READ

Surah ad-Dukhan

اَلدُّخَان
59 Ayaat    مکیۃ


44:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

44:1
حٰمٓۚۛ(۱)
حٰمٓ

{حٰمٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں  سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ: اس روشن کتاب کی قسم۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس قرآنِ پاک کی قسم !جو حلال اورحرام وغیرہ ان احکام کوبیان فرمانے والاہے جن کی لوگوں  کو حاجت اور ضرورت ہے،بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں  اتاراکیونکہ ہماری شان یہ ہے کہ ہم اپنے عذاب کاڈر سنانے والے ہیں ۔

برکت والی رات:

            اکثر مفسرین کے نزدیک برکت والی رات سے شبِ قدر مراد ہے اور بعض مفسرین اس سے شبِ براء ت مراد لیتے ہیں  ۔ا س رات میں  مکمل قرآنِ پاک لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف اتارا گیا، پھر وہاں  سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام 23 سال کے عرصہ میں  تھوڑا تھوڑا لے کر نازل ہوئے اور اسے برکت والی رات اس لئے فرمایا گیا کہ اس میں  قرآنِ پاک نازل ہوا اور ہمیشہ اس رات میں  خیر و برکت نازل ہوتی ہے اور دعائیں (خصوصیت کے ساتھ) قبول کی جاتی ہیں ۔ جن کثیر علماء کے نزدیک یہاں  آیت میں  برکت والی رات سے شبِ قدر مراد ہے، ان کی دلیل یہ آیاتِ مبارکہ ہیں  ،

(1) …اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ‘‘(قدر:۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ہم نے اس قرآن کو شبِ قدرمیں  نازل کیا۔

            اس آیت میں  ارشاد فرمایاگیاکہ اللہ تعالیٰ نے شبِ قدر میں  قرآنِ مجید کو نازل فرمایا اور یہاں  ارشاد فرمایا گیا کہ’’اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ‘‘ یعنی بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں  اتارا۔اسی لئے ضروری ہے کہ شبِ قدر اور مبارک رات سے ایک ہی رات مراد ہو تاکہ قرآنِ مجید کی آیات میں  تضاد لازم نہ آئے ۔

(2) …اور ارشاد فرمایا:

’’شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ‘‘(بقرہ:۱۸۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: رمضان کا مہینہ ہے جس میں  قرآن نازل کیا گیا۔

            اس آیت میں  فرمایا گیاکہ قرآنِ مجید کو رمضان کے مہینے میں  نازل کیا گیا اور یہاں  یوں  ارشاد فرمایا کہ ’’اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ‘‘یعنی بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں  اتارا۔تو ضروری ہو اکہ یہ رات بھی رمضان کے مہینے میں  واقع ہو اور جس شخص نے بھی یہ کہا ہے کہ مبارک رات رمضان کے مہینے میں  واقع ہے ا س نے یہی کہا کہ مبارک رات شبِ قدر ہے۔( تفسیرکبیر، الدخان، تحت الآیۃ: ۳، ۹ / ۶۵۲، خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۱۱۲، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۱۰۹، ابوسعود، الدخان، تحت الآیۃ: ۴، ۵ / ۵۵۴، ملتقطاً)

 شب ِبراء ت کے فضائل:

            جیساکہ اوپر ذکر ہوا کہ برکت والی رات کے بارے میں  ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد شبِ براء ت ہے، اس مناسبت سے یہاں  شبِ براء ت کے دو فضائل ملاحظہ ہوں

(1)…اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ چار راتوں  میں  بھلائیوں  کے دروازے کھول دیتا ہے:(1)بقر عید کی رات (2)عیدالفطر کی رات (3)شعبان کی پندرہویں  رات کہ اس رات میں  مرنے والوں  کے نام اور لوگوں  کا رزق اور (اِس سال)حج کرنے والوں  کے نام لکھے جاتے ہیں  (4)عرفہ کی رات اذانِ (فجر)تک۔ ‘‘(در منثور، الدخان، تحت الآیۃ: ، ۷ / ۴۰۲)

(2)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے پاس جبریل آئے اور کہا یہ شعبان کی پندرہویں  رات ہے اس میں  اللہ تعالیٰ جہنم سے اتنے لوگوں  کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں  کے بال ہیں  مگرکافراور عداوت والے اور رشتہ کاٹنے والے اور(تکبر کی وجہ سے)کپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب کے عادی کی طرف نظر ِرحمت نہیں  فرماتا۔(شعب الایمان ، الباب الثالث و العشرون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان ، ۳ / ۳۸۳ ، الحدیث: ۳۸۳۷)

 

44:2
وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِۙۛ(۲)
قسم اس روشن کتاب کی (ف۲)

44:3
اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ(۳)
بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا (ف۳) بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں (ف۴)

44:4
فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ(۴)
اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام (ف۵)

{فِیْهَا یُفْرَقُ: اس رات میں بانٹ دیا جاتا ہے۔}اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس برکت والی رات میں  سال بھر میں  ہونے والاہر حکمت والا کام جیسے رزق،زندگی،موت اور دیگر احکام ان فرشتوں  کے درمیان بانٹ دئیے جاتے ہیں  جو انہیں سرا نجام دیتے ہیں  اور یہ تقسیم ہمارے حکم سے ہوتی ہے۔ بیشک ہم ہی سَیِّدُ المرسلین ،محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجنے والے ہیں ۔( جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۴-۵، ص۴۱۰، روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۴-۵، ۸ / ۴۰۴، ملتقطاً)

