Surah Al-Anfaal
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ:اے حبیب! تم سے اموالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔} اَنفال، نَفَلْ کی جمع ہے اورا س سے مراد مالِ غنیمت ہے۔ (جمل، الانفال، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۶۴)اور نَفَلْ کوغنیمت اس لئے کہتے ہیں کہ یہ بھی محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی عطا ہے۔ (بیضاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۸۷) شانِ نزول: اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق مختلف روایات ہیں ، ان میں سے دو روایات یہاں ذکر کی جاتی ہیں :
(1)…حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ، میں نے حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے آیتِ انفال کے نزول کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ’’یہ آیت ہم اہلِ بدر کے حق میں نازل ہوئی جب غنیمت کے معاملہ میں ہمارے درمیان اختلاف پیدا ہوا اور بدمزگی کی نوبت آگئی تو اللہ تعالیٰ نے معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکال کر اپنے رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سپرد کر دیا اور آپ نے وہ مال مسلمانوں میں برابر تقسیم کردیا۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ، ۸ / ۴۱۰، الحدیث: ۲۲۸۱۱)
(2)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غزوۂ بدر کے دن ارشاد فرمایا: ’’ جو تم میں سے یہ کام کر دکھائے اسے مالِ غنیمت میں سے یہ انعام ملے گا۔ چنانچہ نوجوان آگے بڑھ گئے اور عمر رسیدہ حضرات جھنڈوں کے پاس کھڑے رہے اور وہاں سے نہ ہٹے۔ جب اللہ تعالیٰ نے کافروں پر فتح عطا فرمائی تو بوڑھوں نے فرمایا: ’’ہم تمہارے پشت پناہ تھے، اگر تمہیں شکست ہو جاتی تو تم ہماری طرف آتے لہٰذا یہ نہیں کہ غنیمت تم لے جاؤ اور ہم خالی ہاتھ رہ جائیں۔ جوانوں نے اس بات سے انکار کیا اور کہا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ہمارا یہ حق مقرر فرمایا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی النفل، ۳ / ۱۰۲، الحدیث: ۲۷۳۷)
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ:ایمان والے وہی ہیں۔} اس سے پہلی آیت میں اللہتعالیٰ نے ایمان کی شرط کے ساتھ اپنی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم دیا کیونکہ کامل ایمان، کامل اطاعت کو مستلزم ہے۔ جبکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کامل ایمان والوں کے تین اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۱۷۵-۱۷۶)
کامل ایمان والوں کے تین اوصاف:
اس آیت میں اپنے ایمان میں سچے اور کامل لوگوں کا پہلا وصف یہ بیان ہوا کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کویاد کیا جائے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کاخوف دو طرح کا ہوتا ہے: (1) عذاب کے خوف سے گناہوں کو ترک کر دینا۔ (2)اللہ عَزَّوَجَلَّ کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی بے نیازی سے ڈرنا۔ پہلی قسم کا خوف عام مسلمانوں میں سے پرہیز گاروں کو ہوتا ہے اور دوسری قسم کا خوف اَنبیاء و مُرسَلین، اولیاءے کاملین اور مُقَرَّب فرشتوں کو ہوتا ہے اور جس کااللہ تعالیٰ سے جتنا زیادہ قرب ہوتاہے اسے اتنا ہی زیادہ خوف ہوتا ہے۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۲، ۵ / ۴۵۰ ملتقطاً)
جیسا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ میں تم سب سے زیادہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی معرفت رکھنے والا ہوں (بخاری، کتاب الایمان، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: انا اعلمکم باللہ، ۱ / ۱۸، الحدیث: ۲۰)
خوفِ خدا سے متعلق آثار:
حضرت حسن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ درخت پر پرندے کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اے پرندے! تیرے لئے کتنی بھلائی ہے کہ تو پھل کھاتا اور درخت پر بیٹھتا ہے کاش! میں بھی ایک پھل ہوتا جسے پرندے کھا لیتے۔ (کتاب الزہد لابن مبارک، باب تعظیم ذکر اللہ عزّوجل، ص۸۱، رقم: ۲۴۰)
حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو دیکھا کہ آپ نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر فرمایا: کاش! میں ایک تنکا ہوتا۔ کاش! میں کچھ بھی نہ ہوتا۔ کاش! میں پیدا نہ ہوا ہوتا۔ کاش! میں بھولا بسرا ہوتا۔ (کتاب الزہد لابن مبارک، باب تعظیم ذکر اللہ عزّوجل، ص۷۹، رقم: ۲۳۴)
حضرت عبداللہبن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس مومن بندے کی آنکھ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف سے آنسو نکلے، خواہ وہ مچھر کے سر جتنا ہو، پھر وہ آنسو رخسار کے سامنے کے حصے کو مس کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دیتا ہے (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الحزن والبکائ، ۴ / ۴۶۷، الحدیث: ۴۱۹۷)۔ ([1])
دوسرا وصف یہ بیان ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیات سن کر اُن کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ یہاں ایمان میں زیادتی سے ایمان کی مقدار میں زیادتی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے۔
تیسرا وصف یہ بیان ہو اکہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے تمام کام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد کر دیتے ہیں ، اس کے علاوہ کسی سے امید رکھتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۱۷۶)
توکل کا حقیقی معنی اور توکل کی فضیلت:
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’توکل کا یہ معنی نہیں کہ انسان اپنے آپ کو اور اپنی کوششوں کو مُہمَل چھوڑ دے جیساکہ بعض جاہل کہتے ہیں بلکہ توکل یہ ہے کہ انسان ظاہری اسباب کو اختیار کرے لیکن دل سے ان اَسباب پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ،اس کی تائید اور اس کی حمایت پر بھروسہ کرے ۔ (تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۳ / ۴۱۰) اس کی تائید اس حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ایک شخص نے عرض کی :یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،میں اپنے اونٹ کو باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں ؟ ارشاد فرمایا ’’تم اسے باندھو پھر توکل کرو۔ (ترمذی، کتاب صفۃ یوم القیامۃ، ۶۰-باب، ۴ / ۲۳۲، الحدیث: ۲۵۲۵)
اور توکل کی فضیلت کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ میری امت میں سے ستر ہزار بغیر حساب جنت میں جائیں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو منتر جنتر نہیں کرتے ، فال کے لیے چڑیاں نہیں اڑاتے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر بھروسہ کرتے ہیں۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ، ۴ / ۲۴۰، رقم۶۴۷۲)
[1] ۔۔۔ دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرنے کی ترغیب پانے اور اس سے متعلق دیگر چیزوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’خوفِ خدا‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ مفید ہے۔
{ اَلَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ:وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کامل ایمان والوں کے جو تین اوصاف بیان کئے یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر کے وقت ڈر جانا، تلاوت ِقرآن کے وقت ایمان زیادہ ہونا اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا، ان تینوں کا تعلق قلبی اعمال سے تھا جبکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن کے دو اوصاف ایسے بیان فرمائے ہیں کہ جن کا تعلق ظاہری اعضاء کے اعمال سے ہے، پہلا وصف یہ ارشاد فرمایا کہ’’وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں ‘‘ نماز قائم رکھنے سے مراد یہ ہے کہ فرض نمازوں کو ان کی تمام شرائط و ارکان کے ساتھ اُن کے اوقات میں ادا کرنا۔ دوسرا وصف یہ ارشاد فرمایا کہ ’’اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مال اس جگہ خرچ کرتے ہیں جہاں خرچ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم ارشاد فرمایا، اس میں زکوٰۃ، حج، جہا د میں خرچ کرنا اور نیک کاموں میں خرچ کرنا سب داخل ہے (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳، ۲ / ۱۷۷)۔ ([1])
[1] ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے فضائل اور احکام وغیرہ کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’ضیائے صدقات‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
{اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا:یہی سچے مسلمان ہیں۔} انہیں سچے مسلمان کا لقب اس لئے عطا ہو اکہ جہاں ان کے دل خَشیتِ الٰہی، اخلاص اور توکل جیسی صفاتِ عالیہ سے مُتَِّصف ہیں وہیں ان کے ظاہری اعضاء بھی رکوع و سجود اور راہِ خدا میں مال خرچ کرنے میں مصروف ہیں۔ (بیضاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۸۸-۸۹)
{لَهُمْ دَرَجٰتٌ: ان کے لیے درجے ہیں۔} اس آیت میں ما قبل مذکور پانچ اوصاف کے حامل مؤمنین کے لئے تین جزائیں بیان کی گئی ہیں :
