READ

Surah Al-Furqan

اَلْفُرْقَان
77 Ayaat    مکیۃ


25:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

25:1
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَ ﰳاۙ (۱)
بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے اتارا قرآن اپنے بندہ پر (ف۲) جو سارے جہان کو ڈر سنانے والا ہو (ف۳)

{تَبٰرَكَ: وہ (اللّٰہ) بڑی برکت والا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ وہ  اللہ بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے خاص بندے اور اپنے حبیب، انبیاء کے سردار، محمد ِمصطفٰی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر حق اور باطل کے درمیان فرق کر دینے والا قرآن نازل فرمایا تا کہ وہ ا س کے ذریعے تمام جہان والوں  کو  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر اس کے عذاب کا ڈر سُنانے والے ہوں ۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۱۸۷-۱۸۸)

{لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا: تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سُنانے والا ہو۔} آیت کے ا س حصے میں  حضورسید المرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت عام ہونے کا بیان ہے کہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ساری مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے،خواہ جن ہوں  یا بشر، فرشتے ہوں  یا دیگر مخلوقات، سب آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اُمتی ہیں  کیونکہ  اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کو عالم کہتے ہیں  اور اس میں  یہ سب داخل ہیں ۔

نیز مسلم شریف میں  حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَآفَّۃً ‘‘ یعنی میں  تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔( مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۶، الحدیث: ۵(۵۲۳))

علامہ علی قاری رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  اس کی شرح میں  فرماتے ہیں : ’’یعنی تمام موجودات کی طرف (رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، خواہ) جن ہوں  یا انسان یا فرشتے یا حیوانات یا جمادات۔‘‘(مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الفضائل ، باب فضائل سیّد المرسلین صلوات  اللہ و سلامہ علیہ ، الفصل الاول ، ۱۰ / ۱۴، تحت الحدیث: ۵۷۴۸)

25:2
الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا(۲)
وہ جس کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اور اس نے نہ اختیار فرمایا بچہ (ف۴) اور اس کی سلطنت میں کوئی ساجھی نہیں (ف۵) اس نے ہر چیز پیدا کرکے ٹھیک اندازہ پر رکھی،

{اَلَّذِیْ لَهٗ: وہ جس کے لیے ہے۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ کی پانچ صفات بیان ہوئی ہیں :

(1)… آسمانوں  اور زمین کی بادشاہت خالصتاً  اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔

(2)…  اللہ تعالیٰ نے اولاد اختیار نہ فرمائی۔اس میں  ان یہودیوں اور عیسائیوں  کا رَد ہے جو حضرت عزیز اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں ، مَعَاذَ  اللہ عَزَّوَجَلَّ۔

(3)… اللہ تعالیٰ کی سلطنت میں  کوئی اس کا شریک نہیں  ہے۔اس میں  بت پرستوں کا رَد ہے جو بتوں  کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔

(4)…ہر چیز کو صرف  اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا۔

 (5)…ہر چیز کو اس کے حال کے مطابق ٹھیک اندازے پر رکھا۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۳۶۶، ملخصاً)

 

25:3
وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَیْــٴًـا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَ وَ لَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا وَّ لَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّ لَا حَیٰوةً وَّ لَا نُشُوْرًا(۳)
اور لوگوں نے اس کے سوا اور خدا ٹھہرالیے (ف۶) کہ وہ کچھ نہیں بناتے اور خود پیدا کیے گئے ہیں اور خود اپنی جانوں کے برے بھلے کے مالک نہیں اور نہ مرنے کا اختیار نہ جینے کا نہ اٹھنے کا،

{وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً: اور لوگوں  نے اس کے سوا بہت سے معبود بنالئے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے جو معبود، خالق، مالک اور قادر ہونے میں  یکتا ہے، بت پرست اس کی عبادت کرنے پربتوں  کی عبادت کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں  حالانکہ وہ بت ایسے عاجز اور بے قدرت ہیں  کہ کسی شے کو پیدا ہی نہیں  کرسکتے بلکہ خود انہیں  بنایا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ سے کوئی ضَرَر دُور کرنے کی طاقت رکھتے ہیں  نہ ہی خود کو کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں ،کسی کو موت اور زندگی دینے کے مالک ہیں  نہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳، ص۷۹۵)

مسلمان ولیوں  کے مزارات کا احترام کرتے ہیں ، پوجتے ہر گز نہیں :

            یاد رہے کہ مشہور اور مُعْتَبَر تمام مفسرین نے نقصان دُور نہ کر سکنے اور نفع نہ پہنچا سکنے کا وصف بتوں  کے لئے ثابت کیا ہے کسی نے بھی ا س سے  اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے مزارات مراد نہیں  لئے،فی زمانہ بعض لوگ اس آیت سے  اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے مزارات مراد لیتے ہیں  جو کہ انتہائی غلط اور قرآنی آیات کے معنی اپنی رائے سے گھڑنے کے مُتَرَادِف ہے۔ بتوں  کے بارے میں  نازل ہونے والی آیتیں  انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یا اولیاءِ عِظام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِمْ پر چسپاں  کرنا خارجیوں  کا طریقہ ہے۔مسلمان ولیوں  کے مزارات کا احترام کرتے ہیں  پوجتے ہر گز نہیں ، احترام اور پوجنے میں  بڑا فرق ہے۔

25:4
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكُ-ﰳافْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَیْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَۚۛ-فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًاۚۛ(۴)
اور کافر بولے (ف۷) یہ تو نہیں مگر ایک بہتان جو انہوں نے بنالیا ہے (ف۸) اور اس پر اور لوگوں نے (ف۹) انہیں مدد دی ہے بیشک وہ (ف۱۰) ظلم اور جھوٹ پر آئے،

{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور کافر وں  نے کہا۔} اس سے پہلی آیات میں   اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بارے میں  کلام کیا گیا اور ا س کے بعد بت پرستوں  کا رَد کیاگیا اور اب یہاں  سے قرآنِ مجید اور نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر کفار کی طرف سے ہونے والے اعتراضات ذکر کر کے ان کا جواب دیا جا رہاہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ نضر بن حارث اور اس کے ساتھیوں  نے قرآنِ کریم کے بارے میں  کہا کہ یہ قرآن تو صرف ایک بڑا جھوٹ ہے جو رسولُ اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود بنالیا ہے اور اس پر یہودیوں  اور عداس و یسار وغیرہ اہلِ کتاب نے بھی ان کی مدد کی ہے۔  اللہ تعالیٰ نے ان کے رَد میں  ارشاد فرما یاکہ وہ یعنی نضر بن حارث وغیرہ مشرکین جو یہ بے ہودہ بات کہہ رہے ہیں ، ظلم اور جھوٹ پر آگئے ہیں  کیونکہ انہوں  نے اپنی مثل لانے سے عاجز کر دینے والے کلام کو یہودیوں  کے تعاون سے گھڑا ہوا جھوٹ کہا اور اس مقدس کلام کی طرف وہ بات منسوب کی جو اس کی شان کے لائق ہی نہیں ۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴، ۶ / ۱۸۹-۱۹۰، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۳۶۶، ملتقطاً)

25:5
وَ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِیَ تُمْلٰى عَلَیْهِ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۵)
اور بولے (ف۱۱) اگلوں کی کہانیاں ہیں جو انہوں نے (ف۱۲) لکھ لی ہیں تو وہ ان پر صبح و شام پڑھی جاتی ہیں،

{وَ قَالُوْا: اورکافروں  نے کہا۔} یعنی وہی مشرکین قرآنِ کریم کے بارے میں  یہ بھی کہتے ہیں  کہ یہ قرآن  اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں  بلکہ رستم و اسفند یار وغیرہ کے قصوں  کی طرح پہلے لوگوں  کی کہانیاں  ہیں  جو رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسی سے لکھوا لی ہیں ، کیونکہ کسی سے پڑھے ہوئے نہ ہونے کی وجہ سے یہ خود لکھ نہیں  سکتے، اس لئے دوسروں  سے لکھوا لی ہیں ،پھریہی کہانیاں  ان پر صبح و شام پڑھی جاتی ہیں  تاکہ سُن سُن کر انہیں  یاد ہو جائیں  اور جب آپ کو یاد ہو جاتی ہیں  تو وہی کہانیاں ہمیں  سُنا دیتے ہیں  اور کہتے ہیں  کہ یہ  اللہ تعالیٰ کی وحی ہے۔(خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۳۶۶، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۱۹۰، ملتقطاً)

25:6
قُلْ اَنْزَلَهُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۶)
تم فرماؤ اسے تو اس نے اتارا ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر بات جانتا ہے (ف۱۳) بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے (ف۱۴)

{قُلْ: تم فرماؤ۔}  اللہ تعالیٰ نے کفار کا رَد کرتے ہوئے فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار سے فرمادیں  کہ اس قرآن کو تو اس  اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نازل فرمایا ہے جو آسمانوں  اور زمین کی ہر بات جانتا ہے، یعنی قرآنِ کریم غیبی علوم پر مشتمل ہے اوریہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ قرآنِ پاک غیبوں  کو جاننے والے رب تعالیٰ کی طرف سے ہے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶، ص۷۹۵)

{اِنَّهٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا: بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔} یعنی اے کافرو!تم نے قرآنِ مجید کے بارے میں  جو بات کہی ا س کی وجہ سے تم  اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ہو گئے اور  اللہ تعالیٰ تمہیں  عذاب دینے پر کامل قدرت بھی رکھتا ہے لیکن اس نے تم پر مہربانی کرتے ہوئے فوری عذاب نازل نہیں  فرمایا بلکہ تمہیں  مہلت دی تاکہ تم اپنی بات سے رجوع اور  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  توبہ کر سکو،اگر تم نے ایسا کر لیا تو وہ تمہیں  بخشنے والا مہربان ہے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۱۹۰، ملخصاً)

25:7
وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِؕ-لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًاۙ(۷)
اور بولے (ف۱۵) اور رسول کو کیا ہوا کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے (ف۹۱۶ کیوں نہ اتارا گیا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کہ ان کے ساتھ ڈر سناتا (ف۱۷)

{وَ قَالُوْا: اور کافروں  نے کہا۔} اس آیت سے کفار کی جانب سے تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر ہونے والے اِعتراضات کوذکر کیا گیا ہے۔چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ قریش نے کعبہ شریف کے نزدیک جمع ہو کر یہ کہا :اس رسول کو کیا ہوا کہ یہ ہماری طرح کھانا بھی کھاتا ہے اور ہماری طرح رزق کی تلاش میں  بازاروں  میں  بھی چلتاپھرتا ہے۔ اس سے ان کافروں  کی مراد یہ تھی کہ اگر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نبی ہوتے تو نہ کھاتے، نہ بازاروں  میں  چلتے اور یہ بھی نہ ہوتا تو ان کی طرف اِن کی تائید کیلئے کوئی فرشتہ کیوں  نہ اُتاردیا گیا جو ان کے ساتھ ہوتا اور لوگوں  کوان کی اطاعت کا کہتا ہے اور نافرمانی سے ڈراتا نیز اِن کی تصدیق کرتا اور ان کی نبوت کی گواہی دیتا۔( صاوی ، الفرقان ، تحت الآیۃ : ۷ ، ۴ / ۱۴۲۵، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷، ۶ / ۱۹۱، مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۷۹۶، ملتقطاً)

25:8
اَوْ یُلْقٰۤى اِلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّاْكُلُ مِنْهَاؕ-وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا(۸)
یا غیب سے انہیں کوئی خزانہ مل جاتا یا ان کا کوئی باغ ہوتا جس میں سے کھاتے (ف۱۸) اور ظالم بولے (ف۱۹) تم تو پیروی نہیں کرتے مگر ایک ایسے مرد کی جس پر جادو ہوا (ف۲۰)

{اَوْ یُلْقٰى: یا ڈال دیا جاتا۔} اس آیت میں  رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  کفارِ قریش کی مزید بیہودہ باتیں  بیان کی گئیں  کہ انہوں  نے کہا : ان کی طرف آسمان سے کوئی خزانہ ڈال دیا جاتا اور یہ معاش کے حصول سے بے نیاز ہو جاتے، اور اگر انہیں  کوئی خزانہ نہیں  ملنا تھا تو کم از کم ان کا کوئی باغ تو ہوتا جس میں  سے یہ مالداروں  کی طرح کھاتے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۱۹۲)

 اللہ تعالیٰ کی عطا سے غیبی خزانے حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قبضہ میں  ہیں :

            یاد رہے کہ ان سب باتوں  سے کفارکا منشا یہ تھا کہ  اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کھانے پینے سے بے نیاز کیوں  نہ کردیا، یا تو انہیں  کھانا کھانے کی حاجت ہی نہ ہوتی،اگر تھی تو غیبی خزانے ان پر آجاتے جس سے انہیں  کمانے کی ضرورت نہ ہوتی، یہ بھی انہوں  نے ظاہر کے لحاظ سے کہہ دیا، ورنہ  اللہ تعالیٰ کی عطا سے حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قبضہ میں  غیبی خزانے تھے اور حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  جنتی باغوں  پر قابض بھی تھے، چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ‘‘ ہم نے آپ کو کوثر بخش دیا۔( کوثر)

             اور حضورِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود فرماتے ہیں : ’’اُعْطِیْتُ  مَفَاتِیْحَ خَزَائِنِ الْاَرْضِ‘‘ مجھے زمینی خزانوں  کی کنجیاں  عطا فرمادی گئیں ۔( بخاری، کتاب الجناءز، باب الصلاۃ علی الشہید، ۱ / ۴۵۲، الحدیث: ۱۳۴۴)

            اور فرماتے ہیں  کہ’’اگر میں  چاہوں  تو میر ے ساتھ سونے کے پہاڑ چلا کریں ۔‘‘( شرح السنہ، کتاب الفضاءل، باب تواضعہ صلی  اللہ علیہ وسلم، ۷ / ۴۰، الحدیث: ۳۵۷۷)

            اورفرماتے ہیں  کہ میں  نے (دورانِ نمازقبلہ کی دیوار میں )      جنّت دیکھی اوراس سے ایک خوشہ لینا چاہا اور اگر لے لیتا تو جب تک دنیا باقی رہتی تم اس سے کھاتے ۔( بخاری، کتاب الاذان، باب رفع البصر الی الامام فی الصلاۃ، ۱ / ۲۶۵، الحدیث: ۷۴۸)

            مگر چونکہ کفار کے سامنے ان چیزوں  کا ظہو ر نہ تھا اس لئے کفار ایسی باتیں  کہا کرتے تھے۔

{وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ: اور ظالموں  نے کہا۔} کفار کے بارے میں  مزید ارشاد فرمایا کہ انہوں نے مسلمانوں  سے کہا: تم ایک ایسے مرد کی پیروی کرتے ہو جس پر جادو ہے اور مَعَاذَ اللہ ان کی عقل ٹھکانے پر نہیں  ہے۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۸، ص۳۰۳)

            اس سے معلوم ہوا کہ کفار کو خود اپنی بات پر قرار نہ تھاکبھی حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جادوگر کہتے تھے اور کبھی کہتے کہ ان پر جادو کیا گیا ہے۔ کبھی شاعر کہتے، کبھی کاہن، وہ خود اپنے قول سے جھوٹے تھے۔

 

25:9
اُنْظُرْ كَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا۠(۹)
اے محبوب دیکھو کیسی کہاوتیں تمہارے لیے بنارہے ہیں تو گمراہ ہوئے کہ اب کوئی راہ نہیں پاتے،

{اُنْظُرْ كَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ: دیکھو تمہارے لئے کیسی مثالیں  بیان کررہے ہیں ۔} اس سے اوپر والی آیات میں  نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں بیان کی گئی کفار کی بیہودہ باتوں  کے بارے میں   اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ دیکھیں  کہ یہ کفار آپ کے بارے میں  کیسی عجیب و غریب اور عقل سے خارج باتیں  کر رہے ہیں  اور یہ باتیں  عجیب ہونے کی وجہ سے کہاوتوں  کی طرح ہیں  اور انہوں  نے آپ کے لئے کیسے احوال گھڑ لئے ہیں  جن کا واقع ہونا ہی بعید ہے۔ یہ لوگ آپ کی شان سے جاہل اور آپ کے جمال سے غافل ہیں  کہ انہوں  نے جادو کئے ہوئے اور محتاج کے ساتھ آپ کو تشبیہ دے دی حالانکہ جادو کیا ہوا اور محتاج شخص کبھی بھی رسول ہونے کی صلاحیت نہیں  رکھتا، اسی وجہ سے یہ لوگ واضح طور پر حق سے گمراہ ہو گئے اور اب انہیں  ہدایت کی کسی راہ کی طاقت نہیں  اور اپنی گمراہی سے نکلنے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۱۹۲، ملخصاً)

25:10
تَبٰرَكَ الَّذِیْۤ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۙ-وَ یَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا(۱۰)
بڑی برکت والا ہے وہ کہ اگر چاہے تو تمہارے لیے بہت بہتر اس سے کردے (ف۲۱) جنتیں جن کے نیچے نہریں بہیں اور کرے گا تمہارے لیے اونچے اونچے محل،

{اِنْ شَآءَ: اگر چاہے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ ا س بات پر قادِر ہے کہ وہ اگر چاہے تو اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تمہارے لیے کافروں  کے ان بیان کردہ خزانوں  اور باغات سے بہتر چیزیں  عطا فرما دے اور دنیا میں  ایسے باغات بنادے جن کے نیچے نہریں  جاری ہوں اور تمہارے لئے بلندو بالا محلات بنادے لیکن  اللہ تعالیٰ چونکہ اپنی مَشِیَّت اور بندوں  کی مَصلحت کے مطابق ان کے معاملات کی تدبیر فرماتا ہے اس لئے ا س کے کام پر کسی کو اعتراض کا حق حاصل نہیں ۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۳۰۳، تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۰، ۸ / ۴۳۵، ملتقطاً)

حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دنیا کے مال و دولت پر فقر کو ترجیح دی :

اس آیت سے معلوم ہو اکہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام اتنا بلند ہے کہ  اللہ تعالیٰ چاہے تو آپ کودنیا کی بڑی سے بڑی نعمتیں  اور اعلیٰ سے اعلیٰ آسائشیں  عطا فرما دے لیکن  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے دنیا کی زیب و زینت اور اس کی آسائشوں  کو پسند نہیں  فرمایا اور حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی دنیا میں  فقر کو ترجیح دی، اسی سلسلے میں 2احادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت اُمِّ سلیم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں:میں  حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک زوجہ محترمہ کے حجرے میں  تھی اور نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی اپنی زوجہ محترمہ کے پاس تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے آپ سے حاجت مند ہونے کی شکایت کی۔ آپ نے اس سے ارشاد فرمایا: ’’تم صبر کرو،خدا کی قسم!محمد (صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی آل کے پاس سات دن سے کچھ نہیں  ہے اور (ان کے گھروں  میں ) تین دن سے ہنڈیا کے نیچے آگ نہیں  جلائی گئی،  اللہ کی قسم! اگر میں   اللہ تعالیٰ سے تہامہ کے تمام پہاڑوں  کو سونا بنا دینے کا سوال کروں تو وہ ان سب پہاڑوں  کو ضرور سونا بنا دے گا۔‘‘( مجمع الزواءد، کتاب الزہد، باب فی عیش رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم والسلف، ۱۰ / ۵۸۳، الحدیث: ۱۸۲۸۶)

(2)…اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا  فرماتی ہیں : میں  نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ  اللہ تعالیٰ سے کھانا نہیں  مانگتے کہ وہ آپ کو عطا کرے؟ آپ فرماتی ہیں  کہ میں  رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بھوک کو دیکھ کر روپڑی تھی۔حضورِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا، اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں  میری جان ہے، اگر میں   اللہ تعالیٰ سے سوال کروں  کہ وہ دنیا کے پہاڑوں  کو سونے کا بناکر میرے ساتھ چلائے تو میں  زمین میں  جہاں  جاؤں   اللہ تعالیٰ وہیں  پہاڑوں  کو سونا بنا کر میرے ساتھ چلادے گا لیکن میں  نے دنیا کی بھوک کو اس کے سیر ہونے پر، دنیا کے فقر کو اس کی مالداری پر اور اس کے غم کو اس کی خوشی پر ترجیح دی ہے، اے عائشہ! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا، دنیا محمد (صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اور اِن کی آل کے لیے مناسب نہیں ۔‘‘( احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، الشطر الثانی، فضیلۃ الزہد، ۴ / ۲۷۳)

25:11
بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ- وَ اَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًاۚ(۱۱)
بلکہ یہ تو قیامت کو جھٹلاتے ہیں، اور جو قیامت کو جھٹلائے ہم نے اس کے لیے تیار کر رکھی ہے بھڑکتی ہوئی آگ،

{بَلْ: بلکہ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان کافروں  نے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں  گستاخیاں  ہی نہیں  کیں  بلکہ انہوں  نے قیامت کو بھی جھٹلایا ہے اور ہم نے قیامت کو جھٹلانے والوں  کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۷۹۶، ملخصاً)

{اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۭ بَعِیْدٍ: جب وہ آگ انہیں  دُور کی جگہ سے دیکھے گی۔} ارشاد فرمایا کہ جب وہ بھڑکتی ہوئی آگ انہیں  دُور کی جگہ سے دیکھے گی تو اس قدر جوش مارے گی کہ کافر اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑنا سُنیں  گے۔ دُور کی جگہ سے مراد ایک برس کی راہ ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک سو برس کی راہ مراد ہے اور آگ کا دیکھنا کچھ بعید نہیں ،  اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کو حیات، عقل اور دیکھنے کی صلاحیت عطا فرمادے۔ بعض مفسرین کے نزدیک ا س سے جہنم میں  مامور فرشتوں  کا دیکھنا مراد ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۳۶۷)

{وَ اِذَاۤ اُلْقُوْا: اور جب انہیں  ڈالا جائے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ان کفار کو اس آگ کی کسی تنگ جگہ میں جوانتہائی کرب و بے چینی پیدا کرنے والی ہو، زنجیروں  میں  جکڑکر اس طرح ڈالا جائے گا کہ اُن کے ہاتھ گردنوں  سے ملا کر باندھ دیئے گئے ہوں  یا اس طرح کہ ہرہر کافر اپنے اپنے شیطان کے ساتھ زنجیروں  میں  جکڑا ہوا ہو، تو وہ وہاں  موت مانگیں  گے اور ’’وَاثَبُوْرَاہْ، وَاثَبُوْرَاہْ‘‘ یعنی ہائے! اے موت آجا، کا شور مچائیں  گے اور اس وقت ان سے فرمایا جائے گا:آج ایک موت نہ مانگو اور بہت سی موتیں  مانگو کیونکہ تم طرح طرح کے عذابوں  میں  مبتلا کئے جاؤ گے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ص۷۹۶-۷۹۷)

            حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے پہلے جس شخص کو آتشی لباس پہنایا جائے گا وہ ابلیس ہے اور اس کی ذُرِّیَّت اس کے پیچھے ہوگی اور یہ سب موت موت پکارتے ہوں  گے۔‘‘ ان سے کہا جائے گا: ’’آج ایک موت نہ مانگو بلکہ بہت سی موتیں  مانگو۔‘‘( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب ذکر النار، ما ذکر فیما اعدّ لاہل النار وشدّتہ، ۸ / ۹۹، الحدیث: ۵۲)

 

25:12
اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۭ بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّ زَفِیْرًا(۱۲)
جب وہ انہیں دور جگہ سے دیکھے گی (ف۲۲) تو سنیں گے اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑنا،

25:13
وَ اِذَاۤ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًاؕ(۱۳)
اور جب اس کی کسی تنگ جگہ میں ڈالے جائیں گے (ف۲۳) زنجیروں میں جکڑے ہوئے (ف۲۴) تو وہاں موت مانگیں گے (ف۲۵)

25:14
لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّ ادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا(۱۴)
فرمایا جائے گا آج ایک موت نہ مانگو اور بہت سی موتیں مانگو (ف۲۶)

25:15
قُلْ اَذٰلِكَ خَیْرٌ اَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَؕ-كَانَتْ لَهُمْ جَزَآءً وَّ مَصِیْرًا(۱۵)
تم فرماؤ کیا یہ (ف۲۷) بھلا یا وہ ہمیشگی کے باغ جس کا وعدہ ڈر والوں کو ہے، وہ ان کا صلہ اور انجام ہے،

{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمائیں  کہ کیا جہنم کا عذاب اور ا س کی ہولناکیاں  جن کا ذکر کیا گیا،یہ بہتر ہیں  یا وہ ہمیشہ رہنے کا باغ جس کا  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے عذاب سے ڈرنے والوں  کو وعدہ دیا گیا ہے، وہ باغ  اللہ تعالیٰ کے علم میں  اور اس کے کرم کے مطابق ان کے لئے اعمال کا بدلہ اور وہ جگہ ہے جس کی طرف یہ لوٹ کر جائیں  گے۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۳۰۳، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۱۹۵-۱۹۶، ملتقطاً)

25:16
لَهُمْ فِیْهَا مَا یَشَآءُوْنَ خٰلِدِیْنَؕ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْـُٔوْلًا(۱۶)
ان کے لیے وہاں من مانی مرادیں ہیں جن میں ہمیشہ رہیں گے، تمہارے رب کے ذمہ وعدہ ہے مانگا ہوا، ف۲۸)

{لَهُمْ: ان کے لیے۔} یعنی جنتیوں  کے لئے جنت میں  ان کے مرتبے کے مطابق ہر وہ نعمت اور لذت ہو گی جو وہ چاہیں گے اور وہ جنت میں  ہمیشہ رہیں  گے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶ / ۱۹۶)

{كَانَ عَلٰى رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْـُٔوْلًا: یہ تمہارے رب کے ذمہ کرم پر مانگا ہوا وعدہ ہے۔} مانگے ہوئے وعدے سے مراد یہ ہے کہ وہ وعدہ مانگنے کے لائق ہے یا اس سے مراد وہ وعدہ ہے جو مؤمنین نے دنیا میں  یہ عرض کرکے مانگا: ’’ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً‘‘ یعنی اے ہمارے رب!ہمیں  دنیا میں  بھلائی عطا فرما اور ہمیں  آخرت میں  (بھی) بھلائی عطا فرما۔ یا یہ عرض کر کے مانگا: ’’رَبَّنَا  وَ  اٰتِنَا  مَا  وَعَدْتَّنَا  عَلٰى  رُسُلِكَ ‘‘ یعنی اے ہمارے رب! اور ہمیں  وہ سب عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں  کے ذریعے ہم سے وعدہ فرمایا ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۳۶۸)

25:17
وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَقُوْلُ ءَاَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ هٰۤؤُلَآءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَؕ(۱۷)
اور جس دن اکٹھا کرے گا انہیں (ف۲۹) اور جن کوا لله کے سوا پوجتے ہیں (ف۳۰) پھر ان معبودو ں سے فرمائے گا کیا تم نے گمراہ کردیے یہ میرے بندے یا یہ خود ہی راہ بھولے (ف۳۱)

{وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ: اور جس دن انہیں  اکٹھا کرے گا۔} یعنی جس دن  اللہ تعالیٰ مشرکین کو اور ان کے باطل معبودوں  کو جن کی یہ  اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کیا کرتے تھے، جمع فرمائے گا تو ان معبودوں  سے فرمائے گا: کیا میرے بندوں  کو تم نے گمراہ کیا تھا یا یہ خود ہی ہدایت کے راستے سے بھٹکے تھے؟  اللہ تعالیٰ حقیقتِ حال کا جاننے والا ہے اس سے کچھ بھی مخفی نہیں ، یہ سوال مشرکین کو ذلیل کرنے کے لئے ہے تاکہ اُن کے معبود انھیں  جھٹلائیں  تو اُن کی حسرت و ذلت اور زیادہ ہو۔ باطل معبودوں  سے عام معبودمراد ہیں  چاہے وہ ذَوِی الْعُقُول ہوں  یا غیر ذَوِی الْعُقُول،جبکہ کلبی نے کہا کہ اِن معبودوں  سے بُت مراد ہیں ، انہیں   اللہ تعالیٰ بولنے کی قوت دے گا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۷۹۷)

25:18
قَالُوْا سُبْحٰنَكَ مَا كَانَ یَنْۢبَغِیْ لَنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ مِنْ دُوْنِكَ مِنْ اَوْلِیَآءَ وَ لٰكِنْ مَّتَّعْتَهُمْ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى نَسُوا الذِّكْرَۚ-وَ كَانُوْا قَوْمًۢا بُوْرًا(۱۸)
وہ عرض کریں گے پاکی ہے تجھ کو (ف۳۲) ہمیں سزاوار (حق) نہ تھا کہ تیرے سوا کسی اور کو مولیٰ بنائیں (ف۳۳) لیکن تو نے انہیں اور ان کے باپ داداؤں کو برتنے دیا (ف۳۴) یہاں تک کہ وہ تیری یاد بھول گئے اور یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے والے (ف۳۵)

{قَالُوْا: وہ عرض کریں  گے۔} یعنی وہ باطل معبود عرض کریں  گے :اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تو ا س سے پاک ہے کہ کوئی تیرا شریک ہو، خودہمارے لئے ہر گز جائز نہیں  تھا کہ ہم تیرے سوا کسی اور کومددگاربنائیں  تو کیا ہم کسی دوسرے کو تیرے غیر کو معبود بنانے کا حکم دے سکتے تھے؟ ہم تیرے بندے ہیں ،لیکن تو نے انہیں  اور ان کے باپ داداؤں  کو دنیاسے فائدہ اُٹھانے کا موقع دیا اور انہیں  اموال، اولاد، لمبی عمر، صحت و سلامتی عنایت کی یہاں  تک کہ یہ غفلت میں  پڑے اورانہوں  نے تیری یاد کو بھلا دیا اور تیری نعمتوں  کو یاد کرنا اور تیری آیتوں  میں  غورو تَدَبُّر کرنا چھوڑ دیا اور انہوں  نے اپنے بُرے اختیار کی وجہ سے ہدایت کے اسباب کو گمراہی اور سرکشی کا ذریعہ بنا لیا اور یہ لوگ تیری اَزَلی قَضَا میں  ہلاک ہونے والے ہی تھے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۳۶۸-۳۶۹، مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۸، ۷۹۷-۷۹۸، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶ / ۱۹۷، ملتقطاً)

25:19
فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَۙ-فَمَا تَسْتَطِیْعُوْنَ صَرْفًا وَّ لَا نَصْرًاۚ-وَ مَنْ یَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِیْرًا(۱۹)
تو اب معبودوں نے تمہاری بات جھٹلادی تو اب تم نہ عذاب پھیرسکو نہ اپنی مدد کرسکو اور تم میں جو ظالم ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے،

{ فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَ: پس بیشک انہوں  نے تمہاری بات کو جھٹلادیا۔} جب کفار کے باطل معبود جواب دے لیں  گے تو  اللہ تعالیٰ مشرکوں  سے فرمائے گا:اے مشرکو! تم نے اپنے معبودوں  کو خداکہا اور انہوں  نے تمہیں  جھوٹا کر دیا اب یہ بت نہ تمہاری مدد کر سکیں  گے، نہ ہم کریں  گے اورنہ تم ایک دوسرے کی مدد کر سکو گے اور تم میں  جو ظالم یعنی کافر اور کافر گر ہے ہم اسے جہنم کا بڑا عذاب چکھائیں  گے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۹، ۶ / ۱۹۸، ملخصاً)

25:20
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ یَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِؕ-وَ جَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةًؕ-اَتَصْبِرُوْنَۚ-وَ كَانَ رَبُّكَ بَصِیْرًا۠(۲۰)
اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب ایسے ہی تھے کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے (ف۳۶) اور ہم نے تم میں ایک کو دوسرے کی جانچ کیا ہے (ف۳۷) اور اے لوگو! کیا تم صبر کرو گے (ف۳۸) اور اے محبوب! تمہارا رب دیکھتا ہے (ف۲۹)

{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ: اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے۔} اس آیت میں  کفار کے اس طعن کا جواب دیا گیاہے جو اُنہوں  نے سید المرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کیا تھا کہ وہ بازاروں  میں  چلتے ہیں  اور کھانا کھاتے ہیں ، یہاں  بتایا گیا کہ یہ اُمور نبوت کے مُنافی نہیں  بلکہ یہ تمام انبیاء عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مستقل عادت تھی لہٰذا یہ اعتراض محض جہالت اور عِناد پر مبنی ہے۔

{وَ جَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً: اور ہم نے تمہیں  ایک دوسرے کیلئے آزمائش بنایا۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  تین قول ہیں :

(1)… امیر لوگ جب اسلام لانے کاارادہ کرتے تھے تو وہ غریب صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کو دیکھ کر یہ خیال کرتے کہ یہ ہم سے پہلے اسلام لاچکے اس لئے انہیں  ہم پر ایک فضیلت رہے گی۔اس خیال سے وہ اسلام قبول کرنے سے باز رہتے اور امیروں  کے لئے غریب صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ آزمائش بن جاتے۔

(2)… یہ آیت ابوجہل، ولید بن عقبہ، عاص بن وائل سہمی اور نضر بن حارث کے بارے میں  نازل ہوئی، ان لوگوں  نے حضرت ابو ذر، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عمار بن یاسر، حضرت بلال، حضرت صہیب اور حضرت عامر بن فُہَیرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کو دیکھا کہ پہلے سے اسلام لائے ہیں  تو غرور سے کہا کہ ہم بھی اسلام لے آئیں  تو اُنہیں  جیسے ہوجائیں  گے توہم میں  اور ان میں  فرق کیا رہ جائے گا۔

(3)… یہ آیت مسلمان فقراء کی آزمائش میں  نازل ہوئی جن کا کفارِ قریش مذاق اُڑایاکرتے تھے اور کہتے تھے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرنے والے یہ لوگ ہیں  جو ہمارے غلام اور اَرذَل ہیں ۔  اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور اُن مؤمنین سے فرمایا: ’’کیا تم اس فقر و شدت پر اور کفار کی اس بدگوئی پرصبر کرو گے اور اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ اس کو خوب دیکھنے والاہے جو صبر کرے اور اس کو بھی جو بے صبری کرے۔‘‘( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۳۶۹)

غربت  اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیا کا مال نہ ہونا اور غربت کا شکار ہونا  اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش ہے، ایسے موقع پر صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑنا چاہئے، اس جگہ ہم 3 ایسی احادیث ذکر کرتے ہیں  کہ اگر غریب اور مَفلوکُ الْحال مسلمان ان پر عمل کر لیں  تو اِنْ شَاءَ  اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں  صبر و قرار نصیب ہو جائے گا۔

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں  سے کوئی شخص ا س کی طرف دیکھتا ہے جس کو اس پر مال اور شکل و صورت میں  فضیلت حاصل ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے سے کم درجے والے کی طرف دیکھے جس پر اسے فضیلت حاصل ہے۔‘‘( مسلم، کتاب الزہد والرقاءق، ص۱۵۸۴، الحدیث: ۸(۲۹۶۳))

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے سے کم حیثیت والے کی طرف دیکھو اور جو تم سے زیادہ حیثیت کا ہے اس کی طرف نہ دیکھو کیونکہ یہ عمل اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم (اپنے اوپر)  اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  کو حقیر نہ جانو۔‘‘( مسلم، کتاب الزہد والرقاءق، ص۱۵۸۴، الحدیث: ۹(۲۹۶۳))

(3)…حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دو باتیں  ایسی ہیں  جس میں  وہ پائی جائیں  تو  اللہ تعالیٰ اسے صابر و شاکر لکھتا ہے اور جس میں  یہ دونوں  خصلتیں  نہ ہوں  اسے  اللہ تعالیٰ صابر و شاکر نہیں  لکھے گا۔ (۱)جو شخص دینی معاملات میں  اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور اس کی پیروی کرے۔ (۲)دُنیوی اُمور میں  اپنے سے نیچے والے کی طرف دیکھے اور  اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کرے کہ اسے اس پر فضیلت دی۔ اور جو آدمی دینی اُمور میں  اپنے سے نیچے والے کی طرف اور دُنیوی اُمور میں  اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور ا س پر افسوس کرے جو اسے نہیں  ملا تو  اللہ تعالیٰ اسے صابر و شاکر نہیں  لکھتا۔‘‘( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۵۸-باب، ۴ / ۲۲۹، الحدیث: ۲۵۲۰)

              اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں  کو ان احادیث پر عمل کرنے اور غربت و مسکینی کی حالت میں  صبر و شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

 

25:21
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓىٕكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَاؕ-لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا(۲۱)
اور بولے وہ جو (ف۴۰) ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے ہم پر فرشتے کیوں نہ اتارے (ف۴۱) یا ہم اپنے رب کو دیکھتے (ف۴۲) بیشک اپنے جی میں بہت ہی اونچی کھینچی (سرکشی کی) اور بڑی سرکشی پر آئے (ف۴۳)

{وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا: اورجو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں  رکھتے انہوں  نے کہا۔} اس آیت سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا انکار کرنے والوں  کے مزید اعتراضات ذکر کر کے ا ن کا رد کیا گیا ہے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے ’’کفار جو کہ قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے اور حشر نشر کو نہیں  مانتے، اسی لئے وہ قیامت کے دن والی ہماری ملاقات کی امید نہیں  رکھتے، وہ کہتے ہیں  کہ ہمارے لئے رسول بنا کر یارسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت و رسالت کے گواہ بنا کر ہم پر فرشتے کیوں  نہ اتارے گئے ؟یا ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو کیوں  نہیں  دیکھتے جو ہمیں  خود بتا دے کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے رسول ہیں  اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ بیشک انہوں  نے اپنے دلوں  میں  تکبر کیا اور اُن کا تکبر انتہا کو پہنچ گیا ہے اور انہوں  نے بہت بڑی سرکشی کی اور وہ سرکشی میں  حد سے گزر گئے ہیں  کہ معجزات کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی فرشتوں  کے اپنے اوپر اترنے اور اللہ تعالٰی کو دیکھنے کا سوال کر رہے ہیں۔(ابوسعود، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۱۲۹، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۱، ۶ / ۱۹۹-۲۰۰، ملتقطاً)

25:22
یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰٓىٕكَةَ لَا بُشْرٰى یَوْمَىٕذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ وَ یَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا(۲۲)
جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے (ف۴۴) وہ دن مجرموں کی کوئی خوشی کا نہ ہوگا (ف۴۵) اور کہیں گے الٰہی ہم میں ان میں کوئی آڑ کردے رکی ہوئی (ف۴۶)

{یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰٓىٕكَةَ: یاد کروجس دن لوگ فرشتوں  کو دیکھیں  گے۔} یعنی لوگ اپنی موت کے وقت روح نکالنے والے فرشتوں  کو اِس حال میں  دیکھیں  گے یا قیامت کے دن عذاب دینے پر مامور فرشتوں  کو اس حال میں  دیکھیں  گے کہ وہ ان سے کہہ رہے ہوں  گے’’اس دن مجرموں  کیلئے کوئی خوشخبری نہ ہوگی۔( بیضاوی، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۲۱۳، جلالین مع صاوی، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۱۴۳۲، ملتقطاً)

            یاد رہے کہ اس آیت میں  مجرموں  سے مرادکفار ہیں ، مومنین کو قیامت کے دن جنت کی بشارت سنائی جائے گی،جیساکہ ارشادِ باری تعالٰی ہے:

’’یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ‘‘( حدید:۱۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: جس دن تم مومن مردوں  اورایمان  والی عورتوں  کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں  جانب دوڑرہا ہے (فرمایا جائے گا کہ) آج تمہاری سب سے زیادہ خوشی کی بات وہ جنتیں  ہیں  جن کے نیچے نہریں   بہتی ہیں  تم ان میں  ہمیشہ رہو، یہی بڑی کامیابی ہے۔

{وَ یَقُوْلُوْنَ: اوروہ کہیں  گے۔} ا س آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ قیامت کے دن کفار جب فرشتوں  کو دیکھیں  گے تو وہ فرشتوں  سے پناہ چاہتے ہوئے کہیں  گے:اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہمارے اور ان فرشتوں  کے درمیان کوئی روکی ہوئی آڑ کردے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۲، ۶ / ۲۰۱) دوسری تفسیر یہ ہے،حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا  نے فرمایا: ’’فرشتے (ان کفار سے) کہیں  گے کہ مومن کے سوا کسی کے لئے جنت میں  داخل ہونا حلال نہیں ۔ (تو کافروں  اور جنت کے درمیان روکی ہوئی آڑ ہے۔)( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۳۷۰) اسی لئے وہ دِن کفار کے لئے انتہائی حسرت و ندامت اور رنج وغم کا دن ہوگا۔

 

25:23
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا(۲۳)
اور جو کچھ انہوں نے کام کیے تھے (ف۴۷) ہم نے قصد فرماکر انہیں باریک باریک غبار، کے بکھرے ہوئے ذرے کردیا کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں (ف۴۸)

{فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا: تو ہم اسے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں  کی طرح بنادیں  گے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار نے کفر کی حالت میں  جو کوئی ظاہری اچھے عمل کیے ہوں  گے جیسے صدقہ، صلہ رحمی، مہمان نوازی اور یتیموں  کی پرورش وغیرہ، اللہ تعالٰی ان کی طرف قصد کرکے روشندان کی دھوپ میں  نظر آنے والے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں  کی طرح انہیں  بے وقعت بنادے گا۔ مراد یہ ہے کہ وہ اعمال باطل کردیئے جائیں  گے، ان کا کچھ ثمرہ اور کوئی فائدہ نہ ہو گاکیونکہ اعمال کی مقبولیت کے لئے ایمان شرط ہے اور وہ انہیں  مُیَسَّر نہ تھا۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۳۰۴-۳۰۵، ملخصاً)

قیامت کے دن کچھ مسلمانوں  کے اعمال بے وقعت کر دئیے جائیں  گے:

            اس آیت میں  قیامت کے دن کفار کے اعمال باطل ہونے کا ذکرکیا گیا ہے جبکہ اَحادیث میں  بعض ایسے مومنین کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن کے اعمال قیامت کے دن بے وقعت کر دئیے جائیں  گے۔ چنانچہ اس سلسلے میں  یہاں  دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں  اپنی امت میں  سے ان لوگوں کو جانتا ہوں  کہ جب وہ قیامت کے دن آئیں  گے تو ان کی نیکیاں  تہامہ کے پہاڑوں  کی مانند ہوں  گی لیکن اللہ تعالٰی انہیں  روشندان سے نظر آنے والے غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح (بے وقعت) کر دے گا۔حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے سامنے ان لوگوں  کا صاف صاف حال بیان فرما دیجئے تاکہ ہم جانتے ہوئے ان لوگوں  میں  شریک نہ ہو جائیں ۔سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’وہ تمہارے بھائی، تمہارے ہم قوم ہوں  گے، راتوں  کو تمہاری طرح عبادت کیا کریں  گے، لیکن وہ لوگ تنہائی میں  برے اَفعال کے مُرتکب ہوں  گے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب، ۴ / ۴۸۹، الحدیث: ۴۳۴۵)

(2)…حضرت ابو حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالِم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن کچھ لوگ ایسے آئیں  گے کہ ان کے پاس تہامہ کے پہاڑوں  کے برابر نیکیاں  ہو ں  گی،یہاں  تک کہ جب انہیں  لایا جائے گا تو اللہ تعالٰی ان کے اعمال کو روشندان سے نظر آنے والے غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح (بے وقعت) کر دے گا،پھر انہیں  جہنم میں  ڈال دے گا۔ حضرت سالِم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ماں  باپ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر قربان ہو جائیں ! ہمیں  ان لوگوں  کا حال بتا دیجئے ؟ارشاد فرمایا:’’وہ لوگ نماز پڑھتے ہوں  گے، روزے رکھتے ہوں  گے، نیند سے بیدار ہو کر راتوں  کو قیام کرتے ہوں  گے لیکن جب ان کے سامنے کوئی حرام چیز پیش کی جائے تو وہ اس پر کود پڑتے ہوں  گے، تو اللہ تعالٰی ان کے اعمال باطل فرما دے گا۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، سالم مولی ابی حذیفۃ، ۱ / ۲۳۳، الحدیث: ۵۷۵)

            اللہ تعالٰی ہمیں  اپنی اصلاح کرنے اور قیامت کے دن اعمال باطل ہوجانے والوں  میں  شامل ہونے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔

 

25:24
اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ یَوْمَىٕذٍ خَیْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَّ اَحْسَنُ مَقِیْلًا(۲۴)
جنت والوں کا اس دن اچھا ٹھکانا (ف۴۹) اور حساب کے دوپہر کے بعد اچھی آرام کی جگہ،

{اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ: جنت والے۔} اس سے پہلی آیات میں  کفار کے کامل خسارے اور مکمل طور پر ناکامی کا ذکر کیا گیا، اب اس آیت میں  قیامت کے دن اہلِ جنت پر ہونے والے انعامات کا ذکر کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ اُخروی کامیابی صرف اللہ تعالٰی کی اطاعت کرنے میں  ہے۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جنت والے یعنی مومنین قیامت کے دن ان مغرور، متکبر مشرکوں  کے مقابلے میں  ٹھکانے کے اعتبار سے بہتر اور آرام کے اعتبار سے سب سے اچھے ہوں  گے۔( تفسیرکبیر ، الفرقان ، تحت الآیۃ : ۲۴ ،  ۸ / ۴۵۱ ، خازن ، الفرقان ، تحت الآیۃ : ۲۴، ۳ / ۳۷۰، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۴، ۶ / ۲۰۲، ملتقطاً)

25:25
وَ یَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ وَ نُزِّلَ الْمَلٰٓىٕكَةُ تَنْزِیْلًا(۲۵)
اور جس دن پھٹ جائے گا آسمان بادلوں سے اور فرشتے اتارے جائیں گے پوری طرح (ف۵۰)

{وَ یَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ: اور جس دن آسمان بادلوں  سمیت پھٹ جائے گا۔} حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’(جب قیامت قائم ہو گی تو اس دن) پہلے آسمانِ دنیا پھٹے گا اور وہاں  کے رہنے والے فرشتے زمین پر اتریں  گے اور ان کی تعداد زمین کے جن و اِنس سب سے زیادہ ہو گی، پھر دوسرا آسمان پھٹے گا اوروہا ں  کے رہنے والے فرشتے اتریں  گے، وہ آسمانِ دنیا کے رہنے والوں  سے اور جن واِنس سب سے زیادہ ہیں ، اسی طرح آسمان پھٹتے جائیں  گے اور ہر آسمان والوں  کی تعداد اپنے ماتحتوں  سے زیادہ ہے یہاں  تک کہ ساتواں  آسمان پھٹے گا، پھر کرّوبین (یعنی فرشتوں  کے سردار) اتریں  گے، پھر عرش اٹھانے والے فرشتے اتریں  گے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۳۷۰)

 

25:26
اَلْمُلْكُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِؕ-وَ كَانَ یَوْمًا عَلَى الْكٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا(۲۶)
اس دن سچی بادشاہی رحمن کی ہے، اور وہ دن کافروں پر سخت ہے (ف۵۱)

{اَلْمُلْكُ: بادشاہی۔} یعنی قیامت کے دن سچی بادشاہی رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کی ہوگی اور ا س دن اللہ تعالٰی کے علاوہ کوئی بادشاہ نہ ہوگا اور وہ دن کافروں  پر بڑا سخت اور انتہائی شدید ہوگا۔

اللہ تعالٰی کے فضل سے قیامت کا دن مسلمانوں  پر آسان ہو گا:

            علامہ علی بن محمد خازن  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت سے ثابت ہو اکہ اللہ تعالٰی کے فضل سے قیامت کا دن مسلمانو ں  پر آسان ہو گا۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۳۷۱)

            احادیث میں  بھی قیامت کا دن مسلمانوں  پر آسان ہونے کے بارے میں  بیان کیا گیا ہے،چنانچہ یہاں  اس سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  عرض کی گئی کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کی مقدار کے برابر ہو گا تو یہ دن کتنا طویل ہو گا! نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں  میری جان ہے ! قیامت کا دن مسلمانوں  پر آسان کیا جائے گا یہاں  تک کہ وہ اُن کے لئے ایک فرض نماز سے ہلکا ہوگا جو دنیا میں  پڑھی تھی۔( مسند امام حمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، ۴ / ۱۵۱، الحدیث: ۱۱۷۱۷)

(2)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن لوگ سب جہانوں  کے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور اس دن کے نصف تک کھڑے ہوں  گے جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، مسلمانوں  کے لئے وہ دن اتنا آسان گزرے گا جتنا وقت سورج کے غروب کی طرف مائل ہونے سے لے کر ا س کے غروب ہونے تک لگتا ہے۔( مسند ابو یعلی، مسند ابی ہریرۃ، ۵ / ۳۰۸، الحدیث: ۵۹۹۹)

 

25:27
وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا(۲۷)
اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا چبا لے گا (ف۵۲) کہ ہائے کسی طرح سے میں نے رسول کے ساتھ راہ لی ہوتی، (ف۵۳)

{وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ: اور جس دن ظالم اپنے ہاتھوں  پر کاٹے گا۔} ارشاد فرمایا کہ وہ وقت یاد کریں  جس دن ظالم حسرت و ندامت کی وجہ سے اپنے ہاتھوں  پر کاٹے گا اورکہے گا : اے کاش کہ میں  نے رسول کے ساتھ جنت و نجات کاراستہ اختیار کیا ہوتا، ان کی پیروی کیا کرتا اور ان کی ہدایت کو قبول کیا ہوتا۔

            یہ حال اگرچہ کفار کے لئے عام ہے مگر عقبہ بن ابی معیط سے اس کا خاص تعلق ہے۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ عقبہ بن ابی معیط اُبی بن خلف کا گہرا دوست تھا، حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ارشاد فرمانے سے اُس نے لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کی شہادت دی اور اس کے بعد اُبی بن خلف کے زور ڈالنے سے پھر مُرتَد ہوگیا، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے قتل ہوجانے کی خبر دی، چنانچہ وہ بدر میں  مارا گیا۔ اس کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی کہ قیامت کے دن اس کو انتہا درجہ کی حسرت و ندامت ہوگی اوراس حسرت میں  وہ اپنے ہاتھوں  کو کاٹنے لگے گا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۸۰۰، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۳۷۱، ملتقطاً)

25:28
یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸)
وائے خرابی میری ہائے کسی طرح میں نے فلانے کو دوست نہ بنایا ہوتا،

{یٰوَیْلَتٰى: ہائے میری بربادی!} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کافر کہے گا: ’’ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں  نے فلاں  کو دوست نہ بنایا ہوتاجس نے مجھے گمراہ کر دیا۔ بیشک اس نے اللہ تعالٰی کی طرف سے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس نصیحت یعنی قرآن اور ایمان سے بہکا دیا اور شیطان کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ انسان کو مصیبت کے وقت بے یارو مددگار چھوڑ دیتا ہے اور جب انسا ن پربلاو عذاب نازل ہوتا ہے تو اس وقت اس سے علیحدگی اختیار کرلیتا ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۸-۲۹، ۳ / ۳۷۱، ملخصاً)

 بری صحبت اور دوستی سے بچنے کی ترغیب:

            اس سے معلوم ہو اکہ بد مذہبوں  اور برے لوگوں  کی صحبت اختیار کرنا،انہیں  اپنا دوست بنانا اور ان سے محبت کرنادنیا اور آخرت میں  انتہائی نقصان دِہ ہے۔ اَحادیث میں  بری صحبت اور دوستی سے بچنے کی بہت تاکید کی گئی ہے، چنانچہ ترغیب کے لئے یہاں  اس سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’برے ہم نشین سے بچو کہ تم اسی کے ساتھ پہچانے جاؤ گے۔( ابن عساکر ، ذکر من اسمہ الحسین ، حرف الجیم فی آباء من اسمہ الحسین ، الحسین بن جعفر بن محمد ۔۔۔ الخ ، ۱۴ / ۴۶) یعنی جیسے لوگوں  کے پاس آدمی کی نشست وبَرخاست ہوتی ہے لوگ اسے ویساہی جانتے ہیں ۔

(2)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : فاجر سے بھائی بندی نہ کر کہ وہ اپنے فعل کو تیرے لیے مُزَیَّن کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تو بھی اس جیسا ہوجائے اور اپنی بدترین خصلت کو اچھا کرکے دکھائے گا، تیرے پاس اس کا آنا جانا عیب اور ننگ ہے اور احمق سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ وہ تیرے لئے خودکو مشقت میں  ڈال دے گا اور تجھے کچھ نفع نہیں  پہنچائے گااور کبھی یہ ہوگا کہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا مگر ہوگا یہ کہ نقصان پہنچادے گا، اس کی خاموشی بولنے سے بہتر ہے، اس کی دوری نزدیکی سے بہتر ہے اور موت زندگی سے بہتر ہے اورجھوٹے آدمی سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ اس کے ساتھ میل جول تجھے نفع نہ دے گی، وہ تیری بات دوسروں  تک پہنچائے گا اور دوسروں  کی تیرے پاس لائے گا اور اگر تو سچ بولے گا جب بھی وہ سچ نہیں  بولے گا۔( ابن عساکر، حرف الطاء فی آباء من اسمہ علی، علی بن ابی طالب۔۔۔ الخ، ۴۲ / ۵۱۶)

            فی زمانہ بعض نادان لوگ بد مذہبوں  سے تعلقات قائم کرتے اور یہ کہتے سنائی دیتے ہیں  کہ ہمیں  اپنے مسلک سے کوئی ہلا نہیں  سکتا، ہم بہت ہی مضبوط ہیں ،ہم نے ان سے تعلق ا س لئے قائم رکھاہوا ہے تاکہ انہیں  اپنے جیسا بنالیں ، یونہی بعض نادان تسکینِ نفس کی خاطر بد مذہب عورتوں  سے نکاح کرتے اور یوں  کہتے ہیں  کہ ہم نے ان سے نکاح اس لئے کیا ہے تاکہ انہیں  بھی اپنے رنگ میں  رنگ لیں ،اسی طرح کچھ نادان گھرانے ایسے بھی ہیں  جو صرف دنیا کی اچھی تعلیم کی خاطر اپنے نونہالوں  کو بد مذہب استادوں  کے سپرد کردیتے ہیں  اور بالآخر یہی بچے بڑے ہو کر بد مذہبی اختیار کر جاتے ہیں ، ایسے لوگوں  کو چاہئے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ا س کلام سے عبرت حاصل کریں ، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ فرماتے ہیں :غیر مذہب والیوں  (یا والوں ) کی صحبت آگ ہے، ذی علم، عاقل، بالغ مردوں  کے مذہب (بھی) اس میں  بگڑ گئے ہیں ۔ عمران بن حطان رقاشی کا قصہ مشہور ہے، یہ تابعین کے زمانہ میں  ایک بڑا محدث تھا، خارجی مذہب کی عورت (سے شادی کرکے اس) کی صحبت میں  (رہ کر) مَعَاذَاللہ خود خارجی ہو گیا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ (اس سے شادی کر کے) اسے سنی کرنا چاہتا ہے۔ جب صحبت کی یہ حالت (کہ اتنا بڑا محدث گمراہ ہو گیا) تو (بدمذہب کو) استاد بنانا کس درجہ بدتر ہے کہ استاد کا اثر بہت عظیم اور نہایت جلد ہوتا ہے، تو غیر مذہب عورت (یا مرد) کی سپردگی یا شاگردی میں  اپنے بچوں  کو وہی دے گا جو آپ (خودہی) دین سے واسطہ نہیں  رکھتا اور اپنے بچوں  کے بددین ہو جانے کی پرواہ نہیں  رکھتا۔( فتاویٰ رضویہ،علم وتعلیم، ۲۳ / ۶۹۲)

            اللہ تعالٰی ہمیں  بدمذہبوں  اور برے لوگوں  سے دوستی رکھنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے سے محفوظ فرمائے اور نیک و پرہیز گار لوگوں  سے میل جول رکھنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔یہاں  ایک مسئلہ یاد رکھیں  کہ بے دین اور بدمذہب کی دوستی اور اس کے ساتھ صحبت و اختلاط اور الفت و احترام ممنوع ہے۔

اچھی صحبت اور دوستی اختیار کرنے کی ترغیب:

            ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اچھے لوگوں  کی صحبت اختیار کرے اور اپنا دوست بھی اچھے لوگوں  کو ہی بنائے۔ کثیر احادیث میں  اچھی صحبت اختیار کرنے اور اچھے ساتھیوں  کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں ، ترغیب کے لئے یہاں  ان میں  سے 4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کامل مومن کے علاوہ کسی کو ہم نشین نہ بناؤ اور تمہارا کھانا پرہیز گار ہی کھائے۔( ابوداؤد، کتاب الادب، باب من یؤمر ان یجالس، ۴ / ۳۴۱، الحدیث: ۴۸۳۲)

(2)…حضرت ابو جحیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بڑوں  کے پاس بیٹھا کرو، علما ء سے باتیں  پوچھا کرو اور حکمت والوں  سے میل جول رکھو۔( معجم الکبیر، سلمۃ بن کہیل عن ابی جحیفۃ، ۲۲ / ۱۲۵، الحدیث: ۳۲۴)

(3)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کون سا ساتھی اچھا ہے؟ارشاد فرمایا’’اچھا ساتھی وہ ہے کہ جب تو خدا کو یاد کرے تو وہ تیری مدد کرے اور جب تو بھولے تو وہ یاد دلائے۔(رسائل ابن ابی الدنیا ، کتاب الاخوان ، باب من امر بصحبتہ ورغب فی اعتقاد مودتہ ، ۸ / ۱۶۱، الحدیث: ۴۲)

(4)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھا ہم نشین وہ ہے کہ اسے دیکھنے سے تمہیں  خدایاد آئے اور اس کی گفتگو سے تمہارے عمل میں  زیادتی ہو اور اس کا عمل تمہیں  آخرت کی یاد دلائے۔( جامع صغیر، حرف الخاء، ص۲۴۷، الحدیث: ۴۰۶۳)

 

25:29
لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا(۲۹)
بیشک اس نے مجھے بہکادیا میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے (ف۵۴) اور شیطان آدمی کو بے مدد چھوڑ دیتا ہے (ف۵۵)

25:30
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا(۳۰)
اور رسول نے عرض کی کہ اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑنے کے قابل ٹھہرایا (ف۵۶)

{وَ قَالَ الرَّسُوْلُ: اور رسول نے عرض کی۔} جب کفار کے اعتراضات اور طعن و تشنیع حد سے زیادہ ہو گئے تو حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  عرض کی: ’’ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میری قوم نے اس قرآن کو ایک چھوڑ دینے کے قابل چیز بنا لیاہے کہ کسی نے اس کو جادو کہا، کسی نے شعر اور یہ لوگ قرآن مجید پر ایمان لانے سے محروم رہے۔( تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۰، ۸ / ۴۵۵، ملخصاً)

            اس آیت میں  چھوڑنے سے اصل مراد تواس پر ایمان نہ لانا ہے۔ لیکن چھوڑنے کی اس کے علاوہ بھی صورتیں  ہیں  لہٰذا قرآن مجید کے حوالے سے مسلمان کاحال ایسا نہیں  ہونا چاہئے جس سے یہ لگے کہ اس نے قرآن مجید کو چھوڑ رکھا ہے، بلکہ اسے چاہئے کہ روزانہ تلاوتِ قرآن کرے، قرآن مجید کی آیات کو سمجھنے کی کوشش کرے اور ان میں  غورو تَدَبُّر کیاکرے، نیز اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں  جو احکامات دیئے ہیں  ان پر عمل کرے اور جن کاموں  سے منع کیا ہے ان سے باز رہے تاکہ وہ قرآن مجید کو عملی طور پر چھوڑ رکھنے والے لوگوں  میں  شامل نہ ہو۔

25:31
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَؕ-وَ كَفٰى بِرَبِّكَ هَادِیًا وَّ نَصِیْرًا(۳۱)
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے دشمن بنادیے تھے مجرم لوگ (ف۵۷) اور تمہارا رب کافی ہے ہدایت کرنے اور مدد دینے کو،

{وَ كَذٰلِكَ: اور اسی طرح۔} اس آیت میں  اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مدد کا وعدہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ غم نہ کریں  کیونکہ اَنبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بدنصیب کافروں کا یہی معمول رہا ہے، تو جس طرح گزشتہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کفار کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں  پر صبر کرتے رہے، اسی طرح آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی صبر فرمائیں  اورآپ کی تسلی کیلئے یہی بات کافی ہے کہ دین ودنیا کی مَصلحتوں  کی طرف ہدایت دینے اور دشمنوں  کے خلاف مدد کرنے کیلئے آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ کافی ہے۔( تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۱، ۸ / ۴۵۵-۴۵۶، ملخصاً)

آزمائشیں  مقبول بندوں  کے درجات کی بلندی کا سبب ہیں  :

            اس آیت سے اشارۃمعلوم ہوا کہ ہر نبی اور ولی کا کوئی دشمن ہو تاہے جس کے ذریعے اللہ تعالٰی اِنہیں  آزمائش میں  مبتلا فرماتا ہے اور ان کے شرف ومقام کو ظاہر فرماتا ہے۔ حضرت ابوبکر بن طاہر رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : دشمنوں  اور مخالفت کرنے والوں  کے ذریعے آزمائش میں  مبتلا کر کے اَنبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِم کے درجات بلند کئے جاتے ہیں ۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۱، ۶ / ۲۰۸)

25:32
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةًۚۛ-كَذٰلِكَۚۛ-لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا(۳۲)
اور کافر بولے قرآن ان پر ایک ساتھ کیوں نہ اتار دیا (ف۵۸) ہم نے یونہی بتدریج سے اتارا ہے کہ اس سے تمہارا دل مضبوط کریں (ف۵۹) اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا (ف۶۰)

{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور کافروں  نے کہا۔} تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنے والے کفارِ مکہ نے کہا، اگر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ گمان ہے کہ آپ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالٰی کے رسول ہیں  تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس سارا قرآن ایک ہی مرتبہ کیوں  نہیں  لے کر آئے جیسے تورات حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر، انجیل حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اور زبور حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی۔( تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۲، ۸ / ۴۵۷)

             کفار کا یہ اعتراض بالکل فضول اور مُہمَل ہے کیونکہ قرآن کریم کا عاجز کر دینے والا ہونا ہر حال میں  یکساں  ہے، چاہے وہ ایک ہی مرتبہ نازل ہو یا تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہو۔( بیضاوی، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۲،۴ / ۲۱۶) بلکہ قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہونے میں  اس کے معجزہ ہونے کی بڑی دلیل ہے کہ اس طرح ہر آیت کا مقابلہ کرنے سے کفار کا عاجز ہونا ظاہر ہو رہا ہے۔

{كَذٰلِكَ: یونہی۔} آیت کے اس حصے میں  اللہ تعالٰی قرآن پاک کو بَتَدریج نازل فرمانے کی حکمت ظاہر کرتے ہوئے ارشادفرمارہا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے یونہی اس قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیاتاکہ اس کے ساتھ ہم آپ کے دل کو مضبوط کریں اور پیام کا سلسلہ جاری رہنے سے آپ کے قلب مبارک کو تسکین ہوتی رہے اور کفار کو ہر ہر موقع پر جواب ملتے رہیں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی فائدہ ہے کہ قرآن پاک کو حفظ کرنا سہل اور آسان ہو۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۸۰۱-۸۰۲، ملخصاً)

{وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا: اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم نے قرآن پاک کو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی زبان سے تھوڑا تھوڑا کر کے تئیس برس کی مدت میں  پڑھا۔دوسرا معنی یہ ہے کہ ہم نے ایک آیت کے بعد دوسری آیت بتدریج نازل فرمائی اور بعض مفسرین نے کہا کہ اس آیت میں  اللہ تعالٰی نے ہمیں  قرا ء ت میں  ترتیل کرنے یعنی ٹھہر ٹھہر کر، اطمینان کے ساتھ پڑھنے اور قرآن شریف کو اچھی طرح ادا کرنے کا حکم فرمایا جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہوا:

’’وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔( ابوسعود، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۱۳۵)

25:33
وَ لَا یَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَ اَحْسَنَ تَفْسِیْرًاؕ(۳۳)
اور وہ کوئی کہاوت تمہارے پاس نہ لائیں گے (ف۶۱) مگر ہم حق اور اس سے بہتر بیان لے آئیں گے،

{وَ لَا یَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ: اور وہ آپ کے پاس کوئی مثال نہ لائیں  گے۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ مشرکین آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دین کے خلاف یا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر جو بھی اعتراض قائم کریں  گے ہم ا س کا انتہائی نفیس جواب دیں  گے۔( صاوی، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴ / ۱۴۳۶)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضورا قدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بارگاہِ الہٰی میں  وہ قُرب حاصل ہے کہ جب اعتراض حضور نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہو تو ا س کا جواب اللہ تعالٰی دیتا ہے۔

25:34
اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ اِلٰى جَهَنَّمَۙ-اُولٰٓىٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ سَبِیْلًا۠(۳۴)
وہ جو جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے اپنے منہ کے بل ان کا ٹھکانا سب سے برا (ف۶۲) اور وہ سب سے گمراہ،

{اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ: جن لوگوں  کو ان کے چہروں  کے بل ہانکا جائے گا۔} قیامت کے دن چہروں  کے بل ہانکے جانے سے متعلق حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ آدمی روزِ قیامت تین طریقے پر اُٹھائے جائیں  گے ایک گروہ سواریوں  پر، ایک گروہ پیادہ پا اور ایک جماعت منہ کے بل گھسٹتی ہوئی۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ منہ کے بل کیسے چلیں  گے؟ ارشاد فرمایا: ’’جس نے انہیں  پاؤں  پر چلایا ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ انہیں  منہ کے بل چلائے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ بنی اسرائیل، ۵ / ۹۶، الحدیث: ۳۱۵۳)

25:35
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ(۳۵)
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے بھائی ہارون کو وزیر کیا،

{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔} اس رکوع میں  اللہ تعالٰی نے بعض انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات اِجمالی طور پر بیان فرما کر اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفار کی مخالفت اور سازشوں  کا غم نہ کریں ، جس نے آپ کی مخالفت کی اور آپ سے دشمنی مول لی تو اسے بھی ہلاک و برباد کر دیا جائے گا جیسے آپ سے پہلی امتوں  میں  سے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مخالفین کوہلاک کر دیا گیا۔ (صاوی، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۵، ۴ / ۱۴۳۶، ملخصاً) چنانچہ فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے انہیں  جھٹلایا گیا اور انہیں  جو معجزات عطا کئے ان کا انکار کیا گیا،بے شک ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تورات عطا فرمائی اور اس کے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ذریعے ہم نے ا س کا بازو مضبوط کیا لیکن اس کے باوجود ان کی مخالفت کی گئی۔( تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۵، ۸ / ۴۵۸)

25:36
فَقُلْنَا اذْهَبَاۤ اِلَى الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاؕ-فَدَمَّرْنٰهُمْ تَدْمِیْرًاؕ(۳۶)
تو ہم نے فرمایا تم دونوں جاؤ اس قوم کی طرف جس نے ہماری آیتیں جھٹلائیں (ف۶۳) پھر ہم نے انہیں تباہ کرکے ہلاک کردیا،

{فَقُلْنَا: تو ہم نے فرمایا۔} اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ارشاد فرمایا کہ تم دونوں  قومِ فرعون کی طرف جاؤ،ان لوگوں  نے ہماری آیتوں  کو جھٹلایا ہے، چنانچہ وہ دونوں  حضرات ان کی طرف گئے اور انہیں  اللہ تعالٰی کا خوف دلایا اور اپنی رسالت کی تبلیغ کی، لیکن ان بدبختوں  نے ان حضرات کوجھٹلایا اور اپنے کفر پر ڈٹے رہے تو اللہ تعالٰی نے انہیں  مکمل طور پر تباہ کردیا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۸۰۳، ملخصاً)

25:37
وَ قَوْمَ نُوْحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ اَغْرَقْنٰهُمْ وَ جَعَلْنٰهُمْ لِلنَّاسِ اٰیَةًؕ-وَ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًاۚۖ(۳۷)
اور نوح کی قوم کو (ف۶۴) جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا (ف۶۵) ہم نے ان کو ڈبو دیا اور انہیں لوگوں کے لیے نشانی کردیا (ف۶۶) اور ہم نے ظالموں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے،

{وَ قَوْمَ نُوْحٍ: اور نوح کی قوم۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو بھی ہلاک کر دیا، جب انہوں  نے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایاتو ہم نے انہیں  غرق کردیا۔یہاں  رسولوں  سے مراد حضرت نوح، حضرت ادریس اور حضرت شیث عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں  یا یہ بات ہے کہ ایک رسول عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب تمام رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب ہے تو جب انہوں  نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تو گویا سب رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا۔ مزید ارشاد فرمایا کہ ہم نے انہیں  لوگوں  کے لیے عبرت کا نشان بنادیاتا کہ بعد والوں  کے لئے عبرت ہوں  اور ہم نے کفر و تکذیب میں  حد سے بڑھنے والے ظالموں  کے لیے دنیاکے عذاب کے علاوہ آخرت میں  دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۸۰۳، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۷، ۶ / ۲۱۱، ملتقطاً)

25:38
وَّ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ اَصْحٰبَ الرَّسِّ وَ قُرُوْنًۢا بَیْنَ ذٰلِكَ كَثِیْرًا(۳۸)
اور عاد اور ثمود (ف۶۷) اور کنوئیں والوں کو (ف۶۸) اور ان کے بیچ میں بہت سی سنگتیں (قومیں) (ف۶۹)

{وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ: اور عاد اور ثمود۔} یعنی ہم نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم عاد اورحضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ثمود کو بھی ہلاک کر دیا اور کنوئیں  والوں  کو ہلاک کر دیا۔یہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم تھی جو کہ بت پرستی کرتے تھے، اللہ تعالٰی نے اُن کی طرف حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُنہیں  اسلام کی دعوت دی توانہوں  نے سرکشی کی، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو ایذا دی، اُن لوگوں  کے مکان ایک کنوئیں  کے گرد تھے۔ اللہ تعالٰی نے انہیں  ہلاک کیا اور یہ تمام قوم اپنے مکانوں  سمیت اس کنوئیں  کے ساتھ زمین میں  دھنس گئی۔ کنویں  والوں  کے بارے میں  اس کے علاوہ اور اَقوال بھی ہیں۔مزید ارشاد فرمایا کہ قومِ عاد و ثمود اور کنوئیں  والوں  کے درمیان میں  بہت سی امتیں  ہیں  جنہیں  انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرنے کے سبب سے اللہ تعالٰی نے ہلاک کر دیا۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۳۷۳)

{وَ كُلًّا: اور سب سے۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے ہر قوم کو سمجھانے کیلئے مثالیں  بیان فرمائیں ،ان پر حجتیں  قائم کیں  اور ان میں  سے کسی کو ڈر سنائے بغیر ہلاک نہ کیا اورجب انہوں  نے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا توہم نے سب کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۳۰۶)

25:39
وَ كُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ الْاَمْثَالَ٘-وَ كُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِیْرًا(۳۹)
اور ہم نے سب سے مثالیں بیان فرمائیں (ف۷۰) اور سب کو تباہ کرکے مٹادیا،

25:40
وَ لَقَدْ اَتَوْا عَلَى الْقَرْیَةِ الَّتِیْۤ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِؕ-اَفَلَمْ یَكُوْنُوْا یَرَوْنَهَاۚ-بَلْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ نُشُوْرًا(۴۰)
اور ضرور یہ (ف۷۱) ہو آئے ہیں اس بستی پر جس پر برا برساؤ برسا تھا (ف۷۲) تو کیا یہ اسے دیکھتے نہ تھے (ف۷۳) بلکہ انہیں جی اٹھنے کی امید تھی ہی نہیں (ف۷۴)

{وَ لَقَدْ اَتَوْا: اور ضرور یہ ہو آئے ہیں ۔} یعنی کفارِمکہ شام کی طرف اپنے تجارتی سفروں  میں  بار بار اس بستی سے گزر چکے ہیں جس پر پتھروں  کی بری بارش کی گئی تھی توکیا کفارِ مکہ سفر کے دوران اس بستی کو اپنی آنکھوں  سے نہیں  دیکھتے تھے تاکہ ان کے انجام سے عبرت پکڑ تے اور ایمان لاتے، بلکہ ان لوگوں  کا حال یہ ہے کہ یہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے قائل ہی نہیں  کہ انہیں  آخرت کے ثواب و عذاب کی کوئی پروا ہ ہوتی،تو پھر ہلاکت کے آثار دیکھ کر یہ کس طرح عبرت حاصل کرتے اور ایمان لاتے۔

            اِس آیت میں  جس بستی پر پتھروں  کی بارش ہونے کا ذکر ہوا اس سے مراد ’’سدوم ‘‘ نامی بستی ہے جو کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی پانچ بستیوں  میں  سب سے بڑی بستی تھی۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیوں  کے بارے میں  مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ پانچوں  بستیوں  کو ہلاک کر دیاگیا اور ایک قول یہ ہے کہ ان بستیوں  میں  سب سے چھوٹی بستی کے لوگ تو اس خبیث بدکاری کے عامل نہ تھے جس میں  باقی چار بستیوں  کے لوگ مبتلا تھے، اس لئے انہوں  نے تونجات پائی جبکہ بقیہ چار بستیاں  اپنی بدعملی کے باعث آسمان سے پتھر برسا کر ہلاک کردی گئیں ۔ حقیقت میں  چار یا پانچ بستیاں  ہلاک ہوئیں  لیکن یہاں  صرف ایک کا ذکر اس لئے ہے کہ کفارِ مکہ کا تجارتی سفروں  کے درمیان جس بستی سے گزر ہوتا تھا وہ یہی تھی۔

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْفُرْقَان
اَلْفُرْقَان
  00:00



Download

اَلْفُرْقَان
اَلْفُرْقَان
  00:00



Download