامات دیکھیں اور ان کے آثار کا مشاہدہ کر کے عبرت حاصل کریں ، چنانچہ فرمایا گیا کہ کیا کفارِ مکہ نے زمین میں سفر نہیں کیا تاکہ وہ سابقہ قوموں کے حالات کا مشاہدہ کریں اور ان کے پاس ایسے دل ہوں جن سے یہ سمجھ سکیں کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کی وجہ سے اُن قوموں کا کیا انجام ہوا اور اس سے عبرت حاصل کریں یا ان کے پاس ایسے کان ہوں جن سے پچھلی امتوں کے حالات ، ان کا ہلاک ہونا اور ان کی بستیوں کی ویرانی کے بارے میں سنیں تاکہ اس سے عبرت حاصل ہو۔ پس بیشک کفار کی ظاہری حِس باطل نہیں ہوئی اور وہ ان آنکھوں سے دیکھنے کی چیزیں دیکھتے ہیں بلکہ وہ ان دلوں کے اندھے ہیں جو سینو ں میں ہیں اور دلوں ہی کا اندھا ہونا غضب ہے اور اسی وجہ سے آدمی دین کی راہ پانے سے محروم رہتا ہے۔(مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۷۴۲-۷۴۳، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۳۱۱-۳۱۲، تفسیر کبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۴۶، ۸ / ۲۳۳-۲۳۴، ملتقطاً)
عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لئے فائدہ مند دو چیزیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان مقامات کو دیکھنا جہاں اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا ہے اوران قوموں کے بارے میں سننا جن پر اللہ تعالیٰ نے عذاب نازل فرمایا ہے،عبرت اورنصیحت حاصل کرنے کے لئے بہت فائدہ مند ہے اور اس دیکھنے اور سننے سے فائدہ اسی صورت میں اٹھایا جا سکتا ہے جب دل سے غورو فکر کرتے ہوئے ان چیزوں کو دیکھا اور ان کے بارے میں سنا جائے اور جو شخص عذاب والی جگہوں کا مشاہدہ توکرے اور عذاب یافتہ قوموں کے بارے میں سنے، پھر ان کے حالات وانجام میں غورو فکر نہ کرے تو وہ عبرت و نصیحت حاصل نہیں کر پاتا،لہٰذا جب بھی کسی ایسی جگہ سے گزر ہو جہاں اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تھا یا عذاب میں مبتلا ہونے والی قوم کے واقعات سنیں تو اس وقت دل سے ان پر غور و فکر ضرور کریں تاکہ دل میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف اور ڈر پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے اور اس کی اطاعت گزاری کرنے میں مدد ملے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ‘‘(ق:۳۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک اس میں نصیحت ہے اس کے لیے جو دِل رکھتا ہو یا کان لگائے اوروہ حاضر ہو۔
اورایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ نصیحت کے ساتھ اپنے دل کوزندہ رکھو ،غوروفکرکے ساتھ دل کومنورکرو، زُہد اوردنیاسے بے رغبتی کے ساتھ نفس کومارو،یقین کے ساتھ اس کو مضبوط کرو،موت کی یادسے دل کوذلیل کرو،فنا ہونے کے یقین سے اس کوصبر کرنے والابناؤ، زمانے کی مصیبتیں دکھاکراس کوخوفزدہ کرو،دن اوررات کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے سے اس کوبیداررکھو،گزشتہ لوگوں کے واقعات سے اسے عبرت دلاؤ،پہلے لوگوں کے قصے سناکراسے ڈراؤ ،ان کے شہروں اوران کے حالات میں اس کوغوروفکرکرنے کاعادی بناؤاوردیکھوکہ بدکاروں اورگناہ گاروں کے ساتھ کیسامعاملہ ہوا اوروہ کس طرح الٹ پلٹ کردئیے گے۔( ابن کثیر، الحج، تحت الآیۃ: ۴۶، ۵ / ۳۸۴-۳۸۵)
دل کے اندھے پن کا نقصان:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو اکہ جس کا دل بصیرت کی نظر سے اندھا ہو وہ تمام ظاہری اَسباب ہونے کے باوجود دین کا راستہ پانے اور حق و ہدایت کی راہ چلنے سے محروم رہتا ہے۔حضرت عبد اللہ بن جراد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اندھاوہ نہیں جوظاہری آنکھوں سے محروم ہے بلکہ اندھاوہ ہے جوبصیرت سے محروم ہے۔( نوادرالاصول، الاصل التاسع والثلاثون، ۱ / ۱۵۷، الحدیث: ۲۴۰)
اورحضرت سہل رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جس شخص کا دل بصیرت سے روشن ہو وہ نفسانی خواہشات اور شہوتوں پر غالب رہتا ہے اور جب وہ دل کی بصیرت سے اندھا ہو جائے تو ا س پر شہوت غالب آ جاتی ہے اور غفلت طاری ہو جاتی ہے ، اس وقت اس کا بدن گناہوں میں گم ہو جاتا ہے اور وہ کسی حال میں بھی حق کے سامنے گردن نہیں جھکاتا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۴۵) اللہ تعالیٰ ہمیں دل کی بصیرت عطا فرمائے اور دل کی بصیرت سے اندھا ہونے سے محفوظ فرمائے ،اٰمین۔
{وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ: اور یہ تم سے عذاب مانگنے میں جلدی کرتے ہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفارِ مکہ جیسے نضر بن حارث وغیرہ مذاق اڑانے کے طور پر آپ سے جلدی عذاب نازل کرنے کا تقاضا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہرگز اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرے گااور وعدے کے مطابق ضرور عذاب نازل فرمائے گا چنانچہ یہ وعدہ بدر میں پورا ہوا اور مذاق اڑانے والے کفار ذلت کی موت مارے گئے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۷، ۶ / ۴۶)
{وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ: بیشک تمہارے رب کے ہاں ایک دن ایسا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ کے ہاں آخرت میں عذاب کا ایک دن ایسا ہے جو تم لوگوں کی گنتی کے ہزار سال کے برابر ہے، تو یہ کفار کیا سمجھ کر جلدی عذاب نازل کرنے کا تقاضا کرتے ہیں ۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۷۴۳)
یاد رہے کہ اس آیت اور سورہِ سجدہ کی آیت نمبر 5میں یہ بیان ہو اکہ قیامت کا دن لوگوں کی گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہو گا اور سورہِ معارج کی آیت نمبر4میں یہ بیان ہو اہے کہ قیامت کے دن کی مقدارپچاس ہزار سال ہے۔ان میں مطابقت یہ ہے کہ قیامت کے دن کفار کو جن سختیوں اور ہولناکیوں کا سامنا ہو گا ان کی وجہ سے بعض کفار کو وہ دن ایک ہزار سال کے برابر لگے گا اور بعض کفار کو پچاس ہزار سال کے برابر لگے گا۔
{وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَمْلَیْتُ لَهَا: اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں میں نے ڈھیل دی۔} ارشاد فرمایا کہ کثیر بستیاں ایسی ہیں جن میں رہنے والے لوگوں کو ظالم ہونے کے باوجود میں نے ڈھیل دی اور ان سے عذاب کو مُؤخَّر کیا ،پھر میں نے مہلت ختم ہونے کے بعد انہیں پکڑلیااور دنیا میں ان پر عذاب نازل کیا،اورآخرت میں سب کو میری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے تو میں ان کے اَعمال کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کروں گا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۸، ۶ / ۴۷)