(1)…ان کیلئے ان کے رب کے پاس درجات ہیں۔ یعنی جنت میں ان کے لئے مَراتب ہیں اور ان میں سے بعض بعض سے اعلیٰ ہیں کیونکہ مذکورہ بالا اوصاف کو اپنانے میں مؤمنین کے اَحوال میں تَفاوُت ہے اسی لئے جنت میں ان کے مراتب بھی جدا گانہ ہیں۔
(2)…ان کے لئے مغفرت ہے ۔یعنی ان کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔
(3)… اور عزت والا رزق ہے۔ یعنی وہ رزق ہے جو اللہتعالیٰ نے ان کیلئے جنت میں تیار فرمایا ہے۔ اسے عزت والا اس لئے فرمایا گیا کہ انہیں یہ رزق ہمیشہ تعظیم واکرام کے ساتھ اور محنت و مشقت کے بغیرعطا کیا جائے گا۔( خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴، ۲ / ۱۷۸)
{كَمَا:جس طرح۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مالِ غنیمت کا مسلمانوں کے اختیار سے نکال کر آپ کے اختیار میں دے دینا ایسے ہی حق ہے جیسے آپ کا غزوۂ بدر کے لئے اپنے گھر سے نکلنا برحق تھا اگرچہ دونوں چیزیں طبعی طور پر بعض مسلمانوں کی طبیعت پر گراں گزر رہی ہیں۔
{وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَ:حالانکہ یقینا مسلمانوں کا ایک گروہ اس پر ناخوش تھا۔}اس گروہ کے ناخوش ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ اُن کی تعداد کم ہے، ہتھیار تھوڑے ہیں جبکہ دشمن کی تعداد بھی زیادہ ہے اور وہ اسلحہ وغیرہ کا بڑا سامان رکھتا ہے۔ ان آیات میں مذکور واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ ملکِ شام سے ابوسفیان کے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ آنے کی خبر پا کر سیّدِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صحابۂ کرام کے ساتھ اُن سے مقابلے کیلئے روانہ ہوئے تو مکہ مکرمہ سے ابوجہل قریش کا ایک لشکرِ گراں لے کر اس تجارتی قافلے کی امداد کے لئے روانہ ہوا۔ ا بوسفیان تو رستے سے کترا کر اپنے قافلے کے ہمراہ ساحلِ سمندر کے راستے پر چل پڑے اور ابوجہل سے اس کے رفیقوں نے کہا کہ قافلہ تو بچ گیا اس لئے اب مکہ مکرمہ واپس چل۔ ابو جہل نے انکار کردیا اور وہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنگ کرنے کے ارادے سے بدر کی طرف چل پڑا۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسے مشورہ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کفار کے دونوں گروہوں یعنی تجارتی قافلے یا قریش کے لشکر میں سے ایک پر مسلمانوں کوفتح عطا فرمائے گا ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اس بات میں موافقت کی لیکن بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے یہ عذر پیش کیا کہ ہم اِس تیاری سے نہیں چلے تھے اور نہ ہماری تعداد اتنی ہے اور نہ ہی ہمارے پاس کافی اسلحے کا سامان ہے۔ یہ عذر رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو گراں گزرا اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا : قافلہ تو ساحل کی طرف نکل گیا جبکہ ابوجہل سامنے آ رہا ہے۔ اس پر ان لوگوں نے پھر عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قافلے ہی کا تعاقب کیجئے اور دشمن کے لشکرکو چھوڑ دیجئے۔ یہ بات خاطرِ اقدس پہ ناگوار ہوئی تو حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے کھڑے ہو کر اپنے اخلاص و فرمانبرداری اور رضا جوئی و جاں نثاری کا اظہار کیا اور بڑی قوت و اِستحکام کے ساتھ عرض کی کہ وہ کسی طرح مرضی ٔمبارک کے خلاف سستی کرنے والے نہیں ہیں۔پھر اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے بھی عرض کی کہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو حکم فرمایا اس کے مطابق تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں کبھی پیچھے نہ ہٹیں گے ، ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ا یمان لائے ہیں ، ہم نے آپ کی تصدیق کی اور ہم نے آپ کی پیروی کے عہد کئے ہیں۔ہمیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اتباع میں سمندر کے اندر کود جانے سے بھی کوئی عذر نہیں ہے۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: چلو ، اللہ تعالیٰ کی برکت پر بھروسا کرو ،اُس نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے اور میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ مجھے دشمنوں کے گرنے کی جگہ نظر آرہی ہے۔ اس کے بعد حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کے مرنے اور گرنے کی جگہ ہر ایک کے نام کے ساتھ بتادی اور ایک ایک کی جگہ پر نشانات لگادیئے اور یہ معجزہ دیکھا گیا کہ اُن میں سے جو مر کر گرا اُسی نشان پر گرا اور اس سے خطا نہ کی۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵-۷، ۲ / ۱۷۸-۱۸۰)
نوٹ:غزوۂ بد ر سے متعلق مزید معلومات کے لئے سورۂ آلِ عمران کی آیت 123 تا 127کی تفسیر ملاحظہ کیجئے۔
{ اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ:یاد کروجب تم اپنے رب سے فریا د کرتے تھے ۔} شانِ نزول: حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’ غزوۂ بدر کے دن رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مشرکین کو ملاحظہ فرمایا تو وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے ساتھ تین سو اُنیس مرد تھے۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے قبلہ کی طرف منہ کیا اور اپنے بابرکت ہاتھ پھیلا کر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے یہ دعا کرنے لگے ’’یا رب! عَزَّوَجَلَّ،تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما۔ یارب ! عَزَّوَجَلَّ، تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ عنایت فرما ۔یارب! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو اہلِ اسلام کی اس جماعت کو ہلاک کردے گا تو زمین میں تیری پرستش نہ ہوگی ۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسی طرح دعا کرتے رہے یہاں تک کہ مبارک کندھوں سے چادر شریف اُتر گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے اور چادر مبارک شانۂ اقدس پر ڈال کر عرض کی: یا نَبِیَّ اللہ!اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ آپ کی مناجات کافی ہوگئی وہ بہت جلد اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔(مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر۔۔۔ الخ، ص۹۶۹، الحدیث: ۵۸ (۱۷۶۳))
{ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ مُرْدِفِیْنَ: میں ایک ہزار لگاتار آنے والے فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کرنے والا ہوں۔} چنانچہ پہلے ایک ہزار فرشتے آئے پھر تین ہزار پھر پانچ ہزار۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ مسلمان اس دن کافروں کا تعاقب کرتے تھے اور کافر مسلمانوں کے آگے آگے بھاگتا جاتا تھا کہ اچانک اُوپر سے کوڑے کی آواز آتی اور سوار کا یہ کلمہ سنا جاتا تھا ’’ اَقْدِمْ حَیْزومُ‘‘ یعنی آگے بڑھ اے حیزوم (حیزوم حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے گھوڑے کا نام ہے) اور نظر آتا تھا کہ کافر گر کر مر گیا اور اس کی ناک تلوار سے اڑا دی گئی اور چہرہ زخمی ہوگیا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنے یہ معائنے بیان کئے تو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ یہ تیسرے آسمان کی مدد ہے۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر۔۔۔ الخ، ص۹۶۹، الحدیث: ۵۸ (۱۷۶۳))
نوٹ:غزوۂ بدر میں فرشتوں کے نزول سے متعلق مزید معلومات کے لئے سورۂ آلِ عمران آیت 124 کے تحت تفسیر ملاحظہ کیجئے۔
{اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ:یاد کروجب اس نے تم پر اونگھ ڈال دی۔} حضرت عبداللہبن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ غنودگی اگر جنگ میں ہو تو امن ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اور نماز میں ہو تو شیطان کی طرف سے ہے۔ جنگ میں غنودگی کا امن ہونا اس سے ظاہر ہے کہ جسے جان کا اندیشہ ہواُسے نیند اور اونگھ نہیں آتی، وہ خطرے اور اِضطراب میں رہتا ہے ۔ شدید خوف کے وقت غنودگی آنا حصولِ امن اور زوالِ خوف کی دلیل ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ’’ جب مسلمانوں کو دشمنوں کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت سے جانوں کا خوف ہوا اور بہت زیادہ پیاس لگی تو ان پر غنودگی ڈال دی گئی جس سے انہیں راحت حاصل ہوئی ، تھکان اور پیاس دور ہوئی اور وہ دشمن سے جنگ کرنے پر قادر ہوئے۔ یہ اونگھ اُن کے حق میں نعمت تھی ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ’’ یہ اونگھ معجزہ کے حکم میں ہے کیونکہ یکبارگی سب کواونگھ آئی اور کثیر جماعت کا شدید خوف کی حالت میں اِس طرح یکبارگی اونگھ جانا خلاف ِعادت ہے۔( خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۱، ۲ / ۱۸۲)
{وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً:اور تم پر آسمان سے پانی اتارا ۔} غزوۂ بدر کے دن مسلمان ریگستان میں اُترے تو اُن کے اور اُن کے جانوروں کے پاؤں ریت میں دھنسے جاتے تھے جبکہ مشرکین اُن سے پہلے پانی کی جگہوں پر قبضہ کر چکے تھے ۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے بعض کو وضو کی اور بعض کو غسل کی ضرورت تھی اور اس کے ساتھ پیاس کی شدت بھی تھی۔ شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ تمہارا گمان ہے کہ تم حق پر ہو، تم میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی ہیں اورتم اللہ والے ہو جبکہ حال یہ ہے کہ مشرکین غالب ہو کر پانی پر پہنچ گئے اور تم وضو اور غسل کئے بغیر نمازیں پڑھ رہے ہو تو تمہیں دشمن پر فتح یاب ہونے کی کس طرح امید ہے ؟شیطان کا یہ وسوسہ یوں زائل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بارش بھیجی جس سے وادی سیراب ہوگئی اور مسلمانوں نے اس سے پانی پیا، غسل اور وضو کئے، اپنی سواریوں کو پانی پلایا اور اپنے برتنوں کو پانی سے بھر لیا، بارش کی وجہ سے غبار بھی بیٹھ گیا اور زمین اس قابل ہوگئی کہ اس پر قدم جمنے لگے ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دل خوش ہو گئے اور بارش کی نعمت کامیابی اور فتح حاصل ہونے کی دلیل ہوئی۔(تفسیر بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱، ۲ / ۱۹۷)
{اَنِّیْ مَعَكُمْ:میں تمہارے ساتھ ہوں۔} آیت کے اس حصے کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جب فرشتے مسلمانوں کی مدد کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی فرمائی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی فرمائی کہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہوں تم ان کی مدد کرو اور انہیں ثابت قدم رکھو۔ فرشتوں کے ثابت قدم رکھنے کا معنی یہ ہے کہ فرشتوں نے سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد فرمائے گا اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مسلمانوں کو یہ خبر دے دی( جس سے مسلمانوں کے دل مطمئن ہو گئے اور وہ اس جنگ میں ثابت قدم رہے۔) دوسری تفسیر زیادہ قوی ہے کیونکہ اس کلام سے مقصود خوف زائل کرنا ہے کیونکہ فرشتے کفار سے نہیں ڈرتے محض مسلمان خوفزدہ تھے۔(تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۴۶۳)
{فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ:تو تم کافروں کی گردنوں کے اوپر مارو۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں خطاب مسلمانوں سے ہے اور ایک قول یہ ہے کہ خطاب فرشتوں سے ہے۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۱۹۷)
جنگِ بدر میں فرشتوں نے لڑائی میں باقاعدہ حصہ لیا تھا:
مفسرین کی ایک تعداد کے مطابق جنگ ِ بدر میں فرشتوں نے باقاعدہ لڑائی میں حصہ لیا تھا ،یہاں ہم دو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے بیانات تحریر کرتے ہیں جن سے مفسرین کے ا س مَوقف کی تائید ہوتی ہے۔چنانچہ
حضرت ابو داؤد مازنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو غزوۂ بدر میں حاضر ہوئے تھے ،فرماتے ہیں کہ ’’میں مشرک کی گردن مارنے کے لئے اس کے درپے ہوا لیکن اس کا سر میری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گر گیا تو میں نے جان لیا کہ اسے کسی اور نے قتل کیا ہے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی داود المازنی رضی اللہ عنہ، ۹ / ۲۰۲، الحدیث: ۲۳۸۳۹)
حضرت سہل بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ’’ غزوۂ بدر کے دن ہم میں سے کوئی تلوار سے مشرک کی طرف اشارہ کرتا تھا تو اس کی تلوار پہنچنے سے پہلے ہی مشرک کا سر جسم سے جدا ہو کر گر جاتا تھا۔ (معرفۃ الصحابہ، سہل بن حنیف بن واہب بن العکیم، ۲ / ۴۴۱، رقم: ۳۲۹۹)
نوٹ:یاد رہے کہ غزوہ ٔبدر کا واقعہ 2 ھ 17 رمضانُ المبارک، بروز جمعہ صبح کے وقت پیش آیا تھا۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۱۸۴)
{ذٰلِكَ:یہ عذاب۔} یعنی غزوۂ بدر کے دن کفار کے دلوں میں رعب ڈالے جانے ،قتل اور قیدی ہونے کے عذاب کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مخا لفت کی اور غزوۂ بدر کے دن جو عذاب ان پہ نازل ہوا یہ اُس عذاب کے مقابلے میں بہت تھوڑا ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۳، ۵ / ۴۶۴)
{ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْهُ:یہ تو چکھو۔} یعنی اے کفار! غزوۂ بدر میں تمہارا قتل اور قید ہونا تو دنیا کی سزا ہے ،تم اس کا مزہ چکھو اور اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ آخرت میں کافروں کے لئے آ گ کا عذاب ہے۔(جلالین، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۱۴۸-۱۴۹، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۴، ۲ / ۱۸۴، ملتقطاً)
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اے ایمان والو!۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ میدانِ جنگ میں مسلمان کافروں کو پیٹھ نہ دکھائیں اور یہ حکم اس وقت ہے کہ جب کفار مسلمانوں سے تعداد میں ڈبل ہوں اِس سے زیادہ نہ ہوں اور اگر کفار کی تعداد مسلمانوں کے مقابلے میں ڈبل سے زیادہ ہو تو پھر مسلمانوں کا پیٹھ پھیرکر بھاگنا ناجائز و حرام نہیں ہے۔ جمہور کے نزدیک ایک سو مسلمانوں کا دو سو کفار کے مقابلے سے بھاگنا کسی حال میں جائز نہیں ہے اور اگر کافر وں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہو تو ان کے مقابلے سے بھاگنا اگرچہ جائز ہے لیکن صبر و اِستِقامت سے ان کے مقابلے میں ڈٹے رہنا بہتر اور افضل ہے۔(تفسیر قرطبی، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۲۷۲، الجزء السابع)
{وَ مَنْ یُّوَلِّهِمْ یَوْمَىٕذٍ دُبُرَهٗ:اور جو اس دن انہیں پیٹھ دکھائے گا۔} یعنی مسلمانوں میں سے جو جنگ میں کفار کے مقابلے سے بھاگا وہ غضبِ الٰہی میں گرفتار ہوا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے البتہ دو صورتیں ایسی ہیں جن میں وہ پیٹھ دکھا کر بھاگنے والا نہیں ہے۔
(1)… کسی جنگی حکمتِ عملی کی وجہ سے پیچھے ہٹنا مثلاً پیچھے ہٹ کر حملہ کرنا زیادہ مؤثِّر ہو یا خطرناک جگہ سے ہٹ کر محفوظ جگہ سے حملہ کرنے کا قصد ہو تو اس صورت میں وہ پیٹھ دکھا کر بھاگنے والا نہیں ہے۔
(2)… اپنی جماعت میں ملنے کے لئے پیچھے ہٹنا مثلاً مسلمان فوجیوں کا کوئی فرد یا گروہ مرکزی جماعت سے بچھڑ گیا اور وہ اپنے بچاؤ کیلئے پَسپا ہو کر مرکزی جماعت سے ملا تو یہ بھی بھاگنے والوں میں شمار نہ ہو گا۔
جنگِ اُحد اور جنگِ حُنَین میں پسپائی اختیار کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکا حکم
جنگِ احد اور جنگِ حنین میں جن صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے قدم اکھڑ گئے تھے وہ اس آیت کی وعید میں داخل نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں جنگِ احد میں پسپائی اختیار کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی عام معافی کا اعلان فرما دیا: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِۙ-اِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْاۚ-وَ لَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهُمْ‘‘ (آل عمران: ۱۵۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک تم میں سے وہ لوگ جو اس دن بھاگ گئے جس دن دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا ،انہیں شیطان ہی نے ان کے بعض اعمال کی وجہ سے لغزش میں مبتلا کیا اور بیشک اللہ نے انہیں معاف فرما دیا ہے۔
یونہی جنگِ حنین میں جن صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے ابتداء ًپسپائی اختیار کی ان کے مومن رہنے کی گواہی خود قرآن میں موجود ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے قدم جمائے اور ان پر اپنا سکینہ اتارا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا‘‘ (التوبہ : ۲۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھراللہ نے اپنے رسول پر اور اہلِ ایمان پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اس نے (فرشتوں کے) ایسے لشکر اتارے جو تمہیں دکھائی نہیں دیتے تھے ۔
جو اس طرح کے واقعات کو لے کر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی شان میں گستاخی کرے اور ان پر زبانِ طعن دراز کرے وہ بڑا بدبخت ہے کہ ان کی معافی کا اعلان ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّخود فرماچکا ہے۔
{فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ:تو تم نے انہیں قتل نہیں کیا۔} شانِ نزول: جب مسلمان جنگِ بدر سے واپس ہوئے تو ان میں سے ایک کہتا تھا کہ میں نے فلاں کو قتل کیا، دوسرا کہتا تھا میں نے فلاں کو قتل کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اس قتل کو تم اپنے زور ِبازو اور طاقت و قوت کی طرف منسوب نہ کرو کہ یہ درحقیقت اللہ عَزَّوَجَلَّکی امداد اور اس کی تَقْوِیَت اور تائید ہے۔(تفسیر بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۱۹۹)
ہر اچھے کام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اچھے اور نیک کام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہئے اور جب انسان کوئی اچھا اور نیک کام کرے تو اس پر فخر نہیں کرنا چاہئے کیونکہ نیک کام بندہ خود نہیں کرتا بلکہ جو بھی نیک کام کرتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی توفیق شاملِ حال ہوتو ہی کرتا ہے۔
{وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى:اور اے محبوب! جب آپ نے خاک پھینکی تو آپ نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔} شانِ نزول: اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق جمہور مفسرین کا مختار قول یہ ہے کہ جب کفار اور مسلمانوں کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے ہوئیں تورسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک مٹھی خاک کافروں کے چہرے پر ماری اور فرمایا ’’شَاہَتِ الْوُجُوْہ‘‘ یعنی ان لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں۔ وہ خاک تمام کافروں کی آنکھوں میں پڑی اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بڑھ کر انہیں قتل اور گرفتار کرنے لگے۔ کفارِ قریش کی شکست کا اصل سبب خاک کی وہ مٹھی تھی جو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھینکی تھی۔ اس موقع پراللہتعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
’’ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے حبیب!جب آپ نے خاک پھینکی تو وہ آپ نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔( تفسیر طبری، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۷، ۶ / ۲۰۳، قرطبی، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۲۷۶، الجزء السابع)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس واقعے کی منظر کشی کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں :
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ
جن سے اتنے کافروں کا دفعتاً منھ پھر گیا
{اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا:اے کافرو!اگر تم فیصلہ مانگتے ہو۔} شانِ نزول: اس آیت میں خطاب ان مشرکین سے ہے جنہوں نے بدر میں سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے جنگ کی اور ان میں سے ابوجہل نے اپنے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں یہ دُعا کی کہ’’یارب ہم میں جو تیرے نزدیک اچھا ہو ا س کی مدد کر اور جو برا ہواسے مصیبت میں مبتلا کر۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۱۸۶)
اور ایک روایت میں ہے کہ مشرکین نے مکہ مکرمہ سے بدر کی طرف چلتے وقت کعبہ معظمہ کے پردوں سے لپٹ کر یہ دعا کی تھی کہ’’یارب! اگر محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) حق پر ہوں تو ان کی مدد فرما اور اگر ہم حق پر ہوں تو ہماری مدد کر اس پر یہ آیت نازل ہوئی (مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۰۸) کہ جو فیصلہ تم نے چاہاتھا وہ کردیا گیا اور جو گروہ حق پر تھا اس کو فتح دی گئی، یہ تمہارا اپنا مانگا ہوا فیصلہ ہے۔ اب آسمانی فیصلہ سے بھی اسلام کی حقانیت ثابت ہوئی، ابوجہل بھی اس جنگ میں ذلت و رسوائی کے ساتھ مارا گیا اور اس کا سر رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا۔
{وَ اِنْ تَنْتَهُوْا:اور اگر تم با ز آجاؤ۔} آیت کے اس حصے میں بھی کفار سے خطاب ہے اور آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے دشمنی رکھنے ،انہیں جھٹلانے اور ان کے خلاف جنگ کرنے سے باز آ گئے تو یہ دین اور دنیا دونوں میں تمہارے لئے بہتر ہے۔ دین میں اس طرح کہ تم دائمی عذاب سے بچ جاؤ گے اور ثواب سے مالا مال کئے جاؤ گے، جبکہ دنیا میں اس طرح کہ تم قتل کئے جانے ،قیدی بنائے جانے اور غنیمت کے طور پر اَموال لے لئے جانے سے بچ جاؤ گے اور اگر تم نے مسلمانوں سے دوبارہ جنگ کی تو ہم پھر مسلمانوں کو تم پر مُسلَّط کر دیں گے جیسا کہ تم غزوۂ بدر میں مشاہدہ کر چکے ہو اور یہ جان چکے ہوکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تائید اور نصرت تمہاری بجائے مسلمانوں کے ساتھ ہے اور تم کتنی بھاری جمعیت لے کر کیوں نہ آؤ وہ تمہیں شکست سے نہ بچا سکے گی جیسے بدر کے میدان میں تمہارا بڑا جتھا تمہارے کسی کام نہ آیا۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۹، ۵ / ۴۶۸)
اس آیت میں غیب کی خبر ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کے بھاری لشکر بھی مغلوب ہو جائیں گے، اللہتعالیٰ نے یہ خبر پوری فرما دی ،تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے عہدِ خلافت اور بعد میں بھی تھوڑے مسلمان بہت سے کافروں پر غالب آئے۔مسلمانوں کی جنگی تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ
(1)…غزوۂ موتہ میں صرف تیس ہزار جانثارانِ مصطفٰی کے مقابلے میں روم کے بادشاہ قیصر کی فوج کی تعداد دو لاکھ تھی، لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّکے شیروں نے اس جنگ میں پرچمِ اسلام سرنگوں نہ ہونے دیا۔
(2)… جنگِ یرموک میں حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تقریباً40000 کی قلیل فوج کے ساتھ دشمن کے دس لاکھ ساٹھ ہزار فوجیوں سے ٹکرا ئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّکی نصرت و حمایت سے کامیاب و کامران ہوئے۔
(3)… اسی جنگ میں حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے صرف 60 کفن بَردوش مجاہدین کے ساتھ دشمن کے 60000 جنگجو اور سر تا پا لوہے سے لیس فوجیوں کے ساتھ صبح سے لے کر شام تک مقابلہ کیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے ان پر غالب آگئے۔
(4)… حضرت طارق بن زیاد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے صرف 1700 جانباز مجاہدین کے ساتھ اندلس کے بادشاہ لڈریک کے ستر ہزار شہسواروں سے جنگ کی اور نصرتِ الٰہی کے صدقے انہیں کچل کر رکھ دیا۔
یہ غازی یہ تیرے پُراَسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اے ایمان والو!۔}اس آیت سے مقصود سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنے کا حکم دینا اور ان کی نافرمانی سے منع کرنا ہے جبکہ اللہتعالیٰ کی اطاعت کا ذکر اس بات پر مُتَنَبِّہ کرنے کے لئے ہے کہ رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اللہ عَزَّوَجَلَّہی کی اطاعت ہے جیسا کہ ایک مقام پر صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا:
’’ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ‘‘(النساء:۸۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا۔ (ابو سعود، الانفال، تحت الآیۃ:۲۰، ۲ / ۳۵۳)
{وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ:اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا۔} ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے کہا :ہم نے سن لیا حالانکہ وہ نہیں سنتے ،کیونکہ جو سن کر فائدہ نہ اُٹھائے اور نصیحت حاصل نہ کرے اُس کا سننا سننا ہی نہیں ہے ۔یہ منافقین اور مشرکین کا حال ہے مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کا حکم دیا جارہا ہے۔
{اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ:بیشک سب جانوروں میں بدتر۔} یعنی مخلوقِ خدا میں سے روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدتر وہ ہیں جونہ حق سنتے ہیں ، نہ حق بات بولتے ہیں اور نہ حق کو سمجھتے ہیں۔ کان اور زبان و عقل سے فائدہ نہیں اُٹھاتے بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ یہ دیدہ ودانستہ بہرے گونگے بنتے اور عقل سے دشمنی کرتے ہیں۔ شانِ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’یہ آیت بنی عبدالدار بن قُصَیْ کے حق میں نازل ہوئی جو کہتے تھے کہ جو کچھ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لائے ہم اُس سے بہرے گونگے اندھے ہیں ،یہ سب لوگ جنگ ِاُحد میں قتل ہوگئے اور ان میں سے صرف دو شخص حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت سویبط بن حرملہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ایمان لائے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۲، ۲ / ۱۸۸)
{وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِیْهِمْ خَیْرًا:اور اگر اللہ ان میں کچھ بھلائی جانتا۔ } بعض مفسرین نے فرمایا کہ اہلِ مکہ حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ فرمائش کرتے کہ آپ ہمارے سامنے قُصَی کو زندہ کر دیں کیونکہ وہ بابرکت بزرگ ہے، اگر اس نے آپ کی نبوت کی گواہی دے دی تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اگر ان کی خواہش کے مطابق ہم قُصَی کو زندہ کر دیتے اور وہ اس کا کلام سن لیتے تو بھی وہ روگردانی کرتے ہوئے پلٹ جاتے۔ (تفسیر بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۳، ۲ / ۲۰۲) یہاں خیر سے مراد صدق و رغبت ہے یعنی اگراللہ عَزَّوَجَلَّان لوگوں کے دلوں میں قبولِ حق کا سچا جذبہ اور رغبت جانتا یعنی پاتا تو انہیں سنادیتا یعنی ان کے مطلوبہ معجزات انہیں دکھا دیتا اور حق سنا دیتا لیکن چونکہ ان کے دلوں میں وہ صدق و رغبت موجود ہی نہیں لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں ان کے مطلوبہ معجزات نہ دکھائے اور اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں دکھا بھی دیتا تو یہ منہ پھیر لیتے۔
{اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ:اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہو۔}اس آیت میں واحد کا صیغہ ’’دَعَا‘‘ ا س لئے ذکر کیا گیا کہ حضور سید المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بلانا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کا بلانا ہے۔( خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۱۸۸)
رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَجب بھی بلائیں تو ان کی بارگاہ میں حاضر ہونا ضروری ہے:
اس آیت سے ثابت ہو اکہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حا ضر ہو جائے چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو۔ بخاری شریف میں ہے،حضرت ابوسعید بن معلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں مسجدِ نبوی میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے رسُولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بلایا، لیکن میں آپ کے بلانے پر حاضر نہ ہوا ۔ (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) میں نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ
’’اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ اور رسول کے بلانے پر حاضر ہو جایا کروجب وہ تمہیں بلائیں۔ (بخاری، باب ما جاء فی فاتحۃ الکتاب، ۳ / ۱۶۳، الحدیث: ۴۴۷۴)
ایسا ہی واقعہ ایک اور حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَحضرت اُبَی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف تشریف لائے اور انہیں آواز دی ’’اے اُبَی! حضرت اُبَی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نماز پڑھ رہے تھے، انہوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف دیکھا لیکن کوئی جواب نہ دیا، پھر مختصر نماز پڑھ کر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ‘‘ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’وَعَلَیْکَ السَّلَامْ‘‘ اے اُبَی! جب میں نے تمہیں پکارا تو جواب دینے میں کونسی چیز رکاوٹ بنی۔ عرض کی:یا رسولَ اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم نے قرآنِ پاک میں یہ نہیں پایا کہ
’’اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ‘‘
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان:اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔
عرض کی: ہاں یا رسولَ اللہ ! اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آئندہ ایسا نہ ہو گا۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل فاتحۃ الکتاب، ۴ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۸۸۴)
{لِمَا یُحْیِیْكُمْ:اس چیز کے لئے جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔} زندگی دینے والی چیز کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے ا یمان مراد ہے کیونکہ کافر مردہ ہوتا ہے ا یمان سے اس کوزندگی حاصل ہوتی ہے۔حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ وہ چیز قرآن ہے کیونکہ اس سے دِلوں کی زندگی ہے اور اس میں نجات ہے اور دونوں جہان کی حفاظت ہے۔ حضرت محمد بن اسحاق رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ وہ چیز جہاد ہے کیونکہ اس کی بدولت اللہ تعالیٰ ذلت کے بعد عزت عطا فرماتا ہے۔بعض مفسرین نے فرمایا کہ وہ چیز شہادت ہے ، کیونکہ شہداء اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۱۸۸)
{وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً:اور اس فتنے سے ڈرتے رہو۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس بات سے ڈرایا تھا کہ بنو آدم اور ان کے دلوں کے درمیان اللہ تعالیٰ حائل ہے اور اس آیت میں اللہ عَزَّوَجَلَّنے مسلمانوں کو فتنوں ، آزمائشوں اور عذاب سے ڈرایا ہے کہ اگر ظالموں پر عذاب نازل ہوا تو وہ صرف ظالموں تک ہی محدود نہ رہے گا بلکہ نیک و بد سب لوگوں پر یہ عذاب نازل ہو گا۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو حکم فرمایا ہے کہ وہ اپنی طاقت و قدرت کے مطابق برائیوں کو روکیں اور گناہ کرنے والوں کو گناہ سے منع کریں اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو عذاب ان سب کو عام ہوگا اورخطا کار اور غیر خطا کارسب کو پہنچے گا۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۵، ۵ / ۴۷۳، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۱۸۹، ملتقطاً)
قدرت کے باوجودبرائی سے منع کرنا چھوڑ دینا عذابِ الٰہی آنے کا سبب ہے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ جو قوم قدرت کے باوجودبرائیوں سے منع کرنا چھوڑ دیتی ہے اور لوگوں کو گناہوں سے نہیں روکتی تووہ اپنے اس ترکِ فرض کی شامت میں مبتلا ئے عذاب ہوتی ہے۔ کثیر احادیث میں بھی یہ چیز بیان کی گئی ہے ،ان میں سے 3 احادیث درج ذیل ہیں :
(1)… سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ مخصوص لوگوں کے عمل کی وجہ سے عذابِ عام نہیں کرتا جب تک کہ عام طور پر لوگ ایسا نہ کریں کہ ممنوعات کو اپنے درمیان ہوتا دیکھتے رہیں اور اس کے روکنے اور منع کرنے پر قادر ہونے کے باوجود اس سے نہ روکیں ،نہ منع کریں۔جب ایسا ہوتا ہے تو اللہتعالیٰ عذاب میں عام و خاص سب کو مبتلا کردیتا ہے۔ (شرح السنہ، کتاب الرقاق، باب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، ۷ / ۳۵۸، الحدیث: ۴۰۵۰)
(2)…حضرت جریر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ’’ کسی قوم میں جو شخص گناہوں میں سرگرم ہواور وہ لوگ قدرت کے باوجود اس کو نہ روکیں تواللہتعالیٰ مرنے سے پہلے اُنہیں عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (ابو داؤد، اول کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، ۴ / ۱۶۴، الحدیث: ۴۳۳۹)
(3)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ خدا کی قسم! تم ضرور نیکی کی دعوت دیتے رہنا اور برائی سے منع کرتے رہنا اور تم ضرور ظلم کرنے والے کے ہاتھوں کو پکڑ لینا اورا سے ضرور حق پر عمل کے لئے مجبور کرنا ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دل بھی ایک جیسے کر دے گا پھر تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح بنی اسرائیل پر لعنت کی گئی۔ (ابو داؤد، اول کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، ۴ / ۱۶۳، الحدیث: ۴۳۳۶-۴۳۳۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں ایک دوسرے کو نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔([1])
[1] ۔۔۔۔ نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کے بارے میں اہم معلومات حاصل کرنے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب’’نیکی کی دعوت‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ اذْكُرُوْا:اور یاد کرو۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کو اپنی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم دیا اور فتنے سے ڈرایا، اب اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتیں یاد دلا ئیں چنانچہ ارشاد فرمایا: اے مہاجرین کے گروہ! یاد کرو، جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بِعثَت سے پہلے تم تعداد میں کم تھے اور ابتدائے اسلام میں مکہ کی سرزمین پر تمہیں کمزور سمجھا جاتا تھا اور تم دوسرے شہروں میں سفر کرنے سے ڈرتے تھے کہ کہیں کفار لوٹ نہ لیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّنے تمہیں مکہ سے مدینہ منتقل کر کے ٹھکانہ دیا اور تم کفار کے شر سے محفوظ ہوگئے اور اپنی مدد سے تمہیں قوت عطا کی کہ بدر کی جنگ میں کفار پر تمہاری ہیبت ڈال دی جس کے نتیجے میں تم اپنے سے تین گنا بڑے لشکر پر غالب آ گئے اور تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا کہ تمہارے لئے مالِ غنیمت کو حلال کر دیا جبکہ پہلی امتوں پر وہ حرام تھا تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کرو۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۱۸۹، تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۶، ۵ / ۴۷۴، ملتقطاً)
نعمت کی ناشکری نعمت چھن جانے کا سبب ہے:
ہر دور میں اسی طرح اللہ تعالیٰ اجتماعی اور اِنفرادی طور پر مسلمانوں کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازتا ہے، مصائب و آلام سے نجات دے کر راحت و آرام عطا کر تا ہے۔ جب مسلمان اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتے، یادِ خدا سے غفلت کو اپنا شعار بنا لیتے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اپنے برے اعمال کی کثرت کی وجہ سے خود کواللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نااہل ثابت کردیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی دی ہوئی نعمتیں واپس لے لیتا ہے۔ عالمی سطح پر عظیم سلطنت رکھنے کے بعد مسلمانوں کا زوال، عزت کے بعد ذلت، فتوحات کے بعد موجودہ شکست وغیرہ اس چیز کی واضح مثالیں موجود ہیں۔
{لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ:اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو۔} فرائض چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ سے خیانت کرنا ہے اور سنت کو ترک کرنا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے خیانت کرنا ہے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۱۹۰)شانِ نزول: یہ آیت حضرت ابولبابہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے حق میں نازل ہوئی ۔اس کاواقعہ یہ ہے کہ سرکارِدو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بنو قریظہ کے یہودیوں کا دو ہفتے سے زیادہ عرصے تک محاصرہ فرمایا، وہ اس محاصرہ سے تنگ آگئے اور اُن کے دل خائف ہوگئے تو اُن سے اُن کے سردار کعب بن اسد نے یہ کہا کہ اب تین صورتیں ہیں ، ایک یہ کہ اس شخص یعنی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تصدیق کرو اور ان کی بیعت کرلو کیونکہ خدا کی قسم! یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ وہ نبی مُرسَل ہیں اور یہ وہی رسول ہیں جن کا ذکر تمہاری کتاب میں ہے، ان پر ا یمان لے آئے تو جان مال، اہل و اولاد سب محفوظ رہیں گے ۔ اس بات کو قوم نے نہ مانا تو کعب نے دوسری صورت پیش کی اور کہا کہ تم اگر اسے نہیں مانتے تو آؤ پہلے ہم اپنے بیوی بچوں کو قتل کردیں پھر تلواریں کھینچ کر محمد مصطفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اُن کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے مقابلے میں آجائیں تاکہ اگر ہم اس مقابلے میں ہلاک بھی ہوجائیں تو ہمارے ساتھ اپنے اہلِ خانہ اور اولاد کا غم تو نہ رہے گا۔ اس پر قوم نے کہا کہ بیوی بچوں کے بعد جینا ہی کس کام کا؟ کعب نے کہا :یہ بھی منظور نہیں ہے تو حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے صلح کی درخواست کرو شاید اس میں کوئی بہتری کی صورت نکلے۔ انہوں نے تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے صلح کی درخواست کی لیکن حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے سوا اور کوئی بات منظور نہ فرمائی کہ اپنے حق میں حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے فیصلہ کو منظور کریں۔ اس پر اُنہوں نے کہا کہ ہمارے پاس حضرت ابولبابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بھیج دیجئے کیونکہ حضرت ابولبابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اُن کے تَعلُّقات تھے اور حضرت ابولبابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مال اور اُن کی اولاد اور اُن کے عیال سب بنو قریظہ کے پاس تھے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابولبابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بھیج دیا، بنو قریظہ نے اُن سے رائے دریافت کی کہ کیا ہم حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا فیصلہ منظور کرلیں کہ جو کچھ وہ ہمارے حق میں فیصلہ دیں وہ ہمیں قبول ہو۔ حضرت ابولبابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیر کر اشارہ کیا کہ یہ تو گلے کٹوانے کی بات ہے۔ حضرت ابولبابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ میرے قدم اپنی جگہ سے ہٹنے نہ پائے تھے کہ میرے دل میں یہ بات جم گئی کہ مجھ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خیانت واقع ہوئی، یہ سوچ کر وہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں تو نہ آئے، سیدھے مسجد شریف پہنچے اور مسجد شریف کے ایک ستون سے اپنے آپ کو بندھوا لیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم کھائی کہ نہ کچھ کھائیں گے نہ پئیں گے یہاں تک کہ مرجائیں یا اللہتعالیٰ اُن کی توبہ قبول کرے۔ وقتاً فوقتاً ان کی زوجہ آکر انہیں نمازوں کے لئے اور طبعی حاجتوں کے لئے کھول دیا کرتی تھیں اور پھر باندھ دیئے جاتے تھے۔ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جب یہ خبر پہنچی تو فرمایا کہ ابولبابہ میرے پاس آتے تو میں ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتا لیکن جب اُنہوں نے یہ کیا ہے تو میں انہیں نہ کھولوں گا جب تک اللہ عَزَّوَجَلَّ اُن کی توبہ قبول نہ کرے ۔وہ سات روز بندھے رہے اورنہ کچھ کھایا نہ پیا یہاں تک کہ بے ہوش ہو کر گر گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی توبہ قبول کی، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اُنہیں توبہ قبول ہونے کی بشارت دی۔ تواُنہوں نے کہا : خدا کی قسم ! جب تک رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مجھے خود نہ کھولیں تب تک میں نہ کھولوں گا۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُنہیں اپنے دستِ مبارک سے کھول دیا۔ حضرت ابولبابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کی: میری توبہ اُس وقت پوری ہوگی جب میں اپنی قوم کی بستی چھوڑ دوں جس میں مجھ سے یہ خطا سرزد ہوئی اور میں اپنا پورا مال اپنی ملک سے نکال دوں۔ سیّد ِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :تہائی مال کا صدقہ کرنا کافی ہے ۔اُن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۲۰۳-۲۰۴، جمل، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۱۸۵-۱۸۶، ملتقطاً) اس سے معلوم ہوا کہ اپنی قوم کے راز دوسری قوم تک پہنچا نا سخت جرم ہے۔
{وَ اعْلَمُوْا:اور جان لو۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مال و دولت اور اولاد کی جو نعمتیں تمہیں عطا کی ہیں وہ تمہارے لئے ایک آزمائش ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے یہ ظاہر فرما دے کہ تم مال اور اولاد میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کس طرح ادا کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں مال اور اولاد کی محبت تمہارے لئے رکاوٹ بنتی ہے یا نہیں اور ا س بات پہ یقین رکھو کہ اپنے مال اور اولاد میں جتنا تم اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق عمل کرتے ہو اس کا ثواب اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کے پاس ہے لہٰذا تم اللہتعالیٰ کی اطاعت کرو تا کہ آخرت میں تمہیںبے شمار اجر دیاجائے۔(تفسیر طبری، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۸، ۶ / ۲۲۲)
{اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ:اگر تم اللہ سے ڈرو گے۔}جو شخص رب تعالیٰ سے ڈرے اور اس کے حکم پر چلے تواللہ تعالیٰ اسے تین خصوصی انعام عطا فرمائے گا ۔
پہلا انعام یہ کہ اسے فُرقان عطا فرمائے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ایسا نور اور توفیق عطا کرے گا جس سے وہ حق و باطل کے درمیان فرق کر لیا کرے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۱۹۱)
مومن کی فراست:
مومن کی فراست کے بارے میں حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’اِتَّقُوْا فَرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہِ‘‘ مومن کی فراست و دانائی سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ (معجم الاوسط، باب الباء، من اسمہ بکر، ۲ / ۲۷۱، الحدیث: ۳۲۵۴)
امیر المومنین حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ ایک شخص آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ی کے لئے جا رہا تھا کہ راستے میں ایک اجنبیہ عورت پر اس کی نگاہ پڑ گئی۔ جب حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا: ہمارے پاس بعض حضرات اس حالت میں آتے ہیں کہ ان کی آنکھ میں زنا کا اثر ہوتا ہے۔ اس شخص نے عرض کی : کیا ابھی وحی بند نہیں ہوئی؟ فرمایا : یہ وحی نہیں بلکہ مومن کی فراست ہے۔( تفسیر قرطبی، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۵، ۵ / ۳۳، الجزء العاشر)
دوسرا انعام یہ کہ اس کے سابقہ گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور تیسرا نعام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں کو چھپا لے گا۔([1])
[1] ۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی ضرورت،اہمیت اور ترغیب وغیرہ پر مشتمل معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’خوف خدا‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ اِذْ:اور اے محبوب یاد کرو۔} آیت میں اُس واقعے کا ذکر ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ذکر فرمایا کہ کفارِ قریش دارُالنَّدوہ ( یعنی کمیٹی گھر) میں رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں مشورہ کرنے کے لئے جمع ہوئے اور ابلیس لعین ایک بڈھے کی صورت میں آیا اور کہنے لگا کہ میں نجد کاشیخ ہوں ، مجھے تمہارے اس اجتماع کی اطلاع ہوئی تو میں آیا، مجھ سے تم کچھ نہ چھپانا میں تمہارا رفیق ہوں اور اس معاملہ میں بہتر رائے سے تمہاری مدد کروں گا۔ انہوں نے اس کو شامل کرلیا اور تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق رائے زنی شروع ہوئی ۔ ابوالبختری نے کہا کہ’’ میری رائے یہ ہے کہ محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو پکڑ کر ایک مکان میں قید کردو اور مضبوط بندشوں سے باندھ کر دروازہ بند کردو ،صرف ایک سوراخ چھوڑ دو جس سے کبھی کبھی کھانا پانی دیا جائے اور وہیں وہ ہلاک ہو کر رہ جائیں۔ اس پر شیطان لعین جو شیخِ نجدی بنا ہوا تھا بہت ناخوش ہوا اور کہا: بڑی ناقص رائے ہے، جب یہ خبر مشہور ہوگی تو اُن کے اصحاب آئیں گے اور تم سے مقابلہ کریں گے اور انہیں تمہارے ہاتھ سے چھڑا لیں گے۔ لوگوں نے کہا :شیخِ نجدی ٹھیک کہتا ہے ۔ پھر ہشام بن عمرو کھڑا ہوا، اس نے کہا میری رائے یہ ہے کہ ان کو (یعنی محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو) اونٹ پر سوار کر کے اپنے شہر سے نکال دو ،پھر وہ جوکچھ بھی کریں اس سے تمہیں کچھ ضرر نہیں۔ ابلیس نے اس رائے کو بھی ناپسند کیا اور کہا : جس شخص نے تمہارے ہوش اُڑا دیئے اور تمہارے دانشمندوں کو حیران بنادیا اس کو تم دوسروں کی طرف بھیجتے ہو! تم نے اس کی شیریں کلامی نہیں دیکھی ہے ؟اگر تم نے ایسا کیا تو وہ دوسری قوم کے دلوں کو تسخیر کرکے ان لوگوں کے ساتھ تم پر چڑھائی کر دیں گے۔ اہلِ مجمع نے کہا :شیخِ نجدی کی رائے ٹھیک ہے۔ اس پر ابوجہل کھڑا ہوا اور اس نے یہ رائے دی کہ قریش کے ہر ہر خاندان سے ایک ایک عالی نسب جوان منتخب کیا جائے اور ان کو تیز تلواریں دی جائیں ، وہ سب یکبارگی حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر حملہ آور ہو کر قتل کردیں تو بنی ہاشم قریش کے تمام قبائل سے نہ لڑ سکیں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ انہیں خون کا معاوضہ دینا پڑے گا اور وہ دے دیا جائے گا۔ ابلیس لعین نے اس تجویز کوپسند کیا اور ابوجہل کی بہت تعریف کی اور اسی پر سب کا اتفاق ہوگیا ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ پیش کیا اور عرض کی کہ حضور! رات کے وقت اپنی خواب گاہ میں نہ رہیں ، اللہ تعالیٰ نے اِذن دیا ہے، آپ مدینہ طیبہ کا عزم فرمائیں۔ حضور ِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکو رات میں اپنی خواب گاہ میں رہنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہماری چادر شریف اوڑھ لو تمہیں کوئی ناگواربات پیش نہ آئے گی اور حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دولت سرائے اقدس سے باہر تشریف لائے اور ایک مشت خاک دستِ مبارک میں لی اور آیت ’’اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا‘‘پڑھ کر مُحاصَرہ کرنے والوں پر ماری ،سب کی آنکھوں اور سروں پر پہنچی ، سب اندھے ہوگئے اور حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہ دیکھ سکے ۔اس کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ہمراہ غارِ ثور میں تشریف لے گئے اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو لوگوں کی امانتیں پہنچانے کے لئے مکہ مکرمہ میں چھوڑا ۔مشرکین رات بھر سیّد ِعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دولت سرائے اقدس کا پہرہ دیتے رہے، صبح کے وقت جب قتل کے ارادہ سے حملہ آور ہوئے تو دیکھا کہ بستر پر حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ہیں۔ ان سے حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں دریافت کیا کہ کہاں ہیں تو انہوں نے فرمایا: ہمیں معلوم نہیں۔ کفارِ قریش تلاش کے لئے نکلے ،جب غارِ ثور پر پہنچے تو مکڑی کے جالے دیکھ کر کہنے لگے کہ اگر اس میں داخل ہوتے تو یہ جالے باقی نہ رہتے۔حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس غار میں تین دن ٹھہرے پھر مدینہ طیبہ روانہ ہوئے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۰، ۲ / ۱۹۱-۱۹۲)
{وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا:اور جب ان کے سامنے ہماری آیات کی تلاوت کی جاتی ہے۔} شانِ نزول:یہ آیت قبیلہ بنو عبد الدار کے ایک شخص نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی ۔ نضر بن حارث ایک تاجر تھا اور وہ تجارت کے لئے فارس، حِیرہ اور دیگر ممالک کا سفر کرتا تھا، اس نے وہاں کے باشندوں سے رستم، اسفند یار اور دیگر عجمیوں کے قصے سن رکھے تھے اور یہودی و عیسائی عبادت گزاروں کو تورات و انجیل کی تلاوت کرتے، رکوع و سجود کرتے اور گریہ و زاری کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ جب نضر بن حارث مکہ مکرمہ آیا تو اسے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر وحی نازل ہوتی ہے، یہ قرآن کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھتے ہیں۔اس نے کہا: جو کلام محمد(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) پیش کرتے ہیں اس جیسا تو ہم نے سنا ہوا ہے اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا ہی کلام کہہ سکتے ہیں۔ اللہتعالیٰ نے ان کفار کا یہ مقولہ بیان کیا کہ اس میں اُن کی کمال درجے کی بے شرمی و بے حیائی ہے ۔ قرآنِ پاک کی تَحَدّی فرمانے اور فُصحائے عرب کو قرآنِ کریم کے مثل ایک سورت بنا لانے کی دعوتیں دینے اور ان سب کے عاجز رہ جانے کے بعد یہ کلمہ کہنا اور ایسا باطل دعویٰ کرنا نہایت ذلیل حرکت ہے۔ (تفسیر طبری، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۱، ۶ / ۲۲۹، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۱۹۲)
{وَ اِذْ قَالُوْا:اور جب انہوں نے کہا۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے گزشتہ امتوں کے واقعات بیان فرمائے تو نضر بن حارث نے کہا: اگر میں چاہوں تو اس جیسے واقعات کہہ سکتا ہوں۔حضرت عثمان بن مظعون رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے نضر بن حارث سے فرمایا: تو اللہ تعالیٰ سے ڈر، رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حق بات ارشاد فرماتے ہیں۔ نضر بن حارث نے کہا: میں بھی سچی بات کہتا ہوں۔ حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا: نبی اکرم ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ ‘‘کہتے ہیں۔ نضر بن حارث نے کہا: میں بھی ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ ‘‘ کہتا ہوں لیکن یہ بت اللہکی بیٹیاں ہیں۔ پھر نضر بن حارث نے دعا مانگی کہ اے اللہ! جو قرآن محمد(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) لائے ہیں اگر یہ ہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ۔ نضر بن حارث وہ بدبخت کافر ہے کہ جس کی مذمت میں قرآنِ پاک کی دس آیات نازل ہوئیں اور غزوۂ بدر کے دن سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ اقدس سے جہنم واصل ہوا۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۲، ۲ / ۱۹۲-۱۹۳)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ یہ دعا ابو جہل نے مانگی تھی۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب واذ قالوا اللہمّ ان کان ہذا۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۲۹، الحدیث: ۴۶۴۸)
{وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ:اور اللہکی یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے ۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ جس عذاب کا کفار نے سوال کیا وہ عذاب انہیں دے جب تک اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،تم ان میں تشریف فرما ہو، کیونکہ آپ رحمۃٌ لِلعالَمین بنا کر بھیجے گئے ہو اور سنتِ اِلٰہیہ یہ ہے کہ جب تک کسی قوم میں اس کے نبی موجود ہوں ان پر عام بربادی کا عذاب نہیں بھیجتا کہ جس سے سب کے سب ہلاک ہوجائیں اور کوئی نہ بچے۔( جلالین، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۱۵۰، مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۴۱۲، ملتقطاً)
مفسرین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ آیت سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ مکرمہ میں مقیم تھے۔ پھر جب آپ نے ہجرت فرمائی اور کچھ مسلمان رہ گئے جو اِستغفار کیا کرتے تھے تو ’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ‘‘ جب تک استغفار کرنے والے ایماندار موجود ہیں اس وقت تک بھی عذاب نہ آئے گا ۔ نازل ہوئی۔ پھر جب وہ حضرات بھی مدینہ طیبہ کو روانہ ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے فتحِ مکہ کا اذن دیا اور یہ عذاب ِمَوعود آگیا جس کی نسبت اگلی آیت میں فرمایا ’’وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ‘‘۔ حضرت محمد بن اسحاق رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ ’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ‘‘ بھی کفار کا مقولہ ہے جو ان سے حکایۃً ذکرکیا گیا ،اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُن کی جہالت کا ذکر فرمایا کہ اس قدر احمق ہیں کہ آپ ہی تو یہ کہتے ہیں کہ یارب اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر نازل کر اور آپ ہی یہ کہتے ہیں کہ اے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)جب تک آپ ہیں عذاب نازل نہ ہوگا کیونکہ کوئی اُمت اپنے نبی کی موجودگی میں ہلاک نہیں کی جاتی۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۱۹۳)
اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اَنْتَ فِیْهِمْ نے عَدُوْ کو بھی لیا دامن میں
عیشِ جاوید مبارک تجھے شیدائی دوست
عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ:
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرما تے ہیں اس آیت سے ثابت ہوا کہ استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے۔( خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۱۹۳)
احادیث میں استغفار کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے میری اُمّت کے لئے مجھ پر دو امن(والی آیات ) اتاری ہیں ، ایک’’ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ‘‘ اور دوسری’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ‘‘ جب میں اس دنیا سے پردہ کر لوں گا تو قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑ دوں گا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الانفال، ۵ / ۵۶، الحدیث: ۳۰۹۳)
(2)…حضرت ابو سعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور سید المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: شیطا ن نے کہا: اے میرے رب! تیری عزت و جلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں ، میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت و جلا ل کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔ (مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، ۴ / ۵۹، الحدیث: ۱۱۲۴۴)
(3)…حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تواللہتعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، ۴ / ۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱۹)
{وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ:اور انہیں کیا ہے کہ اللہ انہیں عذاب نہ دے۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب تک میرا حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان میں تشریف فرما ہے اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہ دے گا اور اس آیت میں فرمایا کہ انہیں عذاب دے گا۔ تو اس آیت کا معنی یہ ہوا جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے بیچ سے چلے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں عذاب دے گا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں عذاب سے مراد (قتل اور قید ہونے کا)وہ عذاب ہے جو بدر کے دن انہیں پہنچا۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۱۹۴)
ایک قول یہ ہے کہ ا س سے مراد وہ عذاب ہے جو فتحِ مکہ کے دن انہیں پہنچا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں اس سے آخرت کا عذاب مراد ہے اور جس عذاب کی ان سے نفی کی گئی ہے اس سے دنیاوی عذاب مراد ہے۔ ان کفار کو عذاب دئیے جانے کا سبب یہ ہے کہ یہ مسجدِ حرام سے روک رہے ہیں اور مؤمنین کو طوافِ کعبہ کے لئے نہیں آنے دیتے جیسا کہ واقعۂ حُدَیْبِیَہ کے سال رسالت مآبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کےاصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو روکا۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۴، ۵ / ۴۸۰)
{وَ مَا كَانُوْۤا اَوْلِیَآءَهٗ:اور یہ اِس کے اہل ہی نہیں۔} کفار یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم خانہ کعبہ اور حرم شریف کے مُتَوَلّی ہیں تو ہم جسے چاہیں اس میں داخل ہونے دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے رد میں ارشاد فرمایا کہ یہ مسجدِ حرام کے اہل نہیں اور کعبہ کے اُمو ر میں تَصَرُّف و انتظام کا کوئی اختیار نہیں رکھتے کیونکہ یہ مشرک ہیں ، مسجدِ حرام کا متولی ہونے کے اہل تو پرہیزگار ہی ہیں۔
{وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةً:اوربیتُ اللہ کے پاس ان کی نمازصرف سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا ہی تھا۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ کفار ِقریش ننگے ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے اور ان کا یہ فعل یا تو اس باطل عقیدے کی وجہ سے تھا کہ سیٹی اور تالی بجانا عبادت ہے اور یا اس شرارت کی وجہ سے کہ اُن کے اِس شور سے تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نماز میں پریشانی ہو۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۵، ۵ / ۴۸۱)
{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ:بیشک کافر اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار اپنا مال مشرکین کو اس لئے دیتے ہیں تاکہ وہ اس مال کے ذریعے قوت حاصل کر کے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ان کا یہ مال خرچ کرنا عنقریب ان کے لئے ندامت کا سبب ہو گا کیونکہ ان کے اموال تو خرچ ہو جائیں گے لیکن ان کی آرزو پوری نہ ہوگی ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نور کو بجھا دینا اور کفر کے کلمے کو اللہ عَزَّوَجَلَّکے کلمے پر بلند کرنا ان کی خواہش ہے لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے کلمہ کو بلند اور کفر کے کلمے کو پست کرتا ہے پھر مسلمانوں کو غلبہ عطا فرماتا ہے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کافروں کو جہنم میں جمع فرمائے گا اور انہیں عذاب دے گا۔( تفسیر طبری، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۲۴۱)
شانِ نزول: یہ آیت کفارِ قریش کے ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے جنگ ِبدر کے موقع پر کفار کے لشکر کا کھانا اپنے ذمہ لیا تھا، یہ کل بارہ اَشخاص تھے جن میں سے ہر شخص لشکر کو روزانہ دس اونٹ ذبح کر کے کھلاتا تھا۔ ان بارہ افراد میں سے دو اشخاص حضرت عباس بن عبد المطلب اور حضرت حکیم بن حزام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بعد میں ایمان لے آئے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت ابو سفیان کے بارے میں نازل ہوئی ، ابو سفیان نے جنگ ِاحد کے موقع پر دو ہزار کفار کو کرایہ پرجنگ کے لئے تیار کیا اور ان پر چالیس اوقیہ سونا خرچ کیا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ جنگِ بدر کی شکست کے بعد مقتولین کے اہلِ خانہ نے ابو سفیان کے تجارتی قافلے میں شریک تاجروں کو اپنا مال مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور تمام تاجر کفار اس بات پر راضی ہو گئے ،ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۱۹۵)
{لِیَمِیْزَ اللّٰهُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ:تاکہ اللہخبیث کو پاکیزہ سے جدا کردے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو خبیث اور مؤمنین کو طیب کہہ کر دونوں میں فرق بیان فرمایا ہے اور آخرت میں ان کے درمیان فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کوجنت اور کفار کو جہنم میں داخل فرمائے گا ۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۷، ۲ / ۱۹۵)
{قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا:تم کافروں سے فرماؤ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں سے فرما دیجئے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرنے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے سے باز آ جائیں اور دینِ اسلام میں داخل ہو کردینِ اسلام کو مضبوطی سے تھام لیں تو اللہ تعالیٰ ان کا کفر اور اسلام سے پہلے کے گناہ معاف فرما دے گا اور اگر وہ اپنے کفر پر قائم رہے ،آپ کے اور مسلمانوں کے خلاف پھر جنگ کی تو اس معاملے میں اللہ عَزَّوَجَلَّکی سنت گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو ہلاک فرما دیتا ہے اور اپنے اَنبیاء و اَولیاء کی مدد فرماتا ہے جیسے پچھلی امتوں کے کفار نے جب اللہ عَزَّوَجَلَّکے رسولوں کو جھٹلایا ،ان کی نصیحت قبول کرنے کی بجائے سرکشی کا راستہ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں عبرتناک عذاب میں مبتلا کر دیا ، یونہی جنگِ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کی اور مشرکوں کو شکست و رسوائی سے دوچار کیا وہ پھر ایسا ہی کرے گا۔(بیضاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۱۰۷، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۱۹۵، تفسیر طبری، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۸، ۶ / ۲۴۴، ملتقطاً)
کافر توبہ کرے تو ا س کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافر جب کفر سے باز آئے اور اسلام قبول کر لے تو اس کا پہلا کفر اور حالتِ کفر میں کئے گئے گنا ہ سب معاف ہوجاتے ہیں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ جب عمرو بن عاص اسلام قبول کرنے کے لئے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے اور آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا دستِ اقدس تھام کر عرض کی کہ میں اس شرط پر اسلام قبول کرتا ہوں کہ میری مغفرت کر دی جائے،تورسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام قبول کرنا سابقہ گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب کون الاسلام یہدم ما قبلہ۔۔۔ الخ، ص۷۴، الحدیث: ۱۹۲ (۱۲۱))
{وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ:اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فساد باقی نہ رہے۔}اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! ان کافروں سے لڑو یہاں تک کہ شرک کاغلبہ نہ رہے اوراللہ تعالیٰ کا دین اسلام غالب ہو جائے ، پھر اگر وہ اپنے کفر سے باز آجائیں تو اللہتعالیٰ ان کے کام دیکھ رہا ہے،وہ انہیں اس کی اور ان کے اسلام لانے کی جزا دے گااور اگریہ لوگ ایمان لانے سے روگردانی کریں تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارامددگارہے ، تم اسی کی مدد پر بھروسہ رکھو اور ان کی دشمنی کی پرواہ نہ کرو اور اللہ تعالیٰ کیا ہی اچھا مولیٰ اور کیا ہی اچھا مددگار ہے۔( جلالین، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۱۵۱،تفسیر سمرقندی، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۹، ۲ / ۱۸، روح البیان، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۳۴۵، ملتقطاً)
جہاد کے2 فضائل:
اس آیت میں جہاد کا ذکر ہوااس مناسبت سے یہاں جہاد کے دو فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک گھڑی ٹھہرنا حجر اسود کے پاس شب قدر میں قیام کرنے سے بہتر ہے۔( شعب الایمان، السابع والعشرون من شعب الایمان۔۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۰، الحدیث: ۴۲۸۶)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جو شخص میرے راستے میں جہاد کرتا ہے میں اس کا ضامن ہوں ،اگر میں اس کی روح قبض کرتا ہوں تو اسے جنت کا وارث بناتا ہوں اور اگر واپس(گھر) لوٹاتا ہوں تو ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ لوٹاتا ہوں۔( ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل الجہاد، ۳ / ۲۳۱، الحدیث: ۱۶۲۶)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan