Surah Al-Anfaal
{وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ:اور جان لو کہ تم جو مالِ غنیمت حاصل کرو ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت کا حکم اور اس کی تقسیم کا طریقہ بیان فرمایا ہے، اس کی وضاحت درج ذیل ہے۔
غنیمت کی تعریف:
وہ مال جسے مسلمان کفار سے جنگ میں قہر و غلبہ کے طور پر حاصل کریں اسے غنیمت کہتے ہیں اور جنگ کے بغیر جو مال کفار سے حاصل کیا جائے جیسے خَراج اور جِزیہ اس کو فَئے کہتے ہیں۔(در مختار وردّ المحتار، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ، ۶ / ۲۱۸)
مالِ غنیمت کی حِلَّت اس اُمت کی خصوصیت ہے:
یاد رہے کہ مالِ غنیمت کا حلال ہونا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کی خصوصیات میں سے ہے، سابقہ امتوں میں سے کسی کے لئے غنیمت کا مال حلال نہیں تھا، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ہم سے پہلے کسی کے لیے غنیمت حلال نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ نے ہمارا ضُعف و عِجز دیکھ کر اسے ہمارے لیے حلال کر دیا۔ (بخاری، کتاب فرض الخمس، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: احلّت لکم الغنائم، ۲ / ۳۴۹، الحدیث: ۳۱۲۴، مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب تحلیل الغنائم لہذہ الامۃ خاصۃ، ص۹۵۹، الحدیث: ۳۲(۱۷۴۷))
اورحضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے افضل فرمایا‘‘ یا ارشاد فرمایا ’’میری امت کو تمام امتوں سے افضل کیا اور ہمارے لیے غنیمت حلال کی۔(ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی الغنیمۃ، ۳ / ۱۹۶، الحدیث: ۱۵۵۸)
مالِ غنیمت کا حکم اوراس کی تقسیم کا طریقہ:
مالِ غنیمت کے حکم اور ا س کی تقسیم سے متعلق چند مسائل درج ذیل ہیں۔
(1)… مالِ غنیمت میں سے خُمُسْ یعنی پانچواں خاص اللہ عَزَّوَجَلَّاور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے ہے ، پانچواں حصہ نکال کرباقی چار حصے مجاہدین پر تقسیم کر دئیے جائیں گے اور مالِ فَئے مکمل طور پربیتُ المال میں رکھا جائے گا۔(در مختار مع ردّ المحتار، کتاب الجھاد، باب المغنم وقسمتہ، ۶ / ۲۱۸-۲۱۹ملتقطاً)
(2)…رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد اب حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اہلِ قرابت کے حصے ساقط ہو گئے۔ اب مالِ غنیمت کا جو پانچواں حصہ نکالا جائے تو اس کے تین حصے کئے جائیں گے۔ ایک حصہ یتیموں کے لئے، ایک مسکینوں اور ایک مسافروں کے لئے اوراگر یہ تینوں حصے ایک ہی قسم مثلاً یتیموں یا مسکینوں پر خرچ کردئیے جب بھی جائز ہے اور مجاہدین کو حاجت ہو تو ان پر خرچ کرنا بھی جائز ہے۔(مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۴۱۳، درّ مختار مع ردّ المحتار، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ، فصل فی کیفیۃ القسمۃ، ۶ / ۲۳۷)
(3)…بنی ہاشم وبنی مُطَِّلب کے یتیم اور مساکین اور مسافر اگر فقیر ہوں تو یہ لوگ دوسروں کی بہ نسبت خمس کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ او فُقرا تو زکوٰۃ بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ نہیں لے سکتے اور یہ لوگ غنی ہوں تو خمس میں ان کا کچھ حق نہیں۔(درّ مختار مع ردّ المحتار، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ، فصل فی کیفیۃ القسمۃ، ۶ / ۲۳۷-۲۳۸)
(4)…خُمُس کے علاوہ باقی چار حصے مجاہدین پر اس طرح تقسیم کئے جائیں گے کہ سوار کو پیدل کے مقابلے میں دگنا ملے گا یعنی ایک اس کا حصہ اور ایک گھوڑے کا اور گھوڑا عربی ہو یا کسی اور قسم کا سب کا ایک حکم ہے۔ لشکر کا سردار اور سپاہی دونوں برابر ہیں یعنی جتنا سپاہی کو ملے گا اتنا ہی سردار کو بھی ملے گا۔ اونٹ اور گدھے اور خچر کسی کے پاس ہوں توان کی وجہ سے کچھ زیادہ نہ ملے گا یعنی اسے بھی پیدل والے کے برابر ملے گا اور اگر کسی کے پاس چند گھوڑے ہوں جب بھی اتنا ہی ملے گا جتنا ایک گھوڑے کے لیے ملتا تھا۔(عالمگیری، کتاب السیر، الباب الرابع فی الغنائم وقسمتہا، الفصل الثانی فی کیفیۃ القسمۃ، ۲ / ۲۱۲)
نوٹ:غنیمت کے مزید مسائل جاننے کے لئے بہار شریعت حصہ 9 سے’’ غنیمت کا بیان ‘‘ مطالعہ کیجئے۔
{یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ:جس دن دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئی تھیں۔} اس دن سے روز ِبدر مراد ہے اور دونوں فوجوں سے مسلمانوں اور کافروں کی فوجیں مراد ہیں اور یہ واقعہ سترہ رمضان کو پیش آیا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی تعداد تین سو دس سے کچھ زیادہ تھی اور مشرکین ہزار کے قریب تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہزیمت دی، ان میں سے ستر سے زیادہ مارے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۱۹۸)
{اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا:جب تم قریب والی جانب تھے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا لشکر بدر کی ا س جانب تھا جو مدینہ طیبہ سے قریب تھی اور کفار کا لشکر وادیٔ بدر کی دوسری جانب تھا جو کہ مدینہ طیبہ سے دور تھی جبکہ ابوسفیان وغیرہ کاتجارتی قافلہ وادیٔ بدر کے نچلی جانب تین میل کے فاصلے پر ساحلِ سمند ر کی طرف تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پہلے سے وقت مقرر کئے بغیر کفار کے مقابلے میں لا کھڑا کیا، اس میں حکمت یہ تھی کہ اگر مسلمان اور کفار جنگ کا کوئی وقت معین کر لیتے پھر مسلمان اپنی قلیل تعداد، بے سروسامانی، کفار کی کثیر تعداد اور ان کے سامان کی کثرت دیکھتے تو ہیبت و خوف کی وجہ سے ہمت ہار بیٹھتے اور میدانِ جنگ سے کترا کر نکل جاتے لیکن مدت مقرر کئے بغیر لڑائی اس لئے ہوگئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام و مسلمین کی مدد اور دشمنانِ دین کی ہلاکت کا کام پورا کرنا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وقت مقرر کئے بغیر ہی جمع کردیا۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۱۹۸)
{لِیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ:تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ واضح دلیل سے ہلاک ہو۔}غزوۂ بدر کی ابتداء میں مسلمانوں کے لشکر کی حالت یہ تھی کہ مجاہدین اسباب کی کمی اور تیاری نہ ہونے کی وجہ سے خوف اور گھبراہٹ میں مبتلا تھے، ان کی جائے قیام پانی سے دور تھی، زمین ریتلی ہونے کی وجہ سے اس میں پیر دھنس جاتے تھے، جبکہ لشکر ِکفار کا حال یہ تھا کہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی، کھانے پینے کا سامان اور ہتھیار ان کے پاس وافر مقدار میں موجود تھے اور وہ پانی کے قریب ٹھہرے ہوئے تھے، ان کی زمین ریتلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لئے چلنا آسان تھا مزید یہ کہ ان کے پیچھے ابو سفیان کا قافلہ تھا جس سے بَوقتِ ضرورت انہیں مدد حاصل ہونے کی امید تھی یوں بظاہر حالات کافروں کے موافق اور مسلمانوں کے مخالف تھے۔ جب دونوں لشکروں کی آپس میں جنگ ہوئی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے نقشہ ہی بدل دیا، اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کو بہت بڑی فتح نصیب ہوئی اور کفار بد ترین شکست سے دوچار ہوئے۔ مسلمانوں کی فتح اور کفار کی شکست تاجدارِ انبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عظیم معجزہ اور نبوت کے دعویٰ کی صداقت پر مضبوط دلیل ہے کیونکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو فتح کی بشارت دی اور فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا ہے۔ نیز مسلمانوں کو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فتح کی بشارت اس وقت دی تھی کہ جب ظاہری اور مادی طور پر مسلمانوں کی فتح کے کوئی آثار نہ تھے ،یوں بدر کی فتح سے نبیِّ آخر الزّمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی سچائی ظاہر ہو گئی اور اسلام کی صداقت پر مضبوط دلیل قائم ہو گئی ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اب جو کفر اختیار کر کے ہلاکت میں پڑے گا تو دلیل قائم ہونے اور حجت پوری ہوجانے کے بعد ہلاکت میں پڑے گا اور جو اسلام قبول کر کے زندگی حاصل کرے گا تو وہ دلیل قائم ہونے کے بعد کرے گا۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۲، ۵ / ۴۸۷)
{اِذْ یُرِیْكَهُمُ اللّٰهُ فِیْ مَنَامِكَ قَلِیْلًا:(اے حبیب! یاد کرو) جب اللہ نے یہ کافر تمہاری خواب میں تمہیں تھوڑے کر کے دکھائے۔} یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت تھی کہ نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی تعداد تھوڑی دکھائی گئی اور آپ نے اپنا یہ خواب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسے بیان کیا تواس سے ان کی ہمتیں بڑھیں اور اپنے ضعف و کمزوری کا اندیشہ نہ رہا اور انہیں دشمن پر جرأت پیدا ہوئی اور دل مضبوط ہوئے۔ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا خواب حق ہوتا ہے، آپ کو کفار تھوڑے دکھائے گئے تھے اور ایسے کفار جو دنیا سے بے ایمان جائیں اور کفر ہی پر ان کا خاتمہ ہو وہ تھوڑے ہی تھے کیونکہ جو لشکر مقابلے میں آیا تھا اس میں کثیر لوگ وہ تھے جنہیں اپنی زندگی میں ایمان نصیب ہوا اور خواب میں قِلَّت کی تعبیر ضُعف سے ہے ،چنانچہ اللہتعالیٰ نے مسلمانوں کو غالب فرما کر کفار کا ضعف ظاہر کردیا۔ (صاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۷۶۸)
