READ

Surah Al-Ahzaab

اَلْاَحْزَاب
73 Ayaat    مدنیۃ


33:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

33:1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ(۱)
اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) (ف۲) اللہ کا یوں ہی خوف رکھنا اور کافروں اور منافقوں کی نہ سننا (ف۳) بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے،

{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ: اے نبی!} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ‘‘ کے ساتھ خطاب فرمایا جس کے معنی یہ ہیں  ’’ ہماری طرف سے خبریں  دینے والے ، ہمارے اَسرار کے امین ، ہمارا خطاب ہمارے پیارے بندوں  کو پہنچانے والے ۔ نامِ پاک کے ساتھ یعنی ’’یَا مُحَمَّدُ‘‘ کہہ کر خطاب نہ فرمایا جیسا کہ دوسرے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خطاب فرمایا ہے، اس سے مقصود آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت وتکریم، آپ کا احترام اور آپ کی فضیلت کوظاہر کرنا ہے ۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱، ص۹۳۰)

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’اَلنَّبِیُّ‘‘ کے ساتھ نداکی ہے،نام کے ساتھ ندا کرتے ہوئے ’ ’یَا مُحَمَّدُ‘‘ نہیں  فرمایا جس طرح دوسرے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ندا کرتے ہوئے فرمایا کہ یاآدم ،یانوح ، یاموسیٰ ، یاعیسیٰ، یازکریا، اور یایحییٰ، عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ اس سے مقصود آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت ووجاہت کو ظاہر کرنا ہے اور ’’اَلنَّبِیُّ‘‘ ان اَلقاب میں  سے ہے جو نام والے کے شرف اورمرتبے پر دلالت کرتا ہے۔یاد رہے کہ سورہِ فتح میں  جو ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ‘‘ فرمایاہے،اس میں  آپ کا نامِ پاک اس لئے ذکر فرمایاتاکہ لوگوں  کومعلوم ہوجائے کہ آپاللہ تعالیٰ کے رسول ہیں  اور لوگ آپ کے رسول ہونے کاعقیدہ رکھیں  اوراس کوعقائد ِحَقّہ میں  شمارکریں  ۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱، ۷ / ۱۳۱)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’قرآنِ عظیم کا عام محاورہ ہے کہ تمام انبیائے کرام کو نام لے کر پکارتا ہے مگر جہاں  محمد رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے خطاب فرمایا ہے، حضور کے اَوصافِ جلیلہ و اَلقابِ جمیلہ ہی سے یادکیا ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ‘‘(احزاب:۴۵)

اے نبی ہم نے تجھے رسول کیا۔

’’یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ‘‘(مائدہ:۶۷)

اے رسول پہنچا جو تیری طرف اترا ۔

’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱)قُمِ الَّیْلَ‘‘(مزمل:۱، ۲)

اے کپڑا اوڑھے لیٹنے والے، رات میں  قیام فرما۔

’’یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱)قُمْ فَاَنْذِرْ‘‘(مدثر:۱، ۲)

اے جھرمٹ مارنے والے، کھڑا ہو لوگوں  کو ڈر سنا۔

’’ یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲)اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘( یس:۱۔۳)

اے یس، مجھے قسم ہے حکمت والے قرآن کی، بے شک تو مُرسَلوں  سے ہے ۔

’’طٰهٰۚ(۱)مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰى‘‘( طہ:۱، ۲)

اے طٰہ،ہم نے تجھ پر قرآن اس لیے نہیں  اتارا کہ تو مشقت میں  پڑے۔

            ہر ذی عقل جانتا ہے کہ جو ان نداؤں  اور ان خطابوں  کو سنے گا بِالبداہت حضور سیّد المرسَلین و اَنبیائے سابقین کا فرق جان لے گا۔امام عزالدین بن عبد السلام وغیرہ علمائے کرام فرماتے ہیں : بادشاہ جب اپنے تمام اُمراء کو نام لے کر پکارے اور ان میں  خاص ایک مُقرب کو یوں  ندا فرمایا کرے: اے مقربِ حضرت!اے نائب ِسلطنت !اے صاحب ِ عزت !اے سردارِ مملکت !تو کیا کسی طرح محلِ رَیب وشک باقی رہے گا کہ یہ بندہ بارگاہِ سلطانی میں  سب سے زیادہ عزت و وجاہت والا اور سرکارِ سلطانی کو تمام عمائد و اَراکین سے بڑھ کر پیارا ہے۔( فتاویٰ رضویہ، سیرت وفضائل وخصائص سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۳۰ / ۱۵۴-۱۵۵)

نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کی جانے والی ندا سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس نداء سے تین مسئلے معلوم ہوئے :

(1)…حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فقط نام شریف سے پکارنا قرآنی طریقے کے خلاف ہے ، لہٰذا حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوذاتی نام کی بجائے القاب سے پکارنا چاہیے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:علماء تصریح فرماتے ہیں  ،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نام لے کر نداکرنی حرام ہے۔ اورواقعی محلِ انصاف ہے جسے اس کا مالک ومولیٰ تبارک وتعالیٰ نام لے کر نہ پکارے غلام کی کیا مجال کہ راہِ ادب سے تَجاوُز کرے۔( فتاویٰ رضویہ، سیرت وفضائل وخصائص سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۳۰ / ۱۵۷)

(2)… حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذاتی نام شریف محمد واحمد ہیں  جبکہ آپ کے القاب اور صفاتی نام شریف بہت ہیں ۔ نبی بھی آپ کے القاب میں  سے ہے۔

(3)… رب تعالیٰ کی بارگاہ میں  حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت تمام رسولوں  سے زیادہ ہے کہ اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے نام شریف سے پکارا مگر ہمارے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو لقب شریف سے یاد فرمایا۔

{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ: اے نبی!اللہ سے ڈرتے رہنا۔} شانِ نزول: ابوسفیان بن حرب ، عکرمہ بن ابو جہل اور ابو الاعور سُلَّمی جنگ ِاُحد کے بعد مدینہ طیبہ میں  آئے اور منافقین کے سردار عبد اللہ بن اُ بی بن سلول کے یہاں  مقیم ہوئے۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے گفتگو کے لئے امان حاصل کر کے انہوں  نے یہ کہا کہ آپ لات ، عُزّیٰ اور مَنات وغیرہ بتوں  کو جنہیں  مشرکین اپنا معبود سمجھتے ہیں  کچھ نہ فرمائیے اور یہ فرما دیجئے کہ ان کی شفاعت ان کے پجاریوں  کے لئے ہے، اس کے بدلے میں  ہم لوگ آپ کو اور آپ کے رب کو کچھ نہ کہیں  گے، یعنی آئندہ آپ سے لڑائی وغیرہ نہیں  کریں  گے۔حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی یہ گفتگو بہت ناگوار ہوئی اور مسلمانوں  نے ان لوگوں  کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا لیکن نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قتل کی اجازت نہ دی اور فرمایا کہ میں  انہیں  امان دے چکا ہوں  اس لئے قتل نہ کرو بلکہ مدینہ شریف سے نکال دو۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان لوگوں  کو نکال دیا ۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا’’اے پیارے نبی!آپ ہمیشہ کی طرح اِستقامت کے ساتھ تقویٰ کی راہ پر گامزن رہئے اور کافروں  اور منافقوں  کی شریعت کے بر خلاف بات نہ ماننے پر قائم رہئے۔بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ اس آیت میں  خطاب توحضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہے اور مقصود آپ کی اُمت سے فرمانا ہے کہ جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے امان دیدی تو تم اس کے پابند رہو اور عہد توڑنے کا ارادہ نہ کرو اور کفار و منافقین کی خلافِ شرع بات نہ مانو ۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ:۱،۳ / ۴۸۱، ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ:۱، ۴ / ۳۰۶، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱، ۷ / ۱۳۱، روح المعانی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱ / ۱۹۲-۱۹۳، ملتقطاً)

یہودیوں  ،عیسائیوں  ،مجوسیوں  اور دیگر کفار کی مخالفت کا حکم:

            سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود بھی کافروں  اور منافقوں  کے طریقوں  کی مخالفت فرمایا کرتے تھے اور آپ نے اپنی امت کو بھی ان کے طریقوں  کی مخالفت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ،چنانچہ

          حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک یہودی اور عیسائی (سفید) بالوں  کو نہیں  رنگتے،سو تم ان کی مخالفت کرو۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، ۲ / ۴۶۲، الحدیث: ۳۴۶۲)

            اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی روایت ہے،حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مونچھیں  پَست کرو اور داڑھی بڑھاؤ ، مجوسیوں  کی مخالفت کرو۔(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب خصال الفطرۃ، ص۱۵۴، الحدیث: ۵۵(۲۶۰))

            حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عاشوراء کے دن روزہ رکھو اور اس میں  یہودیوں  کی ا س طرح مخالفت کرو کہ عاشورا سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھو۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن العباس ۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۱۸، الحدیث: ۲۱۵۴)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ یہودیوں ،عیسائیوں  اور دیگر تمام کفار کے طریقوں  کی مخالفت کرے اور نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ، اور اَکابر بزرگانِ دین کے طریقوں  کی پیروی کرے۔

33:2
وَّ اتَّبِـعْ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًاۙ(۲)
اور اس کی پیروی رکھنا جو تمہارے رب کی طرف سے تمہیں وحی ہوتی ہے، اے لوگو! اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے،

{وَ اتَّبِـعْ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ: اور اس کی پیروی کرتے رہنا جو تمہاری طرف وحی کی جاتی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ قرآنِ مجید پر عمل کرتے رہیں  اور کافروں  کی رائے کو خاطر میں  نہ لائیں  اور اے لوگو!بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں  سے خبردار ہے اور تمہارے جیسے عمل ہوں  گے ویسی تمہیں  جزا دے گا اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے اپنے معاملات میں  اللہ تعالیٰ پر جو بھروسہ رکھا ہے ا س پر قائم رہیں  اور اللہ تعالیٰ کافی کام بنانے والاہے۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲، ۷ / ۱۳۲)

33:3
وَّ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا(۳)
اور اے محبوب! تم اللہ پر بھروسہ رکھو، اور اللہ بس ہے کام بنانے والا،

33:4
مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖۚ-وَ مَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰٓـِٔیْ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْۚ-وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْؕ-ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَ هُوَ یَهْدِی السَّبِیْلَ(۴)
اللہ نے کسی آدمی کے اندر دو دل نہ رکھے (ف۴) اور تمہاری ان عورتوں کو جنہیں تم کے برابر کہہ دو تمہاری ماں نہ بنایا (ف۵) اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارا بیٹا بنایا (ف۶) یہ تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے (ف۷) اور اللہ حق فرماتا ہے اور وہی راہ دکھاتا ہے (ف۸)

{ مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖ:اللہ نے کسی آدمی کے اندر دو دل نہ بنائے۔} اس آیت کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اقوال ہیں  ،ان میں  سے ایک یہ ہے،علامہ ابنِ عربی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ایک دل میں  کفر اور ایمان،ہدایت اور گمراہی، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اس سے اِنحراف جمع نہیں  ہو سکتے۔خلاصہ یہ ہے کہ ایک دل میں  دو مُتَضاد چیزیں  جمع نہیں  ہوتیں ۔(احکام القرآن لابن عربی، سورۃ الاحزاب، ۳ / ۵۳۷)اور اگر ظاہری دو دل مراد ہوں  یعنی یہ کہ ایک انسان کے اندردو ایک قسم کے دل نہیں  ہوسکتے تو یہ بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اگر کسی میں  بالفرض یہ نظر آئے کہ اس میں  دل کی شکل کے دو گوشت کے لوتھڑے ہیں  تو ان میں  ایک حقیقی دل ہوگا اور دوسرا محض ایک اضافی گوشت ہوگا یعنی اُس آدمی کا نظامِ بدن صرف ایک حقیقی دل کے ساتھ وابستہ ہوگا۔ 

{وَ مَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰٓـِٔیْ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْ: اور اس نے تمہاری ان بیویوں  کو تمہاری حقیقی مائیں  نہیں  بنا دیا جنہیں  تم ماں  جیسی کہہ دو۔} زمانۂ جاہلیّت میں  جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ظِہار کرتا تھا تو وہ لوگ اس ظہار کو طلاق کہتے اور اس عورت کو اس کی ماں  قرار دیتے تھے اور جب کوئی شخص کسی کو بیٹا کہہ دیتا تھاتو اس کو حقیقی بیٹا قرار دے کر میراث میں  شریک ٹھہراتے اور اس کی بیوی کو بیٹا کہنے والے کے لئے حقیقی بیٹے کی بیوی کی طرح حرام جانتے تھے۔ ان کے رد میں  یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جن بیویوں  کو تم نے ’’ماں  جیسی‘‘کہہ دیا ہے تو ا س سے وہ تمہاری حقیقی مائیں  نہیں  بن گئیں  اور جنہیں  تم نے اپنا بیٹا کہہ دیا ہے تو وہ تمہارے حقیقی بیٹے نہیں  بن گئے اگرچہ لوگ انہیں  تمہارا بیٹا کہتے ہوں ۔ بیوی کو ماں  کے مثل کہنا اور لے پالک بچے کو بیٹا کہنا ایسی بات ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ، نہ بیو ی شوہر کی ماں  ہو سکتی ہے نہ دوسرے کافر زند اپنا بیٹا اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ حق بیان فرماتا ہے اور وہی حق کی سیدھی راہ دکھاتا ہے، لہٰذانہ بیوی کو شوہر کی ماں  قرار دو اور نہ لے پالکوں  کو ان کے پالنے والوں  کا بیٹا ٹھہراؤ۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۴۸۲، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ص۹۳۱-۹۳۲، ملتقطاً)

ظہار سے متعلق3 شرعی مسائل:

اس آیت میں  عورت سے ظہار کرنے والوں  کا ذکر ہوا ،اس مناسبت سے یہاں  ظہار سے متعلق 3شرعی مسائل ملاحظہ ہوں:

(1)…ظہار کا معنی یہ ہے کہ شوہر کا اپنی بیوی یا اُس کے کسی جُزو ِشائع (جیسے نصف،چوتھائی یا تیسرے حصے کو) یا ایسے جز کو جو کُل سے تعبیر کیا جاتا ہو، ایسی عورت سے تشبیہ دینا جو اس پر ہمیشہ کیلئے حرام ہو یا اس کے کسی ایسے عُضْوْ سے تشبیہ دینا جس کی طرف دیکھنا حرام ہو، مثلاً یوں کہا :تو مجھ پر میری ماں  کی مثل ہے، یا تیرا سر یا تیری گردن یا تیرا نصف میری ماں  کی پشت کی مثل ہے۔(درمختار و ردالمحتار، کتاب الظہار،۵ / ۱۲۵-۱۲۹، عالمگیری، کتاب الطلاق، الباب التاسع فی الظہار، ۱ / ۵۰۵)

(2)…ظہار کا حکم یہ ہے کہ (اس سے نکاح باطل نہیں  ہوتا بلکہ عورت بدستور ا س کی بیوی ہی ہوتی ہے البتہ) جب تک شوہر کفارہ نہ دیدے اُس وقت تک اُس عورت سے میاں  بیوی والے تعلقات قائم کرناحرام ہوجاتا ہے البتہ شہوت کے بغیر چھونے یا بوسہ لینے میں  حرج نہیں  مگر لب کا بوسہ شہوت کے بغیر بھی جائز نہیں ۔اگرکفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کرلیا تو توبہ کرے اور اُس کے لیے کو ئی دوسرا کفارہ واجب نہ ہوا مگر خبر دار پھر ایسا نہ کرے اور عورت کو بھی یہ جائز نہیں  کہ شوہر کو قُربت کرنے دے۔(جوہرۃ النیرہ، کتاب الظہار، ص۸۲، الجزء الثانی، درمختار وردالمحتار، کتاب الظہار، ۵ / ۱۳۰)

(3)…ظہار کاکفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے اور اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دو مہینے کے روزے لگاتاررکھے، ان دنوں  کے بیچ میں  نہ کوئی روزہ چھوٹے نہ دن کو یارات کوکسی وقت عورت سے صحبت کرے ورنہ پھر سرے سے روزے رکھنے پڑیں  گے، اور جو ایسا بیمار یا اتنا بوڑھا ہے کہ روزوں  کی طاقت نہیں  رکھتا وہ ساٹھ مسکینوں  کو دونوں  وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے۔( فتاویٰ رضویہ، باب الظہار، ۱۳ / ۲۶۹)

نوٹ: ظہار سے متعلق شرعی مسائل کی تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ ،جلد 13سے ’’ظہار کا بیان‘‘اور بہار شریعت،جلد 2 حصہ 8سے ’’ظہار کابیان‘‘ مطالعہ فر مائیں ۔

بیوی کو ماں ، بہن کہنے سے متعلق ایک اہم شرعی مسئلہ:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’زوجہ کو ماں  بہن کہنا (یعنی تشبیہ نہیں  دی، بغیر تشبیہ کے ماں ، بہن کہا)، خواہ یوں  کہ اسے ماں  بہن کہہ کر پکارے ،یا یوں  کہے :تومیری ماں  بہن ہے ،سخت گناہ و ناجائز ہے۔ قَالَ اللہ تَعَالٰی( اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:)

’’ مَا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْؕ-اِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا اﻼ وَلَدْنَهُمْؕ- وَ اِنَّهُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَ زُوْرًا‘‘(مجادلہ :۲)

جورئیں (یعنی بیویاں )ان کی مائیں  نہیں  ،ان کی مائیں  تو وہی ہیں  جنہوں  نے اُنہیں  جنا ہے اور وہ بے شک بری اور جھوٹی بات کہتے ہیں ۔

مگر اس سے نہ نکاح میں  خلل آئے ،نہ توبہ کے سوا کچھ اور لازم ہو۔( فتاویٰ رضویہ، باب الظہار، ۱۳ / ۲۸۰)

اس شرعی مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں  کواپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو تنگ آ کر یامذاق مَسخری میں  اپنی بیوی سے یوں  کہہ دیتے ہیں  کہ ’’او میری ماں  !بس کر۔جا بہن چلی جا وغیرہ۔انہیں  چاہئے کہ پہلے جتنی بار ایسا کہہ چکے اس سے توبہ کریں  اور آئندہ خاص طور پر احتیاط سے کام لیں ۔

{ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ: یہ تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے۔} آیت کے اس حصے میں  اشارہ بیوی کو ماں  کہہ دینے اور کسی کے بیٹے کو اپنا بیٹاکہہ دینے دونوں  کی طرف ہے یا صرف کسی کے بیٹے کو اپنا بیٹا کہہ دینے کی طرف ہے کیونکہ سابقہ کلام سے مقصود یہی ہے، یعنی تمہارا کسی کو’’ اے میرے بیٹے‘‘ کہنا تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔( ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۰۷، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ۷ / ۱۳۵، ملتقطاً)

مفسرین نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب حضرت زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے نکاح کیا تو یہود یوں  اور منافقوں  نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ (حضرت) محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے بیٹے زید کی بیوی سے شادی کرلی ہے۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو بچپن میں اُمُّ المؤمنین حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے سر کارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  ہبہ کردیاتھا۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُنہیں  آزاد کردیا، تب بھی وہ اپنے باپ کے پاس نہ گئے بلکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی خدمت میں رہے ۔

حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن پر شفقت و کرم فرماتے تھے، اس لئے لوگ اُنہیں  حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرزند کہنے لگے ۔ حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا پہلے حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے نکاح میں  تھیں  اور جب حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں  طلاق دے دی تو عدت گزرنے کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں  اپنی زوجیّت میں  آنے کاشرف عطا فرما دیا۔ اس پر یہودیوں  اور منافقوں  نے اعتراض کیا تویہاں  ان کا رد بھی فرما دیا گیا کہ حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو لوگ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بیٹا کہتے ہیں  لیکن اس سے وہ حقیقی طور پر سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بیٹے نہیں  ہوگئے ،لہٰذا یہودیوں  اور منافقوں کا اعتراض محض غلط ہے اور یہ لوگ جھوٹے ہیں ۔(جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ص۳۵۱، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ص۹۳۱، ملتقطاً)

33:5
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِۚ-فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْۤا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ مَوَالِیْكُمْؕ-وَ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖۙ-وَ لٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۵)
انہیں ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو (ف۹) یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں (ف۱۰) تو دین میں تمہارے بھائی ہیں اور بشریت میں تمہارے چچا زاد (ف۱۱) اور تم پر اس میں کچھ گناہ نہیں جو نا دانستہ تم سے صادر ہوا (ف۱۲) ہاں وہ گناہ ہے جو دل کے قصد سے کرو (ف۱۳) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

{اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ: انہیں  ان کے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارو۔} اس سے پہلی آیت میں  لے پالک بچے کو پالنے والوں  کا بیٹا قرار دینے سے منع کیا گیا اور اس آیت میں  یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تم ان بچوں  کو ان کے حقیقی باپ ہی کی طرف منسوب کر کے پکارو، یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے ،پھر اگر تمہیں  ان کے باپ کا علم نہ ہو اور اس وجہ سے تم انہیں  ان کے باپوں  کی طرف منسوب نہ کر سکو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں  اور انسانیت کے ناطے تمہارے چچا زاد ہیں ، تو تم انہیں  اپنا بھائی یا اے بھائی کہو اور جس کے لے پالک ہیں  اس کا بیٹا نہ کہو اور ممانعت کا حکم آنے سے پہلے تم نے جو لا علمی میں  لے پالکوں  کو ان کے پالنے والوں  کا بیٹا کہا اس پر تمہاری گرفت نہ ہو گی البتہ اس صورت میں  تم گناہگار ہو گے جب ممانعت کا حکم آ جانے کے بعد تم جان بوجھ کر لے پالک کو اس کے پالنے والے کا بیٹا کہو۔ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ بخشنے والا مہربان ہے، اسی لئے وہ غلطی سے ایسا ہو جانے پر گرفت نہیں  فرماتا اور جس نے جان بوجھ کر ایساکیاہو ا س کی توبہ قبول فرماتا ہے۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۴۸۲، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵، ص۹۳۲)

 گود لئے ہوئے بچے کے حقیقی باپ کے طور پر اپنا نام استعمال کرنے کا شرعی حکم:

            بچہ گود لینا جائز ہے لیکن یہ یاد رہے کہ گود میں  لینے والا عام بول چال میں  یاکاغذات وغیرہ میں  اس کے حقیقی باپ کے طور پر اپنا نام استعمال نہیں  کر سکتا بلکہ سب جگہ حقیقی باپ کے طور پر اس بچے کے اصلی والد ہی کا نام استعمال کرنا ہوگا اور اگر اصلی باپ کا نام معلوم نہیں  تو اس کی معلومات کروا کر باپ کے طورپر حقیقی باپ کا نام لکھنا ہو گا اور اگر کوشش کے باوجود کسی طرح اس کے اصلی باپ کا نام معلوم نہ ہو سکے تو گود لینے والا گفتگو میں  حقیقی باپ کے طور پر اپنا نام ہر گز استعمال نہ کرے اور نہ ہی بچہ اسے حقیقی والد کے طور پراپنا باپ کہے ،اسی طرح کاغذات وغیرہ میں  سر پرست کے کالم میں  اپنا نام لکھے حقیقی والد کے کالم میں  ہر گز نہ لکھے،اگر جان بوجھ کر خود کو حقیقی باپ کہے یالکھے گا تو یہ بھی درج ذیل دو وعیدوں  میں  داخل ہے،چنانچہ

(1)… حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ اس کا باپ کوئی اور ہے اور اس کے باوجود اپنے آپ کو کسی غیر کی طرف منسوب کرے تو اس پرجنت حرام ہے۔‘‘( بخاری، کتاب الفرائض، باب من ادعی الی غیر ابیہ،  ۴ / ۳۲۶، الحدیث: ۶۷۶۶)

(2)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے خود کواپنے باپ کے غیرکی طرف منسوب کیایاجس غلام نے اپنے آپ کواپنے مولیٰ کے غیرکی طرف منسوب کیااس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ،فرشتوں  کی اورتمام لوگوں  کی لعنت ہو،قیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کاکوئی فرض قبول فرمائے گانہ نفل۔‘‘( مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۱۱، الحدیث: ۴۶۷ (۱۳۷۰))

            اس سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے کہ جو اپنے ہاں  اولاد نہ ہونے کی وجہ سے یا ویسے ہی کسی دوسرے کی اولاد گود میں  لیتے ہیں  اور اپنے زیرِ سایہ اس کی پرورش کرتے اور اس کی تعلیم و تربیت کے اخراجات برداشت کرتے ہیں  ۔ان کا یہ عمل تو جائز ہے لیکن ان کی یہ خواہش اور تمناہر گزدرست نہیں  کہ حقیقی باپ کے طور پر پالنے والے کا نام استعمال ہو اور نہ ہی ان کا یہ عمل جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا ہے کہ ’’اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ‘‘ (انہیں  ان کے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارو۔) اور جباللہ تعالیٰ نے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارنے کاحکم فرما دیا اور اَحادیث میں  ایسا نہ کرنے پر انتہائی سخت وعیدیں  بیان ہو گئیں  تو کسی مسلمان کی یہ شان نہیں  کہ وہ اپنے رب تعالیٰ کے حکم کے برخلاف اپنی خواہشات کو پروان چڑھائے اور خود کو شدید وعیدوں  کا مستحق ٹھہرائے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

            نوٹ: یاد رہے کہ اَحادیث میں  بیان کی گئی وعیدوں  کا مِصداق وہ صورت ہے جس میں  بچے کا نسب حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا جائے جبکہ شفقت کے طور پر کسی کو بیٹا یابیٹی کہہ کر پکارنا یا کوئی معروف ہی کسی اور کے نام سے ہو تو پہچان کے لئے ا س کابیٹا یا بیٹی کہنا ان وعیدوں  میں  داخل نہیں ۔

بچہ یا بچی گود لینے سے متعلق ایک اہم شرعی مسئلہ:

            بچہ یا بچی گود میں  لینا جائز ہے لیکن جب وہ ا س عمر تک پہنچ جائیں  جس میں  ان پر نامحرم مرد یا عورت سے پردہ کرنا لازم ہو جاتا ہے تو اس وقت بچے پر پالنے والی عورت سے اور بچی پر پالنے والے مرد سے پردہ کرنا بھی لازم ہوگا کیونکہ وہ اس بچے کے حقیقی یا رضاعی ماں  باپ نہیں  اِس لئے وہ اُ س بچے اوربچی کے حق میں  محرم نہیں  ،لہٰذا اگر بچہ گود میں  لیا جائے تو عورت اسے اپنا یا اپنی بہن کادودھ پلا دے اور بچی گود میں  لی جائے تو مرد اپنی کسی محرم عورت کا دودھ اسے پلوا دے، اس صورت میں  ان کے درمیان رضاعی رشتہ قائم ہوجائے گا اور محرم ہو جانے کی وجہ سے پردے کی وہ پابندیاں  نہ رہیں  گی جو نامحرم سے پردہ کرنے کی ہیں ،البتہ یہاں  مزید دو باتیں  ذہن نشین ر ہیں ،

            پہلی یہ کہ دودھ بچے کی عمر دوسال ہونے سے پہلے پلایا جائے اور اگردو سال سے لے کر ڈھائی سال کے درمیان دود ھ پلایا تو بھی رضاعت ثابت ہو جائے گی لیکن اس عمر میں  دودھ پلانا ناجائز ہے اورڈھائی سال عمر ہو جانے کے بعد پلایا تو رضاعت ثابت نہ ہو گی۔

            دوسری یہ کہ عورت نے بچے یا بچی کو اپنی بہن کا دودھ پلوایا تووہ اس کی رضاعی خالہ تو بن جائے گی لیکن اس کا شوہر بچی کا محرم نہ بنے گا ،لہٰذا بہتر صورت وہ ہے جو اوپر ذکر کی کہ بچے کو عورت کی محرم رشتہ دار کا دودھ پلوا لیا جائے اور بچی کو شوہر کی محرم رشتہ دار کا تاکہ پرورش کرنے والے پردے کے مسائل میں  مشکلات کا شکار نہ ہوں ۔البتہ اِن مسائل میں  کہیں  پیچیدگی پیدا ہوسکتی ہے لہٰذا ایسا کوئی معاملہ ہو تو کسی قابل مفتی کو پوری تفصیل بتا کر عمل کیا جائے۔

33:6
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ-وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَفْعَلُوْۤا اِلٰۤى اَوْلِیٰٓىٕكُمْ مَّعْرُوْفًاؕ-كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا(۶)
یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے (ف۱۴) اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں (ف۱۵) اور رشتہ والے اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں (ف۱۶) بہ نسبت اور مسلمانوں اور مہاجروں کے (ف۱۷) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرو (ف۱۸) یہ کتاب میں لکھا ہے (ف۱۹)

{اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ: یہ نبی مسلمانوں  کے ان کی جانوں  سے زیادہ مالک ہیں ۔} اَولیٰ کے معنی ہیں  زیادہ مالک، زیادہ قریب، زیادہ حقدار، یہاں  تینوں  معنی درست ہیں  اور اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ دنیا اور دین کے تمام اُمور میں  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مسلمانوں  پر نافذ اور آپ کی اطاعت واجب ہے اورآپ کے حکم کے مقابلے میں  نفس کی خواہش کو ترک کر دینا واجب ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مومنین پر اُن کی جانوں  سے زیادہ نرمی، رحمت اور لطف و کرم فرماتے ہیں  اورانہیں  سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں ،جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: مسلمانوں  پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۸۳، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ص۹۳۲، ملتقطاً)

            اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری مثال اورلوگوں  کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی،جب ا س نے اپنے ماحول کوروشن کیا تو پروانے اور آگ میں  گرنے والے کیڑے ا س میں  گرنا شروع ہو گئے تو وہ آدمی انہیں  آگ سے ہٹانے لگا لیکن وہ ا س پر غالب آ کر آگ میں  ہی گرتے رہے، پس میں  کمر سے پکڑ کر تمہیں  آگ سے کھینچ رہا ہوں  اور تم ہو کہ اس میں  گرتے ہی جا رہے ہو۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب الانتہاء عن المعاصی، ۴ / ۲۴۲، الحدیث: ۶۴۸۳)

            امام مجاہد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ’’ تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اپنی امت کے باپ ہوتے ہیں  اور اسی رشتہ سے مسلمان آپس میں  بھائی کہلاتے ہیں  کہ وہ اپنے نبی کی دینی اولاد ہیں ۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ص۹۳۲)

رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مالکیت:

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’سچی کامل مالکیت وہ ہے کہ جان وجسم سب کو محیط اورجن وبشر سب کوشامل ہے، یعنی اَوْلٰی بِالتَّصَرُّفْ (تصرف کرنے کا ایسا مالک) ہونا کہ اس کے حضور کسی کو اپنی جان کابھی اصلاً اختیارنہ ہو۔ یہ مالکیت ِحقہ، صادقہ، محیط، شاملہ، تامہ، کاملہ حضور پُرنورمَالِکُ النَّاس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بخلافت ِکبرٰیٔ حضرت کبریا عَزَّوَعَلَا تمام جہاں  پرحاصل ہے۔ قَالَ اللہ تَعَالٰی:

’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ‘‘

نبی زیادہ والی ومالک ومختارہے، تمام اہلِ ایمان کاخود ان کی جانوں  سے۔

وَقَالَ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی(اور اللہ تَبَارَک وَتَعَالٰی نے فرمایا:)

’’وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا‘‘(احزاب:۳۶)

ترجمۂ کنز العرفان: نہیں  پہنچتا کسی مسلمان مرد نہ کسی مسلمان عورت کو جب حکم کردیں  اللہ اور اس کے رسول کسی بات کا کہ انہیں  کچھ اختیاررہے اپنی جانوں  کا، اور جوحکم نہ مانے اللہ ورسول کاتو وہ صریح گمراہ ہوا۔

            رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’اَنَا اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ‘‘ میں  زیادہ والی و مالک ومختارہوں ، تمام اہلِ ایمان کاخود ان کی جانوں  سے(بخاری، کتاب الکفالۃ، باب الدَّین،۲ / ۷۷، الحدیث: ۲۲۹۸)۔( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: النور والضیاء فی احکام بعض الاسماء، ۲۴ / ۷۰۳-۷۰۴)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایمان والوں  کے سب سے زیادہ قریبی ہیں :

            مسلمانوں  پر جو حقوق ہیں  انہیں  ادا کرنے کے حوالے سے دوسرے مسلمانوں  کے مقابلے میں  رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زیادہ قریب ہیں ، چنانچہ

             حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:  ’’میں  دنیا اور آخرت میں  ہر مومن کا سب سے زیادہ قریبی ہوں ،اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو:

’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ‘‘

یہ نبی ایمان والوں  سے ان کی جانوں  کی نسبت زیادہ  قریب ہے۔

             تو جس مسلمان کاانتقال ہو جائے اور مال چھوڑے تو وہ ا س کے عَصبہ (یعنی وارثوں ) کا ہے اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں  کہ میں  ان کا مددگار ہوں ۔( بخاری، کتاب فی الاستقراض واداء الدیون۔۔۔ الخ، باب الصلاۃ علی من ترک دَیناً، ۲ / ۱۰۸، الحدیث: ۲۳۹۹)

            حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں  جب کسی مومن کا انتقال ہوجاتاتواسے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  پیش کیاجاتا۔حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دریافت فرماتے ’’کیااس کے ذمہ کوئی قرض ہے ؟ اگرلوگ کہتے :ہاں ،تونبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دریافت فرماتے’’ کیااس نے مال چھوڑاہے جوا س کا قرض ادا کرنے کے لئے کافی ہو؟اگرلوگ بتاتے: جی ہاں ، تونبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی نمازجنازہ پڑھتے تھے اوراگرلوگ یہ بتاتے کہ مال نہیں  چھوڑا، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے: ’’تم اپنے ساتھی کی نمازجنازہ پڑھو۔پھرجباللہ تعالیٰ نے ہمیں  فتوحات عطافرمائیں  تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’میں  مومنوں  کے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریبی ہوں ۔ جس نے قرض چھوڑاوہ میرے ذمہ ہے اورجس نے مال چھوڑاوہ وارث کے لیے ہے۔( بخاری ، کتاب الکفالۃ ، باب الدَّین ، ۲ / ۷۷ ، الحدیث: ۳۲۹۸، مسند ابو داؤد طیالسی، ما روی ابو سلمۃ عن عبد الرحمٰن عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہم، ص۳۰۷، الحدیث: ۲۳۳۸)

حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اپنے نفس کی اطاعت پر مقدم ہے:

          اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین و دنیا کے تمام اُمور میں  نفس کی اطاعت پرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت مقدم ہے کہ اگر کسی مسلمان کو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی چیز کا حکم دیں  اور ا س کی خواہش کوئی اور کام کرنے کی ہو تو ا س پر لازم ہے کہ اپنی خواہش کو پورا نہ کرے بلکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جس چیز کا حکم دیا ہے اسے ہی کرے۔ یاد رہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًا‘‘(النساء:۸۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس  نے اللہ کا حکم مانا اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے تمہیں  انہیں  بچانے کے لئے نہیں  بھیجا۔

            اور نفس کے مقابلے میں  سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت نجات کا ذریعہ ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ا س چیز کی طرف بلاتے ہیں  جس میں  لوگوں  کی نجات ہے اور نفس اس چیز کی طرف بلاتا ہے جس میں  لوگوں  کی ہلاکت ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری اور ا س کی مثال جسے دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے،اُس آدمی جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آ کر کہنے لگا:میں  نے خود اپنی آنکھوں  سے ایک بہت بڑ الشکر دیکھا ہے اور میں  واضح طور پر تمہیں  اس سے ڈراتا ہوں ، لہٰذا اپنے آپ کو بچا لو،اپنے آپ کو بچا لو۔پس ایک گروہ نے اس کی بات مانی اور کسی محفوظ مقام کی طرف چلے گئے، یوں  انہوں  نے نجات پالی اور دوسرے گروہ نے اسے جھٹلایا تو صبح سویرے وہ بڑ الشکر ان پر ٹوٹ پڑا اور سب کو تہ تیغ کر دیا۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب الانتہاء عن المعاصی، ۴ / ۲۴۲، الحدیث: ۶۴۸۲)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دینی اور دُنْیَوی تمام اُمور میں  اپنے نفس کی اطاعت کرنے کی بجائے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت وفرمانبرداری کرے تاکہ ہلاکت سے بچ کر نجات پا جائے۔

{وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ: اور ان کی بیویاں  ان کی مائیں  ہیں ۔} نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات کو مومنوں  کی مائیں  فرمایا گیا، لہٰذا اُمَّہاتُ المومنین کا تعظیم و حرمت میں  اور ان سے نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہونے میں  وہی حکم ہے جو سگی ماں  کا ہے جبکہ اس کے علاوہ دوسرے احکام میں  جیسے وراثت اور پردہ وغیرہ، ان کا وہی حکم ہے جو اجنبی عورتوں کا ہے یعنی ان سے پردہ بھی کیا جائے گا اور عام مسلمانوں  کی وراثت میں  وہ بطورِ ماں  شریک نہ ہوں  گی،نیز امہات المومنین کی بیٹیوں  کو مومنین کی بہنیں  اور ان کے بھائیوں  اور بہنوں  کو مومنین کے ماموں ، خالہ نہ کہا جائے گا۔( بغوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۳۷، ملخصاً)

            یہ حکم حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ان تمام ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے لئے ہے جنسے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نکاح فرمایا، چاہے حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے ان کا انتقال ہوا ہو یا حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد انہوں  نے وفات پائی ہو۔ یہ سب کی سب امت کی مائیں  ہیں اور ہر امتی کے لئے اس کی حقیقی ماں  سے بڑھ کر لائقِ تعظیم و وا       جبُ الاحترام ہیں ۔( زرقانی علی المواہب، المقصد الثانی، الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۵۶-۳۵۷)

{ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ: اور رشتہ والے ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں ۔} نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہجرت کے بعد بعض مہاجرین کو بعض انصار کا بھائی بنا دیا تھا اور اس رشتے کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے وارث ہوا کرتے تھے، پھر یہ آیت نازل ہوئی اور فرما دیاگیا کہ میراث رشتہ داروں  کاحق ہے اورانہی کوملے گی، ایمان یا ہجرت کے رشتہ سے جومیراث ملتی تھی وہ اب نہیں  ملے گی البتہ تم دوستوں  پر اس طرح احسان کرسکتے ہوکہ ان میں  سے جس کے لئے چاہو کچھ مال کی وصیت کردو تووہ وصیت مال کے تیسرے حصے کی مقدار وراثت پر مُقَدَّم کی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ رشتہ دار ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں ، دینی برادری کے ذریعے کوئی اجنبی اب وارث نہیں  ہوسکتا۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۸۳، تفسیرات احمدیہ، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ص۶۱۴، ملتقطاً)

33:7
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ۪-وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًاۙ(۷)
اور اے محبوب! یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا (ف۲۰) اور تم سے (ف۲۱) اور نوح اور ابراہیم اور موسی ٰ اور عیسیٰ بن مریم سے اور ہم نے ان سے گاڑھا عہد لیا،

{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ: اور اے محبوب!یاد کرو جب ہم نے نبیوں  سے ان کا عہد لیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ وقت یاد کرو جب ہم نے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے رسالت کی تبلیغ کرنے اور دین ِحق کی دعو ت دینے کا عہد لیا اور خصوصیت کے ساتھ آپ سے اور حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عہد لیااور ہم نے ان سب سے بڑا مضبوط عہد لیا تاکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سچوں  سے ان کے سچ کا سوال کرے۔ایک قول یہ ہے کہ سچوں  سے مراد انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں  اور ان سے سچ کا سوال کرنے سے مراد یہ ہے کہ جو انہوں  نے اپنی قوم سے فرمایا اور جس کی انہیں  تبلیغ کی وہ دریافت فرمائے، یا اس کے یہ معنی ہیں  کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی امتوں  نے جو جواب دیئے وہ دریافت فرمائے اور اس سوال سے مقصود کفار کوذلیل ورسوا کرنا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ سچوں  سے مراد مومنین ہیں  اور سچ کا سوال کرنے سے مراد ان کی تصدیق کے بارے میں  سوال کر نا ہے۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۹۳۳، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۷ / ۱۴۱-۱۴۲، ملتقطاً)

 حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی افضلیت کا اظہار:

            اِس آیت میں  بالخصوص پانچ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکرکرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ انبیاء اُولُوا الْعزم رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں  سے تھے، اوریہاں  نہایت اہم نکتہ ہے کہ تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جن کا اس آیت میں  ذکر ہوا، ان کا تذکرہ اسی ترتیب سے ہوا جس ترتیب سے وہ دنیا میں  تشریف لائے لیکن حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری اگرچہ تمام نبیوں  کے بعد ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دوسرے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے کیا اور یہ انداز تمام نبیوں  پر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی افضلیت کے اظہار کے لئے ہے۔

33:8
لِّیَسْــٴَـلَ الصّٰدِقِیْنَ عَنْ صِدْقِهِمْۚ-وَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا۠(۸)
تاکہ سچوں سے (ف۲۲) ان کے سچ کا سوال کرے (ف۲۳) اور اس نے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے،

33:9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَاؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ(۹)
اے ایمان والو! اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو (ف۲۴) جب تم پر کچھ لشکر آئے (ف۲۵) تو ہم نے ان پر آندھی اور وہ لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آئے (ف۲۶) اور اللہ تمہارے کام دیکھتا ہے (ف۲۷)

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو!۔} یہاں  سے جنگِ اَحزاب کے اَحوال بیان کیے جارہے ہیں  جسے غزوئہ خندق بھی کہتے ہیں  اوریہ واقعہ جنگِ اُحد کے ایک سال بعد پیش آیا۔چنانچہ ارشاد فرما یاکہ اے ایمان والو!تم اللہ تعالیٰ کا وہ احسان یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت فرمایا جب تم پر قریش، غطفان، بنو قریظہ اور بنونَضِیرکے لشکر آئے اور انہوں  نے تمہارا محاصرہ کر لیا تو ہم نے ان پر آندھی اور فرشتوں  کے وہ لشکر بھیجے جو تمہیں  نظر نہیں  آئے اور تمہارا خندق کھودنا اور میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری میں  ثابت قدم رہنا اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے، اسی لئے اس نے کافروں  کے خلاف تمہاری مدد فرمائی اور ان کے شر سے تمہیں  محفوظ رکھا، لہٰذا تم اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان پر ا س کا شکر اد ا کرو۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۴۸۴، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۹، ص۹۳۳-۹۳۴، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۹، ۷ / ۱۴۶، ملتقطاً)

غزوۂ احزاب کا مختصر بیان :

غزوۂ احزاب کا مختصر بیان یہ ہے کہ یہ غزوہ سن 4 یا5 ہجری، شوال کے مہینے میں  پیش آیا۔اس کا سبب یہ ہوا کہ جب بنی نَضِیر کے یہودیوں  کو جلاوطن کیا گیا تو اُن کے سربراہ مکہ مکرمہ میں  قریش کے پاس پہنچے اور انہیں  سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جنگ کرنے کی ترغیب دلائی اور وعدہ کیا کہ ہم تمہارا ساتھ دیں  گے یہاں  تک کہ مسلمان نیست و نابود ہوجائیں۔  ابوسفیان نے اس تحریک کی بہت قدر کی اور کہا کہ ہمیں  دنیا میں  وہ سب سے پیارا ہے جو محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کی دشمنی میں  ہمارا ساتھ دے۔ پھر قریش نے ان یہودیوں  سے کہا کہ تم پہلی کتاب والے ہو، ہمیں  بتاؤ کہ ہم حق پر ہیں  یا محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) یہودیوں  نے کہا: تم ہی حق پر ہو۔ اس پر کفارِ قریش خوش ہوئے اور اسی واقعے سے متعلق سورہ نساء کی آیت نمبر51 ’’ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ‘‘ نازل ہوئی۔ پھر وہ یہودی دیگر قبائل غطفان، قیس اورغیلان وغیرہ میں  گئے، وہاں  بھی یہی تحریک چلائی تو وہ سب بھی ان کے موافق ہوگئے۔ اس طرح ان یہودیوں  نے جابجا دورے کئے اور عرب کے قبیلہ قبیلہ کو مسلمانوں  کے خلاف تیار کرلیا۔ جب سب لوگ تیار ہوگئے تو قبیلہ خزاعہ کے چند لوگوں  نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی ان زبردست تیاریوں  کی اطلاع دی۔ یہ اطلاع پاتے ہی حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے مشورے سے خندق کھدوانی شروع کردی۔ اس خندق میں  مسلمانوں  کے ساتھ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود بھی کام کیا۔ مسلمان خندق تیار کرکے فارغ ہوئے ہی تھے کہ مشرکین بارہ ہزار افرادکا بڑا لشکر لے کر اُن پر ٹوٹ پڑے اور مدینہ طیبہ کا محاصرہ کرلیا۔خندق مسلمانوں  کے اور اُن کے درمیان حائل تھی اور اسے دیکھ کر سب کفارحیران ہوئے اور کہنے لگے کہ’’ یہ ایسی تدبیر ہے جس سے عرب لوگ اب تک واقف نہ تھے۔ اب انہوں نے مسلمانوں  پر تیر اندازی شروع کر دی۔جب اس محاصرے کو 15 یا24 دن گزرے تو مسلمانوں  پر خوف غالب ہوا اور وہ بہت گھبرائے اور پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور کافروں  پر تیز ہوا بھیجی، انتہائی سرد اور اندھیری رات میں  اُس ہوا نے کافروں  کے خیمے گرادیئے، طنابیں  توڑدیں ، کھونٹے اکھاڑ دیئے، ہانڈیاں  الٹ دیں  اور آدمی زمین پر گرنے لگے اور اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھیج دیئے جنہوں  نے کفار کو لرزا دیا اور اُن کے دلوں  میں  دہشت ڈال دی مگر اس جنگ میں  فرشتوں نے لڑائی نہیں  کی۔ پھر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو خبر لینے کے لئے بھیجا۔ اس وقت انتہائی سخت سردی تھی اور یہ ہتھیار لگا کر روانہ ہوئے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے روانہ ہوتے وقت ان کے چہرے اور بدن پر دستِ مبارک پھیرا جس کی برکت سے ان پر سردی اثر نہ کرسکی اور یہ دشمن کے لشکر میں  پہنچ گئے۔ وہاں  تیز ہوا چل رہی تھی، سنگریزے اڑ اڑ کر لوگوں  کو لگ رہے تھے اور آنکھوں  میں  گرد پڑرہی تھی،الغرض عجب پریشانی کا عالَم تھا۔ کافروں  کے لشکر کے سردار ابوسفیان ہوا کا یہ عالَم دیکھ کر اُٹھے اور انہوں نے قریش کو پکار کر کہا کہ جاسوسوں  سے ہوشیار رہنا، ہر شخص اپنے برابر والے کو دیکھ لے۔ یہ اعلان ہونے کے بعد ہر ایک شخص نے اپنے برابر والے کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دانائی سے اپنے دائیں  طرف موجود شخص کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا :تو کون ہے؟ اُس نے کہا :میں  فلاں  بن فلاں  ہوں ۔ اس کے بعد ابوسفیان نے کہا:اے گروہِ قریش! تم یہاں  نہیں  ٹھہر سکتے، گھوڑے اور اونٹ ہلاک ہوچکے ہیں ،بنی قریظہ اپنے عہد سے پھر گئے اور ہمیں  اُن کی طرف سے اندیشہ ناک خبریں  پہنچی ہیں ۔ ہوا نے جو حال کیا ہے وہ تم دیکھ ہی رہے ہو، بس اب یہاں  سے کوچ کردو اورمیں  کوچ کررہا ہوں ۔ ابوسفیان یہ کہہ کر اپنی اونٹنی پر سوار ہوگئے اور لشکر میں کو چ کوچ کا شور مچ گیا۔ کافروں  پر جو ہوا آئی وہ ہر چیز کو الٹ رہی تھی مگر یہ ہوا اس لشکر سے باہر نہ تھی۔ اب یہ لشکر بھاگ نکلا اور سامان کا سواریوں  پر لاد کر لے جانا اس کے لئے دشوار ہو گیا،اس لئے کثیر سامان وہیں  چھوڑ گیا۔(جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۱۵۵-۱۵۶، ملخصاً)

33:10
اِذْ جَآءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا ؕ (۱۰)
جب کافر تم پر آئے تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے (ف۲۸) اور جبکہ ٹھٹک کر رہ گئیں نگاہیں (ف۲۹) اور دل گلوں کے پاس آگئے (ف۳۰) اور تم اللہ پر طرح طرح کے گمان کرنے لگے امید و یاس کے (ف۳۱)

{اِذْ جَآءُوْكُمْ: جب کافر تم پر آئے۔} غزوۂ اَحزاب کے موقع پرجب اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں  پر احسان فرمایااس وقت صورتِ حال یہ تھی کہ مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے والے لشکرمیں  سے وادی کے اوپر کی طرف مشرق سے اسد اور غطفان قبیلے کے لوگ، مالک بن عوف نصری اورعُیَینہ بن حصن فزاری کی سرکردگی میں  ایک ہزار کی جَمعِیَّت لے کر آئے اور ان کے ساتھ طلیحہ بن خویلد اسدی بنی اسد کی جمعیت لے کر اور حُیَیْ بن اخطب یہودی بنی قریظہ کی جمعیت لے کر آیا اور وادی کی نچلی جانب مغرب سے قریش اور کنانہ قبیلے کے لوگ ابو سفیان بن حرب کی سرکردگی میں  آئے۔ اس وقت لوگوں  کی آنکھیں  ٹھٹک کر رہ گئیں  اور رعب و ہیبت کی شدت سے حیرت میں  آ گئیں  اور خوف و اِضطراب اس انتہاء کو پہنچ گیا کہ دل گویا کہ گلوں  کے پاس آگئے اورمنافق تویہ گمان کرنے لگے کہ اب مسلمانوں  کا نام و نشان باقی نہ رہے گا کیونکہ کفار کی اتنی بڑی جمعیت سب کو فنا کر ڈالے گی اور مسلمانوں  کواللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد آنے اور اپنے فتح یاب ہونے کی امید تھی۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۹۳۴، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۴۸۹، ملتقطاً)

33:11
هُنَالِكَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا(۱۱)
وہ جگہ تھی کہ مسلمانوں کی جانچ ہوئی (ف۳۲) اور خوب سختی سے جھنجھوڑے گئے،

{هُنَالِكَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ: وہیں مسلمانوں  کو آزمایا گیا۔} یعنی اسی دہشت ناک جگہ اور ہولناک حالات میں  رعب اور محاصرے کے ذریعے مسلمانو ں  کے صبر و اِخلاص کو آزمایا گیا اور اس جنگ میں  ناداری، داخلی دشمنوں  یعنی یہودِ مدینہ کا خطرہ، خارجی دشمنوں  کی یلغار، اس کے علاوہ اپنی بے سرو سامانی وغیرہ سب مسائل جمع ہوگئے تھے اوریہ ایسی چیزیں  تھیں  جن سے بہادر سے بہادر کے دل چھوٹ جاتے ہیں  مگر سچے غلامانِ مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایسی آفات میں  بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے ثابت قدم رہے۔

33:12
وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اِلَّا غُرُوْرًا(۱۲)
اور جب کہنے لگے منافق اور جن کے دلوں میں روگ تھا (ف۳۳) ہمیں اللہ و رسول نے وعدہ نہ دیا تھا مگر فریب کا (ف۳۴)

{وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ: اور جب منافق کہنے لگے۔} خند ق کی کھدائی کے دوران نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چٹان پر ضرب لگا کر اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور اس کے بعد یہ بشارت دی کہ فارس، روم،یمن اور حبشہ کے ممالک مسلمانوں  کے ہاتھوں  فتح ہوں  گے۔ جب کافروں  نے حملہ کیا تو ان کے لشکر دیکھ کر معتب بن قشیر کہنے لگا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو ہمیں  فارس اور روم کی فتح کا وعدہ دیتے ہیں  اور حال یہ ہے کہ ہم میں  سے کسی کی یہ مجال بھی نہیں  کہ اپنے ڈیرے سے باہر نکل سکے تو یہ وعدہ نرا دھوکا ہے۔اس کے علاوہ منافقوں  نے بھی اسی طرح کی باتیں  کیں ۔ ان کی مذمت میں  یہ آیت نازل ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ان لوگوں  کا یہ عقیدہ مضبوط ہوتا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سچے رسول ہیں  تو وہ کبھی یہ بات اپنی زبان پر نہ لاتے۔(البحر المحیط، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۲۱۲، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۳۵، ملتقطاً)

