READ

Surah Al-Ahzaab

اَلْاَحْزَاب
73 Ayaat    مدنیۃ


33:41
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ(۴۱)
اے ایمان والو اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو،

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو!} اس آیت میں  ایمان والوں  کو کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ذکر میں  کلمہ طیبہ کا ورد کرنا، اللہ تعالیٰ کی حمد اور بڑائی بیان کرنا وغیرہ داخل ہے اور کثر ت کے ساتھ ذکر کرنے سے (ایک) مراد یہ ہے کہ صبح ہو یا شام،سردی ہو یا گرمی تمام اوقات میںاللہ تعالیٰ کا ذکر کرو،یونہی تم خشکی میں  ہو یا سمندر میں ،ہموار زمین پر ہو یا پہاڑوں  پر تمام جگہوں  میں  اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو،اسی طرح تم مسافر ہو یا نہ ہو، تندرست ہو یا بیمار ہو، لوگوں  کے سامنے ہو یا تنہائی میں  ہو،کھڑے ہو ،بیٹھے ہو یا کروٹ کے بل لیٹے ہو،ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو، عبادت میں  اخلاص کے ذریعے،عبادت قبول ہونے کی اور عبادت کی توفیق ملنے کی دعا کر کے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو، گناہوں  سے باز آ کر اور ان سے توبہ و اِستغفار کر کے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو،نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر کر کے اور مصیبت پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔(روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۱، ۷ / ۱۹۱)

اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے3 فضائل:

            کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے فضائل اسی سورت کی آیت نمبر35کی تفسیر میں  ذکر ہوئے اور یہاں آیت کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے فضائل پر3اَحادیث ملاحظہ ہوں  تاکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے فضائل بھی معلوم ہوں اوراس میں  رغبت بھی پیداہو ۔

(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کسی شخص کاکوئی عمل ایسانہیں  جو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے زیادہ (اس کے حق میں ) اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دِلانے والاہو۔ لوگوں  نے عرض کی: کیااللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں  جہاد بھی نہیں ؟ ارشادفرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں  جہاد بھی ذکر کے مقابلے میں زیادہ نجات کا باعث نہیں  مگر یہ کہ مجاہد اپنی تلوارسے (خدا کے دشمنوں  پر) اس قدر وار کرے کہ تلوار ٹوٹ جائے۔( الدعوات الکبیر، باب ما جاء فی فضل الدعاء والذکر، ۱ / ۸۰، الحدیث: ۱۹)

(2)… حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں  تمہیں  ایسے بہترین اعمال نہ بتادوں  جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت ستھرے اور تمہارے درجے بہت بلند کرنے والے اور تمہارے لیے سونا چاندی خیرات کرنے سے بہتر ہوں  اور تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہو کہ تم دشمن سے جہاد کرکے ان کی گردنیں  مارو اور وہ تمہیں  شہید کریں  ؟صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:جی ہاں ۔ارشاد فرمایا: ’’وہ عمل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ہے۔‘‘(ترمذی، کتاب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۷-باب منہ، ۵ / ۲۴۶، الحدیث: ۳۳۸۸)

(3)…حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ ایک آدمی نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا:مجاہدین میں  سے کون اجرو ثواب میں  سب سے بڑھ کرہے ؟ارشادفرمایا’’ان میں  سے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کویادکرنے والا ہے۔اس نے عرض کی :روزہ رکھنے والوں  میں  سے کس کا اجر سب سے زیادہ ہے ؟ارشاد فرمایا’’ان میں  سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرنے والوں  کا۔پھر وہ نماز پڑھنے والوں ،زکوٰۃ دینے والوں ،حج کرنے والوں  اور صدقہ دینے والوں  کے بارے میں  پوچھتے رہے تو  رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہی ارشادفرماتے رہے کہ ان میں سے اللہ تعالیٰ کوزیادہ یادکرنے والے کا اجر سب سے زیادہ ہے۔ تو حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہااے ابوحفص!اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والے سب بھلائی لے گئے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں  (وہ بھلائی لے گئے)۔(مسند احمد، مسند المکیین، حدیث معاذ بن انس الجہنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۵ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۵۶۱۴)

            اللہ تعالیٰ ہمیں  ہر وقت اور ہر حال میں  اپنا ذکر کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کی40 برکات:

            اَحادیث میں  اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کی بہت سی دینی اور دُنْیَوی برکات بیان کی گئی ہیں  ،یونہی علماءِ کرام نے بھی اپنی کتابوں  میں  ا س کی بہت سی برکات بیان کی ہیں  ، یہاں  ان میں  سے40برکات ملاحظہ ہوں ،

            (1)اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اس کی رضاحاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔(2)اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔(3)معرفت ِالٰہی کے دروازے کھلتے ہیں ۔(4)ذکر کرنے والے کو اللہ تعالیٰ یاد فرماتا ہے۔ (5)یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلاتا ہے۔(6) بندے اور جہنم کے درمیان آڑ ہے۔(7)ذکر کرنے والاقیامت کے دن کی حسرت سے محفوظ ہوجاتا ہے۔(8)یہ خود بھی سعادت مند ہوتا ہے اور ا س کے ساتھ بیٹھنے والا بھی سعادت سے سرفراز ہوتا ہے۔(9)کثرت سے ذکر کرنا بدبختی سے امان ہے۔(10)کثرت سے ذکر کرنے والے بندے کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  افضل اور اَرفع درجہ نصیب ہو گا۔(11)سکینہ نازل ہونے اور رحمت چھا جانے کا سبب ہے۔(12)گناہوں  اور خطاؤں  کو مٹاتا ہے۔(13)اللہ تعالیٰ کے ذکر کی برکت سے بندے کا نفس شیطان سے محفوظ رہتا اور شیطان اس سے دور بھاگتا ہے ۔(14)غیبت،چغلی،جھوٹ اور فحش کلامی سے زبان محفوظ رہتی ہے۔ (15)ذِکرُ اللہ پر مشتمل کلام بندے کے حق میں  مفید ہے۔(16)ذکر دنیا میں  ،قبر میں  اور حشر میں  ذکر کرنے والے کے لئے نور ہو گا۔ (17)یہ دل سے غم اور حزن کو زائل کر دیتا ہے۔(18)دل کے لئے فرحت اور سُرُور کا باعث ہے۔ (19)دل کی حیات کا سبب ہے۔(20)دل اور بدن کو مضبوط کرتا ہے۔ (21)چہرے اور دل کو منور کرتا ہے۔ (22)دل اور روح کی غذا ہے ۔(23)دل کا زنگ دور کرتاہے۔(24)دل کی سختی ختم کردیتا ہے۔(25)بیمار دلوں  کے لئے شفا کا باعث ہے۔(26)ذکر کرنے والا زندہ کی طرح ہے اور نہ کرنے والا مردہ کی طرح ہے۔(27)ذکر آسان اور افضل عبادت ہے۔(28)ذکر کرنے سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مدد ملتی ہے۔(29)مشکلات آسان ہوتی اور تنگیاں  دور ہوتی ہیں۔(30)فرشتے ذکر کرنے والے کیلئے مغفرت طلب کرتے ہیں ۔(31)ذکر کی مجلسیں  فرشتوں  کی مجلسیں  ہیں ۔ (32)اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے ذکر کرنے والوں  کے ذریعے مباہات فرماتا ہے۔ (33)کثرت سے ذکر کرنے والا منافق نہیں  ہو سکتا۔(34)بندوں  کے دل سے مخلوق کا خوف نکال دیتا ہے۔ (35)ذکر شکر کی بنیاد ہے۔ (36)ذکر کرنارزق ملنے کا سبب ہے۔(37)ذکر میں  مشغول رہنے والا مانگنے والوں  سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عطا پاتا ہے۔ (38)کثرت سے ذکر کرنا فلاح و کامیابی کا سبب ہے۔(39)ہمیشہ ذکر کرنے والا جنت میں  داخل ہو گا۔ (40)ذکر کے حلقے دنیا میں  جنت کے باغات ہیں ۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں  کثرت سے اپنا ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں  ا س کی برکتیں  نصیب فرمائے، اٰمین۔

33:42
وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۴۲)
اور صبح و شام اس کی پاکی بولو (ف۱۰۶)

{وَ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا: اور صبح و شام اس کی پاکی بیان کرو۔} ارشاد فرمایا کہ صبح و شام ہر نقص و عیب سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرو۔یہاں  صبح اور شام کا خاص طور پرذکر اس لئے ہو ا کہ یہ دونوں اوقات دن اور رات کے فرشتوں  کے جمع ہونے کے وقت ہیں  اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صبح اور شام یعنی دن کے دونوں  اَطراف کا ذکر کرنے سے ذکر کی مُداوَمَت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، یعنی ہمیشہ ذکر کرو ۔نیز بعض مفسرین نے صبح و شام اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے پانچوں  نمازوں  کو ادا کرنا بھی مراد لیا ہے۔(روح البیان ، الاحزاب ، تحت الآیۃ: ۴۲ ، ۷ / ۱۹۳ ، مدارک ، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۹۴۴، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۵۰۴، ملتقطاً)

33:43
هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓىٕكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِؕ-وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا(۴۳)
وہی ہے کہ درود بھیجتا ہے تم پر وہ اور اس کے فرشتے (ف۱۰۷) کہ تمہیں اندھیریوں سے اجالے کی طرف نکالے (ف۱۰۸) اور وہ مسلمانوں پر مہربان ہے،

{هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ: وہی (اللہ) ہے جوتم پر رحمت بھیجتا ہے۔} شانِ نزول: حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ جب آیت ’’اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ‘‘ نازل ہوئی تو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ کو اللہ تعالیٰ کوئی فضل اور شرف عطا فرماتا ہے تو ہم نیاز مندوں  کو بھی آپ کے طفیل میں  نوازتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ جب اللہ تعالیٰ نے آیت ’’اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ‘‘ نازل فرمائی تو مہاجر اور انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ شرف تو خاص آپ کے لئے ہے لیکن ا س میں  ہمارے لئے کوئی فضیلت نہیں ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا’’وہی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے جوتم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے تمہارے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں  اپنی رحمت اور فرشتوں  کی دعا کے صدقے کفر ، مَعصِیَت اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہ کرنے کی اندھیریوں  سے حق ، ہدایت اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کی روشنی کی طرف ہدایت فرمائے اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں  پر مہربان ہے۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۵۰۴، قرطبی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۳، ۷ / ۱۴۶، الجزء الرابع عشر، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۹۴۴، ملتقطاً)

آیت ’’هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓىٕكَتُهٗ‘‘ سے متعلق دو باتیں :

            یہاں  اس آیت سے متعلق دو باتیں  یاد رکھیں ،

(1)…اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کوجو یہ شرف عطا فرمایا کہ وہ ایمان والوں  پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے مسلمانوں  کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ،یہ اس امت کے حق میں  اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور دیگر تمام امتوں  سے افضل ہونے کی دلیل ہے۔

(2)…اللہ تعالیٰ صرف ان مسلمانوں  پر ہی مہربان نہیں  جو اس آیت کے نزول کے وقت تھے بلکہ اس میں  تمام مسلمانوں  کے لئے بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر مہربان ہے۔

33:44
تَحِیَّتُهُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَهٗ سَلٰمٌۖۚ-وَ اَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِیْمًا(۴۴)
ان کے لیے ملتے وقت کی دعا سلام ہے (ف۱۰۹) اور ان کے لیے عزت کا ثواب تیار کر رکھا ہے،

{تَحِیَّتُهُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَهٗ سَلٰمٌ: ان کے لیے ملتے وقت کا ابتدائی کلام سلام ہوگا۔} ملتے وقت سے مراد یا موت کا وقت ہے یا قبروں  سے نکلنے کا یااس سے جنت میں  داخل ہونے کا وقت مراد ہے ۔ مروی ہے کہ حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کسی مومن کی روح اس کو سلام کئے بغیر قبض نہیں  فرماتے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ جب حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام مومن کی روح قبض کرنے آتے ہیں  تو کہتے ہیں  : تیرا ربّ تجھے سلام فرماتا ہے اور ایک روایت میں  یہ بھی ہے کہ مومنین جب قبروں  سے نکلیں  گے تو فرشتے سلامتی کی بشارت کے طور پر انہیں  سلام کریں  گے۔(جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۴، ۶ / ۱۸۰، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۵۰۴، ملتقطاً)

33:45
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵)
(اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر (ف۱۱۰) اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا (ف۱۱۱)

{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا: اے نبی!بیشک ہم نے تمہیں  گواہ بنا کر بھیجا ۔} آیت کے اس حصے میں  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے۔ شاہد کا ایک معنی ہے حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے گواہ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شاہدکا ترجمہ ’’حاضرناظر ‘‘ فرمایا ہے ،اس کے بارے میں  صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے ، مفرداتِ راغب میں  ہے ’’اَلشُّھُوْدُ وَ الشَّھَادَۃُ اَلْحُضُوْرُ مَعَ الْمُشَاھَدَۃِ اِمَّا بِالْبَصَرِ اَوْ بِالْبَصِیْرَۃِ‘‘ یعنی شہود اور شہادت کے معنی ہیں  حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے ،بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ۔(خزائن العرفان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۷۸۴)

          اگر اس کا معنی ’’گواہ‘‘ کیا جائے تو بھی مطلب وہی بنے گا جو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ترجمے میں  لکھا، کیونکہ گواہ کو بھی اسی لئے شاہد کہتے ہیں  کہ وہ مشاہدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے اس کو بیان کرتا ہے اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چونکہ تمام عالَم کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں  اور آپ کی رسالت عامہ ہے ،جیسا کہ سورہِ فرقان کی پہلی آیت میں  بیان ہواکہ

’’ تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا‘‘(فرقان:۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ (اللہ) بڑی برکت والا ہے جس  نے اپنے بندے پرقرآن نازل فرمایا تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سنانے والا ہو۔

             اس لئے حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قیامت تک ہونے والی ساری مخلوق کے شاہد ہیں  اور ان کے اعمال ، افعال ، احوال ، تصدیق ، تکذیب ، ہدایت اور گمراہی سب کا مشاہدہ فرماتے ہیں ۔(ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۵، ۴ / ۳۲۵، جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۱۸۰، ملتقطاً)

حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حاضر و ناظر ہیں :

             اہلسنّت کا یہ عقیدہ ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی عطا سے حاضر و ناظر ہیں  اور یہ عقیدہ آیات،اَحادیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال سے ثابت ہے ،یہاں  پہلے ہم حاضر وناظر کے لغوی اور شرعی معنی بیان کرتے ہیں  ،اس کے بعد ایک آیت ،ایک حدیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال میں  سے ایک شخصیت کا قول ذکر کریں  گے،چنانچہ حاضر کے لغوی معنی ہیں  سامنے موجود ہونا یعنی غائب نہ ہونا اور ناظر کے کئی معنی ہیں  جیسے دیکھنے والا، آنکھ کا تل،نظر،ناک کی رگ اور آنکھ کا پانی وغیرہ اور عالَم میں  حاضر و ناظر کے شرعی معنی یہ ہیں  کہ قُدسی قوت والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالَم کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح دیکھے اور دور و قریب کی آوازیں  سنے یا ایک آن میں  تمام عالَم کی سیر کرے اور سینکڑوں  میل دور حاجت مندوں  کی حاجت روائی کرے ۔یہ رفتار خواہ روحانی ہو یا جسمِ مثالی کے ساتھ ہو یا اسی جسم سے ہو جو قبر میں  مدفون ہے یا کسی جگہ موجود ہے ۔(جاء الحق،حاضر وناظر کی بحث، ص۱۱۶، ملخصاً)