{وَ اِذْ یُرِیْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْۤ اَعْیُنِكُمْ قَلِیْلًا: اور (اے مسلمانو! یاد کرو) جب لڑتے وقت اللہ نے تمہیں وہ کا فر تمہاری نگاہوں میں تھوڑے کرکے دکھائے۔} بدر کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کئی طرح کے انعامات فرمائے ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار بہت تھوڑے کر کے دکھائے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ وہ کافر ہماری نگاہوں میں اتنے کم لگے کہ میں نے اپنے برابر والے ایک شخص سے کہا کہ تمہارے گمان میں کافر ستر ہوں گے اس نے کہا کہ میرے خیال میں سو ہیں حالانکہ وہ ایک ہزار تھے۔ اور کافروں کی نظروں میں مسلمانوں کو بہت تھوڑا کر کے دکھایایہاں تک کہ ابوجہل نے کہا کہ’’ انہیں رسیوں میں باندھ لو،گویا کہ وہ مسلمانوں کی جماعت کو اتنا قلیل دیکھ رہا تھا کہ مقابلہ کرنے اور جنگ آزما ہونے کے لائق بھی خیال نہیں کرتا تھا ۔ مسلمانوں کو مشرکین تھوڑے دکھانے میں حکمت یہ تھی کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خواب کی صداقت ظاہر ہو جائے، مسلمانوں کے دل مضبوط ہو جائیں اورکفار پر ان کی جرأت بڑھ جائے جبکہ مشرکین کو مسلمانوں کی تعداد تھوڑی دکھانے میں یہ حکمت تھی کہ مشرکین مقابلہ پر جم جائیں ، بھاگ نہ پڑیں اور یہ بات ابتداء میں تھی، مقابلہ ہونے کے بعد انہیں مسلمان بہت زیادہ نظر آنے لگے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۴، ۲ / ۱۹۹-۲۰۰، تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۴۸۸، ملتقطاً)
نوٹ:مسلمانوں اورکافروں کا بدر کے میدان میں ایک دوسرے کو کم اور زیادہ دیکھنے کا تفصیلی ذکر سورہ آلِ عمران آیت نمبر 13 میں مذکور ہے۔
{ لِیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا:تاکہ اللہ اس کام کوپورا کرے جسے ہوکر ہی رہنا ہے۔} یعنی اسلام کا غلبہ اور مسلمانوں کی نصرت اور شرک کا اِبطال اور مشرکین کی ذلت اور رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزے کا اظہار کہ جو فرمایا تھا وہ ہوا کہ قلیل جماعت بھاری لشکر پر فتح یاب ہوئی۔
{اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا:جب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کو بیان فرمایا جو ا س نے جنگِ بدر میں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو عطا فرمائی تھیں اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کے دوآداب تعلیم فرمائے ہیں۔
پہلا ادب: جنگ میں ثابت قدم رہنا۔ ابتداء ً مسلمانوں کو جنگ یاکسی بھی آزمائش کی تمنا نہیں کرنی چاہئے لیکن جب ان پر جنگ مُسلَّط ہو جائے تو اب ان پر لازم ہے کہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں اور بزدلی نہ دکھائیں۔ حضرت عبد اللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تم دشمنوں سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو اور جب دشمنوں سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ عَزَّوَجَلَّکو یاد کرو۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الجہاد، باب کیف یصنع بالذی یغلّ، ۵ / ۱۷۰، الحدیث: ۹۵۸۱) اور جنگ میں ثابت قدم رہنے کی فضیلت کے بارے میں حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے دشمن کے مقابلے میں صبر کیا یہاں تک کہ وہ شہید کر دیا گیا یا اس نے دشمنوں کو قتل کر دیا تو وہ فتنۂ قبر میں مبتلا نہ ہو گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ موسیٰ، ۶ / ۱۲۹، الحدیث: ۸۲۴۳)
دوسرا ادب: لڑائی کے دوران کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا۔ دورانِ جنگ دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد اور زبان پہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر ہونا چاہئے ۔ حضرت ابو مجلز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دشمن سے مقابلہ کرتے تو یوں دعا مانگتے ’’اے اللہ! تومیری طاقت اور مددگار ہے، میں تیری مدد سے پھرتا ہوں اور تیری مدد سے حملہ کرتا اور تیری مدد سے قِتال کرتا ہوں۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الجہاد، باب کیف یصنع بالذی یغلّ، ۵ / ۱۶۹، الحدیث: ۹۵۸۰)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو انتہائی شدید حالت میں بھی ذکر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس میں یہ تنبیہ ہے کہ ہر حال میں انسان کا دل اور اس کی زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رہے۔ اگر ایک شخص مغرب سے مشرق تک اپنے اَموال کی سخاوت کرے اور دوسرا شخص مشرق سے مغرب تک تلوار سے جہاد کرتا جائے تب بھی اللہ عَزَّوَجَلَّکا ذکر کرنے والے کا درجہ اور اجر اِن سے زیادہ ہو گا۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۴۸۹)
یاد رہے کہ دورانِ جنگ زیادہ تر ذکر زبان سے ہوگا کہ دل عام طور پر سامنے والے سے مقابلے میں مشغول ہوتا ہے۔
{وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ:اوراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو۔}اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت کا حکم ہمیشہ کیلئے ہے۔ (قرطبی، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۳۰۷، الجزء السابع)
اور اس آیت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ تمام معاملات میں خصوصاً جہاد اور دشمن سے مقابلے کے وقت ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت کریں اور باہمی اختلافات سے بچیں جیساکہ اُحد میں بعض مسلمانوں نے بعض کی مخالفت کی، کیونکہ باہمی تَنازع ضعف و کمزوری اور بے وقاری کا سبب ہے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۲۰۰، تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۶، ۵ / ۴۸۹، ملتقطاً)
مسلمان باہمی اختلاف سے بچیں اور اتحاد کاراستہ اختیار کریں :
اس آیت کا حکم تو جنگ کے بارے میں ہے لیکن عمومی حالات میں بھی مسلمانوں کو باہمی اختلاف سے بچنا چاہیے اور اتفاق و اتحاد کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ کفار کے ممالک تو آپس میں متحد ہیں لیکن افسوس کہ مسلمانوں میں باہمی اتحاد نظر نہیں آتا بلکہ ان کا حال یہ ہو چکا ہے کہ اگر کفار کسی مسلمان ملک پر ظلم و ستم کریں تو دوسرے ملک کے مسلمان اپنے مسلم بھائیوں کا ساتھ دینے اور ان کافروں کے خلاف بر سر پیکار ہونے کی بجائے وہ بھی کافروں کا ساتھ دیتے ہیں۔
{وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ:اور ان لوگوں جیسا نہ ہونا۔} شانِ نزول: یہ آیت ان کفارِ قریش کے بارے میں نازل ہوئی جو بدر میں بہت اتراتے اور تکبر کرتے ہوئے آئے تھے۔ جب یہ لوگ آئے توسر کارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا کی: یارب! عَزَّوَجَلَّ، یہ قریش آگئے ،تکبر و غرور میں سرشار اور جنگ کے لئے تیار ہیں ، تیرے رسول کو جھٹلاتے ہیں۔ یارب! عَزَّوَجَلَّ، اب وہ مدد عنایت ہو جس کا تو نے وعدہ کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ جب ابوسفیان نے دیکھا کہ قافلہ کو کوئی خطرہ نہیں رہا تو انہوں نے قریش کے پاس پیام بھیجا کہ تم قافلہ کی مدد کے لئے آئے تھے، اب اس کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لہٰذا واپس چلے جاؤ۔ اس پر ابوجہل نے کہا کہ’’ خدا کی قسم! ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ ہم بدر میں اتریں ، تین دن قیام کریں ، اونٹ ذبح کریں ، بہت سے کھانے پکائیں ، شرابیں پئیں ، کنیزوں کا گانا بجانا سنیں ، عرب میں ہماری شہرت ہو اور ہماری ہیبت ہمیشہ باقی رہے۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا جب وہ بدر میں پہنچے تو شراب کے جام کی جگہ انہیں ساغرِموت پینا پڑا اور کنیزوں کے سازو نَوا کی جگہ رونے والیاں انہیں روئیں اور اونٹوں کے ذبح کی جگہ ان کی گردنیں کٹیں۔ (صاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۷۷۰)
کافروں کی ریاکاری، فخر و غرور اور تکبر کے برے انجام سے مسلمان عبرت حاصل کریں :
اللہ تعالیٰ اس آیت میں مؤمنین کو حکم فرمارہا ہے کہ وہ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں اور سمجھ لیں کہ فخروریا اور غرورو تکبر کا انجام انتہائی خراب ہے بندے کو اخلاص اور اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت کرنی چاہئے۔
{وَ اِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ:اور (یاد کرو) جب شیطان نے ان کی نگاہ میں ان کے اعمال خوبصورت کرکے دکھائے۔} اس آیت میں بیان کئے گئے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ شیطان نے کفار کی نگاہ میں ان کے اعمال خوبصورت کرکے دکھائے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عداوت اور مسلمانوں کی مخالفت میں جو کچھ انہوں نے کیا تھا اس پر ان کی تعریفیں کیں اور انہیں خبیث اعمال پر قائم رہنے کی رغبت دلائی اور جب قریش نے بدر میں جانے پر اتفاق کرلیا تو انہیں یاد آیا کہ ان کے اور قبیلہ بنی بکر کے درمیان دشمنی ہے، ممکن تھا کہ وہ یہ خیال کرکے واپسی کا ارادہ کرتے اور یہ شیطان کو منظور نہ تھا، اس لئے اس نے یہ فریب کیا کہ وہ بنی کنانہ کے سردار سراقہ بن مالک کی صورت میں نمودار ہوا اور ایک لشکر اور ایک جھنڈا ساتھ لے کرمشرکین سے آملا اور ان سے کہنے لگا کہ میں تمہارا ذمہ دار ہوں آج تم پر کوئی غالب آنے والا نہیں جب مسلمانوں اور کافروں کے دونوں لشکر صف آراء ہوئے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک مشت خاک مشرکین کے منہ پر ماری تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے اور حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ابلیس لعین کی طرف بڑھے جوسراقہ کی شکل میں حارث بن ہشام کا ہاتھ پکڑ ے ہوئے تھا، ابلیس ہاتھ چھڑا کر اپنے گروہ کے ساتھ بھاگا۔ حارث پکارتا رہ گیا سراقہ !سراقہ! تم نے تو ہماری ضمانت لی تھی اب کہا ں جاتے ہو ؟ابلیس کہنے لگا : بیشک میں تم سے بیزار ہوں اور امن کی جو ذمہ داری لی تھی اس سے سبک دوش ہوتا ہوں۔ اس پر حار ث بن ہشام نے کہا کہ ہم تیرے بھروسے پر آئے تھے کیا تو اس حالت میں ہمیں رسوا کرے گا؟ کہنے لگا: میں وہ دیکھ رہاہوں جو تم نہیں دیکھ رہے،بیشک میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتا ہوں کہیں وہ مجھے ہلاک نہ کردے۔ جب کفار کو ہزیمت ہوئی اور وہ شکست کھا کر مکہ مکرمہ پہنچے تو انہوں نے یہ مشہور کر دیا کہ ہماری شکست و ہزیمت کی وجہ سراقہ بنا ہے۔ سراقہ کو جب یہ خبر پہنچی تو اسے بہت حیرت ہوئی اور اس نے کہا :یہ لوگ کیا کہتے ہیں۔نہ مجھے ان کے آنے کی خبر ، نہ جانے کی ،تو قریش نے کہا :’’ تو فلاں فلاں روز ہمارے پاس آیا تھا۔ اس نے قسم کھائی کہ یہ غلط ہے۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ شیطان تھا۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۸، ۲ / ۲۰۱-۲۰۲)
{اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ:جب منافق کہنے لگے۔} منافقین سے مراد اوس اور خزرج قبیلے کے چند افراد ہیں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے سے مراد مکہ مکرمہ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے کلمۂ اسلام تو پڑھ لیا تھا مگر ابھی تک ان کے دلوں میں شک وتَرَدُّد باقی تھا۔ جب کفارِ قریش سید ِعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنگ کے لئے نکلے تو یہ بھی ان کے ساتھ بدر میں پہنچے۔ بدر میں جب انہوں نے مسلمانوں کی تعداد تھوڑی دیکھی تو ان کا شک مزید بڑھا اور وہ مرتد ہوگئے اور یہ کہنے لگے کہ مسلمان اتنی کم تعداد کے باوجود اپنے سے تین گنا بڑے لشکر سے جنگ کرنے لگے ہیں ، انہیں ان کے دین اسلام نے دھوکے میں ڈالا ہوا ہے اور آخرت میں ثواب کی امید انہیں اپنی جانیں قربان کرنے پر ابھار رہی ہے۔ یہ تمام لوگ بدر میں مارے گئے تھے۔( تفسیرکبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۹، ۵ / ۴۹۳، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۲۰۰، ملتقطاً)
{وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ:اور جو اللہ پر توکل کرے۔} ارشاد فرمایا کہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر توکل کرے اور اپنا کام اس کے سپرد کردے اور اس کے فضل و احسان پر مطمئن ہو تو بیشک اللہ تعالیٰ اس کا حافظ و ناصر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ غالب ہے اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ حکمت والا ہے،وہ اپنے دشمنوں کو عذاب میں مبتلا کرتا اور اپنے اولیاء کو رحمت و ثواب عطا فرماتا ہے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۲۰۰)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے توکل کی تعریف :
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی تعریف فرمائی ہے کہ انہوں نے اپنے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دئیے اور اس کی قضا پر راضی ہو گئے تا کہ دشمنوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ ان کی حمایت فرمائے اور اس میں دیگر مسلمانوں کے لئے بھی یہ تعلیم ہے کہ وہ بھی اپنے سب معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں اور اس کی قضا و تقدیر پر ہر دم راضی رہیں۔
{وَ لَوْ تَرٰى:اوراگر آپ دیکھتے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اگر آپ کافروں کی وہ حالت دیکھیں کہ جب موت کے وقت فرشتے کافروں کی روحیں نکالتے ہیں تو بڑا خوفناک منظر دیکھیں گے۔ فرشتے آگ میں سرخ کئے ہوئے لوہے کے گُرز کافروں کے چہرے اور پیٹھوں پر مار تے ہوئے کہتے ہیں کہ آگ کا عذاب چکھو اور گرزوں کی ضرب و مار سے جو زخم لگتا ہے اس میں آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۲۰۲-۲۰۳)
{ذٰلِكَ:یہ۔} یعنی یہ مصیبتیں اور عذاب تمہارے اپنے کئے ہوئے کفر اور گناہوں کا بدلہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کسی پر جرم کے بغیر عذاب نہیں کرتااور کافر پر عذاب کرنا عدل ہے۔آیت میں ’’بِظَلَّامٍ‘‘ سے مراد بہت ظلم کرنے والا نہیں بلکہ مُطْلَق ظلم کرنے والا مراد ہے اور معنی یہ ہوا کہ اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
{ كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ:جیسا فرعونیوں کا طریقہ۔} اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان میں کفار کی ذلت آمیز شکست اور آخرت میں ان کے لئے سخت عذاب تیار کرنے کا ذکر فرمایا جبکہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ کفارِ قریش کو جو دنیا و آخرت میں عذاب دیا ہے وہ ان کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ تما م کفار اور سب منکروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہی طریقہ ہے۔آیت کا معنی یہ ہے کہ ان کافروں کی اپنے کفر وسرکشی میں عادت فرعون اور ان سے پہلوں کی طرح ہے تو جیسے فرعونیوں کو غرق کر کے ہلاک کیا اسی طرح یہ بھی غزوہ ٔ بدر کے دن قتل ا ور قید میں مبتلا کئے گئے۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۲، ۵ / ۴۹۵)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ آیت کا معنی یہ ہے کہ جس طرح فرعونیوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کو یقین کے ساتھ جان لیا پھر بھی ان کی تکذیب کی یہی حال ان لوگوں کا ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کو جان پہچان کر تکذیب کرتے ہیں۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۲، ۲ / ۲۰۳)
{ذٰلِكَ:یہ۔} یعنی کافروں کو عذاب دینے کا سبب یہ ہے کہ اللہتعالیٰ نے کسی قوم کو جو نعمت عطا فرمائی ہے اسے ہر گز نہیں بدلتا جب تک وہ خود ہی اپنی حالت کو نہ بدلیں ا ور زیادہ بدتر حال میں مبتلا نہ ہوں جیسے اللہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کو روزی دے کر بھوک کی تکلیف دور کی، امن دے کر خوف سے نجات دی اور ان کی طرف اپنے حبیب سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نبی بنا کر مبعوث کیا ،انہوں نے ان نعمتوں پر شکر کرنے کی بجائے یہ سرکشی کی کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلایا اور ان کی خوں ریزی کے درپے ہوئے اور لوگوں کو راہِ حق سے روکا ۔ سُدِّی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت حضرت سیدانبیاء محمدمصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہیں۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۳، ۲ / ۲۰۳)
قوموں کے عروج و زوال سے متعلق قانونِ الٰہی:
قدرت کا یہ قانون ہے کہ کسی قوم کو نعمت دے کر اس وقت تک اس نعمت کو عذاب سے تبدیل نہیں کیا جاتا جب تک وہ قوم خود اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو اس نعمت کا نااہل ثابت نہیں کرتی۔ گزری ہوئی اور موجودہ قوموں کے عروج و زوال کیلئے یہی اٹل قانون ہے کہ نعمت کا شکر اور حق ادا کرنے پر نعمت بڑھ جاتی ہے اور ناشکری کرنے پرسزا دی جاتی ہے ۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ قدرت کا یہ قانون صرف کافر قوموں کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ مسلمان بھی اگر اُسی روش پر چلیں تو اللہ تعالیٰ ان سے بھی اپنی دی ہوئی نعمتیں واپس لے لیتا ہے اور انہیں بھی ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جیسا کہ مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب کی معرفت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ جب تک مسلمان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر اور ان کاحق ادا کرتے رہے تب تک عُروج کی ان مَنازل پر فائز رہے کہ دنیا کی بڑی بڑی سپر پاورز ان کے زیر نگیں رہیں اور کفار مسلمانوں کا نام سن کر لرزتے رہے اور جب سے مسلمانوں نے نعمت کے شکر اور ا س کے حق کی ادائیگی سے منہ موڑا تب سے ان کی طاقت اور کافروں پر تَسلُّط ختم ہونا شروع ہو گیا اور آج مسلمانوں کا دنیا بھر میں حال یہ ہے کہ کافر انہیں برے سے برے نام سے یاد کرتے ہیں اور دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا مسلم ملک ہو جو کافروں کا دست نگر نہ ہو۔
{وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ:اور ان سے پہلوں کا طریقہ۔} یعنی جو کفار ِمکہ بدر میں قتل ہوئے ان کا اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی گئی نعمت کوبدلنا ویسا ہی ہے جیسا فرعونیوں اور ان سے پہلوں کا طریقہ تھا، انہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کے گناہوں کے سبب بعض کو زلزلے سے ہلاک کر دیا، بعض کو زمین میں دھنسا دیا، بعض پر پتھروں کی بارش برسائی،بعض کو تیز آندھی سے اور بعض کی شکلیں بگاڑ کر ہلاک کر دیا جبکہ فرعونیوں کو غرق کر دیا اسی طرح ہم نے کفارِ قریش کو تلوار سے ہلاک کردیا۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۴، ۲ / ۲۰۳)
مردودوں اور مقبولوں کے واقعات پڑھنے کی ترغیب:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ عبرت کیلئے مردودوں کے تاریخی حالات پڑھنا ضروری ہے اسی طرح عبادت کا شوق پیدا کرنے کے لئے اولیاءِ کرام اور صالحین و مُتَّقِین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے واقعات کا مطالعہ کرنا بہت اچھا ہے۔
{اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ:بیشک جانوروں میں سب سے بدتر۔} یعنی اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کے فیصلے میں جانوروں سے بھی بد تر وہ لوگ ہیں کہ جو اپنے کفر پر سختی سے قائم ہیں ،کسی صورت کفر چھوڑنے پر تیار نہیں اور جب بھی ان سے عہد کیا جائے تو وہ عہد توڑ دیتے ہیں۔(تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۵، ۵ / ۴۹۷)
کافر جانوروں سے بھی بد تر ہیں :
قرآنِ پاک میں اس کے علاوہ اور مقامات پر بھی کفار کو جانوروں سے زیادہ بھٹکے ہوئے، جانوروں سے بدتر گمراہ بلکہ تمام مخلوق سے بدتر فرمایا گیا، چنانچہ
ایک مقام پر ارشاد ہوا: ’’اُولٰٓىٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ‘‘ (اعراف: ۱۷۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔
ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا‘‘ (الفرقان:۴۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:یہ تو صرف جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں۔
اور ارشاد فرمایا: ’’ اُولٰٓىٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِیَّةِ‘‘ (البینہ:۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان:وہی تمام مخلوق میں سب سے بدتر ہیں۔
کافروں کے جانوروں سے بد تر ہونے کی وجوہات:
کفار کو جانوروں سے بھی بدتر فرمائے جانے کی مفسرین نے کئی وجوہات بیان فرمائی ہیں ، ان کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جانور اللہتعالیٰ کی آیات سننے، سمجھنے اور دیکھنے کی قوت سے خالی ہیں ، اپنا نفع و نقصان پہچانتے ہیں اور اپنے مالک کی اطاعت کرتے ہیں جبکہ کفار اپنے اعضاء میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیات سننے، سمجھنے اور دیکھنے کی قوت رکھنے کے باوجود ان سے کام نہیں لیتے، کفر اختیار کر کے خود اپنا نقصان کرتے ہیں اور اپنے مالک و مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کے نافرمان ہیں اس لئے سب جانوروں سے بدتر ہیں۔
نوٹ:اس سے متعلق مزید تفصیل کے لئے سورۂ اعراف آیت179کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیے۔
{اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ:وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا۔} شانِ نزول:’’ اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ‘‘ اور اس کے بعد کی آیتیں بنی قریظہ کے یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئیں۔ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بنو قریظہ کے یہودیوں سے یہ معاہدہ تھا کہ وہ آپ سے لڑیں گے، نہ آپ کے دشمنوں کی مدد کریں گے۔ مشرکینِ مکہ نے جب رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنگ کی تو اس وقت بنو قریظہ نے یہ عہد توڑا اور ہتھیاروں سے ان مشرکین کی مدد کی، پھر انہوں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معذرت کی کہ ہم بھول گئے تھے اور ہم سے قصور ہوا اور دوبارہ عہد کیا، غزوۂ خندق کے دن رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف کفار کا ساتھ دے کر انہوں نے اس عہد کو بھی توڑ دیا۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۶، ۲ / ۲۰۴)
{ وَ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ:اور (اللہ سے)ڈرتے نہیں۔} یعنی وہ نہ خدا سے ڈرتے ہیں نہ عہد شکنی کے خراب نتیجے سے اور نہ اس سے شرماتے ہیں حالانکہ عہد شکنی ہر عقلمند کے نزدیک شرمناک جرم ہے اور عہد شکنی کرنے والا سب کے نزدیک بے اعتبار ہوجاتا ہے جب ان کی بے غیرتی اس درجہ تک پہنچ گئی تو یقیناً وہ جانوروں سے بدتر ہیں۔
عہد شکنی کی مذمت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ خواہ بندوں سے کیا ہوا جائز عہد توڑا جائے یا اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کی جائے دونوں انتہائی مذموم ہیں اور احادیث میں بھی عہد شکنی کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ 2 اَحادیث ملاحظہ ہوں
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مدِّ مقابل ہوں گا، ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے ۔دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے ۔ تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔(بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع حرًّا، ۲ / ۵۲، الحدیث: ۲۲۲۷)
(2)…حضرت علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا ’’ مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے، جو کسی مسلمان کا عہد توڑے تو اس پر اللہ تعالیٰ ،فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، نہ ا س کی کوئی فرض عبادت قبول کی جائے گی اور نہ نفل۔(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب حرم المدینۃ، ۱ / ۶۱۶، الحدیث: ۱۸۷۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں عہد کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ:تو اگر تم انہیں لڑائی میں پاؤ۔} یعنی وہ لوگ جنہوں نے عہد شکنی کی تم اگر انہیں لڑائی میں پاؤ تو انہیں ایسی مار مارو جس سے ان کے پیچھے والے بھی بھاگ جائیں اور ان کی ہمتیں توڑ دو اور ان کی جماعتیں مُنْتَشِر کردو اور اس امید پرمارو کہ شاید انہیں عبرت ہو۔
سزاؤں کی حکمت:
اس سے معلوم ہوا کہ جنگ میں ہر وہ جائز طریقہ استعمال کرنا درست ہے جو کفار کی ہمت توڑدے۔ سزاؤں کے پیچھے اکثر و بیشتر یہی عوامِل کار فرما ہوتے ہیں کہ دوسروں کو عبرت ہو اور وہ ایسی حرکتیں نہ کریں۔
{وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً:اور اگر تمہیں کسی قوم سے عہد شکنی کا اندیشہ ہو۔} اس آیت میں عام مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں سے خطاب ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ معاہدے کے بعد جب کسی قوم کی طرف سے عہد شکنی کی علامات ظاہر ہوں تو عہد توڑنے کیلئے مسلمانوں کے امیر پر لازم ہے کہ انہیں بتا دے کہ آج کے بعد ہمارا تم سے معاہدہ ختم ہے اور ان پر حملہ کرنے سے پہلے انہیں جنگ کی اطلاع دے دے تاکہ یہ اس قوم سے بدعہدی کرنے والا شمار نہ ہو اور اگر ان کی عہد شکنی روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو جائے تو عہد ختم ہونے اور جنگ کی اطلاع دینے کی ضرورت نہیں بلکہ ڈائریکٹ ان پر حملہ کر دیاجائے۔( صاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۷۷۴)
عہد سے متعلق اسلام کی عظیم تعلیم:
اس آیت سے واضح ہو اکہ دینِ اسلام میں عہد سے متعلق دی گئی تعلیم انتہائی شاندار ہے اور کفار سے کئے ہوئے عہد کا بھی اسلام میں بہت لحاظ رکھا گیا ہے، یہاں کفار سے کئے گئے عہد کی پاسداری سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو ’’حضرت سلیم بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور رومیوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا، حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان کے شہروں کی طرف تشریف لے گئے تاکہ جب معاہدہ ختم ہو تو ان پر حملہ کر دیں لیکن اچانک ایک آدمی کو چوپائے یا گھوڑے پر دیکھا وہ کہہ رہا تھا: اللہُ اَکْبَر! عہد پورا کرو، عہد شکنی نہ کرو۔ کیا دیکھتے ہیں کہ یہ شخص حضرت عمرو بن عَبْسَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ’’جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو وہ ا س معاہدے کو نہ توڑے اور نہ بدلے جب تک کہ اس کی مدت ختم نہ ہو جائے یا وہ برابری کی بنیاد پر اس کی طرف پھینک نہ دے۔ راوی فرماتے ہیں ’’یہ سن کر حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُ لوگوں کو لے کر واپس لوٹ گئے۔ (ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی الغدر، ۳ / ۲۱۲، الحدیث: ۱۵۸۶)
{وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:اور ہرگز کافر یہ خیال نہ کریں۔} یعنی جو کفار جنگِ بدر سے بھاگ کر قتل ا ور قید سے بچ گئے اور مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے وہ اپنے آپ کو ہماری قدرت اور پکڑ سے باہر نہ سمجھیں ہم ہر طرح پکڑنے پر قادر ہیں۔( خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۹، ۲ / ۲۰۵)
کوئی خود کو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے باہر نہ جانے:
اس آیت میں ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت ہے جو بیماری، مصیبت اور کوئی آفت آنے کی صورت میں تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بڑی توبہ کرتے اور ساری زندگی گناہوں سے دور رہنے اور اطاعت و فرمانبرداری میں مصروف رہنے کا عہد کرتے ہیں لیکن جب تندرست ہو جاتے اور مصیبت و آفت سے باہر نکل آتے ہیں تو ان کے دوبارہ وہی پرانے لچھن شروع ہوجاتے ہیں۔ انہیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھ لینی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور پکڑ سے کسی صورت باہر نہیں نکل سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں ہر حال میں اور ہر طرح سے پکڑنے پر قادر ہے۔ مسلمان ایسا اعتقاد تو یقینا نہیں رکھتا لیکن عمل کے معاملے میں بہرحال حالت بہتر نہیں۔
{وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ:اور ان کے لیے جتنی قوت ہوسکے تیار رکھو۔} اس آیت میں قوت سے مراد یہ ہے کہ اسلحے اور آلات کی وہ تمام اقسام کہ جن کے ذریعے دشمن سے جنگ کے دوران قوت حاصل ہو۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قلعے اور پناہ گاہیں ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد رَمی یعنی تیر اندازی ہے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۰، ۲ / ۲۰۵)
جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سیدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس آیت کی تفسیر میں قوت کے معنی رمی یعنی تیر اندازی بتائے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی والحث علیہ وذم من علمہ ثمّ نسیہ، ص۱۰۶۱، الحدیث: ۱۶۷(۱۹۱۷)) فی زمانہ میزائل وغیرہ بھی اسی میں داخل ہوں گے۔
آیت’’ وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں:
(1)… جہاد کی تیاری بھی عبادت ہے اور جہاد کی طرح حسبِ موقع یہ تیاری بھی فرض ہے جیسے نماز کے لئے وضو ضروری ہے۔
(2)… عبادت کے اَسباب جمع کرنا عبادت ہے اور گناہ کے اسباب جمع کرنا گناہ ہے جیسے حجِ فرض کیلئے سفر کرنا فرض ہے اور چوری کے لئے سفر کرنا حرام ہے۔
(3)…کفار کو ڈرانا دھمکانا اپنی قوت دکھانا بہادری کی باتیں کرنا جائز ہیں حتّٰی کہ کافروں کے دل میں رُعب ڈالنے کیلئے غازی اپنی سفید داڑھی کو سیاہ کر سکتا ہے ورنہ ویسے سیاہ خضاب ناجائز وگناہ ہے۔
فتح و نصرت کی عظیم تدبیر:
مذکورہ بالا آیت ِ کریمہ فتح و نصرت اور غلبہ و عظمت کی عظیم تدبیر پر مشتمل ہے اور اس آیت کی حقانیت سورج کی طرح روشن ہے جیسے آج کے دور میں دیکھ لیں کہ جس ملک کے پاس طاقت و قوت اور اسلحہ و جنگی سازوسامان کی کثرت ہے اس کا بدترین دشمن بھی اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا جبکہ کمزور ملک پر سب مل کر چڑھ دوڑنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں ، جیسے ایک بڑی طاقت اپنا سب سے بڑا دشمن دوسری بڑی طاقتوں کو سمجھتی ہے لیکن آج تک اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کی کیونکہ اُن کے پاس پہلی کا دماغ ٹھیک کرنے کے نسخے موجود ہیں لیکن وہی بڑی طاقتیں اور عالمی امن کے جھوٹے دعویدار کمزور ممالک کو طاقت دکھانے میں شیرہیں اور ان ممالک میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اِسی آیت پر کچھ عمل کی برکت ہے کہ پاکستان پر کھلم کھلا حملہ کرنے کی جسارت کسی کو نہیں ہورہی کیونکہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے ۔ اگر مسلمان مل کر اِس آیت پر عمل کریں تو کیا مجال کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت مسلمانوں کو تنگ کرسکے۔
{وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ:اور جو اُن کے علاوہ ہیں۔} یہاں دوسرے لوگوں سے کون مراد ہیں ان کے بارے میں مفسرین کاایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد بنو قریظہ کے یہودی ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد فارس کے مجوسی ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد منافقین ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ‘‘تم انہیں نہیں جانتے کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتے ہیں اور اپنی زبانوں سے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کہتے ہیں جبکہ’’اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْ‘‘ اللہ انہیں جانتا ہے کہ وہ منافق ہیں۔ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس سے مراد کافر جنّات ہیں۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۰، ۲ / ۲۰۶)
{وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا:اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی مائل ہوجاؤ ۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو دشمنوں کے مقابلے میں قوت کی تیاری اور انہیں خوفزدہ کرنے کا سامان کرنے کا حکم دیا اور اس آیت میں یہ حکم دیا کہ اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں اور صلح کی درخواست کریں تو ان کی صلح قبول کر لو۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۱، ۲ / ۲۰۷)
کفار سے صلح سے متعلق 3مسائل:
اس آیت میں کفار سے صلح کا ذکر ہواا س مناسبت سے یہاں ہم صلح سے متعلق تین مسائل ذکر کرتے ہیں :
(1)…اگر صلح مسلمانوں کے حق میں بہتر ہو تو صلح کرنا جائز ہے اگرچہ کچھ مال لے کر یا دے کر صلح کی جائے اور صلح کے بعد اگر مصلحت صلح توڑنے میں ہو تو توڑ دیں مگر یہ ضروری ہے کہ پہلے انھیں اس کی اطلاع کردیں اور اطلاع کے بعد فوراً جنگ شروع نہ کریں بلکہ اتنی مہلت دیں کہ کافر بادشاہ اپنے تمام ممالک میں اس خبر کو پہنچا سکے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ صلح میں کوئی مدت مُعیَّن نہ کی گئی ہو اور اگر مدت معین کی گئی ہو تو مدت پوری ہونے پر اطلاع دینے کی کچھ حاجت نہیں۔ (درمختار وردالمحتار، کتاب الجہاد، مطلب فی بیان نسخ المثلۃ، ۶ / ۲۱۲)
(2)… جس مشرک سے معاہدہ کیا جائے وہ مشرکینِ عرب میں سے نہ ہو کیونکہ عرب کے مشرکین سے صرف اسلام قبول کیا جائے گا یا جنگ۔ (بدائع الصنائع، کتاب السیر، رکن العقد فی الامان المؤبد وشرائطہ، ۶ / ۷۸)
(3)… مرتد ہونے والوں سے صرف اسلام قبول کیا جائے یا ان سے جنگ کی جائے گی، ان سے نہ صلح جائز ہے اور نہ جِزیہ لینا جائز ہے۔
{وَ اِنْ یُّرِیْدُوْۤا اَنْ یَّخْدَعُوْكَ:اور اگر وہ تمہیں دھوکہ دینا چاہیں گے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر کفار دھوکہ دینے کے لئے صلح کی پیش کش کریں تو اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے فریب سے بچائے گا کہ تمہیں کسی طریقہ سے خبر دے دے گا۔
{هُوَ الَّذِیْۤ اَیَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ:وہی ہے جس نے اپنی مدد اور مسلمانوں کے ذریعے تمہاری تائید فرمائی۔} بدر میں اللہ تعالیٰ کی مدد تو وہ تھی جو فرشتوں کے ذریعے آئی اور مسلمانوں کے ذریعے مدد وہ تھی جو مہاجرین و انصار کے ذریعے پہنچی۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد فرشتوں کے ذریعے بھی ہوتی ہے اور نیک بندوں کے ذریعے بھی، نیز ظاہری اسباب کے ساتھ بھی ہوتی ہے اور ظاہری اسباب سے ہٹ کر بھی۔
{وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ:اور اس نے ان کے دلوں میں اُلفت پیدا کردی۔} انصار کے دو قبیلے اوس و خزرج کے درمیان شروع ہونے والی عداوت برسوں سے چلی آ رہی تھی اور ان کی باہمی عداوت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ انہیں ملادینے کے لئے تمام سامان بے کار ہوچکے تھے اور کوئی صورت باقی نہ رہی تھی، ذرا ذرا سی بات میں بگڑ جاتے اور برسہا برس تک جنگ باقی رہتی، الغرض کسی طرح دو دِل نہ مل سکتے تھے۔ جب رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمبعوث ہوئے اور عرب کے لوگ آپ پر ایمان لائے اور انہوں نے آپ کی اتباع کی تو یہ حالت بدل گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا فرما دی ، دلوں سے دِیرِیْنہ عداوتیں اور کینے دور ہوئے اور ایمانی محبتیں پیدا ہوئیں۔ یہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا روشن معجزہ ہے۔(تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۳، ۵ / ۵۰۱-۵۰۲)
مسلمانوں کی اِجتماعیت کا سب سے بڑا ذریعہ:
یاد رہے کہ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی محبت مسلمانوں کی اِجتِماعِیَّت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ دیکھ لیں کہ مشرق و مغرب کے دولوگ جن کے رنگ، زبان، نسل، معیارِ زندگی سب کچھ ایک دوسرے سے جدا ہو لیکن جب ایک کو یہ پتا چلتا ہے کہ دوسرا شخص بھی سرورِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا غلام ہے تو فوراً دل میں نرمی و محبت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔
{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ:اے نبی!اللہ تمہیں کافی ہے۔}اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے دھوکہ دینے کی صورت میں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنی مدد و نصرت کا وعدہ فرمایا تھا اورا س آیت میں اللہ تعالیٰ نے مطلقاً ہر حال میں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مدد ونصرت اور کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے۔ شانِ نزول: ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت غزوۂ بدر میں جنگ سے پہلے نازل ہوئی اور مومنین سے انصار صحابۂ کرام یا انصار و مہاجرین دونوں مراد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ یہ آیت حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اسلام قبول کرنے سے متعلق نازل ہوئی۔ اس قول کے مطابق یہ آیت مکی ہے اوررسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے مدنی سورت میں لکھی گئی ہے۔ اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو کافی ہے اور ان مسلمانوں کو بھی کافی ہے جنہوں نے آپ ک پیروی کی۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ آپ کو کافی ہے اور آپ کی پیروی کرنے والے مسلمان آپ کو کافی ہیں۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۴، ۵ / ۵۰۳، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۲۰۷-۲۰۸، ملتقطاً)
{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ:اے نبی!۔}اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ اور بشارت ہے کہ مسلمانوں کی جماعت صابر رہےتومدد ِالٰہی سے دس گنا کافروں پر غالب رہے گی کیونکہ کفار جاہل ہیں اور ان کی جنگ سے غرض نہ حصولِ ثواب ہے نہ خوف ِعذاب، جانوروں کی طرح لڑتے بھڑتے ہیں تو وہ للہیت کے ساتھ لڑنے والوں کے مقابل کیا ٹھہر سکیں گے۔ (مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۴۲۰) بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں پر فرض کردیا گیا کہ مسلمانوں کا ایک فرددس افراد کے مقابلہ سے نہ بھاگے، پھر آیت ’’ اَلْـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰهُ‘‘ نازل ہوئی تو یہ لازم کیا گیا کہ ایک سو مجاہدین دو سو 200 لوگوں کے مقابلے میں قائم رہیں۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب الآن خفّف اللہ عنکم۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۳۱، الحدیث: ۴۶۵۳)
یعنی دس گنا سے مقابلہ کی فرضیت منسوخ ہوئی اور دو گنا کے مقابلہ سے بھاگنا ممنوع رکھا گیا۔
اس آیت میں مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دینے کے حکم سے معلوم ہوا کہ جہاد بہت اعلیٰ عبادت ہے جس کی رغبت دلانے کا حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا گیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد کی ہر جائز طریقہ سے رغبت دینا جائز ہے۔ غازی کی تنخواہ مقرر کرنا، اس کے بیوی بچوں کی پرورش کرنا، بہادروں کی قدر دانی کرنا سب اس میں داخل ہیں۔
اس آیت کے علاوہ قرآنِ پاک کی اور کئی آیات میں کفار سے جہاد کرنے کی ترغیب بیان کی گئی ہے،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(۱۰)تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘‘(الصف۱۰، ۱۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتادوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے۔ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم (اپنا حقیقی نفع) جانتے ہو۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ-یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ‘‘ (التوبہ:۱۱۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں تو (کافروں کو) قتل کرتے ہیں اور شہید ہوتے ہیں۔
ایک جگہ ارشاد فرمایا:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِؕ-اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِۚ-فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ(۳۸)اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ﳔ وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ وَ لَا تَضُرُّوْهُ شَیْــٴًـاؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘‘(التوبہ۳۸، ۳۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو!تمہیں کیا ہوا؟ جب تم سے کہا جائے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو زمین کے ساتھ لگ جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کی بجائے دنیا کی زندگی پر راضی ہوگئے ؟ تو آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کا سازو سامان بہت ہی تھوڑا ہے۔ اگر تم (اللہ کی راہ میں) کوچ نہیں کرو گے تووہ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گااور تم اس کا کچھ نہیں بگا ڑ سکوگے اوراللہ ہرشے پر قادرہے۔
اسی طرح کثیر احادیث میں بھی جہاد کی ترغیب دی گئی ہے، ان میں سے 5اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)…صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’سب سے بہتر اس کی زندگی ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں اپنے گھوڑے کی باگ پکڑے ہوئے ہے، جب کوئی خوفناک آواز سنتا ہے یا خوف میں اسے کوئی بلاتا ہے تو اُڑ کر (یعنی بہت جلد) پہنچ جاتا ہے۔ قتل و موت کو اس کی جگہوں میں تلاش کرتا ہے (یعنی مرنے کی جگہ سے ڈرتا نہیں ہے) یا اس کی زندگی بہتر ہے جو چند بکریاں لے کر پہاڑ کی چوٹی پر یا کسی وادی میں رہتا ہے، وہاں نماز پڑھتا ہے اور زکوٰۃ دیتا ہے اور مرتے دم تک اپنے ربعَزَّوَجَلَّکی عبادت کرتا ہے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والرباط، ص۱۰۴۸، الحدیث: ۱۲۵(۱۸۸۹))
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مشرکین سے اپنے مال، جان اور زبان سے جہاد کرو۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب کراہۃ ترک الغزو، ۳ / ۱۶، الحدیث: ۲۵۰۴)
یعنی دینِ حق کی اشاعت میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہو جاؤ۔
(3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو مرجائے اور نہ تو جہاد کرے اور نہ اپنے دل میں اس کا خیال کرے تو وہ نفاق کے ایک حصے پر مرے گا۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب ذمّ من مات ولم یغز۔۔۔ الخ، ص۱۰۵۷، الحدیث: ۱۵۸(۱۹۱۰))
(4)… حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا کہ غازی ( مجاہد) کے لیے اس کا ثواب ہے اور غازی کے مددگار کے لیے اپنا ثواب ہے اور غازی کا ثواب ۔(ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب الرخصۃ فی اخذ الجعائل، ۳ / ۲۴، الحدیث: ۲۵۲۶)
(5)…حضرت زید بن خالد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کرنے والے کو سامان دیا تو اس نے جہاد کیا ـ اور جو کسی غازی کے گھر بار میں بھلائی کے ساتھ اس کا نائب بن کر رہا اس نے جہاد کیا ۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب فضل من جہّز غازیاً۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۶۷، الحدیث: ۲۸۴۳)
{عَلِمَ اَنَّ فِیْكُمْ ضَعْفًا:اسے علم ہے کہ تم کمزو ر ہو۔} اس سے ایمان کی کمزوری نہیں بلکہ اَبدان کی کمزوری مراد ہے۔(روح البیان، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۶، ۳ / ۳۷۱ ملخصاً)
یعنی پہلے تو سو کے مقابلہ میں دس مسلمانوں کو ڈٹ جانا فرض تھا اب سو کافروں کے مقابلے میں پچاس کو ڈٹ جانا فرض رہ گیا۔
{حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ:جب تک زمین میں ان کا خون خوب نہ بہالے۔ } ارشاد فرمایا کہ کسی نبی کے لائق نہیں کہ اپنے ہاں کافروں کو قید رکھے جب تک زمین میں ان کا خون خوب نہ بہالے اور قتلِ کفار میں مبالغہ کرکے کفر کی ذلت اور اسلام کی شوکت کا اظہار نہ کرے۔ (مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۴۲۰)
شانِ نزول: مسلم شریف وغیرہ کی احادیث میں ہے کہ جنگِ بدر میں ستر کافر قید کرکے سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں لائے گئے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے متعلق صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مشورہ طلب فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ یہ آپ کی قوم و قبیلے کے لوگ ہیں ، میری رائے میں انہیں فِدیَہ لے کر چھوڑ دیا جائے، اس سے مسلمانوں کو قوت بھی پہنچے گی اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام نصیب کرے۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تکذیب کی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو مکہ مکرمہ میں نہ رہنے دیا نیزیہ کفر کے سردار اور سرپرست ہیں ان کی گردنیں اڑا دی جائیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو فدیہ سے غنی کیا ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو عقیل پر اور مجھے میرے رشتے دار پر مقرر کیجئے کہ ان کی گردنیں مار دیں۔ لیکن بِالآخِر فدیہ ہی لینے کی رائے قرار پائی اور جب فدیہ لیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر۔۔۔ الخ، ص۹۶۹،الحدیث: ۵۸(۱۷۶۳))
{تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا:تم لوگ دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہو۔} اس آیت میں خطاب مؤمنین سے ہے اور مال سے فدیہ مراد ہے۔ یعنی تم لوگ دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہواو ر اللہ تمہارے لئے آخرت کا ثواب چاہتا ہے جو کفار کے قتل اور اسلام کے غلبے کی صورت میں تمہیں ملے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ یہ حکم بدر میں تھا جبکہ مسلمان تھوڑے تھے پھر جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوئی اور وہ فضلِ الٰہی سے قوی ہوئے تو قیدیوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ’’فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً‘‘ (محمد:۴)(پھر اس کے بعد احسان کرکے چھوڑ دویا فدیہ لے لو)اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور مؤمنین کو اختیار دیا کہ چاہے کافروں کو قتل کریں ، چاہے انہیں غلام بنائیں ، چاہے فدیہ لیں ،چاہے آزاد کریں۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ چالیس اوقیہ سونا فی کس تھا جس کے سولہ سو درہم ہوئے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۷، ۲ / ۲۰۹-۲۱۰)
{ لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ:اگراللہ کی طرف سے پہلے سے ایک لکھی ہوئی بات نہ ہوتی۔} اس آیت میں ’’ كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ‘‘ کے بارے میں مفسرین نے مختلف اقوال ذکر کئے ہیں ، ان میں سے 3درج ذیل ہیں۔
(1) …اس لکھے ہوئے سے مراد یہ ہے کہ اِجتہاد پرعمل کرنے والے سے مُواخَذہ نہ فرمائے گا اور یہاں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے اجتہاد ہی کیا تھا اور ان کی فکر میں یہی بات آئی تھی کہ کافروں کو زندہ چھوڑ دینے میں ان کے اسلام لانے کی امید ہے اور فدیہ لینے میں دین کو تَقْوِیَت ہوتی ہے اور اس پر نظر نہیں کی گئی کہ قتل میں اسلام کا غلبہ اور کفار کی تَہدید ہے۔ یہاں ایک مسئلہ یاد رکھیں کہ سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اس دینی معاملہ میں صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی رائے دریافت فرمانا مشروعیتِ اجتہاد کی دلیل ہے۔
(2)…یا ’’ كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ‘‘ سے وہ مراد ہے جو اس نے لوحِ محفوظ میں لکھا کہ اہلِ بدر پر عذاب نہ کیا جائے گا۔
(3)…یا اس سے وہ مراد ہے جو اس نے لوحِ محفوظ میں لکھا کہ اللہتعالیٰ تمہارے لئے غنیمتیں حلال فرمائے گا۔
یاد رہے کہ آیت کے اگلے حصے ’’لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ‘‘ میں ان صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے خطاب ہے جو فدیہ لینے پر راضی تھے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاس خطاب میں داخل نہیں۔ جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا کہ اگر آسمان سے عذاب نازل ہوتا تو حضرت عمر بن خطاب اور حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بچ جاتے کیونکہ ان کی رائے عالی فدیہ لینے کے خلاف تھی۔ (مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۴۲۱، روح المعانی، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۸، ۵ / ۳۲۲، ملتقطاً)
شانِ فاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ:
اس شانِ نزول سے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی عظمت و شان ظاہر ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مقام ایسا بلند ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی رائے کے مطابق قرآنِ مجید کی آیات نازل فرماتا ہے ، ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے رایت ہے، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللہ عَزَّوَجَلَّنے عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی زبان اور دل پر حق جاری فرما دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں : جب کبھی لوگوں میں کوئی معاملہ در پیش ہوا اور ا س کے بارے میں لوگوں نے کچھ کہا اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بھی کچھ کہا تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی رائے کے مطابق قرآن نازل ہوا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ۵ / ۳۸۳، الحدیث: ۳۷۰۲)
مذکورہ بالا آیات کے علاوہ 20سے زائد آیات ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رائے کے مطابق نازل فرمایا، ان میں سے پانچ آیات درج ذیل ہیں
(1)… مقامِ ابراہیم کو نما زکی جگہ بنانے کی آیت، چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی:یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کاش ہم مقامِ ابراہیم کو نما زکی جگہ بنالیں ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا
’’وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى‘‘ (بقرہ:۱۲۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان:ا ور (اے مسلمانو!) تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔
(2)… پردے کی آیت، چنانچہ ایک مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کاش آپ ازواجِ مُطَہَّرات کو پردے کا حکم فرمائیں کیونکہ ان سے نیک اور بد ہر قسم کے لوگ کلام کرتے ہیں ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما ئی:’’ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا‘‘ (احزاب:۵۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رکھیں یہ اِس سے زیادہ نزدیک ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں ستایا نہ جائے اوراللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(3)… نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مطہرات باہمی کسی اختلاف کے سبب سرکار ِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس جمع ہوئیں (جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزاج کے برخلاف تھا) تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ازواجِ مطہرات سے فرمایا کہ یا تو تم اس سے باز آجاؤ ورنہ اگر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتمہیں طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ ان کا رب عَزَّوَجَلَّ انہیں تم سے اچھی بیویاں عطا فرما دے ، تو آیت بھی اسی طرح اتری اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓىٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓىٕحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبْكَارًا‘‘(تحریم:۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر وہ (حبیب)تمہیں طلاق دے دیں توقریب ہے کہ ان کا رب انہیں تم سے بہتر بیویاں بدل دے جو اطاعت والیاں ، ایمان والیاں ، ادب والیاں ، توبہ کرنے والیاں ، عبادت گزار،روزہ دار ، بیاہیاں اور کنواریاں ہوں۔
(4)…ایک موقع پرآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دِل میں خیال پیدا ہوا کہ کاش غلاموں کو اجازت لے کر مکانوں میں داخل ہونے کا حکم ہوتا۔ اس پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی :
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِیْنَ مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍؕ-مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَ حِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِیْرَةِ وَ مِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ۫ؕ-ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْؕ-لَیْسَ عَلَیْكُمْ وَ لَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّؕ-طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ‘‘ (نور:۵۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے غلام اور تم میں سے جو بالغ عمر کو نہیں پہنچے انہیں چاہیے کہ تین اوقات میں فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کے وقت جب تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور نماز عشاء کے بعد (گھرمیں داخلے سے پہلے) اجازت لیں۔ یہ تین اوقات تمہاری شرم کے ہیں۔ ان تین اوقات کے بعد تم پر اور ان پر کچھ گناہ نہیں۔ وہ تمہارے ہاں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے والے ہیں۔ اللہ تمہارے لئے یونہی آیات بیان کرتا ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔
(5)… منافقوں کے سردار عبداللہ بن اُبی کے مرنے کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چاہتے تھے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاس کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں اور اس کے لئے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کوشش بھی کی، جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاس کی نماز جنازہ پڑھا کر واپس ہوئے تو یہ آیت نازل ہو گئی : ’’وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖؕ-اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ‘‘ (توبہ:۸۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور نافرمانی کی حالت میں مرگئے۔
{فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا:تو اس سے کھاؤ جوحلال پاکیزہ غنیمت تمہیں ملی ہے۔} جب اوپر کی آیت نازل ہوئی تو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے جو فدیئے لئے تھے ان سے ہاتھ روک لئے، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور بیا ن فرمایا گیا کہ تمہاری غنیمتیں حلال کی گئیں ، انہیں کھاؤ ۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۲۱۱)
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے لئے مالِ غنیمت کو حلال کر دیا گیا جبکہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے بھی حلال نہیں کیا گیا۔ (بخاری، کتاب التیمم، باب التیمم، ۱ / ۱۳۳، الحدیث: ۳۳۵، مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۵، الحدیث: ۳(۵۲۱))
{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ:اے نبی۔} شانِ نزول: یہ آیت حضرت عباس بن عبد المطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو سید عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے چچا ہیں۔یہ کفارِ قریش کے ان دس سرداروں میں سے تھے جنہوں نے جنگِ بدر میں لشکرِ کفار کے کھانے کی ذمہ داری لی تھی اور یہ اس خرچ کے لئے بیس اوقیہ سونا ساتھ لے کر چلے تھے لیکن ان کے ذمے جس دن کھلانا تجویز ہوا تھا خاص اسی روز جنگ کا واقعہ پیش آیا اور قِتال میں کھانے کھلانے کی فرصت ومہلت نہ ملی تو یہ بیس اوقیہ سونا ان کے پاس بچ رہا، جب وہ گرفتار ہوئے اور یہ سونا ان سے لے لیا گیا تو انہوں نے درخواست کی کہ یہ سونا ان کے فدیہ میں شمار کرلیا جائے مگر رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انکار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو چیز ہماری مخالفت میں صَرف کرنے کے لئے لائے تھے وہ نہ چھوڑی جائے گی اور حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر ان کے دونوں بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث کے فدیئے کا بار بھی ڈالا گیا تو حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا :یا محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تم مجھے اس حال میں چھوڑو گے کہ میں باقی عمر قریش سے مانگ مانگ کر بسر کیا کروں تو حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ پھر وہ سونا کہاں ہے جس کو تمہارے مکہ مکرمہ سے چلتے وقت تمہاری بیوی ام الفضل نے دفن کیا تھا اور تم ان سے کہہ کر آئے ہو کہ خبر نہیں ہے مجھے کیا حادثہ پیش آئے، اگر میں جنگ میں کام آجائوں تو یہ تیرا ہے اور عبداللہ اور عبیداللہ کا اور فضل اور قثم کا (سب ان کے بیٹے تھے) حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا ؟ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے خبردار کیا ہے ۔اس پر حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں بے شک آپ سچے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میرے اس راز پراللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی مُطَّلع نہ تھا اور حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بھتیجوں عقیل و نوفل کو حکم دیا وہ بھی اسلام لائے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۲۱۱)
{یُؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ:جو (مال) تم سے لیا گیااس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا۔} جب رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس بَحرَین کا مال آیا جس کی مقدار اسی ہزار تھی تو حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نمازِ ظہر کے لئے وضو کیا اور نماز سے پہلے ہی کل مال تقسیم کردیا اور حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا کہ اس میں سے لے لو تو جتنا ان سے اٹھ سکا، اتنا انہوں نے لے لیا۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ اس سے بہتر ہے کہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھ سے لیا اور میں اس کی مغفرت کی امید رکھتا ہوں۔ اپنے مال و دولت کا حال بیان کرتے ہوئے حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیس اوقیہ سونے کے بدلے بیس غلام عطا کئے، وہ سب کے سب تاجر تھے اور بہت سارا مال کما کر دیتے تھے، ان میں سے جو غلام سب سے کم کما کر دیتا تھا اس کی مقدار بیس ہزار درہم تھی۔( مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۴۲۱، بغوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۲۲۱، ملتقطاً)
{وَ اِنْ یُّرِیْدُوْا خِیَانَتَكَ:اور اے حبیب! اگر وہ تم سے خیانت کرنا چاہتے ہیں۔} اس آیت میں ذکر کی گئی اللہ تعالیٰاور اس کے رسول سے کفار کی خیانت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر وہ قیدی تمہاری بیعت سے پھر کر اور کفر اختیار کرکے تم سے خیانت کرنا چاہتے ہیں تو آپ اس پر غم نہ کریں کیونکہ یہ لوگ میثاق کے دن مجھ سے وعدہ کر کے دنیا میں پہنچ کر پھر گئے جس پر اللہ تعالیٰ نے اِنہیں تمہارے قابو میں دے دیا جیسا کہ وہ بدر میں دیکھ چکے ہیں کہ قتل ہوئے گرفتار ہوئے آئندہ بھی اگر ان کے اَطوار وہی رہے تو انہیں اسی کا امیدوار رہنا چاہئے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کو قید سے آزاد کیا تو آپ نے ان سے دوبارہ جنگ نہ کرنے اور مشرکین سے معاہدہ نہ کرنے کا عہد لیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر انہوں نے عَہد کی خلاف ورزی کر کے آپ سے خیانت کی ہے توآپ اَفْسُردہ نہ ہوں یہ لوگ پہلے اللہ تعالیٰ سے بھی عہد کر کے اسے توڑ چکے ہیں۔ مصیبت سے نجات کے لئے شکر گزار بندہ بننے کا عہد کیا تو مصیبت دور ہونے کے بعد اپنے وعدے کے خلاف کرکے کفر و معصیت میں مبتلا ہو گئے۔ اولاد کی نعمت ملنے پر شکر گزاری کا عہد کیا اور اولاد ملنے کے بعد انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا میں اس کے شریک ٹھہرا دئیے۔ (بیضاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۱۲۳، روح البیان، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۳۷۶، تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۱، ۵ / ۵۱۴، ملتقطاً)
{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے۔} اس آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اس میں پہلے دو گروہوں کا بیان فرمایا گیا: (1)مہاجرینِ اَوَّلِین ۔یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے اور اسی کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت میں انہوں نے اپنے گھر بار چھوڑے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا۔ (2) اَنصار۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی مدد کی اور انہیں اپنے مکانوں میں ٹھہرایا۔ پھران مہاجرین اور انصار دونوں کے لئے ارشاد فرمایا کہ مہاجر انصار کے اور انصار مہاجر کے وارث ہیں۔ یہ وراثت آیت ’’وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ‘‘ سے منسوخ ہوگئی۔ (مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۲، ص۴۲۲)
{وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ:اور اگر وہ دین میں تم سے مددمانگیں۔} یعنی جن مسلمانوں نے دارُ الحرب سے ہجرت نہیں کی وہ اگر دارُ الحرب سے رہائی حاصل کرنے کیلئے تم سے فوجی قوت یا مال سے مدد طلب کریں تو تم پر فرض ہے کہ انہیں نا مراد نہ کرو، ہاں اگر وہ کسی ایسی کافر قوم کے خلاف تم سے مدد طلب کریں جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو تو ان کے خلاف مسلمانوں کی مدد نہ کرو اور مدت پوری ہونے سے پہلے اس معاہدے کو نہ توڑو۔خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں تین مسئلے بیان ہوئے ہیں : ایک یہ کہ غیر مہاجر مومن اگر کسی کافر قوم سے دینی وجہ سے جنگ کریں اور وہ تم سے مدد مانگیں تو مدد دو۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے مسلم بھائی کی دینی جنگ میں مدد کرے۔ دوسرا یہ کہ مدد دینا جہاد میں ضروری ہے نہ کہ محض دنیاوی جھگڑوں میں۔
تیسرا یہ کہ اگر دارالحرب کے مسلمانوں کی جنگ کسی ایسی کافر قوم سے ہے جن کا ہمارے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے تو ہم اب ان کے خلاف مدد نہیں دے سکتے کیونکہ اس میں بد عہدی ہے بلکہ اب یہ کوشش کی جائے کہ ان کفار اور ان مسلمانوں میں صلح ہو جائے، اگر صلح ناممکن ہے تو ہم غیر جانِبدار رہیں۔(تفسیر قرطبی، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۲، ۴ / ۳۳۰، الجزء السابع، روح البیان، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۳۷۸، ملتقطاً)
سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ، یہ کیسی نفیس تعلیم ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے بھی کئے ہوئے عہد کی پاسداری کی جائے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے عہد شکنی کی صورت نکلتی ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیمات اَخلاقی اچھائیوں کی انتہا تک پہنچی ہوئی ہیں۔
{وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ:اور کافر ا ٓ پس میں ایک دوسرے کے وارث ہیں۔} اس آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ کافر نصرت اور وراثت میں ایک دوسرے کے وارث ہیں لہٰذا تمہارے اور ان کے درمیان کوئی وراثت نہیں۔ اگر مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے تَعاوُن نہ کریں اور ایک دوسرے کے مددگار ہو کر ایک قوت نہ بن جائیں تو کفار مضبوط اور مسلمان کمزور ہوجائیں گے ،اس صورت میں زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا۔ (جلالین، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۱۵۴، مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۴۲۲، ملتقطاً)
اس آیت کی حقانیت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ مسلمانوں کو آپس کے عدمِ اتحاد پر فرمایا گیا تھا کہ اس سے فتنہ اورفسادِ کبیر ہوگا اور اب ہر کو ئی دیکھ سکتا ہے کہ آج مسلمانوں کے خلاف فتنہ اورفسادِ کبیر ہے یا نہیں اور اس کی وجہ بھی مسلمانوں کا عدمِ اتحاد ہے یا نہیں ؟
مسلمانوں میں باہمی تعاون اور مدد کی ضرورت:
اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کافروں کی دوستی اور ان کاوارث بننے سے منع کیا ہے، ان سے جدا رہنے، مسلمانوں کو آپس میں میل جول رکھنے اور ایک دوسرے کامعاون و مددگار بن کر مضبوط طاقت بننے کا حکم دیا ہے ۔ لیکن افسوس! فی زمانہ ایک گھر سے لے کر عالمی سطح تک ا س معاملے میں مسلمانوں کا حال اس کے الٹ ہی نظر آ رہا ہے کہ مسلمان اپنے گھر میں اپنے ہی بہن بھائیوں کے ساتھ میل جول رکھنے، مشکل حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے سے بیزار ہو چکے ہیں اور یہی حال پڑوسیوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ ہے، اسی طرح ایک علاقے کے مسلمان دوسرے علاقے کے مسلمانوں سے ، ایک شہر کے مسلمان دوسرے شہر کے مسلمانوں سے، ایک ملک کے مسلمان دوسرے ملک کے مسلمانوں سے باہمی الفت و محبت اور تعاون و مدد کو تیار نہیں بلکہ عمومی طور پر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی بجائے کفار سے بہر صورت دوستی کرنا چاہتے ہیں اور ہر طرح کی قربانی دے کر ان سے بنائی ہوئی دوستی کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور اگر کسی کافر ملک کی کسی مسلم ملک کے ساتھ جنگ شروع ہوجائے تو اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ تعاون کرنے اورکفار کے خلاف ان کی مدد کرنے کی بجائے کافروں کا ساتھ دیتے ہیں اور مسلمان بھائیوں کو تباہ وبرباد کرنے میں کافروں کو ہر طرح کی مدد دیتے اور ان کی تھپکیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی اپنی حکمرانی قائم رہے اور ان کی عیش و مستی میں کوئی کمی نہ ہونے پائے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور اپنے دین و مذہب کی تعلیمات کو سمجھنے، ان پر عمل کرنے اوران کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا:وہی سچے ایمان والے ہیں۔} اس سے پہلی آیت میں مہاجرین و انصار کے باہمی تَعَلُّقات اور ان میں سے ہر ایک کادوسرے کے مُعین ومددگار ہونے کا بیان تھا اور اس آیت میں ان دونوں کے ایمان کی تصدیق اور ان کے رحمتِ الہٰی کے مستحق ہونے کا ذکر ہے۔ اس آیت سے مہاجرین اور انصار کی عظمت و شان بیان کرنا مقصود ہے کہ مہاجرین نے اسلا م کی خاطر اپنے آبائی وطن کو چھوڑ دیا، اپنے عزیز، رشتہ داروں سے جدائی گوارا کی، مال و دولت، مکانات ا ور باغات کو خاطر میں نہ لائے۔ اسی طرح انصار نے بھی مہاجرین کو مدینہ منورہ میں اس طرح ٹھہرایا کہ اپنے گھر اور مال و مَتاع میں برابر کا شریک کر لیا ، یہ سچے اور کامل مومن ہیں ، ان کے لئے گناہوں سے بخشش اور جنت میں عزت کی روزی ہے۔(مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۴۲۳، تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۴، ۵ / ۵۱۹، ملتقطاً)
انصار کے فضائل:
اس آیت میں مہاجرین کے ساتھ ساتھ انصار کی بھی عظمت و شان بیان کی گئی ، اسی طرح ایک اور مقام پر انصار کی عظمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘(حشر:۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جنہوں نے پہلے اس شہر کواور ایمان کو ٹھکانا بنالیا وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور وہ اپنے دلوں میں اس کے متعلق کوئی حسد نہیں پاتے جو ان (مہاجرین) کو دیا گیا اور وہ (دوسروں کو) اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود (مال کی) حاجت ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچالیا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔
اور حضرت براء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’انصارسے محبت نہ کرے گا مگر مومن اور ان سے عداوت نہ کرے گا مگر منافق، تو جس نے ان سے محبت کی اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے محبت کرے اور جس نے ان سے بغض رکھا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے ناراض ہو۔(بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب حبّ الانصار، ۲ / ۵۵۵، الحدیث: ۳۷۸۳)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ایمان کی نشا نی انصار سے محبت کرناہے اور منافقت کی نشانی انصار سے بغض رکھنا ہے۔ (بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب حبّ الانصار، ۲ / ۵۵۵، الحدیث: ۳۷۸۴)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کچھ بچوں اور عورتوں کو ایک شادی سے آتے ہوئے دیکھا تو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کھڑے ہوگئے اور فرمایا ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو جانتا ہے، اے انصار ! تم لوگ (مجموعی طور پر) مجھے تمام لوگوں سے زیادہ پیارے ہو۔ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو جانتا ہے، اے انصار! تم لوگ (مجموعی طور پر) مجھے تمام لوگوں سے زیادہ پیارے ہو۔(مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم، باب من فضائل الانصار، ص۱۳۶۰، الحدیث: ۱۷۴( ۲۵۰۸))
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ:اور جواس کے بعد ایمان لائے۔ } یعنی اے مہاجرین و انصار! جو لوگ پہلی ہجرت کے بعد ایمان لائے اور انہوں نے تمہاری ہجرت کے بعد ہجرت کی اور کئی جنگوں میں انہوں نے تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا یہ بھی تمہیں میں سے ہیں ا ور تمہارے ہی حکم میں ہیں۔ (روح البیان، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۳۸۰)
مہاجرین کے کئی طبقے ہیں ایک وہ ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ مدینہ طیبہ کو ہجرت کی انہیں مہاجرینِ اولین کہتے ہیں۔ کچھ وہ حضرات ہیں جنہوں نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر مدینہ طیبہ کی طرف انہیں اصحابُ الہجرتَین کہتے ہیں۔ بعض حضرات وہ ہیں جنہوں نے صلحِ حدیبیہ کے بعد فتحِ مکہ سے قبل ہجرت کی یہ اصحابِ ہجرتِ ثانیہ کہلاتے ہیں ، پہلی آیت میں مہاجرینِ اولین کا ذکر ہے اور اس آیت میں اصحابِ ہجرتِ ثانیہ کا ذکر ہے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۲۱۲)
{وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ:اور رشتے دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہجرت اور اُخُوَت کی بنا پر ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے حتّٰی کہ یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں ہجرت اور اخوت کے مقابلے میں (نسبی ) رشتے دار وراثت میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں اور اس آیت کے ذریعے ہجرت اور اخوت کی وجہ سے وراثت میں حق داری منسوخ فرما دی گئی۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۵، ۲ / ۲۱۳)
آیت’’وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے3 مسئلے معلوم ہوئے :
(1)… ہجرت اور اخوت کی وجہ سے وراثت منسوخ ہو چکی ہے۔
(2)… اب وراثت کا دارو مدار نسبی قرابت داری پر ہے جیسا کہ آیت’’وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ‘‘ سے واضح ہے۔ رضاعی رشتے کی وجہ سے کوئی ایک دوسرے کا وارث نہیں اور سسرالی رشتے میں بھی صرف شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے وارث ہیں۔
(3)… ذوی الارحام جیسے ماموں خالہ وغیرہ بھی وارث ہیں جیساکہ اَحناف کا مذہب ہے۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan