READ

Surah Al-Furqan

اَلْفُرْقَان
77 Ayaat    مکیۃ


25:41
وَ اِذَا رَاَوْكَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًاؕ-اَهٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰهُ رَسُوْلًا(۴۱)
اور جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہیں نہیں ٹھہراتے مگر ٹھٹھا (ف۷۵) کیا یہ ہیں جن کو اللہ نے رسول بناکر بھیجا،

{وَ اِذَا رَاَوْكَ: اور جب آپ کو دیکھتے ہیں ۔} ارشاد فرمایاکہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جن مشرکین کے سامنے آپ نے سابقہ قوموں  کے واقعات بیان فرمائے ہیں ، یہ جب آپ کو دیکھتے ہیں  تو آپ کو ٹھٹھا مذاق بنالیتے ہیں  اور کہتے ہیں  کہ کیا یہ وہ شخص ہے جسے اللہ تعالٰی نے اپنی مخلوق میں  سے ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے؟( تفسیرطبری، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۱، ۹ / ۳۹۲)

{اِنْ كَادَ: قریب تھا۔} اس آیت میں  ارشاد فرمایا کہ وہ مشرکین مزید یہ کہتے ہیں  کہ اگر ہم اپنے ان معبودوں پر ڈٹے نہ رہتے اور ان کی عبادت پر ثابت قدم نہ رہتے تو قریب تھا یہ نبی ہمیں  ہمارے معبودوں  سے بہکادیتے۔( تفسیرطبری، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۲، ۹ / ۳۹۳)

            اس سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعوت اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اظہارِ معجزات نے کفار پر اتنا اثر کیا تھا اور دین ِحق کو اس قدر واضح کردیا تھا کہ خود کفار کو اقرار ہے کہ اگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر جمے نہ رہتے تو قریب تھا کہ بت پرستی چھوڑ دیں  اور دین ِاسلام اختیار کریں ۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دین ِاسلام کی حقانیت اُن پر خوب واضح ہوچکی تھی اور شکوک و شُبہات مٹا ڈالے گئے تھے لیکن وہ اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے ایمان قبول کرنے سے محروم رہے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۸۰۴)

{وَ سَوْفَ یَعْلَمُوْنَ: اور عنقریب یہ جان لیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ عنقریب جب یہ لوگ آخرت کاعذاب دیکھیں  گے تو اس وقت جان لیں  گے کہ کون گمراہ تھا۔یہ کفار کی اس بات کا جواب ہے جو انہوں  نے کہی تھی کہ قریب ہے کہ یہ ہمیں  ہمارے خداؤں  سے بہکادیں ۔ یہاں  بتایا گیا کہ بہکے ہوئے تم خود ہو اورآخرت میں  یہ تمہیں  خود ہی معلوم ہوجائے گا اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف تم نے جو بہکانے کی نسبت کی ہے وہ محض بے جا ہے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۸۰۴)

25:42
اِنْ كَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا لَوْ لَاۤ اَنْ صَبَرْنَا عَلَیْهَاؕ-وَ سَوْفَ یَعْلَمُوْنَ حِیْنَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ اَضَلُّ سَبِیْلًا(۴۲)
قریب تھا کہ یہ ہمیں ہمارے خداؤں سے بہکادیں اگر ہم ان پر صبر نہ کرتے (ف۷۶) اور اب جانا چاہتے ہیں جس دن عذاب دیکھیں گے (ف۷۷) کہ کون گمراہ تھا (ف۷۸)

25:43
اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُؕ-اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَیْهِ وَكِیْلًاۙ(۴۳)
کیا تم نے اسے دیکھا جس نے اپنی جی کی خواہش کو اپنا خدا بنالیا (ف۷۹) تو کیا تم اس کی نگہبانی کا ذمہ لو گے (ف۸۰)

{اَرَءَیْتَ: کیا تم نے دیکھا۔} زمانۂ جاہلیت میں  عرب کے مشرکین کا دستور تھا کہ ان میں  سے ہر ایک کسی پتھرکو پوجتا تھا اور جب کہیں  اُسے کوئی دوسرا پتھر اس سے اچھا نظر آتاتو پہلے کو پھینک دیتااور دوسرے کو پوجنے لگتا۔اس آیت میں  اسی چیز کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا اورا پنے نفس کی خواہش کو پوجنے لگا اوراسی کا فرمانبردار ہوگیا، وہ ہدایت کس طرح قبول کرے گا۔ توکیا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُس پر نگہبان ہو کہ انہیں  خواہش پرستی سے روک دو؟( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۸۰۴)

عقل خواہشات سے کیسے مغلوب ہوکر چھپ جاتی ہے؟

            یاد رہے کہ بعض اوقات خواہشات کے سامنے بندے کی عقل مغلوب ہو کر چھپ جاتی ہے اور خواہش غالب آکر آدمی کو اپنا غلام بنا لیتی ہے،ایسا کیسے اور کس طرح ہوتا ہے؟ اسے جاننے کے لئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہ کلام ملاحظہ ہو،چنانچہ آپ فرماتے ہیں ’’ایک دل وہ ہوتا ہے جو خواہشات سے بھرا ہوا اور بری عادات سے آلودہ ہو اور اس میں  ایسی خباثیتں  ہوتی ہیں  جن میں  شیطا نوں  کے دروازے کھلتے اور فرشتوں  کے دروازے بند ہوتے ہیں ۔ ایسے دل میں  شر کا آغاز یوں  ہوتا ہے کہ اس میں  نفسانی خواہشات کا خیال پیدا ہوتا اور کھٹکتا ہے تو دل حاکم یعنی عقل کی طرف دیکھ کر اس سے حکم پوچھنا چاہتا ہے تاکہ صحیح بات واضح ہو جائے اور چونکہ عقل نفسانی خواہشات کی خدمت سے مانوس ہوتی ہے لہٰذاوہ اس کے لیے طرح طرح کے حیلے تلاش کرتی اور خواہش کو پورا کرنے پر اس کی مدد کرتی ہے۔جب وہ دل کی مدد کرتی ہے تو سینہ خواہش کے ساتھ کھلتا ہے اور اس میں  خواہش کا اندھیرا پھیلتا ہے کیونکہ عقل کے لشکر اس کا مقابلہ کرنے سے رک جاتے ہیں  اور خواہش پھیلنے کی وجہ سے شیطان کی سلطنت مضبوط ہوجاتی ہے اور اس وقت وہ ظاہری زینت، دھوکہ اورجھوٹی تمناؤں  کے ذریعے دل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دھوکہ دینے کے لیے من گھڑت باتیں  دل میں  ڈالتا ہے اور یوں  ایمان کی حکومت کمزور پڑجاتی ہے یعنی وعدہ اور وعید پر یقین نہیں  رہتا اور اُخروی خوف کے یقین کانور ٹھنڈا پڑجاتا ہے کیونکہ خواہش سے ایک سیاہ دھواں  دل کی طرف اٹھتا ہے جو اس کے اَطراف کو بھردیتا ہے حتّٰی کہ اس کے انوارمٹ جاتے ہیں  اور اس وقت عقل اس آنکھ کی طرح ہوتی ہے جس کے پپوٹےدھوئیں  سے بھر جائیں  اوراس وجہ سے بندہ دیکھنے پر قدرت نہیں  رکھتا، شہوت کے غلبے سے بھی دل کی یہی حالت ہوتی ہے حتّٰی کہ دل سوچ وبچار کرنے کے قابل نہیں  رہتا اور اس کی بصیرت ختم ہو جاتی ہے اور اگر کوئی واعظ اسے حق بات بتا اور سنا دے تو وہ سمجھنے سے اندھا اور سننے سے بہرہ ہوجاتا ہے اورجب شہوت میں  ہیجان ہوتا ہے تو شیطان اس پر حملہ کرتا ہے،پھر اَعضاء خواہش کے مطابق حرکت کرتے ہیں  اور یوں  گناہ عالَمِ غیب سے ظاہر کی طرف آتا ہے اور یہ اللہ تعالٰی کی قضاء و قَدر سے ہوتا ہے۔ اسی قسم کے دل کی طرف اللہ تعالٰی کے اس ارشادِ گرامی میں  اشارہ ہے۔

’’اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُؕ-اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَیْهِ وَكِیْلًاۙ(۴۳) اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَؕ-اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا۠‘‘( فرقان:۴۳،۴۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا ہے توکیا تم اُس پر نگہبان ہو؟یا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ان میں  اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں  ؟ یہ تو صرف جانوروں  کی طرح ہیں  بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں ۔

            اورارشادِباری تعالٰی ہے:

’’لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰۤى اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘(یس:۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ان میں  اکثر پر (اللہ کے عذاب کی) بات ثابت ہوچکی ہے تو وہ ایمان نہ لائیں  گے۔

            اور ارشادِ باری تعالٰی ہے :

’’وَ سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘(یس:۱۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان:  اور تمہارا اُنہیں  ڈرانا اور نہ ڈرانا ان  پر برابرہے وہ ایمان نہیں  لائیں  گے۔

            اور کئی دل ایسے ہیں  کہ بعض خواہشات کی طرف نسبت کی صورت میں  ان کی یہ حالت ہوتی ہے جیسے کوئی شخص بعض چیزوں  سے پرہیز کرتا ہے لیکن جب وہ کسی حسین چہرے کو دیکھتا ہے تو اس کی آنکھ اور دل اس کے قابو میں  نہیں  رہتے، اس کی عقل چلی جاتی ہے اور دل کا ٹھہراؤ باقی نہیں  رہتا یا وہ شخص جاہ ومرتبے، حکومت اور تکبر کے سلسلے میں  اپنے دل کو قابو میں  نہیں  رکھ سکتا اور جب ان باتوں  کے اسباب ظاہر ہوتے ہیں  تو ضبط نہیں  کرسکتا یا اس شخص کی طرح ہے جس کے عیب بیان کیے جائیں  یا اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو وہ اپنے غصہ پر قابو نہیں  پاسکتا یاوہ شخص جو درہم یا دینار لینے کی طاقت رکھتے وقت اپنے اوپر کنٹرول نہیں  کرسکتا بلکہ وہ اس پر ایک دیوانے کی طرح گرتا ہے اور تقویٰ و مُرَوَّت کو بھی بھول جاتا ہے یہ سب باتیں  اس لیے ہوتی ہیں  کہ خواہش کا دھواں  دل کی طرف چڑھتا ہے حتّٰی کہ وہ تاریک ہوجاتا ہے اور اس سے معرفت کے انوارمٹ جاتے ہیں  اوریوں  حیائ، مروت اور ایمان مٹ جاتا ہے اور وہ شیطانی مراد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگ جاتاہے۔( احیاء علوم الدین،کتاب شرح عجائب القلب،بیان سرعۃ تقلب القلب وانقسام القلوب فی التغییر والثبات،۳ / ۵۷-۵۸)

 

25:44
اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَؕ-اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا۠(۴۴)
یا یہ سمجھتے ہو کہ ان میں بہت کچھ سنتے یا سمجھتے ہیں (ف۸۱) وہ تو نہیں مگر جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ (ف۸۲)

{اَمْ تَحْسَبُ: یا یہ سمجھتے ہو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ مشرکین اپنی شدتِ عناد کی وجہ سے نہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات سنتے ہیں ، نہ دلائل و بَراہین کو سمجھتے ہیں  بلکہ یہ بہرے اور نا سمجھ بنے ہوئے ہیں ،یہ تو صرف جانوروں  کی طرح ہیں  بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں  کیونکہ چوپائے بھی اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی تسبیح کرتے ہیں  اور جو انہیں  کھانے کو دے اس کے فرمانبردار رہتے ہیں  اور احسان کرنے والے کو پہچانتے اور تکلیف دینے والے سے گھبراتے ہیں ، نفع دینے والی چیز کی طلب کرتے، نقصان دینے والی چیز سے بچتے اور چراگاہوں  کی راہیں  جانتے ہیں ، یہ کفار ان سے بھی بدتر ہیں  کہ نہ اللہ تعالٰی کی اطاعت کرتے ہیں ، نہ اس کے احسان کو پہچانتے ہیں ، نہ شیطان جیسے دشمن کی ضَرَررسانی کو سمجھتے ہیں ، نہ ثواب جیسی عظیم نفع والی چیز کے طالب ہیں  نہ عذاب جیسی سخت نقصان دہ اور ہلاکت میں  مبتلا کرنے والی چیز سے بچتے ہیں ۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۳۷۴، مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۸۰۴، ملتقطاً)

25:45
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّۚ-وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًاۚ-ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ(۴۵)
اے محبوب! کیا تم نے اپنے رب کو نہ دیکھا (ف۸۳) کہ کیسا پھیلا سایہ (ف۸۴) اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرایا ہوا کردیتا (ف۸۵) پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل کیا،

{اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ: اے محبوب!کیا تم نے اپنے رب کو نہ دیکھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو نہ دیکھا کہ اس کی صَنعت و قدرت کیسی عجیب ہے، اس نے سائے کو صبح صادق طلوع ہونے کے بعد سے لے کر سورج طلوع ہونے تک کیسا دراز کیا کہ اس وقت ساری روئے زمین میں  سایہ ہی سایہ ہوتا ہے نہ دھوپ ہے، نہ اندھیرا ہے، اور اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو سائے کو ایک ہی حالت پر ٹھہرا ہوا بنادیتا کہ سورج طلوع ہونے سے بھی سایہ زائل نہ ہوتا۔پھر ہم نے سورج کو سائے پر دلیل بنایا کیونکہ اگرسورج نہ ہو تو سائے کا پتہ ہی نہ چلے۔پھر ہم نے آہستہ آہستہ اسے اپنی طرف سمیٹ لیا کہ طلوع کے بعد سورج جتنا اُونچا ہوتا گیا اتنا ہی سایہ سمٹتا گیا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۶، ص۸۰۴-۸۰۵)

 اَشیاء کی طبعی تاثیریں  بھی اللہ تعالٰی کی مَشِیَّت کے تابع ہیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ اشیاء کی طبعی تاثیریں  بھی اللہ تعالٰی کی مشیت کے تابع ہیں ، آگ کا جلانا، پانی کا پیاس بجھانا، ثقیل بدن کا سایہ بننا، سورج کا سایہ اٹھادینا سب اللہ تعالٰی کی مشیت سے ہے، اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو یہ تاثیریں  ختم ہو جائیں۔

25:46
ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا(۴۶)
پھر ہم نے آہستہ آہستہ اسے اپنی طرف سمیٹا (ف۸۶)

25:47
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِبَاسًا وَّ النَّوْمَ سُبَاتًا وَّ جَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا(۴۷)
اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے پردہ کیا اور نیند کو آرام اور دن بنایا اٹھنے کے لیے (ف۸۷)

{وَ هُوَ الَّذِیْ: اور وہی ہے جس نے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے اپنی تاریکی سے سب کچھ ڈھانپ دینے والاپردہ اور نیند کو تمہارے بدنوں  کے لئے راحت اور کام کاج چھوڑ دینے کا وقت بنایااور دن کو نیند سے اٹھنے کے لیے بنایا تاکہ تم دن میں  روزی تلاش کرو اور کام کاج میں  مشغول ہو۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۳۷۴)

            یہ آیت اللہ تعالٰی کی قدرت پر دلالت کرتی ہے اور اس آیت میں  مخلوق پر اللہ تعالٰی کی نعمتوں  کاا ظہار ہے کیونکہ رات کی تاریکی سے سب کچھ ڈھانپ دینے میں  بے شمار دینی اور دُنْیَوی فوائد ہیں ۔اس آیت میں  نیند کوموت سے اور بیداری کو زندگی سے تشبیہ دینے میں  نصیحت حاصل کرنے والوں  کیلئے بڑی نصیحت ہے (اور اس کے ذریعے وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ۔) ایک مرتبہ حضرت لقمان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے فرزند سے فرمایا: ’’جیسے سوتے ہو پھر اُٹھتے ہو، ایسے ہی مرو گے اور موت کے بعد پھر اُٹھو گے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۸۰۵)

25:48
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖۚ-وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًاۙ(۴۸)
اور وہی ہے جس نے ہوائیں بھیجیں اپنی رحمت کے آگے مژدہ سنائی ہوئی (ف۸۸) اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا پاک کرنے والا،

{وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ: اور وہی ہے جس نے ہواؤں  کو بھیجا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ معبود صرف وہی ہے جس نے بارش ہونے سے پہلے ہواؤں  کو بھیجا جو بارش آنے کی خوشخبری دینے والی ہوتی ہیں  اور ہم نے آسمان کی طرف سے پانی اتارا جو کہ حَدَث و نجاست سے پاک کرنے والا ہے تاکہ ہم ا س پانی کے ذریعے خشکی سے بے جان ہو جانے والی سر زمین کو سرسبز وشاداب کر کے زندہ کردیں  اور وہ پانی اپنی مخلوق میں  سے جانوروں  اور بہت سے لوگوں  کو پلائیں ۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۸-۴۹، ۶ / ۲۲۳-۲۲۴)

بارش اللہ تعالٰی کی عظیم نعمت ہے:

            اس سے معلوم ہو اکہ بارش اللہ تعالٰی کی بڑی عظیم نعمت ہے اور اس کے بے شمار فوائد ہیں  کہ اس کے ذریعے خشکی کی وجہ سے بے جان کھیتیاں  سرسبز ہوکرزندہ ہوتی ہیں ، لوگوں  کو پاکی حاصل کرنے اور دیگرضروریات کو پورا کرنے کیلئے پانی ملتا ہے اور مخلوقِ خدا سیراب ہوتی ہے۔

25:49
لِّنُحْیِﰯ بِهٖ بَلْدَةً مَّیْتًا وَّ نُسْقِیَهٗ مِمَّا خَلَقْنَاۤ اَنْعَامًا وَّ اَنَاسِیَّ كَثِیْرًا(۴۹)
تاکہ ہم ا سسے زندہ کریں کسی مردہ شہر کو (ف۸۹) اور اسے پلائیں اپنے بنائے ہوئے بہت سے چوپائے اور آدمیوں کو،

25:50
وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوْا ﳲ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا(۵۰)
اور بیشک ہم نے ان میں پانی کے پھیرے رکھے (ف۹۰) کہ وہ دھیان کریں (ف۹۱) تو بہت لوگوں نے نہ مانا مگر ناشکری کرنا،

{وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ: اور بیشک ہم نے لوگوں  میں  بارش کے پھیرے رکھے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم نے بادل پیدا کرنے اور بارش نازل کرنے کا ذکر قرآن پاک (کی متعدد سورتوں ) میں  اور سابقہ رسولوں  پر نازل ہونے والی تمام کُتب میں  کیا تاکہ لوگ غوروفکر کر کے نصیحت حاصل کریں  اور اللہ تعالٰی کے اس احسان کو پہچان کر اس کا شکر ادا کریں  لیکن بہت سے لوگوں  نے نعمت کی ناشکری کے سوا کچھ اور ماننے سے انکار کردیا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ بیشک ہم نے لوگوں  میں  بارش کے پھیرے رکھے کہ کبھی کسی شہر میں  بارش ہو کبھی کسی میں ، کبھی کہیں  زیادہ ہو اور کبھی کہیں  حکمت کے تقاضے کے مطابق مختلف طور پر ہو تاکہ لوگ ہمارے اس احسان کویاد رکھیں  اور اللہ تعالٰی کی قدرت و نعمت میں  غور کریں  لیکن بہت سے لوگوں  نے ا س ا حسان کی ناشکری کرنے کے سوا کچھ اور ماننے سے انکار کردیا کیونکہ وہ بارش کے نزول کو صرف ظاہری اسباب کی طرف منسوب کرنے لگ گئے اور اللہ تعالٰی کے فضل و رحمت کو یاد نہ کیا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۸۰۶، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۳۷۵-۳۷۶، ملتقطاً)

اللہ تعالٰی کی نعمت ملنے کو صرف مادی اسباب کی طرف منسوب نہیں  کرنا چاہئے :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی کی نعمت ملنے کو صرف مادی اسباب کی طرف منسوب نہیں  کرنا چاہئے یوں  کہ اللہ تعالٰی کی طرف اصلاً اس کی نسبت نہ ہو کہ یہ بھی بعض اوقات ایک قسم کی ناشکری ہے اور بطورِ خاص کفار جن چیزوں  کو حقیقی مُؤثِّر مان کر نسبت کرتے ہیں  ان کی طرف تو تنہا نسبت ہرگز نہیں  کرنی چاہیے۔ حضرت زیدبن خالد جہنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ ہمیں  رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حُدَیْبیہ کے مقام پر صبح کی نماز فجر پڑھائی جس کی رات کو بارش ہوئی تھی۔ جب فارغ ہوئے تو لوگوں  کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے کیا فرمایا؟ صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: ’’اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں ۔حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالٰی نے فرمایا: ’’میرے بندوں  نے صبح کی تو کچھ مومن رہے اور کچھ کافر ہو گئے، جس نے کہا ہم پر اللہ تعالٰی کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان رکھنے والا ہے اور جس نے کہا ہم پر فلاں  ستارے نے بارش برسائی اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں  پر یقین رکھا۔( بخاری، کتاب الاذان، باب یستقبل الامام الناس اذا سلّم، ۱ / ۲۹۵، الحدیث: ۸۴۶) حدیث پاک میں  کفر سے مراد حقیقی کفر اس صورت میں  ہے جب ستاروں  کو مُؤثِّرِ  حقیقی اعتقاد کرکے یہ بات کہی گئی ہو۔

 

25:51
وَ لَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ نَّذِیْرًا٘ۖ(۵۱)
اور ہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک ڈر سنانے والا بھیجتے (ف۹۲)

{وَ لَوْ شِئْنَا: اور اگرہم چاہتے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہم چاہتے تو پہلے زمانے کی طرح ہر بستی اور شہر میں  ایک جداجداڈر سنانے والا بھیج دیتے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سے ڈر سنانے کا بوجھ کم کردیتے لیکن ہم نے تمام بستیوں  کو ڈر سنانے کا بوجھ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی پر رکھا تاکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام جہان کے رسول ہو کر سب رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فضیلتوں  کے جامع ہوں  اور نبوت آپ پر ختم ہو کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد پھر کوئی نبی نہ ہو۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۱، ۶ / ۲۲۶)

25:52
فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِیْرًا(۵۲)
تو کافروں کا کہا نہ مان اور اس قرآن سے ان پر جہاد کر بڑا جہاد،

{فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ: تو آپ کافروں  کی بات ہرگز نہ مانیں ۔} کفارِ قریش حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہتے کہ آپ ہمارے آباء و اَجداد کا دین اختیار کرلیں ،ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیں  گے اور آپ کے لئے ایک عظیم خزانہ جمع کر دیں  گے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافروں  کی بات ہرگز نہ مانیں  تاکہ ان پر اچھی طرح ظاہر ہو جائے کہ ان چیزوں  کی طرف آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کوئی رغبت نہیں  بلکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رغبت اللہ تعالٰی کی طرف بلانے اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دینے میں  ہے۔( البحر المحیط، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۲، ۶ / ۴۶۴)

{ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِیْرًا: اور اس قرآن کے ذریعے ان کے ساتھ بڑا جہاد کریں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کے سامنے قرآن پاک میں  موجود وعظ و نصیحت اور زجر و توبیخ پر مشتمل آیات کی تلاوت کر کے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والی سابقہ امتوں  کے حالات بیان کر کے ان کے ساتھ بڑا جہاد کریں ۔ اس طور پر پوری دنیا میں  دین کی دعوت عام کرنا جہادِ کبیر ہے اورکوئی دوسرا جہاد کَمِّیَّت و کیفیت کے اعتبار سے اس کے برابر نہیں  ہوسکتا۔( ابوسعود، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۲، ۴ / ۱۴۴-۱۴۵، ملخصاً)

25:53
وَ هُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌۚ-وَ جَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا(۵۳)
اور وہی ہے جس نے ملے ہوئے رواں کیے دو سمندر یہ میٹھا ہے نہایت شیریں اور یہ کھاری ہے نہایت تلخ اور ان کے بیچ میں پردہ رکھا اور روکی ہوئی آڑ (ف۹۳)

{وَ هُوَ: اور وہی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے دو سمندروں  کو ملادیا،ان میں  سے ایک (کا پانی) میٹھا نہایت شیریں  ہے اور دوسرے کا کھاری نہایت تلخ ہے اور ان دونوں  کے بیچ میں  اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت سے نظر نہ آنے والا ایک پردہ اور روکی ہوئی آڑ بنادی تاکہ ایک کا پانی دوسرے میں  مل نہ سکے یعنی نہ میٹھا کھاری ہو، نہ کھاری میٹھا، نہ کوئی کسی کے ذائقہ کو بدل سکے، جیسے کہ دجلہ دریائے شور میں  میلوں  تک بہتاچلا جاتا ہے اور اس کے ذائقہ میں  کوئی تغیر نہیں  آتا۔ (ابو سعود، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۳، ۴ / ۱۴۵)       عجب شانِ الٰہی ہے۔

25:54
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًاؕ-وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا(۵۴)
اور وہی ہے جس نے پانی سے (ف۹۴) بنایا آدمی پھر اس کے رشتے اور سسرال مقرر کی (ف۹۵) اور تمہارا رب قدرت والا ہے (ف۹۶)

{وَ هُوَ: اور وہی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے گوشت، ہڈیوں ،پٹھوں ، رگوں  اور خون سے مرکب، اچھی صورت پر آدمی کوپانی یعنی نطفہ سے بنایا، پھر اس کے نسلی رشتے اور سسرالی رشتے بنادئیے تاکہ اس کی نسل چلے اور تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ بڑی قدرت والا ہے کہ اس نے ایک نطفہ سے مختلف اَعضاء والے،جدا جدا طبیعتوں  والے، طرح طرح کے اَخلاق والے اور مذکر و مؤنث دو قسم کے انسان پیدا کئے، تو جو ایسے انسانوں  اور ان کے علاوہ اور بےشمار چیزوں  کو پیدا کرنے پر قادر ہے وہی اس بات کا حقدار ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔( جلالین مع صاوی، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۴، ۴ / ۱۴۴۲-۱۴۴۳)

25:55
وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُهُمْ وَ لَا یَضُرُّهُمْؕ-وَ كَانَ الْكَافِرُ عَلٰى رَبِّهٖ ظَهِیْرًا(۵۵)
اور اللہ کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں (ف۹۷) جو ان کا بھلا برا کچھ نہ کریں اور کافر اپنے رب کے مقابل شیطان کو مدد دیتا ہے (ف۹۸)

{وَ یَعْبُدُوْنَ: اور وہ عبادت کرتے ہیں ۔} توحید کے دلائل بیان فرمانے کے بعد ا س آیت سے اللہ تعالٰی نے بتوں  کی پوجا کرنے میں  مشرکین کی مذمت بیان فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ یہ مشرک اللہ تعالٰی کے سوا ان بتوں  کی عبادت کرتے ہیں  جو عبادت کرنے کی صورت میں  کوئی نفع نہیں  پہنچا سکتے اور ان کی عبادت کرنا چھوڑ دینے کی صورت میں  کوئی نقصان نہیں  پہنچا سکتے جبکہ وہ لوگ اس رب تعالٰی کی عبادت کو چھوڑے ہوئے ہیں  جس نے انہیں  ایسی نعمتیں  عطا فرمائی ہیں  کہ ان میں  سے چھوٹی سی نعمت بھی اللہ تعالٰی کے سوا کوئی اور عطا نہیں  کر سکتا۔( تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۵، ۸ / ۴۷۵، تفسیر طبری، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۵، ۹ / ۴۰۱، ملتقطاً)

{وَ كَانَ الْكَافِرُ عَلٰى رَبِّهٖ ظَهِیْرًا: اور کافر اپنے رب کے مقابلے میں  (شیطان کا) مددگار ہے۔} ارشاد فرمایا کہ کافر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے مقابلے میں  شیطان کا مددگار ہے کیونکہ بت پرستی کرنا شیطان کو مدد دینا ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۳۷۶-۳۷۷)

25:56
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا(۵۶)
اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر (ف۹۹) خوشی اور (ف۱۰۰) ڈر سناتا،

{وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا: اور ہم نے تمہیں  نہ بھیجا مگر۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، ہم نے آپ کو ایمان و طاعت پر جنت کی خوشخبری دینے والا او رکفرو مَعصِیَت پر جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۳۷۷)

{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکوں  سے فرما دیں  کہ میں وحی کی تبلیغ پر تم سے کچھ اجرت نہیں  مانگتا لیکن جو چاہے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف راستہ اختیار کرے اور اس کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرے۔ مراد یہ ہے کہ ایمانداروں  کا ایمان لانا اور ان کاطاعت ِالٰہی میں  مشغول ہونا ہی میرا اجر ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالٰی مجھے اس پر جزا عطا فرمائے گا اس لئے کہ اُمت کے نیک لوگوں  کے ایمان اور اُن کی نیکیوں  کے ثواب اُنہیں  بھی ملتے ہیں  اور اُن کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جن کی ہدایت سے وہ اس رتبہ پر پہنچے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۷، ۶ / ۲۳۳)

25:57
قُلْ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِیْلًا(۵۷)
تم فرماؤ میں اس (ف۱۰۱) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر جو چاہے کہ اپنے رب کی طرف راہ لے، (ف۱۰۲)

25:58
وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِهٖؕ-وَ كَفٰى بِهٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِیْرَاﰳ (۵۸)ﮊ
اور بھروسہ کرو اس زندہ پر جو کبھی نہ مرے گا (ف۱۰۳) اور اسے سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو (ف۱۰۴) اور وہی کافی ہے اپنے بندوں کے گناہوں پر خبردار (ف۱۰۵)

{وَ تَوَكَّلْ: اور بھروسہ کرو۔} اس سے پہلی آیت میں  اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان مشرکوں  سے فرما دیں : ’’میں  وحی کی تبلیغ پر تم سے کچھ اجرت نہیں  مانگتا، اور ا س آیت میں  حکم فرمایا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام اُمور میں  صرف اللہ تعالٰی پر بھروسہ فرمائیں ۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس زندہ پر بھروسہ کریں  جو کبھی نہ مرے گا اوراسی پر بھروسہ کرنا چاہئے، کیونکہ مرنے والے پر بھروسہ کرنا عقلمند کی شان نہیں  اورآپ اس کی حمد کرتے ہوئے پاکی بیان کریں  اور اس کی طاعت اور شکر بجالائیں ۔ اور اپنے بندوں  کے گناہوں  کی خبررکھنے کے لئے وہی کافی ہے، اس سے کسی کا گناہ چھپ سکتا ہے اور نہ کوئی اُس کی گرفت سے اپنے آپ کو بچاسکتا ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۳۷۷، مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۸۰۸، ملتقطاً)

25:59
الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِۚۛ-اَلرَّحْمٰنُ فَسْــٴَـلْ بِهٖ خَبِیْرًا(۵۹)
جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنائے (ف۱۰۶) پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے (ف۱۰۷) وہ بڑی مہر والا تو کسی جاننے والے سے اس کی تعریف پوچھ (ف۱۰۸)

{فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ: چھ دن میں ۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں  بنائے۔اس سے مراد یہ ہے کہ چھ دن کی مقدار میں  بنائے، کیونکہ اس وقت رات، دن اور سورج تو تھے ہی نہیں  اور اتنی مقدار میں  پیدا کرنا اپنی مخلوق کو آہستگی اور اطمینان کی تعلیم دینے کے لئے ہے، ورنہ وہ ایک لمحہ میں  سب کچھ پیدا کردینے پر قادر ہے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۹، ۶ / ۲۳۴)

            نوٹ: آسمان و زمین کو چھ دن میں  پیدا کرنے کے بارے میں  مزید تفصیلی معلومات کے لئے سورہ ٔاَعراف آیت نمبر54کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔

{اِسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ: عرش پر اِستواء فرمایا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔} علماء فرماتے ہیں  کہ استواء اور اس طرح کی جو چیزیں  قرآن پاک کی آیات میں  ذکر ہوئی ہیں  ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں  اور اس کی کیفیت کے درپَے نہیں  ہوتے، ان کی کیفیت کو اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔ بعض مفسرین اِستواء کو بلندی اور برتری کے معنی میں  لیتے ہیں  اور بعض اِستیلا ء کے معنی میں  لیکن پہلا قول ہی زیادہ مضبوط اور سلامتی والاہے یعنی یہ کہ اس کی حقیقی مراد اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔

            نوٹ:اللہ تعالٰی کے عرش پر استواء فرمانے کے بارے میں  مزید تفصیل جاننے کے لئے سورۂ اَعراف آیت نمبر 54کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔

{فَسْــٴَـلْ بِهٖ خَبِیْرًا: تو کسی جاننے والے سے اس کی تعریف پوچھ۔} اس آیت میں  انسان سے خطاب ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کی صفات کسی ایسے شخص سے دریافت کرے جو اللہ تعالٰی کی معرفت رکھتا ہو۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۸۰۸)

25:60
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَ مَا الرَّحْمٰنُۗ-اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَ زَادَهُمْ نُفُوْرًا۠۩(۶۰)
اور جب ان سے کہا جائے (ف۱۰۹) رحمن کو سجدہ کرو کہتے ہیں رحمن کیا ہے، کیا ہم سجدہ کرلیں جسے تم کہو (ف۱۱۰) اور اس حکم نے انہیں اور بدکنا بڑھایا (ف۱۱۱) السجدة ۔۷

{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ: اور جب ان سے کہا جائے۔} یعنی جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مشرکین سے فرمائیں  کہ رحمٰن کو سجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں : رحمٰن کیا ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کرلیں  جس کا تم ہمیں  کہہ دو۔اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ رحمٰن کو جانتے نہیں  اور عناد کی وجہ سے ان کا یہ کہنا باطل ہے کیونکہ لغتِ عرب کوجاننے والا خوب جانتا ہے کہ رحمٰن کے معنی نہایت رحمت والا ہیں  اور یہ اللہ تعالٰی ہی کی صفت ہے۔ آیت کے آخر میں  ارشاد فرمایا کہ مشرکوں  کوسجدہ کرنے کا حکم دینا اُن کے لئے اور زیادہ ایمان سے دوری کا باعث ہوا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۸۰۸)

          نوٹ:یاد رہے کہ یہ آیت آیاتِ سجدہ میں  سے ہے، اسے پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ کرنا لازم ہو جاتا ہے۔
25:61
تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا(۶۱)
بڑی برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے (ف۱۱۲) اور ان میں چراغ رکھا (ف۱۱۳) اور چمکتا چاند،

{بُرُوْجًا: بُرج۔} اس سے پہلی آیت میں  کفار کے بارے میں  بیان کیاگیا کہ سجدے کے حکم نے کافروں  کی نفرت اور ایمان سے دوری میں  اضافہ کیا اور اس آیت سے ان چیزوں  کو بیان کیا جا رہا ہے جن میں  اگر کافر غور و فکر کریں  تو وہ جان لیں  گے کہ اللہ تعالٰی کی عبادت کرنا اور اسے سجدہ کرنا ضروری ہے۔چنانچہ اس آیت میں  ارشاد فرمایا کہ وہ اللہ بڑی برکت والا ہے جس نے آسمان میں  برج بنائے اور ان برجوں  میں  سورج اور روشن کرنے والا چاند بنایا۔( تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۱، ۸ / ۴۷۹)

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ بروج سے سات سَیّارہ ستاروں  کی منزلیں  مراد ہیں  اور ان برجوں  کی تعدادبارہ ہے۔ (1)حَمْل۔(2)ثَوْر۔(3) جَوْزَاء۔(4) سَرَطَانْ۔(5) اَسَد۔(6) سُنْبُلَہ۔ (7) میزان۔(8) عَقْرَب۔(9) قَوس۔(10) جَدْی۔ (11) دَلْو۔ (12) حُوْت۔ (خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۷۸) مِرِّیخْ کے برج حَمْل اور عَقْرَب ہیں ،زُہْرَہ کے ثَوْر اور میزان،عُطَارِدْ کے جَوْزَاء اور سُنْبُلَہ، چاند کا سَرَطَانْ، سورج کا اسد، مشتری کے قَوس اور حُوت اور زُحَل کے جَدْی اور دَلْوہیں ۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۳۰۷-۳۰۸)

25:62
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا(۶۲)
اور وہی ہے جس نے رات اور دن کی بدلی رکھی (ف۱۱۴) اس کے لیے جو دھیان کرنا چاہے یا شکر کا ارادہ کرے،

{وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ خِلْفَةً: اور وہی ہے جس نے رات اور دن کوایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ معبود وہی ہے جس نے رات اور دن کوایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا کہ ان میں  سے ایک کے بعد دوسرا آتا اور اس کا قائم مقام ہوتا ہے تا کہ جس کا عمل رات یا دن میں  سے کسی ایک میں  قضا ہو جائےتو وہ دوسرے میں  ادا کرلے۔ یہ رات اور دن کا ایک دوسرے کے بعد آنا اور قائم مقام ہونا اللہ تعالٰی کی قدرت و حکمت کی دلیل ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ وہی ہے جس نے رات اور دن میں  ایسانظام قائم فرمایا کہ جب رات آتی ہے تو دن چلا جاتا ہے اور جب دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے اور اس نے کوئی دن ایسانہیں  بنایا جس کے لئے رات نہ ہو اور کوئی رات ایسی نہیں  بنائی جس کے لئے دن نہ ہو تاکہ لوگوں  کو سالوں  کی گنتی معلوم رہے اور انہیں  وہ وقت معلوم ہو جس میں  کاروباروغیرہ کے لئے نکلنا ہے اور وہ وقت بھی معلوم ہو جس میں  انہیں  راحت و آرام کرنا ہے اور یہ عظیم الشّان نظام اللہ تعالٰی کی قدرت و حکمت کے کمال کی دلیل ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۳۷۸، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۲، ۶ / ۲۳۸، ملتقطاً)

{لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّكَّرَ: اس شخص کیلئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے۔} یعنی رات اور دن کی تبدیلی اور ان کا ایک دوسرے کے قائم مقام ہونے میں  اس شخص کے لئے اللہ تعالٰی کی قدرت و حکمت پر نشانی موجود ہے جو اللہ تعالٰی کی نعمتوں  اور اس کی بنائی ہوئی چیزوں  میں  غورو فکر کر کے نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے، جب وہ ان میں  غورو فکر کرے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ ان چیزوں  کو پیدا کرنے اور ایسے بہترین نظام کو قائم کرنے کے لئے کوئی ایک ایسی ہستی ہونا ضروری ہے جو مکمل قدرت رکھتی ہو،کامل حکمت والی ہو، واجب بِالذّات ہو اوربندوں  پر رحیم و مہربان ہو،اسی طرح ان میں  اس شخص کے لئے بھی اللہ تعالٰی کی قدرت و حکمت کی نشانی موجود ہے جو اللہ تعالٰی کی اطاعت و فرمانبرداری کر کے رات اور دن میں  موجود اللہ تعالٰی کی نعمتوں  کا شکر ادا کرنا چاہتا ہے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۲، ۶ / ۲۳۸)

 

25:63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳)
اور رحمن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں (ف۱۱۵) اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں (ف۱۱۶) تو کہتے ہیں بس سلام (ف۱۱۷)

{وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ: اور رحمٰن کے وہ بندے۔} ا س سے پہلی آیات میں  کفار و منافقین کے احوال اور ان کا انجام ذکر ہوا،اب یہاں  سے کامل مومنین کے تقریباً12اَوصاف بیان کئے گئے ہیں ،ان کا خلاصہ یہ ہے۔ (1)وہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔(2) جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں  تو کہتے ہیں  ’’بس سلام‘‘(3) وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں  رات گزارتے ہیں ۔(4)جہنم کا عذاب پھر جانے کی اللہ تعالٰی سے دعائیں  کرتے ہیں ۔ (5) اِعتدا ل سے خرچ کرتے ہیں ،اس میں نہ حد سے بڑھتے ہیں  اور نہ تنگی کرتے ہیں ۔ (6) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں  کرتے۔ (7) جس جان کو ناحق قتل کرنا اللہ تعالٰی نے حرام فرمایا ہے، اسے قتل نہیں  کرتے۔(8) بدکاری نہیں  کرتے۔ (9) جھوٹی گواہی نہیں  دیتے۔(10)جب کسی بیہودہ بات کے پاس سے گزرتے ہیں  تواپنی عزت سنبھالتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔(11) جب انہیں  ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں  کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اندھے ہوکر نہیں  گرتے۔(12) وہ یوں  دعا کرتے ہیں : اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہماری بیویوں  اور ہماری اولاد سے ہمیں آنکھوں  کی ٹھنڈک عطا فرمااور ہمیں  پرہیزگاروں  کا پیشوا بنا۔

{اَلَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا: جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔} اس آیت میں  بیان ہوا کہ کامل ایمان والوں  کا اپنے نفس کے ساتھ معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ اطمینان اور وقار کے ساتھ، عاجزانہ شان سے زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔ مُتکبرانہ طریقے پر جوتے کھٹکھٹاتے، پاؤں  زور سے مارتے اور اتراتے ہوئے نہیں  چلتے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۸۰۹، ملخصاً)  کہ یہ متکبرین کی شان ہے اور شریعت نے اس سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے:

’’وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاۚ-اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۳۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور زمین میں  اتراتے ہوئے نہ چل بیشک توہر گز نہ زمین کو پھاڑ دے گا اور نہ ہرگز بلندی میں  پہاڑوں  کو پہنچ جائے گا۔

سکون اور وقار کے ساتھ چلنے کی ترغیب:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ مومن کو آہستہ،سکون و اطمینان اور وقار کے ساتھ چلنا چاہئے۔ اَحادیث میں  بھی اس چیز کی ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ یہاں3اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارے لئے سکون (سے چلنا) ضروری ہے کیونکہ دوڑنے میں  کوئی نیکی نہیں  ہے۔( بخاری، کتاب الحج، باب امر النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالسکینۃ عند الافاضۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۵۸، الحدیث: ۱۶۷۱)

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تیز چلنا ایمان والوں  کی ہیبت ختم کر دیتا ہے۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر جماعۃ من العارفین العراقیین، محمد بن یعقوب، ۱۰ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۵۳۰۹)

(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تیز چلنا چہرے کے حسن کو ختم کر دیتا ہے۔(کنز العمال،کتاب المعیشۃ والآداب،قسم الاقوال، آداب المشی، ۸ / ۱۷۵، الحدیث:۴۱۶۱۴، الجزء الخامس عشر)

            اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں  کو اس طرح چلنے کی توفیق عطا فرما ئے جو شریعت کا پسندیدہ طریقہ ہے اور اس طرح چلنے سے محفوظ فرمائے جس سے شریعت نے منع کیا اور اسے ناپسند فرما یا ہے، اٰمین۔

{وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ: اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں ۔} یہاں  یہ بیان ہو اکہ کامل ایمان والے دوسروں  کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں  اور کوئی ناگوار کلمہ یا بے ہودہ یا ادب و تہذیب کے خلاف بات کہتے ہیں  تو کہتے ہیں  ’’بس سلام‘‘اس سے مراد مُتارَکَت کا سلام ہے اور معنی یہ ہے کہ جاہلوں  کے ساتھ جھگڑا کرنے سے اِعراض کرتے ہیں  یا اس کے یہ معنی ہیں  کہ ایسی بات کہتے ہیں  جو درست ہو اور اس میں  ایذا اور گناہ سے سالم رہیں ۔( ابو سعود، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۳، ۴ / ۱۴۸)

جاہلانہ گفتگو کرنے والے سے سلوک:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ جب کسی معاملے میں  کوئی جاہل جھگڑا کرنا شروع کرے تو اس سے اعراض کرنےکی کوشش ہی کرنی چاہئے اور ا س کی جاہلانہ گفتگو کے جواب میں  اگر کوئی بات کریں  تو وہ ایسی ہو جس میں  گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو اور وہ اس جاہل کے لئے اَذِیَّت کاباعث بھی نہ ہو،ترغیب اور تربیت کے لئے یہاں  ایک واقعہ ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت نعمان بن مقرن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  ایک شخص نے دوسرے شخص کو برا بھلا کہا تو جسے برا بھلا کہا گیا، اس نے یہ کہنا شروع کر دیا:تم پر سلام ہو۔اس پررسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سنو! تم دونوں  کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو (اے برا بھلا کہے گئے شخص!) تمہاری طرف سے دفاع کرتا ہے،جب یہ تمہیں  برا بھلاکہتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے: نہیں ، بلکہ تم ایسے ہو اور تم ا س کے زیادہ حق دار ہو، اور جب تم اس سے کہتے ہو’’تم پر سلام ہو‘‘ تو فرشتہ کہتا ہے: نہیں ، بلکہ تمہارے لئے سلامتی ہو اور تم ا س کے زیادہ حق دار ہو۔( مسند امام احمد، حدیث النعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ، ۹ / ۱۹۱، الحدیث: ۲۳۸۰۶)

25:64
وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا(۶۴)
اور وہ جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام میں (ف۱۱۸)

{وَ الَّذِیْنَ: اور وہ جو۔} اس سے پہلی آیت میں  کامل ایمان والوں  کی مجلسی زندگی اور مخلوق کے ساتھ پاکیزہ معاملے کا بیان ہوا اور اب یہاں  سے اُن کی خَلوَت کی زندگانی اور حق کے ساتھ رابطے کے بارے میں  بیان کیاجارہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کامل ایمان والوں  کی خلوت و تنہائی کا حال یہ ہے کہ ان کی رات اللہ تعالٰی کے لئے اپنے چہروں  کے بل سجدہ کرتے اور اپنے قدموں  پر قیام کرتے ہوئے گزرتی ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۳۷۸)

رات میں  عبادت کرنے کی ترغیب:

            ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ آرام کرنے کے بعد رات میں  کچھ نہ کچھ نفلی عبادت ضرور کیا کرے تاکہ اس میں کامل ایمان والوں  کے اوصاف پیدا ہوں  اور آخرت کے لئے نیکیوں  کا کچھ ذخیرہ جمع ہو۔ایک اور مقام پر کامل ایمان والوں  کا وصف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے :

’’تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘-وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ‘‘(السجدۃ:۱۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: ان کی کروٹیں  ان کی خوابگاہوں  سے جدا رہتی ہیں  اور وہ ڈرتے اور امید کرتے اپنے رب کو پکارتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے خیرات کرتے ہیں ۔

            اور پرہیزگار لوگوں  کی جزا اور ان کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے: ’’اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ(۱۵) اٰخِذِیْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِنِیْنَؕ(۱۶) كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ(۱۷)وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ‘‘(الذاریات:۱۵۔۱۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک پرہیزگار لوگ باغوں  اور چشموں  میں  ہوں  گے۔ اپنے رب کی عطائیں  لیتے ہوئے، بیشک وہ اس سے پہلے نیکیاں  کرنے والے تھے۔ وہ رات میں  کم سویا کرتے تھے۔ اور رات کے آخری پہروں  میں  بخشش  مانگتے تھے۔

            اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں  کو دن میں  بھی اور رات میں  بھی اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

رات میں  عبادت کرنے کے فوائد:

            یاد رہے کہ جو عبادت جس وقت کرنا فرض ہے اسے اس وقت ہی کیا جائے گا البتہ نفلی عبادت رات میں  کرنا دن کے مقابلے میں  زیادہ فائدہ مند ہے، اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ رات میں  کچھ دیر سونے کے بعد اٹھ کر عبادت کرنا دن کی نماز کے مقابلے میں  زبان اوردل کے درمیان زیادہ موافقت کا سبب ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس وقت قرآن پاک کی تلاوت کرنے اور سمجھنے میں  زیادہ دل جمعی حاصل ہوتی ہے کیونکہ اس وقت شورو غل نہیں  ہوتا بلکہ سکون اور اطمینان ہو تا ہے جو کہ دل جمعی حاصل ہونے کا بہت بڑ اذریعہ ہے۔تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس وقت عبادت کرنے میں  کامل اخلاص نصیب ہوتا ہے اور عبادت میں  ریا کاری، نمود و نمائش اور دکھلاوا نہیں  ہوتا کیونکہ عام طور پراس وقت لوگ بیدار نہیں  ہوتے جس کی وجہ سے ریاکاری کا موقع نہیں  ہوتا۔یہ تینوں  فوائد قرآن مجید میں  انتہائی جامع انداز میں  بیان کئے گئے ہیں،چنانچہ سورہِ مُزَّمِّل میں  اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّ نَاشِئَةَ الَّیْلِ هِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّ اَقْوَمُ قِیْلًا‘‘( المزمل:۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک رات کو قیام کرنا زیادہ موافقت کا سبب ہے اور بات خوب سیدھی نکلتی ہے۔

اپنی راتیں  عبادت میں  گزارنے والی دو بزرگ خواتین:

            ہمارے بزرگانِ دین اپنی راتوں  کو اللہ تعالٰی کی عبادت کرتے ہوئے گزارا کرتے تھے اور ان کی شب بیداری کے ایسے ایسے حیرت انگیز واقعات ہیں  کہ انہیں  سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، یہاں  بطورِ خاص دو بزرگ خواتین کے واقعات ملاحظہ ہوں ،

(1)…امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بہن حضرت حفصہ بن سیرین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہا بصرہ میں  ایک انتہائی عبادت گزار خاتون تھیں ، آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہا ساری رات نماز پڑھتے ہوئے گزار دیتیں  اور نماز میں  آدھا قرآن پاک تلاوت فرماتیں ۔بسا اوقات اپنی نماز پڑھنے کی جگہ پر اتنی دیر نماز میں  کھڑی رہتیں  کہ آپ کا چراغ بجھ جاتا، لیکن آپ کے لئے صبح تک (چراغ کی روشنی کے بغیر) گھر روشن رہتا۔

(2)…حضرت رابعہ بصریہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہا کی اپنی وفات تک یہ عادت رہی کہ آپ ساری رات نماز پڑھتی رہتیں  اور جب فجر کا وقت قریب ہوتا تو تھوڑی دیر کے لئے سو جاتیں ،پھر بیدار ہو کر کہتیں :اے نفس!تم کتنا سوؤ گے اور کتنا جاگو گے، عنقریب تم ایسی نیند سو جاؤ گے کہ اس کے بعد قیامت کی صبح کو ہی بیدار ہو گے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۴، ۶ / ۲۴۲)

            ان واقعات میں  مسلمان خواتین کے لئے بڑی نصیحت ہے، انہیں  چاہئے کہ اپنی راتیں  غفلت کی نیندسو کر اور عبادت سے خالی نہ گزاریں  بلکہ رات میں  اٹھ کر کچھ نہ کچھ عبادت کیا کریں  اور اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  سجدہ ریز ہو کر اپنی، اپنے اہلِ خانہ اور دیگر مسلمانوں  کی بخشش و مغفرت کی دعائیں  مانگاکریں ۔

تھوڑی عبادت کرنے والوں  کو بھی شب بیداری کا ثواب:

            یاد رہے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں  پر بڑا مہربان ہے اور وہ اپنے کرم سے رات میں  تھوڑی عبادت کرنے پر بھی


شب بیداری کا ثواب عطا فرما دیتا ہے، چنانچہ یہاں  تھوڑی عبادت کرنے پر شب بیداری کا ثواب ملنے سے متعلق دو روایات ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے عشا ء کی نماز باجماعت ادا کی اُس نے آدھی رات کے قیام کا ثواب پایا اور جس نے نمازِفجر بھی باجماعت ادا کی وہ ساری رات عبادت کرنے والے کی مثل ہے۔(مسلم،کتاب المساجدومواضع الصلاۃ،باب فضل صلاۃ العشاء والصبح فی جماعۃ،ص۳۲۹،الحدیث:۲۶۰(۶۵۶))

(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ جس کسی نے عشاء کے بعد دو رکعت یا ا س سے زیادہ نفل پڑھے وہ شب بیداری کرنے والوں  میں  داخل ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۳۷۸)

 

25:65
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ﳓ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ(۶۵)
اور وہ جو عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب! ہم سے پھیر دے جہنم کا عذاب، بیشک اس کا عذاب گلے کا غل (پھندا) ہے (ف۱۱۹)

{رَبَّنَا: اے ہمارے رب!} کامل ایمان والوں  کی شب بیداری اور عبادت کا ذکر فرمانے کے بعد ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  ان کی ایک دعا کا بیان فرمایا کہ وہ اپنی نمازوں  کے بعد اور عام ا وقات میں یوں  عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب!ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے جو کہ انتہائی شدید دردناک ہے، بیشک اس کا عذاب گلے کا پھندا اورکافروں  سے جدا نہ ہونے والا ہے،بیشک جہنم بہت ہی بری ٹھہرنے اور قیام کرنے کی جگہ ہے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۵-۶۶، ص۸۱۰، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۵-۶۶، ۶ / ۲۴۳، ملتقطاً)

آیت ’’ وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا‘‘ سے معلوم ہونے والی باتیں :

            اس آیت سے  تین باتیں  معلوم ہوئیں ،

(1)… اپنی عبادت و ریاضت پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ تعالٰی کی رحمت اور کرم پر بھروسہ کرنا چاہئے اور اس کی خفیہ تدبیر سے خوفزدہ رہنا چاہئے کہ یہ کامل ایمان والوں  کا طریقہ ہے۔ چنانچہ امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ان کی اس دعا سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ وہ کثرتِ عبادت کے باوجود اللہ تعالٰی کا خوف رکھتے ہیں  اور اس کی بارگاہ میں  عاجزی،اِنکساری اور گریہ و زاری کرتے ہیں ۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۸۱۰)

(2)…علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت میں  یہ بتایاگیا ہے کہ کامل ایمان والے مخلوق کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے اور اللہ تعالٰی کی عبادت میں  خوب کوشش کرنے کے باوجود اللہ تعالٰی کے عذاب سے بہت ڈرتے ہیں  اور اپنے اوپر سے عذاب پھیر دئیے جانے کی گریہ و زاری کے ساتھ التجائیں  کرتے ہیں ،گویا کہ وہ انتہائی عبادت گزاری اور پرہیزگاری کے باوجود جب اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  دعا کرتے ہیں  تو خود کو گناہگاروں  میں  شمار کرتے ہیں  اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اعمال کو شمار نہیں  کرتے اور اپنے احوال پر بھروسہ نہیں  کرتے۔(روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۶، ۶ / ۲۴۳-۲۴۴)

(3)…بطورِ خاص نماز کے بعد دعا کرنی چاہئے، نماز پڑھنے والا تنہا نماز پڑھے یا جماعت کے ساتھ، امام ہو یا مقتدی اور عمومی طور پرجب بھی موقع ملے اللہ تعالٰی سے دعا مانگتے رہنا چاہئے۔

 

25:66
اِنَّهَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا(۶۶)
بیشک وہ بہت ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے،

25:67
وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)
اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں (ف۱۲۰) اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں (ف۱۲۱)

{وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں ۔} یہاں  کامل ایمان والوں  کے خرچ کرنے کا حال ذکرفرمایا جارہا ہے کہ وہ اسراف اور تنگی دونوں  طرح کے مذموم طریقوں  سے بچتے ہیں  اور ان دونوں  کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں۔

اِسراف اور تنگی کرنے سے کیا مراد ہے؟

اسراف مَعصِیَت میں  خرچ کرنے کو کہتے ہیں ۔ ایک بزرگ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا کہ اسراف میں  کوئی بھلائی نہیں  تودوسرے بزرگ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا: ’’بھلائی کے کام میں  اسراف ہوتاہی نہیں ۔ اور تنگی کرنے کے بارے میں  حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالٰی کے مقرر کئے ہوئے حقوق ادا کرنے میں  کمی کرے۔ مروی ہے کہ جس نے کسی حق کو منع کیا اُس نے اِقتار یعنی تنگی کی اور جس نے ناحق میں  خرچ کیا اس نے اسراف کیا۔

بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں  جن حضرات کا ذکر ہے وہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بڑے بڑے صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ ہیں  جو لذت اور ناز و نعمت میں  زندگی بسر کرنے کے لئے کھاتے، نہ خوبصورتی اور زینت کے لئے پہنتے۔ بھوک روکنا، ستر چھپانا، سردی گرمی کی تکلیف سے بچنا بس یہی ان کا مقصد تھا۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۸۱۰، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۳۷۹، ملتقطاً)

ضروریاتِ زندگی میں  صحابۂ کرامرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا زُہد :

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ دنیا سے بے رغبت رہتے اوردنیا سے صرف اتنا ہی لیا کرتے تھے جتنا ان کی اہم ضروریاتِ زندگی کے لئے کافی ہو،نیز وہ عیش و عشرت اور ناز ونعمت میں  زندگی بسر کرنے کی بجائے سادہ زندگی گزارتے اور اپنے نفس کو دنیا کی سختی اورمشقت برداشت کرنے کا عادی بناتے اور دُنْیَوی زندگی کے قیمتی لمحات کو اپنی آخرت کی زندگی بہتر سے بہتر بنانے میں  صَرف کیاکرتے تھے۔حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں  نے ستر بدریصحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو دیکھا، وہ اللہ تعالٰی کی حلال کردہ اَشیاء سے اس قدر اِجتناب کرتے تھے جتنا تم حرام اشیاء سے پرہیز نہیں  کرتے۔دوسری روایت میں  اس طرح ہے کہ جس قدر تم فراخی کی حالت پر خوش ہوتے ہو ا س سے زیادہ وہ آزمائشوں  پر خوش ہو اکرتے تھے،اگر تم انہیں  دیکھ لیتے تو کہتے یہ مجنون ہیں ،اور اگر وہ تمہارے بہترین لوگوں  کو دیکھتے تو کہتے: ان لوگوں  کا کوئی اخلاق نہیں ،اور اگر وہ تم میں  سے برے لوگوں  کو دیکھتے تو کہتے:ان کا قیامت کے دن پر ایمان نہیں ۔ ان میں  سے ایک کے سامنے حلال مال پیش کیا جاتا تو وہ نہ لیتا اور کہتا:مجھے اپنے دل کے خراب ہونے کا ڈر ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان تفصیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۹۷)

            یہاں  ان کی زُہد و تقویٰ سے بھر پور زندگی کے4 واقعات ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :اہلِ بصرہ کا ایک وفد حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی معیت میں  حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں  حاضر ہوا اور (کچھ دنوں  میں ) انہوں  نے دیکھا کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ روزانہ ایک چھوٹی روٹی تناول فرماتے ہیں  اور یہ روٹی کبھی گھی کے ساتھ، کبھی زیتون کے ساتھ اور کبھی دودھ کے ساتھ کھاتے ہیں  اورآپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو کبھی خشک گوشت کے ٹکڑے ملتے جنہیں  کوٹ کر پانی سے تر کیا ہوا ہوتا اور کبھی تھوڑ اسا تازہ گوشت ملتا۔ایک دن آپ نے اہلِ بصرہ سے فرمایا: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں  تم سے اچھا کھانا کھا سکتا ہوں ، آسائش والی زندگی گزار سکتا ہوں  اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں  سینے کے گوشت،گھی،آگ پر بھنے ہوئے گوشت، چٹنی اور چپاتیوں  سے ناواقف نہیں  ہوں  (لیکن میں  انہیں  اللہ تعالٰی کے خوف کی وجہ سے استعمال نہیں  کرتا) کیونکہ ایسی چیزوں  کو استعمال کرنے پر اللہ تعالٰی نے ایک قوم کو عار دلائی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا:

’’اَذْهَبْتُمْ طَیِّبٰتِكُمْ فِیْ حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا وَ اسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا‘‘( الاحقاف:۲۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم اپنے حصے کی پاک چیزیں  اپنی دنیا ہی کی زندگی میں  فنا کرچکے اور ان سے فائدہ اٹھاچکے۔(اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں  قیامت کے دن مجھ سے بھی یہ نہ فرما دیاجائے۔)(الزہد لابن مبارک، باب ما جاء فی الفقر، ص۲۰۴، روایت نمبر: ۵۷۹، الجزء الاوّل)

(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :قحط سالی کے دنوں  میں  امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے خود کو گھی کھانے سے روک رکھا تھا اور آپ صرف زیتون پر گزارا کیا کرتے تھے۔ایک دن زیتون کھانے کی وجہ سے آپ کے پیٹ میں  تکلیف ہونے لگی تو آپ نے پیٹ پر انگلی مار کر فرمایا: ’’تجھے جتنی تکلیف ہوتی ہے ہوتی رہے، جب تک لوگوں  سے فاقہ کی سختی ختم نہیں  ہو جاتی تیرے لئے میرے پاس یہی کچھ ہے۔(الزہد لابن حنبل، زہد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ص۱۴۵، روایت نمبر: ۶۰۸)

(3)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اپنے دورِ خلافت میں  تین درہم کا ایک کپڑ اخریدا اور اسے پہنا، آپ نے ا س کی آستینیں  کلائیوں  سے کاٹ کر فرمایا: ’’تمام تعریفیں  اس اللہ تعالٰی کے لئے ہیں  جس نے مجھے اپنے عمدہ لباس میں  سے یہ لباس پہنایا۔(احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان تفصیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۸۸)

(4)…جب حمص کے گورنر حضرت عمیر بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُحضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں  حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا: ’’تم کیاکچھ لے کر آئے ہو؟ حضرت عمیر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: ’’میرے پاس میرا تھیلاہے جس میں  اپنازادِراہ رکھتاہوں ، ایک پیالہ ہے جس میں  کھاناکھاتاہوں  اور اسی سے اپناسر اور کپڑے وغیرہ دھوتا ہوں ، ایک پانی کا برتن ہے جس میں  پانی پیتاہوں  اور وضو وغیرہ کرتاہوں  اورایک لاٹھی ہے جس پر ٹیک لگاتاہوں  اور اگر کوئی دشمن آ جائے تو اسی لاٹھی سے اس کامقابلہ کرتاہوں ، خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم!اس کے علاوہ میرے پاس دُنْیَوی مال و مَتاع نہیں۔( عیون الحکایات، الحکایۃ الاولی، ص۱۳)

25:68
وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ(۶۸)
اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے (ف۱۲۲) اور اس جان کو جس کی اللہ نے حرمت رکھی (ف۱۲۳) ناحق نہیں مارتے اور بدکاری نہیں کرتے (ف۱۲۴) اور جو یہ کام کرے وہ سزا پائے گا،

{وَ الَّذِیْنَ: اور وہ جو۔} کامل ایمان والوں  کے بارے میں  ارشاد فرمایاگیا کہ وہ فضیلت والے اعمال سے مُتَّصِف ہونے کے ساتھ ساتھ قبیح اور برے کاموں  سے بھی بچتے ہیں  جیسے وہ اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں  کرتے، شرک سے بَری اور بیزار ہیں  اور وہ اس جان کو ناحق قتل نہیں  کرتے جسے قتل کرنے کو اللہ تعالٰی نے حرام فرمایا ہے اورا س کا خون مُباح نہیں  کیا جیسے کہ مومن اور معاہدہ کرنے والا کافر، یونہی وہ بدکاری نہیں  کرتے اورجو شخص بھی ان کاموں  میں  سے کوئی کام کرے گا تو وہ اس کی سزا پائے گا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۸۱۰-۸۱۱، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۸، ۶ / ۲۴۶-۲۴۷، ملتقطاً)

بڑے بڑے تین گناہ :

            یاد رہے کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنا،کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور زنا کرنا بہت بڑے گنا ہ ہیں ،جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’میں  نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا’’ کونسا گناہ سب میں  بڑا ہے؟ ارشادفرمایا ’’یہ کہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک کرے، حالانکہ تجھے اُس نے پیدا کیا۔ میں  نے عرض کی: پھر اس کے بعد کونسا گناہ؟ ارشادفرمایا ’’یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس لیے قتل کرڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔میں  نے عرض کی: پھر کونسا؟ ارشادفرمایا ’’یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تصدیق میں  یہ آیت ’’وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ‘‘ نازل فرمائی۔(بخاری، کتاب الادب، باب قتل الولد خشیۃ ان یأکل معہ، ۴ / ۱۰۰، الحدیث: ۶۰۰۱)

            اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب بیعت لیتے تو بطورِ خاص یہ تین گناہ یعنی شرک،کسی کو ناحق قتل اورزنا نہ کرنے پر بیعت لیا کرتے تھے،چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :ہم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایک مجلس میں  تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا’’تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں  ٹھہراؤ گے،زنا نہیں  کرو گے،چوری نہیں  کرو گے اور اس جان کو ناحق قتل نہیں  کروگے جسے قتل کرنا اللہ تعالٰی نے حرام فرمایا ہے۔تم میں  سے جس شخص نے اس عہد کو پور اکیا ا س کا اجر اللہ تعالٰی کے ذمۂ کرم پر ہے اور جس نے ان حرام کردہ چیزوں  میں  سے کسی کا اِرتکاب کر لیا اور اسے (دنیا میں  ہی اس کی شرعی) سزادے دی گئی تو وہ اس کا  کفارہ ہے اور جس نے ان میں  سے کسی حرام کام کو کیا اور اللہ تعالٰی نے (دنیا میں ) ا س کا پردہ رکھا تو (آخرت میں) اس کا معاملہ اللہ تعالٰی کے سپرد ہے،اگر وہ چاہے تو اسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے۔( مسلم، کتاب الحدود، باب الحدود کفارات لاہلہا، ص۹۳۹، الحدیث: ۴۱(۱۷۰۹))

 

25:69
یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًاۗۖ(۶۹)
بڑھایا جائے گا اس پر عذابِ قیامت کے دن (ف۱۲۵) اور ہمیشہ اس میں ذلت سے رہے گا،

{یُضٰعَفْ: بڑھادیا جائے گا۔} یعنی جو شخص شرک کے ساتھ ساتھ ناحق قتل کرنے اور زناکاری وغیرہ گناہوں  کا مُرتکب ہو گا تو وہ قیامت کے دن شرک کے عذاب میں  گرفتار ہوگا اوراس کے ساتھ دیگر گناہوں  کے عذاب میں  بھی مبتلا ہو گا اور یوں  اس کا عذاب بڑھادیاجائے گا اور وہ ہمیشہ اس دگنے عذاب میں  ذلت سے رہے گا۔( تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۹، ۸ / ۴۸۴)

{ اِلَّا مَنْ تَابَ: مگر جو توبہ کرے۔} یعنی جو شخص شرک،ناحق قتل، زنا اور دیگر کبیرہ گناہوں  سے توبہ کرے، اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے اورتوبہ کے بعد نیک کام کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں  کو اللہ تعالٰی نیکیوں  سے بدل دے گا اور اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے اور ا س کی بخشش و مہربانی کے آثار میں  سے یہ ہے کہ وہ گناہوں  سے توبہ کرنے والوں ،ایمان لانے والوں  اور توبہ وایمان کے بعد نیک عمل کرنے والواں  کی برائیاں  نیکیوں  سے بدل دیتا ہے اور نیک اعمال کرنے پر انہیں  ثواب عطافرماتا ہے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۰، ۶ / ۲۴۷، مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۸۱۱، ملتقطاً)

برائیوں  کو نیکیوں  سے بدل دینے کا معنی :

            مفسرین نے برائیوں  کو نیکیوں  سے بدل دینے کے مختلف معنی بیان فرمائے ہیں ،ان میں  سے تین معنی درج ذیل ہیں ،

(1)… اس کا معنی یہ ہے کہ برائی کرنے کے بعد اللہ تعالٰی اسے نیکی کرنے کی توفیق دید ے گا۔

(2)…اس کا یہ معنی ہے کہ برائیوں  کو توبہ سے مٹا دے گااور ان کی جگہ ایمان و طاعت وغیرہ نیکیاں  ثَبت فرمائے گا۔

(3)…اس کا یہ معنی ہے کہ آیت میں  بیان گئے اوصاف سے مُتَّصِف لوگوں  سے حالت ِاسلام میں  جو گناہ ہوئے ہوں  گے انہیں  قیامت کے دن اللہ تعالٰی نیکیوں  سے بدل دے گا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۸۱۱، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۳۸۰، ملتقطاً)

 اللہ تعالٰی کی بندہ نوازی اور شانِ کرم:

            صحیح مسلم میں  حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں  یقینا جانتا ہوں  سب کے بعد جنت میں  کون داخل ہو گا اور سب سے آخر میں  جہنم سے کون نکلے گا۔ ایک شخص ایسا ہو گا جسے قیامت کے دن اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  پیش کیا جائے گا،اللہ تعالٰی فرشتوں  سے فرمائے گا ’’اس شخص کے صغیرہ گناہ ا س پر پیش کرو چنانچہ اس کے صغیرہ گناہ اس پر پیش کئے جائیں  گے اور اس سے کہا جائے گا’’تو نے فلاں  دن فلاں  فلاں  کام کیا تھا؟وہ شخص اقرار کرے گا اور کہے گا’’میں  اپنے اندر ان کاموں  سے انکار کی سَکت نہیں  پاتا اور وہ ابھی اپنے کبیرہ گناہوں  سے ڈر رہا ہو گا کہ ان کا حساب نہ شروع ہو جائے۔ اس شخص سے کہا جائے گا:جا تجھے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی دی جاتی ہے۔حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’یہ بیان فرماتے ہوئے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو (اللہ تعالٰی کی بندہ نوازی اور اس کی شانِ کرم پر) خوشی ہوئی اور چہرۂ اقدس پر سُرور سے تبسُّم کے آثار نمایاں  ہوئے۔( مسلم، کتاب الایمان، باب ادنی اہل الجنّۃ منزلۃ فیہا، ص۱۱۹، الحدیث: ۳۱۴(۱۹۰))

25:70
اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۷۰)
مگر جو توبہ کرے (ف۱۲۶) اور ایمان لائے (ف۱۲۷) اور اچھا کام کرے (ف۱۲۷) اور اچھا کام کرے (ف۱۲۸) تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا (ف۱۲۹) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

25:71
وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا(۷۱)
اور جو توبہ کرے اور اچھا کام کرے تو وہ اللہ کی طرف رجوع لایا جیسی چاہیے تھی،

{وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا: اور جو توبہ کرے اور اچھا کام کرے۔} یعنی جو شخص اپنے گناہوں  سے توبہ کرے اور اچھا کام کرے تو وہ اللہ تعالٰی کی طرف ایسا ہی رجوع کرتا ہے جیسا کرنا چاہیے تھا کیونکہ ایسا رجوع اللہ تعالٰی کا پسندیدہ ہے،گناہوں  کو مٹانے والاہے اور ثواب حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۱، ۶ / ۲۴۸-۲۴۹)

گناہوں  سے سچی توبہ کرنے کی ترغیب:

            یاد رہے کہ حقیقی اور سچی توبہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  اپنے گناہ کا اقرار کرتے، اس پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کرتے اورآئندہ اس گناہ کو نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرتے ہوئے اللہ تعالٰی سے اپنے گناہ کی معافی طلب کرے۔ ایسی توبہ ہی اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  مقبول اور پسندیدہ ہے اور ایسی توبہ ہی حقیقی طور پر فائدہ مند اور گناہوں  کو مٹانے والی ہے، چنانچہ ایک اور مقام پر اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۙ‘‘( التحریم:۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جس کے بعد گناہ کی طرف لوٹنا نہ ہو قریب ہے کہ تمہارا رب تمہاری بُرائیاں  تم سے مٹا دے اور تمہیں  ان باغوں  میں  لے جائے جن کے نیچے نہریں  رواں  ہیں ۔

            اور ارشاد فرماتاہے: ’’ اِنَّمَا  التَّوْبَةُ  عَلَى  اللّٰهِ  لِلَّذِیْنَ  یَعْمَلُوْنَ  السُّوْٓءَ  بِجَهَالَةٍ  ثُمَّ  یَتُوْبُوْنَ  مِنْ  قَرِیْبٍ  فَاُولٰٓىٕكَ  یَتُوْبُ  اللّٰهُ  عَلَیْهِمْؕ-وَ  كَانَ  اللّٰهُ  عَلِیْمًا  حَكِیْمًا(۱۷)وَ  لَیْسَتِ  التَّوْبَةُ  لِلَّذِیْنَ  یَعْمَلُوْنَ  السَّیِّاٰتِۚ-حَتّٰۤى  اِذَا  حَضَرَ  اَحَدَهُمُ  الْمَوْتُ  قَالَ  اِنِّیْ  تُبْتُ  الْـٰٔنَ  وَ  لَا  الَّذِیْنَ  یَمُوْتُوْنَ  وَ  هُمْ  كُفَّارٌؕ-اُولٰٓىٕكَ  اَعْتَدْنَا  لَهُمْ  عَذَابًا  اَلِیْمًا‘‘(النساء:۱۷،۱۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ توبہ جس کا قبول کرنا اللہ نے اپنے فضل سے لازم کرلیا ہے وہ انہیں  کی ہے جو نادانی سے بُرائی کر بیٹھیں  پھر تھوڑی دیر میں  توبہ کرلیں  ایسوں  پر اللہ اپنی رحمت سے رجوع کرتا ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔ اور ان لوگوں  کی توبہ نہیں  جو گناہوں  میں  لگے رہتے ہیں  یہاں  تک کہ جب ان میں  کسی کو موت آئے تو کہنے لگے اب میں   نے توبہ کی اور نہ ان لوگوں  کی (کوئی توبہ ہے) جو کفر کی حالت میں  مریں ۔ ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔

            آیت میں  بوقت ِ موت توبہ قبول نہ ہونے سے مراد وہ وقت ہے جب موت کے بعد کے احوال نظر آنا شروع ہوجائیں ۔

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ گناہوں  سے ایسی توبہ کرے جیسی توبہ کرنے کا حق ہے اور اللہ تعالٰی سے ویسی توبہ کرنے کی توفیق بھی مانگتا رہے جیسی توبہ اس کی بارگاہ میں  مقبول اور پسندیدہ ہے۔

25:72
وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(۷۲)
اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے (ف۱۳۰) اور جب بیہودہ پر گذرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں، (ف۱۳۱)

{وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ: اور جو جھوٹی گواہی نہیں  دیتے۔} یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں  بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والوں  کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں ، اُن کے ساتھ میل جول نہیں  رکھتے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۲، ص۸۱۱)

جھوٹی گواہی دینے کی مذمت پر 4اَحادیث:

            اس سے معلوم ہو اکہ جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں  کاوصف ہے۔ یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر اَحادیث میں  اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، یہاں  ان میں  سے 4 اَحادیث ملاحظہ ہوں :

 (1)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبیٔ  اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کبیرہ گناہ یہ ہیں  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ شریک کرنا۔ ماں  باپ کی نافرمانی کرنا۔ کسی کو ناحق قتل کرنا۔ اور جھوٹی گواہی دینا۔( بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی: ومن احیاہا، ۴ / ۳۵۸، الحدیث: ۶۸۷۱)

(2)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں  گے کہ اللہ تعالٰی اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔( ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، ۳ / ۱۲۳، الحدیث: ۲۳۷۳)

(3)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر) جہنم (کا عذاب) واجب کر لیا۔( معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۷۲، الحدیث: ۱۱۵۴۱)

(4)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص لوگوں  کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں  وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں  ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالٰی کی ناخوشی میں  ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، ۶ / ۱۳۶، الحدیث: ۱۱۴۴۴)

{وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ: اور جب کسی بیہودہ بات کے پاس سے گزرتے ہیں ۔} یعنی جب وہ کسی لغو اور باطل کام میں  مصروف لوگوں  کے پاس سے گزرتے ہیں  تواپنی عزت سنبھالتے ہوئے وہاں  سے گزر جاتے ہیں ۔ اپنے آپ کو لہو و باطل سے مُلَوَّث نہیں  ہونے دیتے اور ایسی مجالس سے اِعراض کرتے ہیں ۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۲، ص۸۱۱)

25:73
وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا(۷۳)
اور وہ کہ جب کہ انہیں ان کے رب کی آیتیں یاد د لائی جائیں تو ان پر (ف۱۳۲) بہرے اندھے ہوکر نہیں گرتے (ف۱۳۳)

{وَ الَّذِیْنَ: اور وہ لوگ۔} یعنی جب کامل ایمان والوں  کو ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں  کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر غفلت کے ساتھ بہرے اور اندھے ہوکر نہیں  گرتے کہ نہ سوچیں  نہ سمجھیں  بلکہ ہوش وحواس قائم رکھتے ہوئے سنتے ہیں  اورچشمِ بصیرت کے ساتھ دیکھتے ہیں  اور اس نصیحت سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ،نفع اٹھاتے ہیں  اور ان آیتوں  میں  دئیے گئے احکام پر عمل کرتے ہیں ۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۳، ۶ / ۲۵۲، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۳۸۰، ملتقطاً)

قرآن مجید کی آیات کے ذریعے کی جانے والی نصیحت کیسے سننی چاہئے؟

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب قرآن مجید کی آیات کے ذریعے اللہ تعالٰی کی نعمتیں  یاد دلائی جائیں ، اللہ تعالٰی کی طاعت و فرمانبرداری کرنے اوراس کی رضا حاصل کرنے کی ترغیب دی جائے اور اس کی نافرمانی کرنے پر اس کے غضب وعذاب سے ڈرایا جائے، یونہی جو کام کرنے کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے انہیں  کرنے اور جن کاموں  سے بچنے کا فرمایا ہے ان سے رک جانے پر ابھارا جائے تو ہر مسلمان کو چاہئے کہ ان چیزوں  کو بے توجہی کے ساتھ نہ سنے بلکہ کامل توجہ کے ساتھ اور ہوش وحواس قائم رکھتے ہوئے سنے اور ان آیات کے ذریعے جو نصیحت کی گئی اس پر عمل کرے۔ ایسے لوگوں  کے بارے میں  ایک اور مقام پر اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

’’فَبَشِّرْ عِبَادِۙ(۱۷) الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘(الزمر:۱۷ ،۱۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو میرے ان بندوں  کو خوشخبری سنادو۔ جو کان لگا کر بات سنتے ہیں  پھر اس کی بہتربات کی پیرویکرتے ہیں ۔ یہ ہیں  جنہیں  اللہ نے ہدایت دی اور یہی عقلمند ہیں ۔

            اللہ تعالٰی عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

 

25:74
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(۷۴)
اور وہ جو عرض کرتے ہیں، اے ہمارے رب! ہمیں دے ہماری بیبیوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک (ف۱۳۴) اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا (ف۱۳۵)

{وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ: اور وہ جو عرض کرتے ہیں ۔} یعنی کامل ایمان والے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  یوں  عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب!ہماری بیویوں  اور ہماری اولاد سے ہمیں  آنکھوں  کی ٹھنڈک عطا فرما۔اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیں  بیویاں  اور اولاد نیک، صالح، متقی عطا فرما تاکہ ان کے اچھے عمل اور ان کی اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت دیکھ کر ہماری آنکھیں  ٹھنڈی اور دل خوش ہوں ۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۸۱۲)

 مومن کی آنکھوں  کی ٹھنڈک:

            اس سے معلوم ہوا کہ نیک اور پرہیز گار بیوی اوراولاد مومن کی آنکھوں  کی ٹھنڈک اور اس کے دل کی خوشی کا باعث ہے۔نیک بیوی کے بارے میں  حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دنیا مَتاع (یعنی فائدہ اٹھانے کی چیز) ہے اور دنیا کی بہترمتاع نیک عورت ہے۔(مسلم، کتاب الرضاع، باب خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ، ص۷۷۴، الحدیث: ۵۹(۱۴۶۷))

            اور حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالٰی سے ڈرنے کے بعد مومن کے لیے نیک بیو ی سے بہتر کوئی چیز نہیں ۔ اگر اسے حکم دیتا ہے تو وہ اطاعت کرتی ہے اور اگر اسے دیکھے تو خوش کر دے اور اس پر قسم کھا بیٹھے تو قسم سچی کر دے اور کہیں  چلا جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں  بھلائی کرے (یعنی اس کی عزت میں  خیانت نہ کرے اور اس کا مال ضائع نہ کرے۔)(ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب افضل النساء، ۲ / ۴۱۴، الحدیث: ۱۸۵۷)

            اور نیک اولاد کے بارے میں  حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب انسان مر جاتا ہے تو تین اعمال کے علاوہ اس کے عمل مُنقَطع ہو جاتے ہیں ۔(1)صدقہ جاریہ۔(2)وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا ہو۔(3)نیک بچہ جو اس کے لئے دعا کرے۔(مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، ص۸۸۶، الحدیث: ۱۴(۱۶۳۱))

{وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا: اور ہمیں  پرہیزگاروں  کا پیشوا بنا۔} یعنی ہمیں  ایسا پرہیزگار،عبادت گزار اور خدا پرست بنا کہ ہم پرہیزگاروں  کی پیشوائی کے قابل ہوں  اور وہ دینی اُمور میں  ہماری اِقتدا کریں ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں  دلیل ہے کہ آدمی کو دینی پیشوائی اور سرداری کی رغبت رکھنی اور طلب کرنی چاہئے۔(خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۳۸۱)      لیکن یہ اس صورت میں  ہے کہ جب مقصد اچھا ہو نہ یہ کہ حب ِ دنیا اور حب ِ جاہ کی وجہ سے ہو۔

 

25:75
اُولٰٓىٕكَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَ یُلَقَّوْنَ فِیْهَا تَحِیَّةً وَّ سَلٰمًاۙ(۷۵)
ان کو جنت کا سب سے اونچا بالا خانہ انعام ملے گا بدلہ ان کے صبر کا اور وہاں مجرے اور سلام کے ساتھ ان کی پیشوائی ہوگی (ف۱۳۶)

{اُولٰٓىٕكَ: انہیں ۔} اس سے پہلی آیات میں  اللہ تعالٰی نے اپنے صالحین بندوں  کے اوصاف ذکر فرمائے، اس کے بعد یہاں  اُن کی جزا ذکر فرمائی جارہی ہے۔ چنانچہ ا س آیت اورا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ انہیں  اللہ تعالٰی کی اطاعت پر ڈٹے رہنے،گناہوں  سے بچنے، کفار کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں  پر صبر کرنے، اِستقامت کے ساتھ عبادت کرنے اور فقر و فاقہ پر صبر کرتے رہنے کے سبب جنت کا سب سے اونچا درجہ انعام میں  دیا جائے گا اور اس بلند درجے میں  دعائے خیر اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا۔یہ استقبال یوں  ہوگا کہ فرشتے دعائے خیر اورسلام کے ساتھ ان کی تعظیم و تکریم کریں  گے یا یوں  ہو گا کہ اللہ تعالٰی ان کی طرف سلام بھیجے گا۔مزید ارشاد فرمایاکہ وہ ا س بلند درجے میں  ہمیشہ رہیں  گے، وہ کیا ہی اچھی ٹھہرنے اورقیام کرنے کی جگہ ہے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۸۱۲، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۵-۷۶، ۳ / ۳۸۱، ملتقطاً)

 

25:76
خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا(۷۶)
ہمیشہ اس میں رہیں گے، کیا ہی اچھی ٹھہرنے اور بسنے کی جگہ،

25:77
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْۚ-فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُوْنُ لِزَامًا۠(۷۷)
تم فرماؤ (ف۱۳۷) تمہاری کچھ قدر نہیں میرے رب کے یہاں اگر تم اسے نہ پوجو تو تم نے تو جھٹلایا (ف۱۳۸) تو اب ہوگا وہ عذاب کہ لپٹ رہے گا (ف۱۳۹)

{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اہل ِمکہ سے فرمائیں  کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں  اپنی اطاعت اور عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے، اگر تم نے میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت نہ کی تووہ تمہاری کوئی قدر نہیں  فرمائے گا اور وہ تمہاری قدر کیسے فرمائے گا حالانکہ تم نے ا س کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اس کی کتاب کو جھٹلایا ہے تو اب تم پر دنیا میں  ہلاکت کے بعد آخرت کا دائمی عذاب ہو گا۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۳۸۱، جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۳۰۹، ملتقطاً)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْفُرْقَان
اَلْفُرْقَان
  00:00



Download

اَلْفُرْقَان
اَلْفُرْقَان
  00:00



Download