            سورہِ اَحزاب کی آیت نمبر 6میں  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ‘‘ یعنی نبی کریم (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) مسلمانوں  کے ان کی جانوں  سے زیادہ قریب ہیں ۔اور یہ بات ظاہر ہے کہ جو قریب ہوتا ہے وہ حاضر بھی ہوتا ہے اور ناظر بھی ۔

            حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میرے سامنے کر دی ہے، لہٰذا میں  ساری دنیا کو اور جو کچھ دنیا میں  قیامت تک ہونے والا ہے سب کا سب یوں  دیکھ رہا ہوں  جیسے اس ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔( کنز العمال، کتاب الفضائل، الباب الاول فی فضائل سیدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، الفصل الثالث، ۶ / ۱۸۹، الحدیث: ۳۱۹۶۸، الجزء الحادی عشر)

            شاہ عبد الحق محد ث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (اہلِ حق میں  سے) اس مسئلہ میں  کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں  ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی حقیقی زندگی مبارکہ کے ساتھ دائم اور باقی ہیں  اور امت کے احوال پر حاضر وناظر ہیں  اور حقیقت کے طلبگاروں  کو اور ان حضرات کو جو آپ کی طرف متوجہ ہیں  ،ان کو فیض بھی پہنچاتے ہیں  اور ان کی تربیت بھی فرماتے ہیں  اور اس میں  نہ تو مجاز کا شائبہ ہے نہ تاویل کا بلکہ تاویل کا وہم بھی نہیں۔(مکتوبات شیخ مع اخبارالاخیار،الرسالۃ الثامنۃ عشر سلوک اقرب السبل بالتوجّہ الی سیّد الرسل صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم، ص۱۵۵)

            نوٹ:نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حاضر و ناظر ہونے سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے مفتی احمد یار خاں  نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’جاء الحق‘‘ اور اس مسئلے سے متعلق دیگر علماءِ اہلسنّت کی کتب کا مطالعہ فرمائیں ۔

 کیا اللہ تعالیٰ کو حاضرو ناظر کہہ سکتے ہیں ؟

            یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو حاضر و ناظر ہیں  جبکہ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر نہیں  کہہ سکتے کیونکہ حاضر و ناظر کے جو لغوی اور حقیقی معنی ہیں  وہ اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حاضر و ناظر کا اِطلاق بھی باری عَزَّوَجَلَّ پر نہ کیا جائے گا۔ علماءِ کرام کو اس کے اطلاق میں  یہاں  تک حاجت ہوئی کہ اس (کا اطلاق کرنے والے) پر سے نفیٔ تکفیر فرمائی۔(فتاویٰ رضویہ، کتاب الشتی، عروض وقوافی، ۲۹ / ۵۴)

            دوسرے مقام پر فرماتے ہیں’’اُسے (یعنی اللہ تعالیٰ کو) حاضر و ناظر بھی نہیں  کہہ سکتے، وہ شہید و بصیر ہے، حاضر و ناظر اس کی عطا سے اُس کے محبوب عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔( فتاویٰ رضویہ، عقائد وکلام ودینیات، ۲۹ / ۳۳۳)

{وَ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا: اورخوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔} یہاں  سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دو اَوصاف بیان کئے گئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایمانداروں  کو جنت کی خوشخبری دینے والااور کافروں  کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ۔(مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۹۴۴)

{وَ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا۔} آیت کے اس حصے میں  حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چوتھے وصف کا بیان ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کوخدا کے حکم سے لوگوں  کو خدا کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔(روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۶، ۷ / ۱۹۶، جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۳۵۵، ملتقطاً)

{وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا: او ر چمکادینے والا ا ٓ فتاب۔} یہاں  سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پانچواں  وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔ اس کے بارے میں  صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :سراج کا ترجمہ آفتاب قرآنِ کریم کے بالکل مطابق ہے کہ اس میں  آفتاب کو سراج فرمایا گیا ہے، جیسا کہ سورۂ نوح میں’’وَ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا‘‘ اور آخر پارہ کی پہلی سورت  میں  ہے ’’وَ جَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا‘‘ اور درحقیقت ہزاروں  آفتابوں  سے زیادہ روشنی آپ کے نورِ نبوت نے پہنچائی اورکفر و شرک کے ظلماتِ شدیدہ کو اپنے نورِ حقیقت افروز سے دور کر دیا اور خَلق کے لئے معرفت و تَوحید ِالٰہی تک پہنچنے کی راہیں  روشن اور واضح کر دیں  اور ضلالت کی وادیٔ تاریک میں  راہ گم کرنے والوں  کو اپنے انوارِ ہدایت سے راہ یاب فرمایا اور اپنے نورِ نبوت سے ضمائر وبَصائر اور قُلوب و اَرواح کو منور کیا ، حقیقت میں  آپ کا وجود مبارک ایسا آفتابِ عالَم تاب ہے جس نے ہزارہاآفتاب بنا دیئے ،اسی لئے اس کی صفت میں  منیر ارشاد فرمایا گیا۔(خزائن العرفان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۷۸۴)

33:46
وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶)
اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا (ف۱۱۲) او ر چمکادینے دینے والا ا ٓ فتاب (ف۱۱۳)

33:47
وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا(۴۷)
اور ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لیے اللہ کا بڑا فضل ہے،

{وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ: اور ایمان والوں  کو خوشخبری دیدو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ میں  ایسے عظیم اَوصاف پائے جاتے ہیں  تو آپ ایمان والوں  کو یہ خوشخبری دے دیں  کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے۔ بڑے فضل سے مراد جنت ہے ،یا اس سے یہ مراد ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے ایمان والوں  کا رتبہ اور شرف دیگر امتوں  کے ایمان والوں  سے زیادہ ہے۔یا اس سے یہ مراد ہے کہ فضل و احسان کے طور پر انہیں  نیک اعمال کا اجر زیادہ دیا جائے گا۔(صاوی مع جلالین،الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۷، ۵ / ۱۶۴۵، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۷، ۷ / ۱۹۹، ملتقطاً)

خوشخبری دو ،نفرتیں  نہ پھیلاؤ:

            اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا ہے اورحضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بشارت دینے کا حکم بھی ارشادفرمایا ہے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود بھی اس ذمہ داری کوبڑ ی خوبی سے نبھایا ہے اور امت کو بھی خوشخبری دینے اور نفرتیں  نہ پھیلانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ،چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’خوشخبری دو نفرتیں  نہ پھیلاؤ،لوگوں  کی آسانی ملحوظ رکھو اور انہیں  سختی میں  نہ ڈالو۔(بخاری، کتاب العلم، باب ما کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتخوّلہم بالموعظۃ۔۔۔ الخ،۱ / ۴۲، الحدیث: ۶۹)

             حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پریہ آیت نازل ہوئی ’’یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا‘‘ تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اورحضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو بلایا، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان دونوں  کویمن کی طرف جانے کاحکم دے چکے تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’تم دونوں  جاکرلوگوں  کوبشارت دینا اور انہیں مُتَنَفِّرنہ کرنا،لوگوں  کی آسانی ملحوظ رکھنا اور انہیں  سختی میں  نہ ڈالنا۔(معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، ۱۱ / ۲۴۷، الحدیث: ۱۱۸۴۱)

اللہ تعالیٰ ہمیں  خوشخبری دینے اور نفرتیں  مٹانے والا بننے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

33:48
وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ دَعْ اَذٰىهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا(۴۸)
اور کافروں اور منافقوں کی خوشی نہ کرو اور ان کی ایذا پر درگزر فرماؤ (ف۱۱۴) اور اللہ پر بھروسہ رکھو، اور اللہ بس ہے کارساز،

{وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ: اور کافروں  اور منافقوں  کی بات نہ مانو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مکہ کے کافروں  اور مدینہ کے منافقوں  کی بات نہ ماننے اور ان کی مخالفت کرنے پر ثابت قدم رہیں  اور جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو کوئی حکم نہیں  دیا جاتا تب تک آپ ان کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں  سے درگزر فرماتے رہیں  اور بطورِ خاص اس معاملے میں  اور عمومی طور پر تمام اُمور میں  اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے رہیں  اور جو دُنْیَوی اور اُخروی اُمور میں  اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اسے کافی ہے ۔(روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۸، ۷ / ۱۹۹-۲۰۰، جلالین مع صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۸، ۵ / ۱۶۴۵- ۱۶۴۶، ملتقطاً)

توکّل ایک عظیم کام ہے :

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا عظیم کام ہے لہٰذا بندے کو چاہئے کہ وہ اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر توکل کرے اور اسی پر بھروسہ رکھے اور اپنا معاملہ اسی کے سپرد کر دے کیونکہ جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام دُنیوی اور اُخروی امور میں  اسے کافی ہوتا ہے۔

            مسلمانوں  کو توکل کی ترغیب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’اِنْ  یَّنْصُرْكُمُ  اللّٰهُ  فَلَا  غَالِبَ  لَكُمْۚ-وَ  اِنْ  یَّخْذُلْكُمْ  فَمَنْ  ذَا  الَّذِیْ  یَنْصُرُكُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِهٖؕ-وَ  عَلَى  اللّٰهِ  فَلْیَتَوَكَّلِ  الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘(ال عمران:۱۶۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر  غالب نہیں  آسکتا اور اگر وہ تمہیں  چھوڑ دے تو پھراس کے بعد کون تمہاری مدد کرسکتا ہے؟ اور مسلمانوں  کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے :

’’وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ‘‘( طلاق:۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔

            اور توکل کرنے والوں  کی جزا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : ’’وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَۗۖ(۵۸) الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ‘‘(عنکبوت:۵۸،۵۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک جو ایمان لائے اورانہوں  نے اچھے کام کئے ضرور ہم انہیں  جنت کے بالا خانوں  پر جگہ دیں  گے جن کے نیچے نہریں  بہتی ہوں  گی ہمیشہ ان میں  رہیں   گے، عمل کرنے والوں  کیلئے کیا ہی اچھا اجر ہے۔ وہ جنہوں  نے صبر کیااور اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں  توکل جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمائے،اٰمین۔

33:49
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَاۚ-فَمَتِّعُوْهُنَّ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا(۴۹)
اے ایمان والو! جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں بے ہاتھ لگائے چھوڑ دو تو تمہارے لیے کچھ عدت نہیں جسے گنو (ف۱۱۵) تو انہیں کچھ فائدہ دو (ف۱۱۶) اور اچھی طرح سے چھوڑ دو (ف۱۱۷)

{اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ: جب تم مسلمان عورتوں  سے نکاح کرو پھر انہیں  بغیر ہاتھ لگائے طلاق دیدو۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر عورت کو ازدواجی تعلق قائم کرنے سے پہلے طلاق دی تو اس پر عدت واجب نہیں  ۔یہاں  اس سے متعلق مزید دو مسائل بھی ملاحظہ ہوں ،

(1)…خَلْوَتِ صحیحہ قربت کے حکم میں  ہے، تو اگر خلوتِ صحیحہ کے بعد طلاق واقع ہو تو عدت واجب ہوگی اگرچہ ازدواجی تعلق قائم نہ ہوا ہو ۔

(2)…یہ حکم مومنہ اور کتابیہ دونوں  عورتوں  کو عام ہے ،لیکن آیت میں  مومنات کا ذکر فرمانا اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ مومنہ سے نکاح کرنا اَولی ہے ۔

            نوٹ:یاد رہے کہ فی زمانہ تمام اہلِ کتاب حربی ہیں  اور حربیہ کتابیہ سے نکاح جائز نہیں  بلکہ ممنوع اور گناہ ہے لیکن اگرکر لیا تو نکاح ہو جائے گا اوریہ حکم بھی اس وقت ہے کہ واقعی کتابیہ ہو اور اگر نام کی کتابیہ حقیقت میں  لامذہب دَہْرِیَّہ ہے تو اس سے نکاح اصلا ًنہ ہوگا ۔

{فَمَتِّعُوْهُنَّ: تو انہیں فائدہ پہنچاؤ۔} فائدہ پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ اگر عورت کا مہر مقرر ہو چکا تھا تو خَلْوَت سے پہلے طلاق دینے سے شوہر پر نصف مہر واجب ہو گا اور اگر مہر مقرر نہیں  ہوا تھا تو ایک جوڑا دینا واجب ہے جس میں  تین کپڑے ہوتے ہیں  ۔

{وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا: اور انہیں  اچھے طریقے سے چھوڑو۔} اچھی طرح چھوڑنا یہ ہے کہ ان کے حقوق ادا کر دیئے جائیں  اور ان کو کوئی ضَرَر نہ دیا جائے اور انہیں  روکا نہ جائے کیونکہ ان پر عدّت نہیں  ہے ۔

33:50
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِیْۤ اٰتَیْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَ مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَیْكَ وَ بَنٰتِ عَمِّكَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَ بَنٰتِ خَالِكَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِیْ هَاجَرْنَ مَعَكَ٘-وَ امْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْكِحَهَاۗ-خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِیْۤ اَزْوَاجِهِمْ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ لِكَیْلَا یَكُوْنَ عَلَیْكَ حَرَجٌؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۵۰)
اے غیب بتانے والے (نبی)! ہم نے تمہارے لیے حلال فرمائیں تمہاری وہ بیبیاں جن کو تم مہر دو (ف۱۱۸) اور تمہارے ہاتھ کا مال کنیزیں جو اللہ نے تمہیں غنیمت میں دیں (ف۱۱۹) اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور پھپیوں کی بیٹیاں اور ماموں کی بیٹیاں اور خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی (ف۱۲۰) اور ایمان والی عورت اگر وہ اپنی جان نبی کی نذر کرے اگر نبی اسے نکاح میں لانا چاہے (ف۱۲۱) یہ خاص تمہارے لیے ہہے امت کے لیے نہیں (ف۱۲۲) ہمیں معلوم ہے جو ہم نے مسلمانوں پر مقرر کیا ہے ان کی بیبیوں اور ان کے ہاتھ کی مال کنیزوں میں (ف۱۲۳) یہ خصوصیت تمہاری (ف۱۲۴) اس لیے کہ تم پر کوئی تنگی نہ ہو، اور اللہ بخشنے والا مہربان،

{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ : اے نبی!۔} اس آیت میں  نکاح سے متعلق نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خصوصیت بیان فرمائی گئی اورجن عورتوں  سے نکاح کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے حلال فرمایا، یہاں  ان کی چار قسمیں  بیان کی گئی ہیں  ،ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔

(1)… وہ عورتیں  جنہیں  نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مہر عطا فرمایا ،جیسے حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا۔

 (2)…وہ عورتیں  جو مال غنیمت میں  حاصل ہوئیں ، جیسے حضرت صفیہ اورحضرت جویریہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، انہیں  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آزاد فرمایا اور ان سے نکاح کیا ۔

 (3)…نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا کی بیٹیاں  ، پھوپھیوں  کی بیٹیاں  ، ماموؤں  کی بیٹیاں  اور خالاؤں  کی بیٹیاں  جنہوں  نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہجرت کی۔