33:13
وَ اِذْ قَالَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْاۚ-وَ یَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَةٌ ﳍ وَ مَا هِیَ بِعَوْرَةٍۚۛ-اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا(۱۳)
اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا (ف۳۵) اے مدینہ والو! (ف۳۶) یہاں تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں (ف۳۷) تم گھروں کو واپس چلو اور ان میں سے ایک گروہ (ف۳۸) نبی سے اذن مانگتا تھا یہ کہہ کر ہمارے گھر بے حفاظت ہیں، اور وہ بے حفاظت نہ تھے، وہ تو نہ چاہتے تھے مگر بھاگنا،

{وَ اِذْ قَالَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ: اور جب ان میں  سے ایک گروہ نے کہا: اے مدینہ والو!۔} اس آیت میں  ’’یثرب‘‘ کا لفظ ذکر ہوا، اس کے بارے میں  اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’قرآنِ عظیم میں  کہ لفظ ’’یثرب‘‘ آیا وہ رَبُّ الْعِزَّت جَلَّ وَعَلَا نے منافقین کا قول نقل فرمایا ہے۔ یثرب کا لفظ فساد وملامت سے خبر دیتاہے وہ ناپاک اسی طرف اشارہ کرکے یثرب کہتے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان پر رد کے لئے مدینہ طیبہ کا نام طابہ رکھا، حضورِ اقدس،سرورِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰیعَلَیْہِوَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’یَقُولُونَ یَثْرِبَ وَہِیَ الْمَدِینَۃُ‘‘ وہ اسے یثرب کہتے ہیں  اور وہ تو مدینہ ہے۔( بخاری،کتاب فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ۔۔۔الخ،۱ / ۶۱۷،الحدیث:۱۸۷۱، مسلم،کتاب الحج، باب المدینۃ تنفی شرارہا، ص۷۱۷، الحدیث: ۴۸۸(۱۳۸۲))

            اور فرماتے ہیں  صَلَّی اللہ تَعَالٰیعَلَیْہِوَسَلَّمَ ’’اِنَّ اللہ تَعَالٰی سَمَّی الْمَدِیْنَۃَ طَابَۃَ ‘‘ بے شکاللہ عَزَّوَجَلَّ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا۔

            مرقاۃ میں  ہے: ’’اَلْمَعْنٰی اَنَّاللہ تَعَالٰی سَمَّاھَا فِی اللَّوْحِ الْمَحْفُوْظِ اَوْ اَمَرَنَبِیَّہٗ اَنْ یُسَمِّیَھَا بِہَا رَدًّا عَلَی الْمُنَافِقِیْنَ فِیْ تَسْمِیَتِھَا بِیَثْرِبَ اِیْمَاءً اِلٰی تَثْرِیْبِہِمْ فِی الرُّجُوْعِ اِلَیْہَا‘‘ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ میں  مدینہ منورہ کانام’’طابہ‘‘ رکھا ہے یااللہ تعالیٰ نے منافقوں  کا رد کرتے ہوئے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم فرمایا کہ وہ مدینہ پاک کا نام طابہ رکھیں ، کیونکہ منافق مدینہ منورہ کا نام یثرب اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رکھتے تھے کہ اس کی طرف لوٹنے میں  ان کا نقصان ہے۔(ت)( مرقاۃ المفاتیح،کتاب المناسک،باب حرم المدینۃ حرسہا اللّٰہ تعالی،الفصل الاول،۵ / ۶۲۲، تحت الحدیث: ۲۷۳۸)

            اسی میں  ہے: ’’قَالَ النَّوَوِیُّ رَحِمَہُاللہ تَعَالٰی قَدْ حُکِیَ عَنْ عِیْسَی بْنِ دِیْنَارَ اَنَّ مَنْ سَمَّاھَا یَثْرِبَ کُتِبَ عَلَیْہِ خَطِیْئَۃً وَ اَمَّا تَسْمِیَتُھَا فِی الْقُرْاٰنِ بِیَثْرِبَ فَہِیَ حِکَایَۃُ قَوْلِ الْمُنَافِقِیْنَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ‘‘ امام نووی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:حضرت عیسیٰ بن دینار رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے یہ قول حکایت کیا گیا ہے کہ جس کسی نے مدینہ طیبہ کا نام’’ یثرب‘‘ رکھا یعنی اس نام سے پکارا تو وہ گناہ گار ہوگا اورجہاں  تک ا س بات کا تعلق ہے کہ قرانِ مجید میں  مدینہ منورہ کا نام ’’یثرب‘‘ ذکر ہوا، تواس کے بارے میں  معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ان منافقین کے قول کی حکایت ہے جن کے دلوں  میں  نفاق کی بیماری ہے۔(ت)( مرقاۃ المفاتیح،کتاب المناسک،باب حرم المدینۃ حرسہا اللّٰہ تعالی،الفصل الاول،۵ / ۶۲۲، تحت الحدیث: ۲۷۳۷)۔( فتاویٰ رضویہ، کتاب الحظر والاباحۃ، ۲۱ / ۱۱۷-۱۱۸، ملتقطاً)

مدینہ منورہ کو یثرب کہنے کا شرعی حکم:

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز وممنوع وگناہ ہے اور کہنے والا گنہگار۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’مَنْ سَمَّی الْمَدِیْنَۃَ یَثْرِبَ فَلْیَسْتَغْفِرِاللہ ھِیَ طَابَۃُ ھِیَ طَابَۃُ ‘‘ جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے۔ مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے۔( مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث البراء بن عازب رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۴ / ۴۰۹، الحدیث: ۱۸۵۴۴)

            علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں  فرماتے ہیں : ’’فَتَسْمِیَتُھَا بِذٰلِکَ حَرَامٌ لِاَنَّ الْاِسْتِغْفَارَ اِنَّمَا ھُوَ عَنْ خَطِیْئَۃٍ ‘‘ یعنی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ کا یثرب نام رکھنا حرام ہے کہ یثرب کہنے سے استغفار کاحکم فرمایا اور استغفار گناہ ہی سے ہوتی ہے۔( التیسیر شرح جامع الصغیر، حرف المیم، ۲ / ۴۲۴)

            ملا علی قاری رَحِمَہُ الْبَارِیْ مرقاۃ شریف میں  فرماتے ہیں : ’’قَدْ حُکِیَ عَنْ بَعْضِ السَّلَفِ تَحْرِیْمُ تَسْمِیَۃِ الْمَدِیْنَۃِ بِیَثْرِبَ وَ یُؤَیِّدُہٗ مَا رَوَاہُ اَحْمَدُ (فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ الْمَذْکُوْرَ ثُمَّ قَالَ) قَالَ الطِّیْبِیُّ رَحِمَہُ اللہ: فَظَہَرَاَنَّ مَنْ یُحَقِّرُ شَاْنَ مَا عَظَّمَہُاللہ تَعَالٰی وَمَنْ وَصَّفَ مَا سَمَّاہُاللہ تَعَالٰی بِالْاِیْمَانِ بِمَا لَا یَلِیْقُ بِہٖ یَسْتَحِقُّ اَنْ یُسَمّٰی عَاصِیًا‘‘ ایک بزرگ سے حکایت کی گئی ہے کہ مدینہ منورہ کویثرب کہنا حرام ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو امام احمد نے روایت فرمایا ہے (پھر مذکورہ بالا حدیث بیان فرمائی،) پھر فرمایا: علامہ طیبی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا : پس اس سے ظاہر ہو اکہ جو اس کی شان کی تحقیر کرے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے عظمت بخشی اور جس کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کانام دیا اس کا ایسا وصف بیان کرے جو اس کے لائق اور شایانِ شان نہیں  تو وہ اس قابل ہے کہ اس کا نام عاصی (گنہگار) رکھا جائے۔(ت)( مرقاۃ المفاتیح،کتاب المناسک،باب حرم المدینۃ حرسہا اللّٰہ تعالی،الفصل الاول،۵ / ۶۲۲، تحت الحدیث: ۲۷۳۷)۔( فتاویٰ رضویہ، کتاب الحظر والاباحۃ، ۲۱ / ۱۱۶-۱۱۷، ملتقطاً)

            اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں : ’’بعض اشعارِ اکابرمیں  کہ یہ لفظ واقع ہوا، ان کی طرف سے عذر یہی ہے کہ اُس وقت اِس حدیث وحکم پر اطلاع نہ پائی تھی، جو مطلع ہوکر کہے اس کے لئے عذر نہیں ، معہٰذا شرع مطہر شعر وغیر شعر سب پر حجت ہے، شعر شرع پر حجت نہیں  ہوسکتا۔( فتاویٰ رضویہ، کتاب الحظر والاباحۃ، ۲۱ / ۱۱۸-۱۱۹)

{لَا مُقَامَ لَكُمْ: (یہاں ) تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں ۔} غزوہِ خند ق کے موقع پر کافروں  کے لشکر دیکھ کر منافقوں  کا حال یہ ہو اکہ ان میں  سے ایک گروہ کہنے لگا کہ اے مدینہ والو! رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لشکر میں  تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں  کیونکہ دشمنوں  کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے لشکر تم پر غالب آ جائیں  گے، ا س لئے عافیت اسی میں  ہے کہ تم مدینہ منورہ میں  اپنے گھروں  کی طرف واپس چلے جاؤ،اور ان کا دوسراگروہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوا اور یہ کہہ کر واپسی کی اجازت مانگنے لگا کہ مدینہ منورہ میں  ہمارے گھر کمزور ہونے کی وجہ سے محفوظ نہیں  اور ہمیں  دشمنوں  اور چوروں  کی طرف سے خطرہ ہے، اس لئے آپ ہمیں  واپس جانے کی اجازت دیں  تاکہ ہم ان کی حفاظت کا انتظام کرلیں ،اس کے بعد ہم دوبارہ لشکر میں  واپس ا ٓجائیں  گے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں  کی اندرونی کیفیت کو ظاہر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ منافقوں  کے گھر غیرمحفوظ نہ تھے بلکہ وہ لوگ یہ بہانہ بنا کر میدانِ جنگ سے فرار ہونا چاہتے تھے۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱۳، ۷ / ۱۵۱، ملخصاً)

33:14
وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَیْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا ثُمَّ سُىٕلُوا الْفِتْنَةَ لَاٰتَوْهَا وَ مَا تَلَبَّثُوْا بِهَاۤ اِلَّا یَسِیْرًا(۱۴)
اور اگر ان پر فوجیں مدینہ کے اطراف سے آئیں پھر ان سے کفر چاہتیں تو ضرور ان کا مانگا دے بیٹھتے (ف۳۹) اور اس میں دیر نہ کرتے مگر تھوڑی

{وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَیْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا: اور اگر ان پرمدینہ کی طرفوں  سے فوجیں  داخل کردی جاتیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ منافقوں  کا یہ کہنا کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں ، محض ایک بہانہ ہے اور اگربالفرض مدینہ منورہ کے مختلف اَطراف سے فوجیں  ان پر حملہ آور ہو جاتیں ، پھر ان منافقوں  سے یہ مطالبہ کیا جاتا کہ تمہارے بچنے کی صورت یہ ہے کہ تم اسلام سے مُنْحرف ہو جاؤ، تو یہ لوگ ضرور ان کامطالبہ پورا کر دیتے اور ا س مطالبے کو پورا کرنے میں  چند لمحوں  کی ہی تاخیر کرتے۔

 عقیدے کی کمزوری اور نفاق کا نقصان:

            معلوم ہو اکہ جب بندہ یقین اور صبر کی کمی کا شکار ہوتا ہے، بزدلی اور انسانوں  کا خوف اس پر غالب ہوتا ہے، ہر دینی چیز میں  شک کرتا ہے اور کسی دینی حکم پر عمل کرنے کی صورت میں  اگر اَذِیَّت پہنچنے کا صرف احتمال ہی ہو تو اس سے گھبرانے لگ جاتا ہے، تو اس وقت اس کا دل عقیدے کی کمزوری اور نفاق کے مرض میں  مبتلا ہوجاتا ہے، پھر اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ مسلمان کہلانے کے باوجود اگر کسی ہلکی سی تکلیف سے ڈرا کر اس سے کفر و شرک کا مطالبہ کیا جائے تو وہ اس مطالبے کو پورا کرنے میں  دیر نہیں  لگاتا۔

            افسوس! فی زمانہ اسی طرح کی صورتِ حال مسلمانوں  میں  بھی پائی جاتی ہے اور ان میں  بھی عقیدے کی کمزوری کا مرض عام ہوتا نظر آ رہاہے اور ان کا حال یہ ہو چکا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے وجود پر کوئی عقلی اعتراضاتکرے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے کے باوجود کوئی اور نبوت کا دعویٰ کر ے، قرآنِ مجید کی حقانیت پر کوئی انگلی اٹھائے اور اسلامی احکام کو اپنی عقل کے ترازو پر تول کر ان کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرے تو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے والے اپنے دین و مذہب سے پھرنے میں  دیر نہیں  لگاتے اور اگر کسی طرح اپنے دین پر قائم رہیں  تو صرف ان اسلامی احکام پر عمل کے لئے تیار ہوتے ہیں  جو انہیں  اپنی عقل کے مطابق نظر آئیں  اور جو ان کی عقل کے برخلاف ہوں تو انہیں  جھٹلانے اور دین ِاسلام کے دامن پر ایک بد نما داغ قرار دینے میں  تاخیر نہیں  کرتے۔ اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت ا ور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔

33:15
وَ لَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ لَا یُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَؕ-وَ كَانَ عَهْدُ اللّٰهِ مَّسْــٴُـوْلًا (۱۵)
اور بیشک اس سے پہلے وہ اللہ سے عہد کرچکے تھے کہ پیٹھ نہ پھیریں گے، اور اللہ کا وعدہ پوچھا جائے گا (ف۴۰)

{وَ لَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ: اوربیشک اس سے پہلے وہاللہ سے عہد کرچکے تھے۔} یعنی جو لوگ مدینہ منورہ میں  اپنے گھروں  کی طرف لوٹ جانے کی اجازت طلب کر رہے ہیں ، بیشک وہ غزوہِ خندق سے پہلے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کر چکے تھے کہ وہ دشمنوں  کو پیٹھ دکھاکرجنگ سے فرار نہیں  ہوں  گے، بزدلی کا مظاہرہ نہیں  کریں  گے اور جو غلطی ہم سے پہلے سرزد ہوئی اسے نہیں  دہرائیں  گے، لیکن انہوں  نے وہ عہد توڑ دیا اور اپنے گھروں  میں  واپس جانے کی اجازت طلب کر نے لگ گئے۔یہ یاد رکھیں  کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدے کے بارے میں  پوچھا جائے گا اور اسے پورا نہ کرنے پر سزا دی جائے گی۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱۵، ۷ / ۱۵۲)

            اس سے معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کسی چیز کا عہد کرنا گویا رب عَزَّوَجَلَّ سے عہد کرنا ہے کیونکہ حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رب تعالیٰ کے نائب ِاعظم اور مختارِ مُطلَق ہیں ، لہٰذا آپ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنا لازم ہے۔

33:16
قُلْ لَّنْ یَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ وَ اِذًا لَّا تُمَتَّعُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا(۱۶)
تم فرماؤ ہرگز تمہیں بھاگنا نفع نہ دے گا اگر موت یا قتل سے بھاگو (ف۴۱) اور جب بھی دنیا نہ برتنے دیے جاؤ گے مگر تھوڑی (ف۴۲)

{قُلْ لَّنْ یَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ: تم فرماؤ ہرگز تمہیں  بھاگنا نفع نہ دے گا۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان اجازت طلب کرنے والوں  سے فرما دیں  کہ اگر تم موت یا قتل ہو جانے کے ڈر سے بھاگ رہے ہوتو اس کا تمہیں  کوئی فائدہ نہیں  ہو گا کیونکہ جو مقدر ہے وہ ضرور ہو کر رہے گا، اس لئے اگر تمہاری تقدیر میں  یہاں  موت لکھی ہے تو وہ تمہیں  آ ہی جائے گی اور اگر یہاں  تمہاری موت کا وقت نہیں  آیا ہے تو بھی میدانِ جنگ سے بھاگ کر صرف اتنےہی دن دنیا سے فائدہ اٹھا پاؤ گے جتنے دن تمہاری عمر باقی ہے اور یہ ایک قلیل مدت ہے، توتم تھوڑی سی مَوہُوم زندگی کیلئے اتنے بڑے گناہ کا بوجھ کیوں  اُٹھارہے ہو۔(روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷ / ۱۵۳، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۹۳۶، ملتقطاً)

{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں  کہ اگراللہ تعالیٰ کو تمہیں  قتل اور ہلاک کرنا منظور ہو تو اسے کوئی ٹال ہی نہیں  سکتا اور اگر وہ تمہیں  امن و عافیت عطا فرما کر تم پر رحم فرمانا چاہے تو کوئی تمہیں  قتل اور ہلاک نہیں  کر سکتااور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنی جانوں  کا کوئی حامی نہ پائیں  گے اورنہ ہی انہیں  کوئی مددگار ملے گا۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۹۳۶، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱۷، ۷ / ۱۵۳، ملتقطاً)

33:17
قُلْ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَعْصِمُكُمْ مِّنَ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَ بِكُمْ سُوْٓءًا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةًؕ-وَ لَا یَجِدُوْنَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا(۱۷)
تم فرماؤ وہ کون ہے جو اللہ کا حکم تم پر سے ٹال دے اگر وہ تمہارا برا چاہے (ف۴۳) یا تم پر مہر (رحم) فرمانا چاہے (ف۴۴) اور وہ اللہ کے سوا کوئی حامی نہ پائیں گے نہ مددگار،

33:18
قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْكُمْ وَ الْقَآىٕلِیْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَیْنَاۚ-وَ لَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ(۱۸)
بیشک اللہ جانتا ہے تمہارے ان کو جو اوروں کو جہاد سے روکتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں ہماری طرف چلے آؤ (ف۴۵) اور لڑائی میں نہیں آتے مگر تھوڑے (ف۴۶)

{قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْكُمْ: بیشکاللہ تم میں  سے ان لوگوں  کو جانتا ہے جو دوسروں  کو جہاد سے روکتے ہیں۔} شانِ نزول : یہ آیت منافقین کے بارے میں  نازل ہوئی، اُن کے پاس یہودیوں  نے پیغام بھیجا تھا کہ تم کیوں  اپنی جانیں  ابوسفیان کے ہاتھوں  سے ہلاک کرانا چاہتے ہو، اُس کے لشکری اس مرتبہ اگر تمہیں  پا گئے تو تم میں  سے کسی کو باقی نہ چھوڑیں  گے، ہمیں  یہ اندیشہ ہے کہ تم کسی مصیبت میں  گرفتار نہ ہو جاؤ، تم ہمارے بھائی اور ہمسائے ہو ا س لئے ہمارے پاس آجاؤ۔

یہ خبر پا کر عبد اللہ بن اُبی بن سلول منافق اور اس کے ساتھی مؤمنین کو ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں  سے ڈرا کر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ساتھ دینے سے روکنے لگے اور اس میں  انہوں  نے بہت کوشش کی لیکن جس قدر انہوں  نے کوشش کی، مومنین کی ثابت قدمی اوراِستقلال اور بڑھتا گیا۔( بغوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۴۴۶)

33:19
اَشِحَّةً عَلَیْكُمْ ۚۖ-فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَاَیْتَهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ تَدُوْرُ اَعْیُنُهُمْ كَالَّذِیْ یُغْشٰى عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِۚ-فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَى الْخَیْرِؕ-اُولٰٓىٕكَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا(۱۹)
تمہاری مدد میں گئی کرتے (کمی کرتے) ہیں پھر جب ڈر کا وقت آئے تم انہیں دیکھو گے تمہاری طرف یوں نظر کرتے ہیں کہ ان کی آنکھیں گھوم رہی ہیں جیسے کسی پر موت چھائی ہو پھر جب ڈر کا وقت نکل جائے (ف۴۷) تمہیں طعنے دینے لگیں تیز زبانوں سے مال غنیمت کے لالچ میں (ف۴۸) یہ لوگ ایمان لائے ہی نہیں (ف۴۹) تو اللہ نے ان کے عمل اکارت کردیے (ف۵۰) اور یہ اللہ کو آسان ہے،

{اَشِحَّةً عَلَیْكُمْ: تمہارے اوپر بخل کرتے ہوئے آتے ہیں ۔} یعنی منافقوں  کا حال یہ ہے کہ جب مسلمانوں  کو جنگ میں  ان کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تویہ لوگ بخل کرتے ہیں  اوراگر جیسے تیسے لڑائی میں  کچھ شرکت کرنا پڑ ہی جائے تواس وقت ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ خوف سے ان کی آنکھیں  ہی گھوم رہی ہوتی ہیں  اورجباللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مسلمان جنگ میں  فتح یاب ہوجاتے ہیں  توپھرمالِ غنیمت لینے کے لیے سب سے پہلے پہنچ جاتے ہیں اور اپنی جرأت کی جھوٹی داستانیں  سناتے ہوئے کہتے ہیں  کہ ہم نے اتنی بہادری دکھائی اورہماری بہادری کی وجہ سے ہی جنگ میں  کامیابی اورغنیمت ملی ہے، لہٰذا ہمیں  غنیمت میں  سے زیادہ حصہ دیاجائے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے کہ ان لوگوں  نے اگرچہ اپنی زبانوں  سے ایمان کا اقرار کیا ہے لیکن در حقیقت یہ لوگ ایمان لائے ہی نہیں  اورچونکہ حقیقت میں  وہ مومن نہ تھے اس لئے ان کے تمام ظاہری عمل جہاد وغیرہ سب باطل کر دیئے گئے اور عملوں  کو باطل کر دینااللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے۔

صرف زبانی دعوے کرنا اور وقت پر ساتھ نہ دینا منافقوں  کا کام ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ وقت پر ساتھ نہ دینا اور زبان سے محبت کا دعویٰ کرنا منافقوں  کا کام ہے جبکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ہر مشکل وقت میں  اپنے مسلمان بھائی کا ساتھ دیتا ہے اور زبانی دعوے کرنے کی بجائے عملی مظاہرہ زیادہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بولنے کیلئے زبان ایک اور دیگر کام کرنے کیلئے اَعضاء دو دو دئیے ہیں  لہٰذا آدمی کو چاہیے کہ وہ کلام کم اور کام زیادہ کرے۔

33:20
یَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ یَذْهَبُوْاۚ-وَ اِنْ یَّاْتِ الْاَحْزَابُ یَوَدُّوْا لَوْ اَنَّهُمْ بَادُوْنَ فِی الْاَعْرَابِ یَسْاَلُوْنَ عَنْ اَنْۢبَآىٕكُمْؕ-وَ لَوْ كَانُوْا فِیْكُمْ مَّا قٰتَلُوْۤا اِلَّا قَلِیْلًا۠(۲۰)
وہ سمجھ رہے ہیں کہ کافروں کے لشکر ابھی نہ گئے (ف۵۱) اور اگر لشکر دوبارہ آئیں تو ان کی (ف۵۲) خواہش ہوگی کہ کسی طرح گا نؤں میں نکل کر (ف۵۳) تمہاری خبریں پوچھتے (ف۵۴) اور اگر وہ تم میں رہتے جب بھی نہ لڑتے مگر تھوڑے (ف۵۵)

{یَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ یَذْهَبُوْا: وہ سمجھ رہے ہیں  کہ لشکر ابھی نہ گئے۔} یعنی منافق لوگ اپنی بزدلی اور نامَردی کی وجہ سے ابھی تک یہ سمجھ رہے ہیں  کہ کفارِ قریش، غطفان قبیلے کے لوگ اور یہودی و غیرہ ابھی تک میدان چھوڑ کر بھاگے نہیں  ہیں  اگرچہ حقیقت ِحال یہ ہے کہ وہ بھاگ چکے ہیں  اور ان کی بے ہمتی کا یہ عالَم ہے کہ اگر بالفرض کفار کے لشکر دوبارہ مدینہ منورہ پر چڑھائی کردیں  تو اب کی بار ان کی آرزو یہ ہو گی کہ یہ لوگ مدینہ پاک کو ہی چھوڑ کر دیہات میں  بھاگ جائیں  اور مدینہ منورہ آنے جانے والے لوگوں  سے تمہاری ہار جیت کی خبر پوچھ لیا کریں  اورخود مدینہ منورہ آنے کی ہمت کبھی نہ کریں  اور اگرانہیں  تمہارے درمیان ہی موجود رہنا پڑتا تب بھی ان میں  سے تھوڑے لوگ ہی لڑائی کرتے اور وہ بھی صرف ریا کاری یا ذلت کے ڈر سے یا عذر پیش کرنے کے لئے تاکہ انہیں  یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ ہم بھی تو تمہارے ساتھ جنگ میں  شریک تھے۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۹۳۷، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۴۹۱، ملتقطاً)

33:21
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ(۲۱)
بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے (ف۵۶) اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے (ف۵۷)

{لَقَدْ كَانَ لَكُمْ: بیشک تمہارے لئے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت میں  پیروی کیلئے بہترین طریقہ موجود ہے جس کا حق یہ ہے کہ اس کی اقتدا اور پیروی کی جائے،جیسے غزوہِ خندق کے موقع پر جن سنگین حالات کا سامنا تھا کہ کفارِ عرب اپنی بھرپورافرادی اور حَربی قوت کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے اچانک نکل پڑے تھے اور ان کے حملے کو پَسپا کرنے کے لئے جس تیاری کی ضرورت تھی اس کے لئے مسلمانوں  کے پاس وقت بہت کم تھا اور افرادی قوت بھی ا س کے مطابق نہ تھی،خوارک کی اتنی قلت ہو گئی کہ کئی کئی دن فاقہ کرنا پڑتا تھا،پھر عین وقت پر مدینہ منورہ کے یہودیوں  نے دوستی کا معاہدہ توڑ دیا اور ان کی غداری کی وجہ سے حالات مزید سنگین ہو گئے، ایسے ہو شْرُبا حالات میں  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی کیسی شاندار سیرت پیش فرمائی کہ قدم قدم پر اپنے جانثار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ ساتھ موجود ہیں ، جب خندق کھودنے کا موقع آیا تو اس کی کھدائی میں  خود بھی شرکت فرمائی، چٹانوں  کو توڑااور مٹی کو اٹھا اٹھا کر باہر پھینکا، جب خوراک کی قلت ہوئی تودوسرے مجاہدین کی طرح خود بھی فاقہ کشی برداشت فرمائی اور اس دوران اگر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے فاقے کی تکلیف سے پیٹ پر ایک پتھر باندھا تو سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک شکم پر دو پتھر بندھے ہوئے نظر آئے۔ شدید سردی کے باوجود ہفتوں  صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ میدانِ جنگ میں  قیام فرمایا۔جب دشمن حملہ آور ہوا تو اس کے لشکر کی تعداد اور حربی طاقت کو دیکھ کر پریشان نہیں  ہوئے بلکہ عزم و ہمت کا پیکر بنے رہے اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔ جب بنو قریظہ کے بارے میں  خبر ملی کہ انہوں نے عہد توڑ دیا ہے تو اسے سن کر مُقَدّس جَبین پر بل نہیں  پڑے اورمنافق لوگ مختلف حیلوں کے ذریعے میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کرنے لگے تب بھی پریشان نہ ہوئے اور اِستقامت کے ساتھ ان تمام حالات کا مقابلہ فرماتے رہے، جنگ میں  ثابت قدمی اور شجاعت دکھائی، اس میں  آنے والی سختیوں  کا صبر وہمت سے مقابلہ کیا، اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کے لئے کوئی کسر نہ چھوڑی اور آخر کار اللہ تعالیٰ کی مدد سے کفار کے لشکروں  کو شکست دی۔ان تمام چیزوں  کے پیش ِنظر مسلمانوں  کو فرمایا گیا کہ اے مسلمانو!تمہیں  چاہئے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کی پیروی کرو اور یہ بات وہ مانے گا جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف، اس کی یاد، اس سے امید اور قیامت کی دہشت ہوگی۔

          نوٹ:یہ آیت مبارکہ اگرچہ ایک خاص موقع پر نازل ہوئی لیکن اپنے الفاظ کے اعتبار سے عام ہے اور اس موقع کے علاوہ بھی سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت ِ طیبہ کے ان تمام اُمورمیں  پیروی کا حکم ہے جو آپ کی خصوصیت نہیں  ہیں۔

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی اوراطاعت کا حکم :

            قرآنِ مجید میں  متعدد مقامات پر نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری اور پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘ ( حشر:۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور رسول جو کچھ تمہیں  عطا فرمائیں  وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں  (اس سے) باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والاہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(اٰل عمران:۳۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے حبیب!فرمادو کہ اے لوگو! اگر تم  اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤاللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

            معلوم ہوا کہ حقیقی طور پر کامیاب زندگی وہی ہے جو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نقش ِقدم پر ہو، اگر ہمارا جینا مرنا، سونا جاگنا حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نقش ِقدم پر ہو جائے تو ہمارے سب کام عبادت بن جائیں  گے۔

             دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کامل طریقے سے پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور سیرتِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی:  

            صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں  نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ پر عمل پیرا ہونے کو اپنی زندگی کا اَوّلین مقصد بنایا ہواتھا اور ان کے نزدیک تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَقوال، اَفعال اور اَحوال کی پیروی کرنے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ چیز اور کوئی نہ تھی، یہاں  اسی سے متعلق صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے 5 واقعات ملاحظہ ہوں :

(1)…غزوۂ اَحزاب میں  سرکارِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو حکم دیا کہ کفار کی خبر لائیں ، لیکن ان سے چھیڑچھاڑ نہ کریں ، وہ آئے تو دیکھا کہ ابوسفیان آگ تاپ رہے ہیں ، کمان میں  تیر جوڑ لیا اور نشانہ لگانا چاہا، لیکن رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم یاد آگیا اور رک گئے۔( مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب غزوۃ الاحزاب، ص۹۸۸، الحدیث: ۹۹(۱۷۸۸))

(2)…پہلے یہ دستور تھا کہ جب صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سفر ِجہاد میں  کسی منزل پر قیام فرماتے تھے تو ادھر ادھر پھیل جاتے تھے، ایک بار آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ یہ مُتَفَرِّق ہونا شیطان کا کام ہے۔ اس کے بعد صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اس کی اس شدت سے پابندی کی کہ جب بھی منزل پر اترتے تھے تواس قدر سمٹ جاتے تھے کہ اگر ایک چادرتان لی جاتی توسب کے سب اس کے نیچے آجاتے۔( ابو داؤد ، کتاب الجہاد، باب ما یؤمر من انضمام العسکر وسعتہ، ۳ / ۵۸، الحدیث: ۲۶۲۸)

(3)…حضرت محمد بن اسلم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نہایت بڑی عمر کے صحابی تھے، لیکن جب بازار سے پلٹ کر گھر آتے اور چادر اتارنے کے بعد یا د آتا کہ انہوں  نے مسجد ِنبوی میں  نماز نہیں  پڑھی تو کہتے کہ خدا کی قسم! میں  نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مسجد میں  نماز نہیں پڑھی،حالانکہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہم سے فرمایا تھا کہ جو شخص مدینہ میں  آئے تو جب تک اس مسجد میں  دورکعت نماز نہ پڑھ لے گھر واپس نہ جائے، یہ کہہ کر چادر اٹھاتے اور مسجد ِنبوی میں  دورکعت نماز پڑھ کے گھر واپس آتے۔( اسد الغابہ، باب المیم والحائ، محمد بن اسلم، ۵ / ۸۰ملتقطا)

(4)…حضرت حمران بن ابان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں :ہم حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس تھے، آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا اور جب وضو کر کے فارغ ہوئے تو مسکرائے اور فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ میں  کیوں  مسکرایا؟پھر (خود ہی جواب دیتے ہوئے) فرمایا: ’’جس طرح میں  نے وضو کیا اسی طرح رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وضو فرمایا تھا اور اس کے بعد مسکرائے تھے۔( مسند امام احمد، مسند عثمان بن عفان رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۱ / ۱۳۴، الحدیث: ۴۳۰)

(5)…حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی وفات سے چند گھنٹے پہلے اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے دریافت کیا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کفن میں  کتنے کپڑے تھے اورحضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وفات شریف کس دن ہوئی ؟( بخاری، کتاب الجنائز، باب موت یوم الاثنین، ۱ / ۴۶۸، الحدیث: ۱۳۸۷)

            ا س سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی آرزو تھی کہ کفن اور یومِ وفات میں  حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مُوافقت ہو۔ زندگی میں  حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع تو کرتے ہی تھے وہ وفات میں  بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی اتباع چاہتے تھے۔( عمدۃ القاری، کتاب الجنائز، باب موت یوم الاثنین، ۶ / ۳۰۰، تحت الحدیث: ۱۳۸۷)

حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زندگی ہر ایک کے لئے کامل نمونہ ہے:

            یاد رہے کہ عبادات، معاملات، اَخلاقیات، سختیوں  اور مشقتوں  پر صبر کرنے میں  اورنعمتوں  پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے میں ، الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں  اور ہر پہلو کے اعتبار سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک زندگی اور سیرت میں  ایک کامل نمونہ موجود ہے، لہٰذا ہر ایک کو اور بطورِ خاص مسلمانوں  کو چاہئے کہ وہ اَقوال میں ،اَفعال میں ، اَخلاق میں  اور اپنے دیگر احوال میں  سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک سیرت پر عمل پیرا ہوں  اور اپنی زندگی کے تمام معمولات میں  سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کریں ۔

            مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب’’شانِ حبیب الرحمٰن ‘‘ میں  اس آیت پر بہت پیارا کلام فرمایا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سرکارِ اَبد قرار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک ذات ہر درجے اور ہر مرتبے کے انسان کے لئے نمونہ ہے، جیسے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے توکُّل کا حال یہ تھا کہ دو دوماہ تک گھر میں  آگ نہیں  جلتی، صرف کھجوروں  اور پانی پر گزارہ ہوتا، توامت کے مَساکین کو چاہئے کہ ان مبارک حالات کو دیکھیں  اور صبر سے کام لیں۔

            جو سلطنت اور بادشاہت کی زندگی گزار رہا ہے، تو وہ ان حالات کا ملاحظہ کرے کہ مکہ مکرمہ فتح ہو گیا، تمام وہ کفار سامنے حاضر ہیں  جنہوں  نے بے انتہا تکلیفیں  پہنچائی تھیں ، آج موقع تھا کہ ان تمام گستاخوں  سے بدلہ لیا جائے مگر ہو ایہ کہ فتح فرماتے ہی عام معافی کا اعلان فرما دیا کہ جو ابو سفیان کے گھر میں  داخل ہو جائے ا س کو امن ہے،جو اپنا دروازہ بند کرلے اس کو امن ہے، جو ہتھیار ڈال دے ا س کو امن ہے، الغرض،حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر دس بھائیوں  نے چند گھنٹے ظلم و ستم کیاجس کے نتیجے میں  ایک مختصر عرصے تک آپ آزمائشوں  میں  مبتلا رہے اور جب وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سلطنت میں  غلہ لینے حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے فرمایا: ’’لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ‘‘ آج تم پر کوئی سختی نہ ہو گی، اللہ تمہاری مغفرت فرما دے۔ مگر حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے 13 سال تک اپنے او پر اہلِ مکہ کی سختیاں  برداشت کیں ، صحابہ ٔکرام، اہلِ بیت ِعظام،ان کے گھر والے اور ان حضرات کی جان و مال، عزت وآبرو سب ہی خطرے میں  رہے اورآخر کار دیس کو چھوڑ کر پردیسی ہونا پڑا، مگر جب اپنا موقع آیا تو سب کو معاف فرما دیا،لہٰذاقیامت تک کے سَلاطین اس کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں ۔

            اگر کوئی مالداری اور خوشحالی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو ان حالات کو ملاحظہ کرے کہ ایک شخص کے کھیت میں  لمبی ککڑی پیدا ہوئی، تحفہ کے طور پر بارگاہ میں  حاضر کی، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے عِوَض میں  ایک لپ بھر سونا عنایت فرمایا۔ایک بار بکریوں  سے بھرا ہوا جنگل حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ملکیت میں  آیا،کسی نے عرض کی: یاحَبِیبَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اباللہ تعالیٰ نے حضور کو بہت ہی مالدار بنا دیا۔ ارشادفرمایا: ’’ تو نے میری مالداری کیا دیکھی ؟عرض کی: اس قدر بکریاں  ملکیت میں  ہیں ۔ ارشاد فرمایا: جا سب تجھ کو عطا فرما دیں ۔ وہ اپنی قوم میں  یہ مال لے کر پہنچے اور قوم والوں  سے کہا : اے لوگو!ایمان لے آؤ،رب کی قسم! محمدٌ  رَّسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اتنا دیتے ہیں  کہ فقر کاخوف نہیں  فرماتے۔ حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایک بار اتنا دیا کہ وہ اٹھا نہ سکے، لہٰذا مالدار یہ واقعات اپنے خیال میں  رکھیں  اور زندگی گزاریں ۔

            اگر کسی کی زندگی اہل و عیال کی زندگی ہے تو وہ یہ خیال کرے کہ میری تو ایک یا دو یا زیادہ سے زیادہ چار بیویاں  ہیں  اور کچھ اولاد مگر محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی 9 بیویاں  ہیں ، اولاد اور اولاد کی اولاد،غلام، لونڈیاں ، مُتَوَسِّلین اور مہمانوں  کا ہجوم ہے، پھر کس طرح ان سے برتاؤ فرمایا اور اسی کے ساتھ ساتھ کس طرح رب عَزَّوَجَلَّ کی یاد فرمائی۔

            اگر کوئی تارک الدنیا اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو غارِ حرا کی عبادت، وہاں  کی ریاضت، دنیا کی بے رغبتی کو دیکھے۔

            سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قوت و طاقت کا یہ حال ہے کہ جنگ ِحُنَین میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خچر پر تنہا رہ گئے، مسلمانوں  کے پاؤں  اکھڑ گئے، کفار نے خچر کو گھیر لیا،حضرت عباس اور ابو سفیان رَضِیَ اللہ تَعَالٰیعَنْہُمَا باگ پکڑے ہوئے تھے، جب ملاحظہ فرمایا کہ کفار نے یلغار کی ہے تو خچر سے اترے اور فرمایا: ہم جھوٹے نبی نہیں  ہیں ، ہم عبد المطلب کے پوتے ہیں ، اس پرکسی کی ہمت اور جرأت نہ ہوئی کہ سامنے ٹھہرجاتا۔ابو رکانہ عرب کا مشہور پہلوان تھا،جو کبھی بھی کسی سے مغلوب نہ ہوتا تھا،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین بار اسے ز مین پر دے مارا، وہ اسی پر حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مداح بن گیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رحم و کرم کا یہ حال کہ نہ کبھی کسی کو برا فرمایا نہ خادم یا اہلِ خانہ کو ہاتھ سے مارا (لہٰذا طاقت اور قوت رکھنے والے ان حالات پر غور کریں ) غرض کہ ساری قومیں  (اور ہر مرتبے کے انسان سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات مبارک کو) اپنے لئے نمونہ بنا کر دنیا میں  آرام اور ہدایت سے رہ سکتے ہیں۔( شان حبیب الرحمٰن، ص۱۵۸-۱۶۰، ملخصاً)

33:22
وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَۙ-قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ٘-وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًاؕ(۲۲)
اور جب مسلمانوں نے کافروں کے لشکر دیکھے بولے یہ ہے وہ جو ہمیں وعدہ دیا تھا اللہ اور اس کے رسول نے (ف۵۸) اور سچ فرمایا اللہ اور اس کے رسول نے (ف۵۹) اور اس سے انہیں نہ بڑھا مگر ایمان اور اللہ کی رضا پر راضی ہونا،

{وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ: اور جب مسلمانوں  نے لشکر دیکھے۔} ا س سے پہلی آیات میں  منافقوں کی بزدلی، بے ہمتی اورحیلے بہانوں  کابیان کیاگیا اور اب یہاں  سے باہمت مومنوں  کا حال بیان کیاجارہاہے، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب غزوہِ خندق کے دن مسلمانوں  نے کفار کے لشکر دیکھے تو کہنے لگے:یہ وہ ہے جس کا ہمیں  اللہ تعالیٰاور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وعدہ دیا تھاکہ تمہیں  شدت اور مصیبت پہنچے گی اور تم آزمائش میں  ڈالے جاؤ گے اور پہلوں  کی طرح تم پر سختیاں  آئیں  گی اور لشکر جمع ہو ہو کر تم پر ٹوٹیں  گے لیکن آخر میں  تم ہی غالب آؤ گے اور تمہاری مدد فرمائی جائے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

’’اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْؕ-مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ‘‘(بقرہ:۲۱۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ جنت میں  داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پرپہلے لوگوں  جیسی حالت نہ آئی۔ انہیں  سختی اور شدت پہنچی اور انہیں  زور سے ہلا ڈالا گیا یہاں  تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہہ اُٹھے: اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن لو! بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔

اور حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے ارشاد فرمایا: ’’ آئندہ نو یا دس راتوں  میں  لشکر تمہاری طرف آنے والے ہیں ۔ جب انہوں  نے دیکھا کہ اس مدت کے پورا ہونے پر لشکرآ گئے تو کہا: یہ ہے وہ جس کا ہمیں  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وعدہ دیا تھا۔‘‘ اور اس کے تمام وعدے سچے ہیں ، سب یقینی طور پر واقع ہوں  گے، ہماری مدد بھی ہو گی، ہمیں  غلبہ بھی دیا جائے گا اور مکہ مکرمہ، روم اور فارس بھی ہمارے ہاتھوں  فتح ہوں  گے اور ان لشکروں  کے آنے نے ان کے اللہ تعالیٰ کے وعدوں  پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی رضا پرراضی ہونے میں  اور اضافہ کردیا۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۹۳۷، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۴۹۲، ملتقطاً)

33:23
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِۚ-فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ﳲ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاۙ(۲۳)
مسلمانوں میں کچھ وہ مرد ہیں جنہوں نے سچا کردیا جو عہد اللہ سے کیا تھا (ف۶۰) تو ان میں کوئی اپنی منت پوری کرچکا (ف۶۱) اور کوئی راہ دیکھ رہا ہے (ف۶۲) اور وہ ذرا نہ بدلے (ف۶۳)

{مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا: مسلمانوں  میں  کچھ وہ مرد ہیں  جنہوں  نے سچا کردکھایا۔} حضرت عثمانِ غنی، حضرت طلحہ، حضرت سعید بن زید، حضرت حمزہ اور حضرت مصعب اوردیگر چندصحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے نذر مانی تھی کہ وہ جب رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جہاد میں  شرکت کا موقع پائیں  گے تو ثابت قدم رہیں  گے یہاں  تک کہ شہید ہو جائیں ۔ ان کے بارے میں  اس آیت میں  ارشاد ہوا کہ انہو ں  نے اپنا وعدہ سچا کر دیا اور ان میں  سے کوئی ثابت قدمی کے ساتھ جہاد کرتا رہایہاں  تک کہ شہید ہو گیا جیسے کہ حضرت حمزہ اور حضرت مصعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور کوئی ابھی (جہاد پر ثابت قدمی کے باوجود) شہادت کا انتظار کر رہا ہے، جیسے کہ حضرت عثمان اور حضرت طلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا، اور یہ حضرات بالکل نہ بدلے بلکہ شہید ہو جانے والے بھی اور شہادت کا انتظار کرنے والے بھی دونوں  اپنے عہد پر ویسے ہی ثابت قدم رہے جبکہ منافق اور دل کے بیمار لوگ اپنے عہد پر قائم نہ رہے۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۹۳۷-۹۳۸)

            حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میرے چچا حضرت انس بن نضر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  غزوۂ بدر کے موقع پر موجود نہ تھے، یہ بارگاہِ رسالت میں  حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیـ: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے مشرکین کے ساتھ جو پہلی جنگ لڑی تھی میں  ا س میں  موجود نہ تھا،اگر اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے جنگ آزمائی کا پھر موقع دیا تواللہ تعالیٰ آپ کو ضرور دکھا دے گا کہ میں  کیا کرتا ہوں ۔جب اُحد کی معرکہ آرائی کا دن آیا اور بعض مسلمان جنگ کے میدان میں  ٹھہر نہ سکے، توانہوں  نےاللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور عرض کی: یا اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں  اُس حرکت سے علیحدگی کا اظہار کرتا ہوں  جو ہمارے بعض ساتھیوں  سے سرزد ہوئی اور میں  اُس فعل سے بیزار ہوں  جس کے یہ مشرکین مُرتکب ہوئے ہیں ۔پھر انہوں  نے مشرکین کی جانب پیش قدمی فرمائی تو راستے میں  حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملاقات ہوئی، آپ نے ان سے فرمایا: اے سعد بن معاذ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، نضر کے رب عَزَّوَجَلَّکی قسم!مجھے اُحد کی اس جانب سے جنت کی خوشبو آ رہی ہے۔ حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بارگاہِ رسالت میں  ان کا حال یوں  عرض کیا کرتے تھے کہ یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو جوانمردی حضرت انس بن نضر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دکھائی وہ میری بساط سے باہر ہے۔حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : جب (جنگ کے بعد) ہم نے حضرت انس بن نضر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو جامِ شہادت نوش کئے ہوئے پایا تو ان کے جسم پر 80سے زیادہ تلواروں ،تیروں  اور نیزوں  کے زخم تھے۔ مشرکین نے ان کے کان اور ناک وغیرہ کاٹ لئے تھے جس کے باعث انہیں  کوئی پہچان نہ سکا البتہ صرف ان کی بہن نے ان کی انگلیوں  کے پوروں  سے پہچانا۔ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :ہمارا خیال اور گمان ہے کہ یہ آیت ’’مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِ‘‘ ان کے بارے میں  اور ان جیسے حضرات ہی کے متعلق نازل ہوئی ہے۔( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب قول اللّٰہ تعالی: من المؤمنین رجال صدقوا۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۵، الحدیث: ۲۸۰۵)

            اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُحد سے واپس تشریف لائے تو حضرت مصعب بن عمیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پا س سے گزرے جوکہ شہید ہو کر راستے میں  پڑے ہوئے تھے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے پاس کھڑے ہو کر دعا فرمائی اور ا س کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:

’’مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِۚ-فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ﳲ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا‘‘(احزاب:۲۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: مسلمانوں  میں  کچھ وہ مرد ہیں  جنہوں نے اس عہد کو سچا کردکھایا جوانہوں  نےاللہ سے کیا تھا تو ان میں  کوئی اپنی منت پوری کرچکا اور کوئی ابھی انتظار کر رہا ہےاور وہ بالکل نہ بدلے۔

            پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں  گواہی دیتا ہو ں  کہ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہید ہیں ،تو تم ان کے پاس آیا کرو اور ان کی زیارت کیا کرو اور اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں  میری جان ہے،قیامت تک جو شخص بھی ان کو سلام کرے گا یہ ا س کے سلام کا جواب دیں  گے۔( مستدرک، کتاب التفسیر، زیارۃ قبور الشہداء وردّ السلام منہم الی یوم القیامۃ، ۲ / ۶۲۹، الحدیث: ۳۰۳۱)

33:24
لِّیَجْزِیَ اللّٰهُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِهِمْ وَ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ اِنْ شَآءَ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۚ(۲۴)
تاکہ اللہ سچوں کو ان کے سچ کا صلہ دے اور منافقوں کو عذاب کرے اگر چاہے، یا انہیں توبہ دے، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

{ لِیَجْزِیَ اللّٰهُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِهِمْ: تاکہ اللہ  سچوں  کو ان کے سچ کا صلہ دے۔} یعنی غزوہِ اَحزاب میں  جو اُمور واقع ہوئے جیسے مخلص ایمان والوں  نے اخلاص کے ساتھ عمل کئے اور منافقوں  نے نفاق سے متعلق اپنی روایت کو برقرار رکھا،یہ سب اس لئے ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزا دے، ایمان والوں  کو دنیا میں  اقتدار عطافرمائے اور اسلام کے دشمنوں  کے خلاف انہیں  فتح نصیب کرے جبکہ آخرت میں  انہیں  اچھا ثواب دے اور جنت کی دائمی نعمتوں  میں  ہمیشہ کے لئے رکھے اور منافقوں  سے جو اقوال اور افعال سرزد ہوئے ہیں  اس پر اگر چاہے تو انہیں  عذاب دے یا ان میں  سے جو لوگ توبہ کر لیں  ان کی توبہ قبول فرمائے۔ بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کے گناہوں  کو چھپانے والا اور اسے جنت و ثواب دے کر اس پر رحم فرمانے والا ہے۔( ابوسعود، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۳۱۶، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۴، ۷ / ۱۶۰، ملتقطاً)

            یاد رہے کہ جو منافق دنیا میں  اپنے نفاق سے سچی توبہ کر لیں  گے ان پر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے آخرت میں  عذاب نہ فرمائے گا اور جو اپنے کفر و نفاق سے توبہ کئے بغیر مر گیا تو اسے آخرت میں  عذاب ضرور ہو گا۔

راہِ خدا میں  قربانیاں  دینے والوں  پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ اخلاص کے ساتھ ایمان لانے والےاللہ تعالیٰ کی راہ میں  جو قربانیاں  دیتے ہیں  اور اس راہ میں  آنے والی سختیوں ، تکلیفوں  اور مصیبتوں  کو برداشت کرتے ہیں ،اللہ تعالیٰ انہیں  ضائع نہیں  فرماتا بلکہ اپنی شانِ کریمی سے اُن ایمان والوں  کو دنیامیں  بھی بہترین صلہ عطا فرماتا ہے اور آخرت میں  بھی اعلیٰ ترین اجرو ثواب عطا فر مائے گا۔ان کی قربانیوں  کا جو صلہ دنیا میں  عطا کیا گیا وہ آج ہم اپنی آنکھوں  سے بھی دیکھ رہے ہیں  کہ سینکڑوں  برس گزر جانے کے باوجود بھی دنیا انہیں  خیر سے یا د کر رہی ہے، زمانہ ہر چیز کو مٹا دیتا ہے مگر ان کا ذکر ِخیر آج تک نہ مٹ سکا اور اِنْ شَآء اللہ قیامت تک نہ مٹ سکے گا۔

33:25
وَ رَدَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًاؕ-وَ كَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ قَوِیًّا عَزِیْزًاۚ(۲۵)
اور اللہ نے کافروں کو (ف۶۴) ان کے دلوں کی جلن کے ساتھ پلٹایا کہ کچھ بھلا نہ پایا (ف۶۵) اور اللہ نے مسلمانوں کو لڑائی کی کفایت فرمادی (ف۶۶) اور اللہ زبردست عزت والا ہے،

{وَ رَدَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِغَیْظِهِمْ: اور اللہ نے کافروں  کو ان کے دلوں  کی جلن کے ساتھ واپس لوٹادیا۔} یعنی غزوہِ اَحزاب میں  جو واقعات رو نما ہوئے ان میں  سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قریش اور غطفان وغیرہ کے لشکروں  کو ان کے دلوں  کی جلن اور حسرت کے ساتھ واپس لوٹادیا اور ان کا حال یہ ہوا کہ جن ناپاک ارادوں  کے ساتھ ان لوگوں  نے مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تھی ان میں  سے کوئی بھی پورا نہ ہوا اور وہ اپنے مَقاصد میں  ناکام و نامُراد ہو کر واپس لوٹ گئے اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کیلئے لڑائی میں کافی ہوگیا چنانچہ مسلمانوں  کو کافروں  کے خلاف باقاعدہ لڑنا نہیں  پڑا اور دشمن نصرتِ الٰہی اور ہوا کی سختیوں  سے بھاگ نکلے اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے ہر ارادے کو ظاہر فرمانے پر قوت رکھنے والا اور ہر چیز پر غالب اور عزت والا ہے۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۵، ۷ / ۱۶۰-۱۶۱، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۴۹۳، ملتقطاً)

 اللہ تعالیٰ کی قدر ت و شان:

            حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اساللہ تعالیٰ کے سواکوئی عبادت کامستحق نہیں  جوواحد ہے، جس کالشکر غالب ہے، جس نے اپنے بندے کی مددکی اور تنہا کافروں  کی جماعتوں  کوشکست دی، اس کے سوا کوئی چیز (باقی) نہیں  ہے۔( بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق وہی الاحزاب، ۳ / ۵۵، الحدیث: ۴۱۱۴)

            حضرت عبد اللہ بن اوفٰی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غزوہِ احزاب کے دن کفارکے لشکروں  کے خلاف یوں  دعا فرمائی :اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، کتاب کو نازل کرنے والے، جلد حساب کرنے والے، اےاللہ! عَزَّوَجَلَّ، ان لشکروں کوشکست دے اوران کے قدموں  کو ڈگمگادے۔( بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق وہی الاحزاب، ۳ / ۵۵، الحدیث: ۴۱۱۵)

            اس سے معلوم ہوا کہ اگر رب عَزَّوَجَلَّ چاہے تو مسلمانوں  کو ہوا کے ذریعے سے اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مکڑی کے کمزور جالے کے وسیلے سے دشمن سے بچا لے اور چاہے تو فرعون کو مضبوط قلعہ سے نکال کر غرق کردے اورابابیل جیسے چھوٹے سے پرندوں  سے ہاتھیوں  کوہلاک فرمادے۔

33:26
وَ اَنْزَلَ الَّذِیْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَیَاصِیْهِمْ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ وَ تَاْسِرُوْنَ فَرِیْقًاۚ(۲۶)
اور جن اہلِ کتاب نے ان کی مدد کی تھی (ف۶۷) انہیں ان کے قلعوں سے اتارا (ف۶۸) اور ان کے دلوں میں رُعب ڈالا ان میں ایک گروہ کو تم قتل کرتے ہو (ف۶۹) اور ایک گروہ کو قید (ف۷۰)

{وَ اَنْزَلَ الَّذِیْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: اور جن اہلِ کتاب نے ان کی مدد کی تھی انہیں  اتارا۔} اس سے پہلی آیات میں  غزوہِ احزاب کے احوال بیان ہوئے اور اب یہاں  سے بنو قریظہ کے یہودیوں  کے ساتھ ہونے والی جنگ کے حالات بیان کئے جا رہے ہیں  جنہوں  نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں  قریش اور غطفان وغیرہ کے لشکروں  کی مدد کی تھی۔

 غزوہِ بنو قریظہ کے مختصر احوال:

            غزوہِ بنو قریظہ غزوہ ِ خندق کا ایک قسم کا تَتِمّہ ہے۔ یہ غزوہ سن 4یا5ہجری، ماہِ ذی قعدہ کے آخری دنوں  میں  واقع ہوا۔ یہاں  اس کے کچھ احوال پر مشتمل چار اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  فرماتی ہیں  :جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنگ ِخندق سے واپس لوٹے تو آپ نے ہتھیار اتار دئیے اور غسل فرما لیا۔ فوراً حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام بارگاہِ رسالت میں  حاضر ہوئے اور ان کاسر گرد و غبار سے اٹا ہوا تھا،انہوں  نے عرض کی :آپ نے ہتھیار اتار دئیے حالانکہ میں  نے ابھی نہیں  اتارے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اب کدھر کا ارادہ ہے؟ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی :ادھر کا،اور بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  فرماتی ہیں  ـ: رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فوراً ہی بنو قریظہ کی طرف تشریف لے گئے۔( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب الغسل بعد الحرب والغبار، ۲ / ۲۵۸، الحدیث: ۲۸۱۳)

(2)…حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  :نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جنگ ِاَحزاب کے دن ارشاد فرمایا: ’’کوئی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ میں  جا کر۔ چنانچہ بعض حضرات کو راستے میں  عصر کا وقت ہو گیا مگر وہ کہنے لگے کہ ہم منزلِ مقصود پر پہنچ کر ہی نماز پڑھیں  گے اور بعض حضرات نے راستے میں  ہی نماز پڑھ لی اور فرمایا کہ ہمیں  نماز پڑھنے سے تو منع نہیں  فرمایا گیا۔جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے اس صورت ِحال کا ذکر کیا گیا تو آپ نے کسی فریق پر بھی ناراضی کا اظہار نہیں  فرمایا۔( بخاری، کتاب المغازی، باب مرجع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الاحزاب۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۶، الحدیث: ۴۱۱۹)

(3)…   اورصحیح مسلم کی روایت میں  ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  :جب ہم غزوہِ احزاب سے واپس لوٹے تورسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں  یہ ندا فرمائی :بنو قریظہ میں  پہنچنے سے پہلے کوئی شخص ظہر کی نماز نہ پڑھے۔ بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے وقت ختم ہونے کے خوف سے بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے نماز پڑھ لی اور دوسرے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا:ہم اسی جگہ نماز پڑھیں  گے جہاں  نماز پڑھنے کا حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں  حکم دیا ہے اگرچہ نماز قضا ہو جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا  فرماتے ہیں : سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فریقَین میں  کسی کو ملامت نہیں  کی۔( مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب المبادرۃ بالغزو۔۔۔ الخ، ص۹۷۴، الحدیث: ۶۹(۱۷۷۰))

            مذکورہ بالا دونوں  روایتوں  میں  تطبیق اس طرح ہے کہ یہ واقعہ ظہر کی نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد پیش آیا تھا، بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے مدینہ منورہ میں  ظہر کی نماز پڑھ لی تھی اور بعض نے ظہر کی نمازنہیں  پڑھی تھی،تو جنہوں  نے ظہر کی نماز نہیں  پڑھی تھی ان سے آپ نے فرمایا: تم بنو قریظہ میں  جا کر ظہر کی نما زپڑھنا اور جنہوں  نے ظہر کی نماز پڑھ لی تھی، ان سے آپ نے فرمایا:تم بنو قریظہ میں  پہنچ کر عصر کی نماز پڑھنا۔( شرح نووی علی المسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب المبادرۃ بالغزو۔۔۔ الخ،۶ / ۹۸، الجزء الثانی عشر)

(4)…   حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  فرماتی ہیں  :بنو قریظہ حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو مُنصف بنائے جانے پر قلعے سے نیچے اتر آئے کیونکہ فریقین نے حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو منصف تسلیم کر لیا تھا۔حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:ان کا یہ فیصلہ کرتا ہوں  کہ ان کے جو مرد لڑنے کے قابل ہیں  انہیں  قتل کر دیا جائے، ان کی عورتوں  اور بچوں  کو لونڈی غلام بنا لیا جائے اور ان کے مال کو مسلمانوں  پر تقسیم کر دیا جائے۔( بخاری، کتاب المغازی، باب مرجع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الاحزاب۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۶، الحدیث: ۴۱۲۲)

            حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے فیصلہ فرمانے کے بعدمدینہ منورہ کے بازار میں  خندق کھودی گئی اور وہاں  لاکر اُن سب یہودیوں  کی گردنیں  ماری گئیں ۔ ان لوگوں  میں  قبیلہ بنونَضِیر کا سردار حُیَیْ بن اخطب اور بنو قریظہ کا سردار کعب بن اسد بھی تھا اور یہ لوگ چھ سو یا سات سو جو ان تھے جو گردنیں  کاٹ کر خندق میں  ڈال دیئے گئے۔( جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۶، ۶ / ۱۶۴-۱۶۵، ملخصاً)

مجتہدین میں  اختلاف ہونے کے باوجود وہ گناہگار نہیں  :

            مذکورہ بالا حدیث پاک نمبر2اور3میں  نماز کے مسئلے پر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں  ہونے والے جساختلاف کا ذکر ہوااس کی وجہ شارحین نے یہ بیان کی ہے کہ بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اس ممانعت کو حقیقت پر محمول کیا اور اسے اس ممانعت پر ترجیح دی جس میں  نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنے سے منع کیا گیا تھااسی لئے انہوں  نے وقت نکل جانے کی پرواہ نہ کی اور بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اس ممانعت کو حقیقت پر محمول نہیں  کیا بلکہ مقصود پر نظر کی کہ اس کا مقصد بنو قریظہ میں  جلد پہنچنا ہے اس لئے انہوں  نے راستے میں  نماز ادا کر لی۔اس سے جمہور علماءِ کرام نے یہ اِستدلال کیا ہے کہ مُجتہد گناہگار نہیں  ہو گا اور اگر کسی ایک مسئلے میں  دو مجتہدین کا اختلاف ہو تو دونوں  میں  سے کسی کو بھی ملامت نہیں  کی جائے گی (کیونکہ یہاں  گناہ کا پہلو نہیں  اور) اگر گناہ کا پہلو ہوتا تو پھر گناہ کی وجہ سے ضرور ملامت کی جاتی۔( فتح الباری،کتاب المغازی، باب مرجع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الاحزاب۔۔۔الخ، ۸ / ۳۴۹، تحت الحدیث: ۴۱۱۹)

33:27
وَ اَوْرَثَكُمْ اَرْضَهُمْ وَ دِیَارَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ وَ اَرْضًا لَّمْ تَـطَــٴُـوْهَاؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرًا۠(۲۷)
اور ہم نے تمہارے ہاتھ لگائے ان کی زمین اور ان کی زمین اور ان کے مکان اور ان کے مال (ف۷۱) اور وہ زمین جس پر تم نے ابھی قدم نہیں رکھا ہے (ف۷۲) اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے،

{وَ اَوْرَثَكُمْ اَرْضَهُمْ: اور اللہ نے تمہیں  ان کی زمین کا وارث بنادیا۔} یعنی یہودیوں  کو تو سزا ملی اور مسلمانوں  پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان فرمایا کہ انہیں  بنو قریظہ کی کھیتیوں اور باغات کا،ان کے قلعوں  اور مکانات کا،ان کے نقد اَموال، اثاثہ جات اور مویشیوں  وغیرہ کا مالک بنا دیا اور مزید یہ احسان فرمایا کہ مسلمانوں کو اس زمین کا بھی وارث بنا دیا جس پر ابھی انہوں  نے قدم نہ رکھے تھے۔اس زمین سے کونسی زمین مراد ہے اس کے بارے میں مفسرین کاایک قول یہ ہے کہ اس سے مرادخیبرکی زمین ہے جوغزوۂ بنو قریظہ کے بعد مسلمانوں  کے قبضے میں آئی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مکہ کی زمین ہے۔تیسراقول یہ ہے کہ روم وفارس کی زمین مراد ہے اور چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مرادہروہ زمین ہے جو قیامت تک فتح ہو کر مسلمانوں  کے قبضہ میں  آنے والی ہے۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۷، ۷ / ۱۶۱، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۴۹۳، ملتقطاً)

33:28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا(۲۸)
اے غیب بتانے والے (نبی)! اپنی بیبیوں سے فرمادے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتی ہو (ف۷۳) تو آؤ میں تمہیں مال دُوں (ف۷۴) اور اچھی طرح چھوڑ دُوں (ف۷۵)

{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ: اے نبی!اپنی بیویوں  سے فرمادو۔} شانِ نزول:سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات نے آپ سے دُنْیَوی سامان طلب کئے اور نفقہ میں  زیادتی کی درخواست کی، جبکہ یہاں  تو دنیا سے بے رغبتی اپنے کمال پر تھی اور دنیاکا سامان اور اس کا جمع کرنا گوارا ہی نہ تھا، اس لئے ان کا یہ مطالبہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلب ِ اطہر پر گراں  گزرا اور یہ آیت نازل ہوئی اور ازواجِ مطہرات کو اختیاردیا گیا۔ اس وقت آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی9 اَزواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ  تھیں ۔ان میں  سے 5 کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا اور وہ یہ ہیں: (1)حضرت عائشہ بنتِ ابی بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا۔ (2)حضرت حفصہ بنت ِ فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا۔ (3)حضرت اُمِّ حبیبہ بنت ِابی سفیان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا۔ (4)حضرت اُمِّ سلمیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا بنتِ اُمیہ۔ (5)حضرت سودہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا بنتِ زَمْعَہ۔

             اور 4 اَزواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کا تعلق قبیلہ قریش کے علاوہ دیگر قبائل سے تھا،اور وہ یہ ہیں : (1)حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا بنت ِجحش اسدیہ۔ (2)حضرت میمونہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا بنت ِحارث ہلالیہ۔ (3)حضرت صفیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا بنت ِ حُیَیْ بن اخطب خَیبریہ۔ (4)حضرت جویریہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا بنتِ حارث مصطلقیہ۔

            سرکار ِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو یہ آیت سنا کر اختیا ر دیا اور فرما یا کہ جلدی نہ کرو اوراپنے والدین سے مشورہ کرکے جو رائے ہو اس پر عمل کرو۔ انہوں  نے عرض کی: حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معا ملہ میں  مشورہ کیسا، میں  اللہ تعالیٰ کو اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کو اور دارِ آخرت کو چاہتی ہو ں  اور باقی از واجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ نے بھی یہی جواب دیا۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۸،۲۹، ۳ / ۴۹۷، ملخصاً)

          فقہی مسئلہ:جس عورت کو اختیار دیا جائے وہ اگر اپنے شوہر کو اختیا ر کرے تو طلاق واقع نہیں  ہوتی اور اگر اپنے نفس کو اختیار کرے تو اَحناف کے نزدیک ایک بائنہ طلاق واقع ہو تی ہے۔

            نوٹ:طلاق سے متعلق مزید مسائل کی معلومات حاصل کرنے کے لئے بہارِ شریعت حصہ 8کا مطالعہ فرمائیں ۔

{وَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ: اور اگر تماللہ اور اس کے رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو۔} معلوم ہوا کہ حضورپُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اختیار کرنا درحقیقتاللہ تعالیٰ کو اور قیامت کو اختیار کرنا ہے، جسے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مل گئے اسے خدا اور ساری خدائی مل گئی اور جو حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دور ہوا وہاللہ تعالیٰ سے دور ہو گیا۔اس آیت سے معلو م ہوا کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی نیکیوں  کا اجر و ثواب دوسروں  سے زیادہ ہے۔

33:29
وَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۲۹)
اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو بیشک اللہ نے تمہاری نیکی والیوں کے لیے بڑا اجر تیار کر رکھا ہے،

33:30
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا(۳۰)
اے نبی کی بیبیو! جو تم میں صریح حیا کے خلاف کوئی جرأت کرے (ف۷۶) اس پر اوروں سے دُونا عذاب ہوگا (ف۷۷) اور یہ اللہ کو آسان ہے،

{یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ: اے نبی کی بیویو!جو تم میں  حیا کے خلاف کوئی کھلی جرأت کرے۔} یہاں  آیت میں  ’’حیا کے خلاف کھلی جرأت‘‘ سے زنا مراد نہیں  بلکہ اس سے مراد شوہر کی ا طاعت میں  کوتاہی کرنا اور اس کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش نہ آنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیویوں  کو بدکاری سے پاک رکھتا ہے اورحیاء کے خلاف کھلی جرأت کرنے پر انہیں  دگنا عذاب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص کی فضیلت زیادہ ہوتی ہے اس سے اگر قصور واقع ہوتو وہ قصور بھی دوسروں  کے قصور سے زیادہ سخت قرار دیا جاتا ہے اسی لئے عالِم کا گناہ جاہل کے گناہ سے زیادہ قبیح ہوتاہے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ تمام جہان کی عورتوں  سے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں  اسی لئے اُن کی ادنیٰ بات سخت گرفت کے قابل ہے۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۹۴۰، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۴۹۷، ملتقطاً)

            علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :اس آیت میں  فاحشہ ِ مُبَیِّنَہ سے مراد گناہِ کبیرہ ہے اور یہ وہم نہ کیا جائے کہ اس سے زنا مراد ہے کیونکہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس سے معصوم ہیں  کہ آپ کی ازواجِ مطہرات ا س بے حیائی کی مرتکب ہوں ۔۔۔۔۔یہاں  فاحشہ سے مراد شوہر کی نافرمانی کرنا اور گھریلو معاملات میں  بے اِعتدالی کرنا ہے اور چونکہ ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیرِ سایہ اور زیرِ تربیت رہتی ہیں ،ان کے سامنے وحی اترتی اور احکام نازل ہوتے ہیں  اور ان کا رتبہ اور مقام عام عورتوں  سے بلند ہے،اس لئے ان پر گرفت بھی بہت سخت ہے اور اگر بالفرض وہ کوئی کبیرہ گناہ کر لیں  تو جس طرح نیک اعمال پر انہیں  دگنا اجر دیاجاتاہے اسی طرح گناہ پر دگنا عذاب بھی ہوگا۔( البحر المحیط، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۰، ۷ / ۲۰۰، ملخصاً)

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ان آیات میں  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مطہرات سے خطاب فرمایا ہے تاکہ ان کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ان کے رتبے کی عظمت ظاہر ہو کیونکہ عِتاب اور خطاب میں  سختی ان کے بلند رتبے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ازواجِ مطہرات کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے انتہائی زیادہ قرب حاصل ہے اور یہ جنت میں  بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواج ہوں  گی، تو جتناانہیں  رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قرب حاصل ہے اتنا ہی انہیں  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  قرب حاصل ہو گا۔ اس میں  ان لوگوں  کا رد ہے جن کا گمان یہ ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت، آپ سے قرب اور آپ کے ساتھ تعلق شرک ہے۔ (یعنی قرب ِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی باتیں  کرتے ہی کئی لوگوں  کو شرک کی بو آنا شروع ہوجاتی ہے ان کا یہ اعتقاد باطل ہے۔)( صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۱۶۳۶)

33:31
وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَاۤ اَجْرَهَا مَرَّتَیْنِۙ-وَ اَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِیْمًا(۳۱)
اور (ف۷۸) جو تم میں فرمانبردار رہے اللہ اور رسول کی اور اچھا کام کرے ہم اسے اوروں سے دُونا ثواب دیں گے (ف۷۹) اور ہم نے اس کے لیے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے (ف۸۰)

{وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: اور جو تم میں  اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار رہے۔} یعنی اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواجِ مُطَہّرات! تم میں  سے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبردار رہے تو اسے ہم دوسروں  سے دگنا ثواب دیں  گے کہ اگر اوروں  کو ایک نیکی پردس گُنا ثواب دیاجائے گا تو تمہیں  بیس گنا کیونکہ تمام جہان کی عورتوں  میں  تمہیں  شرف و فضیلت حاصل ہے اور تمہارے عمل میں  بھی دو جہتیں  ہیں  ایک نیک کام کرنا، دوسری رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا جوئی، قناعت اوراچھے طرزِ زندگی کے ساتھ حضورِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خوش کرنا اور ہم نے اس زوجہ ِمُطَہَّرہ کے لئے جنت میں  عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے۔( ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۱، ۴ / ۳۱۹)

اَزواجِ مُطَہّراترَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کا مقام :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہّرات کو عام عورتوں  پر بڑی فضیلت حاصل ہے اور انہیں  ان کے نیک عمل پر دگنا اجر و ثواب دیا جاتا ہے ۔حضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ چارقسم کے لوگ ایسے ہیں  جنہیں  دگنااجردیاجاتاہے، ان میں  سے ایک رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواجِ مُطَہّرات بھی ہیں ۔( مجمع الزوائد، کتاب النکاح، باب فی الذی یعتق امَتہ ثمّ یتزوّجہا، ۴ / ۴۷۷، الحدیث: ۷۳۵۱)

عزت کی روزی در حقیقت جنت کی نعمتیں  ہیں :

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ حقیقی طور پر عزت کی روزی جنت کی نعمتیں  ہیں  ۔لہٰذا جو مسلمان اس روزی کو پانا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ‘‘(حج:۵۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو جو لوگ ایمان لائے اورانہوں  نے نیک اعمال کئے ان کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔

            اور قیامت قائم کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

’’لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ‘‘(سبا:۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تاکہ اللہ ایمان لانے والوں  اور اچھے اعمال کرنے والوں  کو بدلہ دے ،ان کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں  کثرت سے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے کرم سے بخشش و مغفرت اور جنت کی نعمتیں  نصیب فرمائے ،اٰمین۔

33:32
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ(۳۲)
اے نبی کی بیبیو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو (ف۸۱) اگر اللہ سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا روگی کچھ لالچ کرے (ف۸۲) ہاں اچھی بات کہو (ف۸۳)

{یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ: اے نبی کی بیویو!تم اور عورتوں  جیسی نہیں  ہو۔} یعنی اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیویو! تم فضیلت اور شرف میں  اور عورتوں  جیسی نہیں  ہو کیونکہ تم سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواج اور تمام مومنوں  کی مائیں  ہو اورتمہیں  میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خاص قرب حاصل ہے اور جب تمہاری قدر اتنی اعلیٰ اورتمہارا رتبہ اتنا عظیم ہے تو یہ بات تمہاری شان کے لائق نہیں  کہ تم دنیا کی زینت اور آرائش کا مطالبہ کرو۔(روح البیان،الاحزاب،تحت الآیۃ:۳۲، ۷ / ۱۶۹، تفسیر کبیر، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۲، ۹ / ۱۶۷، صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۱۶۳۷، ملتقطاً)

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں  ’’اس سے مراد یہ ہے کہ (اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات!) میری بارگاہ میں  تمہاری قدر دوسری نیک خواتین کی قدر جیسی نہیں  ہے بلکہ تم میری بارگاہ میں  زیادہ عزت والی ہو اور میرے نزدیک تمہارا ثواب زیادہ ہے۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۴۹۸)

اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اور زہد و قناعت:

            حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چاہتے تو انتہائی شاہانہ زندگی گزار سکتے تھے اور اپنی ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو دنیا کی تما م راحتیں  اور آسائشیں  فراہم کر سکتے تھے، لیکن آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا، اس کی نعمتوں  اور آسائشوں  کی طرف رغبت نہ رکھتے تھے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرما دیا تھا کہ میں  دنیا سے نہیں  ہوں  اور دنیا مجھ سے نہیں  ہے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۸۰، الحدیث: ۶۱۲۵، الجزء الثالث) اس لئے آپ کے ساتھ انتہائی قرب رکھنے والوں  کی شان کے لائق بھی یہی تھا کہ وہ بھی دنیا کی طرف راغب نہ ہوں  ،پھر ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ نے دنیا سے بے رغبتی اور زہد و قناعت کا کیسا شاندار مظاہرہ فرمایا ا س کا اندازہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے درجِ ذیل دو واقعات سے لگایا جا سکتا ہے ،

(1)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس بیت المال سے 80,000 درہم آئے تو آپ نے اپنی کنیز کو وہ درہم تقسیم کرنے کا حکم دیا ،کنیز نے ایک ہی مجلس میں  وہ سارے درہم تقسیم کر دئیے،جب وہ فارغ ہوئی تو حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے اس سے کوئی چیز مانگی جس سے وہ روزہ افطار کر لیں  تو کنیز کوگھر میں  کوئی ایسی چیز نہ ملی جس سے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا روزہ افطار کر لیتیں ۔(صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۹، ۵ / ۱۶۳۶)

 (2)…حضرت ابو سعید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :ایک شخص اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی بارگاہ میں  حاضر ہوا،اس وقت آپ اپنا نقاب سی رہی تھیں  ،اس نے عرض کی :اے اُمُّ  المؤمنین! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، کیا اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کی فراوانی نہیں  فرما دی ؟آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا: ’’چھوڑو (ان باتوں  کو، میرے نزدیک) وہ نئے کپڑوں  کا حقدار نہیں  جو پرانے کپڑے استعمال نہ کرے۔(طبقات الکبری، ذکر ازواج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، عائشۃ بنت ابی بکر، ۸ / ۵۸)

            اللہ تعالیٰ ازواجِ مُطَہّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے زہد وقناعت کا صدقہ مسلمان مردوں  اور عورتوں  کو بھی زہد و قناعت اور دنیا سے بے رغبتی کی دولت نصیب فرمائے،اٰمین۔

{اِنِ اتَّقَیْتُنَّ: اگرتم اللہ سے ڈرتی ہو۔} آیت کے اس حصے میں  ازواجِ مُطَہّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو ایک ادب کی تعلیم دی گئی ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی اوررسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا کی مخالفت کرنے سے ڈرتی ہو تو جب کسی ضرورت کی بنا پر غیر مرد سے پسِ پردہ گفتگو کرنی پڑ جائے  تواس وقت ایسا انداز اختیار کرو جس سے لہجہ میں  نزاکت نہ آنے پائے اور بات میں  نرمی نہ ہو بلکہ انتہائی سادگی سے بات کی جائے اور اگر دین و اسلام کی اور نیکی کی تعلیم اور وعظ و نصیحت کی بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو بھی نرم اور نازک لہجے میں  نہ ہو۔(ابو سعود،الاحزاب،تحت الآیۃ:۳۲، ۴ / ۳۱۹-۳۲۰، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۹۴۰، جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۲، ۶ / ۱۷۰، ملتقطاً)

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ امت کی مائیں  ہیں  اور کوئی شخص اپنی ماں  کے بارے میں  بری اور شہوانی سوچ رکھنے کا تصور تک نہیں  کر سکتا، اس کے باوجود ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو بات کرتے وقت نرم لہجہ اپنانے سے منع کیا گیا تاکہ جو لوگ منافق ہیں  وہ کوئی لالچ نہ کر سکیں  کیونکہ ان کے دل میں  اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں  ہوتا جس کی بنا پر ان کی طرف سے کسی برے لالچ کا اندیشہ تھا ا س لئے نرم لہجہ اپنانے سے منع کر کے یہ ذریعہ ہی بند کردیا گیا۔(صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۱۶۳۷، ملخصاً) اس سے واضح ہوا کہ جب ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کیلئے یہ حکم ہے تو بقیہ کیلئے یہ حکم کس قدر زیادہ ہوگا کہ دوسروں  کیلئے تو فتنوں  کے مَواقع اور زیادہ ہیں ۔

عفت و پارسائی کی حفاظت کرنے والی خواتین کی شان کے لائق کام:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ اپنی عفت اور پارسائی کی حفاظت کرنے والی خواتین کی شان کے لائق یہی ہے کہ جب انہیں  کسی ضرورت ،مجبوری اور حاجت کی وجہ سے کسی غیر مرد کے ساتھ بات کرنی پڑ جائے تو ان کے لہجے میں  نزاکت نہ ہو اور آواز میں  بھی نرمی اور لچک نہ ہو بلکہ ان کے لہجے میں  اَجْنَبِیّت ہو اور آواز میں  بیگانگی ظاہر ہو، تاکہ سامنے والا کوئی بُرا لالچ نہ کر سکے اور اس کے دل میں  شہوت پیدا نہ ہو اورجب سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیرِ سایہ زندگی گزارنے والی امت کی ماؤں  اور عفت و عصمت کی سب سے زیادہ محافظ مقدس خواتین کو یہ حکم ہے کہ وہ نازک لہجے اور نرم انداز سے بات نہ کریں  تاکہ شہوت پرستوں  کو لالچ کا کوئی موقع نہ ملے تو دیگر عورتوں  کے لئے جو حکم ہو گااس کا اندازہ ہر عقل مند انسان آسانی کے ساتھ لگا سکتا ہے۔

 پاکیزہ معاشرے کے قیام میں  دین ِاسلام کا کردار:

            دین ِاسلام کو یہ اعزازحاصل ہے کہ اس نے پاکیزہ معاشرے کے قیام کے لئے نیز جو چیزیں  اِس راہ میں  بڑی رکاوٹ ہیں ، انہیں  ختم کرنے کے لئے انتہائی احسن اور مُؤثر اِقدامات کئے ہیں ۔ فحاشی، عُریانی اور بے حیائی پاکیزہ معاشرے کے لئے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں  ،دین ِاسلام نے جہاں  ان چیزوں  کو ختم کرنے پر زور دیا وہیں  ان ذرائع اور اسباب کو ختم کرنے کی طرف بھی توجہ کی جن سے فحاشی ،عریانی اور بے حیائی پھیل سکتی ہے،جیسے عورتوں  کا نرم و نازک لہجے میں  بات کرنا مردوں  کے دل میں  شہوت کا بیج بونے میں  انتہائی کارگر ہے اور فحاشی و بے حیائی کی طرف مائل کرنے والی عورتیں  ابتدا میں  اسی چیز کا سہارا لیتی ہیں  ،اس لئے اسلام نے اس ذریعے کو ہی بند کرنے کا فرما دیا تاکہ معاشرہ پاکیزہ رہے اور اس کی بنیادیں  مضبوط ہوں  ۔افسوس ہمارے معاشرے میں  آزادی ، روشن خیالی اور معاشی ترقی کے نام پر عورتوں  کو غیر مردوں  کے ساتھ باتیں  کرنے کے نت نئے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں  اورعورتوں  کو نازک لہجے اور نرم انداز سے بات کرنے کی باقاعدہ تربیت دے کر تعلیم،طب،سفر،تجارت،میڈیا اورٹیلی کام وغیرہ کے مختلف شعبوں  میں  تعینات کیا جاتا ہے حتّٰی کہ دُنْیَوی شعبہ جات میں  عوامی رہنمائی اور خدمت کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جہاں  تربیت یافتہ عورت موجود نہ ہو اور اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے اور ایسی عورتیں  اچھی طرح جانتی ہیں کہ انہیں  دوسری عورتوں  کے مقابلے میں  شہوت پرست مردوں  سے کتنا واسطہ پڑتا ہے ۔

            اللہ تعالیٰ لوگوں  کو عقلِ سلیم ا ورہدایت عطا فرمائے ا ور دین ِاسلام کی فطرت سے ہم آہنگ تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

نقصان سے بچنے کیلئے ان کے اسباب اور ذرائع کا خاتمہ ضروری ہے :

            اس آیت سے ایک اہم بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ کسی بھی طرح کے نقصان جیسے نیک اعمال کی بربادی ، معاشرتی اَقدار کی تباہی ، جان اور مال وغیرہ کی ہلاکت سے بچنے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کو ختم کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو نقصان کی وجہ بنتے ہیں  ، لہٰذا نیک اعمال کو بچانے کے لئے گناہوں  سے بچنا ہو گا،معاشرتی اقدار کی حفاظت کے لئے فحاشی ،عریانی، بے حیائی اور ان کے ذرائع کو ختم کرنا ہو گا ۔اگر غور کریں  تو نقصان سے بچنے کے لئے اس کے ذرائع اور اسباب کو ختم کرنے کی سینکڑوں  مثالیں  ہمارے سامنے آ سکتی ہیں  اور دین ِاسلام کے احکام کی حکمتیں  بھی ہم پر واضح ہو سکتی ہیں ۔

33:33
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی (ف۸۴) اور نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو ا لله تو یہی چاہتا ہے، اے نبی کے گھر والو! کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے (ف۸۵)

{وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ: اور اپنے گھروں  میں  ٹھہری رہو۔} یعنی اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازاواج! تم اپنے گھروں  میں  ٹھہری رہو اور اپنی رہائش گاہوں  میں  سکونت پذیر رہو (اور شرعی ضرورت کے بغیر گھروں  سے باہر نہ نکلو۔) یاد رہے کہ اس آیت میں  خطاب اگرچہ ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو ہے لیکن اس حکم میں  دیگر عورتیں  بھی داخل ہیں ۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ۷ / ۱۷۰)

اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اور گھر سے باہر نکلنا:

            ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ نے اس حکم پر کس حد تک عمل کیا ،اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  : مجھے بتایاگیاکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زوجہ مطہرہ حضرت سودہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے کہاگیا:آ پ کوکیاہوگیاہے کہ آپ نہ حج کرتی ہیں  اورنہ عمرہ کرتی ہیں  ؟انہوں  نے جواب دیا: میں  نے حج بھی کیاہے اورعمرہ بھی کیاہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں  گھرمیں  رہوں  ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں  دوبارہ گھرسے نہیں  نکلوں  گی ۔ راوی کا بیان ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !وہ اپنے دروازے سے باہرنہ آئیں  یہاں  تک کہ وہاں  سے آپ کاجنازہ ہی نکالاگیا۔( در منثور، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ۶ / ۵۹۹-۶۰۰)

اللہ تعالیٰ ہماری ماں  کے درجات بلند فرمائے اور مسلمان خواتین کو ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

 عورت، چار دیواری اور اسلام:

            اللہ تعالیٰ نے عورتوں  کو یہ حکم ارشاد فرمایا ہے کہ وہ اپنے گھروں  میں  ٹھہری رہا کریں  اور شرعی ضرورت و حاجت کے بغیر اپنے گھر سے باہر نہ نکلیں  اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عورتوں  کے اس عمل کی فضیلت بھی بیان فرمائی ہے ،چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ عورتیں  رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوئیں  اورانہوں  نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مرد اللہ تعالیٰ کی راہ میں  جہاد میں  شریک ہو کر فضیلت لے گئے اورہماراتوکوئی ایساعمل نہیں  جسے بجالاکرہم مجاہدین کادرجہ پاسکیں  ؟حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے ارشاد فرمایا: ’’تم میں  سے جواپنے گھرمیں  ٹھہری رہے وہ ان مجاہدین کادرجہ پائے گی جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں  جہادکرتے ہیں ۔( مسند البزار، مسند ابی حمزۃ انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ، ۱۳ / ۳۳۹، الحدیث: ۶۹۶۲)

             اس روایت سے ہمارے معاشرے کی ان عورتوں  کوسبق حاصل کرناچاہیے جوبلاضرورتِ شرعی گھروں  سے باہر نکلتی اورگھومتی پھرتی ہیں  اوربازاروں  کی رونق بنی رہتی ہیں  ۔اگریہ عورتیں  گھروں  میں  رہیں  توان کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں  جہادکرنے والے مجاہدین کی طرح ثواب ملے ۔

            یاد رہے کہ دین ِاسلام میں عورت کو گھر میں  ٹھہری رہنے کا جو حکم دیا گیا اس سے مقصود یہ ہر گز نہیں  کہ دین ِاسلام عورتوں  کے لئے یہ چاہتا ہے کہ جس طرح پرندے پنجروں  میں  اور جانور باڑے میں  زندگی بسر کرتے ہیں  اسی طرح عورت بھی پرندوں  اور جانوروں  کی طرح زندگی بسرکرے، بلکہ اسے یہ حکم اس لئے دیاگیا ہے کہ اس میں  اس کی عزت و عصمت کا تَحَفُّظ زیادہ ہے۔اسے آسان انداز میں  یوں  سمجھئے کہ جس کے پاس قیمتی ترین ہیرا ہو وہ اسے لے کر سرِ عام بازاروں  میں  نہیں  گھومتا بلکہ اسے مضبوط سے مضبوط لاکر میں  رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی یہ دولت محفوظ رہے اور کوئی لٹیرا اسے لوٹنے کی کوشش نہ کرے اور اس کا یہ عمل عقلِ سلیم رکھنے والوں  کی نظر میں  بہت اچھا اور قابلِ تعریف ہے اوراس کی بجائے اگر وہ شخص اپنا قیمتی ترین ہیرا لے کر سرِ عام بازاروں  میں  گھومنا شروع کر دے اور لوگوں  کی نظر اس ہیرے پر آسانی سے پڑتی رہے تو عین ممکن ہے کہ اسے دیکھ کر کسی کی نیت خراب ہو جائے اور وہ اسے لوٹنے کی کوشش کرے اور ایسے شخص کو جاہل اور بیوقوف جیسے خطابات سے نوازا جائے۔خلاصہ یہ ہے کہ قیمتی ہیرے کازیادہ تحفظ اسے مضبوط لاکر کے اندر رکھنے میں  ہے نہ کہ اسے لے کر سرِ عام گھومنے میں اور اسی طرح عورت کی عصمت کا زیادہ تحفظ اس کاگھر کے اندر رہنے میں  ہے نہ کہ غیرمردوں  کے سامنے آنے اور ان کے درمیان گھومنے میں  ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ خود کو دانشور کہلانے والے وہ لوگ حقیقت میں  دانش و حکمت سے نہایت دور ہیں  جو دین ِاسلام کے اس حکم کے بنیادی مقصد کو پس ِپُشت ڈال کر اور کافروں  کے طرز ِ زندگی سے مرعوب و مغلوب ہوکر غلامانہ ذہنیت سے اعتراضات کرتے ہیں ۔ایسے لوگوں  کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ لوگوں  کی نظر میں  اسلام کے احکام کی قدر ختم ہو جائے، عورت اسلامی احکام کو اپنے حق میں  سزا تصور کرے اور وہ اپنی عصمت جیسی قیمتی ترین دولت تک لٹیروں  کے ہاتھ پہنچنے کی ہر رکاوٹ دور کر دے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اسلامی احکام کے مقاصد سمجھنے،ان پر عمل کرنے ، عورت کی عفت و عصمت کے دشمنوں  کے عزائم کو سمجھنے اور ان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

{وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى: اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی۔} یعنی جس طرح پہلی جاہلیت کی عورتیں  بے پردہ رہا کرتی تھیں  اس طرح تم بے پردگی کا مظاہرہ نہ کرو۔

اگلی اور پچھلی جاہلیت سے کون سا زمانہ مراد ہے؟

            اگلی اور پچھلی جاہلیت کے زمانے سے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں  ،ان میں  سے ایک قول یہ ہے کہ اگلی جاہلیت سے مراد اسلام سے پہلے کا زمانہ ہے، اس زمانے میں  عورتیں  اتراتی ہوئی نکلتی اور اپنی زینت اور مَحاسن کا اظہار کرتی تھیں  تاکہ غیر مرد انہیں  دیکھیں  ، لباس ایسے پہنتی تھیں  جن سے جسم کے اعضاء اچھی طرح نہ ڈھکیں  اور پچھلی جاہلیت سے آخری زمانہ مراد ہے جس میں  لوگوں  کے افعال پہلوں  کی مثل ہو جائیں  گے ۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۴۹۹، جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۳۵۴، ملتقطاً)

اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اور پردہ:

            اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ پردے کا خوب اہتمام کرتی تھیں  ،یہاں  ان کے پردے کا حال ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  فرماتی ہیں  : ہم ازواجِ مُطَہَّرات کے پاس سے سواروں  کے قافلے گزرتے تھے اور ہم (حج کے سفر میں ) تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ احرام کی حالت میں  تھیں ، جب سوار ہمارے سامنے سے گزرنے لگتے تو ہم میں  سے ہر ایک اپنی چادر کو اپنے سر سے لٹکا کر چہرے کے سامنے کر لیتی اور جب وہ آگے بڑھ جاتے تو ہم چہرہ کھول لیتی تھیں ۔( ابو داؤد، کتاب المناسک، باب فی المحرمۃ تغطی وجہہا، ۲ / ۲۴۱، الحدیث: ۱۸۳۳)

            اللہ تعالیٰ اُمت کی ان مقدس ماؤں  کے درجات بلند فرمائے اور ایک طرح سے ان کی بیٹیوں  میں  داخل مسلم خواتین کو اپنی ماؤں  کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

بے پردہ اور بے حیا عورتوں  کا انجام:

            شرم و حیاء سے عاری اور بے پردہ عورتوں  کا دُنْیَوی انجام تو ہر کوئی معاشرے میں  اپنی نگاہوں  سے دیکھ سکتا ہے کہ عزت دار اوربا حیا طبقے میں  ان کی کوئی قدر نہیں  ہوتی ، لوگ انہیں  اپنی ہوس بھری نگاہوں  کا نشانہ بناتے ہیں  ،ان پر آوازیں  کستے اور ان سے چھیڑ خوانی کرتے ہیں  ،لوگوں  کی نظر میں  ان کی حیثیت نفس کی خواہش اور ہوس پوری کرنے کا ذریعہ ہونے کے علاوہ کچھ نہیں  ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ ہوس پوری ہو جانے کے بعد وہ عورت سے لا تعلق ہو جاتے ہیں  اور بہت سے لوگوں  نے دیکھا ہو گا کہ ایسی عورت خود طرح طرح کے خطرناک اَمراض کا شکار ہو جاتی ہے اور آخر کار عبرتناک موت سے دوچار ہو کر قبر کی اندھیر نگری میں  چلی جاتی ہے ،یہ تو ا ن کا دُنیوی انجام ہے ،اب یہاں  ایسی عورتوں  کا اُخروی انجام بھی ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جہنمیوں  کی دو قسمیں  ایسی ہیں  جنہیں  میں  نے (اپنے زمانے میں ) نہیں  دیکھا (بلکہ وہ میرے بعد والے زمانے میں  ہوں  گی) (1)وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں  گے جن سے وہ لوگوں  کو (ناحق) ماریں  گے۔ (2)وہ عورتیں  جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں  گی ،مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں  گی، ان کے سر موٹی اونٹنیوں  کے کوہانوں کی طرح ہوں  گے۔یہ نہ جنت میں  جائیں  گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں  گی حالانکہ اس کی خوشبو بہت دور سے آتی ہو گی۔( مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب النساء الکاسیات۔۔۔ الخ، ص۱۱۷۷، الحدیث: ۱۲۵(۲۱۲۸))اس حدیث پاک میں  عورتوں  کے تین کام بیان ہوئے جن کی وجہ سے وہ جہنم میں  جائیں  گی۔

(1)… لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں  گی۔یعنی اپنے بدن کا کچھ حصہ چھپائیں  گی اور کچھ حصہ ظاہر کریں  گی تاکہ ان کا حسن و جمال ظاہر ہو یا اتنا باریک لباس پہنیں  گی جس سے ان کا جسم ویسے ہی نظر آئے گا تو یہ اگرچہ کپڑے پہنے ہوں  گی لیکن در حقیقت ننگی ہوں  گی۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الدیات، باب ما لا یضمن من الجنایات، الفصل الاول، ۷ / ۸۳، تحت الحدیث: ۳۵۲۴)

(2)…مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں  گی۔ یعنی لوگوں  کے دلوں  کو اپنی طرف مائل کریں  گی اور خود ان کی طر ف مائل ہوں  گی یا دوپٹہ اپنے سر سے اور برقعہ اپنے منہ سے ہٹا دیں  گی تاکہ ان کے چہرے ظاہر ہوں  یا اپنی باتوں  یا گانے سے لوگوں  کو اپنی طرف مائل کریں  گی اورخود ان کی طرف مائل ہوں  گی ۔

(3)… ان کے سر موٹی اونٹنیوں  کے کوہانوں کی طرح ہوں  گے۔ اس جملے کی تشریحات تو بہت ہیں  لیکن بہتر تشریح یہ ہے کہ وہ عورتیں  راہ چلتے وقت شرم سے سر نیچا نہ کریں  گی بلکہ بے حیائی سے اونچی گردن سر اٹھائے ہر طرف دیکھتی لوگوں  کو گھورتی چلیں  گی، جیسے اونٹ کے تمام جسم میں  کوہان اونچی ہوتی ہے ایسے ہی ان کے سر اونچے رہا کریں  گے۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الدیات، باب ما لا یضمن من الجنایات، الفصل الاول، ۷ / ۸۳-۸۴، تحت الحدیث: ۳۵۲۴، ملخصاً)

            اگر غور کیا جائے تو ان تینوں  میں  سے وہ کون سی ایسی صورت ہے جو ہمارے معاشرے کی عورتوں  میں  نہیں  پائی جاتی ،ہمارے غیب کی خبریں  دینے والے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صدیوں  پہلے جو خبر دی وہ آج حرف بہ حرف پوری ہوتی نظر آ رہی ہے اورہمارے معاشرے کی عورتوں  کا حال یہ ہے کہ وہ لباس ایسے پہنتی ہیں  جس سے ان کے جسم کا کچھ حصہ ڈھکا ہوتا ہے اور کچھ ننگا ہوتا ہے،یا ان کا لباس اتنا باریک ہوتا ہے جس سے ان کے جسم کی رنگت صاف نظر آرہی ہوتی ہے ،یا ان کا لباس جسم پر اتنا فٹ ہوتا ہے جس سے ان کی جسمانی ساخت نمایاں  ہو رہی ہوتی ہے تو یہ بظاہر تو کپڑے پہنے ہوئی ہیں  لیکن در حقیقت ننگی ہیں  کیونکہ لباس پہننے سے مقصود جسم کو چھپانا اور اس کی ساخت کو نمایا ں  ہونے سے بچانا ہے اور ان کے لباس سے چونکہ یہ مقصود حاصل نہیں  ہورہا، اس لئے وہ ایسی ہیں  جیسے انہوں  نے لباس پہنا ہی نہیں  اوران کے چلنے ،بولنے اور دیکھنے کا انداز ایسا ہوتا ہے جس سے وہ لوگوں  کے دلوں  کو اپنی طرف مائل کر رہی ہوتی ہیں  اور خود کا حال بھی یہ ہوتا ہے کہ غیر مردوں  کی طرف بہت مائل ہوتی ہیں  ،دوپٹے ان کے سر سے غائب ہوتے ہیں  اور برقعہ پہننے والیاں  نقاب منہ سے ہٹا کر چلتی ہیں  تاکہ لوگ ان کا چہرہ دیکھیں ۔ایسی عورتوں  کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور جہنم کی خوفناک سزاؤں  سے ڈرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہماری عورتوں  کو ہدایت اور عقل ِسلیم عطا فرمائے اور اپنی بگڑی حالت سدھارنے کی توفیق نصیب کرے،اٰمین۔[1]

دین ِاسلام عورت کی عصمت کا سب سے بڑا محافظ ہے :

            یاد رہے کہ ایک با عزت اور حیا دار عورت کے لئے ا س کی عصمت سب سے قیمتی چیز ہے اور ایسی عورت کے نزدیک اپنی عصمت کی اہمیت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اسے لٹنے سے بچانے کے لئے اپنی جان تک قربان کر دیتی ہے اور ہر عقل مند انسان یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ جو چیز جتنی زیادہ قیمتی ہوتی ہے ا س کی حفاظت کا اتنا ہی زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے حتّٰی کہ ان تمام اسباب اور ذرائع کو ختم کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی جاتی ہے جو قیمتی ترین چیز کے لٹنے کا سبب بن سکتے ہوں  اور دین ِاسلام میں  چونکہ عورت کی عصمت کی اہمیت اور قدر انتہائی زیادہ ہے اس لئے دین ِاسلام میں  اس کی حفاظت کا بھی بھر پور اہتمام کیا گیا ہے ،جیسے دین ِاسلام میں  عورتوں  کو ایسے احکام دئیے گئے جن پر عمل نہ کرنا عورت کی عزت کیلئے خطرناک ہوسکتا ہے ،مثلاً عورتوں  نیز مردوں کو حکم دیا گیاکہ وہ اپنی نگاہیں  کچھ نیچی رکھیں  ، عورتوں  سے فرمایا کہ اپنی چادروں  کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رکھیں ،اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں  پر ڈالے رکھیں  ،نیز دورِ جاہلیّت میں  جیسی بے پردگی ہوا کرتی تھی ویسی بے پردگی نہ کریں  ، زمین پر اپنے پاؤں  اس لئے زور سے نہ ماریں  کہ ان کی اس زینت کا پتہ چل جائے جو انہوں  نے چھپائی ہوئی ہے ، غیر مردوں  کو اپنی زینت نہ دکھائیں  ، اپنے گھروں  میں  ٹھہری رہیں  ، غیر مرد سے کوئی بات کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو نرم و نازک لہجے اورانداز میں  بات نہ کریں  وغیرہ ۔ پھر عورتوں  کی عزت و عظمت بیان کرنے کیلئے قرآن میں  فرمایا گیا کہ جو لوگ پاک دامن عورت پر بدکاری کی تہمت لگائیں  اور اسے شرعی طریقے سے ثابت نہ کرسکیں  تو انہیں  اَسّی کوڑے لگائے جائیں ، ان کی گواہی کبھی نہ مانی جائے اور یہ لوگ فاسق ہیں ۔انجان، پاکدامن، ایمان والی عورتوں  پر بدکاری کابہتان لگانے والوں  پر دنیا اور آخرت میں  لعنت ہے اور ان کے لیے قیامت کے دن بڑا عذاب ہے۔

             ان اَحکام سے معلوم ہو اکہ دین ِاسلام عورت اور اس کی عصمت کاسب سے بڑامحافظ ہے اوراس سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلانے کے باوجود چادر اور چار دیواری کے تَقَدُّس کو پامال کر کے عورت کی آزادی کا نعرہ لگانے اور روشن خیالی کے نام پر عورت کو ہر جگہ کی زینت بنانے اور حقوقِ نسواں  کے نام پر ہر شعبے میں  عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کھڑا کر نے کی کوششیں  کر کے عورتوں  سے کھیلنے کو آسان سے آسان تر بنانے میں  مصروف ہیں  اور ان عورتوں  کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اپنی عزت و ناموس کے دشمنوں ، بے علم دانشوروں  کی چکنی چپڑی باتوں  سے متاثر ہو کر خود کو خطرے پر پیش کرتی ہیں  اورخود کو غیر محفوظ بناتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔

{وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو۔} یعنی اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات! تم نماز قائم رکھو جو کہ بدنی عبادات کی اصل ہے اور اگر تمہارے پاس مال ہو تو اس کی زکوٰۃ دو۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ۷ / ۱۷۱)

          نوٹ:خیال رہے کہ یہ حکم عام ہے اور تمام عورتوں  کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ نمازپڑھیں  ،روزے رکھیں  اور اپنے مالوں  کی زکوٰۃ اداکریں  ۔

اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اور عبادت:

            اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں  خوب کوشش کیا کرتی تھیں ، چنانچہ سیرت کی کتابوں  میں  مذکور ہے کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  روزانہ بلا ناغہ نمازِ تہجد پڑھنے کی پابند تھیں  اور اکثر روزہ دار بھی رہا کرتی تھیں  اور اُمُّ المؤمنین حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے بارے میں  مروی ہے کہ آپ اکثر روزہ دار رہا کرتی تھیں  اور تلاوتِ قرآن مجید اور دوسری قسم قسم کی عبادتوں  میں  مصروف رہا کرتی تھیں۔( سیرتِ مصطفی،انیسواں باب، ازواجِ مطہرات رضی اللّٰہ تعالٰی عنہن، ص۶۶۰، ۶۶۲-۶۶۳)

            اللہ تعالیٰ اُمت کی ماؤں  کی عبادات کا صدقہ ان کی روحانی بیٹیوں  کو بھی نماز ،روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ عبادات کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

نسبت پر بھروسہ کر کے نماز نہ پڑھنے اور زکوٰۃ نہ دینے والوں  کو نصیحت:

            یہاں  اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو حکم دیا گیا کہ نمازپڑھاکرواورزکوٰۃ دیاکرو۔اس سے معلوم ہوا کہ کسی کویہ غلط فہمی نہیں  ہونی چاہئے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قرابت کے باعث اگرکوئی نماز اورزکوٰۃ کا تارک ہوگاتواس سے کسی قسم کی پوچھ نہیں  ہوگی۔اس سے ان لوگوں  کوعبرت حاصل کرنی چاہیے کہ جونمازنہیں  پڑھتے، روزے بھی نہیں  رکھتے اور فرض ہونے کے باوجود زکوٰۃ بھی نہیں  دیتے اور انہیں  جب عمل کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تونسبت کابہانہ بنادیتے ہیں  کہ ہماری نسبت اچھوں  کے ساتھ ہے ا س لئے اگر ہم ان احکام پر عمل نہ کریں  تو بھی ہمارا بیڑہ پارہے۔

{وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ: اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔} یعنی تمام احکامات اور ممنوعات میں  اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو لہٰذا تم میں  سے کسی کی شان کے لائق یہ بات نہیں  کہ جس چیز کا اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم دیا تم ا س کی مخالفت کرو۔( صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ۵ / ۱۶۳۸)

            نوٹ :یہ حکم عام ہے اور تمام عورتوں  کو اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنے اور ان کی نافرمانی سے بچنے کا حکم ہے ۔

اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی فرمانبرداری:

            حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ فرائض اور سنتوں  وغیرہ میں  تو اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوب فرمانبرداری کیا کرتی تھیں  حتّٰی کہ مُستحب احکام میں  بھی ان کی اطاعت کاحال بے مثال تھا،چنانچہ ایک روایت میں  ہے کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے لئے دعا فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ جنت میں  مجھے آپ کی اَزواجِ مُطَہَّرات میں  سے رکھے۔ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم اس رتبے کی تمنا رکھتی ہو تو تمہیں  چاہئے کہ کل کے لئے کھانا بچا کر نہ رکھو اور جب تک کسی کپڑے میں  پیوند لگ سکتا ہے تب تک اسے بیکار نہ سمجھو۔اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  فقر کو مالداری پر ترجیح دینے کی اس نصیحت پر اتنی عمل پیرا رہیں  کہ (زندگی بھر) کبھی آج کا کھانا کل کے لئے بچا کر نہیں  رکھا۔(مدارج النبوت، قسم پنجم، باب دوم: ذکر ازواج مطہرات۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۷۲-۴۷۳)

            اللہ تعالیٰ اُمَّہاتُ المؤمنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی اطاعت و فرمانبرداری کا صدقہ مسلم خواتین کو بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

{اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ: اے نبی کے گھر والو! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے۔} یعنی اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گھر والو! اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ گناہوں  کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۹۴۰، ملخصاً)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہلِ بیت:

            اِس آیت میں  اہلِ بیت سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات سب سے پہلے مراد ہیں  کیونکہ آگے پیچھے سارا کلام ہی اُن کے متعلق ہورہا ہے۔ بقیہ نُفوسِ قُدسیہ یعنی خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا، حضرت علی المرتضیٰ اور حسنین کریمَین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا اہلِ بیت میں  داخل ہونابھی دلائل سے ثابت ہے۔

            صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب’’سوانح کربلا‘‘میں  یہ آیت لکھ کر اہلِ بیت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مِصداق کے بارے میں  مفسرین کے اَقوال اور اَحادیث نقل فرمائیں ۔ اس کے بعد فرماتے ہیں : ’’خلاصہ یہ کہ دولت سرائے اقدس کے سکونت رکھنے والے اس آیت میں  داخل ہیں  (یعنی ازواجِ مُطَہَّرات) کیونکہ وہی اس کے مُخاطَب ہیں  (اور) چونکہ اہلِ بیتِ نسب (نسبی تعلق والوں ) کا مر اد ہونا مخفی تھا، اس لئے آں  سَرور ِعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اس فعل مبارک (جس میں  پنجتن پاک کو چادر میں  لے کر ان کے لئے دعا فرمائی) سے بیان فرمادیا کہ مراد اہلِ بیت سے عام ہیں  ۔ خواہ بیت ِمسکن کے اہل ہوں  جیسے کہ اَزواج یا بیت ِنسب کے اہل (جیسے کہ) بنی ہاشم و مُطّلب۔(سوانح کربلا، اہل بیت نبوت، ص۸۲)

 تقویٰ اور پرہیزگاری کی ترغیب:

            امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ ان آیات (یعنی اس آیت اور اس کے بعد والی آیت) میں  رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہلِ بیت کو نصیحت فرمائی گئی ہے تاکہ وہ گناہوں  سے بچیں  اور تقویٰ و پرہیزگاری کے پابند رہیں ۔یہاں گناہوں  کو ناپاکی سے اور پرہیزگاری کو پاکی سے تشبیہ دی گئی کیونکہ گناہوں  کا مُرتکب اُن سے ایسے ہی مُلَوَّث ہوتا ہے جیسے جسم نجاستوں  سے آلودہ ہوتا ہے اور اس طرزِ کلام سے مقصود یہ ہے کہ عقل رکھنے والوں  کو گناہوں  سے نفرت دلائی جائے اور تقویٰ و پرہیزگاری کی ترغیب دی جائے۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۹۴۰-۹۴۱)


[1] ۔۔۔۔ پردے سے متعلق مفید معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر ِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب ’’پردے کے بارے میں سوال جواب‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔

33:34
وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰى فِیْ بُیُوْتِكُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَ الْحِكْمَةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا۠(۳۴)
اور یاد کرو جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں اللہ کی آیتیں اور حکمت (ف۸۶) بیشک اللہ ہر باریکی جانتا خبردار ہے،

{وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰى فِیْ بُیُوْتِكُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَ الْحِكْمَةِ: اور اللہ کی آیات اور حکمت یاد کرو جو تمہارے گھروں  میں  پڑھی جاتی ہیں ۔} اس آیت میں  بھی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے خطاب فرمایا گیاکہ تمہارے گھروں  میں  جو قرآنِ مجید کی آیتیں  نازل ہوتی ہیں  ا ورتم رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جن اَحوال کا مشاہدہ کرتی ہو اور ان کے جن ارشادات کو سنتی ہو انہیں  یاد رکھا کرو اور موقع کی مناسبت سے وعظ و نصیحت کے طور پر لوگوں  کے سامنے انہیں  بیان کرتی رہو۔یہاں  آیت میں  اللہ تعالیٰ کی آیات سے مراد قرآن مجید کی آیتیں  ہیں  اورحکمت کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ ا س سے مراد سنت ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے قرآن کریم کے اَحکام اور مَواعظ مراد ہیں ۔(قرطبی، الاحزاب، تحت الآیۃ:۳۴، ۷ / ۱۳۴-۱۳۵، الجزء الرابع عشر، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۴۹۹، ملتقطاً)

اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اور اَحادیث کا بیان:

            ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احوال کو بڑے قریب سے دیکھا اور ان کے عمومی ارشادات اور بطورِ خاص گھریلو زندگی سے متعلق فرامین کوانتہائی توجہ سے سنا اور انہیں  امت تک پہنچانے کا فریضہ بڑی خوبی سے ادا فرما کر امت پر عظیم احسان فرمایا،انہوں  نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جو اَحوال اور ارشادات امت تک پہنچائے،یہاں  ا س کی3 مثالیں  ملاحظہ ہوں ،

 (1)…اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  فرماتی ہیں  :جب کبھی رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ظہر سے پہلے چار سنتیں  نہ پڑھ پاتے تو انہیں  بعد میں  (یعنی ظہر کے فرض پڑھنے کے بعد) پڑھ لیا کرتے تھے۔( ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب منہ آخر، ۱ / ۴۳۵، الحدیث: ۴۲۶)

(2)…اُمُّ المومنین حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں : ’’جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے بستر پر تشریف لاتے تو اپنے دائیں  پہلو پر لیٹ کر تین مرتبہ یہ دعا پڑھتے ’’رَبِّ قِنِیْ عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ‘‘ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو مجھے اپنے عذاب سے بچا جس دن تو اپنے بندوں  کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ اور نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کھانا کھانے ،پانی پینے،وضو کرنے،کوئی چیز لینے اور کچھ دینے کے لئے اپنا دایاں  ہاتھ استعمال فرماتے تھے اور دیگر کاموں  کے لئے بائیں  ہاتھ کا استعمال فرماتے تھے۔( مسند امام احمد، حدیث حفصۃ ام المؤمنین۔۔۔ الخ، ۱۰ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۶۵۲۶)

(3)…اُمُّ المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  فرماتی ہیں  :حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی :میرے والد بوڑھے ہیں اور وہ حج کرنے کی اِستطاعت نہیں  رکھتے۔ ارشاد فرمایا: ’’اس بارے میں  تیری کیا رائے ہے کہ اگر تیرے والد پر قرض ہوتا اور تو ان کی طرف سے قرض ادا کر دیتا تو وہ تجھ سے قبول کر لیا جاتا؟ا س نے عرض کی :جی ہاں ،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تو اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ رحم فرمانے والاہے ،تم اپنے والد کی طرف سے حج کرو۔( مسند امام احمد، حدیث سودۃ بن زمعۃ رضی اللّٰہ عنہا،۱۰ / ۳۹۸، الحدیث: ۲۷۴۸۷)

آیت ’’وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰى فِیْ بُیُوْتِكُنَّ‘‘ سے حاصل ہونے و الی معلومات:

            اس آیت سے تین باتیں  معلوم ہوئیں ،

(1)…قرآن مجید کی آیات اور اَحادیث کو یاد کرنا اور دوسروں  کو یاد دلاتے رہنا چاہئے تاکہ شریعت کے اَحکام کا علم ہو۔

(2)… ہر مسلمان کو اپنے گھر میں  قرآن مجید کی تلاوت اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنتوں  کا تذکرہ کرتے رہنا چاہئے۔

(3)…بعض اوقات دوسروں  سے بھی قرآن پاک کی آیات سننی چاہئیں  ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں  ان تینوں  باتوں  پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

33:35
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں (ف۸۷) اور ایمان والے اور ایمان والیاں اور فرمانبردار اور فرمانبرداریں اور سچے اور سچیاں (ف۸۸) اور صبر والے اور صبر والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اس نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے،

{اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ: بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ۔} شانِ نزول:حضرت اسماء بنت ِعمیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا جب اپنے شوہرحضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ حبشہ سے واپس آئیں  تو ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے مل کر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا عورتوں  کے بارے میں  بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے۔ اُنہوں  نے فرمایا :نہیں ، تو حضرت اسماء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، عورتیں  توبڑے نقصان میں  ہیں ۔ارشادفرمایا :کیوں  ؟عرض کی: ان کا ذکر (قرآن میں) خیر کے ساتھ ہوتا ہی نہیں  جیسا کہ مردوں  کا ہوتا ہے۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور ان کے دس مراتب مردوں  کے ساتھ ذکر کئے گئے اور ان کے ساتھ ان کی مدح فرمائی گئی۔

مردوں  کے ساتھ عورتوں  کے دس مراتب:

اس آیت میں  مردوں  کے ساتھ عورتوں  کے جو دس مراتب بیان ہوئے ان کی تفصیل درج ذیل ہے،

(1)…وہ مرد اور عورتیں  جو کلمہ پڑھ کر اسلام میں  داخل ہوئے اور انہوں  نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی اور ان احکام کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا۔

(2)…وہ مرد اور عورتیں  جنہوں  نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کی  تصدیق کی اور تمام ضروریاتِ دین کو مانا۔

(3)…وہ مرد اور عورتیں  جنہوں  نے عبادات پر مُداوَمَت اختیار کی اور انہیں  (ان کی حدود اور شرائط کے ساتھ) قائم کیا۔

(4)…وہ مرد اور عورتیں  جو اپنی نیت،قول اور فعل میں  سچے ہیں  ۔

(5)…وہ مرد اور عورتیں  جنہوں  نے نفس پر انتہائی دشوار ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے طاعتوں  کی پابندی کی، ممنوعات سے بچتے رہے اور مَصائب و آلام میں  بے قراری اور شکایت کا مظاہرہ نہ کیا۔

(6)…وہ مرد اور عورتیں  جنہوں  نے طاعتوں  اور عبادتوں  میں  اپنے دل اور اعضاء کے ساتھ عاجزی و اِنکساری کی۔

(7)…وہ مرد اور عورتیں  جنہوں  نے اللہ تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے مال میں  سے اس کی راہ میں  فرض اور نفلی صدقات دئیے۔

(8)…وہ مرد اور عورتیں  جنہوں  نے فرض روزے رکھے اور نفلی روزے بھی رکھے ۔ منقول ہے کہ جس نے ہر ہفتہ ایک درہم صدقہ کیا وہ خیرات کرنے والوں  میں  اور جس نے ہر مہینے اَیّامِ بِیض (یعنی قمری مہینے کی 13، 14، 15 تاریخ) کے تین روزے رکھے وہ روزے رکھنے والوں  میں  شمار کیا جاتا ہے۔

(9)…وہ مرد اور عورتیں  جنہوں  نے اپنی عفت اور پارسائی کو محفوظ رکھا اور جو حلال نہیں  ہے اس سے بچے۔

(10)…وہ مرد اور عورتیں  جو اپنے دل اور زبان کے ساتھ کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں  ۔کہا گیا ہے کہ بندہ کثرت سے ذکر کرنے والوں  میں  اس وقت شمار ہوتا ہے جب کہ وہ کھڑے ، بیٹھے ،لیٹے ہر حال میںاللہ تعالیٰ کا ذکر کرے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جو عورتیں  اسلام ،ایمان اورطاعت میں ،قول اور فعل کے سچا ہونے میں ،صبر، عاجزی و انکساری اور صدقہ و خیرات کرنے میں ،روزہ رکھنے اور اپنی عفت و پارسائی کی حفاظت کرنے میں  اور کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے میں  مردوں  کے ساتھ ہیں  ،توایسے مردوں  اور عورتوں  کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کی جزا کے طور پر بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔(ابو سعود ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : ۳۵ ،  ۴ / ۳۲۱ ، مدارک، الاحزاب ، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۹۴۱، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۵۰۰، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کا ذکر اور ا س کی کثرت سے متعلق دو باتیں :

اس آیت میں مردوں  اور عورتوں کے 10مراتب ایک ساتھ بیان ہوئے جن کا بیان اوپر ہو چکا، یہاں  دسویں  مرتبے ’’اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت‘‘ کے بارے میں  دو باتیں  ملاحظہ ہوں :

(1)… ذکر میں  تسبیح پڑھنا، اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنا،کلمہ طیبہ کا ورد کرنا، اللہ اَکْبَر کہنا،قرآن مجید کی تلاوت کرنا، دین کا علم پڑھنا اور پڑھانا،نمازادا کرنا،وعظ و نصیحت کرنا،میلاد شریف اور نعت شریف پڑھنا سب داخل ہیں  ۔

(2)…ذکر کی کثرت کی صورتیں  مختلف لوگوں  کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں ،اور ا س کی سب سے کم صورت یہ ہے کہ اَصحابِ بدر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی تعداد کے برابر یعنی313مرتبہ تسبیح وغیرہ پڑھ لینا کثرت میں  شمار ہوتا ہے۔

کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے تین فضائل:

یہاںاللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرنے کے فضائل پر مشتمل3اَحادیث ملاحظہ ہوں ۔

(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مکہ کے راستہ میں  جارہے تھے کہ ایک پہاڑ کے قریب سے گزرے جسے جُمْدَان کہا جاتا ہے،اس وقت صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے ارشاد فرمایا: ’’چلو یہ جُمْدَان ہے، سبقت لے گئے جدا رہنے والے ۔ صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، الگ رہنے والے کون لوگ ہیں ؟ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی بہت یاد کرنے والے مرد اور عورتیں۔(مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب الحث علی ذکر اللّٰہ تعالٰی، ص۱۴۳۹، الحدیث: ۴(۲۶۷۶))

( 2)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جدا رہنے والے سب سے آگے بڑھ گئے۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:جدا رہنے والے کون ہیں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ذکر میں  مُستَغرق لوگ۔ذکر نے ان کے بوجھ ان سے اتار دئیے پس وہ قیامت کے دن ہلکے پھلکے آئیں  گے۔( ترمذی، احادیث شتی، باب فی العفو والعافیۃ، ۵ / ۳۴۲، الحدیث: ۳۶۰۷)

(3)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا گیا: کون سے بندے اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل اور قیامت کے دن بلند درجے والے ہیں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرنے والے مرد اور بہت ذکر کرنے والی عورتیں ۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان کا درجہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں  جہاد کرنے والوں  سے بھی زیادہ ہو گا؟ارشاد فرمایا’’اگر کوئی شخص مشرکین اور کفار پر اتنی تلوار چلائے کہ تلوار ٹوٹ جائے اور خون میں  رنگ جائے تب بھی کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا اس سے درجے میں  زیادہ ہوگا۔(مشکاۃ المصابیح، کتاب الدعوات، باب ذکر اللّٰہ عزوجل والتقرب الیہ، الفصل الثالث، ۱ / ۴۲۷، الحدیث: ۲۲۸۰)

اللہ تعالیٰ مسلمان مردوں  اور عورتوں  کو کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

33:36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ(۳۶)
اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے (ف۸۹) اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بیشک صر یح گمراہی بہکا،

{وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ: اور کسی مسلمان مرد اور عورت کیلئے یہ نہیں  ہے کہ ۔} شانِ نزول: مفسرین فرماتے ہیں  کہ حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسلام کا سورج طلوع ہونے سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو خرید کر آزاد فرمایا اور انہیں  اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔حضرت زینب بنت ِجحش رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا جو حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پھوپھی امیمہ بنت ِعبد المُطّلب کی بیٹی تھیں ،سر کار ِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں  حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے نکاح کا پیغام دیا ،شروع میں  تو یہ اس گمان سے راضی ہو گئیں  کہ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے لئے پیغام دیا ہے لیکن جب معلوم ہو اکہ حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے رشتہ طلب فرمایا ہے تو انکار کر دیا اور عرض کر بھیجا کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں  حضور کی پھوپھی کی بیٹی ہوں  ا س لئے ایسے شخص کے ساتھ نکاح پسند نہیں  کرتی۔ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن جحش رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے بھی اسی بنا پر انکار کیا۔اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور اسے سن کر دونو ں بہن بھائی راضی ہو گئے اور حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کا حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے نکاح ہو گیا۔(قرطبی،الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۶، ۷ / ۱۳۶-۱۳۷، الجزء الرابع عشر، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۵۰۱، ملتقطاً)

آیت ’’وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے تین باتیں  معلوم ہوئیں  ،

(1)… آدمی پر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت ہر حکم میں  واجب ہے ۔

(2)…حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں  کوئی اپنے نفس کا بھی خود مختار نہیں ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ا س آیت کا شانِ نزول لکھنے کے بعد فرماتے ہیں  ’’ظاہر ہے کہ کسی عورت پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے فرض نہیں  کہ فلاں  سے نکاح پرخواہی نخواہی راضی ہوجائے خصوصاً جبکہ وہ اس کا کُفو (یعنی ہم پلہ) نہ ہوخصوصاً جبکہ عورت کی شرافت ِخاندان کَواکب ِثریا (یعنی ثریا ستاروں ) سے بھی بلند وبالاتر ہو، بایں  ہمہ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دیا ہوا پیام نہ ماننے پر رَبُّ الْعِزَّۃ جَلَّ جَلَالُہٗ نے بعینہٖ وہی الفاظ ارشادفرمائے جو کسی فرضِ اِلٰہ (یعنی اللہ تعالیٰ کے فرض) کے ترک پر فرمائے جاتے اوررسول کے نام پاک کے ساتھ اپنا نامِ اقدس بھی شامل فرمایا یعنی رسول جو بات تمہیں  فرمائیں  وہ اگرہمارا فرض نہ تھی تو اب ان کے فرمانے سے فرضِ قطعی ہوگئی ،مسلمانوں  کو اس کے نہ ماننے کا اصلاً اختیار نہ رہا ،جو نہ مانے گا صریح گمراہ ہوجائے گا ،دیکھو رسول کے حکم دینے سے کام فرض ہوجاتاہے اگرچہ فی نفسہ خدا کا فرض نہ تھا ایک مباح وجائز امر تھا۔(فتاویٰ رضویہ،رسالہ: منیۃ اللبیب انّ التشریع بید الحبیب، ۳۰ / ۵۱۷-۵۱۸)

(3) … نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم اورآپ کے مشورے میں  فرق ہے ،حکم پر سب کو سر جھکانا پڑے گا اورمشورہ قبول کر نے یا نہ کر نے کا حق ہو گا۔ اسی لئے یہاں : ’’اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا‘‘ ’’یعنی جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں ۔‘‘ فرمایا گیا اور دوسری جگہ ارشاد ہوا: ’’وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِ‘‘(اٰل عمران:۱۵۹) ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کاموں  میں  ان سے مشورہ لیتے رہو۔

شرعی احکام اور اختیاراتِ مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو اکہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی عطا سے شرعی احکام میں  خود مختار ہیں۔ آپ جسے جو چاہے حکم دے سکتے ہیں،جس کے لئے جو چیز چاہے جائز یا ناجائز کر سکتے ہیں  اور جسے جس حکم سے چاہے الگ فرما سکتے ہیں ۔کثیر صحیح اَحادیث میں  اس کے شواہد موجود ہیں ،یہاں ان میں  سے6اَحادیث درج ذیل ہیں ،

(1)… جب حرمِ مکہ کی نباتات کو کاٹنا حرام فرمایا گیا تو حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے عرض کرنے پر اذخر گھاس کاٹنے کو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جائز فرما دیا۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرام فرمایا ہے ،پس یہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ ہوا اور نہ کسی کے لئے میرے بعد حلال ہو گا،میرے لئے بھی دن کی ایک ساعت حلال ہوا، نہ اس کی گھاس اکھاڑی جائے،نہ اس کا درخت کاٹا جائے اور نہ اس کا شکار بھڑکایا جائے اور اعلان کرنے کے علاوہ اس کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائی جائے ۔حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :اِذخر کے سوا کیونکہ وہ ہمارے سناروں  اور قبروں  کے کام آتی ہے ۔ارشاد فرمایا’’چلو اِذخر کے سوا (دوسری گھاس نہ اکھاڑی جائے۔)( بخاری، کتاب الجنائز، باب الاذخر والحشیش فی القبر، ۱ / ۴۵۳، الحدیث: ۱۳۴۹)

(2)…حضرت ابو بردہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے چھ مہینے کے بکری کے بچے کی قربانی کر لینا جائز کر دیا۔ چنانچہ حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : ان کے ماموں  حضرت ابو بردہ بن نیار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے نمازِ عید سے پہلے قربانی کرلی تھی ،جب انہیں معلوم ہوا یہ کافی نہیں  تو عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ تو میں  کرچکا، اب میرے پاس چھ مہینے کا بکری کا بچہ ہے مگر سال بھر والے سے اچھاہے ۔ ارشاد فرمایا: ’’اِس کی جگہ اُسے کردو اورہرگز اتنی عمر کی بکری تمہارے بعد دوسروں  کی قربانی میں  کافی نہ ہوگی۔(بخاری، کتاب العیدین، باب التکبیر الی العید، ۱ / ۳۳۲، الحدیث: ۹۶۸)

(3)…حضرت اُمِّ عطیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو ایک گھر کے مُردے پر بَین کر کے رونے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ حضرت اُمِّ عطیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  فرماتی ہیں  (جب عورتوں  کی بیعت سے متعلق آیت اتری اوراس میں  ہر گناہ سے بچنے کی شرط تھی کہ لَا یَعْصِیْنَكَ فِیْ مَعْرُوْفٍ، اورمردے پر بین کر کے رونا چیخنا بھی گناہ تھا) میں  نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، فلاں  گھر والوں  کا اِستثناء فرمادیجئے کیونکہ انہوں  نے زمانہ ٔجاہلیّت میں  میرے ساتھ ہوکر میری ایک میت پر نوحہ کیاتھا تو مجھے ان کی میت پر نوحے میں  ان کا ساتھ دینا ضروری ہے ۔سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھا وہ مُستَثنیٰ کردئیے۔‘‘(مسلم، کتاب الجنائز، باب التشدید فی النیاحۃ، ص۴۶۶، الحدیث: ۳۳(۹۳۷))

(4)…حضرت اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو وفات کی عدت کے عام حکم سے الگ فرما دیا اور ان کی عدت چار مہینے دس دن کی بجائے تین دن مقرر فرما دی ۔چنانچہ حضرت اسماء بنت عُمیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں : جب حضرت جعفر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ شہید ہو گئے توسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے حکم دیا:تم تین دن تک (سنگار سے) رکی رہو،پھر جو چاہو کرو۔(معجم الکبیر ، اسماء بنت عمیس الخثعمیۃ من المہاجرات ، عبد اللّٰہ بن شداد بن الہاد عن اسماء ، ۲۴ / ۱۳۹ ، الحدیث: ۳۶۹)

(5)…ایک شخص کے لئے قرآن مجید کی سورت سکھا دینا مہر مقرر فرما دیا۔چنانچہ حضرت ابو نعمان ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک شخص نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے ارشاد فرمایا:مہردو۔اس نے عرض کی:میرے پاس کچھ نہیں  ۔ارشاد فرمایا :کیا تجھے قرآنِ عظیم کی کوئی سورت نہیں  آتی ، وہ سورت  سکھانا ہی اس کا مہر کر، اورتیرے بعد یہ مہر کسی اورکو کافی نہیں ۔(شرح الزرقانی، الفصل الرابع فیما اختص بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الفضائل والکرامات، ۷ / ۳۵۶، مختصراً)

نوٹ:یاد رہے کہ قرآن مجید کی کوئی سورت سکھانا یا کوئی پارہ زبانی یاد کر کے عورت کو سنا دینا اس کا شرعی مہر نہیں  ہو سکتا اگرچہ عورت اس کا تقاضا کرے اور اگر عورت کے مطالبے پر شوہر نے ایسا کر دیا تو وہ مہر کی ادائیگی سے بری الذِّمہ نہ ہوگا، اگر عقدِ نکاح میں  اس چیز کا تَعَیُّن نہیں  ہوا جو مہر بن سکتی ہے تو شوہر پر مہرِ مثل دینالازم ہو گا، ہاں  اگر عورت اپنی مرضی سے یوں  کہے: اگر تم مجھے فلاں  پارہ یا سورت یاد کر کے سنا دو تو میرا مہر تجھے معاف ہے ، تو یہ جائزہے ۔

(6)…حضرت خزیمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی گواہی ہمیشہ کے لئے دو مَردوں  کی گواہی کے برابر فرما دی ۔چنانچہ حدیث پاک میں  ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک اعرابی سے گھوڑا خریدا،وہ بیچ کر مکر گیا اور گواہ مانگا، جو مسلمان آتا اعرابی کو جھڑکتا کہ تیرے لئے خرابی ہو ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حق کے سوا کیا فرمائیں  گے (مگر گواہی کوئی نہیں  دیتا کیونکہ کسی کے سامنے کا واقعہ نہ تھا) اتنے میں  حضرت خزیمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بارگاہ میں  حاضر ہوئے اور گفتگو سن کر بولے: میں  گواہی دیتاہوں  کہ تو نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہاتھ گھوڑا بیچا ہے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم تو موقع پرموجودہی نہیں  تھے،پھر تم نے گواہی کیسے دی؟عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں  حضور کی تصدیق سے گواہی دے رہاہوں  اور ایک روایت میں  ہے کہ’’ میں  حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لائے ہوئے دین پر ایمان لایا ہوں  اور یقین جانا کہ حضور حق ہی فرمائیں  گے، میں  آسمان وزمین کی خبروں  پر حضور کی تصدیق کرتاہوں  توکیا اس اعرابی کے مقابلے میں  تصدیق نہ کروں  گا ۔اس کے انعام میں  حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیشہ ان کی گواہی دو مَردکی گواہی کے برابر فرمادی اورارشاد فرمایا: ’’خزیمہ جس کسی کے نفع خواہ ضَرر کی گواہی دیں  ایک انہیں  کی گواہی کافی ہے ۔( ابو داؤد،کتاب الاقضیۃ،باب اذا علم الحاکم صدق الشاہد الواحد۔۔۔الخ،۳ / ۴۳۱، الحدیث: ۳۶۰۷، معجم الکبیر، خزیمۃ بن ثابت الانصاری۔۔۔ الخ، عمارۃ بن خزیمۃ بن ثابت عن ابیہ، ۴ / ۸۷، الحدیث: ۳۷۳۰)

          نوٹ:شرعی احکام میں  سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اختیارات سے متعلق بہترین معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 30ویں  جلد میں  موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے رسالے ’’مُنْیَۃُ اللَّبِیْب اَنَّ التَّشْرِیْعَ بِیَدِ الْحَبِیْب‘‘(بیشک شرعی احکام اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اختیار میں  ہیں ) کا مطالعہ فرمائیں ۔

33:37
وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللّٰهَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَ تَخْشَى النَّاسَۚ-وَ اللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُؕ-فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآىٕهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًاؕ-وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا(۳۷)
اور اے محبوب! یاد کرو جب تم فرماتے تھے اس سے جسے اللہ نے اسے نعمت دی (ف۹۰) اور تم نے اسے نعمت دی (ف۹۱) کہ اپنی بی بی اپنے پاس رہنے دے (ف۹۲) اور اللہ سے ڈر (ف۹۳) اور تم اپنے دل میں رکھتے تھے وہ جسے اللہ کو ظاہر کرنا منظور تھا (ف۹۴) اور تمہیں لوگوں کے طعنہ کا اندیشہ تھا (ف۹۵) اور اللہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس کا خوف رکھو (ف۹۶) پھر جب زید کی غرض اس سے نکل گئی (ف۹۷) تو ہم نے وہ تمہارے نکاح میں دے دی (ف۹۸) کہ مسلمانوں پر کچھ حرج نہ رہے ان کے لے پالکوں (منہ بولے بیٹوں) کی بیبیوں میں جب ان سے ان کا کام ختم ہوجائے (ف۹۹) اور اللہ کا حکم ہوکر رہنا،

{وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ: اور اے محبوب! یاد کرو جب تم اس سے فرمارہے تھے جس پر اللہ نے انعام فرمایا۔} اس آیت میں  جس واقعے کی طرف اشارہ فرمایاگیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عظیم دولت سے نواز کر ان پر انعام فرمایا اور حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں  آزاد کر کے اور ان کی پرورش فرما کر ان پر انعام اور احسان فرمایا۔جب حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا نکاح حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے ہو چکا تو حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا آپ کی ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ میں  داخل ہوں  گی، اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے۔ چنانچہ اس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اورحضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے درمیان موافقت نہ ہوئی اور حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی سخت انداز میں  گفتگو ، تیز زبانی ، اطاعت نہ کرنے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی شکایت کی۔ ایسا بار بار اتفاق ہوا اور ہر بار حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو سمجھا دیتے اور ان سے ارشاد فرماتے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھو اور حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا پر تکبر کرنے اور شوہر کو تکلیف دینے کے الزام لگانے میں  اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ پر یہ ظاہر نہیں  فرماتے تھے کہ حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے ساتھ تمہارا گزارہ نہیں  ہو سکے گا اور طلاق ضرور واقع ہو گی اور اللہ تعالیٰ انہیں  ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ میں  داخل کرے گااور اللہ تعالیٰ کو یہ بات ظاہر کرنا منظور تھی ۔ جب حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو طلاق دے دی تو رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو لوگوں  کی طرف سے اعتراض کئے جانے کا اندیشہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تو حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے ساتھ نکاح کرنے کا ہے اور ایسا کرنے سے لوگ طعنہ دیں  گے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایسی عورت کے ساتھ نکاح کر لیا جو ان کے منہ بولے بیٹے کے نکاح میں  رہی تھی ،اس پر آپ کو لوگوں  کے بے جا اعتراضات کی پرواہ نہ کرنے کا فرمایا گیا۔حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی عدت گزرنے کے بعد ان کے پاس حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پیام لے کر گئے اور انہوں  نے سر جھکا کر کمالِ شرم و اَدب سے انہیں  یہ پیام پہنچایا۔حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے کہا کہ میں  اس معاملہ میں  اپنی رائے کو کچھ بھی دخل نہیں  دیتی، جو میرے ربّ عَزَّوَجَلَّ کو منظور ہو میں  اس پر راضی ہوں  ۔یہ کہہ کر وہ بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں  متوجہ ہوئیں  اور انہوں  نے نماز شروع کر دی اور یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو اس نکاح سے بہت خوشی اور فخر ہوا اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس شادی کا ولیمہ بہت وسعت کے ساتھ کیا۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۵۰۱-۵۰۲، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۹۴۲-۹۴۳، ملتقطاً)

سورہِ اَحزاب کی آیت نمبر37سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے یہ باتیں  معلوم ہوئیں ،

            یہ کہنا جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں  یہ نعمت دی ہے۔ نیز رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیادہ شادیا ں فرمانے کی ایک حکمت معاشرے میں  رائج بری رسموں  کا خاتمہ کرنا تھی،جیسے حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے نکاح فرما کرلوگوں  کے درمیان رائج اس بری رسم کاخاتمہ کردیا کہ منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنا حرام ہے۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ منہ بولے بیٹے کی طلاق یافتہ بیوی سے نکاح کرنا جائز ہے جبکہ حرمت کی کوئی شرعی وجہ نہ ہو۔

 حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا شرف:

             حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو یہ شرف حاصل ہے کہ تمام صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں  سے صرف ان کا نام صراحت کے ساتھ قرآن کریم میں  مذکور ہے اور دنیا و آخرت میں  قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے انسان اور فرشتے آیت میں  ان کا نام پڑھتے رہیں  گے۔( صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۱۶۴۲)

33:38
مَا كَانَ عَلَى النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗؕ-سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُؕ-وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَاﰳ٘ۙ (۳۸)
نبی پر کوئی حرج نہیں اس بات میں جو اللہ نے اس کے لیے مقرر فرمائی (ف۱۰۰) اللہ کا دستور چلا آرہا ہے اس میں جو پہلے گزر چکے (ف۱۰۱) اور اللہ کا کام مقرر تقدیر ہے

{مَا كَانَ عَلَى النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗ: نبی پر اس بات میں  کوئی حرج نہیں  جو اللہ نے اس کے لیے مقرر فرمائی۔} ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے جو حلال فرمایا اور انہیں  منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ کی طلاق یافتہ بیوی سے نکاح کرنے کا جو حکم دیا اس پر عمل کرنے میں  میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کوئی حرج نہیں  اور زیادہ شادیاں  کرنا کوئی انوکھی بات نہیں  بلکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے تشریف لانے والے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں  بھی اللہ تعالیٰ کا یہ دستور رہا ہے کہ ان کے نکاح کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں  رکھا اور انہیں  نکاح کے معاملے میں  امتیوں  سے زیادہ وسعت عطا فرمائی اور اس سلسلے میں  انہیں  خاص احکام دئیے ہیں ۔(ابن کثیر، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۸، ۶ / ۳۸۰، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۸، ۷ / ۱۸۲، ملتقطاً)

حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا زیادہ شادیاں  فرمانا مِنہاجِ نبوت کے عین مطابق تھا:

            اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے تمام امت کو یہ بتا دیا کہ ا س نے پچھلے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرح اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر بھی نکاح کے معاملے میں  وسعت فرمائی اور انہیں  کثیر عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کثیر خواتین سے شادیاں  فرمانا اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خاص اجازت سے تھا اور آپ کا یہ عمل انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دستور کے برخلاف نہیں  بلکہ اس کے عین مطابق تھا کیونکہ آپ سے پہلے تشریف لانے والے متعدد انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی ایک سے زیادہ شادیاں  کی تھیں  ،قرآن مجید کے علاوہ بائبل میں  بھی ا س کا ذکر موجود ہے ،چنانچہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تین شادیاں  فرمائیں  ،آپ کی پہلی بیوی کے بارے بائبل میں  ہے ’’اور ابرام سے ہاجرہ کے ایک بیٹاہوا اور ابرام نے اپنے اس بیٹے کا نام جو ہاجرہ سے پیدا ہوا اسمٰعیل رکھا اور جب ابرام سے ہاجرہ کے اسمٰعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا۔(بائبل، پیدایش، باب۱۶، آیت نمبر: ۱۵-۱۶، ص۱۶)

            آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دوسری بیوی سے اولاد کے بارے بائبل میں  ہے ’’موسمِ بہار میں  مُعَیّن وقت پر میں  تیرے پاس پھر آؤں  گا اور سارہ کے بیٹا ہو گا۔(بائبل، پیدایش، باب۱۸، آیت نمبر: ۱۴، ص۱۷)آپ کی تیسری بیوی اور ان سے ہونے والی اولاد کے بارے بائبل میں  ہے ’’اور ابرہام نے پھر ایک اور بیوی کی جس کا نام قطورہ تھا اور اس سے زمران اور یقسان اور مدان اور مدیان اور اسباق اور سوخ پیدا ہوئے۔(بائبل، پیدایش، باب۲۵، آیت نمبر: ۱-۲، ص۲۴)

            حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چار شادیاں  فرمائی تھیں ،آپ کی پہلی زوجہ کے بارے بائبل میں  ہے ’’تب لابن نے اس جگہ کے سب لوگوں  کو بلا کرجمع کیااور ان کی ضیافت کی اورجب شام ہوئی تو اپنی بیٹی لیاہ کو اس کے پاس لے آیا اور یعقوب اس سے ہم آغوش ہوا۔(بائبل، پیدایش، باب۲۹، آیت نمبر: ۲۲-۲۳، ص۳۰)

            دوسری زوجہ کے بارے بائبل میں  ہے ’’اور لابن نے اپنی لونڈی زِلفہ اپنی بیٹی لیاہ کے ساتھ کردی کہ اس کی لونڈی ہو۔(بائبل، پیدایش، باب۲۹، آیت نمبر: ۲۴، ص۳۰)

            تیسری زوجہ کے بارے بائبل میں  ہے’’یعقوب نے ایسا ہی کیا کہ لیاہ کا ہفتہ پورا کیا،تب لابن نے اپنی بیٹی راخل بھی اسے بیاہ دی۔(بائبل، پیدایش، باب۲۹، آیت نمبر: ۲۸، ص۳۰)

            چوتھی زوجہ بلہاہ کے بارے بائبل میں  ہے’’اور اپنی لونڈی بلہاہ اپنی بیٹی راخل کو دی کہ اس کی لونڈی ہو۔(بائبل، پیدایش، باب۲۹، آیت نمبر: ۲۹، ص۳۰)

            حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے بائبل میں  ہے ’’اور اس کے پاس سات سو شاہزادیاں  اس کی بیویاں  اور تین سو حرمیں  تھیں ۔(بائبل، ۱-سلاطین، باب۱۱، آیت نمبر: ۳، ص۳۴۰)

            مذکورہ بالا تمام اَنبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہ ہیں  جن پر یہودی اور عیسائی ایمان رکھتے ہیں  ، تو جس طرح ایک سے زیادہ شادیاں  کرنے کی بنا پر ان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تَقَدُّس میں  کوئی کمی واقع نہیں  ہوتی اسی طرح ا س عمل کی وجہ سے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تقدس اور آپ کی عظمت میں  کوئی کمی واقع نہ ہوگی، یونہی اگر ایک سے زیادہ شادیاں  کرنے کی وجہ سے ان محترم اور مکرم ہستیوں  پر اعتراض نہیں  کیا جا سکتا تو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک سے زیادہ شادیوں  پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیاجا سکتا ۔

 کثرتِ اَزواج کا ایک اہم مقصد:

            یاد رہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک سے زیادہ شادیاں  فرمانا مَعَاذَاللہ تسکین ِنفس کے لئے ہر گز نہیں  تھا کیونکہ اگرآپ کی شخصیت میں  اس کا ادنیٰ سا شائبہ بھی موجود ہوتا تو آپ کے دشمنوں  کو اس سے بہتر اور کوئی حربہ ہاتھ نہیں  آ سکتا تھا جس کے ذریعے وہ آپ کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ، آپ کے دشمن جادوگر، شاعر،مجنون وغیرہ الزامات تو آپ پر لگاتے رہے ،لیکن کسی سخت سے سخت دشمن کو بھی ایسا حرف زبان پر لانے کی جرأت نہ ہوئی جس کا تعلق جذباتی بے راہ روی سے ہو۔اسی طرح آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی زندگی کے ابتدائی 25سال انتہائی عفت اور پاکبازی کے ساتھ گزارے اور پچیس سال کے بعد جب نکاح فرمایا تو ہم عمر خاتون سے نکاح میں  دشواری نہ ہونے کے باوجود ایک ایسی خاتون کو شرف ِزوجیت سے سرفراز فرمایا جو عمر میں  آپ سے 15سال بڑی تھیں  اور آپ سے پہلے دو شوہروں  کی بیوی رہ چکی تھیں  ،اولاد والی بھی تھیں  اور نکاح کا پیغام بھی اس خاتون نے خود بھیجا تھا، پھر نکاح کے بعد پچاس سال کی عمر تک انہی کے ساتھ رہنے پر اِکتفا کیا اور ا س دوران کسی اور رفیقہ ٔحیات کی خواہش تک نہ فرمائی اور جب حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے انتقال کے بعد آپ نے نکاح فرمایا تو کسی نوجوان خاتون سے نہیں  بلکہ حضرت سودہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے نکاح فرمایا جو عمر کے لحاظ سے بوڑھی تھیں  ۔یونہی اعلانِ نبوت کے بعد جب کفار کی طرف سے حسین ترین عورتوں  سے شادی کی پیشکش کی گئی تو آپ نے اسے ٹھکرا دیا ،نیز آپ نے جتنی خواتین کو زوجیت کا شرف عطا فرمایا ان میں  صرف ایک خاتون اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کنواری تھیں  بقیہ بیوہ یا طلاق یافتہ تھیں، یہ تمام شواہد اس بات کی دلیل ہیں  کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک سے زیادہ شادیاں  فرماناتسکینِ نفس کے لئے ہر گز ہر گز نہ تھا،بلکہ آپ کے اس طرزِ عمل پر انصاف کی نظر سے غور کیا جائے تو ہر انصاف پسند آدمی پر یہ واضح ہو جائے گاکہ کثیر شادیوں  کے پیچھے بے شمار ایسی حکمتیں  اور مَقاصد پوشیدہ تھے جن کا متعدد شادیوں  کے بغیر پورا ہونا مشکل ترین تھا،یہاں  اس کا ایک مقصد ملاحظہ ہو۔

           خواتین اس امت کا نصف حصہ ہیں  اور انسانی زندگی کے ان گنت مسائل ایسے ہیں  جن کا تعلق خاص طور پر عورتوں  کے ساتھ ہے اور فطرتی طور پر عورت اپنی نسوانی زندگی سے متعلق مسائل پر غیر محرم مرد کے ساتھ گفتگو کرنے سے شرماتی ہے ،اسی طرح شرم و حیا کی وجہ سے عورتیں  ازدواجی زندگی ، حیض،نفاس اور جنابت وغیرہ سے متعلق مسائل کھل کر رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  پیش نہ کر سکتی تھیں  اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اپنا حال یہ تھا کہ آپ کنواری عورت سے بھی زیادہ شرم وحیا فرمایا کرتے تھے ۔ان حالات کی بنا پر حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایسی خواتین کی ضرورت تھی جو انتہائی پاک باز، ذہین، فطین، دیانت دار اور متقی ہوں  تاکہ عورتوں  کے مسائل سے متعلق جو احکامات اور تعلیمات لے کرنبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مبعوث ہوئے تھے انہیں  ان کے ذریعے امت کی عورتوں  تک پہنچایا جائے ،وہ مسائل عورتوں  کو سمجھائے جائیں  اور ان مسائل پر عمل کر کے دکھایا جا ئے اور یہ کام صرف وہی خواتین کر سکتی تھیں  جو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ازدواجی رشتے میں  منسلک ہوں  اور ہجرت کے بعد چونکہ مسلمانوں  کی تعداد میں  اس تیزی کے ساتھ اضافہ ہونا شروع ہو ا کہ کچھ ہی عرصے میں  ان کی تعداد ہزاروں  تک پہنچ گئی ، اس لئے ایک زوجہ سے یہ توقع نہیں  کی جا سکتی تھی کہ وہ تنہا ان ذمہ داریوں  کو سر انجام دے سکیں  گی۔

 ایک امتی کی ذمہ داری:

            یہاں  حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شادیوں  سے متعلق جو کلام ذکر کیااس سے مقصود کفار کی طرف سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کے ا س پہلو پر کئے جانے والے اعتراضات کو ذہنوں  سے صاف کرنا تھا اور آج کے زمانے میں  چونکہ فحاشی ،عریانی اور بے حیائی عام ہے اور زیادہ شادیوں  اور کم عمر عورت سے شادی کو معاشرے میں  غلط نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، ا س لئے ہر امتی کی یہ اہم ترین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازدواجی زندگی کے ان پہلوؤں  پرغورو فکر نہ کرے اور اس حوالے سے دماغ میں  آنے والے وسوسوں  کو یہ کہہ کر جھٹک دے کہ میں  سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا امتی ہوں  اور میرا یہ ایمان ہے کہ آپ کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے حکم اور ا س کی اجازت کے بغیر نہیں  ہو سکتا،لہٰذا میں  شیطان کے وسوسوں  پر کسی صورت کان نہیں دھر سکتا۔اسی میں  ایمان کی سلامتی ہے ورنہ اس بارے میں  غوروفکر ایمان کے لئے شدید خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

33:39
الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَ یَخْشَوْنَهٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا(۳۹)
وہ جو اللہ کے پیام پہنچاتے اور اس سے ڈرتے اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ کرے، اور اللہ بس ہے حساب لینے والا (ف۱۰۲)

{اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ: وہ جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں ۔} اس آیت میں  انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصف بیان فرمایا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغامات بندوں  تک پہنچاتے ہیں اور اپنے ہر عمل میں  اس سے ڈرتے ہیں  اور وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف نہیں  کرتے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے میں  کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں  کرتے (جیسے یہاں  حضرت زینب سے نکاح کے معاملے میں  سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکمِ الٰہی پر ہر خوف و اندیشے کو دل سے نکال کر حکمِ خدا پرعمل کیا) اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے اعمال کو محفوظ فرمانے اور لوگوں  کا حساب لینے کے لئے کافی ہے تو اسی سے ہر ایک کو ڈرنا چاہئے۔( روح البیان ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : ۳۹ ، ۷ / ۱۸۲، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۵۰۳، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۹۴۳، ملتقطاً)

33:40
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰)
محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں (ف۱۰۳) ہاں اللہ کے رسول ہیں (ف۱۰۴) اور سب نبیوں کے پچھلے (ف۱۰۵) اور اللہ سب کچھ جانتا ہے،

{ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ: محمد تمہارے مردوں  میں  کسی کے باپ نہیں  ہیں ۔} جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے نکاح فرمالیاتوکفاراورمنافقین یہ کہنے لگے کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے !اس پریہ آیت نازل ہوئی اورارشادفرمایاگیاکہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تم میں  سے کسی کے باپ نہیں  تو حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بھی آپ حقیقت میں  باپ نہیں  کہ ان کی مَنکوحہ آپ کے لئے حلال نہ ہوتی ۔یاد رہے کہ حضرت قاسم ، طیب ، طاہر اور ابراہیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حقیقی فرزند تھے مگر وہ اس عمر کو نہ پہنچے کہ انہیں رجال یعنی مرد کہا جائے کیونکہ وہ بچپن میں  ہی وفات پاگئے تھے۔ (آیت میں  مذکراولاد کی نفی نہیں  بلکہ رجال یعنی بڑی عمر کے مردوں  میں  سے کسی کے باپ ہونے کی نفی ہے۔)( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۵۰۳، جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۳۵۵، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۹۴۳، ملتقطاً)

{وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ: لیکن اللہ کے رسول ہیں ۔} آیت کے شروع کے حصہ میں  فرمایا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مردوں  میں  سے کسی کے باپ نہیں  لیکن جیسے جسمانی باپ ہوتا ہے ایسے ہی روحانی باپ بھی ہوتا ہے تو فرمادیا کہ اگرچہ یہ مردوں  میں  سے کسی کے جسمانی باپ نہیں  ہیں  لیکن روحانی باپ ہیں  یعنی اللہ کے رسول ہیں  توآیت کے اِس حصے سے مراد یہ ہوا کہ تما م رسول امت کو نصیحت کرنے ،ان پر شفقت فرمانے، یونہی امت پر ان کی تعظیم و توقیر اور اطاعت لازم ہونے کے اعتبار سے اُمت کے باپ کہلاتے ہیں بلکہ اُن کے حقوق حقیقی باپ کے حقوق سے بہت زیادہ ہوتے ہیں  لیکن اس کا یہ مطلب نہیں  کہ امت ان کی حقیقی اولاد بن گئی اور حقیقی اولاد کے تمام احکام اس کے لئے ثابت ہوگئے بلکہ وہ صرف ان ہی چیزوں  کے اعتبار سے امت کے باپ ہیں  جن کا ذکر ہوا اورنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی چونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں  اور حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ان کی حقیقی اولاد نہیں  ،تو ان کے بارے میں  بھی وہی حکم ہے جو دوسرے لوگوں  کے بارے میں  ہے ۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۵۰۳، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۹۴۳، ملتقطاً)

{وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ: اور سب نبیوں  کے آخر میں  تشریف لانے والے ہیں ۔} یعنی محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آخری نبی ہیں  کہ اب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعدکوئی نبی نہیں  آئے گا اورنبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں  مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نازل ہو ں  گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں  مگر نزول کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت پر عمل پیرا ہوں  گے اور اسی شریعت پر حکم کریں  گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں  گے۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۵۰۳)

نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا آخری نبی ہو نا قطعی ہے:

یاد رہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیَّت قرآن و حدیث و اِجماعِ امت سے ثابت ہے ۔ قرآن مجید کی صریح آیت بھی موجود ہے اور اَحادیث تَواتُر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور امت کا اِجماعِ قطعی بھی ہے، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب سے آخری نبی ہیں  اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں  ۔ جو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس طرح لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہُ ماننا، اللہ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی کو اَحد، صَمد، لَا شَرِیْکَ لَہ (یعنی ایک، بے نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا) جاننا فرضِ اوّل ومَناطِ ایمان ہے، یونہی مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ماننا ان کے زمانے میں  خواہ ان کے بعد کسی نبی ٔجدید کی بِعثَت کو یقینا محال وباطل جاننا فرضِ اَجل وجزء اِیقان ہے۔ ’’وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘  نص ِقطعی قرآن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مُخَلَّد فِی النِّیْرَان (یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں  شک و تَرَدُّد کو راہ دے وہ بھی کافر بَیِّنُ الْکَافِرْ جَلِیُّ الْکُفْرَانْ (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر روشن) ہے۔( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: جزاء اللّٰہ عدوہ باباۂ ختم النبوۃ، ۱۵ / ۶۳۰)

ختمِ نبوت سے متعلق10اَحادیث:

یہاں  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے سے متعلق10اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری مثال اورمجھ سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بہت حسین وجمیل ایک گھربنایا،مگراس کے ایک کونے میں  ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ،لوگ اس کے گردگھومنے لگے اورتعجب سے یہ کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں  نہ رکھی ؟پھرآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا میں  (قصر ِنبوت کی) وہ اینٹ ہوں  اورمیں خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ  ہوں۔(مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبیین، ص۱۲۵۵، الحدیث: ۲۲(۲۲۸۶))

(2)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میرے لیے تمام روئے زمین کولپیٹ دیااورمیں  نے اس کے مشرقوں  اورمغربوں  کودیکھ لیا۔ (اور اس حدیث کے آخر میں  ارشاد فرمایا کہ) عنقریب میری امت میں تیس کذّاب ہوں  گے، ان میں سے ہرایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں  خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ہوں  اورمیرے بعدکوئی نبی نہیں  ہے ۔(ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا، ۴ / ۱۳۲، الحدیث: ۴۲۵۲)

(3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے چھ وجوہ سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فضیلت دی گئی ہے ۔(1)مجھے جامع کلمات عطاکیے گئے ہیں ۔ (2)رعب سے میری مددکی گئی ہے۔ (3)میرے لیے غنیمتوں  کوحلال کر دیا گیا ہے۔ (4)تمام روئے زمین کومیرے لیے طہارت اورنمازکی جگہ بنادیاگیاہے۔(5)مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجاگیاہے۔ (6)اورمجھ پرنبیوں  (کے سلسلے) کوختم کیاگیاہے۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۶، الحدیث: ۵(۵۲۳))

(4)…حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میرے متعدد نام ہیں ، میں  محمد ہوں ، میں  احمد ہوں ، میں  ماحی ہوں  کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں  حاشر ہوں  میرے قدموں  پر لوگوں  کا حشر ہوگا، میں  عاقب ہوں  اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔(ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی اسماء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۴ / ۳۸۲، الحدیث: ۲۸۴۹)

(5)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں  تمام رسولوں  کا قائد ہوں  اور یہ بات بطورِ فخرنہیں  کہتا، میں  تمام پیغمبروں  کا خاتَم ہوں  اور یہ بات بطورِ فخر نہیں  کہتا اور میں  سب سے پہلی شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلا شفاعت قبول کیا گیا ہوں  اور یہ بات فخر کے طور پر ارشاد نہیں  فرماتا ۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۶۳، الحدیث: ۱۷۰)

(6)…حضرت عرباض بن ساریہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میں  اللہ تعالیٰ کے حضور لوحِ محفوظ میں خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (لکھا) تھا جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی مٹی میں  گندھے ہوئے تھے۔(مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث العرباض بن ساریۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،۶ / ۸۷، الحدیث:۱۷۱۶۳)

(7)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی ،اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔(ترمذی،کتاب الرؤیا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،باب ذہبت النبوّۃ وبقیت المبشَّرات،۴ / ۱۲۱،الحدیث:۲۲۷۹)

(8)…حضرت سعدبن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے ارشاد فرمایا: ’’اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوسٰی غَیْرَ اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘(مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علیّ بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ، ص۱۳۱۰، الحدیث: ۳۱(۲۴۰۴)) یعنی کیا تم اس پر راضی نہیں  کہ تم یہاں  میری نیابت میں  ایسے رہو جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام جب اپنے رب سے کلام کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی نیابت میں  چھوڑ گئے تھے، ہاں  یہ فرق ہے کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی تھے جبکہ میری تشریف آوری کے بعد دوسرے کے لئے نبوت نہیں  اس لئے تم نبی نہیں  ہو۔

(9)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شَمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں  :حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دو کندھوں  کے درمیان مہر ِنبوت تھی اور آپ خاتَمُ النَّبِیِّیْن تھے۔(ترمذی،کتاب الرؤیا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،باب ذہبت النبوّۃ وبقیت المبشَّرات،۴ / ۱۲۱،الحدیث:۲۲۷۹)

(10)…حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں  اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں  ،لہٰذا تم اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ نمازیں  پڑھو،اپنے مہینے کے روزے رکھو،اپنے مالوں کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرو ،اپنے حُکّام کی اطاعت کرو (اور) اپنے رب کی جنت میں  داخل ہو جاؤ۔(معجم الکبیر، صدی بن العجلان ابو امامۃ الباہلی۔۔۔ الخ، محمد بن زیاد الالہانی عن ابی امامۃ، ۸ / ۱۱۵، الحدیث: ۷۵۳۵)

نوٹ: حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ختمِ نبوت کے دلائل اور مُنکروں  کے رد کے بارے میں  معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی14ویں  جلد میں  موجود رسالہ ’’اَلْمُبِیْن خَتْمُ النَّبِیِّیْن‘‘(حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے کے دلائل) اور15ویں  جلد میں  موجود رسالہ ’’جَزَاءُ اللہِ عَدُوَّہٗ بِاِبَائِہٖ خَتْمَ النُّبُوَّۃِ‘‘ (ختم نبوت کا انکار کرنے والوں  کا رد) مطالعہ فرمائیں ۔

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْاَحْزَاب
اَلْاَحْزَاب
  00:00



Download

اَلْاَحْزَاب
اَلْاَحْزَاب
  00:00



Download