ظلم اللہ تعالیٰ کے عذاب کاسبب ہے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ ظالم شخص کو ڈھیل دیتا رہتا ہے اور فوری طور پر اس کی گرفت نہیں فرماتا حتّٰی کہ وہ یہ گمان کرنے لگ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی گرفت نہیں فرمائے گا،پھر اللہ تعالیٰ اس کی وہاں سے پکڑ فرماتا ہے جہاں سے اسے وہم وگمان تک نہیں ہوتا اور اس وقت اپنے آپ کو ملامت کرنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں رہتا تو ظالم کی نجات اسی میں ہے کہ وہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہونے سے پہلے پہلے ظلم سے باز آجائے اور اس کی بارگاہ میں سچی توبہ کر کے جن پر ظلم کیا اور ان کے حقوق کو ضائع کیا ان سے معافی مانگ لے اور ان کے حقوق انہیں ادا کر دے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ: تم فرمادو! اے لوگو!۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں کو اللہ تعالیٰ کی گرفت اور ا س کے عذاب سے مسلسل ڈراتے رہیں اور ان کی طرف سے مذاق اڑانے کے طور پر جلدی عذاب نازل کرنے کے مطالبات کی وجہ سے انہیں ڈرانا مَوقوف نہ فرمائیں اور ان سے فرما دیں کہ مجھے واضح طور پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ڈر سنانے کے لئے بھیجا گیا ہے اور تمہارا مذاق اڑانا مجھے ا س سے نہیں روک سکتا۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۴۹، ۸ / ۲۳۴)
مبلغین کے لئے نصیحت:
اس میں ان تمام مسلمانوں کے لئے بھی بڑی نصیحت ہے جواسلام کے احکامات لوگوں تک پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کر نے کے اہم ترین فریضے کو انجام دے رہے ہیں ، انہیں چاہئے کہ ان کاموں کے دوران دل مضبوط رکھیں اور لوگوں کی طرف سے ہونے والی طعن و تشنیع اور طنز ومذاق کو خاطر میں نہ لائیں اور ا س وجہ سے یہ کام چھوڑ نہ دیں بلکہ اپنے پیش ِنظرصرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو رکھتے ہوئے ان کاموں کو جاری رکھیں،اور ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہدایت کی دعا کرتے رہیں ، اللہ تعالیٰ نے چاہا تو انہیں ہدایت مل جائے گی ۔
{ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: تو جو لوگ ایمان لائے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اورانہوں نے نیک اعمال کئے ان کے لیے گناہوں سے بخشش اور جنت میں عزت کی روزی ہے جو کبھی ختم نہ ہو گی اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا رد کرنے اور انہیں جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کبھی ان آیات کو جادو کہتے ہیں ، کبھی شعر اور کبھی پچھلوں کے قصے ،اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام کے ساتھ ان کا یہ مکر چل جائے گا ، وہ جہنمی ہیں ۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ۸ / ۲۳۵، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ص۷۴۳، ملتقطاً)
اس سے اشارۃًمعلوم ہوا کہ جو ضدی عالم جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرے اور سند کے طور پر قرآن مجید کی آیات پیش کرے ، وہ جہنمی ہے۔ اسی طرح مناظرہ محض اپنی جیت کے لئے کرنا جس میں حق کو ثابت کرنا اور دین کی خدمت مقصود نہ ہو، کافروں کا کام ہے جبکہ اظہار ِحق کے لئے مناظرہ کرنا انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔
{اِذَا تَمَنّٰى: جب اس نے پڑھا۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب ’’سورۂ نجم‘‘ نازل ہوئی تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسجد ِحرام میں آیتوں کے درمیان وقفہ فرماتے ہوئے بہت آہستہ آہستہ اس کی تلاوت فرمائی تاکہ سننے والے غور بھی کرسکیں اور یاد کرنے والوں کو یاد کرنے میں مدد بھی ملے ،جب آپ نے آیت ’’وَ مَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى‘‘ پڑھ کر پہلے کی طرح وقفہ فرمایا تو شیطان نے مشرکین کے کان میں اس سے ملا کر دو کلمے ایسے کہہ دیئے جن سے بتوں کی تعریف نکلتی تھی۔حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ حال عرض کیا تواس سے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رنج ہوا ،اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسلی کے لئے یہ آیت نازل فرمائی۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۲، ۶ / ۴۹)
{لِیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ فِتْنَةً: تاکہ شیطان کے ڈالے ہوئے کو فتنہ کردے۔} یعنی شیطان کولوگوں پر اپنی طرف سے کچھ ملادینے پر قدرت دینا ا س لئے ہے تاکہ اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے کلام کو ان لوگوں کیلئے فتنہ کردے اور اِبتلا و آزمائش بنا دے جن کے دلوں میں شک اور نفاق کی بیماری ہے اور جن کے دل حق قبول کرنے سے سخت ہیں اور یہ مشرکین ہیں اور بیشک مشرکین و منافقین دونوں حق کے معاملے میں دور کے جھگڑے میں پڑے ہوئے ہیں۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۳، ۶ / ۵۰)
چنانچہ جب یہ واقعہ رونما ہوا تو مشرکین منافقین شبہ میں پڑگئے مگر مخلص مومنوں کو کوئی تَرَدُّد نہ ہوا۔
{وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ: اور تاکہ جنہیں علم دیا گیا ہے وہ جان لیں ۔} ارشاد فرمایا : شیطان کو قدرت دینا اس لئے ہے تاکہ جنہیں اللہ تعالیٰ کے دین کا اور اس کی آیات کا علم دیا گیا ہے وہ جان لیں کہ اس قرآن شریف کاتمہارے رب کے پاس سے نازل ہونا حق ہے اور شیطان اس میں کسی طرح کا کوئی تَصَرُّف نہیں کر سکتا، تو وہ اس پر ایمان لا نے میں ثابت قدم رہیں اور اس کیلئے ان کے دل جھک جائیں اور بیشک اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو دینی اُمور میں سیدھی راہ کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۴، ۶ / ۵۰) مراد یہ ہے کہ شیطان کی یہ حرکت مومنوں کے ایمان کی قوت کا ذریعہ بن جاتی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ شیطان نے پچھلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی برتاوا کیا تھا اور رب عَزَّوَجَلَّ نے اس کے داؤ کو بیکار کردیا تھا۔ یہ حقانیتِ قرآن کی دلیل ہے۔
{وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ: اور کافر اس سے ہمیشہ شک میں رہیں گے۔} یعنی کافرقرآن سے یا دینِ اسلام کے بارے میں ہمیشہ شک میں رہیں گے یہاں تک کے ان پرقیامت آجائے یا انہیں موت آجائے کیونکہ موت بھی قیامت ِ صغریٰ ہے یا ان پر ایسے دن کا عذاب آئے جس میں ان کیلئے کوئی خیر نہ ہو۔اس دن سے بدر کا دن مراد ہے جس میں کافروں کے لئے کچھ کشادگی اور راحت نہ تھی اور بعض مفسرین کے نزدیک اس سے قیامت کا دن مراد ہے اور ’’اَلسَّاعَۃُ‘‘ سے قیامت آنے سے پہلے کی چیزیں مراد ہیں ۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۷۴۵)
آیت ’’وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے
(1)…اَزلی کافر کے لئے کوئی دلیل مفید نہیں ،وہ ہمیشہ شک میں گرفتار رہے گا۔
(2)… موت کے وقت، یا قیامت میں یا اللہ تعالیٰ کا عذاب دیکھ کر کفار ایمان قبول کر لیتے ہیں مگر وہ ایمان اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک معتبر نہیں ۔