یاد رہے کہ کئی احادیث میں  بیان ہوا ہے کہ15شعبان کی رات لوگوں  کے اُمور کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  فرماتی ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’ کیا تم جانتی ہو اس رات یعنی پندرہویں  شعبان میں  کیا ہے؟میں  نے عرض کی : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس میں  کیا ہے؟ارشاد فرمایا’’ اس رات میں  اس سال پیدا ہونے والے تمام بچے لکھ دیئے جاتے ہیں  اور اس سال مرنے والے سارے انسان لکھ دیئے جاتے ہیں  اور اس رات میں  ان کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں  اور ان کے رزق اتارے جاتے ہیں۔‘‘( مشکوۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب قیام شہر رمضان ، الفصل الثالث، ۱ / ۲۵۴، الحدیث: ۱۳۰۵)

ان احادیث اور ا س آیت میں مطابقت یہ ہے کہ فیصلہ 15شعبان کی رات ہوتا ہے اور شبِ قدر میں  وہ فیصلہ ان فرشتوں  کے حوالے کر دیا جاتا ہے جنہوں  نے اس فیصلے کے مطابق عمل کرناہوتا ہے جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں’’لوگوں  کے اُمور کا فیصلہ نصف شعبان کی رات کر دیا جاتا ہے اور شبِ قدر میں  یہ فیصلہ ان فرشتوں  کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو ان اُمور کو سرانجام دیں  گے ۔‘‘(بغوی، الدخان، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۱۳۳)

44:5
اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَاؕ-اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَۚ(۵)
ہمارے پاس کے حکم سے، بیشک ہم بھیجنے والے ہیں (ف۶)

44:6
رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُۙ(۶)
تمہارے رب کی طرف سے رحمت، بیشک وہی سنتا جانتا ہے،

{رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ: تمہارے رب کی طرف سے رحمت۔ } اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کا اترنا اوررسولوں  کی تشریف آوری تمہارے اس رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے بندوں  پر رحمت ہے جو آسمانوں  اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے، بیشک وہی ان کی باتوں  کوسننے والا اور ان کے کاموں  اور احوال کو جاننے والا ہے۔اے کفارِ مکہ !اگر تمہیں  اس بات کا یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی آسمان وز مین کا رب ہے تو اس بات پر بھی یقین کرلو کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔(مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۶-۷، ص۱۱۱۰، جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۶-۷، ص۴۱۱، ملتقطاً)

44:7
رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَاۘ-اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ(۷)
وہ جو رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، اگر تمہیں یقین ہو (ف۷)

44:8
لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُؕ-رَبُّكُمْ وَ رَبُّ اٰبَآىٕكُمُ الْاَوَّلِیْنَ(۸)
اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں وہ جِلائے اور مارے، تمہارا رب اور تمہارے اگلے باپ دادا کا رب،

{لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ: اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ } یعنی اے لوگو! زمین و آسمان اور ان کے درمیان موجود تمام چیزوں  کے رب کے علاوہ تمہارا اور کوئی معبود نہیں ،لہٰذا تم اس کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود ہونے کی صلاحیت نہیں  رکھتا۔ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے زندگی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے موت دیتا ہے، وہ تمہارا بھی رب ہے اور تمہارے گزرے ہوئے باپ دادا کا بھی رب ہے،جس کی ایسی شان ہے صرف وہی رب ہونے اور عبادت کئے جانے کے لائق ہے۔( تفسیر طبری، الدخان، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱ / ۲۲۴)

{بَلْ هُمْ: بلکہ وہ کافر۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے جودلائل ذکر کئے گئے ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ کفاراس کی وحدانیت  کو مان لیتے لیکن یہ پھر بھی نہیں  مانتے بلکہ وہ اس کی طرف سے شک میں  پڑے اور دنیا کے کھیل کود میں  مصروف ہیں  اورانہیں  اپنی آخرت کی کوئی فکر ہی نہیں ۔

 

44:9
بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ یَّلْعَبُوْنَ(۹)
بلکہ وہ شک میں پڑے کھیل رہے ہیں (ف۸)

44:10
فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍۙ(۱۰)
تو تم اس دن کے منتظر رہو جب آسمان ایک ظاہر دھواں لائے گا،

{فَارْتَقِبْ: تو تم منتظر رہو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے اسلام کی دعوت ملنے پر کفارِ قریش آپ کو جھٹلاتے ،آپ کی نافرمانی کرتے اور آپ کا مذاق اڑاتے،اس بناپر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے خلاف دعا کی کہ ’’یارب! انہیں  ایسے سات سالہ قحط کی مصیبت میں  مبتلا کر جیسے سات سال کا قحط حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں  بھیجا تھا۔ ‘‘یہ دعا قبول ہوئی اورسرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا گیا’’اے حبیب!  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ ان کافروں  کیلئے اس دن کے منتظر رہو جب آسمان ایک ظاہر دھواں  لائے گا جولوگوں  کو ڈھانپ لے گا ۔‘‘ چنانچہ قریش پر قحط سالی آئی اور یہاں  تک اس کی شدت ہوئی کہ وہ لوگ مردار کھا گئے اور بھوک سے اس حال کو پہنچ گئے کہ جب اوپر کو نظر اٹھاتے اورآسمان کی طرف دیکھتے تو ان کو دھواں  ہی دھواں  معلوم ہوتا ،یعنی ایک توکمزوری کی وجہ سے انہیں  نگاہوں  کے سامنے اندھیرا محسوس ہوتا اور دوسرا قحط سے زمین خشک ہوگئی ،اس سے خاک اڑنے لگی اورغبار نے ہوا کو ایسا گدلا کردیاکہ انہیں  آسمان دھوئیں  کی طرح محسوس ہوتا۔ اس آیت کی تفسیر میں  ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں  دھوئیں  سے مراد وہ دھواں  ہے جو قیامت کی علامات میں  سے ہے اور قیامت کے قریب ظاہر ہوگا ،اس سے مشرق و مغرب بھر جائیں  گے، چالیس دن اور رات رہے گا،اس سے مومن کی حالت تو ایسے ہوجائے گی جیسے زکام ہوجائے جبکہ کافر مدہوش ہوجائیں  گے، ان کے نتھنوں  ، کانوں  اور بدن کے سوراخوں  سے دھواں  نکلے گا۔( خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۴ / ۱۱۳، جمل، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۷ / ۱۱۸-۱۱۹، ملتقطاً)

 

44:11
یَّغْشَى النَّاسَؕ-هٰذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۱)
کہ لوگوں کو ڈھانپ لے گا (ف۹) یہ ہے دردناک عذاب،

44:12
رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ اِنَّا مُؤْمِنُوْنَ(۱۲)
اس دن کہیں گے، اے ہمارے رب! ہم پر سے عذاب کھول دے ہم ایمان لاتے ہیں (ف۱۰)

{رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ: اے ہمارے رب!ہم سے عذاب دور کردے۔} یعنی جس دن وہ دھواں  لوگوں  کو ڈھانپ لے گا اس دن وہ کہیں  گے :یہ ایک دردناک عذاب ہے، اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ ،ہم سے عذاب دور کردے،  ہم ایمان لاتے ہیں  اور تیرے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی اور قرآن پاک کی تصدیق کرتے ہیں  ،چنانچہ اس قحط سالی سے تنگ آکر ابو سفیان حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  حاضر ہوئے اور عرض کی کہ دعا فرمائیں  اگر قحط دورہو گیا تو ہم آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئیں  گے۔( تفسیرکبیر، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۶۵۷، روح المعانی، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۳ / ۱۶۴، ملتقطاً)
44:13
اَنّٰى لَهُمُ الذِّكْرٰى وَ قَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۳)
کہاں سے ہو انہیں نصیحت ماننا (ف۱۱) حالانکہ ان کے پاس صاف بیان فرمانے والا رسول تشریف لاچکا (ف۱۲)

{اَنّٰى لَهُمُ الذِّكْرٰى: ان کیلئے نصیحت ماننا کہاں ہوگا؟} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ان سے عذاب دور کر دیا جائے تو بھی یہ کہاں  ایمان لائیں  گے حالانکہ یہ اس سے بڑی بڑی وہ علامات دیکھ چکے ہیں  جن سے نصیحت حاصل کر کے ایمان قبول کر سکتے تھے اور وہ علامات یہ ہیں  کہ ان کے پاس ایک عظیم الشّان رسول تشریف لایا اوراس نے ان کے سامنے روشن آیات اور ایسے مضبوط معجزات کے ذریعے حق کے راستوں  کو واضح کیا کہ انہیں  دیکھ کر پہاڑ بھی اپنی جگہ سے سَرک جائیں  لیکن میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے پیش کی گئی روشن آیات اور مضبوط معجزات دیکھ کر بھی یہ لوگ ان سے منہ پھیر گئے او ر صرف منہ پھیرنے کو ہی کافی نہیں  سمجھا بلکہ ان کے متعلق یہ اِفتِراء بھی کرنے لگے کہ یہ تو کسی آدمی کی طرف سے سکھایا ہوا ہے اور دیوانہ ہے جسے وحی کی غشی طاری ہونے کے وقت جنات یہ کلمات تلقین کرجاتے ہیں ۔ (ابوسعود،الدخان،تحت الآیۃ:۱۳-۱۴، ۵ / ۵۵۶، تفسیرکبیر، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۹ / ۶۵۷-۶۵۸، ملتقطاً)

قرآنِ پاک کی حقانیت دیکھ کر کفار کا حال:

            قرآنِ مجیدکی حقانیت دیکھ کر کفار بہت زیادہ بوکھلا گئے تھے ،اسی وجہ سے وہ قرآنِ کریم سے لوگوں  کو بہکانے کیلئے کبھی کچھ کہتے اور کبھی کچھ ،جیسے کبھی وہ یہ دعویٰ کرتے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کسی آدمی نے سکھایا ہے ،جیسا کہ سورۂ نحل میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک ہم جانتے ہیں  کہ وہ کافر کہتے ہیں :اس نبی کو ایک آدمی سکھاتا ہے۔

            پھر ان کفار کا رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:

’’لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْهِ اَعْجَمِیٌّ وَّ هٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ‘‘(نحل:۱۰۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: جس آدمی کی طرف یہ منسوب کرتے ہیں  اس کی زبان عجمی ہے اور یہ قرآن روشن عربی زبان میں ہے۔

            کبھی یہ کہتے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے اپنی طرف سے بنا لیا ہے ، جیسا کہ سورۂ فرقان میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكُ ﰳافْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَیْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کافروں  نے کہا: یہ قرآن تو صرف ایک بڑا جھوٹ ہے جو انہوں  نے خود بنالیا ہے اور اس پردوسرے لوگوں  نے (بھی) ان کی مدد کی ہے۔

            اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ

’’فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًا‘‘(فرقان:۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: توبیشک وہ (کافر) ظلم اور جھوٹ پرآگئے ہیں ۔

            اور کبھی یہ دعویٰ کرتے کہ قرآن پہلے لوگوں  کی کہانیوں  پر مشتمل ایک کتاب ہے۔جیسا کہ سورۂ فرقان ہی میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِیَ تُمْلٰى عَلَیْهِ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا‘‘(فرقان:۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اورکافروں  نے کہا: (یہ قرآن)پہلےلوگوں  کی کہانیاں  ہیں  جو اس(نبی) نے کسی سے لکھوا لی ہیں  تویہی ان پر صبح و شام پڑھی جاتی ہیں ۔

 

44:14
ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌۘ(۱۴)
اس سے روگرداں ہوئے اور بولے سکھایا ہوا دیوانہ ہے (ف۱۳)

44:15
اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا اِنَّكُمْ عَآىٕدُوْنَۘ(۱۵)
ہم کچھ دنوں کو عذاب کھولے دیتے ہیں تم پھر وہی کرو گے (ف۱۴)

{اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا: ہم کچھ دنوں  کیلئے عذاب دور کرنے والے ہیں  ۔} اس آیت میں  کفارِ مکہ سے فرمایا جا رہا ہے کہ جیسے ہی ہم تم سے کچھ دنوں  کے لئے عذاب دور کردیں  گے تم پھر اسی شرک کی طرف لوٹ جاؤ گے جس پر اس سے پہلے قائم تھے ۔اس سے مقصود یہ تنبیہ کرنا ہے کہ وہ لوگ اپنے عہد کو پورا نہیں  کریں  گے کیونکہ ان کا حال یہ ہے کہ جب کسی مصیبت کی وجہ سے عاجز ہو جاتے ہیں  تو اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں  گڑگڑاتے ہیں  اور جب ان کا خوف اور مصیبت دور ہو جاتی ہے تو اپنے کفر اور آباء واَجداد کی اندھی پیروی کی طرف پلٹ جاتے ہیں ۔( تفسیرکبیر، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۵، ۹ / ۶۵۸، ملخصاً)

چنانچہ حضور پر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے صدقے ان کی مصیبت دور ہو جانے کے بعد ایسا ہی ہو اکہ وہ لوگ ایمان نہ لائے اور اپنے شرک و کفر پر ہی قائم رہے۔

44:16
یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرٰىۚ-اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ(۱۶)
جس دن ہم سب سے بڑی پکڑ پکڑیں گے (ف۱۵) بیشک ہم بدلہ لینے والے ہیں،

{یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرٰى: اس دن کو یاد کروجب ہم سب سے بڑی پکڑ پکڑیں  گے۔} یعنی اے مشرکو!اگر میں  تم پر نازل ہونے والا وہ عذاب دور کر دوں  جس نے تمہیں  بے حال کر دیا ہے،اس کے بعد پھر تم کفر کی طرف لوٹ جاؤ اور اپنے رب سے کیا ہوا عہد توڑ دو تو میں  تم سے اس دن بدلہ لوں  گا جب تمہیں  بڑی پکڑ کے ساتھ پکڑوں  گا۔ اس دن سے مراد قیامت کا دن ہے یا غزوۂ بدر کا دن مراد ہے۔( تفسیرطبری، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۶، ۱۱ / ۲۳۰، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۱۱۱، ملتقطاً)
44:17
وَ لَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ كَرِیْمٌۙ(۱۷)
اور بیشک ہم نے ان سے پہلے فرعون کی قوم کو جانچا اور ان کے پاس ایک معزز رسول تشریف لایا (ف۱۶)

{وَ لَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ: اور بیشک ہم نے ان سے پہلے فرعون کی قوم کو جانچا ۔} اس سے پہلی آیات میں  اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ کفارِ مکہ اپنے کفر پر ہی قائم ہیں  اور اس آیت سے بیان فرمایا کہ ان سے پہلے جو کفار گزرے ہیں  ان کا طریقہ بھی یہی رہا تھا ۔چنانچہ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،ہم نے مشرکینِ مکہ سے پہلے فرعون کی قوم کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ذریعے آزمائش میں  مبتلا کیا تاکہ وہ ایمان لے آئیں  اور ان کا چھپا ہوا حال ظاہر ہو جائے لیکن انہوں  نے ایمان کے مقابلے میں  کفر کو ہی اختیار کیا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے مشرکینِ مکہ سے پہلے فرعون کی قوم کو مہلت دے کر اور ان پر رزق وسیع کر کے انہیں  آزمائش میں  مبتلا کیا تاکہ ان کا چھپا ہوا حال ظاہر ہوجائے اور ان کے پاس ایک معزز رسول حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے۔( تفسیرکبیر، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۷، ۹ / ۶۵۹، روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۷، ۸ / ۴۰۹، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۱۱۱، ملتقطاً)

44:18
اَنْ اَدُّوْۤا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰهِؕ-اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۸)
کہ اللہ کے بندوں کو مجھے سپرد کردو (ف۱۷) بیشک میں تمہارے لیے امانت والا رسول ہوں،

{اَنْ اَدُّوْۤا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰهِ: کہ اللہ کے بندوں  کو میرے حوالے کردو۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون کے پاس آئے تو اس سے فرمایا: بنی اسرائیل کو میرے حوالے کردو اور تم جو شدتیں  اور سختیاں  ان پر کرتے ہو اس سے انہیں  رہائی دو ،بیشک میں  تمہارے لیے وحی پر امانت والا، رسول ہوں ۔

          نوٹ:حضرت موسیٰ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ واقعہ سورۂ طہٰ کی آیت نمبر47میں  تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
44:19
وَّ اَنْ لَّا تَعْلُوْا عَلَى اللّٰهِۚ-اِنِّیْۤ اٰتِیْكُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍۚ(۱۹)
اور اللہ کے مقابل سرکشی نہ کرو، میں تمہارے پاس ایک روشن سند لاتا ہوں (ف۱۸)

{وَ اَنْ لَّا تَعْلُوْا عَلَى اللّٰهِ: اور یہ کہ اللہ کے مقابلے میں  سرکشی نہ کرو۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون سے فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کی وحی،اس کے رسول اور اس کے بندوں  کی توہین کر کے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سرکشی نہ کرو، بیشک میں  تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزات کی صورت میں  اپنی نبوت اور رسالت کی سچائی کی روشن دلیل لاتا ہوں  جس کا انکار کرنے کی کوئی صورت نہیں ۔( روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۹، ۸ / ۴۱۰، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۱۱۱۱، ملتقطاً)
44:20
وَ اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنِ٘(۲۰)
اور میں پناہ لیتا ہوں اپنے رب اور تمہارے رب کی اس سے کہ تم مجھے سنگسار کرو (ف۱۹)

{وَ اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ: اور میں  نے اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ فرمایا تو فرعونیوں  نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کی دھمکی دی اور کہا کہ ہم تمہیں  سنگسار کردیں  گے۔اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ میرا تو کل اور اعتماد اس پر ہے جو میرا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے، مجھے تمہاری دھمکی کی کچھ پروا نہیں  ،اللہ تعالیٰ مجھے بچانے والا ہے اور اگر تم میری تصدیق نہیں  کرتے تو مجھ سے الگ ہوجاؤ اور مجھے ایذا پہنچانے کی کوشش نہ کرو ۔( مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۰-۲۱، ص۱۱۱۱، جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۰-۲۱، ص۴۱۱، ملتقطاً)
44:21
وَ اِنْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا لِیْ فَاعْتَزِلُوْنِ(۲۱)
اور اگر میرا یقین نہ لاؤ تو مجھ سے کنارے ہوجاؤ (ف۲۰)

44:22
فَدَعَا رَبَّهٗۤ اَنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ مُّجْرِمُوْنَ(۲۲)
تو اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ مجرم لوگ ہیں،

{فَدَعَا رَبَّهٗ: تو اس نے اپنے رب سے دعا کی۔} فرعون اور اس کی قوم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اس بات کو بھی نہ مانا اور انہیں  جھٹلایاتو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یہ قبطی مشرک لوگ ہیں  اور اپنے کفر پر قائم ہیں  اور تو ان کا حال بہتر جانتا ہے، اس لئے جس چیز کے وہ مستحق ہیں  تو ان کے ساتھ وہ فرما۔( جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۴۱۱، روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۲، ۸ / ۴۱۱، ملتقطاً)

{فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلًا: تو میرے بندوں کو راتوں  رات لے کر نکل جاؤ۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں  حکم فرمایا کہ جب دشمن غافل ہو تو بنی اسرائیل کو راتوں  رات لے کر مصر سے نکل جاؤ، جب فرعون کو تمہارے نکل جانے کی خبر ملے گی تو وہ اپنے لشکروں  کے ساتھ تمہارا پیچھا کرے گا تاکہ تمہیں  قتل کر دے، چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روانہ ہوئے اور دریا پر پہنچ کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عصا مارا تو دریا میں  بارہ خشک راستے پیدا ہوگئے اور آپ بنی اسرائیل کے ساتھ دریا میں  سے گزر گئے۔( روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۳، ۸ / ۴۱۱)

44:23
فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلًا اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَۙ(۲۳)
ہم نے حکم فرمایا کہ میرے بندوں (ف۲۱) کو راتوں رات لے نکل ضرور تمہارا پیچھا کیا جائے گا (ف۲۲)

44:24
وَ اتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًاؕ-اِنَّهُمْ جُنْدٌ مُّغْرَقُوْنَ(۲۴)
اور دریا کو یونہی جگہ جگہ سے چھوڑ دے (ف۲۳) بیشک وہ لشکر ڈبو دیا جائے گا (ف۲۴)

{وَ اتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا: اور دریا کو جگہ جگہ سے کھلا ہواچھوڑ دو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے  پیچھے فرعون اور اس کا لشکر آرہا تھا،اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چاہا کہ پھرعصا مار کر دریا کو ملادیں  تاکہ فرعون اس میں  سے گزر نہ سکے تو آپ کو حکم ہوا: دریا کو جگہ جگہ سے گزرنے کیلئے کھلا ہواچھوڑ دو تاکہ فرعونی ان راستوں  سے دریا میں  داخل ہوجائیں ، بیشک وہ لشکر غرق کر دیا جائے گا۔یہ حکم سن کرحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اطمینان ہوگیا اور جب فرعون اور اس کے لشکر دریامیں  داخل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے دریا کے پانی کو ملا دیا جس سے وہ سب غرق ہوگئے اور وہ کتنے باغ ، چشمے، کھیت،آراستہ و پیراستہ عمدہ مکانات، اور وہ نعمتیں  جن میں  وہ عیش کرنے والے تھے، چھوڑ گئے الغرض ان کا تمام مال و متاع اور سامان یہیں  رہ گیا۔(مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۴-۲۷، ص۱۱۱۲، جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۴-۲۷، ص۴۱۱، روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۴-۲۷، ۸ / ۴۱۱-۴۱۲، ملتقطاً)

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرعونیوں  کی موت کے وقت ، جگہ اور کیفیت سے مُطّلع فرما دیا تھا اور یہ سب چیزیں  ان پانچ علوم میں  سے ہیں  جن کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے،معلوم ہوا کہ اللہ  تعالیٰ اپنے مقبول بندوں  کو علومِ خمسہ سے بھی نوازتا ہے۔

44:25
كَمْ تَرَكُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ(۲۵)
کتنے چھوڑ گئے باغ اور چشمے،

44:26
وَّ زُرُوْعٍ وَّ مَقَامٍ كَرِیْمٍۙ(۲۶)
او رکھیت اور عمدہ مکانات (ف۲۵)

44:27
وَّ نَعْمَةٍ كَانُوْا فِیْهَا فٰكِهِیْنَۙ(۲۷)
اور نعمتیں جن میں فارغ البال تھے (ف۲۶)

44:28
كَذٰلِكَ- وَ اَوْرَثْنٰهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ(۲۸)
ہم نے یونہی کیا اور ان کا وارث دوسری قوم کو کردیا (ف۲۷)

{كَذٰلِكَ: ہم نے یونہی کیا۔} یعنی ہم نے فرعون اور ا س کی قوم کے ساتھ اسی طرح کیا کہ ان کا تمام مال و متاع سلب کر لیا اور ان چیزوں  کا دوسری قوم یعنی بنی اسرائیل کو وارث بنا دیا جو ان کے ہم مذہب تھے نہ رشتہ دار اور نہ دوست تھے۔( روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۸، ۸ / ۴۱۲، ملخصاً)

آیت ’’ كَذٰلِكَ- وَ اَوْرَثْنٰهَا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں ،

(1)… کفارکی بستیوں  اور ان کے مکانات میں  رہنا منع نہیں ، ہاں  جہاں  عذابِ الٰہی آیا ہو وہاں  رہنا منع ہے اور چونکہ فرعون کی قوم پر مصر میں  عذاب نہ آیا بلکہ انہیں  وہاں  سے نکال کر دریا میں  غرق کیا گیا لہٰذا مصر میں  رہنا درست ہوا ۔

(2)… فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کے بعد مصر میں  خود بنی اسرائیل آباد ہوئے تھے۔اس کی تائید قرآنِ پاک کی ان آیات سے بھی ہوتی ہے،چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا:

’’ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ یَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ‘‘(اعراف:۱۲۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں  زمین میں  جانشین بنا دے گاپھروہ دیکھے گا کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔

             اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَاؕ-وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ بِمَا صَبَرُوْاؕ-وَ دَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَ قَوْمُهٗ وَ مَا كَانُوْا یَعْرِشُوْنَ‘‘(اعراف:۱۳۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے اس قوم کو جسے دبایا گیا تھا اُس زمین کے مشرقوں  اور مغربوں  کا مالک بنادیا جس میں  ہم  نے برکت رکھی تھی اور بنی اسرائیل پر ان کے صبر کے بدلے میں تیرے رب کا اچھا وعدہ پورا ہوگیااور ہم نے وہ سب تعمیرات برباد کردیں  جو فرعون اور اس کی قوم بناتی تھی اور وہ  عمارتیں جنہیں وہ بلند کرتے تھے۔

 

44:29
فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ۠(۲۹)
تو ان پر آسمان اور زمین نہ روئے (ف۲۸) اور انہیں مہلت نہ دی گئی (ف۲۹)

{فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ: تو ان پر آسمان اور زمین نہ روئے۔ } ارشاد فرمایا کہ فرعون اور ا س کی قوم پر آسمان اور زمین نہ روئے کیونکہ وہ ایماندار نہ تھے اور انہیں  عذاب میں  گرفتار کرنے کے بعدتوبہ وغیرہ کے لئے مہلت نہ دی گئی۔( مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۱۲، خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۱۱۴، ملتقطاً)

مومن کی موت پر آسمان و زمین روتے ہیں :

          یاد رہے کہ جب کسی مومن کا انتقال ہوتا ہے تو اس پر آسمان و زمین روتے ہیں  جیسا کہ حضرت انس بن مالک  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ہر مومن کے لئے دو دروازے ہیں  ،ایک سے اعمال اوپر کی طرف چڑھتے ہیں  اور دوسرے سے اس کا رزق اترتا ہے۔جب وہ مرتا ہے تو دونوں  ا س پر روتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ کے ا س فرمان’’فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ‘‘میں  یہی مذکور ہے۔‘‘ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الدخان، ۵ / ۱۷۱، الحدیث: ۳۲۶۶)

            اورامام مجاہد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے کہا گیا کہ کیا مومن کی موت پر آسمان و زمین روتے ہیں ؟ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا :زمین اس بندے پر کیوں  نہ روئے جو زمین کو اپنے رکوع و سجود سے آباد رکھتا تھا اور آسمان اس بندے پر کیوں  نہ روئے جس کی تسبیح و تکبیر آسمان میں  پہنچتی تھی۔ (خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۱۱۴)

            بعض مفسرین کے نزدیک زمین و آسمان خود نہیں  روتے بلکہ یہاں ان کے رونے سے مراد آسمان اور زمین والوں  کا رونا ہے جیسا کہ حضرت حسن رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ(زمین و آسمان کے رونے سے مراد یہ ہے کہ ) آسمان والے اور زمین والے روتے ہیں ۔( مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۱۲)

 

44:30
وَ لَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِیْنِۙ(۳۰)
اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات بخشی (ف۳۰)

{وَ لَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ: اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو نجات بخشی۔} اس سے پہلی آیات میں  فرعون کی ہلاکت کی کیفیت بیان کی گئی اور ان آیات میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم پر کئے گئے احسانات کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک ہم نے بنی اسرائیل کو اس رُسو اکُن عذاب سے نجات بخشی جو انہیں  فرعون کی طرف سے غلامی ،مشقّت سے بھرپور خدمتوں ، محنتوں  اور اولاد کے قتل کئے جانے کی صورت میں  پہنچتا تھا۔ بیشک فرعون متکبر اورحد سے بڑھنے والوں  میں سے تھا۔(تفسیرکبیر، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۰-۳۱، ۹ / ۶۶۱، ، روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۰-۳۱، ۸ / ۴۱۴، ملتقطاً)

44:31
مِنْ فِرْعَوْنَؕ-اِنَّهٗ كَانَ عَالِیًا مِّنَ الْمُسْرِفِیْنَ(۳۱)
فرعون سے، بیشک وہ متکبر حد سے بڑھنے والوں سے،

44:32
وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)
اور بیشک ہم نے انہیں (ف۳۱) دانستہ چن لیا اس زمانے والوں سے،

{وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ: اور بیشک ہم نے انہیں  جانتے ہوئے چن لیا۔} ارشاد فرمایا کہ(بنی اسرائیل پر ہم نے ایک احسان یہ کیا کہ) ہم نے اپنے علم کی بنا پر بنی اسرائیل کو اس زمانے میں  تمام جہان والوں  پر چُن لیا۔( مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۱۱۱۲)

            یاد رہے کہ اس آیت سے یہ لازم نہیں  آتا کہ بنی اسرائیل حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت سے بھی افضل ہیں  کیونکہ بنی اسرائیل کا افضل ہونااپنے زمانے کے اعتبار سے ہے۔

{وَ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنَ الْاٰیٰتِ: اورہم نے انہیں  نشانیاں  عطا فرمائیں ۔} ارشاد فرمایا کہ (بنی اسرائیل پر ہم نے ایک احسان یہ کیا کہ) ہم نے انہیں  وہ نشانیاں  عطا فرمائیں  جن میں  واضح انعام تھا جیسے ان کے لئے دریا میں  خشک راستے بنائے، بادل کو سائبان کیا، مَنّ و سَلویٰ اتارا اوراس کے علاوہ اور نعمتیں  دیں ۔( خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴ / ۱۱۵)

44:33
وَ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنَ الْاٰیٰتِ مَا فِیْهِ بَلٰٓؤٌا مُّبِیْنٌ(۳۳)
ہم نے انہیں وہ نشانیاں عطا فرمائیں جن میں صریح انعام تھا (ف۳۲)

44:34
اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَیَقُوْلُوْنَۙ(۳۴)
بیشک یہ (ف۳۳) کہتے ہیں،

{اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَیَقُوْلُوْنَ: بیشک یہ ضرورکہتے ہیں ۔} یہاں  سے دوبارہ کفارِ مکہ کے بارے میں  کلام شروع ہو رہا ہے، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ ضرور کہتے ہیں  کہ اس زندگانی کے بعد ایک موت کے علاوہ ہمارے لئے اور کوئی حال اور زندگی باقی نہیں  ۔اس سے ان کا مقصود موت کے بعد زندہ کئے جانے کا انکار کرنا تھا جس کو اگلے جملے میں  واضح کردیا کہ ہم موت کے بعددوبارہ کبھی زندہ کر کے اٹھائے نہیں جائیں  گے،اگر تم اس بات میں  سچے ہو کہ ہم مرنے کے بعد زندہ کرکے اٹھائے جائیں  گے تو ہمارے باپ دادا کودوباہ زندہ کرکے لے آؤ ۔

            کفارِ مکہ نے یہ سوال کیا تھا کہ اگر موت کے بعد کسی کا زندہ ہونا ممکن ہو تو قُصَیْ بِن کلاب کو زندہ کردو اور یہ ان کی جاہلانہ بات تھی کیونکہ جس کام کے لئے وقت مُعیَّن ہو اس کا اس وقت سے پہلے وجود میں  نہ آنا اس کے ناممکن ہونے کی دلیل نہیں  ہوتا اور نہ اس کا انکار صحیح ہوتا ہے، جیسے اگر کوئی شخص کسی نئے اُگے ہوئے درخت یا پودے کو کہے کہ اس میں  سے اب پھل نکالو ورنہ ہم نہیں  مانیں  گے کہ اس درخت سے پھل نکل سکتا ہے تو اس کو جاہل قرار دیا جائے گا اور اس کا انکار محض حماقت یا جھگڑا ہوگا۔ (تفسیرکبیر،الدخان، تحت الآیۃ:۳۴-۳۶،۹ / ۶۶۲، روح البیان،الدخان، تحت الآیۃ:۳۴-۳۶، ۸ / ۴۱۶-۴۱۷، ملتقطاً)
44:35
اِنْ هِیَ اِلَّا مَوْتَتُنَا الْاُوْلٰى وَ مَا نَحْنُ بِمُنْشَرِیْنَ(۳۵)
وہ تو نہیں مگر ہمارا ایک دفعہ کا مرنا (ف۳۴) اور ہم اٹھائے نہ جائیں گے (ف۳۵)

44:36
فَاْتُوْا بِاٰبَآىٕنَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۶)
تو ہمارے باپ دادا کو لے آؤ اگر تم سچے ہو (ف۳۶)

44:37
اَهُمْ خَیْرٌ اَمْ قَوْمُ تُبَّعٍۙ-وَّ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-اَهْلَكْنٰهُمْ٘-اِنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ(۳۷)
کیا وہ بہتر ہیں (ف۳۷) یا تبع کی قوم (ف۳۸) اور جو ان سے پہلے تھے (ف۳۹) ہم نے انہیں ہلاک کردیا (ف۴۰) بیشک وہ مجرم لوگ تھے (ف۴۱)

{اَهُمْ خَیْرٌ اَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ: کیا وہ بہتر ہیں یا تبع کی قوم۔} اس آیت میں  کفارِ قریش کا رد کیا گیا ہے کہ کیا طاقت و قوت اور شان و شوکت میں  کفارِ مکہ بہتر ہیں یا تُبَّع نامی بادشاہ کی قوم اور ان سے پہلے والے لوگ جیسے عاد اور ثمود وغیرہ جو کہ کافر امتوں  میں  سے تھے؟ ان لوگوں  کا انجام یہ ہوا کہ ہم نے انہیں  ان کے کفر کے باعث ہلاک کردیا، بیشک وہ کافر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے منکر لوگ تھے جس کی وجہ سے عذاب کے حقدار ٹھہرے۔جب یہ کفارِ مکہ سے زیادہ طاقت و قوت رکھنے کے باوجود کفر کی وجہ سے ہلاک ہو گئے تو کفارِ مکہ جو کہ کفر میں  ان کے شریک ہیں  ،انہیں  ہلاک کرنا کونسا دشوار کام ہے، حالانکہ یہ تو ان کے مقابلے میں  انتہائی کمزور ہیں ۔

            یاد رہے کہ اس آیت میں  جس تُبَّع کا ذکر ہے یہ تُبَّع حمِیْری تھے،یہ خود مومن اور یمن کے بادشاہ تھے لیکن ان کی قوم کافر تھی جو کہ انتہائی طاقت و قوت اور شان و شوکت کی مالک تھی اور ان کی تعداد بھی بہت کثیر تھی۔( روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۷، ۸ / ۴۱۸، خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۱۱۵، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۱۱۱۳، ملتقطاً)

             حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد  فرمایا’’ تُبَّع کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ وہ اسلام قبول کر چکے تھے۔‘‘ (معجم الکبیر،سہل بن سعد الساعدی، ابو زرعۃ عمرو بن جابر الحضرمی عن سہل بن سعد،۶ / ۲۰۳،الحدیث:۶۰۳۱)

            اسی تُبَّع نے مدینہ منورہ بسایا، اس تُبَّع نے حضورپرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو غائبانہ خط لکھ کر لوگوں  کو سپرد کیا تھا، کہ جب حضورِاکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  جلوہ گر ہوں  تو میرا یہ خط پیش کر دیا جائے، چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے مکان میں  جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف فرما ہو ئے تو حضرت ابویعلیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے وہ خط پیش کیا۔

 

44:38
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ(۳۸)
اور ہم نے نہ بنائے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل کے طور پر (ف۴۲)

{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ: اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو کھیل کے طور پرنہیں  بنایا۔}  ارشاد فرمایا کہ ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو ایسے ہی کھیل کے طور پر بے مقصدنہیں  بنایا کیونکہ اگر مرنے کے بعد اٹھنا اور حساب و ثواب نہ ہو تو مخلوق کی پیدائش محض فنا کے لئے ہوگی اور یہ عبث و لعب ہے ،تو اس دلیل سے ثابت ہوا کہ اس دنیوی زندگی کے بعد اخروی زندگی ضرور ہے جس میں  اعمال کاحساب ہو گا اور ان کی جزا ملے گی۔( مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۱۱۱۳، بیضاوی، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۸، ۵ / ۱۶۳، ملتقطاً)

44:39
مَا خَلَقْنٰهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۳۹)
ہم نے انہیں نہ بنایا مگر حق کے ساتھ (ف۴۳) لیکن ان میں اکثر جانتے نہیں (ف۴۴)

{مَا خَلَقْنٰهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ: ہم نے انہیں  حق کے ساتھ ہی بنایا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کوحق کے ساتھ ہی بنایا تاکہ لوگوں  کو فرمانبرداری کرنے پر ثواب دیں  اور نافرمانی کرنے پر عذاب  کریں  لیکن کفارِ مکہ میں  سے اکثر لوگ غفلت اور غورو فکر نہ کرنے کے باعث جانتے نہیں  کہ آسمان و زمین پید اکرنے کی حکمت یہ ہے اور حکیم کا کوئی فعل بیکار نہیں  ہوتا۔( خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۱۱۶، روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۹، ۸ / ۴۲۳، ملتقطاً)

44:40
اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَاتُهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۴۰)
بیشک فیصلہ کا دن (ف۴۵) ان سب کی میعاد ہے،

{اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ: بیشک فیصلے کا دن۔}  یعنی قیامت کا دن جس میں  اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اپنے بندوں میں  فیصلہ فرمائے گا، وہ ان سب کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حاضری کیلئے مقرر کیا ہوا وقت ہے اور ا س دن اللہ تعالیٰ اگلوں  پچھلوں  سب کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔( خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۱۱۶، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۱۱۱۳، ملتقطاً)

{یَوْمَ لَا یُغْنِیْ مَوْلًى عَنْ مَّوْلًى شَیْــٴًـا: جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا۔ } اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کا دن ایسا ہے کہ اس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور رشتے داری اور محبت نفع نہ دے گی اور نہ ان کافروں  کی مددکی جائے گی البتہ مومنین اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک دوسرے کی شفاعت کریں  گے ۔بے شک وہی اللہ عَزَّوَجَلَّ عزت والا اور اپنے دشمنوں  سے انتقام لینے میں  غلبے والا ہے اور اپنے دوستوں  یعنی ایمان والوں  پر مہربان ہے ۔( خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ۴ / ۱۱۶، جمل، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ۷ / ۱۳۰، ملتقطاً)

 

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلدُّخَان
اَلدُّخَان
  00:00



Download

اَلدُّخَان
اَلدُّخَان
  00:00



Download