            ساتھ ہجرت کرنے سے مراد یہ ہے کہ ہجرت کرنے میں  حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کی خواہ انہوں  نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے ہجرت کی ہو یا بعد میں  کی ہو اور یہ قید بھی افضل کا بیان ہے کیونکہ ساتھ ہجرت کرنے کے بغیر بھی ان میں  سے ہر ایک (سے نکاح کرنا) حلال ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خاص حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حق میں  ان عورتوں  کا حلال ہونا اس قید کے ساتھ مُقَیَّد ہو جیسا کہ حضرت اُمِّ ہانی بنتِ ابو طالب کی روایت اس طرف اشارہ کرتی ہے،چنانچہ آپ فرماتی ہیں  کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے نکاح کا پیغام دیا تو میں  نے (بچوں  والی ہونے کا) عذر پیش کیا،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میرے عذر کو قبول فرما لیا،پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو میں  ان کے لئے حلال نہ کی گئی کیونکہ میں  نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہجرت نہ کی تھی۔

 (4)… اس مومنہ عورت کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے حلال کر دیا جو مہر اور نکاح کی شرائط کے بغیر اپنی جان آپ کو ہِبہ کردے البتہ اس میں  شرط یہ ہے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسے نکاح میں  لانے کا ارادہ فرمائیں  تو وہ حلال ہے۔

             حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اس میں  آئندہ کے حکم کابیان ہے کیونکہ اس آیت کے نزول کے وقت حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواج میں  سے کوئی بھی ایسی نہ تھیں  جو ہبہ کے ذریعے زوجیت سے مشرف ہوئی ہوں ۔

{خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ: یہ خاص تمہارے لیے ہے، دیگر مسلمانوں  کیلئے نہیں ۔} یعنی مہر کے بغیر نکاح کرنا خاص آ پ کے لئے جائز ہے اُمت کے لئے نہیں  ، امت پر بہرحال مہر واجب ہے خواہ وہ مہر مُعَیَّن نہ کریں  یا جان بوجھ کر مہر کی نفی کردیں۔(تفسیرات احمدیہ، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۶۲۸)

{قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ: ہمیں  معلوم ہے جو ہم نے مسلمانوں  پر مقرر کیا ہے۔} یعنی ہم نے مسلمانوں  پر ان کی بیویوں  کے حق میں  جو کچھ مقرر فرمایا ہے جیسے مہر ادا کرنا اور نکاح کے لئے گواہوں  کا ہونا اور بیویوں  میں  باری کا واجب ہونا اور چار آزاد عورتوں  تک کو نکاح میں  لانااور ان کی ملکیت میں  موجود کنیزوں  کے بارے میں  جو احکام لازم کئے وہ ہمیں  معلوم ہیں ۔(تفسیرات احمدیہ، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۶۲۹)

            اس سے معلوم ہوا کہ شرعاً مہر کی مقدار اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقرر ہے اور وہ دس درہم ہیں  جس سے کم کرنا ممنوع ہے جیسا کہ حدیث شریف میں  ہے کہ دس درہم سے کم کوئی مہر نہیں ۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۱۰، الحدیث: ۳)

{لِكَیْلَا یَكُوْنَ عَلَیْكَ حَرَجٌ: تاکہ تم پر کوئی تنگی نہ ہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نکاح کے معاملے میں  آپ کے لئے خصوصی رعایتیں  اس لئے ہیں تاکہ آپ پر کوئی تنگی نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  کے تمام گناہوں  کوبخشنے والا اور ان پر مہربان ہے۔

33:51
تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَ تُـْٔوِیْۤ اِلَیْكَ مَنْ تَشَآءُؕ-وَ مَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكَؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُهُنَّ وَ لَا یَحْزَنَّ وَ یَرْضَیْنَ بِمَاۤ اٰتَیْتَهُنَّ كُلُّهُنَّؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا(۵۱)
پیچھے ہٹاؤ ان میں سے جسے چاہو اور اپنے پاس جگہ دو جسے چاہو (ف۱۲۵) اور جسے تم نے کنارے کردیا تھا اسے تمہارا جی چاہے تو اس میں بھی تم پر کچھ گناہ نہیں (ف۱۲۶) یہ امر اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور غم نہ کریں اور تم انہیں جو کچھ عطا فرماؤ اس پر وہ سب کی سب راضی رہیں (ف۱۲۷) اور اللہ جانتا ہے جو تم سب کے دلوں میں ہے، اور اللہ علم و حلم والا ہے،

{تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ: ان میں  سے جسے چاہو پیچھے ہٹاؤ۔} اس سے پہلی آیت میں  ان عورتوں  کا بیان ہوا جن سے نکاح کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے حلال فرمایا اور اس آیت میں  اَزواجِ مُطَہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے ساتھ سلوک کے حوالے سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دئیے گئے خصوصی اختیار بیان کئے جا رہے ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ جس زوجہ کو چاہیں  اپنے سے دور رکھیں  اور جسے چاہیں  اپنے پاس رکھیں  اوراَزواجِ مُطَہّرات میں  باری مقرر کریں  یا نہ کریں ۔ دوسرا قول حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی ہے کہ یہ آیت ان عورتوں  کے حق میں  نازل ہوئی جنہوں  نے اپنی جانیں  حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نذر کیں  اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اختیار دیا گیا کہ ان میں  سے جس کو چاہیں  قبول کریں  اس کے ساتھ نکاح فرمائیں  اور جس کو چاہیں  انکار فرما دیں ۔(جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۱، ۶ / ۱۸۷، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۹۴۷، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۵۰۷، ملتقطاً)

اَزواجِ مُطَہّرات میں  عدل سے متعلق حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت:

            اَزواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ میں  عدل کرنے یا نہ کرنے سے متعلق خصوصی اختیار ملنے کے باوجود تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مبارک عمل یہ تھا کہ آپ تمام ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے ساتھ عدل فرماتے اور ان کی باریاں  برابر رکھتے ،سوائے حضرت سودہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے، جنہوں  نے اپنی باری کا دن اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو دے دیا تھا اور بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  عرض کیا تھا کہ میرے لئے یہی کافی ہے کہ میرا حشر آپ کی اَزواجِ مُطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ میں  ہو ۔

             سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس عمل مبارک میں  بعد والے لوگوں  کے لیے بڑی نصیحت ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اختیار ملنے کے باوجود اپنی ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ میں  عدل فرمایا تو جن لوگوں  کو یہ اختیار حاصل نہیں  بلکہ ان پر عدل کرنا ہی لازم ہے تو انہیں  کس درجہ عدل کرنے کی ضرورت ہے۔ افسوس! ہمارے معاشرے میں  لوگ دو یاتین شادیاں  تو کر لیتے ہیں  لیکن سب بیویوں  کے درمیان عدل و انصاف سے کام نہیں  لیتے۔ اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔

{مِمَّنْ عَزَلْتَ: جسے تم نے علیحدہ کردیا تھا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے ازواجِ مطہرات میں  سے جس کو معزول کر دیا ہویا جس کی باری کو ساقط کر دیا ہو،اس کی طرف آپ جب چاہیں  اِلتفات فرمائیں  اور اس کو نوازیں  ،اس کا آپ کو اختیار دیا گیا ہے اور یہ اختیار اس بات کے زیادہ نزدیک ہے کہ ان کی آنکھیں  ٹھنڈی ہوں  اور وہ غم نہ کریں  اور تم انہیں  جو کچھ عطا فرماؤ اس پر وہ سب کی سب راضی رہیں  کیونکہ جب وہ یہ جانیں  گی کہ یہ تَفویض اور یہ اختیار آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا ہے تو ان کے دل مطمئن ہو جائیں  گے ۔ اور اے لوگو! اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو عورتوں  کے معاملے میں  اور ان میں  سے بعض کی طرف مائل ہونے سے متعلق تم سب کے دلوں  میں  ہے اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ علم والا، حلم والا ہے۔(مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۹۴۷، جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۳۵۶، ملتقطاً)

33:52
لَا یَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْۢ بَعْدُ وَ لَاۤ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا۠(۵۲)
ان کے بعد (ف۱۲۸) اور عورتیں تمہیں حلال نہیں (ف۱۲۹) اور نہ یہ کہ ان کے عوض اور بیبیاں بدلو (ف۱۳۰) اگرچہ تمہیں ان کا حسن بھائے مگر کنیز تمہارے ہاتھ کا مالک (ف۱۳۱) اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے،

{لَا یَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْۢ بَعْدُ: ان کے بعد عورتیں  تمہارے لئے حلال نہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ کے نکاح میں  موجودان 9 اَزواجِ مُطَہَّرات کے بعد جنہیں  آپ نے اختیار دیا تو انہوں  نے اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اختیار کیا،مزید عورتیں  آپ کے لئے حلال نہیں  اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں  طلاق دے کر ان کی جگہ دوسری عورتوں  سے نکاح کر لیں ۔ ان اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی یہ عزت افزائی اس لئے ہے کہ جب حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں  اختیار دیا تھا تو انہوں  نے اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اختیار کیا اوردنیا کی آسائشوں  کو ٹھکرا دیا، چنانچہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں  پر اِکتفا فرمایا اورعمر مبارک کے آخر تک یہی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  رہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ آخر میں  حضورانور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے حلال کر دیا گیا تھا کہ جتنی عورتوں  سے چاہیں  نکاح فرمائیں ، اس صورت میں  یہ آیت منسوخ ہے اور اس کی ناسخ آیت’’اِنَّاۤ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ۔۔۔الآیۃ ‘‘ ہے۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۹۴۷-۹۴۸)

{اِلَّا مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ: مگر تمہاری کنیزیں  جو تمہاری ملکیت میں  ہوں ۔} یعنی ان اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ میں  سے کسی کو طلاق دے کر دوسری عورت سے نکاح کرنا حلال نہیں  اگرچہ آپ کو اس کا حسن و جمال پسند آئے البتہ آپ کی وہ کنیزیں  جو آپ کی ملکیت میں  ہوں  وہ آپ کے لئے حلال ہیں  ا ور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگہبان ہے اس لئے کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی حدوں  سے تَجاوُز نہ کرے۔

             اس کے بعد حضرت ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  حضوراکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ملک میں  آئیں  اور ان سے حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرزند حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ پیدا ہوئے جنہوں  نے چھوٹی عمر میں  وفات پائی۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۵۰۸، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۹۴۸، جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۳۵۶، ملتقطاً)

33:53
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ- وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْــٴَـلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍؕ-ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّؕ-وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًاؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا(۵۳)
اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں (ف۱۳۲) نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ (ف۱۳۳) مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو (ف۱۳۴) ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ (ف۱۳۵) بیشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے (ف۱۳۶) اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا، اور جب تم ان سے (ف۱۳۷) برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر مانگو، اس میں زیادہ ستھرائی ہے تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کی (ف۱۳۸) اور تمہیں نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ کو ایذا دو (ف۱۳۹) اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کرو (ف۱۴۰) بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت بات ہے (ف۱۴۱)

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو!۔} مفسرین نے اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق مختلف روایات ذکر کی ہیں ، ان میں  سے دو روایات درج ذیل ہیں ،

(1)…جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے نکاح کیا اور ولیمہ کی عام دعوت فرمائی تو لوگ جماعت کی صورت میں  آتے اور کھانے سے فارغ ہو کر چلے جاتے تھے۔ آخر میں  تین صاحب ایسے تھے جو کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھے رہ گئے اور انہوں  نے گفتگو کا طویل سلسلہ شروع کر دیا اور بہت دیر تک ٹھہرے رہے۔ مکان تنگ تھا تو اس سے گھر والوں  کو تکلیف ہوئی اور حرج واقع ہوا کہ وہ ان کی وجہ سے اپنا کام کاج کچھ نہ کر سکے۔ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اٹھے اور ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے حجروں  میں  تشریف لے گئے اور جب دورہ فرما کر تشریف لائے تو اس وقت تک یہ لوگ اپنی باتوں  میں  لگے ہوئے تھے۔ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پھر واپس ہو گئے تو یہ دیکھ کر وہ لوگ روانہ ہوئے، تب حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دولت سرائے میں  داخل ہوئے اور دروازے پرپردہ ڈال دیا، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

(2)…مسلمانوں  میں  سے کچھ لوگ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کھانے کے وقت کا انتظار کرتے رہتے تھے، پھر وہ آپ کے حجروں  میں  داخل ہو جاتے اور کھانا ملنے تک وہیں  بیٹھے رہتے،پھر کھانا کھانے کے بعد بھی وہاں  سے نکلتے نہ تھے اور اس سے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اَذِیَّت ہوتی تھی،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

            اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو!میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گھروں  میں  یونہی حاضر نہ ہو جاؤ بلکہ جب اجازت ملے جیسے کھانے کیلئے بلایا جائے تو حاضر ہوا کرو اور یوں  بھی نہ ہو کہ خودہی میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گھر میں  بیٹھ کر کھانا پکنے کاانتظار کرتے رہو، ہاں  جب تمہیں  بلایا جائے تو اس وقت ان کی بارگاہ میں  حاضری کے احکام اور آداب کی مکمل رعایت کرتے ہوئے ان کے مقدس گھر میں  داخل ہوجاؤ، پھر جب کھانا کھا کر فارغ ہو جاؤتو وہاں  سے چلے جاؤ اور یہ نہ ہو کہ وہاں  بیٹھ کر باتوں  سے دل بہلاتے رہو کیونکہ تمہارا یہ عمل اہلِ خانہ کی تکلیف اور ان کے حرج کاباعث ہے۔ بیشک تمہارا یہ عمل گھر کی تنگی وغیرہ کی وجہ سے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دیتا تھا لیکن وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور تم سے چلے جانے کے لئے نہیں  فرماتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ حق بیان فرمانے کو ترک نہیں  فرماتا۔(روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ:۵۳،۷ / ۲۱۳-۲۱۴، جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ:۵۳، ص۳۵۶-۳۵۷، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۹۴۸-۹۴۹، ملتقطاً)

آیت ’’لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے چار باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضری کے آداب خود بیان فرمائے، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  جو مقام حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حاصل ہے وہ مخلوق میں  سے کسی اور کو حاصل نہیں ۔

(2) … آیت کے اس حصے ’’اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ‘‘ سے معلوم ہوا کہ عورتوں  پر پردہ لازم ہے اور غیر مردوں  کو کسی گھر میں  اجازت کے بغیر داخل ہونا جائز نہیں ۔

            یاد رہے کہ یہ آیت اگرچہ خاص نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے حق میں  نازل ہوئی ہے لیکن اس کاحکم تمام مسلمان عورتوں  کے لئے عام ہے۔

(3)…کوئی شخص دعوت کے بغیر کسی کے یہاں  کھاناکھانے نہ جائے۔

(4)…مہمان کو چاہئے کہ وہ میزبان کے ہاں  زیادہ دیر تک نہ ٹھہرے تاکہ اس کے لئے حَرج اور تکلیف کا سبب نہ ہو۔

حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ کرم اور کمالِ حیا:

            اس آیت کے شانِ نزول سے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کمالِ حیا، شانِ کرم اور حسنِ اَخلاق کے بارے میں  معلوم ہوا کہ ضرورت کے باوجود صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے یہ نہ فرمایا کہ اب آپ چلے جائیے بلکہ آپ نے جو طریقہ اختیار فرمایا وہ حسنِ آداب کی اعلیٰ ترین تعلیم دینے والا ہے۔

{وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا: اور جب تم نبی کی بیویوں  سے کوئی سامان مانگو۔} آیت کے شانِ نزول سے متعلق دو روایات اوپر ذکر ہوئیں ، یہاں  مزید دو روایات ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  فرماتی ہیں :نبی کریم کی اَزواجِ مُطَہَّرات رات کے وقت قضائِ حاجت کے لئے مناصع کی طرف نکلا کرتی تھیں  اور وہ بہت کشادہ ٹیلا ہے۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کئی بار حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی تھی کہ ازواج مطہرات سے پردہ کروائیے لیکن آپ ایسا نہیں  کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زوجۂ مُطَہَّرہ حضرت سودہ بنت ِزمعہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  جن کا قد اونچا تھا،عشاء کے وقت باہر نکلیں  تو حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے (اچانک انہیں  دیکھ لیا اور) آواز دی:اے حضرت سودہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، ہم نے آپ کو پہچان لیا ہے۔ (یہ بات کہنے سے آپ کا) مقصد یہ تھا کہ پردے کا حکم دیدیا جائے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آیتِ حجاب نازل فرما دی۔( بخاری، کتاب الوضو ء، باب خروج النساء الی البراز، ۱ / ۷۵، الحدیث: ۱۴۶)

(2)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں  نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی بارگاہ میں  نیک اور فاجر دونوں  طرح کے لوگ حاضر ہوتے ہیں  تو اگر آپ اُمَّہات المومنین کو پردے کا حکم فرما دیں  (تو بہت بہتر ہوگا)، تو اللہ تعالیٰ نے حجاب کی آیت نازل فرما دی۔(بخاری،کتاب التفسیر،سورۃ الاحزاب، باب قولہ: لا تدخلوا بیوت النبی الّا ان یؤذن لکم۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۰۴، الحدیث: ۴۷۹۰)

            آیت کے اس حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب تم میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مطہرات سے کوئی سامان مانگوتو پردے کے باہرسے مانگو۔ بغیر اجازت کے داخل نہ ہونا،باتیں  کرنے کے لئے وہاں  بیٹھے نہ رہنا اور پردے کے پیچھے سے مانگنا تمہارے دلوں  اور ان کے دلوں  کیلئے زیادہ پاکیزگی کی بات ہے کیونکہ اس صورت میں  وسوسوں  اوربیہودہ خیالات سے امن رہتا ہے۔(ابو سعود،الاحزاب،تحت الآیۃ:۵۳،۴ / ۳۳۰، جمل مع جلالین،الاحزاب، تحت الآیۃ:۵۳، ۶ / ۱۹۴-۱۹۵، ملخصاً)

اجنبی مرد اور عورت کو پردے کا حکم :

            اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ امت کی مائیں  ہیں  اور ان کے بارے میں  کوئی شخص اپنے دل میں  بُرا خیال لانے کا تَصَوُّر تک نہیں  کر سکتا،اس کے باوجود مسلمانوں  کو یہ حکم دیا گیا کہ ان سے کوئی چیز مانگنی ہے تو پردے کے پیچھے سے مانگو تاکہ کسی کے دل میں  کوئی شیطانی خیال پیدا نہ ہو۔جب امت کی ماؤں  کے بارے میں  یہ حکم ہے تو عام عورتوں  کے بارے میں  کیا حکم ہو گا؟عام عورتوں  کو پردہ کرنے اور اجنبی مردوں  کو ان سے پردہ کرنے کی حاجت زیادہ ہے کیونکہ لوگوں  کی نظر میں  ان کی وہ حیثیت اور مقام نہیں  جو ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کا ہے، اس لئے یہاں  دل میں  شیطانی وسوسے آنے اور بیہودہ خیالات پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہے۔افسوس! ہمارے معاشرے میں  اجنبی عورت اور مرد میں  پردہ ختم کرنے اور ان کے درمیا ن قربتیں  بڑھانے کے مختلف طریقے اور انداز اختیار کئے جا رہے اور دُنْیَوی معاملات کے ہر میدان میں  عورت اور مرد ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اور قدم بقدم چلتے نظر آرہے ہیں  جبکہ پردے کے حق میں  بولنے والوں  کو پرانی سوچ کا حامل اوربدلتے وقت کے تقاضوں  کے مطابق نہ چلنے والا کہہ کر صَرفِ نظر کیا جا رہا ہے، ایسے طور طریقے اختیار کرنے والے لوگ خود ہی غور کر لیں  کہ ان کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے حکم کے مطابق ہے یا وہ اس کے برخلاف چل رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں  سچی ہدایت اور اسلامی احکام پر عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

کوئی شخص اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں  اپنے نفس پرا عتماد نہ کرے:

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو ا کہ کوئی شخص کتنا ہی نیک،پارسا اور پرہیز گار کیوں  نہ ہو،وہ اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں  اپنے نفس پر اعتماد نہ کرے، یہی اس کے حال کے زیادہ مناسب ہے اوراسی میں  اس کے نفس اور عصمت کی زیادہ حفاظت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کوئی مرد کسی (اجنبی) عورت کے ساتھ تنہائی میں  ہو تو ان دونوں  کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔(ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ، ۴ / ۶۷، الحدیث: ۲۱۷۲) اس کا مطلب ہے کہ شیطان دونوں  کے جذبات ابھارتا رہتا ہے تاکہ وہ برائی میں  مبتلا ہوجائیں ۔

{وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ: اور تمہارے لئے ہرگز جائز نہیں  کہ رسولُ اللہ  کو ایذا دو۔} ایمان والوں  کو بارگاہِ رسالت کے آداب کی تعلیم دینے کے بعد تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ تمہارے لئے ہرگز جائز نہیں  کہ تم رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دو اور کوئی کام ایسا کرو جو آپ کے مُقَدَّس قلب پر گراں  ہواور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے وصالِ ظاہری کے بعد کبھی ان کی اَزواجِ مُطَہَّرات سے نکاح کرو کیونکہ جس عورت سے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عَقد فرمایا وہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا ہر شخص پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو گئی اسی طرح وہ کنیزیں  جو باریابِ خدمت ہوئیں  اور قربت سے سرفراز فرمائی گئیں  وہ بھی اسی طرح سب کے لئے حرام ہیں۔(تفسیرکبیر، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۳، ۹ / ۱۸۰، ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۳، ۴ / ۳۳۰، جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۳، ۶ / ۱۹۵، ملتقطاً)

{اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا: بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت بات ہے۔} یعنی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دینا اور ان کے وصالِ ظاہری کے بعد ان کی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے نکاح کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا سخت گناہ ہے۔اس میں  یہ بتا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت بڑی عظمت عطا فرمائی اور آپ کی حرمت ہر حال میں  واجب کی ہے۔(جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۳، ۶ / ۱۹۵، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۵۰۹، ملتقطاً)

{اِنْ تُبْدُوْا شَیْــٴًـا اَوْ تُخْفُوْهُ: اگر تم کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ۔} یعنی نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد ان کی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے نکاح کرنے کے بارے میں  تم کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ تو یاد رکھو کہ بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ سب کچھ جانتاہے اور وہ تمہیں  ا س کی سزا دے گا۔(جلالین مع صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۴، ۵ / ۱۶۵۴)

33:54
اِنْ تُبْدُوْا شَیْــٴًـا اَوْ تُخْفُوْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا(۵۴)
اگر تم کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ تو بیشک سب کچھ جانتا ہے،

33:55
لَا جُنَاحَ عَلَیْهِنَّ فِیْۤ اٰبَآىٕهِنَّ وَ لَاۤ اَبْنَآىٕهِنَّ وَ لَاۤ اِخْوَانِهِنَّ وَ لَاۤ اَبْنَآءِ اِخْوَانِهِنَّ وَ لَاۤ اَبْنَآءِ اَخَوٰتِهِنَّ وَ لَا نِسَآىٕهِنَّ وَ لَا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّۚ-وَ اتَّقِیْنَ اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدًا(۵۵)
ان پر مضائقہ نہیں (ف۱۴۲) ان کے باپ اور بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنے دین کی عورتوں (ف۱۴۴) اور اپنی کنیزوں میں (ف۱۴۵) اور اللہ سے ڈرتی ہو، بیشک اللہ ہر چیز اللہ کے سامنے ہے،

{لَا جُنَاحَ عَلَیْهِنَّ فِیْۤ اٰبَآىٕهِنَّ: ان پران کے باپوں  کے بارے میں  کوئی مضائقہ نہیں ۔} اس سے پہلی آیت میں  پردے کا حکم دیا گیا اور اس آیت میں ان لوگوں  کابیان کیاجارہاہے جن سے پردہ نہیں  ہے۔ شانِ نزول : جب پردہ کرنے کا حکم نازل ہوا تو عورتوں  کے باپ، بیٹوں  اور قریب کے رشتہ داروں  نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ہم اپنی ماؤں  اور بیٹیوں  کے ساتھ پردے کے باہر سے گفتگو کریں؟ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ عورتوں  پر اس میں  کچھ گناہ نہیں  کہ وہ اپنے باپوں ، بیٹوں ، بھائیوں،بھتیجوں  اور بھانجوں  سے پردہ نہ کریں اور ان قریبی رشتہ داروں  کے سامنے آنے اور ان سے کلام کرنے میں  کوئی حرج نہیں ، یونہی مسلمان عورتوں  اور اپنی کنیزوں  کے سامنے آنا بھی جائز ہے۔

            نوٹ: یہاں  آیت میں  چچا اور ماموں  کا صراحت کے ساتھ ذکر نہیں  کیا گیا کیونکہ وہ والدین کے حکم میں  ہیں۔(ابو سعود ، الاحزاب ، تحت الآیۃ: ۵۵ ، ۴ / ۳۳۱ ، مدارک ، الاحزاب ، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۹۴۹ ، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۵۱۰، ملتقطاً)

عورت کے پردے سے متعلق4 شرعی مسائل:

            یہاں  آیت کی مناسبت سے عورت کے پردے سے متعلق4شرعی مسائل ملاحظہ ہوں ،

(1)… مَحرم  رشتہ داروں  سے پردہ نہیں  ہے اِلاّ یہ کہ فتنے کا اندیشہ ہواور محرم سے مراد وہ رشتہ دار ہیں  جن سے عورت کا نکاح کرنا ہمیشہ کے لئے حرام ہو۔

(2)…مسلمان عورت دوسری مسلمان عورت کودیکھ سکتی ہے اوراس کا وہی حکم ہے جو مرد کو مرد کی طرف نظر کرنے کا ہے یعنی ناف کے نیچے سے گھٹنے تک نہیں  دیکھ سکتی باقی اعضاء کی طرف اس صورت میں  نظر کرسکتی ہے جبکہ شہوت کا اندیشہ نہ ہو۔( ہدایہ، کتاب الکراہیۃ، فصل فی الوطء والنظر واللمس، ۲ / ۳۷۰-۳۷۱)

(3)…نیک پرہیز گارعورت کو یہ چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو بدکار عورت کے دیکھنے سے بچائے، یعنی اس کے سامنے دوپٹہ وغیرہ نہ اتارے کیونکہ وہ اسے دیکھ کر مردوں  کے سامنے اس کی شکل و صورت کا ذکر کرے گی۔(عالمگیری، کتاب الکراہیۃ، الباب الثامن فیما یحلّ للرجل النظر الیہ وما لا یحلّ لہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۳۲۷)

(4)…کافرہ عورتوں  سے پردہ کرنا اور اپنے جسم کو چھپانا لازم ہے سوائے جسم کے ان حصوں  کے جو گھر کے کام کاج کے لئے کھولنے ضروری ہوتے ہیں ۔(جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۵، ۶ / ۱۹۶)

            اللہ تعالیٰ تمام مسلمان خواتین کو شریعت کے احکام کے مطابق پردہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

{وَ اتَّقِیْنَ اللّٰهَ: اور اللہ سے ڈرتی رہو۔} یعنی اے عورتو! تمہیں  جو پردے کا حکم دیا گیااسے پورا کرو اوراس کی خلاف ورزی کرنے کے بارے میں  اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہو یہاں  تک کہ تمہیں  کوئی غیر نہ دیکھے۔ تم پر اپنی طاقت کے مطابق احتیاط سے کام لینا لازم ہے اور یاد رکھو کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگہبان ہے اور بندوں  کے اقوال اور افعال کسی حال میں  بھی اس سے چھپے ہوئے نہیں  ہیں۔(روح البیان،الاحزاب،تحت الآیۃ:۵۵،۷ / ۲۱۸، قرطبی،الاحزاب،تحت الآیۃ:۵۵،۷ / ۱۷۰،الجزء الرابع عشر، ملتقطاً)

33:56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر، اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو (ف۱۴۶)

{اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔} یہ آیت ِمبارکہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صریح نعت ہے،جس میں  بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پررحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حق میں  دعائے رحمت کرتے ہیں  اور اے مسلمانو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو یعنی رحمت و سلامتی کی دعائیں  کرو۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے انتہائی عقیدت و محبت کے ساتھ اَشعار کی صورت میں بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  درود و سلام کا ہدیہ پیش کیا ہے، انہی کے الفاظ میں  ہم بھی عرض کرتے ہیں:

کعبہ کے بدرُالدُّجیٰ تم پہ کروڑوں  درود

طیبہ کے شمس الضُّحیٰ تم پہ کروڑوں  درود

شافعِ روزِ جزا تم پہ کروڑوں  درود

دافعِ جملہ بلا تم پہ کروڑوں  درود

اور

مصطفٰی جانِ رحمت پہ لاکھوں  سلام

شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں  سلام

شہریارِ اِرم تاجدارِ حرم

نوبہارِ شفاعت پہ لاکھوں  سلام

شبِ اسریٰ کے دولھا پہ دائم درود

نوشۂ بزمِ جنت پہ لاکھوں  سلام

صلوٰۃ کا معنی:

صلوٰۃ کا لغوی معنی دعا ہے، جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس سے مراد رحمت فرمانا ہے اور جب اس کی نسبت فرشتوں  کی طرف کی جائے تو اس سے مراد اِستغفار کرنا ہے اور جب ا س کی نسبت عام مومنین کی طرف کی جائے تو اس سے مراد دعا کرنا ہے۔(تفسیرات احمدیہ، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۶۳۴)

علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (یہاں  آیت میں ) اللہ تعالیٰ کے درود بھیجنے سے مراد ایسی رحمت فرمانا ہے جو تعظیم کے ساتھ ملی ہوئی ہو اور فرشتوں  کے درود بھیجنے سے مراد ان کا ایسی دعا کرنا ہے جو رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان کے لائق ہو۔(صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۶، ۵ / ۱۶۵۴)

آیت ِدرود اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان:

یہ آیت ِمبارکہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی انتہائی عظمت و شان پر دلالت کرتی ہے، یہاں  اس سے متعلق بزرگانِ دین کے 3اِرشادات ملاحظہ ہوں :

(1)…حافظ محمد بن عبد الرحمٰن سخاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :درود شریف کی آیت مدنی ہے اور ا س کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  کو اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وہ قدر و مَنزلت بتا رہا ہے جو مَلاءِ اعلیٰ (عالَمِ بالا یعنی فرشتوں ) میں  اس کے حضور ہے کہ وہ مُقَرّب فرشتوں  میں  اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ثنا بیان فرماتا ہے اور یہ کہ فرشتے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر صلاۃ بھیجتے ہیں ، پھر عالَمِ سِفلی کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ پر صلاۃ و سلام بھیجیں  تاکہ نیچے والی اور اوپر والی ساری مخلوق کی ثنا آپ پر جمع ہو جائے۔

مزید فرماتے ہیں  :آیت میں  صیغہ ’’ یُصَلُّوْنَ‘‘ لایا گیا ہے جو ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ اور ا س کے فرشتے ہمارے نبی پر ہمیشہ ہمیشہ درود بھیجتے ہیں  حالانکہ اَوّلین و آخرین کی انتہائی تمنا یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک خاص رحمت ہی انہیں  حاصل ہو جائے تو زہے نصیب اور ان کی قسمت یہ کہاں !بلکہ اگر عقلمند سے پوچھا جائے کہ ساری مخلوق کی نیکیاں  تیرے نامہِ اعمال میں  ہوں ، تجھے یہ پسند ہے یا کہ اللہ تعالیٰ کی ایک خاص رحمت تجھ پر نازل ہو جائے؟ تو وہ اللہ تعالیٰ کی ایک خاص رحمت کو پسند کرے گا۔اِس بات سے اُس ذات کے مقام کے بارے میں  اندازہ لگا لو جن پر ہمارا رب اور اس کے تمام ملائکہ ہمیشہ ہمیشہ درود بھیجتے ہیں ۔(القول البدیع، نبذۃ یسیرۃ من فوائد قولہ تعالی: انّ اللّٰہ وملائکتہ یصلّون علی النبی۔۔۔ الخ، ص۸۵-۸۶)

(2)…امام سہل بن محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ نے اس ارشاد ’’اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ‘‘ کے ساتھ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو شرف بخشا وہ ا س شرف سے زیادہ بڑا ہے جو فرشتوں  کو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دے کر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بخشا تھا،کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرشتوں  کے ساتھ سجدے میں  شریک ہوناممکن ہی نہیں  جبکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرود بھیجنے کی خود اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق خبر دی ہے اور پھر فرشتوں  کے متعلق خبر دی ہے، پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو شرف حاصل ہو وہ اس شرف سے بڑھ کر ہے جو صرف فرشتوں  سے حاصل ہو اور اللہ تعالیٰ اس شرف کو عطا فرمانے میں  شریک نہ ہو۔(القول البدیع، نبذۃ یسیرۃ من فوائد قولہ تعالی: انّ اللّٰہ وملائکتہ یصلّون علی النبی۔۔۔ الخ، ص۸۶-۸۷)

(3)…علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ اس آیت ِمبارکہ میں  اس بات پر بہت بڑی دلیل ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رحمتوں  کے نازل ہونے کی جگہ ہیں  اور علی الاطلاق ساری مخلوق سے افضل ہیں ۔(صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۶، ۵ / ۱۶۵۴)

 درود پاک کے4فضائل:

اَحادیث میں  درود شریف پڑھنے کی بکثرت ترغیب دلائی گئی اور بیسیوں  مقامات پراس کی فضیلت بیان کی گئی ہے، ترغیب کے لئے یہاں  4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : ایک دن حضورپُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور بشاشت چہرہِ اقدس میں  نمایاں  تھی،ارشاد فرمایا: ’’میرے پاس حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آئے اور کہا: ’’آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: کیا آپ راضی نہیں  کہ آپ کی اُمت میں  جو کوئی آپ پر درود بھیجے، میں  اس پر دس بار درود بھیجوں  گا اور آپ کی اُمت میں  جو کوئی آپ پر سلام بھیجے، میں  اس پر دس بار سلام بھیجوں  گا۔(سنن نسائی، کتاب السہو، باب الفضل فی الصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۲۲۲، الحدیث: ۱۲۹۲)

(2)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن مجھ سے سب لوگوں میں  زیادہ قریب وہ ہوگا، جس نے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجا ہے۔(ترمذی، کتاب الوتر، باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۲ / ۲۷، الحدیث: ۴۸۴)

(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے اور وہ قبول ہو جائے، تو اللہ تعالیٰ اس کے 80 برس کے گناہ مٹا دے گا۔(در مختارورد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، فصل فی بیان تألیف الصلاۃ الی انتہائہا، ۲ / ۲۸۴)

(4)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :جو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایک بار درود بھیجے تو اللہ تعالیٰ اوراس کے فرشتے اس پر ستر بار درود بھیجتے ہیں ۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالی عنہما، ۲ / ۶۱۴، الحدیث: ۶۷۶۶)

درود پاک کی44 برکتیں :

درودِ پاک پڑھنا عظیم ترین سعادتوں  اور بے شمار برکتوں  کے حامل اور افضل ترین اعمال میں  سے ایک عمل ہے، بزرگانِ دین نے درود شریف کی برکتوں  کو بکثرت بیان کیا ہے اور مختلف کتابوں  میں  ان برکتوں  کو جمع کر کے بیان کیا گیا ہے، یہاں  ان میں  سے 44برکتیں  پڑھ کر اپنے دلوں  کو منور کریں  اور درودِ پاک کی عادت بنا کر ان برکتوں  کو حاصل کریں :

 (1)جو خوش نصیب رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرود بھیجتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ،فرشتے اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود دُرود بھیجتے ہیں ۔ (2)درود شریف خطاؤں  کا کفارہ بن جاتا ہے۔ (3)درود شریف سے اعمال پاکیزہ ہو جاتے ہیں ۔ (4)درود شریف سے درجات بلند ہوتے ہیں ۔ (5)گناہوں  کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ (6)درود بھیجنے والے کے لئے درود خود اِستغفار کرتا ہے۔(7)اس کے نامۂ اعمال میں  اجر کا ایک قیراط لکھا جاتا ہے جو اُحد پہاڑ کی مثل ہوتاہے۔(8) درودپڑھنے والے کو اجر کاپورا پوراپیمانہ ملے گا۔(9)درود شریف ا س شخص کے لئے دنیا و آخرت کے تمام اُمور کیلئے کافی ہو جائے گا جو اپنے وظائف کا تمام وقت درود پاک پڑھنے میں  بسر کرتا ہو۔ (10)مَصائب سے نجات مل جاتی ہے۔ (11)اس کے درود پاک کی حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گواہی دیں  گے۔ (12)اس کے لئے شفاعت واجب ہو جاتی ہے۔(13)درود شریف سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور ا س کی رحمت حاصل ہوتی ہے۔ (14) اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے امن ملتا ہے۔ (15)عرش کے سایہ کے نیچے جگہ ملے گی۔ (16)میزان میں  نیکیوں  کا پلڑا بھاری ہو گا۔(17)حوضِ کوثر پر حاضری کا موقع مُیَسّر آئے گا۔(18)قیامت کی پیاس سے محفوظ ہو جائے گا۔ (19)جہنم کی آگ سے چھٹکارا پائے گا۔ (20) پل صراط پر چلنا آسان ہو گا۔ (21)مرنے سے پہلے جنت کی منزل دیکھ لے گا۔(22)جنت میں  کثیر بیویاں  ملیں  گی۔(23) درود شریف پڑھنے والے کو بیس غزوات سے بھی زیادہ ثواب ملے گا۔(24) درود شریف تنگدست کے حق میں  صدقہ کے قائم مقام ہوگا۔ (25)یہ سراپا پاکیزگی و طہارت ہے۔ (26) درود کے وِرد سے مال میں  برکت ہوتی ہے۔ (27)اس کی وجہ سے سو بلکہ اس سے بھی زیادہ حاجات پوری ہوتی ہیں ۔ (28)یہ ایک عبادت ہے۔ (29) درود شریف اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اعمال میں  سے ہے۔(30)درود شریف مجالس کی زینت ہے۔(31)درود شریف سے غربت و فقر دور ہوتا ہے۔ (32)زندگی کی تنگی دور ہو جاتی ہے۔ (33)اس کے ذریعے خیر کے مقام تلا ش کئے جاتے ہیں ۔ (34)درود پاک پڑھنے والا قیامت کے دن تما م لوگوں  سے زیادہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب ہو گا۔(35)درود شریف سے درود پڑھنے والا خود،اس کے بیٹے پوتے نفع پائیں  گے۔ (36)وہ بھی نفع حاصل کرے گا جس کو درود پاک کا ثواب پہنچایا گیا۔ (37)اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولِ مُکَرَّم کا قرب نصیب ہو گا۔(38)یہ درود ایک نور ہے، اس کے ذریعے دشمنوں  پر فتح حاصل کی جاتی ہے۔ (39)نفاق اور زنگ سے دل پاک ہوجاتا ہے۔ (40)درود شریف پڑھنے والے سے لوگ محبت کرتے ہیں ۔ (41)خواب میں  حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوتی ہے۔(42)درود شریف پڑھنے والا لوگوں کی غیبت سے محفوظ رہتا ہے۔ (43) درود شریف تمام اَعمال سے زیادہ برکت والا اور افضل عمل ہے۔ (44)درود شریف دین و دنیا میں  زیادہ نفع بخش ہے اور ا س کے علاوہ اس وظیفہ میں  اس سمجھدار آدمی کے لئے بہت وسیع ثواب ہے جو اعمال کے ذَخائر کو اکٹھاکرنے پر حریص ہے اور عظیم فضائل، بہترین مناقب، اور کثیر فوائد پر مشتمل عمل کے لئے جوکوشاں  ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں  بکثرت درود پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

درود پاک پڑھنے کی حکمتیں :

اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے درود شریف پڑھنا ایک عظیم عبادت ہے،اس کے ساتھ ساتھ بزرگوں  نے درود شریف پڑھنے کی حکمتیں  بھی بیان فرمائی ہیں  جن کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے بعد جملہ مخلوقات میں سب سے زیادہ کریم، رحیم، شفیق، عظیم اور سخی ہیں  اور حبیب ِخدا، تاجدارِ اَنبیاء،سَرور ِہر دو سرا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مومنوں  پر سب سے زیادہ احسانات ہیں ،اس لئے مُحسنِ اعظم کے احسان کے شکریہ میں  ہم پر درود پڑھنا مقرر کیا گیا ہے، چنانچہ علامہ سخاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں  :نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرود پڑھنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حق کو ادا کرنا ہے۔ بعض بزرگوں  نے مزید فرمایا کہ ہمارا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرود بھیجنا ہماری طرف سے آپ کے درجات کی بلندی کی سفارش نہیں  ہو سکتا کیونکہ ہم جیسے ناقص بندے آپ جیسے کامل و اکمل کی شفاعت نہیں  کر سکتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں  اس کا بدلہ چکانے کا حکم فرمایا جس نے ہم پر احسان وانعام کیا اور اگر ہم احسان چکانے سے عاجز ہوں  تو محسن کے لئے دعا کریں ، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ہم آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احسان کا بدلہ دینے سے عاجز ہیں  تو ا س نے درود پڑھنے کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی تاکہ ہمارے درود آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احسان کا بدلہ بن جائیں  کیونکہ آپ کے احسان سے افضل کوئی احسان نہیں ۔

ابو محمدمرجانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اے مُخاطَب!نبی ٔرحمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرود بھیجنے کا نفع حقیقت میں  تیری ہی طرف لوٹتا ہے گویا تو اپنے لئے دعا کر رہا ہے۔

ابن ِعربی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرود بھیجنے کا فائدہ درود بھیجنے والے کی طرف لوٹتا ہے کیونکہ ا س کا درود پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ درود شریف پڑھنے والے کا عقیدہ صاف ہے اور اس کی نیت خالص ہے اور اس کے دل میں  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکی پر مددحاصل ہے اور اس کے اور ا س کے آقا و مولیٰ، دو عالَم کے دولہا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیان ایک مبارک اور مُقَدّس نسبت موجود ہے۔(القول البدیع، المقصود بالصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۸۳، ملخصاً)

درود پاک نہ پڑھنے کی 2وعیدیں :

اَحادیث میں  جہاں  درود پڑھنے کے فضائل بیان ہوئے ہیں  وہیں  درود پاک نہ پڑھنے کی وعیدیں  بھی بیان ہوئی ہیں ،یہاں  ان میں  سے دو اَحادیث درجِ ذیل ہیں ،

(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو لوگ کسی مجلس میں  بیٹھیں  اوراس میں اللہ تعالیٰ کاذکرنہ کریں  اورنہ اس کے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرود پڑھیں  تو (قیامت کے دن) ان کی وہ مجلس ان کے لیے باعث ِندامت ہوگی،اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو انہیں  عذاب دے گااور چاہے گاتوان کومعاف فرمادے گا۔(سنن ترمذی، کتاب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب فی القوم یجلسون ولا یذکرون اللّٰہ، ۵ / ۲۴۷، الحدیث: ۳۳۹۱)

(2)…حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس کے پاس میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود پاک نہ پڑھا وہ بدبخت ہے۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ : علی، ۳ / ۶۲، الحدیث: ۳۸۷۱)

درود پاک سے متعلق6 شرعی اَحکام:

 آیت کی مناسبت سے درود پاک سے متعلق6 اَہم باتیں  ملاحظہ ہوں ،

(1)…کسی مجلس میں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکرکیا جائے تو ذکر کرنے اور سننے والے کاایک مرتبہ درود و سلام پڑھنا واجب ہے اور اس سے زیادہ مستحب ہے اور نماز کے قعدہ ِاخیرہ میں  تشہد کے بعد درود شریف پڑھنا سنت ہے۔

(2)… حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تابع کر کے آپ کی آل و اَصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور دوسرے مومنین پر بھی درود بھیجا جا سکتا ہے یعنی درود شریف میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نامِ اقدس کے بعد ان کو شامل کیا جا سکتا ہے جبکہ مستقل طور پر حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا ان میں  سے کسی پر درود بھیجنا مکرو ہ ہے۔

(3)…درود شریف میں  آل و اَصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا ذکر شروع سے چلتا آ رہا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آل کے ذکر کے بغیر درود مقبول نہیں  یعنی درود شریف میں  حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہل ِبیت کو بھی شامل کیا جائے۔

(4)… درود شریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت وتکریم ہے۔ علماء نے اَللّٰہمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کے معنی یہ بیان کئے ہیں  کہ یا ربّ!محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عظمت عطا فرما، دنیا میں  ان کا دین بلند کر کے،ان کی دعوت غالب فرما کر اور ان کی شریعت کو بقا عنایت کر کے اور آخرت میں  ان کی شفاعت قبول فرما کر اور ان کا ثواب زیادہ کر کے اور اَوّلین و آخرین پر ان کی فضیلت کا اظہار فرما کر اور اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ملائکہ اور تمام مخلوق پر ان کی شان بلند کر کے۔(مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۹۵۰، تفسیرات احمدیہ، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۶۳۵، ملتقطاً)

(5)…خطبے میں  حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام پاک سن کر دل میں  درود پڑھیں ، زبان سے سکوت فرض ہے۔(فتاوی رضویہ، باب الجمعۃ، ۸ / ۳۶۵)

(6)…اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے درود و سلام پڑھنے کے لئے کسی وقت اور خاص حالت مثلاً کھڑے ہوکر یابیٹھ کر پڑھنے کی قیدنہیں لگائی چنانچہ کھڑے ہوکریابیٹھ کر، جہاں  چاہے، جس طرح چاہے، نمازسے قبل یابعد،یونہی اذان سے پہلے یا بعدجب چاہے درودِ پاک پڑھناجائزہے۔

سب سے افضل درود اور درود پاک پڑھنے کے آداب:

            یہاں  سب سے افضل درود اور درود پاک پڑھنے کے چند آداب ملاحظہ ہوں ،

(1)…سب دُرودوں  سے افضل درود وہ ہے جو سب اعمال سے افضل یعنی نماز میں  مقرر کیا گیا ہے یعنی درودِ ابراہیمی۔

(2)…درود شریف راہ چلتے بھی پڑھنے کی اجازت ہے البتہ جہاں  نجاست پڑی ہو وہاں  پڑھنے سے رک جائے۔

(3)…بہتر یہ ہے ایک وقت مُعَیّن کرکے ایک تعداد مقرر کر لے اورروزانہ وضو کر کے،دوزانو بیٹھ کر، ادب کے ساتھ مدینہ طیبہ کی طرف منہ کر کے مقرر کردہ تعداد کے مطابق درود عرض کیا کرے اور اس کی مقدار سو بار سے کم نہ ہو،ہاں  اس سے زیادہ جس قدر نبھا سکے بہتر ہے۔

(4)…اس کے علاوہ اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے باوضو بے وضو ہر حال میں  دُرود جاری رکھے۔

(5)… بہتر یہ ہے کہ ایک خاص صیغہ کا پابند نہ ہوبلکہ وقتاً فَوَقتاً مختلف صیغوں  سے درود عرض کرتا رہے تاکہ حضورِ قلب میں  فرق نہ ہو۔(فتاوی رضویہ، باب صفۃ الصلاۃ،۶ / ۱۸۳، ملخصاً)

 حاجتیں  پوری ہونے کا ایک مفید وظیفہ:

علامہ احمد سخاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت کریمہ کے فوائد میں  سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آدمی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبر انور کے پاس کھڑے ہو کر یہ آیت پڑھے:

’’ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پردُرودبھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو! ان پر دُرود اور خوب سلام بھیجو۔

پھر کہے: ’’صَلَّی اللہُ عَلَیْکَ یَا مُحَمَّدْ‘‘ یہاں  تک کہ سَتّر مرتبہ یہی کہتا چلا جائے تو فرشتہ اسے پکارتا ہے: ’’صَلَّی اللہُ عَلَیْکَْ‘‘ اے فلاں  ! تیری کوئی حاجت پوری ہوئے بغیر نہ رہے گی۔(القول البدیع، نبذۃ یسیرۃ من فوائد قولہ تعالی: انّ اللّٰہ وملائکتہ یصلّون علی النبی۔۔۔ الخ، ص۸۷)

طیبہ کے ماہِ تمام جملہ رُسل کے امام

 نوشہِ ملکِ خدا تم پہ کروڑوں  درود

تم سے جہاں  کا نظام تم پہ کروڑوں  سلام

تم پہ کروڑوں  ثنا تم پہ کروڑوں  درود

تم ہو جواد و کریم تم ہو رؤف و رحیم

 بھیک ہو داتا عطا تم پہ کروڑوں  درود

خلق کے حاکم ہو تم رزق کے قاسم ہو تم

تم سے ملا جو ملا تم پہ کروڑوں  درود

نافع و دافع ہو تم شافع و رافع ہو تم

 تم سے بس افزوں  خدا تم پہ کروڑوں  درود

شافی و نافی ہو تم کافی و وافی ہو تم

درد کو کردو دوا تم پہ کروڑوں  درود

نوٹ:درود پاک کے فضائل،فوائد،آداب اور اس سے متعلق دیگر چیزوں  کی معلومات حاصل کرنے کے لئے راقم کی کتاب ’’رحمتوں  کی برسات‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔

33:57
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۵۷)
بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں (ف۱۴۷) اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے (ف۱۴۸)

{اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ: بیشک جو اللہ اور اس کے رسول کوایذا دیتے ہیں ۔} اس آیت میں  ایذا دینے والوں  سے مراد کفار ہیں  جو اللہ تعالیٰ کی شان میں  ایسی باتیں  کہتے ہیں  جن سے وہ مُنَزّہ اور پاک ہے اوروہ کفار مراد ہیں  جو رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کرتے ہیں ، ان پر دنیا اور آخرت میں  اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آخرت میں  رسواکردینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

            یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ کوئی اسے ایذا دے سکے یا اسے کسی سے ایذا پہنچے،اس لئے یہاں  اللہ تعالیٰ کو ایذا دینے سے مراد اس کے حکم کی مخالفت کرنا اور گناہوں  کا اِرتکاب کرنا ہے یایہاں  اللہ تعالیٰ کا ذکر صرف تعظیم کے طور پر ہے جبکہ حقیقت میں  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ایذا دینے سے مراد خاص رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دینا ہے،جیسے جس نے رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کی تو اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اسی طرح جس نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی۔(جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۳۵۷، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۵۱۱، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۷، ۷ / ۲۳۷، ملتقطاً)

نوٹ: حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کسی فعل شریف کو ہلکی نگاہ سے دیکھنا یا کسی قسم کا اعتراض کرنا یا آپ کے ذکرِ خیر کو روکنا اورآپ کو عیب لگانا بھی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دینے میں  داخل ہے اور اس قسم کے لوگ بھی دنیا و آخرت میں  لعنت کے مستحق ہیں ۔

33:58
وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸)
اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا (ف۱۴۹)

{وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا: اور جو ایمان والے مردوں  اور عورتوں  کو بغیر کچھ کئے ستاتے ہیں ۔} شانِ نزول:ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت ان منافقوں  کے بارے میں  نازل ہوئی جو حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ایذا دیتے تھے اور اُن کی شان میں  بدگوئی کرتے تھے،اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے معاملے میں  نازل ہوئی ۔یاد رہے کہ اس کا شانِ نزول اگرچہ خاص ہے لیکن اس کا حکم تمام مسلمان مردوں  اور عورتوں  کو عام ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جولوگ ایمان والے مردوں  اور عورتوں  کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں  جس سے انہیں  اَذِیَّت پہنچے حالانکہ انہوں  نے ایسا کچھ نہیں  کیا ہوتا جس کی وجہ سے انہیں  اذیت دی جائے توان لوگوں  نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھالیا اور خود کوبہتان کی سزا اور کھلے گناہ کے عذاب کا حق دار ٹھہرا لیا ہے۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۹۵۰، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۸، ۷ / ۲۳۸-۲۳۹، ملتقطاً)

مسلمانوں  کوناحق ایذا اور تکلیف نہ دی جائے:

یاد رہے کہ مسلمان مردو عورت کو دین ِاسلام میں  یہ حق دیا گیا ہے کہ انہیں  کوئی شخص اپنے قول اور فعل کے ذریعے نا حق ایذا نہ دے ،یہاں  اس سے متعلق تین اَحادیث اور بزرگانِ دین کے تین اَقوال ملاحظہ ہوں ،چنانچہ

(1)…حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم لوگوں  کو (اپنے) شر سے محفوظ رکھو،یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گے۔( بخاری، کتاب العتق، باب ایّ الرقاب افضل، ۲ / ۱۵۰، الحدیث: ۲۵۱۸)

(2)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشاد فرمایا’’تم جانتے ہو کہ مومن کون ہے؟صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زیادہ جانتے ہیں ۔ارشاد فرمایا’’مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانوں  اور مالوں  کو محفوظ سمجھیں  اور مہاجر وہ ہے جو گناہ کو چھوڑ دے اور اس سے بچے۔( مسند امام احمد ، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالی عنہما، ۲ / ۶۵۴، الحدیث: ۶۹۴۲)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک دوسرے سے حسدنہ کرو،گاہک کو دھوکہ دینے اور قیمت بڑھانے کیلئے دکاندار کے ساتھ مل کر جھوٹی بولی نہ لگاؤ،ایک دوسرے سے بغض نہ کرو،ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو،کسی کی بیع پر بیع نہ کرو اور اے اللہ تعالیٰ کے بندو!بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،اس پر نہ ظلم کرے، نہ ا س کو رسوا کرے ،نہ حقیر جانے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا:تقویٰ یہاں  ہے اور کسی شخص کی برائی کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو برا جانے،ایک مسلمان دوسرے مسلمان پرحرام ہے ،اس کا خون،اس کا مال اور ا س کی عزت۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۶، الحدیث: ۳۲(۲۵۶۴))

(4)… حضرت فضیل رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : کتے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں  تو مؤمنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۹۵۰)

(5)… حضرت مجاہد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جہنمیوں  پرخارش مُسَلَّط کردی جائے گی تووہ اپنے جسم کوکھجلائیں  گے حتّٰی کہ ان میں  سے ایک کے چمڑے سے ہڈی ظاہر ہو جائے گی تو اسے پکارا جائے گا:اے فلاں !کیا تمہیں  اس سے تکلیف ہوتی ہے ؟وہ کہے گا:ہاں ۔پکارنے والا کہے گا:تو مسلمانوں  کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الثالث، ۲ / ۲۴۲)

(6)…علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہاں  ایمان والوں  کو اَذِیَّت دینے کا ذکر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اذیت دینے کے ساتھ ہوا جیسا کہ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اذیت دینے کا ذکر اللہ تعالیٰ کو اذیت دینے کے ساتھ ہوا،اس سے معلوم ہوا کہ ایمان والوں  کو اذیت دینا گویا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اذیت دینا ہے اور رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اذیت دینا گویا کہ اللہ تعالیٰ کو اذیت دینا ہے تو جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اذیت دینے والا دنیا اور آخرت میں  لعنت کا مستحق ہے اسی طرح ایمان والوں  کو اذیت دینے والا بھی دونوں  جہاں  میں  لعنت و رسوائی کا حقدار ہے۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۸، ۷ / ۲۳۹)

            اللہ تعالیٰ ہمیں  شریروں  کے شر اور ظالموں  کے ظلم سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔

مسلمانوں  کو کسی شرعی وجہ کے بغیر ایذا دینے کا شرعی حکم:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے تکلیف دینا قطعی حرام ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا‘‘

وہ لوگ جو ایماندار مردوں  اور عورتوں  کو بغیر کسی جرم کے تکلیف دیتے ہیں  بے شک انہوں  نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے ذمے لے لیا۔

سیّدِعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’مَنْ اٰذٰی مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَ مَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللہ‘‘ جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔(معجم الاوسط، باب السین، من اسمہ: سعید، ۲ / ۳۸۶، الحدیث: ۳۶۰۷) یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں  گرفتار فرمائے گا۔

            امامِ اَجل رافعی نے سیّدنا علی کَرَّمَ اللہ وَجْہَہٗ سے روایت کی، مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’لَیْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ مُسْلِمًا اَوْضَرَّہٗ اَوْمَاکَرَہٗ‘‘ یعنی وہ شخص ہمارے گروہ میں  سے نہیں  ہے جو مسلمان کو دھوکا دے یا تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ مکرکرے(کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، حرف المیم، المکر والخدیعۃ، ۲ / ۲۱۸، الحدیث: ۷۸۲۲، الجزء الثالث)۔( فتاوی رضویہ، ۲۴ / ۴۲۵-۴۲۶)

موجودہ زمانے میں  مسلمانوں  کو ایذا دینے کی 20 مثالیں :

زیرِ تفسیر آیت اور درج بالا اَحادیث و اَقوال سے معلوم ہوا کہ دینِ اسلام میں  مسلمانوں کو اَذِیَّت سے بچانا خاص اہمیت کا حامل ہے اور نا حق ایذا پہنچانا اسلام کی نظر میں  انتہائی قبیح جرم ہے جس کی سخت سز امقرر کی گئی ہے ۔فی زمانہ ہمارے معاشرے میں  لوگ اس حوالے سے انتہائی غفلت کا شکار ہیں  اور مختلف طریقوں  سے اپنے ہی مسلمان بھائیوں  کو ناحق ایذا پہنچاتے اور ان کی ایذا رسانی کا سامان مہیا کرتے ہیں  ،اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے، یہاں  ہم 20ایسی مثالیں  ذکر کرتے ہیں  جن کے ذریعے عمومی طور پر مسلمانوں  کو ناحق ایذا پہنچائی جاتی ہے تاکہ مسلمان ان کی طرف متوجہ ہوں  اور اپنے ان افعال سے باز آ کر مسلمانوں  کو اذیت سے بچائیں  :

(1)…شادیوں  میں  شور شرابا ،غل غپاڑہ کرنا اور رات کے وقت آتش بازی کا مظاہرہ کرنا۔

(2)…غلط جگہ پارکنگ کر کے،گلیوں  میں  ملبہ وغیرہ ڈال کر اور مختلف تقاریب کے لئے گلیاں  بند کرنا۔

(3)…گلیوں  میں  کرکٹ اور فٹ بال وغیرہ کھیلنا اور خاص طور پررمضان کی راتوں  میں  رات رات بھر ایسا کرنا اور ا س دوران شور مچانا۔

(4)…سائلنسر نکال کر گلیوں  اور بازاروں  میں موٹر سائیکل اور کاریں  چلانا۔

(5)…گلیوں  میں  کچرا اور غلاظت ڈالنا۔

(6)…اسٹریٹ کرائم اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں  کے ذریعے مسلمانوں  کو اذیت پہنچانا۔

(7)… دل شکنی والے الفاظ سے پکارنا۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :کسی مسلمان بلکہ کافر ذمی کو بھی بلا حاجت ِشرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو ،اسے ایذا پہنچے، شرعاً ناجائز و حرام ہے اگرچہ بات فی نفسہٖ سچی ہو۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: اراء ۃ الادب لفاضل النسب، ۲۳ / ۲۰۴)

(8)…گھر میں  شور شرابا کرنا اور بلند آواز سے ٹی وی اور گانے وغیرہ چلا کر پڑوسیوں  کو تنگ کرنا۔

(9)…پڑوسیوں  کے گھر میں  تانک جھانک کرنا اور ان کے عیبوں  کی تلاش میں  رہنا۔

(10)…کسی عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرنا۔

(11)… عورت کا اپنے گھر سے بھاگ کر اور مرد کا اسے بھگا کر شادی کرنا۔ایسے لوگوں  کے بارے میں  اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :بلا شبہہ ایسے لوگ مُفسد و فتنہ پَرداز اور آبرو ریز ،فتنہ انگیز،مستحقِ عذابِ شدید ووبالِ مدید ہیں ، مَعَاذَاللہ اگر ایسی جرأتیں  روا رکھی جائیں  تو ننگ و ناموس کو بہت صدمہ پہنچے گا،کم سے کم اس میں  شناعت یہ ہے کہ بلا وجہِ شرعی ایذائِ مسلم ہے ۔( فتاوی رضویہ، کتاب النکاح، ۱۱ / ۲۹۲)

(12)…رشتہ نہ ملنے پر لڑکی والوں  سے متعلق اذیت بھرے کلمات کہنا اورداماد وغیرہ کا اپنے سسرال والوں  کو طرح طرح سے تنگ کرنا ۔

(13)…ساتھ کام کرنے والوں  کی چغلیاں  کھانا۔

(14)…ساتھ کام کرنے والوں  کی کارکردگی ناقص بنانے کی کوشش کرنااور اسے بلا وجہ ناقص ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔

(15)…ساتھی کو تکلیف یا مصیبت پہنچنے پر خوشی کا اظہار کرنا۔

(16)…ساتھیوں  اورماتحتوں  کو حقیر سمجھنا اور ان کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرنا۔

(17)… گالیاں  دینا ، لعنت کرنا،تہمت اور بہتان لگانا۔

(18)…مذاق اڑانا اور پھبتیاں  کسنا۔

(19)…بد گمانیاں  پھیلاتے پھرنا اور بلاوجہ کسی کے پوشیدہ عیبوں  کو دوسروں  کے سامنے ظاہر کرنا۔

(20)…لوگوں  کا مال دبا لینا اور قرض کی ادائیگی میں  بلا وجہ تنگ کرنا۔

سر ِدست یہاں  بیس مثالیں  ذکر کی ہیں  اور غور کیا جائے تو مسلمانوں  کو بلا وجہ اذیت دینے کی سینکڑوں  مثالیں  آپ کے سامنے آ سکتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ ایک دوسرے کو ایذا اور تکلیف دینے سے بچیں ،اٰمین۔

مسلمانوں  کو اَذِیَّت پہنچانے سے بچنے میں  صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی سیرت:

صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی سیرت میں  ایسے واقعات بہت مل جائیں  گے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں  کو اَذِیَّت اور تکلیف پہنچانے سے بہت بچا کرتے تھے ،ترغیب کے لئے یہاں  دو واقعات ملاحظہ ہوں :

(1)… حضر ت عائذ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : ابو سفیان حضرت سلمان، حضرت صہیب اور حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے پاس سے گزرے جو ایک جماعت میں  تھے، تو ان حضرات نے کہا: اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تلواریں  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمن کی گردن میں  اپنی جگہ پر نہ گزریں ۔ یہ سن کرحضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: کیا تم قریش کے شیخ اور ان کے سردار کے بارے میں  یہ کہتے ہو! پھر وہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  آئے اور آپ  کو(اس معاملے کی) خبر دی،ا س پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اے ابو بکر! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، شاید تم نے ان حضرات کو ناراض کردیا ہے،اگر تم نے انہیں  ناراض کردیا تو تم نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو ناراض کردیا۔ تب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ان حضرات کے پاس آئے اور فرمایا: اے میرے بھائیو !کیا میں  نے تم کو رنجیدہ کردیا؟انہوں  نے کہا: اے میرے بھائی! نہیں ، اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے۔( مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل سلمان وصہیب وبلال، ص۱۳۵۹، الحدیث: ۱۷۰(۲۵۰۴))

 (2)…ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا: میں  نے رات اس آیت: ’’وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا‘‘ کو پڑھا تومیں  اس کی وجہ سے بہت ڈر گیا کیونکہ خدا کی قسم! میں  مسلمانوں  کو مارتا ہوں  اور انہیں  جھڑکتا ہوں ، حضرت اُبی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے عرض کی :اے امیر المؤمنین! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ ان لوگوں  میں  سے نہیں  ہیں ، آپ تو مَحض مُعَلِّم اور نظام کو قائم کرنے والے ہیں ۔( تفسیر قرطبی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۸، ۷ / ۱۷۸، الجزء الرابع عشر)

33:59
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۵۹)
اے نبی! اپنی بیبیوں اور صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں (ف۱۵۰) یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو (ف۱۵۱) تو ستائی نہ جائیں (ف۱۵۲) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ: اے نبی اپنی بیویوں  اورصاحبزادیوں  سے فرمادو۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی اَزواجِ مُطَہَّرات، اپنی صاحبزادیو ں  اور مسلمانوں  کی عورتوں  سے فرمادیں  کہ جب انہیں  کسی حاجت کے لئے گھر سے باہر نکلنا پڑے تو وہ اپنی چادروں  کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈال کر رکھیں  اوراپنے سر اور چہرے کو چھپائیں ۔زمانۂ جاہلیّت میں  یہ طریقہ تھاکہ آزادعورتیں  اور باندیاں  دونوں  قمیص اوردوپٹہ پہنے چہرہ کھول کرباہرنکلتی تھیں  اورجب رات کے وقت قضائِ حاجت کے لیے کھجوروں  کے جھنڈ اورنشیبی زمینوں  میں  جاتیں  تو بدکارلوگ باندیوں  کے پیچھے جاتے اوربعض اوقا ت وہ آزادعورتوں  پربھی دست درازی کرتے اوریہ کہتے کہ ہم نے اس کوباندی گمان کیاتھا۔اس پر آزادعورتوں  کویہ حکم دیاگیاکہ وہ چادر سے جسم ڈھانک کر سر اور منہ چھپا کر باندیوں  سے اپنی وضع ممتاز کر دیں تاکہ کوئی شخص ان کے متعلق بری خواہش نہ کرے۔( البحرالمحیط، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۹، ۷ / ۲۴۰)

            یاد رہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں  کہ لونڈیوں  کو ستانا جائز تھا بلکہ یہ ان فاسق وفاجر لوگوں  کے ایک حیلے کے سامنے بند باندھنے کیلئے فرمایا گیا۔

{ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ: یہ اس سے زیادہ نزدیک ہے کہ وہ پہچانی جائیں  تو انہیں  ستایا نہ جائے۔} یعنی اگرآزادمسلمان عورتیں  اس طرح چادراوڑھ کرچہرہ ڈھانپ کرباہرنکلیں  گی توانہیں  دورسے پہچان لیاجائے گاکہ یہ عزت داراورباحیا خواتین ہیں  اوراس سے ان کی عزت محفوظ رہے گی اورستائی بھی نہیں جائیں  گی۔اس آیت مبارکہ سے ہمارے زمانے کی ان عورتوں  کودرسِ عبرت حاصل کرناچاہئے جوشرم وحیا کی چادراتارکربن سنور کر بازاروں  کی رونق بنی رہتی ہیں  اورلوگوں  کی ہوس کانشانہ بنتی ہیں  اوراوباش قسم کے لوگ ان پرآوازیں  کستے اورچھیڑخانی کرتے ہیں ۔

33:60
لَىٕنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا ﳝ(۶۰)
اگر باز نہ آئے منافق (ف۱۵۳) اور جن کے دلوں میں روگ ہے (ف۱۵۴) اور مدینہ میں جھوٹ اڑانے والے (ف۱۵۵) تو ضرور ہم تمہیں ان پر شہ دیں گے (ف۱۵۶) پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس نہ رہیں گے مگر تھوڑے دن (ف۱۵۷)

{لَىٕنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ: اگر منافق بازنہ آئے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو منافق ہیں  اور وہ لوگ جو فاجر و بدکار ہیں  اور وہ لوگ جو مدینے میں  اسلامی لشکروں  کے متعلق جھوٹی خبریں  اڑانے والے ہیں  اور یہ مشہور کیا کرتے ہیں  کہ مسلمانوں  کو شکست ہوگئی، وہ قتل کر ڈالے گئے، دشمن چڑھا چلا آ رہا ہے اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں  کی دل شکنی اور ان کو پریشانی میں  ڈالنا ہوتا ہے، اگر یہ لوگ اپنے نفاق،بدکاری اور دیگر حرکتوں  سے باز نہ آئے تو ضرور ہم مسلمانوں  کو ان کے خلاف کاروائی کرنے کی اجازت دے دیں  گے اور مسلمانوں  کو ان پر مُسَلَّط کردیں  گے، پھر وہ مدینہ میں  تمہارے پاس تھوڑے دن ہی رہیں  گے، پھر ان سے مدینہ طیبہ خالی کرا لیا جائے گا اور وہ لوگ وہاں  سے نکال دیئے جائیں  گے۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۵۱۲، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۹۵۱، ملتقطاً)

            غلط خبریں  پھیلاکر مسلمانوں  کی حوصلہ شکنی کرنے والے دل کے منافقوں  کی حالت کو آج کے دور میں  آسانی سے سمجھنا ہو تو چند دن اخبار پڑھ کر دیکھ لیں  کہ مغرب کے غلام لکھاری، مسلمانوں  کو اپنے مغربی آقاؤں  سے ڈرانے کیلئے ان کی طاقت، ترقی، تہذیب کو کیسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں  اور مسلمانوں  کی طاقت، تہذیب اور ماضی وحال کو کس طرح تاریک بنا کر پیش کرتے ہیں ۔

{مَلْعُوْنِیْنَ: اللہ کی رحمت سے دورکئے ہوئے لوگ ہیں ۔} یعنی منافقین اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کئے ہوئے لوگ ہیں،  اگر یہ اپنے نفاق اور جھوٹی خبریں  اڑانے پر قائم رہیں  تو یہ تمہیں  جہاں  بھی مل جائیں  انہیں  پکڑ لو اور گن گن کر انہیں  قتل کردو۔( جلالین مع جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۱، ۶ / ۱۹۹)

{سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ: اللہ کا دستور چلا آتا ہے ان لوگوں  میں  جو پہلے گزر گئے۔} یعنی ان منافقوں  کے بارے میں  جو حکم دیا گیاوہ کوئی نیا حکم نہیں  ہے بلکہ پہلی اُمتوں  کے منافقین جو ایسی حرکتیں  کرتے تھے اُن کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کا دستور یہی رہا ہے کہ جہاں  پائے جائیں  مار ڈالے جائیں  اور اللہ تعالیٰ کا دستور تبدیل نہیں  ہوتا بلکہ وہ تمام امتوں  میں  ایک ہی طرح جاری رہتا ہے۔ (تفسیرکبیر ، الاحزاب ، تحت الآیۃ: ۶۲ ، ۹ / ۱۸۴ ، خازن ، الاحزاب ، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۵۱۲، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۹۵۱، ملتقطاً)

33:61
مَّلْعُوْنِیْنَۚۛ-اَیْنَمَا ثُقِفُوْۤا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا(۶۱)
پھٹکارے ہوئے، جہاں کہیں ملیں پکڑے جائیں اور گن گن کر قتل کیے جائیں،

33:62
سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُۚ-وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا(۶۲)
اللہ کا دستور چلا آتا ہے ان لوگوں میں جو پہلے گزر گئے (ف۱۵۸) اور تم اللہ کا دستور ہرگز بدلتا نہ پاؤ گے،

33:63
یَسْــٴَـلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِؕ-قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا(۶۳)
لوگ تم سے قیامت کا پوچھتے ہیں (ف۱۵۹) تم فرماؤ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، اور تم کیا جانو شاید قیامت پاس ہی ہو (ف۱۶۰)

{یَسْــٴَـلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ: لوگ تم سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں ۔} شانِ نزول:مشرکین تو مذاق اڑانے کے طور پر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قیامت کا وقت دریافت کیا کرتے تھے گویا کہ ان کو بہت جلدی ہے اور یہودی قیامت کے بارے میں  امتحان کے طور پر پوچھتے تھے کہ وہ کب قائم ہو گی ؟ کیونکہ توریت میں  اس کا علم مخفی رکھا گیا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم فرمایا کہ آپ ان سے فرما دیں : قیامت قائم ہونے کے وقت کا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اور اس کے سوا کوئی اس پر مطلع نہیں  اور اللہ تعالیٰ کا قیامت واقع ہونے کے علم کو مجھ سے مخفی رکھنا ایسی چیز نہیں  جس سے میری نبوت باطل ہو جائے کیونکہ کسی شخص کے نبی ہونے کے لئے یہ شرط نہیں  کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے بغیر غیب کا علم رکھتا ہو۔( خازن،الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۵۱۲، قرطبی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۳، ۷ / ۱۸۳، الجزء الرابع عشر، ملتقطاً)

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرمانے کا حکم اس وقت دیا گیا جب ان سے قیامت کے بارے میں  سوال ہو ا تھاورنہ ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب دنیا سے تشریف لے گئے ا س وقت تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام غیبوں  کا علم عطا فرما دیا تھااور ان میں  سے ایک قیامت کا علم ہے لیکن انہیں  یہ علم چھپانے کا حکم دیا گیا تھا (اس لئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے امت کو قیامت کا معین وقت نہیں  بتایا۔)( صاوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۳، ۵ / ۱۶۵۸)

{وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا: اور تم کیا جانو شاید قیامت قریب ہی ہو۔} علامہ عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :اس آیت میں  وقوعِ قیامت کی جلدی کرنے والوں  کو ڈرانے اور امتحان کے طور پر سوال کرنے والوں  کو خاموش کروانے اور ان کا منہ بند کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ آپ (خود سے) کیا جانیں  شاید قیامت کا واقع ہونا قریب ہو۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۹۵۱)

            نوٹـ: نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قیامت کا علم عطا فرما ئے جانے سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے سورہِ اَعراف آیت نمبر187کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔

33:64
اِنَّ اللّٰهَ لَعَنَ الْكٰفِرِیْنَ وَ اَعَدَّ لَهُمْ سَعِیْرًاۙ(۶۴)
بیشک اللہ نے کافروں پر لعنت فرمائی اور ان کے لیے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے،

{اِنَّ اللّٰهَ لَعَنَ الْكٰفِرِیْنَ: بیشک اللہ نے کافروں  پر لعنت فرمائی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سبھی کافروں  کو اپنی رحمت سے دورکردیااوراس کے ساتھ ساتھ آخرت میں  ان کے لیے بھڑکتی آگ تیارکررکھی ہے جس میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے اور اس میں  نہ کوئی اپناحمایتی پائیں  گے اورنہ مددگار جو ان سے عذاب دور کر دے اور انہیں  اس سے خلاصی دے۔ (روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۴ -۶۵، ۷ / ۲۴۴) اور اس کی وجہ بھی ظاہرہے کہ کفارقیامت کی تیاری کرنے کی بجائے کھیل کود اورقیامت کا مذاق اڑانے میں  لگے ہوئے ہیں ،جیساکہ گزشہ آیت میں  بیان کیاگیا۔

33:65
خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاۚ-لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًاۚ(۶۵)
اس میں ہمیشہ رہیں گے اس میں نہ کوئی حمایتی پائیں گے نہ مددگار (ف۱۶۱)

33:66
یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَاۤ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَ اَطَعْنَا الرَّسُوْلَا(۶۶)
جس دن ان کے منہ الٹ الٹ کر آگ میں تلے جائیں گے کہتے ہوں گے ہائے کسی طرح ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور رسول کا حکم مانا (ف۱۶۲)

{یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ: جس دن ان کے چہرے آگ میں  باربارالٹے جائیں  گے۔} اس سے پہلی آیت میں  بیان ہو اکہ جہنم کی آگ میں  کافروں  کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ ہو گا اور ا س آیت میں  ان کے عذاب کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے کہ جس دن کافروں  کے چہرے جہنم کی آگ میں  بار بار الٹ پلٹ کئے جائیں  گے اورآگ میں  جلنے کے باعث ان کے چہرے کی رنگت تبدیل ہورہی ہو گی تو اس وقت وہ انتہائی حسرت کے ساتھ یہ کہہ رہے ہوں  گے کہ ہائے! اے کاش! ہم نے دنیا میں  اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول عَلَیْہِ السَّلَام کا حکم مانا ہوتا تو آج ہم عذاب میں  گرفتار نہ ہوتے۔

             خیال رہے کہ جہنم میں  کافروں کے پورے جسم پرعذاب ہوگا اور یہاں  آیت میں چہرے کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ چہرہ انسان کے جسم کاسب سے مکرم اورمُعَظَّم عُضْو ہوتا ہے اورجب ان کاچہرہ آگ میں  باربارالٹ رہا ہوگا تو یہ ان کے لیے بہت زیادہ ذلت اوررسوائی کاباعث ہوگا۔
33:67
وَ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا(۶۷)
اور کہیں گے اے ہمارے رب! ہم اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کے کہنے پر چلے (ف۱۶۳) تو انہوں نے ہمیں راہ سے بہکادیا،

{وَ قَالُوْا: اور کہیں  گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن پیروی کرنے والے کفار عذر پیش کرتے ہوئے کہیں  گے :اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہم قوم کے سرداروں ، بڑی عمر کے لوگوں  اور اپنی جماعت کے عالموں  کے کہنے پر چلے، انہوں  نے ہمیں  کفر کی تلقین کرکے اسلام اور توحید کے راستے سے بھٹکا دیا۔ اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، انہیں  آگ کا اس سے دگنا عذاب دے جو ہمیں  دیا گیا کیونکہ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور انہوں  نے دوسروں  کو بھی گمراہ کیا اور ان پر بڑی لعنت کر۔(روح البیان،الاحزاب،تحت الآیۃ:۶۷-۶۸،۷ / ۲۴۴-۲۴۵، مدارک،الاحزاب،تحت الآیۃ: ۶۷-۶۸،ص۹۵۲، ملتقطاً)

33:68
رَبَّنَاۤ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَ الْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا۠(۶۸)
اے ہمارے رب! انہیں آگ کا دُونا عذاب دے (ف۱۶۴) اور ان پر بڑی لعنت کر،

33:69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)
اے ایمان والو! ان جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا (ف۱۶۶) تو اللہ نے اسے بَری فرمادیا اس بات سے جو انہوں نے کہی (ف۱۶۷) اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے (ف۱۶۸)

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى: اے ایمان والو!ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں  نے موسیٰ کو ستایا۔} سورت کی ابتداء سے لے کریہاں  تک منافقین کی اَنواع واَقسام کی ایذاؤں  کاذکرتھا اور اب یہاں  سے بنی اسرائیل کے طرزِ عمل کی طرف اشارہ کر کے مسلمانوں  کو اس سے بچنے کی تنبیہ کی جا رہی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ادب و احترام بجالاؤ اورکوئی ایسی بات نہ کہنا اور نہ کوئی ایساکام کرنا جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رنج و ملال کا باعث ہو اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ستایا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کااس سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  کہا تھا۔( قرطبی،الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۹، ۷ / ۱۸۴، الجزء الرابع عشر، تفسیر طبری، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۹، ۱۰ / ۳۳۶، ملتقطاً)

            یہاں  اس آیت سے متعلق دو باتیں  یاد رہیں :

(1)…یہ ضرور ی نہیں  کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے کوئی ایسا کام سرزد ہوا ہو جس سے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اَذِیَّت پہنچی تھی اور اس پر انہیں  یہاں  آیت میں  تنبیہ کی گئی، بلکہ عین ممکن ہے کہ آئندہ ایسے کام سے بچانے کے لئے پیش بندی کے طور پر انہیں  تنبیہ کی گئی ہو۔اَحادیث میں  جو بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا واقعہ منقول ہے اُس کا مَحمل بھی یہی ہے کہ اُس وقت ان کی اِس بات کی طرف توجہ نہ ہوئی ہو گی کہ یہ کلمہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے ایذا کا باعث ہے کیونکہ کسی صحابی سے ایسا ممکن نہیں  کہ وہ جان بوجھ کر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا پہنچائیں  اور جتنے واقعات جان بوجھ کر ایذا پہنچانے کے ہیں  وہ سب منافقین کے ہیں ۔

(2)…بنی اسرائیل نے کیا کہہ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ستایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بری ہونا کس طرح دکھا یا تھا،اس سے متعلق مفسرین نے مختلف واقعات ذکر کئے ہیں  جن میں  سے ایک یہ ہے کہ جب حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وفات پاگئے توبنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: آپ نے ان کوقتل کیاہے اوروہ آپ کی بہ نسبت ہم سے زیادہ محبت کرنے والے تھے اورآپ کی بہ نسبت زیادہ نرم مزاج تھے۔ بنی اسرائیل نے ان باتوں  سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواذیت پہنچائی تواللہ تعالیٰ نے فرشتوں  کوحکم دیا، وہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جسم مبارک اٹھاکرلائے اوران کی وفات کی خبردی۔ تب بنی اسرائیل نے سمجھ لیا کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام طبعی موت سے فوت ہوئے ہیں  اوراس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کوان کی تہمت سے بری کردیا۔

          ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ قارون نے ایک عورت کو بہت سا مال دے کر ا س بات پر تیار کیا کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر زنا کی تہمت لگائے تو اللہ تعالیٰ نے اسی عورت کے اقرار سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اس قبیح فعل سے پاک ہونا دکھا دیا۔( خازن ، الاحزاب ، تحت الآیۃ: ۶۹ ، ۳ / ۵۱۳ ، طبری ، الاحزاب ، تحت الآیۃ: ۶۹، ۱۰ / ۳۳۸، ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۹، ۴ / ۳۳۵، ملتقطاً)

{وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًا: اور موسیٰ اللہ کے ہاں  بڑی وجاہت والا ہے۔} آیت کے اس حصے میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان بیان فرمائی گئی کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  بڑی وجاہت والے تھے یعنی بڑے مقام والے تھے اور اِس مقام میں  یہ بات بھی داخل ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات تھے یعنی آپ کی دعائیں  قبول ہوتی تھیں۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۹، ۳ / ۵۱۳۔)

نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعاؤں  کی قبولیت:

             مفسرین نے وجیہ کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعائیں  مقبول تھیں ، اسی مناسبت سے یہاں  سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعاؤں  کی قبولیت کا حال ملاحظہ ہو،چنانچہ

            سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے دعا فرمائی : اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اس کے مال اور اس کی اولاد کو زیادہ کر دے۔حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :خدا کی قسم! (اس دعا کی برکت سے) میرا مال بہت زیادہ ہے اور آج میری اولاد اور اولاد کی اولاد سو کے قریب ہے۔( مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ، ص۱۳۴۷، الحدیث: ۱۴۳(۲۴۸۱))

            حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے برکت کی دعا فرمائی۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : (اس دعا کے بعد حال یہ تھا کہ) اگر میں  پتھر اٹھاتا تو مجھے یہ امید ہوتی کہ اس کے نیچے سونا ہو گا۔

            حضرت معاویہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے حکومت کی دعا مانگی تو انہیں  حکومت حاصل ہوئی۔

            حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات ہونے کی دعا کی تو وہ جس کے خلاف بھی دعاکرتے تھے ان کی دعا قبول ہوتی تھی۔

            حضرت ابو قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے دعا کی کہ تمہارا چہرہ کامیاب ہو،اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ان کے بالوں  اور جسم میں  برکت دے، چنانچہ جس وقت آپ کی وفات ہوئی اس وقت سَتّر سال کے ہونے کے باوجود پندرہ سال کے معلوم ہوتے تھے۔(الشفا،القسم الاول، الباب الرابع فی فیما اظہرہ اللّٰہ علی یدیہ من المعجزات، فصل فی اجابۃ دعاء ہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۳۲۵-۳۲۷، الجزء الاول)

            سرِ دست یہاں  چند واقعات کا خلاصہ لکھا ہے ورنہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعاؤں  کی قبولیت کے واقعات بڑی کثرت سے ہیں اِس کے لئے علامہ سیوطی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کی کتاب الخصائص الکبریٰ کا مطالعہ فرمائیں۔  رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا سے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں  :

جلو میں  اجابت خواصی میں  رحمت

بڑھی کس تزک سے دعائے محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

اجابت نے جھک کر گلے سے لگایا

بڑھی ناز سے جب دعائے محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

اجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا

دلہن بن کے نکلی دُعائے محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

33:70
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو (ف۱۶۹)

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو۔} اس آیت اورا س کے بعد والی آیت میں  ایمان والوں  کو تقویٰ اختیار کرنے، سچی اور حق بات کہنے کاحکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کی رعایت کرنے میں  اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور سچی، درست، حق اور انصاف کی بات کہا کرو اور اپنی زبان اور اپنے کلام کی حفاظت رکھو،یہ سب بھلائیوں  کی اصل ہے۔اگرایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر کرم فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنواردے گا،تمہیں  نیکیوں  کی توفیق دے گا اور تمہاری طاعتیں  قبول فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جوشخص احکامات پر عمل کرنے اور ممنوعات سے بچنے میں  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری کرے اس نے دنیا و آخرت میں  بڑی کامیابی پائی۔( مدارک،الاحزاب،تحت الآیۃ:۷۰-۷۱،ص۹۵۲، روح البیان،الاحزاب،تحت الآیۃ:۷۰-۷۱، ۷ / ۲۴۷-۲۴۸، ملتقطاً)

زبان کی حفاظت کی اہمیت:

            اس سے معلوم ہواکہ زبان ٹھیک رکھنا، جھوٹ غیبت، چغلی، گالی گلوچ سے اسے بچانا بڑا اہم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے بعد زبان سنبھالنے کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے ورنہ یہ بھی تقویٰ میں  آچکا تھا۔یاد رہے کہ زبان کی حفاظت تمام بھلائیوں  کی اصل ہے، اسی لئے دیگر کاموں  کے لئے دو عضو ہیں  اور بولنے کے لئے ایک زبان اوروہ بھی ہونٹوں  کے پھاٹک میں  بند اور 32 دانتوں  کے پہرے میں  قید ہے تاکہ یہ بات پیش ِنظر رہے کہ زبان کو بے قید نہ رکھا جائے۔ زبان کے بارے میں  حضرت ابو سعیدخدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:جب انسان صبح کرتاہے توتمام اَعضاء صبح کے وقت زبان سے کہتے ہیں  :ہمارے بارے میں  اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، اگر تو ٹھیک رہی توہم بھی سیدھے رہیں  گے اوراگرتوٹیڑھی ہوگئی توہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں  گے۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۳، الحدیث: ۲۴۱۵)

            اور امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :وہی شخص زبان کے شرسے نجات پاتاہے جواسے شریعت کی لگام کے ذریعے قابوکرتاہے اوراسے اسی بات کے لیے استعمال کرتاہے جواسے دنیااورآخرت میں  نفع دے۔ انسان کے اعضا میں  سے زبان سب سے زیادہ نافرمان ہے کیونکہ اسے حرکت دینے اوربولنے میں  کچھ بھی تکلیف نہیں  ہوتی۔ اس کی آفات اورگمراہیوں  سے بچنے میں  لوگ سستی کرتے ہیں ، اسی طرح اس کے جالوں  اور رسیوں  سے بھی نہیں  بچتے حالانکہ انسان کوگمراہ کرنے میں  زبان شیطان کاسب سے بڑاہتھیارہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، ۳ / ۱۳۳)

            اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنی زبان کی حفاظت کی اہمیت کو سمجھنے اور ا س کی حفاظت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

33:71
یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱)
تمہارے اعمال تمہارے لیے سنواردے گا (ف۱۷۰) اور تمہارے گناہ بخش دے گا، اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی،

33:72
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُؕ-اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ(۷۲)
بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی (ف۱۷۱) آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے (ف۱۷۲) اور آدمی نے اٹھالی، بیشک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے،

{اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ: بیشک ہم نے آسمانوں  اور زمین اور پہاڑوں  پر امانت پیش فرمائی۔} اس آیت میں  امانت سے کیا مراد ہے،اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ،ان میں  سے 5قول درج ذیل ہیں ۔

(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  : امانت سے مراد طاعت و فرائض ہیں  جنہیں  اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  پر پیش کیا، انہیں  کو آسمانوں ، زمینوں  اورپہاڑوں  پر پیش کیا تھا کہ اگر وہ انہیں  ادا کریں  گے تو ثواب دیئے جائیں  گے اورنہ ادا کریں  گے تو عذاب کئے جائیں  گے۔

(2)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: امانت سے مراد نمازیں  ادا کرنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا، خانہ کعبہ کا حج کرنا، سچ بولنا، ناپ تول میں  اور لوگوں  کی امانتوں  میں  عدل کرنا ہے۔

(3)… بعض مفسرین نے کہا ہے کہ امانت سے مراد وہ تمام چیزیں  ہیں  جن کا حکم دیا گیا اور جن کی ممانعت کی گئی۔

(4)… حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے فرمایا: تمام اَعضاء کان، ہاتھ اورپاؤں  وغیرہ سب امانت ہیں ، اس کا ایمان ہی کیا جو امانت دار نہ ہو۔

(5)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا ایک قول یہ بھی ہے کہ امانت سے مراد لوگوں  کی امانتوں  اور عہدوں  کو پورا کرنا ہے، تو ہر مومن پر فرض ہے کہ نہ کسی مومن کی خیانت کرے نہ ا س کافر کی جس کا مسلمانوں  سے معاہدہ ہے اور یہ خیانت نہ قلیل امانت میں  ہو نہ کثیر میں ۔

            ان پانچوں  اقوال میں  پہلے چار اقوال تو تقریباً ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں  یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ واختیار کی قوت سے نواز کر جو احکام کا پابند بنایا ہے وہ مراد ہے اور پانچویں  قول میں  اسی مفہوم کی ایک خاص صورت کا بیان ہے۔

             اللہ تعالیٰ نے یہ امانت آسمانوں ،زمین اور پہاڑوں  پر پیش فرمائی، پھر ان سے فرمایا: ’’ کیا تم اس اَمان کواس کی ذمہ داری کے ساتھ اٹھاؤ گے ؟ انہوں  نے عرض کی: ذمہ داری کیا ہے ؟ارشاد فرمایا’’ذمہ داری یہ ہے کہ اگر تم انہیں  اچھی طرح ادا کرو تو تمہیں  جزا دی جائے گی اور اگر نافرمانی کرو تو تمہیں  عذاب کیا جائے گا۔ انہوں  نے عرض کی: اے ہمارے رب! ہم ا س امانت کو نہیں  اٹھا سکتے، ہمیں  نہ ثواب چاہئے نہ عذاب،ہم بس تیرے حکم کے اطاعت گزار ہیں ۔ ان کا یہ عرض کرنا خوف اور خَشْیَت کے طور پرتھا اور امانت اختیار کے طور پر پیش کی گئی تھی یعنی انہیں  اختیار دیا گیا تھا کہ اپنے میں  قوت اور ہمت پائیں  تو اٹھائیں  ورنہ معذرت کر دیں ، اس امانت کو اٹھانا لازم نہیں  کیا گیا تھا اور اگر لازم کیا جاتا تو وہ انکار نہ کرتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وہ امانت حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے پیش کی اور ارشادفرمایا کہ میں  نے آسمانوں  اور زمینوں  اور پہاڑوں  پر یہ امانت پیش کی تھی مگر وہ اسے نہ اٹھا سکے :کیا تم اس کی ذمہ داری کے ساتھ اسے اٹھا سکو گے ؟ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اقرار کیا اور اس امانت کو اٹھالیا۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۵۱۴)

33:73
لِّیُعَذِّبَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ وَ الْمُشْرِكٰتِ وَ یَتُوْبَ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠(۷۳)
تاکہ اللہ عذاب منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو (ف۱۷۳) اور اللہ توبہ قبول فرمائے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کی، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

{لِیُعَذِّبَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ وَ الْمُشْرِكٰتِ: تاکہ اللہ منافق مردوں  اور منافق عورتوں  اور مشرک مردوں  اور مشرک عورتوں  کو عذاب دے۔} گزشتہ آیت ِمبارکہ میں بیان کیاگیاکہ انسان نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے دی گئی امانت کواٹھالیااوراس کی ذمہ داری قبول کرلی، اب اس آیت مبارکہ میں  امانت پیش کرنے کی حکمت بیان کی جارہی ہے کہ ہم نے یہ امانت انسان پراس لیے پیش کی تاکہ منافقین کا نفاق اور مشرکین کا شرک ظاہر ہو اور اللہ تعالیٰ انہیں  عذاب فرمائے اور وہ مومنین جو امانت کے ادا کرنے والے ہیں  اُن کے ایمان کا اظہار ہو اور اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے اور ان پر رحمت و مغفرت کرے اگرچہ ان سے بعض طاعات میں  کچھ تقصیر بھی ہوئی ہو۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۵۱۵)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْاَحْزَاب
اَلْاَحْزَاب
  00:00



Download

اَلْاَحْزَاب
اَلْاَحْزَاب
  00:00



Download