{اَلْمُلْكُ یَوْمَىٕذٍ لِّلّٰهِ: اس دن بادشاہی اللہ ہی کیلئے ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن بادشاہی اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے جس کا اصلًا کوئی شریک نہیں اور وہ بادشاہی اس طرح ہے کہ اس دن کوئی شخص سلطنت کا دعویٰ بھی نہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی بادشاہ کا قانون نہ ہوگا ورنہ حقیقی بادشاہت تو آج بھی اس کی ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دن مسلمانوں اور کافروں کے درمیان فیصلہ کردے گا اوروہ فیصلہ یہ ہے کہ ایمان لانے والے اوراچھے کام کرنے والے مسلمان اللہ تعالیٰ کے فضل سے نعمتوں کے باغات میں ہوں گے اور جنہوں نے کفر کیا اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلایا ان کے لیے ان کے کفر کی وجہ سے رسواکردینے والاعذاب ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۶-۵۷، ۶ / ۵۱، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۵۶-۵۷، ص۲۸۴، ملتقطاً)
{وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور وہ جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے۔} شانِ نزول:بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے جو اَصحاب شہید ہو گئے ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کے بڑے درجے ہیں اور ہم جہادوں میں حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ رہیں گے ،لیکن اگر ہم آپ کے ساتھ رہے اور ہمیں شہادت کے بغیر موت آئی تو آخرت میں ہمارے لئے کیا ہے؟ اس پر یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی اور اس آیت میں فرمایا گیا کہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے اور اس کی رضا کے لئے عزیز و اَقارب کو چھوڑ کر وطن سے نکلے اور مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی، پھر جنگ میں یا تو شہید کردئیے گئے یا انہیں طبعی طور پر موت آ گئی تو اللہ تعالیٰ ضرور انہیں جنت کی اچھی روزی دے گا جو کبھی ختم نہ ہو گی اور بیشک اللہ تعالیٰ سب سے اچھا رزق دینے والا ہے کیونکہ وہ بے حساب رزق دیتا ہے اور جو رزق وہ دیتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی قادر نہیں ۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ:۵۸، ص۷۴۵، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۳۱۵، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۲۸۴، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۸، ۶ / ۵۲، ملتقطاً)
{لَیُدْخِلَنَّهُمْ مُّدْخَلًا یَّرْضَوْنَهٗ:وہ ضرور انہیں ایسی جگہ داخل فرمائے گا جسے وہ پسند کریں گے۔} اس سے پہلی آیت میں جن ہستیوں کے لئے جنت کی روزی کا بیان ہوا یہاں ان کی رہائش کے بارے میں بیان کیا جا رہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ضرور انہیں ایسی جگہ داخل فرمائے گا جسے وہ پسند کریں گے، وہاں ان کی ہر مراد پوری ہو گی اورانہیں کوئی ناگوار بات پیش نہ آئے گی اور بیشک اللہ تعالیٰ ہر ایک کے احوال کو جاننے والا اور قدرت کے باوجود دشمنوں کو جلد سزا نہ دے کر حلم فرمانے والا ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۳۱۵، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۹، ۶ / ۵۲، ملتقطاً)
راہِ خدا میں شہید ہونے والا ا س راہ میں طبعی موت مرنے والے سے افضل ہے:
ان آیات سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے کی نیت سے مجاہدین کے ساتھ نکلے،پھر اسے طبعی طور پر موت آ جائے تو اسے اور شہید دونوں کو جنت میں اچھا رزق دیاجائے گا، البتہ یہاں یہ بات یاد رہے کہ شہید کا مرتبہ طبعی موت مرنے والے سے بڑا ہے۔چنانچہ علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
’’راہِ خدا میں شہید ہونے والا اور اس راہ میں طبعی موت مرنے والا رزق ملنے کا وعدہ کئے جانے میں برابر ہیں لیکن وعدے میں برابری ا س بات پر دلالت نہیں کرتی کہ جو رزق انہیں عطا کیا جائے گااس کی مقدار بھی برابر ہو گی،دیگر دلائل اور ظاہر ِشریعت سے یہ ثابت ہے کہ شہید (طبعی موت مرنے والے سے) افضل ہے۔( البحر المحیط، الحج، تحت الآیۃ: ۵۸، ۶ / ۳۵۴، ملخصًا)
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں :ا س آیت میں شہید ہونے والے اور طبعی موت مرنے والے، دونوں کے لئے ایک جیسا وعدہ کیا گیا ہے کیونکہ دونوں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے اور دین کی مدد کرنے نکلے ہیں اور بعض مفسرین فرماتے ہیں ’’ راہِ خدا میں شہید ہونے والے اور طبعی موت مر جانے والے دونوں حضرات کو اچھی روزی ملے گی لیکن ا س آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ راہِ خدا میں شہید ہونے والے اور طبعی موت مرنے والے کا اجر ہر اعتبار سے برابر ہے بلکہ ان دونوں کے حال میں فرق ہونے کی بنا پر انہیں ملنے والی اچھی روزی میں بھی فرق ہو گا کیونکہ راہِ خدا میں شہید ہونے والے کو طبعی موت مرنے والے پر فضیلت حاصل ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں زخم پہنچے اوراس کا خون بہا (جبکہ طبعی موت مرنے والے کو یہ تکلیفیں برداشت نہیں کرنی پڑیں ۔) نیزشہید کے طبعی موت مرنے والے سے افضل ہونے پر کثیر دلائل موجود ہیں جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں ۔
(1)…نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کی گئی:کون سا جہاد (یعنی مجاہد) افضل ہے؟ارشاد فرمایا: ’’جس کا خون بہایا جائے اور اس کا گھوڑا زخمی کر دیا جائے۔( ابن ماجہ، کتاب الجہاد، باب القتال فی سبیل اللّٰہ، ۳ / ۳۵۸، الحدیث: ۲۷۹۴)
(2)…راہِ خدا میں شہید ہونے والاقیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ ا س کے خون سے مشک کی خوشبو آ رہی ہو گی۔( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من یجرح فی سبیل اللہ عزّ وجلّ، ۲ / ۲۵۴، الحدیث: ۲۸۰۳) جبکہ راہِ خدا میں طبعی موت مرنے والے کو یہ فضیلت حاصل نہ ہو گی۔
(3)…شہید ہونے والا شہادت کی فضیلت دیکھ لینے کی وجہ سے یہ تمنا کرے گا کہ اسے دنیا میں لوٹادیا جائے تاکہ اسے دوبارہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید کیا جائے۔( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب الحور العین وصفتہنّ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۲، الحدیث: ۲۷۹۵) لیکن طبعی موت مرنے والاایسی تمنا نہ کرے گا۔
(4)…راہِ خدا میں شہید ہونے سے (مخصوص گناہوں کے علاوہ) تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔( ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی ثواب الشہید، ۳ / ۲۴۰، الحدیث: ۱۶۴۸) اور طبعی موت مرنے والے کے لئے ایسی کوئی فضیلت وارد نہیں ہوئی۔
(5)…راہِ خدا میں شہید ہونے والے کو غسل نہیں دیا جاتا جبکہ راہِ خدا میں طبعی موت مرنے والے کو غسل دیا جاتا ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۹، ۶ / ۵۲-۵۳، ملخصاً)
{وَ مَنْ عَاقَبَ: اور جو سزا دے۔} اس سے پہلی آیت میں ان لوگوں کااجر و ثواب بیان کیاگیا جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو گئے یا انہیں طبعی طور پر موت آ گئی اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو مسلمانوں پر زیادتی کرے گا اس کے خلاف اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد فرماتا رہے گا،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان کسی ظالم کو ویسی ہی سزا دے جیسی اسے تکلیف پہنچائی گئی تھی اور بدلہ لینے میں حد سے نہ بڑھے، پھر بھی اس مسلمان پر زیادتی کی جائے تو بیشک اللہ تعالیٰ ظالم کے خلاف اس کی مدد فرمائے گا،، بیشک اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو معاف کرنے والا اور ان کی بخشش فرمانے والا ہے۔ شانِ نزول:یہ آیت ان مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی جو محرم کے مہینے کی آخری تاریخوں میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے اور مسلمانوں نے مبارک مہینے کی حرمت کے خیال سے لڑنا نہ چاہا، مگر مشرک نہ مانے اور انہوں نے لڑائی شروع کر دی، مسلمان ان کے مقابلے میں ثابت قدم رہے اور اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے خلاف مسلمانوں کی مدد فرمائی۔( البحر المحیط ، الحج ، تحت الآیۃ : ۶۰، ۶ / ۳۵۴، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۶۰، ۶ / ۵۳، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۲۱۵، ملتقطاً)
ظلم کے مطابق سزا دیناعدل و انصاف اور معاف کر دینا بہتر ہے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ جو شخص جتنا ظلم کرے اسے اتنی ہی سزا دینا عدل و انصاف ہے، لیکن ممکنہ صورت میں بدلہ لینے کی بجائے ظالم کو معاف کر دینا بہر حال بہتر اور افضل ہے کیونکہ معاف کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے، چنانچہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فر ماتا ہے: ’’فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ۪-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ‘‘(بقرہ:۱۹۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: توجو تم پر زیادتی کرے اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے تم پر زیادتی کی ہواور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰)وَ لَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ مَا عَلَیْهِمْ مِّنْ سَبِیْلٍؕ(۴۱) اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۴۲)وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ‘‘(شوری:۴۰۔۴۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔اور بے شک جس نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لیا ان کی پکڑ کی کوئی راہ نہیں ۔ گرفت صرف ان لوگوں پر ہے جولوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی پھیلاتے ہیں ،ان کے لیےدردناک عذاب ہے۔ اور بیشک جس نے صبر کیااورمعاف کر دیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں میں سے ہے۔
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک مُنادی یہ اعلان کرے گا:جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پھر دوسری بار اعلان کرے گا کہ جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے۔ مُنادی کہے گا :ان کا جو لوگوں (کی خطاؤں ) کو معاف کرنے والے ہیں ۔پھر تیسری بار مُنادی اعلان کرے گا:جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۵۴۲، الحدیث: ۱۹۹۸)
بدلہ نہ لینے سے متعلق تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت:
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں کی خطاؤں سے در گزر فرماتے اور ان کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینے کی بجائے معاف کر دیاکرتے تھے،چنانچہ حضرت ابو عبد اللہ جدلی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ مبارکہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا’’حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ طبعی طور پر فحش باتیں کرنے والے نہ تھے اور نہ ہی تَکَلُّف کے ساتھ فحش کہنے والے تھے اور آپ بازاروں میں شور کرنے والے بھی نہ تھے۔آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیا کرتے بلکہ معاف کر دیتے اور در گزر فرمایاکرتے تھے۔( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی خلق النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۳ / ۴۰۹، الحدیث: ۲۰۲۳)
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسی معاملے میں اپنی ذات کاکبھی انتقام نہیں لیا خواہ آپ کو کیسی ہی تکلیف دی گئی ہو،ہاں جب اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ تعالیٰ کے لئے (ان کا) انتقام لیا کرتے تھے۔( بخاری، کتاب المحاربین من اہل الکفر والردۃ، باب کم التعزیر والادب، ۴ / ۳۵۲، الحدیث: ۶۸۵۳)
{ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ:یہ اس لیے ہے اللہ رات کو دن کے حصے میں داخل کردیتا ہے۔} یعنی مظلوم کی مدد فرمانا اس لئے ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ جو چاہے اس پر قادر ہے اور اس کی قدرت کی نشانیاں اس سے ظاہر ہیں کہ وہ کبھی دن کو بڑھاتا، رات کو کم کر دیتا ہے اور کبھی رات کو بڑھاتا، دن کو کم کر دیتاہے، اس کے سوا کوئی اس پر قدرت نہیں رکھتاتو جو ایسا قدرت والا ہے وہ جس کی چاہے مدد فرمائے اور جسے چاہے غالب کرے۔نیز مظلوم کی مدد فرمانا اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کی باتیں سننے والا اورسب کے اعمال دیکھنے والاہے،اس سے نہ کسی کی کوئی بات پوشیدہ ہے اور نہ کسی کا کوئی عمل چھپا ہوا ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۷۴۶، طبری، الحج، تحت الآیۃ: ۶۱، ۹ / ۱۸۳، ملتقطاً)
کافروں کے غلبے سے دل تنگ نہیں ہونا چاہئے :
اس آیت میں اشارۃًفرمایاگیا کہ جیسے کبھی دن بڑے کبھی راتیں ایسے ہی کبھی کفار کا غلبہ ہوتا ہے اور کبھی مومنوں کا تسلط۔ لہٰذا کافروں کا غلبہ دیکھ کر مسلمانوں کو دل تنگ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے اَقوال، اَعمال اور اَفعال کی اصلاح کرنے میں مشغول ہونا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے صدقے مسلمانوں کو کفار پر غلبہ اور فتح ونصرت عطا فرمائے۔
{ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ: یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی حق ہے۔} یعنی یہ مدد فرمانا اس لیے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق والا ہے تو ا س کا دین حق ہے اور ا س کی عبادت کرنا بھی حق ہے اور مسلمانوں سے چونکہ اللہ تعالیٰ نے مدد کرنے کا سچا وعدہ فرمایا ہے لہٰذا یہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے مستحق ہیں اورمشرکین جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں وہی باطل ہیں اوروہ عبادت کئے جانے کا کوئی حق نہیں رکھتے اور یہ مدد فرمانا اس لیے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی قدرت سے ہر چیز پر غالب ہے، اس کی کوئی شبیہ نہیں اورنہ ہی کوئی اس کی مِثل ہے اور وہ کافروں کی منسوب کردہ ان تمام باتوں سے پاک ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں اور وہی عظمت و جلال اور بڑائی والا ہے۔(تفسیر قرطبی، الحج، تحت الآیۃ: ۶۲، ۶ / ۶۹-۷۰، الجزء الثانی عشر)
{اَلَمْ تَرَ: کیا تو نے نہ دیکھا۔} اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے والی ایک نشانی دن اور رات کو کم زیادہ کرنا ذکر کی گئی اور اب یہاں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مزید دلائل ذکر کئے جا رہے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کیا تو نے نہ دیکھا کہ خشک زمین پر جب اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کا پانی نازل فرماتا ہے تووہ نباتات سے سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ پانی کے ذریعے زمین سے نباتات نکال کر اپنے بندوں پربڑا مہربان ہے اور بارش میں تاخیر ہونے کی وجہ سے جو کچھ ان کے دلوں میں آتا ہے اس سے خبردار ہے۔(تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۶۳، ۸ / ۲۴۶، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۲۸۵، ملتقطاً)
{لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ: جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا حقیقی مالک وہی ہے اور اِ س ملکیت میں اُس کا کوئی شریک نہیں اور بیشک اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز سے بے نیاز اور اپنے اَفعال و صِفات میں تمام تعریفوں کا مستحق ہے۔( جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۲۸۵، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۶۴، ۶ / ۵۶، ملتقطاً)
{اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ: کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے تمہارے قابومیں کردیا جو کچھ زمین میں ہے۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ اپنے ان احسانات کا ذکر فرما رہا ہے جو اس نے اپنے بندوں پر فرمائے ہیں ،چنانچہ آیت کے اس حصے میں ارشاد فرمایا کہ جو کچھ زمین میں ہے اسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے قابومیں کر دیا، جیسے پتھر جیسی سخت ترین، لوہے جیسی انتہائی وزنی اور آگ جیسی انتہائی گرم چیز کو تمہارے اختیار میں دے دیا اور جانوروں کو بھی تمہارے لئے مُسَخَّر کر دیا تاکہ تم ان کا گوشت کھا سکو،ان پر سامان وغیرہ لاد سکو، ان پر سواری کر سکو اور ان سے دیگر کام لے سکو۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۶۵، ۸ / ۲۴۷)
ان سب چیزوں کاعملی مشاہدہ ہم اپنی روزمَرہ زندگی میں کرتے رہتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے اونٹ جیسے قوی ہیکل اور گائے جیسے طاقتورجانورکواس طرح لے کرجارہے ہوتے ہیں جیسے وہ بچوں کاکوئی کھلوناہو۔
{وَ الْفُلْكَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ: اور کشتی کو جو دریا میں اس کے حکم سے چلتی ہے۔} آیت کے اس حصے میں دوسرے احسان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ کشتی جو دریا میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے چلتی ہے اسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے قابو میں دے دیا اور تمہاری خاطر کشتی چلانے کے لئے ہوا اور پانی کو مُسَخَّر کر دیا۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۶۵، ۸ / ۲۴۷)
{وَ یُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى الْاَرْضِ: اور وہ آسمان کو روکے ہوئے ہے کہ کہیں زمین پر نہ گر پڑے۔} یہاں تیسرے احسان کا ذکر فرمایاکہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے آسمان کو روکے ہوئے ہے تاکہ وہ زمین پر گر نہ پڑے اور اس نے لوگوں کو جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں وہ ختم نہ ہو جائیں البتہ جب قیامت قائم ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آسمان گر جائے گا۔آیت کے آخر میں ارشاد فرمایاکہ بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا،رحم فرمانے والا ہے کہ اس نے ان کے لئے دین و دنیا کی مَنفعتوں کے دروازے کھولے اور طرح طرح کے نقصانوں سے انہیں محفوظ کیا۔( تفسیر کبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۶۵، ۸ / ۲۴۸، بیضاوی، الحج، تحت الآیۃ: ۶۵، ۴ / ۱۳۹، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۳۱۶، ملتقطاً)
{وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَحْیَاكُمْ: اور وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی۔} ارشاد فرمایا کہ تمہارا معبود وہی ہے جس نے تمہاری ماؤں کے رحموں میں بے جان نطفے سے پیدا فرما کر تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہاری عمریں پوری ہونے پر وہ تمہیں موت دے گا، پھر قیامت کے دن ثواب اور عذاب کے لئے تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا،بیشک آدمی بڑا ناشکرا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتنی نعمتوں کے باوجود اس کی عبادت سے منہ پھیرتا ہے اور بے جان مخلوق کی پوجا کرتا ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ:۶۶، ۳ / ۳۱۶، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۷۴۷، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۲۸۵، ملتقطاً)
شکر گزار اور ناشکرا بندہ:
یہاں آیت میں بڑے ناشکرے انسان سے کافر مراد ہے، البتہ عمومی طور پر دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو یہ عزت، عظمت اور شان عطا فرمائی ہے کہ پہلے اسے جمادات کے عالَم سے نباتات کے عالَم کی طرف منتقل کیا، پھر اسے جانداروں کے عالَم کی طرف منتقل کیا،پھر اسے بولنے اور کلام کرنے کی صلاحیت سے نوازا اور اسے ظاہری و معنوی نعمتیں عطا کیں اور تمام موجود چیزوں کو اس کا خادم بنایا، اس لئے ہربندے پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو ا س کی پسند اور رضا کے کاموں میں استعمال کر کے اُس کے لطف و کرم اور بے پناہ انعامات کا شکر ادا کرے۔
{لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ: ہر امت کے لیے ہم نے ایک شریعت بنا دی۔} یعنی سابقہ دین و ملت والوں میں سے ہر امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مخصوص شریعت بنائی تاکہ وہ عبادات اور دیگر معاملات میں اپنے اپنے شرعی قوانین پر عمل کریں ، تو اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے زمانے میں موجود دیگر ملتوں والے ہرگز آپ سے دین کے معاملے میں یہ گمان کر کے جھگڑا نہ کریں کہ اِن لوگوں کی بھی شریعت وہی ہے جواِن کے آباؤ اَجداد کی تھی،وہ شریعتیں منسوخ ہونے سے پہلے سابقہ لوگوں کی شریعتیں تھیں جبکہ اِس امت کی جداگانہ اور مستقل شریعت ہے اور اب قیامت تک ہر ایک کو اسی شریعت پر عمل کرنا ہے۔ اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ تمام لوگوں کواپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف بلائیں اورانہیں اُس پر ایمان لانے، اس کا دین قبول کرنے اور اس کی عبادت میں مشغول ہونے کی دعوت دیں ، بیشک آپ سیدھی راہ پر ہیں ۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۶۷، ۶ / ۵۸)
{وَ اِنْ جٰدَلُوْكَ: اور اگر وہ تم سے جھگڑیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر حق ظاہر ہونے اور حجت لازم ہونے کے بعد بھی وہ آپ سے جھگڑا کریں تو آپ ان سے وعید کے طور پر فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ان باطل کاموں کو خوب جانتا ہے جو تم کررہے ہو اور وہ تمہیں یہ کام کرنے کی سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان قیامت کے دن اس بات میں فیصلہ کردے گا جس میں تم اختلاف کررہے ہو، تو اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ حق کیا تھا اور باطل کیا ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۶۸-۶۹، ۶ / ۵۸، تفسیر کبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۶۸-۶۹، ۸ / ۲۴۹، ملتقطاً)
ہر باتونی اورجھگڑالو سے مناظرہ نہیں کرنا چاہیے:
اس سے معلوم ہوا کہ ہر باتونی اورجھگڑالو سے مناظرہ نہیں کرنا چاہیے اور یہ بات اس واقعے سے مزید مضبوط ہو جاتی ہے کہ جب شیطان نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کرنے پر دلائل پیش کئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے دلائل کا جواب نہ دیا بلکہ ا س سے فرمایا:
’’فَاخْرُ جْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌ‘‘(حجر:۳۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو جنت سے نکل جا کیونکہ تو مردود ہے۔
علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے بندوں کوبڑاعمدہ ادب سکھایاہے کہ جوشخص محض تَعَصُّب اورجھگڑاکرنے کے شوق میں تم سے مناظرہ کرناچاہے تواسے کوئی جواب نہ دواورنہ اس کے ساتھ مناظرہ کرو بلکہ اس کی تمام باتوں کے جواب میں صرف وہ بات کہہ دو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کوسکھائی ہے۔( قرطبی، الحج، تحت الآیۃ: ۶۹، ۶ / ۷۲، الجزء الثانی عشر)
{اَلَمْ تَعْلَمْ: کیا تجھے معلوم نہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ اے بندے! کیا تجھے معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ، وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور ان چیزوں میں کفار کی باتیں اور ان کے اعمال بھی داخل ہیں ، بیشک آسمانوں اور زمین کی ہر چیز ایک کتاب لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہے اور بیشک ان سب چیزوں کا علم اور تمام موجودات کو لوحِ محفوظ میں ثَبت فرمانا اللہ تعالیٰ پربہت آسان ہے۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۷۰، ۸ / ۲۵۰، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۷۰، ۶ / ۵۸، ملتقطاً)
{وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اور اللہ کے سواان کی عبادت کرتے ہیں ۔} اس آیت میں کفار کی جہالت بیان فرمائی جا رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور ان کے پاس اپنے اس فعل کی نہ کوئی عقلی دلیل ہے نہ نقلی بلکہ محض جہالت اور نادانی کی وجہ سے گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں اور جو کسی طرح بھی پوجے جانے کے مستحق نہیں اسے پوجتے ہیں ، یہ شدید ظلم ہے اور جوشرک کر کے اپنی جان پر ظلم کرتا ہے اس کا کوئی مددگار نہیں جو اسے اللہ تعالیٰ کے اُس عذاب سے بچا سکے جس کا یہ شرک کرنے کی وجہ سے مستحق ہوا۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۷۴۸، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۷۱، ۶ / ۵۹، ملتقطاً)
{وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ: اور جب ان پر ہماری روشن آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ جہالت کے ساتھ ساتھ کافروں کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے ہماری روشن آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے اور قرآنِ کریم انہیں سنایا جاتا ہے جس میں اَحکام کا بیان اور حلال و حرام کی تفصیل ہے تو تمہیں کافروں کے چہروں میں ناپسندیدگی کے آثار واضح طور پر نظر آئیں گے اور غیظ و غضب سے ان کا حال یہ ہو تا ہے کہ جو ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھتے ہیں ، انہیں لپٹ جانے پر تیار ہو جاتے ہیں ۔ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں سے فرمادیں : کیا میںتمہیں وہ چیز بتادوں جو تمہیں اُس غیظ اور ناگواری سے بھی زیادہ ناپسند ہے جو قرآنِ پاک سن کر تم میں پیدا ہوتی ہے؟ وہ جہنم کی آگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں سے اس کا وعدہ کیا ہے اور وہ کیا ہی بری پلٹنے کی جگہ ہے۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۷۲، ۸ / ۲۵۰-۲۵۱، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۷۲، ۶ / ۵۹-۶۰، ملتقطاً)
دل کا آئینہ اور مومن کی علامت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ چہر ہ دل کا آئینہ ہے کیونکہ دل کے آثار چہر ے پر نمودار ہوتے ہیں ۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت شریف سن کر چہرے پرخوشی کے آثار نمودار ہونا مومن ہونے کی علامت ہے اور حمد و نعت سن کر منہ بگاڑنا کفار کا طریقہ ہے۔
جنت اور جہنم کی طرف لے جانے والے اعمال:
یاد رہے کہ تو حید و رسالت کا اقرارکرنا افضل ترین نعمت اور اعلیٰ ترین عمل ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بندے کو ابدی سعادت حاصل ہو گی اور بندہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور ا س کی رحمت سے جنت کی عمدہ ترین نعمتوں سے لطف اندوز ہو گا جبکہ توحید و رسالت کا انکار کرنا اور کفر و شرک کا اِرتکاب کرنا ایسے بد ترین اعمال ہیں کہ ان کی وجہ سے بندہ ہمیشہ کے لئے بد بخت بن جاتا ہے اوراسے جہنم کے انتہائی درد ناک عذابات میں مبتلا ہو نا پڑے گا،لہٰذا ہر عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہ ان تمام اَقوال،اَفعال اوراَعمال سے بچے جو کفر و شرک اور توحید و رسالت کے انکار کی طرف لے جاتے ہیں اور اسے چاہئے کہ توحید و رسالت کا اقرار کرنے والوں کی صحبت اختیار کرے اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے محبت کرے، اسلام کے دئیے ہوئے احکامات پر عمل کرے اور منع کردہ کاموں سے بچے، نیز گمراہوں اور بد مذہبوں کی صحبت سے دور بھاگے اور انہیں خود سے دور رکھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ان سے بغض رکھے۔
{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ: اے لوگو!ایک مثال بیان کی گئی ہے۔}گزشتہ آیات میں بیان کیاگیاکہ بتوں کی عبادت کرنے پرمشرکین کے پاس کوئی عقلی ونقلی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ محض جہالت اوربیوقوفی کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں اور اس آیت میں ایک مثال کے ذریعے بتوں کی عبادت کا باطل ہونا بیان کیا جا رہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو!ایک مثال بیان کی گئی ہے، تو اسے کان لگا کر سنو اور اس میں خوب غور کرو،وہ مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو،ان کے عاجز اور بے قدرت ہونے کا یہ حال ہے کہ وہ ہرگز ایک انتہائی چھوٹی سی چیز مکھی بھی پیدا نہیں کرسکیں گے اگرچہ سب مکھی پیدا کرنے کے لئے جمع ہوجائیں تو عقلمند انسان کو یہ زیبا کب دیتا ہے کہ وہ ایسے عاجز اور بے قدرت کو معبود ٹھہرائے، ایسے کو پوجنا اور معبود قرار دینا کتنی انتہا درجے کی جہالت ہے !اور اگر مکھی ان سے وہ شہد و زعفران وغیرہ چھین کرلے جائے جو مشرکین بتوں کے منہ اور سروں پر ملتے ہیں اور ان پر مکھیاں بیٹھتی ہیں تو وہ بت مکھی سے شہد و زعفران چھڑا نہ سکیں گے توایسے بے بس کو خدا بنانا اور معبود ٹھہرانا کتنا عجیب اور عقل سے دور ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۳۱۷، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۲۸۶، ملتقطاً)
{ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ: کتنا کمزورہے چاہنے والااور وہ جس کو چاہا گیا۔} آیت کے اس حصے میں چاہنے والے سے بت پرست اور چاہے ہوئے سے بت مراد ہے، یا چاہنے والے سے مکھی مراد ہے جو بت پر سے شہد و زعفران کی طالب ہے اور مطلوب سے بت مراد ہے، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ طالب سے بت مراد ہے اور مطلوب سے مکھی۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۳۱۷)
اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس کی اجازت سے عاجز اور بے بس نہیں :
یاد رہے کہ اس آیت کا تعلق اللہ تعالیٰ کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے نہیں ہے، یہ عاجز اور بے بس نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اجازت اور قدرت سے مخلوق کو نفع پہنچانے اور ان سے نقصان دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں حتّٰی کہ ان میں سے بعض کو مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت بھی عطا ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمان خود قرآنِ پاک میں موجود ہے کہ
’’اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘(اٰل عمران:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میںاللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں ۔
یہ آیت بتوں کے بارے میں ہے اور اس میں ان کا عاجز اور بے بس ہونا بیان کیا گیا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اَولیاء رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِم پر چسپاں کرنا خارجیوں اور ان کی پیروی کرنے والوں کا کام ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا خارجیوں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے بدتر قرار دیتے تھے اورفرماتے تھے کہ جوآیات کفارکے بارے میں نازل ہوئی ہیں یہ ان آیات کومومنین پرچسپاں کردیتے ہیں۔( بخاری،کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین وقتالہم،باب قتل الخوارج والملحدین بعد اقامۃ الحجّۃ علیہم، ۴ / ۳۸۰)
{مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ: انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کا حق ہے۔} ارشاد فرمایا کہ جنہوں نے عاجز و بے بس اور مکھی سے بھی کمزور بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ویسی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کا حق ہے اور اس کی عظمت نہ پہچانی، حقیقی معبود وہی ہے جو کامل قدرت رکھے اور بیشک اللہ تعالیٰ قوت والا اورغلبے والا ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۷۴۹)
{اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ: اللہ فرشتوں میں سے اور آدمیوں میں سے رسول چن لیتا ہے۔} گزشتہ آیات میں توحید کابیان تھا اوراس آیت میں رسالت کابیان کیاجارہاہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرشتوں اورانسانوں میں سے جسے چاہتا ہے اسے رسالت کا منصب عطا فرما دیتا ہے۔ فرشتوں میں مثلاًحضرت جبرئیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل عَلَیْہِمُ السَّلَام اورانسانوں میں حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ۔ شانِ نزول: یہ آیت ان کفار کے رد میں نازل ہوئی جنہوں نے بشر کے رسول ہونے کا انکار کیا اور کہا تھا کہ بشر کیسے رسول ہوسکتا ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ مالک ہے جسے چاہے اپنا رسول بنائے، وہ انسانوں میں سے بھی رسول بناتا ہے اور ملائکہ میں سے بھی جنہیں چاہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۳۱۷-۳۱۸، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۷۴۹، ملتقطاً)
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر رسولوں کا چناؤ ختم ہو گیا:
یہاں ایک اہم بات یاد رہے کہ انسانوں کی ہدایت کیلئے ان میں سے ہی بعض کو منصبِ رسالت کے لئے چن لینا اللہ تعالیٰ کی قدیم عادت ہے لیکن ا س کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے بعد بھی لوگوں کو رسالت کے عظیم منصب کے لئے چنتا رہے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کیلئے جنہیں چننا تھا چن لیا اور جنہیں چن لیا وہ دائمی نبی اور رسول ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نبوت و رسالت کا منصب ختم فرما دیاہے لہٰذا ان کی تشریف آوری کے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ اختتام پزیر ہو گیا اور اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠ ‘‘(احزاب:۴۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔
اور صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بنی اسرائیل میں انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حکومت کیا کرتے تھے،جب ایک نبی کا وصال ہوتا تو دوسرا نبی ان کا خلیفہ ہوتا، (لیکن یاد رکھو!) میرے بعد ہر گز کوئی نبی نہیں ہے،ہاں عنقریب خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔( بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، ۲ / ۴۶۱، الحدیث: ۳۴۵۵)
اور سنن ترمذی میں حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’بے شک رسالت و نبوت ختم ہوگئی، تو میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ ہی نبی۔( ترمذی، کتاب الرؤیا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ذہبت النبوّۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۱، الحدیث: ۲۲۷۹)
{یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ: وہ جانتا ہے جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ دنیا کے اُمور کو بھی جانتا ہے اور آخرت کے اُمور کو بھی، یااس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے گزرے ہوئے اعمال کو بھی جانتا ہے اور آئندہ کے احوال کا بھی علم رکھتا ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۷۴۹)
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا: اے ایمان والو!رکوع اور سجدہ کرو۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو 3اَحکام دئیے ہیں ،
(1)… نمازپڑھو۔ کیونکہ نماز کے سب سے افضل ارکان رکوع اور سجدہ ہیں اور یہ دونوں نماز کے ساتھ خاص ہیں تو ان کا ذکر گویا کہ نماز کا ذکر ہے۔
(2)… اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔اس کاایک مطلب یہ ہے کہ تم اپنے رب کی عبادت کرو اور ا س کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کام کرنے کا حکم دیا ہے اور جن کاموں سے منع کیا ہے، ان سب (پر عمل کرنے کی صورت) میں اپنے رب کی عبادت کرو۔تیسرا مطلب یہ ہے کہ رکوع،سجدہ اور دیگر نیک اعمال کو اپنے رب کی عبادت کے طور پر کرو کیونکہ عبادت کی نیت کے بغیر فقط ان افعال کو کرنا کافی نہیں ۔
(3)…نیک کام کرو۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ان سے مراد صلہ رحمی کرنا اور دیگر اچھے اَخلاق ہیں۔
آیت کے آخر میں فرمایا کہ تم یہ سب کام اس مید پر کرو کہ تم جنت میں داخل ہو کر فلاح و کامیابی پاجاؤ اور تمہیں جہنم سے چھٹکارا نصیب ہو جائے۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۷۷، ۸ / ۲۵۴، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۷۴۹-۷۵۰، ملتقطاً)
نیک اعمال کس امید پر کرنے چاہئیں ؟
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندہ عبادات اور نیک اعمال ضرورکرے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے لیکن ان عبادات و نیک اعمال کی وجہ سے یہ ذہن نہ بنائے کہ اب ا س کی بخشش و مغفرت یقینی ہے بلکہ اس امید پر اخلاص کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے نیک کام کرے کہ ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس پر اپنا فضل و رحمت فرمائے گا اور اپنی رحمت سے جہنم کے عذاب سے چھٹکارا اور جنت میں داخلہ نصیب فرمائے گا۔
سورۂ حج کی آیت نمبر77سے متعلق ایک اہم شرعی مسئلہ:
یاد رہے کہ اَحناف کے نزدیک سورۂ حج کی اس آیت کو پڑھنے یا سننے سے سجدہ ِ تلاوت واجب نہیں ہوتا کیونکہ اس میں سجدے سے مراد نماز کا سجدہ ہے، البتہ اگر کسی حنفی نے شافعی مذہب سے تعلق رکھنے والے امام کی اقتدا کی اور اُس نے اِس موقع پر سجدہ کیا تو اُس کی پیروی میں مقتدی پر بھی واجب ہے۔( بہارِ شریعت، حصہ چہارم،سجدۂ تلاوت کا بیان، ۱ / ۷۲۹)
{وَ جَاهِدُوْا فِی اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ: اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا جہاد کرنے کا حق ہے۔} اس آیت میں چند باتیں ارشاد فرمائی گئیں ۔
(1)…ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو!تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں ا س کے دین کے دشمنوں کے ساتھ ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے کہ اس میں تمہاری نیت سچی اور خالص ہو اور تمہارا یہ عمل دین ِاسلام کی سر بلندی کے لئے ہو۔
(2)… اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے دین اور عبادت کیلئے منتخب فرمایاتو اس سے بڑ ارتبہ اور اس سے بڑی سعادت اور کیا ہے۔
(3)… اللہ تعالیٰ نے تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی بلکہ ضرورت کے موقعوں پر تمہارے لئے سہولت کر دی جیسے کہ سفر میں نماز قَصر کرنے اور روزہ نہ رکھنے کی اجازت دے دی اور پانی نہ پانے یا پانی کے نقصان پہنچانے کی حالت میں غسل اور وضو کی جگہ تیمم کی اجازت دی، تو تم دین کی پیروی کرو۔
(4)…تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین ایسے آسان ہے جیسے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین آسان تھا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دین میں داخل ہے۔
(5)… اللہ تعالیٰ نے پہلی کتابوں میں اور اس قرآن میں دین ِاسلام کو ماننے والوں کا نام مسلمان رکھا ہے تاکہ قیامت کے دن رسول تم پرنگہبان و گواہ ہو کہ انہوں نے تمہارے پاس خدا کا پیام پہنچا دیا اور تم دوسرے لوگوں پر گواہ ہوجاؤ کہ انہیں ان رسولوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچا دیئے۔
(6)… اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ عزت و کرامت عطا فرمائی ہے تو تم پابندی کے ساتھ نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ تعالیٰ کے دین کی رسی کومضبوطی سے تھام لو اور اس کے دین پر قائم رہو، وہ تمہارامالک و ناصرہے اور تمہارے تمام اُمور کا انتظام فرمانے والا ہے، تو وہ کتنا اچھا مولیٰ ہے اور کیا ہی اچھا مددگارہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۷۸، ۳ / ۳۱۹، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۷۵۰، ملتقطاً)
نفس و شیطان کے خلاف جہاد کرنے کی ترغیب:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے دین کے دشمنوں کے ساتھ ساتھ نفس،خواہشات اور شیطان کے خلاف جہاد کرنا بھی داخل ہے اورشیطان کی انسان دشمنی اور اس کے مقصد سے خبردار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ- اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ‘‘(فاطر:۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو اسی لیے بلاتا ہے تاکہ وہ بھی دوزخیوں میں سے ہوجائیں ۔
اور نفسانی خواہشات کی پیروی سے رکنے والے کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى‘‘(نازعات:۴۰،۴۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑےہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔
حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، کچھ لوگ جہاد سے واپسی پر حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو ئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم آگئے، خوش آمدید! اور تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آئے ہو۔انہوں نے عرض کی:بڑا جہاد کیا ہے؟ارشاد فرمایا’’بندے کا اپنی خواہشوں سے جہاد کرنا۔( الزہد الکبیر للبیہقی، فصل فی ترک الدنیا ومخالفۃ النفس، ص۱۶۵، الحدیث: ۳۷۳)
حضرت فضالہ بن عبید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مجاہد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں اپنے نفس سے لڑتا ہے۔( مسند امام احمد، مسند فضالۃ بن عبید الانصاری رضی اللہ عنہ، ۹ / ۲۴۹، الحدیث: ۲۴۰۱۳)
حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : انسان کے دشمن تین ہیں : (1)اس کی دنیا۔ (2) شیطان۔(3)نفس۔ لہٰذا دنیا سے بے رغبتی اختیار کر کے اس سے بچو،شیطان کی مخالفت کر کے ا س سے محفوظ رہو اور خواہشات کو چھوڑ دینے کے ذریعے نفس سے حفاظت میں رہو۔( احیاء علوم الدین، کتاب ریاضۃ النفس وتہذیب الاخلاق، بیان شواہد النقل من ارباب البصائر۔۔۔ الخ، ۳ / ۸۱)
اللہ اللہ کے نبی سے
فریاد ہے نفس کی بدی سے
دن بھر کھیلوں میں خاک اڑائی
لاج آئی نہ ذرّوں کی ہنسی سے
شب بھر سونے ہی سے غرض تھی
تاروں نے ہزار دانت پیسے
ایمان پہ مَوت بہتر او نفس
تیری ناپاک زندگی سے
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan